#rohtas fort
Explore tagged Tumblr posts
earthquakesonmars · 1 year ago
Text
The walls of Rohtas Fort in Punjab, Pakistan
Tumblr media
10 notes · View notes
meluhha · 2 years ago
Quote
Oraon claimed that they were settled in Gujurat, then they were expelled from there. Then they settled in Kalinjar, where they fought with Lowrik Sowrik of Palipiri and were defeated. Then they came to Rohtasgarh and were driven out by Muslims during the reign of Akbar. Then they settled in Chotanagpur. According to Dalton, Oraon were settled in Chotanagpur before the reign of Akbar and possibly some Oraon were in Rohtas hills when Rohtasgarh fort was constructed by Muslims. According to him the Oraon language is similar to Tamil, but some words spoken by Oraon are of Sanskrit origin due to their living with Sanskrit and Prakrit speaking people in the past
Kurukh/Oraon ppl of the eastern/central hills of India & of the Kol uprising
6 notes · View notes
atplblog · 14 days ago
Text
Price: [price_with_discount] (as of [price_update_date] - Details) [ad_1] Akbarnāma, or The History of Akbar, by Abu’l-Fazl (d. 1602), is one of the most important works of Indo-Persian history and a touchstone of prose artistry. Marking a high point in a long, rich tradition of Persian historical writing, it served as a model for historians across the Persianate world. The work is at once a biography of the Mughal emperor Akbar (r. 1556–1605) that includes descriptions of his political and martial feats and cultural achievements, and a chronicle of sixteenth-century India. The fifth volume details the bellicose seventeenth to twenty-second years of Akbar’s reign, including accounts of the conquest of Gujarat, the capture of Rohtas fort from rebel Afghans, and the invasions of Patna and Bengal. The Persian text, presented in the Naskh script, is based on a careful reassessment of the primary sources. Publisher ‏ : ‎ Harvard University Press; Bilingual edition (31 March 2019) Language ‏ : ‎ English Hardcover ‏ : ‎ 400 pages ISBN-10 ‏ : ‎ 0674983955 ISBN-13 ‏ : ‎ 978-0674983953 Item Weight ‏ : ‎ 898 g Dimensions ‏ : ‎ 13.34 x 4.06 x 20.32 cm Country of Origin ‏ : ‎ India [ad_2]
0 notes
lanaanne14 · 1 year ago
Text
The walls of Rohtas Fort in Punjab, Pakistan
Tumblr media
0 notes
princessreasonmusic · 1 year ago
Text
The walls of Rohtas Fort in Punjab, Pakistan
Tumblr media
0 notes
tourismcampaigns · 1 year ago
Video
youtube
Salam Pakistan - Tourism Brand
Named “Salam Pakistan,” the tourism brand will focus on building the country’s image as a safe, secure, friendly, and hospitable place with attractive tourism destinations, including scenic mountains, lakes, and sites of deep cultural, religious, and historical significance.
The project will also highlight different food varieties, accommodation, travel modes, and infrastructure facilities offered by the South Asian state to tourists.
“Allah Almighty has blessed our country with great natural resources of scenic beauty all over the northern areas, which can be converted into a great opportunity,” Prime Minister Shahbaz Sharif said while addressing the inauguration ceremony on 2023 August 4 in Islamabad.
A newly launched e-portal to facilitate tourists contains information on top 20 tourist destinations in the country, including K2, Gwadar, Ziarat Valley, Uch Sharif, Deosai National Park, Kalash Valley, Takht Bhai, Hingol National Park, Shandur Pass, Kambhar Lake, Fairy Meadows, Ratti Gali, Lahore Fort, Makli Graveyard, Derawar Fort, Rohtas Fort, Kumrat Valley, Hunza Valley, and Mohenjo-Daro.
According to the Pakistan Tourism Department Corporation (PTDC), the country’s tourism industry generated $2.5 billion of revenue in 2022 and the figure was expected to go up to $4 billion in the next four years.
0 notes
saths6604 · 2 years ago
Photo
Tumblr media
#lovebeats #travellingourplanet (at Rohtas Fort) https://www.instagram.com/p/CmAT8aOrL0l/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
raciallyconfused · 6 years ago
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
Qila Rohtas (قلعہ روہتاس) or Rohtas Fort,
Views from the ramparts of the fort built in 1541 overlooking the hills that protected this side from attack.
15 notes · View notes
amnababar · 6 years ago
Photo
Tumblr media
“my darling, how are you? how have you been lately?”
5 notes · View notes
oculusfilms · 3 years ago
Text
Rohtas Fort Jhelum Pakistan cinematic drone video captured by DJI Mavic 2 Pro, showcases drone views of Rohtas fort's large defensive walls, Baoli, Dina fort, Rohtas fort well and step wells and several monumental gateways.
...
...
...
Watch more cinematic videos on 'Oculus Films' Youtube channel. Link in bio.
...
...
...
#rohtas #rohtasfort #rohtasdistrict #rohtasfortjhelum #rohtasfortpakistan
#rohtasfort🏰 #jehlum #pakistan #djimavicpro2 #djimavicpro #dronelife #droneoftheday #fortress #cinematicvideo #cinematic #dronevideo #drone #dronevideo #dronestagram #aerialphotography #fromwhereidrone #droneofficial #dronepilot #filmmaking #cinematography #dronevideooftheweek #dji #djiglobal #mavic2 #djicreator
1 note · View note
risingpakistan · 6 years ago
Text
قلعہ روہتاس کے دروازے اور فصیل
قلعہ روہتاس کے بارہ دروازے ہیں۔ ان کی تعمیر پتھر کی سلوں سے ہوئی ہے۔ دروازوں کی تعمیر جنگی حکمت عملی کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ ان دروازوں میں ہزار خوانی دروازہ، خواص خوانی دروازہ، موری دروازہ، شاہ چانن والی دروازہ، طلاقی دروازہ، شیشی دروازہ، لنگر خوانی دروازہ، کابلی (یا بادشاہی) دروازہ، گٹیالی دروازہ، سہیل دروازہ، پیپل والا دروازہ اور گڑھے والا دروازہ شامل ہیں۔ قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی اور ہر دروازے کا اپنا مقصد تھا۔ سہیل دروازہ بہت خوبصورت ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قلعے کا داخلی دروازہ تھا۔ اس کا نام مقامی صوفی سہیل بخاری کے نام پر رکھا گیا۔ یہ 70 فٹ اونچا اور 68 فٹ چوڑا ہے۔ 
قلعے کے دوسرے حصوں میں فارس اور افغان فن تعمیر کو اپنایا گیا ہے لیکن اس دروازے کے دونوں جانب موجود بالکونیاں ہندی فن تعمیر کے مطابق ہیں۔ اسی طرح کی بالکونیاں حویلی مان سنگھ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ شاہ چانن والی دروازے کا نام ایک صوفی کے نام پر رکھا گیا ہے جو یہاں کام کے دوران فوت ہو گئے۔ ان کا مزار دروازے کے قریب بنا۔ کابلی دروازہ اسی جانب کھلتا ہے جس جانب کابل ہے۔ اس دروازے کے ساتھ شاہی مسجد بھی ہے۔ ہزار خوانی اہم دروازہ ہے۔ طلاقی دروازے سے شیر شاہ کے دور میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتی ٹائلوں سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگرخوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف ہے۔ اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔ بارہ دروازوں میں سے ایک یعنی لنگر خوانی دروازہ براہ راست جنگی علاقے میں کھلتا تھا اور یہ دشمن کی فوجوں کے لیے ایک طرح کا جال تھا۔ اس دروازے سے گزر کر اندر آنے والا شخص فصیل کی برجیوں پر مامور محافظوں کے براہ راست نشانے پر آ جاتا تھا۔ اسی طرح خواص خوانی دروازہ دہرا بنایا گیا تھا۔ مغربی سمت ایک چھوٹی سی ’’ریاست‘‘ علیحدہ بنائی گئی تھی، جو چاروں جانب سے دفاعی حصار میں تھی۔ اس کے اندر جانے کا صرف ایک دروازہ تھا۔ اس چھوٹی سی ریاست کے بلند ترین مقام پر راجا مان سنگھ کی حویلی تھی، جو مغل شہنشاہ اکبر اعظم کا سسر اور اس کی فوج کا جرنیل تھا۔
قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید، عالیشان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج، 184 برجیاں اور ہزاروں کگرے اور سیڑھیاں ہیں، جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ اس کے برج صرف فصیل کی خوب صورتی ہی میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ یہ قلعے کے مضبوط ترین دفاعی حصار میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فصیل کی چوڑائی بہت زیادہ ہے۔ فصیل کے چبوترے سیڑھیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔ فصیل تین منزلوں میں دو یا سہ قطاری تعمیر کی گئی تھی۔ سب سے بلند ترین حصہ کنگروں کی صورت میں تعمیر کیا گیا۔ چبوتروں کی چوڑائی تین فٹ سے زیادہ ہے اور یہ تیر اندازوں اور توپچیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ ان کی بلندی مختلف تھی۔ یہ کنگرے صرف شاہی فوجوں کو دشمن سے تحفظ ہی فراہم نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے دشمنوں پر پگھلا ہوا سیسہ اور کھولتا ہوا پانی بھی انڈیلا جاتا تھا۔
معرو ف آزاد
1 note · View note
pakistan-journal · 3 years ago
Text
قلعہ روہتاس، جنگی طرز تعمیر کا شاہکار
شیر شاہ سوری کا قلعہ روہتاس جرنیلی سڑک پر جہلم میں واقع ہے۔ دریائے جہلم بھی یہاں ہی ہے جسے عبور کرنا سکندراعظم کے لئے دوبھر ہو گیا تھا اور ایک دفعہ تو اسے راجہ پورس نے ناکوں چنے چبوا دیئے تھے۔ ''خواص خانی‘‘ دروازے سے قلعے میں داخل ہوا جاتا ہے۔ قلعہ میں سب سے حیران کن چیز باؤلی یعنی ''سیڑھیوں والے کنویں‘‘ ہے۔ قریبی فصیل پر بھی چڑھا جاسکتا ہے ۔ یہ آپ کو 6 صدیاں پیچھے تاریخ میں لے جاتا ہے۔ آج یہ کھنڈرات میں تب��یل ہو رہا ہے۔ شیر شاہ سوری کا تعمیر کیا گیا قلعہ 948ھ میں مکمل ہوا۔ جو پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔ 
جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہو گیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی، جو اب یہاں سے پانچ کلومیٹر دور جا چکی ہے۔ دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کے بجائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدوروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا تھا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے ، جب کہ قلعے کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر موجود ہیں، اس کے علاوہ ایک اور روایت ہے کہ یہاں قلعے کی تعمیر سے پہلے ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ شیر شاہ سوری کا جب یہاں سے گزر ہوا تو یہاں پر رہنے والے ایک فقیر نے شیر شاہ سوری کو یہاں قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت دی۔
اخراجات: ایک روایت کے مطابق ''ٹوڈرمل‘‘ نے اس قلعے کی تعمیر شروع ہونے والے دن مزدوروں کو فی سلیب (پتھر) ایک سرخ اشرفی بہ طور معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گو قلعہ کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات کا درست اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم ایک روایت کے مطابق اس پر اس زمانے کے 34 لاکھ 25 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ جس کا تخمینہ آج کے اربوں روپے بنتے ہیں۔ واقعات جہانگیری کے مطابق یہ اخراجات ایک پتھر پر کندہ کیے گئے تھے جو ایک زمانے میں قلعے کے کسی دروازے پر نصب تھا۔ قلعے کی تعمیر میں 3 لاکھ مزدوروں نے بہ یک وقت حصہ لیا اور یہ 4 سال 7 ماہ اور 21 دن میں مکمل ہوا۔ یہ چار سو ایکٹر پر محیط ہے، جب کہ بعض کتابوں میں اس کا قطر 4 کلومیٹر بیان کیا گیا ہے۔ قلعے کے بارہ دروازے ہیں۔ جن کی تعمیر جنگی حکمت عملی کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ یہ دروازے فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ 
ان دروازوں میں خواص دروازہ ، موری دروازہ ، شاہ چانن والی دروازہ ، طلاقی دروازہ ، شیشی دروازہ ، لنگر خوانی دروازہ ، بادشاہی دروازہ ، کٹیالی دروازہ ، سوہل دروازہ ، پیپل والا دروازہ ، اور گڈھے والا دروازہ، قلعے کے مختلف حصوں میں اس کے دروازوں کو بے حد اہمیت حاصل تھی۔ اور ہر دروازہ کا اپنا مقصد تھا جبکہ خاص وجہ تسمیہ بھی تھی۔ ہزار خوانی صدر دروازہ تھا۔ طلاقی دروازے سے'' دور شیر شاہی‘‘ میں ہاتھی داخل ہوتے تھے۔ طلاقی دروازے کو منحوس دروازہ سمجھا جاتا تھا۔ شیشی دروازے کو شیشوں اور چمکتی ٹائلوں سے تیار کیا گیا تھا۔ لنگر خوانی لنگر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ کابلی دروازے کا رخ چونکہ کابل کی طرف تھا اس لیے اس کو کابلی دروازہ کہا جاتا تھا۔ سوہل دروازہ زحل کی وجہ سے سوہل کہلایا۔ جبکہ اس کو سہیل دروازہ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ حضرت سہیل غازی کا مزار یہیں واقع تھا۔
گٹیالی دروازے کا رخ چونکہ گٹیال پتن کی طرف تھا اس لیے اس کو یہی نام دیا گیا۔ اس طرح مختلف دروازوں کے مقاصد مختلف تھے۔ قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید ، عالی شان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج ، 184 برجیاں ، 6881 کنگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہ مسجد کہا جاتا ہے اور چند باؤلیاں تھیں، بعد ازاں ایک حویلی تعمیر کی گئی، جسے راجا مان سنگھ نے بنوایا تھا۔ محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آکر خیموں میں رہا کرتے تھے۔ یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا ، اس لیے شیر شاہ سوری کے بعد بھی برسر اقتدار آنے والوں نے اپنے ٹھہرنے کے لیے یہاں کسی پرتعیش رہائش گاہ کا اہتمام نہیں کیا۔
قلعہ روہتاس دیکھنے والوں کو ایک بے ترتیب سا تعمیری ڈھانچا نظرآتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے اسے تعمیر کرتے ہوئے نقش نگاری اور خوب صورتی کے تصور کو فراموش نہیں کیا۔ قلعے کے دروازے اور بادشاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان قوسین قلعے میں جابجا دکھائی دیتی ہیں۔ جن کی بہترین مثال سوہل گیٹ ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مر مر کی سلوں پر کندہ مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطابی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جو خط نسخ میں تحریر کیے گئے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں جن میں سے ایک پر کلمہ شریف اور دوسری پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں۔ شیشی دروازے پر نصب سلیب پر فارسی میں قلعے کی تعمیر کا سال 948ھ کندہ کیا گیا ہے موجودہ حالت: قلعے کے اندر مکمل شہر آباد ہے اور ایک ہائی اسکول بھی قائم ہے۔ مقامی لوگوں نے قلعے کے پتھر اکھاڑ اکھاڑ کر مکان بنا لیے ہیں۔ 
قلعے کے اندر کی زمین کی فروخت منع ہے۔ اس وقت سطح زمین سے اوسط تین سو فٹ بلند ہے۔ اس وقت چند دروازوں ، مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سسر راجا مان سنگھ کے محل اور بڑے پھانسی گھاٹ کے سوا قلعہ کا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ اس آبادی کی منتقلی کے بعد جو بستی وجود میں آئی اب اسے روہتاس گاؤں کہتے ہیں۔ سلیم شاہ کا خیال تھا کہ آبادی ہونے کے باعث قلعہ موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہے گا ، لیکن ایسا نہ ہو سکا اور آج اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ بکھری ہوئی اینٹوں کی صورت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔
فرخ ، رانا عثمان
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
hd-pakistan · 6 years ago
Photo
Tumblr media
Rohtas Fort, Pakistan 🇵🇰💕 Source
116 notes · View notes
travelistme · 3 years ago
Text
Day Trip to Rohtas Fort, Pakistan
Day Trip to Rohtas Fort, Pakistan
Rohtas Fort is a 16th century fortress located near Jhelum, a city near north-east Pakistan, known for its large defensive walls and several monumental gateways. In 1997 the fort was put on the UNESCO World Heritage Site list and described as ‘an exceptional example of the Muslim military architecture of Central and South Asia.’ The fort was constructed in 1541 under the orders of King Sher Shah…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
ammarthemystic · 5 years ago
Photo
Tumblr media
In my 5th class, I had first trip with my classfellows to the Rohtas. #Rohtas #Fort is a 16th century fort located near the city of #Jhelum in the #Punjab province of #Pakistan. The fort was also built to suppress the local Gakhar tribes of the Potohar region. The fort is the largest fort in the subcontinent (India and Pakistan). (at Rohtas Fort) https://www.instagram.com/p/CAQ5jq0Hsg1/?igshid=1hf4thoyjg4it
0 notes
ever-student · 2 years ago
Text
Tumblr media Tumblr media Tumblr media
Shergarh Valley*. One of the marvels of natural beauty and magnificence of valley of Rohtas Forest Division, which lie deep within the jungle and are seldom visited. It is situated at the Durgawati River, which runs between the hills of Kaimur and Rohtas Forest Division. During monsoon and in winter the view is mesmerizing filled with zigzag lush green hills along the valley with a pleasure to the human eyes. The view can be best seen from the top of Shergarh Fort located near Karamchat Dam
2 notes · View notes