Tumgik
#مسلم لیگ ن کی شکست
shiningpakistan · 7 months
Text
نواز شریف کہاں ہیں؟
Tumblr media
نواز شریف نے اپنی آخری سیاسی اننگ بغیر کھیلے ہی ختم کر دی۔ ایک ایسا شخص جو چار دہائیوں تک وطن عزیز کی سیاست پر چھایا رہا۔ ان کی سیاست کا یوں اختتام کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اگرچہ وہ آمریت کی نرسری میں پلے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک مزاحمتی سیاست دان کا روپ اختیار کیا جس کی وجہ سے انہوں نے بے مثال مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے'' میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا '' کا نعرہ لگایا اور قوم کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ان کا سیاسی کیریئر ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے۔ انہوں نے ایٹمی دھماکے کر کے خود کو محسن پاکستان کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف اٹل بہاری واجپائی کو لاہور میں بلایا اور جب دوبارہ موقع ملا تو نریندر مودی کو اپنی گھریلو تقریبات میں مدعو کیا اور وہ بھی سفارتی پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لاہور آئے اور شریف فیملی کے ساتھ وقت گزارا۔ ان کی زندگی ایک طرح سے مختلف تضادات سے عبارت تھی۔ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اپنے اقتدار کو طول دیا۔ عوامی طاقت اور مقتدرہ کی اشیرباد سے وہ جب بھی اقتدار میں آئے ان کے اقتدار کا خاتمہ غیر فطری انداز میں ہوا۔ وہ اپنی نوعیت کے واحد حکمراں ہیں جو بذات خود اپنی کوئی بھی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ پاکستان کے واحد حکمراں تھے جو وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے اپنے عروج کے دنوں میں ملک کے تمام علاقوں میں بھرپور عوامی جلسے کیے۔ ہر صوبے کے سیاست دانوں کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے تشکیل دیے ہوئے ایٹمی پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آصف علی زرداری کے شروع کیے ہوئے سی پیک کو عملی شکل دی۔ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا جال بچھایا لیکن پانامہ کا ڈنگ لگنے کے بعد ان کے اقتدار کو وہ زوال آیا کہ جو عروج کی طرح بے مثال تھا۔ جلاوطنی میاں نواز شریف کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ انہوں نے مشرف کے ساتھ معاہدہ کر کے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے رکھی تاہم 2018 کے بعد کی جلاوطنی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ لندن میں قیام کے دوران عوام کا ہجوم انکے گھر کے باہر رہتا جسکے باعث وہ لندن میں بھی محصور ہی رہے۔ اس دوران پاکستان کی سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔عمران خان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا یہاں تک کہ ''رجیم چینج'' کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ 
Tumblr media
یہی وہ وقت تھا جب ایک طرف عمران خان کا عروج شروع ہوا اور میاں نواز شریف کا بتدریج زوال۔ پی ڈی ایم نے میاں شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت قائم کی اس نے نہ صرف مسلم لیگ کو نقصان پہنچایا بلکہ میاں نواز شریف جیسے مدبر سیاستدان کی شہرت کو بھی داغدار کر دیا۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ نواز شریف جو مقتدرہ سے لڑائی کر کے عوام کی آنکھوں کا تارا تھا، ''ووٹ کو عزت دو'' کے نعرے نے کراچی سے لے کر خیبر تک بیداری کی ایک لہر پیدا کر دی تھی، ان کو اپنے اس نظریے سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر بھی خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ انہوں نے ایک طرف مقتدرہ سے ہاتھ ملایا تو دوسری طرف عوام نے بھی انہیں اپنے دل سے اتار دیا۔ 2024 کے انتخابات ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ اس میں تحریک انصاف کی مشکیں کسی گئیں۔عمران خان کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کی جماعت کا انتخابی نشان چھین لیا گیا اور مسلم لیگ کو کھلی چھٹی دی گئی۔
میاں نواز شریف شاید نوشتہ دیوار پڑھ چکے تھے اس لیے انہوں نے ان انتخابات میں وہ روایتی سرگرمی نہ دکھائی جو ان کا خاصہ تھی اور جن جلسوں سے خطاب کیا وہ بھی بے رغبتی کے عالم میں تھا جس کے نتائج انہیں آٹھ فروری کو دیکھنا پڑے۔ لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود عمران خان کا جادو ایک مرتبہ پھر نصف النہار پہنچ گیا۔ اور اس وقت زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک پر چار دہائیوں سے حکومت کرنے والا شخص ایک گھر میں بند ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804 پورے ملک پر حکومت کر رہا ہے۔ کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ کے الزامات نے انتخابات کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں ملا دی ہے۔ مسلم لیگ ن کو جس انداز میں فتح دلوائی گئی اور نشستیں جس طرح گھٹائی اور بڑھائی گئیں اسنے انتخابات کی شفافیت کو تو مشکوک بنایا ہی ہے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی شناخت کو بھی گہری زک پہنچائی ہے۔ اس حالیہ فتح سے تو بہتر تھا کہ میاں نواز شریف لندن میں ہی قیام پذیر رہتے کم از کم ان کا بھرم ہی برقرار رہتا۔ میری دانست میں میاں نواز شریف اس خطے کے سب سے تجربہ کار رہنما ہیں۔
اپنی سیاست کا اس انداز میں اختتام کرنے کے بجائے خواجہ سعد رفیق کی طرح دل بڑا کر کے اپنی شکست تسلیم کرنی چاہیے اور جنہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے انکا حق تسلیم کرنا چاہیے۔ انہیں چپ کا روزہ توڑ کر تحمل اور بردباری سے فیصلے کرنے چاہئیں۔ انتقام کی سیاست کو دفن کر کے سیاست اور اقتدار سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ ہماری قوم کو بھی اپنے رہنماؤں کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ جس انداز میں نواز شریف کو خدا حافظ کہا جا رہا ہے وہ ہرگز مناسب نہیں۔
پیر فاروق بہاو الحق شاہ 
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 8 months
Text
متنازع ترین انتخابات کے حیران کن نتائج
Tumblr media
آٹھ فروری کو پاکستان کے ’متنازع ترین‘ انتخابات کے بعد نتائج تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت نے سکون کا سانس لیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ گذشتہ کئی مہینوں سے قید اور سینکڑوں مقدمات میں الزامات کا سامنا کرنے والے پاکستان کے ’مقبول ترین‘ رہنما عمران خان سٹیبلشمنٹ کے خلاف سیاسی لڑائی جتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ پارلیمان سے باہر سیاسی تنازعات اور کڑوا ترین وقت اب ممکنہ طور پر ماضی کا حصہ ہے۔ کچھ مخصوص نتائج کو چھوڑ کر عمومی نتائج کے بعد سیاسی مفاہمت کا امکان بڑھ گیا ہے۔ انتخابات کے بہت سے حیران کن نتائج میں سے تین قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان مسلم لیگ ن، جس کی قیادت نے 2018 میں شکست کھانے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا سہارا لیا، نتائج کے بعد کافی مایوسی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کے قائد نواز شریف کلین سویپ کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں 70 سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ پاکسان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 100 کے قریب سیٹوں پر کامیابی سمیٹی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتی۔
صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا امکان ہے جہاں پی ٹی آئی ان سے چند سیٹیں ہی پیچھے ہے، اس لیے مسلم لیگ ن کی صفوں میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں پورا شریف خاندان، کم از کم چھ، اپنی اپنی نشستیں جیت چکا ہے، وہیں مسلم لیگ ن کے کئی بڑے رہنما بشمول تجربہ کار وزرا جیسے خرم دستگیر اور رانا ثنا اللہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ درحقیقت پنجاب کے بڑے شہروں بشمول گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شیخوپورہ سے مسلم لیگ ن سے منسوب گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کی شناخت فی الحال مٹ چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پی ٹی آئی سے انتخابات میں اچھی کارکردگی کی توقع نہیں تھی، اس لیے نہیں کہ اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر دھاوا بولنے کے بعد مبینہ طور پر طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ کمان اس کی شکست کی خواہاں تھی۔ بہت سے لوگوں کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کا نام مٹانے کے لیے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے۔ 
Tumblr media
انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان ’بلے‘ سے محروم کر دیا گیا اور پی ٹی آئی کی چھتری تلے الیکشن لڑنے کی کوشش کرنے والے آزاد ارکان کے خلاف ریاستی طاقت، قید و بند، ہراسانی، ٹارگٹڈ حملے، وکٹمائزیشن اور قانون نافذ کرنے والی فورسز کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ عوامی عزم اور جرات، جو پی ٹی آئی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتی ہے، کے برعکس قابل اعتراض عدالتی فیصلے اور ان کے رہنما کی سزا اور قید و بند سے توڑنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان نے تقریباً 66 سال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عوامی طاقت ہی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ نے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا اور انتخابات کے دوران پارٹی کو مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے سے روکا گیا جیسا کہ لاکھوں پاکستانی ووٹرز کے لیے پی ٹی آئی کے سینکڑوں قومی اور صوبائی امیدواروں کے انفرادی انتخابی نشان یاد رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس کے باوجود عوام نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کو مایوس نہیں کیا۔
انتخابی نتائج کا اعلان تقریباً مکمل ہو گیا اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 97 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی دوڑ میں آگے ہیں اور مسلم لیگ ن 71 اور پی پی پی 54 نشستوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ تاریخ ساز نتائج میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے ان انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے ملک کے دوسرے سرے یعنی کراچی میں بھی پی ٹی آئی نے کئی نشستیں حاصل کی ہیں۔ تیسرا یہ کہ پی ٹی آئی کے سابق بڑے رہنما، جنہوں نے عمران خان ان سے راہیں جدا کر لی تھیں، کو انتخابات میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ماضی میں عمران خان کے اہم معتمد اور حامی جہانگیر ترین اور ان کے سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک دونوں ہی جیتنے میں ناکام رہے ہیں۔ باغی رہنماؤں نے عمران خان کی بظاہر ڈوبتی ہوئی کشتی سے اترنے کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ پرویز خٹک کی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے خٹک خاندان کے تمام سات ارکان ہار گئے ہیں۔ 
پی ٹی آئی کے لیے اب بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ کئی سیٹوں سے اس کے امیدواروں نے نتائج کو چیلنج کر رکھا ہے۔ انتخابی نتائج شیئر کے طریقہ کار پر اس کے ارکان سوال اٹھا رہے ہیں۔ کچھ اس معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں۔ اگلی حکومت میں پی ٹی آئی کے کردار کے ساتھ ساتھ قانونی لڑائیاں بھی زور پکڑیں گی۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ اب بھی مشکل وقت ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کے بہت سے اہم معاملات پر مسائل حل طلب ہیں، بشمول اس کے کہ نو مئی کی کہانی کو کیسے ختم کیا جائے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان، پارٹی اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے بہترین راستے کے بارے میں سوچیں۔
 نسیم زہرہ  
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
urduchronicle · 8 months
Text
الیکشن کا سب سے بڑا اپ سیٹ، نواز مانسہرہ کی نشست ہار گئے
ایک بڑے انتخابی اپ سیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے شکست دے دی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ غیرسرکاری غیرحتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقے این اے 15 مانسہرہ میں شہزادہ محمد گشتاسپ خان نے نواز شریف کو بھاری مارجن سے شکست دی ہے۔ شہزادہ گشتاسپ نے 105249 ووٹ حاصل کیے جبکہ نواز…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
آنے والا سیاسی طوفان
Tumblr media
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بڑی تیزی سے ایک ایسے ’سیاسی طوفان‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں جو شاید سب کو ہی بہا کر لے جائے۔ سیاست میں الیکشن اور وہ بھی صاف وشفاف، ایک جمہوری رویہ ہوتا ہے منتقلی اقتدار کا اور وہ بھی پرامن اندازمیں۔ ہماری تاریخ میں یہ عمل صرف دو مرتبہ ہوا 2013 اور 2018 میں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اس سال ہم اس نئی روایت کو آگے بڑھاتے مگر ہم تو کسی اور ہی سمت نکل گئے ہیں جہاں ریاست کے دو بڑے ستون بظاہر نہ صرف تقسیم بلکہ متصادم نظر آتے ہیں اور جب لڑائی ہوتی ہے تو نقصان صرف لڑنے والوں کا ہی نہیں تماشہ دیکھنے والوں کا بھی ہوتا ہے۔ سیاست نام ہے برداشت کا، رواداری کا مگر یہ تمام باتیں آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جارہی ہیں ایک انجانا سا’خوف‘ حکمراں طبقے کو لاحق نظر آتا ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے الیکشن عام انتخابات سے پہلے ہو گئے تو عمران خان کے’ سیلاب‘ میں وہ کہیں بہہ نہ جائیں شاید انہیں اپنے آپ پر بھی یقین نہیں رہا۔ اب ایک فریق جس کی قیادت خان صاحب کر رہے اس نے بظاہر عدلیہ سے امیدیں باندھ لی ہیں اور دوسرا جو 14 جماعتی حکمراں اتحاد ہے نواز شریف، مریم نواز ،آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، وہ طاقتور حلقوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ 
حقیقت تو یہ ہے کہ ا لیکشن کمیشن آف پاکستان کا اچانک پنجاب میں الیکشن 8 اکتوبر 2023 تک ملتوی کرنا، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی رپورٹس کی روشنی میں کہ نہ پیسے دے سکتے ہیں نہ امن وامان کی صورتحال اطمینان بخش ہے، ہم ایک ایسی روایت کو جنم دے رہے ہیں جو آئندہ کسی بھی حکمراں کو الیکشن ملتوی کرنے کا جواز مہیا کرتی رہے گی۔ وہ غلطی جو 9 اور 10 اپریل، 2022 کی رات کی گئی عدم اعتماد کی تحریک لا کر، جنرل باجوہ اور عمران کی لڑائی کے عوض اس نے مسلم لیگ (ن) کو خاص طور پر اور پی ڈی ایم کو مجموعی طور پر شدید سیاسی نقصان پہنچایا ہے اور اب الیکشن کا التوا اور یہ خدشات کے شاید یہ سال انتخابات کا ہو ہی نہیں ان کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ عمران کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور اس وقت جو لوگ بڑی تیزی سے اس کے اردگرد جمع ہو رہے ہیں اس نے مجھے جہانگیر ترین، علیم خان اور شاہ محمود قریشی کے درمیان شدید اختلافات کی یا ددلا دی کہ کہیں خان صاحب ایک بار پھر عثمان بزدار یا وسیم اکرم پلس والی غلطی تو دہرانے نہیں جارہے مگر پچھلے 11 ماہ سے سڑکوں پر صرف تحریک انصاف ہی کیوں نظر آرہی ہے۔ 
Tumblr media
حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں نے اپنی سیاست صرف حکومت کرنے تک کیوں محدود کر دی، سیاسی میدان کیوں کھلا چھوڑ دیا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی پارٹی کے لیڈر بیچارے تاریخیں دیتے دیتے تھک گئے مگر مجال ہے لندن سے واپسی کی تاریخ کا اعلان ہوا ہو۔ ’ بس اب آئے اور جب آئے میں ہی‘ صرف وقت ہی نہیں پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اپنے ہاتھ سے نکال دیا۔ سپریم کورٹ الیکشن کے حوالے سے کیا فیصلہ دیتی ہے اس کا انتظار ہے مگر انتخابات کرانے کا خوف صرف اس وجہ سے کہ تمام سروے اور PTI کی جیت کی پیشں گوئی کررہے ہیں لہٰذا ملتوی کئے جائیں، ایک بار پھر غلط فیصلہ ثابت ہو گا۔ سیاست تو نام ہی مقابلے کا ہے۔ اب اگر مقابلے سے پہلے ہی شکست کے خوف میں آپ مبتلا ہو جائیں تو وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ یہ پروجیکٹ عمران، کسی ایجنسی یا ایجنسیوں نے بنا لیا ہو تو میں کہہ نہیں سکتا مگر یہ بڑی جماعتیں تھوڑا سا زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو انہیں پتا چلے گا کہ زمین خود ہی آہستہ آہستہ انکے پیروں کے نیچے سے نکلتی جارہی ہے۔ 
وہ نہ اچھی گورننس کی مثالیں قائم کر سکے نہ لوگوں کو کوئی ریلیف دے پائے بس ایک انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی مثال قائم کر سکتے تھے اس میں بھی ان گنت سیاسی مخالفین کی گرفتاری، میڈیا پر نئے قوانین کے ذریعہ پابندی، بغاوت کے مقدمات اور صحافی ارشد شریف کے قتل نے ان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ اب اگر پی ڈی ایم یا مسلم لیگ (ن) اپنے ٹرمپ کارڈ، کو بھی واپس نہیں لا سکتی تو بہتر ہے ممکنہ نتائج کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کرے اور سیاسی میدان میں بھرپور انداز میں اترے۔ ہمارا ماضی ہمیشہ ہمارا پیچھا کرتا ہے۔ جنرل ضیاالحق نے 90 روز بعد 25 اکتوبر، 1977 کو الیکشن اس لئے ملتوی کئے کیونکہ اسے اور ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین کو خوف تھا کہ وہ جیت جائے گا، اسی خوف نے بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی اس کا پیچھا کیا اور 17 اکتوبر 1979 کو ایک بار پھر الیکشن ملتوی کر دئیے۔ اسی خوف نے اسے مجبور کیا کہ بلدیاتی اور پھر عام انتخابات بھی ’غیر جماعتی ‘بنیادوں پر کرائے جائیں مگر بھٹو کے حمایت یافتہ عوام دوست، بلدیاتی الیکشن جیت گئے۔
اسی خوف نے بے نظیر بھٹو کا راستہ روکا اور یہی خوف نواز شریف کی نااہلی کی وجہ بنا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں میاں صاحب اور بی بی کا راستہ روکا اور ان کی جماعتوں کو توڑا تو کیا وہ توڑ سکا؟ اگر آج یہ دونوں جماعتیں وہی حربہ استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ کسی بھی طرح، عمران کا راستہ روکا جائے تو انہیں اپنی ہی جماعتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ذرا غور کریں کہ تحریک انصاف کا ’سپورٹ بیس‘ وہ ووٹر ہے جس کی طرف یہ 2008 سے گئے ہی نہیں۔ کل تک ’برگر پارٹی، کو آج اگر آپ دہشت گرد، کالعدم قرار دے کر پابندی لگانے کی بات کر رہے ہیں تو دراصل آپ آنے والوں کیلئے ایک جواز مہیا کر رہے ہیں۔ الیکشن کرانے سے خوف دور ہو سکتا ہے نہ کرانے سے وہ خوف برقرار رہے گا۔ سیاست میں مذاکرات کا دروازہ کھولیں، اپنے اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی بھی حسان نیازی کی ایک کے بعد ایک مقدمہ میں گرفتاری نے مجھے مسرور احسن کے کیس کی یاد دلا دی جب جج نے کہا’’ اب ایک سال تک اس پر کوئی کیس نہ بنانا‘‘۔
مظہر عباس
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistanpolitics · 2 years
Text
عمران خان کی کامیابی کا راز؟
کیا کبھی کسی نے سنجیدگی سے یہ سوچنے کی زحمت کی کہ عمران خان کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ تمام سیاسی جماعتیں اپنے جملہ اختلافات کو فراموش کر کے یکجا ہونے کے باوجود تحریک انصاف کو شکست دینے میں کامیاب کیوں نہ ہو سکیں؟آپ کی آنکھوں میں سیاسی عصبیت کا موتیا اُتر آیا ہو یا پھر کبوتر کی طرح حقیقت سے آنکھیں چرانا چاہیں تو الگ بات ہے، ورنہ سچ یہی ہے کہ عمران خان مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں۔ آپ اس بات پر جلتے اور کڑھتے رہیں کہ وہ خوابوں کے سوداگر ہیں، قوم کو گمراہ کر رہے ہیں مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان کا منجن ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک توڑا ہے، کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک میں نقب زنی کی ہے لیکن میری دانست میں انہوں نے جیالے اور متوالے مستعار لینے کے بجائے اپنے حصے کے بیوقوف جمع کرنے کی پالیسی اپنائی ہے۔ برسہا برس سے پارلیمانی سیاست میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی مسلم لیگ (ن) ہو یا پھر پیپلز پارٹی ،ان کے ہاں تغیر و تبدل کو اہمیت نہیں دی گئی۔
زمانے کے انداز و اطوار بدل گئے مگر یہ پرانی ڈھب اور روش کے لوگ وہیں ساکت و جامد کھڑے رہ گئے۔ انہیں اِدراک ہی نہیں ہوا کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے۔وقت مُٹھی میں بند ریت کی مانند پھسلتا چلا گیا اور یہ ماضی کے کارناموں پر اُتراتے رہے۔ عمران خان کو سیاسی میدان میں شکست دینی ہے تو اس کی حکمت عملی کو سمجھنا ہو گا۔ آپ نے ٹارگٹ آڈینس کی اصطلاح تو سنی ہو گی۔ یعنی اگر آپ کو کوئی پروڈکٹ لانچ کرنی ہے تو سب سے پہلے یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ ممکنہ صارفین کون ہو سکتے ہیں؟ اسے خریدے گا کون؟ اگر آپ اخبار، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر کوئی اشتہار دینا چاہ رہے ہیں تو پہلے یہ طے کریں کہ آپ کس قسم کے لوگوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹی وی یا ریڈیو کے شوکے لئے ٹارگٹ آڈینس کا تعین ضروری ہے۔ عمران خان نے بھی اپنی سیاست کے لئے یوتھ کو یوتھیا بنانے اور اپنے عقیدت مندوں کی فہرست میں شامل کرنے کا ہدف سامنے رکھا۔ اقوام متحدہ ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ 
پاکستان کی آبادی کا جتنا حصہ آج نوجوانوں پر مشتمل ہے، ماضی میں کبھی اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں پر مشتمل نہیں رہا اور یہ رجحان 2050ء تک جار ی رہے گا۔ اگر آپ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں بدلتے ہوئے رجحانات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہو گا کہ اس ملک کی تقدیر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور قیادت منتخب کرنے میں فیصلہ کن کردار انہی کا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت 122 ملین رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 56 ملین یعنی 45.84 فیصد ووٹر 35 سال تک کی عمر کے نوجوان ہیں۔ ان میں سے بھی 23.58 ملین یا 19.46 فیصد وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں 18 سے 25 سال کے درمیان ہیں گویا ان میں سے بیشتر 2023ء کے انتخابات میں پہلی بار ووٹ کاسٹ کریں گے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان نوجوان ووٹرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ 9 سال کے دوران تقریباً 37 ملین نئے ووٹرز کا اندراج ہوا۔ اور عمران خان نے انہی نوجوانوں کو اپنی ٹارگٹ آڈینس بنایا۔
ٹارگٹ آڈینس طے کرنے کے بعد عمران خان نے پروپیگنڈے کی طاقت کو سمجھا اور تمام تر وسائل ہی نہیں توانائیاں بھی اس جھونک دیں۔ ان کے سیاسی مخالفین اس مغالطے کا شکار رہے کہ کسی گائوں میں بجلی کا کھمبایا ٹرانسفامر لگوا کر ، گیس کے کنکشن دلوا کر ،چند نوکریوں کا لالچ دے کر یا کوئی سڑک اور پل بنوا کر لوگوں کی تائید وحمایت حاصل کی جاسکتی ہے مگر اس نے ترقیاتی کام کروانے والوں کو چور اور ڈاکو کہہ کر ساری کارکردگی کا صفایا کر دیا۔ جب کردار کشی کر کے آپ کے بارے میں یہ رائے پختہ کر دی جائے یہ لوگ کرپٹ ہیں تو پھر سب خوبیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے فراہم کردہ لیپ ٹاپ پر نوجوان آپ ہی کے خلاف ٹرینڈ چلاتے ہیں۔ آپ کی بنائی موٹر ویز اور آپ کی چلائی اورنج ٹرین پر سفر کرتے ہوئے لوگ آپ کو برُا بھلا کہتے ہیں۔ جوانی کا دور امنگوں، آرزئوں ، تمنائوں، امیدوں اور باغیانہ روش سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس عمر میں انسان نتائج کی پروا کئے بغیر لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ خواب اور سراب بیچے گئے۔ 
پہلے سے دہک رہے جذبات و احساسات کوغیر حقیقی مگر پرکشش سیاسی نعروں سے بھڑکا یا گیا۔ ہمارے ہاں انواع واقسام کی نفرتوں کی چنگاریاں برسہا برس سے سلگ رہی تھیں۔ عدالتی نظام سے مایوسی، سیاسی قیادت سے بیزاری، کرپشن پر جھنجھلاہٹ ،غیر ملکی مداخلت پر اشتعال اور پھر حکومت ختم ہوجانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باسی کڑھی میں وقتی اُبال۔ اس ایندھن کی وافر مقدار میں دستیابی کے سبب آگ تیزی سے پھیلتی چلی گئی۔ بیانیہ بنانے کے لئے وہ غیر روائتی اور جدید ذرائع ابلاغ استعمال کئے گئے جن کی اہمیت سے دیگر سیاسی جماعتیں ابھی تک لاعلم ہیں۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھانے کی طاقت نے عمران خان کو ایک ایسا دیوتا بنا دیا ہے جسے روایتی طرز سیاست سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ’’آئوٹ آف باکس‘‘حل تلاش کرنا ہو گا۔
محمد بلال غوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
کیا اپنوں کو ہی نوازنے آئے تھے؟
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید 8 معاونین خصوصی مقرر کر دیے ہیں جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے اور اس نئے تقرر کے بعد کابینہ کی تعداد 70 ہو گئی ہے۔ برسوں قبل رقبے میں سب سے بڑا اور آبادی میں سب سے چھوٹے صوبے میں صرف ایک رکن بلوچستان اسمبلی اپوزیشن میں رہ گیا تھا اور باقی تمام ارکان اسمبلی کو بلوچستان کابینہ میں مختلف عہدوں سے نواز دیا گیا تھا اور اب ایک نئی مثال موجودہ اتحادی حکومت میں پیش کی گئی ہے جس میں 11 جماعتیں شامل ہیں اور صرف دو چھوٹی جماعتیں ایسی ہیں جن کو حکومتی عہدہ نہیں ملا۔ اے این پی کو کے پی کی گورنر شپ دی جانی تھی جس میں مولانا فضل الرحمن رکاوٹ بنے تو ایک قومی نشست رکھنے والی اے این پی کو وفاقی وزارت دینے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے لینے سے انکار ��ر دیا اور سابق وزیر اعلیٰ کے پی آفتاب شیرپاؤ بھی وفاقی کابینہ میں شامل نہیں اور اب 8 معاونین خصوصی کا حصہ بھی پیپلز پارٹی کو دیا گیا ہے کیونکہ سندھ میں برسر اقتدار اور اتحادی حکومت کی دوسری بڑی جماعت ہے جس کے پاس متعدد اہم وفاقی وزارتیں ہیں۔
قومی اسمبلی میں 85 نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ن) نے 5 ماہ قبل وزارت عظمیٰ اور بعض اہم وزارتیں لی تھیں جس کے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سیاسی کم اور کاروباری زیادہ ہیں اور انھوں نے ملک میں مہنگائی بڑھا کر ماضی کی پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ (ن) کو جولائی کے ضمنی انتخابات میں شکست سے دوچار کرا کر (ن) لیگ سے پنجاب کی حکومت بھی گنوائی اور آئی ایم ایف سے قسطیں ملنے کے بعد صورتحال میں بہتری کا جو خواب انھوں نے (ن) لیگی قیادت کو دکھایا تھا وہ بھی چکنا چور ہو گیا اور قرضے کی دو قسطیں ملنے کے بعد ڈالر کی مسلسل اڑان جاری ہے اور مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے جس کی ذمے داری خود لینے کے بجائے وزیر خزانہ سیلاب پر ڈال کر بری الذمہ ہو جائیں گے اور مفتاح اسمٰعیل کے اس دوسرے تجربے کی ناکامی کے بعد دس اکتوبر کے بعد وہ آئینی طور پر وزیر خزانہ نہیں رہ سکیں گے۔
محکمہ ریلوے کے ماضی کے کامیاب وزیر خواجہ سعد رفیق کو نہ جانے کیوں ہوا بازی کا محکمہ وزیر اعظم نے دیا ہوا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف کی واپسی کی آئے دن تاریخیں دینے والے وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف سمیت متعدد وزیر محکموں سے محروم ہیں۔ بھٹو دور میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے میاں خورشید تو بھٹو حکومت کے خاتمے تک وزیر بے محکمہ ہی رہے تھے اور انھیں چار سال تک عہدہ نہیں ملا تھا جب کہ موجودہ اتحادی حکومت کا تو مستقبل بھی نظر نہیں آ رہا کہ کب اتحادی روٹھ جائیں یا کب کسی کے اشارے پر صدر مملکت وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیں اور کب نئے انتخابات کا بگل بج جائے۔ اتحادی حکومت میں یہ حال ہے کہ ان کی اپنی ہی پارٹی کے وزیر توانائی خرم دستگیر ہی اپنے وزیر اعظم کے اعلان کی تردید کر رہے اور کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کے اعلان کردہ تین سو یونٹوں تک فیول ایڈجسٹمنٹ کی رقم معاف نہیں کی جا رہی ہے بلکہ عارضی طور پر ملتوی کی جا رہی ہے جو یقینی طور پر سردیوں میں بجلی کے کم استعمال کے نتیجے میں جب بل کم ہوں گے تو یہ فیول ایڈجسٹمنٹ رقم وصول کر لی جائے گی۔
ملک بھر میں وزیر توانائی خرم دستگیر کے اپنے ضلع گوجرانوالہ سمیت بجلی بلوں کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ بل اور ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کی جا رہی ہیں، مظاہرین بل جمع نہ کرانے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت میں بڑے حصے کی حامل مسلم لیگ (ن) سے پوچھ رہے ہیں کہ بیوی بچوں کا پیٹ پالیں یا بجلی کے بھاری بل ادا کریں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف بھی عوام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پٹرول کی بچت کے لیے عوام پیدل چلیں یا سائیکلوں پر سفر کریں اور بجلی کی بھی بچت کریں تاکہ بجلی کے بل کم آئیں۔ وزیر توانائی سمیت متعدد (ن) لیگی وزیروں نے بارشوں سے قبل ملک میں بجلی کی بے پناہ لوڈ شیڈنگ کم ہونے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے مگر سخت گرمی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ مزید بڑھ گئی تھی۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق تو ملک میں حکومت کا وجود ہے ہی نہیں بلکہ موقعہ پرستوں کا ایک ٹولہ ہے جو جلد سے جلد اپنے اقتداری حصے وصول کرنے میں دن رات مصروف ہے شاید انھیں خطرہ ہے کہ نہ جانے کب اتحادی حکومت ختم ہو جائے اس لیے زیادہ سے زیادہ مفادات اور مال سمیٹ لیا جائے جس میں وہ کمی نہیں کر رہے اور اپنوں کو نواز بھی رہے ہیں۔
گیارہ بارہ جماعتوں کی حکومتوں میں شامل سیاسی رہنما اپنے اتحادیوں کو بھی بھول چکے ہیں جن سے وعدے کر کے شہباز شریف کو اپنا وزیراعظم منتخب کرایا تھا۔ پیپلز پارٹی سندھ کا گورنر ایم کیو ایم کا بنوا سکی نہ کے پی میں اے این پی کو گورنری دلا سکی اور حکومت بلوچستان میں پانچ ماہ بعد بھی اپنے اتحادی کو گورنر کا عہدہ نہیں دلا سکی ہے البتہ آئے روز وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کے نوٹیفکیشن ضرور جاری کیے جا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پی اور بلوچستان میں اپنے گورنر لگوانے کے لیے کوشاں ہیں اور باقی اتحادیوں کو کچھ نہیں ملا۔ مولانا کے صاحبزادے کے پاس مواصلات جیسی اہم وزارت اور جے یو آئی کے تین وزیر بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ ایک سابق سینئر بیورو کریٹ نے اپنے ایکسپریس میں شایع ہونے والے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان سے بیرون ملک سرمایہ منتقل کرانے، شہریت دلوانے جیسے کام کرانے کے ایک ماہر نے انھیں بتایا ہے کہ اتحادی حکومت کے لوگ اپنا کمایا گیا ناجائز مال بیرون ملک محفوظ کرانے میں پہلے والوں سے بھی زیادہ پیش پیش ہیں اور بہت جلدی یہ کام کرا رہے ہیں۔
اتحادی حکومت کو عمران حکومت کی نااہلی اور آئی ایم ایف سے طے معاملات کا پتا تھا انھوں نے ریاست بچانے کی آڑ میں عمران خان کے خوف اور مزید مقدمات سے بچنے کے لیے عمران خان کو ہٹایا تھا یہ بھی سابق حکومت کی طرح عوام کے ہمدرد ہیں نہ ہی عوام کو ریلیف دینے آئے تھے بلکہ مہنگائی کا نیا ریکارڈ قائم کرنے عوام کے لیے بجلی گیس، پٹرول مہنگا کرنے آئے تھے۔ متعدد وزرا اپنا سوٹ پہننے کا شوق پورا کرنے آئے تھے تاکہ میڈیا میں منفرد نظر آئیں کیونکہ سوٹ پہنے بغیر یہ خود کو حاکم نہیں سمجھتے۔ اتحادی حکومت کو بھی عوام سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ انھوں نے عوام مخالفانہ اقدامات سے عوام کے دلوں میں اپنے لیے دوریاں بڑھا لی ہیں اور سب نے اپنوں کو نوازنا تھا اور مزید نوازیں گے۔ اب ان سے اچھائی کی توقع رکھنی بھی نہیں چاہیے۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
waqtnews-blog · 2 years
Text
مریم نواز شریف نے بھی شکست تسلیم کر لی
مریم نواز شریف نے بھی شکست تسلیم کر لی
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف نے ضمنی انتخابات میں اپنی جماعت کی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کو شکست تسلیم کرنا چاہیے عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے اور دل بڑا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں جہاں کمزوریاں ہیں ان کی نشاندھی کر کے انہیں دور کرنے کے لیے میںنے کی ضرورت ہے۔ انشاء اللہ خیر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduinspire · 4 years
Text
عمر ایوب ان چند حقائق سے انکار نہیں کرسکتے ہیں،ٹوئٹر پرجھڑپ
Tumblr media
.عمر ایوب ان چند حقائق سے انکار نہیں کرسکتے ہیں ٹویٹر پر ایک نئی جنگ چھیڑ دی ہے سیاسی کارکنوں کے لئے یہ بات غیر معمولی نہیں ہے کہ وہ پاکستانی صارفین کی سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر ایک دوسرے کو الجھائیں اور ایک دوسرے کی جماعتوں اور رہنماؤں کی بہتات کریں۔ صارفین کی ٹائم لائن سیاسی مخالفین اور حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں کے خلاف ٹویٹس سے بھری ہوئی ہے۔ تاہم ، جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی رہنما اور وفاقی وزیر پانی و بجلی عمر ایوب خان کے مابین ٹویٹر پر ایک تصادم اس وقت شروع ہوا جب ایک صارف نے عمر ایوب خان کے بیان کے حوالے سے کہا ، "ماضی کے حکمرانوں کی غلطیاں آج بھی درست ہیں۔ " انہوں نے عمر ایوب کے مختلف ادوار کے انتخابی پوسٹروں کی تصاویر بھی شیئر کیں۔ عمر ایوب کی یہ تصاویر مسلم لیگ (ن) ، پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی ہیں جو ان پارٹیوں کے انتخابی نشانوں پر مختلف انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ خواجہ آصف نے ٹویٹر صارف ڈاکٹر ہما سیف کے ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ، یہ لوگ سیاست کے لیے گالی ہیں، وفادار سیاسی کارکن جس پارٹی کا ہو وہ قابل احترام ھے۔ اس پر وفاقی وزیر عمر ایوب خان بھی میدان میں آگئے اور خوجہ آصف کو جواب میں لکھا کہ ’ آپ نے اپنی پہلی ملازمت میرٹ پر نہیں بلکہ میرے چچا سردار بہادر خان کی سفارش پر بینک میں حاصل کی تھی۔ آپ کے لیڈر تحریک استقلال کے رہنما تھے۔ میں نے مسلم لیگ نواز کو 2002 اور 2018 میں ہرایا اور 2018 میں مسلم لیگ نواز کے امیدوار کو 40 ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے شکست دی۔ خواجہ آصف نے جواب دیا لیکن عمر ایوب کے چچا کی سفارش پر نوکری ملنے کے الزام سے انکار نہیں کیا۔ انہوں نے لکھا ، "یقینا I میں نے اپنی پہلی ملازمت سردار بہادر Read the full article
1 note · View note
apnibaattv · 2 years
Text
حمزہ شہباز کی 'حیران کن' جیت کے بعد عمران خان نے احتجاج کی کال دے دی۔
حمزہ شہباز کی ‘حیران کن’ جیت کے بعد عمران خان نے احتجاج کی کال دے دی۔
مسلم لیگ ن کے امیدوار حمزہ شہباز پرویز الٰہی کو شکست دے کر وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد عمران خان عوام سے خطاب کر رہے ہیں۔ – اسکرین گریب/جیو نیوز پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے جمعہ کو ڈپٹی سپیکر کے فیصلے کے خلاف لوگوں کو سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کی جس کی وجہ سے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز کی ‘حیران کن’ جیت ہوئی۔ پنجاب اسمبلی کے رن آف الیکشن میں پرویز الٰہی کے مقابلے میں مسلم لیگ…
Tumblr media
View On WordPress
1 note · View note
omega-news · 2 years
Text
مشکل فیصلوں کا نقصان مسلم لیگ ن کو ہوا۔نوازشریف
مشکل فیصلوں کا نقصان مسلم لیگ ن کو ہوا۔نوازشریف
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ن لیگ امیدواروں کی شکست کے بعد کہا ہے کہ مشکل فیصلوں کا نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے۔ نواز شریف نے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز سے رابطہ کیا اور ضمنی انتخابات کے نتائج کے تناظر میں آئندہ کے لائحہ عمل پر بات چیت کرتے ہوئے پارٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی ہدایت کردی۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ مشکل فیصلوں کا نقصان ن لیگ…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 1 year
Text
عمران خان کا سیاسی سکور کارڈ
Tumblr media
پاکستان کے لاکھوں لوگ اب بھی عمران خان پر یقین رکھتے ہیں، انہیں پاکستان میں موجودہ سیاسی شخصیات میں سب سے بہتر سمجھتے ہیں لیکن سوال پھر بھی یہی اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان سیاسی قیادت کا موقع فی الحال گنوا چکے ہیں یا وہ کسی نہ کسی صورت میں اگلے الیکشن میں پارلیمان میں واپس آ سکتے ہیں؟ ان کا فی الحال اگلے وزیراعظم بننے کا بظاہر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نو مئی کے بعد عمران خان پر مشکلات کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے اور ان مشکلات کا براہ راست اثر عمران خان کی پارلیمانی سیاست پر ہو گا۔ وہ ذاتی طور پر جتنے بھی پرعزم اور غیرمتزلزل دکھائی دیں، ان مشکلات سے عمران خان کی پارلیمانی سیاست یقیناً کمزور پڑے گی۔ سیاسی رہنما انفرادی طور پر جتنا بھی مقبول ہو پارلیمانی سیاست کی کامیابی کا دارومدار ایک مربوط سیاسی ڈھانچے پر ہوتا ہے۔ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ ہونے کی صورت میں سیاسی حکمت عملی اور سیاسی ڈھانچہ ایک ثانوی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ مثلا مسلم لیگ ن پیدائش کے وقت، اس کے بعد مسلم لیگ قاف، پھر کسی حد تک پاکستان تحریک انصاف 2013 اور 2018 میں ان جماعتوں کو جب اسٹیبلشمنٹ کا سہارا ملا تو سیاسی ڈھانچے اور حکمت عملی کا بھی کچھ' انتظام' ہو ہی گیا-
جب اسٹیبلشمنٹ کے آپ منظور نظر ہو تو پھر مقابلہ ہی کیسا؟ جو لاڈلا ہو تو جیسے پی ٹی آئی کے موجودہ صدر پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ آپ کے ڈائپر بھی بدلتی ہے۔‘ گود لی ہوئی پارٹیز کو کسی حقیقی سیاسی اکھاڑے میں اترنا نہیں پڑتا- معاملات اب پی ٹی آئی کے لیے بہت مختلف ہیں۔ یہ نیا سیاسی سفر جس کا آغاز قریب 2021 کے آخر میں شروع ہوا، پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے ایک حقیقی سیاسی مقابلے کا سفر ہے۔ حقیقی آزادی آج کی بات ہے اور اس کے خدوخال کی بھی تشریح کرنا مشکل ہے۔ ہاں نعرہ بازی خوب ہے اور جذبہ جنون بھی خوب سے خوب تر رہا، لیکن معاملہ سنجیدہ پی ٹی آئی کے لیے تب ہوا جب عمران خان نے پاکستان کے پاور پلے کے اکھاڑے میں اتر کر ایک قسم کا اعلان جنگ کر دیا۔ عمران خان کچھ تذبذب کا شکار ہیں اور کچھ سوچ میں تضاد کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ مثلا جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنے نشانے پر رکھتے اور کبھی ان کو دوسری ایکسٹینشن کی پیشکش کرتے، کبھی ان سے ملاقات کرتے اور کبھی ان کو اپنا سیاسی دشمن بھانپتے۔
Tumblr media
شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ جب سے عمران خان نے جنرل باجوہ سے سیاسی راہیں جدا کیں انہوں نے کسی بھی موقع پر نیک قول اور فعل سے یہ نہیں دکھایا کہ وہ دور دور سے پاکستان کی پارلیمانی سیاست یا پاکستان کے درینہ اور دائمی پاور پلے کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں۔ ہاں عمران خان نہایت شدت کے ساتھ اپنی سوچ اور اپنی بات کا برملا اظہار کرنا جانتے ہیں اور یہی انہوں نے اپنی دور حکومت میں بھی کیا۔ اس پاکستانی قوم کو جو ایک باعزت، ترقی پزیر، خوددار، خوشحال اور ایمان دار قیادت کی تلاش میں تھی اس کے لیے عمران خان نے اپنی بات اور اظہار کے ذریعے ایک نفسیاتی سحر پیدا کیا۔ چاہے یہ بات حقائق سے جتنی بھی دور ہو عمران خان کی بات تھی۔ یہ باتیں ان کے اپنے ماضی کے قول اور فعل کی نفی کرتی تھیں اور پھر کمال یہ تھا کہ اس پر اعتراض کرنے پر سیاست دان، صحافی، سوشل میڈیا والوں کو عموماً نہایت غیرمہذب تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ بہت حد تک جب ’اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ‘ تھا کوئی حقیقی سیاسی مقابلے کا سامنا نہیں تھا اور تنقید کو سختی سے روندھا جاتا تھا، عمران خان پاکستان کی پارلیمانی سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔ اب عمران خان کے لیے حالات بہت حد تک تبدیل ہو گئے ہیں۔
لاکھوں دلوں پر آج بھی راج کرنے والے اور اپنے حق میں سوشل میڈیا پر بے تحاشہ حمایت حاصل کرنے والے عمران خان نو مئی کے واقعات کے بعد پارلیمانی سیاست میں تقریباً تنہا اور دباؤ سے دوچار ہیں۔ ان کی بہت سی مشکلات میں سے سات ایسی ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کا سیاسی ڈھانچہ نہایت کمزور اور تقریباً شکست خوردہ کر دیا ہے۔ ایک: پی ٹی آئی کے تقریباً 70 رہنما جن میں سے بہت سے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں تھے وہ زیادہ تر ’خوف، دباؤ اور ڈر‘ کی فضا میں پارٹی کو چھوڑ چکے ہیں۔ دو: عمران خان کے خلاف کوئی 140 سے زیادہ مقدمات ہیں جن میں کچھ اگر اسٹیبلشمنٹ اور حکومت چاہے تو ان کی نااہلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ تین: اس وقت عمران کی سب سے بڑی طاقت ان کے حامی اب سڑکوں پر نہیں آ سکتے۔ چار: عمران خان سے حکومت مذاکرات کرنے کے لیے فی الحال بالکل تیار نہیں ہے۔ پانچ: ملک کی عدالتیں جو حال ہی میں عمران خان کے لیے ایک قسم کی طاقت دکھائی دیتی تھیں اس وقت بظاہر نسبتاً بے اختیار ہیں۔ چھ: عمران خان کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل خارج الامکان نہیں ہے۔
سات: پی ٹی آئی کے الیکٹیبلز کی اپنے نئے سیاسی سفر کی اڑان شروع ہو چکی ہے اس وقت مسلم لیگ ق اور جہانگیر ترین کے گروپ نے پاکستانی سیاست کے فصلی بٹیروں کو خوش آمدید کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان سب مشکلات کے باوجود دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے ‏وفادار جن میں عمر رسیدہ اور علیل ڈاکٹر یاسمین راشد، محمود الرشید، عمر چیمہ اور وہ لوگ جو پی ٹی آئی کے سیاسی اثاثے کے سہارے سیاست میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں مثلا شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شفقت محمود اور متعدد سینیٹرز وہ مستقبل کی پی ٹی آئی کو اور عمران خان کے سیاسی کردار کو محفوظ بنا سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ ہے اب ملین ڈالر سوال۔
نسیم زہرہ 
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
breakpoints · 2 years
Text
سب سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے، شہباز شریف
سب سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے، شہباز شریف
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف۔ — اے ایف پی/فائل مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اگر سیاستدان ’غداری اور حب الوطنی‘ میں ملوث ہوئے تو معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ عمران خان شکست تسلیم کرنے کے بجائے قوم کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما نے امید ظاہر کی کہ پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر امن و امان برقرار…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 5 years
Text
اصل تحریکِ انصاف کہاں گئی؟
پاکستان کی وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل کے بعد ایسے چہرے کابینہ میں شامل ہوئے ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ زرداری اور مشرف حکومت کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ یہ بھی چہ موگوئیاں جاری ہیں کہ حکومت تو تحریک انصاف کی ہے لیکن وفاقی کابینہ میں تحریک انصاف کے ساتھ شروع سے وابستہ رہنے والوں کی تعداد کم ہوتی جار ہی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت پر یہ تنقید بھی کی جارہی ہے کہ اس کی 47 رکنی کابینہ میں غیر منتخب افراد کی تعداد بڑھ کر 16 ہو گئی ہے۔ حال ہی میں ہونے والی سب سے بڑی تبدیلی وزیرخزانہ کی ہے اسد عمر کی جگہ وزیرخزانہ بنائے جانے والے عبدالحفیظ شیخ مشرف دور میں سندھ کابینہ کا حصہ تھے۔ جبکہ 2010 میں انہیں یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں مشیر خزانہ مقرر کیا گیا تھا۔
عبدالحفیظ شیخ 2012 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بھی منتخب ہوئے تاہم حکومت کی تبدیلی کے بعد وہ امریکہ میں ملازمت کرتے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ مقرر کئے جا��ے والے بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ کو پرویز مشرف کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اعجاز شاہ، پرویز مشرف اور چوہدری پرویز الہی پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ اگر انہیں قتل کیا گیا تو یہ شخصیات اس میں ملوث ہوں گی۔ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے مشرف دور حکومت میں انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر 2004 سے 2008 تک کام کیا اس دوران ان پر سیاسی انجینئرنگ کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی تھیں کہ پرویز مشرف انہیں آسٹریلیا میں پاکستان کا سفیر لگانا چاہتے تھے لیکن آسٹریلوی حکومت کی طرف سے مسترد کیے جانے پر انہیں ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو لگا دیا گیا۔
اعجاز شاہ جولائی 2018 کے انتخابات میں ننکانہ صاحب سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے تھے۔ مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی کی حکومتوں میں شامل رہنے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی اطلاعات کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا تاہم اس وقت کے اسپیکر چوہدری امیر حسین سے ان کے اختلافات زبان زدعام رہے۔ فردوس عاشق اعوان 2008 میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوئیں اور پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وزیراطلاعات و نشریات رہیں 2013 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انہیں سیالکوٹ سے شکست ہوئی جس کے بعد وہ عارضی طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو گئیں تھیں۔ 2017 میں فردوس عاشق اعوان نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی لیکن 2018 کے انتخابات میں انہیں شکست ہوئی تاہم اب انہیں وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات مقرر کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی مقرر کئے جانے والے فواد چوہدری بھی سابق صدر پرویز مشرف کے ترجمان رہ چکے ہیں جبکہ وہ پیپلزپارٹی کا حصہ رہنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، وفاقی وزیر دفاعی پیداوار زبیدہ جلال بھی پرویز مشرف کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے وزیر انسداد منشیات علی محمد خان مہر مشرف دور میں وزیرِ اعلیٰ سندھ رہ چکے ہیں۔ علی محمد مہر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے رہے ہیں تاہم وہ مختلف ادوار میں پیپلزپارٹی کے اتحادی رہے ہیں لیکن اب وہ بھی پی ٹی آئی کی وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔
مخدوم خسرو بختیار، عمرایوب خان، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان، ملک امین اسلم، عبدالرزاق داؤد، ندیم افضل چن سمیت تحریک انصاف میں شامل بہت سے افراد کا تعلق ماضی میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور سابق صدر پرویز مشرف سے رہا ہے۔ کابینہ میں ردوبدل کے بعد غیر منتخب افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے ان ٹیکنوکریٹس میں عبدالحفیظ شیخ، ڈاکٹر ظفر اللہ اور ندیم بابر شامل ہیں۔ ان غیر منتخب ارکان نے ایم این اے اسد عمر، عامر کیانی اور غلام سرور خان کی جگہ لی ہے۔ فردوس عاشق اعوان بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ وفاقی کابینہ میں وزراء کی تعداد 24 ہے، جس میں 5 وزیر مملکت، 13 معاونین خصوصی اور 5 مشیران بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔ معاونین خصوصی میں سے صرف علی نواز اعوان رکن قومی اسمبلی جبکہ یار محمد رند رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔ دیگر غیر منتخب معاونین خصوصی میں شہزاد اکبر، افتخار درانی، نعیم الحق، زلفی بخاری، شہزاد قاسم، عثمان ڈار، یوسف بیگ مرزا اور ندیم افضل چن شامل ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ کی شمولیت کے بعد وزیراعظم کے مشیران کی مجموعی تعداد 5 ہو گئی ہے جو کوئی الیکشن جیت کر نہیں آئے۔ دیگر غیرمنتخب مشیران میں ملک امین اسلم، عبدالرزاق داؤد، شہزاد ارباب اور ڈاکٹر عشرت حسین شامل ہیں۔ سیاسی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر پرویز مشرف کی کابینہ اور غیرمنتخب افراد کو رکھنا تھا تو تبدیلی کا نعرہ کیوں لگایا گیا؟
علی رانا
بشکریہ وائس آف امریکہ
2 notes · View notes
waqtnews-blog · 2 years
Text
حمزہ شہباز نے صوبائی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کر لیا
حمزہ شہباز نے صوبائی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کر لیا
وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے آج صوبائی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کرلیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں مسلم لیگ ن،پیپلزپارٹی اور حمایتی آزاد ارکان اسمبلی شرکت کریں گے۔ مزید پڑھیے: ن لیگ نے ضمنی انتخابات میں شکست تسلیم کرلی ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں ضمنی انتخابات کے بعدکی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اتوار کے روز پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
apnibaattv · 2 years
Text
حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی: اتحادی جماعتیں
حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی: اتحادی جماعتیں
اتحادی حکومت کا اجلاس 19 جولائی 2022 کو لاہور میں ہو رہا ہے۔ لاہور: قبل از وقت انتخابات کی قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے مخلوط حکومت نے منگل کو اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس بات کا اعلان وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔ یہ فیصلہ 17 جولائی کو پی ٹی آئی کے خلاف پنجاب کے 20 حلقوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو شکست کے بعد سامنے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
omega-news · 2 years
Text
عوام کا ووٹ ہمارے خلاف آیا ہے، تحریک انصاف کو تاریخی فتح ملی.ملک احمد خان
عوام کا ووٹ ہمارے خلاف آیا ہے، تحریک انصاف کو تاریخی فتح ملی.ملک احمد خان
پنجاب کے ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کی برتری کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک احمد خان نے ضمنی انتخابات میں شکست تسلیم کرلی۔ ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو تاریخی فتح ہوئی،عوام کی رائے کا احترام کرتے ہیں، عوام کا ووٹ ہمارے خلاف آیا ہے، عوام نے ووٹ سے اپنی رائے دی، اس کے بعد حکومت کا رہنا نہ رہنا سیکنڈری ہوجاتا ہے۔الیکشن کے نتائج بتارہے ہیں کہ ہمارے پاس عددی اکثریت نہیں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes