Tumgik
#کووڈ 19
urduchronicle · 8 months
Text
نیوزی لینڈ کے اوپنر ڈیوڈ کونوے کووڈ 19 کا شکار
نیوزی لینڈ کے اوپنر ڈیون کونوے کو کووڈ 19 کے لئے مثبت ٹیسٹ کے بعد جمعہ کو کرائسٹ چرچ میں میچ سے چند گھنٹے قبل پاکستان کے خلاف چوتھے ٹی 20 انٹرنیشنل سے باہر کردیا گیا۔ نیوزی لینڈ کرکٹ (این زیڈ سی) نے ایک بیان میں کہا ، “کونوے کل مثبت ٹیسٹ کے بعد ٹیم کے کرائسٹ چرچ ہوٹل میں آئسولیشن میں تھے۔” “پاکستان کے خلاف اتوار کو ہونے والے فائنل میچ سے پہلے ان کی نگرانی جاری رہے گی۔” کینٹربری کنگز کے بلے باز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
کون سے ترقی پذیر ممالک قرضوں کے مسائل کی گرفت میں ہیں؟
Tumblr media
آئندہ ماہ انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں ہونے والے جی20 سربراہی اجلاس کے دوران متعدد ترقی پذیر ممالک کو درپیش قرضوں کے مسلسل اور نقصان دہ مسائل اہم موضوع ہوں گے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان سمیت کئی ممالک اس وقت قرضوں کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان پاکستان کو مالی سال 2024 کے لیے بیرونی قرضوں اور دیگر بلز کی ادائیگی کے لیے 22 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نگران حکومت قائم ہے جو آئین کے مطابق 90 دنوں میں انتخابات کرانے کی ذمہ دار ہے۔ پاکستان میں افراط زر اور شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ملک 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد سے تعمیر نو کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جون میں آخری وقت پر تین ارب ڈالر کا بیل آؤٹ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بالترتیب دو ارب ڈالر اور ایک ارب ڈالر پاکستان کے مرکزی بینک میں جمع کروائے ہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جو کم ہو کر 3.5 ارب ڈالر رہ گئے تھے وہ اگست کے آخر تک بڑھ کر 7.8 ارب ڈالر ہو گئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس انتخابات کروانے کے وسائل موجود ہیں لیکن اس بارے میں بڑے سوالات موجود ہیں کہ وہ بڑی امداد کے بغیر کب تک ڈیفالٹ سے بچ سکے گا؟
زیمبیا زیمبیا پہلا افریقی ملک تھا جس نے کووڈ 19 کے وبائی مرض کے دوران ڈیفالٹ کیا۔ حالیہ مہینوں میں طویل عرصے سے انتظار کے بعد ہونے والی پیش رفت کے بعد بالآخر بحالی کے منصوبے پر کام کرنا شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جون میں زیمبیا نے قرضے دینے والے ملکوں کے گروپ ’پیرس کلب‘ اور چین کے ساتھ 6.3 ارب ڈالر کے قرضے کا معاہدہ کیا۔ تفصیلات پر ابھی کام کیا جا رہا ہے لیکن حکومت کو یہ بھی امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں بین الاقوامی فنڈز کے ساتھ معاہدے کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جن کے پاس اس کے غیر ادا شدہ بانڈز موجود ہیں۔
Tumblr media
سری لنکا سری لنکا نے جون کے آخر میں قرضوں کی ادائیگی کے منصوبے کا اعلان کیا اور اس کے بعد سے پیش رفت جاری ہے لیکن ہر شعبے میں ایسا نہیں ہے۔ سری لنکا ڈویلپمنٹ بانڈز (ایس ایل ڈی بی۔ امریکی ڈالرمیں جاری کیے گئے بانڈز) کے تقریباً تمام مالکوں نے سری لنکن روپے میں پانچ نئے بانڈز کے بدلے ان بانڈز کے تبادلے یا تجارت پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ان نئے بانڈز کو مختلف اوقات میں واپس کرنا ہو گا۔ یہ بانڈ 2023 سے 2025 کے درمیان مچور ہو جائیں گے۔ داخلی قرضوں کے منصوبے کے ایک اور حصے کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم ٹریژری بانڈز کے تبادلے کی اہم ڈیڈ لائن تین بار تاخیر کا شکار ہوئی اور اب 11 ستمبر کو مقرر کی گئی ہے۔ سری لنکا کے مرکزی بینک کے سربراہ نندا لال ویرا سنگھے نے کہا ہے کہ انڈیا اور چین جیسے سری لنکا کے بڑے غیر ملکی قرض دہندگان بات چیت جاری رکھنے سے پہلے داخلی قرضوں کا معاملہ ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات 14 سے 27 ستمبر تک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے 2.9 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کے پہلے جائزے کے موقعے پر ہوں گے۔ اس وقت تک ملکی قرضوں کا معاملہ نمٹانے میں ناکامی کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی طرف سے ادائیگیوں اور قرض دہندگان کے ساتھ بات چیت دونوں میں تاخیر ہوسکتی ہے۔   گھانا گھانا نے گذشتہ سال کے آخر میں اپنے زیادہ تر بیرونی قرضوں کی ادائیگی نہیں کی۔ یہ چوتھا ملک ہے جس نے مشترکہ فریم ورک کے تحت دوبارہ کام کرنے کی کوشش کی اور اگلے تین سال میں بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگیوں میں 10.5 ارب ڈالر کی کمی لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ گھانا کی پیش رفت زیمبیا جیسے ممالک کے مقابلے میں نسبتا تیز رہی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں پنشن فنڈ کے قرضوں کے تبادلے کے آپریشن اور ڈالر بانڈز کے تبادلے کے ذریعے اپنے داخلی قرضوں میں سے تقریباً چار ارب ڈالر کے قرضے نمٹانے پر اتفاق کیا ہے۔   تیونس یہ شمالی افریقی ملک جو 2011 کے انقلاب کے بعد سے متعدد مسائل کا سامنا کر رہا ہے اب اسے ایک مکمل معاشی بحران کا سامنا ہے۔ زیادہ تر قرضے داخلی ہیں لیکن غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اس سال کے آخر میں ہونی ہے اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے کہا ہے کہ تیونس ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ تیونس کے صدر قیس سعید نے آئی ایم ایف سے 1.9 ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے درکار شرائط کو ’احکامات‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان شرائط پر پورا نہیں اتریں گے۔ سعودی عرب نے 40 کروڑ ڈالر کے آسان قرضے اور 10 کروڑ ڈالر کی گرانٹ کا وعدہ کیا ہے لیکن سیاحت پر انحصار کرنے والی معیشت درآمدی خوراک اور ادویات کی قلت سے دوچار ہے۔ یورپی یونین نے تقریبا ایک ارب یورو (1.1 ارب ڈالر) کی مدد کی پیش کش کی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ زیادہ تر آئی ایم ایف معاہدے یا اصلاحات سے جڑی ہوئی ہے۔   مصر مصر ان بڑے ممالک میں سے ایک ہے جسے مشکلات کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔ شمالی افریقہ کی سب سے بڑی معیشت کو اگلے پانچ سال میں تقریبا 100 ارب ڈالر کا قرضہ ادا کرنا ہے جس میں اگلے سال 3.3 ارب ڈالر کے بانڈ بھی شامل ہیں۔ حکومت اپنی آمدنی کا 40 فیصد سے زیادہ صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے۔ قاہرہ کے لیے آئی ایم ایف کا تین ارب ڈالر کا پروگرام ہے اور فروری 2022 سے اب تک پاؤنڈ کی قدر میں تقریبا 50 فیصد کمی آئی ہے۔ لیکن نجکاری کا منصوبہ اب بھی سست روی کا شکار ہے اور گذشتہ ماہ مصر نے آئی ایم ایف کے منصوبے سے یہ کہہ کر منہ موڑ لیا کہ وہ جنوری تک سبسڈی کے ساتھ بجلی کی قیمتں برقرار رکھے گا۔
ايل سلواڈور ایل سلواڈور نے قرضے کے دو پروگراموں کی حیران کن بحالی اور آئی ایم ایف کے ایک سابق عہدے دار و وزارت خزانہ کے مشیر مقرر کرنے کے بعد معاشی بدحالی کے باعث ڈیفالٹ سے بانڈ مارکیٹ کی طرف جا چکا ہے۔ سال 2022 کے موسم گرما میں اس کا 2025 یورو بانڈ ڈالر کے مقابلے میں صرف 27 سینٹ تک گرا جس کی وجہ قرضوں کی بڑی ادائیگیاں اور اس کے فنانسنگ منصوبوں اور مالیاتی پالیسیوں پر خدشات تھے۔ اسی بانڈ نے 31 اگست کو 91.50 سینٹ پر کاروبار کیا اور دسمبر میں اس کا قرضہ مجموعی قومی پیداوار کا تناسب 77 فیصد تھا جو 2019 کے بعد سے سب سے کم ہے۔ اس سال ایک اور فیصد پوائنٹ گرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
کينيا عالمی بینک کے مطابق مشرقی افریقی ملک کا سرکاری قرضہ جی ڈی پی کا تقریبا 70 فیصد ہے جس کی وجہ سے اسے قرضوں کے بحران کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ صدر ولیم روٹو کی حکومت نے اخراجات میں کمی کی ہے اور ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز پیش کی ہے جس سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ افریقی ترقیاتی بینک، کینیا کے ساتھ 80.6 ملین ڈالر سے زیادہ کی بات چیت کر رہا ہے تاکہ اسے اس سال اپنے فنانسنگ کے خلا کو پر کرنے میں مدد مل سکے۔ کینیا عالمی بینک سے بجٹ سپورٹ پر بھی تبادلہ خیال کر رہا ہے۔
يوکرين روس کے حملے کے بعد یوکرین نے 2022 میں قرضوں کی ادائیگیاں منجمد کر دی تھیں۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اگلے سال کے اوائل میں فیصلہ کرے گا کہ آیا موجودہ معاہدے میں توسیع کی جائے یا ممکنہ طور پر زیادہ پیچیدہ متبادل ذرائع تلاش کرنے شروع کیے جائیں۔ اعلیٰ اداروں کا اندازہ ہے کہ جنگ کے بعد تعمیر نو کی لاگت کم از کم ایک کھرب یورو ہو گی۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ یوکرین کو ملک کو چلانے کے لیے ماہانہ تین سے چار ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اگر روس کے ساتھ جنگ نہیں جیتی جاتی یا کم از کم اگلے سال تک جنگ کی شدت میں نمایاں کمی نہ ہوئی تو اس کے قرضوں کی تنظیم نو کے مسئلہ کا بھی نومبر 2024 کے امریکی صدارتی انتخاب میں عمل دخل ہو گا اور ڈونلڈ ٹرمپ یا کسی اور رپبلکن امیدوار کے جیتنے کی صورت میں حاصل ہونے والی حمایت کی سطح کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔
لبنان  لبنان 2020 سے ڈیفالٹ کا شکار ہے اور اس بات کے بہت کم اشارے مل رہے ہیں کہ اس کے مالی مسائل کسی وقت حل ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف نے سخت انتباہ جاری کیا ہے جس کے بعد گذشتہ چند مہینوں میں مرکزی بینک کی جانب سے ملک کی مقامی کرنسی پر طویل عرصے سے عائد پابندی ختم کرنے کی تجویز پر کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
روئٹرز  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
اقتصادی ماہرین کی سوچ طویل المیعاد کیوں نہیں؟
Tumblr media
متعدد ویب سائٹس دیکھ رہا ہوں۔ کہیں سے یہ نوید نہیں مل رہی ہے کہ پاکستانیوں کی زندگی میں آسانیاں میسر ہوں گی یا پاکستانیوں کے رہن سہن کا معیار بلند ہو گا اور یہ حالیہ مشکلات کب تک درپیش رہیں گی۔؟ عالمی بینک بھی یہی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کو بہت سے اقتصادی خطرات کا سامنا رہے گا، ایشیائی ترقیاتی بینک کا بھی فرمان یہی ہے کہ پاکستان کی معیشت، ماحولیات اور زراعت کو کئی چیلنجوں سے نمٹنا پڑے گا۔ آبادی بڑھتی جائے گی لیکن سالانہ آمدنی نہیں بڑھے گی بلکہ گھٹنے کے امکانات ہیں۔ البتہ سب عالمی مالیاتی ادارے عام پاکستانیوں کی قوت مدافعت کی تعریف کر رہے ہیں کہ یہ مشکل حالات کا جس پامردی اور استقامت سے مقابلہ کرتے ہیں بہت کم قومیں ایسا کر پاتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی اس بدقسمت ملک کے حکمراں طبقوں یا اشرافیہ کی طرف سے عوام کے حق میں اپنے فیصلے کرنے کی امید نظر نہیں آتی۔ سب کا تجزیہ یہی ہے کہ مملکت خداداد کے ارباب اختیار کی ترجیحات میں ہی نہیں ہے کہ وہ 22 کروڑ کی بد حالی کو خوشحالی میں بدلنے کیلئے کوئی پالیسیاں سوچ رہے ہوں یا اپنے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں اس بارے میں بات کرتے ہونگے یا قدم اٹھاتے ہونگے۔ ساری تگ و دو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے اسٹاف لیول کے معاہدے پر دستخطوں کیلئے ہے۔ حالانکہ اس سے مزید قرضوں کا بوجھ ہی ملے گا۔ آئی ایم ایف سے طویل المیعاد راحت نہیں مل سکتی ۔
ایک سال میں کوئی ایسی میٹنگ نہیں ہوئی، جس میں یہ زیربحث آیا ہو کہ پاکستان کے خزانے، زراعت، تعلیم کے وزراء اپنے قدرتی وسائل، اپنے انسانی وسائل پر انحصار کر کے ملکی معیشت کو بہتر کریں۔ مزید قرضے نہ چڑھائے جائیں۔ کہیں ایسی خبر پڑھنے کو نہیں ملتی۔ نہ وزیر خزانہ، وزیر اعظم، وزیر منصوبہ بندی کا کوئی طویل المیعاد لائحہ عمل پڑھنے یا سننے کو سامنے آیا کہ موجودہ مشکل معاشی سال سمیت آئندہ دس سے پندرہ سال کے مسائل اپنے وسائل کی بنیاد پر حل کے مراحل کیا کیا ہو سکتے ہیں۔ مختلف برسوں میں ہمیں مختلف اقدامات کیا کیا کرنے چاہئیں۔ بین الاقوامی ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ مالی سال کی 6 فیصد شرح نمو کے مقابلے میں 2023 کی شرح نمو 0.6 فی صد دکھائی دے رہی ہے۔ 2024 میں شرح نمو 2 فی صد کہی جارہی ہے۔ وہ بھی اس صورت میں اگر بڑی اقتصادی اصلاحات کی جائیں۔ معیشت کو مستحکم کیا جائے۔ ابھی تک تو گزشتہ سیلاب کے اثرات سے پورا علاقہ بحال نہیں ہوا ہے۔ آئندہ سیلابی خطرات سر پر منڈلانے لگے ہیں۔ بارشیں شروع ہو گئی ہیں۔ ایک فصل گزشتہ سیلاب سے تباہ ہوئی ہے۔ دوسری فصل کیلئے سیلاب زدہ زمین ابھی تک قابل کاشت نہیں ہوئی ہے۔ 
Tumblr media
ان ہی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2001 سے 2008 کے دَور میں کچھ پاکستانی غربت کی لکیر سے اوپر آئے تھے۔ اس کے بعد زیادہ تر لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہی جارہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر حکومت صرف ایڈہاک بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے۔ طویل المیعاد منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اگر ایک حکومت ایسا کچھ کرتی ہے تو آنے والی حکومت سارے منصوبے بدل دیتی ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ بد حال معیشت کی ذمہ داری خود کوئی قبول نہیں کرتا۔ دوسری حکومت پر یہ بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ کووڈ 19 کی وجہ سے دنیا بھر کی معاشی ترقی متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی بنیاد اتنی طاقت ور پہلے ہی نہیں تھی۔ اسلئے کووڈ 19 نے اسے دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ متاثر کیا ہے۔ عالمی کساد بازاری کے مقابلے میں جس سیاسی اتحاد اور قومی استحکام کی ضرورت تھی۔ اس کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی گئیں۔ اداروں نے بھی اس سال میں زیادہ تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پاکستان کو زرعی شعبے میں برتری حاصل تھی۔ زرعی یونیورسٹیوں کی تحقیق اور مشاورت کے باوجود گندم، چاول، کپاس کی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار پر توجہ نہیں دی گئی۔ 
پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی۔ مینو فیکچرنگ میں پانی بجلی گیس کی کمی کی وجہ سے زوال آیا۔ اسلئے برآمدات متاثر ہوئیں۔ اس سال سب سے بڑی مشکل یہ رہی کہ زر مبادلہ کے ذخائر بہت کم ہوتے گئے۔ پاکستانی کرنسی ڈالر کے مقالے میں بہت گرتی رہی۔ ان معاشی اشاریوں کو دیکھ کر عالمی اقتصادی اداروں نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کو منفی قرار دیا ہے۔ ہماری قرضہ لینے کی اہلیت بھی منفی کہی گئی۔ کیونکہ ہمارے قرضوں کی ادائیگی کا تناسب مطلوبہ ضرورت کے مطابق نہیں تھا عالمی ادارے کسی ایک حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے رہے۔ ان کا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان کے معاشی نظام میں دیرینہ اندرونی ساختی کمزوریاں ہیں۔ جو مختلف سیاسی اور فوجی حکومتوں کی غفلتوں سے پروان چڑھتی رہی ہیں۔ دونوں طرز کے حکمرانوں کی ترجیحات میں اقتصادی ڈھانچے کو تقویت نہیں دی گئی۔ اس طرز حکمرانی سے پاکستان کے عوام سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی ہے۔ حکمراں طبقے اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ عام پاکستانیوں کی اکثریت کس طرح دن رات گزارتی ہے۔ 
آس پاس کے ملکوں میں اقتصادی بہتری آئی ہے۔ بھارت بہت آگے نکل گیا ہے۔ بنگلہ دیش۔ حتیٰ کہ افغانستان میں بھی اقتصادی بد حالی ایسی نہیں ہے۔ وہاں مشکلات پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان جیسے ممالک کو آئندہ بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں کیونکہ متعلقہ محکموں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ انسانی اہلیت کی کمزوریاں اپنی جگہ ہیں کہ متعلقہ وزراء، اداروں کے سربراہ اس قابل ہیں یا نہیں۔ ان کو ان معاملات کی تربیت ملی ہے یا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جن قوتوں اور وسائل سے نوازا ہے۔ ملک کی نوجوان آبادی 60 فی صد سے زیادہ، زرعی زرخیزی، انتہائی اہم محل وقوع، سمندر، دریا، معدنی خزانے، ان سے کام نہیں لیا جارہا ہے۔ ملک میں بڑے بڑے اکنامسٹ ہیں۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل اقتصادی ماہرین ہیں لیکن وہ بھی نکتہ چینی کے ماہر بن گئے ہیں۔ وزرائے خزانہ پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن کسی اکنامسٹ نے آئندہ دس پندرہ برس کا مجموعی سیر حاصل لائحہ عمل نہیں بتایا ہے کہ پاکستان کی 2040-2035-2030 کے لئے معاشی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ جس سے عام پاکستانی کی زندگی میں آسانیاں ہوں۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی نہ ہو۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
کووڈ کے لیے دیرپا تحفظ کرنے والی ویکسن کی تیار
کیلیفورنیا: امریکا کی رٹگرز یونیورسٹی میں کووڈ-19 کی ایک نئی ویکسین بنائی گئی ہے جس کے متعلق خیال کیا جارہا ہے کہ یہ کووڈ اور اس کے ابھرنے والے تمام متغیرات کے خلاف موجودہ ویکسین کی نسبت زیادہ دیرپا تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ جرنل ویکسینز میں شائع ہونے والی تحقیق کے سینئر مصنف اور ایس اے ایس میں مالیکیولر بائیلوجی اور بائیو کیمسٹری کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اسٹیفن اینڈرسن کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک بہتر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
انڈیا: خاتون اور بچہ کرونا کے ڈر سے تین سال تک گھر میں بند رہے
انڈیا میں حکام نے بتایا کہ ایک خاتون نے کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے خوف سے خود کو اور 10 سالہ بیٹے کو تین سال تک گھر میں بند کر رکھا۔ خاتون جن کی شناخت من مون مانجھی کے نام سے ہوئی ہے اور ان کے بیٹے دہلی کے قریب گڑگاؤں شہر کے رہنے والے ہیں۔ ��کام نے انہیں اس ہفتے اس وقت بچایا جب خاتون کے شوہر نے مقامی تھانے سے رابطہ کیا۔ انڈین ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق پولیس، صحت کے حکام، اور چائلڈ ویلفیئر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
انڈیا: خاتون اور بچہ کرونا کے ڈر سے تین سال تک گھر میں بند رہے
انڈیا میں حکام نے بتایا کہ ایک خاتون نے کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے خوف سے خود کو اور 10 سالہ بیٹے کو تین سال تک گھر میں بند کر رکھا۔ خاتون جن کی شناخت من مون مانجھی کے نام سے ہوئی ہے اور ان کے بیٹے دہلی کے قریب گڑگاؤں شہر کے رہنے والے ہیں۔ حکام نے انہیں اس ہفتے اس وقت بچایا جب خاتون کے شوہر نے مقامی تھانے سے رابطہ کیا۔ انڈین ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق پولیس، صحت کے حکام، اور چائلڈ ویلفیئر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
ماحولیاتی تبدیلی: خطرے کی گھنٹی
کہتے ہیں انسانوں کو دو چیزیں متحد کر دیتی ہیں، ایک مشترکہ مفاد اور دوسری مشترکہ خوف، لیکن اگر ان دونوں چیزوں سے بھی انسان متحد نہ ہوں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض انسانوں کی نظر میں خوف اور مفاد کی تشریح مختلف ہو۔ جیسے 2019 میں عالمی سطح پر نمودار ہونے والے کووڈ 19 وائرس کو سبھی نے اپنے لیے خطرہ اور اس سے بچاؤ کو فائدہ تسلیم کیا۔ اسی طرح طاعون، پولیو اور اس جیسے دوسرے جان لیوا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
بیرون ملک سے کراچی پہنچنے والے مزید 2 مسافروں کا ریپڈ انٹینجن ٹیسٹ مثبت آ گیا
بیرون ملک سے کراچی پہنچنے والے 2 مزید مسافروں کا ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ(RAT) مثبت آگیا ترجمان محکمہ صحت سندھ کے مطابق 28 سالہ فیصل آباد کا رہائشی اور 25 سالہ مالا کنڈ کا رہائشی جدہ سے کراچی پہنچے تھے، گزشتہ روز  کیے جانے والے 4 پی سی آر ٹیسٹ کے نتائج بھی محکمہ صحت کو موصول ہوگئے، چاروں مسافروں کے پی سی آر ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے ہیں۔ متاثرہ مسافروں کو کوویڈ19 کی ممکنہ علامات کے پیش نظر ٹیسٹ کیا گیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 2 years
Text
کیا آئی ایم ایف ہی حل ہے ؟
Tumblr media
پاکستان کی معاشی بدحالی کا ایک منظرنامہ تو داخلی ہے، جس سے شناسائی کے لیے کسی قسم کے تردد کی ضرورت نہیں۔ وہ تمام پاکستانی جن کا تعلق ملک کی اشرافیہ اور معاشی اعتبار سے ایلیٹ کلاس سے نہیں، وہ اس بدحالی کو خود بُھگت رہے ہیں اور ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ کچھ اس انداز میں دیکھ رہے ہیں کہ آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے۔ صورتحال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ مناسب ردعمل کے اظہار کی قوت بھی سلب ہو گئی اور ہر کوئی اُمید و بیم کی حالت میں اپنے آپ سے اُلجھ رہا ہے۔ دوسری طرف ہماری معاشی حالت کا ایک پس منظر ایسا بھی ہے جس کا تعلق عالمی معیشت بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ عالمی سیاسی کشمکش میں معیشت کے استعمال کے ساتھ ہے۔ عالمی سیاسی معیشت کی کشمکش کے اثرات اُن ملکوں کو زیادہ سہنے پڑتے ہیں، اپنی معیشت کے لیے جن کا انحصار خود اپنے زیادہ سے دوسرے ملکوں پر ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک اس وقت جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور چین میں بڑھتا ہوا تناؤ عالمی سطح پر مقروض ملکوں کی داد رسی کے لیے تجویز کیے گئے ممکنا حل پر عملدرآمد کی راہ میں حائل ہے۔ 
کووڈ 19 کی عالمی وباء نے عالمی معیشت کا پہیہ جام کر کے رکھ دیا تھا۔ دنیا نے مشترکہ کوششوں کے ذریعے اس بلا سے چھٹکارا پایا تو یوکرین میں روسی فوجی کارروائی نے پہلے سے ڈانواں ڈول معیشت کو ایک اور کاری ضرب لگا دی۔ اس صورتحال سے بھی نمٹا جا سکتا تھا لیکن یوکرین کے معاملے پر دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کا اشتراک عمل ناممکنات میں سے ہے، جب کہ ایک تیسری بڑی معیشت، روس خود جنگ کا ایک فریق ہے۔ لہٰذا کووڈ کے معاملے میں جو عالمی اتحاد وجود میں آگیا تھا اب اس کی کوئی توقع نہیں۔ اپریل 2020 میں جب عالمی معیشت مُنہ کے بل گر رہی تھی، جی۔ 20 تنظیم نے ’امریکا اور چین جس کا حصہ ہیں‘ فیصلہ کیا تھا کہ دنیا کے 73 غریب ملکوں کے وہ قرضے موخر کر دیے جائیں جو مختلف ملکوں نے دو طرفہ سطح پر دیے ہوئے ہیں۔ دسمبر 2021 میں اس انتظام کو مزید موثر بنانے کے لیے جی۔ 20 ممالک کے ساتھ ’پیرس کلب‘ کو بھی شامل کر لیا گیا جو قرض دینے والے 22 ممالک کا ایک غیر رسمی گروپ ہے۔ 1956 میں قائم کیے جانے والے اس گروپ کا مقصد قرض میں سہولت دینے کی درخواستوں پر مشترکہ موقف اختیار کرنا تھا۔
Tumblr media
اس نئے انتظام کو ’کامن فریم ورک‘ کا نام دیا گیا تھا، لیکن یہ ’کامن فریم ورک‘ غریب ممالک کو کوئی فائدہ پہنچانے سے پہلے ہی اس لیے ناکامی سے دوچار ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ قرضوں میں سہولت کے اس پروگرام پر امریکا اور چین متفق نہیں۔ امریکا نے میڈیا پر اور سفارتی سطح پر ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس کا مقصد چین کو ظالم قرض خواہ اور غریب ملکوں کو قرض کے جال میں پھانسنے والا ملک ثابت کرنا ہے۔ مثال کے طور پر سری لنکا میں تعینات امریکی سفیر نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’چین سری لنکا کے قرضوں سے چھٹکارا پانے کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہا ہے۔‘‘ حالانکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اعداد و شمار ایک بالکل مختلف تصویر دکھا رہے ہیں۔ چین نے دوسرے ملکوں کو دیے اپنے 13.1 ارب کے کُل قرضوں کا 63 فیصد اپنے طور پر موخر کر دیا تھا اور قرضوں کو ری شیڈول کرنے میں آئی ایم ایف کی طرح کوئی تاخیری حربے استعمال نہیں کیے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ دنیا کے 60 فیصد ملک اپنے قرضوں کی قسط ادا کرنے کی یا تو استطاعت نہیں رکھتے یا پھر تیزی سے اس حالت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
1979-82 کے تین برسوں کے لیے امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ پال والکر نے اچانک شرح سود میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 20 فیصد سے بھی زیادہ کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں مقروض ملکوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور تنزانیہ کے سابق صدر جولیسن نائریری نے کہا تھا ’’ہم اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے اپنے بچوں کو فاقہ کشی میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔‘‘ اس ایک اقدام نے اگلے 25 برس تک مقروض ملکوں کو بدترین حالات کا شکار کر دیا تھا۔ بعد میں والکر نے اسے غلطی قرار دیتے ہوئے معافی مانگ لی تھی جو امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔ اس وقت غریب ملکوں کے ذمے واجب الادا قرضوں کا 21 فیصد چین، 11 فیصد پیرس کلب کے ممالک، 41 فیصد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جب کہ 23 فیصد نجی قرض خواہوں اور بانڈز مالکان کا ہے۔ امریکا کا حصہ محض 1.6 فیصد ہے لیکن امریکا کا رویہ ایسا ہے کہ ساری دنیا کو اپنے اشاروں پر چلانا چاہتا ہے۔ امریکا کی اس من مانی کی اصل وجہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک پر اس کا کنٹرول ہے۔ کہنے کو تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک خود مختار ادارے ہیں لیکن درحقیقت امریکی سیاسی مفادات کے حصول میں ایک ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
جان پرکنز (John Perkins) کی کتاب ‘Confessions of an Economic Hitman` اس امریکی پالیسی پر ایک محکم شہادت ہے جس میں ’پرکنز‘ نے ثابت کیا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے غلامی کی ایک جدید صورت متعارف کرائی ہے۔ اس پالیسی کے تین بنیادی کردار عالمی مالیاتی ادارے، امریکا خود اور قرض حاصل کرنے والے ملک میں برسر اقتدار ٹولہ ہوتے ہیں۔ یہ تین کردار باہم مل کر کسی ملک کو اُس کی آزادی اور خودمختاری سے محروم کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے چین کی وزارت خارجہ کی تازہ ترین پریس بریفنگ میں امریکا کا نام لیے بغیر چینی ترجمان ’ماؤننگ‘ نے کہا ’’پاکستان، گھانا اور کئی دیگر ممالک جس معاشی بحران سے گزر رہے ہیں، یہ سب مخصوص ترقی یافتہ ملک کا کیا دھرا ہے‘‘۔ اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان بدترین حالات میں بھی جو ملک حقیقی معنوں میں مدد کے لیے آگے آئے ہیں ان میں چین،‘ ایران اور ازبکستان سرفہرست ہیں، حالانکہ ایران اور ازبکستان تو خود معاشی مسائل کا شکار ہیں۔
چین نے جہاں آئی ایم ایف کے برعکس غیر مشروط طور پر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا ہے وہیں ایران نے دو طرفہ تجارت کو پاکستان کی موافقت میں 5 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور ازبکستان نے ایک ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ پاکستان کے بالا دست طبقات اور مقتدر اشرافیہ اس بات کے تصور سے بھی گریزاں نظر آتی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے چھٹکارا پانے کے کیا آپشنز ہو سکتے ہیں، انھیں تمام معاشی مسائل کا حل بدستور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں ہی نظر آتا ہے۔
غلام محی الدین  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
کیا کورونا کی وباءکا اختتام ہوگیا؟
کیا کورونا کی وباءکا اختتام ہوگیا؟
کیا کورونا کی وباءکا اختتام ہوگیا؟ عالمی ادارہ صحت کا موقف سامنے آگیاجنیوا(آوازنیوز)عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے کہا ہے کہ کووڈ 19 اب بھی عالمی ایمرجنسی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بیان اس وقت جاری کیا گیا ہے جب کووڈ 19 کی وبا کو عالمی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیے ڈھائی سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ عالمی ادارے کی ایمرجنسی کمیٹی نے 30 جنوری 2020 کو کووڈ 19 کو عالمی ایمرجنسی قرار دیا تھا جس کا مقصد…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
زرداری کو کووڈ 19 کے بعد کی پیچیدگیوں کا سامنا ہے: بختاور
زرداری کو کووڈ 19 کے بعد کی پیچیدگیوں کا سامنا ہے: بختاور
آصف علی زرداری، فائل فوٹو ان کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری کے مطابق، سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو کووِڈ 19 کے بعد کی صحت کی پیچیدگیاں ہیں۔ اس نے کہا کہ اس کے والد کی صحت نے انہیں سیلاب کی امداد میں مدد کرنے سے روک دیا۔ ٹویٹر پر جاتے ہوئے، زرداری کی بڑی بیٹی نے انکشاف کیا کہ ان کے والد کو کوویڈ سے متعلق کچھ پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ “اس کے پھیپھڑوں میں پانی دوبارہ آگیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
ماحولیاتی تبدیلی: خطرے کی گھنٹی
کہتے ہیں انسانوں کو دو چیزیں متحد کر دیتی ہیں، ایک مشترکہ مفاد اور دوسری مشترکہ خوف، لیکن اگر ان دونوں چیزوں سے بھی انسان متحد نہ ہوں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض انسانوں کی نظر میں خوف اور مفاد کی تشریح مختلف ہو۔ جیسے 2019 میں عالمی سطح پر نمودار ہونے والے کووڈ 19 وائرس کو سبھی نے اپنے لیے خطرہ اور اس سے بچاؤ کو فائدہ تسلیم کیا۔ اسی طرح طاعون، پولیو اور اس جیسے دوسرے جان لیوا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
ماحولیاتی تبدیلی: خطرے کی گھنٹی
کہتے ہیں انسانوں کو دو چیزیں متحد کر دیتی ہیں، ایک مشترکہ مفاد اور دوسری مشترکہ خوف، لیکن اگر ان دونوں چیزوں سے بھی انسان متحد نہ ہوں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض انسانوں کی نظر میں خوف اور مفاد کی تشریح مختلف ہو۔ جیسے 2019 میں عالمی سطح پر نمودار ہونے والے کووڈ 19 وائرس کو سبھی نے اپنے لیے خطرہ اور اس سے بچاؤ کو فائدہ تسلیم کیا۔ اسی طرح طاعون، پولیو اور اس جیسے دوسرے جان لیوا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
thetodaynews24 · 3 years
Text
تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کووڈ 19 مثبت شرح 5.73 فیصد رہ گئی۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کووڈ 19 مثبت شرح 5.73 فیصد رہ گئی۔
اسلام آباد: گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 65 پاکستانی کووڈ 19 سے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ، جس سے ملک میں مجموعی طور پر اموات کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے کہا کہ نئے انفیکشن کے ظہور کے بعد ملک میں مجموعی طور پر تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔  مجموعی طور پر 1،006،078۔ وبا سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انفیکشن کی مثبت شرح کل کے 6.23 فیصد…
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 9 months
Text
یورپ میں فلو کے مریضوں میں غیرمعمولی اضافہ، سپین کے ہسپتالوں میں ماسک لازمی قرار دے دیا گیا
اسپین کی حکومت نے پیر کو اسپتالوں اور صحت کے کلینکوں میں ماسک لازمی پہننے کی تجویز پیش کی، اور اٹلی نے کہا کہ پورے یورپ میں فلو اور کووڈ کے پھیلنے کے ساتھ ہی سانس کی بیماریوں کے انفیکشن کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ بیماریوں کی روک تھام اور کنٹرول کے یورپی مرکز نے سفارش کی ہے کہ براعظم کے لوگ اگر بیمار محسوس کریں تو گھر میں ہی رہیں، اور ہجوم یا صحت کی دیکھ بھال کے اداروں میں ماسک پہننے پر غور…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
weaajkal · 3 years
Text
پی آئی اے کی 3 پروازیں چین سے کرونا ویکسین اسلام آباد پہنچ گئیں
پی آئی اے کی 3 پروازیں چین سے کرونا ویکسین اسلام آباد پہنچ گئیں
اسلام آباد: پی آئی اے کی تین خصوصی پروازیں چین سے کووڈ 19 ویکسین لے کر اسلام آباد پہنچ گئیں۔ سی ای او پی آئی اے ایئر مارشل ارشد ملک کا کہنا ہے کہ ہم نے چین سے ویکسین لانے کے لیے اسلام آباد سے بیجنگ تک تین خصوصی پروازیں کی، پہلی پرواز آج دوپہر اور دو پروازیں شام میں اسلام آباد پہنچ گئیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ویکسین کی فراہمی کے لیے ہم ہر وقت تیار ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں نیا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes