#مورخ
Explore tagged Tumblr posts
Text
تاریخ نگاری اسلامی-نگاهی به کتاب اف رابینسون
تاریخ نگاری اسلامی-نگاهی به کتاب اف رابینسون http://wp.me/p2iGa8-2S
سیر تاریخ نگاری در اسلام یکی از مورد علاقه های من برای مطالعه تاریخ بوده و هست. کما اینکه به تاریخ فقه و فقها نیز علاقه مندم . به طور کلی مطالعه ی سیر تاریخ یک علم به خصوص در علوم همچون تاریخ،فقه و اصول در نتیجه گیری های دقیق در آن علم نیز تاثیری عمیق دارد. چند وقت پیش کتاب تاریخ نگاری در اسلام نوشته دکتر سید صادق سجادی و هادی عالم زاده را مطالعه می کردم.به نظرم این کتاب در تاریخ نگاری اسلامی…
View On WordPress
0 notes
Text
وہ امریکہ اب نہیں رہا
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان صدارتی انتخاب ایک حقیقت کے سامنے بے بس تھا اور وہ ہے اکیسویں صدی میں امریکہ کی مسلسل تنزلی۔ امریکہ نے اپنی قیادت، اعتماد، اخلاقی ساکھ اور اقتصادی برتری کھو دی ہے۔ 20 جنوری 2025 کو صدر ٹرمپ ایک ہی وقت میں امریکی گھمنڈ کے تازہ ترین علمبردار اور امریکی تنزلی کے جنازہ بردار کا حلف اٹھائیں گے۔ 1987 میں پال کینیڈی کی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف دی گریٹ پاورز‘ نے اس وقت تنازعہ کھڑا کیا جب اس نے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ یعنی طاقت سے زیادہ غیر معمولی پھیلاؤ کو امریکی زوال کی ممکنہ وجہ قرار دیا۔ اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی پریشانی کا باعث جاپان تھا، جو اپنی نمایاں دولت، جدید ٹیکنالوجی اورمعاشی انتظام کے نئے طریقوں کے ساتھ امریکہ کو چیلنج کر رہا تھا۔ 1989 کا اہم سال افغانستان سے سوویت یونین کی واپسی کے ساتھ شروع ہوا۔ فرانسیس فوکویاما نے اپنے مضمون ’دی اینڈ آف ہسٹری‘ میں لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کی تاریخ میں حتمی فتح کا اعلان کیا۔ دیوارِ برلن نومبر 1989 میں گری اور اس کے ساتھ ہی سوویت استبداد کا پردہ بھی گر گیا۔ امریکی فاتحین نے دعویٰ کیا کہ سوویت یونین نے ’اوور سٹریچ‘ کا شکار ہو کر شکست کھائی۔
سوویت یونین کی جانب سے 1990 میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد پر اتفاق اور صدام حسین کے کویت پر حملے نے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو جنم دیا۔ 1991 کا سال عراق میں امریکہ کی فتح سے شروع ہوا اور سوویت یونین کی تحلیل پر ختم ہوا۔ 1991 سے 2001 کا عشرہ امریکہ کے ہائپر پاور ہونے کا دور تھا۔ سوویت یونین کے بکھرنے، چین کی کمزوری اور انٹرنیٹ کے کمرشل استعمال میں آنے سے امریکہ نے ’غیر معمولی عظمت‘ کا لطف اٹھایا جیسا کہ ایڈورڈ گِبن نے اپنی کتاب ’دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر‘ میں بیان کیا۔ امریکہ کے سامنے کوئی حریف نہیں تھا یوں لگتا تھا کہ 20ویں صدی کی طرح 21ویں صدی میں بھی امریکہ ہی مستقبل کی طاقت ہو گا۔ ستمبر 2001 کی ایک صبح، کئی سو سالوں سے موجود امریکی رجائیت اور اعتماد دہشت گردی کے سامنے ڈھیر ہو گئے اور ان کی جگہ تکبر اور تنگ نظر قومیت پرستی نے لے لی، جس کا اظہار امریکی ووٹروں نے ایک مرتبہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا ہے۔ 21ویں صدی کے پہلے عشرے میں دو جنگوں اور دو اقتصادی واقعات نے امریکی زوال کوتیز تر کیا۔
اس وقت کی واحد سُپر پاور نے افغانستان پرغیظ وغضب کے ساتھ اور عراق پر تکبر کے ساتھ حملہ کیا۔ امریکہ کو دونوں جنگوں میں شکست ہوئی۔ 2003 میں عراق پرامریکی حملہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے سوویت یونین پر حملے کے بعد جنگی حکمت عملی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ افغانستان میں امریکہ کی شکست دہائیوں پر محیط، کئی کھرب ڈالر کی فوجی، تکنیکی، سٹریٹیجک اور سیاسی تباہی تھی۔ عراق اور افغانستان نے پروفیسر کینیڈی کے نظریے ’امپیریل اوور سٹریچ‘ کی تصدیق کر دی۔ 2000 میں چین کی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) میں شمولیت اور 2008 کے مالیاتی بحرا�� نے امریکہ کو 9/11 سے زیادہ کمزور کیا۔ چین کی ڈبلیو ٹی او میں شمولیت نے امریکی صنعت کو کھوکھلا کر دیا۔ 2010 تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا۔ 2024 میں چینی معیشت جاپان، بھارت اور جرمنی کی مشترکہ معیشت سے بڑی ہو چکی ہے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے مغربی اقتصادی ترقی کو تقریباً دو دہائیوں کے لیے سست کر دیا اور نیولبرل جمہوریت اور اس کی اقتصادی شاخ، گلوبلائزیشن میں مغربی عوام کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔
جب مغربی جمہوریتوں کے ووٹر جمہوریت پر سوال اٹھا رہے تھے، چین ہر سال نہیں بلکہ ہر دہائی میں معاشی ترقی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔ امریکہ اور مغرب نے اشتراکیت کے خلاف سرد جنگ اس لیے نہیں جیتی کہ ان کے نظریات بہتر تھے، بلکہ اس لیے جیتی کہ وہ دہائیوں تک کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں زیادہ دولت مند اور تکنیکی طور پر جدیدیت کے حامل تھے۔ چینی معاشی کارکردگی نے لبرل جمہوریت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی جدت کے درمیان مغرب کا رشتہ کاٹ کر رکھ دیا ہے، کوئی تعجب نہیں کہ دنیا بھر میں ووٹر استبدادی عوامی قیادت کی طرف رجوع کر رہے ہیں، چاہے وہ انڈونیشیا ہو، بھارت ہو، ہنگری ہو، یا اب امریکہ ہو۔ امریکہ کی تنزلی کا آخری پہلو اخلاقی ہے جسے مورخ ایڈورڈ گِبن نے ’معاشرتی فضائل‘ کی کمی لکھا تھا۔ سیاہ فاموں کی غلامی سے لے کرعراق کی ابو غریب جیل میں انسانی حقوق کی پامالی تک، امریکی طرز عمل میں منافقت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ تاہم سرد جنگ کے دوران، جب تک سوویت یونین اور اس کے اتحادی اپنے شہریوں کی آزادیوں کو دباتے، ان کے اقتصادی حقوق چھینتے اور ان کی غریبی میں اضافہ کرتے رہے اور اس کے برعکس امریکہ ضرورت مند ممالک کی مدد کرتا رہا، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں کی اخلاقی ہولناکی کو نظرا نداز کیا جاتا رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نے نئے بین الاقوامی اداروں کی تخلیق اور قیادت کی جو جنگ کو روکنے اور غریب ممالک کی مدد کے لیے بنائے گئے تھے۔ اقوام متحدہ، آئی ایم ایف، نیٹو اور ورلڈ بینک اس کی اہم مثالیں ہیں۔ ان اداروں کے فوائد پر بحث ہو سکتی ہے۔ جو چیز بحث سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ یہ ادارے امریکی اولیت کو مضبوط کرتے ہیں اور ساتھ ہی امریکہ کو دوسرے ملکوں کو اخلاقی بھاشن دینے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ اپنے حواری ملکوں کو کئی دہائیوں سے تحفظ فراہم کر رہا ہے، بین الاقوامی معاشی معاملات میں امریکہ نے ’قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظام‘ کی تخلیق کی اور اس کا دفاع کیا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کو ایک اخلاقی جنگ میں تبدیل کیا، جس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے بیانیے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کی تنزلی صرف افغانستان اور عراق میں ہی نظر نہیں آتی بلکہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کی ابتدا 1971 میں سونے کے معیار کو زبردستی ترک کرنے سے ہوئی۔ 1973 میں اوپیک تیل کے بائیکاٹ سے اس تنزلی میں تیزی پیدا ہوئی جوکہ 1974 میں صدر نکسن کے استعفے اور 1975 میں ویت نام سے شرمناک انخلا سے تیز تر ہوئی۔
1970 کی دہائی میں امریکی تنزلی کا اثر امریکی شہروں میں واضح طور پر نظر آیا۔ معاشرتی طور پر 1995 میں اوکلاہوما پر بمباری، 2005 میں قطرینا طوفان اور کووڈ 19 کے دوران 12 لاکھ سے زیادہ امریکیوں کی ہلاکت نے اس تنزلی کو دنیا پر واضح کر دیا۔ آج دنیا کے مستقبل کا استعارہ امریکی شہر نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے شہر ہیں۔ امریکہ آج بھی دنیا میں فوجی اخراجات اور پوری دنیا میں فوجی طاقت کی موجودگی میں سب سے آگے ہے۔ امریکہ اپنے دفاع پر اگلے آٹھ ممالک سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ دفاعی اعتبار سے امریکہ اب بھی واحد سپر پاور ہے۔ امریکی معیشت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے، جس کی موجودہ سب سے بڑی طاقت انٹرنیٹ پر مبنی ہے۔ ہالی وڈ اور مقبول ثقافت کی نرم طاقت ابھی تک پُراثر ہے۔ امریکی ڈالر دنیا کی غالب کرنسی ہے اور امریکی استعمار کو قائم رکھنے میں طاقتور ہتھیار ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن روم کی سلطنت کی طرح اس کا انہدام ابھی نظر نہیں آ رہا لیکن امریکی قوم کی سخاوت، کشادگی اور روح کے وسیع پن کا انہدام ہو گیا ہے۔
امریکی سیاسی قیادت کا معیاراتنی تیزی سے گرا ہے جتنا کہ اس کی جمہوریت کا معیار، جس کی واضح مثال 6 جنوری 2021 کو امریکی کانگرس پر ہونے والا مسلح حملہ ہے۔ اکتوبر 2023 کے بعد امریکہ نے اپنی اخلاقی حیثیت کے آخری چیتھڑے بھی کھو دیے ہیں، جب اس نے وہ ہتھیار فراہم کیے جو غزہ میں 42 ہزار سے زائد بے گناہ، نہتے انسانوں اور بچوں کی جان لے چکے ہیں اور جب امریکہ نے انسانی حقوق کو ملیامیٹ کرنے والی نسل کشی، ظالمانہ بمباری، جبری بے دخلی اور سفاک قتل عام پر آنکھیں بند کر لیں۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی صورت حال میں واپس جا رہا ہے، یعنی دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے درمیان ایک طاقت، لیکن ہم نے پچھلی دہائیوں میں ایک کھلا، سخاوت سے بھرا اور خوش آمدید کہنے والا امریکہ بھی دیکھا ہے جو اپنی تمام خامیوں کے باوجود اپنے بنیادی جمہوری تصورات اور انسانی اصولوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ امریکہ اب نہیں رہا۔
خرم دستگیر خان خرم دستگیر مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر برائے خارجہ امور اور سابق وزیرِ دفاع رہ چکے ہیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
2 notes
·
View notes
Photo
دیوار نوشته ای در #مشهد : تقاص خون#مجید_رضا_رهنورد چند سپاهی است؟ مطالبهای است در برابر #روح_الله_عجمیان که مشخص نیست چقدر از جوانان آزادیخواه را در #آبان۹۸ و اعتراضات اخیر کشته! حالا که دیگر شکی نیست او روز چهلم #حدیث_نجفی برای جنگ با مردم به خیابون و بین مردم فرستاده شده بود که کشته شد. حالا هم خانواده اش راهش را ادامه می دهند و به خونخواری مشغولند؛در روزهای گذشته خانواده #عجمیان بسیجی سرکوبگر کشته شده در #چهلم_حدیث_نجفی در #کرج به دادگاه انقلاب مراجعه کردهاند و از تعدیل در اجرای حکم اعدام مابقی متهمان ابراز گلایه و شکایت کردهاند. گفتنی است در رابطه با پرونده قتل #روح_الله_عجمیان که تاکنون نیز مشخص نشده کار چه کسی است، تاکنون ۱۶ متهم به احکام اعدام و یا حبس های طولانی مدت محکوم شدند. مورخ ۱۷ دی ماه، دو تن از متهمان این پرونده به نام های #محمد_مهدی_کرمی و #سید_محمد_حسینی اعدام شدند و احکام اعدام صادره برای سه متهم دیگر به نام های #حمید_قره_حسنلو ، رضا آریا و حسین محمدی، پس از نقض در دیوان عالی کشور جهت رسیدگی مج��د به شعبه هم عرض ارسال شد. این اقدام حتی خلاف رویه قضایی جمهوری اسلامی و شرع است و مشخص نیست برای مرگ یک نفر چند حکم اعدام دیگر باید صادر شود؟ برای قاتل مردم عجمیان تابحال ۲ نفر را اعدام کردید و ۱۶ حکم دادهاید ملت برای تقاص مجبد رضا چند سپاهی باید بکسند؟ #مهسا_امینی #انقلاب_آزادی_ایران @irbr.news https://www.instagram.com/p/CqYpoe6MqsL/?igshid=NGJjMDIxMWI=
#مشهد#مجید_رضا_رهنورد#روح_الله_عجمیان#آبان۹۸#حدیث_نجفی#عجمیان#چهلم_حدیث_نجفی#کرج#محمد_مهدی_کرمی#سید_محمد_حسینی#حمید_قره_حسنلو#مهسا_امینی#انقلاب_آزادی_ایران
7 notes
·
View notes
Text
همکاری محسن یگانه با کلاهبردار تحت تعقیب اینترپل؛ پاسخ تیم خواننده مطرح کشور چیست؟
قطعه جدید محسن یگانه با همکاری یک کلاهبردار معروف منتشر شد؛ موضوعی که حواشی زیادی را برای این خواننده پرطرفدار کشور به دنبال داشته است.
بهتازگی قطعه جدید محسن یگانه، خواننده پرطرفدار کشور با آهنگسازی بهروز صفاریان منتشر شد. همهچیز در نگاه اول عادی به نظر میرسد تا جایی که به گزارش بهمن بابازاده در ایکس (توییتر سابق)، خبرنگار حوزه موسیقی، نام یکی از کلاهبرداران کلان چند سال اخیر در لیست افراد دخیل در تولید این اثر به چشم میخورد.
محسن یگانه با کلاهبردار تحت تعقیب همکاری کرده است؟
در کپشن پست اینستاگرامی محسن یگانه درباره قطعه جدید خود با نام «بترس»، نام فرزین فردین فرد بهعنوان مسئول میکس و مستر ذکر شده بود که در حال حاضر حذف شده است. حضور نام فرزین فردین فرد در کنار دستاندرکاران بهدلیل سابقه آشکار او، حواشی زیادی را حول محور این خواننده نامدار به وجود آورده است.
بهمن بابازاده در ابتدا از طریق حساب خود در ایکس به موضوع همکاری محسن یگانه با فرزین فردین فرد اشاره کرد. بابازاده کمی بعد با انتشار توییت دیگر اظهار داشت که صفحههای ایکس و اینستاگرام او با حجمی از ریپورتهای هدایتشده مواجه شدهاند و در آخر ایکس توییت اصلی او را حذف و نسبت به تعلیق حسابش هشدار داده است.
وبآموز، رسانه فعال در حوزه جرائم سایبری با مدیریت محمد جرجندی از مدتها قبل به تفصیل جزئیات کلاهبرداری فرزین فردین فرد در پوشش یونیک فایننس را افشا کرده بود. در واقع از سالها قبل این رسانه پیگیر پرونده یونیک فایننس بوده و اخیراً پس از همکاری محسن یگانه با گرداننده آن، محمد جرجندی از طریق حساب شخصی توییتر خود این موضوع را اطلاعرسانی کرد.
با استناد به اطلاعیه وزارت اطلاعات مورخ 16 آبان 1400 منتشرشده در خبرگزاری مهر، فرزین فردین فرد گرداننده یک شرکت حرمی با عنوان «یونیک فایننس» (Unique Finance) است. ��ر سال 1400 پروندهای برای اعضای اصلی این شبکه که با دریافت مبالغ کلان از مردم به روش پانزی از آنها کلاهبرداری کرده بودند تشکیل شد و محکومیت و حبس طولانیمدت آنها را به دنبال داشت. حتی ذبیح الله خدائیان، سخنگوی قوه قضاییه در آذر 1400 ضمن اشاره مستقیم به نام فرزین فردین فرد، از شناسایی و بازداشت بالغ بر 150 نفر از سرشبکههای یونیک فایننس در 19 استان کشور خبر داد.
فرزین فردین فرد و سایر مدیران یونیک فایننس که ساکن کشورهای همسایه بودند، آن را بهعنوان شرکتی بینالمللی در حوزه خرید و فروش سهام در بورسهای خارجی معرفی کردند و در پی ساخت شبکه هرمی خود، ارز دیجیتال UNQT را هم عرضه کردند. آنها مثل هر کلاهبرداری پانزی دیگری که کوروش کمپانی پرسروصداترین مورد اخیرشان بود، وعده پرداخت سود غیرمعمول در ازای مبلغ سرمایهگذاری شده را به مشتریان میدادند. در نهایت اعلان قرمز برای آنها از سوی اینترپل صادر شد.
گزارشها حکایت از این دارند که فرزین فردین فرد، فردی که بارها توسط مراجع رسمی از آن بهعنوان عامل کلاهبرداری نام برده شده، از مردم ایران و حتی بقیه کشورهای منطقه بیش از 5 میلیارد دلار کلاهبرداری کرده است. او که هنوز تحت تعقیب قرار دارد، بهعنوان مهندس صدا با لقب 3F فعالیت میکند و در صفحه اینستاگرام او میتوان انواع تصاویر در استودیو با خوانندگان دیگر را مشاهده کرد.
واکنش تنظیمکننده قطعه به اتهامات
دست کم تا زمان نگارش این مطلب محسن یگانه واکنشی به موضوع همکاری با فرزین فردین فرد نشان نداده و صرفاً به حذف نام او از لیست دستاندارکاران بسنده کرده است. با وجود این، بهتازگی بهروز صفاریان با انتشار یک استوری در صفحه اینستاگرام خود به این موضوع نشان داد.
بهروز صفاریان میگوید تصمیمگیری درباره امور مختلف یک پروژه شامل میکس و مستر تماماً بر عهده تهیهکننده قرار دارد. آنطور که او اشاره کرده، لزوماً خواننده نظارتی بر کار تهیهکننده ندارد. با توجه به گفتههای او در این استوری، به نظر میرسد محسن یگانه یا حتی بقیه عوامل از جمله خود او از سابقه فرزین فردین فرد در کلاهبرداری پانزی آگاهی نداشتهاند.
1 note
·
View note
Text
امریکہ کا نیا صدر کون ہو گا؟ 10 میں سے 9 مرتبہ صدارتی الیکشن کی درست پیشگوئی کرنے والے ماہرنے بڑا دعویٰ کر دیا
نیویارک (ڈیلی پاکستان آن لائن )امریکی صدارتی انتخابات سے چند گھنٹے قبل مستقبل پر نظر رکھنے والے پنڈتوں نے کملا ہیرس کے صدر بننے کی پیش گوئیاں کردیں۔ تفصیلات کے مطابق 10صدور میں سے 9کی درست پیش گوئی کرنے والے امریکی مورخ لچ مین نے پیش گوئی کی ہے کہ ٹرمپ کو شکست ہوگی، 1986کے بعد سے لچ مین کی صرف ایک بار 2000 میں پیش گوئی غلط ثابت ہوئی ۔ ٹرمپ کی 2016 ء میں جیت کی پیش گوئی کرنے والے تھامس ملر کا…
#الیکشن#امریکہ#بڑا#پیشگوئی#درست#دعوی#دیا#سے#صدارتی#صدر#کا#کر#کرنے#کون#کی#گا#ماہرنے#مرتبہ#میں#نیا#ہو#والے
0 notes
Text
ابلاغ مصوبه نهایی قیمت شیر خام درب دامداری ها
با توجه به تصمیمات اتخاذ شده در کارگروه تنظیم بازار مورخ 1403/03/22 و تصویب آن توسط ستاد تنظیم بازار کشور در تاریخ 1403/06/25، نرخ نهایی هر کیلوگرم شیر خام درب دامداری با چربی 3/2٪ به مبلغ 180/000 ریال تعیین گردیده است.
این مصوبه که در راستای حمایت از تولیدکنندگان و تضمین استمرار تولید شیر خام در کشور صورت گرفته است، به منظور اجرا به تمامی سازمان های جهاد کشاورزی استان ها ابلاغ شده است. همچنین، مقرر گردیده است که سازمان های مذکور بر حسن اجرای این مصوبه نظارت نمایند. لازم به ذکر است که قیمت چربی و سایر محصولات لبنی نیز در مراحل بعدی اعلام خواهد شد.
منبع:
0 notes
Text
دانلود pdf کتاب ۴۸ قانون قدرت
کتاب ۴۸ قانون قدرت اثر رابرت گرین، نویسنده و مورخ آمریکایی، یکی از پرفروشترین و جنجالیترین کتابهای حوزه سیاست و قدرت است. این کتاب که اولین بار در سال ۱۹۹۸ منتشر شد، به ارائه راهکارهایی برای کسب و حفظ قدرت در دنیای رقابتی و بیرحم میپردازد.
محتوای کتاب
کتاب ۴۸ قانون قدرت از 48 بخش کوتاه تشکیل شده که هر کدام به بیان یکی از قوانین قدرت میپردازد. این قوانین بر اساس مطالعات تاریخی و بررسی زندگی شخصیتهای قدرتمند در طول تاریخ تدوین شدهاند.
برخی از قوانین مطرح شده در این کتاب عبارتند از:
قانون 1: مخفی نگه داشتن نیتهایتان: در دنیای قدرت، افراد زیادی هستند که به دنبال سوء استفاده از شما هستند. بنابراین، مهم است که نیتهای خود را تا حد امکان مخفی نگه دارید.
قانون 3: هرگز به دوستان بیش از حد اعتماد نکنید: دوستان میتوانند به دشمنان تبدیل شوند. بنابراین، ��رگز به آنها بیش از حد اعتماد نکنید و همیشه مراقب آنها باشید.
قانون 12: هرگز با افراد حقیر معاشرت نکنید: افراد حقیر میتوانند شما را به سطح خود پایین بکشند. بنابراین، از معاشرت با آنها خودداری کنید.
قانون 21: هرگز با یک احمق رقابت نکنید: احمقها میتوانند کارهایی انجام دهند که شما هرگز فکرش را هم نمیکنید. بنابراین، هرگز با آنها رقابت نکنید.
قانون 27: از ظاهری ساده و بیآزار استفاده کنید: افراد قدرتمند اغلب ساده و بیآزار به نظر میرسند. بنابراین، از ظاهری ساده و بیآزار استفاده کنید تا دیگران را فریب دهید.
قانون 42: هرگز به دیگران اجازه ندهید تا شما را دست کم بگیرند: اگر دیگران شما را دست کم بگیرند، به راحتی میتوانند از شما سوء استفاده کنند. بنابراین، هرگز به آنها اجازه ندهید تا شما را دست کم بگیرند.
نکات کلیدی کتاب
برخی از نکات کلیدی کتاب ۴۸ قانون قدرت عبارتند از:
قدرت یک بازی است: رابرت گرین در این کتاب معتقد است که قدرت یک بازی است و برای برنده شدن در این بازی، باید از قوانین آن پیروی کرد.
مخفی نگه داشتن اهداف خود: یکی از مهمترین قوانین قدرت، مخفی نگه داشتن اهداف خود است. اگر دیگران از اهداف شما آگاه باشند، میتوانند برای خنثی کردن آنها تلاش کنند.
از دوستی برای رسیدن به مقاصد خود استفاده کنید: دوستی میتواند ابزاری قدرتمند برای رسیدن به اهداف شما باشد. با ایجاد روابط دوستانه با افراد با نفوذ، میتوانید از آنها برای پیشبرد اهداف خود استفاده کنید.
در مواقع لازم، بیرحم باشید: در دنیای قدرت، همیشه افرادی هستند که برای رسیدن به اهداف خود از هیچ تلاشی فروگذار نمیکنند. برای اینکه بتوانید در این دنیا به موفقیت دست یابید، باید در مواقع لازم، بیرحم باشید.
مزایای کتاب
کتاب ۴۸ قانون قدرت مزایای متعددی دارد، از جمله:
ارائه راهکارهای عملی برای کسب قدرت: این کتاب راهکارهای عملی و کاربردی برای کسب و حفظ قدرت در دنیای واقعی ارائه میدهد.
نوشتهای روان و خواندنی: رابرت گرین در این کتاب با لحنی ساده و صمیمی به بیان مطالب میپردازد و خواندن آن برای هر کسی، حتی افراد غیرمتخصص در حوزه سیاست، آسان و لذتبخش است.
ارائه دیدگاهی متفاوت به مقوله قدرت: این کتاب دیدگاهی متفاوت و چالشبرانگیز به مقوله قدرت ارائه میدهد که میتواند برای خواننده مفید باشد.
معایب کتاب
کتاب ۴۸ قانون قدرت معایبی نیز دارد، از جمله:
تمرکز بر روی جنبههای منفی قدرت: این کتاب بیشتر بر روی جنبههای منفی قدرت مانند فریب، بیرحمی و Manipulation تمرکز دارد و به جنبههای مثبت قدرت مانند رهبری، عدالت و خدمت به مردم توجه کافی نمیکند.
غیر اخلاقی بودن برخی از قوانین: برخی از قوانینی که در این کتاب ارائه شدهاند، از نظر اخلاقی قابل تردید هستند و میتوانند منجر به سوء استفاده از قدرت شوند.
نادیده گرفتن بافت اجتماعی: این کتاب در ارائه قوانین قدرت، بافت اجتماعی را نادیده میگیرد و به این نکته توجه نمیکند که قوانین قدرت در جوامع مختلف با یکدیگر متفاوت هستند.
در مجموع، کتاب ۴۸ قانون قدرت اثری خواندنی و آموزنده است که میتواند به خواننده در درک ماهیت قدرت و نحوه کسب آن در دنیای واقعی کمک کند. با این حال، مهم است که به خاطر داشته باشید که این کتاب فقط یک راهنما است و نباید قوانین آن را به طور کورکورانه دنبال کرد.
د��نلود pdf کتاب ۴۸ قانون قدرت:
متاسفانه، به عنوان یک مدل زبانی، امکان دانلود فایل برایتان را ندارم.
دانلود کتاب ۴۸ قانون قدرت رابرت گرین:
شما میتوانید کتاب 48 قانون قدرت را از طریق کتابفروشیهای آنلاین یا فیزیکی در سراسر کشور خریداری کنید.
امیدوارم این بررسی برای شما مفید بوده باشد.
0 notes
Text
تشریح وتوضیح:-
گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔
وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔
یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔
اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،
لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔
روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔
اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔
ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔
گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔
ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام
اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔
مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔
بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔
یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔
العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔
1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔
اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔
مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔
اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔
میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔
حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔
اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔
یہ سب معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں----واللہ اعلم بالصواب
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ یہ تحریر صدقہ جاریہ ہے ، شیئر کرکے باقی احباب تک پہنچائیے ، شکریہ, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے ایمان میں تازگی کا باعث ہو .. جزاک اللہ خیرا کثیرا
0 notes
Text
سامبره با کلاه مش : و در تمام شب دردناک نظاره گر بود، تا سپیده دم او را به یاد آورد استخدام های او. در ساعتی که ملخسالا به ملاقات او می رفت، کنت مشتاق بود به در ورودی نگاه کنید، اما در سرالیو باز نشد. او روز دوم صبر کرد. سپس سومی: درب سرالیو مثل بود اگر در داخل دیوار شده باشد. رنگ مو : اگر کنت گلایچن یک احمق محض نبود به زبان گل، او به راحتی می توانست کلید این شگفتی را پیدا کند رفتار پرنسس با تقدیم گل به او، در در واقع، بدون دانستن یک هجا از موضوع، یک رسمی ساخت اعلامیه عشق، و آن به هیچ وجه افلاطونی. برای زمانی که یک عرب عاشق، توسط دستی معتمد. سامبره با کلاه مش سامبره با کلاه مش : یک گل موشیرومی را مخفیانه به معشوقهاش، به او اعتبار میدهد که آنقدر نفوذ کرده است تا آن را کشف کند تنها قافیه ای است که در زبان عربی برای کلمه وجود دارد. این قافیه یدسکرومی است که با ظرافت به معنای پاداش عشق است.این اختراع را باید پذیرفت که دیگر نمیتوان داشت. لینک مفید : سامبره مو روش پیچیده ای برای ادامه در تجارت از این روش موشیرومی، که شاید شایسته تقلید از غرب ما باشد. عاشقان کل خط نویسی بی مزه، که اغلب هزینه دارد نویسندگان آنها خیلی زحمت میکشند و اغلب وقتی وارد میشوند دست اشتباه بیرحمانه توسط شوخیهای سختقلب، غالباً توسط ممکن است. سامبره با کلاه مش : خود گیرندگان منصف با بدرفتاری یا تفسیر نادرست مواجه شوند به این وسیله کنار گذاشته شود. نیازی به اعتراض نیست که موشیرومی، یا مسکادین- سنبل، گل، اما به ندرت و برای مدت کوتاه زمان در آب و هوای ما؛ زیرا ممکن است تقلیدی از آن توسط ما ساخته شود. لینک مفید : سامبره مو بدون دکلره آدامس سازان پاریسی یا بومی، برای تامین نیازهای عاشقان تمام فصول سال؛ و تجارت داخلی در این داخلی تولید ممکن است به راحتی سود بهتری نسبت به حال حاضر ما داشته باشد گمانه زنی ها با آمریکا.[ص 131] و همچنین یک شوالیه در اروپا مجبور نیست می ترسید. سامبره با کلاه مش : که تقدیم گلی اینقدر شیوا مورد اتهام قرار گیرد او را به عنوان یک جرم بزرگ، که ممکن است زندگی اش مجبور به پاسخگویی باشد، همانطور که در شرق می تواند به سادگی اتفاق بیفتد. اگر شاهزاده ملچسالا اینطور نبود روحی مهربان و لطیف، یا عشق قادر مطلق غرور او را تحت الشعاع قرار نداده بود. لینک مفید : رنگ مو سامبره و امبره کنت، دخ��ر سلطان، به خاطر این شکوه گل، بی گناه همانطور که از طرف او در نظر گرفته شده بود، باید با سر او پرداخت شود. اما پرنسس در اصل از دریافت این مورد خشمگین بود گل رسا، که برعکس خیالی زده است وتر در قلب او که مدتها قبل از آن می لرزید و از آن بیرون می آمد. سامبره با کلاه مش : یک لحن آهنگین است با این حال، عفت باکره او به سختی قابل اثبات بود مورد علاقه او، همانطور که او تصور می کرد، فرض می شود که از او پاداش می گیرد عشق. به همین دلیل بود که صورتش را به سمت او برگردانده بود پیشنهاد. یک رژگونه ارغوانی که پرده آن را از کنت پنهان کرده بود. لینک مفید : رنگ موی سامبره امبره گونههای لطیفش را پهن کرد، سینههای سفید برفیاش را پر کرد و قلبش را زیر آن بالاتر بزن حیا و لطافت دعوا می کردند الف نبرد شدید در آن، و شرمندگی او به حدی بود که او می توانست یک کلمه به زبان نیاور برای مدتی شک داشت که با آن چه کند گیج کننده مشیرومی; تحقیر آن، ربودن تمام امید از معشوقش بود. سامبره با کلاه مش : پذیرفتن آن، این قول بود که خواسته هایش برآورده شود. این موازنه قطعنامه متزلزل شد، حالا به این طرف، حالا به آن طرف، تا پایان طول عشق تصمیم گرفت. او گل را با خود برد، و حداقل این در وهله اول سر کنت را ایمن کرد. اما در تنهایی او اتاق، بدون شک بحث عمیقی در مورد آن صورت گرفت عواقبی که این مرحله ممکن است. لینک مفید : نمونه رنگ امبره سامبره ایجاد کند؛ و وضعیت پرنسس سخت تر از آن بود که از نگرانی هایش بی خبر بود از دل، او نمی دانست چگونه از خود رفتار کند. و جرأت خطر نکنید افشای ماجرا برای دیگری، اگر او زندگی را ترک نمی کرد معشوق و سرنوشت خودش به هوس یک شخص ثالث. [24]هاسلکویست سفر در فلسطین. نگاه کردن الهه در حمام آسان تر از نفوذ به حمام است. سامبره با کلاه مش : رازهای یک شاهزاده خانم شرقی در اتاق خواب سراگلیو. این است بنابراین تعیین اینکه آیا برای مورخ دشوار است مشیرمی را که پذیرفته بود ترک کرد تا بر او پژمرده شود. میز آرایش؛ یا آن را در آب شیرین قرار دهید تا برای آرامش حفظ شود از چشمانش تا جایی که ممکن است. لینک مفید : سامبره مو مشکی به همین ترتیب، دشوار است کشف کنید که آیا این شاهزاده خانم زیبا شب را با همجنس گرایان در خواب گذرانده است رویاهایی که دور او می رقصند، یا بیدار، قربانی نگرانی های بیهوده عشق.
دومی محتمل تر است، از صبح زود آنجا برخاست ضجه و مرثیه بزرگ[ص 132]در قصر، همانطور که شاهزاده خانم ساخته است. سامبره با کلاه مش : ظاهر او با گونه های رنگ پریده و چشمان بی حال. به طوری که ماده او شورا از نزدیک شدن به بیماری شدید می ترسید. پزشک دادگاه فراخوانده شد؛ همان عبری ریشو که از کنت خارج شده بود. لینک مفید : سامبره مو تب در حمام عرق او؛ او در حال حاضر به بررسی نبض بیشتر بیمار ظریف طبق عرف کشور دروغ می گفت روی یک مبل، با یک صفحه نمایش بزرگ در مقابل آن، با کمی ارائه شده است بازویی که از طریق آن بازوی زیبای خود را دوبار دراز کرد و سه بار با خراطین نفیس بپیچند تا آن را از زشتی ها حفظ کند نگاهی مردانه، "خدایا کمکم کن!" دکتر زمزمه کرد. سامبره با کلاه مش : گوش رئیس زن منتظر: "مقابل اعلیحضرت اوضاع بد است. نبض مثل دم موش می لرزد." همزمان با سیاست عملی، سرش را با تردید تکان داد، همانطور که پزشکان حیله گر هستند معمولی دستور فراوانی کلاف و صمیمانه های دیگر داد و با شانه بالا انداختن شانه ها تب خطرناکی را پیش بینی کردند. لینک مفید : سامبره مو بدون دکلره با این وجود، این علائم هشداردهنده، که آقای پزشک به عنوان بسیاری از منادیان از نزدیک شدن به یک بدخیم در نظر گرفته می شود دیستمپر، به نظر می رسد چیزی بیش از عواقب یک بد نیست استراحت شبانه برای بیمار که او را سیستا نزدیک ظهر گرفته است. سامبره با کلاه مش : در کمال حیرت اسرائیلی ها خود را خارج از خطر در آن یافت عصر؛ دیگر نیازی به دارو نداشت و به دستور اسکولاپیوس او نیازی به دارو نداشت فقط باید یک یا دو روز سکوت کرد.
0 notes
Text
سبک تاریخنگاری میرزا فتحعلی آخوندزاده
میرزا فتحعلی آخوند زادهنمی توان از تا��یخ روشنفکری در ایران سخن گفت و پای میرزا فتحعلی آخوند زاده را به نوشتار باز نکرد. آخوند زاده یک نمونه کامل و کلاسیک از روشنفکری ضد دین در ایران قرن نوزدهم میلادی است و به تعبیری می توان او را امام روشنفکران، علی الخصوص روشنفکران غیر دینی دانست. باید توجه داشت که جریان روشنفکری غیر دینی در ایران همچون دیگر مناطق جهان اسلام، دغدغه ها و بسترهای فکری مشترکی را…
View On WordPress
#historiography#History#iran history#iranshahr#islamic study#Middle East#osullectures#persian history#مورخ#مشروطه#هویت تاریخی#آخوندزاده#ایران#تاریخ#تاریخ ایران#تاریخنگاری#جنگ هویتها
0 notes
Text
کمبوڈیا سے بنگلہ دیش تک : ہنری کسنجر کے مبینہ جنگی جرائم کی ایک مختصر تاریخ
امریکی خارجہ پالیسی کے سربراہ ہنری کسنجرکی آٹھ سال پر محیط حقیقی سفارت کاری کے انوکھے برانڈ کو انتہائی بڑے پیمانے پر نسل کشی، قتل عام، ریپ اور تشدد کے واقعات کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔ ’کسنجرز شیڈو‘ نامی کتاب کے مصنف، ییل یونیورسٹی کے مورخ گریگ گرینڈن سمیت دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی سفارتی کوششوں کے معمار نے سرد جنگ کے ��وران سوویت یونین پر قابو پانے کے لیے اخلاقیات کی بجائے نظریے کو ترجیح دی اور 1969 سے 1976 کے درمیان 30 سے 40 لاکھ افراد کی موت کا ذمہ دار بنے۔ نکسن اور فورڈ انتظامیہ کے تحت وزیر خارجہ کی حیثیت سے، انہوں نے عالمی معاملات میں مداخلت پسندانہ نقطہ نظر اپنایا جس نے ان کے بعد آنے والے نیوکون (قدامت پسند سیاست دانوں) کی نسل کی سوچ کو تشکیل دی۔ 2001 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’دی ٹرائل آف ہنری کسنجر‘ میں معروف برطانوی مصنف کرسٹوفر ہچنز نے منظم طریقے سے اس بات کا مقدمہ پیش کیا تھا کہ اس عمر رسیدہ امریکی سیاست دان کے خلاف قتل، اغوا اور تشدد جیسی سازشوں میں ملوث ہونے کا مقدمہ چلایا جائے۔ ہچنز نے لکھا ہے کہ امریکہ یا تو ’ایک بدنام زمانہ جنگی مجرم اور قانون شکن کو ملنے والے حیران کن استثنیٰ سے اپنی نظریں ہٹائے رکھے گا، یا ان پر بھی وہ معیارات لاگو ہوں گے، جن کا اطلاق وہ مسلسل ہر کسی پر کرتے ہیں۔‘
کسنجر، جو بدھ 29 نومبر کو امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں اپنے گھر میں 100 سال کی عمر میں انتقال کر گئے، اپنے پیچھے قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایک داغدار وراثت چھوڑ گئے ہیں جو اس حقیقت کے کئی سال بعد ہی سامنے آئے گی، جب امریکی ریکارڈ منظرعام پر لایا جائے گا، آمرانہ حکومتیں ختم ہوں گی اور حساب ہو گا۔ جرمنی میں نازیوں کے دور میں ایک یہودی کی حیثیت سے پرورش پانے کے تجربات سے ان کا عالمی نقطہ نظر تشکیل پایا۔ اس سے امریکی طاقت کو اپنے کمیونسٹ مخالفین کی ��رف موڑنے کی ضرورت ترجیح بن گئی اور ان ممالک کے لیے تباہ کن نتائج کا باعث بنا جو ان کی ’میکیاویلین‘ حکمت عملیوں کی فہرست پر تھے۔ اپنے آخری برسوں میں، کسنجر کو مبینہ طور پر ان ممالک کا سفر کرنے سے گریز کرنا پڑا جہاں انہیں ان کے ریکارڈ کے حساب سے طلب کیا جاسکتا تھا۔ اپنے خون آلود ریکارڈ کے باوجود، وہ اپنی موت تک امریکی خارجہ پالیسی کے حلقوں میں ایک قابل احترام شخصیت رہے۔
کمبوڈیا کسنجر کے اثر و رسوخ کا اثرا کمبوڈیا سے زیادہ شدت کے ساتھ کہیں بھی محسوس نہیں کیا گیا، جہاں 1969 میں ’خفیہ بمباری‘ کی مہم کے ذریعے ویتنام جنگ کو وسعت دینے میں ان کے کردار اور اگلے سال امریکی افواج کی زمینی دراندازی کی وجہ سے یہ جنوب مشرقی ایشیائی ملک آج تک متاثر ہے۔ امریکہ نے ’آپریشن مینو‘ نامی مہم میں پانچ لاکھ 40 ہزار ٹن سے زیادہ بم گرائے، جسے انہوں نے اور اس وقت کے صدر نکسن نے خمر روج کو تباہ کرنے کی کوشش میں کانگریس کی حمایت یا علم کے بغیر جاری رکھا۔ امریکہ کی کمبوڈیا کے ساتھ جنگ نہیں تھی، لیکن کسنجر نے محسوس کیا کہ خمر روج کو کمیونسٹ شمالی ویتنامی فوج کی حمایت کرنے سے روکنے کے لیے وحشیانہ آپریشن ضروری تھا۔ تباہ کن فوجی مہم کے نتیجے میں کمبوڈیا کی حکومت اور پول پوٹ کی سربراہی میں نسل کشی کرنے والی خمر روج حکومت کے درمیان آٹھ سالہ خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس جنگ میں ایک اندازے کے مطابق 275000-310000 افراد مارے گئے، لاکھوں بے گھر ہوئے، اور ملک کا پانچواں حصہ تباہ ہو گیا۔
1970 کی ٹیلی فون گفتگو کی خفیہ نقل میں، کسنجر نے کمبوڈیا کی صورت حال کے بارے میں نکسن سے بات کی جس کے بعد اپنے نائب الیگزینڈر ہیگ کو مندرجہ ذیل حکم دیا: ’وہ کمبوڈیا میں بڑے پیمانے پر بمباری چاہتے ہیں. یہ ایک حکم ہے، یہ ہونا چاہیے۔ اڑنے والی کوئی بھی چیز، حرکت کرنے والی کسی بھی چیز پر، آپ سمجھے؟‘ 90 سال کی عمر میں کسنجر نے کہا کہ امریکی فضائی بمباری کمبوڈیا کے ان حصوں میں ہوئی جو ’بنیادی طور پر غیر آباد‘ تھے، تاہم بڑے پیمانے پر شواہد اس کے برعکس ہیں۔ بعد ازاں کسنجر پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے 1968 کے پیرس امن مذاکرات کے دوران لنڈن بی جانسن انتظامیہ کو مشورہ دیتے ہوئے جنوبی ویتنام کی حکومت کو خفیہ انٹیلی جنس فراہم کر کے امریکہ اور ویت کانگ کے درمیان امن مذاکرات کو سبوتاژ کیا تھا۔
بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ کسنجر کو جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کرنے پر 1973 میں امن کا نوبل انعام دینا عجیب تھا۔ ملک کا دورہ کرنے کے بعد آنجہانی شیف، مصنف اور ٹی وی آئیکون انتھونی بورڈین نے 2011 میں اپنی کتاب ’اے کوکس ٹور‘ میں لکھا: ’جب آپ ایک بار کمبوڈیا جائیں، تو آپ اس وقت تک خود کو نہیں روک پائیں گے جب تک ہنری کسنجر کو اپنے خالی ہاتھوں سے پیٹ پیٹ کر مار نہ دیں۔‘ ہنری نے کمبوڈیا میں جو کیا وہ دیکھنے کے بعد- اور سٹیٹ مین شپ کے لیے ان کی ذہانت کا ثمر- آپ کبھی نہیں سمجھ پائیں گے کہ وہ دی ہیگ میں سمندر کیے ساحل پر میلوسویچ (سیاست دان) کی بغل میں کیوں نہیں بیٹھے ہوئے۔‘ سال 2017 میں نیویارکر سے بات کرتے ہوئے بورڈین نے کہا تھا کہ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ نیویارک کے معاشرے نے کسنجر کو قبول کیسے کیا۔ سینیٹر برنی سینڈرز کا کہنا تھا کہ کسنجر نے دنیا کی تاریخ کی بدترین نسل کشی کی۔
مشرقی تیمور انڈونیشی افواج کے ہاتھوں مشرقی تیمور کے عوام کے قتل عام میں کسنجر کا خونی کردار اس حقیقت کے کئی دہائیوں بعد ہی سامنے آئے گا۔ 2021 میں کلاسیفائیڈ کاغذات کے مطابق انہوں نے اور صدر جیرالڈ فورڈ نے دسمبر 1975 میں انڈونیشیا کے ڈکٹیٹر سہارتو سے ملاقات کی تھی جہاں انہوں نے انہیں مشرقی تیمور پر حملہ کرنے کے لیے گرین لائٹ دی، جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی جس میں دو لاکھ افراد مارے گئے تھے۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں نیشنل سکیورٹی آرکائیو کو حاصل ہونے والے ٹیلی گرام کے مطابق کسنجر نے انڈونیشیا کے مختصر دورے کے دوران سہارتو سے کہا، ’یہ ضروری ہے کہ آپ جو کچھ بھی کریں وہ جلد کامیاب ہو۔‘ اگلے دن، انڈونیشیا نے پرتگال کی سابق کالونی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں دہائیوں تک تنازع جاری رہا جو 2002 میں اس وقت ختم ہوا جب تیمور نے بالآخر آزادی حاصل کر لی۔
1995 میں اس معاہدے کی منظوری کے بارے میں پوچھے جانے پر کسنجر نے اس بات سے صاف انکار کیا کہ انہوں نے سہارتو کے ساتھ اس حملے کے بارے میں بات چیت کی تھی، جنہیں خطے میں کمیونزم کی توسیع کے سامنے ایک ڈھال کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ مشرقی تیمور کے صدر جوس راموس ہورٹا نے کسنجر کی موت کے بعد واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا، ’جو لوگ تاریخ ، بین الاقوامی سیاست پر نظر رکھتے ہیں، وہ اس ماضی کے بارے میں جانتے ہیں، جو افسوسناک اور بدصورت تھا۔‘ راموس ہورٹا نے دی پوسٹ کو بتایا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ کسنجر اور دیگر امریکی حکام ’اپنے کیے پر شرمندہ ہیں‘، لیکن متعدد دوبدو ملاقاتوں میں انہوں نے مشرقی تیمور کے عوام کے قتل عام میں اپنے کردار کا کبھی بھی اعتراف نہیں کیا۔
چلی سلواڈور ایلندے کو 1970 میں چلی کا صدر منتخب ہونے سے بھی بہت پہلے جنوبی امریکہ میں امریکی بالادستی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا، ایک ایسے وقت میں جب براعظم کے زیادہ تر حصے پر امریکی حمایت سے فوجی آمریتوں ک�� حکمرانی تھی۔ سوشلسٹ رہنما نے ملک کی تانبے کی کان کنی کی صنعت کو قومی دھارے میں لانے، صحت کی مفت سہولیات اور تعلیم فراہم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں تاکہ غریب ترین افراد کو غربت سے باہر نکالنے میں مدد مل سکے۔ انہوں نے سوویت یونین اور فیڈل کاسترو کے کیوبا کے ساتھ بھی سفارتی تعلقات بحال کیے۔ بعد میں منظر عام پر آنے والی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ کسنجر نے نکسن انتظامیہ کی جانب سے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کی قیادت کی اور اس کی حکومت کمزور کرنے اور امریکی کاروباری مفادات کے تحفظ کے لیے خفیہ سرگرمیوں پر کروڑوں روپے خرچ کیے۔ ایلندے کی حکومت کے تین سال بعد، جب ملک کو ریکارڈ افراط زر اور ہڑتالوں کا سامنا کرنا پڑا (جو جزوی طور پر سی آئی اے کی مالی اعانت سے چلائے گئے تھے) جنرل آگسٹو پینوشے کی سربراہی میں ایک بغاوت نے جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
کسنجر نے بغاوت میں کسی بھی قسم کے ملوث ہونے یا اس کا علم ہونے سے انکار کیا، حالانکہ بعد میں خفیہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اور نکسن نے ایلندے کو ایک خطرناک کمیونسٹ قرار دیا تھا اور ان کا تختہ الٹنے کے بیج بوئے تھے۔ ایلندے کو 11 ستمبر 1973 کو صدارتی محل میں قتل کر دیا گیا تھا، جسے ’دوسرے 9/‘11 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بعد ازاں چلی کی حکومت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پینوشیٹ کے دور حکومت میں 40 ہزار سے زائد افراد کو سیاسی الزامات کے تحت قتل کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا قید کیا گیا۔ دی پینوشیٹ فائل کے مصنف مورخ پیٹر کورنبلو نے لکھا ہے کہ ’براہ راست کردار‘ کی معمولی ترین تعریف کے تحت ... ایسا لگتا ہے کہ سی آئی اے 11 ستمبر 1973 کو چلی کی فوج کی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے مزید کہا کہ نکسن وائٹ ہاؤس نے بلاشبہ ’بغاوت کو قبول کیا۔‘ اس کے پانچ دن بعد نکسن کے ساتھ ریکارڈ کی گئی گفتگو میں کسنجر نے اعتراف کیا: ’یہ ہم نے نہیں کیا۔ میرا مطلب ہے کہ ہم نے ان کی مدد کی ... (ناقابل سماعت) حالات زیادہ سے زیادہ سازگار بنائے۔‘ پینوشیٹ کے فوجی جنتا کو امریکہ نے فوری طور پر تسلیم کر لیا اور ڈکٹیٹر نے 1990 تک ملک پر آہنی ہاتھوں سے حکومت کی۔
ارجنٹينا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی کیبلز کے مطابق کسنجر نے مارچ 1976 میں صدر ازابیل پیرون کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل جارج رافیل وڈیلا کی فوجی جنتا کو امریکی حمایت فراہم کی تھی۔ اس کے نتیجے میں 1976 سے 1983 کے درمیان بدنام زمانہ ڈرٹی وار ہوئی، جس میں ارجنٹائن کے فوجی حکمرانوں نے 10 ہزار سے 30 ہزار شہریوں کو مار دیا یا ’لاپتہ‘ کیا، جن میں سے بہت سوں کو دوبارہ کبھی نہیں سنا گیا۔ وزیر خارجہ کسنجر نے کانگریس سے ارجنٹائن کی آمریت کے لیے پانچ کروڑ ڈالر کی فنڈنگ حاصل کی۔ وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد، انہوں نے 1978 کے فٹ بال ورلڈ کپ میں وڈیلا کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے شرکت کی۔ فوجی حکمرانی کی ہولناکیاں اس وقت بے نقاب ہوئیں جب 1983 میں ارجنٹائن نے دوبارہ جمہوری رہنماؤں کا انتخاب کیا۔ بہت سے س��اسی قیدیوں کو ہیلی کاپٹر��ں سے بحر اوقیانوس میں پھینکا گیا تھا۔ بعد ازاں وڈیلا کو تشدد، اغوا اور قتل کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، اور 2013 میں جیل کے اندر ان کی موت ہو گئی تھی۔
بیون ہرلی
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Photo
میگفتن عجمیان عابری بوده که با دست خالی به میان جمعیت رفته و و کشتندش، اما حالا می دانیم که او یک قاتل بالفطره بود درست مثل پدر و مادر خونخوارش! عکس قبلیای که از عجمیان با سلاح پخش شد را گفتند در حال آموزش برای جنگ شهری در سوریه بود ولی این عکس جدید که وصیتنامه #قاسم_سلیمانی_کودک_کش هم روی دیوار پایگاه بسیج هست مسلم میسازه آموزش مسلحانه در شرایطی انجام شده که آموزش و اعزام نیرو به سوریه نیست و #روح_الله_عجمیان متولد ۱۳۷۳ این آموزشهای پایگاههای بسیج را در سالهای اخیر مشخصا برای سرکوب مردم ایران دیده. مشخص نیست عجمیان و این پایگاه بسیج چقدر از جوانان آزادیخواه را در #آبان۹۸ و اعتراضات اخیر کشتند. دیگر شکی نیست که روز چهلم #حدیث_نجفی او هم برای جنگ با مردم به خیابون و بین مردم فرستاده شده بود که کشته شد، حالا خانواده اش راهش را ادامه می دهند و به خونخواری مشغولند؛در روزهای گذشته خانواده #عجمیان بسیجی سرکوبگر کشته شده در #چهلم_حدیث_نجفی در #کرج به دادگاه انقلاب مراجعه کردهاند و از تعدیل در اجرای حکم اعدام مابقی متهمان ابراز گلایه و شکایت کردهاند. گفتنی است در رابطه با پرونده قتل #روح_الله_عجمیان که تاکنون نیز مشخص نشده کار چه کسی است، تاکنون ۱۶ متهم به احکام اعدام و یا حبس های طولانی مدت محکوم شدند. مورخ ۱۷ دی ماه، دو تن از متهمان این پرونده به نام های #محمد_مهدی_کرمی و #سید_محمد_حسینی اعدام شدند و احکام اعدام صادره برای سه متهم دیگر به نام های #حمید_قره_حسنلو ، رضا آریا و حسین محمدی، پس از نقض در دیوان عالی کشور جهت رسیدگی مجدد به شعبه هم عرض ارسال شد. این اقدام حتی خلاف رویه قضایی جمهوری اسلامی و شرع است و مشخص نیست برای مرگ یک نفر چند حکم اعدام دیگر باید صادر شود؟ #مهسا_امینی #انقلاب_آزادی_ایران @irbr.news https://www.instagram.com/p/Cpz-Lwwsi4U/?igshid=NGJjMDIxMWI=
#قاسم_سلیمانی_کودک_کش#روح_الله_عجمیان#آبان۹۸#حدیث_نجفی#عجمیان#چهلم_حدیث_نجفی#کرج#محمد_مهدی_کرمی#سید_محمد_حسینی#حمید_قره_حسنلو#مهسا_امینی#انقلاب_آزادی_ایران
0 notes
Photo
. نود Litecoin در شبکه کیفپول Trustwallet از دیروز مورخ ۱۴۰۱.۱۲.۱ دچار مشکل شده و مقدار موجودی کیف پول نمایش داده نمیشود. لذا اگر تراکنش LTC به کیف پول تراست ولت داشتید، نگران نباشید. مشکل در حال برسی و حل شدن میباشد. @dgminer #تراست_ولت #Trustwallet #trustwallet #Dgminer #litecoin #litecoinmining (at Tehran, Iran) https://www.instagram.com/p/Co6aCHvI1eX/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Photo
سەلاحەدین دوای گەمارۆیەکی کورت لە ساڵی ١١٨٣ حومس، ئامەد، ئەنتەپ و شوێنەکانی دیکەی گرت. پاشان حەلەبی گرت کە لەلایەن شاعیری بەناوبانگی دیمەشقەوە ستایشی لێکرا. ساڵی ١١٨٦ دیاربەکرى گرت و سنوورەکانی شانشینی خۆی فراوانتر کرد”. مێژوونووس سێر دبلیو بێسانت، ساڵی ١٨٧١ Selahedîn di sala 1183’an de piştî dorpêçeke kin Hums, Amed, Dîlok û cihên din girt. Paşê ew Heleba ku ji aliyê helbestvanê navdar ê Şamê ve hatibû pesinandin, girt. Di sala 1186an de Diyarbekirê girt û sînorên mîrektiya xwe fireh kir.” Dîroknas Sir W. Besant, 1871 صلاح الدین در سال 1183 پس از یک محاصره کوتاه، حمص، آمد، آنتپ و سایر نقاط را تصرف کرد. سپس حلب را گرفت که شاعر معروف دمشقی آن را ستود. در 1186 دیاربکر را گرفت و مرزهای پادشاهی خود را گسترش داد. مورخ سر دبلیو بسانت، 1871 Saladin captured Homs, Amed, Antep and other places in 1183 after a short siege. Then he took Aleppo, which was praised by the famous poet of Damascus. In 1186, he took Diyarbekir and expanded the borders of his kingdom.” Historian Sir W. Besant, 1871 استولى صلاح الدين على حمص وعمد وعنتب وأماكن أخرى في عام 1183 بعد حصار قصير. ثم استولى على حلب التي أشاد بها شاعر دمشق الشهير. في عام 1186 ، استولى على دياربكير ووسع حدود مملكته ". المؤرخ السير دبليو بيسانت ، 1871 Selahaddin 1183 yılında Humus, Amed, Antep ve diğer yerleri kısa bir kuşatmadan sonra ele geçirdi. Sonrasında Halep'i aldı ki bu zaferi Şam'ın ünlü şairi tarafından methedildi. 1186'da ise Diyarbekir'i alarak krallığının sınırlarını genişletti.” Tarihçi Sir W. Besant, 1871 Ji kerema xwe rûpela me bişopînin û bi hevalên xwe re bidin nasîn ✌️✌️ @Diroka_korda 📆 لطفا صفحه ما را فالو کنید و به دوستان خود معرفی کنید✌✌ @Diroka_korda 📆 Lütfen sayfamızı takip edin Ve arkadaşlarınla tanıştır ✌✌✌ @Diroka_korda #diroka_korda #Wêne #wênefîlm #cıwanhaco #kurdistan #qamişlo #kobane #ypg #ypj #bakur #azadi #ahmedkaya #rojbaş #amed #mehebad #adnandilbrin #aysa_șan #kurd #kurdo #kobani #afrin #sine #evarbaş #şakiro #wênefilm #demirtaş #hdp #saverojava @kawaurmiye_ @hozan__diyar @hunersam @seydaperincek.official @denizdeman_ @hozanaydinofficial @azadbedran @mala.dengbejan @kordmusic @mehmetyildirim.official @komaserhat @kemaleamed21 @Mohammadkhani_official سل https://www.instagram.com/p/Coy6Ywoth3v/?igshid=NGJjMDIxMWI=
#diroka_korda#wêne#wênefîlm#cıwanhaco#kurdistan#qamişlo#kobane#ypg#ypj#bakur#azadi#ahmedkaya#rojbaş#amed#mehebad#adnandilbrin#aysa_șan#kurd#kurdo#kobani#afri#sine#evarbaş#şakiro#wênefilm#demirtaş#hdp#saverojava
0 notes
Text
غلام ربانی تاباں: انقلابی فکر کا قلندر مزاج شاعر
شاعر اپنے دور کا مورخ ہوتا ہے کاتب حدیث دل ہوتا ہے۔ اس کا قلم جہاں درد دل کا اظہار کرتاہے، وہیں زمانے کے نشیب وفراز گرد��غبارکا غماز ہوتا ہے۔ اپنے دل کی کیفیات اور زمانے کے کرب آلام کو اپنے فن کے ذریعہ پیش کرتا ہے، اپنی شاعری میں اپنے نثر میں خیالات نظریات اور جذبات کااظہار کرتا ہے۔ کلاسیکی شاعری کی اہم شخصیت اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ غلام ربانی کی شاعری اور شخصیت انہی خصوصیات کی حامل ہے۔ان…
View On WordPress
0 notes