#پروا
Explore tagged Tumblr posts
Text
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
nahi dunia ko jab parwa humari
tou phir dunia ki parwa kyu karien hum
7 notes
·
View notes
Text
سلوا، باهام کاری کرد که دیگه تا آخر عمرم، این کار رو نکنم!... چه کاری؟؟؟؟
رشوه جنسی از دانشجو های دختر، در ازای نمره!
فکر میکردم مثل دفعات قبل یه کص کلوچهای جوون میکنم. سلوا دختر لوند و نازی بود. اتفاقاً همیشه طنازی و دلبری میکرد از من و باعث شده بود که پیش خودم خیال کنم که اون خودش میخواد بهم بده. یه دختر قد بلند، حدودا ۱۸۰ با پوست روشن و موهای روشن. ولی آتشین مزاج! آخه سلوا لر بود. بچه خرم آباد! بعدا فهمیدم که بین چهار تا داداش تک دختر هستش. تو کلاس خیلی بی پروا و شجاع بود. عاشق کل انداختن و جر و بحث با پسرا و خیلی مغرور. توی خواب هم نمیدیدم که سلوا یه آلفای عضلانی باشه.
نمره اش ۸/۵ شده بود. کلی التماس کرد و چند روز همش توی تلگرام پیام و التماس و جلز ولز کرد. منم که بدجوری توی طول ترم تو کفش بودم حوالی ساعت ۱۲ شبی که فرداش آخرین مهلت ثبت نمرات بود باهاش وعده گذاشتم. کجا؟... خونه مجردی خودم! البته همون شب که باهاش وعده گذاشتم یکی دیگه از دخترا رفت زیر کیرم. اما چیزی که عجیب بود این بود که سلوا هیچ مقاومتی نکرد و سریع قبول کرد. به هر حال براش لوک فرستادم. قرار شد ساعت ۱۰ صبح بیاد و تا ساعت ۶ عصر بهم سرویس بده تا بعدش نمره رو براش رد کنم.
وارد خونه که شد توی پوست خودم نمیگنجیدم. آخه خیلی خوشگل و ناز شده بود. لبشو بوسیدم و با مهربونی دعوتش کردم تو سالن اونم با لبخند نازی چشم گفت و رفت تو سالن. در رو قفل کردم و کلیدش رو گذاشتم تو جیبم. ازش پرسیدم چای میخوری یا قهوه و طبق خواستش قهوه گذاشتم. اما اون مشغول تعویض لباسهاش شد. مثل دخترای دیگه نبود که هاج و واج باشن. انگار تجربه داشت!... با خودم گفتم انگار همکارای دیگه هم ازش کام گرفتن. تو همین فکرا بودم که سینی به دست رفتم تو سالن و با دیدنش خشکم زد. سلوا با یه بیکینی صورتی نشسته بود روی مبل راحتی و عجب بدنی 😨😰😱🤯 بدنش ورزیده و عضلانی بود!... رنگم پرید! با لبخند پرسید:« چی شد استاد؟...» من به تته پته افتاده بودم... سلوا لبخند کنایه آمیزی زد و با اشاره به کنارش گفت:« بیا بشین استاد... بیا بشین اینجا... نترس!... کاریت ندارم...» من با ترس گفتم:« متوجه نمیشم... واااای چه بدنی داری تو دختر؟ 🤯» سلوا جوری بهم نگاه کرد و خندید که تنم لرزید 😈 و گفت:« مگه نمیخواستی یه شب باهام باشی؟... خب منم در اختیارتم دیگه... بیا بشین!» من آب دهنمو به سختی قورت دادم. سلوا چشمکی بهم زد و روی مبل لم داد و با لحن لوس گفت:« چرا معطلی استااااااد؟... بیا تو بغلم استاد خوشگلم... ��یخوام بخورمت 😜» من داشتم تمام راههای ممکن رو بررسی میکرد. یدفه یه فکری به ذهنم رسید و سریع عملیش کردم. سریع دویدم به سمت در واحد... صدای خنده های تحقیرآمیز سلوا میومد که گفت:« عه... پس چی شد استاااااد؟» بدنم از استرس میلرزید. سریع کلید رو از تو جیبم در آوردم و قفل در رو باز کردم. دستگیره رو فشار دادم و در رو کشیدم. لای در ۱۰-۲۰ سانتی باز شد که یهو محکم به هم کوبیده شد و از صداش جا خوردم. دست رگدار سلوا روی در بود. هرچی زور زدم در رو باز کنم نشد. نفس نفس میزدم. سلوا که پشت سرم بود اون یکی دستشو گذاشت اونطرفم و از پشت بدنشو چسبوند بهم و هلم داد و منو چسبوند به در! بدنش عین سنگ بود. شروع کردم به التماس:« سلوا... سلوا... ولم کن... تو رو خدا... اصلا نظرم عوض شد...» سلوا صورتشو آورد دم گوشم و گفت:« ششششششیییییییی... تو که نمیخوای همسایه هات بفهمن چه گهی میخوردی توی این خونه!... میخوای؟» من تا اینو گفت ساکت شدم. سلوا که بازدم نفس کشیدنش به لاله گوشم میخورد، گفت:« آفرین مموش قشنگم!... استاد عاقلم... بیا که امشب کارت دارم...» گردنمو گرفت و چنان فشار داد که کل ستون فقراتم تیر کشید. تا اومدم بگم آخ با دست دیگه اش دهنمو سفت گرفت. منو چرخوند و با یه لگد از پشت، پرتم کرد وسط نشیمن. پشت سرم خورد به زمین و دنیا دور سرم میچرخید. نمیتونستم از روی زمین بلند شم. فقط متوجه شدم که سلوا در رو قفل کرد. اومد به سمتم در حالی که قلنج انگشتاش رو میشکست. من با همون حالت سر گیجه کشون کشون میرفتم عقب تا رسیدم به دیوار. بدنم میلرزید و گریه و التماس میکردم. سلوا به یه قدمیم رسید. خم شد. دستشو آورد جلو و من پریدم بالا. نیشخندی زد و در حالی که نصف کلید که توی قفل شکسته بود رو بهم نشون داد و چشمکی زد و گفت:« درم قفل کردم که امشب تا صبح در اختیارم... نه! در اختیارت باشم جوجو... 😈 دهنتو باز کن ببینم...» من فقط میلرزیدم. یدفه جوری داد زد که یهو از ترس ادرارم ول شد و خودمو خیس کردم:« میگم دهنتو باز کن کونی!... » دهنمو باز کردم و سلوا کلید رو گذاشت دهنمو وادارم کرد که قورتش بدم. یدفه متوجه خیس شدن شلوار و زمین شد و جوری بهم نگاه کرد که آب شدم از خجالت. با تحقیر گفت:« استااااااد... خودتو خیس کردی؟؟؟... 😏 الهی... » چندتا چک به صورتم زد و همزمان گفت:« استااااااد شاشوی کی بودی تو... کوووووونی!!!... تو که خایه نداری گوه میخوری هوس کص کردن بکنی... حرومزاده...» یه دفعه گردنمو گرفت و چنان فشاری داد که نفسم برید. ساعدهای قطور و عضلانیش رو گرفتم ولی شانسم از صفر هم کمتر بود. منو از زمین کند و گفت:« کاری باهات میکنم استاد شاشو... که دیگه هوس کص کردن نکنی... امشب میشی کونی من... کونی کردنیِ سلوا...»
سلوا اون روز تا صبح فرداش منو به اشکال مختلف و بی رحمانه گایید! لهم کرد. اون هر کاری دلش خواست باهام کرد! مثل اسباب بازی بودم توی مشتش... نه! مثل خمیر بودم...
23 notes
·
View notes
Text
کتنے موسم سرگرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں
میں نے شاید دیر لگادی خود سے باہر آنے میں
بستر سے کروٹ کا رشتہ ٹوٹ گیا اک یاد کے ساتھ
خواب سرہانے سے اُٹھ بیٹھا تکیے کو سرکانے میں
آج اُس پُھول کی خوشبو مجھ میں پیہم شور مچاتی ہے
جس نے بے حد عجلت برتی کھلنے اور مرجھانے میں
بات بنانے والی راتیں رنگ نکھارنے والے دن
کن رستوں پر چھوڑ آیا میں عُمر کا ساتھ نبھانے میں
ایک ملال کی گرد سمیٹے میں نے خود کو پار کیا
کیسے کیسے وصل گُزارے ہجر کا زخم چھپانے میں
جتنے دکھ تھے جتنی امیدیں سب سے برابر کام لیا
میں نے اپنے آئندہ کی اک تصویر بنانے میں
ایک وضاحت کے لمحے میں مجھ پر یہ احوال کھلا
کتنی مشکل پیش آتی ہے اپنا حال بتانے میں
پہلے دل کو آس دے کر بے پروا ہو جاتا تھا
اب تو عزمؔ بکھر جاتا ہوں میں خود کو بہلانے میں
عزم بہزاد
2 notes
·
View notes
Text
اسرائیل دنیا کو اپنے خلاف کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے
ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ اسرائیل کو لگتا ہے کہ اس کے پاس مغرب کی طرف سے چار ہزار سے زائد بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے مطلوبہ مینڈیٹ ہے۔ گنجان پناہ گزین کیمپوں پر گرائے گئے ایک ٹن وزنی مہیب بم اور ایمبولینسوں، سکولوں اور ہسپتالوں پر فضائی حملے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسے حماس کی طرح عام شہریوں کی اموات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں خود کو بدنام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ غزہ کے قتلِ عام سے پہلے بن یامین نتن یاہو کے فاشسٹوں اور بنیاد پرستوں کے ٹولے کے ذریعے اسرائیل کے عدالتی اداروں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس نے امریکی لابی گروپ اے آئی پی اے سی کے پے رول پر موجود سیاست دانوں کی جانب سے اسرائیل کے جمہوری ملک ہونے اور اخلاقی طور پر برتر اور ترقی یافتہ ملک ہونے کے برسوں سے کیے جانے والے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ پچھلی دہائیوں میں، واحد بین الاقوامی آواز جو اہمیت رکھتی تھی وہ واشنگٹن کی تھی، جس میں یورپی اتحادی ہمنوا کی حیثیت سے ساتھ ساتھ تھے۔ لیکن 2020 کی کثیرالجہتی ��ہائی میں ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں ابھرتی ہوئی طاقتیں اسرائیل کی مذمت کرنے اور سفارتی تعلقات کو گھٹانے کے لیے قطار میں کھڑی ہیں۔
انصاف کے حامی بڑے حلقے غصے سے بھڑک اٹھے ہیں، یہاں تک کہ مغربی دنیا میں بھی۔ مسلمانوں، عربوں اور ترقی پسند رحجان رکھنے والے یہودیوں کے انتخابی لحاظ سے اہم طبقوں کے ساتھ ساتھ، یونیورسٹیاں نوجوانوں کی سیاست زدہ نسل سے فلسطین کی حامی سرگرمیوں کے لیے اہم مراکز بن گئی ہیں۔ جب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں، برطانیہ کی وزیر داخلہ بریورمین جیسے دائیں بازو کے کارکن فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو مجرمانہ بنانے کے لیے شہری آزادیوں پر غصے سے کریک ڈاؤن کر رہے ہیں، جسے وہ ’نفرت مارچ‘ کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ وہ دور لد چکا جب اسرائیل کی حامی لابیوں نے بیانیے کو قابو میں کر رکھا تھا۔ سوشل میڈیا کی خوفناک تصاویر مظالم کو ریئل ٹائم میں سب کو دکھا رہی ہیں، جبکہ دونوں فریق بیک وقت ہمیں غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے ذریعے بہکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں مذہب پر مبنی کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلاموفوبیا پر مبنی حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے عمر رسیدہ امریکی سیاست دان ایک مٹتے ہوئے اسرائیل نواز اتفاقِ رائے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ خاص طور پر مشی گن جیسی اہم ’سوئنگ‘ ریاستوں میں بڑی مسلم، عرب اور افریقی نژاد امریکی کمیونٹیز بائیڈن کی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف ہو رہی ہیں۔
اوباما نے اپنے جانشینوں کو خبردار کیا ہے، ’اگر آپ مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو پوری سچائی کو اپنانا ہو گا۔ اور پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کسی کے ہاتھ صاف نہیں ہیں، بلکہ ہم سب اس میں شریک ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا، ’اسرائیلی فوجی حکمت عملی جو انسانی جانوں کی اہیمت کو نظر انداز کرتی ہے بالآخر الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس موجودہ تباہی کے بعد بائیڈن کے پاس مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی کو فوری طور پر بحال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اپنے فلسطین کے حامی ترقی پسند ونگ کی طرف خاصا رجحان رکھتی ہے، جسے ایسے لوگوں کی وسیع بنیاد پر حمایت حاصل ہے جو آج غزہ کے قتل عام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان ترقی پسندوں کو ایک دن قانون سازی کی مطلوبہ طاقت حاصل کرنے کے بعد اسرائیل کی فوجی امداد کے لیے کانگریس کے بلوں کو ویٹو کرنے میں کچھ پریشانی ہو گی۔ اسی قسم کا تناؤ یورپ بھر میں بھی چل رہا ہے۔ آئرلینڈ اور سپین واضح طور پر فلسطینیوں کے حامی ہیں، جب کہ ارسلا فان ڈیر لیین اور رشی سونک جیسی شخصیات اسرائیل کی حمایت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے بےچین ہیں۔
فرانس اور جرمنی جیسی بڑی عرب اور مسلم آبادی والے ملک اپنی سیاسی بیان بازی کو اعتدال پر لانے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی بائیکاٹ کی تحریکوں کے خلاف بھرپور طریقے سے جنگ لڑی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دشمنوں سے گھرے ہوئے اسرائیل کے لیے عالمی اقتصادی تنہائی کتنی تباہ کن ثابت ہو گی۔ غزہ کے باسیوں کی تسلی کے لیے اس طرح کے رجحانات بہت دور کی بات ہیں، لیکن ان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آنے والے برسوں میں فلسطین تنازع اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے تناظر میں سامنے آئے گا۔ بین الاقوامی بار ایسوسی ایشن سمیت عالمی اداروں کے تمام حصوں نے بھرپور طریقے سے جنگ بندی کی وکالت کی ہے، اور اسرائیل کو انسانی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں سے استثنیٰ نہ دینے پر زور دیا ہے۔ سات اکتوبر کو حماس کا حملہ اسرائیل کے لی�� ایک بہت بڑا نفسیاتی دھچکہ تھا، جس نے بالآخر اسے یہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب تک وہ امن کی کوششوں کو مسترد کرتا رہے گا، اس کے وجود کو خطرات کا سامنا رہے گا۔ اس جیسے چھوٹے سے ملک میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جنوبی اور شمالی اسرائیل کے بڑے علاقوں اور دیگر غیر محفوظ علاقوں سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے، کچھ کو شاید مستقل طور پر، لیکن آبادی کے بڑے مراکز اب بھی حزب اللہ اور اسلامی جہاد کے راکٹوں کی آسانی سے پہنچ میں ہیں۔
نتن یاہو جیسے امن کو مسترد کرنے والوں کی ایک دوسرے سے ملتی جلتی کارروائیاں ہیں جنہوں نے امن کی میز پر فریقین کی واپسی کو ناگزیر بنا دیا ہے۔ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں معاشروں میں اوسلو معاہدے کے برسوں سے سرگرم امن کیمپوں کو دوبارہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو انصاف، امن اور مفاہمت کے لیے مہم چلا سکیں۔ اسرائیل کی انتقامی پیاس نے انتہا پسند کیمپ کو طاقت بخشی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی فوجی مہم فلسطین کو عربوں سے پاک کرنے کے لیے بہترین دھواں دھار موقع پیش کرتی ہے۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ گیورا آئلینڈ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ’ایسے حالات پیدا کرے جہاں غزہ میں زندگی غیر پائیدار ہو جائے۔ ایسی جگہ جہاں کوئی انسان موجود نہ ہو‘ تاکہ غزہ کی پوری آبادی یا تو مصر چلی جائے، یا پھر مصر منتقل ہو جائے۔ ‘نتن یاہو مصر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کے صحرائے سینا کی طرف ’عارضی‘ انخلا کو قبول کرے، جبکہ دوسری طرف وہ محصور آبادی کو بھوک سے مرنے اور کچلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فلسطینی صرف اتنا چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حالتِ زار کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھے۔
فلسطین کی حمایت اور حماس کی حمایت ایک برابر نہیں ہیں۔ بلاروک ٹوک مغربی پشت پناہی نے اسرائیل کو یہ باور کروایا ہے کہ اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا، جو نہ صرف مقبوضہ علاقوں میں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کی ان گنت قراردادوں اور عالمی نظام کے بنیادی اصولوں کو بھی زک پہنچا رہا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایک مختصر دورانیے میں غزہ میں اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے 72 عملے کی اموات ایک ریکارڈ ہے، جب کہ الٹا اسرائیل نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر ’خون کی توہین‘ اور ’دہشت گردی کی کارروائیوں کو جواز فراہم کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیلی سمجھتے تھے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب ریاستیں دلچسپی کھو رہی ہیں، فلسطینی اپنے علاقوں کے ہر سال بڑھتے ہوئے نقصان پر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھے، اور یہ سوچ تھی کہ جب 1947 اور 1967 کی نسلیں ختم ہو جائیں تو کیا ان کے ساتھ ہی قوم پرستانہ جذبات بھی فنا نہیں ہو جائیں گے؟ اس کے بجائے، نئی فلسطینی نسل اور ان کے عالمی حامی پہلے سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور سیاسی طور پر مصروف ہیں۔ اور معقول طور پر، کیونکہ تمام تر مشکلات اور خونریزی کے باوجود ناقابل تسخیر عالمی رجحانات اس بات کی علامت ہیں کہ وقت، انصاف اور آخرِ کار تاریخ ان کے ساتھ ہے۔
اس طرح سوال یہ بنتا ہے کہ کتنی جلد کوتاہ اندیش اسرائیلی امن کے لیے ضروری سمجھوتوں کی وکالت شروع کر دیتے ہیں، کیوں کہ اسرائیل کو لاحق دفاعی خطرات بڑھ رہے ہیں اور ان کی ریاست کی جغرافیائی سیاسی طاقت ختم ہو رہی ہے۔
بارعہ علم الدین
نوٹ: کالم نگار بارعہ عالم الدین مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں ایوارڈ یافتہ صحافی اور براڈکاسٹر ہیں۔ وہ میڈیا سروسز سنڈیکیٹ کی مدیر ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
3 notes
·
View notes
Text
از این لب که تشنه واژگان تو بود، و از دنیایی که در دریای چشمان تو وجود دارند. از دستان سرد اما پذیرا، خنده های پنهان و اشک های آشکار، و خاطراتی که وابسته به "بودن" تو هستند. از رقص های بی پروا زیر باران در همهمه خیابان، و از خیره شدن به یک قاب به گونه ای که انگار این اولین و آخرین منظره ایست که چشمان من برایم بازگو می کنند. از انتظار کودکانه برای بدرقه خورشید، بحث های شبانه با ستاره ام، و ساکت نشستن برای فهم مکالمه جیرجیرک ها. من از تمام این ها گذشتم تا چیزی فراتر از تو بیابم اما حال می دانم که چیزی فراتر از ما نیست. رفتن من، سرکش بودن این روح آزاد را روایت می کرد اما بازگشت من دال بر این است که من هنوز هم دوستت دارم.
2 notes
·
View notes
Text
مشتهایش به در میکوبیدند، امواج ضربهایی از درد با هر ضربه به بازویش میپیچید، ضربات توخالی در خلأ اطرافش طنینانداز میشد. خون روی سطح پاشیده شده بود و روی چوب تیره می درخشید. بند انگشتانش ترک خورده و شکافته شده بود، ناخن هایش خون می آمد. او اهمیتی نمی داد. درد در مقایسه با ترسی که در قفسه سینه او رشد می کند، دور بود - زود گذر.
در تکان نمی خورد حتی از ضرباتش جغجغه نمی کرد. محکم بسته ماند. بی صدا. غیر منقول.
او مدام می زد.
صدای نفس هایش در گوشش بلند بود، هق هق گریه ای ناتوان در گلویش نشست. او می لرزید، بدنش سنگین تر می شد - قدرتش کم می شد. هر ضربه جدید ضعیف تر از قبل. دستانش غرق خون، خراش و کبودی است.
مجبور شد برگردد داخل. او مجبور شد -
دستان او را گرفتند، به سمت خود کشیدند و تهدید کردند که او را خواهند برد. او جنگید، هراس شعله ور شد، هراسان - مستاصل به در رسید. باید برگردد داخل.
��و سعی کرد با فریاد آزاد شود، اما دست ها فقط محکم تر نگه داشتند. عمیق تر حفر که کرد او میتوانست احساس کند که آنها پوستش را سوراخ میکنند، گوشتش را پاره میکنند. او فقط سخت تر تلاش کرد - به درد اهمیتی نمی داد. برایش مهم نبود چه می شد
نفسهایش تند، سوتآلود بود و از هق هق های نیمهخفه میترکید.
مجبور شد برگردد داخل.
نوک انگشتانش به در چسبیده بود و لکه های قرمز رنگی بر جای می گذاشت. او یک سوسو امید احساس کرد، اما به زودی با خشونت به عقب کشیده شد. دست ها او را می کشیدند. دورتر و دورتر. او در برابر چنگال فشار می آورد، دیوانه و بی پروا. باید برگردد داخل.
از آنها التماس کرد که او را رها کنند. که لطفا او را نگیرید.
مجبور شد برگردد داخل.
آنها گوش ندادند. آنها مدام او را می کشیدند، می کشیدند و می کشیدند. او برای جلوگیری از آن درمانده بود. وحشت متورم شد، گسترش یافت، در گلویش فرو رفت، به شدت فشار آورد و تهدید کرد که او را از هم جدا خواهد کرد. اشكال تيره در اطرافش سوسو مي زد، طعنه مي زد و نزديكتر مي شد. و میگفت نتوانستی او را نجات دهی چرا میخواهی برگردی؟ او مرده
در کوچکتر می شد، محو می شد.
تاریکی غلیظ شد، دور او پیچیده شد، سرد و خفه کننده. نمی توانست نفس بکشد.
در از دید ناپدید شد.
کسری از ثانیه بود که همه چیز متوقف شد و سکوت در گوشش طنین انداخت. هیچ چیز حرکت نکرد. جهان در یک لحظه انکار ناامیدانه یخ زده است.
او تنها بود.
لحظه از هم پاشید.
او نفس خود را مکید، می لرزید، ترک می خورد - می شکند. تاریکی با عجله وارد شد، صداها برگشتند، درد منفجر شد و-
او فریاد زد.
و جیغ زد.
و جیغ زد.
و جیغ بزن -
2 notes
·
View notes
Text
سوچا ہے کہ اب کارِ مسیحا نہ کریں گے
وہ خون بھی تھوکے گا تو پروا نہ کریں گے
Socha hai k Ab Kar-e-Masiiha Naa Karain gy
Wo Khoon bhi Thooky ga to Parwa naa Karain gy
(Jaun Elia)
10 notes
·
View notes
Text
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسم دوری کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا اخلاص قربانی محبت اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
سنا دیں عصمت مریم کا قصہ پر اب اس باب کو وا کیوں کریں ہم
زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
اٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
برہنہ ہیں سر بازار تو کیا بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی سو خود پر بھی بھروسا کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
پڑی ہیں دو انسانوں کی لاشیں زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم
جون ایلیا
3 notes
·
View notes
Text
فرش کلاسیک 1200 شانه پروا، یه گزینه عالی برای عروس خانمهاست. این فرش با طرح شاد و رنگ روشن، توی خونههای کوچیک خیلی زیبا جلوه میکنه!
#فرش#فرش کلاسیک#فرش رنگ روشن#فرش ماشینی#فرش روشن#rug#persian rug#persian carpet#home interior design#persian#safafarsh#صفافرش#صفا فرش#فرش کاشان
0 notes
Text
نت سنتور آهنگ بی خیال از سیاوش قمیشی
نت سنتور آهنگ بی خیال از سیاوش قمیشی
نت دونی , نت سنتور , نت متوسط سنتور , نت سنتور سیاوش قمیشی , notdoni , نت های سنتور سیاوش قمیشی , نت های سنتور , سنتور , سیاوش قمیشی , نت سیاوش قمیشی , نت های سیاوش قمیشی , نت های گروه نت دونی , نت های متوسط سنتور , نت سنتور متوسط
پیش نمایش نت سنتور آهنگ بی خیال از سیاوش قمیشی
نت سنتور آهنگ بی خیال از سیاوش قمیشی
دانلود نت سنتور آهنگ بی خیال از سیاوش قمیشی
خرید نت سنتور آهنگ بی خیال از سیاوش قمیشی
جهت خرید نت سنتور آهنگ بی خیال از سیاوش قمیشی روی لینک زیر کلیک کنید
نت سنتور آهنگ بی خیال از سیاوش قمیشی
نت سنتور بی خیال از سیاوش قمیشی
تنظیم نت سنتور « گروه نت دونی
آهنگساز : سیاوش قمیشی
جهت مشاهده نت پیانو بیخیال از سیاوش قمیشی نیز می توانید اینجا کلیک کنید
متن آهنگ بی خیال از سیاوش قمیشی
اشکایی که بی هوا رو گونه هام میریزه
قلبی که از همه ی خاطره هات لبریزه
دلی که میخواد بمونه تنی که باید بره
حرفی که تو دلمه اما ندونی بهتره
بیخیال حرفایی که تو دلم جا مونده
بی خیال قلبی که این همه تنها مونده
آخه دنیای تو دنیای دلای سنگیه
واسه تو فرقی نداره دل من چه رنگیه
♫♫♫
مثه تنهایی میمونه با تو همسفر شدن
توی شهر عاشقی بی خودی در به در شدن
حال و روزمو ببین تا که نگی تنها رفت
اهل عشق و عاشقی نبود و بی پروا رفت
نت سنتور آهنگ بی خیال نت آهنگ بیخیال از سیاوش قمیشی برای سنتور
کلمات کلیدی : نت دونی , نت سنتور , نت متوسط سنتور , نت سنتور سیاوش قمیشی , notdoni , نت های سنتور سیاوش قمیشی , نت های سنتور , سنتور , سیاوش قمیشی , نت سیاوش قمیشی , نت های سیاوش قمیشی , نت های گروه نت دونی , نت های متوسط سنتور , نت سنتور متوسط
#نت دونی#نت سنتور#نت متوسط سنتور#نت سنتور سیاوش قمیشی#notdoni#نت های سنتور سیاوش قمیشی#نت های سنتور#سنتور#سیاوش قمیشی#نت سیاوش قمیشی#نت های سیاوش قمیشی#نت های گروه نت دونی#نت های متوسط سنتور#نت سنتور متوسط
0 notes
Text
(Bang-e-Dra-023) Syed Ki Loh-e-Turbat
Mudda Tera Agar Dunya Mein Hai Taleem-e-Den Turk-e-Dunya Qoum Ko Apni Na Sikhlana Kahin
If your aim in the world is din’s education Never teach your nation world’s abdication
Wa Na Karna Firqa Bandi Ke Liye Apni Zuban Chup Ke Hai Baitha Huwa Hangama-e-Mehshar Yahan
Do not use your tongue for sectarianism Resurrection Day’s tumult for booty is stalking
Wasl Ke Asbab Paida Hon Teri Tehreer Se Dekh! Koi Dil Na Dukh Jaye Teri Taqreer Se
Your writings should pave the way for unity Beware! No heart should be hurt by your speech
Mehfil-e-Nau Mein Purani Dastanon Ko Na Chhair Rang Par Jo Ab Na Ayen Un Afsanon Ko Na Chhair
In the new congregation do not start old tales Do not start again what are now unacceptable tales
Tu Agar Koi Mudabbar Hai To Sun Meri Sada Hai Dalairi Dast-e-Arbab-e-Siasat Ka Asa
Listen to my advice if you are any statesman Courage is your support if you are a leader of men
Arz-e-Matlab Se Jhijhak Jana Nahin Zaiba Tujhe Naik Hai Niyyat Agar Teri To Kya Parwa Tujhe
Hesitation in expressing your purpose does not behoove you If your intentions are good you should not fear anything
Banda-e-Momin Ka Dil Beem-o-Riya Se Paak Hai Quwwat-e-Farman-Rawa Ke Samne Bebaak Hai
The Mu’min’s heart is clear of fear and hypocrisy The Mu’min’s heart is fearless against the ruler’s power
مدّعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سِکھلانا کہیں وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھُپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ! کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے محفلِ نَو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جو اَب نہ آئیں اُن فسانوں کو نہ چھیڑ تُو اگر کوئی مدبّر ہے تو سُن میری صدا ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے نیک ہے نیّت اگر تیری تو کیا پروا تجھے بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے قوّت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے
#inspiration#iqbaliyat#islam#motivation#muslims#encouragement#poetry#urdu#love#Religious#Deen#Dunya#World
1 note
·
View note
Text
طفلان کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں سودا بھی ایک وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا یعنی میں لے دیکھ لے میاں مرے اندر بھی کچھ نہیں بس اک غبار وہم ہے اک کوچہ گرد کا دیوار بود کچھ نہیں اور در بھی کچھ نہیں یہ شہر دار و محتسب و مولوی ہی کیا پیر مغان و رند و قلندر بھی کچھ نہیں شیخ حرام لقمہ کی پروا ہے کیوں تمہیں مسجد بھی اس کی کچھ نہیں منبر بھی کچھ نہیں مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں جانی میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا یہ اور بات ہے ترا پیکر بھی کچھ نہیں یہ شب کا رقص و رنگ تو کیا سن مری کہن صبح شتاب کوش کو دفتر بھی کچھ نہیں بس اک غبار طور گماں کا ہے تہ بہ تہ یعنی نظر بھی کچھ نہیں منظر بھی کچھ نہیں ہے اب تو ایک جال سکون ہمیشگی پرواز کا تو ذکر ہی کیا پر بھی کچھ نہیں کتنا ڈراؤنا ہے یہ شہر نبود و بود ایسا ڈراؤنا کہ یہاں ڈر بھی کچھ نہیں پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص یعنی وفائے عہد کا بستر بھی کچھ نہیں نسبت میں ان کی جو ہے اذیت وہ ہے مگر شہ رگ بھی کوئی شے نہیں اور سر بھی کچھ نہیں یاراں تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لئے مجھ کو تو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں گزرے گی جونؔ شہر میں رشتوں کے کس طرح دل میں بھی کچھ نہیں ہے زباں پر بھی کچھ نہیں
1 note
·
View note
Text
حسنا (۱) دختر فاطیما
این دختر قشنگ و عضلانی که میبینید، حسنا ست. یه دختر ۱۷ ساله با ۱۸۵ سانت قد که ژنتیکش کاملا به مامانش فاطیما رفته. حسنا حتی از فاطیما هم بلند قد تر میشه! حسنا یه آلفای غالب و مطلقه. به شدت خوشگل و سکسی و به شدت قدرتمند. اون از ۷ سالگی همپای مامانش ورزش کرده و عضله ساخته و شاهد رابطه خاص من و مامانش بوده. بخاطر همین به طور کلی خودشو از هر نظر برتر از همه میدونه که خب به نظر من حقم داره. حسنا واقعا برتر از همه ست. حسنا به شدت لوند و سکسیه. اون توی خونه غالبا برهنه ست و بیشتر وقتا فقط یه شورت لامبادا تنش میکنه. فقط و فقط! معنیش اینه که من همیشه سینه های عضلانی دخترم رو برهنه میبینم!!! البته اون پستان های بزرگی نداره چون همش عضله ست. اینم البته از فاطیما یاد گرفته. چون فاطیما هم هیچ وقت توی خونه سوتین تنش نمیکنه و بالا تنه عضلانیش همیشه برهنه ست. اما حسنا یه فرق عمده با مامانش فاطیما داره. اونم اینه که اون یه نسل Z ی به تمام معناست. شجاع و جسور و دلیر، رک و راست، مغرور و با اعتماد بنفس، با ابهت، خشن و بی پروا. حسنا ذاتا یه ملکه مطلق و الهه پرستیدنیه. همه پسرا و مردا در برابرش احساس حقارت میکنن. اون به پسرا به چشم وسیله سرگرمی و تفریح نگاه میکنه. مثل عروسک یا اسباب بازی. اینو وقتی پسری رو میاره خونه متوجه میشید. حسنا جوری با پسرا رفتار میکنه که یه ببر با یه گربه رفتار میکنه! سر به سرشون میزاره، ایسگاشون میکنه یا مثل یه باریچه باهاشون بازی میکنه و تمام مدت لبخند تحقیرآمیزی روی لبای قشنگش دیده میشه. اون عاشق مالیدن و انگشت کردن پسر هاست. مخصوصاً توی مهمونی ها، اونا رو خفت میکنه و بهشون انگولی میکنه و میخنده. حتی در حضور جمع!... یا وادارشون میکنه باهاش مچ بندازن تا باهاشون بازی کنه، تحقیرشون کنه و بخنده! خیلی وقتا هم وادارشون میکنه که بدن و عضلاتش رو براش بخورن و بلیسن!... خب پسرای بدبخت، چاره ای هم ندارن.
یکی از وظایف روتین من توی خونه ماساژ دادن بدن عضلانی و ورزیده فاطیما و بعدشم مکیدن و خوردن سینه های ایشونه. فاطیما از اینکه سینه های عضلانیش رو بخورم لذت میبره و معمولا وقتی روی کاناپه جلوی تلویزیون لم میده من در برابرش روی زمین زانو میزنم و براش سینه هاشو میخورم. این کار رو حسنا هم با دوس پسرش میکنه دقیقاً و جای پشم ریزون ماجرا اینجاس که اون تازگیا هوس کرده که منم براش سینه هاشو بخورم و وقتایی که من و حسنا توی خونه تنها باشیم منو وادار به این کار میکنه!!!
قسمت بعدی:
Nami Diamante
726 notes
·
View notes
Text
گناہوں پر ندامت کی فضیلت و برکات
ﷲ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اور جو گناہ ہو گئے ہیں یا آئندہ ہوں گے ان پر اِستغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ اِستغفار کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے گناہوں کی ﷲ تعالیٰ سے ندامت کے ساتھ معافی مانگے۔ ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اِستغفار کا حکم دیا ہے اور اس کے اہم فوائد بھی بتلائے ہیں مفہوم: ’’پھر میں نے (ان سے) کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ یقیناً وہ بہت زیادہ معافی دینے والا ہے۔ (گناہوں سے معافی مانگنے پر وہ اتنا خوش ہو گا کہ) تم پر آسمان سے (فائدے والی) خوب بارشیں برسائے گا اور تمہارے اموال و اولاد میں (برکت والی) ترقی دے گا تمہارے لیے (انواع و اقسام کے) کے باغات پیدا فرما دے گا اور تمہارے فائدے کے لیے نہریں بہا دے گا۔‘‘ (سورۃ نوح) حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ حدیث قدسی ارشاد فرماتے ہیں، جس میں ﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو یوں خطاب فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے (یعنی میں ظلم سے پاک ہوں) جب میں نے اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے تو اسی طرح تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے اس لیے آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔
اے میرے بندو! جس کو میں (اپنی توفیق سے) ہدایت عطا فرما دوں اس کے علاوہ تم سب گم راہ ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے ہدایت (کی توفیق) مانگو۔ میں ہی تمہیں ��دایت عطا کروں گا۔ اے میرے بندو! جس کو میں (اپنے فضل سے ) روزی دوں اس کے علاوہ تم سب بھوکے ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے (میرے فضل کو طلب کرتے ہوئے) روزی کا سوال کرو میں ہی تمہیں روزی دوں گا۔ اے میرے بندو! جس کو میں (اپنے کرم سے) لباس پہناؤں اس کے علاوہ سب ننگے ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے (میرے کرم کی امید رکھتے ہوئے) لباس مانگو میں ہی تمہیں لباس دوں گا۔ اے میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمہارے گناہ معاف کرتا ہوں اس لیے مجھ ہی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو میں ہی تمہارے گناہ معاف کروں گا۔ اے میرے بندو! تم مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی مجھے نفع دے سکتے (یعنی تمہارے گناہوں سے مجھے نقصان نہیں اور تمہاری نیکیوں سے مجھے فائدہ نہیں بل کہ گناہ اور نیکی کا نقصان اور نفع صرف اور صرف تمہارے لیے ہے) اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر ایک نہایت پرہیز گار دل کی طرح بن جاؤ تو اس سے میری مملکت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔
اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر ایک نہایت بدکار دل کی طرح بن جاؤ تب بھی میری مملکت میں کسی ادنی سی چیز کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر کسی میدان میں کھڑے ہو جائیں اور پھر مجھ سے (اپنی زبان میں اپنی ساری ضروریات) مانگیں اور میں ہر ایک کی اس کی تمام ضروریات دوں تب بھی میرے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں ہو گی جتنی کہ سمندر میں سوئی گرنے سے پانی کے کم ہونے کی ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ میں تمہارے اعمال کو یاد رکھتا ہوں اور انہیں (تمہارے حق میں اتمام حجت کے طور پر) لکھوا لیتا ہوں۔ میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا اس لیے جو شخص بھلائی پا لے اسے چاہیے کہ وہ مجھ ﷲ کی حمد و شکر ادا کرے اور جس شخص کو بھلائی کے بہ جائے برائی ملے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو ملامت کرے کیوں کہ (بعض دفعہ) یہ اس کے گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘ (بہ حوالہ: صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب کوئی مومن بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر اس گناہ کی وجہ سے ایک سیاہ نقطہ لگ جاتاہے اگر وہ اس گناہ سے توبہ و استغفار کر لیتا ہے تو اس کے دل سے سیاہ نقطہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ توبہ کے بہ جائے مزید گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ مزید بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: ہرگز ایسا نہیں بل کہ ان کے دلوں پر زنگ ہے ان چیزوں کا جو وہ برے اعمال کرتے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذی) حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں، میں نے ﷲ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اے آدم کی اولاد! جب تک تو مجھ سے امید رکھ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا میں تیرے گناہوں کو بخشتا رہوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں (کہ اتنا بڑا گناہ کیوں بخش رہا ہوں) اے آدم کی اولاد! اگر (بالفرض) تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں پھر بھی تو مجھ سے ان کی معافی مانگے تو میں معاف کر دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں (کہ اتنا بڑا گناہ کیوں بخش رہا ہوں) اے آدم کی اولاد! اگر تو مجھ سے اس حالت میں ملے کہ تیرے نامہ اعمال میں اتنے گناہ ہوں جن سے زمین بھر جاتی ہے تو تیری توبہ و استغفار کی وجہ سے میں بھی تجھے اتنا ثواب عطا کروں گا کہ جن سے زمین بھر جائے گی بہ شرط یہ کہ تُونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔‘‘ (جامع الترمذی)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص استغفار کی عادت بنا لے ﷲ تعالیٰ اسے ہر تنگی و پریشانی سے نکلنے کا راستہ دے دیتے ہیں اور ہر رنج و غم سے نجات عطا فرما دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس کو ایسی ایسی جگہوں سے (حلال اور وسعت والا) رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ) حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا اور پھر علماء بنی اسرائیل سے یہ پوچھنے کے لیے چل پڑا کہ اتنے بڑے گناہ یا گناہ گار کے لیے توبہ کے قبول ہونے کوئی صورت ہے؟ ایک عابد و زاہد شخص نے اس کو جواب دیا کہ نہیں توبہ کے قبول ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ اس شخص نے اس عابد و زاہد کو بھی مار ڈالا۔ پھر باقی علماء سے پوچھنے کے لیے چل نکلا، اس سے ایک شخص نے کہا کہ تم فلاں بستی میں جاؤ وہ نیک لوگوں کی بستی ہے اور وہاں فلاں عالم رہتے ہیں ان سے مسئلہ پوچھو وہ تمہیں توبہ کے قبول ہونے کے بارے میں ٹھیک فتویٰ دے گا۔
وہ شخص اس بستی کی طرف چل پڑا۔ ابھی آدھے راستے پر ہی پہنچ پایا تھا کہ اچانک ملک الموت آ پہنچے اس کو جب مرنے کی علامات محسوس ہوئیں تو اس نے اپنا سینہ اسی بستی کی طرف جھکا کر گر پڑا۔ چناںچہ اس کی روح نکالنے کے لیے رحمت اور عذاب کے فرشتے ملک الموت سے ایک طرح کا جھگڑا کرنے لگے۔ اسی دوران ﷲ تعالیٰ نے اس بستی (جس کی طرف توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا) کو حکم دیا کہ وہ اس شخص کے قریب ہو جائے اور اس بستی (جہاں سے قتل والا گناہ کر کے آ رہا تھا) کو حکم دیا کہ وہ اس سے دور ہو جائے۔ پھر ﷲ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے فرمایا کہ کہ تم دونوں بستیوں کے درمیان پیمائش کرو اگر وہ اس بستی کے قریب جس کی طرف وہ توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا تو اسے رحمت کے فرشتوں کے حوالے کیا جائے اور اگر اس بستی کے قریب ہو جہاں سے قتل کر کے آ رہا تھا تو عذاب کے فرشتوں کے حوالے کیا جائے۔ فرشتوں نے جب پیمائش کی تو وہ اس بستی کے قریب تھا جس کی طرف توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا وہ بہ نسبت دوسری بستی کے ایک بالشت قریب تھا چناں چہ حق تعالیٰ شانہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (صحیح البخاری)
حضرت عبداﷲ بن بسرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ شخص قابل مبارک باد ہے جس کے نامہ اعمال میں استغفار زیادہ ہو گا۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ﷲ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا جنت میں ایک درجہ بلند فرماتے ہیں تو وہ پوچھتا ہے کہ اے ﷲ! مجھے یہ درجہ کیسے نصیب ہوا؟ (حالاں کہ میں نے تو ایسی نیکی نہیں کی) ﷲ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ تیرے لیے تیری اولاد نے استغفار کیا ہے اس لیے میں نے تیرا ایک درجہ جنت میں مزید بلند کر دیا ہے۔ (سنن ابن ماجۃ) ﷲ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اگر گناہ ہو جائیں تو ان پر استغفار کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
مولانا محمد الیاس گھمن
0 notes
Photo
اہل سنت والجماعت کے مسلک میں امید اور خوف کے پہلو سوال ۲۱: امید اور خوف کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا کیا مذہب ہے؟ جواب :اس بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں کہ انسان امید کے پہلو کو مقدم قرار دے یا خوف کے پہلو کو۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خوف اور امید کا پہلو ایک جیسا ہی ہونا چاہیے، خوف کا پہلو امید پر غالب ہو نہ امید کا پہلو خو ف پر غالب ہو۔‘‘ اور انہی سے منقول ہے: ’’اگران دونوں پہلوؤں میں سے کوئی ایک پہلو غالب آجائے، تو بندہ ہلاک وبربادہو جائے ۔‘‘ کیونکہ اگر اس نے امید کے پہلو کو غالب کر دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہو جائے گا اور اگر اس نے خوف کے پہلو کو غالب کر دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کا شکار ہو جائے گا۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے: ’’فعل طاعت کے وقت امید کا پہلو غالب ہونا چاہے اور ارادہ معصیت کے وقت خوف کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔ کیونکہ بندہ جب طاعت کا کام کرے گا تو گویاکہ اس نے حسن ظن کے مطابق کام کیا، لہٰذا امید وآس یعنی قبولیت کا پہلو غالب ہونا چاہیے لیکن معصیت کے ارادے کے وقت خوف کا پہلو غالب ہونا چاہیے تاکہ انسان سرے سے معصیت کا ارتکاب ہی نہ کر ے۔ کچھ دوسرے لوگوں نے یہ کہا ہے: ’’تندرست آدمی کے لیے خوف کا پہلو اور مریض کے لیے امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔‘‘ کیونکہ تندرست آدمی پر جب خوف کا پہلو غالب ہوگا تو وہ اسے معصیت سے بچائے گا اور مریض پر جب امید کا پہلو غالب ہوگا تو وہ اللہ تعالیٰ سے حسن ظن کے ساتھ ملاقات کرے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ اس مسئلے میں مختلف حالات میں صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ غلبہ خوف کے وقت جب اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونے کا اندیشہ ہوتو اس کے لیے اس اندیشے کو زائل کر دینا اور امید کے پہلو کو پیش نظر رکھنا واجب ہے اور امید کے پہلو کو غالب قرار دینے کی صورت میں جب اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہونے کا ڈر ہو تو اسے چاہیے کہ وہ خوف کے پہلو کو غالب کر دے۔ انسان درحقیقت خود اپنا معالج وطبیب ہے بشرطیکہ اس کا دل زندہ ہو اور جس شخص کا دل مردہ ہو اور وہ اپنے دل کا علاج کر سکتا ہو نہ اپنے دل کے حالات کا جائزہ لے سکتا ہو تو اسے کسی چیز کی پروا نہیں ہوتی وہ شتر بے مہارہوتا ہے۔ سوال ۲۲: کیا اسباب کو اختیار کرنا توکل کے منافی ہے؟ جنگ خلیج کے دوران بعض لوگوں نے اسباب اختیار کیے تھے اور بعض نے انہیں ترک کر دیا تھااورکہنا شروع کردیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں؟ جواب :مومن کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے دل کو اللہ عزوجل کے ساتھ وابستہ کیے رکھے اور جلب منفعت اور دفع مضرت کے لیے ذات باری تعالیٰ پر سچا اعتماد کرے کیونکہ اللہ وحدہ کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے اور تمام معاملات اسی کی طرف لوٹتے ہیں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ، ﴾ (ہود: ۱۲۳) ’’اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم اللہ ہی کو ہے اور تمام امور اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں، لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا رکھواور جو کچھ تم کر رہے ہو تمہارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا: ﴿یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ، فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ، وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ، ﴾(یونس: ۸۴۔۸۶) ’’اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اگر (دل سے) فرمانبردار ہو تو اسی پر بھروسا رکھو۔ تب وہ بولے کہ ہم اللہ ہی پر بھروسا رکھتے ہیں، اے ہمارے پروردگار! ہم کو ظالم لوگوں کے ہاتھوں آزمائش میں نہ ڈال اور اپنی رحمت سے قوم کفار سے نجات بخش۔‘‘ اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ، ﴾ (آل عمران: ۱۶۰) ’’اور مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا، ﴾ (الطلاق: ۳) ’’اور جو اللہ پر بھروسا رکھے گا تو وہ اس کو کافی ہوگا۔ بلا شبہ اللہ اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کر دیتا ہے، اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘ مومن پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب پر، جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے، اعتماد کرے اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھے اور ان شرعی، قدری اور حسی اسباب کو بھی اختیار کرے جنہیں اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کیونکہ خیر کو لانے والے اور شر کو دور کرنے والے اسباب اختیار کرنا بھی اللہ تعالیٰ اور اس کی حکمت پر ایمان لانا ہے اوراسباب ووسائل کا اختیارکرنا توکل کے منافی نہیں ،ذرا دیکھئے تو صحیح! سید المتوکلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی شرعی وقدری اسباب اختیار فرمایا کرتے تھے، سوتے وقت آپ سورۂ اخلاص اور معوذ تین پڑھ کر اپنے آپ کو دم کیا کرتے تھے، جنگ میں زرہ پہنا کرتے تھے۔ جب مشرکوں کی جماعتوں نے جمع ہو کر مدینہ منورہ چڑھائی کی تو آپ نے مدینہ کی حفاظت کے لیے اس کے اردگرد خندق کھودی تھی۔ جن اسباب کو انسان جنگوں کی تباہ کاریوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے استعمال کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ان نعمتوں میں شمار کیا ہے جن پر وہ شکر کا مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی داؤد علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿وَ عَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْ بَاْسِکُمْ فَہَلْ اَنْتُمْ شٰکِرُوْنَ ، ﴾ (الانبیاء: ۸۰) ’’اور ہم نے تمہارے لیے ان کو ایک (طرح کا) لباس بنانا بھی سکھا دیا تاکہ تم کو لڑائی (کے ضرر) سے بچائے، پس تم کو شکر گزار ہونا چاہیے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو مکمل، عمدہ اور مضبوط زرہیں بنانے کا حکم دیا کہ اس سے دفاع خوب ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو، جو میدان جنگ سے قریب ہوں اور جنگ کی وجہ سے نقصان سے ڈرتے ہوں، احتیاط کے طور پر ایسے ماسک استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، جو جسم کو نقصان پہنچانے والی گیسوں سے مانع ہوں یا ایسے حفاظتی اقدامات اختیار کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جو زہریلی گیسوں کو ان کے گھروں تک نہ پہنچنے دیں کیونکہ یہ ایسے اسباب ہیں جو خرابی سے بچاتے اور نقصان سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اسی طرح کھانے پینے کی ایسی اشیاء جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جن کے بارے میں انہیں اندیشہ ہو کہ جنگ کی وجہ سے انہیں شاید یہ چیزیں نہ ملیں۔ اندیشہ جس قدر زیادہ قوی ہو احتیاط اسی قدر زیادہ کرنی چاہیے، لیکن واجب ہے کہ اعتماد اور بھروسہ صرف ذات باری تعالیٰ پر ہو۔ مذکورہ بالا اسباب کو اللہ تعالیٰ کی شریعت وحکمت کے تقاضے کے مطابق استعمال کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ یہ عقیدہ نہیں ہونا چاہیے کہ جلب منفعت اور دفع مضرت میں اسباب ہی اصل ہیں اسی کے ساتھ مومنوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کریں کہ اس نے یہ اسباب مہیا فرمائے اور ان کے استعمال کی بھی اجازت عطا فرمائی ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو فتنوں اور ہلاکتوں کے اسباب سے محفوظ رکھے اور ہمیں اور ہمارے تمام بھائیوں کو اپنی ذات پاک پر ایمان اور توکل کی قوت عطا فرمائے اور ان اسباب کے اختیار کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے جن کی اس نے اجازت دی ہے، اور پھر ان اسباب کو اسی طرح استعمال کرنے کی توفیق بخشے جس کی وجہ سے وہ ہم سے راضی ہو جائے۔ اسال اللّٰہ لی ولکم العافیہ۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۶۲، ۶۳، ۶۴ ) #FAI00021 ID: FAI00021 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
#قرآنی_دعاء #اصحاب_کهف #القرآن_الكريم
#تفسیرآیت_سورہ_کہف10
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی ، اور ( اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے ) کہا تھا کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہم پر خاص اپنے پاس سے رحمت نازل فرمائے ، اور ہماری اس صورت حال میں ہمارے لئے بھلائی کا راستہ مہیا فرما دیجئے ۔(تخریج از تفسیر تقی عثمانی دامت برکاتہ العالیہ و حفظہ اللہ تعالٰی)
| رشد | کا مفہوم : | رشد | کے معنی ہیں اس نے ہدایت اور استقامت پائی۔ رَشِدَ امرہ کے معنی ہوں گے کہ اس نے اپنے معاملے میں ہدایت پائی ۔مفہوم ہوگا کہ اے ہمارے رب ہمارے لئے اس راہ میں جو ہم نے اختیار کی ہے تو رہنمائی اور استقامت مہیا فرما۔
نوجوانوں کی دعا :
یہ وہ دعا ہے جو ان نوجوانوں نے اس وقت کی ہے جب انہوں نے غار میں پناہ لینے کا ارادہ کیا ۔ آیات کے الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ یہ نوجوان لوگ تھے۔ نوجوانوں میں جب ایک مرتبہ حق کی حمیت جاگ پڑتی ہے تو پھر نہ وہ مصالح کی پروا کرتی ہے اور نہ خطرات کی۔ لیکن ان لوگوں کے اندر صرف جوانی کا جوش ہی نہیں تھا بلکہ اللہ کی بخشی ہوئی حکمت کا نور بھی تھا۔ اس وجہ سے اس نازک مرحلہ میں انہوں نے اللہ سے رہنمائی اور استقامت کی دعا کی اور یہی بات اہل ایمان کے شایان شان ہے۔
سرگزشت کا خلاصہ بطور تمہید :
یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ آیت اور اس کے بعد کی دو آیات اصل سرگزشت کے خلاصہ کے طور پر ہیں جن میں پہلے اجمال کے ساتھ سرگزشت قاری کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ اس کے بعد پوری سرگزشت تفصیل کے ساتھ سامنے آئے گی۔ تفصیل سے پہلے اجمال کا یہ طریقہ اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اصل مدعا نگاہ کے سامنے رہتا ہے۔ دوسری ضمنی باتیں اس کو نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں سرگزشتوں کے بیان میں یہ طریقہ قرآن نے جگہ جگہ اختیار کیا ہے۔(تخریج از۔ تدبر القرآن مولانا امین احسن اصلاحی رح)
1 note
·
View note