#گرم بیوی
Explore tagged Tumblr posts
Text
آج کی پوسٹ ان دیہاڑی داروں کے نام جو ہفتے میں ایک دفعہ اپنی بیٹی کا پسندیدہ انڈے والا بند کباب لاتے ہیں اور ساتھ اعلان بھی کرتے ہیں کہ انکا پسندیدہ کھانا تو بس روٹی اور چٹنی ہے👇
💕آج کی پوسٹ ان عظیم مردوں کے نام
جو رات کو اپنے چھالے بھرے ہاتھوں سے , اپنی ماں , بہن , بیوی , بیٹی کے لۓ گرما گرم مونگ پھلی لاتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر قہقہے لگا کر کہتے ہیں , تم لوگ کھاٶ میں تو راستے میں کھاتا آیا ہوں
💕آج کی پوسٹ ان عظیم جوانوں کے نام
جو شادی کے چند دن بعد پردیس کی فلاٸٹ پکڑتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کا ATM بن جاتے ہیں ۔ ۔ جنہیں اپنی بیوی کی جوانی اور اپنے بچوں کا بچپن دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا
💕آج کی پوسٹ ان سب مزدوروں , سپرواٸزروں اور فیلڈ افسروں کے نام
جو دن بھر کی تھکان کے ٹوٹے بدن کے باوجود , اپنے بیوی بچوں کے مسکراتے چہرے دیکھنے کے لۓ رات کو واٸس ایپ (voice app)کال کرنا نہیں بھولتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
💕آج کی پوسٹ ان سب دکانداروں اور سیلزمینوں کے نام "
جو سارا سارا دن اپنے وجود کے ساتھ لیڈیز سوٹ لگا کر کہتے ہیں : باجی دیکھیں کیسا نفیس پرنٹ اور رنگ ہے
💕" آج کی پوسٹ ان سب عظیم مردوں کے نام "
جو ملک کے کسی ایک کونے سے ڈراٸیو شروع کرتے ہیں اور پورے پاکستان میں اشیاء تجارت دے کر آتے ہوۓ اپنی بیٹی کے لۓ کسی اجنبی علاقے کی سوغات لانا نہیں بھولتے
💕آج کی پوسٹ ان معزز افسران کے نام
💕جو ویسے تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے , مگر اپنے بچوں کے رزق کے لۓ سینٸیر اور سیٹھ کی گالیاں کھا کر بھی مسکرا دیتے ہیں ۔
" آج کی پوسٹ ان عظیم کسانوں کے نام "
جو دسمبر کی برستی بارش میں سر پر تھیلا لۓ پگڈنڈی پھر کر کسی کھیت سے پانی نکالتے ہیں اور کسی میں ڈالتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
آج کی پوسٹ میرے والد صاحب کے نام
جنہوں نے مجھے زندگی دی اور زندگی بنا کر بھی دی
آج کی پوسٹ ہر نیک نفس , ایماندار اور محبت کرنے والے باپ , بھاٸی , شوہر اور بیٹے کے نام
جو اپنے لۓ نہیں اپنے گھر والوں کے لۓ کماتے ہیں
جنکا کوٸی عالمی دن نہیں ہوتا ۔ ۔
مگر ہر دن ان کے لۓ عالمی دن ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
کیونکہ جن کے لۓ وہ محنت کرتے ہیں انکی چہروں پر مسکراہٹ ان لوگوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰🌹🥀🌷🌺
11 notes
·
View notes
Text
یقین کریں کہ آپ کی بیوی کی خالہ اور ممانی سے زیادہ سیکسی کوئی نہیں ہوتا ۔ البتہ آپ کی ممانی بھی بڑی گانڈ تو رکھتی ہوں گی
#بھابھی کی چدائی#hot wife#رنڈی بیوی#رنڈی پڑوسن#fuckingwife#sexy#گانڈ#بیوی کی چدائی#گرم بیوی#سالی کی چدائی#ساس کی چدائی#رنڈی بھابھی#رنڈی ساس#رنڈی#ننگی
9 notes
·
View notes
Text
ایوب+شعیب!
1۔حضرت ایوب ع تحریک حنیفیت کے صبرواستقامت کے پیکر!
2۔حضرت شعیب ع تحریک حنیفیت کی جدوجہد کی اہم کڑی!
■ایوب حضرت اسحاق کے بڑے بیٹے عیص کے بڑے بیٹے کئ اولاد میں سے ہیں۔روم میں پیدا ہوئے ۔شعیب بنی اسرائیل میں سے تھے۔مدین کا شہر۔
1۔ ایوب روم میں اچھے ماحول میں تھے●ملت ابراہیم حنیفیت کا فروغ جس میں عبادات ارتفاقات●امربالمعروف کہہ عن الامنکر● ذاتی مال سے مدد کی۔۔یہ چیزیں جاری تھی کہ ان پر آزمائش آئیں۔انکے بھائیوں میں اختلاف انکی اولاد مر گئی۔پھر خود وہ قوہ سماویہ ارضیہ کے تحت کوڑی کےمرض میں مبتلا ہو گئے خوش حالی ختم ہوگئی۔پھر سب چھوڑ گئے۔صرف بیوی نے ساتھ دیا۔وہ جاتی کام کرتیں اور کھانا ملتا۔لوگوں کو مرض کے پھیلنے کی فکر ہوئی۔تو بیوی نے لمبے بال بیچ دیے۔صبر شکر کرتے۔اصول بتایا کہ آزمائش میں بھی اللہ کا شکر کرے۔انسانی تہذیب، سیاست امما(انبیاء کے دو کام) حدیث: کہ سب سے زیادہ انبیاء کی آزمائش ہوتی ہے۔۔۔۔
پھر 8 سال تک انکی وہی حالت رہی۔پھر لوگوں نے کہا کہ اللہ آپ سے ناراض ہے۔تو انہوں نے سجدے میں گر کر دعا مانگی۔ اور کہا کہ یہ میں سجدے سے نہیں آٹھوں گا جب تک یہ آزمائش دور نی ہوگی۔اللہ نے کہا کہ اپنی ایڑی زمیں پر مارو۔چشمے میں نہائو اور پیو۔(sulphur امراض کو دور کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے) انہوں نے قسم کھائی تھی کہ بیوی کو سو کوڑے لگائوں گا صحت یابی کے بعد کیوں انکے پاس کوئی شیطان دوائی دے گیا تھا انہوں نے قسم اللہ کے لئے لی تھی اپنے ذاتی خواہش نہیں تھی۔ وہ عورت اللہ کو پسند تھی شکر گزار تھی۔ اب دو چیزیں تھی کہ وہ عورت کا بھی قصور نہیں تھا اور قسم بھی ہوتی کرنا ضروری تھا تو ایک عادلانہ حکم جاری ہوا۔کہ جھاڑو جس کے100 تیلے ہوں۔وہ مارا۔
اک یہ اصول کہ بیماری کی حالت میں صبر۔
دوسرا یہ کہ اک دفعہ ایوب غسل کر رہے تھے کہ ٹڈی دل سونے کے ہو کر گر رہے تھے۔ انہوں اپنے ��پڑوں میں جمع کرلیا اور اک باہر گری اسکو بھی اٹھا گویا غسل کرنا بھول گئے اللہ کے پوچھنے کے بعد انہوں نے فرمایا کہ بےشک آپ نے مجھے دولت دی ہے لیکن یہ بھی تو اپکی نعمت ہے اگر میں نہ اٹھائوں تو یہ ناشکری ہوگی (حدیث)
صبروشکر عدل کے ساتھ کیا۔
■اب مدین میں تجارت ہوتی تھیں لیکن وہاں کہ ملاء نے لوٹ کھسوٹ کا نظام بنایا ہوا تھا بنیادی چیز ناپ تول ہوتا ہے۔لیکن وہ اس میں کمی کرتے غریب سے لیتے زیادہ تھے دیتے کم تھے اگر کوئی شکوہ کرتا تو اسکو مارتے۔ ارتفاقات فاسد کر دئے تھے۔یہاں اللہ نے حضرت شعیب ع کو بھیجا۔انظار کے لئے۔ قرب الفرائض کے لئے آئے پرانا نظام ختم کر کے نیا بنایا۔فریض اللہ کے لئے محنت کی۔
حضرت شعیب انکو منع کرتے تھے کہ ناپ تول میں کمی نہ کرو کہتے تھے کہ تمہاری نماز ہمیں روکتی ہے۔بت بھی رکھے تھے۔بتوں کے نام پر لوٹتے تھے لوگوں کو۔ جب حجت ت��ام ہوئی اور انہوں نے قتل کا ارادہ کیا تو اللہ نے عذاب کا فیصلہ کیا۔ شعیب نے انکی ہلاکت کی دعا نی کی وہ خود اپنے غرور کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوئے۔
بارش بند ہوگئی، زمیں سے پیداوار ختم شر کا نتیجہ، تیز سمندری ہوا جس سے وہ تجارت کی کشتاں تباہ۔زلزلے، گرم لو ہلاک ہوگئے۔
اب وہ بوڑھے ہوئے آنکھیں کمزور ہوئیں تمام ارتقافات مکمل ہوئی قرب الفرائض اب رک گیا۔ اب وہ اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے۔اور حضرت موسی کے لیے ارہاس ہوگئے۔ ارہاس کہتے ہیں راہ ہموار کرنے والا۔ موسی کےلئے انکی نشونما کے لئے ملت حنیفہ انکو سکھانے کےلئے۔ تو موسی مصر سے مدین پہنچے جہاں انہوں نے دو لڑکیوں کی مدد کی۔10 سال وہاں گزارے تجارت سے پھر زراعت میں آگئے شعیب۔صرف بکریاں ہی نہیں چرائیں بلکہ انقلابی بنے۔ روم مصر خلیج فارس سے اب بیت المقدس میں وہ نظام اسرائیل بنانے کے لیے اگلا مرحلہ موسی کا آیا۔
3 notes
·
View notes
Text
خوف اور شرمندگی کی ایک رات
پارٹ تھری
صوفیہ ڈانس کے لیے اٹھی تو میں نے ایک بار ہھر ان لڑکوں سے کہا کہ ایسا نہ کرواو میری بہن سے. اس پر بلال نے پھر مجھے غصے سے دیکھا لیکن ساتھ ہی اس کی نظر میری ٹراوزر میں کھڑے لن پر پڑی تو وہ دوسرے کو مخاطب کر کے بولا کہ دیکھ اس بہن چود کو اپنی بہن چدتے دیکھ کرکیسے کھڑا ہے اس کا لن... اس پر صوفیہ نے بھی مڑکر دیکھا اور میں شرم سے پانی پانی ہو گیا کہ میری بہن کیا سوچے گی کہ اس کے ساتھ زنا بالجبر دیکھ کر میں گرم ہو گیا ہوں. جارج اٹھا اور آکر ایک ہی جھٹکے میں میرا ٹراوزر کھینچ کر نیچے کر دیا اور اب میرا لن سب کے سامنے کھڑا تھاجس پر تینوں ہنسنے لگے... صوفیہ اب اٹھ کر بیڈ کے سامنے خالی جگہ پر آ گئی اور ڈانس کرنے لگی... وہ ویسے بھی بہت اچھا ڈانس کرتی تھی لیکن ننگے ڈانس کا مزہ ہی کچھ اور تھا اس کے دونوں ممے بھی اچھل اچھل رہے تھے... وہ دونوں لڑکے بھی اس کے ڈانس پر خوب گندے کمنٹس جر رہے تھے اور صوفیہ شاید ان کے گندے کمنٹس پر اور جوش میں آ رہی تھی... اس کی چوت سے نکلتا پانی صاف نظر آ رہا تھا جو اس کی ٹانگوں کے ساتھ لگا ہوا تھا..... میرا بڑا دل کر رہا تھا کہ اپنا لن ہاتھ میں پکڑ کر ہلاوں لیکن ایسا کچھ نہیں کر پایا اور میرا لن اپنی بہن کے ہر ڈانس سٹیپ ہر ایک جھٹکا کھاتا اور میری لن سے پر ی کم نکل کر میرے ٹٹوں پر جا رہی تھی....
ڈانس کے دوران ہی بلال اور جارج بھی ننگے اس کے ساتھ اچھلنے لگے اور ساتھ ساتھ اس کے ممے پکڑتے اور چوت میں انگلی کرنے لگے... تھوڑی ہی دیر میں ڈانس سے اب وہ تینوں چدای کے موڈ میں آ چکے تھے... صوفیہ دونوں کے درمیان بیٹھی ان کے لن چوس رہی تھی اور ان دونوں کی ننگی گالیاں جو پہلے صرف صوفیہ کے لیے تھیں اب اس میں وہ مجھے اور امی کو بھی گالیاں دے رہے تھے.. بلکہ ہماری پیدائش کو بھی وہ اپنے کمنٹس میں کسی حرام اور زنا کا نتیجہ قرار دے رہے تھے... صوفیہ جس طرح کبھی ایک کا لن منہ میں لیتی کبھی دوسرے کا اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ پورا لطف لے رہی ہے. جبکہ میرا لن جس طرح جھٹکے کھا رہا تھا اس سے سب میرے جزبات ویسے ہی عیاں ہو رہے تھے.
جارج کےکالے لن کے اگلے حصے سے اس کی گلابی ٹوپی اب باہر نکل چکی تھی اور بلال کا لن بھی اب فل کھڑا تھا... صوفیہ نے خود ہی اٹھ کر اس کو بیڈ پر دھکا دیا اور اس کے لن پر بیٹھ گئی اور رنڈیوں کی طرح چدنے لگی بلکہ اس کے جوش سے لگ رہا تھا کہ کہ وہ اسے چود رہی ہے...
جارج اب اس کے منہ میں لن دے رہا تھا اور صوفیہ بلال کے لن پف اچھل رہی تھی جب کہ دونوں کے ہاتھ اس کے مموں کو نوچ رہے تھے.. کمرے میں گالیوں اور سسکاریوں کی آواز ہی تھی اب مجھے یقین تھا کہ کسی بھی لمحے میرے لن کی برداشت ختم ہو جاے گی. بلال نے صوفیہ کو کہا کہ مادر چود رنڈی اب نیچے ہو میں بھی تجھے چودتا ہوں اور ساتھ ہی اس نے صوفیہ کو اپنے اوپر سے نیچے بیڈ پر گرایا.... جارج نے اسے کہا کہ اب اسے ڈالنے دے لیکن اس نے کہا کہ پہلے مجھے پورا کرنے دو... بلال کے لن اور صوفیہ کی چوت پر چوت کا پانی اب سفید کریم کی طرح نظر آ رہا تھا....صوفیہ کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھ کر بلال نے اپنا لن میری بہن کی چوت میں اتار دیا اور زور زور سے جھٹکے دینے لگا.. صوفیہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ٹانگوں کو پکڑ کر کھولا ہوا تھا اور جارج نے اپنا لن اسے منہ میں دیا ہوا تگا ساتھ ساتھ وہ اپنے ٹٹے بھی صوفیہ سے چسوا رہا تھا. تھوڑی ہی دیر میں بلال نے لن صوفیہ کی چوت میں اپنی منی خارج کرنا شروع ہو گیا.. اور چند لمحوں بعد اس نے اپنا لن نکالا اور جارج نے صوفیہ کو اپنے لن پر بٹھانے کے لیے خود بیڈ پر لیٹا اور صوفیہ ا سکے اوپر چڑھنے لگی... اس پوزیشن میں صوفیہ کی چوت سے بلال کی گاڑھی منی باہر نکل رہی نظر آ رہی تھی. اپنی سگی بہن کی چوت سے ایک غیر مرد کی منی نکلتے دیکھ کر اور پھر بلال کا منی سے لتھڑا ہوا لن صوفیہ کو چوستے دیکھ کر میرا لن بغیر ہاتھ لگاے ہی فارغ ہو گیا اور منی کا فوارہ کئی جھٹکوں کے ساتھ نکل کر میری رانوں پر گرا..
بلال کا لن صاف ہو چکا تھا اور اس نے ایک طرف لیٹ کر سگریٹ لگا لی تھی. جبکہ جارج اور صوفیہ اب فل چدای کر رہے تھے... جارج نے اسے نیچے کیا اور صوفیہ کا سر اب بلال کے لن پر تھا اور جارج اس کے اوپر چڑھ کر اس کی چوت میں لن اندر باہر کر رہا تھا.. صوفیہ کی سسکاریا ں کمرے میں گونج رہی تھیں.. بلال نے صوفیہ کے ہونٹوں کے ساتھ سگریٹ لگایا تو صوفیہ نے ایسے کش لیا جیسے وہ کوئی سموکر ہو... تھوڑی دیر میں جارج کا لن بھی میری سگی بہن صوفیہ کی چوت کی گرمی کی تاب نہ لا سکا اور اس نے جھٹکوں کے ساتھ منی صوفیہ کی پھدی میں نکال دی اور سائڈ پر ہو کر وہ بھی بیڈ پر گر گیا.. تنیوں ایک بھرپور چدای کے بعد ریلیکس ہو کر لیٹے ہوے تھے میری بہن فل ننگی دونوں کے ساتھ سگریٹ پینے میں مصروف تھی اور اس نے ان کو کہا کہ کوئی ٹشو یا کپڑا دو چوت صاف کرنے کے لیے.. جارج نے اس کی پینٹی اٹھای اور اپنا لن اس سے صاف کر کے وہی اس کو دی کے لے گشتی صاف کر لے اپنا پھدا.. اور ساتھ اس نے میری طرف دیکھا اور میرے لن کو دیکھ کر اندازہ ہو گیا اس کو کہ کیا ہو چکا ہے... ایک دفعہ پھر مجھے انتہائی گندی گالیاں سننے کو ملی کہ بہن کو چداواتے دیکھ کا گانڈو مادرچود کی مٹھ نکل گئی.. خیر اس نے میرے ہاتھ کھول دیے لیکن رانوں پر پڑی منی کی وجہ سے میں ٹراوزر اوپر نہیں کر سکتا تھا.. بلال نے صوفیہ کی پینٹی ہی پاوں سے میری طرف پھینکی اور گالی دے کر کہا یہ لے مادر چود اپنی گشتی بہن کے چوت کے کور سے تو بھی اپنا حرامی لن صاف کر لے.. میں نے پینٹی اٹھا کر اپنی ٹانگیں اور لن صاف کیا ان دونوں کی منی اور بہن کی چوت کے پانی کی وجہ سے لن صاف ہونے سے زیادہ اور چپ چپا ہو رہا تھا... خیر جیسے تیسے کر کے ٹراوزر اوپر کیا.. وہ تینوں بھی کپڑے پہن چکے تھے. صوفیہ نے پانی مانگا تو ایک نے پاس پڑی بوتل کی طرف اشارہ کیا.. صوفیہ نے پرس سے ایک گولی کا پیکٹ نکال کر گولی کھائ اور دونوں اس کو کچھ اور گندے القابات دیتے رہے. صوفیہ نے دوبارہ پرس سے برش نکال کر اپنے بال وغیرہ سیٹ کیے اور لپ اسٹک وغیر لگا کر وہ دوبارہ وہی شریف بہن بن چکی تھی .. خیر اس سب میں اس وقت تک رات کے گیارہ بج چکے تھے... پچھلے پانچ گھنٹے میں میری دنیا زیر زبر ہو چکی تھی.. اب وہ ہمیں ساتھ لےطکر نکلے اور کافی آگے تک آ کر چھوڑ گئے... میں بائک پر اپنی بہن کو لیے پتہ نہیں کس رفتار سے جا رہا تھا لیکن میرے زہن میں کئی آندھیاں چل رہی تھیں.... کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس سب کے ساتھ اب کیسے گھر جاؤں گا... صوفیہ بھی بالکل خاموش تھی.. گھر سے تھوڑی دیر پہلے صوفیہ نے مجھے کہا کہ گھر میں اس پر کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں بالکل نارمل انداز رکھنا تا کہ کسی کو کچھ پتا نہ چلے کہ کچھ ہوا ہے... میں نے کہا کہ امی نے کچھ پوچھا تو کہنے لگی کہ امی کے سب سوالوں کو وہ ہینڈل کر لے گی... خیر گھر پہنچے تو امی کی جان میں جان آی.. صوفیہ نے امی کو بس یہی بتایا کہ ایک بوڑھی عورت کے گھر پر تھے اور جب حالات ٹھیک ہوے تو ہم آ گئے.... میں اس دن کے بعد بھی کبھی صوفیہ سے اس معاملے پر بات نہیں کر سکا.. اگرچہ میں اس سب کو یاد کر بہت دفعہ مٹھ لگا چکا تھا.. صوفیہ ویسے بھی مجھ سے بڑی تھی اس لیے اس کو کسی بات سے روکنا تو میرے لیے نا ممکن تھا... صوفیہ نے بھی کبھی اس رات کے بارے میں یا میرے ردعمل پر کوئی بات نہیں کی. وہ بدستور ایسے ہی رہی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں.. زندگی دوبارہ اپنی ڈگر پر چل پڑی لیکن اس رات کا یہ راز ہم دونوں کے سینے میں رہا.. اور اج اس بات کو پہلی بار میں نے آپ لوگوں کے سامنے بیان کیا... مجھے نہیں معلوم آپ لوگ کیا کرتے اس طرح کے حالات میں.. شاید میں بز دل تھا.. شاید مجھے کچھ اور کرنا چاہیے تھا... آپ اگر اپنی رائے دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں میرے ساتھ جو بیتنی تھی وہ بیت چکی...
-----------------اختتام-------------
شاید آپ لوگوں کے زہن میں ہو کے اتنے سال گزرنے کے بعد کیا ہو چکا ہے اب تک تو صوفیہ اسی کمپنی میں اب مارکیٹنگ مینیجر ہے. خاندان کی سب سے قابل عورت سمجھی جاتی ہے ہر تین مہینے بعد وہ اپنے باس کے ساتھ "بزنس" ٹرپ پر کسی دوسرے ملک بھی جا رہی ہوتی تھی.. کچھ سال بعد اس کی شادی بھی ہو گئی تھی. تین سال قبل میری شادی بھی ہو گئی اور بچے بھی لیکن اس رات کا منظر آج بھی میری آنکھوں میں ہوتا ہے جب میں اپنی بیوی کے ساتھ چدای کر رہا ہوتا ہوں... شاید اسی وجہ سے اب میں اپنی بیوی کو کسی سے چدتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں.. لیکن شاید یہ ممکن ہی نہ ہو کبھی....
304 notes
·
View notes
Text
کورونا آپ سے زیادہ سیانا ہے
عالمی ادارہِ صحت نے کورونا کو پہلی مرتبہ عالمی وبا کا درجہ دے دیا ہے۔ اس سے قبل قرونِ وسطی میں پھیلنے والے یورپی طاعون سے لے کر پہلی عالمی جنگ کے بعد پھیلنے والے سپینشن فلو تک کسی کو یہ درجہ نہیں ملا۔ کیونکہ ان وباؤں میں بھلے لاکھوں اموات ہوئی ہوں مگر یہ وبائیں کسی ایک یا دو براعظموں تک محدود رہیں البتہ کرونا پہلا وائرس ہے جس نے سب سرحدی، نسلی، ایرانی تورانی عربی عجمی ملحد مسلمان حدیں پار کر لیں۔ تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ اس وقت جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو کرونا 114 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ ممکن ہے جب آپ یہ مضمون پڑھیں تب تک یہ ایک سو بیس ممالک تک پہنچ چکا ہو، اور اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد ویسے ایک سو چھیانوے تک ہے۔
دنیا میں تو کورونا وائرس ایک انسان سے دوسرے کو لگ رہا ہے پر اپنے برِصغیر میں یہ وائرس وٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر اور یو ٹیوب کے ذریعے پھیل رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور عالمی فلاحی تنظیمیں کورونا وائرس کو سمجھنے کے لیے کروڑوں ڈالر مختص کر چکے ہیں اور چوٹی کی طبی لیبارٹریاں چین سے امریکہ تک اس وائرس کا توڑ کرنے کے لیے دن رات ایک کر رہی ہیں۔ ان کے مابین تحقیقی دوڑ لگی ہوئی ہے مگر جنوبی ایشیا میں اگرچہ کورونا وائرس کے متاثرین کی سرکاری تعداد اب تک سو سے نیچے ہے پر ویدوں، حکیموں، ٹوٹکے بازوں اور کورونا سے بچاؤ کروانے والے پیروں فقیروں کالے جادو کے انسدادیوں اور راہ چلتے مشورہ دینے والوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے بھی اوپر نکل گئی ہے۔
کسی نے فیس بک پر پہلا دیواری اشتہار بھی ڈال دیا ہے ’پریشان کیوں؟ عامل ٹیکم داس، زیرو تین سو دو چار سو بیس زیرو چار سو بیس پر فوراً رابطہ کریں۔ تعلقات میں ناچاقی نیز کورونا وائرس کا تسلی بخش علاج۔ پہلے صحت بعد میں فیس۔‘ میں اس بارے میں بالکل بھی محوِ حیرت نہیں۔ کیوں جس معاشرے میں کینسر اور ایڈز کا علاج جھاڑ پھونک سے اور شوگر کا علاج دو چمچ چینی صبح شام پھانکنے کے مشورے سے ہو رہا ہو اور دل کی رگیں بائی پاس کے بجائے لہسن اور شہد اور کلونجی کے آمیزے سے کھولنے کے دعوے ہو رہے ہوں، وہاں اگر کورونا وائرس سے بچنے کے لیے گائے کا پیشاب وغیرہ پینے، گوبر منہ پر ملنے، یا ابلتے ہوئے گرم پانی سے حلق تر کرتے رہنے یا وائرس کو خودکشی پر مجبور کرنے کے لیے کچا لہسن کھانے کی صلاح نہ صرف دی جا رہی ہو بلکہ لاکھوں کی تعداد میں فارورڈ بھی کی جا رہی تو ایسے لوگوں کا کورونا وائرس کیا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
مگر سب سے خراب یہ ہو رہا ہے کہ یار لوگ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ او یا یونسیف کے نام سے انگریزی میں پریس ریلیز کی طرز پر گمراہ کن مشورے لکھ لکھ کے پھیلا رہے ہیں اور لوگ باگ اپنی عقل کھجانے یا ان میسیجز کو ڈیلیٹ کرنے کے بجائے دکھی انسانیت کی خدمت کے خیال سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایسے موقع پر میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں میں آگہی پیدا کرے، پر میڈیا خود ہر خبر کا پوسٹ آفس بننے کے بجائے ٹھیک طرح سے آگاہ ہو گا، تو یہ کام کرے گا نا۔ اسے تو بریکنگ نیوز کا وائرس چپکا پڑا ہے۔ کوئی اس پر دھیان دینے کو تیار نہیں اس وائرس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے، احتیاط! جنہیں خشک کے بجائے بلغمی کھانسی ہو رہی ہے وہ بطور احتیاط ماسک استعمال کریں۔ ایک دوسرے سے تین چار فٹ کے فاصلے سے بات کریں۔
بخار، کھانسی یا سینے کا انفیکشن ہو تو اپنا معالج خود بننے کے بجائے کسی اصلی ڈاکٹر کو دکھائیں۔ پانی عام دنوں میں بھی زیادہ پینا چاہیے، اب بھی زیادہ پئیں۔ آس پاس کچرہ نہ جمع ہونے دیں۔ ہاتھ باقاعدگی سے صابن سے پہلے بھی اچھی طرح دھونے چاہیں، اب زیادہ دھوئیں۔ نلکے سے آنے والے پانی پر اعتبار نہیں تو اس میں تھوڑا سا آفٹر شیو لوشن یا ایلووارا ( گوار پاٹھا ) کا جوس ملا کر ہاتھ دھونے کے لیے رکھ چھوڑیں۔ ماسک نہیں ہے تو گھر کی مشین پر دو سلائیاں مار کے خود ماسک سی لیں ۔ ویسے آپ کی بیگم ، والدہ، بہن، خالہ، پھوپھی کو معلوم ہے کہ ماسک کیسے سلتا ہے۔ ان سے پوچھ لیں۔ اور بلاوجہ دفتر یا گھر سے باہر نہ نکلیں۔ اس احتیاط سے یار دوست بھلے خوش نہ رہیں مگر بیوی بچے ضرور خوش ہوں گے۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ اپنے موبائل فون پر موصول ہونے والے کورونا وائرس سے متعلق سب روحانی، حکیمی، جدی پشتی ٹوٹکے ڈیلیٹ کر دیں۔ جن کے پاس انٹرنیٹ ہے وہ صرف ڈبلیو ایچ او یا کسی ذمہ دار سرکاری و غیر سرکاری صحت تنظیم کی ویب سائٹ پر جائیں۔ وہاں سب احتیاط اور پرہیز لکھے ہوئے ہیں۔ اپنی سیان پتی استعمال نہ کریں، آپ کورونا سے زیادہ سیانے نہیں ہیں۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ اردو نیوز
1 note
·
View note
Text
میری ملاقات اس لڑکی سے ایک چوک پر ہوئی ، رات کا وقت تھا سوچا اکیلی کھڑی ہے گھر کیلئے لفٹ دے دیتا ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں تھا وہ تو ایک کال گرل تھی ، گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہی وہ بولی گھر لے جانا ہے یا ہوٹل لے جانا ہے اس کے سوال پر میں بوکھلا گیا اور کہا میں نے تو ایسے ہی لفٹ دی تھی کہ گھر چھوڑ دوں گا وہ مسکرا کر بولی میری شکل پر کیا ۔۔۔۔۔ لکھا ہے سب کو معلوم ہوتا ہے رات کو سڑک کنارے کون سی لڑکیاں کھڑی ہوتی ہیں، اس کی بات پر میں ہنس پڑا اور بولا کہ میں نے کبھی کسی بھی لڑکی کے بارے میں بُرا سوچا ہی نہیں، بس ایسے ہی دل کر رہا تھا کہ باتیں کرتے ہیں پھر تم کو چھوڑ دوں گا، پھر میں نے اس سے پوچھا تمھارا نام کیا ہے کہنے لگی میرا نام جان کر کیا کرنا ہے بازاری لڑکی ہوں استعمال کی چیز ہوں جیسے ایک ٹشو پیپر ہوتا ہے استعمال کیا پھینک دیا ، میں نے اس سے کئی سوال پوچھے بیچ بیچ میں وہ تھوڑی اداس سی ہو جاتی تھی پھر کہنے لگی سارے مرد ایک جیسے ہی ہوتے ہیں سب کے ایک جیسے ہی سوال ہوتے ہیں تم مجھے کچھ الگ لگے تھے لیکن تم بھی ویسے ہی نکلے، اس کی بات سن کر میرے دماغ میں طرح طرح کے خیالات جنم لے رہے تھے ابھی کچھ کہنے ہی لگا تھا تو وہ بولی کہ ہم سے جو بھی ملتا ہے وہ ہمیشہ ہمارا نام ہی پوچھتا ہے کبھی اپنا نام نہیں بتاتا شاید اس لئے کہ کہیں بدنام نہ ہوجائیں میری جگہ تمھاری محبوبہ ہوتی تو تم سب سے پہلے اسے اپنا نام بتاتے کیا کرتے ہو کیا پسند ہے سب بتاتے تاکہ وہ تم کو یاد رکھے کیونکہ وہ تمھاری دنیا کی لڑکی ہے لیکن میں چونکہ اچھی لڑکی نہیں اس لئے تم نے اپنے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا کیونکہ تم نے کون سا مجھے یاد رکھنا ہے ہیں میں تو ہوں ہی بھولنے کی چیز، وہ بول رہی تھی اور میرے دماغ پر ہتھوڑے چل رہے تھے شرم سے چور ہو رہا تھا اس نے کہا کہ ایک بازاری عورت کو کسی نے کبھی اس معاشرے کا حصہ ہی نہیں سمجھا، کبھی اپنے جیسا بنایا ہی نہیں ، میں نے ایک دم ٹوکا اور کہا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے میں نے تم کو بُرا نہیں سمجھا تو وہ ہنس پڑی اور بولی اچھا چلو پھر اپنی امی سے ملوانے چلو اس کے اچانک اس سوال پر میری تو جان ہی نکل گئی وہ ہنس کر بولی ارے مذاق کر رہی ہوں مجھے معلوم ہے یہ سب باتیں ہوتی ہیں اچھا بولنے اور اچھا کرنے میں فرق ہوتا ہے پھر بولی میری جگہ تمھاری گرل فرینڈ ہوتی تو تمھارا رویہ کچھ اور ہونا تھا بس فرق یہ ہے کہ میں ایک بدنام لڑکی ہوں لیکن دل تو میرے پاس بھی ہے اچھا برا مجھے بھی محسوس ہوتا ہے دکھ اور درد کا مجھے بھی معلوم ہے پیار اور نفرت کے بیچ کا فرق میں بھی سمجھتی ہوں، تم اپنی گرل فرینڈ کو بیوی بنانے کی خواہش کرتے ہو لیکن مجھ جیسی کو لوگ بس بستر گرم کرنے لیئے استعمال کرتے ہیں، انسان جس سے محبت کرتا ہے اسے بولتا دیکھ کر خوش ہوتا ہے سوچتا ہے کہ وقت یہیں تھم جائے لیکن ہمیں لوگ صرف دیکھتے ہیں اگر میں تمھاری محبت ہوتی تو تم مجھ سے لازمی یہ پوچھتے کہ کیا کھاؤ گی کیا پیو گی لیکن تم نے مجھ سے ایک بار بھی نہیں پوچھا حالانکہ میں نے دوپہر سے کچھ نہیں کھایا اور پیاس بھی لگی ہے لیکن میں جانتی ہوں تم کو محسوس نہیں ہوا ، میں نے اسے راستے میں اتارا اور گھر چلا گیا ، کئی بار رات کو اسی راستے سے گزر ہوا لیکن وہ مجھے پھر کبھی دکھائی نہیں دی اس دن مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ بری نہیں تھی میں اس سے کہیں زیادہ برا ہوں
۔
2 notes
·
View notes
Text
کراچی کی سردی : مشتاق احمد یوسفی
کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروس البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔ کبھی کبھار شہرخوباں کا درجہ حرارت جسم کے نارمل درجہ حرارت یعنی 98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبان شہر لحاف اوڑھ کر ائرکنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں…اس حسن تضاد کو کراچی کے محکمہ موسمیات کی اصطلاح میں ’’کولڈ ویو‘‘ (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔ … لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچے بھی انہیں پر پڑے ہیں۔ باد شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئسکریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔
کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نووارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسم گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہل کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدت کو کسی سیم تن ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی
4 notes
·
View notes
Photo
شادی سے پہلے بیٹی : پاپا میں کسی کی غلامی نہیں کر سکتی۔😡 باپ : کوئی کسی کی غلامی نہیں کرتا میری بچی۔ سب اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔ جو کام عورتوں کے لئے مشکل ہوتے ہیں، وہ مرد کرتے ہیں اور جو مردوں کے لئے مشکل ہوتے ہیں، وہ عورتیں کرتی ہیں، یونہی مل جل کر گزارا ہوتا ہے۔🤗 شادی کے بعد : بیوی : میں کھانا گرم نہیں کروں گی🙆♀️ شوہر : تو اپنے باپ کے گھر واپس چلی جاؤ۔ میں تمہاری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صبح سے شام تک محنت کرتا ہوں اور تم میری ضروریات پوری نہیں کرسکتی تو ٹھیک ہے پھر مجھے بھی تمہاری ضرورت نہیں۔🤜 طلاق کے بعد : (اسلام آباد کی سڑکوں پر بینر اٹھائے ہوئے)🙃 کھانا خود گرم کر لو۔ کھانا خود گرم کر لو۔ کھانا خود گرم کر لو۔ کھانا خود گرم کر لو۔ باپ کے مرنے کے بعد : بھائی : دیکھو میری بہن! میں اب فیملی والا ہوں، میری بیوی تمہیں اور برداشت نہیں کر سکتی، تم اپنا بندوبست کہیں اور کر لو۔😎 نوکری کی تلاش میں : دفتر والے : ہمارے پاس ایک فی میل ریسپشنسٹ کی جگہ خالی ہے، آپ ماشاء اللہ خوبصورت ہیں، آپ ہمارے ہاں کام کر سکتی ہیں۔🤗 ڈھلتی عمر : دفتر والے : بی بی! ہم معذرت خواہ ہیں، آپ کے کام میں اب پہلے جیسی تندہی نہیں رہی لہٰذا آپ کہیں اور نوکری ڈھونڈ لیں، ہمیں اب آپ کی ضرورت نہیں رہی۔🤫 ظالم بڑھاپا : نئی جگہ والا : محترمہ! آپ کی اتنی عمر ہو گئی ہے، اب میں آپ کو کیا نوکری دوں، اب تو آپ کو آرام سے اپنے بچوں کی کمائی کھانی چاہیئے. 🤨 بینر والی آنٹی : میرے بچے نہیں ہیں، کوئی نہیں ہے میرا۔😭 نیو دفتر والا : اوہ! 😲 چلیں میں آپ کے لئے کچھ کرتا ہوں۔ میرا 20 لوگوں کا اسٹاف ہے، کیا آپ ان سب کے لیئے کھانا پکا سکتی ہیں ؟ میں آپ کو چھ (6) ہزار روپے ماہانہ دوں گا. 👉 لبرل آنٹی : صرف چھ (6) ہزار 🤔؟ نیو دفتر والا: میں جانتا ہوں کہ ان چھ ہزار میں آپ کی ضرورت پوری نہیں ہوتی، مگر میں مجبور ہوں، میرے پاس اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔ 🤫 بینر والی آنٹی : ٹھیک ہے۔😞 مجھے منظور ہے.😷 اس کی آنکھوں سے آنسو زار زار بہہ رہے تھے 😭😢😭 اور سوچ رہی تھی کہ : کاش ! 😫 جوانی میں ہی کھانا گرم کر دیتی۔۔!! https://www.instagram.com/p/CgYbO61oGZM/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Text
*خوشی*
ایک وقت تھا خوشی بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔
دوستوں سے ملکر،
عزیز رشتہ داروں سے ملکر،
نیکی کرکے،
کسی کا راستہ صاف کرکے،
کسی کی مدد کرکے۔
خربوزہ میٹھا نکل آیا،
تربوز لال نکل آیا،
آم لیک نہیں ھوا،
ٹافی کھا لی،
سموسے لے آئے،
جلیبیاں کھا لیں،
باتھ روم میں پانی گرم مل گیا، داخلہ مل گیا،
پاس ھوگئے،
میٹرک کرلیا،
بی اے کر لیا،
کھانا کھالیا،
دعوت کرلی،
شادی کرلی،
عمرہ اور حج کرلیا،
چھوٹا سا گھر بنا لیا،
امی ابا کیلئے سوٹ لے لیا،
بہن کیلئے جیولری لے لی،
بیوی کیلئے وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے،
اولاد آگئی اولاد بڑی ھوگئی، انکی شادیاں کردیں-
نانے نانیاں بن گئے -
دادے دادیاں بن گئے -
سب کچھ آسان تھا
اور سب خوش تھے.
پھر ہم نے پریشانی ڈھونڈنا شروع کردی،
بچہ کونسے سکول داخل کرانا ھے،
پوزیشن کیا آئے،
نمبر کتنے ہیں،
جی پی اے کیا ھے،
لڑکا کرتا کیا ہے،
گاڑی کونسی ہے،
کتنے کی ہے،
تنخواہ کیا ہے،
کپڑے برانڈڈ چاہیئں
یا پھر اس کی کاپی ہو،
جھوٹ بولنا پھر اسکا دفاع کرنا، سیاست بازی -
*ھم سے ھمارے دور ھوگئے*
گھر اوقات سے بڑے ہو گئے،
اور ہم دور دور ہو گئے،
ذرائع آمدن نہیں بڑھے پر گاڑیاں، موٹر سائیکل، ٹی وی، فریج، موبائل سب آگئے،
سب کے کریڈٹ کارڈ آگئے -
پھر ان کے بل بجلی کا بل،
پانی کا بل، گیس کا بل، موبائل کا بل، سروسز کا بل،
پھر بچوں کی وین،
بچوں کی ٹیکسی،
بچوں کا ڈرائیور،
بچوں کی گاڑی،
بچوں کے موبائل،
بچوں کے کمپیوٹر،
بچوں کے لیپ ٹاپ،
بچوں کے ٹیبلٹ، وائی فائی، گاڑیاں،
جہاز،
فاسٹ فوڈ،
باھر کھانے،
پارٹیاں،
پسند کی شادیاں،
دوستیاں، طلاق پھر شادیاں، بیوٹی پارلر،
جم،
پارک،
اس سال کہاں جائیں گے،
یہ سب ہم نے اختیار کئے
اور اپنی طرف سے ہم زندگی کا مزا لے رہے ہیں -
کیا آپ کو پتہ ھے آپ نے خوشی کو کھودیا ہے۔
جب زندگی سادہ تھی تو خوشی کی مقدار کا تعین ناممکن تھا -
اب اسی طرح دھوم دھڑکا تو بہت ھے پر پریشانی کا بھی کوئی حساب نہیں۔
*اپنی زندگی کو سادہ بنائے*
تعلق بحال کیجئے،
دوست بنایئے،
دعوت گھر پر کیجئے،
بے شک چائے پر بلائیں،
یا پھر مولی والے پراٹھوں کا ناشتہ ساتھ کیجئے،
دور ھونے والے سب چکر چھوڑ دیجئے،
واٹس ایپ، فیس بک، ٹویٹر، ٹی وی،خبریں، ڈرامے، میوزک،
یہ سب دوری کے راستے ھیں- آمنے سامنے بیٹھئیے،
دل کی بات سنیئے اور سنائیے، مسکرائیے۔
یقین کیجئے خوشی بہت سستی مل جاتی ہے -
بلکہ مفت،
اور پریشانی تو بہت مہنگی ملتی ہے
جس کیلئے ہم اتنی محنت کرتے ہیں،
اور پھر حاصل کرتے ھیں۔
خوشی ہرگز بھی چارٹر طیارے میں سفر کرنے میں نہیں ھے۔ کبھی نئے جوتے پہن کر بستر پر رھیئے پاوں نیچے رکھے تو جوتا گندا ھوجائے گا۔
بس محسوس کرنے کی بات ہے ،
چائے میں بسکٹ ڈبو کر تو دیکھئے -
ٹوٹ کر گر گیا تو کونسی قیامت آجائے گی ۔
ہمسائے کی بیل تو بجائیے -
ملئے مسکرائیے،
بس مسکراھٹ واپس آجائے گی، دوستوں سے ملئے دوستی کی باتیں کیجئے
ان کو دبانے کیلئے ڈگریاں، کامیابیاں، فیکٹریوں کا ذکر ھرگز مت کیجئے۔
پرانے وقت میں جایئے جب ایک ٹافی کے دوحصے کرکے کھاتے تھے
،فانٹا کی بوتل آدھی آدھی پی ،
ہم نے کیا کرنا چائے خانہ کا جہاں پچاس قسم کی چائے ہے۔
آو وہاں چلیں جہاں سب کیلئے ایک ہی چائے ��نتی ھے ملائی مارکے، چینی ہلکی, پتی تیز۔
*آو پھر سے خوش رھنا شروع کرتے ھیں۔*
3 notes
·
View notes
Text
بیوی وہی جو ننگی ہو کر آپ کو گرم کرے
#گرم بیوی#رنڈی پڑوسن#بیوی#fuckingwife#hot wife#بھابھی کی چدائی#رنڈی بھابھی#بھابھی#ساس کی چدائی#سالی کی چدائی#چدائی#رنڈی بیوی#بیوی کی چدائی#مموں والی
3 notes
·
View notes
Text
اندرونی کا کہنا ہے کہ کینے ویسٹ جولیا فاکس کے ذریعے کم کارڈیشین کی توجہ کے لئے بھوکے ہیں۔
Kanye West is 'desperate' to get noticed by Kim Kardashian. Read IT
کینے ویسٹ کم کارڈیشین کے ذریعہ توجہ حاصل کرنے کے لئے ‘بے چین’ ہیں۔ اندرونی کا کہنا ہے کہ کینے ویسٹ کم کارداشیئن کی جلد کے نیچے آنے اور اس کے غصے کو بنانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ جولیا فاکس کے ساتھ ��نیے کے اچانک گرم اور بھاری رومانس کے درمیان، شائقین قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ 44 سالہ ریپر کے سر میں کچھ پک رہا ہے، ترجیحاً اجنبی بیوی کم کو حسد کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ “یہ توجہ کے لیے ایک مایوس کن…
View On WordPress
0 notes
Text
قدیم مصر...قدیم تہذیب کا گہوارہ
مصر کو قدیم تہذیب کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔ مصر میں موجود تاریخی آثار پوری دنیا سے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ مصری حنوط شدہ لاشیں یعنی ’’ممیاں‘‘ پوری دنیا میں مصر کی پہچان ہیں۔ اس ملک کو فرعون اور حضرت موسیٰؑ کے حوالے سے انسانی تاریخ میں بھی خصوصی مقام حاصل ہے۔ قدیم مصر کے رہنے والے لوگ اپنے زمانے کے مانے ہوئے نامور اور شہرت یافتہ تہذیب کے مالک تھے۔ ان کی تہذیب سے بہت بڑا علاقہ متاثر ہوا۔ تقریباً آٹھ ہزار سال پہلے مصری لوگ کسان تھے۔ پھر چند صدیوں ہی میں مصر دنیا کی طاقتور قوموں میں شمار ہونے لگا۔ مصر میں بادشاہوں (فرعونوں) کے لیے مقبرے تعمیر کیے جاتے تھے جو دریائے نیل کے مغربی کنارے پر ہوتے جہاں سورج غروب ہوتا ہے۔ وہ اس عقیدے کے قائل تھے کہ ان کا بادشاہ مرا نہیں، بلکہ سورج دیوتا سے ملنے گیا ہے۔
قدیم مصری لوگ دریائے نیل کے کنارے آباد تھے، جہاں پانی کی بہتات کی وجہ سے وہ کھیتی باڑی کر سکتے تھے۔ یہ لوگ دور دراز کی دنیا کے بارے میں نہیں جانتے تھے البتہ ایشیا اور افریقہ کے بارے میں خاصی معلومات رکھتے تھے۔ ان کے سوداگر نزدیکی ممالک سے لکڑی، سونا، ہاتھی دانت، گرم مسالے حتیٰ کہ بندر وغیرہ بھی لا کر تجارت کرتے تھے۔ مصری لوگ عمدہ طرز پر کھیتی باڑی کرتے تھے اور اس وجہ سے جلد دولت مند ہو گئے تھے۔ یہ اپنے دیوتاؤں کے لیے اعلیٰ درجے کی خوبصورت عبادت گاہیں تعمیر کرتے تھے۔ ان کے پاس فوج، بحری جہاز اور اعلیٰ نظام موجود تھا۔ ان کے ماہر فلکیات ستاروں کا علم جانتے تھے۔ ماہر کاریگر سونے چاندی سے بہترین زیورات تیار کرتے تھے۔
��س دور میں مصر پر حکومت کرنے والے بادشاہوں کو فرعون کہا جاتا تھا۔ وہ انہیں دیوتا جیسا مقام دیتے تھے۔ دنیا کی پہلی خاتون حکمران کا تعلق بھی غالباً مصر سے تھا۔ انسانی تاریخ کی اولین خاتون حکمرانوں میں ہٹشپ سوٹ شامل تھی۔ جب اس کا کم سن بھتیجا تخت نشین ہوا تو اس خاتون کو مصر پر اس کمسن بادشاہ کے قائم مقام کے طور پر حکومت کرنے کی دعوت دی گئی، تاوقتیکہ وہ بڑا ہو جائے، مگر ملکہ کو حکومت اور اقتدار کا ایسا چسکا لگا کہ اس نے اپنے بھتیجے کو پھر حکومت نہ کرنے دی۔ اس نے 1458 ق م سے 1478 ق م تک قدیم مصر پر حکومت کی۔
فرعون عام طور پر تاج پہنتے تھے، بعض اوقات فرعون دو تاج بیک وقت پہنتے تھے۔ یہ تاج مصر کے دو مختلف علاقوں کی نشاندہی کرتا تھا۔ لکسر شہر میں مصر کے کئی آثار قدیمہ موجود ہیں۔ اسے ’’بادشاہوں کی وادی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے نیل کے عین کنارے پر واقع ہے۔ اسی لیے یہ فرعونوں کا منظور نظر اور دارالحکومت رہا۔ انہوں نے اس شہر میں بے شمار عمارتیں تعمیر کرائیں۔یہاں فرعونوں کے بہت سے مقبرے ملے ہیں۔ ان میں توتن خامن اور اس کی بیوی سیتی کے مقابر بہت شاندار ہیں۔ قدیم مصر کے آثار دیکھنے کے لیے سیاح بڑی تعداد میں مصر کا رخ کرتے ہیں۔
عبدالوحید
1 note
·
View note
Text
* ہاسٹل کی لڑکی *
کل جب بستر گرم کرونگا تو ویڈیو بنا لونگا پھر یہ ہم سب کی رکھیل بن کر رہے گی اور کچھ بگاڑ بھی نہیں سکے گی ہمارا...
تین مہینے ہونے والے تھے علینہ اپنے ہم جماعت زاہد کے ساتھ ایک کرایہ کے مکان میں رہتی تھی. صبح دونوں اکھٹے یونیورسٹی جاتے اور اکھٹے ہی واپس آتے تھے. اس سے پہلے وہ اپنی یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل میں رہتی تھی مگر زاہد کی محبت میں گرفتار ہو کر وہ اس کی بغیر نکاح کی بیوی کا کردار ادا کر رہی تھی جسے عام زبان میں گرل فرینڈ کہتے ہیں. علینہ کے والدین نے کبھی سوچا بھی نا ہوگا کہ جس بیٹی پر وہ بھروسہ کر رہے ہیں وہ انہی کی کمر میں ایک ایسے لڑکے کے لئے خنجر گھونپ رہی ہے جس سے ملے 6 مہینے بھی نہیں ہوۓ تھے.
روز رات کو زاہد کے دوست بھی مکان میں آجاتے تھے اور علینہ جس نے کبھی اپنے بھائی کو پانی تک نہیں پکڑایا تھا وہ زاہد کے دوستوں کو سالن روٹیاں اور چاۓ بنا کر دیتی تھی. علینہ کی کچھ ہم جماعت لڑکیوں نے اسے سمجھایا بھی تھا کہ اس طرح اپنے ماں باپ کے بھروسے کو نا توڑو اور اپنی عزت خراب نا کرو مگر علینہ انہیں یہ کہہ کر خاموش کر دیتی کہ میری زندگی ہے تمھیں کیا؟ میں جو بھی کروں.
تین سال گزر چکے تھے اس دوران علینہ نے زاہد کو بہت مرتبہ کہا کہ ہم نکاح کر لیتے ہیں مگر زاہد اسے ہر بار ٹال دیتا. یہ سلسلہ اسی طرح سے چلتا رہا. علینہ نے بہت چالاکی دکھائی اور اپنے والدین کو اس سب کی بلکل بھی خبر نا ہونے دی تھی.
علینہ امید سے ہو چکی تھی، جب اس نے زاہد کو بتایا تو وہ چونک سا گیا زاہد کو یہ سن کر غصہ آگیا تھا. دو دن گزر گئے مگر زاہد نے علینہ سے بات تک نہیں کی تھی وہ شخص جو تین سال سے دن رات محبت کے نغمے گاتا تھا اب وہ علینہ کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا. علینہ بھی زاہد کے اس رویہ سے بہت پریشان تھی دوسری پریشانی اس کے پیٹ میں پل رہی تھی. اب زاہد رات کو دیر سے گھر آتا اور آ کر خاموشی سے سو جاتا تھا. علینہ رات رو رو کر گزار دیتی مگر زاہد کو اس کے رونے سے ذرا بھی فرق نہیں پڑتا تھا.
ایک دن علینہ نے زاہد کے قریبی دوستوں کو زاہد کی موجودگی میں بلایا اور انہیں پوری بات بتا کر کہا کہ بھائی پلیز آپ لوگ زاہد کو سمجھائیں اور اس سے پوچھیں یہ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتا میرا کیا قصور ہے؟
زاہد کے دوست اسی کی طرح کے تھے. انہوں نے زاہد سے بات کرنا شروع کی . ایک دوست بولا کہ تم لوگ نکاح کیوں نہیں کر لیتے�� علینہ بولی میں نے بہت بار کہا ہے مگر یہ سنتے ہی نہیں. زاہد یہ بات سن کر ہنس پڑا. سب لوگ حیرت انگیز نگاہوں سے زاہد کو دیکھ رہے تھے.
زاہد نے علینہ کو کہا کہ تم باہر جاؤ،
علینہ نے کہا کیوں میرے سامنے کہو جو کہنا ہے.
زاہد گرج کر بولا دفع ہو جاؤ ادھر سے.
علینہ روتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی.
اسے زاہد کے رویے کا اتنا صدمہ پہنچا کہ وہ کمرے سے باہر جاتے ہی بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی.
اس کا علم نا زاہد کو ہوا نا ہی اس کے دوستوں کو.
وہ لوگ اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے.
جب علینہ کو ہوش آیا تو اس کمرے سے آنی والی جو باتیں سنائی دی وہ یہ ہیں...
"یار تم لوگ پاگل ہو گئے ہو کیا؟
میں اس سے شادی کیوں کروں؟ پیٹ سے ہو گئی تو کیا ہوا سالی کو ہسپتال لیجا کر سارا کام سیدھا کر دونگا، اور ویسے بھی پتا نہیں جو بچہ اس کے پیٹ میں پل رہا ہے وہ میرا ہے بھی صحیح کہ نہیں مجھے تو لگتا ہے یہ کسی اور کا ہے لیکن اب پھنس تو میں گیا ہوں.
تم لوگ ہی بتاؤ جو اپنے ماں باپ کو دھوکہ دے کر تین سال میرے ساتھ سو سکتی ہے وہ مجھے دھوکہ دے کر کسی اور کے ساتھ نہیں سو سکتی کیا؟
کیا پتا تم میں سے بھی کسی کے ساتھ اس کا چکر چل رہا ہو اور مجھے علم نا ہو.... ھاھاھاھا
بس دو تین دن تک اسے ہسپتال لیجا کر ابارشن کرواتا ہوں پھر ایک سال اور مزے لونگا پھر سالی کو بھگا دونگا. اب میرا یہ معیار تو نہیں کہ میں گشتیوں سے شادی کروں.چلو مفت کی نوکرانی اور مشین مل گئی ہے مزے کرو
اور تم لوگ زیادہ حاجی نا بنو تمھارے کارنامے بھی مجھ سے چھپے ہوئے نہیں ہیں... ھاھاھاھا.....
زاہد اور اس کے دوست زور زور سے ہنس رہے تھے...
ایک لڑکا بولا، یار زاہد ہمارا حصہ ہمیں کب دیگا.
ارے یار اب یہ تمھاری ہی ہے بس بچے والا معاملہ سیٹ کر لوں اس کے بعد سب مل کر مزے کریں گے.
اب تو سالی سو رہی ہو گی. کل جب بستر گرم کرونگا تو ویڈیو بنا لونگا پھر یہ ہم سب کی رکھیل بن کر رہے گی اور کچھ بگاڑ بھی نہیں سکے گی ہمارا...
ھاھاھاھا... "
علینہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا. وہ اپنے کمرے میں گئی اور اندر سے لاک کر کے پوری رات اپنی غلطیوں کو روتی رہی.
صبح 5 بجے زاہد نے دروازہ بجایا علینہ نے دروازہ کھولا اور مسکراتے ہوئے چہرے سے زاہد کا استقبال کیا. زاہد بھی اپنے بنائے گئے پلان پر عمل کرنے کے لیے ہونٹوں پر مسکان سجاۓ ہوئے تھا. اس نے علینہ کو گلے لگایا اور کہا کہ سب دوست جا چکے ہیں. میں نے تمھارا بہت دل دکھایا ہے چلو آج سارا حساب برابر کر دیتا
ہوں یہ کہہ کر وہ بیڈ پر لیٹ گیا. زاہد نے اپنی قمیض اتاری ہی تھی کہ علینہ نے چاکو زاہد کے سینے کے آر پار کر دیا. زاہد چند منٹوں میں ہی تڑپ تڑپ کر مر گیا.
علینہ کی حالت غیر ہو چکی تھی وہ فرش پر لیٹ گئ اور زاروقطار رونے لگی. 7 بجے وہ اٹھی زاہد کی لاش بیڈ پر پڑی تھی اس کا منہ علینہ کی طرف تھا علینہ نے حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور ایک لات ماری تو زاہد کا منہ دیوار کی طرف مڑ گیا.
علینہ نے کپڑے بدلے اور برقعہ پہن کر باہر نکل گئی، وہ خود سے باتیں کر رہی تھی اور اپنی قسمت کو کوس رہی تھی اب اسے اپنی غلطیوں پر پچھتاوا ہو رہا تھا مگر اب وہ اپنی غلطیاں سدھار نہیں سکتی تھی.
اس نے خود سے کہا میرے ساتھ ٹھیک ہی ہوا میرے جیسی کا انجام یہی ہونا تھا میرے والدین نے مجھ پر بھروسہ کیا اور میں نے ایک اجنبی درندے کی خاطر اپنا مزہب، باپ کا مان بھائی کی عزت ماں کا اعتبار اور اپنی آبرو سب لٹا دی میرا یہی انجام ہونا تھا.
نہیں بلکہ یہ بھی بہت کم ہے...... یہ سوچتے ہوئے وہ مین روڈ پر چلنے والے تیز-رفتار ٹرک کے سامنے کود پڑی اور اپنی جان گنوا دی.
آج کل یونیورسٹیوں کی کمی اور میرٹ کی وجہ سے بچیوں کو دوسرے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے جانا پڑتا ہے اور گھر والوں سے دور ہاسٹل میں دن گزارنے پڑتے ہیں. اس طرح وہ گھریلو پابندیوں سے آزاد ہو جاتی ہیں ان پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا. ایسے میں کچھ لڑکیاں تو اپنی حفاظت کر لیتی ہیں اور کچھ نہیں کر پاتی. یونیورسٹی کا ماحول آزاد خیالی کو ایجوکیشن لڑکیوں کی سوچ بدل دیتے ہیں. ہم جماعت لڑکوں لڑکیوں کے گروپ بن جاتے ہیں اور وہ لوگ کلاس ٹائم میں بھی پارک، کینٹین یا پھر سنسان جگہوں پر پاۓ جاتے ہیں.
لڑکوں کی تو اور بات ہوتی ہے نا ہمارے معاشرے میں لڑکے کی غلطی کو دیکھا جاتا ہے نا ہی اس کی عزت پر کوئی انگلی اٹھاتا ہے.
سب برا لڑکیوں کا ہی ہوتا ہے اس لیے اگر آپ کے والدین نے آپ پر اعتماد کیا ہے تو ان کے اعتماد کو نا توڑیں. جب بیٹی گھر سے باہر بھائی کے ساتھ بھی چلی جاۓ تو ماں باپ کو فکر لگی رہتی ہے. سوچیں اگر انہوں نے آپکو خد سے دور گھر سے دور بھیجا ہے تو دل کو کس طرح سمجھایا ہو گا. آپکو کیا لگتا ہے کہ آپ ہاسٹل میں سکون کی نیند سو رہی ہیں تو آپ کے والدین بھائی بہن بھی سکون سے سوتے ہوں گے بلکل نہیں انہیں ہر لمحہ آپکا خیال آتا ہو گا اور ان کی محبت کا اندازہ آپکو تب ہو ہی جاتا ہو گا جب آپ مہینے دو مہینے بعد اپنے گھر جاتی ہو. آپ تعلیم حاصل کرنے آئی ہیں تعلیم حاصل کریں فضول کاموں میں نا پڑیں اپنے کام سے کام رکھیں. پردے کا خیال رکھیں جب تک آپ کا چہرہ چھپا ہوا ہے کوئی آپکو گندی نظر سے نہیں دیکھ سکتا. اسی لیے ہی اسلام نے پردے کا حکم دیا ہے.
اکثر لڑکیوں کا لباس گھر میں اور طرح کا ہوتا ہے اور یونیورسٹی میں اور طرح کا..
آپ کسی اور کو دھوکہ نہیں دے رہی اپنے آپ کو اور اپنے والدین کو دھوکہ دے رہی ہیں.
خدارا اپنی اور اپنے والدین کی عزت کا خیال رکھیں، آپکو آپکے والدین نہیں دیکھ رہے مگر ﷲ تو دیکھ رہا ہے نا اسی کا خوف کر لیں.والدین کو بھی چاہیے کی بچوں پر اندھا اعتماد نا کریں.
ﷲ ہم سب کی عزتیں محفوظ رکھے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے. *آمین.......*
6 notes
·
View notes
Text
فیملی کاونسلنگ : بند گلی سے نکلنے کا راستہ
فیملی کاونسلنگ : بند گلی سے نکلنے کا راستہ
فیملی کاونسلنگ : بند گلی سے نکلنے کا راستہ قسط(35) ازقلم:عبدالعظیم گوونڈی، ممبئی 9224599910 کی زیر تصنیف کتاب family Counselling سے روزآنہ قسط (10) میاں بیوی اپنی فیمیلی اور ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لیے ایک جامع منصوبہ بنائیں -Happy family کے لیے اپنا واضح vision اور اس کی کامیابی کے لیے اہداف اور قدریں طے کرلیں – (11) میاں بیوی بیک وقت غصّے میں نہ آئیں ۔ایک گرم ہو تو دوسرا نرم پڑ جائے ۔چیخے…
View On WordPress
0 notes
Text
غدار سازی کی قانونی فیکٹری
وہ جو کسی نے کہا تھا کہ بدترین قوانین بھی بہترین نیت سے بنائے جاتے ہیں۔ اس کا احساس قدم قدم پر ہوتا ہے۔ ریاست بھلے جمہوری ہو کہ فسطائی کہ سامراجی کہ آمرانہ کہ نظریاتی۔ جب بھی کوئی تادیبی قانون نافذ کرتی ہے تو ایک جملہ ضرور کہا جاتا ہے ’’ یہ قانون عوام کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے‘‘۔ اور پھر یہی قانون ہر گدھے گھوڑے کو قطار میں رکھنے کے کام آتا ہے۔ بس انھی پر لاگو نہیں ہوتا جن کی سرکوبی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا کہ خوف سے آزادی ہی اصل آزادی ہے۔ جب انگریز نے انڈین پینل کوڈ میں اب سے ایک سو اکسٹھ برس پہلے غداری سے نپٹنے کے نام پر آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کا ٹیکہ لگایا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ کروڑوں ہندوستانیوں کو انگریز سرکار کے جبر کے خلاف آواز اٹھانے سے روکا جائے۔ انگریز تو چلا گیا، خود برطانیہ میں بھی ایسے قانون کا وجود نہیں مگر انڈیا اور پاکستان کے سانولے آقاؤں نے گورے کے مرتب کردہ لگ بھگ پونے دو سو برس پرانے نوآبادیاتی پینل کوڈ کے اندر سے تادیبی ضوابط کو چن چن کر اماں کے جہیز میں ملے منقش لوٹے کی طرح آج بھی سینے سے لگا رکھا ہے۔
مثلاً نوآبادیاتی دور کی یادگار پینل کوڈ کا آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کسی بھی شہری کو غدار قرار دے سکتا ہے، اگر حکومت ِ وقت کی نظر میں اس شہری نے اپنی زبان یا تحریر سے، براہ راست یا بلا واسطہ یا اشاروں کنایوں میں یا کسی اور طریقے سے سرکار کی توہین کرنے یا اس کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کی کوشش کی ہو۔ ایسے غدار کو تین برس سے عمر قید تک سزا ہو سکتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل انیس کے تحت قانون کے دائرے میں آزادیِ اظہار کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے مگر پینل کوڈ کے آرٹیکل ایک سو چوبیس اے، اور غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے ایکٹ اور اسی کے دیگر چچیرے ممیرے قوانین کے تحت دونوں ملکوں میں اس آئینی آزادی کو بیڑیاں پہنانے کا بھی تسلی بخش انتظام رکھا گیا ہے۔ تادیبی قوانین کو کیسے موم کی ناک بنا کر انھی کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے کہ جن کے تحفظ کے نام پر یہ قوانین نافذ ہوتے ہیں۔
اس کی ایک مثال ایمرجنسی کے تحت ڈیفنس آف پاکستان رولز (ڈی پی آر) کا قانون تھا۔ جسے نہ صرف ایوبی و یحییٰ آمریت بلکہ بھٹو دور میں بھی سیاسی مخالفین کی تواضع کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس ایمرجنسی قانون کا حکمران کو سب سے بڑا اور فوری فائدہ یہ ہوتا تھا کہ کسی بھی منہ پھٹ کی زباں بندی کے لیے اسے بنا کسی فردِ جرم نوے دن کے لیے جیل میں ڈالا جا سکتا تھا۔ ضیا دور میں نفاذِ شریعت کے نام پر جو تعزیری قوانین بنائے گئے اور پینل کوڈ میں جو ترامیم کی گئیں ان کا مقصد بھی یہی بیان کیا گیا کہ عوام ایک نوآبادیاتی قانونی شکنجے سے آزاد ہو کر اس نظام کے تحت محفوظ زندگی بسر کر سکیں جس کے نفاذ کے لیے دراصل یہ ملک بنایا گیا تھا۔ مگر ہوا یوں کہ شرعی تعزیری قوانین کو بھی سیاسی مخالفین کو لگام دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پولیس کی چاندی ہو گئی۔ اگر مٹھی گرم ہو گئی تو ملزم کے خلاف اینگلو سیکسن قانون کے تحت پرچہ کٹ گیا۔ نہ بات بنی تو ایف آئی آر میں تعزیری دفعات شامل کر دی گئیں۔ اب یہ ملزم کا کام ہے کہ وہ کبھی اس عدالت میں تو کبھی اس عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت کرنے میں جوتے گھساتا رہے۔
سرحد پار بھارت میں آرٹیکل دو سو چوبیس اے کے تحت کیسے کیسے غدار اور دہشت گرد پکڑے گئے۔ بال گنگا دھرتلک، گاندھی جی نوآبادیاتی دور میں اس آرٹیکل کے جال میں پھنسے۔ دورِ مودی میں کانگریسی رہنما ششہی تھرور، گجرات کے کسان رہنما ہاردک پٹیل، نامور ادیبہ اور سیاسی نقاد ارودن دھتی رائے، طالبِ علم رہنما کنہیا کمار ، معروف اداکارہ کنگنا رناوت ، سرکردہ صحافی راج دیپ سر ڈیسائی، ونود دعا، مرنال پانڈے، ظفر آغا ، کارٹونسٹ اسیم ترویدی وغیرہ وغیرہ۔ دو ہزار دس سے دو ہزار بیس تک کے دس برس میں انڈیا میں غداری کے آٹھ سو سولہ مقدمے درج کیے گئے۔ ان میں سے پینسٹھ فیصد پرچے مئی دو ہزار چودہ میں مودی سرکار بننے کے بعد کاٹے گئے۔ ایسے ایسے غدار گرفتار ہوئے کہ اصل غداروں نے بھی دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں۔ مثلاً گجرات کے ایک صحافی پر اس لیے غداری کا پرچہ کاٹ دیا گیا کیونکہ اس نے اپنے ایک مضمون میں پیش گوئی کی تھی کہ جلد ہی گجرات کی ریاستی قیادت بدلنے والی ہے۔ یو پی میں جب ایک صحافی نے ریپ ہونے والی ایک لڑکی کے گھر جا کر حقیقت جانے کی کوشش کی تو وہ بھی آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کے تحت دھر لیا گیا۔
ریاست منی پور میں ایک رپورٹر نے جب سوشل میڈیا پر بی جے پی کے ایک صوبائی رہنما کی بیوی کی پوسٹ کا جواب دیا تو وہ بھی غداری میں پکڑا گیا۔ ایک شہری نے فیس بک پر ایک مودی مخالف کارٹون شئیر کیا تو اس کے ساتھ بھی یہی بیتی۔ ماحولیاتی تحریک سے وابستہ بائیس سالہ کارکن دیشا روی گریٹا تھون برگ کا ٹویٹ شئیر کرنے پر پولیس کے ہاتھوں پرچہ کٹوا بیٹھی۔ ریاست کرناٹک کے ایک اسکول میں جب بچوں نے شہریت کے نئے قانون سے متعلق ڈرامہ پیش کیا تو ایک دس سالہ بچی کے منہ سے ادا ہونے والے ایک جملے کے جرم میں اس کی ماں کو پکڑ لیا گیا اور اسکول کی پرنسپل اور عملے پر غداری کا پرچہ ہو گیا۔ پاکستان میں ایک سابق وزیرِ اعلیٰ ایوب کھوڑو اور سابق وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی سمیت چوہتر برس میں متعدد سیاسی رہنما ، سماجی و سیاسی کارکن ، صحافی ، ادیب اور دانشور آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کے غدار بنے۔ چند ماہ قبل مسلم لیگ نون کی لاہور میں نکلنے والی ایک ریلی کے بعد لگ بھگ ڈھائی سو لوگوں پر یہ قانون ٹھوک دیا گیا۔
سندھ کی جامشورو یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں سہولتوں کی کمی پر وائس چانسلر دفتر کے باہر احتجاج کرنے والے طلبا اور لاہور میں طلبا یونینوں کی بحالی کے لیے جلوس نکالنے والے بیسیوں نوجوان بھی غداری کے پرچ�� میں پھنس گئے۔ گویا قانون نہ ہوا اندھے کی لاٹھی ہو گئی جیسے چاہے گھما دی۔ اس برس جنوری میں پاکستانی سینیٹ کی قانون و انصاف سے متعلق قائمہ کمیٹی میں سینیٹر رضا ربانی کی جانب سے آرٹیکل ایک سو چوبیس اے کو قانون کی کتابوں سے نکالنے کا پیش کردہ بل منظور کیا جانا تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ انڈین سپریم کورٹ کا جانے مانے صحافی ونود دعا کو غداری کے الزام سے بری کرنا بھی خوشی کی خبر ہے۔ ونود دعا پر گزشتہ برس مارچ میں اس وقت غداری کا پرچہ کاٹا گیا جب انھوں نے اپنے یو ٹیوب چینل پر کوویڈ لاک ڈاؤن کے سبب بھارت کے مختلف علاقوں میں پھنس جانے والے لاکھوں مزدوروں کی تکلیف کا ذمے دار سرکاری پالیسیوں کو قرار دیا۔
انھیں بری کیے جانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک بار پھر یہ اصول دھرایا گیا ہے کہ سرکاری پالیسیوں اور حکمتِ عملی پر کڑی سے کڑی تنقید بھی غداری کے دائرے میں نہیں آتی۔ ایسی تنقید جو سدھار کی نیت سے کی جائے ایک صحت مند سماج کی نشانی ہے۔ حکومتیں بھی جانتی ہیں کہ ایسے قانون پھٹیچر ہو چکے ہیں۔کوئی بھی اعلیٰ عدالت ان کے تحت بنائے گئے زیادہ تر مقدمات ایک سماعت میں ہی خارج کر دے گی۔ مگر ضمانت ہوتے ہوتے ملزم کو کم ازکم دباؤ میں تو رکھا ہی جا سکتا ہے۔ اس کی ناک تو رگڑی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ایسے قوانین کتابوں سے خارج کرنے کا کسی بھی سرکار کا دل نہیں چاہتا۔ دل بس تب چاہتا ہے جب سرکاری پارٹی اپوزیشن کی بنچوں پر جا بیٹھتی ہے۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
ایک نوجوان نے درویش سے دعا کرنے کو کہا
درویش نے نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا
اور بڑے جذبے سے دُعا دی :
"اللہ تجھے آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا فرمائے"
دعا لینے والے نے حیرت سے کہا :
حضرت الحمد للہ ہم مال پاک کرنے کے لیے ھر سال وقت پر زکوۃ نکالتے ہیں بلاؤں کو ٹالنے کے لیے حسبِ ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں اس کے علاوہ ملازمین کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں
ہمارے کام والی کا ایک بچہ ہے جس کی تعلیم کا خرچہ ہم نے اٹھا رکھا ہے الله کی توفیق سے ہم تو کافی آسانیاں بانٹ چکے ہیں
درویش تھوڑا سا مسکرایا اور بڑے دھیمے اور میٹھے لہجے میں بولے : میرے بچے سانس، پیسے، کھانا یہ سب تو رزق کی مختلف قسمیں ہیں
اور یاد رکھو " رَازِق اور الرَّزَّاق " صرف اور صرف الله تعالٰی کی ذات ہے تم یا کوئی اور انسان یا کوئی اور مخلوق نہیں تم جو کر رہے ہو اگر یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو الله تعالٰی کی ذات یہ سب فقط ایک ساعت میں سب کو عطا کرسکتی ہے اگر تم یہ کر رہے ہو تو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہو."
درویش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لیا اور پھر بولا : میرے بچے آؤ میں تمہیں سمجھاؤں کہ آسانیاں بانٹنا کسے کہتے ہیں
کبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پے ہاتھ رکھ کر پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر ایک گھنٹہ اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا آسانی ہے
اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے تگ ودو کرنا آسانی ہے
صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا یہ آسانی ہے
اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو تو خود کو سسرال میں خاص اور افضل نہ سمجھنا یہ بھی آسانی ہے
غصے میں بپھرے کسی آدمی کی کڑوی کسیلی اور غلط بات کو نرمی سے برداشت کرنا یہ بھی آسانی ہے
چاۓ کے کھوکھے والے کو اوئے کہہ کر بُلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بُلانا یہ بھی آسانی ہے
گلی محلے میں ٹھیلے والے سے بحث مباحثے سے بچ کر خریداری کرنا یہ آسانی ہے
تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے ��وکیدار اور چھوٹے ملازمین کو سلام میں پہل کرنا، دوستوں کی طرح گرم جوشی سے ملنا، کچھ دیر رک کر ان سے ان کے بچوں کا حال پوچھنا یہ بھی آسانی ہے
ہسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور اسے تسّلی دینا یہ بھی آسانی ہے
ٹریفک اشارے پر تمہاری گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر سائیکل بند ہ�� گئی ہو سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے
درویش نے حیرت میں ڈوبے نوجوان کے شفقت سے سر پر ھاتھ پھیرا اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے دوبارہ متوجہ کرتے ہوئے کہا : "بیٹا جی تم آسانی پھیلانے کا کام گھر سے کیوں نہیں شروع کرتے ؟
آج واپس جا کر باھر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ دے کر دروازہ کُھلنے تک انتظار کرنا آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو.
آج سے ماں کے پہلی آواز پر جہاں کہیں ہو فوراً ان کے پہنچ جایا کرنا اب انھیں تمہیں دوسری آواز دینے کی نوبت نہ آئے بہن کی ضرورت اس کے تقاضا اور شکایت سے پہلے پوری کریا کرو.
آئندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کو ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا سالن اچھا نہ لگے تو دسترخوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کرلینا.
میرے بیٹے ایک بات یاد رکھنا زندگی تمہاری مختاج نہیں تم زندگی کے مختاج ہو منزل کی فکر چھوڑو اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناؤ
ان شاءالله تعالٰی منزل خود ہی مل جائے گی
الله تعالٰی ہم سب کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے
0 notes