#کووڈ 19
Explore tagged Tumblr posts
Text
نیوزی لینڈ کے اوپنر ڈیوڈ کونوے کووڈ 19 کا شکار
نیوزی لینڈ کے اوپنر ڈیون کونوے کو کووڈ 19 کے لئے مثبت ٹیسٹ کے بعد جمعہ کو کرائسٹ چرچ میں میچ سے چند گھنٹے قبل پاکستان کے خلاف چوتھے ٹی 20 انٹرنیشنل سے باہر کردیا گیا۔ نیوزی لینڈ کرکٹ (این زیڈ سی) نے ایک بیان میں کہا ، “کونوے کل مثبت ٹیسٹ کے بعد ٹیم کے کرائسٹ چرچ ہوٹل میں آئسولیشن میں تھے۔” “پاکستان کے خلاف اتوار کو ہونے والے فائنل میچ سے پہلے ان کی نگرانی جاری رہے گی۔” کینٹربری کنگز کے بلے باز…
View On WordPress
0 notes
Text
کون سے ترقی پذیر ممالک قرضوں کے مسائل کی گرفت میں ہیں؟
آئندہ ماہ انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں ہونے والے جی20 سربراہی اجلاس کے دوران متعدد ترقی پذیر ممالک کو درپیش قرضوں کے مسلسل اور نقصان دہ مسائل اہم موضوع ہوں گے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان سمیت کئی ممالک اس وقت قرضوں کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان پاکستان کو مالی سال 2024 کے لیے بیرونی قرضوں اور دیگر بلز کی ادائیگی کے لیے 22 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نگران حکومت قائم ہے جو آئین کے مطابق 90 دنوں میں انتخابات کرانے کی ذمہ دار ہے۔ پاکستان میں افراط زر اور شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ملک 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد سے تعمیر نو کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جون میں آخری وقت پر تین ارب ڈالر کا بیل آؤٹ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بالترتیب دو ارب ڈالر اور ایک ارب ڈالر پاکستان کے مرکزی بینک میں جمع کروائے ہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جو کم ہو کر 3.5 ارب ڈالر رہ گئے تھے وہ اگست کے آخر تک بڑھ کر 7.8 ارب ڈالر ہو گئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس انتخابات کروانے کے وسائل موجود ہیں لیکن اس بارے میں بڑے سوالات موجود ہیں کہ وہ بڑی امداد کے بغیر کب تک ڈیفالٹ سے بچ سکے گا؟
زیمبیا زیمبیا پہلا افریقی ملک تھا جس نے کووڈ 19 کے وبائی مرض کے دوران ڈیفالٹ کیا۔ حالیہ مہینوں میں طویل عرصے سے انتظار کے بعد ہونے والی پیش رفت کے بعد بالآخر بحالی کے منصوبے پر کام کرنا شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جون میں زیمبیا نے قرضے دینے والے ملکوں کے گروپ ’پیرس کلب‘ اور چین کے ساتھ 6.3 ارب ڈالر کے قرضے کا معاہدہ کیا۔ تفصیلات پر ابھی کام کیا جا رہا ہے لیکن حکومت کو یہ بھی امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں بین الاقوامی فنڈز کے ساتھ معاہدے کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جن کے پاس اس کے غیر ادا شدہ بانڈز موجود ہیں۔
سری لنکا سری لنکا نے جون کے آخر میں قرضوں کی ادائیگی کے منصوبے کا اعلان کیا اور اس کے بعد سے پیش رفت جاری ہے لیکن ہر شعبے میں ایسا نہیں ہے۔ سری لنکا ڈویلپمنٹ بانڈز (ایس ایل ڈی بی۔ امریکی ڈالرمیں جاری کیے گئے بانڈز) کے تقریباً تمام مالکوں نے سری لنکن روپے میں پانچ نئے بانڈز کے بدلے ان بانڈز کے تبادلے یا تجارت پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ان نئے بانڈز کو مختلف اوقات میں واپس کرنا ہو گا۔ یہ بانڈ 2023 سے 2025 کے درمیان مچور ہو جائیں گے۔ داخلی قرضوں کے منصوبے کے ایک اور حصے کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم ٹریژری بانڈز کے تبادلے کی اہم ڈیڈ لائن تین بار تاخیر کا شکار ہوئی اور اب 11 ستمبر کو مقرر کی گئی ہے۔ سری لنکا کے مرکزی بینک کے سربراہ نندا لال ویرا سنگھے نے کہا ہے کہ انڈیا اور چین جیسے سری لنکا کے بڑے غیر ملکی قرض دہندگان بات چیت جاری رکھنے سے پہلے داخلی قرضوں کا معاملہ ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات 14 سے 27 ستمبر تک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے 2.9 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کے پہلے جائزے کے موقعے پر ہوں گے۔ اس وقت تک ملکی قرضوں کا معاملہ نمٹانے میں ناکامی کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی طرف سے ادائیگیوں اور قرض دہندگان کے ساتھ بات چیت دونوں م��ں تاخیر ہوسکتی ہے۔ گھانا گھانا نے گذشتہ سال کے آخر میں ا��نے زیادہ تر بیرونی قرضوں کی ادائیگی نہیں کی۔ یہ چوتھا ملک ہے جس نے مشترکہ فریم ورک کے تحت دوبارہ کام کرنے کی کوشش کی اور اگلے تین سال میں بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگیوں میں 10.5 ارب ڈالر کی کمی لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ گھانا کی پیش رفت زیمبیا جیسے ممالک کے مقابلے میں نسبتا تیز رہی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں پنشن فنڈ کے قرضوں کے تبادلے کے آپریشن اور ڈالر بانڈز کے تبادلے کے ذریعے اپنے داخلی قرضوں میں سے تقریباً چار ارب ڈالر کے قرضے نمٹانے پر اتفاق کیا ہے۔ تیونس یہ شمالی افریقی ملک جو 2011 کے انقلاب کے بعد سے متعدد مسائل کا سامنا کر رہا ہے اب اسے ایک مکمل معاشی بحران کا سامنا ہے۔ زیادہ تر قرضے داخلی ہیں لیکن غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اس سال کے آخر میں ہونی ہے اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے کہا ہے کہ تیونس ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ تیونس کے صدر قیس سعید نے آئی ایم ایف سے 1.9 ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے درکار شرائط کو ’احکامات‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان شرائط پر پورا نہیں اتریں گے۔ سعودی عرب نے 40 کروڑ ڈالر کے آسان قرضے اور 10 کروڑ ڈالر کی گرانٹ کا وعدہ کیا ہے لیکن سیاحت پر انحصار کرنے والی معیشت درآمدی خوراک اور ادویات کی قلت سے دوچار ہے۔ یورپی یونین نے تقریبا ایک ارب یورو (1.1 ارب ڈالر) کی مدد کی پیش کش کی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ زیادہ تر آئی ایم ایف معاہدے یا اصلاحات سے جڑی ہوئی ہے۔ مصر مصر ان بڑے ممالک میں سے ایک ہے جسے مشکلات کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔ شمالی افریقہ کی سب سے بڑی معیشت کو اگلے پانچ سال میں تقریبا 100 ارب ڈالر کا قرضہ ادا کرنا ہے جس میں اگلے سال 3.3 ارب ڈالر کے بانڈ بھی شامل ہیں۔ حکومت اپنی آمدنی کا 40 فیصد سے زیادہ صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے۔ قاہرہ کے لیے آئی ایم ایف کا تین ارب ڈالر کا پروگرام ہے اور فروری 2022 سے اب تک پاؤنڈ کی قدر میں تقریبا 50 فیصد کمی آئی ہے۔ لیکن نجکاری کا منصوبہ اب بھی سست روی کا شکار ہے اور گذشتہ ماہ مصر نے آئی ایم ایف کے منصوبے سے یہ کہہ کر منہ موڑ لیا کہ وہ جنوری تک سبسڈی کے ساتھ بجلی کی قیمتں برقرار رکھے گا۔
ايل سلواڈور ایل سلواڈور نے قرضے کے دو پروگراموں کی حیران کن بحالی اور آئی ایم ایف کے ایک سابق عہدے دار و وزارت خزانہ کے مشیر مقرر کرنے کے بعد معاشی بدحالی کے باعث ڈیفالٹ سے بانڈ مارکیٹ کی طرف جا چکا ہے۔ سال 2022 کے موسم گرما میں اس کا 2025 یورو بانڈ ڈالر کے مقابلے میں صرف 27 سینٹ تک گرا جس کی وجہ قرضوں کی بڑی ادائیگیاں اور اس کے فنانسنگ منصوبوں اور مالیاتی پالیسیوں پر خدشات تھے۔ اسی بانڈ نے 31 اگست کو 91.50 سینٹ پر کاروبار کیا اور دسمبر میں اس کا قرضہ مجموعی قومی پیداوار کا تناسب 77 فیصد تھا جو 2019 کے بعد سے سب سے کم ہے۔ اس سال ایک اور فیصد پوائنٹ گرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
کينيا عالمی بینک کے مطابق مشرقی افریقی ملک کا سرکاری قرضہ جی ڈی پی کا تقریبا 70 فیصد ہے جس کی وجہ سے اسے قرضوں کے بحران کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ صدر ��لیم روٹو کی حکومت نے اخراجات میں کمی کی ہے اور ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز پیش کی ہے جس سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ افریقی ترقیاتی بینک، کینیا کے ساتھ 80.6 ملین ڈالر سے زیادہ کی بات چیت کر رہا ہے تاکہ اسے اس سال اپنے فنانسنگ کے خلا کو پر کرنے میں مدد مل سکے۔ کینیا عالمی بینک سے بجٹ سپورٹ پر بھی تبادلہ خیال کر رہا ہے۔
يوکرين روس کے حملے کے بعد یوکرین نے 2022 میں قرضوں کی ادائیگیاں منجمد کر دی تھیں۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اگلے سال کے اوائل میں فیصلہ کرے گا کہ آیا موجودہ معاہدے میں توسیع کی جائے یا ممکنہ طور پر زیادہ پیچیدہ متبادل ذرائع تلاش کرنے شروع کیے جائیں۔ اعلیٰ اداروں کا اندازہ ہے کہ جنگ کے بعد تعمیر نو کی لاگت کم از کم ایک کھرب یورو ہو گی۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ یوکرین کو ملک کو چلانے کے لیے ماہانہ تین سے چار ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اگر روس کے ساتھ جنگ نہیں جیتی جاتی یا کم از کم اگلے سال تک جنگ کی شدت میں نمایاں کمی نہ ہوئی تو اس کے قرضوں کی تنظیم نو کے مسئلہ کا بھی نومبر 2024 کے امریکی صدارتی انتخاب میں عمل دخل ہو گا اور ڈونلڈ ٹرمپ یا کسی اور رپبلکن امیدوار کے جیتنے کی صورت میں حاصل ہونے والی حمایت کی سطح کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔
لبنان لبنان 2020 سے ڈیفالٹ کا شکار ہے اور اس بات کے بہت کم اشارے مل رہے ہیں کہ اس کے مالی مسائل کسی وقت حل ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف نے سخت انتباہ جاری کیا ہے جس کے بعد گذشتہ چند مہینوں میں مرکزی بینک کی جانب سے ملک کی مقامی کرنسی پر طویل عرصے سے عائد پابندی ختم کرنے کی تجویز پر کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
اقتصادی ماہرین کی سوچ طویل المیعاد کیوں نہیں؟
متعدد ویب سائٹس دیکھ رہا ہوں۔ کہیں سے یہ نوید نہیں مل رہی ہے کہ پاکستانیوں کی زندگی میں آسانیاں میسر ہوں گی یا پاکستانیوں کے رہن سہن کا معیار بلند ہو گا اور یہ حالیہ مشکلات کب تک درپیش رہیں گی۔؟ عالمی بینک بھی یہی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کو بہت سے اقتصادی خطرات کا سامنا رہے گا، ایشیائی ترقیاتی بینک کا بھی فرمان یہی ہے کہ پاکستان کی معیشت، ماحولیات اور زراعت کو کئی چیلنجوں سے نمٹنا پڑے گا۔ آبادی بڑھتی جائے گی لیکن سالانہ آمدنی نہیں بڑھے گی بلکہ گھٹنے کے امکانات ہیں۔ البتہ سب عالمی مالیاتی ادارے عام پاکستانیوں کی قوت مدافعت کی تعریف کر رہے ہیں کہ یہ مشکل حالات کا جس پامردی اور استقامت سے مقابلہ کرتے ہیں بہت کم قومیں ایسا کر پاتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی کو بھی اس بدقسمت ملک کے حکمراں طبقوں یا اشرافیہ کی طرف سے عوام کے حق میں اپنے فیصلے کرنے کی امید نظر نہیں آتی۔ سب کا تجزیہ یہی ہے کہ مملکت خداداد کے ارباب اختیار کی ترجیحات میں ہی نہیں ہے کہ وہ 22 ک��وڑ کی بد حالی کو خوشحالی میں بدلنے کیلئے کوئی پالیسیاں سوچ رہے ہوں یا اپنے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں اس بارے میں بات کرتے ہونگے یا قدم اٹھاتے ہونگے۔ ساری تگ و دو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے اسٹاف لیول کے معاہدے پر دستخطوں کیلئے ہے۔ حالانکہ اس سے مزید قرضوں کا بوجھ ہی ملے گا۔ آئی ایم ایف سے طویل المیعاد راحت نہیں مل سکتی ۔
ایک سال میں کوئی ایسی میٹنگ نہیں ہوئی، جس میں یہ زیربحث آیا ہو کہ پاکستان کے خزانے، زراعت، تعلیم کے وزراء اپنے قدرتی وسائل، اپنے انسانی وسائل پر انحصار کر کے ملکی معیشت کو بہتر کریں۔ مزید قرضے نہ چڑھائے جائیں۔ کہیں ایسی خبر پڑھنے کو نہیں ملتی۔ نہ وزیر خزانہ، وزیر اعظم، وزیر منصوبہ بندی کا کوئی طویل المیعاد لائحہ عمل پڑھنے یا سننے کو سامنے آیا کہ موجودہ مشکل معاشی سال سمیت آئندہ دس سے پندرہ سال کے مسائل اپنے وسائل کی بنیاد پر حل کے مراحل کیا کیا ہو سکتے ہیں۔ مختلف برسوں میں ہمیں مختلف اقدامات کیا کیا کرنے چاہئیں۔ بین الاقوامی ذرائع یہ کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ مالی سال کی 6 فیصد شرح نمو کے مقابلے میں 2023 کی شرح نمو 0.6 فی صد دکھائی دے رہی ہے۔ 2024 میں شرح نمو 2 فی صد کہی جارہی ہے۔ وہ بھی اس صورت میں اگر بڑی اقتصادی اصلاحات کی جائیں۔ معیشت کو مستحکم کیا جائے۔ ابھی تک تو گزشتہ سیلاب کے اثرات سے پورا علاقہ بحال نہیں ہوا ہے۔ آئندہ سیلابی خطرات سر پر منڈلانے لگے ہیں۔ بارشیں شروع ہو گئی ہیں۔ ایک فصل گزشتہ سیلاب سے تباہ ہوئی ہے۔ دوسری فصل کیلئے سیلاب زدہ زمین ابھی تک قابل کاشت نہیں ہوئی ہے۔
ان ہی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2001 سے 2008 کے دَور میں کچھ پاکستانی غربت کی لکیر سے اوپر آئے تھے۔ اس کے بعد زیادہ تر لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہی جارہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر حکومت صرف ایڈہاک بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے۔ طویل المیعاد منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اگر ایک حکومت ایسا کچھ کرتی ہے تو آنے والی حکومت سارے منصوبے بدل دیتی ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ بد حال معیشت کی ذمہ داری خود کوئی قبول نہیں کرتا۔ دوسری حکومت پر یہ بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ کووڈ 19 کی وجہ سے دنیا بھر کی معاشی ترقی متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی بنیاد اتنی طاقت ور پہلے ہی نہیں تھی۔ اسلئے کووڈ 19 نے اسے دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ متاثر کیا ہے۔ عالمی کساد بازاری کے مقابلے میں جس سیاسی اتحاد اور قومی استحکام کی ضرورت تھی۔ اس کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں ک��ینچی گئیں۔ اداروں نے بھی اس سال میں زیادہ تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پاکستان کو زرعی شعبے میں برتری حاصل تھی۔ زرعی یونیورسٹیوں کی تحقیق اور مشاورت کے باوجود گندم، چاول، کپاس کی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار پر توجہ نہیں دی گئی۔
پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی۔ مینو فیکچرنگ میں پانی بجلی گیس کی کمی کی وجہ سے زوال آیا۔ اسلئے برآمدات متاثر ہوئیں۔ اس سال سب سے بڑی مشکل یہ رہی کہ زر مبادلہ کے ذخائر بہت کم ہوتے گئے۔ پاکستانی کرنسی ڈالر کے مقالے میں بہت گرتی رہی۔ ان معاشی اشاریوں کو دیکھ کر عالمی اقتصادی اداروں نے پاکستان کی اقتصادی ترقی کو منفی قرار دیا ہے۔ ہماری قرضہ لینے کی اہلیت بھی منفی کہی گئی۔ کیونکہ ہمارے قرضوں کی ادائیگی کا تناسب مطلوبہ ضرورت کے مطابق نہیں تھا عالمی ادارے کسی ایک حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے رہے۔ ان کا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان کے معاشی نظام میں دیرینہ اندرونی ساختی کمزوریاں ہیں۔ جو مختلف سیاسی اور فوجی حکومتوں کی غفلتوں سے پروان چڑھتی رہی ہیں۔ دونوں طرز کے حکمرانوں کی ترجیحات میں اقتصادی ڈھانچے کو تقویت نہیں دی گئی۔ اس طرز حکمرانی سے پاکستان کے عوام سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی گئی ہے۔ حکمراں طبقے اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ عام پاکستانیوں کی اکثریت کس طرح دن رات گزارتی ہے۔
آس پاس کے ملکوں میں اقتصادی بہتری آئی ہے۔ بھارت بہت آگے نکل گیا ہے۔ بنگلہ دیش۔ حتیٰ کہ افغانستان میں بھی اقتصادی بد حالی ایسی نہیں ہے۔ وہاں مشکلات پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان جیسے ممالک کو آئندہ بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں کیونکہ متعلقہ محکموں کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔ انسانی اہلیت کی کمزوریاں اپنی جگہ ہیں کہ متعلقہ وزراء، اداروں کے سربراہ اس قابل ہیں یا نہیں۔ ان کو ان معاملات کی تربیت ملی ہے یا نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جن قوتوں اور وسائل سے نوازا ہے۔ ملک کی نوجوان آبادی 60 فی صد سے زیادہ، زرعی زرخیزی، انتہائی اہم محل وقوع، سمندر، دریا، معدنی خزانے، ان سے کام نہیں لیا جارہا ہے۔ ملک میں بڑے بڑے اکنامسٹ ہیں۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل اقتصادی ماہرین ہیں لیکن وہ بھی نکتہ چینی کے ماہر بن گئے ہیں۔ وزرائے خزانہ پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن کسی اکنامسٹ نے آئندہ دس پندرہ برس کا مجموعی سیر حاصل لائحہ عمل نہیں بتایا ہے کہ پاکستان کی 2040-2035-2030 کے لئے معاشی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ جس سے عام پاکستانی کی زندگی میں آسانیاں ہوں۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی نہ ہو۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
کووڈ کے لیے دیرپا تحفظ کرنے والی ویکسن کی تیار
کیلیفورنیا: امریکا کی رٹگرز یونیورسٹی میں کووڈ-19 کی ایک نئی ویکسین بنائی گئی ہے جس کے متعلق خیال کیا جارہا ہے کہ یہ کووڈ اور اس کے ابھرنے والے تمام متغیرات کے خلاف موجودہ ویکسین کی نسبت زیادہ دیرپا تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔ جرنل ویکسینز میں شائع ہونے والی تحقیق کے سینئر مصنف اور ایس اے ایس میں مالیکیولر بائیلوجی اور بائیو کیمسٹری کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اسٹیفن اینڈرسن کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک بہتر…
View On WordPress
0 notes
Text
انڈیا: خاتون اور بچہ کرونا کے ڈر سے تین سال تک گھر میں بند رہے
انڈیا میں حکام نے بتایا کہ ایک خاتون نے کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے خوف سے خود کو اور 10 سالہ بیٹے کو تین سال تک گھر میں بند کر رکھا۔ خاتون جن کی شناخت من مون مانجھی کے نام سے ہوئی ہے اور ان کے بیٹے دہلی کے قریب گڑگاؤں شہر کے رہنے والے ہیں۔ حکام نے انہیں اس ہفتے اس وقت بچایا جب خاتون کے شوہر نے مقامی تھانے سے رابطہ کیا۔ انڈین ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق پولیس، صحت کے حکام، اور چائلڈ ویلفیئر…
View On WordPress
0 notes
Text
انڈیا: خاتون اور بچہ کرونا کے ڈر سے تین سال تک گھر میں بند رہے
انڈیا میں حکام نے بتایا کہ ایک خاتون نے کووڈ 19 میں مبتلا ہونے کے خوف سے خود کو اور 10 سالہ بیٹے کو تین سال تک گھر میں بند کر رکھا۔ خاتون جن کی شناخت من مون مانجھی کے نام سے ہوئی ہے اور ان کے بیٹے دہلی کے قریب گڑگاؤں شہر کے رہنے والے ہیں۔ حکام نے انہیں اس ہفتے اس وقت بچایا جب خاتون کے شوہر نے مقامی تھانے سے رابطہ کیا۔ انڈین ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق پولیس، صحت کے حکام، اور چائلڈ ویلفیئر…
View On WordPress
0 notes
Text
ماحولیاتی تبدیلی: خطرے کی گھنٹی
کہتے ہیں انسانوں کو دو چیزیں متحد کر دیتی ہیں، ایک مشترکہ مفاد اور دوسری مشترکہ خوف، لیکن اگر ان دونوں چیزوں سے بھی انسان متحد نہ ہوں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض انسانوں کی نظر میں خوف اور مفاد کی تشریح مختلف ہو۔ جیسے 2019 میں عالمی سطح پر نمودار ہونے والے کووڈ 19 وائرس کو سبھی نے اپنے لیے خطرہ اور اس سے بچاؤ کو فائدہ تسلیم کیا۔ اسی طرح طاعون، پولیو اور اس جیسے دوسرے جان لیوا…
View On WordPress
0 notes
Text
بیرون ملک سے کراچی پہنچنے والے مزید 2 مسافروں کا ریپڈ انٹینجن ٹیسٹ مثبت آ گیا
بیرون ملک سے کراچی پہنچنے والے 2 مزید مسافروں کا ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ(RAT) مثبت آگیا ترجمان محکمہ صحت سندھ کے مطابق 28 سالہ فیصل آباد کا رہائشی اور 25 سالہ مالا کنڈ کا رہائشی جدہ سے کراچی پہنچے تھے، گزشتہ روز کیے جانے والے 4 پی سی آر ٹیسٹ کے نتائج بھی محکمہ صحت کو موصول ہوگئے، چاروں مسافروں کے پی سی آر ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے ہیں۔ متاثرہ مسافروں کو کوویڈ19 کی ممکنہ علامات کے پیش نظر ٹیسٹ کیا گیا…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا آئی ایم ایف ہی حل ہے ؟
پاکستان کی معاشی بدحالی کا ایک منظرنامہ تو داخلی ہے، جس سے شناسائی کے لیے کسی قسم کے تردد کی ضرورت نہیں۔ وہ تمام پاکستانی جن کا تعلق ملک کی اشرافیہ اور معاشی اعتبار سے ایلیٹ کلاس سے نہیں، وہ اس بدحالی کو خود بُھگت رہے ہیں اور ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ کچھ اس انداز میں دیکھ رہے ہیں کہ آسمان سے ��رے کھجور میں اٹکے۔ صورتحال اس حد تک خراب ہو گئی ہے کہ مناسب ردعمل کے اظہار کی قوت بھی سلب ہو گئی اور ہر کوئی اُمید و بیم کی حالت میں اپنے آپ سے اُلجھ رہا ہے۔ دوسری طرف ہماری معاشی حالت کا ایک پس منظر ایسا بھی ہے جس کا تعلق عالمی معیشت بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ عالمی سیاسی کشمکش میں معیشت کے استعمال کے ساتھ ہے۔ عالمی سیاسی معیشت کی کشمکش کے اثرات اُن ملکوں کو زیادہ سہنے پڑتے ہیں، اپنی معیشت کے لیے جن کا انحصار خود اپنے زیادہ سے دوسرے ملکوں پر ہوتا ہے۔ عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک اس وقت جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اور چین میں بڑھتا ہوا تناؤ عالمی سطح پر مقروض ملکوں کی داد رسی کے لیے تجویز کیے گئے ممکنا حل پر عملدرآمد کی راہ میں حائل ہے۔
کووڈ 19 کی عالمی وباء نے عالمی معیشت کا پہیہ جام کر کے رکھ دیا تھا۔ دنیا نے مشترکہ کوششوں کے ذریعے اس بلا سے چھٹکارا پایا تو یوکرین میں روسی فوجی کارروائی نے پہلے سے ڈانواں ڈول معیشت کو ایک اور کاری ضرب لگا دی۔ اس صورتحال سے بھی نمٹا جا سکتا تھا لیکن یوکرین کے معاملے پر دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کا اشتراک عمل ناممکنات میں سے ہے، جب کہ ایک تیسری بڑی معیشت، روس خود جنگ کا ایک فریق ہے۔ لہٰذا کووڈ کے معاملے میں جو عالمی اتحاد وجود میں آگیا تھا اب اس کی کوئی توقع نہیں۔ اپریل 2020 میں جب عالمی معیشت مُنہ کے بل گر رہی تھی، جی۔ 20 تنظیم نے ’امریکا اور چین جس کا حصہ ہیں‘ فیصلہ کیا تھا کہ دنیا کے 73 غریب ملکوں کے وہ قرضے موخر کر دیے جائیں جو مختلف ملکوں نے دو طرفہ سطح پر دیے ہوئے ہیں۔ دسمبر 2021 میں اس انتظام کو مزید موثر بنانے کے لیے جی۔ 20 ممالک کے ساتھ ’پیرس کلب‘ کو بھی شامل کر لیا گیا جو قرض دینے والے 22 ممالک کا ایک غیر رسمی گروپ ہے۔ 1956 میں قائم کیے جانے والے اس گروپ کا مقصد قرض میں سہولت دینے کی درخواستوں پر مشترکہ موقف اختیار کرنا تھا۔
اس نئے انتظام کو ’کامن فریم ورک‘ کا نام دیا گیا تھا، لیکن یہ ’کامن فریم ورک‘ غریب ممالک کو کوئی فائدہ پہنچانے سے پہلے ہی اس لیے ناکامی سے دوچار ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ قرضوں میں سہولت کے اس پروگرام پر امریکا اور چین متفق نہیں۔ امریکا نے میڈیا پر اور سفارتی سطح پر ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس کا مقصد چین کو ظالم قرض خواہ اور غریب ملکوں کو قرض کے جال میں پھانسنے والا ملک ثابت کرنا ہے۔ مثال کے طور پر سری لنکا میں تعینات امریکی سفیر نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ’’چین سری لنکا کے قرضوں سے چھٹکارا پانے کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہا ہے۔‘‘ حالانکہ صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اعداد و شمار ایک بالکل مختلف تصویر دکھا رہے ہیں۔ چین نے دوسرے ملکوں کو دیے اپنے 13.1 ارب کے کُل قرضوں کا 63 فیصد اپنے طور پر موخر کر دیا تھا اور قرضوں کو ری شیڈول کرنے میں آئی ایم ایف کی طرح کوئی تاخیری حربے استعمال نہیں کیے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ دنیا کے 60 فیصد ملک اپنے قرضوں کی قسط ادا کرنے کی یا تو استطاعت نہیں رکھتے یا پھر تیزی سے اس حالت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
1979-82 کے تین برسوں کے لیے امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ پال والکر نے اچانک شرح سود میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 20 فیصد سے بھی زیادہ کر دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں مقروض ملکوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور تنزانیہ کے سابق صدر جولیسن نائریری نے کہا تھا ’’ہم اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے اپنے بچوں کو فاقہ کشی میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔‘‘ اس ایک اقدام نے اگلے 25 برس تک مقروض ملکوں کو بدترین حالات کا شکار کر دیا تھا۔ بعد میں والکر نے اسے غلطی قرار دیتے ہوئے معافی مانگ لی تھی جو امریکا کا پرانا وطیرہ ہے۔ اس وقت غریب ملکوں کے ذمے واجب الادا قرضوں کا 21 فیصد چین، 11 فیصد پیرس کلب کے ممالک، 41 فیصد آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جب کہ 23 فیصد نجی قرض خواہوں اور بانڈز مالکان کا ہے۔ امریکا کا حصہ محض 1.6 فیصد ہے لیکن امریکا کا رویہ ایسا ہے کہ ساری دنیا کو اپنے اشاروں پر چلانا چاہتا ہے۔ امریکا کی اس من مانی کی اصل وجہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک پر اس کا کنٹرول ہے۔ کہنے کو تو آئی ایم ایف اور عالمی بینک خود مختار ادارے ہیں لیکن درحقیقت امریکی سیاسی مفادات کے حصول میں ایک ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
جان پرکنز (John Perkins) کی کتاب ‘Confessions of an Economic Hitman` اس امریکی پالیسی پر ایک محکم شہادت ہے جس میں ’پرکنز‘ نے ثابت کیا ہے کہ امریکی پالیسی سازوں نے غلامی کی ایک جدید صورت متعارف کرائی ہے۔ اس پالیسی کے تین بنیادی کردار عالمی مالیاتی ادارے، امریکا خود اور قرض حاصل کرنے والے ملک میں برسر اقتدار ٹولہ ہوتے ہیں۔ یہ تین کردار باہم مل کر کسی ملک کو اُس کی آزادی اور خودمختاری سے محروم کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے چین کی وزارت خارجہ کی تازہ ترین پریس بریفنگ میں امریکا کا نام لیے بغیر چینی ترجمان ’ماؤننگ‘ نے کہا ’’پاکستان، گھانا اور کئی دیگر ممالک جس معاشی ��حران سے گزر رہے ہیں، یہ سب مخصوص ترقی یافتہ ملک کا کیا دھرا ہے‘‘۔ اگر پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان بدترین حالات میں بھی جو ملک حقیقی معنوں میں مدد کے لیے آگے آئے ہیں ان میں چین،‘ ایران اور ازبکستان سرفہرست ہیں، حالانکہ ایران اور ازبکستان تو خود معاشی مسائل کا شکار ہیں۔
چین نے جہاں آئی ایم ایف کے برعکس غیر مشروط طور پر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا ہے وہیں ایران نے دو طرفہ تجارت کو پاکستان کی موافقت میں 5 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور ازبکستان نے ایک ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ پاکستان کے بالا دست طبقات اور مقتدر اشرافیہ اس بات کے تصور سے بھی گریزاں نظر آتی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے چھٹکارا پانے کے کیا آپشنز ہو سکتے ہیں، انھیں تمام معاشی مسائل کا حل بدستور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں میں ہی نظر آتا ہے۔
غلام محی الدین
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کووڈ 19 مثبت شرح 5.73 فیصد رہ گئی۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کووڈ 19 مثبت شرح 5.73 فیصد رہ گئی۔
اسلام آباد: گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 65 پاکستانی کووڈ 19 سے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں ، جس سے ملک میں مجموعی طور پر اموات کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے کہا کہ نئے انفیکشن کے ظہور کے بعد ملک میں مجموعی طور پر تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ مجموعی طور پر 1،006،078۔ وبا سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انفیکشن کی مثبت شرح کل کے 6.23 فیصد…
View On WordPress
#According to the latest data#Covid-19#the nationwide COD 19 positive rate remained at 5.73%.#پاکستان#تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں کووڈ 19 مثبت شرح 5.73 فیصد رہ گئی۔#کورونا وائرس#کووڈ 19#مرنے والوں کی تعداد
0 notes
Text
پی آئی اے کی 3 پروازیں چین سے کرونا ویکسین اسلام آباد پہنچ گئیں
پی آئی اے کی 3 پروازیں چین سے کرونا ویکسین اسلام آباد پہنچ گئیں
اسلام آباد: پی آئی اے کی تین خصوصی پروازیں چین سے کووڈ 19 ویکسین لے کر اسلام آباد پہنچ گئیں۔ سی ای او پی آئی اے ایئر مارشل ارشد ملک کا کہنا ہے کہ ہم نے چین سے ویکسین لانے کے لیے اسلام آباد سے بیجنگ تک تین خصوصی پروازیں کی، پہلی پرواز آج دوپہر اور دو پروازیں شام میں اسلام آباد پہنچ گئیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ویکسین کی فراہمی کے لیے ہم ہر وقت تیار ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں نیا…
View On WordPress
0 notes
Text
ماحولیاتی تبدیلی: خطرے کی گھنٹی
کہتے ہیں انسانوں کو دو چیزیں متحد کر دیتی ہیں، ایک مشترکہ مفاد اور دوسری مشترکہ خوف، لیکن اگر ان دونوں چیزوں سے بھی انسان متحد نہ ہوں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض انسانوں کی نظر میں خوف اور مفاد کی تشریح مختلف ہو۔ جیسے 2019 میں عالمی سطح پر نمودار ہونے والے کووڈ 19 وائرس کو سبھی نے اپنے لیے خطرہ اور اس سے بچاؤ کو فائدہ تسلیم کیا۔ اسی طرح طاعون، پولیو اور اس جیسے دوسرے جان لیوا…
View On WordPress
0 notes
Text
ماحولیاتی تبدیلی: خطرے کی گھنٹی
کہتے ہیں انسانوں کو دو چیزیں متحد کر دیتی ہیں، ایک مشترکہ مفاد اور دوسری مشترکہ خوف، لیکن اگر ان دونوں چیزوں سے بھی انسان متحد نہ ہوں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض انسانوں کی نظر میں خوف اور مفاد کی تشریح مختلف ہو۔ جیسے 2019 میں عالمی سطح پر نمودار ہونے والے کووڈ 19 وائرس کو سبھی نے اپنے لیے خطرہ اور اس سے بچاؤ کو فائدہ تسلیم کیا۔ اسی طرح طاعون، پولیو اور اس جیسے دوسرے جان لیوا…
View On WordPress
0 notes
Text
کورونا وائرس: پاکستان میں کووڈ 19 کا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے اور کیا اس کا نتیجہ غلط بھی ہو سکتا ہے؟
New Post has been published on https://bestnews99.com/2020/04/04/%da%a9%d9%88%d8%b1%d9%88%d9%86%d8%a7-%d9%88%d8%a7%d8%a6%d8%b1%d8%b3-%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%da%a9%d9%88%d9%88%da%88-19-%da%a9%d8%a7-%d9%b9%db%8c%d8%b3%d9%b9/
کورونا وائرس: پاکستان میں کووڈ 19 کا ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے اور کیا اس کا نتیجہ غلط بھی ہو سکتا ہے؟
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کا موت کے بعد کیا جانے والا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت ہو لیکن ان کی میت کو غسل دینے والے کسی بھی شخص میں وائرس کی تشخیص نہ ہو؟ خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے طبی ماہرین اور مقامی انتظامیہ کے لیے ایسا ہی ایک کیس اس وقت معمہ بن گیا ہے۔ یہاں کے ایک رہائشی کا 24 مارچ کو انتقال ہو گیا۔ محمد عامر 8 فروری کو عمان سے پاکستان آئے تھے اور 23 مارچ کو ان کی شادی ہوئی تھی۔ مقامی ڈاکٹروں نے بتایا کہ محمد عامر کی طبیعت شادی سے چند روز پہلے خراب ہوئی اور انھیں مقامی سول ہسپتال لایا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد انھیں گھر بھیج دیا گیا۔ جب ان کی حالت مزید بگڑی تو گھر والے انھیں علاج کے لیے ملتان لے گئے، جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق وفات کے بعد ان کی لاش سے لیے گئے نمونے میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس پر انتظامیہ حرکت میں آئی اور محمد عامر کے جنازے میں شامل ان ک�� خاندان کے قریبی لوگوں کے بھی ٹیسٹ کیے گئے۔ تاہم ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈپٹی کمشنر کے مطابق ان سب میں کورونا وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ان افراد کے ٹیسٹ کے نتائج ’فالس نیگیٹیو‘ یا ’فالس پازیٹیو‘ کے زمرے میں آتے ہیں؟ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے شعبہ ہیماٹولوجی سے وابستہ ڈاکٹر ہما ریاض کے مطابق اگر ایک شخص کسی ایسے فرد سے رابطے میں آئے جس میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ ان میں بھی وائرس منتقل ہو جائے۔ ان کے مطابق جہاں 100 میں سے 90 افراد کو ایسے انفیکشن ہو جائے گا تو ممکن ہے کہ 10 کو نہ ہو۔ کسی مریض میں کورونا وائرس کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟ کورونا وائرس کے ٹیسٹ دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ اگر آپ سے خون کا نمونہ لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اس میں موجود اینٹی بوڈیز سے اندازہ لگایا جائے گا کہ آپ کے جسم میں وائرس موجود ہے یا نہیں۔ اگر آپ کا سواب ٹیسٹ ہوتا ہے تو آپ کے منھ سے نمونہ لیا جاتا ہے جو ’پولیمریز چین ری ایکشن‘ یا پی سی آر ٹیسٹ کے لیے موزوں ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر ٹیسٹ اسی طرح کی کٹس سے ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر ہما بتاتی ہیں کہ پی سی آر ٹیسٹ میں کسی بھی فرد سے ملنے والے نمونے کا ایک ’نون کنٹرول‘ کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ یہاں ’نون کنٹرول‘ سے مراد وائرس کی وہ جینیاتی ترتیب ہے جو اس کی پہچان ہوتی ہے۔ ان کے مطابق جب ان دونوں نمونوں کا موازنہ کیا جاتا ہے تو جو نمونہ کورونا وائرس کی جینیاتی ترتیب سے ملتا جلتا ہے، اسے پازیٹیو یا مثبت قرار دیا جاتا ہے۔ اگر نمونے کی جینیاتی ترتیب چین کے شہر ووہان سے سامنے آنے والے وائرس کی ترتیب سے نہیں ملتی تو اس کا مطلب ہے کہ یہ کچھ اور ہے اور اس ٹیسٹ کا نتیجہ نیگیٹیو یا نفی میں ہوتا ہے۔ ووڈ 19 وائرس سارس کی طرح کا وائرس ہے جو پہلے سے مختلف جگہوں پر موجود ہے اس کی اپنی ایک ساخت ہے۔۔۔ اس کے علاوہ اس وائرس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس جب ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے تو یہ اپنی شکل بدلتا ہے۔‘ لیکن کیا اس ٹیسٹ کا نتیجہ غلط بھی ہو سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کا کورونا وائرس ٹیسٹ نیگیٹیو آئے اور موت کے بعد ان کے جسم میں کورونا کی تشخیص ہو؟ ڈاکٹر ہما کے مطابق اگر نمونہ صحیح طرح لیا جائے تو پی سی آر ٹیسٹ میں غلطی کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ ان کے مطابق: ’اگر مریض کا نمونہ صحیح طرح نہ لیا جائے یا اس کی مقدار ضروت سے کم ہو تو فالس یعنی غلط نیگیٹیو آ سکتا ہے۔‘ ان کے مطابق اس میں غلطی کی گنجائش ہوتی ہے۔ تاہم اگر ٹیسٹ مثبت آئے تو غلطی کی گنجائش کم ہوتی ہے کیونکہ مثبت نتیجہ تب ہی آتا ہے جب پی سی آر ٹیسٹ میں اس وائرس کی جینیاتی ترتیب سے کوئی مُوافقت ملتی ہے۔
0 notes
Text
گلزار صاحب : نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے
کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو گزر جانے اور وقت کے سمندر کا حصہ بن جانے کے باوجود ہمارے ذہن کی لوح پر جگمگاتے رہتے ہیں۔ وہ دن بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔ یہ کووڈ 19 کے دنوں کی بات ہے جب اسلام آباد میں ہمارے سیکٹر میں مکمل لاک ڈائون تھا اور ہم محصوری کے عالم میں زندگی گزار رہے تھے۔ وہ مارچ کا مہینہ تھا اور گھر سے باہر بہار کا عالم تھا لیکن درمیان میں لاک ڈائون کی خلیج حائل تھی۔ وہ جو باقی صدیقی نے کہا ہے:
ایک دیوار کی دوری ہے قفس توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے
وہ ہفتے کا دن تھا اور مارچ کے مہینے کی 29 تاریخ۔ رات کا وقت تھا۔ میں نے کھڑکیوں کے پردے برابر کر دیے اور میز پر بیٹھ کر ٹیبل لیمپ کی روشنی میں کتاب پڑھنے لگا۔ پس منظر میں لیپ ٹاپ پر فریدہ خانم کی آواز میں اطہر نفیس کی غزل چل رہی تھی ''وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا‘‘ فریدہ خانم کی آواز میں ایک جادو تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وقت ٹھہر گیا ہو۔ اچانک میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ میں نے کمرے میں لگے کلاک پر نظر ڈالی۔ آٹھ بج کر انتالیس منٹ ہو رہے تھے۔ میں نے موبائل کی سکرین پر دیکھا۔ نمبر شناسا نہ تھا‘ لیکن نمبروں کی ترتیب ایسی تھی کہ یہ طے تھا کہ یہ نمبر پاکستان کے کسی شہر کا نہیں۔
تیسری بار گھنٹی بجنے پر میں نے فون اٹھا کر ہیلو کہا تو دوسری طرف سے ایک شائستہ لہجے میں کسی نے اردو میں پوچھا ''شاہد صاحب؟‘‘ میں نے کہا ''جی میں بول رہا ہوں‘‘۔ اسی سہج انداز میں کسی نے کہا ''شاہد صاحب میں گلزار بول رہا ہوں‘‘ ۔ گلزار؟ میرے ذہن میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ یہ آواز میں نے ٹیلی ویژن کی سکرین پر کئی بار سنی تھی۔ اتنی بار کہ اب ہزاروں آوازوں میں پہچان سکتا تھا‘ لیکن پھر بھی ایک بے یقینی کی کیفیت تھی۔ کیا یہ واقعی گلزار کی آواز ہے۔ وہی گلزار جو جہلم کے قریب ایک قصبے دینہ میں پیدا ہوا تھا اور جس نے بالی وڈ میں اپنی منفرد نغمہ نگاری اور انوکھی فلموں سے دھوم مچا دی تھی‘ اور جس کے دینہ سے تعلق پر میں نے دنیا اخبار کے انہیں صفحات پر چار کالمز کی ایک سیریز لکھی تھی۔ ایک سیکنڈ کے لیے سارے منظر میرے ذہن میں روشن گئے۔
فون پر گلزار کی آواز آئی ''شاہد صاحب کیسے مزاج ہیں؟‘‘ میں نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے کہا ''میں خیریت سے ہوں‘ آپ کیسے ہیں؟‘‘ ''نوازش ہے آپ کی‘ بھئی شاہد صاحب آپ نے میرے حوالے سے دنیا اخبار میں جو کالم لکھے مجھے بہت پسند آئے‘‘۔ میں نے کہا: مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ تک وہ کالم پہنچے اور آپ نے پڑھ کر پسند کیے‘ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ ''گلزار صاحب ہنستے ہوئے بولے ''سچی بات تو یہ ہے کہ یہ ای میل اور وٹس ایپ میری سمجھ میں نہیں آتے‘ اس سلسلے میں میری مدد فرحانہ کرتی ہے‘ فرحانہ میرے وٹس ایپ اور ای میل کے پیغامات دیکھتی ہے۔ آپ کے کالم بھی اسی نے مجھے پرنٹ کر کے پڑھنے کو دیے۔ مجھے اپنے وطن دینہ اور اپنی گلی کا ذکر پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ شاہد صاحب 2013 میں پاکستان آیا تو دینہ میں اپنی گلی میں اکیلا گیا تھا‘ لیکن آپ کے کالم پڑھ کر مجھے یوں لگا اس دفعہ میں اس گلی میں آپ کے ساتھ ہو آیا ہوں۔
کالم پڑھ کر میں نے سوچا‘ خط کیا لکھنا براہ راست آپ سے بات کی جائے‘‘۔ میں نے کہا: یہ میری خوش بختی ہے کہ آپ نے ٹیلیفون کیا یہاں آپ کے اور آپ کی شاعری کے چاہنے والے بہت ہیں۔ وہ جو آپ کا ایک گیت ہے نا ''نظر میں رہتے جو تم نظر نہیں آتے‘‘ ۔ گلزار ہنستے ہوئے بولے: یہ محبت کے رشتے ہیں۔ میں نے کہا: گلزار صاحب میں نے اپنے اردو ناولٹ کا نام ''آدھے ادھورے خواب‘‘ رکھا تھا۔ یہ نام آپ کے ایک گیت کا ٹکڑا ہے۔ گلزار صاحب نے اشتیاق سے پوچھا کون سا گیت؟ ان کے کہنے پر میں نے ان کے گیت کی چار سطریں انہیں سنائیں:
جاگے ہیں دیر تک ہمیں کچھ دیر سونے دو تھوڑی سی رات ہے صبح تو ہونے دو
آدھے ادھورے خواب جو پورے نہ ہو سکے اک بار پھر سے نیند میں وہ خواب بونے دو
مجھے یاد ہے‘ ایک دوست سے میں نے کہا تھا کہ وہ میرا ناول گلزار صاحب کو بھجوا دیں کیونکہ اس ناول کی تحریک گلزار کے گیت کی وہ سطریں تھیں جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ میں نے پوچھا: آپ کو میرا ناول تو مِل گیا ہو گا۔ گلزار بولے: مجھ تک آپ کا ناول نہیں پہنچا‘ لیکن میں ضرور پڑھنا چاہوں گا۔ میں نے گلزار صاحب سے وعدہ تو کر لیا‘ اب دیکھئے یہ کیونکر ممکن ہوتا ہے۔ میں نے کہا: گلزار صاحب آپ کی شاعری کا مجموعہ ''بال و پر سارے‘‘ پاکستان میں شائع ہوا ہے‘ جو میرے پاس ہے‘ بہت سے اشاعتی اداروں نے آپ کی کتابیں شائع کی ہیں۔ آپ کی شخصیت اور فن پر بھی کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ آپ کے افسانوں کا ایک مجموعہ 'دستخط‘ میری بھانجی مینا نے مجھے دیا تھا۔ وہ بھی آپ کی شاعری کی دلدادہ ہے۔ آج کل وہ دبئی میں رہتی ہے۔
جب آپ دبئی ایک فنکشن میں آئے تھے تو اس نے آپ کی باتیں سننے کیلئے وہ فنکشن اٹینڈ کیا تھا‘ اور پھر مجھے فون پر سارا احوال سنایا تھا۔ میں نے کہا: خاص طور پر دینہ کے حوالے سے بھی آپ کی نظمیں جذبات میں گندھی ہوئی ہیں۔ گلزار بولے: ایک نظم کا حوالہ آپ نے کالم میں دیا تھا۔ میں نے کہا: وہ آپ کی دینہ پر لکھی گئی نظم کی یہ سطریں تھیں: ''میں زیرو لائن پر آ کر کھڑا ہوں/ میرے پیچھے میری پرچھائیں ہے آواز دیتی ہے/ وہاں جب مٹی چھوڑو گے/ چلے آنا تمہارا گھر یہیں پر ہے/ تمہاری جنم بھومی، ہے وطن ہے‘‘ میں نے کہا: اب میرا ارادہ ہے‘ ان کالمز کی بنیاد پر ایک ویڈیو بنائی جائے‘ جس میں آپ کی آواز میں دینہ سے متعلق نظمیں بھی شامل ہوں۔ گلزار بولے: اچھا آئیڈیا ہے، میری آواز میں یہ نظمیں آپ کو یو ٹیوب پر مل جائیں گی۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں یہ نظمیں شامل ہیں۔ گلزار نے دینہ کے حوالے سے کئی نظمیں لکھیں۔ ان نظموں کے انگ انگ میں محبت کے جذبے کی مہکار بسی ہے۔ ایک نظم کی کچھ سطریں دیکھئے جو دینہ کے درودیوار کی نقش گری یوں کرتی ہیں:
''بس اک بازار تھا/ اک ''ٹاہلیوں‘‘ والی سڑک بھی تھی/ وہ اب بھی ہے/ مدرسہ تھا جہاں میں ٹاٹ کی پٹی بچھا کر تختی لکھتا تھا/ گلی بھی ہے/ وہ جس کا اک سرا ��ھیتوں میں کھلتا ہے/ وہ دیواریں ٹٹولیں کوئلے سے جن پہ اردو لکھا کرتا تھا‘‘ باتیں بھی اون کے گولے کی طرح ہوتی ہیں۔ پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ لیکن مجھے گلزار صاحب کی مصروف زندگی کا اندازہ تھا۔ وقت کی مجبوری آڑے آرہی تھی۔ میں نے گلزار صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر مجھے فون کیا۔ گلزار صاحب بولے ''آپ سے بات کر کے بہت اچھا لگا۔ انشااللہ پھر بات ہو گی۔ اب اجازت چاہوں گا۔ خدا حافظ‘‘۔ ٹیلیفون بند ہونے پر میں سو چنے لگا دن کا اس سے بہتر اختتام نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ دن بھی اب ماضی کا حصہ بن گیا ہے۔ لیکن کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو گزر جانے اور وقت کے سمندر کا حصہ بن جانے کے باوجود ہمارے ذہن کی لوح پر جگمگاتے رہتے ہیں۔ وہ دن بھی ایسا ہی ایک دن تھا۔
شاہد صدیقی
بشکریہ دنیا نیوز
5 notes
·
View notes
Text
یورپ میں فلو کے مریضوں میں غیرمعمولی اضافہ، سپین کے ہسپتالوں میں ماسک لازمی قرار دے دیا گیا
اسپین کی حکومت نے پیر کو اسپتالوں اور صحت کے کلینکوں میں ماسک لازمی پہننے کی تجویز پیش کی، اور اٹلی نے کہا کہ پ��رے یورپ میں فلو اور کووڈ کے پھیلنے کے ساتھ ہی سانس کی بیماریوں کے انفیکشن کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ بیماریوں کی روک تھام اور کنٹرول کے یورپی مرکز نے سفارش کی ہے کہ براعظم کے لوگ اگر بیمار محسوس کریں تو گھر میں ہی رہیں، اور ہجوم یا صحت کی دیکھ بھال کے اداروں میں ماسک پہننے پر غور…
View On WordPress
0 notes