#آج کی رات
Explore tagged Tumblr posts
Text
تیرے بِنا زندگی سے کوئی ، شکوہ تو نہیں
تیرے بنا زندگی بھی لیکن ، زندگی تو نہیں
کاش ایسا ھو
تیرے قدموں سے، چُن کے منزل چلیں
اور کہیں، دور کہیں
تم گَر ساتھ ھو ، منزلوں کی، کمی تو نہیں
جی میں آتا ھے، تیرے دامن میں
سر چھپا کے ھم، روتے رھیں، روتے رھیں
تیری آنکھوں میں، آنسوؤں کی، نمی تو نہیں
تم جو کہہ دو تو
آج کی رات، چاند ڈوبے گا نہیں
رات کو روک لو
رات کی بات ھے، اور زندگی، باقی تو نہیں
سمپورن سنگھ گلزار
9 notes
·
View notes
Text
ٹین کا بندر
سنگلاخ چٹانوں کے بیچ ایک پرانی آبادی میں مٹی پتھر اور لکڑی کے بنے خوبصورت محل نما گھروں میں روزمرّہ کا کام جاری ہے بوڑھے اکتوبر نومبر کے ریشمی جھاڑوں میں کھلے آنگنوں میں بیٹھے دھوپ سیک رہے ہیں سورج آہستہ آہستہ سرکتا ہوا ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ کی جانب محوِ سفر ہے درختوں کے ساے بڑھ رہے ہیں گاوں کا حجام ایک صحن میں چھوٹے بڑوں کی حجمامت میں مصرو�� ہے بچے حجام کے گرد دائرہ بناے بیٹھےاپنی باری کاانتظارکررےہیں جسے ہی کسی بچے کا نمبر آتا ہے کوہی بڑا آ کے بیٹھ جاتا ہے بچے مایوسی اور غصے کے ملے جُلے جذبات کا اظہار سرگوشیوں میں کر رہے ایک بچہ سکول بیگ زمین پہ رکھتے ہوے باقی بچوں کو ذرہ دھیمی آواز میں کہہ رہا ہے ہمارے بڑے بھی نا پکے سامراجی ہیں حجمامت کرواتے چاچےپھنڈو کا غصے سے چہرہ سوا کُٹ [سرخ] ہو جاتا ہے کوبرا سانپ کی طرح پھنکارتے ہوے چاچا پھنڈو اپنی ترنگ میں بولے جا رہا ہے آج کل کے بچوں میں احترام نام کی کوہی چیز ہی نہیں میں ان کے باپ کی عمر کا ہوں مجھے مر چی کہہ دیا ہے یہ اپنے ماں باپ کا کیا احترام کرتے ہوں گے موب لیل کی پیداوار کہیں کے
ساے بڑھتے جا رہے ہیں آبادی میں مٹی کے بنے چولہوں پہ چاے اُبل رہی ہے ماہیں اپنے بچوں کو آوازیں دے رہی ہیں آچھو چا پی ہینو [آو چاے پی لو] چاے کی پیالیوں سے اٹھتی بھاپ فضا میں تحلیل ہو رہی ہے فضاہیں محطر ہیں آبادی میں جادوہی سماں ہے۔
ساے بڑھتے بڑھتے ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پہ پہنچ چکے ہیں پہاڑ کی چوٹی سے ایک مداری بندر کے گلے میں رسی ڈالے آہستہ آہستہ آبادی کی طرف بڑھ رہا ہے ہر کوہی ماتھے پہ ہاتھ رکھے آنکھوں کو سورج کی روشنی سے بچاتے ہوے پہاڑ کی چوٹی سے اترتے مداری اور بندر کی طرف دیکھ رہا ہے سورج تھک کر لال ہو چکا ہے ساے غاہب ہو رہے ہیں مداری آبادی کے ایک صحن میں پہنچ چکاہے بچے سہم کر دیکھ رہے ہیں کہ مداری نے جس کے گلے میں رسی ڈال رکھی ہے یہ چیز کیا ہے کوہی جن بھوت ہے بلا ہے یا کہکو ہے آبادی میں رہنے والے بچے بندر پہلی بار دیکھ رہے تھے چاچا پھنڈو طیش میں آکر پھر بچوں پہ غصہ نکال رہا ہے کہہ دیخنیو بوجا دا یو نہی چک مارنا [ کیا دیکھ رہے ہو بندر ہے یہ نہیں کاٹے گا] حجام ہتھیلی پہ استرا تیز کرتے ہوے بچوں کو سمجھا رہا ہے یہ پڑھا ہوا بوجا ہے مالک کی سنتا ہے مالک اسے جو حکم دیتا ہے وہی کرتا ہے انسان بھی بندر سے انسان بنے ہیں ڈرو نہیں
بچے حجام کی راے کا احترام کرتے ہوے مداری کے پاس جمح ہو گے مداری سب کچھ بھانپ رہا تھا بندر کے گلے میں گھنگوروں جڑا پٹہ اور کمر پہ چمڑے کا بیلٹ تھا مداری نے سر پہ ٹوپی رکھتے ہوے ڈگڈگی بجاہی بندر دونوں ہاتھ اٹھا کر ناچنا شروع کر دیتا ہے چاچے پھنڈو کی جھڑکیوں سے تنگ بچوں کو خوشی کے چند لمحات ملے تو انھوں نے زور زور سے تالیاں بجانا شروع کر دی تالیوں کی آواز سن کر قرب و جوار کے بچے بھی جمح ہو گے ایک ماحول بن گیا
شام گہری ہوتی جا رہی ہے
مداری ڈگڈگی بجا رہا ہے، ڈنڈا ہر وقت بندر کے سر کے اوپر ہے۔ مداری نے اپنے دائیں ہاتھ پر بندر کے گلے میں بندھی رسی کو بل دے کر بندر کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔ اگر کچھ چھوٹ دینا ہوتی ہے تو وہ ہاتھ کو آگے کرتا ورنہ پھر کھینچ کر بندر کو اپنے تابع رکھتا، اُس دوران میں ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا بندر کے سر کے اوپر مسلسل رہتا۔ مداری بائیں ہاتھ سے متواتر ڈگڈگی بجا رہا ہے اور بچوں کو تسلسل کے ساتھ کہانی سنا رہا ہے۔ مداری کو کہانی بیان کرنے کا ہنر ہے۔ اُس نے کامیابی سے کئی تماشے لگائے اور سمیٹے ہیں۔
بندر کو ٹوپی پہنا دی گئی۔ مداری نے زمیں پر ایک چھوٹا ٹین کا ڈبہ رکھا، رسی سے بندھے بندر کو مداری نے بتایا ہے کہ یہ تیری کرسی ہے، چل اب اس پر چل کے بیٹھ
بندر نخرے دکھا رہا ہے، بندر ایسی کرسی پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ مداری نے زبان بدل لی، اُس نے کسی بدیسی سے کچھ انگریزی زبان سیکھی لگتی ہے۔ حاضرین کو بتاتا ہے کہ بندر انگریزی سمجھتا ہے۔ سو بندر کو انگریزی میں حکم دیا، ” گو اینڈ شِٹ ڈاون”۔ انگریزی اور ڈنڈے دونوں کے اکٹھ سے حکم بندر کو سمجھ آجاتا ہے اور وہ ٹین کے ڈبے پر جا کر بیٹھ جاتا ہے۔
بچے خوشی سے تالیاں بجا رہے ہیں بندر مٹک مٹک کر ڈانس کر رہا ہے مداری خوشی سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہے کہ ایک لمبے عرصے بعد اسے داد مل رہی ہے دھندہ ٹھپ ہو چکا تھا شکر ہے بچوں نے بندر تماشہ پہلی بار دیکھا
اب رات کا سماں ہے بچے مداری اور بندر کے لیے مخملی بستر بچھا دیتے ہیں بندر اور مداری کو انواع و اقسام کے کھانے پیش کیے جاتے ہیں
مداری اور بندر آبادی کے محترم مہمان بن جاتے ہیں روزانہ بندر تماشہ لگایا جاتا ہے شب و روز یونہی گذر رہے ہیں دور دراز آبادیوں سے لوگ آ کر بندر تماشہ دیکھ رہے ہیں
اچانک ایک دن مداری کے رشتے دار آبادی میں داخل ہو کر مداری اور بندر کی تلاش شروع کر دیتے ہیں مداری کے رشتے دار کہہ رہے ہیں کہ یہ دونوں گھر سے بھاگے ہوے ہیں بندر ہمارا ہے ہم اس سے نہیں چھوڑیں گے
بچے بندر کو کسی دوسری جگہ بھاگادیتے ہیں مداری کے رشتے دار مایوس گھر کو لوٹ جاتے ہیں بیابانوں جنگلوں میں سر پٹخ رہے ہیں بندر نظر بھی آ جاے تو مداری کے ڈر سے اس کے قریب نہیں جاتے
اب مداری کے رشتے دار تلاش بسیار کے بعد وحشی ہو چکے ہیں گھپ اندھیری رات میں آبادی پہ دھاوا بول دیتے ہیں جن بچوں نے بندر تماشہ دیکھا انھیں سبق سکھا رہے ہیں ہر طرف آہ و بکا ہے بچے جو ماوں کی گود میں تھے مداری کے رشتے دار انھیں بغل میں دبا کر بھاگ رہے ہیں
بڑے بچے چھوٹے بچوں کو چھوڑاتے ہوے لہو لہان ہیں پگٹڈیوں پہ لہو کی پپڑیاں جمحی ہیں
فضاہیں محصوم خون کی خوشبو سے عطر بیز ہیں مداری کے رشتے دار بھی زخم چاٹ رہے ہیں
آبادی کی صبح افسردہ ہے معصوم بچے مٹی کے چولہوں کے پاس بیٹھے خاموشی سے سراپا سوال ہیں کہ آج ماہیں آگ کیوں نہیں جلا رہے ہیں چاے کیوں نہیں بناہی جا رہی
بندر مداری کے اشاروں پہ دور کہیں گھنے جنگلوں میں ٹہنیوں پہ چلانگیں لگا رہا ہے مداری کے
رشتے دار چاہ رہے ہیں کہ بندر خود ہی پنجرے میں آ کر بیٹھ جاے
چاچا پھنڈو محفل سجا کر کچے ذہن کے بچوں پہ پھٹکار بھیج رہا ہے کاش یہ چاچا پھنڈو اپنے نمبر پہ حجمامت کرواتا تو بچے بقول چاچا پھنڈو کے یوں بدتمیز نہ ہوتے
خیر اب
موسم بدل رہا ہے دسمبر کی ��رمئ شاموں سرد راتوں حناہی صبحوں کا قہر ٹوٹنے والا ہے
سر پہ خاک ڈالے تار تار دامن ننگے پاوں آبلہ پا آشفتہ سر ملنگ ہمالے کی چوٹیوں پہ افسردہ شکستہ دِل سے اپنے آپ کو کوس رہا ہے
اپنا چہرہ نوچ رہا ہے
کہ کاش میں آبادی کہ محصوم ہیرے موتیوں نڈر چیتے کا جگر رکھنے والے بچوں کو مداری اور بندر کے کھیل کی حقیقت سمجھا دیتا یا سمجھا پاتا
عظمت حسین
جدہ سعودی عربیہ
۱۳ ،نومبر ۲۰۲۴
3 notes
·
View notes
Text
پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟؟
درد ہے،، درد بھی قیامت کا،،،
یار،، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے،،،
کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟؟
اک نظر کیا اٹھی،، کہ اس دل پر،،،
آج تک بوجھ ہے مروّت کا،،،
دل نے کیا سوچ کر کیا آخر،،،
فیصلہ عقل کی حمایت کا،،،
کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے،،،
میں بھی کردار ہوں حکایت کا،،،
آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟؟
قتل کر دیجیئے روایت کا،،،
نہیں کھُلتا یہ رشتۂِ باہم،،،
گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟؟
تیری ہر بات مان لیتا ہوں،،،
یہ بھی انداز ہے شکایت کا
دیر مت کیجیئے جناب،، کہ وقت،،،
اب زیادہ نہیں عیادت کا،،،
بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟؟
شکریہ ہجر کی سہولت کا،،،
کسرِ نفسی سے کام مت لیجیئے،،،
بھائی یہ دور ہے رعونت کا،،،
مسئلہ میری زندگی کا نہیں،،،
مسئلہ ہے مری طبیعت کا،،،
درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں،،،
فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟؟
آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے،،،
میں کھلاڑی نہیں سیاست کا،،،
رات بھی دن کو سوچتے گزری،،،
کیا بنا خواب کی رعایت کا؟؟
رشک جس پر سلیقہ مند کریں،،،
دیکھ احوال میری وحشت کا،،،
صبح سے شام تک دراز ہے اب،،،
سلسلہ رنجِ بے نہایت کا،،،
وہ نہیں قاب��ِ معافی،، مگر،،،
کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا
اہلِ آسودگی کہاں جانیں،،،
مرتبہ درد کی فضیلت کا،،،
اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے،،،
آنکھ پر بار ہے امانت کا،،،
اک تماشا ہے دیکھنے والا،،،
آئینے سے مری رقابت کا،،،
دل میں ہر درد کی ہے گنجائش،،،
میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا،،،
ایک تو جبر اختیار کا ہے،،،
اور اک جبر ہے مشیّت کا،،،
پھیلتا جا رہا ہے ابرِ سیاہ،،،
خود نمائی کی اِس نحوست کا،،،
جز تری یاد کوئی کام نہیں،،،
کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا
سانحہ زندگی کا سب سے شدید،،،
واقعہ تھا بس ایک ساعت کا،،،
ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان،،،
مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا
"- عرفان ستار
8 notes
·
View notes
Text
آج میں آپ سے اپنا انسسٹ یا بہن۔ چود بننے کا سفر شیئر کرنے جا رہا ہوں اس سے پہلے اپنے مذہبی بننے کا سفر بھی شیئر کر چکا ہوں۔ ابھی چونکہ میں انسسٹ نہیں کرتا پریکٹیکلی مگر پھر بھی گزرا وقت یاد بہت کرتا ہے تو کہانی کو شروع کرنے سے پہلے بتا دوں کہ یہ سفر لکھتے وقت گانڈ میں ایک عدد کھیرا اور اپنے نپلز پر دو کلپ موجود ہیں اس کے علاوہ پیشاب کا ایک گلاس پی پر لکھنے لگا ہوں تاکہ بہتر انداز سے بیان کر سکوں کوشش کروں گا سفر مختصراً اور اچھے سے بتا سکوں۔
ہم چار بہن بھائی ہیں میں مون ، روبی، عائشہ اور عدیل۔
میرا تعلق لاہور سے ہے یہ انسسٹ کا سفر میں نے اور روبی نے شروع کیا تھا جب میں محض سات یا آتھ سال کا ہوں گا جی ہاں سات یا آتھ سال اور اس وقت روبی بارہ سال کی تھی ہاں ہاں پتا ہے اس وقت کہاں لن پھدی کا پتا ہوتا ہے مگر یہ وہی عمر تھی جب محلے کے جوان لاتعداد لڑکے میری گانڈ کواپنی منی نکالنے والی مشین کے طور پر استعمال کرتے تھے اور مجھے بھی یہ سب پسند تھا۔ خیر روبی اور میں روزانہ رات کو ساتھ سوتے اور ایک دوسرے کے نپلز سے کھیلتے وہ میرا لن چوستی اور میں اس کی پھدی اور نپلز اس کے علاوہ ساتھ نہاتے اور جب بھی کبھی گھر اکیلے ہوتے تو ننگے ہو گر پورے صحن میں گھومتے اور ایک دوسرے کو مزے دیتے رہتے خواہ ڈسچارج نہ بھی ہوتے مگر مزہ آتا رہتا اس دوران اکثر عائشہ جو کہ کم عمر تھی اسے کچھ سمجھ نا تھی وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتی وقت گزرتا گیا روبی اور میں بڑے ہوتے گئے روبی کے ممے اور جسم بھی پر کشش ہوتا گیا میری گانڈ مروانے کی روٹین میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی روبی سے سیکس کرنے میں بھی کیونکہ لن چھوٹا تھا یا جب بڑا بھی ہو گیا تو روبی کی پھدی کی سیر کرتا ہی رہتا دوسری طرف جہاں روبی کو میری گانڈ مروانے والی عادت کا میں نے علم نہ ہونے دیا تھا وہاں ہی اس کے ساتھ عائشہ کے ساتھ جو میں مزے کر رہا تھا وہی پھدی چوسنا گانڈ چاٹنا دودھ چوسنا اس کا علم بھی نہ ہونے دیا تھا۔ مگراس سب میں میں اور روبی عدیل کو بھول گئے تھے جو ہوش سنبھال چکا تھا ہم اپنی مستی میں ایک دوسرے کو ہی مزہ دینے میں مصروف تھے عدیل کا خیال مجھے اس وقت آیا جب میں سترہ سال۔کا تھا اور عائشہ تیرہ سال کی تھی اور روبی لگ بھگ بائیس کی اور اس وقت عائشہ سے کافی وقت بعد ملاپ ہونے کی وجہ سے مجھے معذرت کرنا پڑی تو اس نے بتایا کہ اس نے اس کا بھی حل نکالا ہوا ہے اور وہ عدیل ہے تب بھی ایک جھٹکا لگا کہ مجھے پتا ہی نہیں پھر سوچا کہ میں نے بھی تو روبی کو عائشہ سے جنس ملاپ کا علم نہیں ہونے دیا خیر اس جے بعد میں نے کافی دفعہ عائشہ اور عدیل کو جنسی مزے لیتے دیکھا تھا مگر آہستہ آہستہ سب چھوٹ گیا مجھ سے کچھ زمانے کی وجہ سے مصروفیات کی وجہ سے مگر انسسٹ سے دور ہونے کے بعد میں نے اپنی توجہ گانڈ مروانے لن چوسنے ان۔لڑکوں کو بلو جاب دینے اور مذہبی ہونے پر لگا دی روبی کا اکثر مجھے خیال آتا کہ وہ کیسے گزارا کرتی ہو گی تو پھر سوچتا کہ کالج جاتی ہے کیا پتا وہاں کوئی نہ کوئی یار بنا لیا ہو کیونکہ وہ جتنی گرم تھی اس کا اندازہ مجھ سے زیادہ کوئی نہیں لگا سکتا تھا اور اس گرمی کو صبر سے کنٹرول کرنا ناممکن تھا رہی بات عائشہ کی تو اس کی طرف پھر میں نے دھیان دینا چھوڑ دیا انسسٹ کے لحاظ سے اور عدیل بھی سیکس کی طلب میں آگے بڑھتا گیا اس سے پہلے بھی میں زیادہ کھل نہیں پاتا تھا کہ سیکس پر بات کروں یا اسے اپنے ساتھ ملا لوں اور نہ آج اس سے کھل پاتا ہوں معلوم نہیں وہ بہنوں سے انسسٹ کر۔رہا ہے یا نہیں وہ گانڈو بنا۔یا گانڈ مارنے والا مذہبی کی ہوا میں مذہبی بنا یا بچا رہا۔ خیر ابھی تو گانڈ مروانے کی کمی کو بھی کھیرے سے اور منہ کو منی سے بھرنے کے شوق کو پیشاب پی کر پورا کرتا ہوں۔
13 notes
·
View notes
Text
کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در
یہ وہی دیار ہے دوستو! جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر
میں بھٹکتا پھرتا ہوں سے دیر سے یو نہی شہر شہر نگر نگر
کہاں کھو گیا مرا قافلہ کہاں رہ گئے مرے ہم سفر
جنھیں زندگی کا شعور تھا انھیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینۂ خام پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
مری بیکسی کا نہ غم کرو مگر اپنا فائدہ سوچ لو!
تمہیں جس کی چھاؤں عزیز ہے میں اسی درخت کا ہوں ثمر
یہ بجا کہ آج اندھیری ہے زرا رت بدلنے کو دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے ،وہی شاخ لائے گی برگ و بر
ناصر کاظمی
4 notes
·
View notes
Text
صبح اسکول دوپہر کو قرآن پڑھنے گیا شام ہورہی ہے تو اسکول کا کام باقی ہے۔ ننھے نے سوچا
کام ختم ہو جائے تو خوب کھیلوں گا۔
مگر کام ختم ہوتے ہی رات ہو گئ تھی۔ نیند کا غلبہ شدید تھا۔ اگلی صبح ایک اور مصروف ترین دن کا آغاز ہوا تھا۔
وقت اتنا تیز رفتار ہوچکا تھا اپنے معمولات طے کرتے احساس ہی نہ ہوا کہ ننھا اب ننھا رہا ہی نہیں تھا۔ ایک دفتر میں ملازمت شروع کردی۔ اس دن کام وقت سے پہلے نمٹا کر دفتر سے گھر آرہا تھا کہ پارک میں کھیلتے بچوں پر نظر پڑی تو بچپن کی ایک یاد انگڑائی لیکر جاگ اٹھی۔
کتنا احمق ہوتاتھا میں سوچتا تھا کام ختم ہو جائیں گے۔
اس نے ہنس کر سر جھٹکا۔
آج کام ختم ہو گیا ہے مرا مگر اب مجھے بہت دیر ہو گئ ہے۔
ختم شد
2 notes
·
View notes
Text
نہ آج لطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے
وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں
Faiz must've said this for such balmy weather of midsummer.
9 notes
·
View notes
Text
اب کے بیگم مری میکے سے جو واپس آئیں
ایک مرغی بھی بصد شوق وہاں سے لائیں
میں نے پوچھا کہ مری جان ارادہ کیا ہے
تن کے بولیں کہ مجھے آپ نے سمجھا کیا ہے
��ہن نے میرے بنائی ہے اک ایسی سکیم
دنگ ہوں سن کے جسے علم معیشت کے حکیم
آپ بازار سے انڈے تو ذرا دوڑ کے لائیں
تاکہ ہم جلد سے جلد آج ہی مرغی کو بٹھائیں
تین ہفتوں میں نکل آئیں گے چوزے سارے
تو سہی آپ کو پیار آئے وہ پیارے پیارے
چھ مہینے میں جواں ہو کے وہی مرغ بچے
نسل پھیلاتے چلے جائیں گے دھیرے دھیرے
دیکھ لیجے گا بہ تائید خدائے دانا
پولٹری بنے گا مرا مرغی خانہ
پولٹری فارم میں انڈوں کی تجارت ہوگی
دور عسرت اسی مرغی کی بدولت ہوگی
میں وہ عورت ہوں کہ حکمت مری مردوں کو چرائے
انہیں پیسوں سے خریدوں گی میں کچھ بھینسیں اور گائے
ڈیری فارم بنے گا وہ ترقی ہوگی
جوئے شیر آپ ہی انگنائی میں بہتی ہوگی
عقل کی بات بتاتی ہوں اچنبھا کیا ہے
دودھ سے آپ کو نہلاؤں گی سمجھا کیا ہے
بچے ترسیں گے نہ مکھن کے لئے گھی کے لئے
آپ دفتر میں نہ سر ماریں گے دفتر کے لئے
میرے خوابوں کے تصدق میں بشرط تعمیل
چند ہی سال میں ہو جائے گی دنیا تبدیل
سحر تدبیر کا تقدیر پہ چل جائے گا
جھونپڑا آپ کا کوٹھی میں بدل جائے گا
الغرض ہوتی رہی بات یہی تا سر شام
نو بجے رات کو سونے کا جو آیا ہنگام
سو گئیں رکھ کے حفاظت سے اسے زیر پلنگ
خواب میں آتی رہی نشۂ دولت کی ترنگ
سن رہی تھی کوئی بلی بھی ہماری باتیں
پیاری بیگم کی وہ دلچسپ وہ پیاری باتیں
رات آدھی بھی نہیں گزری تھی کہ اک شور مچا
چیخ مرغی کی سنی نیند سے میں چونک پڑا
آنکھ ملتا ہوا اٹھا تو یہ نقشہ پایا
اس بچاری کو صحنچی میں تڑپتا پایا
دانت بلی نے گڑائے تھے جو گردن کے قریب
مر گئی چند ہی لمحوں میں پھڑک کر وہ غریب
صبح کے وقت غرض گھر کا یہ نقشہ دیکھا
چہرہ بیگم کا کسی سوچ میں لٹکا دیکھا
روٹی بچوں نے جو مانگی تو دو ہتھڑ مارا
اسے گھونسہ اسے چانٹا اسے تھپڑ مارا
2 notes
·
View notes
Text
آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے
جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میں نشئہ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں
جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون ظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون
تشنگی نفس کے جزبوں کی بجھانے کے لئے نوع انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون
ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے ان سے ہر سانس میں تحریک بغاوت ہے مجھے
تم ہنسو گے کہ یہ کمزور سی آواز ہے کیا جھنجھنایا ہوا، تھرّایا ہوا ساز ہے کیا
جن اسیروں کے لیے وقف ہیں سونے کے قفس ان میں موجود ابھی خواہشِ پرواز ہے کیا
آہ! تم فطرتِ انسان کے ہمراز نہیں میری آواز، یہ تنہا میری آواز نہیں
انگنت روحوں کی فریاد ہے شامل اس میں سسکیاں بن کے دھڑکتے ہیں کئی دل اس میں
تہ نشیں موج یہ طوفان بنے گی اک دن نہ ملے گا کسی تحریک کو ساحل اس میں
اس کی یلغار مری ذات پہ موقوف نہیں اسکی گردش میرے دن رات پہ موقوف نہیں
ہنس تو سکتے ہو، گرفتار تو کر سکتے ہو خوار و رسوا سرِ بازار تو کر سکتے ہو
اپنی قہار خدائی کی نمائش کے لئے مجھے نذرِ رسن و دار تو کر سکتے ہو
تم ہی تم قادرِ مطلق ہو، خدا کچھ بھی نہیں؟ جسمِ انساں میں دماغوں کے سوا کچھ بھی نہیں
آہ یہ سچ ہے کہ ہتھیار کے بل بوتے پر آدمی نادر و چنگیز تو بن سکتا ہے
ظاہری قوت و سطوت کی فراوانی سے لینن و ہٹلر و انگریز تو بن سکتا ہے
سخت دشوار ہے انسان کا مکمّل ہونا حق و انصاف کی بنیاد پے افضل ہونا
مولانا عامرؔ عثمانی
9 notes
·
View notes
Text
بندرابن کی کنج گلی ۔ اشفاق احمد
“آپ کو پتا ہے انفرادی جذبات کی ترجمانی کرنے والا سارا ادب … ”
“فوت ہو جائے گا” میں نے بات کاٹ کر کہا۔
“ہاں” وہ ہنس پڑی ۔ اس کی آنکھیں پکار پکار کر کہ رہی تھیں ۔ یہ نہایت ہی موزوں لفظ ہے ۔
یونیورسٹی لائبریری سے ایک دِن اچانک مجھے ایک انگریز مصنف کے خطوط کی کتاب ملی. وہیں کھڑے کھڑے ایک دو خط پڑھے . یہ کتاب لائبریری میں 1927 سے پڑی تھی. مگر ایک دفع بھی اشوع نہیں ہوئی تھی . میں وہ کتاب لے کر گھر آ گیا اور رات بھر پڑھتا رہا . بڑے جذباتی خطوط تھے . سیدھی سادی زبان میں پیاری پیاری باتیں لکھی تھیں . پہلا خط کچھ اس طرح شروع ہوتا تھا !
جان ِتمنا ! ۔
جاننا چاہتی ہو کہ تمھارے چلے جانے کے بعد مجھ پر کیا بیتی ۔ مجھ سے پوچھتی ہو کہ پہاڑ کے دامن میں کسانوں کے ننھے ننھے جھونپڑے مجھے اب بھی ویسے ہی حسین نظر آتے ہیں اور وادی میں گلاب اور یاسمین کی نگہت اب بھی ویسی ہی طرب انگیز ہے۔ جب تم یہاں تھی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ افسوس! ہر چیز نے اپنا لطف اپنا انداز بدل دیا ہے ۔ جب سے تم نے اس وادی کو چھوڑا ہے میں صاحبِ فراش ہوں۔ آج جونہی میں کھانے کی میز پر بیٹھا میرا دل اندر ہی اندر ڈوب گیا ۔ تنہا رکابی ، ایک چھری ، ایک کانٹا اور پانی کا گلاس، میں نے دکھے دل سے اس کرسی کی طرف دیکھا جس پر تم بیٹھا کرتی تھی اسے خالی دیکھ کر میرا جی بھر آیا اور میں نے چھری اور کانٹا میز پر ڈال دیے اور اسی رومال سے اپنا منہ ڈھانپ لیا ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے پوچھتی ہو کہ مجھے وادی کی بہاریں اب کیسی لگتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشفاق احمد کے افسانے ” بندرا بن کی کنج گلی میں ” سے اقتباس
جو کہ میرے پسندیدہ ادیب کے پسندیدہ افسانوں میں سے ہے
4 notes
·
View notes
Text
بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی
نہ یہ کہ حُسن تام ہو نہ دیکھنے میں عام سی
نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے
کوئی بھی رُت ہو اُس کی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی
نہ مدّتوں جدا رہے نہ ساتھ صبح و شام ہو
نہ رشتۂ وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذنِ عام ہو
نہ ایسی خوش لباسیاں کہ ��ادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکل��فی کہ آئینہ حیا کرے
نہ اختلاط میں وہ رنگ کہ بدمزہ ہوں خواہشیں
نہ اس قدر سپردگی کہ زچ کریں نوازشیں
نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو
کبھی تو بات بھی خفی کبھی سکوت بھی سُخن
کبھی تو کشتِ زعفراں کبھی اُداسیوں کا بن
سنا ہے ایک عمر ہے معاملاتِ دل کی بھی
وصالِ جاں فزا تو کیا فراقِ جاں گسل کی بھی
سو ایک روز کیا ہوا وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں وہ میری ضد سے چڑ گئی
میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو وہ بد تر از ہوس کہے
شجر حجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گِل رہیں
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں
محبتوں کی وسعتیں ہمارے دست و پا میں ہیں
بس ایک در سے نسبتیں سگانِ با وفا میں ہیں
میں کوئی پینٹنگ نہیں کہ اک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہو اُسی کے پریم میں رہوں
تمہاری سوچ جو بھی ہو میں اس مزاج کی نہیں
مجھے وفا سے بیر ہے یہ بات آج کی نہیں
نہ اُس کو مجھ پہ مان تھا نہ مجھ کو اُس پہ زعم ہی
جب عہد ہی کوئی نہ ہو تو کیا غمِ شکستگی
سو اپنا اپنا راستہ ہنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اُس کی دوستی
اب اُس کی یاد رات دن؟ نہیں! مگر کبھی کبھی
16 notes
·
View notes
Text
آج کی پوسٹ ان دیہاڑی داروں کے نام جو ہفتے میں ایک دفعہ اپنی بیٹی کا پسندیدہ انڈے والا بند کباب لاتے ہیں اور ساتھ اعلان بھی کرتے ہیں کہ انکا پسندیدہ کھانا تو بس روٹی اور چٹنی ہے👇
💕آج کی پوسٹ ان عظیم مردوں کے نام
جو رات کو اپنے چھالے بھرے ہاتھوں سے , اپنی ماں , بہن , بیوی , بیٹی کے لۓ گرما گرم مونگ پھلی لاتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر قہقہے لگا کر کہتے ہیں , تم لوگ کھاٶ میں تو راستے میں کھاتا آیا ہوں
💕آج کی پوسٹ ان عظیم جوانوں کے نام
جو شادی کے چند دن بعد پردیس کی فلاٸٹ پکڑتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کا ATM بن جاتے ہیں ۔ ۔ جنہیں اپنی بیوی کی جوانی اور اپنے بچوں کا بچپن دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا
💕آج کی پوسٹ ان سب مزدوروں , سپرواٸزروں اور فیلڈ افسروں کے نام
جو دن بھر کی تھکان کے ٹوٹے بدن کے باوجود , اپنے بیوی بچوں کے مسکراتے چہرے دیکھنے کے لۓ رات کو واٸس ایپ (voice app)کال کرنا نہیں بھولتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
💕آج کی پوسٹ ان سب دکانداروں اور سیلزمینوں کے نام "
جو سارا سارا دن اپنے وجود کے ساتھ لیڈیز سوٹ لگا کر کہتے ہیں : باجی دیکھیں کیسا نفیس پرنٹ اور رنگ ہے
💕" آج کی پوسٹ ان سب عظیم مردوں کے نام "
جو ملک کے کسی ایک کونے سے ڈراٸیو شروع کرتے ہیں اور پورے پاکستان میں اشیاء تجارت دے کر آتے ہوۓ اپنی بیٹی کے لۓ کسی اجنبی علاقے کی سوغات لانا نہیں بھولتے
💕آج کی پوسٹ ان معزز افسران کے نام
💕جو ویسے تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے , مگر اپنے بچوں کے رزق کے لۓ سینٸیر اور سیٹھ کی گالیاں کھا کر بھی مسکرا دیتے ہیں ۔
" آج کی پوسٹ ان عظیم کسانوں کے نام "
جو دسمبر کی برستی بارش میں سر پر تھیلا لۓ پگڈنڈی پھر کر کسی کھیت سے پانی نکالتے ہیں اور کسی میں ڈالتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
آج کی پوسٹ میرے والد صاحب کے نام
جنہوں نے مجھے زندگی دی اور زندگی بنا کر بھی دی
آج کی پوسٹ ہر نیک نفس , ایماندار اور محبت کرنے والے باپ , بھاٸی , شوہر اور بیٹے کے نام
جو اپنے لۓ نہیں اپنے گھر والوں کے لۓ کماتے ہیں
جنکا کوٸی عالمی دن نہیں ہوتا ۔ ۔
مگر ہر دن ان کے لۓ عالمی دن ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کیونکہ جن کے لۓ وہ محنت کرتے ہیں انکی چہروں پر مسکراہٹ ان لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🌹🥀🌷🌺
11 notes
·
View notes
Text
نظم : نذرانہ
تم پریشان نہ ہو ، بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
اُسی کوچے میں جہاں چاند اُگا کرتے ہیں
شبِ تاریک گزاروں گا ، چلا جاؤں گا
راستہ بھول گیا ، یا یہی منزل ہے مری
کوئی لایا ہے کہ خود آیا ہوں ، معلوم نہیں
کہتے ہیں حُسن کی نظریں بھی حسیں ہوتی ہیں
میں بھی کچھ لایا ہوں ، کیا لایا ہوں معلوم نہیں
یوں تو جو کچھ تھا مرے پاس میں سب بیچ آیا
کہیں انعام ملا ، اور کہیں قیمت بھی نہیں
کچھ تمہارے لیے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے
دیکھ لو اور نہ دیکھو تو شکایت بھی نہیں
ایک تو اتنی حسیں ، دوسرے یہ آرائش
جو نظر پڑتی ہے چہرے پہ ٹھہر جاتی ہے
مسکرا دیتی ہو رسماً بھی اگر محفل میں
اِک دھنک ٹوٹ کے سینوں میں بکھر جاتی ہے
گرم بوسوں سے تراشا ہوا نازک پیکر
جس کی اِک آنچ سے ہر روح پگھل جاتی ہے
میں نے سوچا ہے کہ سب سوچتے ہوں گے شاید
پیاس اِس طرح بھی کیا سانچے میں ڈھل جاتی ہے
کیا کمی ہے جو کرو گی مرا نذرانہ قبول
چاہنے والے بہت ، چاہ کے افسانے بہت
ایک ہی رات سہی گرمیٔ ہنگامۂ عشق
ایک ہی رات میں جل مرتے ہیں پروانے بہت
پھر بھی اِک رات میں سو طرح کے موڑ آتے ہیں
کاش تم کو کبھی تنہائی کا احساس نہ ہو
کاش ایسا نہ ہو گھیرے رہے دنیا تم کو
اور اس طرح کہ جس طرح کوئی پاس نہ ہو
آج کی رات جو میری ہی طرح تنہا ہے
میں کسی طرح گزاروں گا چلا جاؤں گا
تم پریشان نہ ہو ، بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
(کیفی اعظمی)
#kaifi azmi#urdu nazm#best poetry#urdu adab#poetry#urdu poetry#اردو شاعری#اردو#اردو ادب#urdu literature#best poem
10 notes
·
View notes
Text
جب بھی تری یادوں کی چلنے لگی پُروائی
ہر زخم ہوا تازہ ، ہر چوٹ ابھر آئی
اس بات پہ حیراں ہیں ساحل کے تماشائی
اک ٹوٹی ہوئی کشتی ہر موج سے ٹکرائی
میخانے تک آ پہنچی انصاف کی رسوائی
ساقی سے ہوئی لغزش رندوں نے سزا پائی
ہنگامہ ہوا برپا، اک جام اگر ٹوٹا--!!!
دل ٹوٹ گئے لاکھوں، آواز نہیں آئی
اک رات بسر کر لیں آرام سے دیوانے
ایسا بھی کوئی وعدہ!! اے جانِ شکیبائی
کس درجہ ستم گر ہے یہ گردشِ دوراں بھی
خود آج تماشا ہیں، کل تھے جو تماشائی
کیا جانئے کیا غم تھا مل کر بھی یہ عالم تھا
بے خواب رہے وہ بھی، ہم کو بھی نہ نیند آئی
(حفیظ بنارسی)
5 notes
·
View notes
Text
آج موسم نے عجب رُت بدلی۔ رات میں پڑتی شدت کی سردی صبح چلچلاتی دھوپ میں بدل گئی۔ دسمبر کے اس بے ترتیب دن کو سوچتے یادوں کے پردوں میں کہیں تم سرسرائے۔
میرا روانی سے چلتا قلم دھیرے سے کپکپایا پر پھر سے چل پڑا۔ میرے کاجل کی لکیر بھیگی پر سنبھل گئی۔ دھوپ تھی، شام ڈھلی تو گزر گئی۔ تپش کو دُھند کھا گئی پر یاد کے پردوں سے تم کئی دن تک نہ جا سکے۔
س ی ط
Aj mausam ne ajab rutt badli. Raat mai parti shiddat ki sardi subha chilchilaati dhoop mai badal gayi. December k is be-tarteeb din ko sochtay yaadon k pardon mai kahin tum sarsaraye.
Mera rawani se chalta qalam dheeray se kapkapaya, pr phir se chl para. Mere kajal ki lakeer bheegi, pr phir sambhal gayi. Dhoop thi, shaam dhali to guzar gyi. Tapish ko dhund khaa gyi par yaad k pardon se tum kayi din tak na ja sakay.
-SYT
#sometimes i write#tum yaad aye#desi tumblr#just desi things#desi larki#life of a desi girl#urdu aesthetic#pakistan#urdu stuff#pakistani aesthetics#desi culture#urdu quote#urdupoetry#urdu literature#urduadab#mohabbat#pyar#ishq#zindagi#desi people#desi life#desi literature#desi post#desiblr#desi writers#desi aesthetic#being desi#desi core#desi community#syt
3 notes
·
View notes