Tumgik
#Karachi Karachi K4 Project
emergingkarachi · 9 months
Text
کے فور منصوبہ ناگزیر
Tumblr media
تین کروڑ کی آبادی پر مشتمل، ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کی پانی کی ضروریات بڑھتی آبادی کیساتھ ساتھ پوری کرنے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومت کا مشترکہ گریٹر کراچی واٹر سپلائی اسکیم کے فورپراجیکٹ دو عشرے قبل سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کے دور میں بنایا گیا تھا لیکن حکومتی لیت و لعل کے باعث مسلسل تعطل کا شکار چلا آرہا ہے۔ تاہم گزشتہ روز چیئرمین واپڈا انجینئر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی کے دورے کے موقع پر دی گئی بریفنگ میں متعلقہ حکام نے نوید سنائی ہے کہ منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل اکتوبر 2024ء میں طے ہے جس پر 40 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ بریفنگ میں مزید بتایا گیا کہ منصوبے کی پی سی ون لاگت 126 ارب روپے ہے جبکہ 40 ارب خرچ ہو چکے۔ اس موقع پر سندھ حکومت کی جانب سے منصوبے کیلئے درکار بجلی کے نظام اور کراچی واٹراینڈ سیوریج کارپوریشن کی جانب سے پانی کی تقسیم کے نظام میں توسیع سے متعلق امور کا بھی جائزہ لیا گیا۔ 
Tumblr media
کے فور آبی منصوبے سے کراچی کو کینجھر جھیل سے روزانہ 650 ملین گیلن پینے کا پانی فراہم کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ دو مراحل میں مکمل ہو گا۔ واپڈا اس وقت منصوبے کے پہلے مرحلے کو تعمیر کر رہا ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے کی بدولت کراچی کو روزانہ 260 ملین گیلن پانی میسر آئے گا۔ منصوبے میں اس قدر تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت پہلے ہی کئی گنا بڑھ چکی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اب مزید تاخیر کے بغیر اس کے دونوں مرحلے بروقت مکمل کیے جائیں جس کے لیے ہر ممکن کوشش کی یقین دہانی چیئرمین واپڈا نے اپنے دورے کے موقع پر کرائی ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں تاخیر کا ایک بنیادی سبب عموماً کرپشن ہوتی ہے جس کا دروازہ بند کرنے کے لیے سرکاری مشینری کی تمام سرگرمیوں میں مکمل شفافیت کا اہتمام لازمی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
karachitimes · 5 years
Text
کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی اور بے ہنگم ٹریفک کا مسئلہ
کراچی میں ٹریفک جام کے خاتمے اور اس کی روانی کو جاری رکھنے کے لیے شہر میں متبادل ایکسپریس وے بنائے جائیں جس سے عوام اپنے گھروں ، دفاتر ، کارخانوں اور تعلیمی مقامات پر آسانی سے پہنچ سکیں تاکہ کراچی کے عوام اپنا قیمتی وقت ٹریفک کے بے ہنگم دباؤ اور ہجوم میں رہنے کے بجائے دیگر ترقیاتی ، فلاحی اور تعلیمی سرگرمیوں پر خرچ کر سکیں کیونکہ گزشتہ کئی دھائیوں سے اب تک کراچی کے لیے کوئی مضبوط ٹریفک نظام نہیں دیا جا سکا ہے، جب کہ آبادی کا پھیلاؤ جس تیزی سے اس شہر میں ہوا ہے۔ اس پر بھی کوئی غور نہیں کیا گیا صرف چند مصروف شاہراؤں پر برج اور انڈر پاسز بنا کر ٹریفک کی آمدورفت کے دباؤ کو کسی نہ کسی حد تک کم ضرورکرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن متبادل راستوں کے ذرایع کم رکھے گئے ہیں جو آج کراچی کی ضرورت کے لیے بے حد ضروری تھے۔
تقریبا پندرہ سے اٹھارہ سالوں کے درمیان کراچی کی سڑکوں پر ہلکی اور بھاری گاڑیوں کا حجم بہت تیزی سے بڑھا ہے۔ سیکڑوں گاڑیاں ہر روز کراچی میں رجسٹرڈ ہو رہی ہیں جب کہ اس کے برعکس شہر کی سڑکوں کی چوڑائی پچاس یا ساٹھ سال پرانی ہی ہے ماسوائے چند ایک کے۔ کراچی میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے متعدد ادارے موجود ہیں جن میں کے ڈ ی اے ، ایل ڈی اے ، ایم ڈی اے ، کے ایم سی ، کے پی ٹی کے علاوہ کنٹونمنٹ بورڈ کے ادارے بھی شامل ہیں ماضی میں صرف کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ایک شہید ملت ایکسپریس وے ہی تعمیرکی ہے جس سے آج ہزاروں شہری فائدہ اٹھا رہے ہیں ، ایسے ہی مزید ایکسپریس وے کراچی میں بہت پہلے بنانے ضروری تھے جو آج شہرکی ضرورت کو پورا کرتے۔ سماجی کاموں کے سلسلے میں جب میں کراچی شہرکے اندرونی اور بیرونی راستوں سے سفرکرتی ہوئی اس کے مضافاتی علاقوں سے گذرتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے شہر میں ٹریفک کی روانی کے لیے متبادل راستے بنائے جا سکتے ہیں۔ مثلا کراچی کی مصروف ترین شاہراہ فیصل ، ملیر، کورنگی ، لانڈھی ، شاہ فیصل کالونی ، بن قاسم ٹاؤن کے علاوہ انڈسٹریل زون اور لانڈھی زون و دیگر علاقوں کو ایک متبادل راستہ ملیر ندی کے دونوں سائڈ پر ایکسپریس وے تعمیر کر کے لاکھوں عوام کوفائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ جس کے ذریعے ان علاقوں میں جانے والے افراد کو متبادل راستہ مہیا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح سہراب گوٹھ کے زیرو پوائنٹ سے لیاری ندی کے دونوں کناروں پر روڈ بنا کر سرجانی ٹاؤن اور نادرن بائی پاس تک ٹریک بن سکتا ہے جس سے نیو کراچی اور نارتھ کراچی کے دیگر علاقوں کے علاوہ ناردرن بائی پاس کے نزدیک نئی آباد کی جانے والی آبادیاں اور کمرشل مراکز اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے اور لاکھوں افراد کی آبادی کو ٹریفک کے اژدہام سے نجات بھی حاصل ہو گی۔ یہ سہولت ان شہریوں کے لیے زیادہ مفید ہو گی جو اس شہر کے اندر رہتے ہوئے بھی لمبی مسافت طے کر کے اپنی منزل پر پہنچتے ہیں جب کہ دیکھا جائے تو ان متبادل راستوں سے ترقی کے مواقع زیادہ حاصل ہوتے ہیں اور ظاہر ہے ایسے کاموں سے ایندھن اور وقت کی بچت کے ساتھ ملکی زر مبادلہ بھی بچایا جا سکتا ہے۔
ایسے ہی کراچی کی ایک اور مصروف ترین شاہراہ کارساز روڈ پر جہاں نیوی گیٹ کے سگنل اور میوزیم کی وجہ سے عوام کا رش ہو جاتا ہے اور ٹریفک کے رک جانے سے نیشنل اسٹیڈیم کی جانب سے آنے والے لوگوں کو شارع فیصل پر جانے کے لیے سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ ہی نہیں بلکہ جنھیں کراچی ایئر پورٹ ،جناح اسپتال یا کارڈیو ویسکولر جانا ہو تو وہ بھی اس ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کی زندگیوں کو بھی س نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ اندرون ملک یا بیرون ملک سفر کرنے والے ایسے مسافر بھی راستے میں تاخیر ہونے سے پریشان ہوتے ہیں اور کیونکہ فلائٹ شیڈول فکس ہوتا ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگوں کی فلائٹ تک چھوٹ جاتی ہے یا انھیں دیگر اضافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا اس مقام پر ایک انڈر پاس تعمیر کیا جائے۔ جس کی سہولت سے کارساز روڈ پر ٹریفک کی روانی مسلسل جاری رہے۔ 
کراچی میں بعض مقامات پر ٹریفک کے لیے راستوں کی ری ڈیزائننگ کرنا ضروری ہے کیونکہ کسی مرکزی شاہراہ سے دوسری جانب جانے کے لیے پرپیج راستوں سے گھومتے گھماتے آنا پڑتا ہے، جو عوام پر ظلم ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہرگاڑی کو اضافی ایندھن خرچ کرنا پڑ رہا ہے اور ٹوٹی سڑکوں کے سبب ہر گاڑی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہر گلی یا نکڑ پر مکینکوں کے کھوکوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مثلا بلوچ کالونی پل کے ساتھ ایئر پورٹ جانے والے راستے سے کوئی گاڑی شہید ملت روڈ پر براہ راست نہیں جا سکتی اس کے لیے کیا تواسے ٹیپو سلطان روڈ یا پھر کارساز روڈ سے ہو کر شاہین اسکول کے سامنے سے گزر کر آنا ہو گا یہ سب بھی نا قص حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ 
اب میں عوام اور اعلیٰ اداروں کی توجہ کراچی شہر کے حوالے سے ایک خاص پہلو کی جانب مبذول کرانا اپنی قومی ذمے داری سمجھتی ہوں وہ یہ کہ اس وقت جو ترقیاتی کام کراچی میں کرائے جا رہے ہیں اور جن پروجیکٹ پر اربوں روپے کے اخراجات عوام کو بتائے گئے ہیں۔ وہ درست معلوم نہیں ہوتے کیونکہ پروجیکٹ کی تیاری کے وقت جو تخمینی لاگت بتائی جاتی ہے۔ اس میں جان بوجھ کر اضافی کام کو شامل نہیں کیا جاتا جوکسی پروجیکٹ کے ابتدائی ، درمیانی یا آخر میں آنے کی امید ہو یا آسکتے ہوں وہ کسی نہ کسی انداز سے تحریر میں نہیں لکھے جاتے کیونکہ اس کا فائدہ کام کے آغاز یا کسی اور موقع پر پروجیکٹ مینجمنٹ کے سا تھ ٹھیکدار کو بھی پہنچانے کے امکانات ہوتے ہیں جس کا ایک ثبوت کراچی میں پینے کے پانی کے حوالے سے کے فور کا منصوبہ ہی دیکھ لیں جس کا کہ آج تک نہ درست تخمینہ معلوم ہو رہا ہے اور نہ ہی مدت اختتام معلوم ہو سکی۔ اس منصوبے میں بہت بڑی بڑی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں جو پی سی ون کے اعتبارسے نا مناسب سمجھی جاتی ہیں یہ کیوں کی جا رہی ہیں۔ 
اس کی وضاحت ضروری ہے اگر ٹیکنیکل ٹیم اس کی ذمے دار ہے تو اس کے خلاف کیا کوئی کاروائی عمل میں آئی یا وہ کون سے افراد تھے جن کی وجہ سے پروجیکٹ کیا ان زاویوں کو نظر انداز کیا گیا جب کہ اس پر نہ تو کوئی سیاسی اور نہ ہی کوئی علاقائی بندش یا رکاوٹ سامنے آئی لہذا میری نظر میں جلد بازی اور غیر سنجیدہ اسٹڈی کے ساتھ ڈیٹیل ڈیزائننگ اور تفصیلی غور وفکر کا نہ ہونا ان مسائل کا سبب ہو سکتا ہے ، ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ ماہر انجنیئرزکی موجودگی میں اتنی بڑی کوتاہیاں ہوتیں ایک اور بات اگر اس قسم کے منصوبوں کے لیے عوامی سماعت مقرر کی جائیں تو بہت سی باتیں نگرانی کرنے والوں کے علم میں پہلے سے آجاتی ہیں اور وہ ان کو مدنظر رکھ کر کسی بڑے پروجیکٹ کی پی سی ون بہتر انداز میں تیار کر سکتے ہیں۔ اب بعض رپورٹ کے مطابق کے فور پروجیکٹ کی تخمینی لاگت ڈیڑھ کھرب تک متوقع ہو سکتی ہے، ظاہر ہے اس کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ بھی عوام پر آجائے گا لہذا ان عوامل کو دیکھتے ہوئے مستقبل میں اس ق��م کے حالات نہ پیدا ہوں۔ اس کے تدارک کے لیے تعمیرات کے حوالے سے موجودہ قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے عوام کا روپیہ ضایع ہو نے سے محفوظ رہے۔ ہمیں بھی اب کم ازکم اپنے واحد بین لاقوامی کراچی شہر کے اندر متبادل راستے بنا کر ملک کے دیگر شہروں کے لیے ایک مثال قائم کرنی چاہیے جیسا کہ پہلا فلائی اوور ناظم آباد اور ملک میں سب سے پہلے بنایا جانے والا کلفٹن انڈر پاس وغیرہ۔
کشور زہرا  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
newspress-fan · 6 years
Text
Rs25bn earmarked for Karachi infrastructure, social sectors: finance minister
Rs25bn earmarked for Karachi infrastructure, social sectors: finance minister
[ad_1]
Tumblr media
Finance Minister Miftah Ismail says the federal government has started issuing funds for K4 water project, while it would also execute sea water desalination plant to meet Karachi water needs. — FILE image
ISLAMABAD: Minister for Finance Miftah Ismail Friday said the prime minister has announced a package of Rs25 billion for Karachi to provide infrastructural and other social sectors…
View On WordPress
0 notes
pakistantalkshow · 6 years
Text
Rs25bn earmarked for Karachi infrastructure, social sectors: finance minister | Business
Rs25bn earmarked for Karachi infrastructure, social sectors: finance minister | Business
[ad_1]
Tumblr media
Finance Minister Miftah Ismail says the federal government has started issuing funds for K4 water project, while it would also execute sea water desalination plant to meet Karachi water needs. — FILE image
ISLAMABAD: Minister for Finance Miftah Ismail Friday said the prime minister has announced a package of Rs25 billion for Karachi to provide infrastructural and other social sectors…
View On WordPress
0 notes
mathswarriors · 5 years
Video
instagram
#Karachi : #PTI K SENIOR REHNUMA #FirdousShamimNaqvi K #PTI ARAKEEN-E-ASSEMBLY K HAMRA #K4 MANSOOBAY KA DORA K4 TEAM KI ARAKEEN-E-ASSEMBLY KO PROJECT PAR BRIEFING. #FWO K NUMAINDAY LT-COL AFTIF KI BHI WAFD KO BRIEFING 12:00PM #FastNews #News #KWSB #PK https://youtu.be/IL9qYs_4eSs https://www.instagram.com/p/Bz7iKbeHz7J/?igshid=tuc6v438k9p1
0 notes
emergingkarachi · 3 years
Text
کراچی کے لئے سو منصوبے
دو کروڑ سے زائد آبادی کا حامل منی پاکستان کہلانے والا ملک کا صنعتی و تجارتی مرکز سابقہ وفاقی اور موجودہ صوبائی دارالحکومت ساحلی شہر کراچی جو کبھی اپنی کشادگی، صحت و صفائی اور روشنیوں کا نمونہ ہوا کرتا تھا، اِس وقت جس حال سے دوچار ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ بظاہر تجاوزات اور آلودگی سے اٹا ہوا دکھائی دیتا ہے لیکن حالیہ مون سون نے اس کے زیر زمین انفرا اسٹرکچر کا سارا پول کھول کر اصل مرض کی تشخیص کر دی جس کے علاج کیلئے سندھ حکومت نے 10 ارب ڈالر کی خطیر رقم کا تخمینہ لگایا تھا یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جسے حل کیے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ صورت حال دیکھتے ہوئے وعدے کے مطابق دو ماہ کے عرصہ میں اپنی ٹیم کے توسط سے 100 منصوبوں پر مشتمل پروگرام پیش کیا ہے۔ جو ٹرانفارمیشن پلان کے تحت 1117 ارب روپے کی لاگت سے تین مرحلوں میں مکمل ہو گا۔ 
اس حوالے سے اسلام آباد میں وزیراعظم نےاعلیٰ سطحی اجلاس میں جس میں وفاقی وزرا اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شرکت کی متذکرہ منصوبے کے خدو خال پر روشنی ڈالتے ہوئے کراچی کے مسائل کا مستقل بنیادوں پر حل نکالنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اُنہوں نے ہدایت کی کہ تجاوزات ہٹانے سے پہلے متبادل انتظامات کئے جائیں۔ کے فور کی استعداد بڑھانے اور اس سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کیلئے تکنیکی کمیٹی بنائی جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ شہر میں بجلی موجود ہے لہٰذا نئے کنکشنوں میں تاخیر کا جواز نہیں۔ گھر کیلئے قرض لینے والوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے اور یوٹیلٹی سروسز کی منظوری آسان ہونی چاہئے۔ اس موقع پر سیکرٹری وزارتِ ہائوسنگ اینڈ ورکس نے اجلاس کو کراچی میں بننے والے رہائشی منصوبے پاکستان کوارٹرز کے حوالے بتایا جس کے تحت 6000 اپارٹمنٹ بنائے جائیں گے۔ 
وزیراعظم نے منصوبوں کی بر وقت تکمیل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مون سون کے دوران برساتی پانی سے ہونے والے نقصانات کا سبب نالوں پر غیر قانونی تعمیرات ہیں۔ اُنہوں نے شہریوں کو پانی فراہم کرنے کے کےفور منصوبے کی استعداد اور افادیت بڑھانے کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنے کیلئے وزارت منصوبہ بندی کے تحت تکنیکی کمیٹی بنانے کی بھی ہدایت کی۔ بلاشبہ شہر قائد کی مسلمہ حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے مسائل کا حل اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بھی بجا طور پر کسی قسم کی مصلحت دیکھنا نہیں چاہتی اور ہونا بھی یہی چاہئے۔ گزشتہ چار پانچ دہائیوں میں رفتہ رفتہ جس طرح جرائم سے لیکر شہری سہولتوں کے فقدان تک شہر کا جو نقشہ بگڑا، اِسے درست کرنے کیلئے اداروں پر مشتمل ایک ٹیم ورک کی ضرورت ہے جو کسی بھی سیاسی و سماجی مصلحت اور پریشر گروپوں کو خاطر میں نہ لائے۔ 
کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اسی سلسلے کی کڑی ہے سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس حوالے سے یہ منصوبہ بر وقت مکمل نہ ہونے پر وزیراعلیٰ سندھ کو توہین عدالت جبکہ سیکرٹری ریلوے کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ کراچی 90 کلو میٹر کی ساحلی پٹی پر مشتمل ہے، وفاقی حکومت نے حال ہی میں صدارتی آرڈیننس کے تحت سندھ کے جزائر کی تعمیر و ترقی کا پروگرام بھی بنایا ہے۔ متذکرہ 100 منصوبوں پر مشتمل پروگرام صرف کراچی تک محدود نہیں ہے اس کے اثرات بحیثیت مجموعی پورے پاکستان پر مرتب ہونگے وزیراعظم نے اس حوالے سے یقین کا اظہار کیا ہے کہ اس کی تکمیل بر وقت ہو گی جس پر عملدرآمد کیلئے وفاق، صوبہ، فوج اور تمام اسٹیک ہولڈر شامل ہونگے تاہم اس پروگرام کو حقیقت بنانے کیلئے ضروری ہو گا کہ اسے سیاست سے قطعی بالاتر رکھا جائے اور قومی مفاد کی خاطر سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingkarachi · 5 years
Text
کراچی کے فور منصوبہ اور وفاقی حکومت
ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کے فور منصوبہ آج سے بارہ سال پہلے سندھ اور وفاقی حکومت کے اشتراک سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس کے تحت شہر سے سوا سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کینجھر جھیل سے تین مراحل میں مجموعی طور پر 65 کروڑ گیلن پانی یومیہ کراچی کی دو کروڑ سے زائد آبادی کے لئے فراہم کیا جانا تھا لیکن انتظامیہ کی لیت و لعل، سرخ فیتے کے چکر اور سرکاری اداروں میں کرپشن کے راج کے سبب کراچی کی پیاس بجھانے کا یہ ناگزیر منصوبہ مسلسل مؤخر ہوتا رہا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق روٹ کی تبدیلی اور دیگر وجوہ سے اس پر لاگت کا تخمینہ جو 2007 میں پچیس تا ستائیس ارب روپے تھا، 2019 میں ڈیڑھ کھرب سے بڑھ گیا جبکہ پروگرام کے مطابق کام ہوتا تو یہ پروجیکٹ صرف دو سال میں مکمل ہو سکتا تھا۔ بظاہر صوبے اور وفاق دونوں کی جانب سے اس اہم منصوبے کی تکمیل میں قرار واقعی دلچسپی نہیں لی گئی لہٰذا اس کا پہلا مرحلہ بھی اب تک تشنہ تکمیل ہے۔ صاحبانِ اختیار کی اس مجرمانہ غفلت کا نتیجہ آج کراچی میں پانی کے شدید بحران کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ 
اس تناظر میں گزشتہ روز لیاری میں ایک اجتماع سے خطاب میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کی یہ یقین دہانی کہ وہ کے فور منصوبے پر آنے والی اضافی لاگت کا پچاس فیصد وفاق سے دلوائیں گے، اہلِ کراچی کے لئے یقیناً ایک بڑی خوشخبری ہے لیکن منصوبے کی تکمیل کی کسی قطعی تاریخ کے تعین کے ساتھ اس وعدے کا جلد از جلد پورا کیا جانا ضروری ہے ورنہ بڑھتی ہوئی مہنگائی بہت جلد منصوبے کی لاگت میں مزید اضافے کا سبب بن جائے گی۔ کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کو سیاست سے بالاتر رکھنے کی جس ضرورت کا اظہار وزیر موصوف نے اپنے خطاب میں کیا، وہ ایک قومی ضرورت ہے کیونکہ کراچی منی پاکستان اور اس کی ترقی قومی خوشحالی کی بنیاد ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
emergingkarachi · 5 years
Text
کراچی میں پانی کا بحران اور کے 4 پروجیکٹ
دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قلت ِ آب کی یہ صورتحال ہے کہ شہر کی تقریباً نصف آبادی ملک کے پسماندہ ترین علاقے تھر کے عوام کی طرح سروں پر برتن اُٹھائے پانی کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے جب کہ پوش علاقوں میں بڑے پیمانے پر پانی کا کاروبار ہو رہا ہے، جو کہ بڑا منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق شہر میں تقریباً 20 لاکھ لوگ اس کاروبار کا حصہ ہیں اب تو یہ کاروبار ایک انڈسٹری کا درجہ حاصل کر گیا ہے ، پھر کراچی میں عوام کو لائین کے ذریعے پانی کی سپلائی کا ذمے دار ادارہ کراچی واٹر بورڈ خود بھی اس کاروبار کو ریگولرائیز کر چکا ہے اور ہائیڈرنٹس کے لائسنس جاری کر کے عوام کا ہی پانی عوام کو پیسوں پر بیچنے کے لائسنس جاری کر چکا ہے ۔ حالانکہ یہ صورتحال کوئی آج کی نہیں ہے بلکہ جب کراچی ابھی کراچی نہیں ’’کلاچی جو کُن‘‘ بالمعروف ’’کلاچی‘‘ تھا ، تب بھی یہی صورتحال تھی ۔
اس دور کے حساب سے شہر سے باہر لیاری ندی کے کنارے ڈملوٹی کے مقام پر موجود 10 کنوؤں اور منہوڑہ اور کلفٹن پر موجود ایک ایک کنویں سے میونسپلٹی کی جانب سے کسٹم ہاؤس تک چینی کی پائپ لائین کے ذریعے پانی پہنچایا گیا، لیکن وہ ضروریات کے مطابق پورا نہ پڑنے پر مشکیزوں اور اونٹ گاڑیوں پر لاد کر پانی فروخت کیا جاتا تھا۔ پھر 1856 میں ایک اسکیم کے تحت پہلی مرتبہ میونسپلٹی نے اپنے ٹیکس دہندگان کے گھروں تک پائپ لائن کے ذریعے پانی پہنچانے کا محدود انتظام کیا ۔ 1928-30 کے دوران کراچی لوکل بورڈ کے صدر جمشید نسروانجی مہتا اور وائس پریذیڈنٹ جی ایم سید نے مخیر حضرات کے تعاون سے شہر میں مختلف مقامات پر تالاب بنوائے جب کہ مستقبل میں شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر کراچی میں وسیع پیمانے پر پائپ کے ذریعے واٹر سپلائی کے لیے دریائے سندھ اور کینجھر جھیل و ہالیجی جھیل سے نہر کے ذریعے گھارو- دھابیجی کے مقام پر بڑا تالاب بنا کر لوہے کے پائپ کے ذریعے شہر میں پانی کی فراہمی کی اسکیم کے لیے سروے کروایا ۔
جو کہ آگے چل کر توسیع پا کر ایک نہر سے تین نہروں تک پہنچ چکی ہے ۔ جس کے انتظام کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کراچی میونسپل کارپوریشن کے ماتحت قائم کیا گیا ۔ لیکن اُس کے باوجود کراچی کی پانی کی ضروریات پوری نہیں ہو پارہی ہیں ۔ جس کے لے 2007 میں کینجھر جھیل سے ایک مزید بڑی نہر کراچی کے لیے نکالنے کے منصوبے کے 4-کا آغاز کیا گیا ۔ ابتدائی سات سال تو محض باتوں میں ہی گذار دیے گئے ۔ 2014 میں اس منصوبے کی سروے کے بعد پی سی ون منظور کی گئی اور 2 سال کے اندر اس پروجیکٹ کو مکمل ہونا تھا لیکن 5 سال مزید گذر جانے کے بعد بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا ہے ۔ اس دوران حکومتیں تبدیل ہو گئیں لیکن حساس نوعیت کے اس منصوبے کی تکمیل آج بھی ادھوری ہے اور کراچی والوں کے لیے حسب ضرورت پانی کی دستیابی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے ۔
دیکھا جائے تو حب و ملیر ندی اور قدرتی کنوؤں کے ذریعے سے شہر کو پانی فراہمی سے شروع ہونے والی یہ کوشش دریائے سندھ سے کوٹری بیراج سے ’’کراچی واہ ‘‘ کینال اور کینجھر وہالیجی سے 3 نہروں کے بعد اب کے فور تک پہنچنے کے بعد بھی کراچی کی پانی کی ضروریات پوری ہوتی نظر نہیں آتیں ، تو اس کی واحد وجہ آبادی پر کنٹرول نہ ہونا ہے ۔ یوں تو دنیا بھر میں قدرتی طریقے یعنی پیدائش کے ذریعے بڑھنے والی آبادی میں اضافے پر کنٹرول کے لیے اقوام ِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے آگاہی مہم و تدارکی اہداف و حکمت عملی گزشتہ نصف صدی سے جاری ہے اور اس میں کسی قدر کامیابی بھی ہوئی ہے لیکن دنیا میں غیر فطری طریقہ یعنی بڑے پیمانے پر نقل مکانی سے بڑھنے والی آبادی کے لیے بھی مؤثر اقدامات ہو رہے ہیں لیکن پاکستان میں اس پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ اُلٹا اس سے ملکی آبادی میں دن بہ دن ہونیوالے اضافے کو قبول کر لیا گیا ہے اور ملک کے ناعاقبت اندیش ادارے و حکمران اس کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں ۔
آج تک غیر قانونی طریقے سے ملک میں آنے والے لوگوں کے لیے کوئی ٹھوس اور واضح قانون و پالیسی اختیار نہیں کی گئی ہے ۔ صرف کراچی میں 80 لاکھ غیر قانونی لوگ آباد ہیں ۔ شماریاتی اعداد و شمار کے حساب سے وسائل کا بندوبست کرتے وقت ان کا حساب نہیں کیا جاتا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ اس شہر کے وسائل کو استعمال کرتے ہیں ، یہاں کی شاہراہوں اور غذائی اشیاء و شہری سہولیات پر دباؤ کے ساتھ ساتھ یہاں پانی کی شدید قلت کا بھی باع�� بن چکے ہیں دراصل یہیں سے شروع ہوتا ہے پانی کا یہ کاروبار جسے اسلام میں غیر شرعی قرار دیکر بند کیا گیا تھا ۔ اسلام سے قبل عرب میں یہ کاروبار عام تھا لیکن ریاست مدینہ کے قیام کے فوراً بعد پیغمبر اسلام کے حکم پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پانی کے کنویں خرید کر شہر بھر میں یکساں بنیادوں پر پانی کی فراہمی مفت کر دی ۔ یوں تو ہم ایک اسلامی ملک ہیں لیکن دیگر اُمور کی طرح پانی سے متعلق بھی اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور خدا کی اس نعمت کو بھی کاروبار بنا کر دین کے احکامات سے انحراف کیا جارہا ہے ۔
کراچی کو پانی فراہمی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ملک کے تقریباً سبھی صوبوں کے لوگ یہاں بڑی تعداد میں آکر آباد ہوئے ہیں۔ چونکہ ملک میں وسائل کی تقسیم مردم شماری کی بناء پر آبادی کے اعداد و شمار کے حساب سے کی جاتی ہے ، اس لحاظ سے کراچی میں بسنے والے دیگر صوبوں کے لوگوں کی ضرورت کا پانی تو ان صوبوں کو دیا جاتا ہے لیکن وہ لوگ کراچی میں پانی سندھ صوبہ کے حصے کا استعمال کرتے ہیں ۔ گزشتہ کئی برسوں سے صوبہ سندھ کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ جس طرح ملک بھر کے لوگوں کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رہنے کی وجہ سے اسلام آباد کو ملک کے مشترکہ پول میں سے اضافی پانی دیا جاتا ہے اُسی طرح کراچی کو بھی ملک کے مشترکہ پول میں سے پانی دیا جائے ۔ جس کا تخمینہ 1200 کیوسک لگا کر مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) میں مطالبہ رکھا گیا ہے لیکن دیگر مسائل کی طرح وفاق اور دیگر صوبوں کی جانب سے سندھ بالخصوص کراچی کے اس مسئلے پر بھی روایتی سرد مہری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے ۔
دنیا میں سعودی عرب ، یو اے ای سمیت کئی ممالک سمندر کے پانی کو Recycle کر کے میٹھا بنا کر استعمال کر رہے ہیں لیکن ہم نے اس طرف کوئی پیشقدمی تو نہیں کی اُلٹا خدا کی طرف سے نعمت کے طور پر عطا کردہ اس سمندر کو صنعتی فضلہ اور نکاسی ِ آب و کیمیکلز سے اب پینے تو کیا سمندر کے ساحل تک کو بھی سیاحت کے قابل نہیں چھوڑا ہے ۔ دنیا میں مصنوعی و غیر فطری طریقے سے بڑھنے والی آبادی کے باعث شہروں پر بڑھنے والے بوجھ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسے شہروں کی علیحدہ اور خصوصی قانون سازی کی جاتی ہے تاکہ ایک طرف شہر ، صوبہ و ریاست کی ڈیمو گرافی برقرار رہ سکے تو دوسری طرف ان شہروں میں انسانی زندگی کے معیار کو بھی برقرار رکھا جا سکے۔
بھارت کے آسام ، ممبئی ، گجرات وغیرہ اس کی مثالیں ہیں لیکن کراچی کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کی ڈیمو گرافی اور معیار ِ زندگی کی تباہی میں شہری ، صوبائی اور وفاقی حکومتیں اور ریاستی ادارے یکمشت اور ایک پیچ پر نظر آتے ہیں ۔ اسی لیے تو میگا پراجیکٹ بنا کر ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کو یہاں آباد کر کے یہاں کے وسائل اور ڈیمو گرافی و جغرافیائی خدوخال کو تبدیل کیا جارہا ہے ۔ اور اس کے لیے اس حد تک کام ہو رہا ہے کہ شہر قائد کے پانی کی ضروریات کو پورا کرنے والی کے فور پروجیکٹ جیسی اسکیموں کے رُخ بھی موڑ کر ان میگا رہائشی پروجیکٹس کی طرف کر دیا گیا ہے ۔
اس پروجیکٹ کا روٹ اور ڈیزائن اس طرح تبدیل کیا گیا ہے کہ جو اسکیم کراچی کے شہریوں کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی وہ اب بلا شہری ضرورت کے سپر ہائی وے پر قائم ہونے والی میگا رہائشی اسکیموں کے تحت مستقبل میں یہاں آباد ہونیوالوں کو فائدہ دینے کا ذریعہ بنے گی جب کہ اہل ِ کراچی اسی طرح پانی کے لیے بلبلاتے رہیں گے ۔ 2014 میں منظور کی گئی پی سی ون کے مطابق کے فور پروجیکٹ کے تحت کینجھر جھیل سے 121 کلومیٹر طویل بڑا کینال بنایا جائے گا ۔ یہ پروجیکٹ صوبائی حکومت کی نگرانی میں KW&SB کی جانب سے تعمیر ہونا تھا ۔ اس کے تحت کراچی کو 650 ملین گیلن یومیہ مزید پانی میسر ہو گا۔ اس کا تخمینہ تقریباً 25.551 ارب روپے لگایا گیا تھا جس کا 50% حصہ وفاق نے دینا تھا جب کہ باقی پچاس فیصد کی ادائیگی صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی ۔ 
دو سال مزید تاخیر سے 2016 میں شروع ہونے والی یہ اسکیم اب تک پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی ہے ۔ وقت پر پیسے جاری نہ کرنے اور ملکی اُمور میں روایتی سُستی کی وجہ سے اس اسکیم کا موجودہ تخمینہ 75 ارب روپے ہو گیا ہے ۔ جس پر وفاق اور سندھ حکومت کے مابین رقم کی ادائیگی کے حصے پر تنازعہ پیدا ہو گیا ہے ۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے جارہے ہیں ۔ یوں تو کراچی کے اختیارات ، وسائل اور بجٹ کے نام پر وفاقی ، صوبائی اور شہری حکومتیں آپس میں دست ِ گریباں ہیں لیکن کراچی کے عوام کو سہولیات خصوصاً پانی کی فراہمی میں تینوں ہی عدم دلچسپی کی حد تک ہم سب پر عیاں ہے ۔ وہ کراچی کے عوام کے لیے زندگی اور موت جیسی اہمیت کے حامل مسئلے کے فور پروجیکٹ پر ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں ۔
ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں کراچی والوں کو پیاسہ مارنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ کبھی وفاق پروجیکٹ میں طے شدہ حصے کی رقم روک لیتا ہے تو کبھی کوئی وفاقی وزیر یا وفاق کا نمایندہ اور صوبے کا گورنر پروجیکٹ کو صوبائی حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی کا نام دیکر روک دیتا ہے ۔ ستمبر 2018 میں بھی وفاقی حکومت کی جانب سے اس پروجیکٹ کے روٹ اور ڈیزائن و تخمینے کو غلط قرار دیکر روک دیا گیا ۔ تب سے اس پر پھر سے کام بند ہے ۔ اس کے بعد دونوں حکومتوں کی جانب سے ایک دوسرے پر پروجیکٹ کی ناکامی کے الزامات لگائے جارہے ہیں لیکن اب تک اسے مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے حل کرنے کی طرف کوئی بھی لے جانے کو تیار نہیں۔ دوسری جانب صوبائی حکومت کبھی پیسوں کی کمی کا رونا رو کر تو کبھی روایتی سُستی کی وجہ سے پروجیکٹ میں تاخیر کرتی رہی ہے ۔ پھر کراچی کی نام نہاد وراثت کی داعی شہری حکومت کی تو بات ہی نرالی ہے واٹر بورڈ کا تمام نظام متحدہ کی اس شہری حکومت کے مکمل کنٹرول میں ہونے کے باوجود اس اہم نوعیت کے مسئلے اور اس پروجیکٹ پر کوئی پیشرفت یا قانونی چارہ جوئی کرتی نظر نہیں آتی ۔ 
باقی صوبہ میں تضادات پیدا کرنے کی بات ہو تو یہ صوبہ کے دیگر شہروں کے لوگوں کی جانب سے قانونی طور پر کراچی کے ڈومیسائل بنوانے کو بھی حق تلفی قرار دیکر عدالت پہنچ جاتے ہیں۔ وفاق سے براہ راست کروڑوں روپے کے فنڈز کی نام نہاد اسکیمیں شروع کرواتی ہے لیکن کے فور اسکیم کے لیے کوئی مطالبہ اُن کے لبوں پر نہیں آتا۔ حد تو یہ ہے کہ اسی کینجھر اور دریائے سندھ سے نکلنے والی پہلے کی تین نہروں پر تو واٹر بورڈ اور شہری انتظامیہ مکمل اختیار اور دعویٰ رکھتی ہے لیکن جب کے فور کی چوتھی نہر کی تعمیر کی ذمے داری کی بات آتی ہے تو اس پر وہ خود کو اہل نہیں سمجھتی ۔ جب کہ صوبائی حکومت سے بھی سوال ہے کہ جب ماضی میں تین نہریں باآسانی صوبائی حکومت کے ماتحت تعمیر ہو گئیں تو پھر اس اسکیم کے التویٰ کا آخر کیا سبب ہے ؟ 
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کام کرنے کی اگر نیت ہو تو جمشید مہتا اور جی ایم سید کی طرح انگریز سرکار کی مخالفت کے باوجود کراچی کے شہری نظام کو ترقی دلائی جاسکتی ہے یا پھر شہری جماعت ، صوبائی حکومت اور مشرف کی وفاقی آمریتی حکومت کی مخٰالفت کے باوجود نعمت اللہ خان کی طرح شہر کا انفرا اسٹرکچر میونسپل انتظامیہ بہتر کر سکتی ہے ، لیکن اگر کام کرنے کی نیت نہ ہو تو موجودہ شہری سرکار کی طرح شہر کا کچرہ بھی میونسپل اُٹھانے سے لاچار نظر آتی ہے ۔ بہرحال کے فور پروجیکٹ کی بطور صوبہ کے ایگزیکٹو بنیادی ذمے داری وزیر اعلیٰ سندھ کی ہے ۔ اس لیے وہ اپنے تئیں یا قومی و عالمی مالیاتی اداروں سے قرضہ لے کر بھی اس پروجیکٹ کو جلد از جلد پرانے روٹ اور ڈیزائن کے مطابق مکمل کرکے کراچی کے عوام کو پانی فراہم کرے ۔
عبدالرحمان منگریو
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes