#��روا
Explore tagged Tumblr posts
Text
جیل میں عمران خان سے غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے: زرتاج گل
(24نیوز) تحریک انصاف کی رہنماو رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے کہا ہے کہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان سے غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ فیصل آباد میں عدالت پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے زرتاج گل کا کہنا تھا کہ کورٹ ٹرائل میں آج پہلی پیشی ہوئی اور تاریخ ملی ہے، انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کوئی دہشت گرد پیش نہیں ہوتا البتہ پی ٹی آئی قیادت و کارکن پیش ہو رہے ہیں، پی ٹی آئی ورکرز کو…
0 notes
Photo
(33/54) “On the day Khomeini’s plane landed the road from the airport was lined with hundreds of thousands of cheering people. I hadn’t completely lost hope. The king was gone. But we still had a government, a parliament, a constitution. The only thing new was this man. Maybe he’d been telling the truth. Maybe he truly did want an open society. Khomeini had surrounded himself with liberal advisors. Maybe he’d allow them to run the country. Maybe he’d go to Qom and study his books. The parliament decided to form a small delegation to meet with him; to find out his plans. Since I’d been such a vocal member of the opposition, it was decided that I should go along. Khomeini had taken up residence in a school building directly behind the parliament. When we arrived we were escorted into an empty classroom. There was no furniture. Pillows and blankets were piled against the wall; it was clear that people had been sleeping there. After five minutes Khomeini entered the room. He was dressed all in black. After he took his seat we explained that we were hoping for a peaceful transition of power. One that kept the constitution intact, and the parliament in place. We presented a list of ministers that we thought he would approve. He listened in silence. At no point did he ask a question. At no point did he give a response. It was clear that he had no need for our participation. Power was in his hands. When we finished making our proposal, he asked us to deliver two messages. One: he wanted us to tell the military that they had his full support. And two: that no one would be harmed, except for the king. When asked later about his promises, he would claim that Islam allows lying in times of war.”
روزی که هواپیمای خمینی فرود آمد، سدها هزار نفر از فرودگاه تا شهر به پیشواز او آمده بودند. شاه رفته بود. اما هنوز دولت، مجلس و قانون اساسی بر جای بودند. تنها مهرهی جدید، یک روحانی بود. شاید راست بگوید؟ شاید به راستی خواهان جامعهای آزاد باشد؟ خمینی را مشاوران لیبرال احاطه کرده بودند. شاید اجازه دهد آنها کشور را اداره کنند؟ شاید به قم میرفت و سرگرم خواندن کتابهایش میشد؟ گروه اقلیت مجلس تصمیم گرفت پنج نفر را برای ملاقات با او و آگاهی از برنامههایش تشکیل دهد. من یکی از آن پنج تن بودم. خمینی در مدرسهای پشت مجلس اقامت داشت. وقتی وارد شدیم، ما را به کلاسی خالی هدایت کردند. هیچگونه اسباب و اثاثی در اتاق نبود. روشن بود که از آن اتاق برای خواب استفاده میشد زیرا بالشها و تشکهایی کنار دیوار انباشته شده بودند. پس از پنج دقیقه خمینی وارد اتاق شد. جایی نشست. به او گفتیم که ما امیدوار به جابهجایی صلحآمیز قدرت هستیم. انتقالی که قانون اساسی را حفظ کرده و مجلس را در جای خود نگه دارد. او در سکوت سخنان ما را شنید. هیچ پاسخی نداد. هیچ پرسشی نکرد، نیازی به مشارکت نداشت. تمام قدرت را یکجا میخواست. از ما خواست دو پیام را به بیرون برسانیم. نخست به سران ارتش بگوییم که خمینی خواهان بالا بردن احترام آنهاست و دوم آنکه هیچ کسی جز شاه مجازات نخواهد شد. دیری نپایید که دروغ گفتن را در هنگام جنگ روا دانست
118 notes
·
View notes
Text
رات کے تین بج چکے تھے اور وہ ابھی تک جاگ رہا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ صبح اسے جلدی اٹھنا ہے امتحان کے لیے مگر پھر بھی کچھ ایسا تھا جو مسلسل پچھلی چھ راتوں سے اسے سونے نہیں دے رہا تھا ۔ وہ حسبِ معمول ا��نے خیالات میں کچھ دیر مگن رہا اور پھر اٹھ کر وضو کرنے کے لیے چلا گیا۔ وہ جانتا تھا کہ جب تک وہ تہجد نہیں پڑھ لے گا اس کے دل کو سکون نہیں آئے گا۔ وہ ہمت کر کے خود کو جائے نماز تک لے تو آیا مگر نماز شروع کرتے ہی اس کی ہمت جواب دے گئی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس کی آنکھیں پہلے ہی آنسوؤں سے دھندلا رہی تھیں اور سجدے میں گرتے ہی ان آنسوؤں کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ وہ بار بار یہی دہرا رہا تھا "الله جی آپ ہی تو کہتے ہیں کہ تم مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کروں گا، آپ تو مجھ سے ستر ماؤں جتنا پیار کرتے ہیں، آپ ہی تو کہتے ہیں کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، آپ کسی انسان پر اس کی سکت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے تو پھر میری کمر ایک ایسے بوجھ سے کیوں جھک رہی ہے میں جسے اٹھانے کے قابل نہیں ہوں۔ میں تو روز دن رات یہی دعا لے کر آپ کے حضور پیش ہوتا ہوں، پھر میری دعائیں اثر کیوں نہیں دکھا رہیں، راستے میں اتنی مشکلات کیوں حائل ہو رہی ہیں۔ پھر آپ نے ہی تو معجزاتی طور پر مجھے اس انسان کے قریب کیا تھا، آپ نے ہی تو میرے دل میں اس کے لیے محبت پیدا کی ہے، پھر جب سفر کا آغاز آپ کے حکم سے ہوا ہے تو اصل منزل تک بھی پہنچا دیں نا۔ اور اگر نے میری قسمت میں وہ منزل لکھ رکھی ہے تو پھر اس سفر کی سختی کو برداشت کرنے کے لیے صبر، ہمت اور حوصلہ دے دیں، آپ تو جانتے ہیں نا کہ آپ کا یہ بندا کتنا کمزور ہے۔ مشکل کشا، حاجت روا آپ کی زات ہے، آپ میری مشکل آسان کر دیں نا۔ دینے والی اور لینے والی آپ کی زات ہے، آپ جسے جو چاہیں دے سکتے ہیں، جیسا چاہے بنا سکتے ہیں، تو پھر مجھ میں جو بھی کمی کوتاہی ہے اسے ختم کر کے مجھے اس کے لائق بنا دیں"۔ وہ یہی باتیں بار بار دہرا رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے تھے، اتنی دیر سجدے میں جھکے رہنے سے اس کے گھٹنے درد محسوس کرنے لگے تھے اور اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے کہ اتنے میں فجر کی آذان ہونے لگی۔
6 notes
·
View notes
Text
حرم مکی میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کی توسیع کا منصوبہ
مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام میں مسعی (سعی کی کرنے کی جگہ) کے توسیعی منصوبے کے نتیجے میں اب اس کی کُل منزلوں کی تعداد 4 ہو گئی ہے جن کا مجموعی رقبہ 87 ہزار مربع میٹر سے تجاوز کر چکا ہے۔ منصوبے کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ "رواں سال رمضان المبارک میں مطاف کے میزانائن کو پُل کے ذریعے مسعی کے میزانائن سے ملا دیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے داخل ہونے کے دو راستے ہیں۔ مغربی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر شبیکہ" اور جنوبی سمت سے آنے والوں کے لیے "جسر جیاد" ہے۔ سعودی حکومت کی جانب سے حرم شریف کی نئی توسیع کے نتیجے میں ایک گھنٹے کے اندر مجموعی طور پر 1 لاکھ 18 ہزار افراد سعی کرسکیں گے۔ مسعی کی بالائی منزلوں تک پہنچنے کے لیے خودکار متحرک زینوں اور لفٹوں کے علاوہ تین پُل بھی موجود ہیں۔
اس سلسلے میں معتمرین نے مسعی کی نئی توسیع پر مسرت و افتخار کے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔ ایک بزرگ معتمر کے مطابق سابق فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے دور سے موجودہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور تک ہونے والی توسیعات قابل تحسین ہیں۔ ایک دوسرے معتمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صفا اور مروہ کے درمیان چار منزلہ مسعی نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اندر سمو لیا ہے اور حالیہ توسیع کے بعد معتمرین کو سو فی صد راحت اور آرام میسر آرہا ہے۔ مسعی کے منصوبے کی عمارت اپنی تمام منزلوں، سعی اور دیگر خدمات کے علاقوں سمیت مجموعی طور پر تقریبا 1 لاکھ 25 ہزار مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکام، اژدہام کو انتہائی حد تک کم کرنے اور مناسک کی ادائیگی کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنانے کی کس قدر خواہش رکھتے ہیں۔
بشکریہ العربیہ اردو
3 notes
·
View notes
Text
The Threshing (Rwa)
(Song 28 released in 1984)
The propaganda of lies is coming from all directions.
The avalanche of fake news has divided the tribes
And made them to clash.
Soldiers are counting the dead
We, the cowards, have chosen to run away.
But we slowly dying in our illusionary peace.
We are crying and we are suffocated.
Oh righteous people!
Democracy is what we preach.
Oh righteous people!
Where are the rights?
Some don’t hesitate to use chains,
Others are chained.
Overwhelmed they are.
Here, I am addressing those who are being lashed
While the sadists are enjoying the torture.
Alive or dead is never their concern.
Everyone is shouting: “After me, the deluge.”
As if the apocalypse is taking place.
I have always harvested for others
and celebrated for them.
Instead of being rewarded, I am being scorned.
Behold, O people!
No longer weep for hunger and thirst
Because you are the ones who opened
The box of disgrace with your own hands.
Now, you and I are caught
In the battle of wills,
When I push you pull
Towards the direction we never share.
Translated by Atlas Phoenix
رْوا
ءيكْوت البريح ءيدروس ما يسلان ءيغ ءيصلح
ءينكيد البريح ن تكْنداوت ياسي تيقبلين
ءيـسميقيـر لحركات ءيسدوس ءاسن ءاكراس
دان فالن ءينفـلاس ءينغان ءيغد ءوضـان
نكني دان تروال ءادور نفال ءيناغان
ماش ءاكْما نموت غ لامان ءيشمت ءاغ
كْردن كْينغ ءيسكونفاس ءامطا نرميت
ءانموقار ءايد باب ن روا شرع ءاديويغ
ءانموقار ءايد باب لحاق ءيسول ءيسـول
ءيموتل كرا غ ءيغودا ءور وحلن ءاد ءيفـرد
ءيموتل كرا س ءيغودا ءيفرد كيسن ءوصـلاب
ءاح ءينو س ءونطارفو نتان ءافن ساولـغ
ءيما لعروض ن تكوسين ملاد ءيس ءوفان
ءاداسن ءيدوم روا فليليس ءيغ ءيتوت
ءورتن ءيهول ءولا حوسانت ءيمت ءيت نغ ءيسـول
واكويان ءيلها ءيخف ءينو زون تلكم ليخرت
ءيكْاي روا وين مدن نان ءيي داغ سـروت
ءيغ تاك نسروت نزوزرت لحق ما غ لان
ءافا ن ءودرار ءات لكم توالا س ءوبـراح
نسـلا ءي توكْا طازيت فغن ت ءاك ءاغاراس
ءاسول ءور تالام ءي لاز والا تيريفيـت
تاداليت كني ءاس تيد ءيسغان س ءوفوس نون
ءانوت ءوكان ءوزال توتم كنيـن ءانـوض
ءيـغ ءار نتال ءار تادرم محال ءيـس نمـون
كلمات ازنـزارن
اصـدار 1984
10 notes
·
View notes
Text
پیپلز پارٹی مخالف میڈیا کا صدر زرداری سے گلہ جائز کیوں نہیں؟
معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ میڈیا کی جانب سے یہ گلہ کرنا جائز نہیں کہ صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ میڈیا مخالف پیکا قانون پر دستخط کیوں کیے۔ ایک تو بطور صدر یہ ان کی آئینی ذمہ داری تھی اور دوسرا ماضی میں میڈیا نے بھٹو خاندان اور آصف زرداری کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے بعد ان سے کوئی امید روا نہیں رکھی جانی چاہیے تھی۔ اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید…
0 notes
Text
خاران: مغوی مختیار احمد مینگل کے گھر پر رات کے اندھیرے میں دستی بم سے دھماکہ، متاثرہ فیملی بے یار و مددگار ڈیتھ سکواڈ کے رحم و کرم پر
پھلین خاران نیوز
اطلاعات کے مطابق گزشتہ رات تقریباً 2 بجے کے وقت خفیہ ادارے اور ان کے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈز نے مغوی مختیار احمد مینگل کے گھر پر دستی بم سے دھماکہ کیا۔ علاقائی ذرائع کے مطابق رات کے اندھیرے اور سناٹے میں دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ پورے کلی پر یکایک خوف و ہراس طاری ہوا۔
تفصیلات کے مطابق یہ دھماکہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب پورے کلی میں لوگ اپنے گھروں میں سورہے تھے۔ تاہم، رات کے اندھیرے میں فوری طور پر دھماکے کی جائے وقوعہ کا تعین نہیں کیا جاسکا۔ البتہ، دن کے وقت معلوم ہوسکا کہ یہ دھماکہ خفیہ اداروں نے اپنے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں کرایا ہے جس کا مقصد مغوی مختیار احمد مینگل کے اہل خانے کو ڈرا دھمکا کر ان سے بڑا معاوضہ وصول کیا جاسکے جنہوں نے مختیار احمد مینگل کے رہائی کے لیئے آٹھ کروڈ طلب کی ہے۔
دوسری جانب بازار پنچائت سمیت سیاسی جماعتوں اور اکثر حلقوں نے اس معاملے میں متاثرہ خاندان کے ساتھ سرد مہری روا رکھا ہے۔
خیال رہے کہ مغوی مختیار احمد مینگل کے گھر پر یہ دوسرا حملہ ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک ایسا حملہ ہوا تھا، جس سے اس کے اہل خانہ معجزاتی طور پر بچ گئے تھے۔
یاد رہے کہ 15 جولائی 2024 کو مختیار احمد مینگل کو، جو کہ شعبے کے لحاظ سے ایک زمیندار اور تاجر ہے، خفیہ اداروں کے بدنام زمانہ کارندہ اور ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ شفیق مینگل کے اہلکاروں نے خاران سے جبری طور پر اغوا کیا تھا جوکہ تاحال لاپتہ ہے۔ شفیق مینگل کے اہلکاروں نے مغوی مختیار احمد مینگل کے لواحقین کو 8 کروڈ کا معاوضہ یا تاوان دینے پر مختیار مینگل کی رہائی کا شرط رکھا ہے۔
مزید یاد رہے کہ مغوی مختیار احمد مینگل کے لواحقین نے شعیب نوشیروانی کے وعدوں پر یقین کرکے اپنے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ختم کردیئے تھے۔ تاہم، اس کے بعد شعیب نوشیروانی نے حسب فطرت عہد وفا نہیں کیا، اس نے آخر کار یہ کہہ کر اپنا جان چھڑایا کہ خفیہ اداروں اور ڈیتھ اسکواڈ کے ہاں ان کی بس نہیں چلتی لہذا متاثرہ خاندان کوئی خان مینگل جیسے ڈیتھ اسکواڈ سے سفارش کروا کر اپنے مغوی کو رہا کرائیں۔ اس کے بعد ان کے اہل خانہ مایوس ہوکر غیبی مدد کے آسرے پر بیٹھے منتظر ہیں۔ اب خفیہ ادارے اور ان کے ڈیتھ اسکواڈ مغوی مختیار مینگل کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر فیملی سے رہائی کے بدلے بھاری رقم کا مانگ کررہے ہیں اور رقم کی عدم ادائیگی پر نہ صرف آئے روز ان کو فون کرکے دھمکی دیتے ہیں بلکہ گھر پر دھماکے کررہے ہیں۔
تعجب کے ساتھ افسوس کی بات یہ ہے کہ نو جنوری کو شعیب نوشیروانی کے ٹھکانے پر حملے میں غیرمقامی متنازعہ افراد کے حق میں جو لوگ مذمتی بیانات کے ذریعے چادر و چاردیواری پر لیکچر دیے پھر رہے تھے، آج ان سمیت علاقے کے تمام سیاسی و سماجی حلقے مختیار آحمد کے مظلوم فیملی کے حق ڈیتھ سکواڈ کے خلاف دو لفظ تک ادا کرنے سے قاسر ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ مختیار آحمد ایک زمیندار تاجر تھا، اس کے باوجود بازار پنچائیت کو چاہئے تھا کہ اس کی بازیابی تک ان کے فیملی کے ساتھ کھڑے رہتے مگر پنچائیت نے اس معاملے پر شروعاتی دنوں میں گرم جوشی دکھائی جبکہ بعد میں خدا جانے کن وجوہات کے تحت خاموشی اختیار کی۔
بعض افراد مختیار آحمد مینگل کی اغواء کو لین دین کا ذاتی ��ور آپسی مسئلہ کہہ رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مختیار آحمد ایک ایسا شخص تھا جسکا کسی سے کوئی ذاتی دشمنی یا لین دین نہیں تھا اور نا ہی اس پر کسی کا اُدھار تھا۔ چلیں ایک لمحے کیلئے مان بھی لیں کہ اس کا لین دین تھا کسی معاملے میں، مگر پھر بھی کیا یہ بازار پنچائیت، سیاسی جماعتوں سمیت پورے خاران کا فرض نہیں بنتا کہ اس مشکل وقت میں متاثرہ اور مظلوم فیملی کے ساتھ کھڑے رہیں؟ ہر انسان کے ذاتی و کاروباری لین دین ہوتے ہیں تو کیا اسے ڈیتھ سکواڈ کے ہاتھوں اغوا برائے تعاوان کا شکار کرواکر فیملی سے آٹھ کروڑ جیسی بھاری رقم مانگی جائے اور گھر پر بم پہنکے جائیں؟ معاملہ کچھ بھی ہو، مختیار آحمد کی فیملی کے ساتھ اس وقت ظلم ہورہا ہے اور جو کوئی اس پر خاموش ہے وہ اپنے باری کا انتظار کررہا ہے۔
0 notes
Text
حضرت دل یہ عشق ہے درد سے کسمسائے کیوں
موت ابھی سے آئے کیوں جان ابھی سے جائے کیوں
عشق کا رتبہ ہے بڑا عشق خدا سے جا ملا
آپ نے کیا سمجھ لیا آپ یہ مسکرائے کیوں
میرا غلط گلہ سہی ظلم و جفا روا سہی
ناز ستم بجا سہی آنکھ کوئی چرائے کیوں
تجھ سے زیادہ نازنیں اس میں ہزاروں ہیں حسیں
دل ہے یہ آئینہ نہیں سامنے تیرے آئے کیوں
عاشق نامراد کو اس کی رضا پہ چھوڑ دو
اس کی اگر خوشی نہ ہو غم سے نجات پائے کیوں
حوصلۂ ستم بڑھے تیغ و سناں کا دم بڑھے
ایک ہی تیر ناز میں کیجیئے ہائے ہائے کیوں
غالبؔ خوش بیاں کہاں بیخودؔ خستہ جاں کہاں
طبع کا امتحاں کہاں شاد مجھے ستائے کیوں
بیخود دہلوی
0 notes
Text
أحمد رمزي كان له واحد صاحبه اسمه عمر.. كان بيتدرب على الطيران فى معهد إمبابة.. وكان يوميا يحكي ويتحاكى عن حكاياته وأساطيره فى الطيران .. وإزاي إنه شبح الفضاء وملك الكواكب..
طبعا رمزي وأصحابه كانوا بيسمعوا منه ويصدقوا على كلامه .. الكلام مش بفلوس يعني .. لكن مع كتر الحكايات صدقوا فعلا اللي بيتقال..
وفي يوم من الأيام يا سادة يا كرام.. راح عمر لرمزي وقاله "البس هدومك يالا وتعالى معايا.. أنا عازمك على فسحة فى الدلتا بالطيارة.. وفلان جاي معانا"..
سمع رمزي اسم فلان ..اللي هو صديق مقرب لهم.. فقال "وماله نروح نتفسح"..
انطلق الثلاثي إلى مطار إمبابة وقابلوا المسئولين هناك.. ولقى رمزي واحد منهم بيبص له بصة حس إنه بيقوله من خلالها "بلاش".. لكن رمزي قال "لازم أكمل المشوار للأخر".. وشد عضلاته وفرد نفسه ومضى على تعهد بإنه مسئول عن حياته خلال الرحلة.. وقال "كنت بحاول جاهدا إن محدش يشوف إيدي وهى بتترعش وقت التوقي��"..
المهم .. تم المراد وخلصت الإجراءت وركب التلاتة الطيارة وبدأت تمشى على المدرج وشوية وبدأت ترتفع .. وهنا بدأت الأزمة .. خصوصا لما وش عمر اصفر والعرق بقى ينزل منه ويدعى بصوت عالي .. وهنا بدأ قلب رمزي واللي معاه يدق.. وكل ما الارتفاع يزيد كل ما التوتر والقلق يزيد.. وفكر رمزي يسأل إيه اللي بيحصل بس رجع وقال لنفسه "أنا كده ممكن أوتره زيادة فنموت كلنا.. أسكت أحسن"..
وسط سكوته بدأ رمزي يتخيل أهله وهما بيبكوا عليه وأصحابه وهما شايلن نعشه والمعجبات وهما بينتح*روا علشانه .. ده غير صور كتيرة قطعتها ابتسامة عمر اللي قالهم وهو بيشاور لتحت "شايفين يا ولاد؟".. فرد رمزي وقال "شايفين الله يخرب بيتك".. فضحك عمر وقالهم "أنا دايما أعرق وأنا طالع.. لأني باخد الحكاية جد.. ودي أحسن ميزة فى الطيران"..
وهنا ارتاح التلاتة وبدأوا يستمتعوا بفكرة التنقل من مدينة لمدينة فى الدلتا وكأنهم بيتنقلوا من العتبة لرمسيس ..
بعد شوية رجعت الأفكار السودا تسيطر على رمزي تاني فقال لعمر "ما نرجع بقى بدل ما الوقود يخلص مننا".. لكن عمر رفض وقال "لازم نكمل الجولة"..
وكملت الجولة.. وانطلق عمر فى رحلة العودة إلى القاهرة .. لكن أول ما بدأ الهبوط رجع تانى قلب رمزي يدق بعن*ف .. خصوصا لما لقى عمر وشه اصفر تاني ورجع يعرق.. فقاله وهو بيترعش "إيه.. واخد الموضوع بجد برضه؟".. لكت عمر ما ردش بأي حاجة .. وفضل يدعي وبس .. وده زود قلق رمزي أكتر.. لحد ما سمع صوت ار*تطام العجل بالأرض ولقى الطيارة ماشية فى المجرى الطبيعي..
وأخيرا وقفت الطيارة ونزل منها التلاتة .. ولقوا واحد من المسئولين فى المطار بيقول لعمر "مبروك يا عمر.. مبروك" .. فرمزي قال لنفسه "يمكن ده عرف .. وبعد كل رحلة لازم يقولوا للطيار مبروك" .. لكن صديقهم سأل المسئول "مبروك ليه حضرتك؟".... وهنا ف*جر المسئول المفاجأة وقال "أصل دي أول مرة عمر يطير فيها لوحده من غير طيار"..
قول والمصحف؟؟؟
0 notes
Text
ألمسك الآن
كي أُشعل الليل
روا
3 notes
·
View notes
Photo
(17/54) “We still took long walks together. Mitra hated walking through deep forests, they were too dark. She’d imagine that predators were hiding behind every tree. By that time I’d begun to organize the workers at my factory. I’d hold weekly meetings and speak to them about their rights, but Mitra wanted me to stop. She thought it was too dangerous to speak out in a closed society. The Shah had brought many freedoms to Iran, but there’s one place he stopped short: political freedom. No dissent was allowed. No criticism appeared in the media. And his secret police SAVAK had a reputation for violence. Many of his political opponents shared brutal stories of their treatment in prison. After our Niroo meetings Parvaneh became extremely anti-Shah. She was the basketball player; the one with the strongest voice. She married a fellow activist named Dariush Forouhar, and she joined the party he had formed. They wanted nothing less than full political freedom. And both of them went to jail several times for their views. Dr. Ameli tried to work within the system. He’d become a member of parliament, but when he spoke out against the king the Pan-Iranist Party was banned. The king saw himself as a king of old. He wanted to rule Iran with a single voice. One year I decided to write about the history of our factory. I saw it as a great example of the Iranian people coming together for a common cause. Forty thousand people were involved: materials had been contributed from local mines, a dam was constructed, an entire city was built for the workers. It had truly been a national project. I spent an entire year on the book. But before it could be published, it had to be reviewed by the secret police. They told me it could not be published unless it was dedicated to the leadership of the Shah. It was abhorrent to me. The Shah played a role, but the factory had been built by the people. By giving all the credit to one man, it takes away their authorship. I told them: ‘Write whatever you want. But take my name off it.’”
پایان هفتهها به پیادهرویهای طولانی میرفتیم. تلاش میکردیم که فضاهای باز را انتخاب کنیم زیرا میترا از پیادهروی در میانهی جنگل بیزار بود. بیش از اندازه برای او تاریک مینمود. میپنداشت که مهاجمان در پس هر درختی به کمین نشستهاند. میترا همچنان تلاش میکرد که مرا از مبارزهی سیاسی باز دارد. او برآن بود که سخن گفتن در جامعهی بسته خطرناک است. برای رفاه کارگران با یاری چهار تن از همکاران برنامهریزیهایی کردیم. در کمیتهی عالی رفاه که پس از کار روزانه گرد میآمدیم، برای کارکنان ذوب آهن قانون استخدامی مدرنی که در مقایسه با قانونهای کشورهای اروپایی و ژاپن بهتر بود، نوشتیم. شاه آزادیهای زیادی را برای ایران به ارمغان آورده بود ولی در یک جا کوتاهی میکرد: آزادیهای سیاسی. صدای مخالفی را تحمل نمیکرد. هیچگونه انتقادی در رسانهها روا نبود. ساواک، در به کار بردن خشونت زبانزد بود. بسیاری از مخالفان سیاسی او داستانهای دلآزاری از چگونگی رفتار در زندان بازگو کردهاند. پس از گردهمآییهای نیرو، پروانه بسیار ضد شاه شد. او بازیکن بسکتبال بود؛ صدایی رسا داشت و هیچ چیز مگر آزادی کامل سیاسی را نمیپذیرفت. او با همسرش داریوش فروهر در حزب ملت ایران فعال بود. چندین بار به دلیل دیدگاههایش زندانی شده بود. دکتر عاملی تلاش کرده بود که در درون نظام به فعالیت بپردازد. نمایندهی مجلس شده بود، ولی هنگامی که علیه سیاس��های شاه سخن گفته شد از فعالیت حزب پانایرانیست جلوگیری کردند. شاه خود را از پادشاهان روزگار باستان میانگاشت. میخواست ایران را یکه و تنها رهبری کند. بر آن شدم که تاریخ کارخانه را بنویسم. آن را نمونهای برجسته از همکاری مردم ایران برای هدفی مشترک میدیدم. چهلهزار نفر در کار ساختنش دست داشتند: تأمین مواد اولیه، از معادن بومی آهن و زغال سنگ فراهم آمده بود، سدی بزرگ برای تأمین آب کارخانه و پیرامون آن و شهری کامل با مکانهای آموزشی، بهداشتی و رفاهی برای کارگران ساخته شده بود. به راستی که یک برنامهی ملی بود. ولی پیش از انتشار کتاب، بایستی در ساواک بررسی میشد. پاسخ آنها چنین بود که این کتاب منتشر نمیشود مگر آنکه از شاه ستایش و به او پیشکش شود. برای من بسیار ناخوشایند بود. با وجود اینکه شاه در آن کار بزرگ نقش داشت، ولی کارخانه به دست مردم ساخته شده بود. واگذاری همهی افتخارات به یک فرد - نقش مردم را بیاهمیت میکرد. یک سال تمام برای نوشتن آن کتاب کوشیده بودم. به آنها گفتم که میتوانند نوشتههایم را هر گونه که میخواهند چاپ کنند ولی نام مرا از روی آن بردارند
125 notes
·
View notes
Video
youtube
ما تيسّر من سورة البقرة، بترتيل الشيخ القارئ الصديقي سيدي فوزي، بحسب روا...
1 note
·
View note
Text
امرأة من عشب – خافيير ألكسندر روا – ترجمة: عبدو زغبور
ثمَّة امرأةٌ من عشبٍ نائمة في الظلال ومن عينيها يطيرُ البومُ الشَّاردُ هل المطرُ – دائماً – مملكةٌ للوحيدين؟ هذا الصمتُ وحده يفتقدُها الماءُ يَجري ويشربُ ابتسامتَها. *** ثِقلكِ هو بقيّة الحبِّ الوحيدةِ جمرٌ مُشتعلٌ وسطَ الليل سعارٌ لوثةٌ تَبخّرٌ للحَوَاس. *** أريدُ فتحَ النوافذأباعدُ ركبتيكِولتُحرقنا الشمسُ ولتنهدم القِلاع ولتَنَم العصافير *** الجنةُهذان الساقاناخلعي الظلَّكي…
0 notes
Text
(Bang-e-Dra-023) Syed Ki Loh-e-Turbat
Mudda Tera Agar Dunya Mein Hai Taleem-e-Den Turk-e-Dunya Qoum Ko Apni Na Sikhlana Kahin
If your aim in the world is din’s education Never teach your nation world’s abdication
Wa Na Karna Firqa Bandi Ke Liye Apni Zuban Chup Ke Hai Baitha Huwa Hangama-e-Mehshar Yahan
Do not use your tongue for sectarianism Resurrection Day’s tumult for booty is stalking
Wasl Ke Asbab Paida Hon Teri Tehreer Se Dekh! Koi Dil Na Dukh Jaye Teri Taqreer Se
Your writings should pave the way for unity Beware! No heart should be hurt by your speech
Mehfil-e-Nau Mein Purani Dastanon Ko Na Chhair Rang Par Jo Ab Na Ayen Un Afsanon Ko Na Chhair
In the new congregation do not start old tales Do not start again what are now unacceptable tales
Tu Agar Koi Mudabbar Hai To Sun Meri Sada Hai Dalairi Dast-e-Arbab-e-Siasat Ka Asa
Listen to my advice if you are any statesman Courage is your support if you are a leader of men
Arz-e-Matlab Se Jhijhak Jana Nahin Zaiba Tujhe Naik Hai Niyyat Agar Teri To Kya Parwa Tujhe
Hesitation in expressing your purpose does not behoove you If your intentions are good you should not fear anything
Banda-e-Momin Ka Dil Beem-o-Riya Se Paak Hai Quwwat-e-Farman-Rawa Ke Samne Bebaak Hai
The Mu’min’s heart is clear of fear and hypocrisy The Mu’min’s heart is fearless against the ruler’s power
مدّعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سِکھلانا کہیں وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھُپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ! کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے محفلِ نَو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جو اَب نہ آئیں اُن فسانوں کو نہ چھیڑ تُو اگر کوئی مدبّر ہے تو سُن میری صدا ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے نیک ہے نیّت اگر تیری تو کیا پروا تجھے بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے قوّت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
#inspiration#iqbaliyat#islam#motivation#muslims#encouragement#poetry#urdu#love#Religious#Deen#Dunya#World
1 note
·
View note
Text
ملک بند کرنے کیلئے سرپرکفن باندھ کر نکلیں گے،علی امین گنڈاپور
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ پُرامن رہ کر بہت ماریں کھالیں، اب سر پر کفن باندھ کر نکلیں گے، 9 نومبر کو صوابی انٹرچینج پر بڑا اجتماع کریں گے اور اس کے بعد فائنل کال دیں گے۔ عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور کا کہنا تھاکہ بانی پی ٹی آئی سے بڑے عرصے بعد ملاقات ہوئی، ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ قابل مذمت ہے، خبر دار…
0 notes