#ک��بل
Explore tagged Tumblr posts
emergingpakistan · 20 days ago
Text
ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد امریکا کیسا ہو گا؟
Tumblr media
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی جماعت ریپبلکن پارٹی کی شاندار کامیابی کے بعد اب امریکا کیسا ہو گا؟ یہ سوال امریکا سمیت دنیا بھر میں ��ردش کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے امریکی اور بین القوامی سیاسی منظر نامے میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ طرزِ سیاست اور تبدیل شدہ امریکی پالیسیوں کو واپس لانے کی خواہش ظاہر کی۔
صدارتی الیکشن جیتنے والے ٹرمپ سے متعلق دلچسپ حقیقت امریکا میں ووٹرز کی اکثریت معاشی مسائل، امیگریشن قوانین کی سختی اور امریکی حکومت میں ڈرامائی تبدیلیاں چاہتی تھی، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منشور میں جگہ دی اور پھر کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایک ایسی حکومت کی تشکیل کا ارادہ رکھتے ہیں جو ان کے مخالفین پر کڑی نظر رکھے، بڑے پیمانے پر تارکینِ وطن کو نکالے اور امریکی اتحادیوں کے لیے سخت پالیسی بنائے۔ مذکورہ اقدامات کے ذریعے ٹرمپ ایک مضبوط امریکی قوم کا جو نظریہ پیش کر رہے تھے وہ نوجوان ووٹرز میں مقبول ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت میں کوئی روایتی رکاوٹ نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے پہلے سے ہی اپنی ایڈمنسٹریشن میں وفادار افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کا عندیہ دیا ہے جو ان کے ہر حکم کو نافذ العمل کریں گے۔ اب صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکی سیاست کے مستقبل پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر کس حد تک عمل کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
صدارتی انتخابات کے نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے 295 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ برتری حاصل کی ہے جبکہ کملا ہیرس کو صرف 226 الیکٹورل ووٹس ملے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 270 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے ہوتے ہیں۔  ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ کی 52 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور ڈیموکریٹس پارٹی 43 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی، یوں اب ریپبلکن پارٹی کو سینیٹ میں اکثریت حاصل ہے۔ ایوان نمائندگان کانگریس میں ریپبلکن پارٹی نے 222 نشستیں حاصل کیں جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کو 213 نشستوں پرکامیابی ملی یعنی ریپبلکن پارٹی کو معمولی برتری حاصل ہے۔ ریاستی سطح پر گورنرز کی تعداد دیکھیں تو ریپبلکن پارٹی کے 27 امیدوار بطور گورنر منتخب ہوئے جبکہ ڈیموکریٹس پارٹی کے 23 امیدوار کامیاب ہوئے۔
Tumblr media
جب ریپبلکن پارٹی نے ایوانِ نمائندگان کانگریس میں اکثریت حاصل کر لی ہے تو قانون سازی میں ان کا غلبہ متوقع ہے اور سینیٹ میں بھی ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، اس لیے ڈیموکریٹس پارٹی کے لیے کسی بھی بل کی منظوری میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح گورنرز کی تعداد میں بھی ریپبلکن پارٹی کی برتری برقرار ہے، لیکن ڈیموکریٹس پارٹی نے واشنگٹن، ڈیلاویئر اور نارتھ کیرولائنا جیسی اہم ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور گورنرز ریاستوں کی سطح پر اہم فیصلوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جن میں تعلیم، صحت اور گن کنٹرول جیسے موضوعات شامل ہیں تو یہ ترتیب ڈونلڈ ٹرمپ کے آئندہ ایجنڈے پر اثر ڈال سکتی ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد امریکی عوام کو ریپبلکن پارٹی کی حکمتِ عملی سے جو توقعات ہیں ان میں معاشی اصلاحات، امیگریشن کنٹرول اور امریکا کی عالمی پوزیشن کو دوبارہ مضبوط کرنا شامل ہیں۔
کانگریس اور سینٹ میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ریپبلکن پارٹی کو اپنے قوانین اور پالیسیز نافذ کرنے میں ڈیموکریٹس پارٹی کی مخالفت کا سامنا کم کرنا پڑے گا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں امریکی عوام ٹیکس میں چھوٹ، قومی سلامتی میں سختی اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ محتاط رویہ اختیار کیے جانے کی توقع کر رہے ہیں۔ دوسری جانب ڈیموکریٹس پارٹی شکست کے بعد اب ایک چیلنجنگ پوزیشن میں آ گئی ہے جہاں انہیں ایوان میں اپنے ایجنڈے کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی زبردست حکمتِ عملی اپنانی ہو گی کیونکہ وہ مستقبل میں اپوزیشن کی حیثیت سے کام کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر بعض اقدامات کو روکنے کے لیے مختلف فورمز پر اپنی آواز بھی بلند کریں۔ حالیہ صدارتی انتخابات امریکی سیاسی نظام کے مستقبل کو ایک نئی سمت کی طرف لے گئے ہیں اور عوام کے لیے یہ تبدیلی کئی اہم معاملات پر اثر انداز ہو گی۔
ٹرمپ کی پالیسیاں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا مرکز سب سے پہلے امریکا ہے اور ان کی معاشی پالیسی امریکا میں کاروبار اور ملازمتوں کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس کٹوتیاں اور تجارتی معاہدوں میں ترامیم ہیں جن کا مقصد ملک کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں نیٹو اور عالمی اداروں میں امریکی اخراجات پر نظر، چین کے ساتھ تجارتی جنگ، ایران پر دباؤ ڈالنا اور مشرق وسطیٰ میں امریکا کی موجودگی کو کم کرنا ہے۔ وہ امیگریشن پالیسی میں سرحدی حفاظت اور غیر قانونی امیگریشن روکنے کے لیے سخت اقدامات اور دیوار کی تعمیر پر زور بھی دیتے ہیں۔
ماحولیاتی پالیسی ماحولیاتی پالیسی میں ڈونلڈ ٹرمپ صنعتی ترقی کے لیے ماحولیاتی پابندیوں کو کم کر کے اور پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرناچاہیں گے، یہ تمام پالیسیاں بقول ان کے امریکی معیشت، سماج، اور دفاع کو مستحکم بنانے کے لیے ہیں۔
ٹرمپ کے مسلمانوں کے بارے میں خیالات ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلمان کاروباری افراد اور نوجوانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
ٹرمپ سپریم کورٹ پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت دہائیوں تک سپریم کورٹ میں قدامت پسند اکثریت کو یقینی بنا سکت�� ہے، ویسے وہ اپنے پہلے پچھلے دورِ اقتدار میں 3 سپریم کورٹ کے ججز تعینات کر چکے ہیں جبکہ اب اپنے دوسرے دورِ اقتدار میں انہیں مزید 2 ججز نامزد کرنے کا بھی موقع مل سکتا ہے جس سے ایک ایسی سپریم کورٹ تشکیل پائے گی جس میں ان کے تعینات کردہ ججز کی اکثریت دہائیوں تک قائم رہے گی۔ یہ فیصلہ کن نتیجہ عدالت کو انتخابی تنازعات میں الجھنے سے محفوظ رکھے گا اور اس سے  امیگریشن جیسے اہم معاملات کے مقدمات کی نوعیت بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں 2 معمر ترین ججز موجود ہیں جن میں 76 سالہ جسٹس کلیرنس تھامس اور دوسرے 74 سالہ جسٹس سیموئل الیٹو ہیں گو کہ امریکا میں ججز کی تعیناتی تاحیات ہوتی ہے لیکن یہ دونوں اپنی عمر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ریٹائر بھی ہو سکتے ہیں۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ کو اگر 2 نئے ججز تعینات کرنے کا موقع ملا تو وہ ایسے ججز نامزد کریں گے جو جسٹس کلیرنس تھامس اور جسٹس سیموئل الیٹو سے تقریباً 3 دہائیاں کم عمر ہوں اور اس طرح سپریم کورٹ پر طویل عرصے تک قدامت پسندانہ ججز کا غلبہ یقینی ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
aliewblog · 1 year ago
Text
بهترین نوع سمعک نامرئی کدام است؟
کم شنوایی اختلال یا بیماری بوده که بر اثر آن فرد قادر به  شنیدن صداهای اطراف نیست. این اختلال معمولا به دلیل عفونت گوش، ضربه، عوامل ارثی و برخی از بیماری‌ها رخ می‌دهد. معمولا افراد کم شنوا علاوه بر نشنیدن با مشکلات دیگری نیز روبرو می‌شوند. مثلا شغل خود را از دست می‌دهند، با خانواده و دوستان خود نمی‌توانند ارتباط برقرار کنند و برای بیرون رفتن متکی به دیگران هستند.
سمعک یک وسیله طبی است که، متخصص گوش یا شنواسنج پس از معاینه و تشخیص نوع اختلال گوش فرد، برای او تجویز می‌کند. این وسیله در دو نوع پشت گوشی و داخل گوشی وجود دارد که با تقویت و ارتعاش صداهای اطراف به افراد کم شنوا کمک می‌کند تا بهتر بشنوند. از سویی برخی افراد کم شنوا از این که دیگران سمعک را بر روی گوش آن‌ها ببینند احساس خوبی ندارند. سمعک‌های نامرئی بهترین گزینه برای این افراد است. بیشترین سوالی که این افراد از متخصصان حوزه سمعک می‌پرسند این است که بهترین نوع سمعک نامرئی چیست؟
سمعک نامرئی و انواع آن
Tumblr media
این نوع سمعک به شکل حرف انگلیسی " S"  بوده و در مجموعه سمعک‌های داخل گوشی قرار دارد و همانگونه که از نام آن مشخص است، سمعکی است که غیر قابل دیدن و نامرئی است. متخصص شنوایی سنجی برای تجویز این نوع سمعک ابتدا از داخل مجرای گوش بیمار قالب می‌گیرد سپس با توجه به اندازه داخل گوش شخص سمعک را برای وی می‌سازند به بیان دیگر این نوع سمعک‌ها منحصربه‌فرد هستند چون اندازه مجرای داخلی گوش هر کس منحصر به فرد است. برای آگاهی از سمعک نامرئی, به مراکز معتبر و تخصصی مراجعه کنید.
 معرفی مدل‌های سمعک نامرئی
    سمعک‌های CIC:
 این مدل به طور کامل داخل کانال گوش قرار می‌گیرد و زمانی که از روبرو یا پشت سر به فرد نگاه می‌کنی سمعک دیده نمی‌شود. ولی از کنار تا حدی قابل رویت است
سمعک CII: 
جدیدترین سمعک نامرئی موجود در بازار سمعک CII بوده که از هیچ زاویه‌ای قابل رویت نیست. اندازه این مدل از مدل CIC بسیار کمچک‌تر است به همین دلیل از هیچ زاویه‌ای دیده نمی‌شود.
سمعک ITE:
 این مدل در داخل گودی لاله گوش قرار می‌گیرد و از زاویه روبرو و بغل دیده نمی‌شود.     
  سمعک ITC:
محل قرارگیری این مدل سمعک قسمت پایین صدف گوش است. که از روبرو دیده نمی‌شود اما از کنار دیده می‌شود.
مزایا استفاده از سمعک‌های نامرئی
سایز کوچکی دارند و به راحتی دیده نمی‌شود.
کیفیت صدا در این مدل از سمعک‌ها بالا است.
شنیدن صدا به صورت واضح
کاهنده نویز باد
استفاده راحت
کارایی و عملکرد بهتری دارد
برای صحبت کردن با تلفن مناسب است
خواندن این مقاله توصیه می‌شود: انواع سمعک نامرئی
معرفی بهترین نوع سمعک نامرئی
Tumblr media
معرفی یک مدل سمعک نامرئی به عنوان بهترین نوع سمعک نامرئی اصلا امکان‌پذیر نیست. زیرا متخصص گوش با توجه به میزان اختلال، سن و اندازه گوش فرد برای سمعک تجویز می‌کند.پس بهترین نوع سمعک نامرئی برای هر کس متفاوت است. مثلا سمعک نامرئی برای کودکان و کسانی که دچار کم شنوایی عمیق هستند اصلا تجویز نمی‌شود‌. برای آگاهی از سمعک نامرئی, به مراکز معتبر و تخصصی مراجعه کنید.
سمعک‌های CIC و ICC
بهترین نوع سمعک نامرئی برای کسانی که میزان ناشنوایی آن‌ها حدود ۱۰۰ دسی بل است.
مناسب خانم‌هایی که به زیبایی خود اهمیت می‌دهند
مناسب کسانی که دارای کم شنوایی متوسط  هستند.
مناسب کسانی که مجرای گوش بزرگی دارند
مناسب اشخاصی که جرم گوش و رطوبت گوش کمی دارند
سمعک‌های ITC و ITE
البته این دو مدل به طور کامل نامرئی نیستند ولی به نسبت سمعک‌های پشت گوشی کمتر دیده می‌شوند:
برای افرادی کم شنوایی های ملایم، متوسط و شدید تا عمیق دارند بهترین نوع سمعک نامرئی است.
  برای افرادی که عدم مهارت دست و بینایی ضعیفی دارند بسیار مناسب است.
مناسب برای کسانی که مشکل درک گفتار دارند 
نکات مهم برای تجویز سمعک نامرئی
پزشک برای تجویز بهترین نوع سمعک نامرئی باید به نکات زیر توجه داشته باشد:
نوع کم شنوایی
مقدار اختلال سیستم شنوایی
اندازه و فرم گوش
حجم و میزان جرم گوش
سن بیمار
شغل بیمار
مقدار بودجه بیمار
بهترین نوع سمعک نامرئی چیست؟
به دلایل زیر نمی‌توان برای این سوال یک جواب قطعی پیدا کرد زیرا:
میزان کم شنوایی هر فرد با دیگری متفاوت است.
افراد کم شنوا توانایی درک گفتار متفاوتی از یکدیگر دارند.
فرد توانایی‌های متفاوتی در پرداخت بودجه دارند.
اندازه و فرم گوش مانند اثر انگشت منحصر به فرد است.
مقدار فرکانس دریافتی هر شخص با دیگری یکسان نیست.
برند‌های برتر سازنده سمعک‌های نامرئی
Tumblr media
عناوین بهترین و جدیدترین سمعک‌های نامرئیِ مدلِ  IIC که ۴  برند برتر دنیا آن‌ها را طراحی کردند:
برند زیمنس
سمعک silk زیمنس
این مدل در دسته سمعک‌های پیش ساخته ک نیاز به قالب‌گیری ندارند، است و برای افرادی که دارای کم شنوایی ملایم و متوسط هستند مناسب است.
سمعک insio iic زیمنس
یک سمعک هوشمند داینامیک بوده که اندازه‌ای کوچک دارد و بهترین نوع سمعک نامرئی برای کم شنوایی ملایم تا متوسط رو به شدید است.
برند اتیکن
سمعک siya iic اتیکن
جزء سمعکهای پیشرفته و هوشمند برند اتیکن است و از آخرین تکنولوژی روز دنیا در آن استفاده شده است. این مدل برای کسانی که مشکل درک گفتار دارند بهترین نوع سمعک نامرئی است.
سمعک opn iic اتیکن
در این مدل از پلتفرم‌های پردازشی بسیار قوی استفاده شده و همچنین قابلیت درک صدا را در زاویه  ۳۶۰ درجه
دارد و مناسب افرادی است که کم شنوایی متوسط رو به شدید دارند.
برند سونیک
سمعک iic Enchant سونیک
یک سمعک نامرئی هوشمند و داینامیک که با استفاده از آن فرد صدا را به صورت شفاف و کاملا طبیعی می‌شنود. تقویت کننده قوی این سمعک باعث افزایش صداهای گفتاری و کاهش نویز محیط می‌شود.
برند فوناک
سمعک lyric فوناک
این سمعک هم پیش ساخته بوده به طور ثابت در گوش قرار می‌گیرد. مصرف کم باتری و کیفیت صدای بالا از جمله ویژگی‌های آن است.
سمعک iic vitro فوناک
یک سمعک نامرئی هوشمند بوده و اندازه این سمعک بسیار کوچک است. بهترین نوع سمعک نامرئی برای کم شنوایی های ملایم تا متوسط و رو به شدید است. این سمعک در برابر رطوبت و گردوغبار مقاوم بوده و فرد مشکل وزوز در گوش را ندارد.
منبع:
https://behline.com/blog/the-best-invisible-hearing-aid/
0 notes
pakistantime · 1 year ago
Text
وطن کی فکر کر ناداں
Tumblr media
دردِ دل رکھنے والوں کی ہر محفل میں ’’گھرکی بربادی‘‘ کا رونا رویا جارہا ہے، پڑھے لکھوں کی نشست میں بربادی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، سنجیدہ لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ وطنِ عزیز کو اس ناگفتہ بہ حالت تک پہنچانے میں کس حکمران نے سب سے زیادہ حصّہ ڈالا ہے اور کونسا ادارہ جسدِ ملّت کو لگنے والے ناقابلِ علاج امراض کا زیادہ ذمّے دار ہے۔ صاحبانِ دانش کی بہت بڑی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ خطرناک بیماری کا آغاز 2017 میں رجیم چینج یعنی منتخب وزیرِ اعظم کو انتہائی مضحکہ خیز طریقے سے ہٹانے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور پھر 2023 تک اس کی شدّت میں اضافہ ہوتا گیا۔  حکومتی ایوانوں کے احوال سے باخبر حضرات اور اقتصادی ماہرین کی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کا دورِ حکومت ملکی معیشت کی بنیادیں کھوکھلی کر گیا اور اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نالائقی، نااہلی، افتادِ طبع، نرگسیّت اور فسطائی سوچ کا بڑا بنیادی کردار تھا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کے حکماء بھی اپنے تمام تر ٹوٹکوں اور تجربوں کے باوجود مرض پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ شہباز شریف صاحب آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ کوئی کارنامہ نہ دکھا سکے، وہ پنجاب کی طرح چند منظورِ نظر بیوروکریٹوں پر بہت زیادہ تکیہ کرتے رہے، محدود سوچ کے حامل اور تعصبات کے مارے ہوئے یہ بابو قومی سطح کے مسائل کا ادراک ہی نہ کرسکے۔
وہ صرف یاریاں پالتے رہے اور میرٹ کو پامال کرتے ہوئے کرپٹ افسروں کو اہم عہدوں پر لگواتے، اور بدنام افسروں کو پروموٹ کرواتے رہے۔ اس بار پی ایم آفس میں تعینات بیوروکریٹوں نے وزیرِاعظم کا امیج خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا شہباز شریف صاحب کی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود پی ڈی ایم کی حکومت کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ مختلف ادارے سروے کروا رہے رہے ہیں کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، عدلیہ اور بیوروکریسی میں سے کس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ میرے خیال میں وطنِ عزیز کو نقصان پہنچانے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فیصلہ سازی جس کے ہاتھ میں ہو گی اور جس کے پاس اختیارات زیادہ ہوں گے اصلاحِ احوال کی سب سے زیادہ ذمّے داری بھی اس کی ہو گی۔ لگتا ہے وہاں چیلنجز کی سنگینی کا بھی ادراک نہیں ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے درست افراد کے انتخاب (Right man for the right job) کی صلاحیّت کا بھی فقدان ہے۔ اہلِ سیاست کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف (چاہے نام کا ہی تھا) دونوں اپنے آئینی اختیار سے دستبردار ہو گئے اور نگران وزیراعظم کے لیے انھیں جو نام دیا گیا وہ انھوں نے پڑھ کر سنا دیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ ایک ��و پروفیشنلز کے علاوہ کابینہ کا انتخاب بادشاہوں کی طرح کیا گیا ہے۔
Tumblr media
کسی شاعر کی کوئی غزل پسند آگئی تو اسے وزیر بنا دیا، کسی معمّر خاتون کی لچھے دار باتیں اچھی لگیں تو اسے مشیر لگا دیا۔ کسی مصوّر کی تصویر دل کو بھا گئی تو اس سے بھی وزارت کا حلف دلوا دیا، کیا ایسی کابینہ اس قدر گھمبیر مسائل کا حل تلاش کرسکے گی؟ اس وقت سب سے تشویشناک بات عوام کی بے چینی اور ناامیدی ہے۔ انھیں کہیں سے امید کی کرن نظر نہیں آتی، نوجوانوں میں یہ مایوسی اور ناامیدی بہت زیادہ بڑھی ہے اور وہ بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، میں نے پچھلا کالم اسی بات پر لکھا تھا اور کچھ ملکوں کی مثالیں دے کر لوگوں کو ملک چھوڑنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر بہت سی میلز موصول ہوئیں، کچھ لوگوں نے اتفاق بھی کیا مگر کچھ نے شدید اختلاف کیا۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک نوجوان دانشور محمد طیّب فائق کھیتران کی میل قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔ ’’جب سے آپ کی تحریریں پڑھ رہا ہوں تب سے لے کر آج تک یہ پہلی تحریر ہے جس میں ایسا محسوس ہوا ہے کہ یہ تحریر لکھتے ہوئے آپ کے ذہن و دل آپ کے ہمنوا نہیں بن سکے۔
ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے آپ نے اپنا فریضہ ادا کرنا ضروری سمجھا لیکن یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ نے جس انداز میں یا جس بوجھل دل سے عوام کو روکنے کی کوشش کی ہے یہ آواز عوام کے دلوں تک نہیں پہنچے گی۔ آپ ہی بتائیں کہ جس ملک میں بھوک و افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی، بد امنی، اسٹریٹ کرائمز، اور لاپتہ افراد جیسی بلائیں روزانہ صبح اٹھتے ہی نئی نئی صورتوں میں نازل ہوتی ہوں، جہاں کرپشن کا کبھی نہ رک سکنے والا سیلاب سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہو۔ ملک کے عوام حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشیاں کر رہے ہوں بچوں کے گلے کاٹ رہے ہوں، بچے برائے فروخت یا گردہ برائے فروخت کے چارٹ گلے میں آویزاں کیے چوک پر کھڑے ہوں، جس ملک میں مزدور کی کل آمدن سے زیادہ بجلی کا بل آتا ہو اور احتجاج کرنے پر ڈنڈے پڑتے ہوں یا جیل بھیج دیا جاتا ہو آٹے کی قطار میں کھڑے ہوکر ک��ی عورتیں جان کی بازی ہار گئی ہوں، ملک قرض در قرض اور سود در سود کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہو، حکمران طبقے کی کرپشن اور عیاشیاں مزید بڑھتی جا رہی ہوں وہاں بندہ کسی کو روکے بھی تو کس امید پر؟؟
اس ملک میں پہلے تین طبقے ہوتے تھے۔ امیر، متوسط اور غریب لیکن اب صرف دو طبقے ہیں امیر اور غریب جو متوسط تھے وہ غریب ہو چکے ہیں اور جو غریب تھے وہ غربت کی لائن سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ آپ نے جاپان کا حوالہ دیا، جاپان پر تو ایک ایٹم بم گرایا گیا تھا ہم پر تو حکمران ہر روز ایٹم بم گراتے ہیں۔ جس جس نے بھی اس ملک کو لوٹا، برباد کیا کوئی ہے ایسا جو اُن کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکے؟ یقیناً کوئی بھی نہیں۔ جب اشیائے خورد و نوش ہی اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ انسان اگر بیس ہزار کما رہا ہے تو صرف کھانے پینے کا خرچ ہی پچاس ہزار تک چلا جائے تو وہ بندہ کیسے پورا کرے؟ کوئی متبادل راستہ؟ مڈل کلاس کے لوگوں نے بھی حالات سے مجبور ہو کر بھیک مانگنا شروع کر دیا ہے۔ پھر کسی جانے والے کو ہم کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ تم نہ جاؤ یہ ملک جنت بن جائے گا؟۔ ہم پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی بلکہ ہم ایک منظم طریقے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برباد کیے جا رہے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمارت کو گرانے میں چند لمحات لگتے ہیں اور بنانے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔
اس ملک کی اشرافیہ اور حکمرانوں نے 75 سال اس کی عمارت کو گرانے میں ہی تو صرف کیے ہیں۔ آپ اگر اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بجائے ان لوگوں کو روکنے کے ان کے نکلنے کے لیے کوئی محفوظ راستہ تجویز فرمائیں‘‘۔ اسی نوعیّت کی اور میلز بھی آئیں جن میں بڑے تلخ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ چلیں میں اپنے مشورے میں ترمیم کر لیتا ہوں’’آپ بہتر مستقبل کے لیے جہاں جانا چاہتے ہیں جائیں مگر وطنِ عزیز کو ہی اپنا گھر سمجھیں، گھر کی خبر لیتے رہیں اور اس سے ناطہ نہ توڑیں اور آپ کا گھر کبھی مدد کے لیے پکارے تو اس کی پُکار پر دل و جان سے لبّیک کہیں‘‘۔ گھر کی معیشت آئی سی یو میں ہو تو گھر کے ہر فرد کے دل میں اس چیز کا شدید احساس اور تشویش پیدا ہونی چاہیے، ہر فرد کو اپنے طرزِ زندگی میں سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے، گھر کے اخراجات میں واضح طور پر کمی آنی چاہیے، مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے مقتدر حلقے اخراجات میں کمی کرنے یا سادگی اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ اشرافیہ کسی قسم کے ایثار کے لیے آمادہ نہیں، بیوروکریسی کے اللّے تللّے اور عیاشیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ سینئر افسروں کو صرف ضرورت کے لیے ایک سرکاری گاڑی مہیّا کی جاتی اور باقی سب واپس لے لی جاتیں، مگر گاڑیاں واپس لینے کے بجائے ان کے جونیئر ترین افسروں کے لیے بھی مہنگی ترین گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ ان حالات میں بیوروکریسی کو کچھ شرم اور حیاء کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، خود مملکت کے سربراہ کا رویّہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اور صدر تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لگتا ہے پورے کارواں کے دل سے احساسِ زیاں ہی جاتا رہا ہے اور کسی میں متاعِ کارواں چھننے کا افسوس، تشویش یا احساس تک نہیں ہے اور یہی چمن کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
؎ وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
موجودہ انتہائی تشویشناک حالات کا فوری تقاضا ہے کہ سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے اوپر اُٹھے اور صرف ملک کی بقاء اور فلاح کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے، ان کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ طے پائے اور ایک نیا چارٹر اور روڈ میپ تشکیل دیا جائے۔ اس کے بعد یہ تمام لوگ قائدؒ کے مزار پر جاکر اس پر صدقِ دل سے عمل کرنے کا عہد کریں اور پھر ہر ادارہ اور ہر فرد پورے اخلاص اور نیک نیّتی سے اس عہد پر عمل پیرا ہو۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قوم کے ہر فرد اور ہر ادارے کے اندر ملک کا درد اور سادگی اور ایثار اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کر دے۔
ذوالفقار احمد چیمہ 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
immigrant192 · 1 year ago
Text
الكلب لا يرى ذيله بل يرى ذيول غيره...
تماماً كالبشر ينصحون ،  يذمون يحكمون دون أن ير أنفسهم...
  الجميع يعاني من الجميع...
  الجميع ضحية الجميع...
 الجميع يعلم أنه لا ثقة في الجميع..
 الجميع أشرار في نظر الجميع فمن نحن ومن هم...؟؟؟
إن لم تتعلم إجبار النفس على المضي وتقبل التغيرات السريعة    والتصرف معها بأريحية ومرونة سوف تقف طويلا ک عمود إنارة يضيء ما حوله وسقفه مظلم...
  حين لا تحب المكان استبدله...
   حين يؤذيك الأشخاص غادرهم...
   حين تحبط أقرأ بشغف...
    المهم في الحياة ألا تقف متفرجاً...
     ابتعد عن سوء الظن فهو يؤذي...
      وعن الشك فهو يهدم...
       وعن المقارنة فهي تظلم...
        فــــي_هــــذه_الــــحــــيــــاة
اغمض عينيك و تغافل عن بعض الأمور كي تعيش في سعادة...
   لا تهتم بمن يكون رائعا في البداية...
    أهتم بمن يبقى ويستمر رائعا حتى النهاية...
        ففي البداية كلهم رائعون...! ✍
0 notes
mpmp786786 · 3 years ago
Text
 Ketabton
 Add new 
څنګه کولای شم يو ښه لیکوال شم؟
By: Riaz Muqamzai / Views: 724 / Posted: 4 months ago
Read Time: 2 minutes, 48 seconds
لیکنه ـ ریاض مقامزی
د ډېرو ځوانانو پوښتنه دا ده، چې څنګه کولای شم ښه لیکوال شم؟ ددې پوښتنې ځوابول کوم آسانه کار نه دی. خو بیا هم ځينې لارښوونې او تګلارې شته، چې ستاسو لیکل ښه کړي او لوستونکي پيدا کړئ.
 
مینه
تر هر څه لومړی باید دا پوښتنه ځواب کړئ، چې آیا رښتيا هم له لیکلو سره مینه لرئ؟ که ځواب مو "هو" وي، نو خوشحاله شئ. ځکه چې لومړی قدم مو بېخي بریالی و.
لکه د نورو ټولو مسلکونو په لیکوالۍ کې هم مینه او علاقه د پام وړ اغېز لري. نو که تاسو له لیکلو سره علاقه لرئ، کولای شئ یو ښه لیکوال هم شئ.
 
لیکل او ګرامري اصول
کله چې تاسو له لیکوالۍ سره علاقه لرئ، نو باید لیکل زده کړئ. یوه وینا ده او بل لیکل. د وینا او لیکنې ترمنځ ځينې وختونه ټکر پېښېږي. نو اړینه ده، چې د لیکنې له اصولو سره بلد اوسئ. مثلا موږ وايو "غلامیدين" مګر لیکنۍ بڼه یې "غلام محی الدین" ده. همداسې ګڼې نورې بېلګې هم شته.
همدارنګه په کومه ژبه، چې لیکل کوئ، باید ګرامر یې هم په پوره ډول زده کړئ. ځکه ځينې وړې غلطۍ ستاسو د ټولې جملې او یا پرګراف مفهوم بدلولای شي. لکه:
ـ پر انګرېزۍ غږېږم.
ـ په انګرېزۍ غږېږم.
پورته دوه جملې سره توپیر لري. د لومړۍ جملې معنا دا ده، چې موضوع مې "انګریزي" ده. د غږېدا ژبه ممکن پښتو، دری او یا کومه بله ژبه وي. د دویمې جملې معنا دا ده، چې د غږېدا ژبه مې انګرېزي ده، موضوع که هر څه وي.
له دې سره ـ سره باید له لیکنښو سره هم بلد اوسئ. که په لیکنښو نه پوهېږئ، ممکن ډېرې ستونزې وزېږوئ.
 
مطالعه
د لیکوالۍ په اړه ویل کېږي، چې لومړی سل کتابه ولوله او بیا سل توري ولیکه. له دې څخه موخه دا ده، چې د لیکوالۍ لپاره ډېره مطالعه حیاتي مسئله ده. که تاسو څومره ډېره مطالعه لرئ، هومره ښه لیکل به کوئ.
د مطالعې په برخه کې مهمه خبره دا ده، چې که تاسو په کومه برخه کې لیکل کوئ، په هماغه برخه کې ډېره مطالعه هم وکړئ، ترڅو پر هغو موضوعاتو چې لیکل کوئ، پوره حاکميت ولرئ.
 
هره ورځ لیکل
لکه د نورو ټولو کارونو لیکوالي هم هڅه او خواري غواړي. که تاسو څومره ډېر تمرین کوئ، هومره مو لیکل ښه کېږي. مهمه نه ده، چې له علمي موضوعاتو پیل وکړئ. کولای شئ د خپلو ورځنيو خاطرو له لیکلو پیل وکړئ. د خپلو ورځنيو چارو راپور لیکل مو هم تر یوه بریده مرسته کولای شي.
 
اسانه وغږېږئ
د ښه لیکوال ځانګړنه دا ده، چې لیکل عام فهمه کړي. ستاسو لیکل باید داسې نه وي، چې یوازې دې پرې "ډېر لوستي" کسان پوه شي. باید یو عادي لوستونکی او د کمې پوهې خاوند هم موضوع هضم او درک کړای شي.
پخوا به لیکوالو هڅه کوله سختې او ډېرې کلمې وکاروي ترڅو خلکو ته یې د پوهې ډېروالی معلوم شي. خو د معاصرې لیکوالۍ تقاضا دا ده، چې په اسانه او ساده الفاظو دې موضوع ارایه شي. که په څومره کمو کلمو کې خپل مفهوم وړاندې کړئ هومره ښه لیکوال یئ.
 
ارزیابي کول
هڅه وکړئ، خپلې لیکنې ارزیابي کړئ. له نورو ملګرو سره یې شریک کړئ. خپلې نیمګړتياوې په کې په نخښه کړئ. په دې کار سره تاسو خپل دوام او ښه والی وینئ او تشویقېږئ.
 
انتقاد منل
لیکوال باید د لوړې حوصلې خاوند وي. که تاسو غواړئ ښه لیکوال شئ نو هڅه وکړئ پراخه سینه ولرئ. په دې معنا چې په لومړيو کې به حتما نیمګړتياوې لرئ، کله چې څوک مو عیب در په ګوته وي، په ورین تندي یې ومنئ او د حل لپاره یې کار وکړئ. تاسو چې همدا لیکنه لولئ حتما به نیمګړتياوې لري، نو دا په دې معنا نه ده، چې لیکل دې پرېږدو باید د حل لپاره یې کار وکړو.
 
مناسبې سوژې
د لیکوال لپاره بله مهمه مسئله د سوژې ده. که تاسو په زړه پورې سوژې و نه لرئ نو لوستونکي مو کمېږي. مثلا د کرونا وبا په پیل کې که تاسو د ملاریا په اړه لیکل کړی وای، خلکو نه خوښوله. ځکه چې خلک ملاریا یوه عادي ناروغي ګڼي. نو داسې ټکو ته باید ستاسو پام وي. داسې موضوعات چې مهم وي او خلک ورسره علاقه لري، لیکل پرې وکړئ.
Related articles
د کمال خان بند اقتصادي ارزښت
د مور د شيدو روغتيايي ګټې
مرز منفور
Popular articles
که جرأت نه لرئ، مه خفه کېږئ! دلته يې لاملونه او حللارې لوستلای شئ
که مو ویښتان تویږي دا درې خواړه وخورئ
له وخت څخه مخکي مو ويښتان ولي سپينږي درملنه يې څه ده؟
+ Add new article View other articles
About Us
Ketabton is a digital library providing free and premium ebooks. It provides a database of books, magazines and other digital documents.
Ketabton gives you access to thousands of books.
It enables you to search the database, view several categories, read online, have the books printed or downloaded to your device.
User Account
DashboardManage your booksManage your articlesLoginRegister
Quick Links
HomeBooksArticlesPrivacyFeedback
Follow Us
FacebookTwitterYoutubeInstagram
© 2021 Ketabton.com
1 note · View note
onlyurdunovels · 5 years ago
Text
وہ لڑکی از : عمیر راجپوت قسط 1
وہ لڑکی از : عمیر راجپوت قسط 1
"کیٹ" جب بھی بوریت کا شکار ہوتی تو وہ اس عالیشان بنگلے کے پیچھے بنے باغیچے میں چہل قدمی کے لیے نکل آتی کیونکہ اتنے بڑے بنگلے میں وہ واحد گوشہ ہی اسے پر سکون جگہ محسوس ہوتی تھی....
ویسے تو اس بنگلے میں رہنے والے سبھی افراد اس کے آپنے تھے اور وہ سب اسے جی جان سے چاہتے تھے مگر اس دنیا میں والدین سے بڑھ کے قریبی اور مخلص رشتہ کوئ اور نہیں ہوتا اس لیے اسے جب بھی آپنے مرحوم والدین کی یاد ستاتی تو وہ اس باغیچے میں نکل آتی اور اس باغیچے میں موجود تمام درخت اور پودے اسے آپنے غمگسار اور ہمدرد نظر آتے....
اتنے عرصے بعد آج پھر اسے آپنے والدین کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی تھی انسان بھی کتنی عجیب چیز ہے پوری زندگی خوشیوں کی خواہش میں گزار دیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کے خوشیاں آپنوں کے ہی وجہ سے ہوتی ہیں جب آپنے قریبی ہی آپنے پاس نا ہوں تو بڑی خوشی بھی بے معنی ہوجاتی ہے اور یہ بات اس سے بہتر کوئ بھی نی جانتاتھا....
دو دن بعد اس کی زندگی کا نیا خوشیوں بھرا باب شروع ہونے جا رہا تھا ..........مائکل جسے وہ آٹھ برس سے شدت سے چاہتی آرہی تھی وہ اس کے ساتھ ایک نئ زندگی شروع کرنے جا رہی تھی اور یہ احساس کسی بھی محبت کرنے والے انسان کے لیے بے پناہ خوشی کا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود بھی اسے یہ خوشی ادھوری محسوس ہورہی تھی.....
رات کے بارہ بجے تو دور سے گھنٹہ گھر میں گھنٹہ بجنے کی آواز سنائ دی.....
سردیوں کے دن تھے اس لیے کیٹ نے شدت سے لونگ بوٹ اور لیدر کی جیکٹ پہن رکھی تھی پورا بنگلہ پراسرار سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا صرف چند لائٹس ہی جل رہی تھیں وہ چند لائٹس اتنے بڑے بنگلے کی تاریکی دور کرنے سے قاصر تھیں اور بنگلے کے پیچھے جانب باغ کے کونے میں ایک بلب جل رہا تھا جو دس کنال کے باغیچے کے باغیچے کے حساب سے نا ہونے کے برابر تھا چاند کی شروع کی تاریخیں تھیں اس لیے اندھیرا معمول سے کچھ زیادہ ہی تھا اور پھر اوپر سے ہونے والی داھند نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی تھی.....
کیٹ کو جب نیند آنے لگی تو وہ باغیچے کے درمیان میں موجود بنچ پر سے اٹھ کھڑی ہوئ اس نے واپس جانے کے ��ارے میں جیسے ہی سوچا....
��چانک باغیچے کے کونے میں لگے بلب کی روشنی کم ہونے لگی اور ساتھ ہی اسے آواز آنے لگی جیسے بلب اسپارکنگ کر رہا ہو....
کیٹ حیرت سے اچانک خراب ہونے والے بلب کو دیکھنے لگی جس کی روشنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو رہی تھی کیٹ آہستہ آہستہ چلتی ہوئ بلب کے پاس آکے اسے حیرت سے دیکھنے لگی لیکین اس سے پہلے کہ وہ اس کی خرابی کی وجہ جان پاتی بلب کی روشنی یکدم اتنی تیز ہو گئ کہ کیٹ کو آپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھنا پڑا اور اس کے ساتھ ہی بلب دھماکے سے پھٹ گیا اور باغیچے میں یکدم گھپ اندھیرا چھا گیا.....
اففف""""" کیا مصیبت ہے اسے بھی ابھی خراب ہونا تھا""""" کیٹ بڑ بڑائ اور جیکٹ کی جیب سے آپنا سیل فون نکالا اس کی ٹارچ آن کی اور واپسی کے لیے مُڑی....
وہ ابھی بمشکل چند ہی قدم چلی تھی کہ اسے آپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئ تو وہ یکدم مڑی...
کون ہے........؟
اس نے بے آپنی بے ترتیب دھڑکنوں پر قابو پاتے ہوئے کہا... مگر اسے بکھرے ہوئے خشک پتوں کے علاوہ کچھ نظر نا آیا اس نے آپنا وہم جانا اور پھر چل پڑی مگر اس بار وہ دو قدم ہی چلی کے اسے پھر آہٹ محسوس ہوئ اور اس بار تو اس نے باقاعدہ پتوں کی آواز سنی جیسے کوئ اسکے پیچھے دیمی چال چل کر آرہا ہو وہ مُڑی اور موبائل کی ٹارچ کی مدد سے ارد گرد دیکھنے لگی.....
ک.....کک..........کون ہے.... ؟
اس بار اس کے لہجے میں لرزش تھی مگر اسکی بات کا کسی نے جواب نہ دیا وہاں تھا تو صرف پرہول سناٹا وہ مُڑی اور اس بار اس قدر تیز قدموں سے چلنے لگی کیونکہ اب خوف کا احساس اسے اب ہونے لگا تھا تیز چلنے کی وجہ سے اسکا پاؤں کسی چیز سے الجھا اور وہ بُری طرح سے گِری.... موبائل اس کے ہاتھ سے نکل کر دور جا گِرا مگر اس کی روشنی کا رُخ اس کی طرف تھا اسے محسوس ہوا کہ کسی نے اس کا پاؤ پکڑ لیا..... برگد کے درخت کی ایک جڑ اسکے پاؤں سے لپٹی ہوئ تھی..... اس کے غور کرنے پر معلوم ہوا کے برگد کے درخت کی ایک جڑ اسکے پاؤ کے گِرد سانپ کی طرح بل کھا کر اس کا پاؤں جکڑنے لگی تو "کیٹ" کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر خوف سے پھیل گئ اس نے فوراً لونگ بوٹ کا تسمہ کھولا اور آپنا پیر بوٹ سے باہر نکال لیا....
اسکا پاؤں آذاد ہو گیا اور بنگلے کی جانب بھاگ کھڑی ہوئ اسے آپنے پیچھے بے پناہ پتوں کی کھڑ کھڑاہٹ اور ٹہنیوں کے چیخنے کی آواز سنائ دی تو اس نے بھاگتے بھاگتے مُڑ کر دیکھا تو خوف کے مارے اس کی جان نکل گئ کیونکہ اب تو برگد کا درخت تیزی سے اسکے پیچھے آرہا تھا یہ دیکھ کر وہ تیزی سے بھاگنے لگی اور دوڑتے دوڑتے گیلری میں گھسی تو گیلری کی دیوار پر لگی پینٹنگ کی تصویریں درخت کی شاخیں لگنے کی وجہ سے گر گئیں.....
کیٹ دوڑتی ہوئ آپنے کمرے میں داخل ہوئ اور اندر داخل ہوتے ہی اس نے تیزی سے دروازہ لاک کر دیا اور جلدی سے بیڈ پر چڑھ کے کمبل اوڑھ لیا دروازہ مضبوط لکڑی سے بنا تھا اس لیے اسے توڑنا آسان نا تھا تھوڑی دیر بعد یکدم دروازہ ہلنا بند ہو گیا.....
کیٹ کمبل ہٹا کے دروازے کو غور سے سے دیکھنے لگی اس کا انگ انگ پسینے میں ڈوبا ہوا کانپ رہا تھا ��اید وہ چلا گیا................ کیٹ نے تھوک نگلتے ہوئے سوچا مگر اس سے پہلے وہ کچھ اور سوچتی اس کی پشت پر موجود کھڑکی جو باغیچے کی جانب کھلتی تھی ایک دھماکے سے ٹوٹ کے اندر گری تو کیٹ نے پلٹ کے دیکھا اور اس کے ساتھ ہی پورا بنگلہ اس کی دل دوز چیخ سے گونج اٹھا........
¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤
ریلوے سٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رُکی تو ٹرین کا خودکات دروازہ کھلا اور ایک نو جوان سوٹ کیس لیے اترا اس کے اترتے ہی ٹرین کا دروازہ بند ہوا اور ٹرین ایک بار پھر چل پڑی.......
اس سٹیشن کا وہ اکلوتا مسافر تھا اسٹیشن سن سنسان تھا اور وہاں کا عملہ بھی غائب تھا شاید انہیں بھی یہاں پر کسی کے آنے کی توقع نہیں تھی اس لیے وہ کہیں دبک کر سو رہے تھے ویسے بھی بھی شدید سردیوں کا موسم تھا اوپر سے رات کے 12 بج رہے تھے------ رہی سہی کسر طوفانی بارش نے پوری کردی تھی......
نو جوان سیاہ رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا---- بال بکھرے ہوئے تھے----- شیو ہلکی بڑھی ہوئ تھی ----- سوٹ میں زرہ بھی شکن نہیں تھی لیکین اس نے اسے بے ترتیبی سے پہن رکھا تھا شرٹ کے اگلے دو بٹن کھلے تھے ٹائ ڈھیلی ہو کر گلے میں جھول رہی تھی چہرے کا رنگ سفید تھا مگر اس میں پیلاہٹ شبہ ہوتا تھا آنکھوں کے گِرد سیاہ ہلکے تھے اور آنکھیں ایسے سُرخ تھی جیسے وہ کافی دنو سے نا سویا ہو مجموعی طور پر وہ کافی ہینڈسم نوجوان تھا اس نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکال کے اس میں سے سگریٹ نکالی اور لائٹر کی مدد سے سگرٹ سلگائ اور سوٹ کیس اٹھا کے بارش کی پرواہ کیے بغیر چل پڑا.....
سڑک پر ہوکا عالم طاری تھا اور سڑک کے کنارے سرچ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے رستہ دیکھنا کسی عام آدمی کے لیے کافی مشکل تھا لیکین وہ اس طرح کے حالات کا عادی معلوم ہوتا تھا اس لیے بے فکری سے سگریٹ پھونکتے چلا جارہا تھا......
بادلو کی چمک سے کبھی کبھی ماحول روشن ہوجاتا پھر گھپ اندھیرا چھا جاتا تھا وہ تیز بارش اور سردی کی شدت کو یوں ہی نظر انداز کیے چلا آرہا تھا جیسے یہ سب معنی نا رکھتی ہوں......
تین کلو میٹر یونہی پیدل چلنے کے بعد وہ ایک بڑے بیت بڑے بنگلے کے گیٹ پر پہنچا """براؤن ولا""" اس نے گیٹ پر لگی تختی کو زیرلب پڑھا اور سگرٹ کا آخری کش لگا کے پھینک دیا اور گیٹ پر لگی بیل بجائ تو چند لمحوں بعد ایک گارڈ نے باہر جھانکا.....
کون ہو تم......؟ گارڈ نے سختی سے پوچھا مگر نوجوان نے کوئ جواب نا دیا کیونکہ وہ نئ سگریٹ سلگانے میں مصروف تھا...
میں نے پوچھا کون ہوتم......؟ گارڈ نے اور سختی سے پوچھا....
"""""جان ویک"""""" نوجوان نے بے فکری سے دھواں اڑاتے ہوا کہا... جو بھی ہو جاؤ یہاں سے ناجانے کہاں کہاں سے آجاتے ہیں---------- گارڈ نے کہا اور گیٹ بند کرنا چاہا مگر گیٹ بند نا ہوا تو گارڈ نے حیرت سے نوجوان کو دیکھا جس نے گیٹ کے درمیان پاؤں رکھ دیا تھا.....
اتنی بھی کیا جلدی ہے میرے دوست"""""" نواجوان نے مسکرا کے کہا اس سے پہلے کے گارڈ اسے کوئ جواب دیتا اندر سے ایک خوش شکل نوجوان باہر نکلا ------- کہیں آپ جان ویک تو نہیں ہیں .......؟ نوجوان نے سوالیہ انداز میں پوچھا.... تو کیا مجھ سے پہلے بھی اس نام کا کوئ آدمی یہاں آیا تھا----- جان نے سگرٹ کا گہرا کش لگاتے ہوئے کہا....
اوہ سوری میں آپکو پہچان نی پایا آپ پلیز اندر آجائیں----- باہر آنے والے والے نوجوان نے شرمندگی سے کہا اور جان کو لیے ہوئے اندر داخل ہوا..... آپ نے آپنے آنے کی آگر اطلاع کر دی ہوتی تو میں خود آپ کو لینے اسٹیشن پہنچ جاتا آپکا کوئ فون نمبر بھی نہیں تھا ساتھ والے گرجا گھر کے فادر کے کہنے پر ہم نے شہر کے چرچ کو آپ کے نام خط لکھا ویسے حیرت ہے آپ ٹیکنالوجی کے اس دور میں میں بھی موبائل فون نہیں رکھتے-------- نوجوان نے حیرانگی سے کہا....
ہاں مجھے نفرت ہے اس چیز سے جو انسان کا سکون برباد کرے....
جاری ہے
2 notes · View notes
risingpakistan · 5 years ago
Text
ایک تھی ایم کیو ایم...ایم کیو ایم کے عروج و زوال کی کہانی
سوچتا ہوں آغاز کہاں سے کروں اور اختتام کہاں۔ ان چالیس سالوں میں مہاجر قومی موومنٹ کا عروج بھی دیکھا اور متحدہ قومی موومنٹ کا زوال بھی۔ سیاست میں تشدد غالب آجائے تو نہ سیاست رہتی ہے نہ نظریات۔ پہلے تالیاں نہ بجانے اور نعرہ کا جواب نہ دینے پر ناراضی کا اظہار کیا جاتا تھا۔ آج کل تالیاں بجانے اور نعرے کا جواب دینے کے مقدمات کا سامنا ہے۔ شہری سندھ کی سیاست 70 کے بعد کچھ اس طرح پروان چڑھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ اقتدار (1972-1977) وہ وقت تھا جب مذہبی جماعتوں کا زور تھا، ’’مہاجر کارڈ‘‘ ان کے پاس تھا۔ سندھی زبان کا بل اور اس پر لسانی فسادات۔ کوٹہ سسٹم، تعلیمی اداروں میں داخلے میں دشواریاں، نوکریوں میں کراچی، حیدرآباد، سکھر کے لوگوں پر پابندی۔ بھٹو اور اردو بولنے والے دانشوروں کے درمیان مسئلے کے حل کے لئے مذاکرات اور معاملہ 60 فیصد دیہی اور 40 فیصد شہری کوٹہ پر حل ہو گیا۔ بدقسمتی سے یہ فارمولہ سیاست کی نذر ہو گیا۔
سن 1976 میں الیکشن ہوئے، نتائج تسلیم نہیں کئے گئے۔ قومی اتحاد کی تحریک چلی اور شہری سندھ گڑھ بنا۔ جولائی 1977 مارشل لا کا نفاذ، شہروں میں مٹھائی تقسیم، 90 روز کےوعدے پر الیکشن ملتوی۔ 1978 اردو بولنے والے نوجوانوں کا مہاجر سیاست، مہاجر کے نام سے کرنے کا فیصلہ۔ کہتے ہیں APMSO سے ایم کیو ایم تک کے سفر میں بنیادی لوگوں میں بانی متحدہ کے علاوہ اختر رضوی مرحوم، عظیم احمد طارق مرحوم، ڈاکٹر عمران فاروق مرحوم، سلیم شہزاد مرحوم، ڈاکٹر سلیم حیدر، ماسٹر علی حیدر، احمد سلیم صدیقی، طارق مہاجر، کشور زہرہ، زرین مجید اور کچھ لوگ شامل تھے۔ 1984 طلبہ تنظیم سے سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ مگر سندھی، مہاجر، اتحاد قائم کرنا جس میں رضوی صاحب کا اہم کردار رہا جس کی ایک وجہ ان کا بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق۔ 1986 میں نشتر پارک میں پہلا جلسہ، سفید کرتا پاجامہ کو مہاجر شناخت کے طور پر متعارف کرانا۔
سن 1978 سے 1986 تک شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں بدترین فرقہ وارانہ اور پھر لسانی فسادات، نئی نئی تنظیمیں اور گروپ تشکیل پاتے گئے۔ 1987 بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے سندھ میں ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی جسے بھرپور عوامی پذیرائی ملی۔ ایسے ایسے لوگ ایوانوں میں پہنچے جنہیں پتا بھی نہیں تھا کہ بلدیہ عظمیٰ کی عمارت کدھر ہے اور حلف کیسے لیتے ہیں۔ 1988 الیکشن سے کچھ ہفتے پہلے حیدر آباد میں دو سو افراد منٹوں میں قتل کر دیئے گئے۔ جواب میں کراچی میں خونیں ردعمل سامنے آیا اور سو سے زائد افراد مار دیئے گئے۔ انتخابات ہوئے تو ایسا لگا جیسے سندھ کو انتخابی طور پر دیہی اور شہری سندھ میں تقسیم کر دیا گیا ہو پھر پی پی پی اور ایم کیو ایم حکومتی اتحاد بنا۔ 1989 بے نظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ایم کیو ایم کا خفیہ طور پر حکومتی اتحاد ی ہوتے ہوئے مخالفت میں ووٹ۔ دونوں جماعتوں میں بد اعتمادی کی ابتدا ہوئی جو شاید آج تک قائم ہے۔ 
ایم کیو ایم کے نعروں میں شدت آگئی، الگ صوبے سے لے کر محصورین مشرقی پاکستان کی واپسی، شہروں میں فسادات اور 6 اگست 1990 کو بے نظیر حکومت کا خاتمہ۔ 1990کے الیکشن اور متحدہ کی کامیابی مگر اس بار زور زبردستی کا الزام، جام صادق کی حکومت قائم، نواز شریف اتحادی، 1992 ڈاکوئوں اور کرمنل کے خلاف فوجی آپریشن۔ کراچی میں ایم کیو ایم میں پہلی تقسیم، حقیقی کا قیام اور آفاق اور عامر خان الگ، بانی متحدہ جام صادق کے مشورے پر جنوری 92ء میں لندن روانہ جہاں سے آج تک واپسی نہیں ہوئی۔ 1994 میں پولیس آپریشن میں متحدہ کے کئی سو مبینہ کرمنل مارے گئے مگر بڑی تعداد میں لوگ ماورائے عدالت بھی قتل کئے گئے۔ 1993 میں بانی چیئرمین عظیم احمد طارق کا قتل الزام متحدہ پر، وجہ بانی سے اختلاف۔ 
اس کے بعد یہ سلسلہ رک نہ سکا مگر ان تمام سالوں میں کچھ خفیہ ہاتھ بھی نمایاں رہے اور ان کی سیاست بھی۔ 2002 سے 2007 تک ایم کیو ایم کو جیسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ پہلی بار شہری علاقوں خاص طور پر کراچی میں ترقیاتی کام ہوئے مگر جس چیز نے ایم کیو ایم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ علاقہ کنٹرول، زور زبردستی، بھتہ خوری اور پرتشدد واقعات تھے۔ 2013 الیکشن میں متحدہ کامیاب مگر بانی پارٹی سے ناراض۔ تحریک انصاف کو 8 لاکھ ووٹ کیسے پڑ گئے۔ یہیں سے جماعت کے خاتمہ کا آغاز ہوا۔ اس بار ہونے والے آپریشن کو وہ سمجھ ہی نہیں پائے۔ کچھ عرصے بعد قابل اعتراض تقاریر کرنے پر لاہور ہائی کورٹ نے اس کی کوریج پر پابندی لگا دی جو اب تک برقرار ہے۔ 22؍ اگست 2016 کو رہی سہی کسر بھی پوری ہوئی۔ متحدہ کا مرکز، دفتر سیل ہوا بلکہ اس کے اطراف تمام سیاسی سرگرمیاں بھی۔ 
کچھ رہنمائوں نے پارٹی کو بچانے کی کوشش کی اور شاید آج بھی کر رہے ہیں مگر اب یہ اندر کی لڑائی زیادہ نظر آتی ہے۔ چالیس سال کا سفر بے نتیجہ ہی رہا مگر آج بھی مطالبات وہی ہیں نوکریاں، داخلے نہیں تو الگ صوبہ۔ تقسیم نہیں اتحاد میں اتفاق میں برکت ہوتی ہے۔ ناانصافیاں بہرحال ختم کرنا ہوں گی۔ کراچی کو ایک خاص نقطہ نظر سے دیکھنا چھوڑیں یہ سندھ کا دارالحکومت بھی اور پاکستان کا معاشی ��ب بھی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ غلطیوں سے سیکھیں۔ حقیقت یہ کہ آپ کا اصل امتحان ہوتا ہی اس وقت ہے جب آپ کے پاس اختیار بھی ہو اور آپ شریک اقتدار بھی ہوں۔ یہ مواقع ملے مگر آپ کے لوگ چمک کا شکار ہو گئے اور آپ کسی اور جانب نکل گئے۔ تشدد اور سیاست، جرائم اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ استعمال ہونے والوں کو بھی سوچنا ہے اور استعمال کرنے والوں کو بھی۔ جنہوں نے ہتھیار اٹھائے ان کے لئے بھی سبق ہے اور جنہوں نے ہتھیار دینے میں سہولت کاری کی ہے، پھر کبھی سہی۔ اگر موقع ملے تو حسن جاوید کا ناول ’’شہر بے مہر‘‘ پڑھ لیجئے گا۔
مظہر عباس بشکریہ روزنامہ جنگ
3 notes · View notes
aaalsafar · 2 years ago
Photo
Tumblr media
‏‎#خلاصة_البشر ثلاث دروس عليك أن تحفظها أولا...!!! 1 من رحل لن يعود ومن أبكاك سيأتي من يبكيه لا تقلق لن يضيع حقك أبدا...!!! 2 القوة أن تمشي بجانب الأشياء التي تعينك وكأنها لا تعنيك نهائيا...!!! 3 استمع ثم ابتسم ثم تجاهل ليس من الضروري أن تأخد كل شيء بجدية...!!! عش من أجل نفسك أدر ظهرك لكل من لا يستحق فلا غياب إلاغياب راحتك ولا فقد إلا من فقد ذاتك...!!! لا تشرح لأحد ولا تعتذر لأحد ولا تبحث عن إرضاء أحد كن أنت فمن ��ريدك سوف يرى أجمل مافيك ومن لم يفعل لا تحاول إقناعه...!!! الكلب لا يرى ذيله بل يرى ذيول غيره...!!! تماماً كالبشر ينصحون يذمون يحكمون دون أن يرو أنفسهم...!!! الجميع يعاني من الجميع...!!! الجميع ضحية الجميع...!!! الجميع يعلم أنه لا ثقة في الجميع...!!! الجميع أشرار في نظر الجميع فمن نحن ومن هم...؟؟؟ إن لم تتعلم إجبار النفس على المضي وتقبل التغيرات السريعة والتصرف معها بأريحية ومرونة سوف تقف طويلا ک عمود إنارة يضيء ما حوله وسقفه مظلم...!!!🌹 حين لا تحب المكان استبدله...!!! حين يؤذيك الأشخاص غادرهم...!!! حين تحبط أقرأ بشغف...!!! المهم في الحياة ألا تقف متفرجاً...!!! ابتعد عن سوء الظن فهو يؤذي...!!! وعن الشك فهو يهدم...!!! وعن المقارنة فهي تظلم...!!! #فــــي___هــــذه___الــــحــــيــــاة اغمض عينيك و تغافل عن بعض الأمور كي تعيش في سعادة...!!! لا تهتم بمن يكون رائعا في البداية...!!! أهتم بمن يبقى ويستمر رائعا حتى النهاية...!!! ففي البداية كلهم رائعون...!!! لا تثق في البشر كثيراً...!!! فأياك الإعتقاد بأن كلمة جميلة من أحدهم تفسر ��به لك فالأغلبية يتحدثون بمزاجهم فقط...!!! ولا تعامل البشر وكأنهم ثابتون لا يتغيرون فربما يجد أحدا غيرك ويغادر وكأنه كان لم يعرفك...!!! لا تضع في مخيلتك أن الجميع يمكنه تحملك...!!! فلا ترمي نفسك على أحدهم وتأكد بأن من يريدك سيأتي فجميع البشر يتغيرون ولا يمكن أن تبقى في قلب أحدهم في نفس المكانة دائما فالقلوب تتغير...!!! أمنح فرص كثيرة جداً وحين تنتهي لا أعاتب ولا أسأل ولا أهتم...!!! من دخل حياتي فما هو إلا نجم يزين سمائي...!!! وإن رحل فما أجمل السماء وهي صافية.‎‏ https://www.instagram.com/p/ChZbJCqLSAI/?igshid=NGJjMDIxMWI=
1 note · View note
airnews-arngbad · 2 years ago
Text
- آکاشوانی اورنگ آباد‘اُردو علاقائی خبریں' تاریخ: 10 جون 2022 وقت: صبح 09:00-09:10
سب سے پہلے خاص خبروں کی سرخیاں: ٭ راجیہ سبھا کیلئے مہاراشٹر کی 6 نشستوں کے انتخابات کی خاطر آج رائے دہی۔ ٭ قانون ساز کونسل کی 10 نشستوں کیلئے 13  اُمیدواروں نے داخل کی درخواستیں۔ ٭ صدرِ جمہوریہ کے چنائو کیلئے 18 جولائی کو رائے دہی۔ ٭ آئندہ 13 جون سے ریاست میں نئے تعلیمی سال کا آغاز؛ تاہم طلبہ کو 15 جون سے حاضری کی ہدایت۔ ٭ ریاست میں کل پائے گئے کورونا کے 2ہزار 813 نئے مریض؛ مراٹھواڑہ میں بھی 10 نئے متاثرین کا اضافہ۔ ٭ ریاست کے چند علاقوں میں بارش کا آغاز؛ برسات کے سبب مختلف حادثوں میں 5  افراد کی موت۔ اور۔۔٭ پہلے T-20 کرکٹ مقابلے میں جنوبی افریقہ نے دی بھارت کو شکست۔ ***** ***** ***** اب خبریں تفصیل سے: مہاراشٹر سے راجیہ سبھا کی 6 نشستوں کیلئے آج رائے دہی ہورہی ہے۔ ان انتخابات میں شیوسیناکے سنجئے رائوت اور سنجئے پوار امیدوار ہیں، جبکہ راشٹروادی کانگریس سے پرفل پٹیل اور کانگریس سے مشہور شاعر عمران پرتاپ گڑھی حصہ لے رہے ہیں‘ اسی طرح بی جے پی کی جانب سے اس راجیہ سبھا چنائو میں پیوش گوئل‘ انیل بونڈے اور دھننجئے مہاڈِک کو امیدوار بنایا گیا ہے۔ ان انتخابات میں ہر اُمیدوار کی کامیابی کیلئے 41 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ رائے دہندگان کی تعداد کے مطابق شیوسینا کے پاس 55‘ راشٹروادی کانگریس 52‘ کانگریس 44  اور بی جے پی کے 106  اراکین ہیں۔ اس تعداد کے بل پر بی جے پی کے 2‘ شیوسینا‘ راشٹروادی اور کانگریس کے ایک۔ ایک امیدوار بآسانی منتخب ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی کے تیسرے اور شیوسینا کے دوسرے اُمیدوار کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ یہ دونوں ہی اُمیدوار اپنی جیت کیلئے آزاد اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی پر منحصر ہیں۔ اسی دوران راشٹروادی کانگریس کے اراکینِ اسمبلی نواب ملِک اور انیل دیشمکھ کو ان انتخابات میں رائے دہی کی خاطر عارضی ضمانت کی درخواست کو خصوصی عدالت نے مسترد کردیا ہے۔ جس کے بعد ان دونوں اراکینِ اسمبلی نے خصوصی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے جس پر آج صبح سماعت ہوگی۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) نے نواب ملِک اور انیل دیشمکھ کی ان انتخابات میں رائے دہی کی مخالفت کی ہے۔ ***** ***** ***** ریاست کی قانون ساز کونسل کی 10 نشستوں کیلئے 13  امیدوار میدان میں ہیں۔ بی جے پی نے 6‘ راشٹروادی کانگریس نے 3‘ جبکہ شیوسینا اور کانگریس نے فی کس 2  افراد کو امیدواربنایا ہے۔ متعدد امیدواروں نے اگر اپنی درخواست واپس نہیں لی تو یہ انتخابات راجیہ سبھا کے چنائو سے بھی زیادہ دلچسپ ہوجائیں گے۔ NCP نے کل ان انتخابات کیلئے کونسل کے چیئرمین رام راجے نمباڑکر اور ایکناتھ کھڑسے کی اُمیدواری کا اعلان کیا ہے۔ این سی پی کے ریاستی صدر جینت پاٹل نے بتایاکہ ان کی جماعت نے شیواجی رائو گرجے کی صورت میں مزید ایک امیدوار میدان میں اُتارا ہے۔ ان تینوں اُمیدواروں نے کل اپنا پرچۂ نامزدگی داخل کیا ۔ اسی بیچ بی جے پی کی اُمیدوار اُوما کھاپرے اور پارٹی کی حمایت کرنے والے آزاد اُمیدوار سدا بھائو کھوت نے کل اپنی اُمیدواری کی درخواست داخل کی۔ قانون ساز کونسل کی 10 نشستوں کیلئے آئندہ 20 جون کو رائے دہی ہوگی۔ ***** ***** ***** ملک کے 16 ویں صدرِ جمہوریہ کے انتخاب کیلئے مرکزی انتخابی کمیشن نے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے صحافتی کانفرنس میں کل یہ اطلاع دی۔ انھوں نے بتایا کہ اگر یہ انتخاب اتفاقِ رائے سے نہیں ہوا تو 18 جولائی کو رائے دہی ہوگی اور 21 جولائی کو نتیجے کا اعلان کیا جائیگا۔ صدرِ جمہوریہ کے چنائو کیلئے کُل 4 ہزار 809  افراد رائے دہی کریں گے۔ راجیو کمار نے بتایا کہ 15 جون کو اس چنائو کیلئے سرکولر جاری کیا جائیگا۔ 21 جون تک پرچۂ نامزدگی داخل کی جاسکتی ہے اور 2 جولائی تک امیدوار اپنا نام واپس لے سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ صدرِ جمہوریہ رام ناتھ کووِند کی معیاد 24 جولائی کو ختم ہورہی ہے۔ ***** ***** ***** ریاست کی 216 میونسپل کائونسلز اور نگر پنچایتوں کے اراکین کے انتخابات کیلئے آئندہ پیر 13 جون کو ریزرویشن کی قرعہ اندازی کی جائیگی۔ ریاستی انتخابی کمیشن نے کل ممبئی میں یہ اعلان کیا۔ اس قرعہ اندازی سے متعلق 15 تا 21 جون کے دوران اعتراض اور مشورہ داخل کیا جاسکتا ہے۔ اس قرعہ اندازی کیلئے ضلع کلکٹرس آج نوٹس جاری کریں گے۔ انتخابی کمیشن نے اپنے اشتہاری مکتوب میں بتایا کہ ان انتخابات کا آخری سرکولر یکم جولائی کو جاری کیا جائیگا۔ ***** ***** ***** ریاست میں 13 جون سے نئے تعلیمی سال کا آغاز ہورہا ہے۔ تاہم طلبہ کو 15 جون سے اسکول آنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ 13  اور 14 جون کو تدریسی اور غیر تدریسی عملہ اسکول پہنچے گا، جنھیں اسکول کی صفائی اور طلبہ کے صحت سے متعلق اُمور کی منصوبہ بندی کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ اسکول آنے والے طلبہ اور ان کے سرپرستوں کی کورونا وباء سے متعلق ذہن سازی کرنے کی ہدایت بھی اساتذہ کو دی گئی ہے۔ ودربھ میں گرمی کی تپش کے پیشِ نظر 23جون سے نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوگا جبکہ طلبہ 27 جون سے اسکول میں حاضر رہیں گے۔ ***** ***** ***** ضلع پریشد کے پرائمری اسکولس کے اساتذہ کے 2022 کے تبادلے اب آن لائن طریقۂ کار سے کیے جائیں گے۔ تبادلے کے اس آن لائن طریقۂ کار کا اجراء کل ممبئی میں دیہی ترقی کے ریاستی وزیر حسن مشرف کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں وزیرِ موصوف نے کہا کہ اس طریقۂ کار سے تبادلے کے عمل میں شفافیت آئے گی اور تیز رفتاری سے یہ عمل مکمل کیا جاسکے گا۔ ***** ***** ***** ریاست میں کل کورونا کے 2 ہزار 813 نئے مریض پائے گئے۔ جس کے بعد ریاست بھر میں اب تک اس وباء کے کُل متاثرین کی تعداد 79 لاکھ ایک ہزار 628 ہوچکی ہے۔ کل اس بیماری سے ایک مریض کی موت ہوگئی۔ ریاست میں اب تک اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 47 ہزار 866 ہوچکی ہے۔ ساتھ ہی کل ایک ہزار 47 کورونا مریض شفاء یاب ہوئے۔ ریاست میں اب تک 77 لاکھ 42 ہزار 190 کورونا مریض صحت یاب ہوکر گھر لوٹ چکے ہیں۔ فی الحال ریاست میں 11 ہزار 571 کورونا مریضوں کا علاج کیا جارہاہے۔ ***** ***** ***** مراٹھواڑہ میں بھی کل کورونا کے 10 نئے مریض سامنے آئے۔ اورنگ آباد ضلع میں 4‘ لاتور 3‘ عثمان آباد 2  اور بیڑ ضلع میں کورونا کا کل ایک نیا مریض پایا گیا۔ پربھنی‘ ہنگولی‘ جالنہ اور ناندیڑ اضلاع میں کورونا کا ایک بھی کیس کل درج نہیں ہوا۔ ***** ***** ***** ریاست کے چند علاقوں میں کل بارش ہوئی‘ جس کے سبب مختلف حادثوں میں 5  افراد ہلاک ہوگئے۔ احمد نگر ضلع میں کل برسات سے ایک گھر مسمار جانے کے سبب 3  افراد موقع پر ہلاک اور 2 شدید زخمی ہوئے۔ سنگم نیر تعلقے میں واقع تارہ مڑی بستی میں کل شام چار بجے کے قریب یہ حادثہ پیش آیا‘ جبکہ مال داڑ علاقے میں نیم کا درخت گرنے سے ایک خاتون کی موت ہوگئی۔ دوسری جانب ناسک تعلقے کے سنساری میں بجلی گرنے سے ایک خاتون ہلاک ہوگئی۔ اورنگ آباد شہر اور ضلع کے چند علاقوں میں کل شام زوردار بارش ہوئی اور بجلی کی سربراہی بند ہوگئی۔ جالنہ، پربھنی، ناندیڑ اور ہنگولی اضلاع میں کل تیز ہوائوں کے ساتھ برسات ہوئی۔ ***** ***** ***** ہریانہ میں جاری کھیلو انڈیا یوتھ مقابلوں میں کل مہاراشٹر کے کھلاڑیوں نے ایتھلیٹکس میں بہت��ین کارکردگی کرتے ہوئے 5 سونے کے تمغے جیتے۔ 200 میٹر کی دوڑ میں ستارا کی سدیشنا شیونکر نے طلائی تمغہ حاصل کیا۔ بچوں کے 200 میٹر دوڑ مقابلے میں پونے کے آرین کدم نے گولڈ میڈل جیتا۔ 4x400  اور 4x100 میٹر دوڑ مقابلوں میں ریاست کی خواتین کھلاڑیوں نے سونے کے تمغوں کی کمائی کی۔ اسی طرح تیراکی کے 400میٹر فری اسٹائل مقابلے میں ممبئی کی آنیہ والا اور 100 میٹر بٹر فلائے مقابلے میں اپیکشا فرنانڈیز نے سونے کے تمغے حاصل کیے۔ ***** ***** ***** دلّی میں کھیلے جارہے پہلے T-20 کرکٹ مقابلے میں جنوبی افریقہ نے بھارت کو 7 وِکٹوں سے شکست دے دی۔ بھارت نے پہلے بلّے بازی کرتے ہوئے طئے شدہ 20  اوورس میں 4 وِکٹوں کے نقصان پر 211 رن بنائے۔ جواب میں جنوبی افریقہ کی ٹیم نے 3 وِکٹوں کے نقصان پر 20  اوورس میں یہ ہدف پالیا۔ ***** ***** ***** ::::: سرخیاں:::::: آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر: ٭ راجیہ سبھا کیلئے مہاراشٹر کی 6 نشستوں کے انتخابات کی خاطر آج رائے دہی۔ ٭ قانون ساز کونسل کی 10 نشستوں کیلئے 13  اُمیدواروں نے داخل کی درخواستیں۔ ٭ صدرِ جمہوریہ کے چنائو کیلئے 18 جولائی کو رائے دہی۔ ٭ آئندہ 13 جون سے ریاست میں نئے تعلیمی سال کا آغاز؛ تاہم طلبہ کو 15 جون سے حاضری کی ہدایت۔ ٭ ریاست میں کل پائے گئے کورونا کے 2ہزار 813 نئے مریض؛ مراٹھواڑہ میں بھی 10 نئے متاثرین کا اضافہ۔ ٭ ریاست کے چند علاقوں میں بارش کا آغاز؛ برسات کے سبب مختلف حادثوں میں 5  افراد کی موت۔ اور۔۔٭ پہلے T-20 کرکٹ مقابلے میں جنوبی افریقہ نے دی بھارت کو شکست۔ ***** ***** *****
0 notes
selinbeautyir · 3 years ago
Photo
Tumblr media
┇ معرفی ریمل بل مدل فول لش : ( ولوم اپ ) ریمل بل مدل فول لش یا همان ریمل حجم دهنده ی بل مدل فول لش، علاوه بر حجم دهندگی موجب افزایش طول مژه ها نیز می شود. برس بزرگ و مویی ریمل بل مشکی مژه ها را از هم جدا کرده و همه مژه ها را بصورت یکنواخت پوشش می دهد. هم چنین ریمل بل با رنگدانه های بسیار مشکی جلوه ی فوق العاده ای به چشم ها و آرایش شما می دهد. از دیگر ویژگی های ریمل فول لاش بل می توان به سبک بودن آن اشاره ��رد که به هیچ عنوان روی مژه ها سنگینی نمی کند. ماندگاری بالای ریمل بل مدل فول لش موجب می شود که ریزش ندا��ته ک زیر چشمانتان را سیاه نکند. ریمل بل را به راحتی می توان با آب و سایر پاک کننده های آرایش، پاک کرد. ریمل حجم دهنده بل دارای مواد نایلونی یا الیاف ابریشم مصنوعی است که باعث افزایش حجم و طول مژه ها می‌شوند . ریمل فول لش بل سبب تقویت مژه های و جلوگیری از ریزش آن ها میشود. ویژگی ها: - حجم دهنده و بلند کننده مژه ها - حاوی ترکیبات تقویت کننده - پیشگیری از ریزش مژه ها - دارای رنگ کاملاً مشکی - دارای ساختار ابریشمی و یکدست - بافت سبک - رنگدانه مشکی ┇ ┇ ┇ 🔘 ┇خرید از سایت : Selinbeauty.ir ┇واتس اپ : 09023059097 ┇واتس اپ : 09306702005 ┇اینستاگرام : selinbeautyir@ #ریمل #ریمل_بل #ریمل_چشم #ریمل_حجم_دهنده #ریمل_فوللش #ریمل_فول_لش_بل #ریمل_بل_آلمان #ریمل_بل_اصل #ریمل_بل_مشکی #bell #bell_mascara #گالری_سلین #سلین_بیوتی (at Marvdasht) https://www.instagram.com/p/Cd5In9puUC5/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
emergingpakistan · 4 years ago
Text
جمی کارٹر : مونگ پھلی کی پیکنگ سے کرسی صدارت تک عزم وہمت کی حیرت انگیز داستان
یکم اکتوبر 1924ء کو جنم لینے والے سابق امریکی صدر جمی کارٹر 96 برس کے ہو گئے ہیں، وہ امریکہ کے عمر رسیدہ ترین سابق صدر ہیں۔ سابق امریکی صدور کے کلب میں جارج بش جونئیر (74 برس، 87 دن) ، بل کلٹن ( 74 برس ،43 دن ) اور باراک اوباما ( 59 برس 58 دن ) شامل ہیں۔ صدرٹرمپ (74 برس 109 دن) اس کلب میں شامل ہوں گے یا نہیں اس کا فیصلہ اسی سال نومبر میں ہو جائے گا، قرین قیاس ہے کہ شائد اس مرتبہ وہ سابق صدور کے کلب میں شامل ہونے سے بچ جائیں۔ آج ہم 96 بہاریں دیکھنے والے اس سپر پاور کے سابق صدر جمی کارٹر کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کریں گے، مونگ پھلی کے ایک عام تاجر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے اس ورسٹائل صدر نے ذریعہ معاش کے لئے متعدد پیشے اختیار کئے، خود ہاتھ سے کام کیا، مونگ پھلی پیک کر کے بیچتے رہے، لوہے کے کام میں والد کا ہاتھ بٹاتے رہے، باپ کی موت نے اندرسے توڑ دیا لیکن خود کو منظم کرتے ہوئے کئی پیشے اختیار کرنے کے بعد بالآخر کرسی صدارت پر فائز ہو گئے، وہ عزم ہمت کی زندہ مثال ہیں جس کا ظہار انہوں نے اپنی خود نوشت '' اے فل لائف‘‘ (A Full Life) میں بھی کیا ہے۔
کتاب کو پڑھنے سے ہم سابق صدر کی زندگی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، صرف اپنی محنت اور معاشرے میں مساوات قائم کرنے کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے جمی کارٹر امریکہ کے اعلیٰ ترین منصب کو پانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے نقش قدم پر چل کر آپ امریکہ کے صدر تو نہیں بن سکتے لیکن ایک محنتی اور محب وطن انسان ضرور بن سکتے ہیں۔ یہ بات بلا شک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ کرہ ارض کی طاقتور ترین شخصیت امریکی صدر ہی ہوتا ہے، جو اقوام متحدہ کے فیصلوں کو بدلنے اور دنیا میں من مانی کرنے کی طاقت رکھتا ہے، جمی کارٹر ان میں سے ایک تھے۔ طاقتور ترین صدر ہونے کے ناطے سمجھنا درست ہے کہ اس ملک کا صدر امیر ترین، اعلیٰ تعلیم یافتہ ، تربیت یافتہ اور صاحب اخلاق ہو گا، دنیا کی تاریخ کو بدلنے کی صاحیت رکھنے والا آدمی لیڈر شپ میں درجہ کمال پر ہو گا۔ لیکن جمی کارٹر سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے صدور میں سے نہیں تھے، امریکی پیمانے کے مطابق انہیں غریب کہا جا سکتا ہے، انہوں نے جارجیا میں آنکھ کھولی، ان کے والد مونگ پھلی کے عام سے تاجر تھے، نسلی پرستی کے خلاف سیاہ فاموں کی تحریک کا مرکز یہی ریاستیں تھیں۔ 
سماجی اونچ نیچ نے ان کے مزاج پر ہی نہیں ، بطور ان کے فیصلوں کو بھی متاثر کیا۔ جمی کارٹر نے ریاست سائوتھ جارجیا کے ایک انتہائی چھوٹے سے گائوں ''جارجیا پلینز ‘‘ میں آنکھ کھولی، آبادی 500 سے زیادہ نہ ہو گی۔ ہسپتال میں کارٹر کی پیدائش کے بعد ان کے والدین اپنی زرعی زمین پر منتقل ہو گئے تھے ۔ یہاں تین اور بہن بھائیوں نے پیدا ہونا تھا ۔ آرچری نامی اس علاقے کی آبادی 200 سے زیادہ نہ ہو گی۔ تعلیمی ترقی کے لئے جان لڑانے کے حوالے سے والد کی پوری ریاست میں کافی شناخت تھی۔ تعلیمی ترقی سے متعلق بورڈ کے ممبر بھی تھے۔ کارٹر نے صرف 5 برس کی عمر میں باپ جیمز ارل کارٹر کا ہاتھ بٹانا سیکھا۔ لوہار کے کام میں بھی والد کا ہاتھ بٹاتے ۔ جمی کارٹر کا بچپن اسی طرح گزر گیا۔ کھلونے خود بنا لیا کرتے تھے، والد پر کبھی بوجھ نہیں بنے۔ جمی کارٹر کی زندگی دوسرے کسانوں سے مختلف نہ تھی، وہی کھیتوں میں کام کرنا، مونگ پھلی کے پیکٹ بنانا اور ضرورت پڑنے پر خود ریلوے سٹیشن یا قریبی مارکیٹ میں جا کر فروخت کرنا۔ والد نے محنت سے کبھی جی نہیں چرایا۔ ڈیئری کی مصنوعات بنانے میں بھی ان کا ثانی نہ تھا۔ وہ گھر کا بنا ہوا کیچپ بھی فروخت کرتے ۔
جمی کارٹر کی والدہ (Lillian G. Carter) نرس تھیں، ڈاکٹر نہ ہوتا تب بھی علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑتیں۔ گھر میں ہوتیں تو 20 گھنٹے کام کرنا معمول تھا۔ معاشی دبائو کے دور میں انہوں نے کبھی کسی مریض کو مایوس نہیں لوٹایا، کسی کسان کے پاس علاج کے بدلے انڈے ہوتے تو بھی انکار زبان پر نہ لاتیں۔ مرغی ، چوزے بھی قبول کر لیتیں، معاوضے کے طور پر کھیت میں کام کرنے کی پیش کش بھی مان جاتیں۔ ان کے بچپن پر نسل پرستی کی چھاپ رہی، الگ الگ سکول اور گرجا گھر دیکھ کر ان کا دل بہت کڑھتا، کالے گوروں کے سکولوں تو کیا گرجا گھروں میں بھی قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔ حتیٰ کہ افریقی امریکن ووٹ کے حق سے بھی محروم تھے۔ آرچری میں 200 میں سے دو ہی خاندان گورے تھے، اسی لئے جمی کے تمام دوست سیاہ فام تھے۔ جیک اور رابرٹ کلارک پکے دوستوں میں شامل تھے، کبھی کبھی کام کاج میں دیر ہو جاتی تو جمی وہیں سو جاتا۔ اسی کو لے کر کارٹر کے گھر میں کھینچا تانی معمول کی بات تھی۔ والد سیاہ فاموں کو احترام ضرور دیتے تھے لیکن برابر نہیں مانتے تھے۔
والدہ سیاہ فاموں کو احترام بھی دیتی تھیں اور برابر کے حقوق کی بھی قائل تھیں۔ ایک روز افریقی امریکی بشپ کے بیٹے ایلون جانسن (Alvin Johnson) کی آمد کا سنتے ہی والد دوسرے دروازے سے کھسک گئے۔ سیاہ فاموں کا گوروں والے دروازے سے داخل ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ 14 برس کی عمر میں پیش آنے والے ایک واقعے نے جمی کارٹر کو ہلا کر دکھ دیا، کسی آفس میں داخل ہوتے وقت سیاہ فام یکدم پیچھے ہٹ گیا، اور انہیں راستہ دے دیا۔ سکول کی تعلیم اسی نسل پرستی کے سائے میں حاصل کی۔ 1952ء میں، انہوں نے لیفٹیننٹ کی حیثیت سے بحریہ میں شمولیت اختیار کر لی۔ بچپن میں لوہے سے کھلونے ��نانے کا شغل بہت کام آیا۔ 3.3 ارب ڈالر کی آبدوز جمی کی مدد کے بغیر بن ہی نہیں سکتی تھی۔ اسی لئے جمی کے نام سے منسوب ہوئی اور ''یو ایس ایس جمی کارٹر ‘‘ کہلائی۔ پتے کے سرطان میں مبتلا باپ کی 1953ء میں وفات کے بعد جمی بحریہ سے الگ ہو گئے۔ 1962ء میں ''ووٹرز فراڈ‘‘ کے ایشو پر انتخابات میں حصہ لینے والے جمی کارٹر جارجیا سے رکن سینیٹ منتخب ہو گئے۔ 1971ء میں اسی ریاست کے گورنر اور 1976ء میں صدر امریکہ بن گئے۔ 1978ء کا مصر اور اسرائیل کے مابین ہونے والا '' کیمپ ڈیوڈ معادہ ‘‘جمی کارٹر کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تھا، اور 2002ء میں جمی کارٹر کو امن کا نوبل انعام مل گیا۔
محمد ندیم بھٹی
بشکریہ دنیا نیوز
1 note · View note
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
گیس اور بجلی کی قیمتیں کیوں بڑھ رہی ہیں - توانائی کے بلوں میں اضافے کی وضاحت #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%da%af%db%8c%d8%b3-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a8%d8%ac%d9%84%db%8c-%da%a9%db%8c-%d9%82%db%8c%d9%85%d8%aa%db%8c%da%ba-%da%a9%db%8c%d9%88%da%ba-%d8%a8%da%91%da%be-%d8%b1%db%81%db%8c-%db%81%db%8c%da%ba/
گیس اور بجلی کی قیمتیں کیوں بڑھ رہی ہیں - توانائی کے بلوں میں اضافے کی وضاحت
Tumblr media Tumblr media
برطانیہ کے توانائی کی قیمت کی ٹوپیزیادہ سے زیادہ رقم ایک یوٹیلیٹی کمپنی فی سال ایک اوسط گاہک سے وصول کر سکتی ہے۔ بجلی اور گیس وہ استعمال کرتے ہیں، ابھی جائزہ لیا گیا ہے اور 54 فیصد اضافہ ہوا۔، جس کا مطلب ہے ایک تیز اضافہ گھریلو بل اس موسم بہار
1 اپریل سے، کیپ £1,277 سے بڑھ کر £1,971 ہو جائے گی اوسط استعمال پر ایک گھرانے کے لیے۔ یعنی اوسط گاہک کے لیے £693 سالانہ اضافہ۔
قبل از ادائیگی میٹر کے صارفین £708 کا اضافہ £1,309 سے £2,017 تک دیکھیں گے۔
جوناتھن بریرلی، انرجی ریگولیٹر کے چیف ایگزیکٹو آفجیم، نے کہا: “ہم جانتے ہیں کہ یہ اضافہ بہت سے لوگوں کے لیے انتہائی تشویشناک ہو گا، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اور Ofgem اس بات کو یقینی بنائے گی کہ انرجی کمپنیاں اپنے صارفین کی ہر طرح سے مدد کریں۔”
6 اگست 2021 کو ہونے والا آخری جائزہ بذات خود چھ ماہ پہلے کے مقابلے میں 12 فیصد یا £139 کا اضافہ تھا لیکن اس تازہ ترین پیشرفت کا مطلب صارفین کے لیے مزید بری خبر ہے جب رہن سہن کے اخراجات پہلے ہی تیزی سے بڑھ رہی ہے، افراط زر کی موجودہ سطح 5.4 فیصد سے بڑھ کر 7 فیصد سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔
مالی مدد کے بغیر، اس سال تقریباً 20 لاکھ مزید افراد کے ایندھن کی غربت میں ڈوب جانے کی پیش گوئی کی گئی ہے، یعنی مجموعی طور پر 60 لاکھ افراد اپنے گھروں کو گرمی اور بجلی کی فراہمی کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں گے۔
خیراتی اداروں نے بے روزگاری میں “ناگزیر” اضافے کے بارے میں خبردار کیا ہے کیونکہ سب سے کم آمدنی والے لوگ مناسب خوراک اور کپڑے جیسی دیگر ضروری اشیاء کے متحمل ہونے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔
چانسلر رشی سنک اس کے بعد سے اعلان کیا ہے کہ £150 کونسل ٹیکس کی چھوٹ بینڈ A سے D میں گھروں کو دی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ £200 ڈسکاؤنٹ پیش کرتے ہیں۔ بلوں پر
اس آرڈر کی حکومت کی حمایت یافتہ قر�� کی اسکیم پر تقریباً £5bn سے £6bn لاگت آئے گی، جو کہ توانائی کی صنعت کی طرف سے مانگے گئے £20bn سے بھی کم ہے، جو پہلے ہی جاری اعلانات کی تنقید کا نشانہ بن چکی ہے۔
Ecotricity کے باس ڈیل ونس نے پہلے ہی ان اقدامات کو “بہت کم، بہت دیر سے” کہا ہے۔
ہاؤس آف کامنز میں جواب دیتے ہوئے، لیبر کے شیڈو چانسلر ریچل ریوز اسی طرح مسٹر سنک کے منصوبوں کو “ابھی خریدیں بعد میں ادائیگی کریں اسکیم جو کل کے اخراجات کو لوڈ کرتی ہے” کہا۔
کم از کم 28 برطانوی سپلائرز 2021 میں بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے ٹوٹ گئے اور ان کے زندہ رہنے والے حریفوں نے بار بار حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انہیں اسی انجام سے بچانے کے لیے فوری طور پر مداخلت کرے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دیگر سیاسی آپشنز جو کھلے تھے۔ بورس جانسنکی انتظامیہ میں گھریلو بلوں پر 5 فیصد VAT کی شرح کو ختم کرنا، قابل تجدید توانائی کی اسکیموں کو فنڈ دینے والے ماحولیاتی لیویز کو معطل کرنا، بحیرہ شمالی میں کام کرنے والی تیل اور گیس کی فرموں پر ونڈ فال ٹیکس لگانا اور مذکورہ بالا رعایتی اسکیموں کو مزید خاندانوں تک پھیلانا شامل ہے۔
توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ دنیا بھر میں گیس کی تھوک قیمتوں پر نچوڑ ہے جس نے 2021 میں اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا تھا، جس کا ایک حصہ اس کے پھیلنے کے بعد اقتصادی باؤنس بیک کی تیز رفتاری کی وجہ سے ہوا تھا۔ کورونا وائرس عالمی وباء 2020 کے آغاز میں تاریخی طور پر کم عالمی توانائی کی کھپت کا سال بنا کیونکہ کاروبار بند ہو گئے اور ٹریفک ٹھپ ہو گیا۔
2020/21 میں شمالی نصف کرہ میں ہونے والی تلخ سردیوں کی وجہ سے اور ایشیاء، خاص طور پر چین میں، جہاں ائر کنڈیشننگ یونٹس کی مانگ میں موسم گرما کا تجربہ ہوا ہے، اس کی وجہ سے عالمی سپلائی پر مزید دباؤ کے ساتھ، اس کے مطابق، بحالی نے مانگ میں اضافہ دیکھا ہے۔ ��پچپا گرمی آسمان چھونے سے نمٹنے کے.
یورپ میں نسبتاً ہوا کے بغیر موسم گرما اور برازیل میں خشک سالی کا مطلب یہ بھی تھا کہ ٹربائنز اور پن بجلی سے ذخیرہ کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کی مقدار متوقع سے کم تھی۔
روسی گیس کمپنی Gazprom نے، اپنے طویل مدتی معاہدے کے وعدوں کا احترام کرتے ہوئے، مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ سے خود کو بچانے کے لیے یورپ میں اپنے ذخیرہ کرنے کی جگہوں کو معمول کی حد تک بھرنے سے انکار کر دیا اور نیدرلینڈز میں گروننگن فیلڈز کے بتدریج بند ہونے کا بھی اثر پڑا۔ .
آخر میں، بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق: “COVID-19 لاک ڈاؤن نے کچھ کو دھکیل دیا۔ [infrastructure] 2020 سے 2021 تک دیکھ بھال کا کام، جس کا وزن اس وقت سپلائی پر تھا جب طلب بحال ہو رہی تھی۔ شمالی سمندر کے کانٹینینٹل شیلف کے برطانیہ اور ناروے کے علاقوں میں اثر خاص طور پر نمایاں تھا۔ اس کے علاوہ، ایل این جی لیکویفیکشن پلانٹس میں غیر منصوبہ بند بندش، اپ اسٹریم سپلائی کے مسائل، مرمت کے غیر متوقع کام، اور پروجیکٹ میں تاخیر نے عالمی گیس مارکیٹ کو مزید سخت کر دیا۔
عوامل کے اس کامل طوفان کے نتیجے میں، گیس کی تھوک قیمتوں میں مبینہ طور پر اضافہ ہوا ہے۔ جنوری 2021 سے اب تک 250 فیصد اضافہ ہوا۔ اور صرف اگست میں 70 فیصد تک، دسمبر میں 450p فی تھرم کی ریکارڈ قیمت کو چھونے لگا۔
برطانیہ خاص طور پر اس سب سے سخت متاثر ہوا ہے کیونکہ 85 فیصد برطانوی گھر گیس سنٹرل ہیٹنگ پر چلتے ہیں اور اس لیے کہ ہم دونوں درآمدات پر انحصار کرتے ہیں اور سپلائی کو برقرار رکھنے کے لیے اسٹوریج کا انفراسٹرکچر ناکافی ہے۔
ان سب کے نتائج تقریباً 22 ملین گھرانوں کے لیے سنگین ہونے کی توقع ہے، جس سے پیسہ بچانے والے مشہور ماہر مارٹن لیوس حال ہی میں احتیاط کرنے کے لیے: “وہاں بہت سارے لوگ موجود ہیں جو اس اضافے کے متحمل ہوسکتے ہیں اور اسے پسند نہیں کریں گے، لیکن ایسے لاکھوں لوگ بھی ہیں جو ایندھن کی غربت میں ڈالے جائیں گے، جو گرمی اور گرمی کے درمیان انتخاب کرنے کے قریب پہنچ جائیں گے۔ کھانا.”
جیسا کہ آفجیم نے کیا ہے، مسٹر لیوس نے اپنے آئی ٹی وی شو کے ناظرین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے سپلائر سے ممکنہ ادائیگی کے منصوبوں کے بارے میں بات کریں اور گھرانوں کو مشورہ دیا کہ آیا وہ حکومت کے وارم ہوم ڈسکاؤنٹ یا سرمائی ایندھن کی ادائیگی کے اہل ہیں ��ا نہیں۔ ارد گرد خریداری کرنے کے لئے روایتی حکمت سے انکار ایک بہتر ڈیل کے لیے – فی الحال، وہ دستیاب نہیں ہیں۔
قیمت موازنہ سائٹ Moneysupermarket ہچکچاہٹ سے ہے اسی نتیجے پر پہنچا.
بی بی سی متعدد اقدامات تجویز کرتا ہے جو مل کر مدد کر سکتے ہیں۔ گھریلو بلوں کو £118 تک کم کریں۔: تھرموسٹیٹ پر درجہ حرارت کو ایک ڈگری تک گرانا (قابل £55 سالانہ)، صرف ایل ای ڈی لائٹ بلب استعمال کرنا (£30)، کھڑکیوں اور دروازوں کو ڈراؤٹ پروف کرنا (£25) اور ہفتے میں ایک بار کم واشنگ مشین یا ڈش واشر چلانا ( £8)۔
Source link
0 notes
sidrakhansblog · 3 years ago
Text
پا کستا ن کو ا مر یکی محبت لے ڈ و بے گی ، یا د ر کھنا ۔
ا بکی با ر ا مر یکہ بہت کا ر ی ضر ب لگا ئیگا ۔ ۔ ۔
لند ن سے فر یش فحش و یڈ یو ز کا سٹا ک جا تی امرا
پہنچ چکا ۔
چینی کمپنیا ں ا فغا نستا ن میں ، ا و ر ہم ؟
کرو نا کا نیا و ر ژ ن سا منے آ چکا ہے ، سا وُ تھ ا فر یقہ
سے ۔ ۔ ۔ جسکے بعد و ہی ر و ا یتی ا لجھنیں ، نیا لا ک
ڈ ا وُ ن شر و ع ہو نیو ا لا ہے ۔ ۔ ۔ ا سکے پیچھے کو ن
ا و ر و جو ھا ت کیا ہیں ، سب جا نتے ہیں ، ا س کیو جہ سے تیل کی قیمتیں عا لم ما ر کیٹ میں ا یکد م گر ی
ہیں 85 ڈ ا لر فی بیر ل سے 73 ڈ ا لر فی بیر ل پر آ
چکی ہیں ۔ ۔ ۔ د نیا پھر ز بر د ستی بند ہو نیجا ر ہی ہے،
سعو د یہ نے ا فر یقی مما لک سے فلا ئیٹس مکمل بند
کر د ی ہیں ۔ ا یسی صو ر تحا ل میں جب کا ر و با ر
سنبھلنے ہی شر و ع ہو ئے تھے ، آ ئ ا یم ا یف سے ا یک
ا ر ب ڈ ا لر کی قسط حا صل کر نے کیلئے ، مز ید ٹیکسز،
مہنگا ئ ، بجلی ، گیس رِ یٹس میں ا ضا فہ کیا جا ر ہا
ہے ۔ ۔ ۔ سٹیٹ بنک کی صو ر تحا ل با لکل و ا ضح نہیں ۔
ا پو ز یشن نا م کی کو ئ چیز نہیں بچی پا کستا ن میں ،
ا ہو ز یشن کا کر د ا ر آ ئ ا یم ا یف ا د ا کر ر ہا ہے یا یہ
حکو مت خو د ا پنی د شمن ہے ۔ ۔ ۔ ہر حو ا لے سے کھل
کر کھیلنے کا ما حو ل بنا کر د یا گیا ہے ، پی ٹی آ ئ کی
حکو مت کو لیکن ۔ ۔ ۔ کیا بد تر ین جملہ ، لکھو ں ؟
پٹر و ل ر یٹس کی کمی کے ا ثر ا ت پا کستا نی عو ا م
کو نہیں ملیں گے ، یہ بھی آ ئ ا یم ا یف کا کہنا ہے ۔
ا یک ا ر ب ڈ ا لر کی قسط کیلئے ، پا کستا نی عو ا م کے
سا تھ کتے و ا لی کیجا ر ہی ہے ۔ ۔ ۔ ا مر یکی محبت لے
کر ڈ و ب ر ہی ہے ، پا کستا ن کو ۔
ا و پر سے آ پ ا مر یکی پا بند یو ں کا شکا ر ہو نیو ا لے
ہیں ، ا مر یکہ ا ب آ پکو آ ئ ا یم ا یف کے ذ ر یعے ہا نکے
گا ، معیشت و ینٹی لیٹر پر مو جو د ۔ ۔ ۔ جسطر ح ا نڈ یا
کو فیصلہ کر نا تھا ر و س یا ا مر یکہ ، بھا ر ت غلط
فیصلہ کر گیا ا و ر بھا ر ت میں یہ فیصلہ غد ا ر ا ن
بھا ر ت نے کر و ا یا ، ر و س کو چھو ڑ ا مر یکہ کے کیمپ
میں جا گھسا ۔ ۔ ۔ آ ج بھا ر ت میں ہر طر ف تبا ہی ہی
تبا ہی ہے،ا گر خو شحا ل ہے تو و ہ طبقہ جو غد ا ر ی کی
و جہ سے ا پنے آ قا وُ ں سے مر ا عا ت یا فتہ ہے ۔ با لکل
ا یسے ہی آ ج پا کستا ن بھی ا سی د و ر ا ہے پر کھڑ ا ہے
چا ئنہ ، ر و س یا پھر ا مر یکہ ؟ محب و طنو ں ا و ر
غد ا ر و ں میں سے صر ف د یکھنا یہ ہے ، جیتتا کو ن
ہے ؟ ا مر یکہ کے پیچھے ا سر ا ئیل ہے ، بھا ر ت ہے ۔ ۔ ۔
ا مر یکہ آ ہستہ آ ہستہ پا کستا ن کو کمز و ر کر تے کر تے
با ت پا کستا نی نیو کلیئر ہتھیا ر و ں تک لا ئیگا ۔ ۔ ۔ ہم
نے لو ٹا ما ل و ا پس نہیں منگو ا نا ، لٹیر و ں کو سز ا
د یکر ما ل نہیں نکلو ا نا ، لٹیر ے پا کستا ن میں کس کے
نا معلو م با پ ہیں میں نہیں جا نتا ، ا ن لٹیر و ں کو
بچا نے کے چکر میں ا یک ا یک ا ر ب ڈ ا لر کی خا طر
آ ئ ا یم ا یف کے تلو ے چا ٹنے ہیں ، عو ا م کی ا یسی
کی تیسی کر د ینی ہے ۔ ۔ ۔ ملک ٹو ٹتا ہے خد ا نخواستہ
ٹو ٹ جا ئے ، عو ا م مر تی ہے مر ے ۔ ا مر یکی ، آ ئ
ا یم ا یف کے چنگل سے نہیں نکلنا ، لٹیر و ں کو نہیں
پکڑ نا ، نا پا کستا ن میں کسی ما فیا کو کچھ کہنا ہے ۔
مجھے کو ئ عقل کا ا ند ھا سمجھا ئے ، کب تک ملک
ا یسے چلے گا ؟ عو ا م کب تک بر د ا شت کر یگی
مظا لم ؟ ا گر عو ا م ا ٹھ کھڑ ی ہو ئ ، ملک ا نا ر کی
کیطر ف چلا گیا تو کیا یہ ر ا ، مو سا د ، سی آ ئ ا ے
کی سا ز ش ہو گی ؟ عو ا م کا خو ن چو س کر کپڑ ے
ا تا ر کر جو مہنگا ئ کے ز ر یعے طر ح طر ح سے پیسہ
نکلو ا یا جا ر ہا ہے ، یا تو و ہ قر ضو ں کی ا قسا ط کی
ا د ا ئیگی میں جا ر ہا ہے یا کر پشن میں ۔ عا م آ د می
تو کیا ا ب تو بہت سے خا ص بھی ر ل گئے ۔ ذ لا لت کی
ہر حد پا ر ہو چکی ، شر م نہیں آ ر ہی تو بے غیر ت
پا کستا نی ا شر ا فیہ کو ۔ ۔ ۔
آ پ کچھ ما ہ ر ک جا ئیں ، ا مر یکہ کیطر ف سے آ ئ
ا یم ا یف کے ز ر یعے شر ط آ نیو ا لی ہے ، ا پنی بر ی ،
بحر ی ، فضا ئ ا فو ا ج کا سا ئز کم کر یں ۔ آ ئ ا یس
ا ئ کو فلاں و ز ا ر ت کے ا نڈ ر کر یں ۔ ۔ ۔ پا کستا نی
نیو کلیئر ہتھیا ر و ں کیخلا ف پھر پر و پیگنڈ ہ شروع
ہو نیو ا لا ہے ، ا بکی با ر ا نکی کو شش ہو گی ، کا ر ی
ا و ر آ خر ی و ا ر ۔ ۔ ۔ یہ کرو نا کا مو جو د ہ و ا ر بھی
ا سی سلسلے کی ا یک کڑ ی ہے ۔ ۔ ۔ ا بھی بھی و قت ہے
ڈ بل گیم سے با ز آ جا وُ ۔ ۔ ۔ ا مر یکہ ، چا ئنہ کو ا کھٹا
نہیں چلا یا جا سکتا ۔ ۔ ۔ ا مر یکہ سے د و ر ہو جا وُ ۔
مر یم نو ا ز کی مکمل آ ڈ یو لیک کر کے پیغا م د یا جا
چکا ہے ، یہ آ ڈ یو ، و یڈ یو لیک کر نیکا کھیل بند کر و ،
لیکن ، ہر طر ف سے نا کا می ، ا ین آ ر ا و نہیں مل ر ہا ،
فحش و یڈ یو ز کی ا یک کھیپ لند ن سے جا تی ا مر ا پہنچ چکی ہے ، ا گلے پا نچ سے چھ ر و ز میں یہ
و یڈ یو ز منظر عا م پر لا ئ جا ئینگی ۔ ۔ ۔ ن لیگی سو شل
میڈ یا سیل نے ملک بھر میں مو جو د آ ڈ یو ، و یڈ یو
کے ز ر یعے عا م لو گو ں کو بلیک میل کر نیو ا لے بلیک
میلر ز گر و پس سے ر ا بطے کر لئے ہیں ، کسی بھی ا ہم
آ د می کی و یڈ یو مو جو د ہے تو ر ا بطہ کر یں ، منہ
ما نگے د ا م د یئے جا ئینگے ۔ ما ضی میں جج ا ر شد
ملک کی و یڈ یو کیسا تھ بھی یہی ہو ا تھا ۔ ۔ ۔
میر ی و ا ل پر چند د و ستو ں کی بڑ ی خو ا ہش تھی
کے ز بیر جیسی و یڈ یو ز ہو ں ا و ر کھل کر ہو ں ،
تو د و ستو آ پ کیلئے ، ہیپی نیو ز ، و یڈ یو ز آ ئیں کے
ا ئیں ۔ ۔ ۔
پا کستا نی اشر ا فیہ ، مقتد ر حلقو ں کو ا فغا ن
طا لبا ن سے کچھ سیکھنے کی ضر و ر ت ہے ، کس قدر
نا مسا عد حا لا ت ہیں ا فغا نستا ن کے لیکن ا فغا ن
عو ا م کیلئے بنیا د ی ضر و ر یا ت ز ند گی کی ا شیا ء
کے ر یٹس نہیں بڑ ھے ۔ ۔ ۔ چا ہتے تو طا لبا ن بھی ا ن
ڈ ا ئر یکٹ ٹیکس لگا کر عیا شی کی حکو مت کر سکتے
تھے ، لیکن ۔ ۔ ۔
چینی پا نچ بڑ ی کمپنیا ں ، لیتھیم کے ذ خا ئر نکا لنے
کیلئے ا فغا نستا ن پہنچ چکی ہیں ، پہا ڑ و ں سے نا یا ب
تر ین د ھا ت لیتھیم کے ذ خا ئر نکا لے جا ئینگے ۔
ا فغا ن طا لبا ن نے چا ئنہ کو ٹر یلینز آ ف ڈ ا لر ز کی یہ
د ھا ت نکا لنے کا ٹھیکہ د ید یا ۔ لیتھیم ا لیکٹر ک آ لا ت،
بیٹر یز ، ا لیکٹر ا نک کا ر ز ، مو با ئل فو نز میں ا ستعمال
ہو تی ہے ۔ ا یک ا ند ا ز ے کہ مطا بق ا فغا نستا ن میں
بیس ٹر یلین ڈ ا لر ز سے ز ا ئد کے لیتھیم کے ذ خا ئر
مو جو د ہیں ، لیتھیم کے پیچھے د نیا پا گل ہے ۔ ا مر یکہ
نے ا فغا نستا ن کے فنڈ ز منجمد کر د یئے تھے ، ا فغا ن
طا لبا ن کی لیڈ ر شپ میں سے کسی نے مجھے نا م یا د
نہیں آ ر ہا بیا ن د یا کے الله ہما ر ا مد د گا ر ہے ، چا ئنہ
ا فغا نستا ن پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ا فغا نستا ن کی مستقبل میں
پو ز یشن سعو د یہ و ا لی ہو نیجا ر ہی ہے ۔
ا فغا نستا ن گلو بل ا نر جی لیڈ ر بننے جا ر ہا ہے ، ا س
آ مد نی سے ا فغا نستا ن کو ر ی بلڈ بھی کیا جا ئیگا ۔
ا یک ہم ہیں ، پا کستا ن ا و ر ا سکی مکا ر و غد ا ر
ا شر ا فیہ ، ہما ر ے پا س بھی سب کچھ ہے ، ہر طر ح
کے جد ید تر ین ہتھیا ر ، بہتر ین فو ج ، ا لحمد للہ ۔ ۔ ۔
لیکن جو نہی تیل و گیس نکا لنے کی کو شش کر تے ہیں ،
ٹر ا ئیکا ہم پر جنگ مسلط کر نیکی کو شش کر تا ہے ، ہم
خو فز د ہ ہو کر د بک جا تے ہیں ، پھر آ ئ ا یم ا یف کی
گو د میں یا زلفو ں میں پنا ہ ڈ ھو نڈ تے ہیں ۔ ۔ ۔
جو ا لفا ظ میر ے ذ ھن میں آ ر ہے ہیں ، میں لکھنا نہیں
چا ہ ر ہا ، مگر پلیز آ پ لو گ سمجھ جا نا ۔ ۔ ۔
بین الاقوامی جرائد و سوشل میڈیا ریسر چ
آغا عاطف خان ۔ ۔ ۔
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
2020-21؛ جاری کھاتہ سرپلس سے خسارے میں چلا گیا - اردو نیوز پیڈیا
2020-21؛ جاری کھاتہ سرپلس سے خسارے میں چلا گیا – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  کراچی:  پاکستان کا جاری کھاتے کا خسارہ مالی سال 2020-21ء میں 1.85 ارب ڈالر رہا۔اس کی وجہ درآمداتی بل ک بڑھنا تھا۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے اور کورونا ویکسین کی شپمنٹس کی وجہ سے درآمداتی بل کا حجم وسیع  ہوا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ گذشتہ مالی سال کے ابتدائی 11 ماہ میں جاری کھاتہ فاضل ( سرپلس) رکارڈ کیا گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مالی سال��…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
alphapatterns · 4 years ago
Link
Tumblr media
  ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا چوتھا اہم مرحلہ/ حصہ، یعنی پے پر کلک۔
اگر آپ کے ڈیجیٹل مارکیٹنگ پراجیکٹ میں، پی پی سی ،یعنی Pay per click سروس شامل ہےتو لانحالہ آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ، آپ اس کا معاوضہ کیسے طے کریں گے ؟
آپ اس معاوضے کا تخمینہ آسانی سے اس طرح بھی لگا سکتے ہیں کہ پہلے آپ ان آن لائن سروسز جو بھی آپ نے استعمال کرنی ہے، اپنے پراجیکٹ میں، خواہ وہ فیس بک مارکٹنگ ہو، یو ٹیوب پر اشتہار چلانا ہو یا کوئ، اور پی پی سی سروس، ، کے ریٹ معلوم کرلیں، پھر اس کے حساب، آپ اپنے کلائنٹ کو معاوضہ بتائیں، یہ تو ہوا ایک بنیادی نکتہ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ہر مرحلے خواہ، وہ سوشل میڈیا مارکیٹنگ ہو، ویب سروسز ہو، ای میل مارکیٹنگ سروس ہو، پی پی سی ہو یا پھر ایس ای او یعی سرچ انجن آپٹی مائزیشن ، یعنی گوگل / سرچ انجن رینکنگ، بہر صورت، ہر طرح کی مارکیٹنگ سروس کے معاوضے کا فارمولا کم و بیش ایک جیسا ہی ہے۔ بنیادی طور پر آپ یہی دیکھتے ہیں، کہ آپ کی جیب سے کیا جارہا ہے اور آپ کی جیب میں آکیا رہا یے۔
پی پی سی یعنی پے پر کلک کی بات کی جائے تو اس سروس کے مختلف پرائس ماڈل مارکیٹ میں موجود ییں،یعنی معاوضوں کے تعین کا طریقہ کار موجود ہے۔ ان کو مختصرا دیکھیں گے ان کے فائدے نقصان سمجھیں گے ان کی جزئیات کو اسںطرح سمجھیں گے کہ، کچھ اگر آپ پہلی بار یہ سب سمجھنے جا رہے ہیں تو، کہیں کسی طرح کا ابہام نہ رہ جائے۔
لیکن اس سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ، پی پی سی سروسز میں کیا کیا شامل ہے، اور یہ آپ کے ڈیجیٹل مارکیٹنگ سروس پراجیکٹ کےلیے کیوں اہم ہے؟ کیوں کہ اکثر سوشل میڈیا مارکیٹنگ کرنے والے، اس سروس کو نظر انداز کردیتے ہیں یا اتنی اہمیت نہیں دیتے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ پی پی سی سروس کو شامل کیے بغیر بھی کام چلا سکتے ہیں۔ اکثر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا۔ جس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ 
اگر آپ ، ایک مارکیٹنگ ایججنسی کے مالک ہیں اور سوشل میڈیا مارکیٹنگ کے کاروباری پہلو سیکھنے کی نیت رکھتے ہیں تو ، یاد رکھیں ، یہ ہنر آپ کو ضرور آنا چاہئے ، ضروری نہیں کہ ، آپ کو ہر وقت اس کی ضرورت بھی پڑے ، لیکن ، کم از کم معلومات ضرور ہونی چاہئیں ، کیوں کہ اس کام میں کلائنٹ کی ڈیمانڈ یا اس کی مرضی کو آپ "ہاں" کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے -- یا ہاں نہیں کہہ سکتے تو اس سے وقت لیں ، لیکن ، یہ نہ کہیں کہ آپ کو "فلاں چیز نہیں آتی" 
پی پی سی سروس معاوضے -PPC Management Pricing Model 2021  اسکے فوائد و نقصانات 
درج ذیل طریقے ہیں ، جس کو اپناتے ہوئے ، لوگ پی پی سی یعنی پے پر کلک ، سروس کے معاوضوں کا تعین کرتے ہیں ۔اور آپ کو ، ان تمام معاوضوں کے طریقہ کار سے آگاہی ہونی چاہئے ۔
تاکہ اپنی سہولت کا ، پراجیکٹ کے لحاظ سے کوئِ چن سکیں ، جب ، پی پی سی مینیجمنٹ کی باری آئے ۔اور ظاہر سی بات ہے ، مختلف پی پی سی پرائس / معاوضے کا ماڈل ، اپنے اپنے فوائد اور نقصانات لیے ہوئے ہے ۔ آپ کو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ آپ کے لیے مناسب ترین کون سا ہے کچھ کمپنیاں ، / فری لانسر، ایک پی ڈی ایف کی صورت/ چارٹ کی صورت میں ، پی پی سی پیکجز مہیا کرتے ہیں ، جس میں لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ، فلاں پیکج لے کر فلاں فلاں سہولیات ملیں گی ، اور پھر ان سہولیات کی تفاصیل درج ہوتی ہیں ۔اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ، ہر طرح کے ماڈل کی کلائنٹ کے لحاظ سے ، مختلف خصوصیات ہوتی ہیں ، جو صرف مخصوص کلائنٹ یا کاروبار پر ہی لاگو ہوتی ہیں 
ان پیجیکز کی تفاصیل اس مضمون کا موضوع نہیں ، لیکن عمومی طور پر ، اس میں یہ معلومات ہوتی ہں مثلا اگر آپ ، بنیادی / سٹارٹر پیکج لیں گے تو
تقریبا بیس ہزار سے پچیس ہزار روپے ماہانہ میں آپ کو درج ذیل چیزیں ملیں گی ایک نیٹ ورک پر مارکیٹنگ یعنی کسی ایک جگہ پے پر کلک کی سروس فراہم کی جائیں گی ایڈ نیٹ ورک ، یعنی وہی ، فیس بک ، یوٹیوب ، انسٹا ، وغیرہ وغیرہ مارکیٹنگ کے دوران ، پچاس سے ساٹھ کی ورڈز کو ٹارگٹ کیا جائے ، جس کی بنیاد پر ، مارکیٹنگ مواد بنایا جائےگا ٹیکسٹ والے اشتہار ایک سے تین کے بیچ میں ہوں گے بینر ایک سے دو کے بیچ لوکیشن کی بیناد پر ، صارفین کو ٹارگٹ کرنے کی سہولت/سیٹنگ کی جائے گی حریف کا تجزیہ کاپی رائٹنگ یعنی اشہتار کے لیے کتنی ہوں گی گوگل کے اعداد شمار کا جائزہ اور بھی کافی کچھ اس پیکج میں شامل ہوگا
اسی طرح اگر اس سے اوپر والا پیکج ہو تو پچاس ہزار سے ستر ہزار روپے ماہانہ کے اندر اور بھی بہت سی سروسز ہیں جو مذکورہ پیکجچ میں موجود نہیں ، اور جو موجود ہین ان میں اضافہ ہوجاِئے گا ، جیسے ، بینر اگر اوپر تین ہیں تو ا س میں پانچ ہوجائین گے کی ورڈ اگر ساٹھ ہیں پچھلے پیکیج میں تو، اس میں سو ہوجائیں گے خیر ، پیکجز اسی طرح ہوتے ہیں پاکستانی مارکیٹ کے لحاظ سے 
اب اس میں بھی بہت سے ، فری لانسر وغیرہ ، وہی فی گھنٹے والا حساب رکھتے ہیں یا ، ہفتہ وار/ماہانہ وار بنیادوں پر بل بناتے ہیں ، لیکن ، اس میں ہوتا گھنٹوں کا حساب ہے ۔ یہ ٹھیک ہے ، لیکن ، اس میں کام نارمل سے ذرا کم رفتار پہ ہوتا ہے ، ضروری نہیں ہر کوئی ایسے کرے لیکن ، ظاہر ہے ، گھنٹے پورے اور پیسے پورے کرنے کے لی ، مینیج کیا جاتا ہے 
اس کا بہترین علاج اور حل یہ ہے کہ ، ماہانہ بنیادوں پر یا آغاز ایک ، فلیٹ/فکس ریٹ کرلیا جائے ، جس میں اس پوری مہم کا بنیادی سیٹ اپ ، اور کی مینیجمنٹ ، مانیٹرنگ اور رپورٹنگ ماہانہ وار فراہم کی جائے ، یہ والا ماڈل بہتر کام کرتا ہے ، لیکن یہ چھوٹے اور کم بجٹ والے کلائنٹ کے لیے مہنگا پڑتا ہے ، اور اگر کلائنٹ اچھا پیسے دینے والا ہو ، تو آپ بہت زیادہ فلیٹ ریٹ/فکس ریٹ نہیں دے سکتے کیوں کہ بنیادی سیٹ اپ پہ زیادہ سے زیادہ بھی آپ کتنا چارج کرلیںگے فکس ریٹ پر ؟ تو یہاں پھر آپ کو گھاٹا پڑ جاتا ہے ۔ 
ایک طریقہ جو فری لانسر اپناتے ہیں وہ ، اشتہاری مہم پر خرچ ہونے والی رقم میں سے کچھ فیصد لے لیتے ہیں یہ طریقہ بہتر ہے لیکن ، جب بجٹ کم ہو تو پھر ، سروس دینے والا گھاٹے میں ہرتا ہے ، یہ ضروری ہے کہ ، آپ اپنا معاوضے کا ماڈل ، اپنی ضروریات کے لیے ایسے طے کریں کے کہ وہ مفید بھی ہو ، اور قابل عمل بھی ۔آپ اور آپ کے کلائنٹ دونوں کے لیے جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ ، معاوضوں کا خاکہ ، کلائنٹ کے سامنے / ویب سائٹ پر ،چارٹ یا پی ڈی ایف کی صورت میں رکھ دیا جائے ، تو یہ مفید ثابت ہوتا ہے کہ وہ خود دیکھ لے کہ اسے کیا سوٹ کرتا ہے 
 اپنی سوشل میڈیا مارکیٹںگ ایجنسی - SMMA کے لیے ، پی پی سی یعنی پے پر کلک سروز کا معاوضہ کیسے طے کریں ؟ 
ویسے تو یہ ، کام کرنے سے ہی سمجھ میں آتا ہے ، تجربے کے ساتھ ساتھ ۔۔ اس میں بہترین سمجھوتا یہ ہے اور، ماہرین تجویز بھی یہی کرتے ہیں کہ ، شروع میں ہی ،کلائنٹ کے بجٹ کے مطابق، اس سے کا بجٹ پوچھیں ، اور یہ بتا دیں کہ آپ اتنے پیسے لگائیں گے تو آپ سے اتنا چارج کیا جائے گا جب کلائنٹ کے اخراجات/بجٹ کا خرچہ اس لمٹ یعنی جو شروع میں طے کی تھی اس تک پہنچے ۔
تو آپ اپنی طے شدہ رقم/فلیٹ / فکس ریٹ چارج کرنا شروع کردیں ۔ مثلا ، ا آغاز میں کلائنٹ یہ طے کرتا ہے کہ ، وہ کہ وہ ، پی پی سی مارکیٹنگ پر ایک ہزار ڈالر تک بجٹ لگائے گا تو آپ اس سے فلیٹ/فکس ریٹ آغاز میں طے کریں کہ اس لمٹ تک ، وہ آپ کو ، ایک سو اسی سے تین سو ڈالر تک دے گا 
اور جیسے ہی ، اس کا بجٹ ، ایک ہزار ڈالر سے اوپر گیا آپ فلیٹ / فکس ریٹ کے بجائے 
بات پرسینٹیج یعنی فیصد پر چلی جائے گی نارملی ، ساڑھے بارہ سے تیس فیصد تک ، جاتا ہے یہ حساب کتاب یعنی ایک ہزار ڈالر سے اوپر ہوا ، لمٹ کراس ہوئی بجٹ کی ، تو اب آپ اشہتارات کی مد میں لگنے والے پیسے کا ساڑھے بارہ سے تیس فیصد تک چارج کریں گے 
یہ پھر محنصر ہے آپ کی مہارت، تجربے ، کوالٹی اور وہ بجٹ سے کتنا اوپر جاتا ہے اس پر ۔ 
یا پاکستانی کلائنٹ کی بات کریں تو فرض کریں اس نے اپنی بجٹ لمٹ ،ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے بتائی ، پی پی سی مارکیٹںگ کے لیے کہ وہ اشہتاروں کی مد میں اتنا خرچہ کرے گا اس لمٹ تک تو آپ اسے فلیٹ /فکس ریٹ چارج کریں گے جو ، اٹھائیس /تیس ہزار سے لے کر پچپن ساٹھ ہزار تک جا سکتا ہے اب فرض کریں اس کی لمٹ ، ڈیڑھ لاکھ سے اوپر چلی گئی ، اس کا بجٹ دو لاکھ ہوگیا تو اب فلیٹ ریٹ/فکس ریٹ کے بجائے آپ مذکورہ طریقہ کے مطابق، فیصد پر آجائیں گے 
اس میں یہ بھی خیال رکھنا ہوتا ہے ک جیسے جیسے ، اشہتار پر لگنے والا کل بجٹ اوپر جا رہا ہوتا ہے ، ویسے ویسے ، آپ کا اپنا پرسنٹ نیچے آنا چاہئے ، ایک لاکھ بیس ہزار پر بیس فیصد ہوا تو دو لاکھ کر ، ہو سکتا ہے پندرہ فیصد ڈھائی لاکھ کر ، بارہ فیصد یہ کوئی فارمولا نہیں ، یہ نمبر فرضی ہیں ، لیکن طریقہ یہی ہے جو اوپر بیان کیا اور ظاہر سی بات ہے ، اشہتارات کی مد میں بڑھنے والے ، کلائنٹ کے اپنے اخراجات ، ضروری نہیں ، آپ کاکام بھی بڑھائیں ، اس لیے ، بہت زیادہ منافع بھی مناسب نہیں 
اورپھر اگر آپ کو ، رقم/معاوضے کا ایک مخصوص ہندسہ معلوم کرنا ہے ، تو پھر وہی سادہ سا فارمولا جو ان مضامین میں بارہا بیان کیا جاچکا جو ڈیجیٹل مارکیٹںگ سروس کے ہر مرحلے میں بتایا گیا ، کہ آپ کی قیمت پلس مارک اپ = معاوضہ پی پی سی سے متعلق ، اس فارمولے کو بھرنے کے لیے ، مزید تفاصیل تیرہویں قسط میں اس کے بعد، ہم بڑھیں گے درج ذیل موضوع ڈیجیٹل مارکٹنگ سروسز کے اہم ترین مراحل میں سرچ انجن آپٹی مائزیشن یعنی گوگل/سرچ انجن ، رینکنگ سروس کا معاوضہ کیسے طے کیا جاتا
جس میں ، ایس ای او ، کی بنیادی معلومات ، یعنی
 یہ سرچ انجن رینکنگ  ہوتی کیا ہے
 اس کی قسمیں کیا ہے 
مقامی ایس ای او
 آن پیج ایس ای او
آف پیج ایس ای او اور
 ایس ای او مینیجمنٹ میں کیا کیا شامل ہوتا ہے
 اور اس کے معاوضوں کا تعین کن کن عوامل کو دیکھتے ہوئے کیا جاتا ہے جیسے موضوعات پر نظر ڈالیں گے 
0 notes
shiningpakistan · 4 years ago
Text
بل گیٹس دنیا کے ہر فرد تک کورونا ویکسین پہنچانے کے لیے پرعزم
رواں ہفتے فائزر اور بائیو این ٹیک کے ساتھ روس کی جانب سے ویکسینز کے انسانی ٹرائل کے تیسرے اور آخری مرحلے کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے، جن میں انہیں کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے بہت زیادہ موثر قرار دیا۔ ان اعلانات کے بعد اب بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے دنیا میں ہر ایک تک کورونا ویکسینز کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے مزید 7 کروڑ ڈالرز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 12 نومبر کو جاری بیان میں ملینڈا گیٹس نے کہا 'کووڈ 19 ہر جگہ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہر ایک کو مساوی بنیادوں پر ٹیسٹوں، ادویات اور ویکسینز تک رسائی اس وقت حاصل ہو، جب وہ دستیاب ہو، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہوں'۔   اس فاؤنڈیشن کی جانب سے 5 کروڑ ڈالرز کوویکس ایڈوانس مارکیٹ کمیٹمنٹ گروپ کو دینے کا وعدہ کیا گیا جبکہ 2 کروڑ ڈالرز کی امداد کولیشن آف ایپیڈیمک پریپرڈینس انوویشنز کو دی جائے گی۔ بل اینڈ ملینڈا فاؤنڈیشن کے مطابق یہ دونوں ادارے ایک عالمی گروپ کووڈ 19 ٹولز ایکسیلریشن کی قیادت کر رہے ہیں جو دنیا بھر میں ہر ایک تک کووڈ 19 ٹیسٹوں، علاج اور ویکسینز کی مساوی رسائی کے لیے کام کر رہا تھا۔ اس سے قبل اگست میں بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے دنیا کے سب سے بڑے ویکسین تیار کرنے والے ادارے سے شراکت داری کی تھی تاکہ ترقی پذیر ممالک تک کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسین کو سستی قیمت میں فراہم کیا جاسکے۔ بل گیٹس نے اس موقع پر اعلان کیا تھا کہ وہ اور ان کا فلاحی ادارہ کورونا ویکسینز کو ت��سیم کرنے کے لیے 15 کروڑ ڈالرز خرچ کرے گا۔
اس مقصد کے لیے گیٹس فاؤنڈیشن اور بھارت سے تعلق رکھنے والے سیرم انسٹیٹوٹ کے درمیان شراکت داری ہو رہی ہے، جس کی جانب سے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں کورونا ویکسین کے 10 کروڑ ڈوز 3 ڈالر (5 سو پاکستانی روپے سے زائد) فی ڈوز کے حساب سے تقسیم کیے جائیں گے۔ اس شراکت داری کے تحت جب بھی کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے کسی ویکسین کو تیار اور استعمال کی منظوری مل جائے گی، تو 2021 کی پہلی ششماہی میں اس کے ڈوز تیار کرنے کا کام شروع ہو جائے گا۔ یہ معاہدہ اس وقت ہوا جب امیر ممالک جیسے امریکا اور برطانیہ کی جانب سے ادویات ساز کمپنیوں کی جانب سے تیار کی جانے والی ویکسینز کی پروڈکشن اور تقسیم کرنے کے حقوق خریدنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ گیٹس فاؤنڈیشن سیرم فاؤندیشن کے ساتھ کام کر کے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرے گا کہ کسی منظور شدہ ویکسین زیادہ قیمت کی وجہ سے غریب ممالک کی پہنچ سے دور نہ ہو جائے۔
ویسے تو اس حوالے سے ویکسینز ابھی تیاری کے مراحل سے گزر رہی ہیں مگر ادویات ساز کمپنیوں نے ایک ڈوز کی قیمت کا عندیہ دیا ہے۔ جیسے آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے دنیا بھر میں اپنی ویکسین فی ڈوز 3 ڈالرز میں فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کے مقابلے میں امریکا کی کمپنی موڈرینا کی جانب سے 2 ڈوز پروگرام کی لاگت 74 ڈالرز (لگ بھگ ساڑھے 12 ہزار پاکستانی روپے) لگائی گئی ہے۔ گیٹس فاؤنڈیشن کے اس منصوبے میں ویکسین الائنس گاوی کو بھی شامل کیا گیا جو ترقی پذیر ممالک کو ویکسینز فراہم کرنے والا ادارہ ہے اور اس سے سیرم انسٹیٹوٹ کو پروڈکشن گنجائش بڑھانے میں مدد ملے گی۔ بل گیٹس کا کہنا تھا کہ ہر ایک تک اس کی رسائی کو جلد از جلد یقینی بنانے کے لیے زبردست پروڈکشن گنجائش اور عالمی تقسیم کاری نیٹ ورک کی ضرورت ہے، اس شراکت داری سے دنیا کو یہ دونوں مل سکیں گے، یعنی سیرم انسٹیٹوٹ کا پروڈکشن سیکٹر اور گاوی کی سپلائی چین'۔
سیرم ویکسینز تیار کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے جو ہر سال مختلف ویکسینز کے ڈیڑھ ارب ڈوز تیار کرتا ہے۔ جولائی کے شروع میں بل گیٹس نے ایک آن لائن خطاب کے دوران کہا تھا کہ ورونا وائرس کے علاج کے لیے ادویات اور مستقبل میں ویکسین زیادہ پپیسے دینے والوں کی بجائے وہاں فراہم کرنے کی ضرورت ہے جہاں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہو گی۔ انہوں نے کہا 'اگر ہم ادویات اور ویکسینز کو زیادہ ضرورت مند افراد اور مقامات کی بجائے زیادہ بولی لگانے والوں کو دے دیں گے تو ہمیں زیادہ طویل، غیرمنصفانہ اور جان لیوا وبا کا سامنا ہو گا'۔ انہوں نے کہا 'ہمیں ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو مساوانہ طریقے سے ادویات اور ویکسینز کی سپلائی کے مشکل فیصلہ کر سکیں'۔ بل گیٹس اپریل میں اربوں ڈالرز ویکسیین کی تیاری پر خرچ کرنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے زیرتحت تیار ہونے والے کووڈ 19 ویکسین کے لیے 75 کروڑ ڈالرز دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ بل گیٹس کی جانب سے فراہم کیے جانے والے کروڑوں ڈالرز ویکسین کی 30 کروڑ ڈوز کی فراہمی کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔
اپریل میں انہوں نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے خلاف تیار کی جانے والی 7 بہترین ویکسینز کے لیے فیکٹریوں کی تعمیر پر اربوں ڈالرز خرچ کیے جائیں گے۔ بل گیٹس نے کہا کہ تیاری کے مراحل سے گزرنے والی متعدد ویکسینز میں سے 7 بہترین کا انتخاب اور ان کی تیاری کے لیے فیکٹریاں تعمیر کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا 'اگرچہ ہم آخر میں ان میں سے 2 کا ہی انتخاب کریں گے، مگر ہم تمام ویکسینز کے لیے الگ الگ فیکٹریوں کی تعمیر پر سرمایہ لگائیں گے، ہو سکتا ہے کہ اربوں ڈالرز ضائع ہو جائیں مگر آخر میں موثر ترین ویکسین کی فیکٹری کے لیے وقت ضرور بچ جائے گا'۔ ان کا کہنا تھا کہ ویکسین کی تیاری اور فیکٹری کی بیک وقت تعمیر کرنا، ویکسین کو تیزی سے تیار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کئی ماہ ضائع ہونے سے بچالیں گے کیونکہ اس وقت ہر مہینہ قیمتی ہے۔
بل گیٹس نے ایک بلاگ پوسٹ میں ویکسین کی تیاری اور تقسیم کے عمل پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے لکھا کہ ایک ویکسین کی تیاری میں 18 ماہ لگتے ہیں مگر ان کے خیال میں کورونا وائرس کے خلاف ویکسن جلد از جلد 9 ماہ یا زیادہ سے زیادہ 2 سال میں تیار ہو جائے گی۔ انہوں نے لکھا 'ابھی 115 مختلف کووڈ 19 ویکسینز تیاری کے مراحل سے گزر رہی ہیں، میرے میں ان میں سے 8 سے 10 زیادہ بہتر نظر آرہی ہیں اور ہمارا ادارہ ان سب پر نظر رکھے گا'۔ بل گیٹس نے کہا کہ بہترین ویکسینز کے لیے مختلف اقسام کی حکمت عملی پر عمل کیا جانا چاہیے تاکہ جسم کو کووڈ 19 کے خلاف تحفظ مل سکے۔ مگر کووڈ 19 کی ویکسین کے حوالے سے اہم ترین چیلنج یہ ہے کہ آج تک کسی کورونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ تاہم مائیکرو سافٹ کے بانی کا کہنا تھا کہ حالات اس وقت تک معمول پر نہیں آسکتے جب تک ایک ویکسین تیار نہیں ہو جاتی۔ انہوں نے کہا 'انسانیت کے لیے اس سے زیادہ فوری کام کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ کورونا وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کی جائ، اگر ہم معمول کی زندگی پر لوٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک محفوظ اور موثر ویکسین تیار کرنا ہو گی'۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes