#جائےیہ
Explore tagged Tumblr posts
Photo

نواز شریف اور زرداری کو نیچا دکھانے کے لئے پاکستان کے مفاد سے نہ کھیلا جائے،یہ کام خفیہ رکھا جانا چاہیے تھا، رانا ثناء اللہ اور لطیف کھوسہ کا شدید ردعمل اسلام آباد(آن لائن) اپوزیشن جماعتوں نے کہا ہے کہ تحریک انصاف حکومت نے ملک کا بیڑہ غرق ، نام بدنام کر دیا ہے، پی آئی اے میں گھوسٹ پائلٹس کی انکوائری خفیہ رکھی جانی چاہیے تھی، وفاقی وزیرہوابازی کی پریس کانفرنس کے بعد عالمی میڈیا نے قومی ائیر لائن کا میڈیا ٹرائل شروع کر دیا ہے، خدارا قومی مفاد سے مت کھیلیں، نواز شریف اور زرداری کو نیچا دکھانے کے لئے پاکستان کے مفاد سے نہ کھیلا جائے۔
#اللہ#اور#پاکستان#تھا#ثناء#جائےیہ#جانا#چاہیے#خفیہ#دکھانے#رانا#ردعمل#رکھا#زرداری#سے#شدید#شریف#کا#کام#کھوسہ#کھیلا#کو#کے#لئے#لطیف#مفاد#نہ#نواز#نیچا
0 notes
Photo

قیامت سے چالیس سال پہلے توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا اسکی کیا حقیقت ہے؟ سیدی یو نس الگوہر نے فرمایا۔ 🙏 💞 تزکیۂ نفس توبہ کی روح ہے۔ 🌷 توبہ کا دروازہ بند ہونا کیا ہے یہ سنہری حروف میں لکھیں۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ توبہ ایک کمرے کا نام ہے اور اس کمرے کا دروازہ اللہ نے ابھی تو کھولا ہوا ہے جیسے ہی چالیس سال کا وقت رہ گیا تو فرشتے اس کو تالا لگا کر چلے جائیں گے۔ قیامت سے چالیس سال پہلے تزکیۂ نفس نا ممکن ہو جائے گا اور آپ کی کامیابی کے امکانات معدوم ہو جائیں گے کیونکہ قرآنِ مجید نے فرمایا ہے قد افلح من تزکیٰ،قد، تاکید کے ساتھ سنئیے،افلح،فلاح پاجائے گا،من تزکیٰ، جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا۔ پاک نہں کیا تو کامیاب نہیں ہو گا جب تمہارے نفس ہی پاکیزگی میں پاک نہیں ہوں گے تو یہ ہی توبہ کا دروازہ بند ہونا ہے فرمایا یہ وہی دور چل رہا ہے اس دنیا میں کوئی مائی کا لال ایسا نہیں ہے،آئیرلینڈ کے فقیر پیرگلز��ر سمیت کہ جو اپنے نفس کو پاک کر سکے۔ فرمایا اگر میں تم کو بتانا شروع کر دوںکہ تم کتنی گندگی میں ہو شاید تمہارا سانس ہی رک جائے۔ کتنے جنات ہیں جو آپ کے اوپر موت رہے ہیں اور آپ اشرف المخلوقات ہیں تو نے کون سا قرآن اور کونسی احادیث کی کتابیں پڑھی ہیں تو ولی،شیخ السلام بنا ہوا ہے یہ سب نکمے لوگ ہیں جن کو یہ تک نہیں پتا کہ اب نفس کا تزکیہ کرنا ختم ہو گیا ہے۔ فرمایا یہ نفس کا پاک کرنا اس دن ختم ہوا جس دن اس دنیا میں امام مہدی کا اعلان ہوا توبہ کا ردوازہ بند ہو گیا ۔اب خلاصی کیسے ہو گی اب امام مہدی کے قدموں میں جھکنا پڑے گا اب توباؤں سے کام نہیں چلے گا تو سمجھتا ہے کہ گوہر شاہی کو بھلا دے دین سے ہٹائے جاۓ نماز بچھائے،قرآن رکھے،دعائیں کرے توبہ کرے اور اپنے رب کو راضی کر لے گا،نہیں اب ایسا نہیں ہو گا اب جھکنا ہو گا سیدنا امام مہدی سرکار گوہر شاہی کے قدموں میں اب اُنکی نظر پڑے گی توخلاصی ہو گی نفس کی۔ آپ کا یہ خیال ہے کہ توبہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئیندہ گناہ نہیں کروںگا اور پچھلے گناہ کی معافی مل جائےیہ توبہ ہے ۔ فرمایا یہ توبہ نہیں ہے۔توبہ کا مطلب ہے رجوع کرنا، ربّ سے رجوع کرو،پاک ہو گے تو ربّ کی طرف آؤ گے نا۔ تزکیۂ نفس توبہ کی روح ہے۔ توبہ کا پورا مطلب دل کو بیدار کرنا اور نفس کو پاک کرنا ہے۔ اب نفس کو پاک کرنے کے اسباب باطن سے اُٹھا لیئے گئے ہیں۔ توبہ کا دروازہ بند ہو گیا ہے اور ��حمت کا دروازہ کھل گیا ہے۔ 16.07.2020 https://www.instagram.com/p/CRY_8manfDh/?utm_medium=tumblr
0 notes
Text
ایسا ہے تو ایسے ہی سہی - وسعت اللہ خان
امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ کے گلوبل ٹیررازم ڈیٹا بیس کے مطابق گذشتہ پینتالیس برس، بالخصوص نائن الیون کے بعد، جن ممالک میں تعلیمی اداروں اور طلبا پر سب سے زیادہ حملے ہوئے ان میں پاکستان سرِفہرست ہے۔
آرمی پبلک سکول پشاور اور اب باچا خان یونیورسٹی چار سدہ کے سانحات کے بعد یہ سوال دوبارہ والدین کے ذہن میں ابھر آیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ناحق موت سے کیسے بچائیں؟
اس بارے میں کوئی مرکزی پالیسی موجود نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان بھی اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ معاملہ صوبوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
چنانچہ خیبر پختونخوا حکومت نے ایک حل یہ نکالا ہے کہ اساتذہ کو اسلحہ کی تربیت اور رکھنے ک�� اجازت دی جائے ۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ صوبے میں 68 ہزار تعلیمی ادارے اور 55 ہزار پولیس والے ہیں، لہذا اکیلی حکومت ہر ادارے کی حفاظت نہیں کر سکتی۔
حکومتِ بلوچستان نے یونیورسٹیوں کے تحفظ کے لیے مسلح کیمپس فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ہر یونیورسٹی میں اس فورس کے 60 مسلح جوان تعینات کیے جائیں گے۔ یہ فورس وائس چانسلر کے تحت ہوگی ۔ تجویز تو اچھی ہے لیکن دہشت گرد صرف اعلی تعلیمی اداروں کو تو نشانہ نہیں بناتے۔
حکومتِ پنجاب نے سیکورٹی کی ذمہ داری تعلیمی اداروں پر ڈال دی ہے۔ اور جو تعلیمی ادارہ سیکورٹی کے طے شدہ معیار پر پورا نہیں اترے گا اسے تعلیمی سرگرمیوں سے روک دیا جائے گا۔ حکومتِ سندھ نے اس بابت کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا۔
سنہ 1971 کی جنگ کے بعد بھٹو حکومت نے طلبا کو اسلحے کے استعمال کی بنیادی تربیت دینے کے لیے کالجوں کی سطح پر نیشنل کیڈٹ کور سکیم (این سی سی) شروع کی تھی تا کہ وہ ہنگامی حالات میں باقاعدہ فورسز کے ذیلی مددگار بن سکیں۔ اگرچہ یہ سکیم لازمی کے بجائے اختیاری تھی مگر طلبا کو یہ ترغیب دی گئی کہ این سی سی کی تربیت مکمل کرنے پر بیس اضافی نمبر ملیں گے۔
عام شہریوں کی فوجی تربیت کے لیے جانباز فورس اور مجاہد فورس کی سکیمیں شروع کی گئیں اور فوج سے مستعار اہلکار اس تربیت پر مامور کیے گئے ۔ مقصد یہ تھا کہ قوم کے تندرست لوگ ناگہانی کے وقت اپنی حفاظت کے بارے میں بااعتماد ہوجائیں۔ مگر مشرف حکومت تک یہ تمام سکیمیں وجہ بتائے بغیر ختم کر دی گئیں۔
اگرچہ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ دہشت گردی طویل المعیاد کثیر سمتی حکمتِ عملی کے تحت ہی ختم ہو سکتی ہے۔ مگر جب تک یہ فلسفیانہ ہدف حاصل ہو تب تک لوگ اپنی حفاظت کیسے کریں؟
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر ایک کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دی گئی تو انارکی پھیل سکتی ہے؟
تو کیا اب انارکی نہیں؟
اس ملک میں غیرقانونی ہتھیاروں کی بہتات روکنے کے لیے پچھلے 40 برس میں کیا کیا گیا؟ جو تباہی ہو رہی ہے اس میں لائسنس یافتہ اسلحہ کتنا استعمال ہوا اور غیر قانونی اسلحہ کتنا؟ کوئی نابینا بھی دیکھ سکتا ہے۔
آخر اسلحے کا لائسنس صرف طاقتور طبقات اور من پسند افراد کے لیے ہی کیوں؟ جو قانون پسند شہری اپنے تحفظ کے لیے تربیت یافتہ محافظوں کی فوج نہیں رکھ سکتے وہ کیا کریں؟ اسلحہ رکھنے کی قانونی اجازت محدود رکھنے سے حالات آخر کتنے بہتر ہوئے؟
دہشت گردوں کے ہاتھوں ہی مرنا ہے تو بھیڑ بکریوں کی طرح مرنے سے بہتر ہے کہ لڑتے ہوئے مرا جائے
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلحہ لائسنس اگر عام کھول دیا جائے تو لوگ ذاتی دشمنیاں بھی نکالیں گے ۔تو لوگ کیا اس وقت غیرقانونی اسلحے سے ذاتی دشمنیاں نہیں نکال رہے؟
یقیناً مثالی صورت تو یہی ہے کہ ہتھیاروں پر صرف ریاست کی اجارہ داری ہو اور کسی کو بھی ریاست کے اندر ریاست بننے نہ دیا جائے۔ مگر مستقبل�� قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔
لہذا ریاست اعتراف کرے کہ وہ تمام شہریوں کی حفاظت نہیں کر سکتی اور شہری اپنی حفاظت خود کریں ۔ایک عمومی معیار اور مخصوص مدت کے لیے استعمال کی واضح شرائط کے تحت اسلحہ لائسنس کا دروازہ تمام ذمہ دار شہریوں کے لیے سنجیدگی و دردمندی سے کھولنے پر غور کیا جائے۔ جب ریاست اپنی رٹ بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہ اسلحہ واپس لے لیا جائے۔
دہشت گردوں کے ہاتھوں ہی مرنا ہے تو بھیڑ بکریوں کی طرح مرنے سے بہتر ہے کہ لڑتے ہوئے مرا جائے۔ آپ ہی تو کہتے ہیں کہ غیر معمولی حالات سے غیر
معمولی طریقوں سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔
(ان تجاویز پر قومی گفتگو کی ضرورت ہے ۔ہوسکتا ہے مزید بہتر قابلِ عمل متبادل سامنے آ جائے)
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
#Wusatullah Khan#Urdu Columns#Terrorism in Pakistan#Taliban#Pakistan Politics#Pakistan#Bacha Khan International Airport
0 notes
Text
ایسا ہے تو ایسے ہی سہی - وسعت اللہ خان
امریکی یونیورسٹی آف میری لینڈ کے گلوبل ٹیررازم ڈیٹا بیس کے مطابق گذشتہ پینتالیس برس، بالخصوص نائن الیون کے بعد، جن ممالک میں تعلیمی اداروں اور طلبا پر سب سے زیادہ حملے ہوئے ان میں پاکستان سرِفہرست ہے۔
آرمی پبلک سکول پشاور اور اب باچا خان یونیورسٹی چار سدہ کے سانحات کے بعد یہ سوال دوبارہ والدین کے ذہن میں ابھر آیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ناحق موت سے کیسے بچائیں؟
اس بارے میں کوئی مرکزی پالیسی موجود نہیں۔ نیشنل ایکشن پلان بھی اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ معاملہ صوبوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
چنانچہ خیبر پختونخوا حکومت نے ایک حل یہ نکالا ہے کہ اساتذہ کو اسلحہ کی تربیت اور رکھنے کی اجازت دی جائے ۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ صوبے میں 68 ہزار تعلیمی ادارے اور 55 ہزار پولیس والے ہیں، لہذا اکیلی حکومت ہر ادارے کی حفاظت نہیں کر سکتی۔
حکومتِ بلوچستان نے یونیورسٹیوں کے تحفظ کے لیے مسلح کیمپس فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ہر یونیورسٹی میں اس فورس کے 60 مسلح جوان تعینات کیے جائیں گے۔ یہ فورس وائس چانسلر کے تحت ہوگی ۔ تجویز تو اچھی ہے لیکن دہشت گرد صرف اعلی تعلیمی اداروں کو تو نشانہ نہیں بناتے۔
حکومتِ پنجاب نے سیکورٹی کی ذمہ داری تعلیمی اداروں پر ڈال دی ہے۔ اور جو تعلیمی ادارہ سیکورٹی کے طے شدہ معیار پر پورا نہیں اترے گا اسے تعلیمی سرگرمیوں سے روک دیا جائے گا۔ حکومتِ سندھ نے اس بابت کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا۔
سنہ 1971 کی جنگ کے بعد بھٹو حکومت نے طلبا کو اسلحے کے استعمال کی بنیادی تربیت دینے کے لیے کالجوں کی سطح پر نیشنل کیڈٹ کور سکیم (این سی سی) شروع کی تھی تا کہ وہ ہنگامی حالات میں باقاعدہ فورسز کے ذیلی مددگار بن سکیں۔ اگرچہ یہ سکیم لازمی کے بجائے اختیاری تھی مگر طلبا کو یہ ترغیب دی گئی کہ این سی سی کی تربیت مکمل کرنے پر بیس اضافی نمبر ملیں گے۔
عام شہریوں کی فوجی تربیت کے لیے جانباز فورس اور مجاہد فورس کی سکیمیں شروع کی گئیں اور فوج سے مستعار اہلکار اس تربیت پر مامور کیے گئے ۔ مقصد یہ تھا کہ قوم کے تندرست لوگ ناگہانی کے وقت اپنی حفاظت کے بارے میں بااعتماد ہوجائیں۔ مگر مشرف حکومت تک یہ تمام سکیمیں وجہ بتائے بغیر ختم کر دی گئیں۔
اگرچہ یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ دہشت گردی طویل المعیاد کثیر سمتی حکمتِ عملی کے تحت ہی ختم ہو سکتی ہے۔ مگر جب تک یہ فلسفیانہ ہدف حاصل ہو تب تک لوگ اپنی حفاظت کیسے کریں؟
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر ایک کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دی گئی تو انارکی پھیل سکتی ہے؟
تو کیا اب انارکی نہیں؟
اس ملک میں غیرقانونی ہتھیاروں کی بہتات روکنے کے لیے پچھلے 40 برس میں کیا کیا گیا؟ جو تباہی ہو رہی ہے اس میں لائسنس یافتہ اسلحہ کتنا استعمال ہوا اور غیر قانونی اسلحہ کتنا؟ کوئی نابینا بھی دیکھ سکتا ہے۔
آخر اسلحے کا لائسنس صرف طاقتور طبقات اور من پسند افراد کے لیے ہی کیوں؟ جو قانون پسند شہری اپنے تحفظ کے لیے تربیت یافتہ محافظوں کی فوج نہیں رکھ سکتے وہ کیا کریں؟ اسلحہ رکھنے کی قانونی اجازت محدود رکھنے سے حالات آخر کتنے بہتر ہوئے؟
دہشت گردوں کے ہاتھوں ہی مرنا ہے تو بھیڑ بکریوں کی طرح مرنے سے بہتر ہے کہ لڑتے ہوئے مرا جائے
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلحہ لائسنس اگر عام کھول دیا جائے تو لوگ ذاتی دشمنیاں بھی نکالیں گے ۔تو لوگ کیا اس وقت غیرقانونی اسلحے سے ذاتی دشمنیاں نہیں نکال رہے؟
یقیناً مثالی صورت تو یہی ہے کہ ہتھیاروں پر صرف ریاست کی اجارہ داری ہو اور کسی کو بھی ریاست کے اندر ریاست بننے نہ دیا جائے۔ مگر مستقبلِ قریب میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔
لہذا ریاست اعتراف کرے کہ وہ تمام شہریوں کی حفاظت نہیں کر سکتی اور شہری اپنی حفاظت خود کریں ۔ایک عمومی معیار اور مخصوص مدت کے لیے استعمال کی واضح شرائط کے تحت اسلحہ لائسنس کا دروازہ تمام ذمہ دار شہریوں کے لیے سنجیدگی و دردمندی سے کھولنے پر غور کیا جائے۔ جب ریاست اپنی رٹ بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے تو یہ اسلحہ واپس لے لیا جائے۔
دہشت گردوں کے ہاتھوں ہی مرنا ہے تو بھیڑ بکریوں کی طرح مرنے سے بہتر ہے کہ لڑتے ہوئے مرا جائے۔ آپ ہی تو کہتے ہیں کہ غیر معمولی حالات سے غیر
معمولی طریقوں سے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔
(ان تجاویز پر قومی گفتگو کی ضرورت ہے ۔ہوسکتا ہے مزید بہتر قابلِ عمل متبادل سامنے آ جائے)
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
#Wusatullah Khan#Urdu Columns#Terrorism in Pakistan#Taliban#Pakistan Politics#Pakistan#Bacha Khan International Airport
0 notes
Photo

مقبوضہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل گیا، بھارتی فوج مکمل طور پر ناکام ،لاکھوں کشمیریوں نے ایساکام کر دیا کہ مودی سرکار کی نیندیں حرام ہو گئیں، صدارتی نظام نافذ کر دیا گیا؟ صورتحال کشیدہ سرینگر (مانیٹرنگ ڈیسک)مقبوضہ کشمیر میں صدارتی نظام نافذ، شہدائے پلوامہ کی غائبانہ نماز جنازہ، ہزاروں افراد کی شرکت، وادی میں چوتھے روز بھی ہڑتال، صورتحال کشیدہ، پلوامہ اور سرینگر میں غیر اعلانیہ کرفیو، جھڑپوں میں متعدد زخمی، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قتل عام کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی افواج کے ہاتھوں پلوامہ میں ہونیوالے قتل عامکیخلاف آج وادی میں ہڑتال اور صورتحال کشیدہ ہے۔ شہدائے پلوامہ کی غائبانہ نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔ بھارتی سرکار نے ضہ کشمیر میں آج سے صدر راج نافذ کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔پلوامہ اورسرینگر میں غیر اعلانیہ کرفیو، جھڑپوں میں متعدد زخمی، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قتل عام کی تحقیقات کا مطالبہ کر دیاہے۔ وادی میں ہڑتال کے باعث کاروباری مراکز بند رہے جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند رہیں۔ پلوامہ اور سرینگر میں غیر اعلانیہ کرفیو کے باعث نظام زندگی مفلوج رہا۔ادھر انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہریوں کے قتل عام کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب ملائیشین کونسل آف اسلامک آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فورسز کی ظالمانہ کارروائیوں پر اقوام عالم کی خاموشی شرمناک ہے۔ کونسل نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ بھارتی فوج کے جنگی جرائم پر فوری مداخلت کرے۔مزید برآں ضلع راجوری میں دریائے جہلم کے کنارے سے ایک خاتون کی لاش ملی ہے جبکہ راجوری میں نامعلوم شخص نے فائرنگ کر کے ایک ہی خاندان کے 7 افراد کو زخمی کر دیا۔واضح رہے کہ پاکستان میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت سے نوجوانوں کی شہادت کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے معاملے پراقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر ٗ سیکرٹری جنرل او آئی سی سی اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کو لکھے گئے خطوط میں مطالبہ کیا ہے کہ اجلاس بلاکر ظلم کا فوری نوٹس لیا جائے جبکہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی جارحیت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کی جان لے لینا، اپاہج کر دینا اس سے بڑا انسانی حقوق کا مسئلہ کیا ہو سکتا ہے؟تمام سیاسی اختلافاتکو بالائے طاق رکھتے ہوئے جماعتیں کشمیر کے نہتے شہریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف نکلیں ٗ اسمبلی اجلاس میں کشمیر میں ہونے والی بربریت کیخلاف متفقہ مذمتی قرارداد بھی آنی چاہیے ٗ19 فروری کو برسلز میں یورپین یونین اور یورپین پارلیمنٹ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پبلک سماعت ہو گی ٗ پاکستان اس کی تائید اور سپورٹ کریگا ٗ اقوام عالم مقبوضہ کشمیرمیں انسانیت سوز مظالم بند کروانے میں اپنا کردار ادا کریں ٗدنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کو اجاگر کریں ٗ16 دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول ��یں جو ظلم کی داستان رقم کی گئی اس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ٗ صدر اشرف غنی اور وزیر خارجہ کو تین تجاویز دیں کہ ہمیں پبلک ڈپلومیسی کو بروئے کار لانا چاہئے ٗ کراچی میں چائینہ قونصلیٹپر حملہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ اتوار کو میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوانہ میں جو قتل عام ہوا ہے اس نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ٗیہ جو ظلم کی داستان 2016 میں شروع ہوئی ہے ٗ2018 میں اس میں شدید شدت آئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز جو نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھایا گیاجس کے نتیجے میں 14 بے گناہ شہید اور اب تک 300 احتجاج کندگان کو زخمی کیا جا چکا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ 8سال کا معصوم بچہ اور 25 سالہ نوجوان کو چند روز قبل شہید کر دیا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ احتجاج کر نیو الوں کے خلاف اس طرح کے بہمانہ قتل عام ایک خبط کو ظاہر کرتا ہے ۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ اب تک 500 بے گناہ کشمیریوںکو اسی سال شہید کیا گیا ٗنومبر میں 18 نہتے کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ٗ18 ماہ کی بچی کو پلٹ گن کی گولی آنکھ میں لگی۔ انہوں نے بتایا کہ 21 اکتوبر کو 2018 کو 9 کشمیری نوجوانوں کو شہید اور 50 کو زخمی کیا گیا ۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ کسی کی جان لے لینا، اپاہج کر دینا اس سے بڑا انسانی حقوق کا مسئلہ کیا ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ میں نے اقوام متحدہ کیانسانی حقوق کی کمشنر کو، سیکرٹری جنرل او آئی سی اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کو اس صورتحال کی طرف توجہ مرکوز کروانے کیلئے خطوط لکھے۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ میں نے یہاں پریس کانفرنس میں آنے سے قبل او آئی سی کے جنرل سیکرٹری سے بذریعہ فون بات بھی کی ہے کہ اسلام آباد میں او آئی سی کا منسٹریل اجلاس منعقد کیا جائے اور پاکستان اس کی میزبانی کرنے کو تیار ہیں۔شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اگر پاکستان میں اجلاس کرانے میں کوئی دشواری ہے تو اجلاس جدہ میں بھی کرایا جاسکتا ہے ٗانہوں نے کہا کہ جدہ میں پاکستانی قونصل خانہ اس سلسلے میں باقاعدہ درخواست او آئی سی کو جمع کرائے گا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیاکی ترجیحات میں کشمیر نہیں لیکن دنیا اتنی بے حس اور لاتعلق نہیں ہوسکتی، اگر آپ کو کشمیر کے مسئلے پر آواز اٹھاتے ہوئے دقت ہےتو انسانیت پر آواز اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ5 فروری کو کشمیر کے حوالے سے لندن میں عالمی کانفرنس کی تجویز ہے۔انہوں نے کہاکہ کشمیر ایشو پر تمام سیاسی جماعتیں ایک موقف رکھتی ہیں ہم تمام جماعتوں سے کہتے ہیں کہ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہو ئے کشمیر کے نہتے شہریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف نکلیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ 19 فروری کو برسلز میں یورپین یونین اور یورپین پارلیمنٹ کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پبلک سماعت ہو گیٗ پاکستان اس کی تائید اور سپورٹ بھی کریگا اور اس کا حصہ بھی بنے گا۔ انہوں نے کہاکہ پیر کو ہونے والے اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر میں ہونے والی بربریت کے خلاف ایک متفقہ مذمتی قرارداد بھی آنی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی نےکہا کہ ہم تمام جماعتوں سے کہتے ہیں کہ آپ اس اہم مسئلے پر آواز اٹھائیں ٗوزارتِ خارجہ آپ کی سپورٹ کریگی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اس وقت کشمیر میں صورتحال یکساں تبدیل ہو چکی ہے ٗکشمیر میں جو احتجاج ہے وہ نہتے کشمیریوں کی طرف سے ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہندوستان کی حکومت موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات میںلیت و لعل سے کام لے رہی ہے کیونکہ ہندوستان کے لوگ اپنی حکومت کی ظلم و بربریت کی جاری پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اس وقت ہر 17 باشندوں پر ایک سپاہی تعینات ہے اس سے زیادہ زیادتی کیا ہو سکتی ہے ہندوستان کی کشمیر میں متعینہ فوج اب نہتے شہریوں پر براہ راست فائرنگ کر رہی ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ سینیٹر مشاہد حسین،سینیٹر شریں رحمن جو خود سفیر رہ چکی ہیں اور دوسرے لوگوں کو جو اس سبجیکٹ سے وابستہ ہیں ان کو مدعو کرنا چاہیں گے ان کی رائے سے راہنمائی لینا چاہیں گے ۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ناروے کا سابقہ وزیر اعظم کچھ دن پہلے سری نگر گئے اور وہاں مقبوضہ کشمیر کی تنظیموں سے مل کر ہمارے پاس آئے انہوں نے کہا کہ جو آپ کمیشن آف انکوائری کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیںکیا آپ اقوام متحدہ انسانی حقوق کے آبزرور کو آنے کی اجازت دیں گے ہم نے کہا کہ بالکل یہ اجازت دونوں ممالک کی طرف سے ہونی چاہئے ۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم سب دہشتگردی کی مذمت کرتے ہیں لیکن ہندوستان نے بڑی چالاکی سے انسدادِ دہشتگردی کی شقوں کو نہتے کشمیریوں کی پر امن احتجاج کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے ۔مخدوم شاہ محمود قریشینے کہاکہ امریکہ کے مفادات میں ایک تبدیلی سب کو نظر آرہی ہے ٗامریکہ ہندوستان کو خطے میں اپنا اسٹریٹیجک حلیف سمجھتا ہے اس پر روس کے سینئر سفارتکار نے بھی بات کی ہے کہ امریکہ کی اس پالیسی تبدیلی کی وجہ چین ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ 16 دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول میں جو ظلم کی داستان رقم کی گئی اس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔انہوں نے کہاکہ آج کا دن ان والدین کے زخم تازہ کر دیتا ہے کوئی اپنی اولاد کو کیسے فراموش کر سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ایک سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہاکہ گزشتہ ر وز پاک چین افغانستان سہ فریقی مذاکرات میں، میں نے واضح کیا کہ ہم امن چاہتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ انٹرا افغان مذاکرات کے ذریعےامن قائم کیا جائےیہ ہمارے بھی حق میں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے انہیں دعوت دی کہ آپ آئیں اور دیکھیں سی پیک ہمارے لیے پورے خطے کیلئے کیسے سود مند ہو سکتا ہے؟ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ میں نے صدر اشرف غنی اور وزیر خارجہ کو تین تجاویز دیں کہ ہمیں پبلک ڈپلومیسی کو بروئے کار لانا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ بدھ کو افغانستان کے نئے آنے والے سفیر، افغان کرکٹ ٹیم کے سربراہ رہے ہیں آئیں گے ۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ دونوں ممالک کے مابین کرکٹ میچ کرائے جائیں ٗمیوزک کو اور ثقافتی ذرائع بروئے کار لائیں۔ادیب اور شعراء کو بلایا جائے ۔ ایک سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہاکہ کراچی میں چائینہ قونصلیٹ پر حملہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی تاکہ ہمارے اور چین کے روابط میں رخنہ اندازی کی جائے۔ The post مقبوضہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل گیا، بھارتی فوج مکمل طور پر ناکام ،لاکھوں کشمیریوں نے ایساکام کر دیا کہ مودی سرکار کی نیندیں حرام ہو گئیں، صدارتی نظام نافذ کر دیا گیا؟ صورتحال کشیدہ appeared first on Zeropoint.
0 notes
Text
پرویز مشرف انتقال کر جاتے ہیں تولاش کو تین روز تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر لٹکایا جائے،یہ حکم خصوصی عدالت کے کس جج نےدیا؟نام سامنے آگیا
پرویز مشرف انتقال کر جاتے ہیں تولاش کو تین روز تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر لٹکایا جائے،یہ حکم خصوصی عدالت کے کس جج نےدیا؟نام سامنے آگیا
اسلام آباد (این این آئی) خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ پرویز مشرف پر پانچ چارج فریم کیے گئے تھے، مجرم کو ہر جرم کے حوالے سے ایک بار سزائے موت دی جائے۔ سنگین غداری کا ٹرائل ان لوگوں کیلئے آئین کی ضرورت ہے جو کسی بھی وجہ سے آئین کو کمزور کریں یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے، لہٰذا یہ عدالت استغاثہ کی جانب سے ملزم کے…
View On WordPress
#اباد#اسلام#اگیا#انتقال#پر#پرویز#تک#تولاش#تین#جائےیہ#جاتے#جج#چوک#حکم#خصوصی#ڈی#روز#سامنے#عدالت#کر#کس#کو#کے#لٹکایا#مشرف#نےدیانام#ہیں
0 notes