#Karachi Baldia Town Factory Fire
Explore tagged Tumblr posts
Text
بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی : ظالم کو مظلوم بنا دیا گیا
پاکستان کے شہر کراچی کے سول ہسپتال کا سرد خانہ لاشوں سے بھر چکا تھا، باہر سٹریچر پر بھی درجن سے زائد لاشیں موجود تھیں جو سفید چادروں سے ڈھکی ہوئی تھیں، ہوا کا ایک جھونکا آتا ہے اور ایک لاش کے چہرے سے کپڑا ہٹ جاتا ہے، قریب موجود ایک خاتون کی نظر جیسے ہی اس پر پڑتی ہے تو ’وہ میرا ایان‘ کہہ کر اس سے چمٹ جاتی ہیں۔ اس طرح سعیدہ بی بی کی گذشتہ 12 گھنٹے سے جاری تلاش ختم ہوتی ہے۔ 18 سالہ اعجاز احمد عرف ایان ان 259 مزدوروں میں شامل تھے جو 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ میں واقع علی انٹرپرائیز فیکٹری میں آتشزدگی میں جھلسنے اور سانس گھنٹے سے ہلاک ہو گئے تھے۔
’امی آج وہ تنخواہ نہیں دے رہے‘: آخری پیغام سعیدہ بی بی خود اس فیکٹری میں کام کرتی تھیں لیکن اچانک طبیعت خراب ہونے کے بعد جب ملازمت چھوڑی تو بیٹا اسی فیکٹری میں ملازمت کرنے لگا اور ساتھ میں پرائیوٹ طور پر نویں جماعت کے امتحانات کی بھی تیاری جاری رکھی۔ ��عیدہ بی بی بتاتی ہیں کہ انہوں نے بیٹے کو ملازمت چھوڑنے کا کہا تھا لیکن اس نے کہا تھا کہ مزید ایک ہفتہ کام کرے گا ان دنوں رمضان ختم ہو چکا تھا اور انہیں عید پر بھی تنخواہ نہیں ملی تھی۔ ’حادثے والے روز وہ صبح فیکٹری گیا تو دوپہر کو موبائل پر دو سطر کا پیغام آیا کہ امی آج وہ تنخواہ نہیں دے رہے کل کا بتا رہے ہیں، میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں۔‘
’چھ برس سے چولھا نہیں جلایا‘ سعیدہ بی بی نے گذشتہ 6 برسوں میں ایک روز بھی کھانا نہیں بنایا اور زیادہ تر باہر کا کھانا کھاتی ہیں بقول ان کے ایان جیسے ہی دروازے میں داخل ہوتا پہلا سوال یہ کرتا کہ امی کھانا بن گیا ؟ ’اس روز میں نے سالن بنا لیا تھا جبکہ چاول چولہے پر تھے، اسی دوران میری والدہ داخل ہوئیں اور کہا کہ ٹی وی دیکھو ایان جس فیکٹری میں کام کرتا ہے اس میں آگ لگی ہے، ان کا اتنا بولنا تھا میں نے چولہا بند کر دیا اور علی انٹرپرائز پہنچی۔ اس روز کے بعد میں نے کبھی چولہا نہیں جلایا بڑی کوشش کرتی ہوں کہ اکیلی ہوں کچھ بنا لوں باہر کا کھانا طبیعت خراب کرتا ہے لیکن ہمت اور طاقت نہیں ہوتی۔ اعجاز عرف ایان سعیدہ بی بی کی واحد اولاد تھا، ابھی وہ دو سال کا ہی تھا تو والد انتقال کر گیا، سیعدہ بی بی کے مطابق انہوں نے ایسے بڑی مشکل سے پالا تھا۔
سعیدہ بی بی جب علی انٹرپرائیز کے باہر پہنچیں تو فیکٹری سے شعلے بلند ہو رہے تھے جبکہ فائربریگیڈ کی ایک گاڑی آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی اور ایک واپس جا رہی تھی، ان کے بقول وہ چیختی چلاتی رہیں اور بیٹے کو موبائل پر کال بھی کی لیکن کوئی جواب نہیں آ رہا تھا، اس کے بعد انہوں نے گیٹ سے اندر جانے کی کوشش کی تو انہیں جانے نہیں دیا گیا۔ وہ ہر ایمبولینس کے پیچھے دوڑتی رہیں تو انہیں سول اور عباسی ہسپتال جانے کا مشورہ دیا گیا کہ وہاں جا کر تلاش کرو۔ ’میں فیکٹری سے سول ہپستال گئی وہاں مردہ خانہ دیکھا اس کے بعد عباسی ہسپتال آئی اس وقت تک رات کے ڈھائی بج چکے تھے لیکن میرے بیٹے کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا، میں روتی ہوئی گھر لوٹی اور نماز ادا کر کے سول ہسپتال روانہ ہوئی وہاں بھی ڈھونڈتی رہی بلآخر مردہ خانے کے باہر لاش ملی۔
’بیٹے کے درد کو طاقت بنا لیا‘ سعیدہ بی بی کی صرف ماں اور ایک بہن حیات ہیں دوسرا کوئی نہیں، 12 ستمبر 2012 کی شام سعیدہ بی بی کے پڑوس سے سترہ جنازے اٹھے، ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی لوگوں نے ایک دوسرے کا غم بانٹا اور یوں ایک دوسرے کا سہارا بنے، سعیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیٹے کے درد کو طاقت بنا لیا۔ ’متاثرہ خاندانوں کو کبھی کہاں بلایا جا رہا تھا کبھی کہاں لیکن کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو رہی تھی میں نے سوچا متاثرہ خاندانوں کو ڈر و خوف سے نکالنا ضروری ہے کیونکہ ہمارے بچے تو چلے گئے وہ واپس واپس نہیں آئیں گے لیکن جو دیگر غریب مزدور بچے ہیں ان کے ساتھ بھی کچھ ہو سکتا ہے کیونکہ ہر فیکٹری میں مسائل ہیں۔ ہم نے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور سے ملاقات کی انہوں نے اپنی تن��یم بنانے کا مشورہ دیا جس کے بعد ہم نے علی انٹرپرائز متاثرین ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔‘
عدالت اور جرمنی سے کامیابی سعیدہ بی بی نے پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیبر ایجوکیشن اور دیگر تنظیمیوں کی معاونت سے سندھ ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے توسط سے تین مقدمات دائر کیے جن میں پینشن، سوشل سکیورٹی اور ڈیتھ گرانٹ کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا، اس کے علاوہ احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا۔ ’یہ تینوں مقدمات ہم جیت گئے اس طرح ہماری ہمت اور طاقت بڑھتی گئی اور دیگر لوگ بھی شامل ہوتے گئے، اس کے بعد ہم نے علی انٹرپرائز سے ملبوسات کی خریدار جرمنی کی کمپنی ’کک‘ اور اٹلی کی کمپنی ’رینا‘ کے خلاف مقدمہ درج کرایا، رینا نے علی انٹرپرائز کو آڈٹ سرٹیفیکیٹ دیا تھا اس آڈٹ کے 20 روز کے بعد یہ حادثہ ہوا تھا۔ سعیدہ بی بی علی انٹرپرائیز کے متاثرین کا مقدمہ لیکر نیپال کانفرنس میں گئیں جہاں انہیں 50 ممالک کی مزدور تنظیمیوں نے ساتھ کی یقین دہانی کرائی، اس کے بعد جرمنی میں کک کے خلاف لابنگ کی، جہاں مزدور تنظیموں، صحافیوں، ارکانِ پارلیمان نے انہیں سپورٹ کیا اور وہ وہاں سے مقدمہ جیت کر واپس آئیں۔ کک کمپنی نے متاثرین کو معاوضہ ادا کیا۔
’سبق نہیں سیکھا‘ علی انٹرپرائز میں آگ لگی یا لگائی گئی؟ تین مشترکہ تحقیقات ہو چکی ہیں جبکہ پولیس اسے آگ کو بھتہ خوری کا نتیجہ قرار دے چکی ہے، متاثرین خاندان کے وکیل فیصل صدیقی پولیس تحقیقات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جو شواہد دیکھیں ہیں ان میں یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ آگ لگائی گئی تھی۔ ’فیکٹری کی جو صورتحال اور انتظام تھے وہ آگ کی وجہ بنے، بعد میں ظالم کو مظلوم بنا دیا گیا۔ اگر تحقیقات میں یہ کہا جاتا کہ آگ لگی تھی تو تمام فیکٹریوں کا معائنہ ہوتا لیکن اس سے بچنے کے لیے بھتہ خوری کا رنگ دیا گیا۔‘ مزدور رہنما کا کہنا ہے کہ بلدیہ فیکٹری کے واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا معائنے کا نظام بہتر ہوا اور نہ ہی مزدوروں کے تحفظ کے انتظامات کے لیے اقدامات اٹھائے گئے۔ سعیدہ بی بی بھی کہتی ہیں کہ فیکٹری میں حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن جب تک وہ زندہ ہیں آواز اٹھاتی رہیں گی، اس جدوجہد کے دوران انہیں اپنا گھر تک چھوڑنا پڑا لیکن وہ دباؤ برداشت کرتی آئی ہیں۔
بشکریہ بی بی سی اردو
1 note
·
View note
Text
شہدائے سانحہ بلدیہ ٹاون سے منسوب ’دیوار گریہ‘
سانحہ بلدیہ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کراچی میں ان کے ناموں سے منسوب دیوار بنا دی گئی۔ ’دیوارِ گریہ‘ کے نام سے بنائی گئی اس دیوار کا ہر بلاک ایک ہنستے بستے گھر کے اُجڑ جانے کی داستان سنا رہا ہے۔ اس سانحے میں 250 سے زائد افراد کو زندہ جلا کر مار دیا گیا تھا۔ اُن چیخوں، آہوں اور سسکیوں کو آج تک کوئی نہیں بھول سکا ہے۔ کراچی کی بلدیہ فیکٹری میں مبینہ طور پر بھتہ نہ دینے کے نتیجے میں آگ لگا دی گئی تھی، یہ سانحہ جانی نقصان کے لحاظ سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا صنعتی سانحہ قرار پایا جس میں 250 سے زائد فیکٹری ملازمین زندہ جلے یا جلا دیئے گئے۔
فیکٹری میں جلنے والوں میں کسی ��ی ماں تھی تو کسی کا باپ، کہیں بھائی بہن تو کہیں گھروں کی کفالت کرنے والے شوہر تھے۔ وہ قیامت کی آگ تھی جس میں سیکڑوں کا مستقبل جل کر راکھ ہو گیا۔ 11 ستمبر 2012 میں ہوئے اس سانحے کو کراچی کا’’ نائن الیون‘‘ بھی کہا گیا۔ جو قیمتی جانیں اس سانحے میں گئیں ہیں اُن کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا تاہم پیاروں کی یادیں، ان کی باتیں اور ان کی محبت کو یاد رکھنے کے لیے عدیلہ نامی آرٹسٹ نے دیوار شہدا بنا ڈالی جس پر ہر شہید کا نام چمک رہا ہے۔
دیوار گریہ پرصبا، محمد صدیق، تہمینہ، فیصل سمیت ایسے درجنوں نام ہیں جنہیں بھڑکتے ہوئے شعلے نگل گئے۔ یہ سانحہ ملک میں جرائم پر کنٹرول اور صنعتی اصلاحات کے لیے ایک مثال تھا مگر مزدور رہنماوں کا کہنا ہے کہ فیکٹری ورکرز آج بھی کام کے محفوظ ماحول اور مطلوبہ سہولتوں سے محروم ہیں۔ مزدور رہنماوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت فیکٹریوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کا تحفظ یقینی بنائے تاکہ بلدیہ فیکٹری جیسے سانحات سے بچا جا سکے۔
0 notes
Text
کیا بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی آگ ’مجرمانہ سازش‘ تھی؟
بلدیہ ٹاؤن کے واقعے کو آج پانچ سال ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں تین دفعہ تحقیقات ہو چکی ہیں اور اب تک واقعے میں جھلس کر مرنے والوں کے خاندان ٹرائل شروع ہونے کے منتظر ہیں۔ 11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری علی انٹرپرائیز میں لگنے والی آگ کے کیس کا نہ تو ٹرائل شروع ہوا اور نہ ہی اب تک کوئی بیان ریکارڈ کرایا گیا ہے۔ 2015 میں سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو حکم جاری کیا کہ کیس کو ایک سال کے اندر مکمل کر دیا جائے۔ اس حکم کو بھی آئے آج دو سال مکمل ہو چکے ہیں اور اب تک کیس جوں کا توں لٹکا ہوا ہے۔ واقعے سے جُڑے ایڈووکیٹ اور لیبر یونین کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ بلدیہ کیس ’سیاسی نقطۂ نظر‘ کا شکار ہو گیا ہے جس سے کیس کو بہت نقصان پہنچا ہے۔‘
بی بی سی اُردو کو انٹرویو دیتے ہوئے ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ کیس ایک خاص سمت میں چل رہا تھا، واقعے کے فوراً بعد آنے والی فیڈرل انویسٹگیشن ایجنسی (ایف آیی اے) کی تفصیلی رپورٹ کے مطابق آگ حادثاتی تھی جو کہ فیکٹری کی پہلی منزل پر ہونے والے شارٹ سرکٹ سے لگی تھی لیکن پھر 2015 میں کہا گیا کہ آگ حادثاتی طور پر نہیں بلکہ جان بوجھ کر بھتّہ نہ دینے کی صورت میں لگائی گئی تھی۔ ’اس سے کیس کا رُخ دوسری طرف موڑ دیا گیاـ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک ایک بیان بھی ریکارڈ نھیں کیا گیا ہے جو ایک انوکھی بات ہے۔ ساتھ ہی کیس کو روکنے کی کئی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔‘
قومی ٹریڈ یونین کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور کہتے ہیں کہ ’ریاستی اداروں نے ایک خاص نقطۂ نظرشامل کیا جس کی وجہ سے کیس سیاسی ہوا اور آج بھی ملوث افراد دندناتے پھر رہے ہیں۔‘ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ’جن لوگوں کے 2015 میں بننے والی جے آئی ٹی میں نام تھے وہ جب ایک گروہ سے نکل کر دوسرے گروہ میں چلے گئے تو اُن کے خلاف اب کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔‘ جن لوگوں کے 2015 میں بننے والی جے آئی ٹی میں نام تھے وہ جب ایک گروہ سے نکل کر دوسرے گروہ میں چلے گئے تو اُن کے خلاف اب کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ انھوں نے کہا کہ بنیادی طور پرفیکٹری مالکان اور کپڑا بنانے والی جرمن کمپنی ذمہ دار ہے لیکن لوگوں کو بتایا گیا کہ دہشتگردی کا واقعہ ہے تا کہ فیکٹریوں کی ابتر حالت سے دہیان ہٹایا جائے۔
’اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مالکان کا نام ایف آیی آر میں ہوتے ہوئے بھی وہ فروری 2013 میں ضمانت پر باہر آئے اور 2014 میں ملک سے باہر چلے گئے۔ 2015 میں بننے والی تحقیقاتی کمیشن کو بیان لینے کے لیے مالکان کے پاس دبئی جانا پڑا بجائے اس کے کہ اُن کو ملک واپس لایا جاتاـ‘ 2015 کی تحقیقاتی کمیشن کا مقصد بلدیہ فیکٹری کے واقعے کی دوبارہ سے تحقیق کرنے کا تھاـ اس کی ضرورت تب پیش آئی جب ایک اور کیس میں متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن کا بیان آیا کہ اُس نے یہ سُنا ہے کہ متحدہ کی تنظیمی کمیٹی نے بھتّہ نہ ملنے کی صورت میں فیکٹری میں "کیمیکل پھینکا" جس سے آگ لگ گئی۔ یہی بات فیکٹری مالکان، ارشد بھیلہ اور شاہد بھیلہ، نے جے آیی ٹی کو دیے اپنے بیان میں کہی کہ فروری 2013 میں ضمانت پر رہا ہونے کے بعد اُن کو متحدہ کی تنظیمی کمیٹی کے چیئرمین، حمّاد صدیقی، کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں جس میں وہ 25 کروڑ روپے بھتّے کی ڈیمانڈ کر رہے تھےـ 2016 میں جے آئی ٹی کو بنیاد بناتے ہوۓ نیا چالان جمع کرایا گیا جس کے بعد کیس ضلعی عدالت سے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں منتقل ہواـ اس میں یہ بات سامنے آئی کہ فیکٹری مالکان کو حراساں کیا جا رہا تھا اور یہ کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بلدیہ واقعے میں مرنے والوں کے لواحقین، جو پہلے کیس میں ضلعی عدالت کی مدد کر رہے تھے، اُن کو کہا گیا کہ اب آپ کی مدد کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔
فیصل صدیقی کہتے ہیں کہ ’یہ ایک عجیب بات ہے کیونکہ متاثرین ہمیشہ ایسے کیسز میں مدد کرتے ہیں۔‘ فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد زخمیوں کےابتدائی بیان میں یہ بات سامنے آئی کہ فیکٹری میں باہر نکلنے کے راستے بند تھے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ فیکٹری کی پہلی منزل پر موجود مچان کے گرنے سے زیادہ اموات پیش آئیں نہ کہ آگ لگنے کی وجہ سے۔ تفتیشی کمیشن کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ فیکٹری کی پہلی منزل پر آگ لگنے کہ کوئی نشان نہیں ہیں اور وہاں موجود مشین میں دھاگہ تک صحیح حالت میں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایف آئی آر درج ہوئی جس میں فیکٹری کے مالکان، مینیجر، اور سیکریٹری لیبر کے نام آئے۔ ایف آیی آر کا متن یہ تھا کہ آگ حادثاتی طور پر لگی ہے لیکن لوگ فیکٹری میں حفاظتی سہولیات نہ ہونے کے باعث مارے گئے۔
بلڈنگ کا ڈھانچہ فیکٹری کے کام کے لیے مناسب نہیں تھا کیونکہ اس میں حادثے کی صورت میں باہر بھاگنے کے راستے نہیں تھےـ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ ریسکیو ذرائع اور آگ بجھانے کے ٹینڈرز آگ لگنے کے 45 منٹ بعد پہنچے جس کی وجہ سے زخمی بروقت فیکٹری سے باہر نہ نکلنے کی صورت میں دم گھٹنے سے مر گئے۔ اس کے برعکس، مارچ 2016 میں نئی جے آئی ٹی کے متن کے مطابق آگ اگر حادثاتی ہوتی تو ایک ساتھ پوری عمارت میں پھیلتی۔ آگ ٹکڑوں میں لگی جس میں تہہ خانہ اور گراؤنڈ فلور شامل ہیں اور جہاں کہا گیا کہ شارٹ سرکٹ ہوا ہے، جو کہ کے۔ الیکٹرک کے ابتدائی بیان کے مطابق پہلی منزل پر ہوا تھا، اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ کمیشن نے مختلف عینی شاہدین کے بیانات لیے جو اشارہ کر رہے ہیں کہ فیکٹری میں آگ ایک ’مجرمانہ سازش‘ تھی۔ کمیشن کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پہلی منزل پر آگ لگنے کہ کوئی نشان نہیں ہیں، وہاں موجود مشین میں دہاگہ تک صحیح حالت میں ہے۔ تحقیقاتی کمیشن سے جُڑے ایک افسر نے کہا کہ کچھ لوگ پنجاب فورینسک سائنس ایجنسی کی رپورٹ جھوٹی ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ آگ لگائی گئی ہےـ اس کے علاوہ کمیشن نے مختلف عینی شاہدین کے بیانات لیے جو اشارہ کر رہے ہیں کہ فیکٹری میں آگ ایک 'مجرمانہ سازش' تھی۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کیس کو جان بوجھ کر ’نقصان پہنچایا جا رہا ہےـ‘ فیصل صدیقی نے آخر میں کہا کہ اس کیس کے دو ہی نتیجے نکل سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دس سال بعد کسی ملزم کو سزا ہو جائے، دوسری صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ کرمنل ٹرائل سے کوئی نتیجہ نہ نکلے۔
سحر بلوچ بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
#World#Pakistan#Muttahida Qaumi Movement#Karachi Baldia Town Factory Fire#Crimes in Pakistan#Baldia Town
0 notes
Text
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کیا پہلی بار کراچی کے علاقے مہران ٹاؤن ، کورنگی میں واقع فیکٹری میں مزدور جھلس کر جاں بحق ہوئے؟ مزدوروں کا قتل مختلف طریقوں سے مختلف ملکوں اور خطوں میں کیا جاتا رہا ہے۔ ایک تو معاشی قتل، بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشیاں کرنا، معدنیات کی کانوں میں دب کر مرنا ، جنگوں میں مرنا، زلزلوں، طوفانوں، گرمی اور سردی میں ٹھٹھر کر مرنا اور سب سے زیادہ بھوک سے مرتے ہیں۔ قدر زائد کو چوری کر کے سرمایہ دار خود تو ارب پتی اور کھرب پتی بن جاتا ہے جب کہ مزدور فاقوں سے مر جاتے ہیں۔ کم وقت میں زیادہ کام لینے سے مزدور کی حیات تنگ ہو جاتی ہے اورکم تنخواہ دے کر زیادہ وقت کام لینے سے بھی وہ جوانی میں ہی بوڑھا لگتا ہے۔ یہ تو رہا مزدوروں کا عالم گیر استحصال۔ جہاں تک پسماندہ ملکوں میں مزدوروں کے استحصال کا تعلق ہے تو وہ انتہائی ہیبت ناک اور خوف ناک ہوتا ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان، برازیل، جنوبی افریقہ اور نائیجیریا میں برملا اور دھڑلے سے استحصال ہوتا ہے۔
سانحہ کورنگی سے قبل اسی کراچی میں بلدیہ ٹاؤن میں ایک فیکٹری میں آگ سے جھلس کر اور دم گھٹنے سے 268 مزدور شہید ہوئے تھے اور پھر گڈانی شپ یارڈ میں شپ بریکنگ کے دوران 10 مزدور جھلس کر شہید ہوئے تھے۔ ان دونوں اندوہناک سانحے انتظامیہ کی غفلت اور لاپرواہی کے نتیجے ہیں۔ ان میں شہید ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی کاوشوں سے معاوضہ تو ادا کیا گیا لیکن ابھی تک مزدوروں کی شہادت کے قصور واروں کی شناخت ہوئی اور نہ کوئی سزا۔ ایسی صورت حال کورنگی مہران ٹاؤن میں سفری بیگ بنانے والی فیکٹری کے شہیدوں کے ساتھ بھی نہ ہو۔ کراچی اور پاکستان بھر میں فیکٹریوں، ملز، کارخانوں اور بیشتر صنعتی اداروں میں حادثات سے بچنے کے لیے قبل از وقت احتیاتی تدابیر اختیار نہیں کی جاتی ہیں۔ عالمی مزدور قوانین کے مطابق آگ لگنے پر خبرداری کی گھنٹی بجانا ضروری ہے۔
ہر فیکٹری کے عقب میں نکلنے کا راستہ رکھنا ضروری ہے۔ فائر فائٹنگ کے آلات، دیوار توڑ کر نکلنے کا بندوبست، کھڑکیاں اور دروازے کشادہ ہوں اور حفظان صحت کے مطابق فیکٹری کی تعمیر ہونی چاہیے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے بعد تو صوبائی، وفاقی حکومتوں، لیبر ڈپارٹمنٹ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، فائر بریگیڈروں اور فیکٹری مالکان کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے تھی ، مگر اب بھی 90 فیصد ملوں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں مزدوروں کے تحفظات کے لیے عالمی لیبر لاز پر قطعی کوئی ��مل نہیں کیا جاتا ہے۔ حالیہ کورنگی کی فیکٹری میں پیچھے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، چھت پر ��انے کی مزدوروں نے کوششیں کیں تو اوپر کے دروازے پر تالا پڑا ہوا تھا۔ مرکزی داخلی دروازہ بھی بند تھا۔ فیکٹری کی کھڑکیوں میں لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں جہاں سے کوئی چھلانگ بھی نہیں لگا سکتا تھا۔
فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد بھی انتظامیہ مزدوروں کو فیکٹری سے اندر کا مال نکالنے پر زور دیتی رہی۔ ایسا لگتا تھا کہ مزدوروں کی زندگی سے زیادہ مال کی فکر تھی۔ آگ لگنے کے بعد لوگوں نے فائر بریگیڈ کو 30 سے 35 کالیں کیں مگر فائر بریگیڈ کی گاڑی کوئی ڈھائی گھنٹے کے بعد آئی۔ حکومت سندھ نے صنعتی علاقوں کے لیے الگ سے خصوصی فائر بریگیڈ کی ٹیم شکیل دی تھی، مگر جب فائر بریگیڈ کی گاڑیاں پہنچیں تو ان کے پاس پانی کی کمی تھی۔ آگ لگنے کے بعد سے بجھنے تک کوئی وزیر، کوئی مشیر یا حکام اعلیٰ نہیں پہنچے۔ ہاں مگر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری ناصر منصور اور فیڈریشن سندھ کے صدر گل رحمن اور سعیدہ بروقت پہنچے۔ مزدوروں کے لواحقین سے ملے، ایدھی سینٹر کے اہل کاروں سے ملاقات کی اور احتجاج کیا اور طبقاتی جدوجہد کے رہنما جنت حسین بھی موقع پر موجود تھے۔
بعدازں فیکٹری کی آگ بجھنے کے بعد نماز جنازہ میں مرتضیٰ وہاب، وقار مہدی اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ فیکٹری قانونی تھی یا غیر قانونی۔ مسئلہ ہے مزدوروں کی جان کی حفاظت کا نظام ہونا ILO اور پاکستان لیبر لاز کے مطابق لازم ہے کہ ہر فیکٹری میں فائر الارم، فائر فائٹنگ کے آلاگ، فیکٹری سے نکلنے کا محفوظ راستہ، کھڑکیاں کشادہ اور بغیر سلاخوں کے ہوں، چھت پر جانے کا راستہ کشادہ اور گزرنے کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ جب بلدیہ ٹاؤن سانحے کے ذمے داروں کی شناخت آج تک نہیں ہوئی اور نہ کوئی سزا کا مرتکب ٹھہرا۔ پھر مزدور اس سانحے کے بہتر نتائج کی کیونکر توقع کریں۔ اس سلسلے میں بہت سی سیاسی، سماجی، مذہبی اور ٹریڈ یونین نے مذمتی بیانات دیے ہیں لیکن شہید مزدوروں کے قاتلوں کی گرفتاری اور جلدازجلد انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ بہت کم جماعتیں کر رہی ہیں۔
فیکٹری میں لگنے والی آگ اتنی شدید تھی کہ پہلی اور دوسری منزل پر موجود ملازمین کو نکلنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور وہ بے بسی کی موت مارے گئے۔ فائر افسر سعید اللہ کے مطابق جیسے ہی آگ کی اطلاع ملی اور اس کی شدت کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور شہر بھر سے فائر بریگیڈ کے عملے کو طلب کرلیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ آگ پر قابو پانے کے لیے فائر بریگیڈ کی 12 گاڑیاں، اسنارکل اور باؤزر کے علاوہ واٹر ٹینکروں کی مدد سے پانی فراہم کیا گیا۔ بدقسمتی یہ رہی کہ فیکٹری میں جانے اور آنے کا ایک ہی راستہ ہے جب کہ کھڑکیوں پر گرل لگی ہونے کی وجہ سے امدادی کارروائی میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، تاہم فائر بریگیڈ کے عملے نے سخت جدوجہد کے بعد فیکٹری کی ایک دیوار توڑ کر آگ پر قابو پانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ فیکٹری گراؤنڈ پلس ٹو میں صمد بونڈ اور مٹی کا تیل بھی رکھا تھا، جس کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیلی۔ آگ پر قابو پانے ک�� دوران کرین کی مدد سے فیکٹری کی پہلی اور دوسری منزل پر جان بچاتے ہوئے دم گھٹنے اور جھلس کر جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں کو نکالا گیا۔ جب لاشیں جناح اسپتال پہنچنے لگیں تو اسپتال انتظامیہ نے ایمرجنسی نافذ کر دی۔ وہاں مزدوروں کے لواحقین پہنچ گئے جہاں کئی رقت انگیز مناظر دیکھنے کو ملے۔
ایدھی اور چھیپا کے 3 رضاکار آگ بجھانے اور مزدوروں کو نکالتے ہوئے دم گھٹنے کی وجہ سے چھت سے زمین پر گر پڑے جنھیں جناح اسپتال پہنچایا گیا، اگر شروع میں ہی دیوار توڑ دی جاتی تو مزدوروں کو زندہ نکالا جاسکتا تھا۔ یہ بھی حکومت انتظامیہ کی شدید غلطی بلکہ جرم ہے کہ شروع میں ہی دیوار کیوں نہیں توڑی گئی۔ جب کوئی صاحب جائیداد طبقات کا شخص مرتا ہے تو اس کے لواحقین کے پاس جاکر تعزیت کی جاتی ہے اور صدر ، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام ان کے جنازے میں شرکت کرتے ہیں، مگر جب مزدور مرتا ہے تو ان کے لواحقین کے پاس صدر اور وزیر اعظم جاتے ہیں اور نہ جنازے میں شرکت کرتے ہیں ۔ یہ ہے طبقاتی نظام۔ یہ نظام ہی سرمایہ داروں اور صاحب جائیداد طبقات ہے وہ کیونکر مزدوروں کی شہادت پر اتنی تکلیف کریں گے۔
زبیر رحمٰن
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Video
Mother, eight children burnt to death in Karachi’s Baldia Town
0 notes
Text
UAE hands over MQM’s Hammad Siddiqui to Pakistan: sources | Pakistan

[ad_1] Muttahida Qaumi Movement leader Hammad Siddiqui. Photo: File DUBAI/ISLAMABAD: The United Arab Emirates (UAE) has handed over Muttahida Qaumi Movement’s (MQM) Hammad Siddiqui, accused in the 2012 Baldia Town factory fire, to Pakistani authorities, according to sources. The blaze, which had erupted at Ali Enterprises in Karachi’s Baldia Town on September 11, 2012, had claimed the lives of…
View On WordPress
0 notes
Text
Baldia Factory Fire Case Verdict Delayed Until Sep 22
Baldia Factory Fire Case Verdict Delayed Until Sep 22
Karachi Anti Terrorism Court (ATC) has delayed its verdict within the high-profile Baldia manufacturing unit fireplace case until September 22.
The incident that also terrifies hit headlines eight years in the past when greater than 260 staff had been burnt alive when the multi-story garment manufacturing unit was set on the fireplace in Baldia Town on September 11, 2012.
Ten accused —…
View On WordPress
0 notes
Text
Baldia factory carnage: ATC to record statement of final witness on Oct 28
Baldia factory carnage: ATC to record statement of final witness on Oct 28
KARACHI: An anti-terrorism court in Karachi has directed authorities to produce the final witness in the next hearing fixed on October 28 in connection with the Baldia Town factory fire case, ARY News reported on Friday.
The ATC judge resumed the hearing of the case related to the blaze inside Baldia Town’s Ali Enterprises factory in Karachi. Jail officials have produced the prime suspects…
View On WordPress
0 notes
Text
Once I was on a submarine cable laying job in Thailand mermaid wedding dress with train*%^$%43
As Zakir Khan both to and from going to be the Karachi Fire Department said firefighters have always been doing some of the best to learn more about bring going to be the blaze below spin out of control but take heart they hadn managed to learn more about break into there are a number zones relating to going to be the factory building blush mermaid wedding dress. The building itself would be the fact weakened and heavily damaged on such basis as going to be the fire all of which will collapse anytime as its stainless steel one of the largest is the fact that also mangled translations according the words relating to Mustafa Jamal,an all in one senior government official having to do with Baldia Town all of which could be the area having to do with going to be the factory location on the Karachi. Because they could sweat through the party or perhaps accidentally apply their sight when worn out, and this might cause the bed room colors to enter the eyes and cause critical irritation. Hence the simple way of avoiding this, should be to stay somewhat away from the a muslim area. You may either pick a design however have to be also close to the sight, or just live half a great inch away from eyelids. Once I was on a submarine cable laying job in Thailand mermaid wedding dress with train. Our company was laying a sub sea [thats underwater.. Ihairfashionlalamiracom_liwan for you folks that really need the basics] fiber optics cable that was to link up most of the Southeast Asian countries with the USA and Europe. Well, it was a hell of a job cause they had me put up in a fairly nice hotel right there on the main strip in Pattaya Beach. Hell of a job and hell of an assignment. LOL. Heck.. my employer didnt know it at the time but even if they would have cut my pay to HALF of what my current day rate was I wouldnt have left that job for anything. In addition to preserving your Indian Remy hair wig mermaid cut wedding dress, you must not neglect your own hair. For this purpose, you can, rather you should, buy a scalp protector. The impairment the lace wig adhesive creates to your skin and hair is stopped by the goodness of scalp protector. If your style expert refuses to use it, you need to insist using it. It is helpful for both normal as well as sensitive skin. There is yet another good thing about scalp protector also. It enhances the tightness of your Indian Remy hair lace front wig. Relate Articles: hazelnuts and almonds make great accompaniments to chocolate beaded mermaid wedding dress^#% #@!at present is best boot reselling season plus the difficulty of this task can be compounded girls party dresses that might cause you to waste your money flower girl dresses*-
0 notes
Text
SHC rejects bail plea of Baldia factory fire suspect, asks ATC to speed up case proceedings
KARACHI : The Sindh High Court on Monday rejected the bail request of Zubair alias Charya who is in custody for allegedly setting fire to Baldia Town’s Ali Enterprises factory in September 2012. During the hearing, Zubair’s lawyer argued before the court that the prosecution had not been able to present any evidence against his client. He recalled that 250 people were killed in the 2012 blaze,…
View On WordPress
0 notes
Text
دو سو اکسٹھ اموات ثوابِ جاریہ میں بدل گئیں
کسی کو یاد ہے آج ہی کے دن ٹھیک چھ برس پہلے کراچی کے صنعتی علاقے سائٹ میں واقع بلدیہ ٹاؤن ک�� ایک کمپنی علی انٹر پرائزز کی چار منزلہ گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگنے سے دو سو اٹھاون مزدور جاں بحق اور انسٹھ زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں تین اور مزدور زخموں کی تاب نہ لا کے جاں بحق ہو گئے، یوں یہ تعداد دو سو اکسٹھ تک پہنچ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ بلدیہ فیکٹری فائر پاکستان میں ہونے والا اب تک کا بدترین صنعتی حادثہ تھا جس میں محض انسانی غفلت کے سبب اتنی جانیں گئیں۔ اگر ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کے دروازوں پر تالا نہ ہوتا اور باہر کھلنے والی کھڑکیاں بند نہ ہوتیں تو شائد اتنی ہلاکتیں نہ ہوتیں کیونکہ زیادہ تر اموات دم گھٹنے سے ہوئیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ حادثے سے لگ بھگ تین ہفتے قبل امریکی ادارے سوشل اکاؤنٹیبلیٹی انٹرنیشنل کی ذیلی اطالوی کمپنی رینا کی جانب سے علی انٹرپرائیز کی گارمنٹ فیکٹری کو ’’ ایس اے ایٹ تھاؤزینڈ ‘‘سرٹیفکیٹ جاری ہوا۔ اس کا مطلب تھا کہ یہ فیکٹری ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے بین الااقوامی معیار پر پوری اترتی ہے۔ لیکن اس فیکٹری میں لگنے والی آگ نے جہاں صنعتی قوانین کو لاگو کرنے والے اداروں، اہلکاروں اور کرپشن و بے حسی کے گٹھ جوڑ کو عریاں کر دیا وہیں کسی بھی فیکٹری کو بین الااقوامی معیار کا قرار دینے کے بین الاقوامی ریکٹ کو بھی ننگا کر کے رکھ دیا۔ چنانچہ سوشل اکاؤنٹیبلٹی انٹرنیشنل اور رینا نے اگرچہ بلدیہ فیکٹری حادثے کی ذمے داری میں اپنی غافلانہ شرکت سے تو ڈھٹائی برتتے ہوئے انکار کر دیا مگر خجالت اتنی بڑی تھی کہ اس ادارے کو حادثے کے فوراً بعد پاکستان میں کسی بھی فیکٹری کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا کام عارضی طور پر معطل کرنا پڑ گیا۔
علی انٹرپرائیز مالکان نے اس معاملے میں مجرمانہ غفلت سے توجہ ہٹانے کے لیے مشہور کرنا شروع کیا کہ فیکٹری میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی تنظیم نے بھتہ نہ ملنے پر اس فیکٹری کو آگ لگا دی۔ اگر یہ الزام درست ہے تب بھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ علی انٹرپرائزز کے ’’ معصوم و بے گناہ مالکان‘‘ مسلسل فرار کیوں ہیں اور اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کیوں نہیں کر پا رہے اور اب وہ ایک تازہ ایف آئی آر پر کیوں مصر ہیں کہ آتشزدگی کے مجرموں کو ڈھونڈا جائے۔ جبکہ تین تحقیقاتی کمیٹیاں متفق ہیں کہ آتشزدگی کی وجوہات کچھ بھی ہوں مگر اموات ہنگامی راستے مقفل ہونے اور دم گھٹنے سے ہوئیں۔ مزدروں کو جان بچانے کے لیے بھاگنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور اس کی ذمے دار سراسر فیکٹری انتظامیہ ہے۔
علی انٹرپرائیز میں ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ ہزار مزدور مختلف شفٹوں میں کام کرتے تھے۔ مگر حیرت انگیز بات ہے کہ ان کا ریکارڈ نہ فیکٹری کے پاس ہے نہ سرکاری اداروں کے پاس۔ خود حادثے سے قبل اس فیکٹری کا وجود بھی صنعتی امور کے نگراں سرکاری اداروں کے کاغذوں میں تھا کہ نہیں؟ یہ سوال بھی تحقیق طلب ہے۔ اگر اس کا جواب مل جائے تو ایسے بیسیوں دیگر ادارے اور فیکٹریاں بھی سامنے آ جائ��ں گے جو جیتا جاگتا وجود رکھنے کے باوجود سرکاری ریکارڈ میں گھوسٹ فیکٹریاں ہیں۔ اور یہ گھوسٹ صرف کسی المئے یا حادثے کے نتیجے میں ہی اچانک ہمارے سامنے آتا ہے۔
علی انٹر پرائیز کا حادثہ یا واردات بھی بھلا دی جاتی اگر پائلر جیسے ادارے ، نیشنل لیبر فیڈریشن و دیگر سرکردہ مزدور تنظیمیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں، عوام دوست وکیل، میڈیا کے کچھ سرپھرے اور عدلیہ اس معاملے کو انسانی المیے کی سطح پر سنجیدگی سے نہ لیتی۔ اور اگر یہ معاملہ، مقامی سے ملکی اور پھر بین الاقوامی سطح پر نہ اچھلتا۔ اس فیکٹری میں جو گارمنٹس بنتے تھے ان کی لگ بھگ ستر فیصد مقدار ایک جرمن کمپنی کے آئی کے ٹیکسٹیلین اٹھاتی تھی۔ لہذا یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ اس جرمن کمپنی کو علی انٹرپرائیز میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے ابتر معیارات کے بارے میں پیشگی کچھ بھی نہ معلوم ہو۔ جب جرمن میڈیا نے اس اسکینڈل کو اٹھانا شروع کیا تو جرمن حکومت کو بھی بیچ میں آنا پڑا اور معاملہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے نوٹس میں بھی آ گیا کہ جس کا جرمنی بھی ایک فعال ممبر ہے۔ چنانچہ صنعتی حادثے میں ہلاک ہونے والے ورثا کی ثابت قدمی اور ملکی و بین الاقوامی تنظیموں کی مدد سے نوبت یہاں تک آ گئی کہ جرمن کمپنی کے آئی کے نے فوری طور پر ایک ملین ڈالر کی ازالہ رقم دی جسے عدالت کے ذریعے لواحقین میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ جرمن کمپنی کو پانچ اعشاریہ پندرہ ملین ڈالر کی مزید رقم ادا کرنا پڑی جو اب بلدیہ فیکٹری فائر کے لواحقین و متاثرین کو حکومتِ سندھ کے توسط سے مسلسل پینشن کی صورت میں ملتی رہے گی۔
ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک یہ محض ایک اچھی خبر ہو۔ تاہم مجھ جیسوں کے نزدیک بہت عرصے بعد یہ پاکستانی و بین الاقوامی مزدور حقوق تنظیموں اور ہمدرد اداروں کا ایسا اجتماعی کارنامہ ہے جو آیندہ کے ایسے حادثات کے قانونی نپٹارے کے لیے زبردست نظیر بن گیا ہے۔ شائد آپ کو یا آپ کے بزرگوں کو یاد ہو کہ اب سے چونتیس برس پہلے دسمبر انیس سو چوراسی میں بھوپال میں یونین کاربائیڈ کے کیمیکل پلانٹ میں حادثے کے سبب زہریلی کیمیاوی گیس لیک ہو جانے سے ابتدائی طور پر پانچ ہزار اموات ہوئیں۔ برس ہا برس کی کوششوں کے بعد سپریم کورٹ آف انڈیا کے دباؤ پر یونین کاربائیڈ چار سو ستر ملین ڈالر کا ہرجانہ دینے پر رضامند ہو گئی۔ جب حتمی سروے مکمل ہوا تو معلوم اس حادثے کے نتیجے میں پانچ ہزار نہیں بلکہ بائیس ہزار تک اموات ہوئیں جبکہ بھوپال شہر میں کم ازکم ساڑھے چار لاکھ افراد اس گیس کے اثرات سے بلاواسطہ متاثر ہوئے۔اور یہ اثرات وہ آج تک طرح طرح کی بیماریوں اور جسمانی پیچدگیوں کی شکل میں جھیل رہے ہیں۔
یونین کاربائیڈ کو بھوپال سانحے کے سولہ برس بعد ڈاؤ کمپنی نے خرید لیا اور پھر ڈاؤ کمپنی کو ڈوجونز نے خرید لیا۔ اب سوال یہ ہے کہ بھوپال المئے کے ہرجانے کی رقم پانچ ہزار کے بجائے بائیس ہزار متاثرین کو دینے کا مطالبہ کس سے کیا جائے۔ بھارتی مزدور تنظیمیں کہتی ہیں کہ جو نئی کمپنی کسی پرانی کمپنی کو خریدتی ہے تو اس کمپنی کی ذمے داریاں بھی نئی کمپنی کو منتقل ہو جاتی ہیں۔ مگر یونین کاربائیڈ کو خریدنے والی ڈاؤ اور پھر ڈاؤ کو ضم کرنے والی ڈوجونز کا موقف یہ ہے کہ جب یہ حادثہ ہوا تب ان کا یونین کاربائیڈ سے کوئی لینا دینا نہ تھا اور جب یونین کاربائیڈ نے پانچ ہزار متاثرین کو ازالے کی رقم سپریم کورٹ آف انڈیا کے کہنے پر ادا کر دی تو اب ہم کس بات کے مزید پیسے مزید دعوے داروں کو دیں۔
آج چونتیس برس بعد بھی یہ گتھی سلجھنے کے دور دور تک آثار نہیں۔ جب تک کارپوریٹ ریسپانسبلٹی کے قوانین کی دیوار میں سے ایسے کیسز کے لیے کوئی کھڑکی نکلے تب تک شائد کوئی بھوپال متاثر وہ دن دیکھنے کے لیے زندہ بھی نہ ہو۔ اس تناظر میں کراچی کی بلدیہ فائر فیکٹری کا جو بین الاقوامی اسٹیلمنٹ ہوا اس کی مثال آیندہ کے بڑے صنعتی حادثوں کے متاثرین کے حق میں ضرور کام آئے گی اور جس جدو جہد کا فائدہ فی الحال محض دو سو اکسٹھ جاں بحق مزدوروں کے لواحقین کو ہوا۔ کون جانے آگے چل کر اس نظیر کی بنیاد پر کتنے اور مظلوموں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس اعتبار سے بلدیہ فیکٹری کے مزدروں کی قربانی رائیگاں نہیں گئی بلکہ ثوابِ جاریہ میں بدل گئی ہے۔
وسعت اللہ خان
0 notes
Text
کراچی : سانحہ بلدیہ ٹاون کے متاثرین پانچ سال بعد بھی انصاف کے منتظر
تیس سالہ شہروز نے 11 ستمبر 2012ء کو معمول کے مطابق ڈیوٹی پر جانے سے قبل بہن کو فیکٹری کے گیٹ پر چھوڑا تھا جہاں وہ پیکنگ ڈپارٹمنٹ میں کام کرتی تھی۔ دونوں بہن بھائیوں کی مشترکہ آمدن سے گھر کا خرچہ جیسے تیسے نکل ہی آتا تھا۔ لیکن شہروز کو معلوم نہ تھا کہ وہ اپنی پیاری بہن کو آخری بار فیکٹری چھوڑنے جا رہا ہے۔ اسی شام کراچی کی 'علی انٹرپرائز' میں لگنے والی آگ میں صائمہ سمیت 250 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ کراچی میں پیش آنے والے اس اندوہ ناک سانحے کے پانچ سال مکمل ہونے پر متاثرین کے غم ایک بار پھر تازہ ہو گئے ہیں۔ لوگ آج بھی سانحے کے پیچھے چھپی کہانی اور اس کے کرداروں سے لاعلم ہیں۔
میرے اس سوال پر کہ کیا انصاف ملنے کی کوئی امید ہے، شہروز جھنجھلا کر مجھ ہی سے سوال کرنے لگا، "کیا اتنے برسوں بعد بےنظیر بھٹو کو انصاف مل گیا؟" سرکار کی جانب سے اس واقعے کو ملکی صنعتی تاریخ کا بدترین سانحہ قرار دے کر پہلے فیکٹری مالکان کے خلاف قتل بالخطا کی دفعات کے تحت مقدمہ سیشن عدالت میں چلایا جاتا رہا۔ لیکن پھر معلوم ہوا کہ آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔ تفتیش کاروں کے مطابق آگ لگانے کی وجہ فیکٹری مالکان کی جانب سے 35 کروڑ روپے بھتہ دینے سے انکار تھا۔ پھر اس نئے انکشاف کی روشنی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی گئی جس نے اس انکشاف پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ فیکٹری کو آگ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لگائی گئی تھی۔
اب یہ مقدمہ لگ بھگ 10 ماہ سے انسدادِ دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں ہے اور کیس کے دو مرکزی ملزمان عبدالرحمان عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ مقدمے میں نامزد ایک ملزم عبدالرحمان عرف بھولا کو دسمبر 2016ء میں بینکاک سے گرفتار کر کے پاکستان لایا گیا تھا۔ عبدالرحمان عرف بھولا نے مقدمے کی سماعت کے دوران مجسٹریٹ کے سامنے بیان میں اپنے جرم کا اقرار اور اس پر پشیمانی کا اظہار بھی کیا تھا۔ لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ بلکہ رحمان عرف بھولا نے اپنے بیان میں اس واقعے میں سابق صوبائی وزیر اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رکنِ سندھ اسمبلی رؤف صدیقی کے ملوث ہونے کا بھی الزام عائد کیا جسے رؤف صدیقی رد کر چکے ہیں۔
مقدمے کا ایک اور اہم ملزم حماد صدیقی اب تک قانون کی گرفت سے دور ہے۔ حماد صدیقی بھی ایم کیو ایم کا سابق رہنما ہے اور عدالت اس کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے۔ لیکن ایک جانب جہاں مرکزی ملزم قانون کی گرفت سے آزاد ہے، وہیں گرفتار ملزمان کے خلاف بھی مقدمہ انتہائی سست روی کا شکار ہے اور اب تک ملزمان پر فردِ جرم بھی عائد نہیں کی جا سکی ہے۔ مقدمے کی حساسیت اور گرفتار ملزمان کی سیکورٹی کے پیش نظر مقدمہ سینٹرل جیل کراچی ہی میں چلایا جا رہا ہے۔ بدترین "صنعتی حادثے" سے "مجرمانہ سازش" تک ہونے والی یوٹرن تحقیقات کا ابھی عدالت میں ثابت ہونا باقی ہے۔ لیکن پانچ سال بعد بھی کیس ابتدائی مراحل ہی میں ہے۔ اگرچہ اس بارے میں سرکار کے وکلا کا کہنا ہے کہ اب کیس "ٹھیک سمت" میں چل پڑا ہے لیکن واقعے میں ملوث کرداروں کو سزا ملنے کے خواب کی تعبیت اب بھی کوسوں دور ہے۔ کراچی کے ایک نامور وکیل محمد فاروق کہتے ہیں کہ یہ مقدمہ عدالتی نظام کے لیے ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے جسے جتنا جلد ہو سکے نمٹانا چاہیے۔ لیکن ان کے بقول اس مقدمے میں انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کرنا بھی ضروری ہیں تاکہ ملزمان کو صفائی کا موقع ملے اور حقیقی مجرموں کا تعین بھی ہوسکے۔
ماہرین کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت تو ایسے مقدمات کا فیصلہ سات روز میں ہو جانا چاہیے لیکن کئی وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہیں ہو پاتا۔ ماہرین کے بقول قوانین میں تبدیلی، عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے اور اس کے ساتھ تفتیش کے معیار کو بہتر بنائے بغیر مجرموں کو فوری سزائیں دلانا ایک خواب ہے۔ اہم قانونی اصلاحات کے نفاذ اور اس بدترین سانحے کے پیچھے چھپے لوگوں کو بے نقاب کرنے کے لیے سیاسی قوت ارادی بھی ضروری ہے جس کے بغیر یہ کام ادھورے ہی رہیں گے۔ اور اس وقت تک ہر برسی پر سانحہ بلدیہ کے متاثرین کے پاس آنکھوں میں آنسو لیے اپنے پیاروں کو یاد کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
محمد ثاقب
#World#Pakistan#Muttahida Qaumi Movement#Karachi Baldia Town Factory Fire#Crimes in Pakistan#Baldia Town
0 notes
Text
سانحہ بلدیہ ٹاؤن کا ذمہ دار کون....
تحریک انصاف او ر ایم کیو ایم کے درمیان اگرچہ لفظوں کی جنگ الطاف حسین کی جانب سے معذرت کے بعد کچھ ٹھنڈی ہوگئی ہے لیکن دونوں اطراف سے جس تلخ لہجے میں ایک دوسرے کیخلاف اور بالخصوص عورتوں کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی اس کی کسی بھی طور پر حمایت نہیں کی جاسکتی ۔بنیادی مسئلہ جے آئی ٹی کی رپورٹ بنی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بلدیہ ٹائون میں ہونے والے واقعہ میں ایم کیو ایم کے لوگ براہ راست ملوث ہیں ۔
یہ وفاقی ایجنسیوں کے تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس ہیں جس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایم کیو ایم اس رپورٹ کیخلاف خود عدالت میں جاتی اور ثابت کرتی کہ یہ رپورٹ ان کے خلاف ہے اور اس واقعہ میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ۔ اس سے خود ایم کیو ایم کا فائدہ ہوتا او ران کو اپنے اوپر لگائے جانے والے الزام سے باہر نکلنے میں مدد ملتی ۔ لیکن جس انداز سے اس رپورٹ پر تحریک انصاف نے ردعمل دیا اور ایم کیو ایم کو آڑے ہاتھوں لے کر مطالبہ کیا اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف نہ صرف سخت کارروائی کی جائے بلکہ اس مقدمہ کو فوجی عدالتوں میں بھیجا جائے۔
اس پر ایم کیو ایم کا ردعمل اور بالخصوص دھرنا سیاست میں ان کی عورتوں کے حوالے سے گفتگو نے عمران خان کو بھی غصے میں مبتلاکردیا ۔ ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد کی سیاست میں جماعت اسلامی کو اپنے خلاف ایک بڑی طاقت سمجھتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ وہاں جماعت اسلامی کو سیاسی راستہ دینے کیخلاف طاقت کا استعمال کرتی رہی ہے۔ایم کیو ایم کیخلاف ایک نئی طاقت کی آواز عمران خان اور تحریک انصاف کی صورت میں سامنے آئی تھی لیکن عمران خان تسلسل کے ساتھ ایم کیو ایم کیخلاف اپنی مزاحمت برقرار نہیں رکھ سکے ۔ ایم کیو ایم اور عمران خان کے درمیان نئی سیاسی سرد جنگ کا اہم نقطہ جے آئی ٹی کی رپورٹ بنی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بلدیہ ٹائون میں آتشزدگی ایک خاص منصوبہ کے تحت ہوئی او راس میں 250سے زیادہ افراد کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔
لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ میں یہ سنسنی خیز انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ آگ فیکٹری مالک کی جانب سے سیاسی جماعت کو بھتہ نہ دینے کی صورت میں لگائی گئی اس رپورٹ کے آنے کے بعد ایم کیو ایم جو پہلے ہی کافی سیاسی عتاب کا شکار تھی ، اس کی سیاست مزید دبائوکا شکار ہوگئی ہے ۔ ایم کیو ایم او ر پ��پلز پارٹی کے درمیان بھی کچھ عرصہ قبل ایک سیاسی جنگ الطاف حسین اور بلاول بھٹو کے درمیان شروع ہوئی تھی لیکن آصف علی زرداری کی مفاہمت کی سیاست کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم کے خلاف سیز فائر کرنا پڑ ا ۔
اس سیز فائر کا نتیجہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی ناراضگی کی صورت میں سامنے آیا ۔ اس سے قبل ہم ایم کیو ایم کے داخلی مسائل بھی دیکھ چکے ہیں جہاں وقفے وقفے سے الطاف حسین اپنی جماعت کے لوگوں پر برس پڑتے ہیں او رکئی بار انہوں نے جماعت کی قیادت سے دست برداری کا اعلان کیا لیکن ہر بار ان کے بقول وہ کارکنوں کی مزاحمت او ر محبت کے باعث قیادت سے دست برداری کا فیصلہ واپس لے رہے ہیں۔ الطاف حسین کئی بار فوج اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے خلاف بولتے رہے ہیں ۔ سندھ کی سیاست میں ایک دفعہ پھر مفاہمت کی سیاست کا غلبہ ہے ۔
ایک طرف آصف علی زرداری ہر صورت میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں تودوسری طرف سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف ایک نئی صف بندی کی جارہی ہے ۔ اس لیے آصف علی زرداری نے ایک طرف ایم کیو ایم کو ساتھ ملایا ہے تو دوسری طرف وہ نواز شریف کے ساتھ بھی مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔دراصل ایم کیو ایم کے خلاف جو نیا محاذ کھلا ہے اس کو ایم کیو ایم کی داخلی سیاست کے مسائل کے ساتھ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اصولی طور پر ایم کیو ایم سمیت سب اس بات پر متفق ہیں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا فیصلہ سامنے آنا چاہیے کہ یہ کس حد تک درست یا غلط ہے ۔
کیونکہ 250انسانی جانوں کے ضیاع کا فیصلہ ہونا چاہیے کہ اس میں کون قصور وار ہے کیونکہ اگر ہم نے ان مجرموں کیخلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا تو مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکنا ممکن نہیں ہوگا ۔ اس لیے اس واقعہ پر ایم کیو ایم کو بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا کہ اس رپورٹ کی آزادانہ تحقیقات سب کیلئے ضروری ہیں ۔ اس کا فیصلہ سڑکوں پر نہیں بلکہ عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے اور دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے پر الزامات کی سیاست سے باہر نکل کر مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔
یہ ذمہ داری ایجنسیوں کی بھی ہے کہ وہ ثابت کریں جس کا اظہاررپورٹس کی صورت میں سامنے آیاہے ، تاکہ خود اداروں کی اپنی ساکھ کو بھی نقصان نہ پہنچے اور یہ تاثر عام نہ ہو کہ اس رپورٹ میں کسی کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کیا گیا ہے ۔ پنجاب کے سابق گورنر چودھری سرور جنہوںنے مسلم لیگ )ن(کی قیادت سے ناراضگی کے بعد گورنر شپ سے استعفیٰ دے دیا تھا ، اب وہ عملی طور پر سیاسی میدان میں کود پڑے ہیں ۔ ان کی نئی منزل تحریک انصاف ہے ۔ ان کی باقاعدہ شمولیت سے قبل ہی یہ اندازہ لگایا جارہا تھا کہ وہ اگر کسی سیاسی جماعت کو جوائن کریں گے تو وہ تحریک انصاف ہی ہوگی ۔
چودھری سرور پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا کردار ادا کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں ، اسی خواہش کے ساتھ وہ تحریک انصاف کا حصہ بنے ہیں ۔ ان کی تحریک انصاف میں شمولیت سے خود تحریک انصاف کو خوب فائدہ ہوگا ۔ کیونکہ چودھری سرور پنجاب کی سیاست میں جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور دیگر جماعتوں کے ساتھ ان کے تعلقات بھی کافی بہترہیں ۔ تحریک انصاف کو بھی پنجاب کی سیاست میں ایک بڑا نام درکار تھا اور چودھری سرور نے شامل ہوکر اس مسئلے کا حل نکال دیا ہے ۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ چودھری سرور کس حد تک باقی لوگوں کو اپنے ساتھ اور تحریک انصاف کے ساتھ ملانے میں کامیاب ہونگے ۔ کیونکہ اگر وہ ایک خاص تعداد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کا فائدہ تحریک انصاف کو ضرور ہوگا ۔ حکمران ��ماعت مسلم لیگ کو یقینا چودھری سرور کے ایجنڈے سے خبردار رہنا ہوگا اور وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ پنجاب کی سیاست کے ماحول کو تبدیل کرسکیں ۔ جب انہوں نے پنجاب کی گورنر شپ سے استعفیٰ دیا تو اس وقت ہی ان کے سیاسی عزائم ظاہر ہوگئے تھے او رپریس کانفرنس میں انہوں نے عملی طور پر حکومت کے خلاف چارج شیٹ پیش کردی تھی ۔
اب دیکھنا ہوگا کہ خود تحریک انصا ف میں چودھری سرور کو کیا پذیرائی ملتی ہے ، کیونکہ سب سے بڑا چیلنج چودھری سرور کو پارٹی کے اندر کے بحران کی صورت میں ملے گا اور دیکھنا ہوگا کہ وہ اس بحران سے کس طرح سے نمٹیں گے اور پارٹی کیلئے کوئی بڑا کردار ادا کرسکیں گے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے سخت فیصلے کیے ہیں اور ان کے بقول اب وقت ہے کہ ہمیں کسی مصلحت کی بجائے بڑے فیصلے کرکے آگے بڑھنا ہوگا ۔
وہ اس وقت پنجاب کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر خود سارے معاملات کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں ۔ایک طرف وہ دہشتگردی کے خاتمے میں مگن ہیں تو دوسری طرف ا ن کے بقول چنیوٹ میں دریافت ذخائر کے نمونوں میں 65فیصد اعلیٰ کوالٹی لوہے کی تصدیق ہوگئی ہے ۔ ان کے بقول اس منصوبے کی تکمیل سے معاشی ترقی کو فائدہ ہوگا اور صوبہ مزید ترقی کے عمل میں شامل ہوجائے گا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے دعویٰ کیا ہے کہ چینی کمپنی پنجا ب میں ایل این جی پاور پراجیکٹ لگانے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔
سلمان غنی
#World#Pakistan Politics#Pakistan#Muttahida Qaumi Movement#Karachi Baldia Town Factory Fire#Karachi#Baldia Town#Altaf Hussain
0 notes
Text
UAE hands over MQM’s Hammad Siddiqui to Pakistan: sources
UAE hands over MQM’s Hammad Siddiqui to Pakistan: sources Muttahida Qaumi Movement leader Hammad Siddiqui. Photo: File
DUBAI/ISLAMABAD: The United Arab Emirates (UAE) has handed over Muttahida Qaumi Movement’s (MQM) Hammad Siddiqui, accused in the 2012 Baldia Town factory fire, to Pakistani authorities, according to sources.
The blaze, which had erupted at Ali Enterprises in Karachi’s Baldia…
View On WordPress
0 notes
Text
UAE hands over MQM’s Hammad Siddiqui to Pakistan

The United Arab Emirates (UAE) has handed over Muttahida Qaumi Movement’s (MQM) Hammad Siddiqui, accused in the 2012 Baldia Town factory fire, to Pakistani authorities, according to sources.
The blaze, which had erupted at Ali Enterprises in Karachi’s Baldia Town on September 11, 2012, had claimed the lives of over 250 labourers.
Sources informed Geo News on Friday that Siddiqui is in the…
View On WordPress
#Baldia Town factory fire#Hammad Siddiqui#mqm#MQM leader#Muttahida Qaumi Movement#UAE#Uncategorized#united arab emirates
0 notes
Text
Baldia factory fire case: ATC indicts prime accused | Pakistan
Baldia factory fire case: ATC indicts prime accused | Pakistan
[ad_1] KARACHI: After the passing of six years, an anti-terrorism court on Wednesday indicted the prime accused in the Baldia factory fire case. The blaze, which had erupted at Ali Enterprises in Karachi’s Baldia Town on September 11, 2012, had claimed the lives of over 250 labourers. The prime accused, Abdul Rahman alias Bhola and Zubair alias Charya, were presented during the hearing of the…
View On WordPress
0 notes