#کروڑ
Explore tagged Tumblr posts
Text
سٹیٹ بینک کے ذخائر میں 62 کروڑ ڈالر کا اضافہ
(اشرف خان) ایک ہفتے میں سٹیٹ بینک کے ذخائر میں 62 کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے ، سٹیٹ بینک کے مطابق اضافے میں ایشیائی ترقیاتی بینک کے 50 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں ۔ سٹیٹ بینک کےذخائر مارچ 2022 کی بلند سطح 12 ارب تین کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچے ہیں،کمرشل بینکوں کے ذخائر 7.70 کروڑ ڈالر کی کمی سے 4.58 ارب ڈالر رہ گئے ۔ مزید پڑھیں:شیخوپورہ ضمنی انتخابات میں ن لیگ کو برتری ملکی مجموعی ذخائر میں 54.40 کرور…
0 notes
Text
دنیا بھر میں1 ارب 10 کروڑ افراد شدید غربت میں مبتلا ہیں: اقوام متحدہ
نیویارک (ڈیلی پاکستان آن لائن )اقوام متحدہ کے ڈویلپمنٹ پروگرام ( یو این ڈی پی) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 1 ارب سے زائد افراد شدید غربت میں مبتلا ہیں جن میں نصف سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو ( او پی ایچ آئی) کے اشتراک سے جاری کردہ مقالے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ جنگوں سے متاثرہ ممالک میں غربت کی شرح…
0 notes
Text
چیمپئنز ٹرافی کیلئے 7 کروڑ ڈالرز کا بجٹ مختص
پاکستان میں ہونیوالی چیمپئنز ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ کے لیے 7 کروڑ ڈالرز کا بجٹ مختص کر دیا گیا۔ اگلے سال پاکستان میں شیڈول چیمپئنز ٹرافی کا بجٹ آئی سی سی فنانشل اور کمرشل کمیٹی کی جانب سے اسکروٹنی کے بعد منظور کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق چیمپئنز ٹرافی کے لیے 70 ملین ( 7 کروڑ) ڈالرز کا بجٹ مختص کیا گیا اور ایونٹ کے اضافی اخراجات کے لیے 4.5 ملین ڈالر کی اضافی رقم بھی مختص کی۔ آئی سی سی فنانشل اور…
0 notes
Text
0 notes
Text
خاران: مغوی مختیار احمد مینگل کے گھر پر رات کے اندھیرے میں دستی بم سے دھماکہ، متاثرہ فیملی بے یار و مددگار ڈیتھ سکواڈ کے رحم و کرم پر
پھلین خاران نیوز
اطلاعات کے مطابق گزشتہ رات تقریباً 2 بجے کے وقت خفیہ ادارے اور ان کے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈز نے مغوی مختیار احمد مینگل کے گھر پر دستی بم سے دھماکہ کیا۔ علاقائی ذرائع کے مطابق رات کے اندھیرے اور سناٹے میں دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ پورے کلی پر یکایک خوف و ہراس طاری ہوا۔
تفصیلات کے مطابق یہ دھماکہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب پورے کلی میں لوگ اپنے گھروں میں سورہے تھے۔ تاہم، رات کے اندھیرے میں فوری طور پر دھماکے کی جائے وقوعہ کا تعین نہیں کیا جاسکا۔ البتہ، دن کے وقت معلوم ہوسکا کہ یہ دھماکہ خفیہ اداروں نے اپنے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں کرایا ہے جس کا مقصد مغوی مختیار احمد مینگل کے اہل خانے کو ڈرا دھمکا کر ان سے بڑا معاوضہ وصول کیا جاسکے جنہوں نے مختیار احمد مینگل کے رہائی کے لیئے آٹھ کروڈ طلب کی ہے۔
دوسری جانب بازار پنچائت سمیت سیاسی جماعتوں اور اکثر ح��قوں نے اس معاملے میں متاثرہ خاندان کے ساتھ سرد مہری روا رکھا ہے۔
خیال رہے کہ مغوی مختیار احمد مینگل کے گھر پر یہ دوسرا حملہ ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک ایسا حملہ ہوا تھا، جس سے اس کے اہل خانہ معجزاتی طور پر بچ گئے تھے۔
یاد رہے کہ 15 جولائی 2024 کو مختیار احمد مینگل کو، جو کہ شعبے کے لحاظ سے ایک زمیندار اور تاجر ہے، خفیہ اداروں کے بدنام زمانہ کارندہ اور ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ شفیق مینگل کے اہلکاروں نے خاران سے جبری طور پر اغوا کیا تھا جوکہ تاحال لاپتہ ہے۔ شفیق مینگل کے اہلکاروں نے مغوی مختیار احمد مینگل کے لواحقین کو 8 کروڈ کا معاوضہ یا تاوان دینے پر مختیار مینگل کی رہائی کا شرط رکھا ہے۔
مزید یاد رہے کہ مغوی مختیار احمد مینگل کے لواحقین نے شعیب نوشیروانی کے وعدوں پر یقین کرکے اپنے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ختم کردیئے تھے۔ تاہم، اس کے بعد شعیب نوشیروانی نے حسب فطرت عہد وفا نہیں کیا، اس نے آخر کار یہ کہہ کر اپنا جان چھڑایا کہ خفیہ اداروں اور ڈیتھ اسکواڈ کے ہاں ان کی بس نہیں چلتی لہذا متاثرہ خاندان کوئی خان مینگل جیسے ڈیتھ اسکواڈ سے سفارش کروا کر اپنے مغوی کو رہا کرائیں۔ اس کے بعد ان کے اہل خانہ مایوس ہوکر غیبی مدد کے آسرے پر بیٹھے منتظر ہیں۔ اب خفیہ ادارے اور ان کے ڈیتھ اسکواڈ مغوی مختیار مینگل کی بے بسی کا فائدہ اٹھا کر فیملی سے رہائی کے بدلے بھاری رقم کا مانگ کررہے ہیں اور رقم کی عدم ادائیگی پر نہ صرف آئے روز ان کو فون کرکے دھمکی دیتے ہیں بلکہ گھر پر دھماکے کررہے ہیں۔
تعجب کے ساتھ افسوس کی بات یہ ہے کہ نو جنوری کو شعیب نوشیروانی کے ٹھکانے پر حملے میں غیرمقامی متنازعہ افراد کے حق میں جو لوگ مذمتی بیانات کے ذریعے چادر و چاردیواری پر لیکچر دیے پھر رہے تھے، آج ان سمیت علاقے کے تمام سیاسی و سماجی حلقے مختیار آحمد کے مظلوم فیملی کے حق ڈیتھ سکواڈ کے خلاف دو لفظ تک ادا کرنے سے قاسر ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ مختیار آحمد ایک زمیندار تاجر تھا، اس کے باوجود بازار پنچائیت کو چاہئے تھا کہ اس کی بازیابی تک ان کے فیملی کے ساتھ کھڑے رہتے مگر پنچائیت نے اس معاملے پر شروعاتی دنوں میں گرم جوشی دکھائی جبکہ بعد میں خدا جانے کن وجوہات کے تحت خاموشی اختیار کی۔
بعض افراد مختیار آحمد مینگل کی اغواء کو لین دین کا ذاتی اور آپسی مسئلہ کہہ رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مختیار آحمد ایک ایسا شخص تھا جسکا کسی سے کوئی ذاتی دشمنی یا لین دین نہیں تھا اور نا ہی اس پر کسی کا اُدھار تھا۔ چلیں ایک لمحے کیلئے مان بھی لیں کہ اس کا لین دین تھا کسی معاملے میں، مگر پھر بھی کیا یہ بازار پنچائیت، سیاسی جماعتوں سمیت پورے خاران کا فرض نہیں بنتا کہ اس مشکل وقت میں متاثرہ اور مظلوم فیملی کے ساتھ کھڑے رہیں؟ ہر انسان کے ذاتی و کاروباری لین دین ہوتے ہیں تو کیا اسے ڈیتھ سکواڈ کے ہاتھوں اغوا برائے تعاوان کا شکار کرواکر فیملی سے آٹھ کروڑ جیسی بھاری رقم مانگی جائے اور گھر پر بم پہنکے جائیں؟ معاملہ کچھ بھی ہو، مختیار آحمد کی فیملی کے ساتھ اس وقت ظلم ہورہا ہے اور جو کوئی اس پر خاموش ہے وہ اپنے باری کا انتظار کررہا ہے۔
0 notes
Link
[ad_1] پاکستان کی معیشت میں استحکام کے واضع اشارے مل رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جب کہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق دسمبر 2024میں ترسیلات زر29 فیصد اضافے کے ساتھ 3 ارب 10کروڑ ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ گزشتہ سال اسی ماہ میں ترسیلات زر2 ارب 38کروڑ ڈالر رہی تھیں۔میڈیا نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے سے بتایا ہے کہ نومبر2024کی ترسیلات زر2 ارب 92 کروڑ ڈالر تھیں جب کہ دسمبر2024میں ماہانہ بنیادوں پر 5.6 فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ترسیلات زر کی مجموعی مالیت 17.8 ارب ڈالر ہوگئی ہے، جو گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں32.8 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال اس مدت کے دوران ترسیلات زر 13.4 ارب ڈالر رہی تھیں۔ یقینا یہ اعدادو شمار حوصلہ افزاء ہیں۔ ایک روز قبل گورنر اسٹیٹ بینک نے واضع کیا ہے کہ پاکستان معاشی اہداف حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور قرضوں کی سطح اور ادائیگیوں کے توازن پر قابو پایا گیا ہے۔ انھوں نے توقع ظاہر کی تھی کہ رواں ماہ میں مہنگائی مزید کم ہوگی جب کہ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے سود کی شرح بھی کم ہوگی۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے شرح سود میں مسلسل کمی ہورہی ہے ، جو معیشت میں استحکام کا واضع اشارہ ہے۔ پاکستان کو معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے برآمدات میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، جوں جوں برآمدات میں اضافہ ہوگا، کرنٹ اکاؤنٹ اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پاکستان نے 944 ملین ڈالر کے بجٹ خسارے کو سرپلس میں بدل دیا ہے۔ شرح سود جو 22 فیصد تھی ، وہ اب 13 فیصد تک آچکی ہے اور اس میں مزید کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔ شرح سود میں کمی نے نہ صرف قرضوں کے حصول کو آسان بنایا بلکہ کاروباری ماحول کو فروغ دیا، کلیدی شعبوں میں سرمایہ کاری کو تقویت بخشی اور اقتصادی ترقی کے نئے افق وا کیے۔ ترسیلات زر میں اضافہ بھی ایک صحت بخش پیش رفت ہے ،امید ظاہر کی جارہی ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 35 ارب ڈالر سے بڑھ جائے گا۔ بلیک مارکیٹ اور انٹر بینک کے درمیان گیپ میں کمی ہوئی جب کہ روپے کی قدر میں بھی استحکام رہا ہے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری حالات بہتر ہیں، اسمگلنگ میں کمی ، حوالہ ہنڈی کے کاروباری پر سختی کی گئی ہے، ان تمام عوامل نے مل کر ماحول کو بہتر بنایا ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے ۔ آئی ایم ایف کے حکام بھی امید ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ٹیم جس انداز میں کام کررہی ہے اور جو نتائج سامنے آرہے ہیں، اگر یہ عمل جاری رہتا ہے تو پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 2025تک 3.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی سمت کے بارے میں نئی امید کا اظہار کر رہے ہیں۔ 2024میں م��نگائی کی شرح 29فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک آ گئی۔ سال کے اختتام تک، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، یہ اضافہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر، برآمدات میں مضبوط ترقی، اور مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ سال 2024کے دوران پاکستان کی برآمدات میں قابلِ ذکر82 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 72ارب ڈالر کی قابل رشک حد تک پہنچ گئیں۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز تھا مگر رواں برس اسی عرصے میں 72 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز سرپلس رہا۔ تقریباً دس سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بلند ترین سطح پر ہے اور لگاتار کئی ماہ سے سرپلس ہے، اس کی بڑی وجہ ملکی برآمدات اور ترسیلات ِزر میں اضافہ ہے، مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بیرونی وصولیوں میں بھی 33فیصد اضافہ دیکھا گیا جو نومبر تک 15 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دسمبر 2024 میں موصول ہونے والی 3 ارب 10 کروڑ ڈالر ترسیلات زر ہمارے بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے آہنی عزم کی سند ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ حکومت پاکستان ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم نے منی بجٹ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے ٹیکس حکام کو 386 ارب کا ریونیو شارٹ فال ریکوراوران لینڈ ریونیو کے سپریم کورٹ اور اپیلٹ ٹریبونلز میں زیرالتوا مقدمات جلد نمٹانے کی ہدایت کی ہے۔ میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ایک ہفتے میں ٹیکس معاملات کا جائزہ لینے کے لیے دو اجلاس بلائے ہیں۔ان میں ایک اجلاس جمعہ کو ہوا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم کو ایف بی آرکی طرف سے ماہ جنوری کا 957 ارب روپے کا ٹیکس اہداف کے حوالے سے پیش آمد مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم نے عدالتوں میں رکے ہوئے محصولات کے کیسزجلد ازجلد نمٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپیلٹ ٹریبونلز میں بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت کو مسابقتی تنخواہوں، مراعات اور پیشہ ورانہ ٹیلنٹ کی بنیاد پر تعینات کر کے محصولات کے کیسز فوری حل کیے جائیں۔ وزیراعظم نے کہا ایف بی آر اصلاحات پر کام تیزی سے جاری ہے۔حال ہی میں کراچی میں فیس لیس اسیسمنٹ نظام کا اجراء کیا گیا ہے۔جدید خودکار نظام سے کرپشن کا خاتمہ اور کسٹمز کلیئرنس کے لیے درکار وقت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ملک و قوم کی ایک ایک پائی کا تحفظ کریں گے۔غریب پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نا دہندگان سے ٹیکس وصول کریں گے ۔ ان سرگرمیوں سے واضع ہوتا ہے کہ حکومت معیشت کو بہتر بنانے اور ٹیکس سٹسم میں اصلاحات لانے کے لیے سخت اقدامات کررہی ہے جب کہ حکومت کی معاشی ٹیم نے جو روڈ میپ سیٹ کیا ہے، اس پر مسلسل کام کررہی ہے۔ادھر ساڑھے چار سال بعد پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازیں بحال ہوگئیں۔ ساڑھے چار سال تعطل کے بعد قومی ایٔرلائن کی پہلی پرواز 309 مسافروں کو لے کر پیرس پہنچ گئی۔ وفاقی وزیر ہوابازی خواجہ آصف نے کہا برطانیہ اور امریکا کے لیے عائد پابندیاں بھی جلد ختم ہوجائیں گی اور وہاں کے لیے بھی براہ راست پروازیں شروع ہو جائیں گی۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے یہ امر باعث مایوسی تھا کہ ملک کی قومی ائر لائن دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے ائر پورٹس پر نہیں اترسکتی۔ امریکا، کینیڈا اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو غیرملکی ائرلائنز کے ذریعے وطن واپس آنا پڑتا تھا اور اسی طرح پاکستان سے یورپ جانے کے لیے انھیں براہ راست پروازیں میسر نہیں تھیں۔ ساڑھے 4سال ہمارے اوورسیز پاکستانی ڈائریکٹ یہاں نہیں آسکتے تھے۔ انھیں دبئی، دوحہ، ابوظہبی یا کہیں اور سے فلائٹ لے کر پاکستان آنا پڑتا تھا، سفر بھی مہنگا ہوگیا تھا۔ ساڑھے 4سال میں کئی سو ارب کا نقصان اٹھایا ۔ پاکستان کے لیے گزرے دس برس انتہائی کٹھن رہے ہیں۔ ان برسوں کے دوران ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ غلط معاشی حکمت عملیوں اور ناعاقبت اندیش خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت عدم استحکام ہی نہیں بلکہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ عالمی سطح پر پاکستان تنہائی کا شکار ہوا۔ پاکستان کا نام مسلسل کئی برس ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکلنے کا موقع نہ مل سکا۔ داخلی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے اندر ناسازگار حالات رہے۔ امن وامان اور دہشت گردی کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی گئی، اس کے نتائج ملک اور قوم کے لیے اچھے نہیں نکلے۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا جب کہ اشیائے ضروریہ خصوصاً اناج واجناس جن میں آٹا، چینی، گھی اور دالیں وغیرہ شامل تھیں، ان کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آ کر ان عوامل پر کسی حد تک قابو پایا ہے۔ معیشت اب خاصی حد تک بحالی کی سطح پر آ گئی ہے۔ پاکستان کو ابھی مزید معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو سکے۔ معاشی استحکام کی راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیںتاہم یہ ایسی نہیں ہیں کہ جنھیں ہٹایا نہ جا سکے۔ [ad_2] Source link
0 notes
Link
[ad_1] پاکستان کی معیشت میں استحکام کے واضع اشارے مل رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے جب کہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق دسمبر 2024میں ترسیلات زر29 فیصد اضافے کے ساتھ 3 ارب 10کروڑ ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ گزشتہ سال اسی ماہ میں ترسیلات زر2 ارب 38کروڑ ڈالر رہی تھیں۔میڈیا نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے سے بتایا ہے کہ نومبر2024کی ترسیلات زر2 ارب 92 کروڑ ڈالر تھیں جب کہ دسمبر2024میں ماہانہ بنیادوں پر 5.6 فیصد اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران ترسیلات زر کی مجموعی مالیت 17.8 ارب ڈالر ہوگئی ہے، جو گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں32.8 فیصد زیادہ ہے۔ گزشتہ سال اس مدت کے دوران ترسیلات زر 13.4 ارب ڈالر رہی تھیں۔ یقینا یہ اعدادو شمار حوصلہ افزاء ہیں۔ ایک روز قبل گورنر اسٹیٹ بینک نے واضع کیا ہے کہ پاکستان معاشی اہداف حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور قرضوں کی سطح اور ادائیگیوں کے توازن پر قابو پایا گیا ہے۔ انھوں نے توقع ظاہر کی تھی کہ رواں ماہ میں مہنگائی مزید کم ہوگی جب کہ قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے سود کی شرح بھی کم ہوگی۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے شرح سود میں مسلسل کمی ہورہی ہے ، جو معیشت میں استحکام کا واضع اشارہ ہے۔ پاکستان کو معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کے لیے برآمدات میں مزید اضافے کی ضرورت ہے، جوں جوں برآمدات میں اضافہ ہوگا، کرنٹ اکاؤنٹ اور ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پاکستان نے 944 ملین ڈالر کے بجٹ خسارے کو سرپلس میں بدل دیا ہے۔ شرح سود جو 22 فیصد تھی ، وہ اب 13 فیصد تک آچکی ہے اور اس میں مزید کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔ شرح سود میں کمی نے نہ صرف قرضوں کے حصول کو آسان بنایا بلکہ کاروباری ماحول کو فروغ دیا، کلیدی شعبوں میں سرمایہ کاری کو تقویت بخشی اور اقتصادی ترقی کے نئے افق وا کیے۔ ترسیلات زر میں اضافہ بھی ایک صحت بخش پیش رفت ہے ،امید ظاہر کی جارہی ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 35 ارب ڈالر سے بڑھ جائے گا۔ بلیک مارکیٹ اور انٹر بینک کے درمیان گیپ میں کمی ہوئی جب کہ روپے کی قدر میں بھی استحکام رہا ہے اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری حالات بہتر ہیں، اسمگلنگ میں کمی ، حوالہ ہنڈی کے کاروباری پر سختی کی گئی ہے، ان تمام عوامل نے مل کر ماحول کو بہتر بنایا ہے جس کی وجہ سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے ۔ آئی ایم ایف کے حکام بھی امید ظاہر کررہے ہیں کہ پاکستان کی معاشی ٹیم جس انداز میں کام کررہی ہے اور جو نتائج سامنے آرہے ہیں، اگر یہ عمل جاری رہتا ہے تو پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 2025تک 3.2 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی سمت کے بارے میں نئی امید کا اظہار کر رہے ہیں۔ 2024میں مہنگائی کی شرح 29فیصد سے کم ہو کر 7 فیصد تک آ گئی۔ سال کے اختتام تک، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، یہ اضافہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر، برآمدات میں مضبوط ترقی، اور مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ سال 2024کے دوران پاکستان کی برآمدات میں قابلِ ذکر82 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 72ارب ڈالر کی قابل رشک حد تک پہنچ گئیں۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس نومبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز تھا مگر رواں برس اسی عرصے میں 72 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز سرپلس رہا۔ تقریباً دس سال بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس بلند ترین سطح پر ہے اور لگاتار کئی ماہ سے سرپلس ہے، اس کی بڑی وجہ ملکی برآمدات اور ترسیلات ِزر میں اضافہ ہے، مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں بیرونی وصولیوں میں بھی 33فیصد اضافہ دیکھا گیا جو نومبر تک 15 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دسمبر 2024 میں موصول ہونے والی 3 ارب 10 کروڑ ڈالر ترسیلات زر ہمارے بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے آہنی عزم کی سند ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان معاشی استحکام کے بعد معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ حکومت پاکستان ملکی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم ہے۔ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم نے منی بجٹ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے ٹیکس حکام کو 386 ارب کا ریونیو شارٹ فال ریکوراوران لینڈ ریونیو کے سپریم کورٹ اور اپیلٹ ٹریبونلز میں زیرالتوا مقدمات جلد نمٹانے کی ہدایت کی ہے۔ میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ایک ہفتے میں ٹیکس معاملات کا جائزہ لینے کے لیے دو اجلاس بلائے ہیں۔ان میں ایک اجلاس جمعہ کو ہوا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم کو ایف بی آرکی طرف سے ماہ جنوری کا 957 ارب روپے کا ٹیکس اہداف کے حوالے سے پیش آمد مشکلات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم نے عدالتوں میں رکے ہوئے محصولات کے کیسزجلد ازجلد نمٹانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اپیلٹ ٹریبونلز میں بین الاقوامی معیار کی افرادی قوت کو مسابقتی تنخواہوں، مراعات اور پیشہ ورانہ ٹیلنٹ کی بنیاد پر تعینات کر کے محصولات کے کیسز فوری حل کیے جائیں۔ وزیراعظم نے کہا ایف بی آر اصلاحات پر کام تیزی سے جاری ہے۔حال ہی میں کراچی میں فیس لیس اسیسمنٹ نظام کا اجراء کیا گیا ہے۔جدید خودکار نظام سے کرپشن کا خاتمہ اور کسٹمز کلیئرنس کے لیے درکار وقت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ملک و قوم کی ایک ایک پائی کا تحفظ کریں گے۔غریب پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نا دہندگان سے ٹیکس وصول کریں گے ۔ ان سرگرمیوں سے واضع ہوتا ہے کہ حکومت معیشت کو بہتر بنانے اور ٹیکس سٹسم میں اصلاحات لانے کے لیے سخت اقدامات کررہی ہے جب کہ حکومت کی معاشی ٹیم نے جو روڈ میپ سیٹ کیا ہے، اس پر مسلسل کام کررہی ہے۔ادھر ساڑھے چار سال بعد پی آئی اے کی یورپ کے لیے پروازیں بحال ہوگئیں۔ ساڑھے چار سال تعطل کے بعد قومی ایٔرلائن کی پہلی پرواز 309 مسافروں کو لے کر پیرس پہنچ گئی۔ وفاقی وزیر ہوابازی خواجہ آصف نے کہا برطانیہ اور امریکا کے لیے عائد پابندیاں بھی جلد ختم ہوجائیں گی اور وہاں کے لیے بھی براہ راست پروازیں شروع ہو جائیں گی۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے یہ امر باعث مایوسی تھا کہ ملک کی قومی ائر لائن دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے ائر پورٹس پر نہیں اترسکتی۔ امریکا، کینیڈا اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو غیرملکی ائرلائنز کے ذریعے وطن واپس آنا پڑتا تھا اور اسی طرح پاکستان سے یورپ جانے کے لیے انھیں براہ راست پروازیں میسر نہیں تھیں۔ ساڑھے 4سال ہمارے اوورسیز پاکستانی ڈائریکٹ یہاں نہیں آسکتے تھے۔ انھیں دبئی، دوحہ، ابوظہبی یا کہیں اور سے فلائٹ لے کر پاکستان آنا پڑتا تھا، سفر بھی مہنگا ہوگیا تھا۔ ساڑھے 4سال میں کئی سو ارب کا نقصان اٹھایا ۔ پاکستان کے لیے گزرے دس برس انتہائی کٹھن رہے ہیں۔ ان برسوں کے دوران ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ غلط معاشی حکمت عملیوں اور ناعاقبت اندیش خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت عدم استحکام ہی نہیں بلکہ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ عالمی سطح پر پاکستان تنہائی کا شکار ہوا۔ پاکستان کا نام مسلسل کئی برس ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہا جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بحران سے نکلنے کا موقع نہ مل سکا۔ داخلی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے اندر ناسازگار حالات رہے۔ امن وامان اور دہشت گردی کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی گئی، اس کے نتائج ملک اور قوم کے لیے اچھے نہیں نکلے۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا جب کہ اشیائے ضروریہ خصوصاً اناج واجناس جن میں آٹا، چینی، گھی اور دالیں وغیرہ شامل تھیں، ان کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آ کر ان عوامل پر کسی حد تک قابو پایا ہے۔ معیشت اب خاصی حد تک بحالی کی سطح پر آ گئی ہے۔ پاکستان کو ابھی مزید معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو سکے۔ معاشی استحکام کی راہ میں ابھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیںتاہم یہ ایسی نہیں ہیں کہ جنھیں ہٹایا نہ جا سکے۔ [ad_2] Source link
0 notes
Text
نان فائلرز کو فائلرز بنانے کا چیلنج
پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ریاست کے وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ پھر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل طبقات بھی ٹیکس کی شرح میں مسلسل اضافے اور ٹیکس در ٹیکس ادائیگیوں کے باعث مالی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ عام آدمی کیلئے بھی ہر چیز کی خریداری پر بھاری سیلز ٹیکس کی ادائیگی لازمی ہے۔ ایسے میں افسوسناک امر یہ ہے کہ اب بھی ملک میں بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت موجود ہے۔ اس وقت پاکستان کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کے حوالے سے جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں غیر دستاویزی معیشت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سے ایک طرف حکومت کی ٹیکس مشینری کی بدانتظامی ظاہر ہوتی ہے جسکی وجہ سے بہت سے کاروباری افراد غیر رسمی معیشت کا حصہ رہتے ہوئے ٹیکس کی ادائیگی سے بچ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے لوگوں میں حکومت کی ٹیکس مشینری پر عدم اعتماد بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس نیٹ کا حصہ بنیں گے تو انہیں ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے عملے کی طرف سے بلا جواز تنگ کرنے کا اندیشہ بڑھ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں اور غیر واضح ٹیکس قوانین بھی ٹیکس دہندگان کیلئے سمجھ بوجھ اور تعمیل کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث ہیں۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع کیلئے اس خامی کو ٹیکس میکانزم اور قوانین بہتر بنا کر دور کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ٹیکس وصولی کا نظام بنیادی طور پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تاہم اس محکمے کو بھی عملے کی مبینہ نااہلیوں، بدعنوانیوں اور ناکافی وسائل کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کے حوالے سے ایک اور اہم فیکٹر سیاسی قیادت یا حکومت کا عزم ہے کیونکہ زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر اپنے سیاسی اثرورسوخ کے باعث ہی طویل عرصے سے عملی طور پر ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے جب بھی حکومت کی طرف سے کوئی پالیسی بنائی جاتی ہے تو اسے اندر سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آخر میں یہ کوشش سیاسی سمجھوتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کو بھی یہ واضح نظر آنا شروع ہو گیا ہے کہ اگر اس نے اب بھی ان مسائل کو حل کرنے کیلئے ٹیکس اصلاحات نہ کیں اور نان فائلر کو فائلر بنانے کی پالیسی پر عمل نہ کیا تو اس کیلئے موجودہ معاشی استحکام کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں حال ہی میں حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں یہ بل پیش کیا گیا ہے کہ نان فائلر افراد پر کاروں، جائیدادوں کی خریداری اور بینک اکاؤنٹس کھولنے پر پابندی عائد کی جائے۔ اسی طرح حکومت نے ٹیکس دہندگان کے خفیہ ڈیٹا کو کمرشل بینکوں اور نجی طور پر رکھے گئے ٹیکس آڈیٹرز کے ساتھ شیئر کرنےکیلئے بھی پارلیمنٹ سے منظوری مانگی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نان فائلرز کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے اور سیلز ٹیکس رجیم میں رجسٹرڈ نہ ہونیوالے افراد کے کاروبار اور جائیدادیں ضبط کرنے کے اختیارات بھی مانگے گئے ہیں۔ اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ نان فائلرز کو اپنے بینک کھاتوں سے ایک خاص حد سے زیادہ رقم نکالنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
مجوزہ بل میں جہاں کچھ اچھی چیزیں شامل ہیں وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت نے ماضی میں کئے گئے اپنے ہی اعلانات کے برعکس نان فائلر کیٹیگری کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں انکم ٹیکس آرڈیننس کے 10ویں شیڈول کو حذف کرنے کی ضرورت ہے جو نان فائلرز کیلئے زیادہ شرح کی ادائیگی کرکے فائلر بننے سے بچنے کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف بی آر کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد نان فائلرز میں سے نومبر تک صرف 56 لاکھ افراد نے اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں۔ دیگر نان فائلرز ٹیکس نظام کی عدم فعالیت اور کمزوری یا حکومت کی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے تاحال ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف ایف بی آر کو گزشتہ پانچ ماہ میں 340 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے۔ اس وجہ سے اندیشہ ہے کہ حکومت ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا کرنے کیلئے پہلے سے ٹیکس نیٹ میں موجود افراد پر کوئی نیا ٹیکس لگا سکتی ہے یا پہلے سے نافذ شدہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر سکتی ہے۔
حالانکہ رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس محصولات کا ہدف پہلے ہی 13 ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کیلئے حکومت ٹیکس دہندگان پر نئے ٹیکس لگانے کے علاوہ براہ راست ٹیکسوں میں 48 فیصد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافہ کر چکی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ حکومت ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہے جس کے باعث پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد پر مالی بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے اور وہ بھی فرار کے راستے ڈھونڈنے شروع کر دیں۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
“ملت کا پاسبان“
ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح
صد شکر پھر ہے گرمِ سفر اپنا کارواں
اور میرِ کارواں ہے، محمد علی جناح
بیدار مغز، ناظم اسلامیانِ ہند
ہے کون؟ بے گُماں ہے، محمد علی جناح
تصویرِ عزم، جانِ وفا، روحِ حُریت
ہے کون؟ بے گماں ہے محمد علی جناح
رکھتا ہے دل میں تاب و تواں نو کروڑ کی
کہنے کو ناتواں ہے، محمد علی جناح
رگ رگ میں اِس کی ولولہ ہے حُبِ قوم کا
پیری میں بھی جواں ہے، محمد علی جناح
لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پہ جس کا تیر
ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناح
ملت ہوئی ہے زندہ پھر اس کی پکار سے
تقدیر کی اذاں ہے محمد علی جناح
غیروں کے دل بھی سینے کے اندر دہل گئے
مظلُوم کی فُغاں ہے محمد علی جناح
اے قوم! اپنے قائد اعظم کی قدر کر
اِسلام کا نشاں ہے محمد علی جناح
عمر دراز پائے، مسلماں کی ہے دعا
ملت کا ترجماں ہے محمد علی جناح
0 notes
Text
محسن نقوی کا بلائنڈ کرکٹ ٹیم کیلئے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان
لاہور ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو ایک کروڑ روپے کا چیک دینے کا اعلان کردیا۔محسن نقوی نے حال ہی میں ورلڈ کپ جیتنے والی بلائنڈ کرکٹ ٹیم سے ملاقات کی اور انہیں مبارکباد پیش کی، اس موقع پر چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ نے کہا کہ بلائنڈ کرکٹ ٹیم کا ورلڈ کپ میں فتح حاصل کرنا پاکستان کے لئے اعزاز ہے۔محسن نقوی نے کہا کہ ہم نے بہت تھوڑے وقت…
0 notes
Text
فاتح مینٹور کیلئے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) چیمپئنز ون ڈے کپ کی فاتح ٹیم کے مینٹور کو ایک کروڑ روپے کا انعام ملے گا۔ نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے مطابق ذرائع پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا کہنا ہے کہ پہلے سیزن کی چیمپیئن ٹیم پینتھرز کے مینٹور ثقلین مشتاق پی سی بی سے جلد اپنا انعام وصول کریں گے۔ انعامی رقم ٹورنامنٹ کی اعلان کردہ انعامی رقم سے الگ ہے۔ پی سی بی نے حوصلہ افزائی کے لیے بونس کے طور پر رقم دینے کا…
0 notes
Text
امیتابھ نے پھر کون بنے گا کروڑ پتی کی میزبانی قبول کرلی
امیتابھ نےایک بار پھر ‘کون بنے گا کروڑ پتی’ کی میزبانی قبول کرلی۔تصویر بھی جاری کردی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ‘ کون بنے گا کروڑ پتی’ کے سیزن 16 کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں میزبانی ہمیشہ کی طرح امیتابھ بچن ہی کررہے ہیں۔ شو کی شوٹنگ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے اور اس حوالے سے امیتابھ نے بھی پہلی تصویر اپنے سوشل اکاؤنٹ ایکس پر جاری کی گئی ہے ۔تصویر میں سینئر اداکار کو بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور…
0 notes
Text
پریس ریلیز
جنوری 11
*شہباز شریف نے پاکستان کو نئی پہچان دی، بانی فتنہ پارٹی کا کوئی فون تک نہیں سنتا تھا: عظمٰی بخاری*
*سول نافرمانی کی کال کے باوجود ترسیلات زر میں اضافہ ہوا، اوورسیز پاکستانیوں نے تین ارب دس کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے: عظمٰی بخاری*
*گنڈا پور سمیت کے پی گورنمنٹ کی پوری کابینہ کرپشن میں لت پت ہے: عظمٰی بخاری*
*بارہ سال سے نالائق شخص کی حکومت نے لوگوں کی تکلیف میں اضافہ کر دیا ہے: عظمٰی بخاری*
*بانی پی ٹی آئی جیل میں برانڈڈ چاکلیٹس اور بادام انجوائے کر رہا ہے: عظمٰی بخاری*
*قوم کو بانی پی ٹی آئی کی خراب حالت دکھا کر جذباتی کیا جاتا ہے: عظمٰی بخاری*
لاہور () وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے پاکستان کو نئی پہچان دی، بانی فتنہ پارٹی کا کوئی فون تک نہیں سنتا تھا۔ اڈیالہ جیل سے فتنہ خان نے فائنل کال دی وہ مس کال ثابت ہوئی۔ سول نافرمانی کی کال کے باوجود ترسیلات میں ریکارڈ اضافہ ہوا، اوورسیز پاکستانیوں نے تین ارب دس کروڑ ڈالر پاکستان بھیجے۔ سول نافرمانی کی تحریک سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر فتنہ کی پالیسی کو کسی دوست ملک نے توجہ نہیں۔ اسلام آباد میں خواتین پرکانفرنس چل رہی ہے جہاں پچاس ملکوں سے زائد مندوبین موجود ہیں۔ فتنہ خان نے ملک کو تنہا کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر پاکستان میں کوئی دوست ملک کا سربراہ آیا ہو تو یہ لوگ مہم جوئی شروع کر دیتے ہیں تاکہ پاکستان کے تعلقات خراب ہوں۔ انہوں نے کہا کہ گنڈا پور سمیت کے پی گورنمنٹ کی پوری کابینہ کرپشن میں لت پت ہے۔ بارہ سال سے نالائق شخص کی حکومت نے ہر شخص کی تکلیف میں اضافہ کر دیا ہے۔ ہمیں بتایا جائے کہ گنڈا پور صاحب میں ایسی کون سی قابلیت ہے کہ اسے سی ایم بنا دیا ہے۔ کے پی میں مساجد کے نام پر دو ارب روپے بانٹے گئے۔ بانی پی ٹی آئی جیل میں برانڈڈ چاکلیٹس اور بادام انجوائے کر رہا ہے۔ قوم کو بانی پی ٹی آئی کی خراب حالت دکھا کر جذباتی کیا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شاہدرہ میں سمیع اللہ خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شاہدرہ کا علاقہ ن لیگ کبھی نہیں بھلا سکتی۔ شاہدرہ میں سیوریج کے بہت مسائل تھے جو کہ اب حل ہو رہے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں اب آسانی آئے گی۔ وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز کی قیادت میں پنجاب ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ یہاں صرف اعلانات نہیں ہوتےبلکہ کام کر کے دکھایا جاتا ہے۔ دھی رانی پروگرام میں مریم نواز ایک بڑے پروگرام کا آغاز کرنے جا رہی ہیں۔ سکالر شپ پروگرام سے تیس ہزار مستحق بچوں کو تعلیم ملے گی مگر فتنہ پارٹی کے اس پر بھی شرانگیزی کرنے کی کوشش کی ۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ مریم نواز نے لائیو سٹاک کارڈ پروگرام پاکپتن سے شروع کیا ہے جس سے مویشی پال لوگ اپنے لئے مویشی خریدیں گے اور روزگار کمائیں گے۔ بہت سارے دوست ممالک پاکستان سے مویشی خریدنا چاہتے ہیں۔ اس پروگرام سے پنجاب سے دوسرے ممالک کو جانور بیچیں جائیں گے۔ انتشار گروپ نے شہباز شریف کے بغض میں لیپ ٹاپ پروگرام کوبند کر دیا۔اب لیپ ٹاپ کی کھیپ پاکستان پہنچ چکی ہے، کوئی ایم این اے یا ایم پی اے لیپ ٹاپ پر سفارش نہیں کرسکتا۔ مریم نواز کی حکومت میں کسی کی سفارش کا کوئی نظریہ نہیں، جب لیڈر شپ محنتی ہو تو اللہ کا فضل ہوتاہے۔ ان کے دور میں انڈے، کٹے لنگر خانے، پناہ گاہیں اور بھنگ کی فیکٹریاں شروع کی گئیں۔ ادھر تو پھونکوں اور تعویزوں کی حکومت تھی۔ انتشار گروپ کے جلاؤ گھیراؤ کے باوجود پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔ جو کہتا تھا کہ این آر او نہیں لونگا وہ اب این آر او کیلئے ترلے کر رہا ہے۔اب تو خان کو اس کے گھر والے ملنے بھی نہیں جارہے، اگر کوئی ملنے جائے تو اس سےکہتا ہے مجھ سے جیل میں نہ ملو بلکہ مجھے کسی طرح این آر او دلواکر باہر نکالو۔ اس کے اپنے بچے لندن میں عیاشیاں کررہے ہیں اور قوم کے بچوں کے ہاتھ میں غلیلیں،اسلحہ اور پٹرول بمب تھمایا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے پی حکومت کئی ہزار ارب روپے کی مقروض ہے وہاں نہ تو سکول ہیں اور نہ ہسپتال۔ وہاں لوگ ڈولیوں میں بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ عوام پر توجہ دینے کی بجائے ان کے لوگوں کو صرف ایک ہی فکر ہے کہ خان کی اڈیالہ جیل میں بھنا ہوامرغا مل رہا ہے یا نہیں۔
0 notes
Text
قابض پنجابی دہشتگرد ریاست نے شہید بالاچ کے ورثا کو خریدنے کے لیے چار کروڑ کی پیشکش کی تھی مگر انھوں نے یہ کہی کر انکار کر دیا کہ اگر یہ بالاچ کی لاش کی قیمت ہے تو وہ اب ہمارا نہیں قوم کا ہے قوم نے بالاچ کو اور بالاچ نے قوم کو اپنا لیا ہے
#BalochFightForHumanRights
#ReleaseAllBalochMissingPersons
#StopBalochGenocide
#OccupiedBalochistan
#BalochistanIsNotPakistan
#pakistanaterroristcountry
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date: 20 November-2024
Time: 09:00-09:10 am
آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ: ۲۰؍ نومبر ۲۰۲۴ء
وقت: ۱۰:۹-۰۰:۹
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
پیش ہے خاص خبروں کی سرخیاں:
٭ اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ریاست کے 288 حلقوں میں ر ائے دہی کا عمل جاری؛ سیاسی قائدین اور رہنمائوں کی جانب سے حقِ رائے دہی کی اد ائیگی۔
٭ ووٹر شناختی کارڈ سمیت دیگر 12 دستاو یزات میں سے کوئی ایک دستاویز بتاکر اپنی شناخت کی تصدیق کرکے رائے دہی کرنے کی اپیل۔
٭ ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کیلئے بھی آج ر ائے دہی- ضلعے کے چھ اسمبلی حلقوں کے را ئے دہندگان کو ایک ہی مرکز پر دو بار ووٹ ڈالنے کے ذمہ داری۔
٭ امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کے معاملے میں بی جے پی رہنما ونود تائوڑے کے خلاف مقدمہ درج ۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں جاپان کو شکست دے کر بھارت فائنل میں داخل - آج چین سے مقابلہ۔
***** ***** *****
اب خبریں تفصیل سے:
ریاستی اسمبلی کی 288نشستوں سمیت ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کیلئے ر ائے دہی کا عمل جاری ہے۔ ریاست میں نو کروڑ 70 لاکھ 25 ہزار 119 ر ائے دہندگان کیلئے ایک لاکھ 427 را ئے دہی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ شام چھ بجے تک ر ائے دہی کا عمل جار ی رہے گا۔
دریں اثنا‘ ریاستی گورنر سی پی رادھا کرشنن‘ چیف الیکشن آفیسر ایس چوکّ لنگم‘ چیف سیکریٹری سجاتا سَونِک‘ معروف کرکٹر بھارت رَتن سچن تنڈولکر نے ممبئی میں اپنے پولنگ مرکز پر جاکر ووٹ د یا۔
چھترپتی سمبھاجی نگر میں رائے دہی کا عمل بہتر طور پر جاری ہے۔ ضلع کلکٹر دلیپ سوامی نے و یب کاسٹنگ کے ذریعے ضلع کے ووٹنگ مراکز کا مشاہدہ کیا۔ پربھنی شہر میں سخت سردی میں را ئے دہی کا عمل ہورہا ہے ا ور ووٹروں کی لمبی لمبی قطاریں دکھائی دے رہی ہیں۔
ہنگولی شہر میں صبح سے ہی رائے دہی کیلئے عو ام کا بہتر ردّ عمل دکھائی دے رہا ہے۔
بارامتی اسمبلی حلقے کے مہایوتی کے اُمیدوار اجیت پوار نے کاٹے واڑی کے مرکز پر ووٹ د یا۔
عثمان آباد اسمبل ی حلقے کے مہاوِکاس آگھاڑی کے امید وار کیلاش گھاڑگے ا ور لا تور شہر حلقے سے مہاوِکاس آگھاڑی کے امیدو ار امیت دیشمکھ نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا۔
دریں اثنا‘ رائے دہی مراکز پر ر ائے دہندگان کی تصدیق کیلئے ووٹر شناختی کارڈ کے ساتھ 12 دیگر دستاویزات میں سے کوئی بھی ایک دستاویز قبول کیا جائے گا۔ ان دستاو یزات میں ڈرائیونگ لائسنس، پین کارڈ، آدھار کارڈ، پاسپورٹ، منریگا جاب کارڈ، بینک یا ڈاک محکمے کی تصویر والی پاس بک، ہیلتھ انشورنس اسمارٹ کارڈ، قومی آبادی رجسٹر کے تحت حاصل کردہ اسمارٹ کارڈ، خصوصی معذوری شناختی کارڈ وغیرہ دستاو یزات قابلِ قبول ہوں گے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے تمام ر ائے دہند گان سے اپنی شناخت کی تصدیق کرکےر ائے دہی کر نے کی اپیل کی ہے۔ سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ جمہوریت کے اس جشن میں سبھی کو شرکت کرنی چاہیے۔
چیف انتخابی افسر ایس چو کّ لنگم نے ریاست کے سبھی ر ائے دہندگان سے کثیر تعداد میں اپنا حقِ ر ائے دہی ادا کرنے کی درخواست کی ہے۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات میں مجموعی طور پر چار ہزار 136 امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔ ان میں سے تین ہزار 771 مرد امیدواروں کے علاوہ، 363 خواتین اور تیسری جنس کے دو امید وار ہیں۔ پونے ضلعے میں سب سے زیادہ 303 امیدوار ، جبکہ سندھو دُرگ ضلعے میں سب سے کم 17 امیدوار مید ان میں ہیں۔
چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے کے نو اسمبلی حلقوں میں 183 امیدوار میدان میں ہیں، جبکہ جالنہ ضلعے کے پانچ اسمبلی حلقوں میں 109 امیدوار، بیڑ ضلع کے چھ اسمبلی حلقوں میں 139 امیدوار، پربھنی ضلعے کے چار اسمبلی حلقوں میں 58 امیدوار، ہنگولی ضلعے کے تین حلقوں میں 53 امیدوار میدان میں ہیں۔ اسی طرح لاتور ضلعے کے چھ انتخابی حلقوں میں 106 امیدوار، دھا را شیو ضلعے کے چار حلقوں میں 66 امیدوار اور ناندیڑ ضلعے کے نو اسمبلی حلقوں میں 165 امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔
ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب میں ر ائے دہندگان 19 امیدواروں میں سے کسی ایک امیدو ار کو اپنا نمائندہ منتخب کریں گے۔ اس لوک سبھا حلقہ کے ناندیڑ شمال، ناندیڑ ��نوب، بھوکر، نائیگاؤں، دیگلور اور مکھیڑ اسمبلی حلقوں کے ر ائے دہندگان دو بار ووٹ دے رہے ہیں۔ لوک سبھا ضمنی انتخاب کیلئے ووٹنگ مشین پر سفید اسٹیکر، جبکہ اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ووٹنگ مشین پر گلابی اسٹیکرز چسپاں کیے گئے ہیں۔ پولنگ مرکز پر رائے دہندگان اپنی شناخت کی تصدیق کے بعد پہلے لوک سبھا اور پھر اسمبلی کیلئے ووٹ دے رہے ہیں۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی چھترپتی سمبھاجی نگر سے نشر کی جارہی ہیں
***** ***** *****
مرکزی انتخابی کمیشن کے حکم کے مطابق ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے 'خواتین پولنگ عملے کے ماتحت 426رائے دہی مر اکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان تمام مراکز پر خواتین افسران و ملازمین انتخابی اُمور انجام دے رہی ہیں۔
***** ***** *****
رائے دہی کے عمل کی تکمیل کیلئے گزشتہ روز ہی پولنگ عملے اپنے اپنے پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ گئے ہیں۔ چھترپتی سمبھاجی نگر ضلعے میں تین ہزار 273 ر ائے دہی مر اکز پر پولنگ اُمور کی انجام دہی کیلئے 18 ہزار 178 افسران اور ملا زمین کو تعینات کیا گیا ہے۔
جالنہ ضلعے کے پانچ حلقوں میں جملہ ایک ہزار 775 پولنگ مراکز پر ر ائے دہی ہو رہی ہے‘ جبکہ بیڑ ضلعے کے چھ حلقوں میں دو ہزار 416 پولنگ اسٹیشنوں پر 11 ہزار 469 افسران و ملازمین کو الیکشن ڈیوٹی پر مامور کیا گیا ہے۔
ناندیڑ ضلع میں تین ہزار 88 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں اور پولنگ عملے کی نگرانی میں ان تمام مراکز پر صبح سات بجے سے ر ائے دہی شروع ہو چکی ہے۔
دھاراشیو ضلعے کے چار اسمبلی حلقوں میں 14 لاکھ چار ہزار ووٹر ایک ہزار 523 ر ائے دہی مراکز پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔
***** ***** *****
اسمبلی انتخابات کے ضابطہ اخلاق کے دوران 15 اکتوبر سے گذشتہ کل تک ریاست بھر میں سی ویجل ایپ پر نو ہزار 293 شکایات موصول ہوئیں ہیں‘ جن میں سے نو ہزار 265 شکایات کا ازالہ کرنے کی اطلاع چیف الیکشن آفیسر دفتر نے دی ہے۔ اس دوران جملہ 673 کروڑ 22 لاکھ روپے ضبط کیے گئے ہیں۔
***** ***** *****
بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری ونود تائوڑے کے خلاف پال گھر ضلع کے نالاسوپارہ کے تُڑِنج پولس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ انتخابات کی تشہیری مہم ختم ہونے کے بعد قائدین و کارکنان کے انتخابی حلقے میں نہ رہنے کے امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کرنے پرتاوڑے سمیت مہایوتی کے امیدوار راجن نائیک اور تقریباً 250 کارکنان پر مقدمہ درج کیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی ر ائے دہی سے قبل تشہیری مہم کے اختتام کے بعد صحافتی کانفرنس منعقد کرنے او ر ہوٹل کے کمروں کی تلاشی کے دو ر ان نقد رقم ملنے کے دو دیگر مقدمے بھی پولس نے درج کیے ہیں۔
دریں اثنا‘ بہوجن وکاس آگھاڑی پارٹی نے ونود تائوڑے پر نالاسوپارہ کی ایک ہوٹل میں پیسے تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ تائوڑے سمیت بی جے پی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن سے معاملے کی جانچ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
***** ***** *****
صحت و خاند انی بہبودمحکمے نے ریاست اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کو موسم کی تبد یلی اور صحت پر اسکے اثرات کیلئے ضلع اور شہری سطح پر ضروری منصوبہ بندی کرنے کے احکامات دئیے ہیں۔ مرکزی صحت سیکریٹری پنیہ سلیلا شریواستو نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں کے چیف سیکریٹریوں کو اس سلسلے میں ایک مکتوب ارسال کیا ہے۔ جس میں فضائی آلودگی کا سامنا کرنے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ آلودگی سے ہونے والی بیماریوں اور اس کے مطابق ��بّی پالیسیاں تبد یل کرنے جیسی ہدایات اس میں شامل ہیں۔
***** ***** *****
بہار کے راجگیر میں جاری خواتین کے ایشیائی چیمپئن شپ ٹو رنامنٹ کا فائنل مقابلہ آج بھارت اور چین کے درمیان ہوگا۔ شام پونے پانچ بجے سے میچ کا آغاز ہوگا۔ کل کھیلے گئے سیمی فائنل مقابلے میں بھارت نے جاپان کو دو۔ صفر سے جبکہ چین نے ملائیشیا کوتین ۔ ایک سے شکست دی تھی۔
***** ***** *****
پربھنی ضلعے کے چار اسمبلی حلقوں میں رائے دہی کے د وران کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو رو کنے او ر رائے دہندگان کو لبھانے جیسے غیر قانونی کاموں پر نظر رکھنے کیلئے پولس انتظامیہ کی جانب سے ڈرون پیٹرولنگ کی جارہی ہے۔ جن علاقوں میں پہنچنا ممکن نہ ہو‘ وہاں پر ڈرون پیٹرولنگ مؤـثر ثابت ہونے کی اطلاع پولس سپرنٹنڈنٹ نے د ی ہے۔
بیڑ ضلعے میں رائے دہی کا عمل پُرامن طریقے سے مکمل کرنے کیلئے ایک ہزار 209 رائے دہی مراکز پر منظر کشی کی جارہی ہے۔
جالنہ ضلعے کے پانچ اسمبلی حلقوں میں چار ہزار پولس ملازمین کو بندوبست پر تعینا ت کیا گیا ہے۔ چار حساس ر ائے دہی مراکز کیلئے سی اے پی ایف دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ ویب کاسٹنگ او ر مائیکرو آبزرورس کے ذریعے نگرانی کرو ائی جارہی ہے۔
***** ***** *****
55و اں بھارتی بین ا لاقو امی فلم فیسٹیول یعنی IFFI کا آج سے گوا میں آغاز ہورہا ہے۔ اس فلم فیسٹیول میں 81 ممالک کی تقریباً 18 فلمیں دکھائی جائیں گی۔ آئندہ 28 نومبر تک یہ فیسٹیول جا ری رہے گا۔
***** ***** *****
::::: سرخیاں::::::
آخرمیں اس بلیٹن کی خاص خبریں ایک بار پھر:
٭ اسمبلی کے عام انتخابات کیلئے ریاست کے 288 حلقوں میں ر ائے دہی کا عمل جاری؛ سیاسی قائدین اور رہنمائوں کی جانب سے حقِ رائے دہی کی اد ائیگی۔
٭ ووٹر شناختی کارڈ سمیت دیگر 12 دستاو یزات میں سے کوئی ایک دستاویز بتاکر اپنی شناخت کی تصدیق کرکے رائے دہی کرنے کی اپیل۔
٭ ناندیڑ پارلیمانی نشست کے ضمنی انتخاب کیلئے بھی آج ر ائے دہی- ضلعے کے چھ اسمبلی حلقوں کے را ئے دہندگان کو ایک ہی مرکز پر دو بار ووٹ ڈالنے کے ذمہ داری۔
٭ امتناعی احکامات کی خلاف ورزی کے معاملے میں بی جے پی رہنما ونود تائوڑے کے خلاف مقدمہ درج ۔
اور۔۔۔٭ خواتین کے ایشیائی ہاکی چمپئن شپ میں جاپان کو شکست دے کر بھارت فائنل میں داخل - آج چین سے مقابلہ۔
***** ***** *****
0 notes
Text
کراچی میں نئی بسوں کی آمد؟
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ۔ میں نے اپنی صحافت کا آغاز ہی بلدیاتی رپورٹنگ سے کیا تھا۔ اُس زمانے میں شام کے اخبارات شہری مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے چاہے وہ پانی کا مسئلہ ہو، ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوں یا شہر کا ’’ماسٹر پلان‘‘۔ کرائمز کی خبریں اس وقت بھی سُرخیاں بنتی تھیں مگر اُن کی نوعیت ذرا مختلف ہوتی تھی۔ مجھے میرے پہلے ایڈیٹر نے ’’ٹرانسپورٹ‘‘ کی خبریں لانے کی ذمہ داری سونپی، ساتھ میں کرائمز اور کورٹ رپورٹنگ۔ اب چونکہ خود بھی بسوں اور منی بسوں میں سفر کرتے تھے تو مسائل سے بھی آگاہ تھے۔ یہ غالباً 1984ء کی بات ہے۔ جاپان کی ایک ٹیم شہر میں ان مسائل کا جائزہ لینے آئی اور اُس نے ایک مفصل رپورٹ حکومت سندھ کو دی جس میں شہر میں سرکلر ریلوے کی بہتری کیساتھ کوئی پانچ ہزار بڑے سائز کی بسیں بشمول ڈبل ڈیکر لانے کا مشورہ دیا اور پرانی بسوں اور منی بسوں کو بند کرنے کا کیونکہ ان کی فٹنس نہ ہونے کی وجہ سے شدید آلودگی پھیل رہی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غالباً ٹرام یا تو ختم ہو گئی تھی یا اُسے بند کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ اُس وقت کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سربراہ چوہدری اسماعیل ہوتے تھے جن کے ماتحت کئی پرائیویٹ بسیں چلتی تھیں اور اُن کی گہری نظر تھی۔ اِن مسائل پر وہ اکثر کہتے تھے ’’ شہر جس تیزی سے پھیل رہا ہے ہم نے اس لحاظ سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہ کیا تو بات ہاتھوں سے نکل جائے گی‘‘۔
کوئی چالیس سال بعد مجھے یہ نوید سُنائی جا رہی ہے کہ اب انشا ءالله کئی سو نئی بسیں اور ڈبل ڈیکر بسیں بھی آرہی ہیں۔ مگر مجھے خدشہ ہے کے اِن ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر یہ بسیں کیسے چلیں گی مگر خیر اب یہ بسیں آ رہی ہیں لہٰذا ان کا ’’خیر مقدم‘‘ کرنا چاہئے۔ میں نے حیدر آباد اور کراچی میں ڈبل ڈیکر بسوں میں سفر کیا ہے پھر نجانے یہ کیوں بند کر دی گئیں۔ ایک مضبوط کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے تحت بڑی بڑی بسیں چلا کرتی تھیں جن کے شہر کے مختلف علاقوں میں ٹرمینل ہوتے تھے۔ اس کے اندر جس طرح لوٹ مار کی گئی اُس کی کئی خبریں میں نے ہیڈ لائن میں دی ہیں اور اچانک یہ بند ہو گئیں کیوں اور کیسے؟ پھر وہ بسیں کہاں گئیں ٹرمینلز کی زمینوں کا کیا بنا۔ ایسا ہی کچھ حال سرکلر ریلوے کا ہوا ورنہ تو یہ ایک بہترین سروس تھی، اب کوئی دو دہائیوں سے اس کی بحالی کی فائلوں پر ہی نجانے کتنے کروڑ خرچ ہو گئے۔ اس سارے نظام کو بہتر اور مربوط کیا جاتا تو نہ آج کراچی کی سڑکوں پر آئے دن ٹریفک جام ہوتا نہ ہی شہر دنیا میں آلودگی کے حوالے سے پہلے پانچ شہروں میں ہوتا۔
قیام پاکستان کے بعد بننے والا ’’کراچی ماسٹر پلان‘‘ اُٹھا لیں اور دیکھیں شہر کو کیسے بنانا تھا اور کیسا بنا دیا۔ ماسٹر پلان بار بار نہیں بنتے مگر یہاں تو کیونکہ صرف لوٹ مار کرنا تھی تو نئے پلان تیار کئے گئے۔ میں نے دنیا کے کسی شہر میں اتنے بے ڈھنگے فلائی اوور اور انڈر پاس نہیں دیکھے جتنے اس معاشی حب میں ہیں۔ عروس البلاد کراچی کی ایک دکھ بھری کہانی ہے اور یہ شہر ہر لحاظ سے اتنا تقسیم کر دیا گیا ہے کہ اسکی دوبارہ بحالی ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ تاہم خوشی ہے کہ وزیر اطلاعات نے رنگ برنگی اے سی بسیں لانے کا وعدہ کیا ہے جن کا کرایہ بھی مناسب اور بکنگ آن لائن۔ یہ سب کراچی ماس ٹرانسزٹ کا حصہ تھا جو کوئی 30 سال پہلے بنایا گیا تھا۔ اُمید ہے یہ کام تیزی سے ہو گا کیونکہ جو حال پچھلے پانچ سال سے کراچی یونیورسٹی روڈ کا ہے اور وہ بھی ایم اے جناح روڈ تک، اللہ کی پناہ۔ شہر کی صرف دو سڑکیں ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل، چلتی رہیں تو شہر چلتا رہتا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ چند سال پہلے ہی ��یل روڈ سے لے کر صفورہ گوٹھ تک جہاں جامعہ کراچی بھی واقع ہے ایک شاندار سڑک کوئی ایک سال میں مکمل کی گئی، بہترین اسٹریٹ لائٹس لگائی گئیں جس پر ایک ڈیڑھ ارب روپے لاگت آئی اور پھر... یوں ہوا کہ اس سڑک کو توڑ دیا گیا۔ اب اس کا حساب کون دے گا۔
اگر ایک بہتر سڑک بن ہی گئی تھی تو چند سال تو چلنے دیتے۔ ہمیں تو بڑے پروجیکٹ بنانے اور چلانے بھی نہیں آتے صرف ’’تختیاں‘‘ لگوا لو باقی خیر ہے۔ دوسرا بسوں کا جال ہو یا پلوں کی تعمیر یہ کام دہائیوں کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں اس شہر کا کھیل ہی نرالا ہے یہاں پلان تین سال کا ہوتا ہے مکمل 13 سال میں ہوتا ہے۔ میں نے کئی بار شرجیل میمن صاحب کو بھی اور خود وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ صاحب کو بھی کہا کہ سڑکوں کا کوئی بڑا پروجیکٹ ہو، کوئی فلائی اوور یا انڈر پاس تو سب سے پہلے سائیڈ کی سڑکوں کو اور متبادل راستوں کو بہتر کیا جاتا ہے اور سڑکوں کی تعمیر یا مرمت سے پہلے متعلقہ اداروں سے پوچھا جاتا ہے کہ کوئی لائن و غیرہ تو نہیں ڈالنی؟ یہاں 80 فیصد واقعات میں واٹر بورڈ، سوئی گیس اور کے الیکٹرک والے انتظار کرتے ہیں کہ کب سڑک بنے اور کب ہم توڑ پھوڑ شروع کریں۔ اب دیکھتے ہیں ان نئی بسو ں کا مستقبل کیا ہوتا ہے کیونکہ 70 فیصد سڑکوں کا جو حال ہے ان بسوں میں جلد فٹنس کے مسائل پیدا ہونگے۔ مگر محکمہ ٹرانسپورٹ ذرا اس کی وضاحت تو کرے کہ چند سال پہلے جو نئی سی این جی بسیں آئی تھیں وہ کہاں ہیں کیوں نہیں چل رہیں اور ان پر لاگت کتنی آئی تھی۔
اگر یہ اچھا منصوبہ تھا تو جاری کیوں نہ رکھا گیا اور ناقص تھا تو ذمہ داروں کو سزا کیوں نہ ملی۔’’خدارا‘‘، اس شہر کو سنجیدگی سے لیں۔ ریڈ لائن، اورنج لائن، گرین لائن اور بلیو لائن شروع کرنی ہے تو اس کام میں غیر معمولی تاخیر نہیں ہونی چاہئے مگر اس سب کیلئے ٹریک بنانے ہیں تو پہلے سائیڈ ٹریک بہتر کریں ورنہ ایک عذاب ہو گا، یہاں کے شہریوں کیلئے بدترین ٹریفک جام کی صورت میں۔ سرکلر ریلولے بحال نہیں ہو سکتی اس پر پیسہ ضائع نہ کریں۔ اس کی وجہ سرکار بہتر جانتی ہے۔ جب بھی میں یا کو��ی شہر کے مسائل کے حل کے اصل مسئلے پر آتا ہے تو اُسے سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈیفنس والے بھی خوش نہیں ہوتے ایک ’’میٹرو پولیٹن سٹی‘‘، ایک میئر کے انڈر ہوتی ہے۔ اُس کی اپنی لوکل پولیس اور اتھارٹی ہوتی ہے۔ کیا وقت تھا جب ہم زمانہ طالب علمی میں نارتھ ناظم آباد کے حسین ڈسلوا ٹائون کی پہاڑیوں پر جایا کرتے تھے، ہاکس بے ہو یا سی ویو پانی اتنا آلودہ نہ تھا، بو نہیں مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ جرم و سیاست کا ایسا ملاپ نہ تھا۔ اس شہر نے ہم کو عبدالستار ایدھی بھی دیئے ہیں اور ادیب رضوی بھی۔ اس شہر نے سب کے پیٹ بھرے ہیں اور کچھ نہیں تو اس کو پانی، سڑکیں اور اچھی بسیں ہی دے دو۔ دُعا ہے ��ئی بسیں آئیں تو پھر غائب نہ ہو جائیں، نا معلوم افراد کے ہاتھوں۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes