#آج کی رات
Explore tagged Tumblr posts
babarjob · 1 month ago
Text
2 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 3 months ago
Text
Tumblr media
تیرے بِنا زندگی سے کوئی ، شکوہ تو نہیں
تیرے بنا زندگی بھی لیکن ، زندگی تو نہیں
کاش ایسا ھو
تیرے قدموں سے، چُن کے منزل چلیں
اور کہیں، دور کہیں
تم گَر ساتھ ھو ، منزلوں کی، کمی تو نہیں
جی میں آتا ھے، تیرے دامن میں
سر چھپا کے ھم، روتے رھیں، روتے رھیں
تیری آنکھوں میں، آنسوؤں کی، نمی تو نہیں
تم جو کہہ دو تو
آج کی رات، چاند ڈوبے گا نہیں
رات کو روک لو
رات کی بات ھے، اور زندگی، باقی تو نہیں
سمپورن سنگھ گلزار
9 notes · View notes
nightsinner666 · 1 year ago
Text
آج میں آپ سے اپنا انسسٹ یا بہن۔ چود بننے کا سفر شیئر کرنے جا رہا ہوں اس سے پہلے اپنے مذہبی بننے کا سفر بھی شیئر کر چکا ہوں۔ ابھی چونکہ میں انسسٹ نہیں کرتا پریکٹیکلی مگر پھر بھی گزرا وقت یاد بہت کرتا ہے تو کہانی کو شروع کرنے سے پہلے بتا دوں کہ یہ سفر لکھتے وقت گانڈ میں ایک عدد کھیرا اور اپنے نپلز پر دو کلپ موجود ہیں اس کے علاوہ پیشاب کا ایک گلاس پی پر لکھنے لگا ہوں تاکہ بہتر انداز سے بیان کر سکوں کوشش کروں گا سفر مختصراً اور اچھے سے بتا سکوں۔
ہم چار بہن بھائی ہیں میں مون ، روبی، عائشہ اور عدیل۔
میرا تعلق لاہور سے ہے یہ انسسٹ کا سفر میں نے اور روبی نے شروع کیا تھا جب میں محض سات یا آتھ سال کا ہوں گا جی ہاں سات یا آتھ سال اور اس وقت روبی بارہ سال کی تھی ہاں ہاں پتا ہے اس وقت کہاں لن پھدی کا پتا ہوتا ہے مگر یہ وہی عمر تھی جب محلے کے جوان لاتعداد لڑکے میری گانڈ کواپنی منی نکالنے والی مشین کے طور پر استعمال کرتے تھے اور مجھے بھی یہ سب پسند تھا۔ خیر روبی اور میں روزانہ رات کو ساتھ سوتے اور ایک دوسرے کے نپلز سے کھیلتے وہ میرا لن چوستی اور میں اس کی پھدی اور نپلز اس کے علاوہ ساتھ نہاتے اور جب بھی کبھی گھر اکیلے ہوتے تو ننگے ہو گر پورے صحن میں گھومتے اور ایک دوسرے کو مزے دیتے رہتے خواہ ڈسچارج نہ بھی ہوتے مگر مزہ آتا رہتا اس دوران اکثر عائشہ جو کہ کم عمر تھی اسے کچھ سمجھ نا تھی وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتی وقت گزرتا گیا روبی اور میں بڑے ہوتے گئے روبی کے ممے اور جسم بھی پر کشش ہوتا گیا میری گانڈ مروانے کی روٹین میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی روبی سے سیکس کرنے میں بھی کیونکہ لن چھوٹا تھا یا جب بڑا بھی ہو گیا تو روبی کی پھدی کی سیر کرتا ہی رہتا دوسری طرف جہاں روبی کو میری گانڈ مروانے والی عادت کا میں نے علم نہ ہونے دیا تھا وہاں ہی اس کے ساتھ عائشہ کے ساتھ جو میں مزے کر رہا تھا وہی پھدی چوسنا گانڈ چاٹنا دودھ چوسنا اس کا علم بھی نہ ہونے دیا تھا۔ مگراس سب میں میں اور روبی عدیل کو بھول گئے تھے جو ہوش سنبھال چکا تھا ہم اپنی مستی میں ایک دوسرے کو ہی مزہ دینے میں مصروف تھے عدیل کا خیال مجھے اس وقت آیا جب میں سترہ سال۔کا تھا اور عائشہ تیرہ سال کی تھی اور روبی لگ بھگ بائیس کی اور اس وقت عائشہ سے کافی وقت بعد ملاپ ہونے کی وجہ سے مجھے معذرت کرنا پڑی تو اس نے بتایا کہ اس نے اس کا بھی حل نکالا ہوا ہے اور وہ عدیل ہے تب بھی ایک جھٹکا لگا کہ مجھے پتا ہی نہیں پھر سوچا کہ میں نے بھی تو روبی کو عائشہ سے جنس ملاپ کا علم نہیں ہونے دیا خیر اس جے بعد میں نے کافی دفعہ عائشہ اور عدیل کو جنسی مزے لیتے دیکھا تھا مگر آہستہ آہستہ سب چھوٹ گیا مجھ سے کچھ زمانے کی وجہ سے مصروفیات کی وجہ سے مگر انسسٹ سے دور ہونے کے بعد میں نے اپنی توجہ گانڈ مروانے لن چوسنے ان۔لڑکوں کو بلو جاب دینے اور مذہبی ہونے پر لگا دی روبی کا اکثر مجھے خیال آتا کہ وہ کیسے گزارا کرتی ہو گی تو پھر سوچتا کہ کالج جاتی ہے کیا پتا وہاں کوئی نہ کوئی یار بنا لیا ہو کیونکہ وہ جتنی گرم تھی اس کا اندازہ مجھ سے زیادہ کوئی نہیں لگا سکتا تھا اور اس گرمی کو صبر سے کنٹرول کرنا ناممکن تھا رہی بات عائشہ کی تو اس کی طرف پھر میں نے دھیان دینا چھوڑ دیا انسسٹ کے لحاظ سے اور عدیل بھی سیکس کی طلب میں آگے بڑھتا گیا اس سے پہلے بھی میں زیادہ کھل نہیں پاتا تھا کہ سیکس پر بات کروں یا اسے اپنے ساتھ ملا لوں اور نہ آج اس سے کھل پاتا ہوں معلوم نہیں وہ بہنوں سے انسسٹ کر۔رہا ہے یا نہیں وہ گانڈو بنا۔یا گانڈ مارنے والا مذہبی کی ہوا میں مذہبی بنا یا بچا رہا۔ خیر ابھی تو گانڈ مروانے کی کمی کو بھی کھیرے سے اور منہ کو منی سے بھرنے کے شوق کو پیشاب پی کر پورا کرتا ہوں۔
12 notes · View notes
moizkhan1967 · 7 months ago
Text
کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در
یہ وہی دیار ہے دوستو! جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر
میں بھٹکتا پھرتا ہوں سے دیر سے یو نہی شہر شہر نگر نگر
کہاں کھو گیا مرا قافلہ کہاں رہ گئے مرے ہم سفر
جنھیں زندگی کا شعور تھا انھیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینۂ خام پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر
مری بیکسی کا نہ غ�� کرو مگر اپنا فائدہ سوچ لو!
تمہیں جس کی چھاؤں عزیز ہے میں اسی درخت کا ہوں ثمر
یہ بجا کہ آج اندھیری ہے زرا رت بدلنے کو دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے ،وہی شاخ لائے گی برگ و بر
ناصر کاظمی
4 notes · View notes
urduzz · 6 months ago
Text
Tumblr media Tumblr media
صبح اسکول دوپہر کو قرآن پڑھنے گیا شام ہورہی ہے تو اسکول کا کام باقی ہے۔ ننھے نے سوچا
کام ختم ہو جائے تو خوب کھیلوں گا۔
مگر کام ختم ہوتے ہی رات ہو گئ تھی۔ نیند کا غلبہ شدید تھا۔ اگلی صبح ایک اور مصروف ترین دن کا آغاز ہوا تھا۔
وقت اتنا تیز رفتار ہوچکا تھا اپنے معمولات طے کرتے احساس ہی نہ ہوا کہ ننھا اب ننھا رہا ہی نہیں تھا۔ ایک دفتر میں ملازمت شروع کردی۔ اس دن کام وقت سے پہلے نمٹا کر دفتر سے گھر آرہا تھا کہ پارک میں کھیلتے بچوں پر نظر پڑی تو بچپن کی ایک یاد انگڑائی لیکر جاگ اٹھی۔
کتنا احمق ہوتاتھا میں سوچتا تھا کام ختم ہو جائیں گے۔
اس نے ہنس کر سر جھٹکا۔
آج کام ختم ہو گیا ہے مرا مگر اب مجھے بہت دیر ہو گئ ہے۔
ختم شد
2 notes · View notes
chandtarasblog · 1 year ago
Text
‏نہ آج لطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے
وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں
Faiz must've said this for such balmy weather of midsummer.
9 notes · View notes
safdarrizvi · 10 months ago
Text
اب کے بیگم مری میکے سے جو واپس آئیں
ایک مرغی بھی بصد شوق وہاں سے لائیں
میں نے پوچھا کہ مری جان ارادہ کیا ہے
تن کے بولیں کہ مجھے آپ نے سمجھا کیا ہے
ذہن نے میرے بنائی ہے اک ایسی سکیم
دنگ ہوں سن کے جسے علم معیشت کے حکیم
آپ بازار سے انڈے تو ذرا دوڑ کے لائیں
تاکہ ہم جلد سے جلد آج ہی مرغی کو بٹھائیں
تین ہفتوں میں نکل آئیں گے چوزے سارے
تو سہی آپ کو پیار آئے وہ پیارے پیارے
چھ مہینے میں جواں ہو کے وہی مرغ بچے
نسل پھیلاتے چلے جائیں گے دھیرے دھیرے
دیکھ لیجے گا بہ تائید خدائے دانا
پولٹری بنے گا مرا مرغی خانہ
پولٹری فارم میں انڈوں کی تجارت ہوگی
دور عسرت اسی مرغی کی بدولت ہوگی
میں وہ عورت ہوں کہ حکمت مری مردوں کو چرائے
انہیں پیسوں سے خریدوں گی میں کچھ بھینسیں اور گائے
ڈیری فارم بنے گا وہ ترقی ہوگی
جوئے شیر آپ ہی انگنائی میں بہتی ہوگی
عقل کی بات بتاتی ہوں اچنبھا کیا ہے
دودھ سے آپ کو نہلاؤں گی سمجھا کیا ہے
بچے ترسیں گے نہ مکھن کے لئے گھی کے لئے
آپ دفتر میں نہ سر ماریں گے دفتر کے لئے
میرے خوابوں کے تصدق میں بشرط تعمیل
چند ہی سال میں ہو جائے گی دنیا تبدیل
سحر تدبیر کا تقدیر پہ چل جائے گا
جھونپڑا آپ کا کوٹھی میں بدل جائے گا
الغرض ہوتی رہی بات یہی تا سر شام
نو بجے رات کو سونے کا جو آیا ہنگام
سو گئیں رکھ کے حفاظت سے اسے زیر پلنگ
خواب میں آتی رہی نشۂ دولت کی ترنگ
سن رہی تھی کوئی بلی بھی ہماری باتیں
پیاری بیگم کی وہ دلچسپ وہ پیاری باتیں
رات آدھی بھی نہیں گزری تھی کہ اک شور مچا
چیخ مرغی کی سنی نیند سے میں چونک پڑا
آنکھ ملتا ہوا اٹھا تو یہ نقشہ پایا
اس بچاری کو صحنچی میں تڑپتا پایا
دانت بلی نے گڑائے تھے جو گردن کے قریب
مر گئی چند ہی لمحوں میں پھڑک کر وہ غریب
صبح کے وقت غرض گھر کا یہ نقشہ دیکھا
چہرہ بیگم کا کسی سوچ میں لٹکا دیکھا
روٹی بچوں نے جو مانگی تو دو ہتھڑ مارا
اسے گھونسہ اسے چانٹا اسے تھپڑ مارا
2 notes · View notes
urduclassic · 1 year ago
Text
آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
Tumblr media
آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے
جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میں نشئہ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں
جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون ظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون
تشنگی نفس کے جزبوں کی بجھانے کے لئے نوع انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون
ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے ان سے ہر سانس میں تحریک بغاوت ہے مجھے
تم ہنسو گے کہ یہ کمزور سی آواز ہے کیا جھنجھنایا ہوا، تھرّایا ہوا ساز ہے کیا
جن اسیروں کے لیے وقف ہیں سونے کے قفس ان میں موجود ابھی خواہشِ پرواز ہے کیا
آہ! تم فطرتِ انسان کے ہمراز نہیں میری آواز، یہ تنہا میری آواز نہیں
انگنت روحوں کی فریاد ہے شامل اس میں سسکیاں بن کے دھڑکتے ہیں کئی دل اس میں
تہ نشیں موج یہ طوفان بنے گی اک دن نہ ملے گا کسی تحریک کو ساحل اس میں
اس کی یلغار مری ذات پہ موقوف نہیں اسکی گردش میرے دن رات پہ موقوف نہیں
ہنس تو سکتے ہو، گرفتار تو کر سکتے ہو خوار و رسوا سرِ بازار تو کر سکتے ہو
اپنی قہار خدائی کی نمائش کے لئے مجھے نذرِ رسن و دار تو کر سکتے ہو
تم ہی تم قادرِ مطلق ہو، خدا کچھ بھی نہیں؟ جسمِ انساں میں دماغوں کے سوا کچھ بھی نہیں
آہ یہ سچ ہے کہ ہتھیار کے بل بوتے پر آدمی نادر و چنگیز تو بن سکتا ہے
ظاہری قوت و سطوت کی فراوانی سے لینن و ہٹلر و انگریز تو بن سکتا ہے
سخت دشوار ہے انسان کا مکمّل ہونا حق و انصاف کی بنیاد پے افضل ہونا
مولانا عامرؔ عثمانی
9 notes · View notes
aiklahori · 1 year ago
Text
بندرابن کی کنج گلی ۔ اشفاق احمد
“آپ کو پتا ہے انفرادی جذبات کی ترجمانی کرنے والا سارا ادب … ”
“فوت ہو جائے گا” میں نے بات کاٹ کر کہا۔
“ہاں” وہ ہنس پڑی ۔ اس کی آنکھیں پکار پکار کر کہ رہی تھیں ۔ یہ نہایت ہی موزوں لفظ ہے ۔
یونیورسٹی لائبریری سے ایک دِن اچانک مجھے ایک انگریز مصنف کے خطوط کی کتاب ملی. وہیں کھڑے کھڑے ایک دو خط پڑھے . یہ کتاب لائبریری میں 1927 سے پڑی تھی. مگر ایک دفع بھی اشوع نہیں ہوئی تھی . میں وہ کتاب لے کر گھر آ گیا اور رات بھر پڑھتا رہا . بڑے جذباتی خطوط تھے . سیدھی سادی زبان میں پیاری پیاری باتیں لکھی تھیں . پہلا خط کچھ اس طرح شروع ہوتا تھا !
جان ِتمنا ! ۔
جاننا چاہتی ہو کہ تمھارے چلے جانے کے بعد مجھ پر کیا بیتی ۔ مجھ سے پوچھتی ہو کہ پہاڑ کے دامن میں کسانوں کے ننھے ننھے جھونپڑے مجھے اب بھی ویسے ہی حسین نظر آتے ہیں اور وادی میں گلاب اور یاسمین کی نگہت اب بھی ویسی ہی طرب انگیز ہے۔ جب تم یہاں تھی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ افسوس! ہر چیز نے اپنا لطف اپنا انداز بدل دیا ہے ۔ جب سے تم نے اس وادی کو چھوڑا ہے میں صاحبِ فراش ہوں۔ آج جونہی میں کھانے کی میز پر بیٹھا میرا دل اندر ہی اندر ڈوب گیا ۔ تنہا رکابی ، ایک چھری ، ایک کانٹا اور پانی کا گلاس، میں نے دکھے دل سے اس کرسی کی طرف دیکھا جس پر تم بیٹھا کرتی تھی اسے خالی دیکھ کر میرا جی بھر آیا اور میں نے چھری اور کانٹا میز پر ڈال دیے اور اسی رومال سے اپنا منہ ڈھانپ لیا ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ سے پوچھتی ہو کہ مجھے وادی کی بہاریں اب کیسی لگتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشفاق احمد کے افسانے ” بندرا بن کی کنج گلی میں ” سے اقتباس
جو کہ میرے پسندیدہ ادیب کے پسندیدہ افسانوں میں سے ہے
4 notes · View notes
barg-e-sehra · 2 years ago
Text
بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی​
نہ یہ کہ حُسن تام ہو نہ دیکھنے میں عام سی​
نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے​
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے​
کوئی بھی رُت ہو اُس کی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی​
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی​
نہ مدّتوں جدا رہے نہ ساتھ صبح و شام ہو​
نہ رشتۂ وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذنِ عام ہو​
نہ ایسی ��وش لباسیاں کہ سادگی گلہ کرے​
نہ اتنی بے تکلّفی کہ آئینہ حیا کرے​
نہ اختلاط میں وہ رنگ کہ بدمزہ ہوں خواہشیں​
نہ اس قدر سپردگی کہ زچ کریں نوازشیں​
نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو​
نہ اس قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو​
کبھی تو بات بھی خفی کبھی سکوت بھی سُخن​
کبھی تو کشتِ زعفراں کبھی اُداسیوں کا بن​
سنا ہے ایک عمر ہے معاملاتِ دل کی بھی​
وصالِ جاں فزا تو کیا فراقِ جاں گسل کی بھی
سو ایک روز کیا ہوا وفا پہ بحث چھڑ گئی​
میں عشق کو امر کہوں وہ میری ضد سے چڑ گئی​
میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے​
کہ عمر بھر کے ساتھ کو وہ بد تر از ہوس کہے​
شجر حجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گِل رہیں​
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں​
محبتوں کی وسعتیں ہمارے دست و پا میں ہیں​
بس ایک در سے نسبتیں سگانِ با وفا میں ہیں​
میں کوئی پینٹنگ نہیں کہ اک فریم میں رہوں​
وہی جو من کا میت ہو اُسی کے پریم میں رہوں​
تمہاری سوچ جو بھی ہو میں اس مزاج کی نہیں​
مجھے وفا سے بیر ہے یہ بات آج کی نہیں​
نہ اُس کو مجھ پہ مان تھا نہ مجھ کو اُس پہ زعم ہی​
جب عہد ہی کوئی نہ ہو تو کیا غمِ شکستگی​
سو اپنا اپنا راستہ ہنسی خوشی بدل لیا​
وہ اپنی راہ چل پڑی میں اپنی راہ چل دیا
بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اُس کی دوستی​
اب اُس کی یاد رات دن؟ نہیں! مگر کبھی کبھی
16 notes · View notes
shazi-1 · 2 years ago
Text
نظم : نذرانہ
تم پریشان نہ ہو ، بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
اُسی کوچے میں جہاں چاند اُگا کرتے ہیں
شبِ تاریک گزاروں گا ، چلا جاؤں گا
راستہ بھول گیا ، یا یہی منزل ہے مری
کوئی لایا ہے کہ خود آیا ہوں ، معلوم نہیں
کہتے ہیں حُسن کی نظریں بھی حسیں ہوتی ہیں
میں بھی کچھ لایا ہوں ، کیا لایا ہوں معلوم نہیں
یوں تو جو کچھ تھا مرے پاس میں سب بیچ آیا
کہیں انعام ملا ، اور کہیں قیمت بھی نہیں
کچھ تمہارے لیے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے
دیکھ لو اور نہ دیکھو تو شکایت بھی نہیں
ایک تو اتنی حسیں ، دوسرے یہ آرائش
جو نظر پڑتی ہے چہرے پہ ٹھہر جاتی ہے
مسکرا دیتی ہو رسماً بھی اگر محفل میں
اِک دھنک ٹوٹ کے سینوں میں بکھر جاتی ہے
گرم بوسوں سے تراشا ہوا نازک پیکر
جس کی اِک آنچ سے ہر روح پگھل جاتی ہے
میں نے سوچا ہے کہ سب سوچتے ہوں گے شاید
پیاس اِس طرح بھی کیا سانچے میں ڈھل جاتی ہے
کیا کمی ہے جو کرو گی مرا نذرانہ قبول
چاہنے والے بہت ، چاہ کے افسانے بہت
ایک ہی رات سہی گرمیٔ ہنگامۂ عشق
ایک ہی رات میں جل مرتے ہیں پروانے بہت
پھر بھی اِک ��ات میں سو طرح کے موڑ آتے ہیں
کاش تم کو کبھی تنہائی کا احساس نہ ہو
کاش ایسا نہ ہو گھیرے رہے دنیا تم کو
اور اس طرح کہ جس طرح کوئی پاس نہ ہو
آج کی رات جو میری ہی طرح تنہا ہے
میں کسی طرح گزاروں گا چلا جاؤں گا
تم پریشان نہ ہو ، بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
(کیفی اعظمی)
10 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 8 months ago
Text
آج کی پوسٹ ان دیہاڑی داروں کے نام جو ہفتے میں ایک دفعہ اپنی بیٹی کا پسندیدہ انڈے والا بند کباب لاتے ہیں اور ساتھ اعلان بھی کرتے ہیں کہ انکا پسندیدہ کھانا تو بس روٹی اور چٹنی ہے👇
💕آج کی پوسٹ ان عظیم مردوں کے نام
جو رات کو اپنے چھالے بھرے ہاتھوں سے , اپنی ماں , بہن , بیوی , بیٹی کے لۓ گرما گرم مون�� پھلی لاتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر قہقہے لگا کر کہتے ہیں , تم لوگ کھاٶ میں تو راستے میں کھاتا آیا ہوں
💕آج کی پوسٹ ان عظیم جوانوں کے نام
جو شادی کے چند دن بعد پردیس کی فلاٸٹ پکڑتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کا ATM بن جاتے ہیں ۔ ۔ جنہیں اپنی بیوی کی جوانی اور اپنے بچوں کا بچپن دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا
💕آج کی پوسٹ ان سب مزدوروں , سپرواٸزروں اور فیلڈ افسروں کے نام
جو دن بھر کی تھکان کے ٹوٹے بدن کے باوجود , اپنے بیوی بچوں کے مسکراتے چہرے دیکھنے کے لۓ رات کو واٸس ایپ (voice app)کال کرنا نہیں بھولتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
💕آج کی پوسٹ ان سب دکانداروں اور سیلزمینوں کے نام "
جو سارا سارا دن اپنے وجود کے ساتھ لیڈیز سوٹ لگا کر کہتے ہیں : باجی دیکھیں کیسا نفیس پرنٹ اور رنگ ہے
💕" آج کی پوسٹ ان سب عظیم مردوں کے نام "
جو ملک کے کسی ایک کونے سے ڈراٸیو شروع کرتے ہیں اور پورے پاکستان میں اشیاء تجارت دے کر آتے ہوۓ اپنی بیٹی کے لۓ کسی اجنبی علاقے کی سوغات لانا نہیں بھولتے
💕آج کی پوسٹ ان معزز افسران کے نام
💕جو ویسے تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے , مگر اپنے بچوں کے رزق کے لۓ سینٸیر اور سیٹھ کی گالیاں کھا کر بھی مسکرا دیتے ہیں ۔
" آج کی پوسٹ ان عظیم کسانوں کے نام "
جو دسمبر کی برستی بارش میں سر پر تھیلا لۓ پگڈنڈی پھر کر کسی کھیت سے پانی نکالتے ہیں اور کسی میں ڈالتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
آج کی پوسٹ میرے والد صاحب کے نام
جنہوں نے مجھے زندگی دی اور زندگی بنا کر بھی دی
آج کی پوسٹ ہر نیک نفس , ایماندار اور محبت کرنے والے باپ , بھاٸی , شوہر اور بیٹے کے نام
جو اپنے لۓ نہیں اپنے گھر والوں کے لۓ کماتے ہیں
جنکا کوٸی عالمی دن نہیں ہوتا ۔ ۔
مگر ہر دن ان کے لۓ عالمی دن ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کیونکہ جن کے لۓ وہ محنت کرتے ہیں انکی چہروں پر مسکراہٹ ان لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🌹🥀🌷🌺
11 notes · View notes
kafi-farigh-yusra · 1 year ago
Text
آج موسم نے عجب رُت بدلی۔ رات میں پڑتی شدت کی سردی صبح چلچلاتی دھوپ میں بدل گئی۔ دسمبر کے اس بے ترتیب دن کو سوچتے یادوں کے پردوں میں کہیں تم سرسرائے۔
میرا روانی سے چلتا قلم دھیرے سے کپکپایا پر پھر سے چل پڑا۔ میرے کاجل کی لکیر بھیگی پر سنبھل گئی۔ دھوپ تھی، شام ڈھلی تو گزر گئی۔ تپش کو دُھند کھا گئی پر یاد کے پردوں سے تم کئی دن تک نہ جا سکے۔
س ی ط
Tumblr media
Aj mausam ne ajab rutt badli. Raat mai parti shiddat ki sardi subha chilchilaati dhoop mai badal gayi. December k is be-tarteeb din ko sochtay yaadon k pardon mai kahin tum sarsaraye.
Mera rawani se chalta qalam dheeray se kapkapaya, pr phir se chl para. Mere kajal ki lakeer bheegi, pr phir sambhal gayi. Dhoop thi, shaam dhali to guzar gyi. Tapish ko dhund khaa gyi par yaad k pardon se tum kayi din tak na ja sakay.
-SYT
3 notes · View notes
moizkhan1967 · 11 months ago
Text
گئے دِنوں کا سُراغ لے کر ، کِدھر سے آیا ، کِدھر گیا وُہ
عجیب مانوس اجنبی تھا ، مجھے تو حیران کر گیا وُہ
بَس ایک موتی سی چھب دِکھا کر
بَس ایک میٹھی سی دُھن سُنا کر
سِتارۂ شام بن کے آیا ، برنگِ خُوابِ سحر گیا وُہ
خوشی کی رُت ہو کہ غَم کا موسم
نظر اُسے ڈُھونڈتی ہے ہر دٙم
وُہ بُوئے گُل تھا کہ نغمۂ جاں ، مِرے تو دِل میں اُتر گیا وُہ
نہ اَب وُہ یادوں کا چَڑھتا دَریا
نہ فُرصتوں کی اُداس برکھا
یُونہی ذرا سی کسک ہے دِل میں ، جو زخم گہرا تھا بَھر گیا وُہ
کُچھ اَب سَنبھلنے لگی ہے جاں بھی
بَدل چلا دٙورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹَل گئی ہے ، جو دِن کَڑا تھا گُزر گیا وُہ
بَس ایک منزل ہے بوالہوس کی
ہزار راستے ہیں اہلِ دِل کے
یہی تو ہے فرق مُجھ میں ، اس میں گُزر گیا میں ، ٹَھہر گیا وُہ
شِکستہ پا راہ میں کھڑا ہُوں
گئے دِنوں کو بُلا رہا ہُوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا ، مثالِ گردِ سفر گیا وُہ
میرا تو خُون ہو گیا ہے پانی
سِتمگروں کی پَلک نہ بھیگی
جو نالہ اُٹھا تھا رات دِل سے ، نہ جانے کیوں بے اَثر گیا وُہ
وُہ میکدے کو جگانے والا
وُہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کَیا اُس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وُہ
وُہ ہجر کی رات کا سِتارہ
وُہ ہَم نفس ، ہَم سُخن ہمارا
سَدا رہے اُس کا نام پیارا ،،، سُنا ہے کل رات مٙر گیا وُہ
وُہ جس کے شانے پہ ہاتھ رَکھ کر
سَفر کِیا تُو نے منزلوں کا
تِری گلی سے نہ جانے کیوں آج ، سٙر جُھکائے گُزر گیا وُہ
وُہ رات کا بے نوا مُسافِر
وُہ تیرا شاعر ، وُہ تیرا ناصرؔ
تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا ، پِھر نہ جانے کِدھر گیا وُہ
شاعر : ناصرؔ کاظمی
(دِیوان)
5 notes · View notes
shahbaz-shaikh · 1 year ago
Text
دیوانے کی جنت
وسیم بریلوی
میرا یہ خواب کہ تم میرے قریب آئی ہو
اپنے سائے سے جھجکتی ہوئی گھبراتی ہوئی
اپنے احساس کی تحریک پہ شرماتی ہوئی
اپنے قدموں کی بھی آواز سے کتراتی ہوئی
اپنی سانسوں کے مہکتے ہوئے انداز لئے
اپنی خاموشی میں گہنائے ہوئے راز لئے
اپنے ہونٹوں پہ اک انجام کا آغاز لئے
دل کی دھڑکن کو بہت روکتی سمجھاتی ہوئی
اپنی پائل کی غزل خوانی پہ جھلاتی ہوئی
نرم شانوں پہ جوانی کا نیا بار لئے
شوخ آنکھوں میں حجابات سے انکار لئے
تیز نبضوں میں ملاقات کے آثار لئے
کالے بالوں سے بکھ��تی ہوئی چمپا کی مہک
سرخ عارض پہ دمکتے ہوئے شالوں کی چمک
نیچی نظروں میں سمائی ہوئی خوددار جھجک
نقرئی جسم پہ وہ چاند کی کرنوں کی پھوار
چاندنی رات میں بجھتا ہوا پلکوں کا ستار
فرط جذبات سے مہکی ہوئی سانسوں کی قطار
دور ماضی کی بد انجام روایات لئے
نیچی نظریں وہی احساس ملاقات لئے
وہی ماحول وہی ��اروں بھری رات لئے
آج تم آئی ہو دہراتی ہوئی ماضی کو
میرا یہ خواب کہ تم میرے قریب آئی ہو
کاش اک خواب رہے تلخ حقیقت نہ بنے
یہ ملاقات بھی دیوانے کی جنت نہ بنے..
Tumblr media
2 notes · View notes
0rdinarythoughts · 2 years ago
Text
اڑھائی ہزار سال پہلے ایتھنز کی ایک گلی میں جب رات کو بارش ہو رہی تھی تو گلابی چہرے والی ایک یونانی لڑکی نے اپنے مکان کی کھڑکی میں زیتون کا چراخ روشن کیا تھا شاید أسے کسی کا انتظار تھا۔ لاکریٹس نے اپنی ایک نظم میں اس لڑکی کا ذکر کیا ہے۔آج نہ وہ گلی ھے اور نہ زیتوں کا چراغ جلا کر کسی کا انتظار کرنے والی لڑکی ہی باقی ہے میں اگر ایک ھزار زیتوں کے چراغ اور ایک لاکھ سورج لے کر بھی اس لڑکی کی تلاش میں نکلوں تو وہ مجھے نہیں ملے گی۔سو چتا ہوں جس رات اس یونانی لڑکی نے اپنے مکان کی کھڑکی میں چراغ روشن کیا تھا کاش میں أس وقت بارش میں بھیگتی گلی سے گزر کر اُس کے پاس آتا۔
Two and a half thousand years ago, in a street in Athens, when it was raining at night, a pink-faced Greek girl lit an olive lamp in the window of her house, perhaps she was waiting for someone. Lacrates wrote this girl in one of his poems. What is mentioned?Today, neither that street nor the girl who lights the lamp of Zit and waits for someone. Even if I go out in search of that girl with a thousand lamps of Zit and a hundred thousand suns, I will not find her.I remember the night this Greek girl lit a lamp in the window of her house. I wish I could come to her by passing through the rain-drenched street.
(O Hameed)
5 notes · View notes