#کچھوے
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 1 year ago
Text
ہندو دھرم میں خوش قسمتی کی علامت سمجھا جانے والا کچھوا معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار
خشکی کے جاذب نظررنگین کچھوے اسٹارٹورٹائزاپنے جسم پرستاروں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں،دنیا بھر میں مسکن کی تباہی اوربے دریغ شکار کی وجہ سے معدومیت سے دوچارہیں،ستارہ کچھوے پاکستان،بھارت اورسری لنکا میں پائے جاتے ہیں،ہندودھرم میں خوش قسمت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ بظاہردیگرکچھووں کی طرح سخت قسم کے خول میں موجود ہندوستانی کچھوےاسٹارٹورٹائزبظاہرتوخشکی پرپلتے ہیں،مگران کے جسم پربنے زرد رنگ کے ستارے ان کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 9 months ago
Text
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا
مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی
مارک ذکربرگ اور ایلون مسک کی شرکت اور قدرت کی ادھوری ادھوری تصویر۔۔
سعدیہ قریشی کے قلم سے۔
،،تصویر ادھوری رہتی ہے !
سعدیہ قریشی
رب کائنات نے زندگی کو ایسا ڈیزائن کیا ہے کہ تمام تر کامرانیوں اور کامیابیوں کے باوجود زندگی کی تصویر ادھوری رہتی ہے
کہیں نہ کہیں اس میں موجود کمی اور کجی کی ٹیڑھ ہمیں چھبتی ضرور ہے ۔
مارچ کے آغاز میں بھارت میں دنیا کی مہنگی ترین پری ویڈنگ تقریبات نے پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر بھی اس کا کافی چرچا رہا۔
بہت سی پوسٹیں ایسی نظر سے گزریں کہ ہمارے نوجوان آہیں بھرتے دکھائی دیے کہیں لکھا تھا بندہ اتنا امیر تو ہو کہ مارک زکر برگ اور ایلون مسک کو شادی پر بلاسکے ۔
یہ پری ویڈنگ تقریبات مکیش امبانی کے چھوٹے بیٹے اننت امبانی کی تھیں۔
مکیش امبانی ایشیا کے امیر ترین کاروباری اور دنیا کے امیر ترین لوگوں میں گیارویں نمبر پر ہیں وہ ریلائنس گروپ کے بانی اور چیئرمین ہیں.
پری ویڈنگ تقریبات کے لیے امبانی خاندان نے گجرات کے شہر جام نگر کو اربوں روپے لگا کر مہمانوں کے لیے سجایا۔
اس تقریب میں مہمانوں کو ڈھائی ہزار ڈشز ناشتے ،ظہرانے ۔شام۔کی چائے عشائیے اور مڈںائٹ ڈنر کے طور پر پیش کی گئیں
بھارت کے درجنوں اعلی درجے کے باورچی اور شیف جام نگر میں مہمانوں کے لیے کھانا بلانے کے لیے بنانے کے لیے بلائے گئےتین دنوں میں ایک ڈش کو دوسری دفعہ دہرایا نہیں گیا۔
تقریب میں تقریبا 50 ہزار لوگوں کے کھانے کا بندوبست کیا گیا۔
فلم انڈسٹری کے تمام سپر سٹار تقریب میں ناچتے دکھائی دئیے۔
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور ٹوئٹر خرید کر ایکس کی بنیاد رکھنے ایلون مسک اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ شریک ہوئے ٹرمپ کی بیٹی ایونکا ٹرمپ نے بھی خصوصی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی ۔
مہمانوں کو لانے اور لے جانے کے لیے چارٹر طیارے، مرسیڈیز کاریں اور لگزری گاڑیاں استعمال کی گئیں۔
2018 میں بھی مکیش امبانی نے اپنی بیٹی ایشا کی شادی پر اربوں ڈالرز خرچ کر کے پوری دنیا میں مہنگی شادی کا ایک ریکارڈ قائم کیا تھا ۔
اس شادی میں مہمانوں کو دعوت ناموں کے ساتھ سونے کی مالائیں بھی پیش کی گئی تھیں اور تمام مہمانوں کو شرکت کے لیے ان کو بھاری معاوضے دیے گئے تھے۔
ا خیال یہی ہے کہ اس تقریب میں بھی خاص مہمانوں شرکت کے لیے ریلائنس گروپ کی طرف سے ادائیگی کی گئی ہے ۔
دنیا بھر سے نامور گلیمرس شخصیات کی موجودگی کی چکاچوند کے باوجود اس تقریب کا مرکز نگاہ دولہا اننت امبانی اور دولہن رادھیکا مرچنٹ تھے ۔تقریب کے تین دن باقاعدہ طور پر ایک تھیم کے تحت منائے گئے ۔دولہا دلہن سے لے کر تمام لوگوں کے کپڑے اسی تھیم کے مطابق تھے تھیم کے مطابق تقریب کا کروڑوں روپے کا ڈیکور کیا گیا۔
تقریب کے دولہا اننت مبانی اس وجہ سے بھی خبروں کا موضوع رہے کہ وہ ایک خطرناک بیماری کا شکار ہیں۔ جس میں وزن بے تحاشہ بڑھ جاتا ہے۔ان کے ساتھ ان کی دھان پان سی خوبصورت دلہن دیکھنے والوں کو حیران کرتی
اننت امبانی کو شدید قسم کا دمے کا مرض لاحق ہے جس کا علاج عام دوائیوں سے ممکن نہیں ۔سو علاج کے لیے اسے سٹیرائیڈز دئیے جاتے رہے ہیں ۔ان میں سٹیرائیڈز کی ایک قسم کارٹیکو سٹیرائیڈز تھی سٹرائیڈز کی یہ قسم وزن بڑھنے کا سبب بنتی ہے ۔
اس سے انسان کی بھوک بے تحاشہ بڑھ جاتی ہے اتنی کہ وہ ہاتھی کی طرح کئی افراد کا کھانا اپنے پیٹ میں انڈیلنے لگتا ہے ۔
ایک طرف بھوک بڑھتی ہے تو دوسری طرف مریض کا میٹابولزم کچھوے کی طرح سست رفتار یوجاتا ۔میٹابلزم انسانی جسم کا وہ نظام ہے جس سے خوراک ہضم ہوتی ہے اور توانائی جسم کا حصہ بنتی ہے۔میٹابولزم اچھا ہو تو چربی توانائی میں تبدیل ہوتی ہے ۔
کارٹیکو سٹیرائڈز جسم کے نظام انہضام کو درہم برہم کردیتا ہے جسم کے اندر چربی جمع ہونے لگتی ہے اور جسم کئی طرح کی دوسری بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
مسلز پروٹین نہیں بنتی جس کے نتیجے میں جسم بے تحاشہ موٹا ہونے لگتا ہے
کورٹیکو سٹیرائڈز کے مزید برے اثرات یہ ہیں کہ جسم میں پانی جمع ہونے لگتا ہے جسے ڈاکٹری اصطلاح میں واٹر ریٹینشن کہتے ہیں اس واٹر اٹینشن کی وجہ سے بھی جسم موٹا ہونے لگتا ہے ۔
اسے قدرت کی ستم ظریفی کہیے کہ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کے مالک مکیش امبانی کا لاڈلا اور چھوٹا بیٹا ایک ایسی بیماری کا شکار ہے جس کے علاج کے لیے سٹیرائڈز کی تباہی کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا
۔اننت امبانی اپنی زندگی کے اوائل برسوں سے ہی اس بیماری کا شکار ہے اس کا اربوں کھربوں پتی باپ اپنے بیٹے کے بہلاوے کے لیے اپنے دولت پانی کی طرح بہاتا ہے۔
اس کے بیٹے کو ہاتھیوں سے لگاؤ ہوا تو مکیش امبانی نے ایکڑوں پر پھیلا ہوا ہاتھیوں کا ایک سفاری پارک بنادیا ۔اس سفاری پارک میں بیمار ہاتھیوں کے اسپتال ،تفریح گاہوں ،سپا اور مالش کا انتظام ہے ۔خشک میوہ جات سے بھرے ہوئے سینکڑوں لڈو روزانہ ہاتھیوں کو کھلا دیے جاتے ہیں۔
یہ صرف مکیش امبانی کے اپنے بیمار بیٹے کے ساتھ لاڈ کی ایک جھلک ہے۔
مگر وہ اپنی تمام تر دولت کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے مکمل صحت سے بھرا ایک دن نہیں خرید سکا۔
اننت امبانی نے تقریب میں ہزاروں مہمانوں کے سامنے اپنے دل کی بات کرتے ہوئے کہا کہ میری زندگی پھولوں کی سیج نہیں رہی بلکہ میں نے کانٹوں کے راستوں پر چل کر زندگی گزاری ہے
اس کا اشارہ اپنی خوفناک بیماری کی طرف تھا اس نے کہا کہ میں بچپن ہی سے ایک ایسی بیماری کا شکار تھا جس میں میری والدین نے میرا بہت ساتھ دیا۔
جب اننت امبانی یہ باتیں کر رہا تھا تو کیمرے نے ایشیا کے سب سے امیر ترین شخص مکیش امبانی کے چہرے کو زوم کیا اس کے گہرے سانولے رنگ میں ڈوبے
خدو خال تکلیف سے پگھل رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو رواں تھے
تکلیف اور بے بسی کے آنسو کہ وہ کھربوں ڈالر کے اثاثوں کے باوجود اپنے بیٹے کے لیے مکمل صحت سے بھرا ہوا ایک دن نہیں خرید سکا۔
رب نے دنیا ایسی ہی بنائی ہے کہ تصویر ادھوری رہتی ہے ۔اسی ادھورے پن میں ہمیں اس ذات کا عکس دکھائی دیتا ہے جو مکمل ہے!
سو آئیں مکیش امبانی کی دولت پر رشک کرنے کی بجائے اپنی زندگی کی ادھوری تصویر پر اپنے رب کا شکر ادا کریں کیونکہ تصویر تو اس کی زندگی کی بھی مکمل نہیں!
(بشکریہ کالم 92 نیوز سعدیہ قریشی)
منقول
4 notes · View notes
risingpakistan · 2 years ago
Text
ڈاکٹر اجمل ساوند کو مرنا ہی تھا
Tumblr media
نیٹ فلیکس کی ڈاکومینٹری ’’ہماری کائنات‘‘ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ آسٹریلیا کی گریٹ بیرئیر ریف کے طویل سفید ریتلے ساحل پر سبز دھاری دار کچھوے ہزاروں کی تعداد میں ایک مخصوص موسم میں خونی مچھلیوں اور شکاری پرندوں سے بچتے بچاتے آتے ہیں اور ہزاروں انڈے ریت میں دبا کے پھر نیلگوں سمندر کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں۔ سورج کی گرمی سے ریت میں دبے انڈوں سے نوزائیدہ بچے نکل کے جیسے ہی سمندر کی طرف دوڑ پڑتے ہیں تو فضا میں منڈلاتے بھوکے پرندے اور ساحل سے ذرا پرے منتظر بڑی مچھلیاں ان پر ایک ساتھ یلغار کر دیتے ہیں۔ ہزاروں نوزائیدہ کچھوؤں میں سے بمشکل چار پانچ ہی سمندر میں ��ترنے کے بعد زندہ رہتے ہیں اور ان میں سے بھی بہت کم طبعی عمر کو پہنچ پاتے ہیں۔ ہزاروں میں سے چار پانچ بچ جانے والے کئی کئی ہزار کلو میٹر تک سمندر چھاننے اور خطرات سے آنکھ مچولی میں ایک عمر گذارنے کے بعد دوبارہ انڈوں کا ذخیرہ پیٹ میں دبائے اپنی جنم بھومی کی جانب واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں تاکہ یہ انڈے اسی ریت میں دبا سکیں جس کی حدت سے انھوں نے کئی سال پہلے جنم لیا تھا۔ یہ سلسلہ لاکھوں برس سے اسی طرح چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔
جب مجھے ڈاکٹر اجمل ساوند کے قتل کی اطلاع ملی تو یہی کہانی یاد آ گئی۔ کتنی مشکل سے قبائلی ریت میں دبے ہزاروں انڈوں میں سے اجمل ساوند جیسے بچے نکلتے ہیں اور انھیں انتقام و جہالت و ذہنی پسماندگی و محرومی کے خمیر سے پیدا ہونے والے پرندے، شارکیں اور وہیل مچھلیاں چٹ کر جاتی ہیں۔ ہزاروں میں سے بمشکل پانچ دس بچے بچیاں آگے بڑھ پاتے ہیں اور ان میں سے بھی آدھے کسی حادثے یا غیر طبعی موت یا انتقام کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ مگر جو بچ جاتے ہیں وہ جبلت کے ہاتھوں مجبور ہو کے دوبارہ اپنی امنگوں کے انڈے لے کر اسی ریت کی طرف دوڑتے ہیں جس ریت سے وہ جنمے تھے۔ کشمور ، جیکب آباد ، شکار پور ، گھوٹکی ، سکھر ، لاڑکانہ یا شمالی سندھ کے دیگر اضلاع یا آس پاس کے اور اضلاع۔ شاید ہی کوئی قبیلہ دعویٰ کر سکے کہ اس کی کسی دوسرے قبیلے سے کبھی دشمنی نہ رہی ہو اور زن، زر، زمین اور انا کے منحوس چکر نے اس کے بچے نہ کھائے ہوں۔ لگ بھگ پندرہ برس قبل مجھے خیرپور کی شاہ عبداللطیف یونیورسٹی میں ’’ غیرت کے کاروبار‘‘ پر بی بی سی اور یونیورسٹی کے مشترکہ سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ زیادہ تر لڑکے لڑکیاں مقامی یا آس پاس کے اضلاع کے تھے۔ 
Tumblr media
یہ سب بچے مجھے ان نوزائیدہ کچھوؤں جیسے لگے جو آدم خور پرندوں اور جانوروں سے بچ کے علم کے سمندر میں اپنی شناخت ڈھونڈنے کے لالچ میں غوطہ زن ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ میزبانوں نے ایک درمیانے درجے کے قبائلی سردار کو بھی اس سیمینار میں بطور مرکزی مہمان مدعو کیا تاکہ کاروکاری ، سنگ چٹی ( تاوان میں لڑکیوں کو دی��ے کا رواج )، جرگہ، فیصلہ، بدلہ۔ ان سب کی فارسی سمجھ سکیں۔ سردار صاحب کو لڑکوں لڑکیوں نے گھیر لیا اور وہ وہ سوالات داغے کہ جنھیں اٹھانے کی جرات صرف جوان خون ہی کر سکتا تھا۔ سردار صاحب نے تسلیم کیا کہ یہ سب جہالت ہے جس کی آج کے زمانے میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ خونی گرداب پوری پوری نسلیں نگل رہا ہے مگر بقول سردار صاحب یہ رواج ، دشمنیاں ، غیرت کا جدی پشتی تصور اگلی نسل میں بھی چلے گا۔ بھلے ایک عام قبائلی لڑکا اور لڑکی کتنا بھی پڑھ لکھ جائے۔ بھلے سردار انگوٹھا چھاپ بھی ہو  مگر رہے گا وہ سردار۔ بھلے اس کا بیٹا اور پوتا آکسفورڈ سے بھی پڑھ کے آ جائے۔لیکن جب اپنے گاؤں آئے گا اور گدی پر بیٹھے گا تو روشن خیالی شہر میں ہی چھوڑ کے آنا پڑے گا۔ ورنہ ماحول اسے اور اس کی سرداری کھا جائے گا۔ اگر سب کچھ ٹھیک ہو گیا اور ویسے ہی ٹھیک ہو گیا جیسا آپ چاہتے ہو تو پھر سردار کو کون پوچھے گا۔
ڈاکٹر اجمل ساوند یا اس جیسوں کو ہوش سنبھالتے ہی اندازہ ہو جاتا ہو گا کہ انھیں انیسویں صدی پار کر کے بیسویں اور پھر اکیسویں صدی میں صرف اپنے ہی بل بوتے پر گھپ اندھیروں کو چیرتے ہوئے آگے جانا ہے۔ ڈاکٹر اجمل جب کیڈٹ کالج لاڑکانہ میں داخل ہوا ہو گا، جب مہران انجینئرنگ یونیورسٹی میں اپنا مستقبل کات رہا ہو گا، جب شاہ عنائیت جھوکی اور لطیف ، چومسکی اور ایڈورڈ گبن کو پڑھ رہا ہوگا۔ جب پیرس کی ڈیکارت یونیورسٹی میں مصنوعی ذہانت کے جن کو قابو میں لا کے اسے ڈاکٹریٹ کا لباس پہنا رہا ہو گا۔ اجمل جب مغرب سے حاصل کردہ سائنسی زاویہ نظر اپنے اندر سمو کر اکیسویں صدی سے واپس انیسویں صدی میں چھلانگ لگانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو رہا ہو گا۔ جب اپنے اردگرد کے چھوٹے چوٹے اذہان کو جگنو بنانے کے خبط میں مبتلا ہو کر واپس اپنی جنم بھومی کی طرف لوٹا ہو گا اور آئی بی اے سکھر میں بیٹھ کر اس دھوکے میں مبتلا ہوا ہو گا کہ اسے بھلا کون مارے گا ؟ اسے کون کسی اور کی دشمنی کی مشین میں ایک اور گنا سمجھ کے کیوں پیلے گا۔ تب اسے یہ تھوڑی معلوم ہو گا کہ جہالت کے ہاتھ میں تھمی بندوق کی ایک گولی اس کے پورے علم اور تمام خوابوں پر بھاری ہے۔
ایک سندرانی نے ایک ساوند کو مار دیا۔ کوئی ساوند پھر کسی سندرانی کو مار دے گا۔ ڈاکٹر اجمل کی خوش نیتی، تپسیا، درویشی، وطن پرستی اور علم شناسی گئی بھاڑ میں۔ وہ علامہ اقبال یا فراز فینن ہی کیوں نہ ہو مگر ہے تو ساوند۔ اور ساوند کوئی بھی ہو دشمن ہے۔ جیسے سندرانی کوئی بھی ہو، ہے تو ٹارگٹ وغیرہ وغیرہ۔  آسمان پر منڈلاتے خونی پرندوں ، ساحل کے آس پاس گشت کرتی شارکوں اور تاک میں بیٹھے مردار خور گدھوں کے جھنڈ کے لیے ڈاکٹر اجمل صرف ایک وقت کا رزق تھا اور بس۔ مگر اچھی خبر یہ ہے کہ کچھوؤں کے بچے پیدا ہوتے ہی سمندر کی طرف بھاگنا بند نہیں کر سکتے۔ بھلے ان میں سے دو چار ہی ڈبکی لگا پائیں۔ خیر اور شر کا ڈرامہ یونہی چلے گا۔ بس کردار بدلتے رہیں گے۔
وسعت اللہ خان 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
پاکستان میں کوئی من موہن سنگھ نہیں آئے گا
Tumblr media
نوے کی دہائی بہت ہی پرشور تبدیلیوں کا نقطہِ آغاز تھی۔ سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا۔ پرانا عالمی نظام بکھر رہا تھا اور نئے نظام کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ کویت پر صدام حسین کے قبضے کے سبب پورا خطہ بے یقینی کے دھاگے سے لٹک گیا تھا اور جنگ کے بادل گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ خود انیس سو اسی کی دہائی میں بھارت نے بے تحاشا غیر ملکی قرضے لیے مگر قومی پیداوار کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتی رہی اور اس رفتار پر بین الاقوامی مالیاتی حلقے ’’ہندو ریٹ آف گروتھ ‘‘ کی پھبتی کسنے لگے۔ بھارت انیس سو چوراسی میں اندراگاندھی کے قتل کے بعد سے مسلسل معاشی گرداب میں تھا۔ راجیو گاندھی کی حکومت بوفورز توپوں کے اسکینڈل میں بدنام ہو چکی تھی۔ انیس سو نواسی میں اس اسکینڈل زدہ حکومت کو شکست ہوئی اور کانگریس کے سابق باغی وزیرِ خزانہ وی پی سنگھ نے حکومت بنائی، مگر وہ حکومت پونے دو برس ہی چل پائی اور پھر جنتا دل کی اقلیتی حکومت کانگریس کی حمایت سے وجود میں آئی اور چندر شیکھر نومبر انیس سو نوے میں وزیرِ اعظم بنے، مگر وہ کانگریس کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے رہے۔
اقتصادی تصویر یہ بن رہی تھی کہ بھارت سیاسی و علاقائی بے یقینی کے ماحول میں بیرونی تجارت کے توازنِ ادائیگی، بجٹ خسارے، روپے کی گراؤٹ اور سوویت یونین سے مقامی کرنسی میں تجارت کے سوتے خشک ہونے کے سبب ایک گہری اقتصادی دلدل میں پھنس چکا تھا۔ حالت اتنی پتلی ہو گئی تھی کہ چندر شیکھر حکومت فروری انیس سو اکیانوے میں لوک سبھا سے قومی بجٹ تک منظور نہ کروا پائی۔ انیس سو اسی کی دہائی میں ترقیاتی ڈھانچے اور صنعت کاری کی جدت کے نام پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے جو بھاری مشروط قرضے لیے گئے اب ان کی واپسی کا مرحلہ درپیش تھا۔ سود چڑھتا جا رہا تھا اور قسطیں دینا مشکل تر۔ جنوری انیس سو اکیانوے میں ریزرو بینک آف انڈیا کے خزانے میں صرف ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر باقی تھے جو بمشکل ڈھائی سے تین ہفتے کی درآمدات کور کر سکتے تھے۔ مارکیٹ کو یقین ہو چلا کہ بھارت تاریخ میں پہلی بار دیوالیے پن کا اعلان کرنے والا ہے۔
Tumblr media
چنانچہ انتہائی اقدام کے طور پر سڑسٹھ ٹن سونا بینک آف انگلینڈ اور زیورخ کے یونین بینک کے پاس گروی رکھوایا گیا۔ اس کے عوض مئی کے مہینے میں آئی ایم ایف نے رعایتی شرح سود پر دو اعشاریہ دو بلین ڈالر کا ہنگامی قرضہ دینا منظور کیا تاکہ بھارت فوری ڈیفالٹ سے بچ جائے۔ اس دوران سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی عام انتخابات کی مہم کے دوران تامل ناڈو میں ایک جلسے میں ایک سری لنکن ٹائیگر کے خودکش حملے کا شکار ہو گئے۔ کانگریس نے چندر شیکھر کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیا اور ان کی جگہ جون میں کانگریس نے پی وی نرسیمہا راؤ کی قیادت میں مرکزی حکومت تشکیل دی۔ من موہن سنگھ کو وزیرِ خزانہ اور مونٹیک سنگھ اہلووالیہ کو ریزور بینک آف انڈیا کا گورنر مقرر کیا گیا۔ یوں بھارت ایک بند گلی سے کھلی اور اصلاحی معیشت کے دور میں داخل ہو گیا۔ روپے کی قدر میں بیس فیصد کمی کا اعلان ہوا اور اسے مارکیٹ کے مدو جزر پر چھوڑ دیا گیا تاکہ ڈبکیاں لگا کے خود ہی سرکار کی انگلی پکڑے بغیر تیرنا سیکھ لے۔
بھارت نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے کیے وعدوں کے مطابق معیشت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا۔ سرخ فیتے کی بابو گیری کو ڈھیلا کر کے سرمایہ کاروں کو سہولت و مراعات دینے اور دیگر بین الاقوامی منڈیوں سے سرمایہ دار کو کھینچنے کے لیے ون ونڈو آپریشن شروع کیا گیا۔ جب اصلاحات کا آغاز ہوا تو بھارت کے پاس ایک اعشاریہ دو بلین ڈالر کا زرِمبادلہ تھا۔ آج بھارت کے زرِ مبادلہ کے زخائر چھ سو پچیس بلین ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ انیس سو اکیانوے میں بھارتی معیشت کا پیداواری حجم دو سو چھیاسٹھ ارب ڈالر تھا۔ آج وہ چین اور جاپان کے بعد ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے جس کا معاشی حجم ساڑھے تین کھرب ڈالر سے اوپر ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بھارت میں انیس سو اکیانوے کے بعد جو جو بھی حکومتیں آئیں اور جس جس پارٹی کی بھی آئیں انھوں نے سیاسی و نظریاتی فرق کے باوجود بنیادی اصلاحی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے اپنی سائنس نہیں لڑائی اور نہ ہی اسے انا کا مسئلہ بنایا۔ بلکہ ہر حکومت اس اصلاحاتی عمل کا تسلسل برقرار رکھنے کی نئیت سے آگے ہی لے کر گئی۔
اگرچہ ان اصلاحات کے سبب بھارتی مڈل کلاس کا حجم گزشتہ تین دہائیوں میں تین گنا بڑھ چکا ہے، مگر طبقاتی عدم مساوات بھی بڑھی ہے۔ مثلاً انیس سو اکیانوے میں چوٹی کی دس فیصد آبادی میں دولت کا ارتکاز پینتیس فیصد تھا جو آج بڑھ کے پچپن فیصد تک پہنچ گیا ہے جب کہ انیس سو اکیانوے میں نچلے پچاس فیصد کمزور معاشی طبقے کی آمدنی بیس فیصد سے گھٹ کے آج تیرہ فیصد تک آ گئی ہے۔ لیکن یہ عدم مساوات طبقاتی ڈھانچے میں ارتقائی تبدیلی اور تعلیم و ہنرمندی کے فروغ اور بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب رفتہ رفتہ کم ہو سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھارت بطور ریاست اب دیوالیہ پن کے خطرے سے نکل کے ایک مضبوط معاشی قوت بننے کی راہ پر چل نکلا ہے۔ تاوقتیکہ سماج کو طرح طرح کے حیلوں سے تقسیم کرنے والی پالیسیاں آگے چل کے معیشت پر خود کش حملہ نہ کر دیں۔ پاکستان کو بھی ایک من موہن سنگھ اور مونٹیک سنگھ کی ضرورت ہے۔ ایسا نہیں کہ قومی درد رکھنے والے معاشی ماہرین اس ملک سے ناپید ہو چکے ہیں یا بیرون ملک خدمات انجام نہیں دے رہے یا وہ اس ملک کی حالت سدھارنے کے لیے واپس نہیں آنا چاہتے۔ 
مگر بھارت میں ایسے لوگوں کو پالیسی سازی اور اس پر عمل درآمد کے لیے کھلا ہاتھ دے دیا گیا۔ ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ ان ماہرین سے اتنا ہی استفادہ کرنے کی عادت میں مبتلا ہے جہاں ان مالیاتی و اصلاحی پالیسیوں سے خود حکمران اشرافیہ کے بنیادی انفرادی و اجتماعی مفادات متاثر نہ ہوں۔ جب تک یہ عادت نہیں چھوٹتی تب تک ہمیں کسی محمد شعیب، ایم ایم احمد، وی اے جعفری، اسد عمر، حفیظ شیخ، شوکت عزیز، شوکت ترین اور اسحاق ڈار پر ہی گذارہ کرنا پڑے گا۔ کوئی من موہن سنگھ سامنے نہیں آئے گا۔
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years ago
Text
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں کچھوے کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟
بڑھتے ہوئے درجہ حرارت میں کچھوے کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟
ویگو: آئندہ چند دہائیوں میں عالمی درجہ حرارت میں صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت کی نسبت 1.5 ڈگری سیلسیئس اضافہ متوقع ہے جس کے نتیجے میں ہونے والی فوری ماحولیاتی تبدیلی کے دنیا بھر میں جانوروں اور پودوں پر فوری تباہ کن اثرات کی توقع کی جارہی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ قدیم دور کے جانور ماضی میں ماحولیاتی تبدیلی سے کس طرح نمٹتے تھے،اور اس معلومات کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
sweettanya8 · 3 years ago
Photo
Tumblr media
‏‎#تانی_دے_دل_دی_گلاں غلط سمت میں آپ پوری رفتار سے جاؤ، تو بھی منزل نہیں ملے گی مگر درست سمت میں اگر کچھوے کی چال سے بھی چلو، تو بھی منزل مل ہی جائے گی https://www.instagram.com/p/CUUm5W5MCy8/?utm_medium=tumblr
2 notes · View notes
pakistantime · 3 years ago
Text
ہنگول : جنگلی حیات کی جنت, پاکستان کا سب سے بڑا قومی پارک
ہم میں سے بہت لوگ سرکاری سر پرستی کے ہر پارک کو قومی یا نیشنل پارک سمجھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ عالمی یونین برائے قدرتی تحفظ ( آئی یو سی این ) کے مطابق، '' ہر وہ پارک یا علاقہ قومی پارک کہلانے کا حق محفوظ رکھتا ہے جو نایاب بناتات، آبی اور جنگلی حیات کو ایسا موافق ماحول فراہم کرتا ہو جو ان کی بقا کا ضامن ہو۔ یہاں نہ کوئی درخت کاٹ سکتا ہو ، نہ جانوروں کا شکار اور نہ ہی یہاں کسی قسم کی کھدائی کر سکتا ہو۔ گویا یہاں فطرت اور قدرت کا قانون ہی نافذ ہوتا ہو۔ ‘‘ 
قومی پارکوں کی اہمیت: اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ سمندروں اور جنگلات کے بعد قومی پارک ہی ہیں جن کی بدولت انواع و اقسام کی آبی اور خشکی کی مخلوق کو قدرتی اور فطری ماحول میں پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ حیاتیاتی تنوع کے عالمی معاہدے کے تحت پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ آبی اور زمینی مخلوق کی بقا کے لئے محفوظ علاقوں میں بالترتیب 10 سے 15 فیصد تک اضافہ کرے۔ دنیا میں قومی پارک کا تصور سب سے پہلے 1810ء میں ولیم ورڈز ورتھ نے دیا تھا۔ جبکہ دنیا کا سب سے پہلا قومی پارک 1872 میں '' ییلو سٹون نیشنل پارک ‘‘ کے نام سے امریکہ میں قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت دنیا میں ساڑھے چھ ہزار کے لگ بھگ قومی پارکس ہیں جن میں سب سے بڑا پارک '' گرین لینڈ نیشنل پارک ‘‘ ہے۔ پاکستان میں اگرچہ اس وقت مجموعی طور پر 28 قومی پارک ہیں جن میں کیتھر قومی پارک، لال سوہانرا قومی پارک، خنجراب قومی پارک، چترال گول قومی پارک ، مارگلہ ہل قومی پارک، دیو سائی قومی پارک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ 
پاکستان کا سب سے بڑا قومی پارک : ہنگول قومی پارک پاکستان کے سب سے بڑے قومی پارک کا اعزاز یوں رکھتا ہے کہ یہ 6 لاکھ 19 ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ پارک کراچی سے 190 کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کی ساحلی پٹی پر واقع ہے۔ اس پارک کا نام اس کے جنوبی حصے میں بہنے والے دریائے ہنگول کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس پارک کو 1988ء میں قومی پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔
دریائے ہنگول چونکہ بحیرہء عرب کے ساحل کے ساتھ بہتا ہے اس لئے اسے یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہ بہت بڑی تعداد میں آبی پرندوں اور سمندری حیات کی محفوظ پناہ گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ پاکستان کا واحد قومی پارک ہے جو بیک وقت بلوچستان کے تین اضلاع آواران ، گوادر اور لسبیلہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی پر ہی بس نہیں بلکہ یہ اس لحاظ سے بھی ایک منفرد پارک ہے کہ یہ بیک وقت چار مختلف نوعیت کے ماحولیاتی نظام پر مشتمل ہے۔ اس میں دیکھنے کو جہاں صحرا ملیں گے وہیں آپ کو طویل پہاڑی سلسلہ بھی نظر آئے گا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق یہ پارک 289 کے لگ بھگ حیواناتی حیات اور 257 کے لگ بھگ نباتاتی انواع کا مسکن ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی ایک بڑا پارک ہے کہ اس میں آبی حیات، سمندروں اور خشکی پر رہنے والے جانور بشمول دنیا بھر سے آئے سینکڑوں قسم کے نایاب نسل کے پرندے کثرت سے شامل ہیں۔
اس سے بڑھ کر اس پارک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دنیا بھر میں معدومیت کی جانب جاتی آبی اور زمینی مخلوق اور نایاب پرندوں کی بہت بڑی محفوظ پناہ گاہ کی ش��اخت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس پارک کو جنگلی حیات کی جنت بھی کہتے ہیں۔ مارخور جو پاکستان کا قومی جانور کہلاتا ہے یہاں کی ماحول دوست فضا میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اڑیال، چنکارہ، بارہ سنگھا، پہاڑی بکرا، لومڑی ، گیدڑ، جنگلی بلی، وغیرہ بھی فراوانی سے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ رینگنے والے جانوروں میں دلدلی مگر مچھ , لمبی چھپکلی, موٹی زبان والی عجیب شکل کی چھپکلی, عجیب وغریب اقسام کے کچھوے, کوبرا ناگ اور دیگر بے شمار زمینی مخلوق ہر سو متحرک نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان گنت اقسام کی مچھلیوں کے علاوہ بے شمار آبی جانور پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں جہاں تک نباتات کا تعلق ہے ہنگول پارک میں بے شمار نایاب جڑی بوٹیاں ہر لمحہ مقامی طبیبوں اور علاقے کے باسیوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔
سیروسیاحت کے شائقین کہتے ہیں، اگر آپ جنگلی حیات کو قریب سے دیکھنے کے آرزو مند ہیں تو پاکستان میں ہنگول قومی پارک سے زیادہ موزوں اور کوئی جگہ نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قومی پارک میں ایک خوبصورت جھیل بھی اس کے حسن میں اضافہ کرتی نظر آتی ہے جسے '' ہنگول جھیل ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 
مٹی فشاں : یہاں کی ایک منفرد دریافت مٹی فشاں ہیں جو اب رفتہ رفتہ دریافت ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے بارے قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ زمانہء قدیم سے ہندو مت کے لئے مقدس جانے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک مٹی فشاں کا نام ہندو عقیدت مندوں نے '' چندر گپ ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ ہندو یاتری ابھی بھی دور دراز سے آ کر چڑھاوے کے طور پر اس میں ناریل ڈالتے رہتے ہیں۔ 
امید کی شہزادی : ہنگول پارک میں صدیوں سے چلتی آ رہی بڑی بڑی اور بلند و بالا پہاڑیاں اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہیں۔ ان پہاڑیوں نے جغرافیائی تبدیلیوں کے باعث اکثر مقامات پر انواع و اقسام کی قدرتی اشکال کا روپ دھار رکھا ہے۔ ایسے میں جب آپ کی نظریں انتہائی بلندی پر مغربی لباس میں ملبوس ایک خاتون کے مجسمے پر پڑتی ہیں تو آپ ششدر رہ جاتے ہیں۔ یہ مجسمہ جسے معروف اداکارہ انجلینا جولی نے 2004ء میں جب اپنے دورہء پاکستان میں پہلی مرتبہ دیکھا تو اس کے منہ سے بے اختیار '' پرنسس آف ہوپ ‘‘ نکلا۔ اسی دن سے اس پر کشش اور منفرد مجسمے کا نام '' امید کی شہزادی ‘‘ یا پرنسس آف ہوپ پڑ گیا۔ 
نانی ہنگلاج مندر : ہنگول پارک میں واقع ہنگلاج مندر ہندوؤں کا سب سے قدیم مندر ہے جس کے بارے تاریخ کی کتابوں میں سکندر اعظم کے جنرل موز کے حوالے سے پتہ چلا ہے جب اس نے ایک دفعہ یہاں کئی ہزار یاتریوں کو عبادت کرتے دیکھا تو اس نے کوئی مداخلت نہ کی۔ جس سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ یہ اس سے بھی کہیں قدیم دور پہلے تک موجود تھا۔ موجودہ دور میں یہ ہندو مت کی ایک اہم عبات گاہ اور اہم مندر تصور ہوتا ہے ۔
کنڈ ملیر کا ساحل: ہنگول قومی پارک سے تھوڑا پہلے '' کنڈ ملیر‘‘ نامی ایک انتہائی خوبصورت ساحل ہے جو قدرتی مناظر اور دلفریب نظاروں سے مالا مال ہے۔ ہنگول قومی پارک کے پہاڑوں ک�� درمیان موجود پر کشش درخت وہاں کی خوبصورتی میں اور اضافہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان درختوں کے درمیان بل کھاتی ہنگول جھیل اس پارک کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی نظر آتی ہے۔
خاور نیازی
بشکریہ دنیا نیوز
1 note · View note
alibabactl · 4 years ago
Text
جب چھوٹے تھے تو ہمیں یہ اصول معلوم نہیں تھا کہ الف پر ختم ہونیوالے مذکر کو مؤنث بنانا ہوتو اسکی آخری "الف" کو چھوٹی "ی" میں بدل دیتے ہیں لیکن اسکے باوجود ہم مرغا مرغی، بکرا بکری، گدھا گدھی یا گھوڑا گھوڑی کے معاملے میں کوئی غلطی نہیں کرتے تھے۔
البتہ جب چڑا چڑی اور کُتا کُتی تک بات پہنچتی تو استا�� کا غضبناک چہرہ دیکھنا پڑتا اور تذکیروثانیت کے وہ معصوم سے اصول جو ہم نے لاشعوری طور پر اپنا رکھے تھے، دُھوان بن کر اُڑ جاتے۔ اِس بات کا منطقی جواب کوئی نہیں دیتا تھا کہ چڑی کو چڑیا اور کُتّی کو کُتّیا کہنا کیوں ضروری ہے۔
ذرا اور بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ تذکیروثانیت کی دنیا تو پوری اندھیرنگری ہے۔ وہاں نر اور مادہ کے اصولوں کی کھُلی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔
مثلاً کوّا، اُلو، ہُد ہُد، خرگوش، لنگور، گِدھ، کچھوا اور مچھّر کے بارے میں پتہ چلا کہ اِن بے چاروں کی مؤنث شکل تو موجود ہی نہیں ہے۔ دِل میں بار بار خیال آتا کہ مسٹر خرگوش کے گھر میں کوئی مسِز خرگوش بھی تو ہو گی۔ لنگور کی بیوی، گِدھ کی ماں، کچھوے کہ بہن۔
کیا یہ سب ہستیاں وجود ہی نہیں رکھتیں؟ اور اگر ہیں تو اُن کیلئے الگ سے الفاظ کیوں موجود نہیں۔ اِس بےانصافی اور زیادتی پر ایک بار بہت گِڑگڑا کر اپنے اُستاد سے سوال کیا تو وہ غصے سے لال ہوکر بولے، "بے انصافی تو دونوں طرف سے ہے۔ مچھلی کے شوہر کا نام سنا ہے کبھی؟ وہ بھی تو وجود رکھتا ہے۔"
ہم لاجواب ہوگئے اوراُستاد جی نے پوری فہرست گِنوا دی "فاختہ، مینا، چیل، مُرغابی، ابابیل، مکھی، چھپکلی۔۔۔" استاد جی نے الٹا ہمیں سوال داغ دیا بتاؤ: کیا اِن سب کے باپ بھائی وجود نہیں رکھتے؟😜😜😜
#Copied
3 notes · View notes
queima-em-mim · 4 years ago
Text
کچھوے کی ہوشیاری - Life Tips
کچھوے کی ہوشیاری – Life Tips
بہترین زندگی کے راز, اسپیشل نفسیاتی مسائل کا حل , اپنی صحت بہتربنائیں, اسلام اورہم, ترقی کےراز, عملی زندگی کےمسائل اورحل, تاریخ سےسیکھیئے, سماجی وخاندانی مسائل, ازدواجی زندگی بہتربنائیں , گھریلومسائل, روزمرہ زندگی کےمسائل, گھریلوٹوٹکے اسلامی واقعات, کریئر, کونساپیشہ منتخب کریں, نوجوانوں کے مسائل , بچوں کی اچھی تربیت, بچوں کے مسائل , معلومات میں اضافہ , ہمارا پاکستان, سیاسی سمجھ بوجھ, کالم
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
سبز کچھووں کے 110 بچوں کا پہلا سفر، سکول طلبہ کو سمندری حیات کے مشاہدے کا دلچسپ موقع فراہم کیا گیا
سندھ وائلڈ لائف نے رواں سال انڈوں سے نکلنے والے سبزکچھووں کے 110بچوں کوزندگی کے نئے سفرپرسمندرمیں روانہ کردیا،کچھوے چھوڑے کی دوسری سرگرمی کے دوران مختلف اسکولوں کے بچوں کو بھی مدعو کیا،جھنوں نے ٹرٹلربیچ پرانڈے دینے کے لیے آنے والی مادہ کچھووں کا بھی مشاہدہ کیا۔ محکمہ جنگلی حیات نے گرین ٹرٹلز(سب کچھووں)رواں سال انڈوں سے نکلنے والے بچوں کو زندگی کے نئے سفرپرسمندرمیں آزادکیا. اس دلچسپ نظارے کو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 6 years ago
Text
معذور کچھوے کے لیے لیگو وہیل چیئر
معذور کچھوے کے لیے لیگو وہیل چیئر
کھلونوں کی مشہور بین الاقوامی کمپنی لیگو ایک معذور کچھوے کو سہارا دینے کا سبب بن گئی۔
18 سال کا یہ کچھوا سڑک کنارے اس حالت میں پایا گیا کی اس کا سخت خول ٹوٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے یہ ٹھیک سے چل نہیں پا رہا تھا۔
گو کہ کچھوؤں کا خول بہت سخت ہوتا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں اگر یہ کسی کشتی سے ٹکرا جائیں تو ان کا خول باآسانی ٹوٹ جاتا ہے۔
خول چونکہ کچھوے کے پورے جسم کو حفاظت فراہم کرتا ہے…
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 5 years ago
Text
مہمان صدر جو سوال چھوڑ گئے
ترک صدر رجب طیب اردوان‘ جو عالمِ اسلام کے سب سے مقبول حکمران سمجھے جاتے ہیں، اور جنہیں مسلمان عوام میں ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اسلام آباد کے دو روزہ سیاسی، جذباتی اور نفسیاتی دورے کے بعد واپس روانہ ہو گئے۔ ان کی اہلیہ اپنے سر کو پوری شدت سے ڈھانپے ہوئے ان کے ہمراہ تھیں۔ ان کے شوہر کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے اِس بات کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا کہ جمہوریہ ترکیہ کی خاتونِ اول اس حلیے میں بیرون ملک تو کیا اندرونِ ملک بھی منظر عام پر آ سکے گی۔ سر ڈھانپنا وہاں ''گناہِ کبیرہ‘‘ سمجھا جاتا تھا، اور کسی خاتون عہدیدار کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ اس حلیے میں اپنے فرائض ادا کرے۔ یہی پابندی سرکاری عہدیداروں کے اہل خانہ پر بھی تھی، تعلیمی اداروں تک میں طالبات سکارف نہیں ''اوڑھ‘‘ سکتی تھیں۔ 
کہا جاتا ہے کہ صدر اردوان کی اپنی دو بیٹیوں نے اس لئے امریکہ میں تعلیم حاصل کی کہ ترک یونیورسٹیوں میں وہ سکارف سمیت داخلہ نہیں لے سکتی تھیں۔ کئی برس پہلے ترک صدر سلیمان ڈیمریل پاکستان کے دورے پر آئے تو سیدہ عابدہ حسین ان کی وزیر مہمان داری تھیں۔ لاہور کے سٹیٹ گیسٹ ہائوس میں چند مدیران اخبارات کے ہمراہ ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ان دِنوں ترکی میں سکارف کے مسئلے پر بڑی گرما گرمی تھی۔ ان سے سوال کیا گیا کہ لباس کسی بھی شخص کا ذاتی معاملہ ہے، اگر کوئی عورت اپنا سر ڈھانپنا چاہتی ہے تو اس پر آپ کے ہاں اعتراض کیوں کیا جاتا ہے۔ وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو ان کی خدمت میں ایک ضمنی سوال پیش کر دیا گیا، سیدہ عابدہ حسین نے شاید مہمانِ گرامی کو مشکل سے نکالنے کے لئے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ چاہتے ہیں کہ مَیں سر ڈھانپ لوں۔ 
مَیں نے فوراً عرض کیا کہ مَیں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری مرضی کا لباس پہنیں، مَیں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ میری اہلیہ اگر سر ڈھانپے تو اس میں مداخلت نہ کی جائے... اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رجب طیب اردوان نے کس ماحول میں سیاست کا آغاز کیا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے منظر پر چھا گئے۔ اپنی سیاسی جماعت بنائی، ایک عشرے سے زائد وزیر اعظم رہے، اور اب صدرِ مملکت کے منصب پر فائز ہیں۔ دستور میں ترمیم کر کے صدر کے اختیارات میں اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اب ترکی میں صدر براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے، اور امورِ مملکت میں اس کا وزن وزیر اعظم سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں صدارتی نظام کئی بار قائم کیا گیا، فوجی صدور کو خاص طور پر یہ مرغوب و مطلوب رہا، لیکن کسی ایک صدر کو بھی ��راہِ راست عوام کے ووٹ حاصل کرنے کی توفیق نہیں ہو سکی۔ 
ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کے اسی ہزار ارکان کو اپنا حلقہ انتخاب بنایا، تو جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے یک طرفہ ریفرنڈم کے ذریعے اپنا سکہ چلایا۔ اس میں اکلوتے امیدوار ہی کو ووٹ دینا ہوتا تھا، سو دونوں ریفرنڈم اور ان کے نتائج ہماری تاریخ میں سوالیہ نشان بن کر رہ گئے۔ اگر عوام کو براہِ راست اپنے ووٹوں سے صدر منتخب کرنے کا موقع دیا جاتا، اور حکمران صدر کے مقابلے میں امیدواری ممنوع نہ ہوتی تو شاید پاکستان میں بھی پارلیمانی نظام کا نقشہ تبدیل ہو جاتا۔ رجب طیب اردوان ایک سیاسی رہنما ہیں، اور وہ بھی ایسے کہ کمال اتاترک کے بعد کا کوئی شخص ان کا ہم پلہ قرار نہیں پا سکتا۔ انہوں نے ترک سیاست کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ان سے پہلے ترکی سیاسی طور پر منقسم، اور معاشی طور پر غیر مستحکم تھا۔ اسلامی ثقافت کی علامتیں بھی اعتراض کی زد میں تھیں۔ 
اردوان کا ترکی ایک ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔ معاشی ترقی نے اسے معاشرتی اور سیاسی استحکام بھی عطا کیا ہے۔ ایک فوجی بغاوت کو عوامی مزاحمت کے ذریعے کچل کر ایک نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ اب اس کے رہنما بڑی سے بڑی طاقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں ان کا وزن دنیا بھر میں محسوس کیا جاتا ہے۔ ترکی گزشتہ دو عشروں میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا، لیکن پاکستان ابھی تک ایک قدم آگے، دو قدم پیچھے کی تصویر بنا ہوا ہے۔ اس کی معاشی مشکلات میں کمی آئی ہے، نہ سیاست میں ٹھہرائو پیدا ہوا ہے۔ آج بھی کاسۂ گدائی اس کے ہاتھوں میں ہے۔ آمدن کے مطابق خرچ ہے، نہ خرچ کے مطابق آمدن۔ ترکی کو چھوڑیے، یہ دیکھئے رینگنے والی بھارتی معیشت کی رفتار کیا ہے، اور بنگلہ دیش کس طرح چوکڑیاں بھر رہا ہے۔ کچھوے آگے نکل گئے ہیں، اور خرگوش میاں کے خراٹے ختم ہونے میں نہیں آ پا رہے۔ 
پاکستان کے سیاسی اور دفاعی ادارے تعلقات میں توازن ہی قائم نہیں کر پائے۔ یہاں ''میری مرضی‘‘ ''میری مرضی‘‘ کی گردان ہی چلتی رہی۔ ترک صدر نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں جس طرح مسئلہ کشمیر کو اپنا مسئلہ قرار دیا ہے، اور پاکستان کے ہر درد کو اپنا درد بنایا، اس نے ایک بار پھر کروڑوں پاکستانیوں کے دِل جیت لیے ہیں۔ کئی معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے، تجارت بڑھانے کے اعلانات کیے گئے، لیکن مہمانِ محترم جاتے ہوئے جو سب سے اہم سوال چھوڑ گئے ہیں، وہ یہی ہے کہ ترکی نے جو کر دکھایا ہے، وہ پاکستان بھی کر سکتا تھا، پھر یہ وہیں کا وہیں کیوں ہے؟ خود کو معتبر سمجھنے والے ہر شخص پر اس کا جواب واجب ہے۔ جب تک بڑے بن جانے والے یا بڑے کہلانے والے، اپنے اپنے گریبان کو ٹٹول کر جواب تلاش نہیں کریں گے، آگے نہیں بڑھ سکیں گے، پیچھے کی طرف سفر جاری رہا تو پھر ترکی بننے سے تو رہے۔
یہ نکتہ بھی ذرا نوٹ کرتے جائیے کہ ترک مہمان نے اپنی کسی تقریر یا گفتگو میں ایک لفظ بھی اپنی داخلی سیاست، اپنے حریف سیاست دانوں اور اپنے ملک کو درپیش مشکلات کے حوالے سے نہیں کہا، جبکہ ہمارے محترم وزیر اعظم جہاں بھی جاتے ہیں، اپنے دِل کے مبینہ داغ دکھاتے، اور پھپھولے پھوڑتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ رجب طیب اردوان جب گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان آئے، اور پارلیمنٹ سے خطاب کیا تھا تو تحریک انصاف نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا۔ داخلی سیاست کو اس وقت بھی سمیٹنے پر تیار نہیں ہوئی تھی۔ صد شکر کہ آج کی اپوزیشن نے کل کی اپوزیشن کو اس کے سکوں میں جواب نہیں دیا، اور پوری یکسوئی کے ساتھ مہمانِ عزیز کو محض حکومت کا نہیں ریاست کا مہمان سمجھا... اور اس کی راہ میں آنکھیں بچھائیں۔
مجیب الرحمٰن شامی
بشکریہ دنیا نیوز
1 note · View note
shoukatali · 3 years ago
Text
Born in 1832, oldest tortoise alive turns 190 in 2022
Born in 1832, oldest tortoise alive turns 190 in 2022
دنیا میں سب سے لمبی عمر  پانے والا کچھوا ’جوناتھن‘  190 برس کا ہوگیا۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق دنیا کے سب سے عمر  رسیدہ کچھوے کی پیدائش 1832 میں ہوئی تھی جو اب 190 برس کا ہوگیا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جوناتھن کو دنیا  میں سب سے لمبی عمر پانے والے کچھوے کاخطاب دیا گیا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق اس سے قبل سب سے لمبی عمر پانے والے کچھوے  ٹوئی مالیا کی عمر 188 برس…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
warraichh · 3 years ago
Text
کہتے ہیں ایک بچے نے کچھوا پال رکھا تھا، اُسے سارا دن کھلاتا پلاتا اور اُسکے ساتھ کھیلتا تھا۔
سردیوں کی ایک یخ بستہ شام کو بچے نے اپنے کچھوے سے کھیلنا چاہا مگر کچھوا سردی سے بچنے اور اپنے آپ کو گرم رکھنے کیلئے اپنے خول میں چُھپا ہوا تھا۔بچے نے کچھوے کو خول سے باہر آنے پر آمادہ کرنے کی بُہت کوشش کی مگر بے سود۔ جھلاہٹ میں اُس نے ڈنڈا اُٹھا کر کچھوے کی پٹائی بھی کر ڈالی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
بچے نے چیخ چیخ کر کچھوے کو باہر نکنے پر راضی کرنا چاہامگر کچھوا سہم کر اپنے خول میں اور زیادہ دُبکا رہا۔
بچے کا باپ کمرے میں داخل ہوا تو بچہ غصے سے تلملا رہا تھا۔
باپ نے بچے سے پوچھا؛ بیٹے کیا بات ہے؟
بچے نے اپنا اور کچھوے کا سارا قصہ باپ کو کہہ سُنایا، باپ نے مُسکراتے ہوتے بچے کا ہاتھ تھاما اور بولا اِسے چھوڑو اور میرے ساتھ آؤ۔ بچے کا ہاتھ پکڑے باپ اُسے آتشدان کی طرف لے گیا، آگ جلائی اور حرارت کے پاس ہی بیٹھ کر بچے سے باتیں کرنے لگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر گُزری تھی کہ کچھوا بھی حرارت لینے کیلئے آہستہ آہستہ اُن کے پاس آ گیا۔ باپ نے مُسکرا کر بچے کی طرف دیکھا جو کچھوے کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔
باپ نے بچے کو مُخاطب کرتے ہوئے کہا: بیٹے انسان بھی کچھوے کی طرح ہی ہوتے ہیں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ وہ اپنے خول اُتار کر تمہارے ساتھ کھلے دِل سے ملیں تو اُنہیں اپنی مُحبت کی حرارت پہنچایا کرو، ناکہ اُنہیں ڈنڈے کے زور پر یا اپنا حُکم چلا کر۔
پُر کشش اور جادوئی شخصیت والے لوگوں کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ:
زندگی میں لوگوں کو اپنی مُحبت کی حِدت اور اپنے جذبات کی گرمی پہنچا کر اُنہیں اپنا گرویدہ بناتے ہیں، اُن کی تعریف و تحسین اور قدر سے اُن کے دِلوں میں اپنے لئے پیار اور چاہت کے جذبات پیدا کرتے ہیں اور پھر اِنہی جذبات کے بل بوتے پر اُن پر اور اُنکے دِلوں پر حکومتیں کرتے ہیں۔
اور انسانی مخلوق تو ہے ہی ایسی کہ کوئی بھی اُسکے دِل میں گھر نہیں کر سکتا سوائے اِس کے کہ اُس کے ساتھ جذبات کی گرمجوشی، سچے دِل اور روح کی پاکی��گی کے ساتھ مِلا جائے.
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
عائشہ عمر کی کچھووں کے ساتھ پیراکی اور لنچ کی ویڈیو وائرل - اردو نیوز پیڈیا
عائشہ عمر کی کچھووں کے ساتھ پیراکی اور لنچ کی ویڈیو وائرل – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین پاکستانی ٹیلی ویژن اور فلموں کی اداکارہ عائشہ عمر مشرقی افریقی ملک تنزانیہ پہنچ گئیں۔ اداکارہ عائشہ عمر نے ہفتے کو اپنے انسٹا گرام پر ایک ویڈیو شیئر کی جس میں وہ انہیں تالاب میں تیراکی کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی تیراکی کے دوران بہت سارے کچھوے بھی پانی میں ان کے ساتھ موجود ہیں۔   View this post on Instagram   A post shared by Ayesha Omar…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
maqsoodyamani · 3 years ago
Text
دنیا کا سب سے بڑا ایکوریم عوام کے لیے کھول دیا گیا
دنیا کا سب سے بڑا ایکوریم عوام کے لیے کھول دیا گیا
دنیا کا سب سے بڑا ایکوریم عوام کے لیے کھول دیا گیا   ابوظبی،16نومبر ( آئی این ایس انڈیا )   ابوظہبی میں دنیا کے سب سے بڑے اور مہنگے ایکوریم کو عوام کے لیے کھول دیا گیا۔میڈیارپورٹس کے مطابق 25 ملین لیٹر پانی میں 68 ہزار سمندری حیات رکھی جائیں گی۔ جس میں شارک، اسکولز آف فش، منٹاریز اور سمندری کچھوے شامل ہیں۔نیشنل ایکوریم ابوظہبی میں دنیا کا سب سے بڑا سات میٹر لمبا سانپ رکھا گیا ہے۔ سپر اسنیک نامی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes