#مختصر مگر پر اثر
Explore tagged Tumblr posts
Text
اگر تمہیں اپنی منزل تک پہنچنے میں بار بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں، حوصلہ رکھو۔ لوگوں کی تنقید سے پریشان ہوکر ہمت نہ ہارو، بلکہ اسے اپنی طاقت بنا لو۔ یاد رکھو، لوگوں کی تنقید درحقیقت تمہارے لیے حوصلہ افزائی کا باعث بن سکتی ہے، بشرطیکہ تم ان سے سیکھنے کا ہنر جان لو، نہ کہ ہار مان لو۔
زندگی میں کوئی آسانی سے راستہ نہیں دیتا، اپنا راستہ خود بنانا پڑتا ہے۔ اگر ہارنے کے ڈر سے گر جاؤ گے تو ہجوم تمہیں روندتا ہوا آگے نکل جائے گا۔ اس لیے اٹھو، ہمت کرو! تمہاری منزل تمہیں پکار رہی ہے۔ حوصلے اور عزم کے ساتھ آگے بڑھو اور دنیا کو کر دکھاؤ کہ تم واقعی اپنی منزل کے حقدار ہو!
✍🏻 تحریر : فاطمہ رائیٹس
📆 تاریخ : 19 فروری 2025
© 2025 فاطمہ رائیٹس. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
0 notes
Text

ابھی تو میں جوان ہوں
ہوا بھی خوش گوار ہے ، گلوں پہ بھی نکھار ہے
ترنّمِ ہزار ہے ، بہارِ پُر بہار ہے
کہاں چلا ہے ساقیا ، اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا اٹھا سبُو، سبُو اٹھا
سبُو اٹھا، پیالہ بھر پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سمت کر نظر ،سماں تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیاں افق پہ ہو گئیں عیاں
وہ اک ہجومِ مے کشاں ،ہے سوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ہے بد گماں ، سمجھ نہ مجھ کو ناتواں
خیالِ زہد ابھی کہاں ابھی تو میں جوان ہوں
عبادتوں کا ذکر ہے ،نجات کی بھی فکر ہے
جنون ہے ثواب کا ،خیال ہے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی ، عجیب شے ہیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی ، الگ ہوئے بھی ہیں کبھی
حسین جلوہ ریز ہوں ،ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطر بیز ہوں ، تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
نگار ہائے فتنہ گر ،کوئی اِدھر کوئی اُدھر
ابھارتے ہوں عیش پر ،تو کیا کرے کوئی بشر
چلو جی قصّہ مختصر ،تمھارا نقطۂ نظر
درست ہے تو ہو مگر، ابھی تو میں جوان ہوں
نہ غم کشود و بست کا،بلند کا نہ پست کا
نہ بود کا نہ ہست کا ،نہ وعدۂ الست کا
امید اور یاس گم ، حواس گم، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم ،ہمہ بجز گلاس گم
نہ مے میں کچھ کمی رہے ،قدح سے ہمدمی رہے
نشست یہ جمی رہے ،یہی ہما ہمی رہے
وہ راگ چھیڑ مطربا ، طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا ، جگر میں آگ دے لگا
ہر ایک لب پہ ہو صدا ، نہ ہاتھ روک ساقیا
پلائے جا پلائے جا ، ابھی تو میں جوان ہوں
یہ گشت کوہسار کی ، یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے ، یہ گل رخوں کے قہقہے
کسی سے میل ہو گیا ، تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا ، یہ ہنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں ،یہ رس بھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں ،اُدھر سے لن ترانیاں
یہ آسمان یہ زمیں ، نظارہ ہائے دل نشیں
انھیں حیات آفریں ، بھلا میں چھوڑ دوں یہیں
ہے موت اس قدر قریں ، مجھے نہ آئے گا یقیں
نہیں نہیں ابھی نہیں ، ابھی تو میں جوان ہوں
حفیظ جالندھری
7 notes
·
View notes
Text
”ابھی تو میں جوان ھُوں“
ھَوا بھی خُوش گوار ھے
گلوں پہ بھی نِکھار ھے
ترنّمِ ھزار ھے , بہارِ پُر بہار ھے
کہاں چلا ھے ساقیا
اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ
یہ مجھ کو دیکھتا ھے کیا ؟؟
اٹھا سبُو، سبُو اُٹھا
سبُو اُٹھا، پیالہ بھر
پیالہ بھر کے دے اِدھر
چمن کی سِمت کر نظر
سَماں تو دیکھ بے خبر
,
وہ کالی کالی بدلیاں
اُفق پہ ھو گئیں عیاں
وہ اِک ھُجومِ مئے کشاں
ھے سُوئے مے کدہ رواں
یہ کیا گماں ھے بد گماں
سمجھ نہ مجھ کو نا تواں
خیالِ زھد ابھی کہاں ؟؟
,
ابھی تو میں جوان ھُوں
,
عبادتوں کا ذکر ھے
نجات کی بھی فکر ھے
جُنون ھے ثواب کا
خیال ھے عذاب کا
مگر سنو تو شیخ جی
عجیب شے ھیں آپ بھی
بھلا شباب و عاشقی
الگ ھُوئے بھی ھیں کبھی ؟؟
,
حسین جلوہ ریز ھوں
ادائیں فتنہ خیز ھوں
ھَوائیں عطر بیز ھوں
تو شوق کیوں نہ تیز ھو ؟؟
,
نگار ھائے فتنہ گر
کوئی اِدھر کوئی اُدھر
اُبھارتے ھوں عیش پر
تو کیا کرے کوئی بشر ؟؟
چلو جی قصّہ مختصر
تمھارا نقطۂ نظر
درست ھے تو ھو مگر
,
ابھی تو میں جوان ھُوں
,
نہ غم کشود و بست کا
بلند کا نہ پست کا
نہ بُود کا نہ ھَست کا
نہ وعدۂ اَلست کا
اُمید اور یاس گم
حواس گم ، قیاس گم
نظر کے آس پاس گم
ھمہ بجز گلاس گم
,
نہ مئے میں کچھ کمی رھے
قدح سے ھمدمی رھے
نشست یہ جمی رھے
یہی ھما ھمی رھے
,
وہ راگ چھیڑ مُطربا
طرَب فزا، الَم رُبا
اثر صدائے ساز کا
جگر میں آگ دے لگا
ھر ایک لب پہ ھو صدا
نہ ھاتھ روک ساقیا
پلائے جا پلائے جا
,
ابھی تو میں جوان ھُوں
,
یہ گشت کوہسار کی
یہ سیر جوئبار کی
یہ بلبلوں کے چہچہے
یہ گل رُخوں کے قہقہے
,
کسی سے میل ھو گیا
تو رنج و فکر کھو گیا
کبھی جو بخت سو گیا
یہ ھنس گیا وہ رو گیا
یہ عشق کی کہانیاں
یہ رَس بَھری جوانیاں
اِدھر سے مہربانیاں
اُدھر سے لَن ترانیاں
,
یہ آسمان یہ زمیں
نظارہ ھائے دل نشیں
انہیں حیات آفریں
بھلا میں چھوڑ دُوں یہیں
ھے موت اس قدر قریں
مجھے نہ آئے گا یقیں
نھیں نھیں ابھی نھیں
,
ابھی تو میں جوان ھُوں
,
”حفیظ جالندھری“
8 notes
·
View notes
Text

اینگزائیٹی اور ڈپریشن میں کی فرق ہے ؟
اينگزائیٹی کے معنی ہیں حد سے بڑھی ہوئی پریشانی، تشویش، یا اضطراب۔ جبکہ ڈپریشن کے لئے اداسی یا افسردگی/ فسردگی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈپریشن کا تعلق عام طور پر کسی گزرے ہوئے واقعے سے ہوتا ہے جبکہ اينگزائیٹی کا سبب کوئی موجودہ یا آنے والا واقعہ بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی امتحان یا انٹرویو سے پہلے جو کیفیت ہوتی ہے، وہ اينگزائیٹی کی نمائندہ ہے جبکہ ناکامی کی صورت میں جو احساسات ہوتے ہیں وہ اگر مستقل صورت اختیار کر لیں تو آدمی ڈپریشن کی طرف چلا جاتا ہے۔
ڈپریشن میں موڈ اکثر خراب یا آف رہتا ہے، اينگزائیٹی میں موڈ اپ رہتا ہے۔ ڈپریشن میں کام کرنے کی توانائی کم ہو جاتی ہے، اينگزائیٹی میں آپ حد سے زیادہ فعال رہتے ہیں۔ ڈپریشن میں لاتعلقی، جبکہ اينگزائیٹی میں حد سے زیادہ فکر لاحق ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ ڈپریشن اور اينگزائیٹی بہت حد تک ایک دوسرے کی الٹ کیفیات ہیں۔
نیورو سائنس کی رو سے بات کریں تو ڈپریشن میں آپ کا اعصابی نظام مخصوص نیورو ٹرانسمیٹرز (نار ایڈرنالین، سیروٹونین، اور ڈوپامین) کی کمی کا شکار ہوتا ہے جبکہ اينگزائیٹی میں نیورونز حد سے زیادہ فعال ہوتے ہیں۔ اس بات کو تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے اعصابی نظام میں دو طرح کے نیورو ٹرانسمٹرز ہیں: ایک وہ جو نيورونز کو فعال کرتے ہیں، ان کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ دوسری قسم کے نیورو ٹرانسمیٹرز نيورونز کی فعالیت کو کم کرکے انہیں واپس حالت سکون میں لاتے ہیں۔ اس گروپ کا سب سے مشہور نیورو ٹرانسمٹر گاما امائنو بیو ٹائرک ایسڈ یا گابا (GABA) ہے۔ اينگزائیٹی میں بس اسی گابا کی کمی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اعصابی نظام حد سے زیادہ فعالیت کا شکار ہو جاتا ہے۔
اينگزائیٹی کی علامات کیا ہیں؟
کسی معم��لی سی بات کو لے کر یا بلا وجہ بہت زیادہ پریشان ہونا، تیز تیز بولنا، جل��ی جلدی کھانا کھانا، بے چینی کی کیفیت، دل کی دھڑکن تیز ہونا، تیز تیز چلنا، ایک ہی بات پر بار بار زور دینا، سرخ اشارے پر رک کر اسٹیرنگ پر طبلہ بجانا، انٹرویو کے دوران ٹانگیں ہلانا یا میز پر طبلہ بجانا، کلاس روم میں پین یا پنسل سے کھیلتے رہنا، ہر وقت مستقبل کے بارے میں فکر مند رہنا، وغیرہ وغیرہ۔
کیا اينگزائیٹی بری چیز ہے؟
اتنی زیادہ بھی نہیں۔ اينگزائیٹی کی حالت میں آپ ناکامی کے خوف سے اپنے ٹارگٹ یا مطلوبہ مقدار سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ اس لیے تھوڑی بہت اينگزائیٹی ہر کسی کو ہوتی ہے اور ان معنوں میں یہ ایک اچھی چیز ہے۔ اسے یو اسٹریس (Eustress) بھی کہا جاتا ہے۔ مگر یہی تشویش اگر مستقل صورت اختیار کر جائے تو اسے اينگزائیٹی کہا جاتا ہے اور اس کا علاج ضروری ہو جاتا ہے۔
اينگزائیٹی کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
بينزو ڈائیزیپن گروپ کی ادویات، جو گابا کی مقدار بڑھاتی ہیں یا اعصابی نظام میں گابا کی طرح اثر پیدا کرتی ہیں، اينگزائیٹی کے علاج کے لیے موثر پائی گئی ہیں۔ (یہاں کسی مخصوص دوائی کا نام تجویز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ممبرز کمنٹس میں یا انباکس میں دوائیوں کا نام پوچھنے پر اصرار نہ کریں بلکہ اينگزائیٹی ہونے کی صورت میں کسی معالج فزیشن یا سائیکیاٹرسٹ سے رجوع کریں)
کیا اينگزائیٹی سے معمولات زندگی پر اثر پڑتا ہے؟
اينگزائیٹی یا تشویش اگر ایک حد سے تجاوز کر جائے تو اس سے معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں۔ مثلاً بعض اوقات فیصلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے:
سلجھائیں بے دلی سے یہ الجھے ہوئے سوال
واں جائیں یا نہ جائیں، نہ جائیں کہ جائیں ہم
یا آدمی پریشانی میں غلط فیصلہ کرسکتا ہے:
کسی کے آنے سے ساقی کے ایسے ہوش اڑے
شراب سیخ پہ ڈالی، کباب شیشے میں
نوجوانوں کی رہنمائی کے لئے، شادی کی پہلی رات پہ نوجوان کو جو فکر مندی ہوتی ہے، اسے پرفارمنس اينگزائیٹی کہتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں یہ با الکل نارمل بات ہے۔ (یہی پریشانی دلھن کو بھی ہو سکتی ہے) مگر مناسب رہنمائی نہ ملنے پر بعض لوگوں کے لئے یہی اينگزائیٹی عمر بھر کا روگ بن جاتی ہے۔
دیکھیں ہمارے پسندیدہ شاعر غالب اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں:
میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں
اور غالب ہی کی زبانی اس کی وجہ بھی سن لیجئے:
میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں
(میرا بس چلے تو انسانی نفسیات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے اور سمجھانے کے لیے نفسیات کے نصاب میں سے ساری کتابیں نکال کر صرف دیوانِ غالب شامل کردوں۔
(قدیر قریشی)
1 note
·
View note
Text
کوالکم پریمیم قیمت بڑھاتا ہے ، لیکن کیا آپ وہ پریمیم ون پلس نورڈ 2 یا پوکو ایف 3 جی ٹی پر ادا کریں گے؟
کوالکم پریمیم قیمت بڑھاتا ہے ، لیکن کیا آپ وہ پریمیم ون پلس نورڈ 2 یا پوکو ایف 3 جی ٹی پر ادا کریں گے؟

اسمارٹ فون کے نام تیز رفتار کاروں کے ناموں کی طرح لگنے لگے ہیں۔ جی ٹی ترجیحی انتخاب لگتا ہے۔ بہتر ہے. ایک طاقتور کار کے ساتھ اچھا چلتا ہے۔ تیز فون کا تاثر بھی دیتا ہے۔ جی ٹی بینڈ ویگن پر آنے والا تازہ ترین ہے۔ Realme GT 5G۔، نئی سیریز کا حصہ ہے۔ ایکس سیریز کی جگہ لے لیتا ہے۔ پرچم بردار قاتل فون ، اور ان دو فونوں میں سے ایک جو جی ٹی دور میں شروع ہوتے ہیں۔ منصفانہ ہونے کے لیے ، اینڈرائیڈ فلیگ شپ قاتل جگہ نے حال ہی میں کافی نقل و حرکت دیکھی ہے ، جس میں ون پلس نورڈ 2۔ اور پوکو ایف 3 جی ٹی. جب کہ پوکو ایف 3 جی ٹی اور ون پلس نورڈ 2 بہت زیادہ تسکین اور طاقت کے ساتھ میڈیا ٹیک ڈائمینسٹی 1200 کے راستے پر چلا گیا ، ریئل جی ٹی اس معاملے کو کوالکوم اسنیپ ڈریگن 888 چپ کے لیے آگے بڑھا رہی ہے۔ یہ اس کے ہتھیاروں میں ایک سنجیدہ آلہ ہے ، بغیر کسی شک کے۔
کی Realme GT 5G کی قیمت 37،999 روپے سے شروع ہوتی ہے۔. یہ ڈیشنگ بلیو یا ڈیشنگ سلور کلر آپشنز میں 8 جی بی+128 جی بی اسٹوریج اسپیک کے لیے ہے ، اور ریسنگ ییلو کلر آپشن میں دستیاب 12 جی بی+256 جی بی سپیک کے لیے 41،999 روپے۔ Realme GT OnePlus Nord 2 کے مقابلے میں کافی زیادہ مہنگا ہے جس کا یہ براہ راست مقابل�� کرتا ہے اور Poco F3 GT بھی ، لیکن ان لوگوں کے لیے جو بڑی سکرین کو برا نہیں مانتے۔ یہ شاید کوالکم پریمیم ہے ، اگر میں اس جملے کو استعمال کروں۔ اس وقت ، OnePlus Nord 2 دو اقسام میں دستیاب ہے ، 8GB+128GB آپشن کی قیمت 29،999 روپے اور 12GB+256GB آپشن کی قیمت تقریبا around 34،999 روپے ہے۔ فی الحال 6GB+128GB آپشن ون پلس سٹور پر دستیاب نہیں ہے۔ Poco F3 GT فلپ کارٹ پر 6GB+128GB آپشن کے لیے 26،999 روپے ، 8GB+128GB کے لیے 28،999 روپے اور 8GB+256GB کنفیگریشن کے لیے 30،999 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔

ایک اچھی بات جو زیادہ تر اینڈرائیڈ پرچم بردار قاتل کم از کم اس نسل میں کر رہے ہیں ، ناظرین کو پرجوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ نسبتا more زیادہ کمپیکٹ فون چاہتے ہیں جو کہ 6.7 انچ اور سکرین کے سائز والے فون واقعی مماثل نہیں ہیں۔ 6.43 انچ کی سکرین کے ساتھ ، Realme GT اپنے قریبی حریفوں سے بہت مختلف نہیں ہے اور اس کے نقوش اچھی طرح چیک میں ہیں۔ رنگ کا آپشن جو آپ یہاں تصویر میں دیکھتے ہیں اسے ریسنگ یلو کہا جاتا ہے۔
ایک اچھی بات جو زیادہ تر اینڈرائیڈ پرچم بردار قاتل کم از کم اس نسل میں کر رہے ہیں ، ناظرین کو پرجوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ نسبتا more زیادہ کمپیکٹ فون چاہتے ہیں جو کہ 6.7 انچ اور سکرین کے سائز والے فون واقعی مماثل نہیں ہیں۔ 6.43 انچ کی سکرین کے ساتھ ، Realme GT اپنے قریبی حریفوں سے بہت مختلف نہیں ہے اور اس کے نشانات کو اچھی طرح چیک کیا جاتا ہے۔ رنگ کا آپشن جو آپ یہاں تصویر میں دیکھتے ہیں اسے ریسنگ یلو کہا جاتا ہے – یہ رفتار اور کارکردگی کے موضوع کو بھی آگے بڑھاتا ہے۔ ترازو کو ٹپ کرنے کے معاملے میں ، Realme GT کے چمڑے کی قسم کا وزن 186.5 گرام ہے ، جو شیشے کے پچھلے ورژن سے 0.5 گرام زیادہ ہے۔ یہ ایک نسبتا کمپیکٹ فون ہے ، مثال کے طور پر ، ون پلس نورڈ 2 سے زیادہ مختلف نہیں ہے ، اور ان لوگوں کے لیے مثبت خبر ہونی چاہیے جو صرف بڑے فون کو مناسب طریقے سے نہیں سنبھال سکتے جو کہ اب عام ہے۔

جی ہاں ، یہ سبزی خور چمڑا ہے نہ کہ کچھ فینش جو کہ فاصلے سے دیکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ بہت لمبے عرصے کے بعد فون پر اصل چمڑا۔ اور اسے پکڑنا بہت اچھا لگتا ہے۔ کیمرہ ماڈیول کو چلانا ایک چمکدار سیاہ ریسنگ پٹی ہے ، جو پیلے رنگ کے ساتھ اچھی طرح متصادم ہے۔ آپ کو یاد رکھیں ، یہ چمکدار ہے اور دھواں ، دھول اور یقینا بہت آسانی سے ڈنگ لیتا ہے۔ بالکل برعکس جب یہ اچھی طرح سے چمڑے کے ساتھ ساتھ دھول اور دھواں سے بھرا ہوا ہے۔
مزید بات یہ ہے کہ اس فون کے پچھلے حصے میں چمڑا ہے۔ جی ہاں ، یہ ویگن چمڑا ہے اور نہ صرف کچھ فینش جو کہ دور سے اس کی طرح نظر آتی ہے۔ بہت لمبے عرصے کے بعد فون پر اصل چمڑا۔ اور اسے پکڑنا بہت اچھا لگتا ہے۔ اور اس کے بارے میں صرف کچھ ہے جو پیلے رنگ میں ملبوس ہے۔ یہ چمڑا کھردرا استعمال کرنے کے لیے کافی مزاحم لگتا ہے اور آپ کی پتلون کی جیب میں ایک چابی یا کچھ سکے اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اگر پانی کا قطرہ غلطی سے اس پر گر جائے تو یہ خراب موڈ میں بھی نہیں اترتا۔ چمڑے کو سنبھالنے کے لیے کافی حساس ہوسکتا ہے ، لیکن یہاں اچھے معیار کے چمڑے کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ ان عناصر کی مخصوص نمائش کو برقرار رکھتا ہے جو اسمارٹ فونز کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ کیمرہ ماڈیول کو چلانا ایک چمکدار سیاہ ریسنگ پٹی ہے ، جو پیلے رنگ کے ساتھ اچھی طرح متصادم ہے۔ آپ کو یاد رکھیں ، یہ چمکدار ہے اور دھواں ، دھول اور یقینا بہت آسانی سے ڈنگ لیتا ہے۔ بالکل برعکس جب یہ اچھی طرح سے چمڑے کے ساتھ ساتھ دھول اور دھواں سے بھرا ہوا ہے۔ شاید ایک دھندلا ختم بہتر ہوتا۔

6.43 انچ کا سپر AMOLED ڈسپلے ون پلس نورڈ 2 جیسا ہی سائز کا ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں فونز میں ایک جیسے نقش ہیں۔ اسی طرح کی ریزولوشن بھی — 2400 x 1800 پکسلز۔ عمدہ اختلافات یہ ہیں کہ Realme GT 120Hz ریفریش ریٹ کو اسپیک شیٹ پر اتار دیتا ہے لیکن اسے گوریلا شیشے کی حفاظتی پرت نہیں ملتی
6.43 انچ کا سپر AMOLED ڈسپلے ون پلس نورڈ 2 جیسا ہی سائز کا ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں فونز میں ایک جیسے نقش ہیں۔ اسی طرح کی ریزولوشن بھی — 2400 x 1800 پکسلز۔ عمدہ اختلافات یہ ہیں کہ Realme GT 120Hz ریفریش ریٹ کو اسپیک شیٹ پر اتار دیتا ہے لیکن اسے گوریلا گلاس حفاظتی پرت نہیں ملتی ، جبکہ OnePlus Nord 2 صرف زیادہ سے زیادہ 90Hz کرتا ہے لیکن اسے گوریلا گلاس 5 ملتا ہے۔ اپنے اسمارٹ فون اور اپنی زندگی میں جو آپ زیادہ چاہتے ہیں اس کا انتخاب کریں۔ باکس سے باہر اور بعد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ، Realme GT کی سکرین یقینی طور پر اسکرین پر موجود چیزوں کو کافی مؤثر انداز میں پیش کرتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ آٹو چمک تبدیلیاں بعض اوقات بہت زیادہ اچانک ہوتی ہیں ، اور تھوڑا بہت جارحانہ ، خاص طور پر جب اسکرین کو مدھم کرتے ہیں۔ میں نے ترتیبات> Realme لی�� میں DC Dimming کو آف کرنے کے بعد اس رویے میں کچھ کمی آئی۔ P3 معیار کے لیے سپورٹ ہے اور آپ رنگ کی فراوانی کو کم کر سکتے ہیں ، ویڈیو کلر بڑھانے والے ، کمفرٹ موڈ اور روشن HDR ویڈیو موڈ کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ میں نے ان چیزوں کو چھوڑنے کو ترجیح دی ، جو میں دیکھ رہا تھا اس کے لیے زیادہ فطری مگر واضح ردعمل کو برقرار رکھنے کے لیے ، اور مصنوعی فروغ دینے کی ایک اور پرت شامل نہ کرنے کے لیے۔

OnePlus Nord 2 اور Poco F3 GT کے برعکس جنہوں نے MediaTek Dimensity 1200 چپ کی مختلف حالتوں کو بہت اچھے اثر کے لیے استعمال کیا ، Realme GT زیادہ روایتی اور یکساں طور پر طاقتور راستے پر چل رہا ہے۔ کچھ زیادہ نہیں ، کچھ کم نہیں۔ کوالکوم اسنیپ ڈریگن 888 چپ۔
Realme GT کے ہڈ کے تحت طاقت وافر مقدار میں ہے۔ اس کے نام پر عمل کرنا ، یہ یقینی طور پر ہے۔ OnePlus Nord 2 اور Poco F3 GT کے برعکس جنہوں نے MediaTek Dimensity 1200 چپ کی مختلف حالتوں کو استعمال کیا بہت اچھے اثر کے لیے ، Realme GT زیادہ روایتی اور یکساں طور پر طاقتور راستے پر چل رہا ہے۔ کچھ زیادہ نہیں ، کچھ کم نہیں۔ کوالکوم اسنیپ ڈریگن 888 چپ۔ مثال کے طور پر ، ایک سلیکون جو ہم نے پہلے ہی ژیومی ایم آئی 11 الٹرا میں دیکھا ہے۔ یہ چپ واقعتا game پیشرو کے مقابلے میں گیم کو آگے لے جاتی ہے ، سنیپ ڈریگن 865 سیریز- یہ سی پی یو کی کارکردگی کے ساتھ 25 فیصد زیادہ تیز ہے اور گرافکس 35 فیصد زیادہ طاقتور ہے اور ٹاپ کی تازہ ترین لائن کے لیے درست ہے۔ اینچ اینڈرائیڈ فونز۔ نئے 5nm فن تعمیر کے فوائد ہیں۔ اور یہ وہ جگہ ہے جہاں Realme کے اپنے اضافے واقعی صلاحیت اور لمبی عمر میں اضافہ کرتے ہیں۔

Realme نے کیا کیا ہے آپ کو آپ کے فون میں اس تیز UFS 3.1 اسٹوریج ماڈیول کا ایک حصہ اضافی رام کے طور پر استعمال کرنے کا آپشن دیا گیا ہے۔ 12GB رام کے ساتھ میرے Realme GT ٹیسٹ یونٹ پر ، میرے پاس 7GB RAM تک مزید اضافہ کرنے کا آپشن تھا – 3GB ، 5GB اور 7GB کے وقفے
آپ نے کئی سال پہلے اپنے ونڈوز پی سی پر رام کی توسیع کا استعمال کیا ہوگا ، جس نے آپ کو منسلک بیرونی اسٹوریج کے ایک حصے کو ریم کے لیے ٹاپ اپ کے طور پر کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ شاید ہمیشہ رام کی طرح تیز نہیں ہوتا کیونکہ بیرونی اسٹوریج کی رفتار بالکل وہی نہیں تھی جو اب ہے۔ لیکن آپ کو خیال آتا ہے۔ Realme نے کیا کیا ہے آپ کو آپ کے فون میں اس تیز UFS 3.1 اسٹوریج ماڈیول کا ایک حصہ اضافی رام کے طور پر استعمال کرنے کا آپشن دیا گیا ہے۔ 12GB رام کے ساتھ میرے Realme GT ٹیسٹ یونٹ پر ، میرے پاس 7GB RAM تک مزید 3GB ، 5GB اور 7GB کے وقفے شامل کرنے کا آپشن تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ کو فون پر زیادہ تر استعمال کے منظرناموں میں 12 جی بی سے زیادہ ریم کی ضرورت پڑے گی ، یہاں تک کہ گیمنگ کے دوران ، یہ واقعی مستقبل کے تحفظ کے لیے نامعلوم کے خلاف انشورنس کو شامل کرتا ہے۔ گیمنگ کے لیے جی ٹی موڈ بھی ہے ، جو کہ بہترین کارکردگی پر مرکوز ہے – جب آپ Realme GT خریدتے ہیں ، یہ آپ کے فون پر دستیاب ہونا چاہیے لیکن یہ لکھنے کے وقت اپ ڈیٹ کے طور پر میرے فون پر نہیں اترا۔

میں نے محسوس کیا کہ آٹو چمک تبدیلیاں بعض اوقات بہت زیادہ اچانک ہوتی ہیں ، اور تھوڑا بہت جارحانہ ، خاص طور پر جب اسکرین کو مدھم کرتے ہیں۔ میں نے ترتیبات> Realme لیب میں DC Dimming کو آف کرنے کے بعد اس رویے میں کچھ کمی آئی۔ یہ کہا جا رہا ہے ، یہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔
اور پھر 65 واٹ کا سپر ڈارٹ چارج ہے جو 35 منٹ میں مکمل طور پر خارج ہونے والی Realme GT کو چارج کرتا ہے۔ مختلف عوامل پر منحصر ہے ، یہاں تک کہ 3 منٹ کا چارج بھی اتنا اچھا ہے کہ فون کو 50 منٹ تک چلنے دیا جائے۔ فاسٹ چارجر باکس میں آتا ہے ، اور آپ کو اسے علیحدہ آلات کے طور پر خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک بڑی 4500mAh کی بیٹری ہے جو ایک ہی چارج پر ایک دن تک چلنے کے لیے کافی ہے لیکن کسی طرح ، جب میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے تو میں اس سے زیادہ نہیں نکل سکتا۔ ابتدائی طور پر ایک دو بار ایسا ہوا جب اسٹینڈ بائی بیٹری ڈرین راتوں رات 20 as تک زیادہ تھی ، لیکن یہ سلوک پہلے چند دنوں کے بعد دوبارہ پیدا نہیں ہوا۔ فاسٹ چارج آپ کو کافی تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے ، اور یہ ایک اچھی بات ہے۔ Realme GT پر کوئی وائرلیس چارجنگ نہیں ہے۔

اینڈرائیڈ پرچم بردار قاتل اس سال انتقام لے کر واپس آئے ہیں ، اور Realme GT اس لائن میں تازہ ترین ہونے کی وجہ سے ، گیم کو آگے بڑھانے کا دباؤ ہے جو کہ ون پلس نورڈ 2 اور پوکو ایف 3 جی ٹی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
آپ Realme GT پر ٹرپل کیمروں سے کم کسی چیز کی توقع نہیں کریں گے ، اور اسی طرح یہ بھی ختم ہو رہا ہے۔ آپ کو 64 میگا پکسل کا وسیع کیمرہ ملے گا جو سونی آئی ایم ایکس 682 سینسر ، 8 میگا پکسل کا الٹرا وائیڈ کیمرا اور 2 میگا پکسل کا میکرو لینس ہے۔ اینڈرائیڈ فلیگ شپ کلر فونز کی تازہ ترین لائن میں بعد کے دو عام لگتے ہیں ، جبکہ 64 میگا پکسل کا سنیپر پوکو ایف 3 جی ٹی کے برابر ہے اور ون پلس نورڈ 2 کی 50 میگا پکسل کی کوششوں سے زیادہ فوٹو گرافی کی کارکردگی متاثر کن ہے۔ مختصر طور پر تصاویر میری توقع سے کہیں زیادہ رنگین ہیں ، لیکن ایک ہی وقت میں ، اس کے ساتھ چلنے کے لیے واقعی ایک عمدہ متحرک رینج اور نمائش موجود ہے۔ میکرو کی تصاویر تیزی سے توجہ مرکوز کر لیتی ہیں ، بہت سی تفصیلات ہیں جن کی آپ تعریف کر سکتے ہیں جیسا کہ آپ زوم کرتے ہیں اور کم روشنی والی تصاویر زیادہ تر اچھی طرح سامنے آتی ہیں ، سوائے اس کے کہ گورے ہمیشہ زیادہ درست نہیں ہوتے ہیں۔ آپ جس چیز سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے حالانکہ اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے – یہ وہ کرکرا پن ہے جو Realme GT کے کیمرے کھینچتے ہیں (اور یہ ہائی ریزولوشن 64MP موڈ میں بھی نہیں ہے) بالکل کوئی مسخ یا جارحانہ شور میں کمی کو خراب نہیں کرتا کناروں.

آپ کو صرف اس خوبصورت چمڑے کی تکمیل پر واپس آنا ہے۔ چمڑے کو سنبھالنے کے لیے کافی حساس ہوسکتا ہے ، لیکن یہاں اچھے معیار کے چمڑے کا استعمال کیا گیا ہے اور یہ ان عناصر کی مخصوص نمائش کو برقرار رکھتا ہے جو اسمارٹ فونز کو برداشت کرنا ہوں گے۔
آخری لفظ: آپ کو اس کا جواب دینا ہوگا – Realme GT 5G یا OnePlus Nord 2؟
اینڈرائیڈ پرچم بردار قاتل اس سال انتقام لے کر واپس آئے ہیں ، اور Realme GT اس لائن میں تازہ ترین ہونے کی وجہ سے ، گیم کو آگے بڑھانے کا دباؤ ہے جو کہ ون پلس نورڈ 2 اور پوکو ایف 3 جی ٹی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اور یہ ایک طرح سے ہ��۔ ڈائنامک رام کی توسیع ٹھنڈی ہے۔ GT موڈ محفل کے لیے بہت مفید ہونا چاہیے۔ اور ہر ایک کو واقعی فاسٹ چارجنگ ٹیک بہت مفید پائے گی۔ یہ ایک ایسے فون کے تجربے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو کہ مستقل ہوتا ہے ، اور پھر بھی وقتا فوقتا پرجوش رہتا ہے ، جیسے پیٹھ پر چمڑے کی تکمیل کے ساتھ۔ Realme GT مطلق آسانی کے ساتھ طاقت اور شخصیت کی چیک لسٹ کو ختم کرتا ہے۔ اگرچہ ہم نے قائم کیا ہے کہ Realme GT 5G یقینی طور پر تجربے کے لحاظ سے سودے کا اختتام کر رہا ہے ، اگر میں اسے استعمال کرنا جاری رکھوں تو یہ Qualcomm پریمیم ہے ، جس کی قیمت OnePlus Nord 2 سے قدرے زیادہ ہے۔ اسپیک شیٹ میں بہت سی مماثلتیں ایک طرف ، کوالکم چپس کی قیمت میڈیا ٹیک چپس سے زیادہ ہے ، جس کا ون پلس اور پوکو نے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ اور یہ واقعی مجھے اس سوال کی طرف لے جاتا ہے جس کا جواب صرف آپ ہی دے سکتے ہیں۔ کیا آپ یہ پریمیم OnePlus Nord 2 پر ادا کریں گے؟
سب پڑھیں۔ تازہ ترین خبریں، تازہ ترین خبر اور کورونا وائرس خبریں یہاں
. Source link
0 notes
Text
عمر اکمل پاکستانی کوہلی کیوں نہ بن سکا
تین اگست 2009 کی بات ہے سری لنکا کے شہر دمبولا میں ایک نوجوان اپنے دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں بیٹنگ کیلیے میدان میں اترا اور 66 رنز کی عمدہ اننگز سے سب سے دادوتحسین سمیٹی۔ اس میچ سے تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے، اسی دمبولا اسٹیڈیم میں ایک اور نوجوان بیٹسمین ایکشن میں نظر آیا مگر ڈییبو پر 12 رنز سے آگے نہ بڑھ سکا۔ پہلے والا بیٹسمین عمر اکمل اور دوسرا ویرات کوہلی تھا، دونوں کی عمروں میں تقریباً ایک سال کا فرق ہے، کیریئر میں بھی ایسا ہی رہا، مگر آج اگر ہم عمر اکمل کو دیکھیں توانھوں نے 11 سالہ کیریئر میں ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں مجموعی طور پر 6 ہزار رنز بھی نہیں بنائے، ان کے کیریئر ریکارڈ میں صرف 3 سنچریاں ہی درج ہیں۔ دوسری جانب کوہلی بھارت کے کپتان بن چکے، انھوں نے تینوں طرز میں تقریباً 22 ہزار رنز بنا لیے، 70 سنچریاں ان کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، یقین مانیے عمر اکمل بھی کوہلی سے کم نہ تھے،آپ صرف کرکٹ کھیلیں تو اچھی بات ہے لیکن اگر کرکٹ سے کھیلیں گے تو معافی نہیں ملے گی۔
کوہلی کو بھی آغاز میں رویے کے حوالے سے مسائل کا سامنا تھا مگر انھوں نے بہت جلد اپنی خامیوں کا اندازہ لگا کر کھیل پر ہی توجہ مرکوز کر لی جس کی وجہ سے آج دنیا کے نمبر ون بیٹسمین ہیں، عمر اکمل نے خود کو کھیل سے بڑا سمجھا جس کی وجہ سے آج یہ حال ہے، ب��چارے عبدالقادر بھی اپنے داماد کی وجہ سے پریشان ہی رہے، وہ انھیں سمجھاتے مگر کوئی فائدہ نہ ہوتا، عمر اکمل اگر فضول حرکات میں نہ پڑتے تو ان کا کیریئر ریکارڈ بھی شاندار ہوتا مگر انھوں نے کبھی کرکٹ کو ترجیح نہیں دی، دیگر ’’مشاغل‘‘ میں پڑے رہے جس کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑا، زیادہ دور کیوں جاتے ہیں اپنے کزن بابر اعظم سے ہی سبق لیں جو مختصر کیریئر میں قیادت کے منصب پر فائز ہو چکے، دنیا بھر میں انھیں اپنی کارکردگی کی وجہ سے سراہا جاتا ہے مگر افسوس عمر نے اپنے کیریئر کا خود گلا گھونٹ دیا، دورۂ آسٹریلیا میں جب انھوں نے بھائی کی ’’محبت‘‘ میں جھوٹی انجری کا بہانہ بنایا تب ہی سب کو اندازہ ہو گیا ��ھا کہ وہ بڑے ’’فنکار‘‘ ہیں، بعد میں لاتعداد تنازعات میں پھنسے، ہر بارسزا کے بعد واپس بھی آ جاتے مگر اب معاملہ سنگین لگ رہا ہے، مشکوک رابطے کی بروقت اطلاع نہ کرنے پر وہ تین سال کی پابندی بھگتیں گے، اگر کوئی ’’سیٹنگ‘‘ نہیں ہوئی تو وہ اپیل نہیں کریں گے۔
البتہ اگر یہ پری پلان گیم ہے تو شاید اپیل پر سزا کم کر دی جائے اور پھر آئندہ سال دوبارہ واپس آ جائیں، ان کے ’’چاہنے والے‘‘ بہت ہیں جو ایک سیٹ مہرے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے، دیکھتیں ہیں آگے کیا ہوتا ہے، بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ پی ایس ایل 3 میں بھی عمر اکمل کے حوالے سے شکایات موجود تھیں مگر ان پر پی سی بی نے توجہ نہیں دی، چوتھے ایڈیشن کے ایک اہم میچ سے قبل ان کے حوالے سے ٹپ ملی جس پر وارننگ دے کر میچ کھلایا گیا، اس سال قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ پھنس گئے،ابتدا میں بورڈ نے ٹھوس ثبوت ہونے کی بات کہی تھی بعد میں کیس صرف رپورٹ نہ کرنے کا بنا، عمر اکمل نے تسلیم کیا کہ وہ مشکوک افراد سے ملے تھے لیکن وجہ ذاتی قرار دی، یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی انھیں بلیک میل تو نہیں کر رہا تھا، افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری کرکٹ میں متواتر ایسے واقعات ہو رہے ہیں، لیکچرز وغیرہ کا کسی پر اثر ہی نہیں ہوتا، یہ تو وہ کیسز ہیں جو سامنے آ گئے۔
نجانے کتنے کھلاڑی اب بھی آزاد گھوم رہے ہوں گے، دراصل یہ سارا قصور پی سی بی کا ہے جس نے نام کی زیرو ٹولیرنس پالیسی اپنائی ہے، اگر فکسرز کو نشان عبرت بنا دیا جاتا تو دوسروں کو ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوتی، مگر افسوس یہاں عامر جیسے جیل جانے والے فکسرز کو پھر ہیرو بنایا گیا، اب شرجیل خان کو واپس لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، ماضی کے داغدار کرکٹرز کو بڑے بڑے عہدے دیے گئے، اسی لیے ایسا ہوتا رہا اور آئندہ بھی ہو گا، عمر اکمل کو ابھی تین سال سزا ہوئی کیا بورڈ ان کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے چیک کرائے گا؟ یہاں کہا جائے گا کہ اختیار نہیں ہے، میں نہیں مانتا کہ اگر پی سی بی کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے سے کسی کھلاڑی کے خلاف تحقیقات کا کہے تو وہ انکار کر دے گا۔
بات قدم اٹھانے کی ہے، جتنے مشکوک کرکٹرز ہیں آپ نہ صرف ان کے بلکہ اہلیہ، بہن، بھائی، قریبی دوستوں، ڈرائیورز اور مالی تک کے اکاؤنٹس چیک کرائیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، اگر واقعی کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں تو سینٹرل کنٹریکٹ میں یہ شق شامل کریں کہ اکاؤنٹس اور جائیدادوں کی تفصیلات چیک کی جا سکیں گی، اگر کوئی کھلاڑی انکار کر دے تو اسے کنٹریکٹ نہ دیں کہیں ویسے ہی کھیلے اور پھر شک ہو تو کسی ایجنسی سے چیک کرنے کی درخواست کر دیں، نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ بورڈ حکام کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں تاکہ انھیں ایسا نہ لگے کہ امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ساتھ فکسنگ پر تاحیات پابندی کا اعلان کر دیں، اس کے بعد دیکھیے گا کہ یقینی طور پر بہتری آئے گی، ابھی تو قوم کو بے وقوف بنانے کیلیے زیرو ٹولیرنس کا راگ الاپتے رہیں، مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، آج عمر اکمل تو کل کوئی اور کھلاڑی اپنی غلطی سے پکڑا جائے گا پھر اس پر چند برسوں کی پابندی لگ جائے گی مگر اصل مسئلہ برقرار رہے گا، آپ کو مرض کی جڑ تک پہنچنا ہے تو گڑے مردے اکھاڑنے ہوں گے،ان کے پوسٹ مارٹم سے ہی پاکستان کرکٹ میں سرایت کرنے والے کرپشن وائرس کا درست اندازہ ہو گا، جسٹس قیوم کی رپورٹ کا پھر مطالعہ کریں اور نائنٹیز کے نام نہاد ہیروز کو گھر بھیجیں، شاید کچھ بہتری آ جائے، ورنہ قوم کو پھر زیرو ٹولیرنس کا لالی پاپ پکڑا کر چین کی نیند سو جائیں۔
سلیم خالق
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Video
youtube
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے
میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے
مستانہ کر رہا ہوں رہِ عاشقی کو طے لے جائے جذبِ شوق مرا اب جدھر مجھے
ڈرتا ہوں جلوۂ رُخِ جاناں کو دیکھ کر اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے
یکساں ہے حسن و عشق کی سر مستیوں کا رنگ ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے
مرنا ہے ان کے پاؤں پہ رکھ کر سرِ نیاز کرنا ہے آج قصۂ غم مختصر مجھے
سینے سے دل عزیز ہے، دل سے ہو تم عزیز سب سے مگر عزیز ہے میری نظر مجھے
میں دُور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لئے تم پاس ہو، تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے
کیا جانیے قفس میں رہے کیا معاملہ اب تک جو ہیں عزیز مرے بال و پر مجھے
دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغِ جگر مجھے یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
جگر مراد آبادی -
#iqbal bano#urdu#pakisani#pakistani musicians#Pakistani music#pakistani classic#pakistaNI culture#ghazal singing#urdu ghazal#Urdu music#urdu shayari#Urdu Poetry#jigar muradabadi
15 notes
·
View notes
Photo

Nazar A Rha Hy Madena Madena
نظر آرہا ہے مدینہ مدینہ
اللہ تعالیٰ نے ’’پانی ‘‘ میں تاثیر رکھی ہے کہ… وہ آگ کو بجھا دیتا ہے… اسی طرح اللہ تعالیٰ نے درودشریف میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ… وہ گناہوں کو بجھا اور مٹا دیتا ہے… مگر درودشریف میں گناہ مٹانے کی تاثیر… پانی کے آگ بجھانے کی تاثیر سے زیادہ ہے… حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: الصلوٰۃ علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم امحق للخطایا من الماء للنار ( القول البدیع ص ۲۶۳) پانی صرف آگ کو بجھا دیتا ہے… مگر اس کے اثرات کچھ نہ کچھ باقی رہتے ہیں… جبکہ ’’درود شریف‘‘ گناہوں کو اُن کے اثرات کے ساتھ مٹا دیتا ہے… اور اُن گناہوں کی جگہ نیکیاں ڈلوا دیتا ہے… اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ لوگ کہتے ہیں کہ… اس طرح کے فضائل سنانے اور لکھنے سے ’’گناہگاروں‘‘ کی ’’حوصلہ افزائی ‘‘ ہوتی ہے اور وہ یہ سوچ کر گناہوں میں لگے رہتے ہیں کہ… بعد میں درود شریف پڑھ لیں گے… سارے گناہ مٹ جائیں گے… جواب یہ ہے کہ… (۱) یہ فضائل ہمارے اپنے گھڑے ہوئے نہیں ہیں… قرآن مجید نے خود درودشریف کا حکم سنایا … حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے درودشریف کے فضائل بیان فرمائے… حضرات خلفاء راشدین نے درودشریف کی تاکید فرمائی… درودشریف کے یہ فضائل… اس امت پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہیں… اس امت میں نیک مسلمان بھی ہیں… اور گناہگار بھی… درودشریف کے فضائل اور فوائد سب کے لئے ہیں… پھر کسی اندیشے کی بناء پر ان فضائل کو کیسے چھپایا جا سکتا ہے ؟ (۲) درودشریف ��ڑھنے سے صرف گناہ نہیں مٹتے… اس سے انسان کے نفس کی بھی اصلاح ہوتی ہے… درودشریف روح کی زکوٰۃ یعنی پاکی ہے… یہ انسان کے دل سے نفاق اور گناہ کو نکالنے والا عمل ہے… اس لئے اگر کوئی گناہگار اپنے گناہوں کی معافی کے لئے کثرت سے درودشریف پڑھتا ہے تو… اس بات کی قوی اُمید ہے کہ… اس کو ’’تقویٰ‘‘ نصیب ہو جائے… اور آئندہ وہ گناہ نہ کرے… یا بہت کم کرے … اس لئے درودشریف کے فضائل خوب سنانے چاہئیں … درودشریف ذکر بھی ہے اور دعاء بھی… دواء بھی ہے اور شفاء بھی… کفارہ بھی ہے اور ترقی بھی… (۳) اول تو کوئی مسلمان یہ سوچ کر گناہ کر ہی نہیں سکتا کہ وہ بعد میں درودشریف پڑھ کر خود کو بخشوا لے گا… اور اگر بالفرض کوئی ایسا سوچے بھی تو… اس کا دل شرمسار ہو گا… اور وہ گناہ سے بچ جائے گا… کیونکہ درودشریف میں اللہ تعالیٰ کا نام آتا ہے… حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتا ہے… جب کوئی ان دو پاکیزہ ناموں کو سوچتا ہے تو اس کی سوچ بھی نور پاتی ہے… مسلمان گناہ نہیں کرتا… گناہ مسلمان سے ہو جاتا ہے… اور پھر اگر وہ نیکی کی طرف لپکتا ہے… اِستغفار کرتا ہے…صدقہ دیتا ہے… یا درود شریف پڑھتا ہے تو یہ… اس کے ایمان کی علامت ہے کہ… وہ اپنے گناہ پر نادم اور پریشان ہے… اور وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف لوٹنا چاہتا ہے… حضرت پیر کامل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے… گناہوں کو مٹانے کا وظیفہ ارشاد فرما دیا… اللہ تعالیٰ ان کو … اپنی شان کے مطابق جزائے خیر عطاء فرمائیں… بہت بڑا وظیفہ ہے بہت بڑا… گناہوں کی ہر تباہ کاری کو مٹانے والا وظیفہ … گناہوں کے اثرات تک کو دھو ڈالنے والا وظیفہ… گناہوں کے دنیوی اور اُخروی نقصانات سے بچانے والا وظیفہ… الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم … حضرت نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف بھیجنا… اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ صلوٰۃ اُن پر ہر دم سلام اُن پر ہر دم مرے دل کی باتیں مرے دل کی ٹھنڈک مدینہ مدینہ … مدینہ مدینہ ٭…٭…٭ بہت سے لوگ ’’درودشریف ‘‘ کثرت سے پڑھتے ہیں… مگر ’’درودشریف ‘‘ کے اثرات اُن کی زندگیوں میں نظر نہیں آتے… آخر کیا وجہ ہے ؟ بہت سے لوگ کثرت سے ’’درودشریف ‘‘ پڑھتے ہیں… مگر نہ اُن کی فکریں کم ہوتی ہیں… اور نہ اُن کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں… آخر کیا وجہ ہے؟ بہت سے لوگ کثرت سے ’’درودشریف ‘‘ کی تعداد پوری کرتے ہیں… مگر بظاہر نہ اُن کی اصلاح ہوتی ہے… اور نہ اُن کے گناہ کم ہوتے ہیں… آخر وجہ کیا ہے ؟ آج اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کا ارادہ ہے… مگر ایک نظر حالات حاضرہ پر بھی ڈال لیں…گذشتہ ایک ماہ سے… لوگ امریکہ اور ایران کی ویڈیو گیم جنگ دیکھ کر حیران ہیں…دونوں ملک جس قدر تہذیب، ترتیب اور احتیاط سے جنگ کر رہے ہیں… اس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی… اب تو غیر جانبدار افراد بھی… سمجھ گئے ہیں کہ یہ جنگ نہیں کوئی … باقاعدہ کھیل ہے… جس میں بہت بھونڈے اندازسے دنیا کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے… امریکہ نے صدام حسین کے خلاف کس طرح جنگ کی؟ یہ ساری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا… حالانکہ صدام حسین کی فوجی طاقت ایران سے زیادہ تھی… اور ایران دس سال تک…صدام حسین سے جنگ کر کے اسے ایک قدم کی شکست نہیں دے سکا تھا… ایران کو کسی بھی غیر مسلم طاقت سے لڑنے کا ابھی تک کوئی ایک تجربہ بھی حاصل نہیں ہے… وہ یمن میں سعودی عرب کے خلاف … شام میں وہاں کے سنی مجاہدین کے خلاف… عراق میں داعش اور مجاہدین گروپوں کے خلاف… افغانستان میں طالبان کے خلاف… اور لبنان میں وہاں کی حکومت کے خلاف لڑنے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے… اور اپنی جنگ اپنے اسی ہدف تک محدود رکھنا چاہتا ہے… اور اسے عالمی کفریہ طاقتوں کی… ظاہری اور خفیہ اِمداد حاصل ہے… مگر موجودہ ویڈیو گیم جنگ کا مقصد کیا ہے؟ … جواب یہ ہے کہ …(۱) اس وقت امریکہ کا حکمران طبقہ شدید اختلافات کا شکار ہے… وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے دو گروپ بن چکے ہیں… دونوں اگرچہ اسرائیل نواز ہیں … مگر ایران کے بارے میں ان کے خیالات میں اتفاق نہیں ہے(۲) امریکہ میں انتخابات قریب ہیں آج کل وہاں کے ہر فیصلے کا تعلق امریکی ووٹروں کو متاثر کرنا ہوتا ہے(۳)امریکہ اور چین کے اختلافات شدید ہو چکے ہیں… مگر دونوں براہ راست ایک دوسرے سے فی الحال لڑنا نہیں چاہتے(۴) ترکی میں حکومت تبدیل کرانا اس وقت امریکہ، یورپ اور کئی مسلم ممالک کی سب سے اہم خواہش ہے(۵) امریکہ اور امارت اسلامی افغانستان کے مذاکرات آخری مرحلے پر ہیں… اور امریکہ اپنے پیچھے طالبان کو … بے فکر چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا(۶) پاکستان کو دوبارہ پوری طرح سے امریکی کیمپ میں لانے کی… امریکہ کو سخت ضرورت محسوس ہو رہی ہے… مگر پاکستان اب کس طرف ہے… یہ خود پاکستان والوں کو بھی معلوم نہیں ہے… ہر دن پالیسی بدلتی ہے… کہیں کوئی دو ٹوک موقف نہیں رکھا جاتا… اس صورتحال نے امریکہ اور چین دونوں کے سر میں شدید درد کر رکھا ہے… اور یہ دونوں ملک پاکستان کو اپنے ساتھ گھسیٹنے کی پوری کوشش میں ہیں (۷) انڈیا کی موجودہ حکومت کے تازہ اقدامات نے… اس پورے خطے کو ایک نئے اور خوفناک بحران کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے… اب ان سات امور پر غور کریں تو… آپ کے لئے حالات کو سمجھنا اور ان کا تجزیہ کرنا آسان ہو جائے گا… ہمارے لئے فکر کی بات… کشمیر کے حالات اور انڈیا کے مظلوم مسلمان ہیں… انڈیا نے کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی اور دین بدلی کی محنت شروع کر رکھی ہے… مگر ان شاء اللہ وہ ناکام ہو گا… اور اگر انڈیا کے حالات اور فیصلے ایسے ہی رہے تو اس خطے میں ایک بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے… ہمیں افغانستان کے برادر طالبان کے لئے بھی… دعاء کرنی چاہیے کہ وہ … مذاکرات اور فیصلے کے اس اہم موڑ پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور رہنمائی سے سرفراز رہیں… نہ نقشہ نہ سرحد نہ رنگ اور قومیں ہمیں جوڑتا ہے … مدینہ مدینہ ٭…٭…٭ اہل علم میں سے اکثر کی رائے ہے کہ… درودشریف وہ عبادت ہے جو ہر حال میں ’’مقبول ‘‘ ہے… اسی لئے درودشریف کے وظیفے کو… مقبول وظیفہ کہا جاتا ہے… کسی بھی مومن کا پڑھا ہوا… ایک بھی درود یا سلام ضائع نہ ہو… اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت وسیع اور طاقتور نظام قائم فرما رکھا ہے… جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک… درودشریف کا معاملہ بھی… دیگر عبادات کی طرح ہے …بعض شرط��ں کے ساتھ… درود شریف قبول ہوتا ہے… اور اگر وہ شرطیں نہ پائی جائیں تو … درودشریف قبول نہیں ہوتا… جس طرح نماز، روزے، صدقے اور جہاد کا معاملہ ہے کہ… ان کی شرطیں پوری کی جائیں تو قبول ہوتے ہیں… آج ہمارا موضوع یہ علمی بحث نہیں ہے… ہم آج اسی بات کو لے کر چلتے ہیں کہ … صلوٰۃ و سلام … وہ عبادت ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے… ان شاء اللہ تو پھر سوال وہی کہ… بہت سے افراد پر اس کا کوئی بھی اثر، نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا… حالانکہ ہم احادیث مبارکہ میں…درودشریف کے بہت سے اثرات، نتائج اور فوائد پڑھتے ہیں… اس سوال کا جواب بہت مفصل ہے… مگر آج اسے مختصر پیش کرنے کی کوشش ہو گی ان شاء اللہ … اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ صلوٰۃ و سلام کی …عبادت بے شک… ایک مقبول عبادت ہے… مگر یہ تو ضروری ہے کہ …ہمارا صلوٰۃ و سلام … واقعی صلوٰۃ و سلام ہو… مثال لے لیجئے … اگر ہم تسبیح ہاتھ میں لئے … دل بازار یا موبائل کو دئیے… بے خیالی اور بے توجہی سے پڑھ رہے ہیں… اور تسبیح ختم ہونے پر ہمیں پتا چلتا ہے کہ… تعداد ایک سو ہوچکی… کیا یہ صلوٰۃ و سلام ہے؟ ہمیں تو احساس اور شعور ہی نہیں کہ… ہم کیا کہہ رہے ہیں… ہمارا دل کس حساب کتاب… یا کسی فلم ڈرامے میں ہے… یا کسی اور کام میں… ہمارا ذہن بھی کسی منصوبے میں بھٹک رہا ہے… تو ہم … اپنے عظیم رب سے اپنے عالی شان … نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کیا مانگ رہے ہیں؟ دوسری بات یہ کہ… اگر ہمارا دل … حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور احترام سے خالی ہے تو پھر… صلوٰۃ و سلام کا مطلب کیا ہوا ؟ صلوٰۃ و سلام کا تو مقصد یہ ہے کہ… ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کما حقہ ثناء کریں… ان کی مکمل تعظیم بجا لائیں… اور ان کے عظیم احسانات کے بدل�� میں… ہم بھی اُن کی خدمت میں کچھ پیش کریں… یہ حکم سن کر ایمان والے کانپ گئے کہ… یا اللہ ہم جیسے حقیر، گناہگار ، عیب دار اور چھوٹے انسان … اتنے عظیم معصوم ، بے عیب اور عالی شان نبی کی کما حقہ ثناء کیسے کر سکتے ہیں… یا اللہ آپ ہمارے رب ہیں… آپ ہی ہماری طرف سے اُن پر صلوٰۃ بھیج دیجئے… اُن کی ثناء اور تعظیم میں… اضافہ فرما دیجئے… یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا… صَلُّوْا … تم صلوٰۃ بھیجو… تو ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھانے پر جواب دیا کہ… یا اللہ اس حکم کو پورا فرمانے میں آپ ہماری مدد فرمائیے… اَللّٰھُمَّ صَلِّ … یا اللہ آپ ان کو ’’صلوٰۃ ‘‘ عطاء فرمائیے… کیونکہ اُن کے حق کے مطابق… آپ ہی صلوٰۃ نازل فرما سکتے ہیں… یہ ہے ’’صلوٰۃ علیٰ النبی ‘‘ …یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم ’’صَلُّوْا ‘‘ سننا…پھر خود کو عاجز و قاصر سمجھنا… پھر اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنا کہ… صَلِّ… آپ صلوٰۃ بھیجئے… اور پھر… حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک نام لینا… محمد … ایسا نام کہ… جب ہمارے اَسلاف یہ اِسم مبارک سنتے تو… اُن کے جسم کے بال کھڑے ہو جاتے ،آنکھیں بہنے لگتیں…اور وہ ادب سے سمٹ جاتے… ہم کمزور… اس کیفیت کو تو نہیں پہنچ سکتے… مگر دل کی محبت… اور احترام تو ضروری ہے… صلوٰۃ یعنی درود پڑھتے وقت …اتنا خیال رکھنا ضروری ہے کہ… ہم اللہ تعالیٰ کو پکار رہے ہیں… اَللّٰھُمَّ … یا اللہ … اور ہم اپنے محبوب آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگ رہے ہیں… تب حضرت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کی ایک جھلک بھی دل و دماغ میں آ جائے تو… آنسو بہہ پڑتے ہیں… حضرت محدث سخاویؒ فرماتے ہیں : وما تفید کثرۃ الصلوٰۃ علیہ الا بالتعظیم لہ فی الاسرار و الاجہار کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت درود کا فائدہ تبھی حاصل ہوتا ہے جب ہمارے دل میں… اُن کے لئے بھرپور عظمت و احترام ہو… اس لئے… درودشریف کی کثرت کرنے والے… خوش نصیب بھائیو اور بہنو! درودشریف توجہ سے پڑھیں… اور ادب و احترام ملحوظ رکھیں… پھر آپ پر اس مبارک عبادت کے…انوارات و تجلیات کا نزول ہو گا… اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ… وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ مجھے اعتراف ہے کہ … میں یہ موضوع مکمل نہیں کر سکا… اگلے کالم میں کوشش ہو گی کہ… اس موضوع کی… کچھ تفصیل آ جائے… اس لئے کوئی یہ کالم پڑھ کر … درودشریف کا وظیفہ چھوڑ نہ دے کہ … مجھے تو توجہ نہیں ہوتی… آپ توجہ حاصل ہونے کی دعاء کریں … توجہ کی کوشش کریں… اور اللہ تعالیٰ سے حسن ظن اور حضرت آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہوئے… اپنے عمل اور وظیفے کو جاری رکھیں … محبت بڑھاؤ ، ادب بھی بڑھاؤ ہتھیلی پہ جان رکھ کے دینے بھی جاؤ وہ عرش الٰہی کے نیچے تو دیکھو نظر آ رہا ہے مدینہ مدینہ لا الہ الا اللّٰہ، لا الہ الا اللّٰہ ،لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ اللہم صل علی سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ٭…٭…٭
0 notes
Text
لال ٹین ۔ افسانہ ۔سعادت حسن منٹو

میرا قیام ’’بٹوت‘‘ میں گو مختصر تھا۔ لیکن گوناگوں روحانی مسرتوں سے پُر۔ میں نے اس کی صحت افزا مقام میں جتنے دن گزارے ہیں ان کے ہر لمحہ کی یاد میرے ذہن کا ایک جزو بن کے رہ گئی ہے۔ جو بھلائے نہ بھولے گی۔ کیا دن تھے!۔ باربار میرے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز بلند ہوتی ہے اور میں کئی کئی گھنٹے اس کے زیر اثر بے خود مدہوش رہتا ہوں۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ انسان اپنی گزشتہ زندگی کے کھنڈروں پر مستقبل کی دیواریں استوار کرتا ہے۔ ان دنوں میں بھی یہی کررہا ہوں یعنی بیتے ہوئے ایام کی یاد کو اپنی مضمحل رگوں میں زندگی بخش انجکشن کے طور پر استعمال کررہا ہوں۔ جو کل ہوا تھا اسے اگر آج دیکھا جائے تو اس کے اور ہمارے درمیان صدیوں کا فاصلہ نظر آئے گا اور جو کل ہونا ہی ہے اسکے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں۔ آج سے پورے چار مہینے کی طرف دیکھا جائے تو بٹوت میں میری زندگی ایک افسانہ معلوم ہوتی ہے۔ ایسا افسانہ جس کا مسودہ صاف نہ کیا گیا ہو۔ اس کھوئی ہوئی چیز کو حاصل کرنا دوسرے انسانوں کی طرح میرے بس میں بھی نہیں۔ جب میں استقبال کے آئینہ میں اپنی آنے والی زندگی کا عکس دیکھنا چاہتا ہوں تو اس میں مجھے حال ہی کی تصویر نظر آتی ہے اور کبھی کبھی اس تصویر کے پس منظر میں ماضی کے دھندلے نقوش نظر آجاتے ہیں۔ ان میں بعض نقش اس قدر تیکھے اور شوخ رنگ ہیں کہ شاید ہی انھیں زمانہ کا ہاتھ مکمل طور پر مٹا سکے۔ زندگی کے اس کھوئے ہوئے ٹکڑے کو میں اس وقت زمانہ کے ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں جو شریر بچے کی طرح مجھے بار بار اس کی جھلک دکھا کر اپنی پیٹھ پیچھے چھپا لیتا ہے۔ اور میں اس کھیل ہی سے خوش ہوں۔ اسی کو غنیمت سمجھتا ہوں۔ ایسے واقعات کو جن کی یاد میرے ذہن میں اب تک تازہ ہے میں عام طور پر دہراتا رہتا ہوں، تاکہ ان کی تمام شدت برقراررہے۔ اور اس غرض کے لیے میں کئی طریقے استعمال کرتا رہتا ہوں۔ بعض اوقات میں یہ بیتے ہوئے واقعات اپنے دوستوں کوسنا کر اپنا مطلب حل کرلیتا ہوں۔ اگر آپ کو میرے ان دوستوں سے ملنے کا اتفاق ہو تو وہ آپ سے یقیناً یہی کہیں گے کہ میں قصہ گوئی اور آپ بیتیاں سنانے کا بالکل سلیقہ نہیں رکھتا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ داستان سنانے کے دوران میں مجھے سامعین کے تیوروں سے ہمیشہ اس بات کا احساس ہوا ہے کہ میرا بیان غیر مربوط ہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ چونکہ میری داستان میں ہمواری کم اور جھٹکے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے میں اپنے محسوسات کو اچھی طرح کسی کے دماغ پر منتقل نہیں کرسکتا اور مجھے اندیشہ ہے کہ میں ایسا شاید ہی کرسکوں۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ میں اکثر اوقات اپنی داستان سنانے سناتے جب ایسے مقام پر پہنچتا ہوں جسکی یاد میرے ذہن میں موجود نہ تھی اور وہ خیالات کی رو میں خود بخود بہہ کر چلی آئی تھی تو میں غیر ارادی طور پر اس نئی یاد کی گہرائیوں میں گم ہو جاتا ہوں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میرے بیان کا تسلسل یک لخت منتشر ہو جاتا ہے اور جب میں ان گہرائیوں سے نکل کر داستان کے ٹوٹے ہوئے دھاگے کو جوڑنا چاہتا ہوں تو عجلت میں وہ ٹھیک طور سے نہیں جڑتا۔ کبھی کبھی میں یہ داستانیں رات کو سوتے وقت اپنے ذہن کی زبانی خود سنتا ہوں، لیکن اس دوران میں مجھے بہت تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ میرے ذہن کی زبان بہت تیز ہے اور اس کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات چھوٹے چھوٹے واقعات اتنی تفصیل کے ساتھ خود بخود بیان ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ طبیعت اکتا جاتی ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ کی یاد کسی دوسرے واقعہ کی یاد تازہ کردیتی ہے اور اسکا احساس کسی دوسرے احساس کو اپنے ساتھ لے آتا ہے اور پھر احساسات و افکار کی بارش زوروں پر شروع ہو جاتی ہے۔ اور اتنا شور مچتا ہے کہ نیند حرام ہو جاتی ہے۔ جس روز صبح کو میری آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے نظر آئیں آپ سمجھ لیا کریں کہ ساری رات میں اپنے ذہن کی قصہ گوئی کا شکار بنا رہا ہوں۔ جب مجھے کسی بیتے ہوئے واقعے کو اس کی تمام شدتوں سمیت محفوظ کرنا ہوتا ہے تو میں قلم اُٹھاتا ہوں اور کسی گوشے میں بیٹھ کر کاغذ پر اپنی زندگی کے اس ٹکڑے کی تصویر کھینچ دیتا ہوں۔ یہ تصویر بھدی ہوتی ہے یا خوبصورت، اسکے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے ادبی نقاد میری ان قلمی تصویروں کے متعلق کیا رائے مرتب کرتے ہیں۔ دراصل مجھے ان لوگوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اگر میری تصویر کشی سقیم اور خام ہے تو ہوا کرے مجھے اس سے کیا اور اگر یہ ان کے مقرر کردہ معیار پر پورا اترتی ہے تو بھی مجھے اس سے کیا سروکار ہوسکتا ہے۔ میں یہ کہانیاں صرف اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے کچھ لکھنا ہوتا ہے۔ جس طرح عادی شراب خوردن ڈھلے شراب خانہ کا رخ کرتا ہے ٹھیک اسی طرح میری انگلیاں بے اختیار قلم کی طرف بڑھتی ہیں اور میں لکھنا شروع کردیتا ہُوں میرا روئے سخن یا تو اپنی طرف ہوتا یا ان چند افراد کی طرف جو میری تحریروں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ میں ادب سے دُور اور زندگی کے نزدیک تر ہُوں۔ زندگی۔ زندگی۔ آہ زندگی!!! میں زندگی زندگی پُکارتا ہُوں مگر مجھ میں زندگی کہاں؟۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ میں اپنی عمر کی پٹاری کھول کر اس کی ساری چیزیں باہر نکالتا ہوں اور جھاڑ پونچھ کر بڑے قرینے سے ایک قطار میں رکھتا ہوں اور اس آدمی کی طرح جس کے گھر میں بہت تھوڑا سامان ہو ان کی نمائش کرتا ہوں۔ بعض اوقات مجھے اپنا یہ فعل بہت بُرا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن میں کیا کروں۔ مجبور ہوں۔ میرے پاس اگر زیادہ نہیں ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اگر مجھ میں سفلہ پن پیدا ہو گیا ہے تو اس کا ذمہ دار میں کیسے ہوسکتا ہوں۔ میرے پاس تھوڑا بہت جوکچھ بھی ہے غنیمت ہے۔ دنیا میں تو ایسے لوگ بھی ہوں گے جنکی زندگی چٹیل میدان کی طرح خشک ہے اور میری زندگی کے ریگستان پر تو ایک بار بارش ہو چکی ہے۔ گو میرا شباب ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا ہے مگر میں ان دنوں کی یاد پر جی رہا ہوں جب میں جوان تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ سارا بھی کسی روز جواب دے جائے گا اور اس کے بعد جو کچھ ہو گا، میں بتا نہیں سکتا۔ لیکن اپنے موجودہ انتشار کو دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میرا انجام چشم فلک کو بھی نمناک کردیگا۔ آہ خرابہ فکر کا انجام! وہ شخص جسے انجام کار اپنے وزنی افکار کے نیچے پس جانا ہے یہ سطور لکھ رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ایسی اور بہت سی سطریں لکھنے کی تمنا اپنے دل میں رکھتا ہے۔ میں ہمیشہ مغموم و ملول رہا ہوں۔ لیکن شبیر جانتا ہے کہ بٹوت میں میری آہوں کی زردی اور تپش کے ساتھ ساتھ ایک خوش گوار مسرت کی سرخی اور ٹھنڈک بھی تھی۔ وہ آب و آتش کے اس باہمی ملاپ کو دیکھ کر متعجب ہوتا تھا اور غالباً یہی چیز تھی جس نے اس کی نگاہوں میں میرے وجود کو ایک معما بنا دیا تھا۔ کبھی کبھی مجھے وہ سمجھنے کی کوشش کرتا تھا اور اس کوشش میں وہ میرے قریب بھی آجاتا تھا۔ مگر دفعتاً کوئی ایسا حادثہ وقوع پذیر ہوتا جس کے باعث اسے پھر پرے ہٹنا پڑتا تھا اور اس طرح وہ نئی شدت سے مجھے پُراسرار اور کبھی پُرتصنع انسان سمجھنے لگتا۔ اکرام صاحب حیران تھے کہ بٹوت جیسی غیر آباد اور غیر دلچسپ دیہات میں پڑے رہنے سے میرا کیا مقصد ہے۔ وہ ایسا کیوں سوچتے تھے؟ اس کی وجہ میرے خیال میں صرف یہ ہے کہ ان کے پاس سوچنے کے لیے اور کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ وہ اسی مسئلے پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔ وزیر کا گھر ان کے بنگلے کے سامنے بلند پہاڑی پر تھا اور جب انھوں نے اپنے نوکر کی زبانی یہ سنا کہ میں اس پہاڑی لڑکی کے ساتھ پہروں باتیں کرتا رہتا ہوں۔ تو انھوں نے یہ سمجھا کہ میری دکھتی ہوئی رگ ان کے ہاتھ آگئی ہے اور انھوں نے ایک ایسا راز معلوم کرلیا ہے جس کے افشا پر تمام دنیا کے دروازے مجھ پر بند ہو جائیں گے۔ لوگوں سے جب وہ اس ’’مسئلے‘‘ پر باتیں کرتے تھے تو یہ کہا کرتے تھے میں تعیش پسند ہُوں اور ایک بھولی بھالی لڑکی کو پھانس رہا ہوں اور ایک (دن) جب انھوں نے مجھ سے بات کی تو کہا۔ ’’دیکھیے یہ پہاڑی لونڈیا بڑی خطرناک ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اس کے جال میں پھنس جائیں۔ ‘‘ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انھیں یا کسی اور کو میرے معاملات سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ وزیر کا کریکٹر بہت خراب تھا اور میرا کریکٹر بھی کوئی خاص اچھا نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لوگ کیوں میری فکر میں مبتلا تھے اور پھر جو انکے من میں تھا صاف صاف کیوں نہیں کہتے تھے۔ وزیر پر میرا کوئی حق نہیں تھا اور نہ وہ میرے دباؤ میں تھی۔ اکرام صاحب یا کوئی اور صاحب اگر اس سے دوستانہ پیدا کرنا چاہتے تو مجھے اس میں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ دراصل ہماری تہذیب و معاشرت ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ عام طور پر صاف گوئی کو معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ کھل کر بات ہی نہیں کی جاتی اور کسی کے متعلق اگر اظہار خیال کیا بھی جاتا ہے تو غلاف چڑھا کر۔ میں نے صاف گوئی سے کام لیا اور اس پہاڑی لونڈیا سے جسے بڑا خطرناک کہا جاتا، اپنی دلچسپی کا اعتراف کیا۔ لیکن چونکہ یہ لوگ اپنے دل کی آواز کو دل ہی میں دبا دینے کے عادی تھے اس لیے میری سچی باتیں ان کو بالکل جھوٹی معلوم ہوئیں اور ان کا شک بدستور قائم رہا۔ میں انھیں کیسے یقین دلاتا کہ میں اگر وزیر سے دلچسپی لیتا ہوں تو اس کا باعث یہ ہے کہ میرا ماضی و حال تاریک ہے۔ مجھے اس سے محبت نہیں تھی اسی لیے میں اس سے زیادہ وابستہ تھا۔ وزیر سے میری دلچسپی اس محبت کا ریہرسل تھی جو میرے دل میں اس عورت کے لیے موجود ہے جو ابھی میری زندگی میں نہیں آئی۔ میری زندگی کی انگوٹھی میں وزیر ایک جھوٹا نگینہ تھی لیکن یہ نگینہ مجھے عزیز تھا اس لیے کہ اس کی تراش، اس کا ماپ بالکل اس اصلی نگینہ کے مطابق تھا جس کی تلاش میں مَیں ہمیشہ ناکام رہا ہوں۔ وزیر سے میری دل بستگی بے غرض نہیں تھی اس لیے میں غرض مند تھا۔ وہ شخص جو اپنے غم افزا ماحول کو کسی کے وجود سے رونق بخشنا چاہتا ہو۔ اس سے زیادہ خود غرض اور کون ہوسکتا ہے؟۔ اس لحاظ سے میں وزیر کا ممنون بھی تھا اور خدا گواہ ہے کہ میں جب کبھی اس کو یاد کرتا ہوں تو بے اختیار میرا دل اس کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ شہر میں مجھے صرف ایک کام تھا۔ اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے گھپ اندھیرے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہنا اور بس!۔ مگر بٹوت میں اس تاریکی کے اندر روشنی کی ایک شعاع تھی۔ وزیر کی لال ٹین! بھٹیارے کے یہاں رات کو کھانا کھانے کے بعد میں اور شبیر ٹہلتے ٹہلتے اکرام صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ جاتے۔ یہ بنگلہ ہوٹل سے قریباً تین جریب کے فاصلے پر تھا۔ رات کی خنک اور نیم مرطوب ہوا میں اس چہل قدمی کا بہت لطف آتا تھا۔ سڑک کے دائیں بائیں پہاڑوں اور ڈھلوانوں پر مکئی کے کھیت رات کے دھندلکے میں خاکستری رنگ کے بڑے بڑے قالین معلوم ہوتے تھے۔ اور جب ہوا کے جھونکے مئی کے پودوں میں لرزش پیدا کردیتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آسمان سے بہت سی پریاں ان قالینوں پر ات�� آئی ہیں اور ہولے ہولے ناچ رہی ہیں۔ آدھا راستہ طے کرنے پر جب ہم سڑک کے بائیں ہاتھ ایک چھوٹے سے دو منزلہ چوبی مکان کے قریب پہنچتے تو شبیر اپنی مخصوص دُھن میں یہ شعر گاتا ہے ہر قدم فتنہ ہے قیامت ہے آسمان تیری چال کیا جانے یہ شعر گانے کی خاص وجہ یہ تھی۔ اس چوبی مکان کے رہنے والے اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ میرے اور وزیر کے تعلقات اخلاقی نقطہ نگاہ سے ٹھیک نہیں، حالانکہ وہ اخلاق کے معانی سے بالکل ناآشنا تھے۔ یہ لوگ مجھ سے اور شبیر سے بہت دلچسپی لیتے تھے اور میری نقل و حرکت پر خاص طور پر نگرانی رکھتے تھے۔ وہ تفریح کی غرض سے بٹوت آئے ہوئے تھے اور انھیں تفریح کا کافی سامان مل گیا تھا۔ شبیر اوپر والا شعر گا کر ان کی تفریح میں مزید اضافہ کیا کرتا تھا۔ اس کو چھیڑ چھاڑ میں خاص لطف آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی رہائش گاہ کے عین سامنے پہنچ کر اس کو یہ شعر یاد آجاتا تھا اور وہ فوراً اسے بلند آواز میں گا دیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ اس کا عادی ہو گیا تھا۔ یہ شعر کسی خاص واقعے یا تاثر سے متعلق نہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسے صرف یہی شعر یاد تھا، یا ہو سکتا ہے کہ وہ صرف اسی شعر کو گا سکتا تھا، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ بار بار یہی شعر دہراتا۔ شروع شروع میں اندھیری راتوں میں سنسان سڑک پر ہماری چہل قدمی چوبی مکان کے چوبی ساکنوں پر( وہ غیر معمولی طور پر اجڈا اور گنوار واقع ہوئے تھے) کوئی اثر پیدا نہ کرسکی۔ مگر کچھ دنوں کے بعد ان کے بالائی کمرے میں روشنی نظر آنے لگی۔ اور وہ ہماری آمد کے منتظر رہنے لگے اور جب ایک روز ان میں سے ایک نے اندھیرے میں ہمارا رخ معلوم کرنے کے لیے بیٹری روشن کی میں نے شبیر سے کہا۔ ’’آج ہمارا رومان مکمل ہو گیا ہے۔ ‘‘ مگر میں نے دل میں ان لوگوں کی قابلِ رحم حالت پر بہت افسوس کیا، کیونکہ وہ بیکار دو دو تین تین گھنٹے تک جاگتے رہتے تھے۔ حسبِ معمول ایک رات شبیر نے اس مکان کے پاس پہنچ کر شعر گایا اور ہم آگے بڑھ گئے۔ بیٹری کی روشنی حسب معمول چمکی اور ہم باتیں کرتے ہوئے اکرام صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت رات کے دس بجے ہوں گے، ہُو کا عالم تھا، ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی، آسمان ہم پر مرتبان کے ڈھکنے کی طرح جھکا ہوا تھا اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ ہم کسی بند بوتل میں چل پھر رہے ہیں۔ سکوت اپنی آخری حد تک پہنچ کر متکلم ہو گیا تھا۔ بنگلے کے باہر برآمدے میں ایک چھوٹی سی میز پر لیمپ جل رہا تھا اور پاس ہی پلنگ پر اکرام صاحب لیٹے کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے۔ شبیر نے دور سے ان کی طرف دیکھا اور دفعتاً سادھوؤں کا مخصوص نعرہ مستانہ الکھ نرنجن بلند کیا۔ اس غیر متوقع شور نے مجھے اور اکرام صاحب دونوں کو چونکا دیا۔ شبیر کھل کھلا کر ہنس پڑا۔ پھر ہم دونوں برآمدے میں داخل ہو کر اکرام صاحب کے پاس بیٹھ گئے۔ میرا منہ سڑک کی جانب تھا۔ عین اس وقت جب میں نے حقہ کی نَے منہ میں دبائی۔ مجھے سامنے سڑک کے اوپر تاریکی میں روشنی کی ایک جھلک دکھائی دی۔ پھر ایک متحرک سایہ نظر آیا اور اس کے بعد روشنی ایک جگہ ساکن ہو گئی۔ میں نے خیال کیا کہ شاید وزیر کا بھائی اپنے کتے کو ��ھونڈ رہا ہے۔ چنانچہ اُدھر دیکھنا چھوڑ کر میں شبیر اور اکرام صاحب کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول ہو گیا۔ دوسرے روز شبیر کے نعرہ بلند کرنے بعد پھر اخروٹ کے درخت کے عقب میں روشنی نمودار ہوئی اور سایہ حرکت کرتا ہوا نظر آیا۔ تیسرے روز بھی ایسا ہوا۔ چوتھے روز صبح کو میں اور شبیر چشمے پر غسل کو جا رہے تھے کہ اوپر سے ایک کنکر گرا، میں نے بیک وقت سڑک کے اوپر جھاڑیوں کی طرف دیکھا۔ وزیر سر پر پانی کا گھڑا اُٹھائے ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنسی اور شبیر سے کہنے لگی۔ ’’کیوں جناب، یہ آپ نے کیا وطیرہ اختیار کیا ہے کہ ہر روز ہماری نیند خراب کریں۔ ‘‘ شبیر حیرت زدہ ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔ میں وزیر کا مطلب سمجھ گیا تھا۔ شبیر نے اس سے کہا ’’آج آپ پہلیوں میں بات کر رہی ہیں۔ ‘‘ وزیر نے سر پر گھڑے کا توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں اتنی اتنی دیر تک لال ٹین جلا کر اخروف کے نیچے بیٹھی رہتی ہوں اور آپ سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ پھوٹے منہ سے شکریہ ہی ادا کر دیں۔ بھلا آپ کی جوتی کو کیا غرض پڑی ہے۔ یہ چوکیداری تو میرے ہی ذمے ہے۔ آپ ٹہلنے کو نکلیں اور اکرام صاحب کے بنگلے میں گھنٹوں باتیں کرتے رہیں اور میں سامنے لال ٹیشن لیے اونگھتی رہوں۔ ‘‘ شبیر نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ بھئی میں تو کچھ نہ سمجھا، یہ کس دھن میں الاپ رہی ہیں؟‘‘ میں نے شبیر کو جواب نہ دیا اور وزیر سے کہا۔ ’’ہم کئی دنوں سے رات گئے اکرام صاحب کے یہاں آتے ہیں۔ دو تین مرتبہ میں نے اخروٹ کے پیچھے تمہاری لال ٹیشن دیکھی، پر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تم خاص ہمارے لیے آتی ہو۔ اس کی کیا ضرورت ہے۔ تم ناحق اپنی نیند کیوں خراب کرتی ہو؟‘‘ وزیر نے شبیر کو مخاطب کر کے کہا۔ ’’آپ کے دوست بڑے ہی ناشکرے ہیں ایک تو میں ان کی حفاظت کروں اور اوپر سے یہی مجھ پر اپنا احسان جتائیں۔ ان کو اپنی جان پیاری نہ ہو پر‘‘ ۔ وہ کچھ کہتے کہتے رُک گئی اور بات کا رُخ یوں بدل دیا۔ ’’آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں ان کے بہت دشمن پیدا ہو گئے ہیں۔ پھر آپ انھیں کیوں نہیں سمجھاتے کہ رات کو باہر نہ نکلا کریں۔ ‘‘ وزیر کو واقعی میری بہت فکر تھی۔ بعض اوقات وہ مجھے بالکل بچہ سمجھ کر میری حفاظت کی تدبیریں سوچا کرتی تھی، جیسے وہ خود محفوظ و مامون ہے اور میں بہت سی بلاؤں میں گھرا ہوا ہوں۔ میں نے اسے کبھی نہ ٹوکا تھا اس لیے کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اسے اس شغل سے باز رکھوں جس سے وہ لطف اٹھاتی ہے، اس کی اور میری حالت بعینہٖ ایک جیسی تھی۔ ہم دونوں ایک ہی منزل کی طرف جانے والے مسافر تھے جو ایک لق و دق صحرا میں ایک دوسرے سے مل گئے تھے۔ اسے میری ضرورت تھی اور مجھے اس کی۔ تاکہ ہمارا سفر اچھی طرح کٹ سکے۔ میرا اور اس کا صرف یہ رشتہ تھا جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ ہم ہر شب مقررہ وقت پر ٹہلنے کو نکلتے۔ شبیر چوبی مکان کے پاس پہنچ کر شعر گاتا، پھر اکرام صاحب کے بنگلے سے کچھ دور کھڑے ہو کر نعرہ بلند کرتا، وزیر لال ٹین روشن کرتی اور اس کی روشنی کو ہوا میں لہرا کر ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھ جاتی۔ شبیر اور اکرام صاحب باتیں کرنے میں مشغول ہو جاتے۔ اور میں لال ٹین کی روشنی میں اس روشنی کے ذرے ڈھونڈھتا رہتا جس سے میری زندگی منور ہو سکتی تھی۔ وزیر جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھی نہ جانے کیا سوچتی رہتی؟ Read the full article
0 notes
Text
زلزلے کتنی قسم کے ہوتے ہیں ؟
خشکی کے علاوہ سمندر میں بھی زلزلے آتے ہیں۔ ہر دو سطحوں پر آنے والے زلزلوں کی ایک سے زائد اقسام ہیں جن کا مخ��صر احوال درج ذیل ہے۔
چٹانی زلزلہ
اکثر زلزلے زمین میں موجود چٹانی پلیٹوں کی حرکت کی بدولت آتے ہیں۔ یہ پلیٹیں زمین کی پرت بناتی ہیں۔ ان پلیٹوں کی زیادہ تر حرکت اس قدر خفیف ہوتی ہے کہ ہم اسے محسوس نہیں کر سکتے۔ اسے صرف سیسموگراف پر ہی ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ زمینی پرت ہر وقت حرکت میں رہتی ہے اور اسی حرکت کے نتیجے میں براعظم افریقہ یورپ کی جانب بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں جرمنی اور ہالینڈ کے مابین خلیج پیدا ہونے کا امکان ہے۔ زمینی پلیٹوں میں سے اکثر ایک دوسرے سے قریب ہوتی ہیں اور حرکت نہیں کرتیں۔ کچھ پلیٹیں آپس میں جڑ کر بڑی پلیٹوں کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں، یہ پلیٹیں بعض اوقات اچانک حرکت کرتی ہیں جس کی بنا پر زمینی پرت میں تھرتھراہٹ پیدا ہوئی ہے جسے ہم زلزلے کی صورت میں محسوس کر سکتے ہیں۔
چٹانی پلیٹیں آپس میں ٹکرا بھی سکتی ہیں اور ان کا ایک دوسرے پر پھسلنا بھی ممکن ہے۔ ان دونوں واقعات کے نتیجے میں نئے پہاڑی سلسلے وجود میں آتے ہیں۔ یہ وقوعہ زمین کی سطح سے کئی کلومیٹر نیچے ہوتا ہے اور اسی مقام کو ’’ہائیپو سینٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پلیٹیں حرکت کیوں کرتی ہیں؟ دراصل یہ سب کچھ زمین کے اندر گرم اور نسبتاً کم گرم چٹانوں اور مادے کے بہاؤ کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ گرم مادہ حرکت کرنا چاہتا ہے (جیسا کہ گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور ٹھنڈی نیچے آ جاتی ہے) چنانچہ یہ دیگر مادوں کو پرے دھکیل کر اپنا راستہ بناتا ہے جس کے نتیجے میں تھرتھراہت پیدا ہوتی ہے۔
چٹانی زلزلے آتش فشاں پھٹنے سے پیدا ہونے والے زلزلوں کی نسبت کہیں زیادہ طاقتوں ہوتے ہیں۔ 4.8 سے زیادہ شدت کے تمام زلزلے انہی چٹانی پلیٹوں کی حرکت کے سبب آتے ہیں۔ زلزلے کا مرکز سطح زمین سے جتنا قریب ہو گا اس کی لہریں اتنی ہی شدت سے اثر انداز ہوں گی۔ اس کے برعکس زلزلے کا مرکز زیر زمین گہرائی میں ہونے کی صورت میں لہروں کی شدت میں کمی آ جاتی ہے۔
آتش فشاں:
چھوٹے زلزلے زمین کی تہہ میں موجود مادے ’’میگما‘‘ کی حرکت سے آتے ہیں جو اپنے اردگرد موجود اشیا کو پرے دھکیل کر راستہ بناتا ہے۔ زندہ آتش فشاں کے قریب یہ چھوٹے زلزلے اکثر و بیشتر آتے رہتے ہیں اور کسی قابل ذکر نقصان کا سبب نہیں بنتے۔ 1883ء میں کراکاتو نامی آتش فشاں پھٹنے کی آواز پانچ ہزار کلومیٹر دور تک سنی گئی تاہم اس سے قابل ذکر سیسمک لہریں پیدا نہ ہوئیں۔
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والا زلزلہ
بعض زلزلے سطح زمین پر انسان سرگرمیوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ ایٹم بم پھٹنے یا ایٹمی تجربے سے بھی سیسمک لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ لہریں زیادہ طاقت ور نہیں ہوتیں تاہم ان میں آتش فشاں پھٹنے سے پیدا ہونے والی لہروں کی نسبت زیادہ قوت ہوتی ہے۔ ایٹم بم کے علاوہ کچھ اور انسانی سرگرمیاں بھی زلزلیاتی کیفیت کا باعث ہو سکتی ہیں۔ یہ کیفیت زمین پر بے جا بوجھ ڈالنے، آبی گزرگاہوں میں رکاوٹ پیدا کرنے، بلاوجہ ڈیم بنانے اور زمین سے بڑے پیمانے پر پانی حاصل کرنے کے لیے بھاری مشینری کے مستقل استعمال سے پیدا ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ زلزلے نسبتاً کم شدت کے ہوتے ہیں مگر ان کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ایسا ہی زلزلہ ماضی قریب میں ہالینڈ میں آیا جہاں گیس کے دھماکے نے سیسمک لہریں پیدا کر دیں۔ اسی طرح گہرے کنوؤں میں پانی ڈالنے (ہانی جمع کرنے کے لیے) اور زمین سے تیل نکالنے کی وجہ سے بھی چٹانوں کی حرکت میں خلل پڑتا ہے۔ امریکا، جاپان اور کینیڈا میں ایسا ہو چکا ہے۔ 1967ء میں امریکی ریاست کولوراڈو میں ڈینور کے مقام پر زمین میں پانی داخل کرنے کے نتیجے میں زلزلہ آ گیا جس کی شدت 5.5 تھی۔ ڈیم اور بیراج بناتے وقت پانی کے بہاؤ کی قوت اور اخراج کے سلسلے میں مناسب جگہ کا تعین نہ ہونے سے زمین کی اندرونی سطح پر دراڑیں پیدا ہو جاتی ہیں جو مستقبل میں زلزلے کا سبب بن سکتی ہیں۔ زیرِمین پانی گنجائش سے زیادہ کھینچنے اور ٹیوب ویلز کے بے دریغ استعمال سے بھی زمین کی اندرونی کیفیت متاثر ہوتی ہے۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں عمارتیں تعمیر کرتے وقت حساس علاقے مدنظر نہیں رکھے جاتے اور زمین پر بلند و بالا عمارتوں کی شکل میں بے تحاشہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں زیرزمین خاموش فالٹ پنپنا شروع کر دیتی ہیں۔
سمندری زلزلے
سمندری زلزلے بھی زمین پر آنے والے زلزلوں جیسے ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ زلزلے سمندر کی تہہ یا اس سے بھی نیچے چٹانی پلیٹوں کے ٹکراؤ کے نتیجے میں آتے ہیں۔ جب پلیٹیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو یہ ابھر کر سطح سمندر کے قریب بھی آ سکتی ہیں۔ اسی عمل کے نتیجے میں جزیرے وجود میں آتے ہیں۔ جزائر ہوائی اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ خیال رہے کہ سمندری زلزلوں کے نتیجے میں جہاں جزیرے ابھر آتے ہیں وہیں غائب بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہونے سے اس مقام پر سمندر کی گہرائی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اکثر سمندری زلزلے ہمیں محسوس نہیں ہوتے۔ ہم انہیں صرف سمندر میں جزیرہ ابھرنے سے پہچان سکتے ہیں اور یہ بھی اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب زلزلے کا مقام بندر گاہ سے زیادہ دور نہ ہو۔
سونامی
سمندری زلزلے میں ہمیں براہ راست نقصان نہیں پہنچاتے، البتہ بالواسطہ طور پر یہ انسانی آبادیوں کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ زلزلے کے نتیجے میں جب سمندری پیندا حرکت کرتا ہے تو اس پر موجود پانی بھی اوپر نیچے اور دائیں بائیں حرکت میں آ جاتا ہے۔ پانی کی اس بے ترتیب حرکت کے نتیجے میں بڑی بڑی لہریں خشکی کا رخ کر لیتی ہیں اور ان کی راہ میں آنے والی ہر شے ملیامیٹ ہو جاتی ہے۔ اس زلزلے کو سونامی کہا جاتا ہے جو کہ جاپانی زبان کی اصطلاح ہے۔ سونامی کی سب سے بڑی مثال 26 دسمبر 2005ء کو انڈونیشیا اور ملحقہ ممالک میں آنے والا سمندری زلزلہ ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن گئے۔ سونامی کے نتیجے میں 30 میٹر سے بھی زائد بلند سمندری لہریں اٹھتی ہیں۔ مشرقی ایشیائی خطہ سونامی کے حوالے سے سرگرم علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ بحرالکاہل سونامی کا مرکز ہے۔ عموماً سونامی کو مدوجزر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہریں سمجھا جاتا ہے جو کہ درست نہیں۔ سونامی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہریں بہت زیادہ اونچی بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ لہریں ساحلوں سے ٹکرانے کے بعد خشکی پر ہولناک تباہی پھیلاتی ہیں۔
فیصل اعوان
1 note
·
View note
Photo

لتیکا رانی وہ خوبصورت نہیں تھی۔ کوئی ایسی چیز اس کی شکل و صورت میں نہیں تھی جسے پرکشش کہا جاسکے، لیکن اس کے باوجود جب وہ پہلی بار فلم کے پردے پر آئی تو اس نے لوگوں کے دل موہ لیے اور یہ لوگ جو اسے فلم کے پردے پر ننھی منی اداؤں کے ساتھ بڑے نرم و نازک رومانوں میں چھوٹی سی تتلی کے مانند ادھر سے ادھر اور اُدھر سے اِدھر تھرکتے دیکھتے تھے، سمجھتے تھے کہ وہ خوبصورت ہے۔ اس کے چہرے مہرے اور اس کے ناز نخرے میں ان کو ایسی کشش نظر آتی تھی کہ وہ گھنٹوں اس کی روشنی میں مبہوت مکھیوں کی طرح بھنبھناتے رہتے تھے۔ اگر کسی سے پوچھا جاتا کہ تمہیں لتیکا رانی کے حسن و جمال میں کون سی سب سے بڑی خصوصیت نظر آتی ہے جو اسے دوسری ایکٹرسوں سے جدا گانہ حیثیت بخشتی ہے تو وہ بلا تامل یہ کہتا کہ اس کا بھولپن۔ اور یہ واقعہ ہے کہ پردے پر وہ انتہا درجے کی بھولی دکھائی دیتی تھی۔ اس کو دیکھ کر اس کے سوا کوئی اور خیال دماغ میں آ ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ بھولی ہے، بہت ہی بھولی۔ اور جن رومانوں کے پس منظر کے ساتھ وہ پیش ہوتی ان کے تانے بانے یوں معلوم ہوتا تھا کسی جولاہے کی الھڑ لڑکی نے تیار کیے ہیں۔ وہ جب بھی پردے پر پیش ہوئی، ایک معمولی ان پڑھ آدمی کی بیٹی کے روپ میں چمکیلی دنیا سے دور ایک شکستہ جھونپڑا ہی جس کی ساری دنیا تھی۔ کسی کسان کی بیٹی، کسی مزدور کی بیٹی، کسی کانٹا بدلنے والے کی بیٹی اور وہ ان کرداروں کے خول میں یوں سما جاتی تھی جیسے گلاس میں پانی۔ لتیکا رانی کا نام آتے ہی آنکھوں کے سامنے، ٹخنوں سے بہت اونچھا گھگھرا پہنے، کھینچ کر اوپر کی ہوئی ننھی منی چوٹی والی، مختصر قد کی ایک چھوٹی سی لڑکی آجاتی تھی جو مٹی کے چھوٹے چھوٹے گروندے بنانے یا بکری کے معصوم بچے کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہے۔ ننگے پاؤں، ننگے سر، پھنسی پھنسی چولی میں بڑے شاعرانہ انکسار کے ساتھ سینے کا چھوٹا سا ابھار، معتدل آنکھیں، شریف سی ناک، اس کے سراپا میں یوں سمجھیے کہ دوشیزدگی کا خلاصہ ہو گیا تھا جو ہر دیکھنے والے کی سمجھ میں آجاتا تھا۔ پہلے فلم میں آتے ہی وہ مشہور ہو گئی اور اس کی یہ شہرت اب تک قائم ہے حالانکہ اسے فلمی دنیا چھوڑے ایک مدت ہو چکی ہے۔ اپنی فلمی زندگی کے دوران میں اس نے شہرت کے ساتھ دولت بھی پیدا کی۔ اس نپے تلے انداز میں گویا اس کو اپنی جیب میں آنے والی ہر پائی کی آمد کا علم تھا اور شہرت کے تمام زینے بھی اس نے اسی انداز میں طے کیے کہ ہر آنے و الے زینے کی طرف اس کا قدم بڑے وثوق سے اٹھا ہوتا تھا۔ لتیکا رانی بہت بڑی ایکٹرس اور عجیب و غریب عورت تھی۔ اکیس برس کی عمر میں جب وہ فرانس میں تعلیم حاصل کررہی تھی تو اس نے فرانسیسی زبان کی بجائے ہند��ستانی زبان سیکھنا شروع کردی۔ اسکول میں ایک مدراسی نوجوان کو اس سے محبت ہو گئی تھی، اس سے شادی کرنے کا وہ پورا پورا فیصلہ کر چکی تھی لیکن جب لنڈن گئی تو اس کی ملاقات ایک ادھیڑ عمر کے بنگالی سے ہوئی جو وہاں بیرسٹری پاس کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ لتیکا نے اپنا ارادہ بدل دیا اور دل میں طے کرلیا کہ وہ اس سے شادی کرے گی اور یہ فیصلہ اس نے بہت سوچ بچار کے بعد کیا تھا۔ اس نے بیرسٹری پاس کرنے والے ادھیڑ عمر کے بنگالی میں وہ آدمی دیکھا جو اس کے خوابوں کی تکمیل میں حصہ لے سکتا تھا۔ وہ مدراسی جس سے اس کو محبت تھی جرمنی میں پھیپھڑوں کے امراض کی تشخیص و علاج میں مہارت حاصل کررہا تھا۔ اس سے شادی کرکے زیادہ سے زیادہ اسے اپنے پھیپھڑوں کی اچھی دیکھ بھال کی ضمانت مل سکتی تھی، جو اسے درکار نہیں تھی۔ لیکن پرفلا رائے ایک خواب ساز تھا۔ ایسا خواب ساز جو بڑے دیرپا خواب بُن سکتا تھا اور لتیکا اس کے اردگرد اپنی نسوانیت کے بڑے مضبوط جالے تن سکتی تھی۔ پرفلا رائے ایک متوسط گھرانے کا فرد تھا۔ بہت محنتی، وہ چاہتا تو قانون کی بڑی سے بڑی ڈگری تمام طالب علموں سے ممتاز رہ کر حاصل کرسکتا تھا مگر اسے اس علم سے سخت نفرت تھی۔ صرف اپنے ماں باپ کو خوش رکھنے کی غرض سے وہ ڈنرز میں حاضری دیتا تھا اور تھوڑی دیر کتابوں کا مطالعہ بھی کرلیتا تھا۔ ورنہ اس کا دل و دماغ کسی اور ہی طرف لگا رہتا تھا۔ کس طرف؟ یہ اس کو معلوم نہیں تھا۔ دن رات وہ کھویا کھویا سا رہتا۔ اس کو ہجوم سے سخت نفرت تھی، پارٹیوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا سارا وقت قریب قریب تنہائی میں گزرتا۔ کسی چائے خانے میں یا اپنی بوڑھی لینڈ لیڈی کے پاس بیٹھا وہ گھنٹوں ایسے قلعے بناتا رہتا جن کی بنیادیں ہوتی تھیں نہ فصیلیں۔ مگر اس کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن اس سے کوئی نہ کوئی عمارت ضرور بن جائے گی جس کو دیکھ کر وہ خوش ہوا کرے گا۔ لتیکا جب پروفلارائے سے ملی تو چند ملاقاتوں ہی میں اس کو معلوم ہو گیا کہ یہ بیرسٹری کرنے والابنگالی معمولی آدمی نہیں۔ دوسرے مرد اس سے دلچسپی لیتے رہے تھے، اس لیے کہ وہ جوان تھی، ان میں سے اکثر نے اس کے حسن کی تعریف کی تھی، لیکن مدت ہوئی وہ اس کا فیصلہ اپنے خلاف کر چکی تھی۔ اس کو معلوم تھا کہ ان کی تعریف محض رسمی ہے۔ مدراسی ڈاکٹر جو اس سے واقعی محبت کرتا تھا اس کو صحیح معنوں میں خوبصورت سمجھتا تھا مگر لتیکا سمجھتی تھی کہ وہ اس کی نہیں اس کے پھیپھڑوں کی تعریف کررہا ہے جو اس کے کہنے کے مطابق بے داغ تھے۔ وہ ایک معمولی شکل و صورت کی لڑکی تھی۔ بہت ہی معمولی شکل و صورت کی۔ جس میں ایک جاذبیت تھی نہ کشش، اس نے کئی دفعہ محسوس کیا کہ وہ ادھوری سی ہے۔ اس میں بہت سی کمیاں ہیں جو پوری تو ہوسکتی ہیں مگر بڑی چھان بین کے بعد اور وہ بھی اس وقت جب اس کو خارجی امداد حاصل ہو۔ پرفلا رائے سے ملنے کے بعد لتیکا نے محسوس کیا تھا کہ وہ جو بظاہر سگرٹ پر سگرٹ پھونکتا رہتا ہے اور جس کا دماغ ایسا لگتا ہے، ہمیشہ غائب رہتا ہے اصل میں سگرٹوں کے پریشان دھوئیں میں اپنے دماغ کی غیر حاضری کے باوجود اس کی شکل و صورت کے تمام اجزاء بکھیر کر ان کو اپنے طور پر سنوارنے میں مشغول ر ہتا ہے۔ وہ اس کے اندازِ تکلم، اس کے ہونٹوں کی جنبش اور اس کی آنکھوں کی حرکت کو صرف اپنی نہیں دوسروں کی آنکھوں سے بھی دیکھتا ہے، پھر ان کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور اپنے تصور میں تکلم کا نیا انداز، ہونٹوں کی نئی جنبش اور آنکھوں کی نئی حرکت پیدا کرتا ہے۔ ایک خفیف سی تبدیلی پر وہ بڑے اہم نتائج کی بنیادیں کھڑی کرتا ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے۔ لتیکا ذہین تھی، اس کو فوراً ہی معلوم ہو گیا تھا کہ پرفلارائے ایسا معمار ہے جو اسے عمارت کا نقشہ بنا کر نہیں دکھائے گا۔ وہ اس سے یہ بھی نہیں کہے گا کہ کون سی اینٹ اکھیڑ کر کہاں لگائی جائے گی تو عمارت کا سقم دور ہو گا۔ چنانچہ اس نے اس کے خیالات و افکار ہی سے سب ہدایتیں وصول کرنا شروع کردی تھیں۔ پرفلا رائے نے بھی فوراً ہی محسوس کرلیا کہ لتیکا اس کے خیالات کا مطالعہ کرتی ہے اور ان پر عمل کرتی ہے۔ وہ بہت خوش ہوا۔ چنانچہ اس خاموش درس و تدریس کا سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ پرفلارائے اور لتیکا دونوں مطمئن تھے، اس لیے کہ وہ دونوں لازم و ملزوم سے ہو گئے تھے۔ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل تھا۔ لتیکا کو خاص طور پر اپنی ذہنی و جسمانی کروٹ میں پرفلا کی کی خاموش تنیقد کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ وہ اس کے ناز و ادا کی کسوٹی تھا، اس کی بظاہر خلا میں دیکھنے والی نگاہوں سے اس کو پتہ چل جاتا کہ اس کی پلک کی کونسی نوک ٹیڑھی ہے۔ لیکن وہ اب یہ حقیقت معلوم کر چکی تھی۔ کہ وہ حرارت جو اس کی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں میں ہے، اس کی آغوش میں نہیں تھی۔ لتیکا کے لیے یہ بالکل ایسی تھی جیسی کھری چارپائی۔ لیکن وہ مطمئن تھی، اس لیے کہ اس کے خوابوں کے بال وپر نکالنے کے لیے پرفلا کی آنکھوں کی حرارت ہی کافی تھی۔ وہ بڑی سیاق دان اور اندازہ گیر عورت تھی۔ اس نے دو مہینے کے عرصے ہی میں حساب لگا لیا تھا کہ ایک برس کے اندر اندر اس کے خوابوں کے تکمیل کی ابتداء ہو جائے گی۔ کیونکر ہو گی اور کس فضا میں ہو گی۔ یہ سوچنا پرفلارائے کا کام تھا اور لتیکا کو یقین تھا کہ اس کا سدا متحرک دماغ کوئی نہ کوئی راہ پیدا کریگا۔ چنانچہ دونوں جب ہندوستان جانے کے ارادے سے برلن کی سیر کو گئے اور پرفلا کا ایک دوست انھیں اون فلم اسٹوڈیوز میں لے گیا تو لتیکا نے پروفلا کی خلا میں دیکھنے والی آن��ھوں کی گہرائیوں میں اپنے مستقبل کی صاف جھلک دیکھ لی۔ وہ ایک مشہور جرمن ایکٹرس سے محوِ گفتگو تھا مگر لتیکا محسوس کررہی تھی کہ وہ اس کے سراپا کو کنیوس کا ٹکڑا بنا کر ایکٹرس لتیکا کے نقش و نگار بنا رہاہے۔ بمبئی پہنچے تو تاج محل ہوٹل میں پرفلا رائے کی ملاقات ایک انگریز نائٹ سے ہوئی جو قریب قریب قلاش تھا۔ مگر اس کی واقفیت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ عمر ساٹھ سے کچھ اوپر، زبان میں لکنت، عادات و اطوار بڑی شستہ، پرفلا رائے اس کے متعلق کوئی رائے قائم نہ کرسکا۔ مگر لتیکا رانی کی اندازہ گیر طبیعت نے فوراً بھانپ لیا کہ اس سے بڑے مفید کام لیے جاسکتے ہیں، چنانچہ وہ نرس کی سی توجہ اور خلوص کے ساتھ اس سے ملنے جلنے لگی اور جیسا کہ لتیکا کو معلوم تھا ایک ڈن ڈنر پر ایک طرخ خود بخود طے ہو گیا کہ اس فلم کمپنی میں جو پرفلا رائے قائم کرے گا۔ وہ دو مہمان جوسر ہاورڈپسیکل نے مدعو کیے تھے ڈائرکٹر ہوں گے اور چند دن کے اندر اندر وہ تمام مراحل طے ہو گئے جو ایک لمیٹڈ کمپنی کی بنیادیں کھڑی کرنے میں درپیش آتے ہیں۔ سرہاورڈ بہت کام کا آدمی ثابت ہوا۔ یہ پرفلا کا رد عمل تھا، لیکن لتیکا شروع ہی سے جانتی تھی کہ وہ ایسا آدمی ہے جس کی افادیت بہت جلد پردہ ظہور پر آجائے گی۔ وہ جب اس کی خدمت گزاری میں کچھ وقت صرف کرتی تھی تو پرفلا حسد محسوس کرتا تھا، مگر لتیکا نے کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں دی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی قربت سے بڈھا سرہاورڈ ایک گونہ جنسی تسکین حاصل کرتا تھا، مگر وہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی تھی۔ یوں تو وہ دو مالدار مہمان بھی اصل میں اسی کی وجہ سے اپنا سرمایہ لگانے کے لیے تیار ہوئے تھے اور لتیکا کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس کے نزدیک یہ لوگ صرف اسی وقت تک اہم تھے جب تک ان کا سرمایہ ان کی تجوریوں میں تھا، وہ ان دونوں کا تصور بڑی آسانی سے کرسکتی تھی جب یہ مارواڑی سیٹھ اسٹوڈیوز میں اس کی ہلکی سی جھلک دیکھنے کے لیے بھی ترسا کریں گے لیکن یہ دن قریب لانے کیلیے اس کو کوئی عجلت نہیں تھی، ہر چیز اس کے حساب کے مطابق اپنے وقت پر ٹھیک ہورہی تھی۔ لمیٹڈ کمپنی کا قیام عمل میں آگیا۔ اس کے سارے حصے بھی فروخت ہو گئے۔ سرہاورڈ پیسکل کے وسیع تعلقات اور اثر و رسوخ کی وجہ سے ایک پر فضا مقام پر اسٹوڈیو کے لیے زمین کا ٹکڑا بھی مل گیا۔ ادھر سے فراغت ہوئی تو ڈائرکٹروں نے پرفلا رائے سے درخواست کی کہ وہ انگلینڈ جا کر ضروری سازوسامان خرید لائے۔ انگلینڈ جانے سے ایک روز پہلے پرفلا نے ٹھیٹ یورپی انداز میں لتیکا سے شادی کی درخواست کی جو اس نے فوراً منظور کرلی۔ چنانچہ اسی دن ان دنوں کی شادی ہو گئی۔ دونوں انگلینڈ گئے۔ ہنی مون میں دونوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایک دوسرے کے جسم کے متعلق جو انکشافات ہونے تھے وہ عرصہ ہوا ان پر ہو چکے تھے، ان کو اب دھن صرف اس بات کی تھی کہ وہ کمپنی جو انھوں نے قائم کی ہے اس کے لیے مشینری خریدیں اور واپس بمبئی میں جا کر کام پر لگ جائیں۔ لتیکا نے کبھی اس کے متعلق نہ سوچا تھا کہ پرفلا جو فلم سازی سے قطعاً ناواقف ہے۔ اسٹوڈیو کیسے چلائے گا۔ اس کو اس کی ذہانت کا علم تھا۔ جس طرح اس نے خاموشی ہی خاموشی میں صرف اپنی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں سے اس کی نوک پلک درست کردی تھی۔ اسی طرح اس کو یقین تھا کہ وہ فلم سازی میں بھی کامیاب ہو گا۔ وہ اس کو جب اپنے پہلے فلم میں ہیروئن بنا کر پیش کرے گا تو ہندوستان میں ایک قیامت برپا ہو جائے گی۔ پرفلا رائے فلم سازی کی تکنیک سے قطعاً ناآشنا تھا۔ جرمنی میں صرف چند دن اس نے اوفا اسٹوڈیوز میں اس صنعت کا سرسری مطالعہ کیا تھا، لیکن جب وہ انگلینڈ سے اپنے ساتھ ایک کیمرہ مین اور ایک ڈائریکٹر لے کر آیا اور انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کا پہلا فلم سیٹ پر گیا تو اسٹوڈیوز کے سارے عملے پر اس کی ذہانت اور قابلیت کی دھاگ بیٹھ گئی۔ بہت کم گفتگو کرتا تھا۔ صبح سویرے اسٹوڈیو آتا تھا اور سارا دن اپنے دفتر میں فلم کے مناظر اور مکالمے تیار کرانے میں مصروف رہتا تھا۔ شوٹنگ کا ایک پروگرام مرتب تھا جس کے مطابق کام ہوتا تھا، ہر شعبے کا ایک نگران مقرر تھا جو پرفلا کی ہدایت کے مطابق چلتا تھا۔ اسٹوڈیو میں ہر قسم کی آوارگی ممنوع تھی۔ بہت صاف ستھرا ماحول تھا جس میں ہر کام بڑے قرینے سے ہوتا تھا۔ پہلا فلم تیار ہو کر مارکیٹ میں آگیا۔ پرفلا رائے کی خلا میں دیکھنے والی آنکھوں نے ج�� کچھ دیکھنا چاہتا تھا وہی پردے پر پیش ہوا۔ وہ زمانہ بھڑکیلے پن کا تھا۔ ہیروئن وہی سمجھی جاتی تھی جو زرق برق کپڑوں میں ملبوس ہو۔ اونچی سوسائٹی سے متعلق ہو۔ ایسے رومانوں میں مبتلا ہو حیققت سے جنھیں دور کا بھی واسطہ نہیں ایسی زبان بولے جو اسٹیج کے ڈراموں میں بولی جاتی ہے۔ لیکن پرفلا رائے کے پہلے فلم میں سب کچھ اس کارد تھا۔ فلم بینوں کے لیے یہ تبدیلی، یہ اچانک انقلاب بڑا خوشگوار تھا، چنانچہ یہ ہندوستان میں ہر جگہ کامیاب ہوا اور لتیکا رانی نے عوام کے دل میں فوراً ہی اپنا مقام پیدا کرلیا۔ پرفلا رائے اس کامیابی پر بہت مطمئن تھا۔ وہ جب لتیکا کے معصوم حسن اور اس کی بھولی بھالی اداکاری کے متعلق اخباروں میں پڑھتا تھا تو اس کو اس خیال سے کہ وہ ان کا خالق ہے بہت راحت پہنچتی تھی۔ لیکن لتیکا پر اس کامیابی نے کوئی نمایاں اکثر نہیں کیا تھا۔ اس کی اندازہ گیر طبیعت کے لیے یہ کوئی غیر متوقع چیز نہیں تھی۔ وہ کامیابیاں جو مستقبل کی کوکھ میں چھپی ہوئی تھیں، کھلی ہوئی کتاب کے اوراق کی مانند اس کے سامنے تھیں۔ پہلے فلم کی نمائش عظمیٰ پر وہ کیسے کپڑے پن کر سینما ہال میں جائے گی۔ اپنے خاوند پرفلا رائے سے دوسروں کے سامنے کس قسم کی گفتگو کرے گی۔ جب اسے ہار پہنائے جائیں گے تو وہ انھیں اتار کر خوش کرنے کے لیے کس کے گلے میں ڈالے گی۔ اس کے ہونٹوں کا کون سا کونہ کس وقت پر کس انداز میں مسکرائے گا یہ سب اس نے ایک مہینہ پہلے سوچ لیا تھا۔ اسٹوڈیو میں لتیکا کو ہر حرکت ہر ادا ایک خاص پلان کے ماتحت عمل میں آتی تھی۔ اس کا مکان پاس ہی تھا۔ سرہاورڈ پیسکل کو پرفلا رائے نے اسٹوڈیو کے بالائی حصے میں جگہ دے رکھی تھی۔ لتیکا صبح سویرے آتی اور کچھ وقت سرہاروڈ کے ساتھ گزارتی، جس کو باغبانی کا شوق تھا۔ نصف گھنٹے تک وہ اس بڈھے الکن نائٹ کے ساتھ پھولوں کے متعلق گفتگو کرتی رہتی۔ اس کے بعد گھر چلی جاتی اور اپنے خاوند سے اس کی ضروریات کے مطابق تھوڑا سا پیار کرتی۔ وہ اسٹوڈیو چلا جاتا اور لتیکا اپنے سادہ میک اپ میں جس کا ایک ایک خط، ایک ایک نقطہ پرفلا کا بنایا ہوا تھا، مصروف ہوجاتی۔ دوسرا فلم تیار ہوا، پھر تیسرا، اسی طرح پانچواں، یہ سب کامیاب ہوئے اتنے کامیاب کہ دوسرے فلم سازوں کو انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کے قائم کردہ خطوط پر بدرجہ مجبوری چلنا پڑا۔ اس نقل میں وہ کامیاب ہوئے یا ناکام، اس کے متعلق ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ لتیکا کی شہرت ہر نئے فلم کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتی گئی۔ ہر جگہ انڈیا ٹاکیز لمیٹڈ کا شہرہ تھا۔ مگر پرفلا رائے کو بہت کم آدمی جانتے تھے۔ وہ جو اس کا معمار تھا، وہ جو لتیکا کا نصف بہتر تھا۔ لیکن پرلفا نے کبھی اس کے متعلق سوچا ہی نہیں تھا، اس کی خلا میں جھانکنے والی آنکھیں ہر وقت سگرٹ کے دھوئیں میں لتیکا کے نت نئے روپ بنانے میں مصروف رہتی تھیں۔ ان فلموں میں ہیرو کو کوئی اہمیت نہیں تھی۔ پرفلا رائے کے اشاروں پر وہ کہانی میں اٹھتا، بیٹھتا اور چلتا تھا۔ اسٹوڈیو میں بھی اس کی شخصیت معمولی تھی۔ سب جانتے تھے کہ پہلا نمبر مسٹر رائے کا اور دوسرا مسز رائے کا۔ جو باقی ہیں سب فضول ہیں۔ لیکن اس کا ردعمل یہ شرع ہوا کہ ہیرونے پر پرزے نکالنے شروع کردیے۔ لتیکا کے ساتھ اس کا نام پردے پر لازم و ملزوم ہو گیا تھا۔ اس لیے اس سے اس نے فائدہ اٹھانا چاہا۔ لتیکا سے اسے دلی نفرت تھی، اس لیے کہ وہ اس کے حقوق کی پروا ہی نہیں کرتی تھی۔ اس کا اظہار بھی اس نے اب آہستہ آہستہ اسٹوڈیو میں کرنا شروع کردیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اچانک پرفلا رائے نے اپنے آئندہ فلم میں اس کو شامل نہ کیا۔ اس پر چھوٹا سا ہنگامہ برپا ہوا لیکن فوراً ہی دب گیا۔ نئے ہیرو کی آمد سے تھوڑی دیر اسٹوڈیو میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ لیکن یہ بھی آہستہ آہستہ غائب ہو گئیں۔ لتیکا اپنے شوہر کے اس فیصلے سے متفق نہیں تھی۔ لیکن اس سے اسے تبدیل کرانے کی کوشش نہ کی، جو حساب اس نے لگایا تھا اس کے مطابق تازہ فلم ناکام ثابت ہوا۔ اس کے بعد دوسرا بھی اور جیسا کہ لتیکا کو معلوم تھا، اس کی شہرت دبنے لگی اور ایک دن یہ سننے میں آیا کہ وہ نئے ہیرو کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ اخباروں میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ لتیکا کا دامن حیرت ناک طور پر رومانس وغیہ سے پاک رہا تھا۔ لوگوں نے جب سنا کہ وہ نئے ہیرو کے ساتھ بھاگ گئی ہے تو اس کے عشق کی کہانیاں گھڑنی شروع کردیں۔ پرفلا رائے کوبہت صدمہ ہوا جو اس کے قریب تھے ان کا بیان ہے کہ وہ کئی بار بے ہوش ہوا۔ لتیکا کا بھاگ جانا اس کی زندگی کا بہت بڑا صدمہ تھا۔ اس کا وجود اس کے لیے کینوس کا ایک ٹکڑا تھا۔ جس پر وہ اپنے خوابوں کی تصویر کشی کرتا تھا۔ اب ایسا ٹکڑا اسے اور کہیں سے دستیاب نہ ہوسکتا تھا۔ غم کے مارے وہ نڈھال ہو گیا اس نے کئی بار چاہا کہ اسٹوڈیو کو آگ لگا دے اور اس میں خود کو جھونک دے۔ مگر اس کے لیے بڑی ہمت کی ضرورت تھی جو اس میں نہیں تھی۔ آخر پرانا ہیرو آگے بڑھا اور اس نے معاملہ سلجھانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس نے لتیکا کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات کیے کہ پرفلا بھونچکے رہ گیا۔ اس نے بتایا۔
0 notes
Text
How Long is it Necessary to Sleep for Mental and Physical Health?

How Long is it Necessary to Sleep for Mental and Physical Health?
How Long is it Necessary to Sleep for Mental and Physical Health? You may have heard the number of people proud of your low-tech habits as a lack of sleep can affect our brain and body even more. Even if you know about low gold people, The doubt about the decisions and implications will be passed. Professor Matthew Walker University of California is a professor of psychology and knowledge in California. He is also the author of the book Why we are sleeping. This book is potentially able to change your life. They think people are very busy and try to do a lot of things in a short time. According to this evidence, such people Sleep does not complete. We can not ignore our physical needs for a long time. It is a basic requirement to fulfill the sleep. If it is not considered, the result can lead to illness and illness. This article of Professor Matthew Walker is about the importance of sleep and a healthier lifestyle. Why is beauty important? How Long is it Necessary to Sleep for Mental and Physical Health? Millions of patients have come to know that there is a direct connection between sleep and age. The age will decrease the least the age will be. So if you want to live more healthy, then to complete sleep Have jubilee Sleeping is a prescription of self-esteem which does not cost anything, nor is it a bitter medicine that manages to relieve. However, there are so many benefits of sleep that Professor Walker has started convinced the doctors to Recommend your patients as a sleeping sleep. The very number of babies is beneficial. There is no part of the body and the body that is not affected by less sleep, but the sleep should be natural. Because sleep bullet can cause other diseases.Childing on the mind and body of a little dream: Almost all diseases caused by death in developed countries are related to some short sleeping sleep. They are alcoholic or forgotten Disease, cancer, cheilitis, obesity, diabetes, depression, mental distress, and self-reliance. Sleep is essential for all physical and physical functions to be performed properly. Because the repair of our body and body damage is during sleep and awakened by freshness. But if the sleep is not complete, the repair is incomplete. After 50 years of scientific research, sleep experts say The question is not that what is the benefit of sleep, but is there any such thing that does not benefit from sleep? There was no such thing for which sleep was found useful for it. It's not enough for a long time. The short answer is seven to nine hours. Body and mental performance less than eight hours and body against the diseases. Infects the immune system. The effect of keeping up for continuous continuity for 20 hours is similar to humans, such as taking more than a legal limit of any drug addiction. How Long is it Necessary to Sleep for Mental and Physical Health? A problem of sleep deficiency is that you do not know the immediate effects of it. It is exactly as if a person in a drug feels self-sufficient. But you know that he is fine. It is not. Why does not sleep? During the last 100 years, growth has become visible in sleeping countries, a clear decline in sleep is not enough. How Long is it Necessary to Sleep for Mental and Physical Health? People do not get too sleepy due to which they can not even dream. Although dreaming is essential for our creative ability and mental health. If a scientist feels the importance of sleep, he has not yet tried to inform the public about it. Most people do not have the importance of its importance, so they do not think much about it. Usually, we do more work and then it's just time to travel. We get out early in the morning and come home late in the evening. So we want to spend time with family and friends too. To watch for some time also, we see all of them result in lack of sleep. It is our idea of sleeping a big problem. If you tell someone that sleeping hours are necessary, then you will see it in a strange way. Because of the ordinary people think so much as a foolish person. Is. The habit of sleeping more has become so bad that people are proud of how much they sleep. In comparison to this, when a child sleeps more, it is considered good. Because more children understand the need for growth, especially for children, but with the increase of age our attitude towards sleep seems to change.Because more gold is crowned. We need a hormone or chemical substance 'melamine tone' for good and healthy sleeping, which creates our body only in darkness. One of the effects of fortune industrial development is that we now have constant light I do not live. It gets worse with LED screens because blue light further reduces the production of melanin tonnes. Is it possible to get rid of harm? Yes and no time cannot come back, but good change can be taken at any time. This idea is complete because of lost sleep. It is wrong for that reason. The holiday can never save gold lost over the maximum amount of sleep. It is important to make changes in daily routine and give full time to sleep. It will be beneficial. Quick fall of sleep: Eat each day at once. Adjust the darkness to the sun: Light the lime one hour before closing in the bed and closing the screen. The temperature is eighteen degrees cubic Hold up to grade It's an idol. If you do not sleep, do not take more than twenty minutes on the bed. آ�� نے کتنے لوگوں کو اپنی کم سونے کی عادت کے بارے فخر یہ طور پر کہتے سنا ہو گا نیند کی کمی ہمارے دماغ اور جسم کو حیرت انگیز طرح سے متاثر کرسکتی ہے۔یہاں تک کہ کم سونے والوں کے بارے میں جان کر آپ کو ان کے فیصلوں اور معقولیت پر شک گزرنے لگے گا۔پروفیسر میتھیو واکر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا بر کلے میں نفسیات اور علم الا عصاب کے استاد ہیں ۔وہ ہم کیوں سوتے ہیں نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں ۔ یہ کتاب ممکنہ طور پر آپ کی زندگی بدلنے (عمر بڑھانے )کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ان کے خیال میں لوگ بہت مصروف ہو گئے ہیں اور تھوڑے وقت میں بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے مطابق ایسے لوگ نیند پوری نہیں کرتے ۔ہم اپنی جسمانی ضروریات کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کرسکتے How Long is it Necessary to Sleep for Mental and Physical Health? ۔ نیند کا پورا کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے ۔اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو نتیجہ طبیعت کی خرابی اور امراض کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ پروفیسر میتھیو واکر کا یہ مضمون نیند کی اہمیت اور صحت افزا طرز زندگی کے بارے میں ہے ۔نیند کیوں ضروری ہے؟۔ لاکھوں مریضوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نیند اور عمر کا براہِ راست تعلق ہے ۔نیند جتنی کم ہو گی عمر بھی اتنی ہی کم ہو گی۔لہٰذا اگر آپ زیادہ جینا اور صحت مند رہنا چاہتے ہیں تو نیند پوری کرنے کے لیے جوبن پڑے کریں ۔ نیند خود کو صحت مند رکھنے کا ایسا نسخہ ہے جس پرکچھ خرچ نہیں آتا اور نہ ہی یہ کوئی کڑوی دواہے جسے پینے سے انسان ہچکچائے۔درحقیقت نیند کے اتنے زیادہ فائدے ہیں کہ پروفیسر واکر نے ڈاکٹر وں کو قائل کرنا شروع کر دیا ہے کہ وہ اپنے مریضوں کو نیند بطور علاج تجویز کریں ۔نیند کے لا تعداد فائدے ہیں ۔ذہن اور جسم کا کوئی ایسا حصہ نہیں جو کم نیند کی وجہ سے بری طرح متاثر نہ ہو تا ہو مگر نیند قدرتی ہونی چاہیے۔کیونکہ نیند کی گولی سے دوسرے امراض لاحق ہو سکتے ہیں ۔کم خوابی کے ذہن اور جسم پر اثرات :ترقی یافتہ ممالک میں موت کا سبب بننے والے تقریباََ تمام امراض کا تعلق کسی نہ کسی طور نیند کی کمی سے ہے ۔ان میں الزائمر یا بھولنے کی بیماری ،کینسر ،امراضِ قلب ،موٹاپا،ذیابیطس ،ڈپریشن ،ذہنی پریشانی اور خودکشی کا رحجان شامل ہیں ۔تمام جسمانی اورذہنی افعال کی ٹھیک طور پر انجام دہی کے لیے نیند ضروری ہے۔کیونکہ ہمارے جسم اوردماغ میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت نیند کے دوران ہوتی ہے اور تازہ دم ہو کر بیدار ہوتے ہیں ۔لیکن اگر نیند پوری نہ ہو تو مرمت بھی نامکمل رہتی ہے۔50سال پر مبنی سائنسی تحقیق کے بعد نیند کے ماہرین کہتے ہیں کہ سوال یہ نہیں کہ ’نیند کے فائدے کیا ہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا ایسی بھی کوئی چیز ہے جس کو نیند سے فائدہ نہیں پہنچتا ۔ا ب تک کوئی ایسی چیز سامنے نہیں آئی جس کے لیے نیند کو مفید نہ پایا گیا ہو۔کتنی دیر سو نا کافی ہے؟مختصر جواب ہے سات سے نو گھنٹے ۔سات گھنٹے سے کم نیند جسمانی اور ذہنی کارکردگی اور بیماریوں کے خلاف جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرتی ہے ۔20گھنٹے تک مسلسل جاگتے رہنے کا اثر انسان پر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ کسی نشہ آور چیز کے قانونی حد سے زیادہ لینے کا ۔نیند کی کمی کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو فوری طور پر اس کے برے اثرات کا علم نہیں ہوتا۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی نشہ میں دہت شخص خود کو بالکل ٹھیک ٹھاک سمجھتا ہے ۔مگر آپ جانتے ہیں کہ وہ ٹھیک نہیں ہے ۔گہری نیند کیوں نہیں آتی؟گزشتہ 100برس کے دوران ترقی یا فتہ ملکوں میں نیند میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔اب لوگوں کو گہری نیند نہیں آتی جس کی وجہ سے وہ خواب بھی نہیں دیکھ پاتے ۔حالانکہ خواب کا آنا ہماری تخلیقی صلاحیت اور ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے۔اگر چہ سائنسدان کو نیند کی اہمیت کا احساس ہے لیکن اب تک انھوں نے اس کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو اس کی اہمیت کا ادراک نہیں اس لیے وہ اس کے بارے میں زیادہ سوچتے ہی نہیں ۔عام طور پر How Long is it Necessary to Sleep for Mental and Physical Health? ہم کام زیادہ کرتے ہیں اور پھر سفر میں بھی خاصا وقت صرف ہو جاتا ہے ۔ ہم صبح جلد ی نکلتے ہیں اور شام کو دیر سے گھر آتے ہیں ۔پھر ہم اہل خانہ اور دوستوں کے ساتھ بھی وقت گزارنا چاہتے ہیں ۔کچھ دیر کے لیے ٹی وی بھی دیکھتے ہیں ۔ان سب کا نتیجہ نیند کی کمی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ایک بڑا مسئلہ نیند کے بارے میں ہمارا تصور ہے ۔اگر آپ کسی سے کہیں کہ نو گھنٹے کی نیند ضروری ہے تو وہ آپ کو عجیب نظروں سے دیکھے گا۔کیونکہ عام لوگوں کے خیال میں اتنی دیر تو کوئی کاہل شخص ہی سو تا ہے۔زیادہ سونے کی عادت اتنی بدنام ہو گئی ہے کہ لوگ فخر یہ بتا تے ہیں کہ وہ کتنا کم سوتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں جب کوئی بچہ زیادہ سوتا ہے تو اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ بچوں میں زیادہ نیند کو نشو ونما کے لیے ضروری سمجھاجاتا ہے ۔مگر عمر کے بڑھنے کے ساتھ نیند کے بارے میں ہمارا رویہ بدلنے لگتا ہے ۔بلکہ زیادہ سونے والوں کی سرزنش کی جاتی ہے۔ہمیں اچھی اور صحت افزا نیند کے لیے ایک ہارمون یا کیمیائی مادے ’میلا ٹونِن ‘کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمار ا جسم صرف تاریکی میں ہی پیدا کرتا ہے ۔بد قسمتی سے صنعتی ترقی کے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ اب ہم مسلسل روشنی میں نہائے رہتے ہیں ۔یہ ایل ای ڈی سکرینز کے ساتھ بدتر ہو جاتا ہے کیونکہ نیلے رنگ کی روشنی میلا ٹونن کی پیدا وار کو اور کم کر دیتی ہے ۔کیا نقصان کا ازالہ ممکن ہے؟ہاں اور نہیں گزرا ہوا وقت تو واپس نہیں آسکتا مگر اچھی تبدیلی کسی وقت بھی لائی جاسکتی ہے ۔یہ خیال کے آپ کھوئی ہوئی نیند بعد میں پوری کر سکتے ہیں غلط ہے۔اس لیے ہفتے بھر کم سونا اور چھٹی والے دن حد سے زیادہ سونا کھوئی ہوئی نیند کا مداوا کبھی نہیں کر سکتا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ روز مرہ کے معمولات میں تبدیلی لائی جائے اور نیند کو پورا وقت دیا جائے۔اس کا فائدہ فوری ہو گا۔اچھی نیند لینے کے گر:ہر روز ایک ہی وقت پر اٹھیں ۔خود کو اندھیرے کا عادی بنائیں:بستر میں لیٹنے سے ایک گھنٹہ پہلے لائٹ دھیمی کردیں اور سکرینز بند کر دیں ۔درجہ حرارت کو اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھیں جو کہ آئیڈیل ہے ۔اگر آپ کو نیند نہیں آرہی تو ��ستر پر بیس منٹ سے زیادہ نہ لیٹیں ۔ Source UrduPoint. Read the full article
0 notes
Photo

راہ محبت…قسط چہارم…..(افسانہ از ایشاء گل) تحریر: ایشاءگل قسط چہارم ناہید۔۔۔۔ناہید دروازہ کھولو مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔ ناہید تم جواب نہیں دے رہی سو رہی ہو کیا یا جاگ رہی ہو جواب تو دے دو۔۔۔ اف یہ لڑکی بھی نا۔۔۔ فریحہ یہ کہہ کر پلٹنے لگی مگر ایک دم رک گئی کیوں کہ ناہید کی سسکیوں کی آواز باہر تک آ رہی تھی۔ ناہید تم رو رہی ہو کیا۔۔۔ ناہید میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں دروازہ کھولو۔ مگر ناہید نے ابھی بھی دروازہ نا کھولا۔ ناہید دروازہ کھولو ورنہ میں امی اور بابا کو بلا رہی ہوں۔۔۔فریحہ نے اسے دھمکی دی۔۔۔ امی اور بابا کے نام کی دھمکی کا اس پر خاطر خواں اثر ہوا اس نے جھٹ سے نا سہی مگر کچھ دیر میں ہی دروازہ کھول دیا۔ فریحہ نے اس کی لال ہوتی سوجی آنکھوں کو دیکھا جو کہ ابھی بھی بہہ رہی تھی تو اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ میری گڑیا تم کیوں رو رہی ہو۔ فریحہ لاڈ سے اسے گڑیا کہہ کر پکارتی تھی۔ اس سے پہلے کہ فریحہ اس کے رونے کا کوئی اور مطلب لیتی ناہید نے فوراً اپنے پیر کی طرف اشارہ کیا جو کہ کانچ لگنے سے زخمی ہوگیا تھا اور اب اس میں سے خون بہہ رہا تھا۔ او میرے خدایا۔۔۔ ناہید یہ کیا کیا میرا مطلب ہے کہ یہ کانچ تمہیں کیسے لگا۔ اس سے پہلے کہ ناہید پھر کوئی اشارہ کرتی فریحہ کی نظر کھڑکی کے پاس پرے کانچ کے ٹوٹے گلدان پر پڑی۔ وہ گلدان جو ناہید نے غصے میں توڑا تھا اور پھر فریحہ کے آنے پر خود ہی اس پر پاؤں رکھ دیا تا کہ اسے ہر غلط فہمی سے دور رکھ سکے۔ (حلانکہ جو فریحہ کو ہوتی وہ غلط فہمی ہرگز نا ہوتی ) بہت لا پرواہ ہو تم ناہید اتنا بڑا زخم لگوا لیا اور اوپر سے دروازہ بند کیے بیٹھی ہو۔ چلو بیٹھو ادھر میں تمہاری بینڈیج کر دوں۔فریحہ نے اسے بیڈ پر بیٹھایا تو وہ کسی روبورٹ کی طرح چپ چاپ بیٹھ گئی۔ فریحہ نے پہلے اس کی بینڈیج کی اور پھر کانچ کے ٹکڑے صاف کے۔کچھ دیر بعد وہ پھر اس کے کمرے میں آئی اور اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی درد ہو رہا ہے ناہید۔۔۔۔۔ (کیسے بتاؤں کتنا درد ہو رہا ہے دل چاہ رہا ہے کہ چیخ چیخ کر کہوں کہ کوئی مجھے اس درد سے نجات دلا دے ) “ہاں بہت”۔۔۔ وہ مختصر بولی۔۔۔ ٹھیک ہو جاۓ گا ناہید۔۔۔۔ (نہیں یہ ٹھیک نہیں ہوگا یہ درد مجھے مار دے گا میرا دل بند ہو رہا ہے کچھ کرو ) “ہمم”۔۔۔ اتنی چپ کیوں ہو گڑیا کچھ بولو۔کیا بولوں فری (کچھ بولنے کو تو اب بچا ہی نہیں) ۔۔۔ارے کچھ بھی۔۔۔ خیر مجھے تم سے کچھ پوچھنا تھا۔۔ ناہید نے سر ہلایا۔۔۔ یعنی اجازت ہے پوچھو۔ تمہیں سب پتا تھا ناں کہ یشل کے گھر والے کیوں آ رہے ہیں وہ رشتہ مانگنے آرہے تھے اور تم اسی لئے اتنا خوش تھی۔۔۔۔ اوہ تو فری کو پتا لگ گیا کہ کیا ہوا نہیں اسے معلوم نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ وہ میرے رشتے کے لئے آ رہے ہیں تب ہی مجھ سے اتنا کچھ بنوا رہی تھی کھانے میں۔۔۔ سرپرائز دینا چاہتی تھی ناں تم مجھے۔۔۔ ناہید نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔ اوہ تو یہ اپنے رشتے کی بات کر رہی ہے میں سمجھی کہ۔۔۔۔ ویسے میں کس لئے خوش ہوتی رہی اور فری میری اس خوشی کو کیا سمجھے جا رہی ہے کب سے۔۔۔۔ مگر سچ تو یہ تھا کہ اب اسے فری کہ سامنے اسی چیز کا اعتراف کرنا تھا جیسا وہ سمجھ رہی تھی۔ ہاں فری میں چاہتی تھی تم کو سرپرائز دوں اور ساتھ امی اور بابا کو بھی۔بہت خوش ہونگے نا وہ۔۔۔؟ ہاں میری گڑیا بہت خوش ہیں وہ اتنا کہ میں بتا نہیں سکتی یہ تمہیں خود ہی دیکھنا پرے گا۔ اور تم۔۔؟؟ نجانے کیوں ناہید نے پوچھ ڈالا حالانکہ خوشی تو فریحہ کہ چہرے سے صاف وضع ہو رہی تھی۔ خوش کیوں نہیں ہونگی میں نا خوش ہونے والی کوئی بات ہی نہیں۔اور میری بہن نے مجھے اتنا اچھا سرپرائز جو دیا ہے خوش ہونا تو بنتا ہے ناں۔ ناہید نے اس کے پھول کی طرح کھلے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر دیکھے گئی۔۔۔ ( آخر ایسا کیا ہے تم میں فری جو مجھ میں نہیں ہے حالانکہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھ جیسی خوبصورت لڑکی کو تم سے اپنا موازنہ کرنا پر جاۓ گا مگر میں مانو یا نا مانو حقیقت تو یہی ہے کہ تم مجھ سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو۔۔۔ (اے کاش میں بھی تم جیسی بن جاؤں ) ناہید کیا سوچنے لگی۔۔۔ کچھ نہیں۔۔ ناہید نے سوچوں سے نکلتے ہوئے کہا۔ میں خوش تو ہوں ناہید مگر اداس بھی کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ امی اور بابا اب میری شادی میں دیر نہیں کریں گے مگر مجھے اتنی جلدی تم سب کو اور اس گھر کو چھوڑ کر نہیں جانا۔ لیکن اگر یہی بات میں ان کے سامنے کروں گی تو وہ کہیں گے کہ یہ جلدی نہیں ہے کیوں کہ ماں باپ تو چاہتے ہیں کہ انکی بیٹیاں جلد از جلد بیاہ کر اگلے گھر چلی جائیں اور۔ مگر میں تو اگلے جہاں چلی جاؤں گی مگر اگلے گھر نہیں جاؤں گی۔۔۔ناہید نے فری کو بیچ میں ٹوکتے ہوئے لقمہ دیا۔۔۔ مار کھاؤ گی تم مجھ سے جو اگر آیندہ ایسی بات کہی تو۔۔۔ فری نے کچھ اور ایموشنل ہوتے ہوئے ناہید کو گلے سے لگا لیا۔۔۔ ناہید اب اور رونا نہیں چاہتی تھی مگر رو پڑی لیکن اب کی بار آنسو بے آواز نکلے تھے۔ ناہید فری سے الگ ہوئی اور بولی۔پہلے کبھی مار کھائی ہے جو اب کھاؤں گی اور وہ بھی تم سے۔فری ہنس دی۔ نیچے سے معیز کی آوازیں آ رہی تھی۔۔۔۔۔ او چڑیل حسینہ نیچے آؤ کرکٹ کھیلیں۔۔۔ معیز بیڈ بال لئے آواز پر آواز دیے جا رہا تھا۔ تم آرام کرو میں ذرا اسے بتاؤں کہ چڑیل حسینہ کے پیر پر چوٹ آئی ہے تا کہ اس کی آوازیں بند ہوں۔ ناہید نے فری کے چڑیل حسینہ بولنے پر اسے ایک گھوری ڈالی جس پر وہ ہنستی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔ ۔************************* ناہید ابھی لیٹی ہی تھی کہ معیز چلا آیا۔ ڈیر کزن میں نے سنا ہے کہ تمہارے منہ پے۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ تمہارے پیر پر چوٹ لگی ہے۔ ویسے کیسے لگی چوٹ۔۔۔ کہیں تم نے خودکشی کرنے کی کوشش تو نہیں کی تھی۔ ارے پاگل تمہیں پتا بھی ہے کہ خودکش حملہ پیر پر نہیں بلکہ اپنی دائیں یا پھر بائیں کلائی کو کاٹ کر کرتے ہیں�� ویسے ہو تم کم عقل ہی۔۔ سنا ہے یہ کام کانچ سے ہوا ہے لاؤ دو وہ کانچ اب میں تمہاری نازک و ملائم کلائی پر اتاروں کہاں ہے وہ۔۔۔۔ارے کیا ہوا۔۔۔؟؟ معیز اپنی ہی جون میں بولے جا رہا تھا جب ناہید بے آواز رونے لگی اس کی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں کو دیکھ کر معیز کی چلتی زبان کو بریک لگی اور وہ فوراً اس کے برابر آ بیٹھا۔ ناہید کیا ہوا تم یوں اچانک رونے کیوں لگی۔۔۔ (خاموشی) ناہید ادھر دیکھو میری طرف۔ معیز نے اسکی تھوڑی کو چھوٹے ہوئے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا تو اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھ کر اس کے دل کو کچھ ہوا۔ تم روتی رہی ہو کیا۔۔؟؟ ہاں وہ۔۔۔وہ بس درد برداشت نہیں ہو رہا نا۔۔۔ ناہید نے بہانہ بنایا۔ معیز نے ایک گہری سانس کھینچی اور بولا۔ ناہید میں جانتا ہوں تم بہت نازک ہو ذرا سی چوٹ بھی تم سے برداشت نہیں لیکن اگر ایسا ہی رہا تو تم بڑی تکلیف کیسے برداشت کرو گی خود کو مظبوط بناؤ۔ یہ دنیا کمزوروں بزدلوں کے لئے نہیں ہے اور تمہیں یعنی ناہید امان کو تو پوری دنیا فتح کرنی ہے ناں۔ آخر میں اس نے کچھ شرارت سے کہا تو ناہید دھیرے سے ہنس دی۔حالانکہ معیز کی پہلی ساری باتیں ٹھیک تھی سواۓ دنیا فتح کرنے کے۔ ویسے میں تمہارے پیر کو چھو کر دیکھ لوں۔ معیز نے انوکھی فرمائش کی۔ ناہید سمجھ گئی جب تک وہ اسکی تکلیف میں تھوڑا سا اضافہ نہیں کر دے گا اسے سکون نہیں آئے گا۔ سکون سے بیٹھی ناہید امان کو جب تک وہ بے سکون نا کر دے اسے چین نہیں آتا تھا اور اب تو ویسے بھی وہ پیر پر لگی چوٹ کی وجہ سے بیڈ ریسٹ پر تھی اب تو اسے اور بھی موقع مل گیا تھا اسے تنگ کرنے کا۔ معیز نے اس کی اجازت ملے بغیر ہی اس کے پاؤں کو دھیرے سے چھوا تو ناہید کے منہ سے سی کی آواز نکلی۔۔۔ ناہید نے معیز کی طرف دیکھا اور معیز نے ناہید کی طرف اور پھر دونوں کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ (اور اس کھلکھلاہٹ میں کس کی ہنسی خالص تھی اور کس کی بے نام یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا) ۔************************* شعیب اور شمسہ دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے فریحہ کے بارے میں ہی بات کر رہے تھے کہ ریان چلا آیا۔ مجھے آپ دونوں سے کچھ بات کرنی ہے۔ریان نے آتے ہی کہا۔ہاں ریان بیٹھو۔ شعیب نے کہا۔ پاپا میں نہیں جانتا کہ آپ دونوں نے ناہید کی بہن۔۔۔۔ فریحہ نام ہے اسکا۔ شمسہ نے ٹوکا۔۔۔ جو بھی ہے ماما مگر میں نہیں جانتا کہ آپ نے اس میں کیا دیکھا کہ آپ کو اپنے بیٹے کی ہر خوشی بھول گئی بس یاد رہا تو اتنا کہ وہ بہت اچھی ہے مگر پاپا کیا میں برا ہوں جو آپ نے میرے ساتھ اتنا برا کیا۔ اس دنیا میں بہت سی اچھی لڑکیاں ہے تو کیا آپ جس جس کو بھی اچھا پائیں گے اسکی میرے ساتھ شادی کر دیں گے۔ ماما پاپا میں فریحہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا اگر آپ کو ناہید پسند نہیں ہے تو ٹھیک ہے مگر میں اسکی بہن سے بھی شادی نہیں کروں گا۔۔۔ میں نے تمہاری پوری بات سن لی اب تم میری بات سنو۔ شعیب بولے۔ تمہاری ساری باتیں ٹھیک ہیں مگر یہ نہیں کہ تم برے ہو یا ہمیں تمہاری خوشیوں کا احساس نہیں بیٹا یاد ہے ناں تم نے کہا تھا کہ تمہارے لئے لڑکی ڈھونڈھنے کا اختیار تم ہمیں دینا چاہتے ہو کیوں کہ آپ جو بھی میرے لئے فیصلہ کرے گے وہ میرے لئے بہتر ہی ہوگا تو اب تمہیں یہ فیصلہ غلط کیوں لگنے لگا اب تم ہمیں اس حق سے محروم کیوں رکھنا چاہتے ہو۔ میں جانتا ہوں کہیں نا کہیں ہم شائد تمہارے ساتھ واقعی میں زیادتی کر رہے ہیں۔ مگر ہم تمہارا برا نہیں چاہتے ناہید اس بات سے انجان ہے کہ بچپن سے اس کی نسبت اس کے کزن سے طے ہے۔ اسکی خالا اور خالو نے بہت محبت اور مان سے یہ رشتہ مانگا تھا اور ناہید کے والدین بھی اس رشتے سے بہت خوش ہیں انکا کہنا ہے کہ معیز میں انکی جان ہیں وہ اتنا اچھا ہے کہ اگر اسکا کوئی اور بھائی بھی ہوتا تو وہ اسکا رشتہ خود فری کے لئے مانگ لیتے۔ وہ دل ہی دل میں ناہید کے لئے معیز کو چن کر بہت خوش ہیں۔ معیز بھی ناہید کو بہت چاہتا ہے آج سے نہیں بلکہ بچپن سے اور یہ بات فریحہ نے تمہاری ماں کو بتائی۔ اب بتاؤ تم معیز سے زیادہ کیا کوئی ناہید کو خوش رکھ سکتا ہے۔کیا ہم ناہید کا رشتہ معیز سے تڑوا کر تمہاری بات شروع کر دیتے بلفرض اگر ہم ایسا کرتے بھی تو وہ لوگ مانتے نہیں۔ فریحہ نے بتایا کہ ناہید کے سوا سب کو معلوم ہے کہ اسکی نسبت بچپن سے معیز سے طے ہے اس لئے تمہاری ماں نے تمہیں بتایا نہیں کہ کہیں تم ناہید کو بتا نا دو۔ ویسے بتا بھی دیتے تو کوئی بڑی بات نہیں تھی کیوں کہ اب وہ لوگ ناہید کو جلد یہ بتانے کا ارادہ رکھتے ہیں اسکی خالہ فریحہ کی شادی کے بعد باقاعدہ رشتہ لے کر آئیں گیں اور انگوٹھی پہنا کر جائیں گیں۔ تم ہی بتاؤ ریان بیٹا ان حالات میں ہم کیا کرتے۔ ہم نے اس لئے فریحہ کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کیا ہاں یہ بھی سچ ہے کہ فریحہ کو دیکھتے ہی ہمیں وہ بہت اچھی لگی اور ہم ناہید کی طرف دیکھ ہی نا سکے لیکن میرا یقین کرو بیٹا اگر ناہید کی نسبت کسی اور سے طے نا ہوتی تو ہمیں فریحہ چاہے لاکھ بھی اچھی لگتی ہوں ناہید کو ہی اپناتے۔ ہمارے لئے تمہاری خوشی ابھی بھی سب سے پہلے ہے۔اور اب تو ہم زبان بھی دے چکے ہیں مجھے یقین ہے کہ تم میری باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرو گے اور مجھے مایوس نہیں کرو گے۔ شعیب جیسے بولتے بولتے تھک سے گئے۔ اور ریان۔۔۔۔اس پر تو جیسے حیرت انگیز انکشاف ہوا تھا یعنی ناہید بچپن سے ہی کسی اور کے نصیب میں لکھ دی گئی تھی اور میں اسے اپنا سمجھ بیٹھا۔ ریان ٹھنڈی آہ بھرتا ہوا اٹھا اور تھکے تھکے قدم اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔ ۔************************** شادی کی تاریخ رکھ دی گئی تھی کیوں کہ ریان نے اپنی رضا مندی ظاہر کر دی تھی۔ اس کے والدین تو بہت ہی خوش تھے۔ریان اگلے دن یشل کے کمرے میں گیا اور بولا۔۔۔ یشل میری ایک بات مانو گی۔۔۔ جی بھائی بولیں۔۔۔ تم مجھے معیز دکھا سکتی ہو۔۔۔۔ کون معیز کس کی بات کر رہے ہیں آپ۔۔۔ یشل کی تو سمجھ میں ہی نا آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ میں ناہید کے کزن کی بات کر رہا ہوں یشل کیا تم جانتی ہو اسے کیسا ہے وہ۔۔۔۔ اوہ اچھا بھائی آپ اس کے کزن معیز کی بات کر رہے ہیں اچھا ہے مگر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں اسکا۔۔۔ کیا تم جانتی ہو یشل کہ ناہید بچپن سے اپنے کزن معیز کے ساتھ انگیجڈ ہے۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بھائی مجھے تو کبھی ناہید نے یہ نہیں بتایا۔۔۔یشل بے حد حیران ہوئی۔ اسے یہ بات خود بھی نہیں معلوم یشل ورنہ وہ میرے اسکی طرف بڑھتے قدموں کو ضرور روک لیتی اور پھر آج کے دن کی نوبت نا آتی۔تم بس مجھے یہ بتاؤ کہ میں معیز سے کیسے ملوں اسے کیسے دیکھوں۔ میں بس یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیسا ہے کیا وہ واقعی میں ناہید کو مجھ سے بڑھ کر چاہتا ہے۔ بھائی یہ تو میں نہیں جانتی ہاں لیکن میرے پاس معیز کی تصویر ضرور ہے۔ دیکھنے کی حد تک تو وہ تصویر ہی بہت ہے لیکن اسے جاننے کے لئے وہ تصویر نا کافی ہے۔ اچھا تم مجھے تصویر ہی دکھا دو۔ ریان کے کہنے پر یشل نے اپنے موبائل میں موجود معیز کی تصویر اسے دکھا دی جسے دیکھ کر ریان کو حیرت کا جھٹکا لگا۔ کیوں کہ یہ وہ معیز تھا جسے ریان بہت اچھی طرح نا سہی مگر جانتا ضرور تھا۔ معیز حیدر کا دوست تھا اور حیدر ریان کا دوست تھا اس لئے بعض دفعہ اس کی حیدر کے ساتھ موجود معیز سے ملاقات ہو جاتی تھی۔حیدر کی شادی ہو چکی تھی اور اس کی لو میرج تھی۔ اور وہ اکثر معیز اور ریان کو چھیڑنے کی خاطر کہتا یار میری تم لوگ ایک نصیحت یاد رکھنا یا تو ساری زندگی شادی نا کرنا اور اگر کی بھی تو لو میرج نا کرنا اور اس بات پر وہ دونوں ہنس دیتے کیوں کہ حیدر اپنی ازواجی زندگی میں بہت خوش تھا۔ ویسے معیز یار مجھے کیا لگتا ہے کہ تیری قسمت میں لو میرج ہے ہی نہیں کیوں کہ نا تو تجھے کوئی لڑکی پسند آتی ہے اور نا ہی کسی لڑکی کو تو پسند آتا ہے۔ آخری جملہ حیدر نے آنکھ دباتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا۔ آخر ایک دن معیز نے بتا ہی دیا کہ وہ چاہتا بھی نہیں کہ کوئی اسے اب پسند آئے یا کسی کو وہ۔۔۔ کیوں کہ بچپن سے اسکی نسبت اپنی کزن سے طے ہے اور وہ اسے بہت عزیز ہے۔ اور میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ میرے نام کے ساتھ اس کے علاوہ کسی کا نام جڑے اس لئے تم مجھے تنگ کرنا بند کرو کہ کوئی مجھے پسند نہیں آتا یا کسی کو میں۔۔۔۔ معیز نے کبھی اپنی کزن کا نام نا لیا اور نا ہی خود سے کبھی کوئی ذکر کیا مگر جب بھی حیدر کی باتوں کے ذریعے اسکا ذکر نکلتا تو معیز کا لہجہ بہت دھیما اور میٹھا ہو جاتا اور اسکی آنکھوں میں اپنی کزن کے لئے بے حد محبت دکھائی دیتی جس سے اسکی آنکھیں چمک اٹھتیں۔ اور جب کبھی بھی بیٹھے بیٹھے اسکی کزن کا فون آجاتا کہ مجھے یونیورسٹی سے لینے آجاؤ تو وہ فوراً بھاگتا ہوا ایسے جاتا جیسے کب سے اسی انتظار میں بیٹھا ہو کہ کب وہ بلاۓ۔۔۔۔۔ معیز کے بارے میں سوچتے ہوئے ریان نے ایک ٹھنڈی مگر پرسکون سانس بھری۔ وہ مطمئن تھا کہ ناہید کے لئے معیز جیسا انسان ہے ایک ایسا انسان جس میں اس نے ابھی تک خوبیاں ہی خوبیاں ہی دیکھی تھیں۔ وہ سنجیدہ مزاج تو تھا مگر جب مذاق کرنے پر آتا تو سب کو ہنسا ہنسا کہ رکھ دیتا۔ بولتا بہت ہی پیارا تھا ریان کا اپنے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہی شائد سب سے اچھی آواز و لہجہ رکھتا ہے کیوں کہ سب ہی اسکی آواز کی تعریف کرتے تھے۔ مگر معیز جب بولتا تھا تو ریان کا دل کرتا تھا کہ اسے بلکل نا ٹوکا جاۓ۔ بات بات پے بحث کرنے کی اسے عادت نہیں تھی جب کبھی حیدر بحث شروع کرتا اور معیز کے کہنے پر بھی چپ نا کرتے تو وہ ان کے پاس سے اٹھ کے ہی چلا جاتا۔ معیز کی ہر وقت مذاق کرنے کی عادت صرف ناہید کے ساتھ ہی تھی کیوں کہ اسے تنگ کرنے میں معیز کو بہت ہی مزہ آتا تھا۔ ناہید اکثر بتاتی تھی کہ اسکا کزن معیز اسے بات بے بات چڑاتا رہتا ہے اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا میں بہت تنگ ہوں اس معیز سے۔۔۔۔۔ بھائی کدھر گم ہو گئے آپ کیا یہ اتنا پیارا ہے کہ آپ اسے اب سارا دن ایسے ہی دیکھتے جائیں گے۔۔۔ یشل نے تصویر میں کھوۓ اپنے بھائی کا کندھا ہلاتے ہوئے کہا۔ آہاں۔۔۔۔ہاں یہ بہت ہی اچھا ہے اور پیارا بھی ویسے مجھ سے تین سال چھوٹا ہے یہ۔۔۔۔ اچھا ویسے یہ تصویر کہاں سے آئی تمہارے پاس۔۔۔۔ آ وہ بھائی۔۔۔وہ ناہید سے کچھ تصویریں منگوائی تھیں نا تو ساتھ یہ بھی سینڈ ہو گئی اس سے۔ یشل نے اپنا موبائل اس سے لیتے ہوئے ہکلا کر کہا۔۔۔۔ ریان سر ہلاتا ہوا اس کے کمرے سے نکل گیا کیوں کہ اب اسے اپنے والدین کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرنا تھا۔۔۔۔۔ ویسے آپ سوچ رہے ہونگے کہ کیا واقعی میں معیز کی پک ناہید سے غلطی سے سینڈ ہو گئی تھی۔۔۔۔۔ سوچئے سوچئے۔۔۔ ۔********************* ناہید کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ وہ چاہ کر بھی آنکھیں بند نہیں کر پا رہی تھی کیوں کہ آنکھیں بند کرتی تو ریان کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے ٹھہر جاتا۔ وہ خود کو لاکھ روکنے کے باوجود بھی ریان کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔ اہم اہم کیسی ہیں محترمہ۔۔۔ ریان نے ناہید کے پاس آتے ہوئے کہا۔ یشل میم کے آفس میں تھی تو ناہید باہر گیٹ پر کھڑی ہو کر اس کا انتظار کرنے لگی۔ تب ہی ریان جو یشل کو لینے آیا تھا اس کے پاس چلا آیا۔ میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔۔۔ میں تو بہت اچھا ہوں محترمہ۔۔۔ میرا نام ناہید ہے ریان۔۔۔ ناہید نے ذرا تیز لہجے میں کہا تو ریان فوراً بولا۔۔۔۔ اوہ معافی چاہتا ہوں ناہید جی۔۔۔ ناہید ریان کے اس انداز پر ہنس دی۔ ویسے ہنستی ہوئی اور ب��ی خوبصورت لگتی ہو۔۔۔۔ہنستی رہا کرو۔۔۔ویسے آپس کی بات بتاؤں ہنستی ہوئی تم جتنی اچھی لگتی ہو اس سے بھی کہیں زیادہ اچھی تو تم غصے میں لگتی ہو۔۔۔۔ اس بات پر ناہید ہنسنے لگی تو ریان بھی اس کی یہ ہنسی دیکھ کر مسکرا دیا۔ کیا بات ہے اکیلے ہی اکیلے مسکرایا جا رہا ہے۔ فریحہ ناہید کے کمرے میں آئی تو اسے مسکراتے پایا۔ ناہید فریحہ کی موجودگی سے چونکی اور اس سے بھی کہیں زیادہ وہ اسکی بات پر چونکی۔ کیا میں مسکرا رہی تھی اف ریان کیا کر دیا ہے تم نے مجھے۔۔۔۔ تمہیں کوئی کام تھا فری۔ ناہید کو نجانے کیوں فریحہ کی موجودگی سے الجھن ہونے لگی۔ شائد اس لئے کہ آج اگر فریحہ کی جگہ ناہید ہوتی تو اسے ریان کو اس طرح تکلیف کے ساتھ یاد نا کرنا پڑتا اور وہ دل ہی دل میں آنسو بہانے کی بجاۓ آج ریان سے بات کرتی ہوئی خوشی سے جھوم رہی ہوتی۔ ناہید اپنی کیفیت سمجھ نہیں پا رہی تھی کبھی اسے فریحہ کی خوشی اچھی لگنے لگ جاتی تو کبھی اس کی خوشی سے جلن سی ہونے لگ جاتی۔۔۔ نہیں کام تو کوئی نہیں تھا بس تمہارے کمرے میں پانی رکھنے آئی تھی۔ ناہید نے دیکھا کہ فریحہ کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی جسے وہ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر اسے جلدی سونے کی تلقین کر کے دروازہ بند کرتی ہوئی نیچے چلی گئی۔ پانی کو دیکھتے ہی ناہید کو محسوس ہوا کہ اس کا گلا بے حد خشک ہو رہا ہے اس نے جلدی سے بوتل پکڑی اور پانی پینے لگی اور پھر ایک ہی سانس میں آدھی بوتل پی گئی۔ مگر پھر بھی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے گلے میں کانٹے لگ گئے ہوں جو کہ مسلسل چبھے جا رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ ریان کے خیالوں کو ذہن میں لا کر تکلیف زدہ ہوتی اس کا موبائل بج اٹھا۔معیز کی کال آ رہی تھی۔ مگر اس نے رسیو نا کی۔ معیز کی کال پھر سے آنا شروع ہو گئی۔ بار بار کاٹنے کے بعد بھی جب معیز باز نا آیا تو ناہید کو کال اٹھانی ہی پڑی۔ اس نے کال اٹھائی اور کچھ نا بولی۔ ڈیر کزن کیسی ہو کیا کر رہی ہو میں نے یہ پوچھنے کے لئے فون کیا تھا کہ پاؤں کا درد اب کیسا ہے اگر کم ہوگیا ہے تو مجھے بتاؤ میں دوبارہ تمہارے پاؤں کو اسی حالت میں لا سکتا جیسا وہ تازی تازی چوٹ لگنے کے بعد تھا اور۔۔۔۔اوہ سوری اسلام و علیکم۔۔۔۔ معیز کو بات کرتے کرتے اچانک ہوش آئی کہ سلامتی تو اس نے ناہید پر بھیجی ہی نہیں۔ ہوگیا تمہارا اب میں فون رکھوں۔ سلام کا جواب دینے کے بعد ناہید بولی۔۔ بہت جلدی ہے تمہیں مجھ سے جان چھڑانے کی لیکن یہ بات تم ہمیشہ یاد رکھنا کہ تم جتنا مجھ سے دور بھاگو گی میں ��تنا ہی تمہارے پیچھے آؤں گا کیوں کہ معیز سے جان چھڑوانا ممکن ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ معیز نے شرارت سے کہتے ہوئے فون رکھ دیا۔ ناہید اس کے اور اپنے رشتے سے واقف نا تھی اگر واقف ہوتی تو معیز کی اس بات کا مطلب بخوبی سمجھ جاتی اور اسکا سر پھاڑ دیتی۔ ۔********************** جاری ہے۔۔۔
0 notes
Text
ہڑپہ کی تہذیب
وادیٔ سندھ میں ہڑپہ کی پختہ تہذیب نے ایک نئی شکل اختیار کی اور چھوٹے قصبے کا ایک نیا دَور شروع ہوا جس میں پتھر اور دھات دونوں کے اوزار استعمال ہوتے تھے اور جس کا وسطی ہند میں قبل مسیح دوسرے ہزار سالہ قرن کی دیہی زندگی کے ساتھ تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ اس ہزار سالہ قرن میں کسی وقت ایک ارتقا یافتہ اور انفرادی خصوصیات کی حامل تابنے کی صنعت ہونے کے ثبوت ملے ہیں‘ جس کا مرکز گنگا کے میدانوں میں تھا‘ لیکن ابھی یہ طے نہیں ہو سکا ہے کہ یہ صنعت کس ماحول میں پروان چڑھی۔ اتنا ہی مبہم مگر وسیع تر اہمیت کا حامل اس ترقی پذیر شہری زندگی کا آغازہے جو اسی خطے میں قبل مسیح پہلے ہزار سالہ قرن کے اوّلین نصف حصے میں ظہور پذیر ہوئی۔
وہاں ہندوستانی بہادرانہ قصوں کی سرزمین پر‘ تہذیبِ ہند کا دوسرا دَور شروع ہوا اور پنپا۔ اسے گنگا کی تہذیب کہنا معقول ہی ہو گا۔ اس دَور سے لوہے کے استعمال کی ابتداء اور شمالی میدانوں میں مسلسل تہذیب کا آغاز ہوا۔ لگ بھگ 500 قبل مسیح تک اس کی خصوصی صنعت بہت انفرادی انداز کے سلیٹی رنگ کیے ہوئے برتن تھے۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے دوسرے نصف حصے میں فارس کے اکائمینی بادشاہوں کی سلطنت کی توسیع کے ساتھ نئے تہذیبی تاثرات برصغیر کے شمال مغربی سرے پر پہنچے۔ ان سے متذکرہ بالا شہری ارتقا کے اہم عمل کو قوت اور فروغ ملا۔ سلطنتِ فارس نے سرحدی علاقوں میں جو بستیاں بسائیں ان سے آس پاس کے تجارتی راستوں کا تحفظ ہوا۔ ان شاہراہوں کے ساتھ ساتھ واقع شہر کابل کے پاس بیگرام‘ پشاور کے پاس چارسدہ اور راولپنڈی کے پاس ٹیکسلا خوشحال ہوئے اور نیا سامان استعمال میں آنے لگا جس میں سکّے بھی شامل تھے۔
ان برکات کے دوآب کے شہروں تک پہنچنے میں‘ جو اب خوب ترقی کر رہے تھے‘ زیادہ دیر نہ لگی۔ یہاں پچھلے دور میں عام پائی جانے والی کچی اینٹوں کی تعمیروں کی جگہ پختہ اینٹوں کی خاصی بڑی عمارتیں بننے لگیں اور شاید اتفاقیہ طور پر لوہے کے سامان پر پائی جانے والی چمک کی نقل میں‘ شمالی سیاہ پالش والے مٹی کے برتنوں کی مشہور صنعت وجود میں آئی۔ ان برتنوں پر بھی فولاد جیسی چمک ہوتی تھی۔ یہ مستقبل کے ماہرینِ آثارِقدیمہ کے لیے ایک پیغمبرانہ امداد کی مانند تھے۔ ابتداء میں ان نئے طریقوں اور تکنیکوں سے گنگا کے عظیم میدانوں میں کسی طرح کا انقلاب ظہور میں نہیں آیا بلکہ ان سے ان ہی تہذیبی رجحانوں کو تقویت ملی اور ان کی توسیع ہوئی جو وہاں پہلے سے عمل پذیر تھے۔
500 قبل مسیح اور خاص کر 300 قبل مسیح کے بعد کا عہد اقتصادی اور تمدنی آسودگی کا دَور تھا۔ یہ رجحان موریہ سلطنت کے وقت معراج پر پہنچا جو سکندراعظم کے گزرنے کے بعد‘ سلطنتِ فارس کی ’’جانشین ریاست‘‘ کے بطور تھی۔ موریوں نے کائمینی سلطنت کے سیاسی اور تمدنی نظریوں کو وراثت میں پایا اور انہیں نئے روپ میں ڈھالا اور فارس کے بیروزگار اہلِ فن سے اچھی طرح استفادہ کیا۔ اس طرزِ عمل کی ایک قابلِ ذکر مثال فنِ تعمیر کے فارسی نمونوں کی درآمد تھی جن کا اثر قرونِ وسطیٰ تک ہند کے مذہبی طرزِتعمیر پر پڑتا رہا۔ عہد تین کو عہد دو کا ایک ذیلی عہد کہنا بہتر ہوگا۔ یہ گنگا کی پختگی پذیر تہذیب کی وسطی ہند کی جانب جنوبی توسیع تھی ‘خاص کر وادیٔ نربدا کی طرف‘ جس کے ذریعے مغربی ساحل کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل کی گئی۔
یہ توسیع قبل مسیح پانچویں صدی میں یا اس سے پیشتر ہوئی۔ شاید یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہ توسیع اس ذہنی اور روحانی عروج کا مادی پہلو تھی جو گنگا کے میدانوں سے ہی نکلے۔ بودھ اور جین مذاہب کے ارتقا کی شکل میں نمودار ہوا۔ عہد چار زیادہ ٹھوس نوعیّت کا تھا۔ اگر موجودہ شہادت کا صحیح مطلب سمجھا گیا ہے تو یہ دراصل تیسری صدی قبل مسیح کی ابتداء میں موریہ سلطنت کی گنگا سے جنوب کی طرف توسیع کا ایک نتیجہ تھا۔ پتھر اور دھات دونوں کا استعمال کرنے والے تمدنوں کا ایک مجموعے پر‘ جس میں چھوٹے پتھروں کے اوزاروں کے چلن کا قوی رجحان تھا‘ گنگا کا مکمل طور پر ترقی یافتہ لوہے کا عہد چھا گیا جس کی نمائندگی اتنی مختصر مدت بعد والے لوگ کررہے تھے کہ وہ مقامی روایات سے متاثر ہوگئے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے شمالی تہذیب کے آہنی نظم و ضبط کو (واقعتاً) ان پر حاوی کردیا۔ وقتی طور پر یہ پیش قدمی شمالی میسور میں رک گئی لیکن بعد میں جزیرہ نما کے جنوبی سرے تک پہنچ گئی۔
پہلی صدی عیسوی تک یہ تہذیب وہاں مکمل طور پر قائم ہو چکی تھی اور ساتھ ہی دور دراز تک ترقی افزا غیرملکی رابطے قائم ہو چکے تھے۔ لگ بھگ اسی زمانے میں یعنی تیسری صدی قبل مسیح کے قریب اس تہذیب کا مشرقی گھاٹوں کے ساتھ ساتھ ساحلی میدانوں میں نیچے کی طرف پھیلائو بھی شروع ہوا۔ 264 قبل مسیح میں کلنگوں پر اشوک کی مشہور فتح اس سلسلے میں ایک اہم واقعہ ہے۔ جنوب میں دریائے کرشنا کے کنارے واقع مشہور مقام امرا وتی تک گنگا کی شمالی سیاہ پالش والے برتنوں کی صنعت جا پہنچی۔ شمال سے جنوب کی طرف دھیرے دھیرے ہونے والی توسیع کا یہ خاکہ معقول بھی ہے اور اس میں یکجہتی بھی ہے۔ اس کے بعد سے ہند کی تہذیب مناسب اور بنیادی طور پر تاریخ دان کے مطالعے کا موضوع بن جاتی ہے۔ علمِ آثارِقدیمہ کے ماہرین کا رول اب کم ہو جاتا ہے‘ اگرچہ اس کی افادیت موجود رہتی ہے۔
شیخ نوید اسلم
0 notes
Text
ہڑپہ کی تہذیب
وادیٔ سندھ میں ہڑپہ کی پختہ تہذیب نے ایک نئی شکل اختیار کی اور چھوٹے قصبے کا ایک نیا دَور شروع ہوا جس میں پتھر اور دھات دونوں کے اوزار استعمال ہوتے تھے اور جس کا وسطی ہند میں قبل مسیح دوسرے ہزار سالہ قرن کی دیہی زندگی کے ساتھ تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ اس ہزار سالہ قرن میں کسی وقت ایک ارتقا یافتہ اور انفرادی خصوصیات کی حامل تابنے کی صنعت ہونے کے ثبوت ملے ہیں‘ جس کا مرکز گنگا کے میدانوں میں تھا‘ لیکن ابھی یہ طے نہیں ہو سکا ہے کہ یہ صنعت کس ماحول میں پروان چڑھی۔ اتنا ہی مبہم مگر وسیع تر اہمیت کا حامل اس ترقی پذیر شہری زندگی کا آغازہے جو اسی خطے میں قبل مسیح پہلے ہزار سالہ قرن کے اوّلین نصف حصے میں ظہور پذیر ہوئی۔
وہاں ہندوستانی بہادرانہ قصوں کی سرزمین پر‘ تہذیبِ ہند کا دوسرا دَور شروع ہوا اور پنپا۔ اسے گنگا کی تہذیب کہنا معقول ہی ہو گا۔ اس دَور سے لوہے کے استعمال کی ابتداء اور شمالی میدانوں میں مسلسل تہذیب کا آغاز ہوا۔ لگ بھگ 500 قبل مسیح تک اس کی خصوصی صنعت بہت انفرادی انداز کے سلیٹی رنگ کیے ہوئے برتن تھے۔ چھٹی صدی قبل مسیح کے دوسرے نصف حصے میں فارس کے اکائمینی بادشاہوں کی سلطنت کی توسیع کے ساتھ نئے تہذیبی تاثرات برصغیر کے شمال مغربی سرے پر پہنچے۔ ان سے متذکرہ بالا شہری ارتقا کے اہم عمل کو قوت اور فروغ ملا۔ سلطنتِ فارس نے سرحدی علاقوں میں جو بستیاں بسائیں ان سے آس پاس کے تجارتی راستوں کا تحفظ ہوا۔ ان شاہراہوں کے ساتھ ساتھ واقع شہر کابل کے پاس بیگرام‘ پشاور کے پاس چارسدہ اور راولپنڈی کے پاس ٹیکسلا خوشحال ہوئے اور نیا سامان استعمال میں آنے لگا جس میں سکّے بھی شامل تھے۔
ان برکات کے دوآب کے شہروں تک پہنچنے میں‘ جو اب خوب ترقی کر رہے تھے‘ زیادہ دیر نہ لگی۔ یہاں پچھلے دور میں عام پائی جانے والی کچی اینٹوں کی تعمیروں کی جگہ پختہ اینٹوں کی خاصی بڑی عمارتیں بننے لگیں اور شاید اتفاقیہ طور پر لوہے کے سامان پر پائی جانے والی چمک کی نقل میں‘ شمالی سیاہ پالش والے مٹی کے برتنوں کی مشہور صنعت وجود میں آئی۔ ان برتنوں پر بھی فولاد جیسی چمک ہوتی تھی۔ یہ مستقبل کے ماہرینِ آثارِقدیمہ کے لیے ایک پیغمبرانہ امداد کی مانند تھے۔ ابتداء میں ان نئے طریقوں اور تکنیکوں سے گنگا کے عظیم میدانوں میں کسی طرح کا انقلاب ظہور میں نہیں آیا بلکہ ان سے ان ہی تہذیبی رجحانوں کو تقویت ملی اور ان کی توسیع ہوئی جو وہاں پہلے سے عمل پذیر تھے۔
500 قبل مسیح اور خاص کر 300 قبل مسیح کے بعد کا عہد اقتصادی اور تمدنی آسودگی کا دَور تھا۔ یہ رجحان موریہ سلطنت کے وقت معراج پر پہنچا جو سکندراعظم کے گزرنے کے بعد‘ سلطنتِ فارس کی ’’جانشین ریاست‘‘ کے بطور تھی۔ موریوں نے کائمینی سلطنت کے سیاسی اور تمدنی نظریوں کو وراثت میں پایا اور انہیں نئے روپ میں ڈھالا اور فارس کے بیروزگار اہلِ فن سے اچھی طرح استفادہ کیا۔ اس طرزِ عمل کی ایک قابلِ ذکر مثال فنِ تعمیر کے فارسی نمونوں کی درآمد تھی جن کا اثر قرونِ وسطیٰ تک ہند کے مذہبی طرزِتعمیر پر پڑتا رہا۔ عہد تین کو عہد دو کا ایک ذیلی عہد کہنا بہتر ہوگا۔ یہ گنگا کی پختگی پذیر تہذیب کی وسطی ہند کی جانب جنوبی توسیع تھی ‘خاص کر وادیٔ نربدا کی طرف‘ جس کے ذریعے مغربی ساحل کی بندرگاہوں تک رسائی حاصل کی گئی۔
یہ توسیع قبل مسیح پانچویں صدی میں یا اس سے پیشتر ہوئی۔ شاید یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہ توسیع اس ذہنی اور روحانی عروج کا مادی پہلو تھی جو گنگا کے میدانوں سے ہی نکلے۔ بودھ اور جین مذاہب کے ارتقا کی شکل میں نمودار ہوا۔ عہد چار زیادہ ٹھوس نوعیّت کا تھا۔ اگر موجودہ شہادت کا صحیح مطلب سمجھا گیا ہے تو یہ دراصل تیسری صدی قبل مسیح کی ابتداء میں موریہ سلطنت کی گنگا سے جنوب کی طرف توسیع کا ایک نتیجہ تھا۔ پتھر اور دھات دونوں کا استعمال کرنے والے تمدنوں کا ایک مجموعے پر‘ جس میں چھوٹے پتھروں کے اوزاروں کے چلن کا قوی رجحان تھا‘ گنگا کا مکمل طور پر ترقی یافتہ لوہے کا عہد چھا گیا جس کی نمائندگی اتنی مختصر مدت بعد والے لوگ کررہے تھے کہ وہ مقامی روایات سے متاثر ہوگئے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے شمالی تہذیب کے آہنی نظم و ضبط کو (واقعتاً) ان پر حاوی کردیا۔ وقتی طور پر یہ پیش قدمی شمالی میسور میں رک گئی لیکن بعد میں جزیرہ نما کے جنوبی سرے تک پہنچ گئی۔
پہلی صدی عیسوی تک یہ تہذیب وہاں مکمل طور پر قائم ہو چکی تھی اور ساتھ ہی دور دراز تک ترقی افزا غیرملکی رابطے قائم ہو چکے تھے۔ لگ بھگ اسی زمانے میں یعنی تیسری صدی قبل مسیح کے قریب اس تہذیب کا مشرقی گھاٹوں کے ساتھ ساتھ ساحلی میدانوں میں نیچے کی طرف پھیلائو بھی شروع ہوا۔ 264 قبل مسیح میں کلنگوں پر اشوک کی مشہور فتح اس سلسلے میں ایک اہم واقعہ ہے۔ جنوب میں دریائے کرشنا کے کنارے واقع مشہور مقام امرا وتی تک گنگا کی شمالی سیاہ پالش والے برتنوں کی صنعت جا پہنچی۔ شمال سے جنوب کی طرف دھیرے دھیرے ہونے والی توسیع کا یہ خاکہ معقول بھی ہے اور اس میں یکجہتی بھی ہے۔ اس کے بعد سے ہند کی تہذیب مناسب اور بنیادی طور پر تاریخ دان کے مطالعے کا موضوع بن جاتی ہے۔ علمِ آثارِقدیمہ کے ماہرین کا رول اب کم ہو جاتا ہے‘ اگرچہ اس کی افادیت موجود رہتی ہے۔
شیخ نوید اسلم
0 notes
Text
میکاولی کون تھا ؟
میکاولی کی پیدائش 1469ء میں اطالیہ کے مشہور شہر فلورنس کے ایک متوسط مگر متمول اور عالی نسب خاندان میں ہوئی۔ اس کا باپ ایک اچھا خاصا کامیاب وکیل تھا۔ میکاولی کے بچپن کے بارے میں ہماری معلومات بہت محدود ہیں۔ اس کی تعلیم مروجہ نظام کے مطابق ہوئی تھی۔ لاطینی زبان میں اس نے کافی ملکہ حاصل کر لیا۔ یونانی زبان سے بھی اسے تھوڑی بہت واقفیت تھی۔ اپنے زمانے کے کلاسیکی ادب سے بھی اسے خاصا لگاؤ تھا۔ اہل روم کی تاریخ ان کے سیاسی اداروں اور نظریات کے بارے میں اس نے اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔
اس کے بچپن اور جوانی کے دور میں میڈیچی ( Medici) خاندان اپنے انتہائی عروج پر تھے۔ لیکن لورنزو کی موت کے بعد میڈیچیوں کا زوال ہو گیا اور فلورنس میں جمہوریت قائم ہو گئی۔ فلورنس کے اس جمہوری انقلاب سے میکاولی کی عملی و سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔ 1598ء میں وہ نئی حکومت میں مجلس دہ سری کا سیکریٹری مقرر ہوا اور چودہ برس تک اس اہم عہدہ پر فائز رہا۔ اس مجلس یا شعبہ حکومت کے فرائض و اختیارات میں امور داخلہ و جنگ اور فوجی نظم و نسق شامل تھے۔ وہ فلورنس کے حکمران خاندان ساڈرینی کا دوست تھا۔ خاندان جمہوری حکومت کے قیام کا خواہاں اور میڈیچیوں کی اشرافی حکومت اور ساوونار ولا کی انتہاپسندی دونوں کا مخالف تھا۔ اس برسراقتدار خاندان سے اپنی دوستی اور قریبی تعلقات کے باعث میکاولی متعدد بار غیر ملکی مذاکرات کے لیے فلورنس کا سفیر چنا گیا۔
ا�� طرح میکاولی کا تعلق نہ صرف ملکی امور اور سیاست سے بلکہ خارجہ پالیسی اور بین الملکی سیاست سے بھی تھا۔ اپنے فرائض منصبی کو بجا لانے کے سلسلے میں اس کے لیے فطری اور لازمی تھا کہ وہ دوسری اطالوی اور غیر اطالوی ریاستوں کی سیاست سے کماحقہ واقفیت رکھے تاکہ فلورنس کی آزادی اوراس کے مفاد پر کسی طرف سے کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ اس طویل عرصہ میں اسے متعدد بار مختلف ملکوں کا سفر بھی کرنا پڑا۔ مثلاً 1500ء میں میکاولی کو فرانس کے لوئی دوازدہم کے حضور میں جانے کا موقع ملا۔ 1502 میں سیزربورجیا کی خدمت میں پہنچا، 1503ء میں اس نے پوپ پائیس سوم کے انتقال اور نئے پوپ کے انتخاب کے موقع پر روم کا سفر کیا، 1506ء میں اسے پوپ جولیس دوم سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔
اس طرح اس نے فلورنس اور دوسرے ممالک کی سیاسی زندگی کا غائر مطالعہ کیا اور سولہویں صدی میں یورپ کی حکومتیں جن مسائل، مشکلات، خانہ جنگیوں، بغاوتوں، سیاسی شورشوں اور بدامنیوں وغیرہ سے دوچار تھیں اور عملی سیاست میں جن قدروں یا اصولوں پر اس صدی کے حکمران عمل پیرا تھے ان سب کا اسے ذاتی علم اور عملی تجربہ ہوا اور اس کے فکرونظر پر گہرا اثر پڑا۔ دریں اثنا میڈیچی فلورنس میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے لیے سازش کر رہے تھے۔ بالآخر وہ 1512ء میں ساڈرینی خاندان کے تحت حکومت کو پلٹ کر اشرافی طرز کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو کر رہے۔
اس انقلاب کے بعد میکاولی کا خیال تھا کہ وہ اپنے سرکاری عہدے پر بدستور برقرار رہے گا کیونکہ وہ خود کو ایک مستقل شہری ملازم (سول سرونٹ) تصور کرتا تھا۔ لیکن میڈیچیوں کو ساڈرینی خاندان والوں سے گہرے تعلقات کا بخوبی علم تھا چنانچہ اقتدار سنبھالنے کے تھوڑے عرصہ بعد ہی انہوں نے اس کی وفاداری اور غیر جانبداری کو مشکوک سمجھتے ہوئے اسے اس کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ پھر اس کے اوپر ایک سیاسی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا اور کچھ دنوں اسے قید و بند کی سختیاں بھی جھیلنی پڑیں۔ آخرکار وہ بری کر دیا گیا۔ 1513ء میں میڈیچیوں کے اقتدار کو اس وقت چار چاند لگ گئے جب ایک میڈیچی یعنی لیو دہم، جولیس دوم کا جانشین ہوا۔ 1513ء سے 1526ء تک میکاولی نے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی اور اس کا فلورنس کی حکومت و سیاست سے کوئی تعلق نہ رہا۔ وہ اپنے حال زار سے بہت کبیدہ خاطر تھا۔
اس نے محسوس کیا کہ اسے دنیا میں بہت کچھ کرنا ہے لہٰذا اسے سابق حکمرانوں کے ساتھ دوستی کا خمیازہ نہیں بھگتنا چاہیے۔ اسے اپنی سیاسی جلاوطنی سے اس قدر کوفت تھی کہ اس نے اپنے سیاسی عہدہ کی بحالی کے لیے ان تھک کوشش شروع کر دی اور چاپلوسی اور خوشامد کے ذریعہ میڈیچیوں کو اپنی لیاقت اور انتظامی صلاحیت کا قائل کرنے میں لگا رہا۔ ان کوششوں کے ساتھ میکاولی نے وقت گزاری کے لیے ادبی اور علمی مشغلوں کا بھی سہارا لیا۔ دوران ملازمت اس کے ذہن میں ایک ایسی کتاب لکھنے کا خیال پیدا ہوا جس میں وہ سیاسی اقتدار کے حصول اور اس کو برقرار رکھنے کے اصولوں سے بحث کرے۔ سیزر بورجیا کے دربار میں اگرچہ اسے ایک مختصر مدت کے لیے حاضر ہونے کا موقع ملا تھا لیکن اسی عرصہ میں وہ اس جواں سال سیزر کی اپنے مقاصد کو نہایت بردباری اور زیرکی سے حاصل کرنے کی لیاقت کا مداح ہو گیا تھا۔ اور اس نے رائے قائم کی کہ دوسرے حکمرانوں کے بالکل برعکس سیزر بخوبی جانتا تھا کہ طاقت کو کس موقع پر استعمال کرنا چاہیے اور رعایا کی خوشنودی کب حاصل کرنی چاہیے۔
جلاوطنی کے دوران اس کے غوروفکر کا نتیجہ ’’حکمران‘‘ (دی پرنس) اور ’’مقالات‘‘ کی شکل میں نکلا۔ ان تصانیف میں اس نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ مختلف حکومتوں کو مختلف سماجی اور اخلاقی حالات کے تحت کس طرح کام کرنا چاہیے۔ دریں اثنا میکاولی کی میڈیچیوں کو رام کرنے کی کوشش کچھ بارآور ہوئی۔ کیونکہ انہوں نے خوش ہو کر اسے "فلورنس کی تاریخ" لکھنے کے کام پر مامور کر دیا۔ اس تصنیف میں میکاولی کو خود اپنے ��ہر کی سیاست کے تجزیہ میں اپنے ذاتی نظریات کے اطلاق کا موقع ملا۔ اس تاریخ کا لب لباب یہ ہے کہ سیاست میں چرچ اور پوپ کی مداخلت کے سبب اطالیہ کی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پاپاؤں نے اپنے اقتدار اور اپنی سیاسی مصلحتوں کی خاطر غیرممالک کو مداخلت کی دعوت دے کر اطالیہ کو سیاسی انتشار اور طوائف الملوکی کی لعنتوں سے دوچار کیا۔ اپنی پوزیشن اور اثرات کو برقرار رکھنے کے لیے وہ اس تحریک اور ہر اس حکمران کے مخالف رہے جس کا نصب العین اطالیہ کا قومی اتحاد اور سیاسی آزادی تھا۔
رسالہ ’’فن جنگ‘‘ 1520ء میں اس نے حرب و ضرب کے جملہ مسائل سے بحث کی اور انہیں خیالات کا اعادہ کیا جن کا اظہار وہ ’’حکمران‘‘ میں کر چکا تھا یعنی اپنے ملک کی حفاظت ہر شہری کا فریضہ ہے۔ کرائے کے سپاہی بیکار ہوتے ہیں اور خطرناک بھی۔ اس کے علاوہ میکاولی نے ’’مندراگولا‘‘ کے عنوان سے ایک منظوم مزاحیہ ڈرامہ بھی سپرد قلم کیا جس میں سولہویں صدی کے اطالیہ کی سماجی زندگی اور اخلاق و کردار کی خامیوں کا نہایت کامیاب نقشہ پیش کیا گیا ہے۔1521ء میں جب اس نے محسوس کیا کہ میڈیچی اس سے خوش نظر آتے ہیں تو اس نے اس موقع سے پورا فائدہ اٹھایا۔
کارڈنل گیولیوڈی میڈیچی (مستقبل کا پوپ کلیمنٹ ہفتم) نے پراٹیکا کی ’’مجلس ہشت سری‘‘ سے یہ سفارش کی کہ فرانسسکن پادریوں کے اجتماع عام میں سرکاری نمائندہ کے طور پر میکاولی کو بھیجا جائے۔ چونکہ میکاولی پادریوں کا سخت مخالف تھا لہٰذا اولاً اس نے اس مشن کا مذاق اڑایا لیکن پھر اس توقع میں اسے قبول کر لیا کہ شاید یہ مشن اس کے لیے سیاسی عہدے کی بحالی کا پیش خیمہ بن جائے۔ 1526ء کے موسم بہار تک میڈیچی اس کے کاموں سے اس قدر مطمئن ہو چکے تھے کہ انہوں نے بالآخر اسے ’’شہر کی فصیلوں کے نگہبانوں‘‘ کے سیکریٹری کا اہم منصب عطا کیا۔ بعد ازاں روم کے ہونے والے سقوط کا فلورنس پر اثر ہوا۔ نئی حکومت نے اسے عہدے سے برطرف کر دیا۔ وہ 22 جون 1527ء کو اس دنیا سے چل بسا۔
سید انوارالحق
0 notes