#ہجرت
Explore tagged Tumblr posts
Text
سُر کی چھایا ۔۔۔ ناصر کاظمی
سُر کی چھایا ناصر کاظمی ڈاؤن لوڈ کریں پی ڈی ایف فائلورڈ فائلٹیکسٹ فائلای پب فائلکنڈل فائل مکمل کتاب پڑھیں……. تعارف (۱) بقدرِ شوق نہیں ظرف تنگَنائے غزل کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے غالب کا یہ شعر عموماً غزل پر نظم کی برتری ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ یہاں خیال اور ہیئت کے ناگزیر رشتے کی بات کی گئی ہے۔ ہر سچے فن کار کے ہاں خیال اپنی ہیئت کا تعین خود کرتا ہے۔ جو بات…
View On WordPress
0 notes
Text
ہجرت جو کر گئی دلِ بے احتیاط سے
وہ آرزو غضب کی حقیقت شناس تھی
hijrat jo kar gyi dil e be'ehtiyat se
wo aarzoo ghazab ki haqeqat shanas thi
30 notes
·
View notes
Text
اپنی زندگی میں ھر شخص کو ایک خاص کرسی دیں۔ اُسے ایک اچھی جگہ بٹھائیں ، اس کے لیے جھکیں ، اسے اہمیت دیں ، عاجزی دکھائیں۔
پھر اطمینان سے مشاہدہ کریں اور نوٹ کریں کہ کیا وہ اپنا توازن کھونے لگا ھے؟ اور اگر ایسا ھے تو اُس کو وہیں بیٹھا رھنے دیں اُس سے وہ جگہ نہ چھینیں ، مگر خود وہاں سے خاموشی سے ہجرت کر جائیں۔
5 notes
·
View notes
Text
سب رُتیں آ کر چلی جاتی ہیں
موسمِ غم بھی تو ہجرت کرتا
۔ پروین شاکر
sab rutai'n aa kar chali jaati hain
mausam e gham bhi to hijrat karta !
(via @qalbtalk)
79 notes
·
View notes
Text
مری آنکھوں سے ہجرت کا وہ منظر کیوں نہیں جاتا
بچھڑ کر بھی بچھڑ جانے کا یہ ڈر کیوں نہیں جاتا
اگر یہ زخم بھرنا ہے تو پھر بھر کیوں نہیں جاتا
اگر یہ جان لیوا ہے تو میں مر کیوں نہیں جاتا
اگر تو دوست ہے تو پھر یہ خنجر کیوں ہے ہاتھوں میں
اگر دشمن ہے تو آخر مرا سر کیوں نہیں جاتا
مجھے بے چین کرتے ہیں یہ دل کے ان گنت دھبے
جو جاتا ہے وہ یادوں کو مٹا کر کیوں نہیں جاتا
#urduthoughts#urdu shayar#urdulovers#urdu quote#urduadab#urdu stuff#urduzone#اردو پوسٹ#اردو#اردو غزل
41 notes
·
View notes
Text
چھوڑ جانے پہ پرندوں کے مذمت کی ہو
تم نے دیکھا ہے کبھی پیڑ نے ہجرت کی ہو
جھولتی شاخ سے چپ چاپ جدا ہونے پر
زرد پتوں نے ہواؤں سے شکایت کی ہو
اب تو اتنا بھی نہیں یاد کہ کب آخری بار
دل نے کچھ ٹُوٹ کے چاہا کوئی حسرت کی ہو
عمر چھوٹی سی مگر شکل پہ جُھریاں اتنی
عین ممکن ہے کبھی ہم نے محبت کی ہو
ایسا ہمدرد تِرے بعد کہاں تھا، جس نے
لغزشوں پر بھی مِری کُھل کے حمایت کی ہو
دل شکستہ ہے، کوئی ایسا ہنر مند بتا
جس نے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی مرمت کی ہو
شب کے دامن میں وہی نور بھریں گے احمد
جن چراغوں نے اندھیرے سے بغاوت کی ہو 🥀
3 notes
·
View notes
Text
وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا
وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا وطن کی خاطر جیے مریں گے یہ طے ہو ا تھا
بوقتِ ہجرت قدم اُٹھیں گے جو سوئے منزل تو بیچ رستے میں دَم نہ لیں گے یہ طے ہوا تھا
چہار جانب بہار آئی ہوئی تھی لیکن بہار کو اعتبار دیں گے یہ طے ہوا تھا
تمام دیرینہ نسبتوں سے گریز کر کے نئے وطن کو وطن کہیں گے، یہ طے ہوا تھا
خدا کے بندے خدا کی بستی بسانے والے خدا کے احکام پر چلیں گے یہ طے ہوا تھا
بغیرِ تخصیص پست و بالا ہر اک مکاں میں دیئے مساوات کے جلیں گے، یہ طے ہوا تھا
کسی بھی اُلجھن میں رہبروں کی رضا سے پہلے عوام سے اذنِ عام لیں گے، یہ طے ہوا تھا
تمام تر حل طلب مسائل کو حل کریں گے جو طے نہیں ہے، وہ طے کریں گے، یہ طے ہوا تھا
حنیف اسعدی
2 notes
·
View notes
Text
بھاگنا ضروری تھا، سب کچھ جان لیوا خراب تھا، جن سے میں پیار کرتا ہوں وہ مر جاتے ہیں، جن سے میرا دل لگا ہے وہ ہجرت کر جاتے ہیں، جن کی مجھے ضرورت تھی وہ مجھ پر تھوکتے ہیں اور چلتے رہتے ہیں۔ ریگستان، خشک زمینوں، اوپر کی پہاڑیوں تک میری تسلی تھی۔ میری تسلی جس میں کسی نے مجھے تسلی نہیں دی۔
It was a must to run away, everything was deadly bad, those I love die, those my heart attached to them migrate, those I needed spit on me and continue walking. To the desert, to dry lands, to the hills above was my consolation; my consolation in which no one consoled me.
3 notes
·
View notes
Text
اسموگ۔ موسمیاتی مسئلہ یا انتظامی نا اہلی؟
اہل پاکستان کیلئے موسم کی تبدیلی، ’’موسمیاتی تبدیلی‘‘ کی طرح ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔ ماضی قریب میں درختوں کے پتے گرنے سے موسم کی تبدیلی کا اشارہ ملتا تھا، پرندوں کی ہجرت موسم کے بدلنے کا پتہ دیتی تھی، ہوائیں اچانک سرد ہو جاتی تھی، شام کے سائے لمبے ہو جاتے تھے لیکن اب موسم سرما کی آمد سے قبل فضا خشک ہو جاتی ہے، اسموگ ڈیرے ڈال دیتی ہے، صبح اور شام کے اوقات میں یہ صورتحال مزید تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔ آسمان دھند کی چادر تان لیتا ہے اسکی وجہ سے حد نگاہ متاثر ہوتی ہے اور ساتھ ہی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر اسموگ برقرار رہے تو مختلف امراض کے بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ جن لوگوں میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے وہ ہر قسم کی بیماریوں کا جلد شکار ہونے لگتے ہیں۔ موسمیاتی ماہرین کہتے ہیں کہ جب ہوائیں نہیں چلتیں اور درجہ حرارت میں کمی یا کوئی موسمی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو ماحول میں موجود آلودگی فضا میں جانے کے بجائے زمین کے قریب رہ کر ایک تہہ بنا دیتی ہے جسکی وجہ سے غیر معمولی آلودگی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ صفائی کے ناقص انتظامات، کچرے کے ڈھیر کو آگ لگانا، دیہی علاقوں میں اینٹیں بنانے والے بھٹے، صنعتی علاقوں میں فیکٹریاں اور ملوں کی چمنیاں ماحول کو آلودہ اور خطرناک بناتی ہیں۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے کسانوں کے معاملات یکساں ہیں بھارتی کسانوں کی طرح پاکستانی کسان بھی مڈھی کو آگ لگاتے ہیں، یوں دہلی اور لاہور آلودگی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اسموگ نامی بیماری صرف برصغیر کا ہی مقدر ہے یا دنیا اس سے پہلے اس مسئلے سے نپٹ چکی ہے۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق 26 جولائی 1943ء کو امریکی شہر لاس اینجلس میں اپنے وقت کی سب سے بڑی اسموگ پیدا ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران شدید اسموگ کی وجہ سے لاس اینجلس کے شہریوں کو وہم ہوا کہ جاپان نے کیمیائی حملہ کر دیا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے جنگ کے باوجود اپنے شہریوں کو اسموگ سے بچانے کیلئے موثر اقدامات کیے۔ دسمبر 1952 ء میں لندن میں فضائی آلودگی کی لہر نے حملہ کیا لندن میں آلودہ دھند کی وجہ سے 12 ہزار افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 1980ء کی دہائی میں چین میں کوئلے سے چلنے والے گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہوا تو وہاں بھی اسموگ اور فضائی آلودگی کا مسئلہ پیدا ہوا۔ 2014ء میں بیجنگ کو انسانوں کے رہنے کیلئے ناقابل قبول شہر قرار دیا گیا لیکن چین نے اس مسئلے کو ختم کرنے کیلئے جدید ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم قائم کیا۔
پبلک ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر تبدیل کیا اور گاڑیوں میں ایندھن کے معیار میں بھی بہتری لائی گئی۔ برطانیہ امریکہ اور چین نے کوئلے سے چلنے والے نئے منصوبوں پر پابندی لگائی، رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلنے والے ہیٹنگ سسٹم کو بتدریج بند کیا، بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کے انجن میں ایندھن کے معیار کو بہتر کیا، آلودگی پھیلانے والی پرانی کاروں کے استعمال پر پابندی عائد کی۔ جس سے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ بیجنگ کا فضائی آلودگی سے لڑنے کیلئے مقرر کردہ بجٹ 2013 ء میں 430 ملین ڈالر تھا جو 2017ء میں 2.6 ارب ڈالر کر دیا گیا۔ جہاں تک پاکستان میں اسموگ پیدا کرنیوالے اسباب کا تعلق ہے تو ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان خصوصا لاہور میں 83.15 فیصد آلودگی ٹرانسپورٹ سے، 9.7 فیصد ناقص صنعتوں سے، 3.6 فیصد کوڑا جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ ملک کے بیشتر حصوں خصوصاً لاہور کراچی ملتان فیصل آباد اور یہاں تک اسلام آباد میں بھی فضائی آلودگی کے باعث آنکھوں میں جلن، سانس لینے میں دشواری، کھانسی، ناک کان گلا اور پھر پھیپھڑوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔
الرجی کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس مسئلے سے نپٹنے کیلئے سائنسی بنیادوں پر کام نہیں ہو رہا اور نہ ہی ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ حکومت کا سارا زور اسکول بند کرنے اور لاک ڈاؤن لگانے پر ہے۔ دوسرا حملہ دکانداروں اور معیشت پر کیا جاتا ہے جبکہ تیسری بڑی وجہ کسانوں کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ آلودگی میں سب سے زیادہ حصہ ناقص ٹرانسپورٹ کا ہے شاید ٹرانسپورٹ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ حکومت اسکے سامنے بے بس ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اسموگ کا موسم آنے سے پہلے ہی مناسب حفاظتی انتظامات کر لئے جاتے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں سڑک پر نہ آتیں، بھارتی حکومت سے بات کی جاتی اپنے عوام میں شعور پیدا کیا جاتا اور قانون اور ضابطے کے مطابق ہر قسم کی کارروائی عمل میں لائی جاتی۔ حکومتی غفلت اور عوام میں شعور کی عدم آگاہی کے باعث ہمارے شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہے، وہاں رہنے والے مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر وقت سے پہلے ہی موت کی گھاٹی میں اتر رہے ہیں۔ جس طرح امن و امان، صحت، تعلیم جیسی دیگر سہولیات کیلئے عوام خود ہی اپنے طور پر انتظامات کر رہے ہیں اسی طرح اسموگ سے نپٹنے کیلئے بھی عوام کو خود احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہو گی۔
اسموگ سے بچاؤ کیلئے ماسک اور چشمے کا استعمال کریں۔ تمباکو نوشی کم کر دیں، گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں، بازاروں گلیوں اور سڑکوں میں کچرا پھینکنے اور اسے آگ لگانے سے اجتناب کریں، جنریٹر اور زیادہ دھواں خارج کرنیوالی گاڑیاں درست کروائیں۔ حکومت کو چاہئے کہ آلودگی سے مقابلہ کرنے کیلئے عالمی معیار کے مطابق انتظامات کرے۔ ایندھن کا معیار بہتر کرے۔ گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کیلئے حقیقی چیکنگ کی جائے تاکہ ہمارے شہر رہنے کے قابل بن سکیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
1 note
·
View note
Text
چھوڑ جانے پہ پرندوں کی مُذمت کی ہو
تُم نے دیکھا ہے کبھی پیڑ نے، ہجرت کی ہو
,
جُھولتی شاخ سے چُپ چاپ جُدا ہونے پر
زرد پتوں نے ہواؤں سے شِکایت کی ہو
,
اب تو اتنا بھی نہیں یاد کہ کب آخری بار
دِل نے کُچھ ٹُوٹ کے چاہا، کوئی حسرت کی ہو
,
عُمر چھوٹی سی مگر شکل پہ جھُریاں اتنی
عین ممکن ہے کبھی ہم نے مُحبت کی ہو
,
دِل شکستہ ہے کوئی ایسا ہُنرمند بتا
جِس نے ٹُوٹے ہُوئے شِیشوں کی مُرمت کی ہو
,
شب کے دامن وُہی نُور بھریں گے احمد
جِن چراغوں نے اندھیرے سے، بغاوت کی ہو
(احمد خلیل )
1 note
·
View note
Text
عرب شریف) میں خشک پہاڑوں اور بے آب و گیاہ زمین پر آباد شہر مکہ کے بانی حضرت ابراہیم ؑ ہیں جنھوں نے یہاں بیت اللہ تعمیر کیا تھا۔
اس شہر مقدس کو تین جلیل القدر نبیوں سے نسبت کا شرف حاصل ہے، بقول سید سلیمان ندویؒ: ’’یہ شہر ایک بوڑھے پیغمبر (ابراہیم ؑ) کی بنا، ایک نوجوان پیغمبر (اسمٰعیل ؑ) کی ہجرت گاہ اور ایک پیغمبر (محمدﷺ) کا مقام پیدائش ہے
۔مقــــــــــیم ➖ مدینـᷧــᷠــͥــͩــͣــͫـــہ
𝐌uqeem➖𝐄➖𝐌adina
۔00966591683201
0 notes
Text
خود تو مَیں جا بھی چُکا جسم سے ہجرت کرکے
آج کل مجھ میں فقط تیری کمی رہتی ہے
اپنے کم گو سے مجھے کرنی ہو جب گفت و شُنید
بات تو بنتی نہیں، جاں پہ بنی رہتی ہے
رحمان فارس
19 notes
·
View notes
Text
وسعت اللہ خان کا کالم ’بات سے بات‘: پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
http://dlvr.it/T3ZrGs
0 notes
Text
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ زرداری نے کام کیا، 15 سال کے ظلم کے خلاف 8 فروری کو ریفرنڈم ہوگا، فاروق ستار
ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستارکہتےہیں کہ جو حسد اور جلن سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں میں ہو رہی ہے وہ 8 فروری کو اور بھڑکے گی، 8 فروری انتخابات کا نہیں ریفرنڈم کا دن ہو گا، 15 سال کے ظلم اور جبر کے خلاف،آج لوگ تقسیم کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ ہجرت کالونی میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ آج لوگ ظلم کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں، الٹی ہو گئیں سب…
View On WordPress
0 notes
Text
🌹🌹𝗖𝗢𝗟𝗟𝗘𝗖𝗧𝗜𝗩𝗘 𝗕𝗟𝗘𝗦𝗦𝗜𝗡𝗚:
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
7️⃣4️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
💠 𝗖𝗢𝗟𝗟𝗘𝗖𝗧𝗜𝗩𝗘 𝗕𝗟𝗘𝗦𝗦𝗜𝗡𝗚:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝘀𝗮𝗶𝗱 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗼𝗻𝗲 𝗽𝗲𝗿𝘀𝗼𝗻’𝘀 𝗳𝗼𝗼𝗱 𝗶𝘀 𝗲𝗻𝗼𝘂𝗴𝗵 𝗳𝗼𝗿 𝘁𝘄𝗼 𝗽𝗲𝗼𝗽𝗹𝗲, 𝗮𝗻𝗱 𝘁𝘄𝗼 𝗽𝗲𝗼𝗽𝗹𝗲’𝘀 𝗳𝗼𝗼𝗱 𝗶𝘀 𝗲𝗻𝗼𝘂𝗴𝗵 𝗳𝗼𝗿 𝘁𝗵𝗿𝗲𝗲 𝗽𝗲𝗼𝗽𝗹𝗲.
(Sunan ibn Majah, Hadith No. 3255)
●𝗧𝗵𝗶𝘀 𝘁𝗿𝗮𝗱𝗶𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗲𝘅𝗽𝗹𝗮𝗶𝗻𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝗯𝗹𝗲𝘀𝘀𝗶𝗻𝗴 𝗼𝗳 𝗹𝗶𝘃𝗶𝗻𝗴 𝘁𝗼𝗴𝗲𝘁𝗵𝗲𝗿 𝗮𝗻𝗱 𝗮𝗰𝘁𝗶𝗻𝗴 𝘁𝗼𝗴𝗲𝘁𝗵𝗲𝗿.
●𝗧𝗵𝗲 𝗲𝘅𝗮𝗺𝗽𝗹𝗲 𝗼𝗳 𝗳𝗼𝗼𝗱 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗶𝘀 𝘁𝗿𝗮𝗱𝗶𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗶𝘀 𝗷𝘂𝘀𝘁 𝗮 𝘀𝘆𝗺𝗯𝗼𝗹𝗶𝗰 𝗲𝘅𝗮𝗺𝗽𝗹𝗲.
●𝗧𝗵𝗶𝘀 𝘁𝗿𝗮𝗱𝗶𝘁𝗶𝗼𝗻 𝗱𝗲𝗮𝗹𝘀 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗮𝗹𝗹 𝗺𝗮𝘁𝘁𝗲𝗿𝘀 𝗼𝗳 𝗹𝗶𝗳𝗲.
● 𝗜𝗳 𝗽𝗲𝗼𝗽𝗹𝗲 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝘁𝗼𝗴𝗲𝘁𝗵𝗲𝗿 𝗮𝗻𝗱 𝘀𝘁𝗮𝘆 𝘁𝗼𝗴𝗲𝘁𝗵𝗲𝗿, 𝗲𝘃𝗲𝗻 𝗮 𝗳𝗲𝘄 𝗽𝗲𝗼𝗽𝗹𝗲 𝗰𝗮𝗻 𝗮𝗰𝗵𝗶𝗲𝘃𝗲 𝗯𝗶𝗴 𝗴𝗼𝗮𝗹𝘀.
●𝗠𝗮𝗻𝘆 𝗽𝗲𝗼𝗽𝗹𝗲 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝗯𝗲 𝗮𝗯𝗹𝗲 𝘁𝗼 𝗯𝗲𝗻𝗲𝗳𝗶𝘁 𝗲𝘃𝗲𝗻 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝘀𝗺𝗮𝗹𝗹 𝗶𝗻𝘃𝗲𝘀𝘁𝗺𝗲𝗻𝘁𝘀, 𝗮𝗻𝗱 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗳𝗲𝘄𝗲𝗿 𝗿𝗲𝘀𝗼𝘂𝗿𝗰𝗲𝘀.
● 𝗜𝗳 𝗲𝗮𝗰𝗵 𝗺𝗮𝗻 𝗱𝗶𝗱 𝗵𝗶𝘀 𝘄𝗼𝗿𝗸 𝘀𝗲𝗽𝗮𝗿𝗮𝘁𝗲𝗹𝘆, 𝗵𝗲 𝘄𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗿𝗲𝗰𝗲𝗶𝘃𝗲 𝗮 𝗯𝗲𝗻𝗲𝗳𝗶𝘁 𝗼𝗻𝗹𝘆 𝘁𝗼 𝗮 𝗹𝗶𝗺𝗶𝘁𝗲𝗱 𝗲𝘅𝘁𝗲𝗻𝘁.
● 𝗕𝘂𝘁 𝗶𝗳 𝘁𝗵𝗲𝘀𝗲 𝗽𝗲𝗼𝗽𝗹𝗲 𝗰𝗼𝗹𝗹𝗮𝗯𝗼𝗿𝗮𝘁𝗲, 𝘁𝗵𝗲𝗻 𝗲𝘃𝗲𝗿𝘆𝗼𝗻𝗲 𝘄𝗶𝗹𝗹 𝗯𝗲𝗻𝗲𝗳𝗶𝘁 𝗳𝗿𝗼𝗺 𝗲𝗮𝗰𝗵 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿.
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
💠 *اجتماعی ��عمت:*
*پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا کہ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہے اور دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے کافی ہے۔*
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3255)
● *یہ روایت مل جل کر رہنے اور مل جل کر کام کرنے کی برکت کو بیان کرتی ہے۔*
● *اس روایت میں کھانے کی مثال صرف ایک علامتی مثال ہے۔*
● *یہ روایت زندگی کے تمام معاملات سے متعلق ہے۔*
● *اگر لوگ مل جل کر کام کریں اور ساتھ رہیں تو چند لوگ بھی بڑے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔*
● *بہت سے لوگ چھوٹی سرمایہ کاری اور کم وسائل کے باوجود بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔*
● *اگر ہر آدمی اپنا کام الگ الگ کرے تو اسے صرف ایک حد تک فائدہ ملے گا۔*
● *لیکن اگر لوگ ایک دوسرے سے تعاون کریں گے تو سب لوگ فائدہ اٹھائیں گے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
💠 *اجتماعی زندگی:*
*رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمھیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کے ساتھ رہنا، بات سننا، اطاعت کرنا، ہجرت کرنا اور جہادفی سبیل اللہ کرنا۔* (بخاری: ۲۸۳۶)
● *اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو صاف صاف یہ حکم دیا ہے کہ وہ اجتماعی زندگی بسر کریں۔*
● *اجتماعی زندگی کے لیے بنیادی چیز یہ ہے کہ اُن کے اندر ایک ہستی ایسی ضرورہونا چاہیے، جو اُن کی زندگی کے بارے میں ہدایات جاری کرے اور لوگ اس کی اطاعت کریں۔*
● *ایسی زندگی جس میں حکم دینے اور اطاعت کرنے کا کوئی انتظام نہ ہو، آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں اسلامی زندگی نہیں ہے۔*
● *آپؐ نے اپنی اُمت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہرگز منتشر زندگی نہ گزاریں۔*
● *آپؐ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ مسلمانوں کا اپنا کوئی اجتماعی نظم نہ ہو۔*
▪️ *اجتماعیت:*
● *پہلی چیز جس کی ہدایت دی گئی وہ جماعت ہے اور جماعت افراد کے مجموعے کا نام ہے۔*
● *جماعت لوگوں کے ایک ایسے مجموعے کو کہتے ہیں، جس کے اندر کسی ایک مقصد پر اتحاد ہوگیا ہو۔*
● *اگر اُن کی زندگی کے کاموں میں انتشار ہے اور وہ کسی ایک مقصد پر متحد نہیں ہیں تو اُنھیں جماعت نہیں کہہ سکتے۔*
● *دوسری ضروری چیز جو جماعت بننے کے لیے مقصد ِاتحاد سے بھی زیادہ ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کے ساتھ وابستگی ہو، محبت اور رواداری ہو اور صاف طور پر یہ محسوس ہو کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اُن کی راہیں ایک ہیں، اور یہ مل جل کر ایک ہی منزل کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔*
● *’جماعت‘ کے ایک لفظ میں وہ پوری تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے، جس شکل میں رسول اللہ ﷺ اپنی پوری اُمت کو دیکھنا چاہتے تھے۔*
▪️ *سمع و طاعت:*
● *جماعت کا تصور سامنے آتے ہی یہ ضرورت خود بخود سامنے آجاتی ہے کہ کوئی اس جماعت کا سرب��اہ ہو، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسولؐ اللہ کے ارشادات کی روشنی میں اُمت کی رہنمائی کرے اور اُمت کے افراد اس کی بات سنیں اور اطاعت کریں۔*
● *اسی بات کو رسول اللہ ﷺ کے لفظوں میں ’سمع اور طاعت‘ کہا گیا ہے، یعنی ’سننا اورکہنا ماننا‘۔*
● *یہ سمع اور طاعت اسلامی زندگی کی جان ہے۔*
● *سمع اور طاعت کے بغیر جماعت کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا اور یہی وہ الفاظ ہیں، جن سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اُمت مسلمہ اپنے مزاج اور اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس بات کی محتاج ہے کہ اس میں حکم اور طاعت کا نظام ہو۔*
● *ایسا نظام جو کسی دوسرے نظام کے تابع نہ ہو، کسی کے زیراثر نہ ہو اور اپنے حدود اوراختیارات میں بالکل آزادہو۔*
● *سمع و طاعت کے الفاظ احادیث میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں اور اگر ان سب کو سامنےرکھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ایک ایسے نظام کو قائم کرنا اُمت مسلمہ کی ایک لازمی اور فطری ذمہ داری ہے۔*
● *ہم سب جانتے ہیں کہ امروطاعت کا کوئی نظام نہ کبھی آپ سے آپ قائم ہوا ہے اور نہ قائم ہوسکتا ہے۔*
● *اس کے قائم کرنے کے لیے بھی کوشش شرط ہے اور اس کے قائم رکھنے کے لیے بھی کچھ کرنا پڑتا ہے۔*
● *یہ ہمیشہ انسانی گروہ کی کوششوں سے ہی قائم ہوا کرتا ہے۔*
● *اس لیے رسولؐ اللہ ﷺ کے ارشادات کے مطابق یہ نظام بھی اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک اُمت مسلمہ خود اس ذمہ داری کو محسوس نہ کرے اور اس کے لیے ضروری کوششیں انجام نہ دے۔*
● *یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ اس نظام کی ’اطاعت‘ صرف ’معروف‘ میں ہے، معصیت میں نہیں، یعنی صرف ان باتوں میں اطاعت فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اسلامی شریعت کے خلاف نہ ہوں۔*
● *اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اطاعت صحیح نہیں۔*
● *رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں جماعت، سمع اورطاعت کے الفاظ سے جونقشہ ہمارے سامنے آتا ہے، اس کا خلاصہ اُوپر جو پیش کیا ہے، یہ چیز ایسی نہیں ہے کہ صرف خواہشوں سے حاصل ہوجائے یا بار بار اس کا تذکرہ کرنے سے کام بن جائے۔*
● *دُنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی نظام چاہے ، وہ حق ہو یا باطل، اس وقت تک قائم ہی نہیں ہوا، جب تک اس کے لیے کوششیں نہیں کی گئیں۔*
🍂 *اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائیں* ۔۔۔
*آمین ثمہ آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes