Tumgik
#kulliyateiqbal
kulliyateiqbal · 3 years
Text
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدئہ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو اک راز تھا سینۂ کائنات میں
تشریح میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدئہ صفات میں میرے عشق کے نغموں سے ذاتِ باری کی بارگاہِ خاص میں شور پیدا ہو گیا اور ان نغموں کے باعث صفات کے بتکدے سے پناہِ خدا کے غلغلے بلند ہونے لگی۔ مطلب یہ کہ میری عاشقانہ صداؤں سے حریمِ ذات میں شور بپا ہوا لیکن صفات کے بتخانے سے پناہِ خدا کے نعرے اٹھنے لگے۔ اس لیے بھی کہ عاشقِ ذات کی فریاد صفات سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس لیے بھی کہ یہ فریاد صفات کے بت توڑے بغیر ذات تک نہیں پہنچ سکتی۔ لہذا بت خانے سے الامان و الحفیظ کی صدائیں آنیں لگیں۔
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں تیرے عشق کی بدولت میری نگاہ اس قدر تیز ہو گئی ہے کہ حور و فرشتہ اگرچہ مادی نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ میرے تخیلات میں اسیر ہیں یعنی میں ان کی حقیقت کا ادراک کر سکتا ہوں۔ میری نگاہ کی حقیقت بینی کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ اس کی وجہ سے تیری تجلیات میں خلل واقع ہو رہا ہے مطلب یہ ہے کہ میں ہر تجلی میں صاحبِ تجلی کو دیکھتا ہوں۔
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں اگرچہ میری تلاش و جستجو بت خانے اور کعبہ کے نقشے تیار کرنے والی ہے یعنی انسان نے جگہ جگہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادت گاہیں بنا لیں ہیں۔ اس کے باوجود جب ان میں مجھے تیری ذاتِ اقدس کا کوئی نشان نظر نہ آیا تو میں نے اپنی آہ و فغاں سے کعبہ و بت خانے میں ایک حشر برپا کر دیا۔
گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں انسان اپنی سرشت کے لحاظ سے ایسا ناقص اور محدود ہے کہ وہ صرف اپنی عقل کی مدد سے کائنات کی حقیقت دریافت نہیں کر سکتا لیکن عشق مٰیں ایسی طاقت ہے کہ اس کی مدد سے وہ حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ انسان پر مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں کبھی اس کی نگاہ اس قدر تیز ہو جاتی ہے کہ وہ کائنات کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے بالفاظِ دیگر کبھی تو اس کی نگاہ عرشِ اکبر کے نظارے کرتی ہے اور کبھی اپنے ہی پیدا کردہ توہمات میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔
تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا میں ہی تو اک راز تھا سینۂ کائنات میں اس شعر میں استعجاب کا رنگ پایا جاتا ہے کہ اے خدا تو نے یہ کیا کیا کہ مجھ کو فاش کر دیا لیکن دراصل شاعر اس حقیقت کا اعلان کر رہا ہے کہ اے خدا مجھے پیدا کر کے تو نے اپنے آپ کو آشکارا کر دیا۔ واضع ہو کہ انسان کائنات میں اللہ کا مظہر ہے۔ اس کے اندر روح اور بدن کے علاوہ ایک اور چیز بھی ہے جسے انا سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ انائے مقید دراصل انائے مطلق کا پرتو ہے۔ اس لیے اس میں الوہیت کا رنگ نظر آتا ہے اور جو شخص اس کی حقیقت سے آگاہ ہو جائے وہ اللہ پاک کو پا لیتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں اگر نہ ہو تجھے الجھن تو کھول کر کہ دوں وجودِ حضرتِ انسان نہ روح ہے نہ بدن
5 notes · View notes