#مسقبل قریب
Explore tagged Tumblr posts
Text
مسقبل قریب میں نریندرمودی، ہم ساتھ مل بیٹھیں گے،نوازشریف
مسلم لیگ ن کے صدر نوازشریف نےامید ظاہر کرتے ہوئےکہا کہ مسقبل قریب میں نریندرمودی اور ہم ساتھ مل بیٹھیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی بحالی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کےحوالےسےامید ظاہر ہوئےکہاہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)اجلاس میں اگر بھارتی وزیراعظم نریندرمودی پاکستان آتےتواچھی بات تھی۔ لاہور میں…
0 notes
Text
بے وطنوں کی دنیا
16 دسمبر پھر آ گیا ہے۔ یہ 52 سال قبل مشرقی پاکستان میں آیا تھا۔ وہ پاکستان اور مشرقی پاکستان جس کی بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں۔ یقیناً آڑے وہی ہیں جنہیں مشیر کاظمی نے کہا تھا۔ کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں
کھول تو دوں میں راز محبت مگر تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں
اب اس 16 دسمبر میں غزہ کی جھلک شامل ہو رہی ہے۔ اس لیے بات صرف مشرقی پاکستان میں رہ جانے والے محصورین پاکستان کی ہو گی کہ پھر کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے۔ فلسطین میں بھی یہ واردات کی جانے کی تیاری ہے۔ وہ محصورین پاکستان جن کے ساتھ اب نام کی حد تک بھی پاکستان کا نام اور شناخت باقی نہیں رہی۔ بس ایک یاد ہے جو بہت تلخ، تکلیف دہ اور اذیت ناک ہے۔ ان محصورین کا تذکرہ اس لیے کیا جانا چاہیے کہ اس لہو کا اتنا تو حق ہے۔ یہ وہ لہو تھا جو ’پاکستان کے لیے بہا اور پاکستان میں اجنبی ٹھہرا۔‘ ایک طرف وہ خون تھا جو البدر و الشمس کے مشرقی پاکستانی نوجوانوں نے پاکستان کے لیے دیا تھا اور بعد ازاں اس خون کی قربانی دینے والوں کو ابھی کل کی بات ہے مطیع الرحمٰن نظامی سے پروفیسر غلام اعظم تک پھر قربان ہونا پڑا۔ ان ہی قربانی دینے والوں میں وہ محصورین پاکستان ہیں جو 1971 سے لے کر آج تک وہیں بنگلہ دیش کے کیمپوں میں بے بسی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی کئی نسلیں انہی کیمپوں میں جی جی کے مرنے اور مر کے جینے پر مجبور ہیں۔ انہیں بنگلہ دیش قبول اور برداشت کرنے کو تیار ہے نہ پاکستان کی اتھارٹیز اپنے ہاں واپس لانے کو تیار ہیں۔ اپنے ہاں واپس لانے کی بات اس لیے کہی ہے کہ یہ سب اول و آخر پاکستانی تھے مگر پاکستان کی اتھارٹیز نے انہیں اپنے لیے ’بوجھ‘ سمجھ لیا۔ کبھی کبھی لگتا ہے ساری مسلم مملکتیں فلسطینی اتھارٹی کی طرح ہی بے بس اور کمزور ہیں۔ بے حس و حرکت، بے اختیار اور بے معنی۔ 1997 میں محصورین پاکستان کے قائد الحاج نسیم خان کی طرف سے اس وقت کی پاکستان کی منتخب اور دو تہائی اکثریت رکھنے والی عوامی جمہوری حکومت کے سامنے تجویز پیش رکھی تھی۔ محصورین کے نمائندہ فورم ’ایس پی جی آر سی‘ کے علاوہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی اتھارٹیز باہم مل بیٹھ کر محصورین کے مستقبل کا فیصلہ کریں مگر اس وقت کی حکومت نے اس تجویز کو ’عزت دو کا مطالبہ‘ مان کر نہ دیا۔
نتیجہ یہ ہے کہ 52 سال بیت گئے مگر یہ محصورین پاکستان آج تک اپنے وطن پاکستان آ سکے، نہ لائے جا سکے اور نہ ہی پاکستان اتھارٹیز (پی اے) کو قبول ہونے کی نوید پا سکے۔ کیا کل کلاں اسی حالت میں فلسطینیوں کو دیکھنے کی سازش بروئے کار ہے؟ محصورین پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل انہی بنگلہ دیشی کیمپوں میں پل کر جوان اور بوڑھی ہو گئی۔ مگر ان کی قسمت نہ کھل سکی۔ اب ان کے بڑے جنہوں نے اپنے پیارے پاکستان کے لیے بنگلہ دیش بنانے والوں کی مخالفت مول لی تھی، انہی بنگلہ دیش کی ’حسینہ‘ کے رحم و کرم پر ہیں۔ ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے۔ یہ بنگلہ دیش کے مختلف شہروں اور مقامات پر 70 کیمپوں میں سے 1992 کے رابطہ عالم اسلامی کے تعاون سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق اس وقت دو لاکھ 35 ہزار 440 کی تعداد میں موجود تھے۔ اب ان کی آبادی کیا ہے، اس آبادی کا مسقبل کیا ہے، ہماری بلا سے! والی صورت حال ہے۔ اس سلسلے میں بے تعلقی و اجنبیت کی ایک موٹی دیوار حائل ہے۔ جی ہاں مفادات کی دیوار، بےحسی کی دیوار اور احسان فراموشی کی دیوار۔ ہم عالم اسلام کا ایک قلعہ ہیں، اس قلعے کی اونچی فصیلوں کو کون پھلانگ سکتا ہے۔ ماسوائے ایبٹ آباد میں بھی دو مئی کو سرحدیں پھلانگ کر آ جانے والوں کے۔
انہیں محصورین پاکستان کے پڑوس میں میانمار کے بے وطن بنا دیے گئے روہنگیا مسلمان بھی ہیں۔ صدیوں سے میانمار کے باشندے ہونے کے باوجود ان روہنگیا مسلمانوں کو اندھی طاقت اور مذہب کا متعصبانہ استعمال کرنے والوں نے انہیں نکال باہر کیا۔ ہاں یہ درست ہے کہ ’روہنگیا‘ کو بمباری کر کے اور جدید ترین بحری بیڑوں کو قریب تر منگوا کر نکال باہر نہیں کیا گیا۔ ان پر صرف فوجی بندوقوں سے گولیاں برسا کر یا پھر ان کے گھروں کو آتش گیر مادے سے آگ لگا کر پہلے انہیں بے گھر کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں جلاتے اور مارتے ہوئے زندگی سے بیگانہ یا گھروں اور ملکی سرحدوں سے دور کر دیا۔ مشرقی پاکستان اور میانمار کی ان ہی مث��لوں نے مجبور کیا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر یا اردن میں محصور کر دیے جانے کے درد کو ابھی محسوس کر لیا جائے۔ ان کی بے گھری اور بے وطنی کے دکھ کو سمجھ لیا جائے کہ واقفان حال اور کھلی آنکھیں رکھنے والے سارے دیکھ رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر سات اکتوبر سے ’ایف 35‘ طیاروں کی مدد سے جاری بمباری اور چند ہفتوں سے شروع کر دی گئی ’مرکاوا‘ ٹینکوں سے گولہ باری یہی بتا رہی ہے کہ غزہ کے فلسطینیوں سے غزہ کو پاک کر دینے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
حماس کے صفائے کا نام محض اصطلاحاً لیا جا رہا ہے تاکہ راستے میں سلامتی کونسل آ جائے تو اس پر ویٹو کا ہتھیار چلایا جا سکے۔ کوئی مسلمان ملک آنے کا سوچے یا زبانی ردعمل بھی دے تو اس کی قیادت کو اپنے پاس بلا لیا جائے۔ اگر ضروری ہو تو دھمکا دبکا دیا جائے۔ دولت و طاقت کے تمام نشے میسر ہونے کے باوجود سب ’آب غلیظ‘ کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت اب تک غزہ کے 80 فیصد سے زائد رہائشی فلسطینیوں کو بے گھر کیا جا چکا ہے۔ جی ہاں! بےگھر، بےدر اور آنے والے دنوں میں بے وطن کر دیے جانے کے خطرے کی زد میں ان فلسطینیوں کے آنے کا سو فیصد امکان بتایا جا رہا ہے۔ زبان و بیان کے فخر اور غرور کے تاج سروں پر سجائے پھرنے والے اور دنیا کے کئی خطوں میں پھیلے سب گونگے لوگ عملاً گونگے شیطان سے زیادہ کچھ نہیں۔ البتہ ایک اندر کے آدمی اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’اونروا‘ کے سربراہ فلپ ارزارمینی نے لنکا ڈھا دی ہے۔ انہوں نے ’لانس اینجلس ٹائمز‘ میں لکھے گئے اپنے تازہ ترین مضمون میں خبردار کیا ہے کہ ’اسرائیل ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر مصر کی طرف دھکیل دیا جائے۔‘
اگرچہ اسرائیل اس امر کی تردید کرتا ہے اور غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے سب سے بڑے مؤید و معاون امریکہ سمیت دیگر وغیرہ وغیرہ فلسطینیوں کے انخلا کے بظاہر حق میں نہیں ہیں۔ لیکن جس طرح منظم انداز میں غزہ پر بمباری کے لیے اسرائیل کو ہر طرح سے اور مسلسل مدد فراہم کی جا رہی ہے تو اس سے صاف لگتا ہے کہ سب کا اصلاً ایک ہی مقصد ہے کہ فلسطین کو فلسطینیوں سے پاک کر کے اسرائیلی قبضے کو آگے بڑھا لیا اور مستحکم کر لیا جائے۔ ’اونروا‘ سربراہ فلپ لازارینی کے اس تحریر کردہ مضمون کے مندرجات اس لیے بھی حقیقت نگاری کے زمرے میں آتے ہیں کہ وہ نہ صرف ’اندر‘ کے آدمی ہیں بلکہ غزہ جنگ کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں، وہ غزہ سے فلسطینیوں کی بے گھری کے چشم دید گواہ ہیں۔ سلامتی کونسل سے امریکہ کی جنگ بندی کے خلاف ویٹو کی تازہ گواہی اس پر مستزاد ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے بھی امریکہ کے حالیہ دورے اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی قرارداد ویٹو کیے جانے کے بعد دوحہ کانفرنس میں خطاب کے دوران یہی کہا ہے کہ ’اسرائیل فلسطینیوں کو غزہ سے باہر دھکیلنے کی منظم پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔‘
اور تو اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتوتیو گوتیریش نے بھی اسرائیل اور امریکہ کے طور اطوار کے بعد جو ’حاصل کلام‘ پیش کیا ہے وہ یہی ہے ’اقوام متحدہ ’جیو سٹریٹیجک‘ تقسیم کی وجہ سے مفلوج ہو گئی ہے۔‘ بلاشبہ اقوام متحدہ پہلے بھی تیسری دنیا کے بسنے والوں اور مسلمان اقوام کے لیے بالخصوص ایک فالج زدہ ’باڈی‘ رہی ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کو طاقتوروں کے ساتھ مل کر کھیلنے کے لیے بھی جو لبادہ ضروری معلوم ہوتا تھا اب اس سے چھین لیا گیا ہے۔ غزہ میں تو بہت ساری مہذب دنیا اور عالمی اداروں کے چہروں کا خوشگوار سا لگنے والا غازا فلسطینی بچوں کے خون سے دھل کر صاف ہو گیا ہے۔ وگرنہ گوتریش اور ان کے پیش رو سیکریٹری جنرل حضرات کے سامنے ہی 75 برسوں سے فلسطین و کشمیر پر ان کی قراردادیں اسرائیل و انڈیا کی طرف سے سرعام ہی تو روندیں جاری رہی تھیں۔ فلسطینیوں کا حق واپسی، آزاد ریاست کا حق سب اقوام متحدہ کی موجودگی میں اسرائیلی صوابدید اور من مانیوں کی نذر رہا ہے۔
کیا اقوام متحدہ کو نظر نہیں آتا رہا کہ فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی اسرائیل کو دیے گئے ہتھیاروں کے علاوہ امریکہ و یورپ کی سرپرستی میں کروائے گئے اوسلو معاہدے ایسے معاہدوں کی صورت بھی نہیں کی جاتی رہی؟ ان سازشی معاہدوں پر بھی عمل نہ کرا سکنا اقوام متحدہ کے پیدائشی فالج زدہ ہونے کی چغلی کھاتا ہے۔ یہی صورت کشمیر کے حوالے سے انڈین کردار کی رہی۔ پانچ اگست 2019 کے انڈین اقدام سے اپنے ہی آئین کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کے لیے موجود اکلوتی کڑی کو بھی ختم کر دیا گیا۔ اب بھارتی سپریم کورٹ نے مودی سرکار اور ’آر ایس ایس‘ کے انداز میں کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے دیا ہے۔ کیا اقوام متحدہ کا ادارہ اس بارے میں کبھی کوئی حس و حرکت دکھا سکا یا اب دکھا سکے گا؟ یہ مفلوج عالمی ادارہ اگر تھوڑا بھی واپس آنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنے لیے چمڑے کے ایک ٹکڑے کی طرح محسوس کر لے، سانس اور اوسان بحال ہو گئے تو افاقہ ہو جائے گا، ورنہ ہمیشہ کی موت کا اعلان کرنے کا جواز رد نہ کیا جا سکے گا۔
کیونکہ اسرائیل اور بھارت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عالمی طاقتوں کا ایک لاڈلا مشرق وسطیٰ میں ہے اور دوسرا جنوبی ایشیا میں۔ ایک فلسطینیوں کے حق واپسی اور حق خود ارادیت کو کچل رہا ہے اور فلسطینیوں کو بے گھر کر کے مار رہا ہے تو دوسرا کشمیریوں کے ساتھ یہی سلوک پچھلے 75 سال سے کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی عمل داری کے دونوں باغی ہیں۔ دونوں سرکشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حق میں فیصلے سے کشمیر کی ’ڈیموگرافی‘ تبدیل کر کے قضیہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اس مقدمے کی عدالت میں سماعت کے دوران کبھی اقوام متحدہ کا نوٹس نہ لینا شرمناک سے کم نہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ایک زیر التوا معاملے پر کیسے فیصلہ دے سکتی ہے۔ ہماری بات چھوڑیں ہم تو اپنے ملک کے اندر چوک چوراہوں پر اپنی عزت بچا کر بھاگ رہے تھے اور پاک وطن کی معیشت کی جلیبی کو سیدھا کرنے میں مگن ہیں۔ اسی بے عملی کا نتیجہ ہے کہ اب محصورین کے پاکستانی ماڈل کو فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل بروئے کار لا رہا ہے۔
فلسطینیوں کو پہلے غزہ سے اور پھر مغربی کنارے سے نکال کر ادھر ادھر دھکیل دو۔ پھر انہیں واپسی سے روکنے کے لیے طاقت استعمال کرتے رہو۔ ان کے کیمپوں پر بمباری کرتے رہو۔ انہیں اسی صحرائے سینا میں گھماتے پھراتے اور مارتے دباتے رہو۔ جس میں کئی صدیاں پہلے خود یہودیوں نے 40 سال اسی صحرا میں بھٹک بھٹک کر گزار دیے تھے۔ کم از کم 40 سال تو ان فلسطینیوں پر بھی یہ خواری مسلط کی جا سکتی ہے۔ پھر کون سا مسئلہ فلسطین، کون سے آزادی پسند فلسطینی، کہاں کی حق واپسی کے لیے سنبھال سنبھال کر رکھی گئی چابیاں اور کون سے سرزمین فلسطین پر آبائی گھر؟ اتنے عرصے میں تو آسانی سے مسجد اقصیٰ کے مینارے بھی یورپ و امریکہ ہی نہیں خلیج و عرب میں ابھر چکے عظمت کے نئے نئے میناروں کے سامنے ایک بھولی بسری تاریخ بن چکے ہوں گے۔ اسرائیل کی یہ سوچ اس تناظر میں کافی کارگر ہوتی نظر آتی ہے کہ ہر طرف سناٹا ہے، خاموشی ہے۔ ہتھیار ڈالنے والوں کا سکہ رائج ہے۔ 16 دسمبر کی طرح ہتھیار ڈالنے والا ماحول شرق سے غرب تک پھیل چکا ہے۔ عرصے سے طاؤس و رباب اول طاؤس و رباب آخر کا ماحول ہے۔ ایسے میں بے وطنوں میں اضافہ کرنا کیونکر ممکن یا مشکل ہو سکتا ہے۔
تو کیوں نہ بے وطنوں کی ایک نئی دنیا بسا دی جائے، غزہ سے باہر، رفح کے اس پار اور صحرائے سینا کے بیچوں بیچ، ایک بے آب و گیاہ دنیا۔ امریکہ اور مغربی وغیرہ وغیرہ کی مدد سے۔ جہاں لوگ پاکستانی محصورین اور روہنگیا محاجرین کو بھول گئے وہیں فلسطینیوں کے لیے کون تڑپے گا؟
منصور جعفر
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
ہواوے گوگل کے اینڈرائیڈ سسٹم کے متبادل کو سامنے لانے کیلئے تیار
امریکی پابندیوں کے نتیجے میں گوگل کی مختلف ایپس اور اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کے مختلف فیچرز سے محروم ہونے والی چینی کمپنی ہواوے اگلے 6 سے 9 ماہ میں اپنے ہارمونی آپریٹنگ سسٹم کو اسمارٹ فونز میں متعارف کرا سکتی ہے۔ ہواوے کے سنیئر نائب صدر ونسینٹ پانگ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا 'ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے، ہم پہلی ہی ایک فلیگ شپ مس کر چکے ہیں (یہ میٹ 30 اسمارٹ فون کا حوالہ تھا، جس میں اوپن سورس اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم دیا گیا جو گوگل پلے اسٹور سمیت دیگر گوگل سروسز اور ایپس سے محروم ہے)'۔ امریکی محکمہ تجارت کی جانب سے رواں سال مئی میں ہواوے کو بلیک لسٹ کیا گیا تھا اور امریکی کمپنیوں کو حکومتی اجازت کے بغیر اس کے ساتھ کاروبار کرنے سے روک دیا تھا۔
اس پابندی کے نتیجے میں ہواوے گوگل کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ہو گئی جو اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کو آپریٹ کر رہا ہے۔ امریکی کامرس سیکرٹری ولبر روس نے حال ہی میں کہا تھا کہ امریکی کمپنیوں کو ہواوے کے ساتھ کام کرنے کے لیے لائسنسز جلد جاری کیے جائیں گے مگر اب تک اس حوالے سے کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوا۔ ہواوے نے رواں سال اگست میں ہارمونی آپریٹنگ سسٹم کو متعارف کرایا تھا جو اسمارٹ فونز کی جگہ اسمارٹ ٹی وی اور دیگر ڈیوائسز میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ونسینٹ پانگ نے نئے انٹرویو میں بتایا 'ہارمونی اینڈرائیڈ کا متبادل نہیں، یہ اگلی نسل کا اینڈرائیڈ ہے'۔
اب تک ہواوے نے اپنے آپریٹنگ سسٹم پر کام کرنے والے ٹیلی ویژن ہی متعارف کرائے ہیں مگر اب تک یہ وا��ح نہیں کیا کہ یہ کس طرح اسمارٹ فونز میں کام کر سکے گا۔ ہواوے کی جانب سے گزشتہ چند ماہ کے دوران کہا گیا ہے کہ وہ گوگل کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے اور اپنے فونز میں اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم ہی چاہتی ہے اور اس کا مسقبل قریب میں ہارمونی او ایس پر مبنی اسمارٹ فون متعارف کرانے کا ارادہ نہیں۔ تاہم کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر امریکی پابندیاں برقرار رہتی ہیں تو 2020 کی پہلی یا دوسری سہ ماہی کے دوران اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ پر کام کرنے والے آپریٹنگ سسٹم کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ امریکی پابندیوں کے باوجود ہواوے کے فونز کی فروخت میں مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 24.4 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، مگر کمپنی کو چین سے باہر بالخصوص یورپ میں مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔
0 notes
Photo
#گوا کے سابق #وزیر #اعلیٰ #منوہر #پاریکر نے اپنے آخری ایام میں #اسپتال کے بستر پر جو #تحریر کیا تھا اسے #مراٹھی اخبار " #نو_شکتی" نے شائع کیا ، اسی مضمون کا اردو ترجمہ* سیاست کے میدان میں، میں نے کامیابی کے بلندیوں کو چھوا۔۔۔۔۔۔دوسروں کے نقطہ نظر سے میری پوری زندگی کامیابی سے ہمکنار رہی۔ لیکن میری انتھک مصروف زندگی کے پرے سکون کے بارے میں پوچھوگے تو وہ مجھے کم ہی نصیب ہوا۔ میں نے اپنی پوری زندگی سیاست میں جھونک دی جو آج میرے لئے داستانِ پارینہ بن کر رہ گئ ھے۔ آج اس لمحہ بیماری کی وجہ سے بستر پر تکلیف سہتے ہوے میں اپنی ساری زندگی پر غور و خوض کرتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ھے کہ جس شہرت و دولت کو میں نے اپنا نصب العین سمجھا اور شاید جسکی وجہ سے میں قدرے انا پرست بھی ہوا وہ آج موت کے دہانے پر مجھے چیڑا رھے ہیں۔۔۔۔۔۔ آج لمحہ، لمحہ موت سے قریب جاتے ہوے سسکتی زندگی کو آگے بڑھانے کے لئےجو سائنسی آلات مجھے لگاۓ گئے ہیں انکی ٹک ٹک کی صدا مجھے سنائی دے رھی ھے جو مجھ سے سرگوشی کر رہی ہے کہ شہرت ، دولت ، نشہ ( اقتدار کا) آنا فضول سے تھے کہ زندگی اب قریب الختم ھے، موت کی آہٹ مجھے بخوبی سنائی دے رھی ھے۔ اب مجھے احساس ہو رہا ھے کہ مسقبل کے لئے کافی ہو اتنا سرمایہ و اثاثہ جمع ھونے کے بعد مجھے اوروں کے لئے بہتر کرنا چاہئے تھا۔ شاید مجھے رشتے داری نبھانے ( ان سے بہتر حسن سلوک) ، سماجی ، فلاحی خدمات کرنا ضروری تھے۔ سیاست کے پیچھے دوڑتے ھوئے آدمی اندر سے نچوڑا جاتا ھے۔ بالکل میری طرح۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی بھر جو دولت میں نے حاصل کی اور جو سیاسی رتبہ و اقتدار میں نے پایا اسے میں اپنے ساتھ لے جا نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔دنیا میں سب سے مہنگا بستر کون سا ھے جانتے ھو؟ وہ مریض کا بستر ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ھماری گاڑی چلانے کے لئے ہمیں ڈرائیور کرایہ سے مل جاتا ھے۔ ��پنے لئے اضافی آمدنی کا ذرائع بنانے والے وزراء بھی ھم رکھ سکتے ہیں لیکن ھمارے درد کو برداشت کرنے کے لئے ھم کسی کو بھی نامزد نہیں کر سکتے۔ کھوئی ھوئی چیز بھی مل جاتی ھے لیکن ھماری زندگی، زمانہ اور وقت ایک بار گزر جائے- کھو جائے تو وہ کسی بھی تدبیر و ترکیب سے دوبارہ حاصل نہیں ھو سکتا ۔ خود سے کبھی بھی غافل نہ رہیں۔ اپنی عزت آپ کریں اور دوسروں کو بھی عزت دیں محبت سے پیش آئیں۔ ضرورت مندوں کی ضرورت کا احساس کریں ‛پیسہ ان پر خرچ کریں ۔ دوست و احباب سے ہمیشہ جڑے رہیں ۔ ہماری زندگی کی ابتدا ہمارے رونے سے ہوتی ھے اور ہمارے زندگی کا خاتمہ دوسروں کے رونے سے ہوتا ھے اس وجہ سے جو زندگی ملی ھے وہ مسکرا کر جئیں اور دوسروں کو بھی خوشیاں بانٹیں ۔ منوہر پاریکر https://www.instagram.com/p/BwEI376lN1K/?utm_source=ig_tumblr_share&igshid=1y0s0nh4rl26k
0 notes
Text
علی بابا : 4. 85 سیکنڈ میں ایک ارب ڈالر کی سیل
دنیا کے اس سب سے بڑے شاپنگ ایونٹ کو ’سنگلز ڈے‘ کہا جاتا ہے اور یہ ہر سال 11 نومبر کو منعقد کی جاتی ہے۔ اس سال کی کمائی 30 ارب 80 کروڑ ڈالر ہے۔ علی بابا نے گذشتہ برس سنگلز ڈے کے موقعے پر 24 گھنٹوں کے اندر 25 ارب ڈالر کمائے تھے، لیکن اس بار کمپنی نے یہ سنگ میل 16 گھنٹوں میں عبور کر لیا۔ یہ سلسلہ 1990 کی دہائی میں ویلنٹائنز ڈے کے رد میں شروع ہوا تھا اور اس کا مقصد اکیلے رہنے والے افراد کو اپنا دن منانے کا موقع دینا تھا۔ 11 نومبر کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ اس دن چار ایک آتے ہیں، یعنی 11/11۔ 2009 میں علی بابا نے اس دن کو اپنی سالانہ سیل کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ذیل میں اس میگا ایونٹ کے بارے میں چند دلچسپ حقائق پیش ہیں:
1. یہ بلیک فرائیڈے اور بلیک منڈے سے کہیں بڑی سیل ہے علی بابا کے مطابق چینی صارفین نے 11 نومبر 2017 کو 25.3 ارب ڈالر کمائے تھے، جب کہ اس سال یہ رقم 30 ارب 80 کروڑ ڈالر رہی۔ یہ اعداد و شمار صرف علی بابا کی سائٹس Tmall اور Taobao سے متعلق ہیں۔ اس کے مقابلے پر پچھلے سال امریکی صارفین نے بلیک فرائیڈے پر پانچ ارب اور سائبر منڈے پر 6.6 ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔ آن لائن اور سٹوروں کے اندر کی جانے والی سیل کو ملا کر امریکیوں نے 2017 میں تھینکس گِونگ اور سائبر منڈے کے دوران پانچ دنوں میں 19.6 ارب ڈالر خرچ کیے جو سنگلز ڈے سے 11.2 ارب ڈالر کم ہیں۔
2. دسواں ایڈیشن، نئے ریکارڈ علی بابا نے کہا تھا کہ اس سال کا ایونٹ سب سے بڑا ہو گا۔ اس کی ویب سائٹ نے اس موقعے پر پانچ لاکھ اشیا سیل پر رکھیں اور دنیا بھر کے ایک لاکھ 80 ہزار برانڈ پیش کیے۔
3. چین سے باہر بھی علی بابا نے 2017 میں 25 ارب ڈالر کی جو مصنوعات فروخت کیں ان میں سے 40 فیصد کا تعلق بیرونِ ملک سے تھا۔ اس سال علی بابا نے سنگلز ڈے پر بیرونِ چین صارفین پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی ہے۔ علی بابا سے منسلک سنگاپور میں قائم لازدا سٹور چھ ملکوں سنگاپور، ملائشیا، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن اور ویت نام میں بھی خدمات پیش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ نیدر لینڈز، برطانیہ، جرمنی اور بیلجیئم میں بھی لوگوں کو رعایتی نرخوں پر اشیا فروخت کی گئیں۔
4. 85 سیکنڈ میں ایک ارب ڈالر اس سال علی بابا نے سیل شروع ہونے کے صرف 85 سیکنڈ کے اندر اندر ایک ارب ڈالر کما لیے، جب کہ پہلے گھنٹے میں اس کی بِکری دس ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئی۔ مجموعی طور پر صارفین نے اس دن کل 30.8 ارب ڈالر خرچ کیے، جو گذشتہ برس سے 27 فیصد زیادہ ہے۔ اس سال کل ملا کر کمپنی کو 230 ملکوں سے ایک ارب سے زیادہ آرڈر موصول ہوئے جب کہ 237 برانڈ ایسے تھے ��ن کی سیل دس کروڑ آر ایم بی سے زیادہ تھی۔
5. ماحول پر اثر اس ایونٹ کا ماحولیاتی اثر اس قدر شدید ہے کہ گرین پیس نے اسے ’ماحول کے لیے تباہ کن‘ قرار دیا ہے۔ ادارے کے مطابق 2016 میں سنگلز ڈے کی وجہ سے 52 ہزار ٹن سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوئی۔ اتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کے لیے سوا پانچ لاکھ درخت درکار ہیں جو ساری زندگی ایسا کرتے رہیں۔ گرین پیس کے مطابق اتنی بڑی مقدار میں مصنوعات کی تیاری، پیکنگ اور ترسیل کا ماحول پر بےحد برا اثر پڑتا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ’ایک کلک سے خریدے جانے والا ڈسپوزبل فیشن مسقبل میں شاپنگ کا پائیدار ماڈل پیش نہیں کرتا۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
انصاف کی جیت۔ علی تاج کا بلاگ
آزاد فضاء، عمران کا خاموش ووٹر، اور انصاف کی جیت: اس سفر پر خطر کی ایک جھلک اور شہر کراچی کا عظیم مستقبل
سال 2013 جنرل الیکشن سے ٹھیک دو دن بعد 13 مئی کی شام جب کراچی میں لسانی جماعت کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقے کی ایک کالونی میں لوگ شام کا کھانا کھانے کی تیاریوں میں مصروف تھے تبھی اس سیاسی جماعت کا مسلح جھتہ اس کالونی میں ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہوا۔ راستے میں پڑے گلدانوں کو توڑ پھوڑ ڈالا۔ اور ہر طرف دہشت کی فضاء قائم کرکے واپس چل دیا۔
اس کی وجہ صرف انتی سی تھی کی 2013 کے انتخاب میں اس کالونی کے مکینوں نے پورے ملک میں طاری تبدیلی اور نئے پاکستان کی لہر میں بہتے ہوتے شہر کراچی میں نافظ نامعلوم افراد کے جبر و خوف کی فضا کو چیر کر عمران خان کو ووٹ ڈالنے کی ہمت کی تھی۔
مگر کیا معلوم تھا کہ ان لوگوں کو اس کا صلہ دو دن بعد ہی ملے گا۔ دھونس دھاندلی، ظلم و جبر سے تبدیلی کو روک دیا گیا تو جیت انہی کی ہوئی جو تین عشروں سے جیت رہے تھے۔ مگر خوف کے بتوں پہ پہلا وار ہوچکا تھا، چند سال پہلے جس شہر میں عمران خان کے داخلے پہ پابندی تھی اس شہر کے اسی جماعت کے گڑھ میں عمران خان کے نامعلوم امیدوار کو ہزاروں ووٹ پڑ چکے تھے۔
بس اسی کا مزہ چھکانا تھا اسلیئے اس سیاسی جماعت کے ہتھیاروں سے لیس کارندے ان کالونیوں میں داخل ہوئے ، ہوائی فائرنگ اور توڑ پھوڑ کرکے اپنی اجاداری کا احساس دلاکر چلے گئے۔
ابتدائی طور پہ اس کا بہت اثر ہوا اور 2014 میں ہونے والے ضمنی انتخاب اور 2015 میں ہونیوالے بلدیاتی انتخاب میں تبدیلی کی بنیاد ڈالنے والے یہ خاموش ووٹرز نہیں نکلے اور عمران خان کی پارٹٰی کو بری
شکست ہوئی۔
لیکن ہر عروج کا زوال ہوتا ہے اور ظلم تو مٹ کر رہ جاتا ہے۔
بالکل یہی ہوا، جب 25 جولائی 2018 آیا۔ شہر کراچی کے اسی حلقہ میں عمران کی پارٹی کا وہ ووٹر پھر نکلا۔ حالانکہ موئثر تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے مناسب انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔ انتخابات میں ووٹر کو پولنگ بوتھ تک جانے کیلئے اپنا انتخابی سیریل نمبر اور بلاک کوڑ ساتھ لیجانا ہوتا ہے۔ گوکہ اس کا حصول الیکشن کمیشن نے 8300 کا نمبر متعارف کرواکر آسان بنایا تھا مگر لوگوں نے اس سے معلومات حاصل نہیں کی تھی۔ اور انتخاب والے دن زیادہ لوڈ ہونے کی وجہ سے اس نمبر سے معلومات کے حصول میں وقت لگ رہا تھا ایسے میں سیاسی جماعت کا فعال پولینگ کمیپ کا ہونا لازمی تھا۔ لیکن عمران خان کی جماعت اس میں کمزور تھی۔ پھر بھی عمران خان کا ووٹر نکلا، قریب لگائے گئے پولینگ کیمپ پہ گیا گھنٹوں اس نے اپنے سیریل نمبر اور بلاک نمبر کیلیئے دھوپ میں انتظار کیا۔ پھر جب اس کو معلومات ملی تو خود اپنے خرچے پہ پولینگ سٹیشن پہچ کر بلے پہ ٹھپہ ��گا دیا۔
عجب ماحول تھا ، جس حلقے میں برسوں طاقت میں رہنے والی جماعت کی مرضی کے بغیر چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی، اسکے گڑھ میں اس کے پولینگ کمیپ ویران تھے۔ دور دور تک ان کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔
جبکہ عمران کا ووٹر آذاد فضاء میں اپنی رائے کا اظہار کر تے ہوئے نہایت خوش تھا کہ اس آزاد ماحول کو بنانے کا بنیاد پانچ سال پہلے اسی ووٹر نے رکھا تھا اور بدلے میں جبر سہا تھا۔
ابتدائی طور پر تھوڑی دیر ہوئی مگر اندھیری رات ختم ہوگئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس سیاسی پارٹٰی کے گڑھ سے عمران کا نامعلوم امیدوار 25 ہزار کی بھاری برتری سے جیت گیا۔ اور عمران کی پارٹی پورے شہر کراچی میں بازی مار گئی۔
اب سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ شہر کراچی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے عمران خان کی پارٹٰی نے اس سیاسی جماعت کو بھی اپنے ساتھ ملانے کا اعلان کیا جس نے پانچ سال پہلے اس کے ووٹر کو ہراساں کیا تھا اور دس سال پہلے عمران کی شہر کراچی میں داخلے پہ پاپندی لگائی تھی۔
یہ ایک بہترین فیصلہ ہے۔
شہر کراچی مزید نفرتوں، لڑائی جھگڑوں اور انتشار کی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب یہاں عفو و درگذز، محبت اور بھائی چارگی کی فضا قائم کرنا لازمی ہے۔ شہر کراچی کو صاف پانی، صفائی ، روڑ اور لاکھوں درخت چاہیئے ، جس کیلئے عمران خان کی پارٹی اپنی سخت ترین سیاسی حریف جماعت کو اپنے ساتھ شانہ بشانہ ملانے کی کوشش کر رہی ہے جو اعلیٰ ظرفی اور دور اندیشی کی بہترین مثال ہے۔
دعا ہے شہر کراچی ایک دفعہ پھر روشنیوں کا شہر بنے اور نئے پاکستان کی پوری دنیا میں پہچان بن کر ابھر آئے۔
آخر میں بس اتنا کہنا ہے کہ جو لوگ شہر کراچی میں دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں ان سے اپیل ہے کہ عشروں بعد کراچی والوں نے آزاد، پرسکون اور پرامن ماحول میں اپنے ووٹ کے حق کا استعمال کیا ہے۔ اس کو دھاندلی سے ملاکر ان لاکھوں ووٹروں کی توہین مت کریں۔
بلکہ کراچی کے عظیم مسقبل کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔
0 notes
Photo
فکر نہ کریں ایسٹ انڈیا کمپنی تو واپس چلی گئ تھی یہ آدم خور کبھی واپس نہیں جائیں گے اور نوازیے کے فضل سے مسقبل قریب پاکستان چائنا کی سٹیٹ ہو گی
0 notes