#آبی تنازعات
Explore tagged Tumblr posts
Text
بھارت کی دو ریاستوں کا کاویری دریا پر جھگڑا کیا ہے؟
ہندوستان کے آبی وسائل شدید دباؤ میں ہیں اور اس کا ایک بار پھر اظہار اس ہفتے ریاست کرناٹک میں کسانوں اور ٹریڈ یونینوں کی طرف سے پڑوسی ریاست تامل ناڈو کے ساتھ دریائے کاویری کے پانی کی تقسیم پر دوبارہ احتجاج سے ہوا۔ یہاں اس تنازع پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں، جس نے طویل عرصے سے بارش کی کمی کے برسوں میں سر اٹھایا ہے، جنوبی ریاستوں کے درمیان 150 سال سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ جھگڑا دریائے کاویری کرناٹک کے…
View On WordPress
0 notes
Text
#Pakistan پاکستان اوربھارت کے درمیان آبی تنازعات کا معاملہ
اسلام آباد: پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات پر کل ثالثی عدالت میں کیس لگے گا۔ ذرائع کے مطابق ہیگ (نیدرلینڈ) میں پاکستان اوربھارت کے درمیان آبی تنازعات سے متعلق کیس کی سماعت آج شروع ہونے جارہی ہے ثالثی عدالت کل تک پاکستان کے اعتراضات سنےگی۔ پاکستان نے کشن گنگا اور رتلے پن بجلی منصوبے کےڈیزائن پراعتراضات اٹھا رکھےہیں، پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت نے دریائےجہلم پر 330میگاواٹ کا کشن گنگاپن…
View On WordPress
0 notes
Text
فرار ہونے والے برطانوی طالب علم کا کہنا ہے کہ یوکرائن میں ہنگامہ آرائی 'بہت جلد شروع ہو سکتی ہے' #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%81%d8%b1%d8%a7%d8%b1-%db%81%d9%88%d9%86%db%92-%d9%88%d8%a7%d9%84%db%92-%d8%a8%d8%b1%d8%b7%d8%a7%d9%86%d9%88%db%8c-%d8%b7%d8%a7%d9%84%d8%a8-%d8%b9%d9%84%d9%85-%da%a9%d8%a7-%da%a9%db%81%d9%86%d8%a7/
فرار ہونے والے برطانوی طالب علم کا کہنا ہے کہ یوکرائن میں ہنگامہ آرائی 'بہت جلد شروع ہو سکتی ہے'
اے برطانوی طالب علم جو فرار ہو گیا۔ یوکرین انہوں نے کہا کہ لوگ ممکنہ ہنگامہ آرائی سے پ��لے وہاں سے نکلنے کے لیے جلدی کر رہے تھے جو روس کے حملے کی صورت میں “بہت تیزی سے شروع” ہو سکتی ہے۔
برمنگھم سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ حیدر علی نے PA خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ وسطی یوکرین میں Dnipro میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے طلباء ملک کے تنازعات سے متاثرہ مشرقی علاقوں سے یونیورسٹی کی قربت کے بارے میں فکر مند تھے۔
سے باہر پہلی تجارتی پروازوں میں سے ایک پر برطانیہ پہنچنے کے ایک دن بعد بات کرتے ہوئے کیف کے بعد غیر ملکی دفتر کے لیے بلایا برطانوی چھوڑنے کے لیے، مسٹر علی نے کہا کہ انھوں نے ساتھی طلبہ سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ٹکٹ بھی بک کریں۔
میں بہت شکر گزار ہوں کہ میں نے اپنے ٹکٹ جلد خریدے اور گھبراہٹ سے بچ گیا۔
طالب علم حیدر علی
“میں نے اپنے دوستوں سے کہا، ٹھیک ہے، یہ بہت زیادہ مہنگا ہونے والا ہے کیونکہ جب یہ شروع ہوتا ہے، تو یہ بہت تیزی سے شروع ہو جاتا ہے۔
“آپ جانتے ہیں، ہم سرحد سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ ہم سرحد سے صرف 200 میل، 150 میل دور ہیں جہاں کریمیا میں سب کچھ ہو رہا ہے۔
روس نے 2014 میں جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا جب کہ روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسند باغیوں نے یوکرین کی فوج کے ساتھ لڑائی میں مشرقی یوکرین کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کی حالیہ تعمیر نے اس خدشے کو جنم دیا ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کے خلاف ایک اور دراندازی کی تیاری کر رہا ہے۔
مسٹر علی نے کہا کہ یہ خدشات ہیں کہ روس یوکرین کے دارالحکومت تک دریائے ڈینیپر کے ساتھ ایک جنگی جہاز بھیج سکتا ہے، یہ ایک اہم آبی گزرگاہ ہے جو ڈنیپرو سے گزرتا ہے، اس شہر میں جہاں ان کی یونیورسٹی واقع ہے، یوکرین کے دارالحکومت تک۔
ڈنیپرو میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اس سے زیادہ دور نہیں ہے جہاں 2014 میں ملائیشیا ایئر لائنز کا ایک جیٹ مشرقی یوکرین کے اوپر مار گرایا گیا تھا، جس میں سوار تمام 298 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
مسٹر علی کے مطابق، ادارے نے طلباء پر زور دیا کہ وہ کمرشل پروازوں کا فائدہ اٹھائیں جب تک وہ دستیاب ہوں، کیونکہ “جب سامان شروع ہو جائے گا تو اس علاقے سے نکلنے والے کسی طیارے کو تلاش کرنا مشکل ہو گا”، مسٹر علی کے مطابق۔
مسٹر علی ��ے کہا کہ وہ یوکرین سے اپنے ہوائی جہاز کا ٹکٹ جلد خرید کر خوش ہوئے اور ‘گھبراہٹ سے بچ گئے’ (سوفی ونگیٹ/PA)
(PA وائر)
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے بہت سے برطانوی طلباء، ان کی طرح، ہفتے کے آخر میں گھر جا رہے تھے۔
“اگر وہ پہلے ہی نہیں گئے ہیں، تو میں توقع کروں گا کہ وہ بہت جلد واپس آ جائیں گے،” انہوں نے کہا۔
“بدھ کے قریب لوگوں کی اکثریت ختم ہو جائے گی”۔
میڈیکل کے طالب علم نے کہا: “میں بہت شکر گزار ہوں کہ میں نے اپنے ٹکٹ جلد خرید لیے اور گھبراہٹ سے بچ گیا۔
“کیونکہ اگر وہ کسی فوجی کارروائی کے لیے بھاگتے ہیں، تو فضائی حدود بند کر دی جائیں گی، اس لیے باہر نکلنے کا واحد راستہ مغرب کی طرف پولینڈ کی طرف ہوگا۔
“میرے دوست یوکرین کے اس پار ٹرین کو سرحد پر پولینڈ لے جانے اور وہاں سے گزرنے کے بارے میں بات کر چکے ہیں۔ ایک بار پھر، اگر ہر کوئی ایسا کرتا ہے تو قیمتیں بڑھ جائیں گی۔
مسٹر علی نے ہفتہ کے روز اپنی یوکرین انٹرنیشنل ایئر لائنز کی پرواز میں گیٹوک جانے والے 30 کلو سامان کے الاؤنس کا استعمال کرتے ہوئے جتنا سامان پیک کیا تھا، لیکن انہیں اپنا کچھ سامان پیچھے چھوڑنا پڑا۔
اس نے کہا کہ وہ “میرے واپس آنے سے پہلے حالات کے پرسکون ہونے کا انتظار کر رہے ہیں – اگر میں واپس آؤں”۔
وہ برمنگھم سے دور دراز سے اپنی تعلیم جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے جب تک کہ اسے جون میں یوکرین میں اپنے ریاستی میڈیکل لائسنس کے امتحان میں نہیں بیٹھنا پڑتا۔
مسٹر علی نے گزشتہ ستمبر میں ڈنیپرو میں اپنی گریجویٹ انٹری میڈیسن کی تعلیم کا آغاز کیا، اس اقدام نے روس کے ساتھ جاری کشیدگی کی وجہ سے ان کے والدین کو “کافی پریشان” کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کے لوگوں کا روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ارادوں کے بارے میں “لیزز فیئر” رویہ ہے، یہ کہتے ہوئے کہ “وہ ہمیشہ ہماری گردن نیچے سانس لے رہے ہیں”۔
انہوں نے کہا کہ “لیکن مجھے نہیں لگتا کہ انہوں نے اس پیمانے پر فوجی وسائل کی اتنی بڑی مقدار دیکھی ہو گی۔”
“زیادہ سے زیادہ لوگ شکار کرنے اور بحران کا مقابلہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں”۔
Source link
0 notes
Text
پاک بھارت آبی مذاکرات میں کسی بڑے بریک تھرو کی اُمید کم
لاہور —
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات آج بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہو رہے ہیں۔ پاکستانی وفد کی قیادت پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ جبکہ بھارت کی نمائندگی پردیپ کمار سیکسینا کر رہے ہیں۔
اٹھائیس جنوری سنہ دو ہزار انیس سے یکم فروری سنہ دو ہزار انیس تک جاری رہنے والے مذاکرات میں پاکستان دریائے جناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پانی اور بجلی کے منصوبوں کا معائنہ کریگا۔ سید مہر علی شاہ کی قیادت میں تین رکنی پاکستانی وفد گزشتہ روز واہگہ کے راستے بھارت روانہ ہو��۔ اپنی روانگی سے قبل پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے لوئر کلنائی اور پکل ڈل منصوبوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وہ دریائے چناب پر بنائے گئے بھارتی منصوبوں کا معائنہ کرینگے۔ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے دریائے چناب پر بنائے جانے والے دیگر منصوبوں کے معائنہ پر مثبت اشارے دیے گئے۔
“ڈوڈھا اور کِشتوار کے علاقوں میں جو بھارت کے ہائیڈرو پراجیکٹ خواہ وہ مکمل ہو چکے ہیں، زیر تعمیر ہیں اور ابھی ڈیزائن کے مرحلہ میں ہیں، جہاں تک بھارت ہمیں رسائی دیگا ہم اِن کا معائنہ کرینگے”۔
سید مہر علی شاہ نے بتایا کہ بھارت نے رواں ماہ نو جنوری سنہ دو ہزار انیس کو مذاکرات کی حامی بھری جس کے تحت وہ پاکستانی تحفظات سے پڑوسی ملک کو آگاہ کرینگے۔ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت سے جن دریاؤں کا پانی پاکستان کی طرف آ رہا ہے وفد اُن کا دورہ کریگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان نے بھر پور آواز بلند کی جس پر کامیابی ملی ہے۔
“بگلیہار ڈیم پر جب پاکستان نے کمیشن کی سطح پر اعتراضات اُٹھائے اور معاہدے کے مطابق تھرڈ پارٹی کے پاس گئے تو تھرڈ پارٹی نے پاکستانی موقف کی تائید کی”۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے پر نظر رکھے دنیا ٹی وی سے منسلک صحافی زاہد عابد سمجھتے ہیں کہ بہت کم عرصے میں دونوں ملک دوبارہ بات چیت کر رہے ہیں، جس سے دونوں ملکوں کو ہی فائدہ ہو گا اور انہیں کسی تیسرے فریق یا عدالت میں نہیں جانا پڑیگا۔ زاہد عابد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے کوئی بڑے بریک تھرو کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ پاکستان بھارت کے انڈس واٹر کمشنر فیصلے کرنے میں آزاد نہیں۔
“اِس مرتبہ خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارت نے خود سائٹس کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ گزشتہ پانچ ماہ میں پانی کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کا اکٹھے ہوتا ایک بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ معاہدے کے مطابق تو دونوں ملکوں کو ہر سال مذاکرات کرنے چاہیے جو ماضی میں ہوئے بھی ہیں لیکن بعض اوقات اِن مذاکرات میں کئی کئی سالوں کا وقفہ بھی آتا رہا ہے”۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت آبی مذاکرات کا یہ ایک سو انیسواں دور ہے۔ آبی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے گزشتہ سال اگست کے مہینے میں نو رکنی بھارتی وفد پاکستان آیا تھا جس میں پاکستان نے دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پکل ڈل ڈیم اور لوئر کلنائی ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ بھارت دریائے چناب پر پندرہ سو میگاواٹ کا پکل ڈل ڈیم اور پینتالیس میگا واٹ کا لوئر کلنائی ڈیم بنا رہا ہے۔ پاکستان کے مطابق دونوں منصوبوں کا ڈیزائن پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پائے جانے والے انیس سو ساٹھ کے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی ہے۔
The post پاک بھارت آبی مذاکرات میں کسی بڑے بریک تھرو کی اُمید کم appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sSOxHs via Roznama Urdu
#jang online newspaper#roznama urdu#naija newspapers#khabrain news epaper#all pakistani newspapers in
0 notes
Text
پاک بھارت آبی مذاکرات میں کسی بڑے بریک تھرو کی اُمید کم
لاہور —
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات آج بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہو رہے ہیں۔ پاکستانی وفد کی قیادت پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ جبکہ بھارت کی نمائندگی پردیپ کمار سیکسینا کر رہے ہیں۔
اٹھائیس جنوری سنہ دو ہزار انیس سے یکم فروری سنہ دو ہزار انیس تک جاری رہنے والے مذاکرات میں پاکستان دریائے جناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پانی اور بجلی کے منصوبوں کا معائنہ کریگا۔ سید مہر علی شاہ کی قیادت میں تین رکنی پاکستانی وفد گزشتہ روز واہگہ کے راستے بھارت روانہ ہوا۔ اپنی روانگی سے قبل پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے لوئر کلنائی اور پکل ڈل منصوبوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وہ دریائے چناب پر بنائے گئے بھارتی منصوبوں کا معائنہ کرینگے۔ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے دریائے چناب پر بنائے جانے والے دیگر منصوبوں کے معائنہ پر مثبت اشارے دیے گئے۔
“ڈوڈھا اور کِشتوار کے علاقوں میں جو بھارت کے ہائیڈرو پراجیکٹ خواہ وہ مکمل ہو چکے ہیں، زیر تعمیر ہیں اور ابھی ڈیزائن کے مرحلہ میں ہیں، جہاں تک بھارت ہمیں رسائی دیگا ہم اِن کا معائنہ کرینگے”۔
سید مہر علی شاہ نے بتایا کہ بھارت نے رواں ماہ نو جنوری سنہ دو ہزار انیس کو مذاکرات کی حامی بھری جس کے تحت وہ پاکستانی تحفظات سے پڑوسی ملک کو آگاہ کرینگے۔ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت سے جن دریاؤں کا پانی پاکستان کی طرف آ رہا ہے وفد اُن کا دورہ کریگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان نے بھر پور آواز بلند کی جس پر کامیابی ملی ہے۔
“بگلیہار ڈیم پر جب پاکستان نے کمیشن کی سطح پر اعتراضات اُٹھائے اور معاہدے کے مطابق تھرڈ پارٹی کے پاس گئے تو تھرڈ پارٹی نے پاکستانی موقف کی تائید کی”۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے پر نظر رکھے دنیا ٹی وی سے منسلک صحافی زاہد عابد سمجھتے ہیں کہ بہت کم عرصے میں دونوں ملک دوبارہ بات چیت کر رہے ہیں، جس سے دونوں ملکوں کو ہی فائدہ ہو گا اور انہیں کسی تیسرے فریق یا عدالت میں نہیں جانا پڑیگا۔ زاہد عابد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے کوئی بڑے بریک تھرو کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ پاکستان بھارت کے انڈس واٹر کمشنر فیصلے کرنے میں آزاد نہیں۔
“اِس مرتبہ خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارت نے خود سائٹس کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ گزشتہ پانچ ماہ میں پانی کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کا اکٹھے ہوتا ایک بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ معاہدے کے مطابق تو دونوں ملکوں کو ہر سال مذاکرات کرنے چاہیے جو ماضی میں ہوئے بھی ہیں لیکن بعض اوقات اِن مذاکرات میں کئی کئی سالوں کا وقفہ بھی آتا رہا ہے”۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت آبی مذاکرات کا یہ ایک سو انیسواں دور ہے۔ آبی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے گزشتہ سال اگست کے مہینے میں نو رکنی بھارتی وفد پاکستان آیا تھا جس میں پاکستان نے دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پکل ڈل ڈیم اور لوئر کلنائی ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ بھارت دریائے چناب پر پندرہ سو میگاواٹ کا پکل ڈل ڈیم اور پینتالیس میگا واٹ کا لوئر کلنائی ڈیم بنا رہا ہے۔ پاکستان کے مطابق دونوں منصوبوں کا ڈیزائن پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پائے جانے والے انیس سو ساٹھ کے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی ہے۔
The post پاک بھارت آبی مذاکرات میں کسی بڑے بریک تھرو کی اُمید کم appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sSOxHs via India Pakistan News
0 notes
Text
پاک بھارت آبی مذاکرات میں کسی بڑے بریک تھرو کی اُمید کم
لاہور —
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات آج بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہو رہے ہیں۔ پاکستانی وفد کی قیادت پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ جبکہ بھارت کی نمائندگی پردیپ کمار سیکسینا کر رہے ہیں۔
اٹھائیس جنوری سنہ دو ہزار انیس سے یکم فروری سنہ دو ہزار انیس تک جاری رہنے والے مذاکرات میں پاکستان دریائے جناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پانی اور بجلی کے منصوبوں کا معائنہ کریگا۔ سید مہر علی شاہ کی قیادت میں تین رکنی پاکستانی وفد گزشتہ روز واہگہ کے راستے بھارت روانہ ہوا۔ اپنی روانگی سے قبل پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے لوئر کلنائی اور پکل ڈل منصوبوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وہ دریائے چناب پر بنائے گئے بھارتی منصوبوں کا معائنہ کرینگے۔ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے دریائے چناب پر بنائے جانے والے دیگر منصوبوں کے معائنہ پر مثبت اشارے دیے گئے۔
“ڈوڈھا اور کِشتوار کے علاقوں میں جو بھارت کے ہائیڈرو پراجیکٹ خواہ وہ مکمل ہو چکے ہیں، زیر تعمیر ہیں اور ابھی ڈیزائن کے مرحلہ میں ہیں، جہاں تک بھارت ہمیں رسائی دیگا ہم اِن کا معائنہ کرینگے”۔
سید مہر علی شاہ نے بتایا کہ بھارت نے رواں ماہ نو جنوری سنہ دو ہزار انیس کو مذاکرات کی حامی بھری جس کے تحت وہ پاکستانی تحفظات سے پڑوسی ملک کو آگاہ کرینگے۔ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت سے جن دریاؤں کا پانی پاکستان کی طرف آ رہا ہے وفد اُن کا دورہ کریگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان نے بھر پور آواز بلند کی جس پر کامیابی ملی ہے۔
“بگلیہار ڈیم پر جب پاکستان نے کمیشن کی سطح پر اعتراضات اُٹھائے اور معاہدے کے مطابق تھرڈ پارٹی کے پاس گئے تو تھرڈ پارٹی نے پاکستانی موقف کی تائید کی”۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے پر نظر رکھے دنیا ٹی وی سے منسلک صحافی زاہد عابد سمجھتے ہیں کہ بہت کم عرصے میں دونوں ملک دوبارہ بات چیت کر رہے ہیں، جس سے دونوں ملکوں کو ہی فائدہ ہو گا اور انہیں کسی تیسرے فریق یا عدالت میں نہیں جانا پڑیگا۔ زاہد عابد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے کوئی بڑے بریک تھرو کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ پاکستان بھارت کے انڈس واٹر کمشنر فیصلے کرنے میں آزاد نہیں۔
“اِس مرتبہ خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارت نے خود سائٹس کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ گزشتہ پانچ ماہ میں پانی کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کا اکٹھے ہوتا ایک بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ معاہدے کے مطابق تو دونوں ملکوں کو ہر سال مذاکرات کرنے چاہیے جو ماضی میں ہوئے بھی ہیں لیکن بعض اوقات اِن مذاکرات میں کئی کئی سالوں کا وقفہ بھی آتا رہا ہے”۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت آبی مذاکرات کا یہ ایک سو انیسواں دور ہے۔ آبی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے گزشتہ سال اگست کے مہینے میں نو رکنی بھارتی وفد پاکستان آیا تھا جس میں پاکستان نے دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پکل ڈل ڈیم اور لوئر کلنائی ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ بھارت دریائے چناب پر پندرہ سو میگاواٹ کا پکل ڈل ڈیم اور پینتالیس میگا واٹ کا لوئر کلنائی ڈیم بنا رہا ہے۔ پاکستان کے مطابق دونوں منصوبوں کا ڈیزائن پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پائے جانے والے انیس سو ساٹھ کے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی ہے۔
The post پاک بھارت آبی مذاکرات میں کسی بڑے بریک تھرو کی اُمید کم appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sSOxHs via Daily Khabrain
0 notes
Text
پاک بھارت آبی مذاکرات میں کسی بڑے بریک تھرو کی اُمید کم
لاہور —
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات آج بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہو رہے ہیں۔ پاکستانی وفد کی قیادت پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ جبکہ بھارت کی نمائندگی پردیپ کمار سیکسینا کر رہے ہیں۔
اٹھائیس جنوری سنہ دو ہزار انیس سے یکم فروری سنہ دو ہزار انیس تک جاری رہنے والے مذاکرات میں پاکستان دریائے جناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پانی اور بجلی کے منصوبوں کا معائنہ کریگا۔ سید مہر علی شاہ کی قیادت میں تین رکنی پاکستانی وفد گزشتہ روز واہگہ کے راستے بھارت روانہ ہوا۔ اپنی روانگی سے قبل پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے لوئر کلنائی اور پکل ڈل منصوبوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وہ دریائے چناب پر بنائے گئے بھارتی منصوبوں کا معائنہ کرینگے۔ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے دریائے چناب پر بنائے جانے والے دیگر منصوبوں کے معائنہ پر مثبت اشارے دیے گئے۔
“ڈوڈھا اور کِشتوار کے علاقوں میں جو بھارت کے ہائیڈرو پراجیکٹ خواہ وہ مکمل ہو چکے ہیں، زیر تعمیر ہیں اور ابھی ڈیزائن کے مرحلہ میں ہیں، جہاں تک بھارت ہمیں رسائی دیگا ہم اِن کا معائنہ کرینگے”۔
سید مہر علی شاہ نے بتایا کہ بھارت نے رواں ماہ نو جنوری سنہ دو ہزار انیس کو مذاکرات کی حامی بھری جس کے تحت وہ پاکستانی تحفظات سے پڑوسی ملک کو آگاہ کرینگے۔ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت سے جن دریاؤں کا پانی پاکستان کی طرف آ رہا ہے وفد اُن کا دورہ کریگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان نے بھر پور آواز بلند کی جس پر کامیابی ملی ہے۔
“بگلیہار ڈیم پر جب پاکستان نے کمیشن کی سطح پر اعتراضات اُٹھائے اور معاہدے کے مطابق تھرڈ پارٹی کے پاس گئے تو تھرڈ پارٹی نے پاکستانی موقف کی تائید کی”۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے پر نظر رکھے دنیا ٹی وی سے منسلک صحافی زاہد عابد سمجھتے ہیں کہ بہت کم عرصے میں دونوں ملک دوبارہ بات چیت کر رہے ہیں، جس سے دونوں ملکوں کو ہی فائدہ ہو گا اور انہیں کسی تیسرے فریق یا عدالت میں نہیں جانا پڑیگا۔ زاہد عابد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے کوئی بڑے بریک تھرو کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ پاکستان بھارت کے انڈس واٹر کمشنر فیصلے کرنے میں آزاد نہیں۔
“اِس مرتبہ خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارت نے خود سائٹس کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ گزشتہ پانچ ماہ میں پانی کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کا اکٹھے ہوتا ایک بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ معاہدے کے مطابق تو دونوں ملکوں کو ہر سال مذاکرات کرنے چاہیے جو ماضی میں ہوئے بھی ہیں لیکن بعض اوقات اِن مذاکرات میں کئی کئی سالوں کا وقفہ بھی آتا رہا ہے”۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت آبی مذاکرات کا یہ ایک سو انیسواں دور ہے۔ آبی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے گزشتہ سال اگست کے مہینے میں نو رکنی بھارتی وفد پاکستان آیا تھا جس میں پاکستان نے دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پکل ڈل ڈیم اور لوئر کلنائی ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ بھارت دریائے چناب پر پندرہ سو میگاواٹ کا پکل ڈل ڈیم اور پینتالیس میگا واٹ کا لوئر کلنائی ڈیم بنا رہا ہے۔ پاکستان کے مطابق دونوں منصوبوں کا ڈیزائن پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پائے جانے والے انیس سو ساٹھ کے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی ہے۔
The post پاک بھارت آبی مذاکرات میں کسی بڑے بریک تھرو کی اُمید کم appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2sSOxHs via Urdu News
0 notes
Photo
پاک بھارت آبی تنازع پر بات چیت کیلئے پاکستانی وفد بھارت روانہ لاہور: پاک بھارت آبی تنازعات پر بات چیت کے لیے پاکستانی انڈس واٹرکمشنر سیدمہرعلی شاہ کی سربراہی میں وفد بھارت روانہ ہوگیا۔ آبی تنازعات پر پاک بھارت مذاکرات نئی دہلی میں ہورہے ہیں، 3 رکنی پاکستانی وفد انڈس واٹرکمشنر سید مہرعلی شاہ کی سربراہی میں بھارت روانہ ہوا ہے، جہاں پاکستانی وفد دریائے چناب پر بھارتی آبی ذخائرکے منصوبوں، لوئرکلنائی اور پاکل دل منصوبوں کا معائنہ کرے گا۔ پاکستان کو آخری بار 2014 میں بھارت کے آبی منصوبوں کے معائنے کی اجازت دی گئی تھی۔ گزشتہ سال لاہورمیں پاک بھارت انڈس واٹرکمیشن کا مشترکہ اجلاس ہوا تھا جس کے بعد بھارت نے اسی سال پاکستانی وفد کو بھارت کے دورہ کی دعوت تھی جو بعد میں منسوخ ہوگئی تھی۔ سیدمہرعلی شاہ پُرامید ہیں کہ وہ مذاکرات میں کھل کر پاکستان کے موقف اور بھارت کے متنازعہ آبی ذخائر کے منصوبوں پر بات کریں گے۔ پاکستانی انڈس واٹرکمشنر نے مزید بتایا کہ پاکستان کے احتجاج اور ورلڈ بینک کی مداخلت سے بھارت کو بگلیہارڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنا پڑی تھی، پاکستانی وفد مذاکرات کے بعد یکم فروری کو واپس لوٹے گا۔
0 notes
Text
آبی تنازعات پر پا�� بھارت مذاکرات بلا نتيجہ ختم
پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے مذاکرات کے دو روز پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ہوئے، جس میں دونوں ملکوں کے سندھ طاس کمشنر اور آبی ماہرین شریک ہوئے۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو دی گئی بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ پاک بھارت انڈس واٹر کمشنروں کے اجلاس میں اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق، دو روز میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے چار دور ہوئے، جن میں دونوں ممالک اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ پاکستان کی درخواست پر بلائے گئے اجلاس میں پاکستان نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ’پکل ڈل ڈیم‘ اور ’لوئیر کلنائی‘ منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
پاکستاني انڈس واٹر کمشنر، سید مہر علی شاہ کا کہنا تھا کہ دونوں منصوبے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ’پکل ڈل ڈیم‘ اور ’لوئر کلنئی ہائیڈرو پاور پراجیکٹس‘ سے پاکستان کو پانی کی کمی ہو گی۔ پاکستان نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ ’پکل ڈل پروجیکٹ‘ کی اونچائی میں کمی جبکہ ’لوئر کلنئی‘ منصوبے کے ڈیزائن میں بھی تبدیلی کرے۔ اطلاعات کے مطابق، پاکستان کے جواب میں بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ بھارتي وفد کا مؤقف تھا کہ انہیں بھی پانی کی کمی کا سامنا ہے، آبی ذخائر نہ ہونے سے پانی کی بڑی مقدار سمندر میں چلی جاتی ہے۔ موسمی تبدیلیوں کے باعث دریاؤں میں پانی کي کمی ہے۔ بھارتی انڈس واٹر کمشنر پی کے سیکسینا کا مؤقف تھا کہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بنانا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
انڈس واٹر کمشنرز مذاکرات میں بھارت نے پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات مسترد کر دئیے، جبکہ ’پکل ڈل ڈیم‘ اور ’لوئر کلنئی‘ پر کام جاری رکھنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ بھارتی وفد نے پاکستان کے تحفظات پر اپنی حکومت کو آگاہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے اور مزید بات چیت آئندہ اجلاس میں کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ انڈس واٹر کمشنرز کے آئندہ اجلاس کا شیڈول بعد میں طے ہو گا۔ پاکستان نے اس سے قبل بھی دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے کشن گنگا ڈیم پر اعتراض اٹھایا تھا اور معاملہ عالمی عدالت تک پہنچا تھا جہاں پاکستان یہ معاملہ ہار گیا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے یہ ایک سو پندرہوں اجلاس تھا۔ اس سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات رواں برس بھارت کے دارلخلافہ نیو دہلی میں ہوئے تھے۔
کنور رحمان خان
وائس آف امریکہ
0 notes
Text
پاک بھارت آبی جنگ
گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے ایک بڑے تھنک ٹینک پاکستان ہاؤس کی جانب سے پانی و بجلی کے بحران پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں انرجی کے ماہرین، ممتاز صنعتکاروں اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کیپٹن (ر) ہاشم رضا زیدی نے اس اہم موضوع پر تقاریر کیں۔ پاکستان ہاؤس تھنک ٹینک کے چیپٹرز پاکستان کے علاوہ کوپن ہیگن اور برلن میں بھی قائم ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے اہم ملکی عالمی مسائل پر کانفرنسوں کا انعقاد کر کے حکومت کو سفارشات بھیجتے ہیں۔ تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر جنرل رانا اطہر جاوید جو ہماری نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے المنای بھی ہیں، نے مجھے اس کانفرنس میں خصوصی طور پر خطاب کیلئے مدعو کیا تھا،۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، نیشنل سکیورٹی اور اہم قومی پالیسیاں بنانے میں حکومت کو اعلی سطح پر اہم سفارشات پیش کرتی ہے اور پالیسی میکرز ان سفارشات کو نہایت اہمیت دیتے ہیں۔
میں نے بھی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے المنائی کا ممبر ہوں جس نے گزشتہ دنوں کراچی میں امن اور سکیورٹی پر کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس سے کور کمانڈر کراچی لیفٹنٹ جنرل نوید مختار نے اہم خطاب کیا تھا۔ پاکستان ہاؤس کی پانی و بجلی کے بحران پر منعقدہ کانفرنس میں میں نے اپنے خطاب میں شرکاء کو بتایا کہ 1992ء میں اسٹاک ہوم میں ہونے والی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس میں معروف مغربی دانشور لیسٹر آر براؤن نے کہا تھا کہ مشرق وسطی میں آئندہ جنگین تیل کے بجائے پانی پر ہوں گی لیکن بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اب قیاس اارائیاں ہو رہی ہیں کہ برصغیر میں آبی جارحیت اور ہمسایہ ممالک سے آبی تنازعات پاکستان اور بھارت کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا سکتے ہیں.
پاکستان اور بھارت کے مابین 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا جسکے تحت بھارت نے تین دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا تصرف تسلیم کیا تھا۔ پانی کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدے کو کامیاب معاہدہ قرار دیا جا سکتا ہے جو دو جنگوں اور 2002ء کے کشیدہ حالات کے باوجود بھی قائم رہا تاہم بھارت کا پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے سب سے بڑا ہدف سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ کرنا ہے جسکے لیے وہ امریکہ و نیٹو ممالک کی اشیرباد سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو پانی روک لیتا ہے لیکن بارشوں کے موسم میں بھارت اسی پانی کو چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب کی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔
بھارت یہ عمل گزشتہ کئی سالوں سے کر رہا ہے مگر سرکاری سطح پر اس بات سے انحراف کرتا رہا ہے کہ اسکے چھوڑے گئے اضافی پانی سے پاکستان میں سیلاب آتے ہیںَ اسی سلسلے میں پاکستان بگیہار کی تعمیر کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے لیکن بھارت کا یہ کہنا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت دریاؤں کے پانی کو کچھ عرصے کیلئے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے لہذا بگیہار ڈیم کی تعمیر معاہدے کی خاف ورزی نہیں۔
بھارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں میٹھے پانی کے ڈیموں کے ذریعے ذخیرہ کرنے کی بجائے اسے سمندر میں بہا دیتا ہے لہذا بھارت کا یہ حق ہے کہ وہ ضائع ہونے والے پانی کیلئے ڈیم بنا کر اسے اپنے استعمال میں لا سکے اور ضرورت پڑنے پر پاکستان کو بھی فراہم کر سکے۔ اس سنگین تنازعات کی بنیاد پر مختلف تھنک ٹینکس جو ایٹمی سیاسی یا ممکنہ ایٹمی جنگوں کے امکانات پر ریسرچ کر رہے ہیں، بھی پاک بھارت آبی تنازعات کو ممکنہ ایٹمی جنگ کے خدشات بتا رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کو اللہ تعالیٰ نے کئی بڑے دریاؤں سے نوازا ہے جسکے باعث جنوبی ایشیاء میں وسیع پیمانے پر اناج پیدا ہوتا ہے اور اس خطے کا زرعات کا دارومدار پانی پر پے۔ پاکستان کے پاس ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 11.55 ملین ایکڑ فٹ ہے، اس طرح ہم صرف ملین ایکڑ فٹ ہے، اس طرح ہم صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں، بھارت 120دن تک جبکہ امریکہ 900 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس طرح پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی فی کس مقدار 150 کیوبک میٹر ، چین میں 2200 کیوبک میٹر، آسٹریلیا اور امریکہ میں 5000 کیوبک میٹر ہے۔ اس طرح پاکستان اپنے دستیاب آبی وسائل کا صرف 7% پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب 40% ہے جسکی وجہ سے پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی پوری دنیا میں سب سے کم یعنی کیوبک میٹر ہے جبکہ امریکہ میں فی کس پانی کی دستیابی 6150 کیوبک میٹر ہے ۔
یوں پاکستان اپنے دستیاب پانی کو ذخیرہ نہ کر کے سالانہ 30 سے 35 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا رہا ہے جبکہ کالا باغ، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم کی تعمیری لاگت صرف 25 ارب ڈالر ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے آج پاکستان بجلے کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور ہم سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے بجائے مہنگے ذرائع سے بجلی پیدا کر رہے ہیں جس سے ہمارا ملک کا انرجی مکس خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں نہایت مہنگا ہے ۔
حال ہی میں میرے ایک دیرینہ دوست اور نیپرا کے چیئرمین بریگیڈیئر طارق سدوزئی سرکاری دورے پر کراچی تشریف لائے۔ دوران ملاقات انہوں نے وفاقی حکومت اور نیپرا کی بجلی کی ترجیحات کے حوالے سے مجھے بتایا کہ حکومت کی پہلی ترجیح پانی سے زیادہ سے زیادہ ہائیڈرو بجلی پیدا کرنا ہے جس کے خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں وسیع ذرائع موجود ہیں جبکہ حکومت کی دوسری ترجیح کوئلے سے بجلی کے منصوبے ہیں جس میں ابتداء میں امپورٹ کیا گیا کوئلہ استعمال کیا جائے گا لیکن ان پلانٹس کی ٹیکنالوجی ایسی ہوگی کہ بعد میں تھر کا مقامی کوئلہ بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے حکومت کی تیسری ترجیح ایل این جی سے چلنے والے بجلے گھر ہیں جبکہ چوتھے نمبر پر متبادل ذرائع یعنی ہوا اور شمسی توانائی سے ��جلی پیدا کرنے کے منصوبے ہیں جنکی پالیسیاں اور ٹیرف کیلئے نیپرا میں پروفیشنل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور ایم بی اے پوری دنیا کا ڈیٹا سامنے رکھ کر ملکی مفاد میں پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔
حکومت کی ترجیح مختصر المیعاد منصوبے ہیں تاکہ موجودہ دور حکومت مین بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نے کراچی میں فیڈریشن آف پاکساتن چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ایکسپورٹ ٹرافی اوارڈ میں بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ 2018ء تک ملک سے بجلی کا بحران اسپیشل میرٹ ٹرافی ایوارڈ FPCCI ختم کر دیا جائے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سال بھی ہماری کمپنی نے مسلسل 16ویں بار وزیر اعظم سے وصول کیا لیکن موجودہ حالات میں ملک میں پانی اور بجلی کی کمی سے صنعتکاری کا عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
نئی صنعتیں نہیں لگ رہیں جسکی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ جمود کا شکار ہے اور ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقو پیدا نہیں ہو رہے جو ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال کا سبب بن رہے ہیں۔ کراچی میں پانی کی قلت ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے اور کراچی کے صنعتکار اور ایکسپورٹرز اپنی صنعتوں کیلئے ٹٰنکر مافیا سے کروڑوں روپے سالانہ کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں جس سے بنائے گئے فیبرک کی کوالٹی بھی غیر معیاری ہوتی ہے۔ کراچی واٹر بورڈ کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2 کروڑ کی آبادی کے شہر کراچی کیلئے 1100 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے لیکن واٹر بورڈ شہر کو نصف 550 ملین گیلن یومیہ فراہم کر رہا ہے جسکی وجہ سے عوام اور صنعتکار اپنی ہی پانی ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔
کراچی میں ڈی سلینیشن پلانٹس کے ذریعے سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ خلیجی ممالک میں کیا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیمز بنانے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور ایک وقت میں سینکڑوں ڈیم تعمیر ہوتے ہیں تاکہ آبادی بڑھنے کی صورت میں اضافہ پانی اور بجلی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے لیکن پاکستان میں کئی دہائیوں سے کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا لہذا حکومت کو ملک میں بجلی اور پانی کی کمی دور کرنے کیلئے ترجیحی بنیاد پر پانی کا ذخیرہ کرنے کیلئے کئی ڈیم بنانے ہوں گے جن سے نہ صرف عوام اور زراعت کیلئے پانی دستیاب ہو سکے گا بلکہ انکے ذریعے سستی بجلے پیدا کر کے بجلی کے بحران پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
#Water dispute between India and Pakistan#Water Crises in Pakistan#Urdu Columns#Pakistan#Mirza Ikhtiar Baig#Indus Waters Treaty#India
0 notes
Text
جنرل مکنزی نے امریکی سینٹرل کمان کی سربراہی سنبھال لی
واشنگٹن —
میرین کور کے جنرل کینتھ فرینک مکنزی نے امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمان مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے۔
جمعرات کو فلوریڈا کے میکڈل ایئر فورس کے ٹمپا بیس میں منعقد کمان سنبھالنے کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، مکنزی نے کہا کہ اُن کی کمان ’’وہ کچھ کرنے کے لیے تیار ہے جو کہ اسے کہا گیا ہے‘‘، ایسے میں جب امریکہ نے عراق اور شام میں داعش کے خاتمےکی کارروائیاں مکمل کرلی ہیں اور افغانستان میں طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔
مکنزی نے آرمی جنرل جوزف وٹل سے عہدے کا چارج لیا، جنھوں نے 30 مارچ 2016ء سے امریکی سنٹرل کمان کی سربراہی کے فرائض انجام دیے۔
وٹل نے خطے میں امریکی اور بین الاقوامی کوششوں کو سراہا؛ اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے فوجی قائدین کی تقریب میں شرکت کی تعریف کی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہماری مدد سے شکست و پسپائی سے ہمکنار عراقی فوج، ایک بار پھر ’فینکس‘ کے انداز میں دشمن پر جھپٹی؛ اور 2014ء میں ابھر کر سامنے آئی اور اب فخریہ طور پر اپنے ملک کا دفاع کر رہی ہے‘‘۔
سال 2014میں عراق اور شام میں داعش کا زور تھا، جب کہ گذشتہ ہفتے بین الاقوامی افواج نے دولت اسلامیہ کی شکست کا اعلان کیا ہے اور مشرقی شام میں واقع داعش کے آخری گڑھ کو واگزار کرا لیا ہے۔
وٹل نے کہا کہ ’’ہم کبھی بھی انتہاپسندوں کو اس علاقے میں پنپنے کی اجازت نہیں دیں گے، تاکہ اس مقام سے کبھی ہمارے ملک پر حملے کا نہ سوچا جا سکے’’، اور ’’ہمارے لیے لازم ہے کہ اہم آبی گزرگاہوں کی جانب رسائی کی نگرانی کی جائے، جہاں سے عالمی کاروبار میں مدد ملتی ہے اور جہازرانی کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے‘‘۔
وٹل نے افغانستان میں جاری لڑائی کا بھی حوالہ دیا، اور افغان اور بین الاقوامی ساجھے داروں کی تعریف کی جنھوں نے ’’فوجی دباؤ ڈال کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا اور بات چیت کے ذریعے اس طویل لڑائی کے تصفیے کی اصل راہ کی جانب ڈال دیا‘‘۔
ایسے میں جب افغانستان میں افغان سیکورٹی فورسز انتہاپسندوں کے خلاف لڑائی کی قیادت کر رہی ہیں، امریکی فوج تقریباً دو عشروں سے مختلف حیثیت سے افغانستان کی لڑائی میں ساتھ دے رہی ہے، جس حقیقت پر امریکی صدر نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔
ووٹل نے کہا کہ ’’ہمارے صدر نے حالیہ دنوں کہا ہے کہ عظیم قومیں ہمیشہ لڑائیاں نہیں لڑا کرتیں، اور ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام تنازعات کا اختتام ہو‘‘۔
ساتھ اُنھوں نے کہا ’’لیکن، کوئی چاہے بھی تو فوری طور پر ایسا نہیں ہوگا، لیکن ایسا ہو سکتا ہے‘‘۔
جنگ کے شکار افغانستان میں اس وقت اندازاً 14000 امریکی فوج تعینات ہے۔
The post جنرل مکنزی نے امریکی سینٹرل کمان کی سربراہی سنبھال لی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2JS16Ov via Today Pakistan
0 notes
Text
جنرل مکنزی نے امریکی سینٹرل کمان کی سربراہی سنبھال لی
واشنگٹن —
میرین کور کے جنرل کینتھ فرینک مکنزی نے امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمان مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے۔
جمعرات کو فلوریڈا کے میکڈل ایئر فورس کے ٹمپا بیس میں منعقد کمان سنبھالنے کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، مکنزی نے کہا کہ اُن کی کمان ’’وہ کچھ کرنے کے لیے تیار ہے جو کہ اسے کہا گیا ہے‘‘، ایسے میں جب امریکہ نے عراق اور شام میں داعش کے خاتمےکی کارروائیاں مکمل کرلی ہیں اور افغانستان میں طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔
مکنزی نے آرمی جنرل جوزف وٹل سے عہدے کا چارج لیا، جنھوں نے 30 مارچ 2016ء سے امریکی سنٹرل کمان کی سربراہی کے فرائض انجام دیے۔
وٹل نے خطے میں امریکی اور بین الاقوامی کوششوں کو سراہا؛ اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے فوجی قائدین کی تقریب میں شرکت کی تعریف کی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہماری مدد سے شکست و پسپائی سے ہمکنار عراقی فوج، ایک بار پھر ’فینکس‘ کے انداز میں دشمن پر جھپٹی؛ اور 2014ء میں ابھر کر سامنے آئی اور اب فخریہ طور پر اپنے ملک کا دفاع کر رہی ہے‘‘۔
سال 2014میں عراق اور شام میں داعش کا زور تھا، جب کہ گذشتہ ہفتے بین الاقوامی افواج نے دولت اسلامیہ کی شکست کا اعلان کیا ہے اور مشرقی شام میں واقع داعش کے آخری گڑھ کو واگزار کرا لیا ہے۔
وٹل نے کہا کہ ’’ہم کبھی بھی انتہاپسندوں کو اس علاقے میں پنپنے کی اجازت نہیں دیں گے، تاکہ اس مقام سے کبھی ہمارے ملک پر حملے کا نہ سوچا جا سکے’’، اور ’’ہمارے لیے لازم ہے کہ اہم آبی گزرگاہوں کی جانب رسائی کی نگرانی کی جائے، جہاں سے عالمی کاروبار میں مدد ملتی ہے اور جہازرانی کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے‘‘۔
وٹل نے افغانستان میں جاری لڑائی کا بھی حوالہ دیا، اور افغان اور بین الاقوامی ساجھے داروں کی تعریف کی جنھوں نے ’’فوجی دباؤ ڈال کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا اور بات چیت کے ذریعے اس طویل لڑائی کے تصفیے کی اصل راہ کی جانب ڈال دیا‘‘۔
ایسے میں جب افغانستان میں افغان سیکورٹی فورسز انتہاپسندوں کے خلاف لڑائی کی قیادت کر رہی ہیں، امریکی فوج تقریباً دو عشروں سے مختلف حیثیت سے افغانستان کی لڑائی میں ساتھ دے رہی ہے، جس حقیقت پر امریکی صدر نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔
ووٹل نے کہا کہ ’’ہمارے صدر نے حالیہ دنوں کہا ہے کہ عظیم قومیں ہمیشہ لڑائیاں نہیں لڑا کرتیں، اور ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام تنازعات کا اختتام ہو‘‘۔
ساتھ اُنھوں نے کہا ’’لیکن، کوئی چاہے بھی تو فوری طور پر ایسا نہیں ہوگا، لیکن ایسا ہو سکتا ہے‘‘۔
جنگ کے شکار افغانستان میں اس وقت اندازاً 14000 امریکی فوج تعینات ہے۔
The post جنرل مکنزی نے امریکی سینٹرل کمان کی سربراہی سنبھال لی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2JS16Ov via
#jang news today#jang akhbar today#pakistan urdu newspapers online#pakistan papers#daily jang pk#dail
0 notes
Text
جنرل مکنزی نے امریکی سینٹرل کمان کی سربراہی سنبھال لی
واشنگٹن —
میرین کور کے جنرل کینتھ فرینک مکنزی نے امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمان مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے۔
جمعرات کو فلوریڈا کے میکڈل ایئر فورس کے ٹمپا بیس میں منعقد کمان سنبھالنے کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، مکنزی نے کہا کہ اُن کی کمان ’’وہ کچھ کرنے کے لیے تیار ہے جو کہ اسے کہا گیا ہے‘‘، ایسے میں جب امریکہ نے عراق اور شام میں داعش کے خاتمےکی کارروائیاں مکمل کرلی ہیں اور افغانستان میں طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔
مکنزی نے آرمی جنرل جوزف وٹل سے عہدے کا چارج لیا، جنھوں نے 30 مارچ 2016ء سے امریکی سنٹرل کمان کی سربراہی کے فرائض انجام دیے۔
وٹل نے خطے میں امریکی اور بین الاقوامی کوششوں کو سراہا؛ اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے فوجی قائدین کی تقریب میں شرکت کی تعریف کی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہماری مدد سے شکست و پسپائی سے ہمکنار عراقی فوج، ایک بار پھر ’فینکس‘ کے انداز میں دشمن پر جھپٹی؛ اور 2014ء میں ابھر کر سامنے آئی اور اب فخریہ طور پر اپنے ملک کا دفاع کر رہی ہے‘‘۔
سال 2014میں عراق اور شام میں داعش کا زور تھا، جب کہ گذشتہ ہفتے بین الاقوامی افواج نے دولت اسلامیہ کی شکست کا اعلان کیا ہے اور مشرقی شام میں واقع داعش کے آخری گڑھ کو واگزار کرا لیا ہے۔
وٹل نے کہا کہ ’’ہم کبھی بھی انتہاپسندوں کو اس علاقے میں پنپنے کی اجازت نہیں دیں گے، تاکہ اس مقام سے کبھی ہمارے ملک پر حملے کا نہ سوچا جا سکے’’، اور ’’ہمارے لیے لازم ہے کہ اہم آبی گزرگاہوں کی جانب رسائی کی نگرانی کی جائے، جہاں سے عالمی کاروبار میں مدد ملتی ہے اور جہازرانی کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے‘‘۔
وٹل نے افغانستان میں جاری لڑائی کا بھی حوالہ دیا، اور افغان اور بین الاقوامی ساجھے داروں کی تعریف کی جنھوں نے ’’فوجی دباؤ ڈال کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا اور بات چیت کے ذریعے اس طویل لڑائی کے تصفیے کی اصل راہ کی جانب ڈال دیا‘‘۔
ایسے میں جب افغانستان میں افغان سیکورٹی فورسز انتہاپسندوں کے خلاف لڑائی کی قیادت کر رہی ہیں، امریکی فوج تقریباً دو عشروں سے مختلف حیثیت سے افغانستان کی لڑائی میں ساتھ دے رہی ہے، جس حقیقت پر امریکی صدر نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔
ووٹل نے کہا کہ ’’ہمارے صدر نے حالیہ دنوں کہا ہے کہ عظیم قومیں ہمیشہ لڑائیاں نہیں لڑا کرتیں، اور ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام تنازعات کا اختتام ہو‘‘۔
ساتھ اُنھوں نے کہا ’’لیکن، کوئی چاہے بھی تو فوری طور پر ایسا نہیں ہوگا، لیکن ایسا ہو سکتا ہے‘‘۔
جنگ کے شکار افغانستان میں اس وقت اندازاً 14000 امریکی فوج تعینات ہے۔
The post جنرل مکنزی نے امریکی سینٹرل کمان کی سربراہی سنبھال لی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2JS16Ov via Today Urdu News
0 notes
Text
جنرل مکنزی نے امریکی سینٹرل کمان کی سربراہی سنبھال لی
واشنگٹن —
میرین کور کے جنرل کینتھ فرینک مکنزی نے امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمان مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے۔
جمعرات کو فلوریڈا کے میکڈل ایئر فورس کے ٹمپا بیس میں منعقد کمان سنبھالنے کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، مکنزی نے کہا کہ اُن کی کمان ’’وہ کچھ کرنے کے لیے تیار ہے جو کہ اسے کہا گیا ہے‘‘، ایسے میں جب امریکہ نے عراق اور شام میں داعش کے خاتمےکی کارروائیاں مکمل کرلی ہیں اور افغانستان میں طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔
مکنزی نے آرمی جنرل جوزف وٹل سے عہدے کا چارج لیا، جنھوں نے 30 مارچ 2016ء سے امریکی سنٹرل کمان کی سربراہی کے فرائض انجام دیے۔
وٹل نے خطے میں امریکی اور بین الاقوامی کوششوں کو سراہا؛ اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے فوجی قائدین کی تقریب میں شرکت کی تعریف کی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہماری مدد سے شکست و پسپائی سے ہمکنار عراقی فوج، ایک بار پھر ’فینکس‘ کے انداز میں دشمن پر جھپٹی؛ اور 2014ء میں ابھر کر سامنے آئی اور اب فخریہ طور پر اپنے ملک کا دفاع کر رہی ہے‘‘۔
سال 2014میں عراق اور شام میں داعش کا زور تھا، جب کہ گذشتہ ہفتے بین الاقوامی افواج نے دولت اسلامیہ کی شکست کا اعلان کیا ہے اور مشرقی شام میں واقع داعش کے آخری گڑھ کو واگزار کرا لیا ہے۔
وٹل نے کہا کہ ’’ہم کبھی بھی انتہاپسندوں کو اس علاقے میں پنپنے کی اجازت نہیں دیں گے، تاکہ اس مقام سے کبھی ہمارے ملک پر حملے کا نہ سوچا جا سکے’’، اور ’’ہمارے لیے لازم ہے کہ اہم آبی گزرگاہوں کی جانب رسائی کی نگرانی کی جائے، جہاں سے عالمی کاروبار میں مدد ملتی ہے اور جہازرانی کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے‘‘۔
وٹل نے افغانستان میں جاری لڑائی کا بھی حوالہ دیا، اور افغان اور بین الاقوامی ساجھے داروں کی تعریف کی جنھوں نے ’’فوجی دباؤ ڈال کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا اور بات چیت کے ذریعے اس طویل لڑائی کے تصفیے کی اصل راہ کی جانب ڈال دیا‘‘۔
ایسے میں جب افغانستان میں افغان سیکورٹی فورسز انتہاپسندوں کے خلاف لڑائی کی قیادت کر رہی ہیں، امریکی فوج تقریباً دو عشروں سے مختلف حیثیت سے افغانستان کی لڑائی میں ساتھ دے رہی ہے، جس حقیقت پر امریکی صدر نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔
ووٹل نے کہا کہ ’’ہمارے صدر نے حالیہ دنوں کہا ہے کہ عظیم قومیں ہمیشہ لڑائیاں نہیں لڑا کرتیں، اور ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام تنازعات کا اختتام ہو‘‘۔
ساتھ اُنھوں نے کہا ’’لیکن، کوئی چاہے بھی تو فوری طور پر ایسا نہیں ہوگا، لیکن ایسا ہو سکتا ہے‘‘۔
جنگ کے شکار افغانستان میں اس وقت اندازاً 14000 امریکی فوج تعینات ہے۔
The post جنرل مکنزی نے امریکی سینٹرل کمان کی سربراہی سنبھال لی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2JS16Ov via Daily Khabrain
0 notes
Text
جنرل مکنزی نے امریکی سینٹرل کمان کی سربراہی سنبھال لی
واشنگٹن —
میرین کور کے جنرل کینتھ فرینک مکنزی نے امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمان مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے۔
جمعرات کو فلوریڈا کے میکڈل ایئر فورس کے ٹمپا بیس میں منعقد کمان سنبھالنے کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، مکنزی نے کہا کہ اُن کی کمان ’’وہ کچھ کرنے کے لیے تیار ہے جو کہ اسے کہا گیا ہے‘‘، ایسے میں جب امریکہ نے عراق اور شام میں داعش کے خاتمےکی کارروائیاں مکمل کرلی ہیں اور افغانستان میں طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔
مکنزی نے آرمی جنرل جوزف وٹل سے عہدے کا چارج لیا، جنھوں نے 30 مارچ 2016ء سے امریکی سنٹرل کمان کی سربراہی کے فرائض انجام دیے۔
وٹل نے خطے میں امریکی اور بین الاقوامی کوششوں کو سراہا؛ اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے فوجی قائدین کی تقریب میں شرکت کی تعریف کی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہماری مدد سے شکست و پسپائی سے ہمکنار عراقی فوج، ایک بار پھر ’فینکس‘ کے انداز میں دشمن پر جھپٹی؛ اور 2014ء میں ابھر کر سامنے آئی اور اب فخریہ طور پر اپنے ملک کا دفاع کر رہی ہے‘‘۔
سال 2014میں عراق اور شام میں داعش کا زور تھا، جب کہ گذشتہ ہفتے بین الاقوامی افواج نے دولت اسلامیہ کی شکست کا اعلان کیا ہے اور مشرقی شام میں واقع داعش کے آخری گڑھ کو واگزار کرا لیا ہے۔
وٹل نے کہا کہ ’’ہم کبھی بھی انتہاپسندوں کو اس علاقے میں پنپنے کی اجازت نہیں دیں گے، تاکہ اس مقام سے کبھی ہمارے ملک پر حملے کا نہ سوچا جا سکے’’، اور ’’ہمارے لیے لازم ہے کہ اہم آبی گزرگاہوں کی جانب رسائی کی نگرانی کی جائے، جہاں سے عالمی کاروبار میں مدد ملتی ہے اور جہازرانی کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے‘‘۔
وٹل نے افغانستان میں جاری لڑائی کا بھی حوالہ دیا، اور افغان اور بین الاقوامی ساجھے داروں کی تعریف کی جنھوں نے ’’فوجی دباؤ ڈال کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا اور بات چیت کے ذریعے اس طویل لڑائی کے تصفیے کی اصل راہ کی جانب ڈال دیا‘‘۔
ایسے میں جب افغانستان میں افغان سیکورٹی فورسز انتہاپسندوں کے خلاف لڑائی کی قیادت کر رہی ہیں، امریکی فوج تقریباً دو عشروں سے مختلف حیثیت سے افغانستان کی لڑائی میں ساتھ دے رہی ہے، جس حقیقت پر امریکی صدر نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔
ووٹل نے کہا کہ ’’ہمارے صدر نے حالیہ دنوں کہا ہے کہ عظیم قومیں ہمیشہ لڑائیاں نہیں لڑا کرتیں، اور ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام تنازعات کا اختتام ہو‘‘۔
ساتھ اُنھوں نے کہا ’’لیکن، کوئی چاہے بھی تو فوری طور پر ایسا نہیں ہوگا، لیکن ایسا ہو سکتا ہے‘‘۔
جنگ کے شکار افغانستان میں اس وقت اندازاً 14000 امریکی فوج تعینات ہے۔
The post جنرل مکنزی نے امریکی سینٹرل کمان کی سربراہی سنبھال لی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2JS16Ov via Hindi Khabrain
#pakistani urdu newspaper daily#khabrain#the hindu newspaper#punjab news#bengali news#akhbar urdu pep
0 notes
Text
پاک بھارت آبی جنگ
گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے ایک بڑے تھنک ٹینک پاکستان ہاؤس کی جانب سے پانی و بجلی کے بحران پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں انرجی کے ماہرین، ممتاز صنعتکاروں اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کیپٹن (ر) ہاشم رضا زیدی نے اس اہم موضوع پر تقاریر کیں۔ پاکستان ہاؤس تھنک ٹینک کے چیپٹرز پاکستان کے علاوہ کوپن ہیگن اور برلن میں بھی قائم ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے اہم ملکی عالمی مسائل پر کانفرنسوں کا انعقاد کر کے حکومت کو سفارشات بھیجتے ہیں۔ تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر جنرل رانا اطہر جاوید جو ہماری نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے المنای بھی ہیں، نے مجھے اس کانفرنس میں خصوصی ��ور پر خطاب کیلئے مدعو کیا تھا،۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، نیشنل سکیورٹی اور اہم قومی پالیسیاں بنانے میں حکومت کو اعلی سطح پر اہم سفارشات پیش کرتی ہے اور پالیسی میکرز ان سفارشات کو نہایت اہمیت دیتے ہیں۔
میں نے بھی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے المنائی کا ممبر ہوں جس نے گزشتہ دنوں کراچی میں امن اور سکیورٹی پر کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس سے کور کمانڈر کراچی لیفٹنٹ جنرل نوید مختار نے اہم خطاب کیا تھا۔ پاکستان ہاؤس کی پانی و بجلی کے بحران پر منعقدہ کانفرنس میں میں نے اپنے خطاب میں شرکاء کو بتایا کہ 1992ء میں اسٹاک ہوم میں ہونے والی انٹرنیشنل واٹر کانفرنس میں معروف مغربی دانشور لیسٹر آر براؤن نے کہا تھا کہ مشرق وسطی میں آئندہ جنگین تیل کے بجائے پانی پر ہوں گی لیکن بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اب قیاس اارائیاں ہو رہی ہیں کہ برصغیر میں آبی جارحیت اور ہمسایہ ممالک سے آبی تنازعات پاکستان اور بھارت کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا سکتے ہیں.
پاکستان اور بھارت کے مابین 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا جسکے تحت بھارت نے تین دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا تصرف تسلیم کیا تھا۔ پانی کی تقسیم کے حوالے سے سندھ طاس معاہدے کو کامیاب معاہدہ قرار دیا جا سکتا ہے جو دو جنگوں اور 2002ء کے کشیدہ حالات کے باوجود بھی قائم رہا تاہم بھارت کا پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے سب سے بڑا ہدف سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے دریاؤں پر قبضہ کرنا ہے جسکے لیے وہ امریکہ و نیٹو ممالک کی اشیرباد سے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو پانی روک لیتا ہے لیکن بارشوں کے موسم میں بھارت اسی پانی کو چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب کی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔
بھارت یہ عمل گزشتہ کئی سالوں سے کر رہا ہے مگر سرکاری سطح پر اس بات سے انحراف کرتا رہا ہے کہ اسکے چھوڑے گئے اضافی پانی سے پاکستان میں سیلاب آتے ہیںَ اسی سلسلے میں پاکستان بگیہار کی تعمیر کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے لیکن بھارت کا یہ کہنا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت دریاؤں کے پانی کو کچھ عرصے کیلئے اپنے استعمال میں لا سکتا ہے لہذا بگیہار ڈیم کی تعمیر معاہدے کی خاف ورزی نہیں۔
بھارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اپنے ملک میں میٹھے پانی کے ڈیموں کے ذریعے ذخیرہ کرنے کی بجائے اسے سمندر میں بہا دیتا ہے لہذا بھارت کا یہ حق ہے کہ وہ ضائع ہونے والے پانی کیلئے ڈیم بنا کر اسے اپنے استعمال میں لا سکے اور ضرورت پڑنے پر پاکستان کو بھی فراہم کر سکے۔ اس سنگین تنازعات کی بنیاد پر مختلف تھنک ٹینکس جو ایٹمی سیاسی یا ممکنہ ایٹمی جنگوں کے امکانات پر ریسرچ کر رہے ہیں، بھی پاک بھارت آبی تنازعات کو ممکنہ ایٹمی جنگ کے خدشات بتا رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کو اللہ تعالیٰ نے کئی بڑے دریاؤں سے نوازا ہے جسکے باعث جنوبی ایشیاء میں وسیع پیمانے پر اناج پیدا ہوتا ہے اور اس خطے کا زرعات کا دارومدار پانی پر پے۔ پاکستان کے پاس ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 11.55 ملین ایکڑ فٹ ہے، اس طرح ہم صرف ملین ایکڑ فٹ ہے، اس طرح ہم صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں، بھارت 120دن تک جبکہ امریکہ 900 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس طرح پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی فی کس مقدار 150 کیوبک میٹر ، چین میں 2200 کیوبک میٹر، آسٹریلیا اور امریکہ میں 5000 کیوبک میٹر ہے۔ اس طرح پاکستان اپنے دستیاب آبی وسائل کا صرف 7% پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب 40% ہے جسکی وجہ سے پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی پوری دنیا میں سب سے کم یعنی کیوبک میٹر ہے جبکہ امریکہ میں فی کس پانی کی دستیابی 6150 کیوبک میٹر ہے ۔
یوں پاکستان اپنے دستیاب پانی کو ذخیرہ نہ کر کے سالانہ 30 سے 35 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا رہا ہے جبکہ کالا باغ، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم کی تعمیری لاگت صرف 25 ارب ڈالر ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے آج پاکستان بجلے کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے اور ہم سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے بجائے مہنگے ذرائع سے بجلی پیدا کر رہے ہیں جس سے ہمارا ملک کا انرجی مکس خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں نہایت مہنگا ہے ۔
حال ہی میں میرے ایک دیرینہ دوست اور نیپرا کے چیئرمین بریگیڈیئر طارق سدوزئی سرکاری دورے پر کراچی تشریف لائے۔ دوران ملاقات انہوں نے وفاقی حکومت اور نیپرا کی بجلی کی ترجیحات کے حوالے سے مجھے بتایا کہ حکومت کی پہلی ترجیح پانی سے زیادہ سے زیادہ ہائیڈرو بجلی پیدا کرنا ہے جس کے خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں وسیع ذرائع موجود ہیں جبکہ حکومت کی دوسری ترجیح کوئلے سے بجلی کے منصوبے ہیں جس میں ابتداء میں امپورٹ کیا گیا کوئلہ استعمال کیا جائے گا لیکن ان پلانٹس کی ٹیکنالوجی ایسی ہوگی کہ بعد میں تھر کا مقامی کوئلہ بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے حکومت کی تیسری ترجیح ایل این جی سے چلنے والے بجلے گھر ہیں جبکہ چوتھے نمبر پر متبادل ذرائع یعنی ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ہیں جنکی پالیسیاں اور ٹیرف کیلئے نیپرا میں پروفیشنل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور ایم بی اے پوری دنیا کا ڈیٹا سامنے رکھ کر ملکی مفاد میں پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔
حکومت کی ترجیح مختصر المیعاد منصوبے ہیں تاکہ موجودہ دور حکومت مین بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نے کراچی میں فیڈریشن آف پاکساتن چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ایکسپورٹ ٹرافی اوارڈ میں بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ 2018ء تک ملک سے بجلی کا بحران اسپیشل میرٹ ٹرافی ایوارڈ FPCCI ختم کر دیا جائے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ اس سال بھی ہماری کمپنی نے مسلسل 16ویں بار وزیر اعظم سے وصول کیا لیکن موجودہ حالات میں ملک میں پانی اور بجلی کی کمی سے صنعتکاری کا عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
نئی صنعتیں نہیں لگ رہیں جسکی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ جمود کا شکار ہے اور ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقو پیدا نہیں ہو رہے جو ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال کا سبب بن رہے ہیں۔ کراچی میں پانی کی قلت ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہے اور کراچی کے صنعتکار اور ایکسپورٹرز اپنی صنعتوں کیلئے ٹٰنکر مافیا سے کروڑوں روپے سالانہ کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں جس سے بنائے گئے فیبرک کی کوالٹی بھی غیر معیاری ہوتی ہے۔ کراچی واٹر بورڈ کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2 کروڑ کی آبادی کے شہر کراچی کیلئے 1100 ملین گیلن یومیہ پانی کی ضرورت ہے لیکن واٹر بورڈ شہر کو نصف 550 ملین گیلن یومیہ فراہم کر رہا ہے جسکی وجہ سے عوام اور صنعتکار اپنی ہی پانی ٹینکر مافیا سے مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں۔
کراچی میں ڈی سلینیشن پلانٹس کے ذریعے سمندری پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ خلیجی ممالک میں کیا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ڈیمز بنانے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور ایک وقت میں سینکڑوں ڈیم تعمیر ہوتے ہیں تاکہ آبادی بڑھنے کی صورت میں اضافہ پانی اور بجلی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے لیکن پاکستان میں کئی دہائیوں سے کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں ہوا لہذا حکومت کو ملک میں بجلی اور پانی کی کمی دور کرنے کیلئے ترجیحی بنیاد پر پانی کا ذخیرہ کرنے کیلئے کئی ڈیم بنانے ہوں گے جن سے نہ صرف عوام اور زراعت کیلئے پانی دستیاب ہو سکے گا بلکہ انکے ذریعے سستی بجلے پیدا کر کے بجلی کے بحران پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
#Water dispute between India and Pakistan#Water Crises in Pakistan#Urdu Columns#Pakistan#Mirza Ikhtiar Baig#Indus Waters Treaty#India
0 notes