#کشمیری عسکریت پسند
Explore tagged Tumblr posts
Text
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی ٹرک پر عسکریت پسندوں کا حملہ، ہلاکتوں کا امکان
مقبوضہ جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں عسکریت پسندوں نے بھارتی فوج کے ایک ٹرک پر حملہ کیا ہے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں خطے میں بھارتی فوج پر یہ دوسرا حملہ ہے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کمک اس علاقے میں بھیج دی گئی ہے جہاں بھارتی فوج کے ٹرک پر حملہ ہوا، اطلاعات کے مطابق فائرنگ جاری ہے، ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا نے بتایا کہ پونچھ کے سورنکوٹ علاقے میں ڈیرہ کی…
View On WordPress
0 notes
Text
اسلام آباد میں قتل ہونے والے سابق کشمیری کمانڈر بشیر احمد کون ہیں؟
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری تحریک سے جڑے لوگوں کی نماز جنازہ کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماعات تو گذشتہ کئی دہائیوں سے دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی سابق کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موت اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک غیر معمولی بات ہے۔ کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز…
View On WordPress
0 notes
Text
اسلام آباد میں قتل ہونے والے سابق کشمیری کمانڈر بشیر احمد کون ہیں؟
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری تحریک سے جڑے لوگوں کی نماز جنازہ کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماعات تو گذشتہ کئی دہائیوں سے دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی سابق کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موت اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک غیر معمولی بات ہے۔ کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز…
View On WordPress
0 notes
Text
اسلام آباد میں قتل ہونے والے سابق کشمیری کمانڈر بشیر احمد کون ہیں؟
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری تحریک سے جڑے لوگوں کی نماز جنازہ کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماعات تو گذشتہ کئی دہائیوں سے دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی سابق کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موت اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک غیر معمولی بات ہے۔ کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز…
View On WordPress
0 notes
Text
اسلام آباد میں قتل ہونے والے سابق کشمیری کمانڈر بشیر احمد کون ہیں؟
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری تحریک سے جڑے لوگوں کی نماز جنازہ کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماعات تو گذشتہ کئی دہائیوں سے دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی سابق کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موت اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک غیر معمولی بات ہے۔ کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز…
View On WordPress
0 notes
Text
Both factions of Hurriyat Conference likely to be banned under UAPA | India News
Both factions of Hurriyat Conference likely to be banned under UAPA | India News
سرینگر: سخت غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ کے تحت علیحدگی پسند جماعت کے دونوں دھڑوں پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ حریت کانفرنس عہدیداروں نے بتایا کہ جو دو دہائیوں سے جموں و کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک کی قیادت کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اداروں کی طرف سے کشمیری طلباء کو ایم بی بی ایس کی نشستیں دینے کی حالیہ تحقیقات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حریت کانفرنس جماعت کا حصہ بننے والی کچھ تنظیموں نے خواہش مندوں سے جمع کی گئی رقم کو یونین کے علاقے میں دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کے لیے استعمال کیا۔ عہدیداروں نے کہا کہ حریت کے دونوں دھڑوں پر غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ ، یا یو اے پی اے کے سیکشن 3 (1) کے تحت پابندی لگائی جا سکتی ہے ، جس کے تحت “اگر مرکزی حکومت کی رائے ہے کہ کوئی ایسوسی ایشن ہے ، یا غیر قانونی ایسوسی ایشن بن سکتی ہے ، یہ سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے ایسی ایسوسی ایشن کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے۔ ” انہوں نے کہا کہ یہ تجویز مرکز کی دہشت گردی کے خلاف صفر رواداری کی پالیسی کے مطابق پیش کی گئی ہے۔ حریت کانفرنس 1993 میں 26 گروپوں کے ساتھ وجود میں آئی ، جن میں کچھ پاکستان نواز اور کالعدم تنظیمیں شامل ہیں جیسے جماعت اسلامی ، جے کے ایل ایف اور دختران ملت۔ اس میں پ��پلز کانفرنس اور میرواعظ عمر فاروق کی سربراہی میں عوامی ایکشن کمیٹی بھی شامل تھی۔ علیحدگی پسند گروہ 2005 میں دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا جس میں میرواعظ کی قیادت میں اعتدال پسند گروپ اور سید علی شاہ گیلانی کی سربراہی میں سخت گیر گروپ تھے۔ اب تک مرکز نے جماعت اسلامی اور جے کے ایل ایف پر یو اے پی اے کے تحت پابندی عائد کی ہے۔ پابندی 2019 میں لگائی گئی تھی۔ عہدیداروں نے کہا کہ دہشت گرد گروہوں کی مالی معاونت کی تحقیقات میں حریت کانفرنس کے ممبران اور کارکنوں سمیت مبینہ طور پر علیحدگی پسند اور علیحدگی پسند رہنماؤں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں حزب المجاہدین (ایچ ایم) کے فعال عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ دختران ملت (DeM) اور لشکر طیبہ (LeT) انہوں نے کہا کہ کیڈروں نے جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے ملک اور بیرون ملک سے مختلف غیر قانونی چینلز بشمول حوالہ کے ذریعے فنڈز اکٹھے کیے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ جمع شدہ فنڈز سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ ، اسکولوں کو منظم طریقے سے جلانے ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کے ذریعے وادی کشمیر میں خلل پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یو اے پی اے کے تحت حریت کانفرنس کے دو دھڑوں پر پابندی لگانے کے معاملے کی حمایت کرتے ہوئے ، عہدیداروں نے دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق کئی مقدمات کا حوالہ دیا ، جن میں قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے زیر تفتیش مقدمہ بھی شامل ہے جس میں جماعت کے کئی کارکن گرفتار اور جیل گئے . انہوں نے بتایا کہ دونوں دھڑوں کے دوسرے درجے کے کئی کارکن 2017 سے جیل میں ہیں۔ جیل میں رہنے والوں میں گیلانی کے داماد الطاف احمد شاہ بھی شامل ہیں۔ تاجر ظہور احمد وٹالی گیلانی کے قریبی ساتھی ایاز اکبر جو کہ سخت گیر علیحدگی پسند تنظیم تحریک حریت کے ترجمان بھی ہیں۔ پیر سیف اللہ شاہد الاسلام ، اعتدال پسند حریت کانفرنس کے ترجمان مہراج الدین کلوال نعیم خان اور فاروق احمد ڈار عرف ‘بٹا کراٹے’۔ بعد میں ، جے کے ایل ایف کے سربراہ یاسین ملک ، ڈی ایم کی سربراہ آسیہ اندرابی اور پاکستان نواز علیحدگی پسند مسرت عالم کو بھی دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ایک مقدمے میں ضمنی چارج شیٹ میں نامزد کیا گیا۔ ایک اور کیس جس کا حوالہ حریت کانفرنس کے دو دھڑوں پر پابندی کے لیے دیا جا سکتا ہے وہ پی ڈی پی کے نوجوان رہنما وحید الرحمان پارا کے خلاف ہے ، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے گیلانی کے داماد کو کشمیر رکھنے کے لیے 5 کروڑ روپے ادا کیے تھے۔ حکام نے بتایا کہ 2016 میں حزب المجاہدین کے دہشت گرد کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہنگامہ آرائی ہوئی۔ این آئی اے نے الزام لگایا ہے کہ جولائی 2016 میں فوج کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے وانی کی ہلاکت کے بعد ، پیرا نے الطاف احمد شاہ عرف الطاف فانتوش سے رابطہ کیا اور اس سے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وادی کو ابلتے رکھا جائے۔ بڑے پیمانے پر بدامنی اور پتھر بازی کے ساتھ۔ اس کے علاوہ ، جموں و کشمیر پولیس کے سی آئی ڈی ڈیپارٹمنٹ کی ایک شاخ کاؤنٹر انٹیلی جنس (کشمیر) نے گزشتہ سال جولائی میں ایک معلومات درج کی تھی کہ کچھ حریت رہنماؤں سمیت کئی بے ایمان لوگ کچھ تعلیمی مشاورت کے ساتھ دستانے میں تھے اور فروخت کر رہے تھے۔ پاکستان میں ایم بی بی ایس کی نشستیں اور مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دیگر پروفیشنل کورسز میں داخلہ۔ اس معاملے میں کم از کم چار افراد بشمول سالویشن موومنٹ کے خود ساختہ چیئرمین محمد اکبر بھٹ عرف ظفر بھٹ کو گرفتار کیا گیا ہے جو اعتدال پسند حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ یہ الزام ہے کہ حریت کانفرنس کے حلقے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی نشستیں کشمیری طلبا کو “بیچ رہے ہیں” اور جمع کی گئی رقم کو کم از کم جزوی طور پر دہشت گردی کی حمایت اور فنڈنگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ عہدیداروں نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ انفرادی حریت رہنماؤں کے پاس اپنی نشستوں کا کوٹہ تھا جو ایم بی بی ایس اور دیگر پیشہ ورانہ ڈگریاں حاصل کرنے کے خواہشمند افراد کو کسی نہ کسی طرح بیچ دیا گیا۔ عہدیداروں نے کہا کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رقم ان چینلز میں ڈال دی گئی جو دہشت گردی اور علیحدگی پسندی سے متعلق پروگراموں اور منصوبوں کی مدد پر ختم ہوئے جیسے پتھر مارنے کے لیے ادائیگی۔ تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے عہدیداروں نے بتایا کہ پاکستان میں ایم بی بی ایس سیٹ کی اوسط قیمت 10 سے 12 لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ بعض صورتوں میں حریت رہنماؤں کی مداخلت پر فیس کم کی گئی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ حریت رہنما کے سیاسی حجم پر منحصر ہے جس نے مداخلت کی ، خواہش مند طلباء کو رعایت دی گئی۔
. Source link
0 notes
Text
سرینگر ان کاونٹر میں مارے گئے نوجوان طالب علم تھے: اہلِ خانہ کا دعویٰ
سرینگر ان کاونٹر میں مارے گئے نوجوان طالب علم تھے: اہلِ خانہ کا دعویٰ
سرینگر — بھارت کی فوج کے اس دعوے کو کشمیری نوجوانوں کے والدین نے مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سرینگر کے مضافات میں جھڑپ کے دوران مارے جانے والے نوجوان عسکریت پسند تھے۔ فوج کے دعوے کے مطابق جموں و کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے مضافات لاوے پورہ میں منگل کی شام شروع ہونے والی جھڑپ بدھ کو صبح ساڑھے گیارہ بجے تین عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر ختم ہوئی۔ ادھر مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک…
View On WordPress
0 notes
Text
بھارتی پولیس نے 3 کشمیریوں کو جعلی فوجی مقابلے میں شہید کیے جانے کی تصدیق کردی - اردو نیوز پیڈیا
بھارتی پولیس نے 3 کشمیریوں کو جعلی فوجی مقابلے میں شہید کیے جانے کی تصدیق کردی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین سری نگر: جموں و کشمیر پولیس نے بھارتی فوج کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کو جعلی مقابلے میں شہید کیے جانے کی تصدیق کردی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی درندگی پھر بے نقاب ہو گئی اور بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نئے ثبوت سامنے آ گئے۔ رواں سال 18 جولائی کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں میں بھارتی فوج نے مقابلے میں 3 کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پسند قرار دے کر شہید کردیا تھا جو…
View On WordPress
0 notes
Photo
کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال: ’دفعہ 370 آئین سے خارج ہوا مگر دلوں میں بس گیا‘ ریاض مسروربی بی سی اردو، سری نگر47 منٹ قبل،بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کشمیری کارکنوں نے 5 اگست سے دس روزہ جشن کا اعلان کیا ہے۔ یہ جشن گزشتہ برس اسی روز کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کرنے اور خطے کو دو الگ الگ مرکز کے زیر انتظام علاقے قرار دیے جانے کے تاریخی فیصلے کی یاد میں منایا جائے گا۔بی جے پی کے لئے یہ فیصلہ بے پناہ سیاسی مفادات کا حامل ہے تاہم حکومت ابھی تک اس فیصلے کو کشمیریوں کے لیے قابل قبول بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے ایک سال گزر جانے کے باوجود انتظامیہ نے پھر ایک بار وادی میں سخت کرفیو نافذ کیا ہے اور ان خفیہ اطلاعات کا حوالہ دیا ہے کہ ’بعض پاکستان نواز عناصر نے اس روز یوم سیاہ منانے اور تخریبی کارروائیاں کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔‘گذشتہ برس اگست کے اوائل میں جب یہ فیصلہ کیا گیا تو کئی ہفتے قبل اس کے لیے بے شمار سکیورٹی انتظامات کئے گئے تھے: تقریباً دو لاکھ اضافی سیکورٹی اہلکار وادی کے چپے چپے پر تعینات کئے گئے اور دہشت گردوں کے حملوں کی خفیہ اطلاعات کا حوالہ دے کر امرناتھ یاتریوں، سیاحوں اور غیرمقامی مزدوروں کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر وادی چھوڑنے کے لئے کہا گیا۔دوسری جانب سینکڑوں علیحدگی پسند کارکنوں اور اُن کے رہنماؤں کو قید کیا گیا، جماعت اسلامی اور کشمیر لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دیا گیا اور بڑے پیمانے پر انتظامیہ میں تبادلے عمل میں لائے گئے۔ اور تو اور پانچ اگست سے ایک دن قبل سب ہی ہندنواز کشمیری رہنماؤں کو گھروں یا گیسٹ ہاؤسز میں قید کر دیا گیا۔سرینگر کے علاقے صورہ میں کئی ہفتوں تک مظاہرے ہوئے جنہیں بالآخر دبا دیا گیا۔ کئی دیگر مقامات پر بھی لوگوں نے ناراضگی کا اظہار کرنے کی کوشش کی لیکن سخت ترین کرفیو اور رابطوں پر قدغن نے ان مظاہروں کو پھیلنے نہیں دیا۔ اپ کی ڈیوائس پر پلے بیک سپورٹ دستیاب نہیںکئی ماہ بعد بندشیں نرم کی گئی، بیشتر ہند نواز رہنماؤں کو رہا کیا گیا تاہم اب بھی تیز رفتار انٹرنیٹ پر پابندی ہے اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سمیت کئی ہندنواز گھروں میں نظربند ہیں۔ تعلیمی سرگرمیاں گزشتہ خزاں میں شروع ہوئی تھیں کہ سخت ترین سردیوں سے پھر معطل ہوگئیں اور اس سال مارچ میں ابھی سکول اور کالج کلاس ورک بحال نہیں کرپائے تھے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سب کچھ پھر سے وہیں پہنچ گیا جہاں پچھلے سال اگست میں تھا۔ انڈیا کی حکومت کا اصرار ہے کہ دفعہ 370 کشمیریوں کی ترقی اور خوشحالی میں ایک رُکاوٹ تھی اور اس کے ہٹنے سے پاکستانی حمایت یافتہ علیحدگی پسندی اور ہند مخالف سوچ ختم ہوجائے گی۔ تاہم اس فیصلے کے بعد نہ صرف کشمیر کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے بلکہ اب بھی حکومت کہتی ہے کہ فیصلے کی سالگرہ پر پاکستانی حمایت یافتہ لوگ تخریب کاری کریں گے۔ تاجروں کی سب سے پرانی انجمن کشمیر چیمبر آف کامرس کے سربراہ شیخ عاشق کہتے ہیں: ’ایک سال کے اندر کشمیری معیشت کو چالیس ہزار کروڑ روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ پانچ لاکھ سے زیادہ ایسے لوگ بے روزگار ہوگئے جو باقاعدہ کام دھندہ کررہے تھے، دیگر بے روزگاروں کو ہم نے شمار نہیں کیا۔ حکومت نے عالمی سرمایہ کاری کا دعویٰ کیا، لیکن یہاں فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔ ہم بھی ڈھونڈ رہے ہیں کہ وہ خوشحالی اور ترقی کہاں ہے؟‘،غور طلب بات یہ ہے کہ ایک سال کے اندر سینکڑوں قوانین کو جموں کشمیر میں نافذ کیا گیا اور ان میں سے غیرمقامی لوگوں کو شہریت دینے، فوج کو کہیں بھی تعمیر کرنے کی بے روک ٹوک اجازت اور نوکریوں کے لئے پورے بھارت کے اُمیدواروں کو اہل قرار دیے جانے کی رعایت جیسے فیصلے سے جن سے عام لوگوں کو خدشہ ہے کہ کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار تبدیل کیا جارہا ہے۔ اکثر حلقے یہاں حیران ہیں کہ جن تبدیلیوں کا وعدہ کیا گیا تھا اُن کی جگہ خوف و ہراس، غیر یقینی، بےروزگاری اور ایک بار پھر سے کرفیو جیسی صورتحال کیوں ہے؟ نوجوان صحافی اور تجزیہ نگار ریاض ملک کہتے ہیں: ’دفعہ 370 کو ہٹانے کا اعلان اس دعوے کے ساتھ کیا گیا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا، لیکن اسی ایک سال کے اندر دو سو سے زیادہ مسلح عسکریت پسند مارے گئے، متعدد سیکورٹی اہلکار مارے گئے اور فوج کا کہنا ہے کہ پاکستانی افواج نے ایل او سی پر ریکارڈ مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور اب اس فیصلے کی سالگرہ پر پھر ایک بار کہا جارہا ہے کہ سکیورٹی کو لاحق خطرات کے پیش نظر کرفیو نافذ رہے گا۔ اس میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کیا؟‘سابق وزیر اور معاشی امور کے ماہر اور معروف کالم نگار ڈاکٹر حسیب درابو نے اپنی حالیہ تحریروں میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ: ’دفعہ 370 پہلے ہی کھوکھلا ہوچکا تھا، لیکن پچھلے سال اسے آ ئین کی کتابوں سے نکال کر لوگوں کے دلوں میں دوبارہ بسایا گیا۔ جس علیحدگی پسندی کو ختم کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا اب وہ غالب سوچ بن گئی ہے اور دفعہ 370 محض ایک غیرمتعلق تحریر سے باقاعدہ ایک نظریہ بن گیا ہے۔‘،EPAبی جے پی کے ایک سینئر کارکن نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا: ’ہمیں اپنی فوج پر بھروسہ ہے۔ ظاہر ہے پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا، کرفیو وغیرہ سیکورٹی ضرورت ہے، لیکن ہم پارٹی دفاتر پر جشن ضرور منائیں گے۔‘بی جے پی نے پانچ اگست کو یوم فتح کے طور منانے کا اعلان کیا تھا جبکہ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے اس دن کو یوم سیاہ قرار دیا ہے۔ پچھلے سال کے واقعات کے بعد پی ڈی پی کے بعض رہنماؤں نے ’اپنی پارٹی‘ نام سے الگ گروپ بنا کر وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے ساتھ دلی میں ملاقات کی۔اس جماعت کا کہنا ہے کہ یہ دن ’یوم تجدید عہد‘ کے طور منایا جائے گا۔ وضاحت کرتے ہوئے پارٹی کے ترجمان بشارت سید نے بتایا: ’ہم نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دلائیں گے، اور ڈومیسائل قوانین میں ترمیم کروائیں گے، اسی عہد کی تجدید ہوگی۔‘ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
Text
پاکستان اور مہاجرین
چشمِ فلک نے اپنے آبائی علاقوں، گھر بار، مال و اسباب اور لاتعداد عزیز و اقارب کی لاشیں چھوڑ کر انتہا پسند ہندوئوں اور سکھوں کے مسلح جتھوں کے ہاتھوں قتلِ عام سے بچنے کے لئے پاکستان میں پناہ لینے والے لاکھوں مہاجرین کا ایک طوفانی ریلا 1947 میں دیکھا۔ حکومتِ پاکستان نے شدید مشکلات اور کم وسائل کے باوجود اسے سنبھالا۔ عوام خصوصاً پنجاب اور سندھ کے مسلمانوں نے لُٹے پُٹے لوگوں کی جس طرح مدد کی وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ مہاجرین کا دوسرا بڑا سیلاب چار عشرے قبل افغانستان سے آیا جب غیرملکی جارحیت اور خانہ جنگی سے بچنے کے لئے 45 لاکھ افغان سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو گئے۔ ان میں سے کچھ وقت گزرنے کے ساتھ واپس چلے گئے مگر اب بھی 27 لاکھ یہاں موجود ہیں۔
پاکستان اور اس کے عوام نے ان کی دل کھول کر مہمان نوازی کی جس کا جائزہ لینے کے لئے اسلام آباد میں ’���پاکستان میں افغان مہاجرین کے قیام کے40 سال‘‘ کے موضوع پر عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان، اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور دوسرے رہنمائوں نے مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کے مسائل اور عالمی برادری کی ذمہ داریوں کا احاطہ کیا۔ وزیراعظم نے کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ پاکستان نے اس کے باوجود کہ گزشتہ کئی ��ہائیوں سے خود معاشی بحران کا شکار رہا ہے، لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی۔
نائن الیون کے واقعہ کے بعد اسلامو فوبیا کے پرچار سے اسلام اور دہشت گردی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا گیا، پاکستان بھی دہشت گردی کا شکار ہوا۔ یہاں اب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم ہو چکے ہیں مگر لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی میں انتہا پسندی ختم کرنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے سوال کیا کہ مہاجرین کے کیمپوں سے چند ہزار عسکریت پسند کیسے پکڑے جا سکتے ہیں؟ وزیراعظم نے بھارت میں امتناع قانون شہریت کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کو مہاجرین کے ایک نئے ریلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس سے ہماری معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا اور عالمی برادری نے اس کا نوٹس نہ لیا تو اس سے دنیا کے امن کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
بھارت میں انتہا پسندی کی سوچ غالب آچکی ہے اور 80 لاکھ کشمیری کئی ماہ سے محاصرے میں ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مہاجرین کی موثر دیکھ بھال پر پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ اس نے 40 سال سے افغان مہاجرین کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے۔ یہ سخاوت دہائیوں اور نسلوں پر محیط ہے جو دنیا کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان آج بھی مہاجرین کی میزبانی کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی خدمات کے مقابلے میں عالمی برادری کا تعاون بہت کم رہا۔ اب بھی وقت ہے کہ دنیا آگے بڑھے اور مہاجرین کی پاکستان سے واپسی میں مدد کرے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے تمام شراکت دار اپنا کردار ادا کریں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Photo
3 نوجوان بھارتی فائرنگ سے مقبوضہ کشمیر میں شہید 3 نوجوان بھارتی فائرنگ سے مقبوضہ کشمیر میں شہید مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 3 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا قابض افواج نے ضلع اسلام آباد اننت ناگ کے علاقے پازل پورہ میں آپریشن کیا اس دوران گھر گھر تلاشی لی گئی اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا آپریشن کے دوران قابض فورسز نے تین نوجوانوں کو گرفتار کیا اور انہیں عسکریت پسند قرار دے کر فائرنگ کرکے شہید کردیا واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں کو 73 روز ہوگئے ہیں سچ کا ساتھ نیوز پاکستان
0 notes
Photo
رسی ٹوٹ گئی ، بل نہ گیا !بھارت منہ کی کھانے کے بعد بلبلا اٹھا ، پاکستان کیخلاف بڑا اعلان کر دیا اسلام آباد(این این آئی) امریکی میڈیا نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے پاکستان کے خلاف مزید کارروائی کی دھمکی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل اور کشیدہ صورتحال کو معمول پر لانے پر توجہ مرکوز کرے ، بھارتی طیاروں نے چند در��اتوں کو بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا ، اگلی صبح پاکستانی لڑاکا طیاروں کی بمباری سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ پاکستان کا قومی وقار بلند ہوا ہے ، بھارتی طیاروں کی کارروائی کے بعد پاکستان نے جو کہا تھا وہ کر دکھایا۔ تفصلیات کے مطابق نیویارک میں مقیم کشمیری صحافی بشارت نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں لکھا کہ بھارت کی طرف سے مزید کارروائی کی دھمکیوں، بدلہ لینے اور جنگ کی گیدڑ بھبکیو�� سمیت فوجیوں کی تعیناتی میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور بیرونی دنیا کے ساتھ ہر فرد اس بات پر زور دے رہا ہے کہ بحران پیدا کرنے والے اقدامات سے اجتناب کیا جائے، طویل خونریزی اور کشمیریوں کا قتل عام بند کیا جائے،آرٹیکل کے مطابق نریندر مودی کا بیان پاکستان پر فضائی حملے اور مزید کارروائی کا اشارہ ہے۔بیان میں نریندری مودی نے کہا ہے کہ یہ ایک پریکٹس تھی، اصل کام ابھی ہونا باقی ہے،آرٹیکل میں کہا گیا کہ نریندر موودی کے دھمکی آمیز الفاظ کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی طاقت وراور نفرت پسند شخص اپنی ناکامی کو قبول نہ کرتا ہو ۔ صحافی بشارت پیر لکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کا سبب پلوامہ میں خود کش حملہ تھا جس میں کشمیری نوجوان عادل احمد ڈار نے پیرا ملٹری فوجی قافلے کو نشانہ بنایا ۔انہوں نے لکھا کہ اس حملے کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ نے اس نفرت کو بڑھاوا دیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے انتہا پسندوں کی طرف سے جنگ اور بدلہ لینے کا شور مچایا گیا،پورے بھارت میں بھارتی قوم پرست کشمیریوں کے خون کے پیاسے ہوگئے ۔ کالجوںمیں کشمیری طلباء کومشتعل مظاہرین نے نشانہ بنایا ،ان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے اور دو ہزار سے زائد طلباء گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔بشارت پیر کے مطا بق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس نفرت اور اشتعال انگیزی کو آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ اس نے قوم پرستوں کے آنسوپوچھنے کا وعدہ کیا اور منگل کو بھارت کی طرف سے پاکستان شمال معربی علاقہ بالاکوٹ میں حملے کا دعویٰ کر دیا،1971ء کے بعدپہلی مرتبہ بھارتی طیاروں کی طرف سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئی۔بھارت کے اعلیٰ سفارتکاروں نے حملے کی تعریف اور مضحکہ خیز زبان استعمال کرتے ہوئے بیان بازی شروع کر دی۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے 300سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کر دیا لیکن مودی کی خواہش پوری نہیں ہوئی اور خود مختار اطلاعات نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ بھارتی طیاروں نے چند درختوں کو نشانہ بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔اگلی صبح پاکستانی لڑاکا طیاروں نے بھارتی مقبوضہ علاقوں میں بمباری کی جس سے آبادی کوکوئی نقصان نہیں ہوا تاہم پاکستان کا قومی وقار بلند ہوا۔ اور جس عزم کا اظہار پاکستان کی طرف سے کیا گیا تھا کہ ہم قوم کی توقعات سے بڑھ کر کارروائی کریں گے وہ پوری ہوئی۔پاک فضائیہ نے ایک بھارتی طیارے کو پاکستانی حدود میں مار گرایا اور بھارتی ونگ کمانڈر ابھی نند کو گرفتار کر لیا گیا۔پاکستان کی طرف سے اس کی گرفتاری سمیت اس کی چائے سے تواضع اور تفتیش کے دوران گفتگو کی ویڈیو بھی جاری کی گئی ۔پائلٹ کی گرفتاری کے بعد مودی اور اس کے حواریوں کی دھمکیاںکچھ دیر کیلئے بند ہوگئیں۔ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بھارتی پائلٹ کی رہائی کے فیصلے کا اعلان اور امن مذاکرات کی پیشکش کی گئی۔اس ساری صورتحال میں لڑاکا طیارے گشت کرتے رہے،ہزاروں کی تعداد میں بھارتی افواج کو کشمیر بھیجا گیا،سینکڑوں گرفتاریاں ہوئیں اور جنگ کے بادل منڈلاتے رہے لیکن پورے واقعہ میں ایک بنیادی سوال کو نظر انداز کر دیا گیا۔ کشمیری نوجوان عادل احمد ڈار خود کش بمبار کس وجہ سے بنا، جنوبی ایشیاء کو جنگ کی دھانے پر کون لایا؟ڈار کے والد نے بتایا کہ ہائی سکول چھوڑنے کے بعد ایک چھوٹے سے گاؤں میں عادل ایک پڑوسی کی دکان پر کام کرتا تھا اور اپنے خاندان کیلئے روٹی روزی کماتا تھا، وہ اکثر ایک قصہ سنایا کرتا تھا کہ ایک روز اسے پولیس والوں نے سکول سے گھر واپس آتے ہوئے روکا اور اپنی گاڑیوں سے گھیرا ڈالا ، اس وقت کشمیر میں 2016ء کے دوران بڑے پیمانے پر مظاہرے چل رہے تھے،بھارتی افواج لوگوں کو قتل کر رہی تھیں۔ انہوں نے اس کی ناک زمین پر رگڑائی، مظاہروں میں سو سے زائد مظاہرین زخمی اور سینکڑوں نابینا ہوئے، اس دوران ڈار کو بھی ٹانگ میں گولی لگی، جس کے بعد مارچ 2018ء وہ اس گروپ میں شامل ہو گیا، اس کے اہل خانہ نے بتایا کہ بھارتی فوجیوں نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور ہمیںگھر میں بند کر کے گھر کو آگ لگا دی تھی۔ The post رسی ٹوٹ گئی ، بل نہ گیا !بھارت منہ کی کھانے کے بعد بلبلا اٹھا ، پاکستان کیخلاف بڑا اعلان کر دیا appeared first on Zeropoint.
0 notes
Text
پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر پلوامہ حملے میں ملوث ہونے کا الزام
سری نگر —
بھارتی فوج نے الزام لگایا ہے کہ گزشتہ جمعرات کو سری نگر کے قریب لیتہ پورہ پُلوامہ میں کئے گئے مہلک خود کُش حملے میں کالعدم عسکری گروپ جیشِ محمد کو پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی "فعال حمایت" حاصل تھی۔ خود کُش حملے میں بھارتی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے 49 اہل کار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
سری نگر میں منگل کو ایک میڈیا کانفرنس میں بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے خود کُش حملے میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جیشِ محمد کے جن عسکریت پسندوں نے خودکُش حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور اس پر عمل دآمد کرایا تھا، بھارتی فوج نے اُن کا صرف ایک سو گھنٹے کے اندر اندر خاتمہ کر دیا۔
سری نگر میں بھارتی فوج کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلون نے کہا "جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ حملہ جیشِ محمد نے کیا اور اس کے لئے پاکستان سے راہنمائی کی جارہی تھی اور جیشِ محمد کو آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کی فعال حمایت حاصل رہی۔"
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے میں ملوث بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم جیشِ محمد کی قیادت کا بھارتی فوج نے صرف ایک سو گھنٹے کے اند ر کام تمام کردیا۔ وہ پیر کو ضلع پُلوامہ کے پنگلنہ علاقے میں اُس جھڑپ کا ذکر کر رہے تھے جس میں بھارتی عہدیداروں کے دعوے کے مطابق جیشِ محمد کے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔
عہدیداروں نے ان میں سے ایک کی شناخت مقامی عسکریت پسند ہلال احمد کے طور پر کی ہے اور کہا ہے کہ جھڑپ کے مقام سے حاصل کئے گئے قابلِ اعتراض مواد کی جانچ کے دوران ان کے بقول مزید دو دہشت گردوں کی شناخت پاکستانی شہریوں کامران عرف فہد اور رشید عرف غازی عرف لُقمان کے طور پر ہوئی ہے۔ عہدیداروں نے بتایا کہ کامران جیش محمد کے لیڈر مولانا مسعود اظہر کا دستِ راست رہا تھا جبکہ رشید غازی مہلک دیسی بم یا آئی ای ڈی بنانے کا ماہر تھا۔
بھارتی فوجی افسر نے الزام لگایا کہ ہلاک کئے گئے ان عسکریت پسندوں کو پاکستان میں موجود جیشِ محمد کی قیادت کنٹرول کر رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ خودکُش حملے کا منصوبہ انہوں نے ہی بنایا تھا اور انہوں نے ہی اس پر عمل دآمد کرایا۔
پنگلنہ پُلوامہ میں ہونے والی اس جھڑپ میں ان تین مشتبہ عسکریت پسندوں کے علاوہ بھارتی فوج کا ایک میجر اور تین سپاہی، ایک مقامی پولیس اہل کار اور ایک عام شہری بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
لیفٹننٹ جنرل ڈھلون نے کشمیری ماؤں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اُن بچوں کو، جنہوں نے بندوق اٹھا لی ہے، خود کو حکام کے حوالے کرنے کے لئے آمادہ کریں۔ انہوں نے کہا۔" میں جانتا ہوں کہ کشمیری سماج میں ماں کا اہم کردار ہے۔ میں اُن ماؤں سے جن کے بچوں نے بندوق اُٹھائی ہے اپیل اور درخواست کرتا ہوں کہ وہ انہیں خود سُپردگی کے لئے آمادہ کریں۔ حکومت نے ایک اچھی سرنڈر پالیسی شروع کی ہے"۔
اس کے ساتھ ہی فوجی افسر نے بھارتی کشمیر میں جاری عسکری تحریک کے ہمدردوں کو شدید وارننگ دیتے ہوئے کہا۔ "جو کوئی بندوق اٹھائے گا اُس کا خاتمہ کیا جائے گا، اُس کو ہلاک کیا جائے گا، سوائے اُن کے جو ہتھیار ڈال کر واپس قومی دھارے میں آئیں گے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ خود کُش حملے میں ایک خاص قسم کا کار بم استعمال کیا گیا اور یہ واقعہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں ایک طویل عرصے کے بعد پیش آیا ہے۔
نہوں نے کہا کہ مستقبل میں اس طرح کی کارروائیوں سے نمٹنے کے لئے بھارتی فوج اپنے لئے تمام آپشنز کو کھلا رکھے گی۔
The post پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر پلوامہ حملے میں ملوث ہونے کا الزام appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2NdDh1K via Urdu News
0 notes
Text
4 علیحدگی پسند رہنماؤں کو پاکستانی ایم بی بی ایس کی نشستیں بیچنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ، جو پیسے کو دہشت گردی کے لیے فنڈ کے لیے استعمال کرتے تھے۔
4 علیحدگی پسند رہنماؤں کو پاکستانی ایم بی بی ایس کی نشستیں بیچنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ، جو پیسے کو دہشت گردی کے لیے فنڈ کے لیے استعمال کرتے تھے۔
علیحدگی پسند تحریک پر کوڑے مارتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس نے بدھ کے روز چاروں کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔ علیحدگی پسند رہنماحریت کانفرنس کے کچھ حلقوں سمیت “فروخت” کے لیے ایم بی بی ایس۔ پاکستان میں کشمیری طلباء کے لیے سیٹیں اور پیسے کو سپورٹ اور فنڈ کے لیے استعمال کرنا۔ دہشت گردی، ایک سرکاری ترجمان نے یہاں کہا۔
کاؤنٹر انٹیلی جنس (کشمیر) ، سی آئی ڈی ڈیپارٹمنٹ آف جے اینڈ کے پولیس کی ایک شاخ نے گزشتہ سال جولائی میں قابل اعتماد ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کے بعد ایک کیس درج کیا تھا کہ کچھ حریت رہنماؤں سمیت کئی بے ایمان لوگ کچھ تعلیمی مشاورت کے ساتھ دستانے میں تھے اور بہت سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پاکستان میں ایم بی بی ایس کی نشستیں اور دیگر پروفیشنل کورسز کی نشستیں بیچ رہے تھے۔
ترجمان نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات نے تجویز کیا ہے کہ خواہش مند یا ممکنہ طالب علموں کے والدین سے جمع کی گئی رقم کم از کم جزوی طور پر دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو مختلف طریقوں سے سپورٹ اور فنڈنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ۔ اور منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ، اس نے کہا.
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بہت سے معاملات میں ایم بی بی ایس اور دیگر پیشہ ورانہ ڈگری سے متعلقہ نشستیں ان طالب علموں کو ترجیحی طور پر دی جاتی تھیں جو قریبی خاندان کے افراد یا مارے گئے دہشت گردوں کے رشتہ دار تھے۔
ایسے معاملات بھی تھے جہاں انفرادی حریت رہنماؤں کو مختص کردہ کوٹہ پریشان والدین کو فروخت کیا گیا جو اپنے بچوں کو ایم بی بی ایس اور دیگر پیشہ ورانہ ڈگریاں کسی نہ کسی طریقے سے حاصل کرنا چاہتے تھے۔
80 سے زائد کیسز کا مطالعہ کیا گیا جن میں طلباء یا ان کے والدین کا تعلیمی سال 2014-18 کے درمیان جائزہ لیا گیا۔
پیسے جمع کرنے اور اس کے مزید استعمال کے ثبوت تلاش کرنے کے لیے وادی میں تقریبا a ایک درجن احاطے میں تلاشیاں کی گئیں۔ ڈیجیٹل ریکارڈز اور کاغذی رسیدوں کے ساتھ ساتھ بینک ٹرانزیکشن سے متعلق ریکارڈ کے تجزیے سے پتہ چلا کہ پیسے کا ایک بڑا حصہ ذاتی استعمال کے لیے الگ رکھا گیا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ “یہ شواہد ریکارڈ پر بھی آئے کہ پیسے چینلز میں ڈالے گئے جو دہشت گردی اور علیحدگی پسندی سے متعلق پروگراموں اور منصوبوں کو ختم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پتھر بازی کو منظم کرنے کے لیے ��دائیگی کا بھی سراغ لگایا جا سکتا ہے اور ریکارڈ پر لایا جا سکتا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جاسوسی کرنے والی ایجنسی آئی ایس آئی نے ایم بی بی ایس اور انجینئرنگ کی نشستیں مفت فراہم کرنے کے ذریعے “مقتول دہشت گردوں کے خاندان کو معاوضہ دے کر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی” کا پروگرام شروع کیا تھا۔
تاہم ، گواہوں کے معائنے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بہت سے لوگ مایوس ہوئے کیونکہ آئی ایس آئی پروگرام کے مطلوبہ مقصد پر مالیاتی غور کو ترجیح دی گئی۔
تحقیقات کے مطابق اوسطا a ایک سیٹ کی قیمت 10 سے 12 لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے لیکن بعض صورتوں میں حریت رہنماؤں کی مداخلت پر قیمت کم کی گئی۔ دوسرے لفظوں میں ، حریت رہنما کے سیاسی حجم پر منحصر ہے جس نے مداخلت کی ، خواہش مند طالب علم اور اس کے خاندان کو مراعات دی گئیں۔
سی آئی کے نے جن لوگوں کو گرفتار کیا وہ محمد اکبر بھٹ عرف ظفر بھٹ تھے۔ نجات کی تحریک۔، فاطمہ شاہ ، محمد عبداللہ شاہ اور سبزار احمد شیخ۔
پولیس بھٹ کے بھائی الطاف احمد بھٹ اور شاہ کے بھائی منظور احمد شاہ اور دیگر کو بھی اس کیس کے سلسلے میں تلاش کر رہی ہے۔ دو نامزد ملزمان 1990 کی دہائی کے اوائل میں غیر قانونی اسلحہ اور گولہ بارود کی تربیت کے لیے پاکستان سے ہجرت کر کے دوسری طرف آ گئے تھے۔
انہوں نے آئی ایس آئی کی جانب سے بھارت میں حریت سے منسلک افراد کے اس سیٹ کے لیے داخلے سے متعلق معاملات کو سہولت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تاکہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے متعلق دیگر سرگرمیوں میں پیسہ ڈالنے کے مذموم ڈیزائن کے حصے کے طور پر۔
ایک قدامت پسند اندازے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں شامل رقم تقریبا 4 4 کروڑ روپے سالانہ ہوسکتی ہے ، اس حقیقت کی بنیاد پر کہ انفرادی حریت رہنماؤں کی طرف سے تقسیم کے لیے نشستوں کی تقسیم ہر سال ایم بی بی ایس پروگرام کے لیے تقریبا seats 40 سیٹیں تھیں۔
یہ اور بھی ہو سکتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ پہلو ابھی کھلا ہے اور مزید تحقیقات کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ تفتیش سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دونوں والدین سے پیسے جمع کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کے استعمال کے لیے استعمال کر رہے تھے
. Source link
0 notes
Text
بھارتی فورسز نے ایک بڑے کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کو ہلاک کردیا
بھارتی فورسز نے ایک بڑے کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کو ہلاک کردیا
اتوار کے روز ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے سینئر فوجی کمانڈر سیف اسلام میر کو بندوق کی لڑائی میں ہلاک کردیا۔ نئی دہلی کی نیم خودمختاری سے دستبرداری کے ایک سال سے بھی زیادہ عرصے بعد متنازعہ خطے میں تشدد نے توڑ دیا ہے۔
کشمیر میں انسپکٹر جنرل پولیس وجئے کمار نے بتایا کہ علاقے میں ایک سرگرم مسلح گروہ حزب المجاہدین کا آپریشنل کمانڈر میر سرینگر شہر کے نواح میں رنگاریت ضلع…
View On WordPress
0 notes
Text
پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر پلوامہ حملے میں ملوث ہونے کا الزام
سری نگر —
بھارتی فوج نے الزام لگایا ہے کہ گزشتہ جمعرات کو سری نگر کے قریب لیتہ پورہ پُلوامہ میں کئے گئے مہلک خود کُش حملے میں کالعدم عسکری گروپ جیشِ محمد کو پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی "فعال حمایت" حاصل تھی۔ خود کُش حملے میں بھارتی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے 49 اہل کار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
سری نگر میں منگل کو ایک میڈیا کانفرنس میں بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے خود کُش حملے میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جیشِ محمد کے جن عسکریت پسندوں نے خودکُش حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور اس پر عمل دآمد کرایا تھا، بھارتی فوج نے اُن کا صرف ایک سو گھنٹے کے اندر اندر خاتمہ کر دیا۔
سری نگر میں بھارتی فوج کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلون نے کہا "جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ حملہ جیشِ محمد نے کیا اور اس کے لئے پاکستان سے راہنمائی کی جارہی تھی اور جیشِ محمد کو آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کی فعال حمایت حاصل رہی۔"
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے میں ملوث بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم جیشِ محمد کی قیادت کا بھارتی فوج نے صرف ایک سو گھنٹے کے اند ر کام تمام کردیا۔ وہ پیر کو ضلع پُلوامہ کے پنگلنہ علاقے میں اُس جھڑپ کا ذکر کر رہے تھے جس میں بھارتی عہدیداروں کے دعوے کے مطابق جیشِ محمد کے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔
عہدیداروں نے ان میں سے ایک کی شناخت مقامی عسکریت پسند ہلال احمد کے طور پر کی ہے اور کہا ہے کہ جھڑپ کے مقام سے حاصل کئے گئے قابلِ اعتراض مواد کی جانچ کے دوران ان کے بقول مزید دو دہشت گردوں کی شناخت پاکستانی شہریوں کامران عرف فہد اور رشید عرف غازی عرف لُقمان کے طور پر ہوئی ہے۔ عہدیداروں نے بتایا کہ کامران جیش محمد کے لیڈر مولانا مسعود اظہر کا دستِ راست رہا تھا جبکہ رشید غازی مہلک دیسی بم یا آئی ای ڈی بنانے کا ماہر تھا۔
بھارتی فوجی افسر نے الزام لگایا کہ ہلاک کئے گئے ان عسکریت پسندوں کو پاکستان میں موجود جیشِ محمد کی قیادت کنٹرول کر رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ خودکُش حملے کا منصوبہ انہوں نے ہی بنایا تھا اور انہوں نے ہی اس پر عمل دآمد کرایا۔
پنگلنہ پُلوامہ میں ہونے والی اس جھڑپ میں ان تین مشتبہ عسکریت پسندوں کے علاوہ بھارتی فوج کا ایک میجر اور تین سپاہی، ایک مقامی پولیس اہل کار اور ایک عام شہری بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
لیفٹننٹ جنرل ڈھلون نے کشمیری ماؤں سے اپیل کی کہ وہ اپنے اُن بچوں کو، جنہوں نے بندوق اٹھا لی ہے، خود کو حکام کے حوالے کرنے کے لئے آمادہ کریں۔ انہوں نے کہا۔" میں جانتا ہوں کہ کشمیری سماج میں ماں کا اہم کردار ہے۔ میں اُن ماؤں سے جن کے بچوں نے بندوق اُٹھائی ہے اپیل اور درخواست کرتا ہوں کہ وہ انہیں خود سُپردگی کے لئے آمادہ کریں۔ حکومت نے ایک اچھی سرنڈر پالیسی شروع کی ہے"۔
اس کے ساتھ ہی فوجی افسر نے بھارتی کشمیر میں جاری عسکری تحریک کے ہمدردوں کو شدید وارننگ دیتے ہوئے کہا۔ "جو کوئی بندوق اٹھائے گا اُس کا خاتمہ کیا جائے گا، اُس کو ہلاک کیا جائے گا، سوائے اُن کے جو ہتھیار ڈال کر واپس قومی دھارے میں آئیں گے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ خود کُش حملے میں ایک خاص قسم کا کار بم استعمال کیا گیا اور یہ واقعہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں ایک طویل عرصے کے بعد پیش آیا ہے۔
نہوں نے کہا کہ مستقبل میں اس طرح کی کارروائیوں سے نمٹنے کے لئے بھارتی فوج اپنے لئے تمام آپشنز کو کھلا رکھے گی۔
The post پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر پلوامہ حملے میں ملوث ہونے کا الزام appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain http://bit.ly/2NdDh1K via India Pakistan News
0 notes