#کا بیٹوں
Explore tagged Tumblr posts
googlynewstv · 5 months ago
Text
متھیرا کا بیٹوں سےگھر کاکام کروا کر معاوضہ دینے کاانکشاف
 ماڈل و میزبان متھیرا نے  تینوں بیٹوں سے گھرکا کام کرواکر معاوضہ دینے کانکشاف کردیا۔ اداکارہ متھیرا کا انٹرویو میں کہناماں کا رویہ بچوں کی شخصیت میں رچ بس جاتا ہے۔ رویہ صرف لڑکیوں ہی نہیں لڑکوں میں بھی  منتقل ہوتا ہے۔میرے 3 بیٹے ہیں، سب سے   بڑا بیٹا 16سال کا ہے۔ٹین ایج بچوں کو اور ان کی غلطیوں کو  نظر انداز کریں کیوں کہ  اس عمر میں بچوں کو اسپیس کی ضرورت ہوتی ہے، ٹین ایج بچے  کا دماغ اپنے قابو…
0 notes
the-royal-inkpot · 1 year ago
Text
اہل بیعت اور اہل بیت
ابراھیم سے لے کر محمد تک ایک ہی شجرہ ہے۔سب انبیاء اسی نسب سے نازل ہوتے رہے۔
اہل بیت کا سلسلہ محمد پر آ کر ختم ہوا۔
پھر اہل بیعت کا سلسلہ چل پڑا یعنی خلافت۔یہ روحانی اولاد تھی نا کہ جسمانی اولاد۔
آج بھی یہ تنازعہ موجود ہے۔
��سمانی علاج خود کو نبی اور اسلام کا وارث سمجھتی ہے،چھاتیاں پیٹتی ہے اور ماتم کرتی ہے جبکہ روحانی اولاد نبوت و خلافت کے خواص کو شجرہ میں منتقل کرنا مکروہ و ممنوع سمجھتی ہے۔
کیا یہ طاقت کی بھوک ہے یا واقعی نبوت کی شاخ کو سنبھالنے کا جوش ہے۔اس کا جواب آپ دیں گے۔
برس ہا برس سے وراثت بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔حتی کہ نبوت نے بھی ایک وراثت کا لبادہ اوڑھا اور بیٹوں میں منتقل ہوتی رہی۔نبی کے بعد اس کا بیٹا نبی اور پھر اس کے بعد اس کا بیٹا بھی نبی اور پھر نبی در نبی در نبی۔
رسول اللہ کی آمد کے بعد جب آپ کے ہاں بیٹوں کی پیدائش ہوئی تو غیر معمولی طور پر آپ کے بیٹے فوت ہوتے گئے۔کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ جن افراد نے نبی کی موت کے بعد خلافت سنبھالی وہی لوگ رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دینے میں بلاواسطہ شامل تھے۔بلاواسطہ یوں کہ جب خلافت علی ابن طالب کے بجائے ابوبکر کو منتقل ہوئی تو وہی لوگ گروہ بندی کرنے میں سب سے آگے تھے جنہوں نے رسول اللہ کے بیٹوں کو زہر دے کر بچپن میں ہی مار دیا تھا۔انہی لوگوں نے پس پردہ یہ راگ الاپا کہ وراثت میں نبوت کو منتقل کرنا مکروہ ہے کیونکہ رسول اللہ اپنی ذات کو کبھی ترجیح نہیں دیتے تھے اس لیے علی خلیفہ نا بنے۔
3 notes · View notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
جیسی قوم ویسے حکمران
Tumblr media
آپ مانیں یا نہ مانیں جیسی قوم ہوتی ہے اسے ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔ جب ہم مظلوم تھے تو ہمیں محمد علی جناح ؒکی صورت میں ایک قائد ملا جس نے برطانوی سرکار کی طرف سے متحدہ ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کی پیشکش ٹھکرا کر ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ ہمیں پاکستان تو مل گیا لیکن ہم نے پاکستان کی قدر نہ کی اور آزادی کے فوراً بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا لہٰذا قدرت نے ہم سے ہمارا قائد اعظم ؒقیام پاکستان کے ایک سال بعد واپس لے لیا۔ آج کے پاکستان میں قائدین کی بہتات ہے اور قیادت کا فقدان ہے عمران خان اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کا لیڈر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں دور دور تک قائداعظمؒ کی تعلیمات کی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ عوام کی مدد سے نہیں بلکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدد سے وزیر اعظم بنے اور اپنی حکومت میں اپنے ارکان اسمبلی کو آئی ایس آئی کے ذریعے کنٹرول کرتے تھے۔ بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے گھڑیاں اور ہار سستے داموں خرید کر جعلی رسیدیں توشہ خانہ میں جمع کراتے رہے۔ انکی سیاست کا محور سیاسی مخالفین پر مقدمے بنا کر انہیں جیل میں ڈالنا تھا وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے رہے لیکن اتنی اخلاقی جرات نہ دکھا سکے کہ اپنی بیٹی کی ولدیت کو تسلیم کر لیں جو لندن میں انکے دو بیٹوں کے ساتھ انکی سابق اہلیہ کے ساتھ مقیم ہے۔ 
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکلے تو انکے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا تھا۔ 9 مئی کو انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا گیا تو ان کے کارکنوں نے ملک بھر میں جلائو گھیرائو کیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ جلائی گئی۔ سب سے پہلے میں نے ہی 9 مئی کی شب جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں بتایا کہ کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ دراصل قائد اعظم ؒکا گھر تھا جو قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج نے اپنے قبضے میں لے لیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم ؒکو واپس نہ کیا گیا۔ اس گھر کے متعلق فوجی حکام کےساتھ قائد اعظم ؒکی خط وکتابت ’’جناح پیپرز‘‘ میں محفوظ ہے جو ڈاکٹر زورار حسین زیدی نے بڑی محنت سے مرتب کئے۔ کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ اور اسے جلا دینا ایک قابل مذمت واقعہ تھا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہئے لیکن موجودہ حکمرانوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ صرف عمران خان کی مذمت کیلئے یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ تحریک انصاف والوں نے جناح ہائوس جلا دیا۔ کیا کوئی صاحب اختیار یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ جناح ہائوس کو قومی میوزیم بنانے کی بجائے کور کمانڈر کی رہائش گاہ میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ 
Tumblr media
قائد اعظمؒ ؒنے یہ گھر قاضی محمد عیسیٰ (قاضی فائز عیسیٰ کے والد) کے ذریعے موہن لال بھاسن سے خرید ا تھا 1944ء میں برطانوی فوج نے اس بنگلے کو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ذریعے اپنے قبضہ میں لے کر سات سو روپے ماہانہ کرایہ دینا شروع کر دیا۔ کرایہ داری کا معاہدہ 28 اپریل 1947ء کو ختم ہونا تھا لہٰذا 3 جنوری 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو برطانوی فوج نے بتایا کہ ہم کرایہ داری معاہدہ کے بعد بھی آپ کو آپ کا گھر واپس نہ کر سکیں گے جس پر قائداعظم ؒنے قانونی کارروائی شروع کر دی۔ یکم اگست 1947ء کو قائد اعظم ؒ کو خط لکھا گیا کہ آپ کا گھر واپس کر دیا جائے گا۔ 31 جنوری 1948ء کو اس گھر کی توسیع شدہ لیز ختم ہو گئی لیکن قائد اعظم ؒکو اس گھر کا قبضہ نہ دیا گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد اس گھر کو پاکستانی فوج کے دسویں ڈویژن کے جی او سی کی رہائش گاہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کو پانچ سو روپیہ ماہوار کرایہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعدازاں 1959ء میں جنرل ایوب خان کے حکم پر جناح ٹرسٹ میں ساڑھے تین لاکھ روپے جمع کروا کر اسے کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ قرار دے دیا گیا۔ کچھ سال کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن میں حصہ لیا تو جنرل صاحب نے فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دیدیا۔ جس جنرل ایوب خان نے قائد اعظم ؒکے گھر پر قبضہ کیا اس کا پوتا عمر ایوب خان آج تحریک انصاف میں شامل ہے۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پاک فوج کے شہداء کی یادگاروں اور فیصل آباد میں آئی ایس آئی کے دفتر پر حملہ کرنے والوں کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں بنا کر کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افسوس کہ ’’جناح ہائوس لاہور‘‘ پر حملے کی مذمت کرنے والی حکومت قائد اعظم ؒمحمد علی جناح کی تعلیمات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ قائد اعظم ؒنے تمام عمر قانون کی بالادستی، شخصی آزادیوں اور صحافت کی آزادی کیلئے جدوجہد کی لیکن پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے قائداعظم ؒکی تعلیمات کےساتھ ساتھ آئین پاکستان کے ساتھ بھی وہی سلوک شروع کر رکھا ہے جو تحریک انصاف نے 9 مئی کو جناح ہائوس لاہور کے ساتھ کیا۔ کیا وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کو معلوم ہے کہ 1919ء میں محمد علی جناح نے متحدہ ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب عدالتی انکوائری کے بغیر کسی انسان کی آزادی ایک لمحہ کےلئے بھی نہیں چھینی جا سکتی۔ رولٹ ایکٹ کا مقصد پولیس کو نقص امن کے خدشات پر گرفتاریوں کے لامحدود اختیارات دینا تھا۔ 
ایک انگریز رکن اسمبلی آئرن سائڈ نے قائداعظم محمد علی جناح کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ رولٹ ایکٹ کا مقصد صرف چند شرپسندوں کو قابو کرنا ہے۔ قائد اعظم ؒنے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم تخریب کاروں اور بدمعاشوں کے خلاف کارروائی کی مذمت نہیں کر رہے لیکن کسی مہذب ملک میں عدالتی ٹرائل کے بغیر شہریوں کی آزادی سلب نہیں کی جاتی۔ قائد اعظم ؒکی مخالفت کے باوجود رولٹ ایکٹ منظور ہو گیا تو انہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا کہ ’’یہ قانون ساز اسمبلی ایک جابرانہ حکومت کی آلہ کار بن گئی ہے اس لئے میں اس اسمبلی سے جا رہا ہوں۔‘‘ وہ قائد اعظم ؒجو ٹرائل کے بغیر گرفتاریوں کے خلاف اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے اسی قائد کے پاکستان میں جنرل ایوب خان نے 1960ء میں رولٹ ایکٹ کو ایم پی او کا نام دیکر دوبارہ نافذ کر دیا۔ افسوس کہ اس جابرانہ قانون کو عمران خان کی حکومت نے بھی استعمال کیا اور آج شہباز شریف کی حکومت بھی اسے استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو گرفتار کر رہی ہے ایم پی او کےتحت گرفتاریاں توہین قائد اعظم ؒکے مترادف ہیں۔ حکمرانوں نے توہین پارلیمینٹ کا قانون تو منظور کر لیا لیکن توہین قائداعظم ؒکے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ ہم قائد اعظم ؒکا نام تو لیتے ہیں لیکن انکی تعلیمات سے سینکڑوں میل دور ہیں۔ خود بھی جھوٹ بولتے ہیں اور ہمارے لیڈر بھی جھوٹے ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران۔
حامد میر
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes · View notes
topurdunews · 1 month ago
Text
فہیم اشرف کے ہاں جڑواں بیٹوں کی پیدائش
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے آل راؤنڈر فہیم اشرف کے ہاں جڑواں بیٹوں کی پیدائش ہوئی ہے، ولادت نجی ہسپتال میں ہوئی۔کرکٹ فہیم اشرف کے ہاں جڑواں بیٹوں کی پیدائش لاہور کے نجی ہسپتال میں ہوئی، دونوں بچے صحت مند ہیں۔ فہیم اشرف کے والد کا جڑواں بچوں کی ولادت پر کہنا تھا کہ پوتوں کی پیدائش پرانتہائی خوش ہوں۔ قومی کرکٹر فہیم اشرف کے پتوکی میں واقع گھر میں جڑواں بچوں کی ولادت پر…
0 notes
asliahlesunnet · 3 months ago
Photo
Tumblr media
وسائل کے بعد فریضہ حج ادا کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے سوال ۴۵۰: ہم بعض مسلمانوں کو خصوصاً نوجوانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ فریضہ حج ادا کرنے میں سستی سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے ہم عنقریب ادا کر لیں گے اور پھر وہ بعض مشاغل کی وجہ سے معذور ہو جاتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کیا نصیحت فرمائیں گے؟ بعض والدین اپنے بیٹوں کو فریضہ حج ادا کرنے سے روکتے ہیں کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ انہیں سفر میں کوئی گزند نہ پہنچ جائے یا کہتے ہیں کہ وہ ابھی چھوٹے ہیں، حالانکہ ان پر حج کی ساری شرطیں لاگو ہوتی ہیں، تو ایسے والدین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس بارے میں بیٹوں کی اپنے والدین کی اطاعت کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جزاکم اللّٰہ خیرا، ووفقکم لما فیہ خیر الدنیا والآخرۃ جواب :یہ امر معلوم ہے کہ حج اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن اور اس کی عظیم بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے، لہٰذا حج کے بغیر کسی شخص کا اسلام مکمل نہیں ہو سکتا بشرطیکہ اس کے حق میں وجوب کی شرطیں موجود ہوں اور جس کے حق میں وجوب کی شرطیں موجود ہوں اسے حج مؤخر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام فوراً بجا لانے چاہئیں، نیز کسی انسان کو معلوم نہیں کہ اسے کل کیا حالات پیش آئیں، ہو سکتا ہے کل وہ فقیر، بیمار یا فوت ہو جائے۔ والدین کے لیے بھی یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے بیٹوں کو حج پر جانے سے منع کریں، جبکہ ان کے حق میں وجوب کی شرطیں پوری ہوچکی ہوں اور دین واخلاق کے اعتبار سے انہیں قابل اعتماد رفقا کی معیت حاصل ہو۔ بیٹوں کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ ترک حج میں اپنے والدین کی اطاعت کریں، جبکہ حج واجب ہو کیونکہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں اِلاَّیہ کہ والدین کوئی شرعی عذر پیش کریں، تو اس صورت میں اس عذر کے زائل ہونے تک حج کو مؤخر کرنا جائز ہوگا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ سب کو خیر و خوبی کی توفیق عطا فرمائے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۴۰۶ ) #FAI00364 ID: FAI00364 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
urduchronicle · 11 months ago
Text
جمائما خان اور عمران خان کے بیٹوں نے پی ٹی آئی کی حمایت میں پیغام جاری کر دیئے
عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما نے پاکستان میں عام انتخابات سے قبل عمران خان کی حمایت کا اظہارکیا ہے۔ لندن میں مقیم عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائما اور بیٹے قاسم کی جانب سے پی ٹی آئی ووٹرز کیلئے پیغام جاری کیا گیا ہے۔ جمائما نے سماجی رابطسوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے دونوں بیٹوں سلیمان اور قاسم کی تصویر شیئر کی جس می دونوں بھائیون نے پی ٹی آئی کا پرچم تھام رکھا ہے۔ Tomorrow’s a huge day for…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
globalknock · 1 year ago
Text
جعلی ویزے پر یورپ جانے کی کوششدبئی کی عدالت کا عرب خاندان کو قید کے بعد ملک بدر کرنے کا حکم
(ویب ڈیسک)جعلی ویزے پر یورپ جانے کی کوشش کرنے والے عرب خاندان کو قید اور ملک بدری کی بھی سزا سنا دی گئی۔ متحدہ عرب امارات میں دبئی کے عدالتی حکام نے ایک عرب شہری اور اس کے چار بیٹوں کو جعلی ویزوں پر دبئی سے یورپ جانے کی کوشش کرنے پر ایک ماہ قید اور ملک بدری کی سزا بھی سنائی ہے۔ امارات الیوم کے مطابق جعلی ویزا دینے والے عرب شہری کو بھی سزا دی گئی۔ جعلساز نے عرب خاندان کو پیشکش کی تھی کہ وہ یورپ کا…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 year ago
Text
میاں صاحب اور اتفاقیہ سیاست
Tumblr media
ہماری پوری سیاست ’اتفاقیہ‘، ’حادثات‘ اور ’ردعمل‘ سے بھری پڑی ہے ایک کو گرانے کیلئے دوسرے کو لایا جاتا ہے اور پھر یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک معاملات لانے والوں کے کنٹرول میں رہتے ہیں۔ اس ’نظریہ سیاست‘ میں تیزی 70 کی دہائی کے بعد آئی نواز شریف اور عمران خان، اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ کل کے غدار آج کے محب وطن اور کل کے محب وطن آج غدار ٹھہرائے جارہے ہیں۔ بظاہر یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آرہا اور اسی ��ئے آنے والا وقت نہ سیاست اور نہ ہی جمہوریت کیلئے کوئی بڑی ’خوشخبری‘ لارہا ہے۔ پاکستان کی سیاست ’سانپ سیڑھی‘ کی مانند ہے کب کوئی کہاں پہنچ جائے پتا ہی نہیں چلتا۔ 1977 کے مارشل لا کے بعد محض ایک مقبول رہنما کو راستے سے ہٹانے کی خاطر اس ملک کی سیاست، صحافت اور عدلیہ کو ہی نہیں پورے معاشرے کو تباہ و برباد کر دیا گیا کیونکہ ایک فوجی آمر ایک منتخب وزیراعظم کو ہر صورت ’پھانسی‘ دینا چاہتا تھا اور وہ کامیاب ہوا۔ اس کی مقبولیت پھر بھی کم نہ ہوئی تو اسکی جماعت کو ختم کرنے کیلئے ہر طرح کے حربے استعمال ہوئے جعلی ریفرنڈم، غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات اور اس طرز سیاست نے جنم لیا۔ 
ایک ’اتفاقیہ‘ سیاستدان کو، جن کے پورے خاندان کو نہ سیاست میں آنے کا شوق تھا نہ لگن مگر چونکہ اس ملک کے آمر کو ضرورت تھی پنجاب کی اشرافیہ میں سے کسی کی، تو جب سندھ کا محمد خان جونیجو بھی آزاد خیال اور جمہوری مزاج کا نکلا تو سیاست کی یہ ’لاٹری‘ میاں صاحب کے حصہ میں آئی۔ ان 40 برسوں میں ہماری سیاست میں کئی ایسے مراحل آئے جب اسی ’اتفاق‘ سے جنم لینے والے میاں محمد نوازشریف نے ’ڈکٹیشن نہ لینے کا فیصلہ‘ کیا تو انکے متبادل کی تلاش شروع ہو گئی۔ اس وقت تک بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی ناقابل قبول ہو گئی تھی اس لئے ایک سازش کے تحت جس کا حصہ میاں صاحب خود بھی تھے اسے 1990 میں ہٹا کر، ایک جعلی الیکشن میں ہرا کر میاں صاحب کو وزیراعظم بنا دیا گیا (یقین نہ آئے تو اصغر خان کیس پڑھ لیں)۔ 1993 میں کراچی میں ایک غیر سیاسی ریلی 14؍ اگست کو نکالی گئی جس میں مولانا ایدھی کو زبردستی لایا گیا اس میں کئی سماجی رہنما، ہاکی اور کرکٹ کے کھلاڑیوں سمیت عمران خان بھی شامل تھے۔ پھر جنرل حمید گل نے، عمران خان اور ایدھی کو ملا کر جماعت بنانے کی کوشش کی۔ ایدھی صاحب لندن چلے گئے اور بیان دیا میری جان کو خطرہ ہے وصیت بھی لکھوا دی۔
Tumblr media
ایک بار عمران سے میں نے پوچھا تو اس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ’’میں شروع میں حمید گل صاحب کے خیالات سے متاثر تھا، قریب گیا پھر اندازہ ہوا معاملہ کچھ اور ہے تو الگ ہو گیا‘‘۔ موصوف گل صاحب نے میاں صاحب کی بھی سیاسی تربیت کی پھر 1988 میں IJI بنائی تاکہ بی بی کی دو تہائی اکثریت کو روکا جائے۔ لہٰذا ہماری سیاست میں ایک پروجیکٹ لایا جاتا اس سے ’دل‘ بھر جاتا ہے تو دوسرا لے آتے ہیں جب تک یہ پروجیکٹ بنانے کی انڈسٹری بند نہیں ہوتی اس ملک کی درست سمت کا تعین نہیں ہو پائے گا۔ رہ گئی بات صحافت کی وہ پہلے بھی بہت معیاری نہ تھی مگر کچھ ضابطے ضرور تھے اب تو ’صحافی اور صحافت‘ دونوں ہی ’برائے فروخت‘ ہیں۔ میاں صاحب 3 بار وزیراعظم بنے مگر ہر بار ان کی اننگ نامکمل رہی۔ سب سے اچھا موقع ان کے پاس 1997 اور 2013 میں تھا۔ جب دو تہائی اکثریت ملی 1997 میں تو وہ سنبھال نہ پائے اور غیرضروری تنازعات کا شکار ہو گئے جنرل جہانگیر کرامت کا ہٹانا یا استعفیٰ جنرل مشرف کو لانا، صدر فاروق لغاری کی جگہ رفیق تارڑ کا آنا اور پھر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے معاملات بگڑنا رہی سہی کسر انہوں نےآئین میں ترامیم لا کر کر دی اور امیر المومنین بننے کا خواب دیکھنے لگے۔ 
2013 کے الیکشن تک عمران خان سیاسی افق پر ابھر چکے تھے جس کی بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کا میاں صاحب پر سے اعتماد اٹھنا اور مسلسل پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) حکومت کی خراب کارکردگی تھی ،جس میں خراب گورننس، کرپشن کے ساتھ ساتھ ایجنسیوں کی مسلسل مداخلت بھی رہی۔ مگر میری نظر میں سب سے بڑی وجہ بے نظیر بھٹو کی ��ہادت تھی جس کے بعد آصف زرداری پی پی پی کو اس انداز میں نہ سنبھال پائے کیونکہ وہ عوامی سیاست میں کمزور ثابت ہوئے۔ 2008 سے 2013 تک پنجاب میں پی پی پی کا ووٹر پی ٹی آئی میں چلا گیا اور اب تک وہ واپس نہیں آیا۔ لہٰذا جو ’سیاسی پروجیکٹ‘ عوام کے اندر سے آتا ہے اسے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے بھٹو اور بے نظیر اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں جس کے بعد گویہ پی پی پی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ میاں صاحب کی تیسری اننگز کی ناکامی کی وجہ ان کا عمران کے مطالبے پر چار حلقے نہ کھول کر غیرضروری طور پر ان قوتوں کو موقع دینا تھا جو پہلے ہی ان سے ناخوش تھیں دوسری بات 2016 میں پانامہ لیک کے بعد جس میں ان کا نہیں مگر بیٹوں کا نام ضرور تھا اگر وہ اخلاقی طور پر استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کی طرف جاتے یا خود کسی دوسرے کو وزیراعظم نامزد کرتے تو وہ زیادہ طاقتور بن کر سامنے آتے۔ 
تیسری بڑی غلطی پارلیمنٹ میں جانے کے بجائے سپریم کورٹ جانا اور پھر JIT کا بائیکاٹ نہ کرنا تھا۔ رہ گئی بات مینار پاکستان پر تقریر میں کہنے کی کہ 23 سال آپ یا تو جیل میں رہے یا جلاوطن یا مقدمات تو 2000 میں بھی آپ نے خود جلاوطنی کا آپشن لیا اور 2020 میں بھی ورنہ اگر ملک میں رہتے جیل ہو یا نظربندی تو آج آپ کو اپنے ہی ہوم گرائون�� لاہور میں سیاسی طور پر ان مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔میاں صاحب اب اپنی چوتھی اور غالباً سیاسی طور پر آخری اننگز کا آغاز کر رہے ہیں اس بار وہ مقدمات اور نا اہلی کو ختم کروا کر ہی اس کا آغاز کرسکتے ہیں۔ اس ملک میں تباہی کی جتنی ذمہ دار عدلیہ ہے شاید ہی کوئی دوسرا ادارہ ہو۔ میاں صاحب کے خلاف 2017 کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے مگر تاحال یہ دو تلواریں تو موجود ہیں۔ ایک آخری درخواست یہ سارے پروجیکٹ بنانے والوں سے، خدارا خود ہی غور کریں اگر کوئی پروجیکٹ لاتے ہیں تو اسے چلنے تو دیا کریں، یہ چھوٹے بڑے پروجیکٹ ہر چند سال بعد لاکر ملک کی سیاست کو کہاں لاکھڑا کیا؟ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہی طریقہ ہے سمت کے تعین کا تو آپ تاریخی غلطی کر رہے ہیں۔ غلطی کو سدھارنے کا درست طریقہ یہی ہے کہ جمہوری نظام کو آگے بڑھنے دیں سب اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔ اس ’سانپ سیڑھی‘ کے کھیل کو ختم کریں ورنہ نہ معیشت آگے جائیگی نہ سیاست، ایسے میں ریاست ہو گی بھی تو کیسی؟۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 2 years ago
Text
عمران سمیت سب رہنماؤں کے لئے دلی دُعا
Tumblr media
پہلے تو میں اپنا محاسبہ کرتا ہوں۔ اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ میں اُردو کے سب سے بڑے اخبار میں اپنے دل کی باتیں کر سکوں۔ دنیا بھر میں لاکھوں پڑھنے والے پاکستان کے کونے کونے میں میرے الفاظ کے مطالعے کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالتے ہیں۔ کیا میں ان کے علم میں کوئی اضافہ کرتا ہوں۔ سات دہائیوں سے مجھے خدائے بزرگ برتر نے حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھنے ان کے ساتھ سفر کرنے کی سہولتیں دی ہیں۔ میں نے ان کی حاشیہ برداری کی ہے یا ان کے سامنے کلمۂ حق کہا ہے۔ تاریخ میرے کان میں کہہ رہی ہے۔ آج 14 مئی ہے۔ اگر اس سر زمین میں آئین کی پاسداری ہو رہی ہوتی۔ عدالتِ عظمیٰ کے قوانین کو حکمران تسلیم کر رہے ہوتے تو آج پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا دن تھا۔ انتخابات ٹالنے کے لئےانتخابات کروانے والوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ کہا گیا کہ 14 مئی کو سیکورٹی نہیں دے سکتے کیونکہ فورسز سرحدوں پر مصروف ہیں۔ مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ فورسز 14 مئی کو پنجاب میں موجود ہیں۔ الیکشن کے انعقاد کے مثبت اقدام کے لئے نہیں۔ بلکہ الیکشن پر اصرار کرنے والوں کی تادیب کے لئے۔ 9 مئی کو انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے یوم سیاہ قرار دیا ہے۔ 70 سال سے اوپر کے میرے ہم عصروں نے کتنے سیاہ دن دیکھے ہیں۔
16 دسمبر 1971 سب کیلئے یوم سیاہ۔ پھر کسی کیلئے 4 اپریل 1979۔ کسی کیلئے 17 اگست 1988۔ کسی کیلئے 12 اکتوبر 1999۔ کسی کیلئے 26 اگست 2006۔ کسی کیلئے 27 دسمبر2007۔ جن سر زمینوں میں آئین کو بار بار سرد خانے میں ڈالا جائے۔ جہاں آمروں کے منہ سے نکلے الفاظ ہی قانون ہوں۔ جہاں اپنے اپنے علاقوں میں سرداروں۔ جاگیرداروں۔ مافیا چیفوں کا راج ہو۔ وہاں مختلف خاندانوں کے لئے مختلف دن سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آج اتوار ہے۔ میں نادم ہوں کہ ہمارے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کو ایسے ایسے بھیانک مناظر دیکھنا پڑ رہے ہیں جو وہ تاریخ کے اوراق میں چنگیز۔ ہلاکوخان اور دوسرے سفاک جابروں کے دَور میں پڑھتے رہے ہیں۔ میں تو اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔ مگر جن کے حکم پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہ خبر نہیں کہ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کے سامنے سر بلند کر کے کھڑے ہوتے ہیں یا سر جھکا کے۔ عورتوں کو بال پکڑ کر گھسیٹا جارہا ہے۔ بزرگوں کو ڈنڈا ڈولی کیا جارہا ہے۔ ہانکا لگا کر شکار کیا جارہا ہے۔ ایمبولینسوں کو جلایا جا رہا ہے ۔ سرکاری عمارتوں میں گھس کر آگ لگائی جارہی ہے۔ 
Tumblr media
بہت ہی حساس رہائش گاہیں اور ہیڈ کوارٹرز کسی محافظ کے بغیر چھوڑے جارہے ہیں۔ ہجوم ان میں بلاک روک ٹوک داخل ہو رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پولیس حکومت کے سیاسی مخالفین کی رہائش گاہوں میں گھس کر بلوائیوں کی طرح شکست وریخت کر رہی ہے۔ قوم ۔ میڈیا تقسیم ہو چکے ہیں۔ من حیث القوم۔ اس افراتفری کو نہیں دیکھا جارہا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے۔ حکومت وقت جو معیشت کے سامنے بازی ہار چکی ہے۔ جو افراط زر کے آگے ناکہ نہیں لگا سکی۔ جو اپنے قائد اعظم کی تصویر والی کرنسی کو کافروں کی تصویروں والی کرنسی کے سامنے عاجز ہونے سے نہیں روک سکی۔ وہ ملک کے استحکام کے لئے کوئی تدبیر نہیں کر سکی۔ جس کے وزراء کو ایسے ہنگامی حالات میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے بیٹھنے۔ عدلیہ کو بے نقط سنانے اور اپنے سیاسی مخالف کو فتنہ ۔غیر ضروری عنصر۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر قیامتیں برپا ہیں۔ تاریخ کے شرمناک مناظر دکھائے جارہے ہیں۔ ملک کو مزید جلائو گھیرائو۔ نوجوانوں کی ہلاکتوں سے بچانے کے لئے سب سے بڑی عدالت کو اسی قیدی کو روبرو بلانا پڑتا ہے۔ 
جس کی گرفتاری پر ادارے۔ حکمراں بہت مطمئن تھے۔ قاضی القضاۃ کو کہنا پڑا کہ آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اس ایک جملے کے بہت معانی ہیں۔ بہت سے اداروں اور بہت سے لوگوں کے لئے اس ایک جملے میں بہت اشارے اور بہت انتباہ بھی ہیں۔ آگے کیا ہونا ہے۔ ستارے تو بہت خوفناک پیشنگوئیاں کررہے ہیں۔ میں تو اللہ تعالیٰ سے اس شخصیت کے لئے دعائیں مانگوں گا کہ ��س کو سامنے لا کر احتجاج کرنے والوں سے اپیل کروانا پڑی کہ وہ پُر امن رہیں۔ املاک کو تباہ نہ کریں۔ میں پورے خشوع و خضوع سے قادرمطلق سے التجا کر رہا ہوں کہ اگر ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ملک میں امن۔ استحکام نہ صدر مملکت کے ہاتھ میں ہے۔ نہ وزیر اعظم کے۔ نہ کسی وزیر اعلیٰ کے بلکہ ایک اپوزیشن لیڈر کے بس میں ہے۔ جس کے خلاف ایک سو سے کہیں زیادہ مقدمات مختلف شہروں۔ مختلف تعزیرات کے تحت دائر کر دیے گئے ہیں۔ تو ہم اپنے پروردگا�� اپنے معبود۔ اپنے قدیر۔ کبیر سے گڑ گڑا کر درخواست کریں کہ اے سارے جہانوں کے مالک۔ عمران خان کو تدبر۔ بصیرت اور وژن عطا کر کہ وہ قوم کو استحکام کی منزل کی طرف لے جائے۔ اسے اس ادراک کی تقویت دے کہ وہ مستقبل کے لئے صراط مستقیم کا انتخاب کر سکے۔ 
اس عظیم مملکت میں معیشت کے سنبھلنے میں اپنی سیاسی طاقت سے کام لے سکے۔ اس وقت اس خطّے میں بڑی سازشیں ہو رہی ہیں۔ منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ بڑی طاقتوں کی بھی کوششیں ہیں کہ پاکستانی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہیں۔ صوبوں کے درمیان کشمکش رہے۔ سوشل میڈیا پر ان سازشوں کے مظاہر بھی درج ہو رہے ہیں۔ لسانی۔ نسلی۔ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جارہی ہے تو ہم اس الرحمن الرحیم سے التماس کریں کہ اب جب اس ایک شخص کی آواز پر نوجوان جگہ جگہ شہر شہرسڑکوں پر نکل آتے ہیں تو اس کے ذہن کو ایسی تقویت دے ۔ ایسی روشنی دے کہ وہ اس عظیم مملکت کے بانی اور بر صغیر کے بے مثال رہبر قائد اعظم کے افکار پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے نوجوانوں کو تیار کرے۔ ملک میں صرف احتجاج کے لئے اپیل نہ کرے۔ بلکہ آئندہ دس پندرہ برس کا ایک لائحہ عمل دے۔ اس ایک سال میں خواب بہت بکھر چکے۔ آرزوئیں خاک ہو چکیں۔ معیشت ریزہ ریزہ ہو چکی۔ اقوام عالم میں پاکستان بے وقعت ہو چکا ہے۔ اے الملک۔ اے الرافع۔ اے الغنی۔ اے الوارث۔ الباقی۔ یہ 22 کروڑ تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمارے منصفوں کو۔ سالاروں کو۔ حکمرانوں کو یہ ہدایت دے کہ وہ صرف ایسی راہ پر چلیں۔ جس پر تیری نعمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان راہوں کو چھوڑ دیں۔ جس پر تیرا غضب اترتا ہے۔ ہمارے سب رہنمائوں بالخصوص عمران خان کو یہ استطاعت دے کہ وہ صرف ملک کے لئے سوچیں۔ اسے بحرانوں سے نکالیں۔ آمین۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
zahidashz · 2 years ago
Text
بچوں کے چار بوسے اور پانچ لمس کی اہمیت :👇
ایک عالم کا کہنا ہے:
" والدین کو روزانہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو کم از کم 4 مرتبہ چوم کر اور 5 مرتبہ ہاتھ سے چھو کر پیار کرنا چاہیے ۔
اس کے لیے پیدائش سے موت تک کوئی خاص عمر نہیں ہوتی۔
جب تک وہ آپ کا بیٹا ہے، اور جب تک وہ آپ کی بیٹی ہے، انہیں چومنے اور روزانہ اپنے ہاتھوں سے چھونے کے ذریعہ سے محبت و اپناٸیت کا احساس دلاٸیے ۔
چار بوسے : ہر بوسے کا ایک سائنسی مقام اور مرتبہ ہے :
💜 پہلا بوسہ 👈 فخر کا بوسہ
اور اس کی جگہ بالوں پر سر کے درمیان میں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ان پر فخر ہے، کیونکہ آپ کے بچے نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں
.
💜 دوسرا بوسہ 👈 قناعت کا بوسہ
اور اس کا مقام ماتھے پر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان سے راضی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان کی پیشانی پر بوسہ دینے کا التزام کرتے تھے۔
💜 تیسرا بوسہ 👈 آرزو کا بوسہ
اور اس کی جگہ گالوں پر ہے۔ اس کے معنی ان کے لیے اپنی آرزو کا اظہار کرنا ہے اور یہ محبت کے درجات میں سے ہے۔
💜 چوتھا بوسہ 👈 محبت کا بوسہ
اور اس کی جگہ ہاتھوں پر ہے۔ اس کا مفہوم ان سے اپنی محبت و الفت کا اظہار ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقتاً فوقتاً فاطمہ کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ دیتے تھے
🌷 پہلا لمس 👈 اپنے ہاتھ کو ان کے سر کے پیچھے شفقت سے پھیرنا اس سے لڑکا اور لڑکی محسوس کریں گے کہ آپ ان پر مہربان ہیں۔
🌷 دوسرا لمس 👈 بالوں پر اوپر سے ان کے سر پر ہاتھ رکھنا،
اور اسے فخر کا چھونا کہتے ہیں۔
🌷 تیسرا لمس 👈 اپنا ہاتھ ان کے ماتھے پر رکھیں، اس سے بچوں کو مثبت توانائی ملتی ہے۔
🌷 چوتھا لمس 👈 اپنے دونوں ہاتھ ان کے گالوں پر رکھنا، اور یہ پیار اور نرمی کا لمس ہے۔
🌷 پانچواں لمس 👈 ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں ڈالیں اور یہ خاص لمس بچوں کو ہر قسم کی پریشانی اور تناؤ سے نجات دلاتا ہے۔
پھر آخر میں ضرورت کا لمس آتا ہے یا جب ضرورت پڑتی ہے تو بچوں کو ضرورت پڑتی ہے
👈 اگر آپ کا بیٹا یا بیٹی مشتعل ہو رہے ہیں یا نافرمانی کی طرف جارہے ، غصے یا کسی اور منفی احساس میں مبتلا ہونے کو ہیں تو اس وقت آپ اپنا ہاتھ ان کے سینے پر پھیریں
اس لمس سے انہیں سکون محسوس ہو گا اور ان
شاء اللہ شیطان ان سے دور ہو جائے گا۔
0 notes
jawadhaider · 2 years ago
Text
مرثیہ میر انیس بسلسلہ شہادت امیر المومنینؑ علی علیہ السلام
انیسویں تاریخ کی لکھی ہے یہ اخبار
مسجد میں گئے بہر عبادت شہہ ابرار
جب سجدہ اول میں گئے حیدر کرار
قاتل نے لگائی سر پُرنور پر تلوار
سر ہوگیا دو ٹکڑے محمد کے وصی کا
پھر دو سرے سجدے کو اٹھا سر نہ علی کا
دریا کی طرح خون ہوا زخموں سے جاری
مسجد میں تڑپنے لگا وہ عاشق باری
طاقت نہ سنبھلنے کی رہی غش ہوا طاری
سرپیٹ کے سب کرنے لگے گریہ و زاری
رونے جو ملک ما سبق کن فیکون کو
اک زلزلہ تھا منبر و محراب و ستوں کو
افلاک پر سر پیٹ کے جبرئیل پکارے
فریاد ہے ظالم نے ید اللہ کو مارا
سر ہوگیا سجدے میں دو نمازی کا دو پارا
ہے غرق نجوں برج امامت کا ستارا
ماتم کا ہوا جوش صف جن و ملک میں
فرق آیا ضیائے ماہ و خورشید فلک میں
مارا اسے جو زینت افلاک و زمیں تھا
مارا اسے جو خاتم قدر کا نگیں تھا
مارا اسے جو راز امامت کا امیں تھا
مارا اسے جو شاہنشہاہ دیں تھا
پہنچاتا تھا جو روزہ کشائی فقراء کو
ان روزوں میں زخمی کیا مہمان خدا کو
کوفہ میں یکایک یہ خبر ہوئی جب تشہیر
سر پیٹتے مسجد میں گئے شبر و شبیر
روتے تھے جو لوگ ان سے یہ کی دونوں نے تقریر
تھا کون عدو کس نے لگائی ہے یہ شمشیر
ہم دیکھ لیں مہر رخ تابان علی کو
دو بہرہ خدا راہ یتیمان علی کو
شہزادوں کے منہ دیکھ کے خلقت نے جو دی راہ
ڈوبے ہوئے خون میں نظر آئے اسد اللہ
عماموں کو سر پر سے پٹک دونوں نے کی آہ
اور گر کے لگے آنکھوں سے ملنے قدم ِشاہ
چلاتے تھے بیٹوں کی کمر توڑ چلے آپ
دکھ سہنے کو دنیا میں ہمیں چھوڑ چلے آپ
بیٹوں کے جو رونے کی صدا کان میں آئی
تھے غش میں مگر چونک کے آواز سنائی
��یوں روتے ہو کیوں پیٹ کے دیتے ہو دھائی
ہوتی نہیں کیا باپ کی بیٹوں سے جدائی
تھا تنگ بہت فرقہ اعداء کے ستم سے
دنیا کے میں اب چھوٹ گیا رنج و الم سے
غش طاری ہے مسجد سے مجھے لے چلو اب گھر
گھر سے نہ چلی آئے کہیں زینب مضطر
بابا کو اٹھا لائے جو سبطین پیامبر
دروازے پہ روتے تھے حرم کھولے ہوئے سر
خوں دیکھا محاسن پہ امام مدنی کا
غل خانہ زہرا پہ ہوا سینہ زنی کا
فرزندوں نے حجرے میں جو بستر پر لٹایا
زینب کو پدر کا سر زخمی نظر آیا
چلائی کہ یہ کیا مجھے قسمت نے دکھایا
ماں سے بھی چھٹی باپ کا بھی اٹھتا ہے سایہ
کیوں دیدۂ حق بین کو نہیں کھولتے بابا
کیسا یہ غش آیا کہ نہیں بولتے بابا
یہ کہتی تھی اور باپ کا غم کھاتی تھی زینب
سم کا اثر اک ایک کو دکھلاتی تھی زینب
سر بھائی جو ٹکراتے تھے گھبراتی تھی زینب
تھے شیر خدا غش میں موئی جاتی تھی زینب
چلاتی تھی سر پیٹ کے اے وائے مقدر
میں باپ کے آگے نہ موئی ہائے مقدر
دو دون کبھی ہوشیار تھے حیدر کبھی بے ہوش
قاتل کو بھی بھیجا وہی جو آپ کیا نوش
ہاں حیدریوں بزم میں رقت کو ہواجوش
شمع حرم لم یزل ہوتی ہے خاموش
دعوی ہے اگر تم کو مولائے علی کا
مجلس میں ہو غل ہائے علی ، ہائے علی کا
چہرے میں جب ہویدا ہوئے جب موت کے آثار
سدھے ہوئے قبلہ کی طرف حیدر کرار
لب پہ صلوات اور کلمہ تھا جاری ہر بار
ہنگام قضا ہاتھ اٹھا کر بدل زار
فرزند و اقارب میں لگا چھاتی سے سب کو
دنیا سے سفر کر گئے اکیسویں شب کو
ہاں اہل عزا روؤ کہ یہ وقت بکا ہے
پیٹو کے محمد کا وصی قتل ہوا ہے
ہادی جو تمہارا تھا وہ دنیا سے اٹھا ہے
دن آج کا سوچو تو قیامت سے سوا ہے
اک شور ہے ماتم کا بپا گھر میں علی کے
بیٹے لیئے جاتے ہیں جنازہ کو علی کے
خاموش انیس اب کےنہیں طاقت گفتار
سینہ میں تپاں صورت بسمل ہے دل زار
خالق سے دعا مانگ کہ یا ایزد غفار
آباد رہیں خلق میں حیدر کے عزادار
کیا روتے ہیں ماتم میں امام ازلی کے
حقا کہ یہ سب عاشق صادق ہیں علی کے
0 notes
googlynewstv · 5 months ago
Text
اداکارہ صاحبہ نے شوبزکیوں چھوڑ دیا؟
اداکارہ صاحبہ نے شادی کے بعد شوبز انڈسٹری کو کیوں خیرباد کہہ دیا؟ اداکارہ صاحبہ کا نجی ٹی وی پر شو میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شادی کے بعد شوبز انڈسٹری چھوڑ نے کافیصلہ میرا اور میرے شوہر جان ریمبو کا تھا پھر شادی کے بعد بچوں کی تعلیم و تربیت  خود کی اور ان پر زیادہ وقت  بھی دیا ہے۔ ایک فیملی کے بچوں کی طرف جب میں نے دیکھا تو مجھے  کیرئیر سے دوری کی مصلحت سمجھ آئی،  اپنے بیٹوں کیلئے لڑکا ہوں…
0 notes
emergingpakistan · 2 years ago
Text
توشہ خانے میں نقب لگانے والے حکمراں
Tumblr media
’’جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان کو اس دن کے عذاب الیم کی خبر سنا دو۔ جس دن وہ (مال) دوزخ کی آگ میں (خوب) گرم کیا جائے گا۔ پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا۔ سو تم جمع کرتے تھے اب اس کا مزہ چکھو۔‘‘( سورۃ التوبہ۔ آیت 35-34۔ مضامین قرآن حکیم، مرتّبہ: زاہد ملک) ٭... خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ سے سوال کیا جارہا ہے کہ جو چادریں بانٹی گئی تھیں۔ اس میں تو آپ کا کُرتا نہیں بن سکتا تھا۔ یہ اضافی کپڑا کہاں سے آیا۔ وہ جواب دے رہے ہیں کہ جو چادر ان کے بیٹے کے حصّے میں آئی تھی۔ وہ استعمال کی گئی۔ تاریخ اسلام گواہی دے رہی ہے کہ اس وقت کے خلیفہ سے بھی آمدنی سے زیادہ کے اثاثے پر سوال کیا جاسکتا تھا۔ اور وہ جواب دینے کے پابند بھی تھے۔ ٭... حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مملکت کا کام ختم ہو رہا ہے۔ تو وہ سرکاری چراغ بجھا رہے ہیں۔ اپنے ذاتی مال سے جلنے والا چراغ روشن کر رہے ہیں۔ ٭... کہنے کو تو سب کہتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے۔ اس کا نام بھی منتخب نمائندوں نے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ طے کیا۔ مگر اب 75 ویں سال میں مناظر کیا ابھر رہے ہیں۔ توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں سب اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ 
قائد اعظم جب بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ مملکت کی جدو جہد کر رہے تھے تو انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ اس مملکت ِخداداد میں ایسے حکمراں آئیں گے۔ جو ریاست کو ملنے والے قیمتی تحائف کو لالچ بھری نظروں سے دیکھیں گے ان کے ہتھیانے کے لئے خود ہی قوانین بنائیں گے اور ہر ایک ان قومی امانتوں میں خیانت کرے گا۔ چاہے وہ پانچ سال کے لئے حکمران ہو۔ چاہے منتخب ہو کر آیا ہو۔ چاہے اس نے بزور اسلحہ ملک پر قبضہ کیا ہو چاہے وہ نگراں وزیر اعلیٰ ہو۔ 90 دن کے لئے آیا ہو۔ واہگہ سے گوادر تک کے مفلس عوام چشم تصور سے دیکھ رہے ہیں۔ صدر، وزرائے اعظم، وفاقی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، صدور اور وزرائے اعظم کی بیگمات، بیٹے، بیٹیاں توشہ خانے کو مال غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ کسی جنگ کسی فتح کے بغیر۔ ہر محاذ پر پسپا ہو رہے ہیں۔ یہ اسی ملک کا توشہ خانہ ہے جس کے حصول کے لئے لاکھوں شہدا نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے ہیں قافلے آرہے ہیں۔ بہار سے، یوپی سے، دہلی سے، مشرقی پنجاب سے۔ سکھوں کے گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دے رہی ہیں۔ 
Tumblr media
ہندو بلوائی نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں غلامی سے آزادی کی طرف پیدل سفر کرتے، بسوں میں، ریل گاڑیوں میں، کافروں کی یلغار میں مارے جارہے ہیں لیکن پاکستان ان کی آرزو ہے۔ وہ نہتے گھر بار چھوڑ کر آرہے ہیں۔ یہاں رہنے والے پاکستانی ان کے لئے اپنے گھر پیش کر رہے ہیں۔ وہ تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتے ہوں گے کہ اتنی قربانیوں سے حاصل کئے گئے ملک میں ایسے لالچی۔ اخلاق باخ��ہ حکمراں آئیں گے۔ اس ملک سے پانچ گنا زیادہ آبادی۔ زیادہ اسلحہ رکھنے والے ملک بھارت نے پاکستان کو اپنا ٹوٹنا خیال کیا ہے۔ اپنے جسم سے حصّہ الگ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ کشمیر پر قابض ہو گیا ہے۔ 1948 میں ہمارے جانباز کشمیر کے حصول کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں۔ اب اس ملک کے حکمراں گھڑیوں، گاڑیوں، ہاروں، بیڈ شیٹوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ پھر 1965 ء کی تاریک راتیں یاد آرہی ہیں۔ جب ہمارے نوجوان مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت اپنے خون سے کر رہے ہیں۔ وہ جس مملکت کے تحفظ کیلئے سینہ سپر ہیں۔ 
جن کے بچے یتیم ہورہے ہیں۔ جن کی رفیقہ ہائے حیات جوانی میں بیوہ ہو رہی ہیں۔ اس ملک کا توشہ خانہ ان حکمرانوں کیلئے مفتوحہ خزانہ بنا ہوا ہے۔ ایک لمحہ بھی ان میں سے کسی کو خیال نہیں آتا کہ یہ تحائف قوم کی امانت ہیں۔ جو دوسری قوموں نے پاکستانی قوم کو دیے ہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کے تحائف کو چند روپوں کے عوض گھر لے جاتے ہوئے انہیں یہ شہدا یاد نہیں آئے۔ یہ روپے بھی خبر نہیں انہوں نے اپنی جیب سے دیے ہیں۔ کیا یہ بھی سرکاری فنڈ سے تو نہیں دیے تھے۔ 1971 ء کا عظیم المیہ ذہن پر حاوی ہو رہا ہے۔ اپنے گھروں سے ایک ہزار میل دور ہمارے بریگیڈیئر، کرنل، میجر، کپتان عام سپاہی سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ اس ملک کی ایک ایک انچ سر زمین کیلئے اپنے جسم کو ڈھال بنارہے ہیں۔971 کے ان خونیں مناظر نے 1971 سے اب تک آنے والے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کے تحفوں کی طرف بڑھتے ہاتھوں پر لرزہ طاری نہیں کیا۔ یہ اسی ملک کا توشہ خانہ ہے جہاں جمہوریت اور حقیقی آزادی کیلئے جدو جہد 1947 سے ہی جاری ہے۔ 1971 کے بعد آدھے پاکستان میں بلوچستان کے نوجوانوں نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔
سندھو دریانے اپنے بیٹوں بیٹیوں کو سندھ میں کتنی سفاکی برداشت کرتے دیکھا ہے۔ خیبر پختونخوا جو پہلے سرحد تھا۔ وہاں کتنے نوجوانوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے مظالم برداشت کئے ہیں۔ پنجاب کے میدانوں چوراہوں میں ریلیاں نکل رہی ہیں۔ لاٹھی چارج آنسو گیس پھر بھی عشاق کے قافلے بڑھ رہے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کی وادیوں میں لائن آف کنٹرول پر خون بہہ رہا ہے۔ گلگت بلتستان والے اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے سرگرم ہیں۔ یہ اسی دیس کا توشہ خانہ ہے۔ جہاں دہشت گردوں نے 80 ہزار سے زیادہ ہم وطنوں سے بم دھماکوں، فائرنگ، خودکش بم حملوں سے زندگی چھینی ہے۔ سیاسی کارکنوں کی طویل جدو جہد، بے خوف سرگرمیاں ہی اس مملکت کو سلامت رکھے ہوئے ہیں۔ اس تگ و دو کے نتیجے میں ہی توشہ خانے سے گرانقدر تحائف کوڑیوں کے عوض حاصل کرنیوالے حکمراں بنے ہیں۔ سلام ہے اس جج کو، آفریں ہے ان اعلیٰ عدالتوں پر، جنہوں نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ امانت میں خیانت کا ارتکاب کرنے والوں کے چہرے بے نقاب کروا دیے ہیں۔ اب قوم منتظر ہے کہ 1947 سے 2002 کے خائنوں کے اعداد و شُمار بھی سامنے آئیں۔ ایسا ممکن نہ ہو تو 1985 سے 2002 تک کے نام تو ریکارڈ پر آئیں۔ واہگہ سے گوادر تک کے مجبور پاکستانیوں کی درخواست یہ بھی ہے کہ ملک پر ہزاروں ارب روپے کے جو قرضے ہیں۔ اس کی فہرست بھی مرتب کی جائے کہ یہ قرضے کہاں خرچ ہوئے۔ کن کی جیبوں میں گئے۔ اگر کوئی انفرااسٹرکچر بنا ہے تو اس کی لاگت کیا تھی۔ باقی قرضہ کہاں گیا۔
محمود شام
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
cryptoking009 · 2 years ago
Text
لیویز کا خان محمد مری کی اہلیہ، بیٹی اور 3 بیٹوں کی بازیابی کا دعویٰ
بارکھان : لیویز نے دکی اور ڈیرہ بگٹی سے محمدخان مری کی اہلیہ سمیت 4 بچوں کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کردیا۔ تفصیلات کے مطابق بارکھان لیویز نے خان محمد مری کی اہلیہ، بیٹی اور تین بیٹوں کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کردیا تاہم کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ لیویز رسالدار کوہلو شیر محمد مری نے اے آروائی نیوز سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا کہ کوہلو اور لورالائی بارکھان سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کی گئیں۔ کارروائی کرکے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
asliahlesunnet · 3 months ago
Photo
Tumblr media
قریبی رشتہ داروں کوزکوٰۃ دینا کیساہے ؟ سوال ۳۸۷: قریبی رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جواب :اس بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ قریبی رشتہ دار، جس کا نفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب ہے، اسے زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی جو اس سے رفع نفقہ کا سبب بنے اور اگر قریبی رشتہ دار ایسا ہو، جس کا نان نفقہ زکوٰۃ دینے والے پر واجب نہ ہو، مثلاً: بھائی جب کہ زکوٰۃ دینے والے کے اپنے بیٹے موجود ہوں، کیونکہ بھائی کے جب اپنے بیٹے موجود ہوں تو پھر بھائی کا نفقہ اس پر واجب نہیں ہے جیسا کہ بیٹوں کی موجودگی میں بھائی وارث نہیں بن سکتا تو اس صورت میں بھائی اگر مستحق ہو تو اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ اس طرح انسان کے اگر ایسے قریبی رشتہ دار ہوں، جو نفقے کے لیے تو زکوٰۃ کے محتاج نہ ہوں مگر ان کے ذمہ قرض ہو، تو ان کے قرضوں کو ادا کرنے کے لیے انہیں زکوٰۃ دینا جائز ہے، خواہ قریبی رشتہ دار باپ ہو یا بیٹا یا بیٹی یا ماں بشرطیکہ ان قرضوں کا سبب نفقے میں کوتاہی نہ ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کے بیٹے سے ایکسیڈنٹ ہوگیا اور جس گاڑی کو اس نے نقصان پہنچایا، اس کا اس پر تاوان آپڑا، اب اس کے پاس تاوان ادا کرنے کے لیے مال نہیں فراہم نہ تھا تو اس تاوان کو ادا کرنے کے لیے باپ زکوٰۃ کو استعمال کر سکتا ہے کیونکہ اس تاوان کا سبب نفقہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسے معاملے کی وجہ سے واجب ہوا ہے جس کا نفقے سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح ہر وہ شخص جس نے کسی ایسے قریبی رشتہ دار کو زکوٰۃ دے دی جسے دینا اس کے لیے واجب نہ تھا تو اس صورت میں ��سے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۶۱ ) #FAI00310 ID: FAI00310 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
کسی بزنس مین نے میرے بیٹوں کو کوئی پلاٹ دیا ہے تو میرا کوئی تعلق نہیں، جسٹس مظاہر نقوی
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری کیے گئے شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کرا دیا۔ اپنے جمع کرائے گئے جواب میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے خود پر عائد الزامات کی تردید کر دی۔ جسٹس مظاہر نقوی کا جواب میں کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل جج کے خلاف معلومات لے سکتی ہے، کونسل جج کے خلاف کسی کی شکایت پر کارروائی نہیں کر سکتی۔ جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes