Tumgik
#کشمیری عسکریت پسند
urduchronicle · 9 months
Text
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی ٹرک پر عسکریت پسندوں کا حملہ، ہلاکتوں کا امکان
مقبوضہ جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں عسکریت پسندوں نے بھارتی فوج کے ایک ٹرک پر حملہ کیا ہے۔ ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں خطے میں بھارتی فوج پر یہ دوسرا حملہ ہے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کمک اس علاقے میں بھیج دی گئی ہے جہاں بھارتی فوج کے ٹرک پر حملہ ہوا، اطلاعات کے مطابق فائرنگ جاری ہے، ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا نے بتایا کہ پونچھ کے سورنکوٹ علاقے میں ڈیرہ کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 2 years
Text
اسلام آباد میں قتل ہونے والے سابق کشمیری کمانڈر بشیر احمد کون ہیں؟ 
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری تحریک سے جڑے لوگوں کی نماز جنازہ کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماعات تو گذشتہ کئی دہائیوں سے دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی سابق کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موت اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک غیر معمولی بات ہے۔   کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years
Text
اسلام آباد میں قتل ہونے والے سابق کشمیری کمانڈر بشیر احمد کون ہ��ں؟ 
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری تحریک سے جڑے لوگوں کی نماز جنازہ کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماعات تو گذشتہ کئی دہائیوں سے دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی سابق کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موت اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک غیر معمولی بات ہے۔   کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
اسلام آباد میں قتل ہونے والے سابق کشمیری کمانڈر بشیر احمد کون ہیں؟ 
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری تحریک سے جڑے لوگوں کی نماز جنازہ کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماعات تو گذشتہ کئی دہائیوں سے دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی سابق کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موت اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک غیر معمولی بات ہے۔   کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
اسلام آباد میں قتل ہونے والے سابق کشمیری کمانڈر بشیر احمد کون ہیں؟ 
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عسکری تحریک سے جڑے لوگوں کی نماز جنازہ کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماعات تو گذشتہ کئی دہائیوں سے دکھائی دیتے ہیں تاہم کسی سابق کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں موت اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت ایک غیر معمولی بات ہے۔   کشمیری عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے چوٹی کے کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
Both factions of Hurriyat Conference likely to be banned under UAPA | India News
Both factions of Hurriyat Conference likely to be banned under UAPA | India News
سرینگر: سخت غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ کے تحت علیحدگی پسند جماعت کے دونوں دھڑوں پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ حریت کانفرنس عہدیداروں نے بتایا کہ جو دو دہائیوں سے جموں و کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک کی قیادت کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اداروں کی طرف سے کشمیری طلباء کو ایم بی بی ایس کی نشستیں دینے کی حالیہ تحقیقات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حریت کانفرنس جماعت کا حصہ بننے والی کچھ تنظیموں نے خواہش مندوں سے جمع کی گئی رقم کو یونین کے علاقے میں دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ ​​کے لیے استعمال کیا۔ عہدیداروں نے کہا کہ حریت کے دونوں دھڑوں پر غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) ایکٹ ، یا یو اے پی اے کے سیکشن 3 (1) کے تحت پابندی لگائی جا سکتی ہے ، جس کے تحت “اگر مرکزی حکومت کی رائے ہے کہ کوئی ایسوسی ایشن ہے ، یا غیر قانونی ایسوسی ایشن بن سکتی ہے ، یہ سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے ایسی ایسوسی ایشن کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے۔ ” انہوں نے کہا کہ یہ تجویز مرکز کی دہشت گردی کے خلاف صفر رواداری کی پالیسی کے مطابق پیش کی گئی ہے۔ حریت کانفرنس 1993 میں 26 گروپوں کے ساتھ وجود میں آئی ، جن میں کچھ پاکستان نواز اور کالعدم تنظیمیں شامل ہیں جیسے جماعت اسلامی ، جے کے ایل ایف اور دختران ملت۔ اس میں پیپلز کانفرنس اور میرواعظ عمر فاروق کی سربراہی میں عوامی ایکشن کمیٹی بھی شامل تھی۔ علیحدگی پسند گروہ 2005 میں دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا جس میں میرواعظ کی قیادت میں اعتدال پسند گروپ اور سید علی شاہ گیلانی کی سربراہی میں سخت گیر گروپ تھے۔ اب تک مرکز نے جماعت اسلامی اور جے کے ایل ایف پر یو اے پی اے کے تحت پابندی عائد کی ہے۔ پابندی 2019 میں لگائی گئی تھی۔ عہدیداروں نے کہا کہ دہشت گرد گروہوں کی مالی معاونت کی تحقیقات میں حریت کانفرنس کے ممبران اور کارکنوں سمیت مبینہ طور پر علیحدگی پسند اور علیحدگی پسند رہنماؤں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے جو کہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں حزب المجاہدین (ایچ ایم) کے فعال عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ دختران ملت (DeM) اور لشکر طیبہ (LeT) انہوں نے کہا کہ کیڈروں نے جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے ملک اور بیرون ملک سے مختلف غیر قانونی چینلز بشمول حوالہ کے ذریعے فنڈز اکٹھے کیے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ جمع شدہ فنڈز سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ ، اسکولوں کو منظم طریقے سے جلانے ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کے ذریعے وادی کشمیر میں خلل پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یو اے پی اے کے تحت حریت کانفرنس کے دو دھڑوں پر پابندی لگانے کے معاملے کی حمایت کرتے ہوئے ، عہدیداروں نے دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق کئی مقدمات کا حوالہ دیا ، جن میں قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے زیر تفتیش مقدمہ بھی شامل ہے جس میں جماعت کے کئی کارکن گرفتار اور جیل گئے . انہوں نے بتایا کہ دونوں دھڑوں کے دوسرے درجے کے کئی کارکن 2017 سے جیل میں ہیں۔ جیل میں رہنے والوں میں گیلانی کے داماد الطاف احمد شاہ بھی شامل ہیں۔ تاجر ظہور احمد وٹالی گیلانی کے قریبی ساتھی ایاز اکبر جو کہ سخت گیر علیحدگی پسند تنظیم تحریک حریت کے ترجمان بھی ہیں۔ پیر سیف اللہ شاہد الاسلام ، اعتدال پسند حریت کانفرنس کے ترجمان مہراج الدین کلوال نعیم خان اور فاروق احمد ڈار عرف ‘بٹا کراٹے’۔ بعد میں ، جے کے ایل ایف کے سربراہ یاسین ملک ، ڈی ایم کی سربراہ آسیہ اندرابی اور پاکستان نواز علیحدگی پسند مسرت عالم کو بھی دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ایک مقدمے میں ضمنی چارج شیٹ میں نامزد کیا گیا۔ ایک اور کیس جس کا حوالہ حریت کانفرنس کے دو دھڑوں پر پابندی کے لیے دیا جا سکتا ہے وہ پی ڈی پی کے نوجوان رہنما وحید الرحمان پارا کے خلاف ہے ، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے گیلانی کے داماد کو کشمیر رکھنے کے لیے 5 کروڑ روپے ادا کیے تھے۔ حکام نے بتایا کہ 2016 میں حزب المجاہدین کے دہشت گرد کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہنگامہ آرائی ہوئی۔ این آئی اے نے الزام لگایا ہے کہ جولائی 2016 میں فوج کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے وانی کی ہلاکت کے بعد ، پیرا نے الطاف احمد شاہ عرف الطاف فانتوش سے رابطہ کیا اور اس سے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وادی کو ابلتے رکھا جائے۔ بڑے پیمانے پر بدامنی اور پتھر بازی کے ساتھ۔ اس کے علاوہ ، جموں و کشمیر پولیس کے سی آئی ڈی ڈیپارٹمنٹ کی ایک شاخ کاؤنٹر انٹیلی جنس (کشمیر) نے گزشتہ سال جولائی میں ایک معلومات درج کی تھی کہ کچھ حریت رہنماؤں سمیت کئی بے ایمان لوگ کچھ تعلیمی مشاورت کے ساتھ دستانے میں تھے اور فروخت کر رہے تھے۔ پاکستان میں ایم بی بی ایس کی نشستیں اور مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دیگر پروفیشنل کورسز میں داخلہ۔ اس معاملے میں کم از کم چار افراد بشمول سالویشن موومنٹ کے خود ساختہ چیئرمین محمد اکبر بھٹ عرف ظفر بھٹ کو گرفتار کیا گیا ہے جو اعتدال پسند حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ یہ الزام ہے کہ حریت کانفرنس کے حلقے پاکستان میں ایم بی بی ایس کی نشستیں کشمیری طلبا کو “بیچ رہے ہیں” اور جمع کی گئی رقم کو کم از کم جزوی طور پر دہشت گردی کی حمایت اور فنڈنگ ​​کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ عہدیداروں نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ انفرادی حریت رہنماؤں کے پاس اپنی نشستوں کا کوٹہ تھا جو ایم بی بی ایس اور دیگر پیشہ ورانہ ڈگریاں حاصل کرنے کے خواہشمند افراد کو کسی نہ کسی طرح بیچ دیا گیا۔ عہدیداروں نے کہا کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رقم ان چینلز میں ڈال دی گئی جو دہشت گردی اور علیحدگی پسندی سے متعلق پروگراموں اور منصوبوں کی مدد پر ختم ہوئے جیسے پتھر مارنے کے لیے ادائیگی۔ تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے عہدیداروں نے بتایا کہ پاکستان میں ایم بی بی ایس سیٹ کی اوسط قیمت 10 سے 12 لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ بعض صورتوں میں حریت رہنماؤں کی مداخلت پر فیس کم کی گئی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ حریت رہنما کے سیاسی حجم پر منحصر ہے جس نے مداخلت کی ، خواہش مند طلباء کو رعایت دی گئی۔
. Source link
0 notes
informationtv · 4 years
Text
سرینگر ان کاونٹر میں مارے گئے نوجوان طالب علم تھے: اہلِ خانہ کا دعویٰ
سرینگر ان کاونٹر میں مارے گئے نوجوان طالب علم تھے: اہلِ خانہ کا دعویٰ
سرینگر —  بھارت کی فوج کے اس دعوے کو کشمیری نوجوانوں کے والدین نے مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سرینگر کے مضافات میں جھڑپ کے دوران مارے جانے والے نوجوان عسکریت پسند تھے۔ فوج کے دعوے کے مطابق جموں و کشمیر کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے مضافات لاوے پورہ میں منگل کی شام شروع ہونے والی جھڑپ بدھ کو صبح ساڑھے گیارہ بجے تین عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر ختم ہوئی۔ ادھر مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdunewspedia · 4 years
Text
بھارتی پولیس نے 3 کشمیریوں کو جعلی فوجی مقابلے میں شہید کیے جانے کی تصدیق کردی - اردو نیوز پیڈیا
بھارتی پولیس نے 3 کشمیریوں کو جعلی فوجی مقابلے میں شہید کیے جانے کی تصدیق کردی – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  سری نگر: جموں و کشمیر پولیس نے بھارتی فوج کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کو جعلی مقابلے میں شہید کیے جانے کی تصدیق کردی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی درندگی پھر بے نقاب ہو گئی اور بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے نئے ثبوت سامنے آ گئے۔ رواں سال 18 جولائی کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں میں بھارتی فوج نے مقابلے میں 3 کشمیری نوجوانوں کو عسکریت پسند قرار دے کر شہید کردیا تھا جو…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years
Photo
Tumblr media
کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال: ’دفعہ 370 آئین سے خارج ہوا مگر دلوں میں بس گیا‘ ریاض مسروربی بی سی اردو، سری نگر47 منٹ قبل،بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کشمیری کارکنوں نے 5 اگست سے دس روزہ جشن کا اعلان کیا ہے۔ یہ جشن گزشتہ برس اسی روز کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کرنے اور خطے کو دو الگ الگ مرکز کے زیر انتظام علاقے قرار دیے جانے کے تاریخی فیصلے کی یاد میں منایا جائے گا۔بی جے پی کے لئے یہ فیصلہ بے پناہ سیاسی مفادات کا حامل ہے تاہم حکومت ابھی تک اس فیصلے کو کشمیریوں کے لیے قابل قبول بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے ایک سال گزر جانے کے باوجود انتظامیہ نے پھر ایک بار وادی میں سخت کرفیو نافذ کیا ہے اور ان خفیہ اطلاعات کا حوالہ دیا ہے کہ ’بعض پاکستان نواز عناصر نے اس روز یوم سیاہ منانے اور تخریبی کارروائیاں کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔‘گذشتہ برس اگست کے اوائل میں جب یہ فیصلہ کیا گیا تو کئی ہفتے قبل اس کے لیے بے شمار سکیورٹی انتظامات کئے گئے تھے: تقریباً دو لاکھ اضافی سیکورٹی اہلکار وادی کے چپے چپے پر تعینات کئے گئے اور دہشت گردوں کے حملوں کی خفیہ اطلاعات کا حوالہ دے کر امرناتھ یاتریوں، سیاحوں اور غیرمقامی مزدوروں کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر وادی چھوڑنے کے لئے کہا گیا۔دوسری جانب سینکڑوں علیحدگی پسند کارکنوں اور اُن کے رہنماؤں کو قید کیا گیا، جماعت اسلامی اور کشمیر لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دیا گیا اور بڑے پیمانے پر انتظامیہ میں تبادلے عمل میں لائے گئے۔ اور تو اور پانچ اگست سے ایک دن قبل سب ہی ہندنواز کشمیری رہنماؤں کو گھروں یا گیسٹ ہاؤسز میں قید کر دیا گیا۔سرینگر کے علاقے صورہ میں کئی ہفتوں تک مظاہرے ہوئے جنہیں بالآخر دبا دیا گیا۔ کئی دیگر مقامات پر بھی لوگوں نے ناراضگی کا اظہار کرنے کی کوشش کی لیکن سخت ترین کرفیو اور رابطوں پر قدغن نے ان مظاہروں کو پھیلنے نہیں دیا۔ اپ کی ڈیوائس پر پلے بیک سپورٹ دستیاب نہیںکئی ماہ بعد بندشیں نرم کی گئی، بیشتر ہند نواز رہنماؤں کو رہا کیا گیا تاہم اب بھی تیز رفتار انٹرنیٹ پر پابندی ہے اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سمیت کئی ہندنواز گھروں میں نظربند ہیں۔ تعلیمی سرگرمیاں گزشتہ خزاں میں شروع ہوئی تھیں کہ سخت ترین سردیوں سے پھر معطل ہوگئیں اور اس سال مارچ میں ابھی سکول اور کالج کلاس ورک بحال نہیں کرپائے تھے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سب کچھ پھر سے وہیں پہنچ گیا جہاں پچھلے سال اگست میں تھا۔ انڈیا کی حکومت کا اصرار ہے کہ دفعہ 370 کشمیریوں کی ترقی اور خوشحالی میں ایک رُکاوٹ تھی اور اس کے ہٹنے سے پاکستانی حمایت یافتہ علیحدگی پسندی اور ہند مخالف سوچ ختم ہوجائے گی۔ تاہم اس فیصلے کے بعد نہ صرف کشمیر کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے بلکہ اب بھی حکومت کہتی ہے کہ فیصلے کی سالگرہ پر پاکستانی حمایت یافتہ لوگ تخریب کاری کریں گے۔ تاجروں کی سب سے پرانی انجمن کشمیر چیمبر آف کامرس کے سربراہ شیخ عاشق کہتے ہیں: ’ایک سال کے اندر کشمیری معیشت کو چالیس ہزار کروڑ روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ پانچ لاکھ سے زیادہ ایسے لوگ بے روزگار ہوگئے جو باقاعدہ کام دھندہ کررہے تھے، دیگر بے روزگاروں کو ہم نے شمار نہیں کیا۔ حکومت نے عالمی سرمایہ کاری کا دعویٰ کیا، لیکن یہاں فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔ ہم بھی ڈھونڈ رہے ہیں کہ وہ خوشحالی اور ترقی کہاں ہے؟‘،غور طلب بات یہ ہے کہ ایک سال کے اندر سینکڑوں قوانین کو جموں کشمیر میں نافذ کیا گیا اور ان میں سے غیرمقامی لوگوں کو شہریت دینے، فوج کو کہیں بھی تعمیر کرنے کی بے روک ٹوک اجازت اور نوکریوں کے لئے پورے بھارت کے اُمیدواروں کو اہل قرار دیے جانے کی رعایت جیسے فیصلے سے جن سے عام لوگوں کو خدشہ ہے کہ کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار تبدیل کیا جارہا ہے۔ اکثر حلقے یہاں حیران ہیں کہ جن تبدیلیوں کا وعدہ کیا گیا تھا اُن کی جگہ خوف و ہراس، غیر یقینی، بےروزگاری اور ایک بار پھر سے کرفیو جیسی صورتحال کیوں ہے؟ نوجوان صحافی اور تجزیہ نگار ریاض ملک کہتے ہیں: ’دفعہ 370 کو ہٹانے کا اعلان اس دعوے کے ساتھ کیا گیا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا، لیکن اسی ایک سال کے اندر دو سو سے زیادہ مسلح عسکریت پسند مارے گئے، متعدد سیکورٹی اہلکار مارے گئے اور فوج کا کہنا ہے کہ پاکستانی افواج نے ایل او سی پر ریکارڈ مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور اب اس فیصلے کی سالگرہ پر پھر ایک بار کہا جارہا ہے کہ سکیورٹی کو لاحق خطرات کے پیش نظر کرفیو نافذ رہے گا۔ اس میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کیا؟‘سابق وزیر اور معاشی امور کے ماہر اور معروف کالم نگار ڈاکٹر حسیب درابو نے اپنی حالیہ تحریروں میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ: ’دفعہ 370 پہلے ہی کھوکھلا ہوچکا تھا، لیکن پچھلے سال اسے آ ئین کی کتابوں سے نکال کر لوگوں کے دلوں میں دوبارہ بسایا گیا۔ جس علیحدگی پسندی کو ختم کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا اب وہ غالب سوچ بن گئی ہے اور دفعہ 370 محض ایک غیرمتعلق تحریر سے باقاعدہ ایک نظریہ بن گیا ہے۔‘،EPAبی جے پی کے ایک سینئر کارکن نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا: ’ہمیں اپنی فوج پر بھروسہ ہے۔ ظاہر ہے پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا، کرفیو وغیرہ سیکورٹی ضرورت ہے، لیکن ہم پارٹی دفاتر پر جشن ضرور منائیں گے۔‘بی جے پی نے پانچ اگست کو یوم فتح کے طور منانے کا اعلان کیا تھا جبکہ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے اس دن کو یوم سیاہ قرار دیا ہے۔ پچھلے سال کے واقعات کے بعد پی ڈی پی کے بعض رہنماؤں نے ’اپنی پارٹی‘ نام سے الگ گروپ بنا کر وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے ساتھ دلی میں ملاقات کی۔اس جماعت کا کہنا ہے کہ یہ دن ’یوم تجدید عہد‘ کے طور منایا جائے گا۔ وضاحت کرتے ہوئے پارٹی کے ترجمان بشارت سید نے بتایا: ’ہم نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دلائیں گے، اور ڈومیسائل قوانین میں ترمیم کروائیں گے، اسی عہد کی تجدید ہوگی۔‘ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
پاکستان اور مہاجرین
چشمِ فلک نے اپنے آبائی علاقوں، گھر بار، مال و اسباب اور لاتعداد عزیز و اقارب کی لاشیں چھوڑ کر انتہا پسند ہندوئوں اور سکھوں کے مسلح جتھوں کے ہاتھوں قتلِ عام سے بچنے کے لئے پاکستان میں پناہ لینے والے لاکھوں مہاجرین کا ایک طوفانی ریلا 1947 میں دیکھا۔ حکومتِ پاکستان نے شدید مشکلات اور کم وسائل کے باوجود اسے سنبھالا۔ عوام خصوصاً پنجاب اور سندھ کے مسلمانوں نے لُٹے پُٹے لوگوں کی جس طرح مدد کی وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ مہاجرین کا دوسرا بڑا سیلاب چار عشرے قبل افغانستان سے آیا جب غیرملکی جارحیت اور خانہ جنگی سے بچنے کے لئے 45 لاکھ افغان سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو گئے۔ ان میں سے کچھ وقت گزرنے کے ساتھ واپس چلے گئے مگر اب بھی 27 لاکھ یہاں موجود ہیں۔
پاکستان اور اس کے عوام نے ان کی دل کھول کر مہمان نوازی کی جس کا جائزہ لینے کے لئے اسلام آباد میں ’’پاکستان میں افغان مہاجرین کے قیام کے40 سال‘‘ کے موضوع پر عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان، اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اور دوسرے رہنمائوں نے مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کے مسائل اور عالمی برادری کی ذمہ داریوں کا احاطہ کیا۔ وزیراعظم نے کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ پاکستان نے اس کے باوجود کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے خود معاشی بحران کا شکار رہا ہے، لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی۔
نائن الیون کے واقعہ کے بعد اسلامو فوبیا کے پرچار سے اسلام اور دہشت گردی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا گیا، پاکستان بھی دہشت گردی کا شکار ہوا۔ یہاں اب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم ہو چکے ہیں مگر لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی میں انتہا پسندی ختم کرنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے سوال کیا کہ مہاجرین کے کیمپوں سے چند ہزار عسکریت پسند کیسے پکڑے جا سکتے ہیں؟ وزیراعظم نے بھارت میں امتناع قانون شہریت کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کو مہاجرین کے ایک نئے ریلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس سے ہماری معیشت پر م��ید بوجھ پڑے گا اور عالمی برادری نے اس کا نوٹس نہ لیا تو اس سے دنیا کے امن کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ 
بھارت میں انتہا پسندی کی سوچ غالب آچکی ہے اور 80 لاکھ کشمیری کئی ماہ سے محاصرے میں ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مہاجرین کی موثر دیکھ بھال پر پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا کہ اس نے 40 سال سے افغان مہاجرین کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے۔ یہ سخاوت دہائیوں اور نسلوں پر محیط ہے جو دنیا کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ پاکستان آج بھی مہاجرین کی میزبانی کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی خدمات کے مقابلے میں عالمی برادری کا تعاون بہت کم رہا۔ اب بھی وقت ہے کہ دنیا آگے بڑھے اور مہاجرین کی پاکستان سے واپسی میں مدد کرے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے تمام شراکت دار اپنا کردار ادا کریں۔ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
mwhwajahat · 5 years
Photo
Tumblr media
3 نوجوان بھارتی فائرنگ سے مقبوضہ کشمیر میں شہید 3 نوجوان بھارتی فائرنگ سے مقبوضہ کشمیر میں شہید مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 3 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا قابض افواج نے ضلع اسلام آباد اننت ناگ کے علاقے پازل پورہ میں آپریشن کیا اس دوران گھر گھر تلاشی لی گئی اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا آپریشن کے دوران قابض فورسز نے تین نوجوانوں کو گرفتار کیا اور انہیں عسکریت پسند قرار دے کر فائرنگ کرکے شہید کردیا واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی لاک ڈاؤن اور دیگر پابندیوں کو 73 روز ہوگئے ہیں سچ کا ساتھ نیوز پاکستان
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
4 علیحدگی پسند رہنماؤں کو پاکستانی ایم بی بی ایس کی نشستیں بیچنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ، جو پیسے کو دہشت گردی کے لیے فنڈ کے لیے استعمال کرتے تھے۔
4 علیحدگی پسند رہنماؤں کو پاکستانی ایم بی بی ایس کی نشستیں بیچنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ، جو پیسے کو دہشت گردی کے لیے فنڈ کے لیے استعمال کرتے تھے۔
علیحدگی پسند تحریک پر کوڑے مارتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس نے بدھ کے روز چاروں کو گرفتار کرنے کا اعلان کیا۔ علیحدگی پسند رہنماحریت کانفرنس کے کچھ حلقوں سمیت “فروخت” کے لیے ایم بی بی ایس۔ پاکستان میں کشمیری طلباء کے لیے سیٹیں اور پیسے کو سپورٹ اور فنڈ کے لیے استعمال کرنا۔ دہشت گردی، ایک سرکاری ترجمان نے یہاں کہا۔
کاؤنٹر انٹیلی جنس (کشمیر) ، سی آئی ڈی ڈیپارٹمنٹ آف جے اینڈ کے پولیس کی ایک شاخ نے گزشتہ سال جولائی میں قابل اعتماد ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کے بعد ایک کیس درج کیا تھا کہ کچھ حریت رہنماؤں سمیت کئی بے ایمان لوگ کچھ تعلیمی مشاورت کے ساتھ دستانے میں تھے اور بہت سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پاکستان میں ایم بی بی ایس کی نشستیں اور دیگر پروفیشنل کورسز کی نشستیں بیچ رہے تھے۔
ترجمان نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات نے تجویز کیا ہے کہ خواہش مند یا ممکنہ طالب علموں کے والدین سے جمع کی گئی رقم کم از کم جزوی طور پر دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو مختلف طریقوں سے سپورٹ اور فنڈنگ ​​کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ۔ اور منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ، اس نے کہا.
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بہت سے معاملات میں ایم بی بی ایس اور دیگر پیشہ ورانہ ڈگری سے متعلقہ نشستیں ان طالب علموں کو ترجیحی طور پر دی جاتی تھیں جو قریبی خاندان کے افراد یا مارے گئے دہشت گردوں کے رشتہ دار تھے۔
ایسے معاملات بھی تھے جہاں انفرادی حریت رہنماؤں کو مختص کردہ کوٹہ پریشان والدین کو فروخت کیا گیا جو اپنے بچوں کو ایم بی بی ایس اور دیگر پیشہ ورانہ ڈگریاں کسی نہ کسی طریقے سے حاصل کرنا چاہتے تھے۔
80 سے زائد کیسز کا مطالعہ کیا گیا جن میں طلباء یا ان کے والدین کا تعلیمی سال 2014-18 کے درمیان جائزہ لیا گیا۔
پیسے جمع کرنے اور اس کے مزید استعمال کے ثبوت تلاش کرنے کے لیے وادی میں تقریبا a ایک درجن احاطے میں تلاشیاں کی گئیں۔ ڈیجیٹل ریکارڈز اور کاغذی رسیدوں کے ساتھ ساتھ بینک ٹرانزیکشن سے متعلق ریکارڈ کے تجزیے سے پتہ چلا کہ پیسے کا ایک بڑا حصہ ذاتی استعمال کے لیے الگ رکھا گیا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ “یہ شواہد ریکارڈ پر بھی آئے کہ پیسے چینلز میں ڈالے گئے جو دہشت گردی اور علیحدگی پسندی سے متعلق پروگراموں اور منصوبوں کو ختم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پتھر بازی کو منظم کرنے کے لیے ادائیگی کا بھی سراغ لگایا جا سکتا ہے اور ریکارڈ پر لایا جا سکتا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جاسوسی کرنے والی ایجنسی آئی ایس آئی نے ایم بی بی ایس اور انجینئرنگ کی نشستیں مفت فراہم کرنے کے ذریعے “مقتول دہشت گردوں کے خاندان کو معاوضہ دے کر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی” کا پروگرام شروع کیا تھا۔
تاہم ، گواہوں کے معائنے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بہت سے لوگ مایوس ہوئے کیونکہ آئی ایس آئی پروگرام کے مطلوبہ مقصد پر مالیاتی غور کو ترجیح دی گئی۔
تحقیقات کے مطابق اوسطا a ایک سیٹ کی قیمت 10 سے 12 لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے لیکن بعض صورتوں میں حریت رہنماؤں کی مداخلت پر قیمت کم کی گئی۔ دوسرے لفظوں میں ، حریت رہنما کے سیاسی حجم پر منحصر ہے جس نے مداخلت کی ، خواہش مند طالب علم اور اس کے خاندان کو مراعات دی گئیں۔
سی آئی کے نے جن لوگوں کو گرفتار کیا وہ محمد اکبر بھٹ عرف ظفر بھٹ تھے۔ نجات کی تحریک۔، فاطمہ شاہ ، محمد عبداللہ شاہ اور سبزار احمد شیخ۔
پولیس بھٹ کے بھائی الطاف احمد بھٹ اور شاہ کے بھائی منظور احمد شاہ اور دیگر کو بھی اس کیس کے سلسلے میں تلاش کر رہی ہے۔ دو نامزد ملزمان 1990 کی دہائی کے اوائل میں غیر قانونی اسلحہ اور گولہ بارود کی تربیت کے لیے پاکستان سے ہجرت کر کے دوسری طرف آ گئے تھے۔
انہوں نے آئی ایس آئی کی جانب سے بھارت میں حریت سے منسلک افراد کے اس سیٹ کے لیے داخلے سے متعلق معاملات کو سہولت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تاکہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی سے متعلق دیگر سرگرمیوں میں پیسہ ڈالنے کے مذموم ڈیزائن کے حصے کے طور پر۔
ایک قدامت پسند اندازے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں شامل رقم تقریبا 4 4 کروڑ روپے سالانہ ہوسکتی ہے ، اس حقیقت کی بنیاد پر کہ انفرادی حریت رہنماؤں کی طرف سے تقسیم کے لیے نشستوں کی تقسیم ہر سال ایم بی بی ایس پروگرام کے لیے تقریبا seats 40 سیٹیں تھیں۔
یہ اور بھی ہو سکتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ پہلو ابھی کھلا ہے اور مزید تحقیقات کا معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ تفتیش سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دونوں والدین سے پیسے جمع کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کے استعمال کے لیے استعمال کر رہے تھے
. Source link
0 notes
informationtv · 4 years
Text
بھارتی فورسز نے ایک بڑے کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کو ہلاک کردیا
بھارتی فورسز نے ایک بڑے کشمیری عسکریت پسند کمانڈر کو ہلاک کردیا
Tumblr media
اتوار کے روز ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے سینئر فوجی کمانڈر سیف اسلام میر کو بندوق کی لڑائی میں ہلاک کردیا۔ نئی دہلی کی نیم خودمختاری سے دستبرداری کے ایک سال سے بھی زیادہ عرصے بعد متنازعہ خطے میں تشدد نے توڑ دیا ہے۔
کشمیر میں انسپکٹر جنرل پولیس وجئے کمار نے بتایا کہ علاقے میں ایک سرگرم مسلح گروہ حزب المجاہدین کا آپریشنل کمانڈر میر سرینگر شہر کے نواح میں رنگاریت ضلع…
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 5 years
Text
کشمیری مائیں کیسی کیسی نئی روایتیں ڈال رہی ہیں
ایسا منظر صرف کشمیر میں ہی دیکھنے کو ملے گا جہاں ایک ماں، جس کا بیٹا
سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوا ہو، سوگواروں سے صبر و تحمل برتنے کی اپیل کرتی ہو۔ کیا واقعی ماں اتنی جرات مند ہو سکتی ہے یا پھر وادی کشمیر میں رقصاں موت ماؤں کو اپنا کرب چھپانے کی کوشش میں پتھر دل بنانے لگی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کشمیری ماں انتہائی کرب میں مبتلا اپنی پہچان، اپنی ہستی اور ذہنی توازن سے ہی محروم ہو رہی ہے۔ روز روز کی ہلاکتوں اور خون ریزی نے نہ صرف کشمیری عورت کی زندگی بدل ڈالی ہے بلکہ اس کے لیے معاشرتی اور مذہبی ترجیحات بھی تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ اب مائیں اپنے ’شہید‘ بیٹوں کے جلوس کی قیادت کرتی ہیں، قبرستان تک لے جاتی ہیں اوران کے جنازے میں شامل ہوتی ہیں۔
چند دہائیوں پہلے تک کشمیری عورت محال ہی سڑکوں پر نظر آتی تھی، قبرستان جانا تو دور کی بات۔ اسے مذہبی طور پر بھی جائز تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ ان دلدوز مناظر کو دیکھ کر پتھر دل بھی پسیج جاتا ہے مگر بھارتی قیادت پر اس کا کوئی اثر نہیں جو ہر جنگجو کی ہلاکت کو ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کر کے جشن مناتی ہے اورعالمی برادری خاموشی اختیار کر کے اپنی بےحسی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ کہانی ہے پچھلے ماہ 24 اور 25 اپریل کی رات کی جب اننت ناگ کے باگندر محلے میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی ایک ٹولی نے چھاپے کے دوران تین گھنٹے معرکہ آرائی کے بعد دو جنگجوؤں کو مکان سمیت بارود سے اڑا دیا۔ ان میں ایک برہان الدین گنائی تھے جنہیں لوگ ڈاکٹر برہان کے طور پر جانتے تھے۔ 
ڈاکٹر برہان نے گذشتہ برس فزیوتھیرپی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کے چند ماہ بعد سوشل نیٹ ورک کے ذریعے معلوم ہوا کہ وہ جنگجو تنظیم حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ یہ 1990 کا زمانہ نہیں جب عسکریت پسند تربیت یافتہ اور اسلحے سے لیس ہوا کرتے تھے۔ چند برسوں سے جو بھی نوجوان عسکری تحریک میں شامل ہوا اس کی ہلاکت ایک سال کے کم عرصے میں ہوئی اور بیشتر محاصرے میں پھنس کر بارود کا ڈھیر بن گئے۔ وجہ ظاہر ہے کہ ان کے پاس نہ کوئی تربیت ہے اور نہ اسلحہ اور نہ کوئی منظم تنظیم۔ پھر بھی جولائی 2016 میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سینکڑوں نوجوان عسکری تحریک میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی ہلاکت سے ان کے اہل خانہ پر نہ صرف مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے بلکہ سکیورٹی فورسز ان کی تاک میں 24 گھنٹے رہتے ہیں، چند سو نوجوان تقریباً سات لاکھ افواج کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ ڈاکٹر برہان کی والدہ نے ان کے لاپتہ ہونے کے 11 ماہ بعد جب اپنے بیٹے کی میت دیکھی تو سوگواروں کے ایک بڑے مجمعے سے مخاطب ہو کر کہا : ’برہان کی ہلاکت پر کوئی ماتم نہیں کرے گا۔ اس نے اپنے لیے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ اس پر ثابت قدم رہا۔ انجانے میں اگر اس نے کسی کو کوئی گزند پہنچائی ہو تو اللہ کے واسطے اسے اس غلطی کے لیے بخش دینا‘۔ والدہ کی بات سن کر وہاں ماتم شروع ہو گیا اور وہ خاموشی سے دیکھتی رہیں۔ نہ کوئی سینہ کوبی، نہ کوئی اُف اور نہ کوئی گلہ... بس پتھر کا جگر رکھنے والی ماں آخری رسم میں شامل ہو گئی۔
ساٹھ سالہ ظریفہ نے برہان کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا تھا جو ڈگری ختم کر کے اچانک لاپتہ ہو گئے۔ پھر جب واپس ملے تو وہ ان کی گولیوں سی چھلنی لاش تھی۔ میں نے ظریفہ سے پوچھا کہ وہ جنگجو بننے پر کیوں مائل ہوئے جب انہوں نے ڈگری مکمل کر لی تھی؟ ’میں اس روز سے جانتی تھی کہ ہمارے محلے میں شاید ہی کوئی فرد ہو گا جو بندوق نہیں اٹھائے گا کیونکہ ہم سب نے 2010 کی شورش کے دوران اپنی آنکھوں کے سامنے چار معصوم بچوں کو بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہوتے دیکھا تھا۔ ان میں سب سے چھوٹا ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جو روٹی لینے گیا تھا اور گھر کی دہلیز پر فوج کی گولیوں کا نشانہ بنا۔ برہان بار بار اس واقعے کو دہراتا تھا۔
پھر جب ہر مرتبہ چھاپے، گرفتاریاں، ماردھاڑ اور عورتوں کو ہراساں کرنے کے واقعات برہان دیکھتا تھا تو وہ کمرے میں جا کر نماز اور قرآن گھنٹوں پڑھا کرتا تھا۔ وہ پریشان رہتا اور اس کی آنکھوں سے بے بسی ٹپکنے لگتی۔ شاید اسی لیے اس نے عسکری راستہ اختیار کر کے اپنی موت کو ترجیح دی جو اب ہمارے اکثر بچے کر رہے ہیں۔ بھارتی فوج کی بےانتہا زیادتیوں کی وجہ سے ہی ہمارے بچے بندوق اٹھا رہے ہیں اور جو مودی سرکار کو راس بھی آتا ہے۔‘ ان کی آواز میں متانت اور ٹھہراؤ تھا۔ میں نے ظریفہ سے پھر پوچھا کہ آپ نے برہان کو تلاش کیوں نہیں کیا ؟ وہ آہ بھر کر کہنے لگیں: ’میں نے پولیس، فوج اور انتظامیہ سے درخواست کی کہ اس کو تلاش کرنے میں مدد کریں۔ سب نے جواب دیا اگر وہ انکاؤنٹر (مقابلے) میں پھنس گیا تو ہم آپ کو اس وقت بلائیں گے تاکہ آپ اس کو سرنڈر کرانے میں مدد کر سکیں۔ لیکن فوج نے اسے ہلاک کرنے کے چند گھنٹے بعد ہمیں اطلاع دی‘۔
چند منٹ خاموش رہنے کے بعد وہ بولیں: ’کیا دنیا والوں کو کشمیری ماؤں کا کرب نظر نہیں آتا یا وہ ہمارے درد سے واقف نہیں، کیا وہ ہمارے آنسو نہیں دیکھتے، ہماری گود خالی ہوتے دیکھ کر کسی کو ترس نہیں آتا؟ وہ مودی کی کشمیر پالیسی پر بات کیوں نہیں کرتے، ہمیں اپنے حال پر چھوڑنے کے لیے بھارت پر دباؤ کیوں نہیں ڈالتے، ہمارے بچوں کو زندہ رہنے کا حق کیوں نہیں دیتے؟ کیا ہمیں آزادی سے رہنے کا حق نہیں؟‘ ان کے سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور نہ میں یہ پوچھنے کی ہمت کر سکی کہ آپ میں یہ صبر، تحمل اور برداشت کرنے کی طاقت کہاں سے آئی۔ ظریفہ اندرونی کرب میں مبتلا تنہا نہیں بلکہ وہ کشمیر کی آبادی کے اس نصف فیصد کی ترجمانی کر رہی ہیں جو بندوق کے سائے میں ہر پل مرتی ہیں اور پھر زندہ ہوتی ہے۔ اپنی گود خالی ہونے پر ماتم کرتی ہیں اور خود پر ہونے والے ظلم پر ہنستی بھی ہیں۔ کشمیری ماؤں کا یہ مشکل ترین امتحان سات دہائیوں سے جاری ہے۔
نعیمہ احمد مہجور سینیئر صحافی
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو 
0 notes
urdubbcus-blog · 6 years
Photo
Tumblr media
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کردی  سری نگر: بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی کو کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے سری نگر میں اس کے مرکزی دفتر کو سیل کردیا۔ بھارتی محکمہ داخلہ نے مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر 5 سال کے لیے پابندی عائد کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر بھارت مخالف اور تخریب کاری کی سرگرمیوں میں ملوث ہے اور لوگوں کو ملک کے خلاف نفرت پر اکسا رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی زیر صدارت قومی سلامتی پر اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ بھارتی حکومت نے کہا کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر عسکریت پسند تنظیموں سے رابطے میں ہے اور بھارت میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کو فروغ دے رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیرمیں یاسین ملک اورامیرجماعت اسلامی سمیت 150 کشمیری گرفتار بھارتی محکمہ داخلہ نے کہا کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا پرچار کرتی ہے جس کے لیے جدوجہد کرنے والی دہشتگرد و علیحدگی پسند تنظیموں کی مدد کرتی ہے۔ اگر اس پر فوری طور پر پابندی نہ لگائی گئی تو خدشہ ہے کہ وہ بھارت کو توڑ کر ایک اسلامی ریاست قائم کرنے کی اپنی کوششوں کو تیز کردے گی۔ واضح رہے کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی عبدالحامد فیاض سمیت جماعت کے 150 سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ The post بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کردی appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes