#qaim ali shah
Explore tagged Tumblr posts
Photo
نیب: قوانین میں تبدیلی کے بعد ملزمان کی ریلیف کی درخواستیں شروع ۔ اسلام آباد: قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس 2019 کے جاری ہونے کے بعد کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے سیاست دانوں، بیوروکریٹس نے احتساب عدالت میں ریلیف کی درخواستیں دائر کردیں۔
#asif ali zardari#bilawal bhutto zardari#corruption#fake accounts#islamabad#money laundring#nab#nab ordinance#Pakistan#pakistan housing authority foundation#politics#ppp#pti#qaim ali shah
0 notes
Text
نامزد وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کون ہیں ؟
مراد علی شاہ صوبہ سندھ کے 26 ویں وزیر اعلیٰ ہوں گے ، ان سے قبل ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 1973 سے لیکر آج تک سات مرتبہ یہ منصب رہا ہے۔ جامشورو سے تعلق رکھنے والے والے مراد علی شاہ کو سیاست وراثت میں ملی اور اسمبلی کی رکنیت کے لیے انھیں زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ ان کے والد اور صوبے کے سابق وزیرِ اعلیٰ عبداللہ شاہ جس نشست سے منتخب ہوئے تھے بعد میں مراد علی شاہ وہیں سے دو بار انتخابات میں کامیاب قرار دیےگئے۔
2013 کے انتخابات سے قبل دوہری شہریت کی وجہ سے انھیں نااہل قرار دیا گیا لیکن وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ انھوں نے کینیڈا کی شہریت پہلے ہی چھوڑ دی تھی، جس کے بعد وہ دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے۔ مراد علی شاہ کو ایک اور چیز بھی وراثت میں ملی ہے وہ ہے کراچی آپریشن۔ جب ان کے والد وزیر اعلیٰ تھے تو ایم کیو ایم کے خلاف جاری آپریشن اپنے عروج پر تھا اور موجودہ وقت بھی شہر اور ایم کیو ایم کو اس آپریشن کا سامنا ہے۔ وہ کراچی میں قیام امن کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلینج سمجھتے ہیں۔ عبداللہ شاہ کے دور حکومت میں بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو، ان کے سگے چچا احسان علی شاہ اور ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب سیاسی رنجشیں ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نائن زیرو پہنچے تھے تو مراد علی شاہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس وفد نے ایم کیو ایم کے ’شہدا قبرستان‘ میں جاکر فاتحہ پڑھی ��ھی، جس میں وہ کارکن بھی شامل تھے جو اس آپریشن میں ہلاک ہوئے۔
مراد علی شاہ دو بچوں کے والد ہیں زیادہ تر وقت کراچی میں گزارتے ہیں ارباب غلام رحیم کے دور حکومت میں مراد علی شاہ بطور اپوزیشن پارلیمینٹیرین کافی سرگرم رہے۔ اسمبلی قوانین و ضوابط پر عبور کی وجہ سے وہ سینیئر پارلیمینٹیرین اسپیکر مظفر شاہ کو بھی پریشان کردیتے تھے اور اس وقت حکومت اور موجودہ اپوزیشن میں شامل ایم کیو ایم کے اراکین سے بھی ان کی نوک جھونک چلتی آئی ہے۔ سید عبداللہ شاہ کی طرح مراد علی شاہ ملنسار اور میڈیا دوست نہیں اور وہ انتہائی کم بات کرتے ہیں۔ سوائے بجٹ پریس کانفرنسوں کے انھیں شاذ و نادر میڈیا کا سامنا کرتے دیکھا گیا تھا۔ محکمہ مالیات اور توانائی کے قلمدان ان کے پاس ہونے کے باوجود ان کا کبھی بھی کوئی ترجمان نہیں رہا تھا۔ میڈیا سے دوری کے بارے میں ایک نجی محفل میں انھوں نے کہا تھا میڈیا میں الٹی سیدھی خبریں آتی ہیں جو انھیں پسند نہیں اسی لیے وہ دور رہتے ہیں۔ اسمبلی میں بجٹ تقریر سے قبل نجی چینلز پر بجٹ منظر عام پر آنے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے، بطور وزیر خزانہ انھوں نے ان کوششوں کو کافی حد تک کمزور کیا اور افسران کو متنبہ کردیا کہ اگر بجٹ دستاویزات لیک ہوئیں تو اس افسر کے خلاف کارروائی ہوگی۔
این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے مراد شاہ امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی سے بھی سول سٹرکچرل انجینئرنگ اور اکنامک انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ حصولِ تعلیم کے بعد انھوں نے اپنے کریئر کی ابتدا واپڈا میں بطور جونیئر انجنیئر کی اور پھر پورٹ قاسم اتھارٹی، حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی ہاربر پر بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
روایتی سیاست دانوں کے برعکس ان کے طرز عمل اور رویے پر ’افسر شاہی‘ زیادہ حاوی ہے۔ وہ صبح نو بجے دفتر پہنچ جاتے ہی اور صرف اپنے پسندیدہ سیکریٹریوں کے ساتھ کام کرنے کو اولیت دیتے ہیں۔
اپنے والد سابق وزیراعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ کی طرح مراد علی شاہ ملنسار اور میڈیا دوست نہیں، وہ انتہائی کم بات کرتے ہیں سوائے بجٹ پریس کانفرنسوں کے انھیں شاذ و نادر ہی میڈیا کا سامنا کرتے دیکھا گیا تھا۔ موجودہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کو نسبتاً جذباتی شخصیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ وہ وزیرِ اعلیٰ نامزد ہونے سے قبل صوبائی وزیر خزانہ، وزیرِ توانائی اور وزیرِ آبپاشی بھی رہ چکے ہیں۔ سنہ 2010 میں سندھ میں جب سیلاب آیا تو اس وقت مراد علی شاہ ہی وزیر آبپاشی تھے اور انھیں ہٹا کر جام سیف اللہ دہاریجو کو یہ وزارت دی گئی تھی۔
مراد ��لی شاہ اپنا زیادہ تر وقت کراچی میں گذارتے ہیں جہاں ان کا خاندان بھی مقیم ہے، جبکہ ان کے حلقے کے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ ان سے کم ملتے ہیں۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے انھیں انتخابات میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب مخالف امیدوار حبیب رند نے انھیں ’ٹف ٹائم‘ دیا تھا تاہم اس کے بعد انھوں نے حلقے میں اپنے نمائندے تعینات کر دیے ہیں جو لوگوں کی شکایت سنتے اور ان کے حل کی کوشش کرتے ہیں۔ سندھ کے سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کو نسبتاً ایک جذباتی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ ملنسار نہ ہونا اور جلد ناراض ہونے کی عادت وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ان کی اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی آنے والے دنوں میں خود کو ان کے ساتھ ’کمفرٹیبل‘ محسوس نہیں کرتے۔
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
0 notes
Text
نامزد وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کون ہیں ؟
مراد علی شاہ صوبہ سندھ کے 26 ویں وزیر اعلیٰ ہوں گے ، ان سے قبل ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 1973 سے لیکر آج تک سات مرتبہ یہ منصب رہا ہے۔ جامشورو سے تعلق رکھنے والے والے مراد علی شاہ کو سیاست وراثت میں ملی اور اسمبلی کی رکنیت کے لیے انھیں زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ ان کے والد اور صوبے کے سابق وزیرِ اعلیٰ عبداللہ شاہ جس نشست سے منتخب ہوئے تھے بعد میں مراد علی شاہ وہیں سے دو بار انتخابات میں کامیاب قرار دیےگئے۔
2013 کے انتخابات سے قبل دوہری شہریت کی وجہ سے انھیں نااہل قرار دیا گیا لیکن وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ انھوں نے کینیڈا کی شہریت پہلے ہی چھوڑ دی تھی، جس کے بعد وہ دوبارہ منتخب ہو کر اسمبلی پہنچے۔ مراد علی شاہ کو ایک اور چیز بھی وراثت میں ملی ہے وہ ہے کراچی آپریشن۔ جب ان کے والد وزیر اعلیٰ تھے تو ایم کیو ایم کے خلاف جاری آپریشن اپنے عروج پر تھا اور موجودہ وقت بھی شہر اور ایم کیو ایم کو اس آپریشن کا سامنا ہے۔ وہ کراچی میں قیام امن کو اپنے لیے سب سے بڑا چیلینج سمجھتے ہیں۔ عبداللہ شاہ کے دور حکومت میں بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو، ان کے سگے چچا احسان علی شاہ اور ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے بھائی ناصر حسین اور بھتیجے عارف حسین کی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جب سیاسی رنجشیں ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری نائن زیرو پہنچے تھے تو مراد علی شاہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس وفد نے ایم کیو ایم کے ’شہدا قبرستان‘ میں جاکر فاتحہ پڑھی تھی، جس میں وہ کارکن بھی شامل تھے جو اس آپریشن میں ہلاک ہوئے۔
مراد علی شاہ دو بچوں کے والد ہیں زیادہ تر وقت کراچی میں گزارتے ہیں ارباب غلام رحیم کے دور حکومت میں مراد علی شاہ بطور اپوزیشن پارلیمینٹیرین کافی سرگرم رہے۔ اسمبلی قوانین و ضوابط پر عبور کی وجہ سے وہ سینیئر پارلیمینٹیرین اسپیکر مظفر شاہ کو بھی پریشان کردیتے تھے اور اس وقت حکومت اور موجودہ اپوزیشن میں شامل ایم کیو ایم کے اراکین سے بھی ان کی نوک جھونک چلتی آئی ہے۔ سید عبداللہ شاہ کی طرح مراد علی شاہ ملنسار اور میڈیا دوست نہیں اور وہ انتہائی کم بات کرتے ہیں۔ سوائے بجٹ پریس کانفرنسوں کے انھیں شاذ و نادر میڈیا کا سامنا کرتے دیکھا گیا تھا۔ محکمہ مالیات اور توانائی کے قلمدان ان کے پاس ہونے کے باوجود ان کا کبھی بھی کوئی ترجمان نہیں رہا تھا۔ میڈیا سے دوری کے بارے میں ایک نجی محفل میں انھوں نے کہا تھا میڈیا میں الٹی سیدھی خبریں آتی ہیں جو انھیں پسند نہیں اسی لیے وہ دور رہتے ہیں۔ اسمبلی میں بجٹ تقریر سے قبل نجی چینلز پر بجٹ منظر عام پر آنے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے، بطور وزیر خزانہ انھوں نے ان کوششوں کو کافی حد تک کمزور کیا اور افسران کو متنبہ کردیا کہ اگر بجٹ دستاویزات لیک ہوئیں تو اس افسر کے خلاف کارروائی ہوگی۔
این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے والے مراد شاہ امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی سے بھی سول سٹرکچرل انجینئرنگ اور اکنامک انجینئرنگ کے شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ حصولِ تعلیم کے بعد انھوں نے اپنے کریئر کی ابتدا واپڈا میں بطور جونیئر انجنیئر کی اور پھر پورٹ قاسم اتھارٹی، حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی ہاربر پر بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
روایتی سیاست دانوں کے برعکس ان کے طرز عمل اور رویے پر ’افسر شاہی‘ زیادہ حاوی ہے۔ وہ صبح نو بجے دفتر پہنچ جاتے ہی اور صرف اپنے پسندیدہ سیکریٹریوں کے ساتھ کام کرنے کو اولیت دیتے ہیں۔
اپنے والد سابق وزیراعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ کی طرح مراد علی شاہ ملنسار اور میڈیا دوست نہیں، وہ انتہائی کم بات کرتے ہیں سوائے بجٹ پریس کانفرنسوں کے انھیں شاذ و نادر ہی میڈیا کا سامنا کرتے دیکھا گیا تھا۔ موجودہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کو نسبتاً جذباتی شخصیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ وہ وزیرِ اعلیٰ نامزد ہونے سے قبل صوبائی وزیر خزانہ، وزیرِ توانائی اور وزیرِ آبپاشی بھی رہ چکے ہیں۔ سنہ 2010 میں سندھ میں جب سیلاب آیا تو اس وقت مراد علی شاہ ہی وزیر آبپاشی تھے اور انھیں ہٹا کر جام سیف اللہ دہاریجو کو یہ وزارت دی گئی تھی۔
مراد علی شاہ اپنا زیادہ تر وقت کراچی میں گذارتے ہیں جہاں ان کا خاندان بھی مقیم ہے، جبکہ ان کے حلقے کے لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ ان سے کم ملتے ہیں۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے انھیں انتخابات میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب مخالف امیدوار حبیب رند نے انھیں ’ٹف ٹائم‘ دیا تھا تاہم اس کے بعد انھوں نے حلقے میں اپنے نمائندے تعینات کر دیے ہیں جو لوگوں کی شکایت سنتے اور ان کے حل کی کوشش کرتے ہیں۔ سندھ کے سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کے مقابلے میں مراد علی شاہ کو نسبتاً ایک جذباتی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ ملنسار نہ ہونا اور جلد ناراض ہونے کی عادت وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے ان کی اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی آنے والے دنوں میں خود کو ان کے ساتھ ’کمفرٹیبل‘ محسوس نہیں کرتے۔
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
0 notes
Text
A pakistan Army Doctor providing medical care to a drought affected child in Tharparker
A pakistan Army Doctor providing medical care to a drought affected child in Tharparker.
#Tharparkar District#Sindh#Qaim Ali Shah#Pakistan#Government of Sindh#Chief Minister of Sindh#Chandigarh#Brown Swiss#Bilawal Bhutto Zardari#Animal husbandry
0 notes
Text
چینی کمپنی اب کراچی کا کچرا اٹھاے گی
0 notes
Video
سائين قائم علي شاھ کي ڀنگ گهوٽي پيئارينداسين /QAIM ALI SHAH KE BARY ME I...
1 note
·
View note
Video
(via https://www.youtube.com/watch?v=0kaUyzwiY-4)
0 notes
Text
Orange Line BRT Project in Limbo Amid Sindh Govt’s Apathy
Despite several years of criticism, Karachi’s public transport sector remains an eyesore, not only for the city dwellers but also for the entire country. The local government, however, seems unbothered by the matter, which is reflected by the leisurely development pace of the Orange Line Bus Rapid Transit (BRT) project.
The project was conceived and launched by the former Chief Minister of Sindh, Qaim Ali Shah, in June 2016. The service was intended to offer a convenient and pocket-friendly traveling facility to around 50,000 inhabitants of Orangi Town, Karachi.
ALSO READ
Al-Haj Proton Partners With TPL Trakker for GPS Navigation & Other Services
According to a report from ARY News, the project is still only 70 percent complete and is a far cry from becoming operational anytime soon. The report says that, although the main elevated track has been readied, four stations, four pedestrian bridges, and a depot are still awaiting completion.
The Orange Line bus project covers four kilometers between the Orangi Municipal Office and the Matriculation Board Chowrangi. As per the plan, 18 buses will traverse the route back and forth on a daily basis.
ALSO READ
Haval Announces Yet Another Huge Price Hike for the H6 SUV
The project was originally expected to become operational in around a year at a cost of Rs. 1.14 billion from the Sindh government. However, industry experts have reportedly claimed that at its current pace the project is likely to be completed around February 2022.
The construction and other developmental activities are still continuing with no significant follow-up progress report from the current provincial government.
The post Orange Line BRT Project in Limbo Amid Sindh Govt’s Apathy appeared first on .
source https://propakistani.pk/2021/09/30/orange-line-brt-project-in-limbo-amid-sindh-govts-apathy/
0 notes
Text
Former Sindh CM Qaim Ali Shah tests positive for coronavirus
Former Sindh chief minister Qaim Ali Shah has tested positive for coronavirus, his daughter Nafisa Shah revealed Tuesday.
Nafisa took to Twitter to state that the veteran PPP leader tested positive for the virus a few days ago, and is feeling its symptoms.
"He has all the symptoms and is undergoing treatment and care at home under supervision of team of doctors. Pls pray for his good health and speedy recovery," she tweeted.
My father #QaimAliShah tested positive for #coronavirus a few days back. He has all the symptoms and is undergoing treatment and care at home under supervision of team of doctors. Pls pray for his good health and speedy recovery pic.twitter.com/lzXkhUafAC
— Nafisa Shah (@ShahNafisa) August 3, 2021
https://ift.tt/3llxjiq
0 notes
Text
قائم علی شاہ کے آٹھ سال کیسے رہے؟
سندھ میں گذشتہ 8 سال میں کئی ایسے موقع آئے جب بات اس نہج پر پہنچی کہ وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنا چاہیے لیکن سید قائم علی شاہ اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے ہمیشہ اس صورتحال کو مات دیکر پارٹی قیادت کا اعتماد حاصل کرلیتے تھے۔
2008 کے انتخابات کے بعد جب وزیر اعظم کے لیے یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی سیاسی حلقوں کے لیے باعث حیرانگی تھی ایسے ہی ایک معمر شخصیت کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی کو کچھ حلقوں میں پسندیدگی سے نہیں دیکھا گیا تھا، لیکن اعلیٰ قیادت کے تیور دیکھ کر یہ خاموش رہے۔ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں صوبائی حکومت پر صحت، تعلیم، امن و امان سمیت کئی شعبوں میں طرز حکمرانی اور بدعنوانی کے الزامات عائد ہوتے رہے۔
اس میں 2010 اور 2011 کے سیلابوں کی تباہ کاریاں، کراچی میں سیاسی و لسانی بنیادوں پر قتلِ عام، متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی دباؤ یہ وہ چیلینجز تھے جو ان کی کرسی کو بار بار ہلاتے رہے، معاملات جب سپریم کورٹ میں پہنچے تو ان کی طرز حکمرانی پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ 2013 کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی دیگر صوبوں میں شکست کے بعد سندھ میں قیادت کی نظر کرم پھر بھی سید قائم علی شاہ پر پڑی اور انہیں دوبارہ اس منصب پر منتخب کردیا گیا، لیکن اس بار وفاق میں پیپلز پارٹی نہیں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور اس مدت سے ہی 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کے وسائل میں بھی اضافے ہوا لیکن اس سے طرز حکمرانی میں بہتری کے بجائے کرپشن کے شکایت سامنے آنے لگیں۔
تھر میں بچوں کی ہلاکت ہی نہیں، صحت، تعلیم اور آبپاشی سمیت خدمات کے ہر شعبے میں وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی زیر سربراہی حکومت کی کارکردگی لوگوں کو متاثر نہیں کرسکی۔ غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں سندھ حکومت کی کارکردگی مجموعی طور پر کمزور رہی، مایوس کن حد تک۔ ’گذشتہ آٹھ سالوں مں ان کی کوئی کامیابی تلاش کرنا بہت مشکل ہے، صرف اتنا کہ انہوں نے کام چلایا ہے باوجود اس کے پارٹی کے اندر گروہ بندی تھی اور سندھ کا منقسم مینڈیٹ تھا۔‘
تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے سید قائم علی شاہ اور ان کا خاندان کسی بھی سکینڈل میں ملوث نہیں ہوئے۔ جو گورننس اور میرٹ پامال ہوا اور پورا سندھ کوڑے دان میں تبدیل ہوگیا اس میں غلطی قائم علی شاہ کی تھی یا پیپلز پارٹی کی قیادت کی جنہوں نے قائم علی شاہ کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا اور نتیجے میں کرپشن میں اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر سندھ پسماندگی کا شکار ہوا۔
سندھ کے روز مرہ کے جو معاملات ہیں وہ آصف زرداری کی بہن فریال ٹالپر چلاتی رہی ہیں، اس سے قبل اویس مظفر وزیر اعلیٰ سے زیادہ بااختیار سمجھے جاتے تھے، اسی طرح سابق وزیر داخلہ ذوالقفار مرزا وزیر اعلیٰ سے زیادہ بااختیار اور طاقتور نظر آتے تھے۔
کراچی میں جب ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تو صوبائی حکومت کی گرفت شہر تک کمزور ہوئی اور جب رینجرز نے ڈاکٹر عاصم حسین، فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کے چیئرمین نثار مورائی کی گرفتاری کے بعد بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب قدم بڑھائے اور کرپشن کے معاملات کو اٹھایا تو صوبائی حکومت نے ایک لکیر کھینچ لی اور اسے رینجرز کے اس کردار کو اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گمشدگی، دورانِ تحویل ہلاکتوں اور سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی آمد اور سیاسی جماعت کےاعلان پر ایم کیو ایم کے خدشات اور تحفظات کو سنا ان سنا کردیا لیکن باقرانی سے صوبائی وزیر سہیل انور سیال کے بھائی کے دوست اسد کھرل کی گرفتاری اور حملہ آوروں کی جانب سے رہائی نے ایک نیا تنازعہ جنم دیا اور رینجرز نے اندرون سندھ آپریشن ��ر اپنے موقف کو اور سخت انداز میں پیش کیا۔ سید قائم علی شاہ رینجرز کی تعیناتی اور اختیارات میں توسیع پر قیادت سے مشاورت کے لیے دبئی گئے تھے، جہاں ان کی تبدیلی کا فیصلہ سامنے آیا۔
صحافی اور تجزیہ نگار فیاض نائچ سمجھتے ہیں کہ جب آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے تو اس وقت بھی وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ ہی تھے ابھی تو اس سے زیادہ تو صورتحال کشیدہ نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ جو بھی ہوگا وہ موقف وہی اختیار کرے گاجو آصف علی زرداری کا ہوگا، جن بھی فریقین سے سیاسی و انتظامی معاملات طے ہوتے ہیں وہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ نہیں بلکہ دبئی میں قیادت طے کرتی ہے۔ غیر سرکاری تتنظیم فیئر اینڈ فری الیکشن یعنی فافن کے سربراہ مدثر رضوی کا کہنا ہے کہ قیادت کی تبدیلی سے مثبت تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے۔ سندھ کی صورتحال 2008 سے ایک جیسی ہے اس میں کوئی تبدیلی لائی ہی نہیں لائی گئی یقیناً جب نیا وزیر اعلیٰ آئےگا تو اس کے سامنے چیلینجز ہوں گے اور ذمہ داری بھی بڑھ جائے گی کیونکہ اس اپنی قابلیت ثابت کرنا ہوگی۔
سندھ اسمبلی کے 168 اراکین کے ایوان میں پاکستان پیپلز پارٹی کو 92 نشستیں حاصل ہیں، وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں اس کو کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی جماعت حاصل ہونے کا اعزاز رہا ہے، اب ا س کی حکمرانی سکڑ کر صوبہ سندھ تک محدود رہ گئی ہے، اس صوبے کو ماڈل بنانا پیپلز پارٹی اور آنے والے وزیر اعلیٰ دونوں کے لیے ایک کٹھن امتحان ہے۔ کیونکہ یہ کارکردگی اس کو آگے بڑھنے یا آگے بڑھنے سے روکنے کا سبب بنے گی۔ تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ پی پی پی کا ماضی کا 8 سالہ تجربہ ہے چاہے وہ وفاق کا ہو، بلوچستان، کشمیر یا سندھ کا ہو اس سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دے گی لیکن اگر اب بھی زرداری نے نوشتہ دیوار کو نہیں پڑھا تو پھر پیپلز پارٹی کا مستقبل سندھ میں بھی مخدوش ہو جائے گا۔
فافن کے سربراہ مدثر رضوی کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ حکومت پر بہت اثرانداز ہوتی ہے لیکن وہ اس کو غلط نہیں سمجھتے کیونکہ پارٹی کا جو پروگرام ہے اس پر تو حکومت عملدرآمد کرے۔ جو اس نے حکمرانی میں بہتری، کرپشن اور غربت میں خاتمے کے لیے وعدے کیے ہیں ان کو پورا کرے۔‘
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
0 notes
Text
قائم علی شاہ کے آٹھ سال کیسے رہے؟
سندھ میں گذشتہ 8 سال میں کئی ایسے موقع آئے جب بات اس نہج پر پہنچی کہ وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنا چاہیے لیکن سید قائم علی شاہ اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے ہمیشہ اس صورتحال کو مات دیکر پارٹی قیادت کا اعتماد حاصل کرلیتے تھے۔
2008 کے انتخابات کے بعد جب وزیر اعظم کے لیے یوسف رضا گیلانی کی نامزدگی سیاسی حلقوں کے لیے باعث حیرانگی تھی ایسے ہی ایک معمر شخصیت کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی کو کچھ حلقوں میں پسندیدگی سے نہیں دیکھا گیا تھا، لیکن اعلیٰ قیادت کے تیور دیکھ کر یہ خاموش رہے۔ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں صوبائی حکومت پر صحت، تعلیم، امن و امان سمیت کئی شعبوں میں طرز حکمرانی اور بدعنوانی کے الزامات عائد ہوتے رہے۔
اس میں 2010 اور 2011 کے سیلابوں کی تباہ کاریاں، کراچی میں سیاسی و لسانی بنیادوں پر قتلِ عام، متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی دباؤ یہ وہ چیلینجز تھے جو ان کی کرسی کو بار بار ہلاتے رہے، معاملات جب سپریم کورٹ میں پہنچے تو ان کی طرز حکمرانی پر انگلیاں اٹھنے لگیں۔ 2013 کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی دیگر صوبوں میں شکست کے بعد سندھ میں قیادت کی نظر کرم پھر بھی سید قائم علی شاہ پر پڑی اور انہیں دوبارہ اس منصب پر منتخب کردیا گیا، لیکن اس بار وفاق میں پیپلز پارٹی نہیں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور اس مدت سے ہی 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کے وسائل میں بھی اضافے ہوا لیکن اس سے طرز حکمرانی میں بہتری کے بجائے کرپشن کے شکایت سامنے آنے لگیں۔
تھر میں بچوں کی ہلاکت ہی نہیں، صحت، تعلیم اور آبپاشی سمیت خدمات کے ہر شعبے میں وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی زیر سربراہی حکومت کی کارکردگی لوگوں کو متاثر نہیں کرسکی۔ غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں سندھ حکومت کی کارکردگی مجموعی طور پر کمزور رہی، مایوس کن حد تک۔ ’گذشتہ آٹھ سالوں مں ان کی کوئی کامیابی تلاش کرنا بہت مشکل ہے، صرف اتنا کہ انہوں نے کام چلایا ہے باوجود اس کے پارٹی کے اندر گروہ بندی تھی اور سندھ کا منقسم مینڈیٹ تھا۔‘
تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے سید قائم علی شاہ اور ان کا خاندان کسی بھی سکینڈل میں ملوث نہیں ہوئے۔ جو گورننس اور میرٹ پامال ہوا اور پورا سندھ کوڑے دان میں تبدیل ہوگیا اس میں غلطی قائم علی شاہ کی تھی یا پیپلز پارٹی کی قیادت کی جنہوں نے قائم علی شاہ کو آزادی سے کام کرنے نہیں دیا اور نتیجے میں کرپشن میں اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر سندھ پسماندگی کا شکار ہوا۔
سندھ کے روز مرہ کے جو معاملات ہیں وہ آصف زرداری کی بہن فریال ٹالپر چلاتی رہی ہیں، اس سے قبل اویس مظفر وزیر اعلیٰ سے زیادہ بااختیار سمجھے جاتے تھے، اسی طرح سابق وزیر داخلہ ذوالقفار مرزا وزیر اعلیٰ سے زیادہ بااختیار اور طاقتور نظر آتے تھے۔
کراچی میں جب ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تو صوبائی حکومت کی گرفت شہر تک کمزور ہوئی اور جب رینجرز نے ڈاکٹر عاصم حسین، فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کے چیئرمین نثار مورائی کی گرفتاری کے بعد بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب قدم بڑھائے اور کرپشن کے معاملات کو اٹھایا تو صوبائی حکومت نے ایک لکیر کھینچ لی اور اسے رینجرز کے اس کردار کو اختیارات سے تجاوز قرار دیا۔
کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گمشدگی، دورانِ تحویل ہلاکتوں اور سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کی آمد اور سیاسی جماعت کےاعلان پر ایم کیو ایم کے خدشات اور تحفظات کو سنا ان سنا کردیا لیکن باقرانی سے صوبائی وزیر سہیل انور سیال کے بھائی کے دوست اسد کھرل کی گرفتاری اور حملہ آوروں کی جانب سے رہائی نے ایک نیا تنازعہ جنم دیا اور رینجرز نے اندرون سندھ آپریشن پر اپنے موقف کو اور سخت انداز میں پیش کیا۔ سید قائم علی شاہ رینجرز کی تعیناتی اور اختیارات میں توسیع پر قیادت سے مشاورت کے لیے دبئی گئے تھے، جہاں ان کی تبدیلی کا فیصلہ سامنے آیا۔
صحافی اور تجزیہ نگار فیاض نائچ سمجھتے ہیں کہ جب آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے تو اس وقت بھی وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ ہی تھے ابھی تو اس سے زیادہ تو صورتحال کشیدہ نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ جو بھی ہوگا وہ موقف وہی اختیار کرے گاجو آصف علی زرداری کا ہوگا، جن بھی فریقین سے سیاسی و انتظامی معاملات طے ہوتے ہیں وہ وزیر اعلیٰ کے ساتھ نہیں بلکہ دبئی میں قیادت طے کرتی ہے۔ غیر سرکاری تتنظیم فیئر اینڈ فری الیکشن یعنی فافن کے سربراہ مدثر رضوی کا کہنا ہے کہ قیادت کی تبدیلی سے مثبت تبدیلی کی امید کی جاسکتی ہے۔ سندھ کی صورتحال 2008 سے ایک جیسی ہے اس میں کوئی تبدیلی لائی ہی نہیں لائی گئی یقیناً جب نیا وزیر اعلیٰ آئےگا تو اس کے سامنے چیلینجز ہوں گے اور ذمہ داری بھی بڑھ جائے گی کیونکہ اس اپنی قابلیت ثابت کرنا ہوگی۔
سندھ اسمبلی کے 168 اراکین کے ایوان میں پاکستان پیپلز پارٹی کو 92 نشستیں حاصل ہیں، وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں اس کو کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی جماعت حاصل ہونے کا اعزاز رہا ہے، اب ا س کی حکمرانی سکڑ کر صوبہ سندھ تک محدود رہ گئی ہے، اس صوبے کو ماڈل بنانا پیپلز پارٹی اور آنے والے وزیر اعلیٰ دونوں کے لیے ایک کٹھن امتحان ہے۔ کیونکہ یہ کارکردگی اس کو آگے بڑھنے یا آگے بڑھنے سے روکنے کا سبب بنے گی۔ تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ پی پی پی کا ماضی کا 8 سالہ تجربہ ہے چاہے وہ وفاق کا ہو، بلوچستان، کشمیر یا سندھ کا ہو اس سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دے گی لیکن اگر اب بھی زرداری نے نوشتہ دیوار کو نہیں پڑھا تو پھر پیپلز پارٹی کا مستقبل سندھ میں بھی مخدوش ہو جائے گا۔
فافن کے سربراہ مدثر رضوی کہ��ے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ حکومت پر بہت اثرانداز ہوتی ہے لیکن وہ اس کو غلط نہیں سمجھتے کیونکہ پارٹی کا جو پروگرام ہے اس پر تو حکومت عملدرآمد کرے۔ جو اس نے حکمرانی میں بہتری، کرپشن اور غربت میں خاتمے کے لیے وعدے کیے ہیں ان کو پورا کرے۔‘
ریاض سہیل
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
0 notes
Text
These Karachiites have a message for Sindh chief minister
Vehicles move past a graffiti, depicting the provincial chief executive with the message "Fix It!", near an uncovered drain hole along a road in Karachi, Pakistan. According to local media, a group of activists launched an idea to promote a campaign-project to draw the attention of authorities towards civic issues by art, by spray painting stenciled images of lawmakers with messages.
#Sindh#Qaim Ali Shah#PPP#Pakistan#Muttahida Qaumi Movement#Lack of civic facilities in Karachi#Karachi
0 notes
Link
Karachiites face immense hardships as protests against Machh carnage continue Massive traffic jams were again observed in various parts of Karachi on Thursday as the Hazara community and Shia groups continued with their protest sit-ins and demonstrations at over 20 spots in the city to show solidarity with the Hazara families protesting the Machh tragedy in Quetta. Eleven miners of the Shia Hazara community were brutally killed before dawn on Sunday while they were asleep near a remote coal mine in the mountainous area of Machh in Balochistan. The Islamic State (IS) claimed the responsibility for the attack. As the bereaved families in Balochistan have not buried the bodies in protest and are demanding that the prime minister should pay a visit to them, Shia groups, including the Majlis Wahdat-e-Muslimeen (MWM), the Shia Ulema Council, the Jafria Alliance, the Imamia Students Organisation and the Jaffaria Students Organisation, along with the Hazara community have been holding sit-ins on various roads of Karachi to express solidarity with the families. Protests are underway since yesterday at 20 locations in the city, according to a statement by the Karachi Traffic Police. These areas are Numaish, Kamran Chowrangi, Airport to Natha Khan, Shah Faisal Colony, Gulistan-e-Johar Morr to Johar Chowrangi and Safoora Chowrangi, Malir 15 to Quaidabad, Khuda Ki Basti, Surjani and Steel Town Chowrangi, Ibrahim Hyderi and Korangi, Nipa Bridge, Power House Chowrangi, Safari Park, Nazimabad’s Five Star Chowrangi, Gulberg, Ancholi, Azizabad IRC Imambargah, Nazimabad Board Office and Nazimabad Chowrangi 1. According to a traffic official, Rangers and police have also been deployed to assist the traffic police and ensure the law and order in these areas. However, traffic has been severely affected due to the protests and the commuters are being directed to take alternative routes. Civil society protests The Joint Action Committee (JAC), a joint platform of the civil society organisations, on Thursday staged a protest demonstration outside the Karachi Press Club against the killing of 11 Hazara mine workers in Machh. Carrying placards inscribed with demands to protect the lives of Hazaras, the participants called for an immediate arrest of the terrorists and demanded that the family of the victims be provided with over Rs1.5 million in compensation for each slain worker. Speaking on the occasion, JAC leaders Karamat Ali, Anis Haroon, Qazi Khizar and Saeed Baloch condemned the killings of the Shia Hazara workers in Balochistan. They described the prime minister’s attitude as stubborn for not visiting the bereaved families, who have staged a sit-in in Quetta and are not ready to bury the victims before the prime minister visits them. They condemned both the federal and Balochistan governments for “their failure to protect human lives in the province”. They said the FC had several checkpoints at every nook and corner, but despite that, the terrorists killed the workers and fled away easily. They called the terror activity a failure of the security agencies and the provincial government. Wahid Baloch, Dr Riaz Shaikh, Seema Maheswari, Paryal Marri, Habibuddin Junaidi, Zehra Akbar, Asghar Dashti and other activists also attended the protest. Later, some JAC leaders visited the main protest sit-in at Numaish Chowrangi in Karachi. ‘Protests to continue’ At the main sit-in camp set up by the MWM at Numaish Chowrangi, MWM leader Allama Baqir Abbas Zaidi said the peaceful sit-ins would continue across the country to show solidarity with the families of the Hazara community’s martyrs “until the heirs themselves announce the end of the sit-in and the burial of the bodies”. Leaders of various political parties, including Pakistan People Party’s provincial ministers Nasir Hussain Shah, Shehla Raza and Saeed Ghani, MQM-Pakistan’s leader Kishore Zahra, Pak Sarzameen’s leaders Shabir Qaim Khani and Dr Arshad Vehra, visited the camp to show solidarity with the Hazara community protesting in Quetta. In another sit-in, MWM leaders Bashul Ali Hussain Naqvi, Allama Dali Anwar Jafari, Allama Sadiq Jafari, Allama Mubashir Hassan and others spoke to the protesters. They asked the prime minister to visit the heirs of the martyrs and fulfil their demands. Call for operation Shia Ulema Council (SUC) leaders said terrorists had killed innocent labourers once again, posing a new challenge to the law enforcers. Addressing a press conference at the press club, SUC leaders Allama Muhammad Hussain Masoodi, Allama Syed Bair Hussain Zaidi, Allama Nasir Ahmed Qalandari and other Shia scholars said foreign forces were supporting the banned religious parties and effective action was necessary against them. “This is not the first attack on the Hazara tribe and the Shia community. Leaders of the banned parties openly issue fatwas for killings,” said Masoodi, demanding an operation against the proscribed outfits. “Anti-state elements are conspiring to divide our society on the basis of sect and religion, and this is the first step towards the collapse of the system,” he said. SUC leaders urged the national security institutions to take action not only against the banned outfits but also against those who were involved in spreading hatred and indoctrinating youths with hatred. ‘Vacate one passage’ Sindh Information and Local Government Minister Syed Nasir Hussain Shah has appealed to the protesters to vacate one passage of the blocked roads on humanitarian grounds to facilitate the movement of the emergency service vehicles, including ambulances, adds our correspondent. Speaking to media persons at the press club, he appealed to the religious scholars leading the protest sit-ins to vacate some passage of the blocked roads to facilitate the movement of patients through ambulances and to ensure oxygen supply to the hospitals in the city. He also appealed to the prime minister to go to Quetta to show sympathy with the bereaved families. Entry test cancelled Due to the blockage of main routes, the Federal Urdu University of Arts, Science and Technology postponed the entrance test for the undergraduate programme of Pharmacy-D. A day earlier, the varsity had circulated the test schedule. Later on, the varsity convened an emergency meeting in which it was decided to reschedule the test. The varsity will announce the new date for the test later. https://timespakistan.com/karachiites-face-immense-hardships-as-protests-against-machh-carnage-continue/7739/
0 notes
Photo
SHC dismisses illegal land allotment case against Qaim Ali Shah KARACHI: The Sindh High Court (SHC) on Tuesday ended up an inquiry of National Accountability Bureau (NA) against former Sindh chief minister Syed Qaim Ali Shah, ARY News reported.
0 notes
Text
NAB recovered Rs33 billion in fake accounts case: Fawad Ch
Federal Minister for Information and Broadcasting, Fawad Chaudhry said that National Accountability Bureau (NAB) had recovered Rs33 billion in fake accounts case involving former president Asif Ali Zardari.
Taking to Twitter, the information minister said that the anti-graft watchdog had so far received Rs33 billion in fake accounts case against PPP co-chairman Asif Ali Zardari.
“This indicates the level of corruption carried out in the Sindh and how past rulers plundered the country,” he wrote in a tweet.
Former president Zardari faces a number of graft references stemming from the fake bank accounts scam. He is currently out on bail in all these cases.
The anti-graft watchdog is conducting investigations in pursuance of the Supreme Court’s verdict in the fake accounts case wherein it forwarded the joint investigation team (JIT) report with directions to investigate and file references.
Former president Asif Ali Zardari, chairman of the Pakistan People’s Party Bilawal Bhutto-Zardari, his aunt Faryal Talpur, former chief minister Qaim Ali Shah, provincial minister Anwar Siyal and others are among as many as 172 accused in the fake accounts case.
https://ift.tt/3AkaII9
0 notes
Photo
Fake bank accounts: Qaim Ali Shah’s interim bail extended till May 8 http://bit.ly/2V4Kk46
0 notes