#نفرت انگیز
Explore tagged Tumblr posts
Text
بشریٰ بی بی کیخلاف ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت مقدمہ درج
(24نیوز)پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔ بشریٰ بی بی کے خلاف ایف آئی آر ڈیرہ غازی خان میں درج کی گئی ہے۔ مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ بشریٰ بی بی نے لوگوں کو ورغلانے کیلئے نفرت انگیز بیان دیا۔پولیس کے مطابق ملزمہ کے خلاف دفعہ 126 ٹیلی گراف ایکٹ اور دیگر قوانین کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ…
0 notes
Text
ذاکر نائیک : ہمارا مسئلہ کیا ہے؟
ضروری نہیں کہ ذاکر نائیک جو کہیں وہ ٹھیک ہو، ہر آدمی کی طرح ان کی رائے میں بھی، صحت اور غلطی، ہر دو کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن اختلاف رائے کے کیا یہ آداب ہوتے ہیں جن کا مظاہرہ ہمارے ہاں کیا جا رہا ہے؟ جناب ذاکر نائیک کے بارے میں ہمارا مجموعی سماجی رد عمل بتا رہا ہے کہ اس معاشرے کا نفسیاتی عدم توازن کتنا شدید ہو چکا ہے۔ ضروری نہیں کہ ذاکر نائیک جو کہیں وہ ٹھیک ہو، ہر آدمی کی طرح ان کی رائے میں بھی، صحت اور غلطی، ہر دو کا امکان ہو سکتا ہے لیکن اختلاف رائے کے کیا یہ آداب ہوتے ہیں جن کا مظاہرہ ہمارے ہاں کیا جا رہا ہے ؟ کیا کبھی وہ وقت آئے گا کہ ہم اختلاف رائے کے آداب سیکھ جائیں؟ ایک طوفان سا برپا ہے، دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم ختم ہو چکی ہے، گویا ایک اعلان عام ہے کہ ذاکر نائیک ہاتھ آیا ہے بچ کر جانے نہ پائے۔ جیسے کسی شفاخانے میں علاج کے طالب مریضوں کے ہاتھ کھلونا آ جائے، جسے زومبوں کے ہاتھ کوئی انسان لگ جائے۔
اس معاملے نے معاشرے کے چند پہلو نمایاں کر دیے ہیں: پہلا یہ کہ ہم اذیت پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اب تجزیہ نہیں ہوتا، لوگ پتھر لے کر گلی کی نکڑ پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جس کی چال میں معمولی سی لغزش دکھائی دیتی ہے اس پر سنگ باری شروع کر دی جاتی ہے۔ معاشرہ منفی ذہنیت کے آسیب کا شکار ہو چکا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم افراط و تفریط کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ بیک وقت کسی شخص میں بہت سی خوبیاں بھی ہو سکتی ہیں اور کچھ خامیاں بھی۔ ہم توازن کھو چکے ہیں۔ ہم یا تو کسی کا ہانکا کر رہے ہوتے ہیں یا کسی کے جانثار بنے پھرتے ہیں۔ کوئے یار یا سوئے دار، بیچ کا کوئی مقام ہمیں راس نہیں آتا۔ تیسرا یہ کہ ہم مجموعی طور پر انتہا پسند ہیں۔ یہ ہمارا قومی عارضہ بن چکا ہے۔ اس میں مذہبی اور سیکولر کی کوئی تقسیم نہیں۔ جو بھی موقف دیتا ہے انتہا پر کھڑے ہو کر دیتا ہے۔ دوسرے کے لیے گنجائش کسی کے پاس بھی نہیں، ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہ تاریخ انسانی کا آخری عقل مند ہے اور اس سے اختلاف کرنے والا دنیا کا احمق ترین انسان ہے اور اس دھرتی پر بوجھ ہے۔ چوتھا یہ کہ ہم خلط مبحث کا شکار ہو چکے ہیں اور اس خلط مبحث کے تازیانے کو لہراتے ہوئے ہم رجز پڑھتے کہ سوال کی حرمت کا سوال ہے۔
ذاکر نائیک صاحب سے جو سوال پوچھا گیا وہ بتاتا ہے کہ سماجی شعور کی عمومی سطح کیا ہے۔ سماجیات کے باب میں یہ بڑی بنیادی چیز ہے کہ معاشرہ اگر صحیح معنوں میں مذہبی ہو جائے جرائم تب بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو اسلامی تاریخ کے ابتدائی زمانے میں قانون اور سزا اور جزا کا محکمہ نہ ہوتا۔ یہ کج فہمی اور خلط مبحث تھا، سوال تھا ہی نہیں۔ ذاکر نائیک صاحب کی چند باتیں نامناسب بھی تھیں اور غیر ضروری بھی۔ ان کی نشاندہی بھی ہونی چاہیے تھی۔ ان سے اختلاف بھی کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اس کو ایک نفرت انگیز مہم میں بدل دینا بنیادی انسانی اخلاقیات سے فروتر چیز ہے۔ ایسے ایسے لوگ اس مہم میں شامل ہیں جن کی ساری عمریں لوگوں کو روشن خیالی، برداشت، تحمل، رواداری اور احترام انسانیت کا درس دیتے گزریں۔ معمولی سا چیلنج آیا اور سارے آدرش مٹی میں مل گئے۔ اب نفرت سے ابلتے میسجز بھیجے جا رہے ہوتے ہیں۔ میں ان کو پڑھتا ہوں اور سوچتا ہوں پاکستان میں کیا صرف مذہبی انتہا پسندی کا چیلنج ہے یا سیکولر انتہاپسندی کی شکل میں بھی ایک چیلنج جنم لے چکا ہے۔
پاکستان ایک متنوع معاشرہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ یہاں کوئی مہمان آئے اور وہ سب کے لیے بیک وقت قابل قبول ہو۔ فکری اختلافات بھی ہو سکتے ہیں اور ان میں شدت بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن کم از کم اتنی مروت قائم رہنی چاہیے کہ مہمان کے ساتھ اختلاف میں شائستگی برقرار رہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو جب حکومت پاکستان نے دعوت دی تھی تو ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی کہ آپ نے سب کے لیے قابل قبول بن کر رہنا ہے۔ ان کی رائے کو قبول کرنا ضروری بھی نہیں۔ ہاں اسے برداشت کرنا ضروری ہے۔ کم از کم اس حد تک کہ اختلاف میں شائستگی برقرار رہے۔ جن باتوں کو مسکرا کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے یا دوسرے کی ذاتی رائے سمجھ کر ان سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے، ہم نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ان چیزوں کو زندگی اور مو�� کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ نفرت کی فالٹ لائنز بھر جائیں تو ہمارے کاروبار بند ہو جائیں۔ یہ تفنن طبع کی چیز نہیں ہے، یہ سماجی المیہ ہے۔ یہ بتا رہا ہے کہ معاشرے کی مجموعی ذہنی صحت متاثر ہو چکی ہے اور اسے کسی طبیب کی ضرورت ہے۔
آصف محمود
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
سکانس پنجم
موهای قشنگ و حجیم و خوشگل
انگشتر نقطه سر خط
جوکر خانوما
من نفرت انگیز
0 notes
Text
دجال کی پہلی فلم
______________________________________________________________ ______________________________________________________________ دجال کی خصوصیات کیا ہیں؟ ہم اسے کیسے پہچان سکتے ہیں؟ ربی شنائیڈر شیئر کرتا ہے دجال پرکشش، کرشماتی، شیطان کی طرف سے مسح کیا جائے گا جیسا کہ یسوع خدا باپ کی طرف سے مسح کیا گیا ہے، حیرت انگیز محبت کی ظاہری شکل ہے جبکہ اس کے اندر شدید نفرت ہے۔ دجال فریب کی طاقت سے کامیاب ہو…
0 notes
Text
”باس “برائے فروخت،چین میں انوکھا اشتہار
چین میں ملازمین نے تنگ آ کر ”باس “کو آن لائن فروخت کیلئے انوکھا اشتہار دیدیا۔ رپورٹ کے مطابق چین میں ملازمین ملازمتوں کی پریشانیوں کا تناؤ کم کرنے کیلئے اپنے باس،قابل نفرت ساتھیوں کو آن لائن فروخت کیلئے پیش کردیتے ہیں۔ ۔ویب سائٹ پر کچھ لسٹ میں بہت سے ’پکاؤ‘باس، خراب ملازمتیں اور نفرت انگیز ملازم ساتھی شامل ہیں جو 4 سے 9 لاکھ یوان کی قیمت کی حد میں فروخت ہورہے ہیں۔
0 notes
Text
بھارتی الیکشن اور مسلمانوں کی شامت
بھارت میں اگلے دو ماہ میں عام انتخابات متوقع ہیں۔ اب تک کے آنکڑوں کے مطابق حکمران جماعت بی جے پی کی جیت بظاہر یقینی ہے۔ یوں دو ہزار چودہ کے بعد سے نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کا ریکارڈ قائم کریں گے۔ حزبِ اختلاف کی دو درجن جماعتوں نے چند ماہ قبل ’’ انڈیا‘‘ نامی اتحاد قائم کیا تھا، وہ باہمی نفاق کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ اس اتحاد میں جتنی جماعتیں ہیں، ان سب کے رہنما اگلا وزیرِ اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ انڈیا اتحاد میں شامل ایک اہم جماعت جنتا دل کے سربراہ اور ریاست بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار نے دوبارہ بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا ہے جب کہ مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بینر جی اور کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے درمیان کچھاؤ کھل کے سامنے آ رہا ہے۔ راہول کانگریس کی حالیہ ریاستی انتخابات میں خراب کارکردگی کے باوجود خود کو بادشاہ گر اور بی جے پی کے بعد سب سے بڑی ملک گیر جماعت کا قائد سمجھ رہے ہیں۔ وہ بھی اس حقیقت سے آنکھیں چار نہیں کر پا رہے کہ کانگریس کبھی ملک گیر جماعت ہوا کرتی تھی، اب نہیں ہے۔ ’’ انڈیا ’’ اتحاد میں لوک سبھا کے ٹکٹوں کی تقسیم کی بابت بھی اختلافات ہیں۔ میڈیا ننانوے فیصد بی جے پی نواز ہے اور اپوزیشن اتحاد کو مسلسل آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔
بی جے پی نے ’’ انڈیا ’’ اتحاد کے اردگرد دائرہ مزید تنگ کرنے کے لیے مرکزی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کو حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے پیچھے لگا کر بدعنوانی اور کرپشن کے پرانے اور نئے مقدمات کھول دیے ہیں۔ جب کہ بی جے پی کی سوشل میڈیا طاقت بھی بھرپور طریقے سے حرکت میں ہے۔ بظاہر بی جے پی کو اس بار ’’ مسلم کارڈ ’’ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی یہ محاذ مسلسل گرم ہے۔ اکیس جنوری کو ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے بی جے پی نے جس انداز سے اپنی انتخابی مہم کا صور پھونکا ہے۔ اس کا اثر ان تمام ریاستوں میں محسوس ہونے لگا ہے جہاں بی جے پی برسراقتدار ہے۔ مثلاً بنارس کی قدیم گیان وپی مسجد کو ایک مقامی عدالت نے پرانا مندر قرار دے کر اسے سربمہر کرنے کے بعد احاطے میں پوجاپاٹ کی اجازت دے دی�� دارلحکومت دلی میں بلدیہ کے بلڈوزروں نے دو مساجد گرا دی ہیں۔ ان میں سے ایک چھ سو سال پرانی مسجد جو مہرولی کے علاقے میں واقع تھی، اسے سرکاری زمین پر غیر قانونی تعمیر قرار دے کے منہدم کیا گیا۔
اس دوران واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تھنک ٹینک انڈیا ہیٹ لیب ( آئی ایچ ایل ) نے گذشتہ ہفتے جو سالانہ تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق دو ہزار تئیس میں روزانہ ملک میں اوسطاً دو مسلم دشمن واقعات رونما ہوئے۔ چھ سو اڑسٹھ نفرت انگیز واقعات میں سے پچھتر فیصد ( چار سو تریپن ) ان ریاستوں میں ہوئے جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے۔ ان میں سے بھی تین ریاستوں (مہاراشٹر ، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش) میں مجموعی طور پر تینتالیس فیصد نفرت انگیز تقاریر ہوئیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کا مواد پھیلایا گیا۔ ہریانہ اور اترا کھنڈ کا شمار اگرچہ بی جے پی کی زیرِ اقتدار چھوٹی ریاستوں میں ہوتا ہے مگر وہاں مسلمان برادریوں کے خلاف اگست سے اب تک سب سے زیادہ پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے۔ رپورٹ کے مطابق زیادہ تر نفرتی تقاریر اور مواد کا پھیلاؤ آر ایس ایس سے جڑی دو ذیلی تنظیموں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے ذریعے ہوا۔ دونوں تنظیموں کو دو ہزار اٹھارہ میں امریکی سی آئی اے انتہاپسند مذہبی گروہوں کی فہرست میں شامل کر چکی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاسی پلیٹ فارموں سے نفرت انگیز پروپیگنڈہ اب بھارت میں ایک معمول کی بات کے طور پر نچلی سطح تک قبول کیا جا چکا ہے۔ اگلے دو ماہ کے دوران انتخابی مہم میں اس نفرت میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ نفرت انگیز پروپیگنڈے کا محور وہی پرانے موضوعات ہیں۔ لو جہاد یعنی ہندو لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دے کر مسلمان مذہب تبدیل کراتے ہیں۔ لینڈ جہاد یعنی مسلمان سرکاری زمین ہتھیا کر اپنی عبادت گاہیں تعمیر کر رہے ہیں۔ حلال جہاد یعنی مسلمان تاجر حلال کو بہانہ بنا کے ہندو کاروباریوں سے سامان نہیں لیتے تاکہ وہ معاشی طور پر کمزور ہو جائیں۔ پاپولیشن جہاد یعنی مسلمان اپنی تعداد تیزی سے بڑھا رہے ہیں تاکہ ہندوؤں پر غلب�� حاصل ہو سکے۔ حالانکہ یہ تمام پروپیگنڈہ نکات یکے بعد دیگرے منطق کی کسوٹی پر ڈھے چکے ہیں۔ مثلاً سرکار کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ برسوں میں مسلمانوں میں پیدائش کی شرح دیگر طبقات کے مقابلے میں تیزی سے کم ہوئی ہے۔
جب سے اسرائیل اور حماس کا جھگڑا شروع ہوا ہے، آر ایس ایس کے بھگتوں کو مسلمان مخالف ایمونیشن کی ایک نئی کھیپ ہاتھ لگ گئی ہے۔ سات اکتوبر کے بعد سے ہر پانچویں تقریر فلسطینیوں سے نمٹنے کی اسرائیلی حکمتِ عملی کی سراہنا سے بھری ہوئی ہے۔ مثلاً وشو ہندو پریشد کے سربراہ پراوین تگڑیا نے ریاست ہریانہ میں سنگھی بھگتوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس وقت اسرائیل کی باری ہے۔ ہمیں بھی اپنے گلی محلوں میں ایسے ہی فلسطینیوں (مسلمان) کا سامنا ہے اور ان سے اپنی خوشحالی اور عورتوں کو بچانا ہمارے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے‘‘۔ بی جے پی کے ایک رہنما کپل مشرا کے بقول اسرائیل کو آج جس صورتِ حال کا سامنا ہے، ہمیں تو یہ چودہ سو سال سے درپیش ہے۔ بی جے پی حکومت نے آئی ایچ ایل اور ہندوتوا واچ نامی تھنک ٹینک کی ویب سائٹس بھارت کی حدود میں بلاک کر دی ہیں۔ کیونکہ دونوں ویب سائٹس مسلم مخالف سرکاری و سیاسی پروپیگنڈے میں پیش کردہ خود ساختہ حقائق کو مسلسل چیلنج کر کے متوازی بیانیے کو تقویت دے رہی ہیں۔
( ٹیپ کا بند یہ ہے کہ دو روز قبل دلی کے علاقے کھجوری خاص میں بلدیہ کے بلڈوزروں نے وکیل حسن کا گھر تجاوز قرار دیتے ہوئے منہدم کر دیا۔ یہ وہی وکیل حسن ہیں۔ جنہوں نے نومبر میں اپنے ساتھیوں کی ریسکیو ٹیم کی مدد سے اتراکھنڈ میں کوئلے کی ایک کان کی دیواریں منہدم ہونے کے سبب دو ہفتے سے کان میں پھنسے اکتالیس مزدوروں کو بحفاظت زندہ نکال لیا تھا اور اس کارنامے پر وزیرِ اعظم نریندر مودی سے لے کے نیشنل میڈیا تک سب نے ہی وکیل حسن کو ایک قومی ہیرو قرار دیا تھا اور انھیں اور ان کی ٹیم کو چوطرف سے انعامات اور مبارک باد کے پیغامات سے لاد دیا تھا)۔
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
نفرت انگیز مواد پھیلانے کا الزام، علیمہ خان کو ایف آئی اے میں طلبی کا ایک اور نوٹس
عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کوایف آئی اے نے طلبی کا ایک اور نوٹس جاری کردیا۔علیمہ خان کوایف آئی اے کاونٹر ٹیررازم ونگ (سی ٹی ڈبلیو) نے 6فروری کو دن گیارہ بجے طلب کیاہے۔ نوٹس انکوائری نمبر 4/24 کے لیے 160سی آر پی سی کے تحت جاری کیاگیا،نوٹس میں حلیمہ خان پر الیکڑانک و پرنٹ میڈیا کے زریعے ہیٹ میٹر یل پھیلانے مجرمانہ سازش کرکے عوام و فوج میں تقسیم پیدا کرنے کے الزامات ہیں۔ علیمہ خان کو تحقیقات…
View On WordPress
0 notes
Text
🌹🌹 *Gₑₙₜₗₑ Dₑₘₑₐₙₒᵣ*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of*
*love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
6️⃣3️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *GENTLE DEMEANOR*
*The Prophet of Islam ﷺ sent his companions on an expedition and advised them to be gentle with people, the reason being they were sent as facilitators, not as troublemakers.*
(Sahih al-Bukhari, Hadith No. 3038)
*This hadith is related to all those who work in different fields.*
*An officer must work with his subordinates on the same principle.*
*A teacher has to follow this same principle dealing with his students.*
*A manager has to deal with his company along the same lines, and so on.*
*Everyone should keep this advice in mind.*
*A person has been sent by God wherever he finds himself. He should not intend to get people in trouble; he should find a way to make things easier for them.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *نرم مزاجی :*
*نبی کریم ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ کو یمن بھیجا ‘ آپ ﷺ نے اس موقع پر یہ ہدایت فرمائی تھی کہ (لوگوں کے لیے) آسانی پیدا کرنا ‘ انہیں سختیوں میں مبتلا نہ کرنا ‘ ان کو خوش رکھنا ‘ نفرت نہ دلانا ‘ اور تم دونوں آپس میں اتفاق رکھنا ‘ اختلاف نہ پیدا کرنا۔*
(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3038)
*یعنی لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور لوگوں کی پریشانیاں دور کریں اور لوگوں کو مصیبت میں نہ ڈالیں-*
*نبی کریم ﷺ کی یہ ہدایت ان تمام لوگوں کے لئے ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیں۔*
*ایک افسر کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ اسی ہدایت کے مطابق کام کرنا چاہیے۔*
*ایک استاد کو اپنے طلباء کے ساتھ اسی ہدایت کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔*
*ایک مینیجر کو اپنی کمپنی کے ساتھ انہی خطوط پر کام کرنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ ۔*
*ہر کسی کو اس نصیحت کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔*
*ہر ایک انسان کو اللہ سبحان تعالی نے کسی خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اسی لیے ہر انسان کو چاہیئے کہ وہ اپنے آپ کو جس مقام پر بھی پائے ..لوگوں کے لئے مصیبت کا باعث نہ بنے۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور لوگوں کی پریشانیاں دور کرے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
*بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم*
🍁 *نرم مزاجی*
🍂 *نرمی خدا کی صفت اور شان ہے۔*
*اللہ لطیف بعبادہ*
*(اللہ اپنے بندوں پر لطف اور مہربانی فرماتا ہے)*
*بندوں کی ہدایت اور رہنمائی میں بھی نرمی فرماتا ہے ان کی سرکشی، بغاوت اور نافرمانیوں پر بھی نرمی فرماتا ہے۔ ان کے گناہوں اور خطاوں کو معاف فرماتا ہے، اور نافرمانیوں پر بھی نرمی فرماتا ہے۔ ان کے گناہوں اور خطاوں کو معاف فرماتا ہے، بار بار سدھرنے اور سنورنے کا موقع دیتا ہے، گناہ پر یکا یک پکڑ نہیں کرتا، بلکہ سنبھلنے اور اصلاح کرنے کی مہلت بھی دیتا ہے اور اسباب بھی فراہم فرماتا ہے، بندوں کی ضرورتوں اور مصلحتوں کا اس طرح خیال رکھتا ہے اور وہاں وہاں سے ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے کہ بندوں کو اس کا گمان بھی نہیں ہوتا۔*
*پھر بندوں پر نرمی اور لطف کرنے والا رب یہ بھی چاہتا ہے کہ بندے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح نرمی اور سہولت کا معاملہ کریں۔ وہ رفیق اور نرم خو بھی ہے، اور نرمی اور سہولت کو پسند کرنے والا بھی ۔*
*نرمی اور رفق تمام اخلاقی خوبیوں کی روح اور عطر ہے۔ خدا نے جس بندے کو اس دل نواز خوبی سے نوازا ہے گویا اسے ہر خوبی سے نواز دیا ہے اور جسے اس خوبی سے محروم رکھا ہے وہ گویا ہر خوبی سے محروم ہے۔*
🍃 *اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس آدمی کو خدا کی طرف سے نرمی کا حصہ ملا اس کو دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کا حصہ مل گیا اور جو نرمی سے محروم رہ گیا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خیر وبھلائی کے حصے سے محروم رہا‘‘۔*
*اخلاقی زندگی کو دلکشی کمال وجمال، رعنائی اور حیرت انگیز جاذبیت بخشنے والی چیز نرمی اور ملائمت ہی ہے۔*
🍃 *بلکہ خدا کے رسولﷺ نے تو حضرت عائشہؓ سے یہاں تک فرمایا ہے کہ: ’’نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اس کو زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی الگ کرلی جائے اس کو بدنما بنادیتی ہے‘‘۔*
🍃 *یہی بات ہے جس کو خدا کے رسول ﷺ نے یوں بیان فرمایا: "اللہ تعالیٰ جس گھر کے لوگوں کو بھی نرمی صفت سے نوازتا ہے وہ اس صفت کی بدولت انہیں بھلائیاں پہنچاتا ہے اور جس گھر کے لوگوں کو بھی نرمی کی اس صفت سے محروم کرتا ہے ان کو ضرر اور خرابیاں پہنچاتا ہے‘‘۔*
*گویا گھر کے سکون و آسائش اور خیر و برکت کا دراومدار نرمی اور نرم خوئی پر ہے، اور گھر کی خرابی اور اجاڑ پن یہ ہے کہ گھر والے اس جوہری خوبی سے محروم ہوں، جب خدا کسی گھر کے لیے بھلائی مقدر فرماتا ہے تو گھر والوں کو نرم خوئی جیسی عظیم اخلاقی خوابی سے نواز دیتا ہے اور جب کسی گھر کے لیے تباہی اور خرابی مقدر فرماتا ہے تو گھر والوں کو نرمی اور نرم خوئی جیسے جوہر اخلاق سے محروم کردیتا ہے۔*
*زندگی کے اکثر مقامات پر ہم ایسے بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں جو بیجا سختی، غصہ اور تلخ رویے کی وجہ سے ہمیں پسند نہیں آتے اور ہم حتیٰ الامکان ان سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کے مزاج کے لوگ اکثر ایک آسان اور سیدھے سادھے معاملے کو اپنے مزاج کی سختی کے باعث پیچیدہ بنادیتے ہیں۔ بعض دفعہ خود ہمیں بھی ایسی صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس میں ہم جذبات سے مغلوب ہوکر ایسا رویہ اختیار کرلیتے ہیں جو نتیجہ خیز اور کارگر نہیں ہوتا بلکہ معاملے کو مزید گھمبیر بنادیتا ہے۔*
*اسلام کیونکہ دینِ فطرت ہے اس لیے یہ زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال کا حکم دیتا ہے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے امت کو نرم خوئی اور نرم مزاجی کی طرف جتنی اہمیت کے ساتھ متوجہ کیا ہے اس کا اندازہ احادیث مبارکہ سے ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا نصف سے زیادہ حصہ خوش اخلاقی, نرم مزاجی, معاملہ فہمی اور گھر والوں کے ساتھ احسن سلوک پر مشتمل ہے خود رسول اللہ ﷺ نے اس سب کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا اور مثالیں قائم کیں۔*
*حدیثِ مبارکہ میں فرمایا گیا! ” تم (لوگوں) میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تم میں سب سے بہتر ہوں”۔*
*لیکن ہمارے ہاں حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ہمارا رویّہ اکثر اوقات اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی زیادہ خراب ہوتا ہے , چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت زیادہ مشتعل ہوجانا, غصے میں آجانا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے جبکہ ایک گھر میں مل کر رہتے ہوئے ضروری نہیں ہے کہ سب گھر والوں کا مزاج ایک جیسا ہو۔ جب ایک سے زیادہ لوگ مل کر رہتے ہیں تو بہت سی چیزیں فرد کے مزاج اور سوچ کے خلاف بھی ہوتی ہیں, رشتوں کو نبھانے کے لیے بہت سے معاملات میں کمپرومائز کرنا پڑتا ہے ۔ ناگوار باتوں اور جو چیزیں مزاج کے خلاف ہوں انہیں صبر اور تحمل کے ساتھ برداشت کرنے کا حوصلہ ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے غلط باتوں پر غصے میں ٹوکنے کے بجائے نرمی اور محبت سے سمجھائیں دوسرے کو وضاحت کا موقع دیں یاد رکھیں آپ کے اچھے اخلاق کے سب سے زیادہ حقدار آپ کے گھر والے ہیں۔*
*والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی اس حوالے سے تربیت کریں انہیں بتائیں کہ غصہ حرام ہے انہیں یہ بھی بتائیں کہ غصے اور تلخ رویے سے لوگوں کو خاموش تو کرایا جاسکتا ہے لیکن ان کے دل میں جگہ نہیں بنائی جاسکتی, بچوں کے سامنے خود بھی کسی پر غصہ نہ کریں اور حتی الامکان نرم رویہ رکھنے کی کوشش کریں۔*
*اصل خوش اخلاقی تو یہ ہے کہ جب کوئی آپ پر غصہ کرے, خفا ہو یا چیخے چلائے تو آپ خاموش ہوجائیں, تحمل سے برداشت کریں ��و کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن یہ ہمارے نبی ﷺ کا اسوہ ہے اور ہمیں ہر حال میں اپنے نبی ﷺ کے اسوہ کو اپنانا ہے۔*
🍃 *نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ام سلمہ ” اخلاق والے جنت لوٹ کرلے گئے ” پوچھا اخلاق والے جنت کیسے لوٹ کرلے گئے ؟*
*فرمایا: کڑواہٹوں, تلخیوں اور زخم زخم دل کے باوجود جب زبان سے اس کڑواہٹ کا شائبہ تک نہ ہو اور ایک لفظ بھی یہ سوچ کر کہا جائے کہ کسی کی دلآزاری نہ ہوجائے تو رب خود پوچھتا ہے* *"ھل جزاء الاحسان ألا الاحسان؟"*
🍂 *بس اللہ تعالٰی ہمیں اخلاق کے اس درجے کا اہل بنادیں کہ جس کے لئے جنت کی بشارت دی گئی ہے ۔*
*آمین ثم آمین*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
Text
0 notes
Link
نفرت انگیز تقریر پر دیئے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے حکم کے مطابق کام کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ یا تاخیر کو توہین عدالت کے طور پر دیکھا جائے گا اور غلطی کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی نئی دہلی: "ہم سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی آئی ناگ رتنا کے ذریعہ نفرت انگیز تقریر پر دیئے گئے فیصلے کا نوٹس لیتے ہیں۔ ملک میں نفرت پھیلانے، ووٹ حاصل کرنے اور اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے جان بوجھ کر نفرت انگیز تقاریر کرنا کچھ لوگوں کی عادت بن گئی ہے، جس کی وجہ سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے میڈیا کو جاری کردہ ایک بیان میں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نفرت انگیز تقاریر اور بیانات پر قابو پانے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی اور کوتاہیوں کے پیش نظر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جماعت اسلامی ہند اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہے کہ نفرت کو بھڑکانے والی تقریر یا ملک کے امن کو نقصان پہنچانے والا کوئی بھی بیان ایک سنگین جرم ہے جو ملک کے سیکولر تشخص اور اتحاد کے تانے بانے کو متاثر کرتا ہے۔ فیصلے میں درست کہا گیا ہے کہ عدالت کے حکم کے مطابق کام کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ یا تاخیر کو توہین عدالت کے طور پر دیکھا جائے گا اور غلطی کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پروفیسر سلیم نے کہا کہ "جماعت اسلامی ہند کو امید ہے کہ ریاستیں نفرت انگیز تقریر کے واقعات پر ایف آئی آر درج کریں گی اور کسی کی شکایت درج کرنے کا انتظار کیے بغیر قصورواروں کے خلاف کارروائی کریں گی۔" اگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تمام ریاستوں میں نافذ کر دیا جائے تو ملک نفرت انگیز تقاریر کی لعنت سے چھٹکارا پا سکتا ہے۔
0 notes
Text
بڑی تحریک کے کنارے پر
مولا علیؓ فرماتے ہیں کہ "سب سے ذلیل ترین انسان وہ ہے جسے حق اور سچ کا پتہ ہو اور وہ پھر بھی جھوٹ کے ساتھ کھڑا رہے"۔ جب سے قلم تھاما ہے کوشش کی ہے کہ اپنا شمار ذلیل ترین انسانوں میں نہ ہونے دوں۔ سچ یہ ہے کہ لوگوں کا جینا محال ہو چکا ہے، سچ یہ ہے کہ لوگوں کی تنخواہوں سے زیادہ بجلی کے بل آ رہے ہیں، سچ یہ ہے کہ ڈیڑھ برس پہلے ڈالر 176 روپے اور پیٹرول 150 روپے کا لیٹر تھا۔ ظلم یہ ہے کہ آج ڈالر تین سو روپے سے اوپر ہے، ظلم یہ ہے کہ آج پیٹرول بھی قریباً تین سو روپے لیٹر ہے۔ ستم یہ ہے کہ آٹا 170 روپے کلو، کوکنگ آئل 700 روپے، چینی 172 روپے، بجلی کا یونٹ 65 روپے، ڈی اے پی کھاد 10 ہزار، یوریا پینتیس سو روپے، چھوٹی چھوٹی گاڑیاں بائیس سے پچیس لاکھ اور حج اخراجات کم از کم 13 لاکھ روپے ہو چکے ہیں۔ ملک کی حالت یہ ہے کہ ہماری زرعی زمینوں پر 15 سالوں میں دو لاکھ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن گئیں۔ ہمیں گندم، کاٹن، چینی اور دالیں باہر سے منگوانا پڑتی ہیں، کہنے کو تو یہ زرعی ملک ہے مگر یہاں زراعت مشکل ترین بنا دی گئی ہے۔ فیکٹریاں بند پڑی ہیں، کاروبار نہ ہونے کے مترادف ہے، ہماری مقتدر قوتوں کو اس بڑی غلطی کا اعتراف کر لینا چاہئے کہ انہوں نے پچاس ساٹھ برس پہلے جس سیاستدان کو میدان میں اتارا، اس نے نفرت انگیز باتیں کر کے اپنے اقتدار کی ہوس کو تو پورا کر لیا مگر ملک ٹوٹ گیا،
ٹوٹنے والے ملک میں ظلم و ستم ہوا پھر جب 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئی تو بنگال کا شیخ مجیب الرحمٰن یہاں نہیں آنا چاہتا تھا ، اس نے کانفرنس میں نمائندگی کے لئے اپنا وزیر خارجہ نامزد کیا مگر یہاں خواہشیں پنپ رہی تھیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن شریک ہوں پھر اس خواہش کو دوام بخشنے کیلئے مصر کے انور سادات اور فلسطین کے یاسر عرفات خصوصی طیارے میں ڈھاکہ گئے اور قیام پاکستان کی جدوجہد میں مصروف رہنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کو طیارے میں بٹھا کر لے آئے۔ لاہور میں ہوائی اڈے پر اس شخص نے شیخ مجیب الرحمٰن کا استقبال کیا جسے وہ Butcher of Bangal کہتا تھا۔ اس کانفرنس کے موقع پر لوگوں نے دیکھا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا، شیخ مجیب الرحمٰن کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر خوش گپیاں لگاتا رہا اور پاکستان سے محبت کرنے والوں کے سینوں پر مونگ دلتا رہا۔ اسی نے فیکٹریوں اور اداروں کو نیشنلائز کر کے پاکستانی معیشت کا گلا گھونٹ دیا تھا، رہی سہی کسر اداروں میں یونینز بنا کر پوری کر دی گئی۔
ضیائی آمریت میں ہماری مقتدر قوتوں نے لاہور کے ایک کاروباری شخص کا بچہ متعارف کروایا، اس بچے کی پرورش کی گئی، اسی دور میں ہر ادارے میں کرپشن متعارف کروائی گئی اور پورا نظام کرپٹ کر دیا۔ آج پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں ہر جگہ کرپشن نظر آتی ہے، جونکیں ہمارا خون چوس رہی ہیں۔ 80ء کی دہائی ��ے شروع ہونے والا لوٹ مار کا یہ کھیل ہمارا خزانہ چاٹ گیا، کاروباری نے کاروباریوں کو کروڑوں اربوں کے قرضے دے کر معاف کر دیئے، اس نے ایک معیشت کا ماہر متعارف کروایا، اس نے ہماری معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا، اس نے ایس آر اوز کا کھیل کھیلا، کبھی فارن کرنسی اکاؤنٹ سیل کئے، ملک مقروض ہوتا چلا گیا اور حکمرانوں کی جائیدادیں اور پیسہ دنیا بھر میں پھیلتا گیا۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ 1951ء میں ڈالر 3 روپے کا تھا، 1972ء میں 5 روپے اور 1985ء میں 12 روپے کا تھا، بس اسکے بعد "ماہرین" نے ڈالر کو پر لگا دیئے۔ آج ہم سوچتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے کلب، نوے ہزار گاڑیاں، 220 ارب کا مفت پیٹرول، واپڈا ملازمین کی ساڑھے پانچ ارب کی مفت بجلی اور اس کے علاوہ باقی مفت بروں کی مفت بجلی ہماری معیشت پر بوجھ ہے ورنہ ہمارا خزانہ کمزور نہیں تھا۔
سوئٹزرلینڈ ہمارے شمالی علاقہ جات سے نصف ہونے کے باوجود ساٹھ سے ستر ارب ڈالر صرف سیاحت سے کماتا ہے، ہم کیوں نہ ایسا کر سکے؟۔ ڈیڑھ برس پہلے کہنے کو مہنگائی تھی مگر خود کشیوں کا موسم نہیں تھا۔ مقتدر قوتوں کے متعارف کروائے گئے ماہرین کے 16 مہینے ایسے لگے کہ آج میرے دیس کے آنگن میں غربت، بیروزگاری اور بھوک کا بسیرا ہے، خودکشیوں کی خبریں آ رہی ہیں، جرائم بڑھتے جا رہے ہیں، 16 ماہ کی حکومت لوگوں کو احتجاج پہ لے آئی ہے۔ احتجاج تک لانے میں ظالمانہ پالیسیوں کا مرکزی کردار ہے، لوگوں کے لبوں سے روٹی چھن گئی، صحت اور تعلیم کے خواب بکھر گئے، روزگار اجڑ گیا، دھرتی پر ہونے والا ظلم لوگوں کو ایک بڑی احتجاجی تحریک کے کنارے پر لے آیا ہے۔ لوگ بھی کیا کریں، آمدنی سے کہیں زیادہ ٹیکس اور بل ہیں۔ ان کے پاس بھی احتجاج کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ بقول جہانزیب ساحر
ہماری آنکھیں اداس غزلوں کے قافیے ہیں ہمارا چہرہ پرانے وقتوں کی شاعری ہے
یہ صرف حرفوں کی تابکاری کا زہر کب ہے خدا کے بندو! یہ ہم غریبوں کی شاعری ہے
مظہر برلاس
بشکریہ روزنامہ جنگ
#Economic crisis#Economy#Electricity bills#Electricity crisis#K Electric#Pakistan#Pakistan Economy#WAPDA#World
0 notes
Photo
اندک خانه های برجا مثل سراب در کویر میماند در میان انبوه زشتی شهری بی برنامه و سازندگانی به غایت نفرت انگیز این خانه ها لنگر گاه تنفسند #تهران #معماری #آرشیتکت #شهر #خیابان_گردی #بجامانده #تهرانگردی #زیبایی_حقیقی (at Shariati's River رودخانه شریعتی (زرگنده)) https://www.instagram.com/p/CprUw9gOwqp/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Photo
مقام و منزلت و کرامت انسانی زن در دو رژیم: رسیدن به مقام خلبانی و ارزشمندی این افتخار در رژیم ایرانساز شاهنشاهی و زن ستیزی رژیم نفرت انگیز جمهوری کثیف آخوندی. #زن_زندگی_آزادی https://www.instagram.com/p/CpcS11SuqLa/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Text
دہلی پولیس پر پھر پھٹکار - Siasat Daily
سپریم کورٹ نے دہلی پولیس کی عملا سرزنش کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہلی میں 2021 کے نفرت انگیز تقریر کے کیس میں چارج شیٹ پیش کی جانی چاہئے ۔ چیف جسٹس ‘ جسٹس چندرا چوڑ کی قیادت والی ایک بنچ نے دہلی پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی بے عملی اور لاپرواہی کا یہ عالم رہا کہ اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کیلئے بھی پانچ ماہ کا وقت لیا گیا ۔ عدالت نے چارج شیٹ پیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے دہلی پولیس سے…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا اسرائیل پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مقدمہ چلنا چاہیے؟
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر، اتحادی طاقتوں نے لندن چارٹر کے تحت نیورمبرگ اور بعدازاں ٹوکیو میں ایک بین الاقوامی فوجی ٹربیونل قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ نازی جرمنی اور جاپان کے جنگی مجرموں پر مقدمہ چلایا جاسکے۔ ان ٹرائلز میں تین اقسام کے جرائم کے تحت اعلیٰ افسران پر مقدمات چلائے جارہے تھے، وہ ’امن کے خلاف جرائم‘، ’جنگی جرائم‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ تھے۔ اگرچہ روایتی ’جنگی جرائم‘ کو اس وقت موجود جنگ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا لیکن ’امن کے خلاف جرائم‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ لندن چارٹر میں امن کے خلاف جرائم کو بین الاقوامی معاہدوں یا یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جارحیت یا جنگ کی ’منصوبہ بندی، تیاری، آغاز یا اسے چھیڑنے‘ کی کارروائیوں کے طور پر درجہ بند کیا گیا۔ اسی طرح انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں جنگ سے پہلے یا اس کے دوران کسی بھی ’شہری آبادی کے خلاف قتل و غارت، غلامی، ملک بدری اور سیاسی، نسلی یا مذہبی بنیادوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور دیگر غیرانسانی سلوک‘ شامل تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب ترقی یافتہ ممالک نے محسوس کیا کہ تنازعات کو کنٹرول کرنے والے موجودہ قوانین جنگ میں ہونے والے ہولناک جرائم سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس طرح بین الاقوامی تنازعات کو کنٹرول کرنے والے ایک کے بعد ایک متعدد قوانین متعارف کروائے گئے۔
انہیں عرف عام میں ’بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین‘ کہا جاتا تھا۔ ان قوانین کا بیان کردہ مقصد یہ طے کرنا ہے کہ مسلح تصادم کے وقت بھی شہریوں، طبی عملے، بچوں اور نہتّے لوگوں کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے اور بیان کیا گیا ہے کہ اس دوران کیا کیا جاسکتا ہے اور کیا نہیں کیا جاسکتا۔ کم از کم کاغذوں کی حد تک بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کا مقصد مسلح تصادم کو کنٹرول کرنا ہے، یہ قوانین اس وقت غزہ کی ہولناک صورتحال پر لاگو ہوتے ہیں۔ اس تنازع میں اسرائیل جارح ہے، وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین میں شامل 21 قوانین کا دستخط کنندہ ہے اور ان کی توثیق کر چکا ہے۔ ان قوانین میں عام شہریوں سے متعلق جنیوا کنونشن، بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن، جنگی قیدیوں سے متعلق جنیوا کنونشن، مسلح تصادم میں بچوں کی شمولیت سے متعلق اختیاری پروٹوکول، بعض روایتی ہتھیاروں سے متعلق کنونشن، کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق کنونشن، ثقافتی املاک کے تحفظ سے متعلق ہیگ پروٹوکول اور نسل کشی کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن شامل ہیں۔ یہ قوانیں اسرائیل پر نہتّے شہریوں بالخصوص بچوں کا تحفظ یقینی بنانا لازمی قرار دیتے ہیں۔
یہ قوانین مسلح تصادم میں ملوث ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ طبی عملے کی حفاظت کی جائے گی، اسپتالوں کو جارحیت سے محفوظ رکھا جائے گا اور جنگ کے دوران ثقافتی املاک کو محفوظ رکھا جائے گا۔ اب ان قوانین کی رو سے غزہ میں سامنے آنے والی تباہی، قتل و غارت اور بے بسی کی تصاویر دیکھیں۔ غزہ سے آنے والی رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اسرائیل نے منظم طریقے سے غزہ کے تمام اسپتالوں پر بمباری کی ہے اور سیکڑوں ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کو قتل کر کے ان اسپتالوں کو غیرفعال بنایا ہے۔ اس نے غزہ کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک پر بھی بمباری کی ہے جس میں درجنوں پناہ گزین افراد مارے گئے۔ اس فہرست میں معصوم بچوں، صحافیوں اور امدادی کارکنوں سمیت شہریوں کی ٹارگٹڈ اور نفرت انگیز ہلاکتوں کو بھی شامل کر دیں تو ہمارے سامنے ایک ایسا ملک آجاتا ہے جو جان بوجھ کر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اسرائیل نے نسل کشی کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کی توثیق کی تھی۔ اس قانون میں ’نسل کشی‘ کی تعریف کسی گروہ کے اراکین کو مارنے، یا انہیں شدید جسمانی یا ذہنی نقصان پہنچانے کی کوشش کے طور پر بیان کی گئی ہے اور وضاحت کی گئی کہ ’نسل کشی ایک ایسا عمل ہے جو [کسی گروہ کی] تباہی کے لیے انجام دیا جائے‘، اور ’ایسے اقدامات کو مسلط کیا جائے جن کا مقصد کسی مخصوص گروہ میں پیدائش کو روکنا ہو‘۔
اب مذکورہ تعریف کا اطلاق غزہ پر کریں۔ کیا ایسی بے شمار مثالیں موجود نہیں ہیں جہاں اسرائیلی سیاست دانوں اور میڈیا کی شخصیات نے فلسطینیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جس کے بعد ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں بے دردی سے قتل کیا گیا؟ کیا اسرائیل نے مجبوراً نہیں بلکہ قصداً غزہ کو تباہ کرنے کی نیت سے بجلی مواصلات، پینے کے صاف پانی اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات بند نہیں کیں؟ کیا غزہ میں زیتون اور اسٹرابیری کے باغات کو اجاڑنے کی مہم نہیں چلائی گئی؟ ان تمام مثالوں کو جب بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا ارتکاب کررہا ہے جس میں ایسی طاقتوں کی مدد اور حوصلہ افزائی شامل ہے جو کچھ عرصہ قبل خود کو انسانی حقوق کا چیمپیئن کہتی تھیں۔ نیورمبرگ اور ٹوکیو ٹرائلز کے دوران یہ امید کی گئی تھی کہ ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ دوبارہ کبھی سرزد نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود تقدیر دیکھیں کہ ایک ایسا ملک جو ان لوگوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے جن پر ظلم و ستم کے بعد یہ قوانین بنائے گئے، اب خود ان تمام قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ تو اب یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ اسرائیلی ریاست کے اقدامات کے ذمہ داران پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کا مقدمہ چلنا چاہیے، عالمی عدالت انصاف کے ذریعے ان فلسطینیوں کو انصاف ملنا چاہیے جن کے زخم ابھی تازہ ہیں۔
سید شہریار رضا زیدی
یہ مضمون 23 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
سوشل میڈیا پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والوں کی گرفتاریاں متوقع
سوشل میڈیا پرعدلیہ کو بدنام کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ حساس اداروں کے افسران نے اس حوالے سے ’پلان آف ایکشن‘ سربراہ جے آئی ٹی کو پیش کردیا۔ عدلیہ مخالف نفرت انگیزمواد کی روک تھام کیلئے تشکیل دی جانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی میٹنگ ایف آئی اے ہیڈ کوارٹراسلام آباد میں ہوئی۔ ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے کی سربراہی میں جے آئی ٹی میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ عدلیہ کو…
View On WordPress
0 notes