#عوام پریشان
Explore tagged Tumblr posts
topurdunews · 2 months ago
Text
مہنگی بجلی سے پریشان عوام کیلئے خوشخبریسولر پینلز مزید سستے
(کاوش میمن)مہنگی بجلی سے پریشان شہریوں کیلئے اچھی خبر ہے کہ سولر پینل کی قیمتوں میں مزید کمی کردی گئی۔ تفصیلات کے مطابق  585 واٹ کاسولر 20 ہزار 500 روپے سے کم ہوکر 17 ہزار 100 روپے پر آگیا ،180 واٹ سولر 6 ہزار سے کم ہوکر 5500 ہزار پر آگیا۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے لوگ سولر لگانے کو ترجیح دے رہے ہیں،ڈیمانڈ بڑھنے سے سولر مزید سستا ہوسکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں : موبائل کا استعمال بھی…
0 notes
shiningpakistan · 1 month ago
Text
عمران خان کا آخری کارڈ
Tumblr media
تحریک انصاف کی تقریباً پوری قیادت حیران ہے کہ جیل میں قید اُن کے رہنما اور بانی چیئرمین نے اب یہ کیا اعلان کر دیا ہے۔ بغیر کسی سے مشاورت کیے عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان سوشل میٖڈیا کے ذریعے کر دیا اور پہلے مرحلے میں اگر اُن کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ بیرون ملک پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ پاکستان پیسے بھیجنا یعنی ترسیلات زر کو محدود کر دیں اور بائیکاٹ مہم چلائیں۔ اُنہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ دوسرے مرحلے میں اس سے بھی آگے جائیں گے۔ دو مطالبات جو عمران خان نے حکومت کے سامنے رکھے، اُن میں ایک مطالبہ یہ ہے کہ انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جبکہ دوسرا مطالبہ ہے کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ ان مطالبات کے ماننے کیلئے عمران خان نے 14 دسمبر تک کا وقت بھی دے دیا۔ تحریک انصاف کے کسی رہنما سے مشاورت کیے بغیر اس اعلان پر پارٹی رہنما پریشان ہیں کہ خان صاحب نے یہ پھر کیا کر دیا۔ ایک تو گلہ یہ تھا کہ اتنا اہم اعلان کیا گیا اور بغیر کسی کی مشاورت اور بغیر کسی کو بتائے اور دوسرا ان رہنمائوں کا تقریباً اس بات پر اتفاق تھا کہ سول نافرمانی کی جس تحریک کا عمران خان نے اعلان کر دیا اُس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا اور ماضی کی طرح سول نافرمانی کی یہ تحریک بھی ناکام ہی ہو گی۔ 
Tumblr media
عمران خان نے سوچا ہو گا کہ اُن کے اعلان کے بعد بیرون ملک بسنے والے پاکستانی پیسہ بھیجنا کم کر دیں گے جس سے پاکستان کی ترسیلات زر میں کمی ہو گی اور یوں ملک معاشی مشکلات کا شکار ہو گا جس سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائیں گی۔ ترسیلات زر کا تعلق اُن اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ ہے جو ہر ماہ یا کچھ عرصہ کے بعد پاکستان میں بسنے والے اپنے بیوی بچوں، ماں باپ یا خاندان کے دوسرے افراد اور رشتہ داروں کو خرچہ بھیجتے ہیں۔ اب اگر عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ باہر کام کیلئے جانے والوں کی بڑی تعداد یا بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اپنے بیوی بچوں، ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں کو بھیجا جانے والا خرچہ کم کر دیں تو ایسا تو ممکن نہیں ۔ نہ ہی کوئی اور اوورسیز پاکستانی جو یہاں اپنے لیے زمین اور گھر بنانا چاہ رہا ہے یا کوئی کاروبار کرنا چاہ رہا ہے وہ عمران خان کی بات سنے گا۔ ویسے جن اوورسیز پاکستانیوں خصوصاً امریکا، برطانیہ اور یورپ میں بسنے والے، جن کے پاس بہت پیسہ ہے وہ زیادہ تر اپنا پیسہ ملک سے باہر ہی رکھتے ہیں۔ 
عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران ایسے پاکستانیوں سے توقع لگائی تھی کہ وہ اپنا پیسہ پاکستان لے کر آئیں گے۔ مراد سعید نے تو کہا تھا کہ بیرون ملک رہنے والے عمران خان کی حکومت میں اتنا پیسہ لائیں گے کہ سو ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ اُن کے منہ پر ماریں گے۔ یہ بھی توقع تھی کہ جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گا تو بیرون ملک سے ترسیلات زر میں کمی ہو گی لیکن اس کے برعکس ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کا بھی یہی خیال ہے کہ نہ تو اوورسیز پاکستانی پاکستان پیسہ بھیجنا بند کریں گے اور نہ ہی یہاں رہنے والے اپنے بجلی اور گیس کے بل جلائیں گے کیوں کہ ایسا نہ 2014 میں ہوا نہ اب ممکن ہے۔ ذرائع کے مطابق پارٹی رہنمائوں نے اپنی مشاورت کے دوران یہ بھی کہا کہ بجلی و گیس کے بل نہ دینا تو پارٹی رہنما ئوں کیلئے بھی ممکن نہیں ہو گا۔ 2014 کے دھرنے کے دوران عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا، بجلی گیس کے بل جلائے اور عوام سے مطالبہ کیا کہ اس تحریک میں بھرپور حصہ ڈالیں لیکن بنی گالہ کے اپنے گھر کے بل جمع کرا دیے۔ وہ تحریک بھی ناکام ہوئی اور اب بھی ایسی کسی تحریک کا نتیجہ مختلف نہیں ہو گا۔ اب پارٹی رہنما عمران خان کو سمجھانے اور اس اعلان کو واپس لینے کیلئے جیل میں اُن سے ملاقات کریں گے۔ خان صاحب مانتے ہیں کہ نہیں اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے ی�� اپنا آخری کارڈ کھیلا ہے۔ یہ جو بھی ہے عمران خان اپنا نقصان کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 8 months ago
Text
سائبر اور فون کال فراڈ؛ محتاط رہیے
Tumblr media
پاکستان میں جہاں لوگ ڈکیتی کی وارداتوں سے پریشان ہیں، وہیں سائبر کرائمز میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان دنوں ایک نئے قسم کے فراڈ سے لٹیروں نے کئی لوگوں کو اپنی رقم سے محروم کر دیا۔ اس نئی طرز کے فراڈ میں ملوث افراد واردات کے لیے عام شہریوں کو کال کرتے ہیں۔ انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس عوام کا ڈیٹا بھی موجود ہوتا ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان کا ریکی کا نظام بہت منظم ہے یا پھر ان افراد کی موبائل ریکارڈز تک رسائی ہے۔ ٹیلی فونک فراڈ میں ملوث نوسرباز اکثر اپنے آپ کو پولیس افسر ظاہر کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی شخص کو کال ملا کر اسے اس کے نام سے پکارتے ہیں اور بعد ازاں اسے یہ بتاتے ہیں کہ ’’آپ کے خاندان کا کوئی فرد ہمارے قبضے میں ہے، ہم تھانے سے بات کررہے ہیں‘‘۔ یہ گروہ اس قدر پلاننگ سے کام کرتا ہے کہ جس شخص کے متعلق یہ بتارہے ہوتے ہیں یہ افراد کال پر اس کی آواز بھی سناتے ہیں، جس میں وہ رو رو کر خود کو بچانے کی درخواست کر رہا ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جسے کال کی جاتی ہے اس کے اعصاب پر مکمل طور پر قابو پانے کے بعد اس سے پیسوں کو مطالبہ کیا جاتا ہے اور اسے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر مقدمہ درج نہیں کرانا چاہتے تو پیسوں کا انتظام کرو ورنہ یا تو اسے مار دیا جائے گا یا اس کیس میں حوالات میں ڈال دیا جائے گا۔
اس فراڈ میں ملوث افراد شہریوں سے ان کی حیثیت کے مطابق لاکھوں روپے تک بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی کئی افراد اس فراڈ کا شکار ہو چکے ہیں۔ انجان کال کا یہ طریقہ واردات اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ متاثرہ شخص کو سوچنے سمجھنے کا وقت ہی نہیں ملتا اور اس سے اچھی خاصی رقم بٹور لی جاتی ہے۔ بین الاقوامی ادارے کی تحقیق کے مطابق ایف آئی اے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے فراڈ میں ملوث اس گروہ میں سے اکثر افراد کا تعلق حافظ آباد، فیصل آباد، سرگودھا اور لاہور سے ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق فون کالز سے کیے جانے فراڈ کے کیسوں کی تعداد اب ہزاروں میں پہنچ چکی ہے۔ واضح رہے کہ سائبر کرائم ونگ میں اب فائیننشل فراڈ کے کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے کیس جعلی سم اور جعلی اکاؤنٹس کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں، جن کی بدولت یہ گروہ شہریوں کا ریکارڈ باآسانی حاصل کر لیتے ہیں۔ سائبر کرائم نے ٹیلی کام کمپینوں کے عملے کے ایسے کئی افراد کو گرفتار بھی کیا ہے جو ڈیٹا فراہم کرنے میں ملوث ہیں۔
Tumblr media
یہ فراڈیئے کال کرتے ہوئے وی پی این ایپلی کیشن سے اپنی کالر لوکیشن تبدیل کر لیتے ہیں جس کے باعث ان کے مقام کا معلوم کرنا کسی حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ اسمارٹ فون کے بجائے سادہ فون کا استعمال کرتے ہیں اور واردات کے بعد اسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک ہی دن میں سیکڑوں نمبرز پر کال کرتے ہیں جبکہ ان کی کامیابی کی شرح 8 سے دس فیصد ہے۔ ٹیلی فون کال سے فراڈ کرنے والے کئی افراد جنھیں ایف آئی اے نے گرفتار بھی کیا اور انہیں سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ صرف گزشتہ سال 500 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا لیکن اس کے باوجود ان وارداتوں میں کمی نہیں آرہی۔ یقینی طور پر اس فراڈ میں ملوث افراد کا تعلق بھی آئی ٹی کے شعبوں سے ہو گا۔ ملک میں بے روزگاری کی وجہ سے جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ حکومتی سطح پر نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن ملازمت کے مواقعے موجود نہیں، جس کے نتائج اسی طرح نکلیں گے۔ جہاں حکومت اور ادارے ان افراد کو گرفتار کر کے کڑی سے کڑی سزا دیں، وہیں اس بات کی بھی کوشش کریں کہ آئی ٹی اور ہیکنگ کے ماہر نوجوانوں کو ملازمت کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے تاکہ وہ کسی منفی سرگرمی میں شامل نہ ہوں۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ عام شہری اس فراڈ سے کیسے بچیں؟ شہریوں کو اس طرح کے فراڈ سے بچنے کےلیے خود بھی محتاط رہنا ہو گا۔ شہریوں کو چاہیے کہ فون کال پر کسی بھی قسم کی ذاتی معلومات فراہم نہ کریں اور اگر کسی کے اغوا یا گرفتاری کے متعلق کوئی کال آئے تو سب سے پہلے اس شخص سے رابطہ کریں اور تصدیق کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کریں۔ یہ افراد ایسے سافٹ ویئرز کا استعمال بھی کرتے ہیں جس سے نمبر بظاہر یو اے این لگتا ہے۔ اس حوالے سے بینک انتظامیہ کئی بار ہدایات جاری کر چکی ہیں کہ بینک کسی قسم کی ذاتی معلومات ٹیلی فون پر نہیں لیتا۔ شہریوں کو اس بات کو ذہن نشین کرنا ہو گا۔ آج کے اس جدید دور میں بھی معصوم لوگ ٹی وی چینلز کے گیم شو کے نام پر لٹ رہے ہیں، عوام کو اب احتیاط سے کام لینا ہو گا ورنہ مشکل حالات میں مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
شہریار شوکت
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 11 months ago
Text
سول ملٹری تعلقات
Tumblr media
حکومتیں چاروں صوبوں میں بن چکی ہیں۔ وفاق میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کسی حد تک کنٹرول میں آچکی ہے خصوصاّ جو پچھلے دو سال سے تھی مگر اب بھی خطرہ ٹلا نہیں ہے۔ یہ خطرہ دوبارہ بھی جنم لے سکتا ہے، اگر ��ئی حکومت ملک میں معاشی استحکام نہیں لا سکی، اگر ہم نے ماضی کی غلطیوں کو دہرایا تو یقینا ہمیں مستقبل میں ترقی کے راستے بند ملیں گے۔ ہمارا ملک وجود میں آنے کے بعد چھبیس سال تک آئین سے محروم رہا، کسی آزاد اور خود مختار ریاست کے لیے یہ بہت بڑی کمزوری ہے اور موجودہ آئین پر ہم چلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ برصغیر میں پاکستان سب سے زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی حقیقتیں مختلف تھیں اور یہ کہ ہم سرد جنگ کے زمانوں میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر کیپٹلسٹ طاقتوں کے اتحاد کا حصہ رہے۔ یہ کام نہ ہندوستان نے کیا نہ ہی بنگلا دیش نے۔ جواہر لعل نہرو نے 1961 میں یوگوسلواکیہ کے صد ر مارشل ٹیٹو اور دیگر غیرمنسلک ریاستوں کے ساتھ مل کرایک تنظیم بنا لی جب کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اس خطے میں اسٹر ٹیجک حکمت عملی کے تحت اپنے تعلقات چین کے ساتھ استوار کرنا شروع کر دیے، کشمیر کا مسئلہ ہمیں ورثے میں ملا۔ اس دور میں کہیں یہ گمان نہ تھا کہ چین دو دہائیوں کے بعد اس دنیا کی ایک بڑی فوجی و معاشی طاقت بن کر ابھرے گا۔
ہمارے تعلقات امریکا سے بہت گہرے تھے۔ پاکستان پر مسلط تمام آمروں پر امریکا کا ہاتھ تھا اور جب بھی اس ملک میں جمہوریت یا ایسا کہیے کہ معذور جمہوریت کا نفاذ ہوا، اس جمہوریت کو بھی امریکا کا گرین سگنل ہوتا تھا، لیکن جب جب اس ملک میں جمہوریت آئی، وہ عوام کی طاقت سے آئی اور جب اس ملک پر آمریت مسلط ہوئی، اس کی بنیادی وجہ بھی ہماری سماجی پسماندگی تھی۔ امریکا و پاکستان کے منسلک مفادات میں کہیں بھی جمہوریت کا نفاذ نہ تھا۔ افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد جب شمالی ہند اور وسط ایشیا میں امریکا کے اسٹرٹیجک مفادات میں تبدیلی آئی تو پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے C-130 کو گرتے بھی دیکھا گیا اور بارہا آئین کے آرٹیکل 58 (2) (b) کا اطلاق بھی، اسامہ بن لادن کی موت بھی۔ 9/11 کے بعد جب ان کو ہماری ضرورت پڑی، جنرل مشرف دس سال کے لیے مسلط کیے گئے۔ اس خطے میں چین کی ابھرتی طاقت نے امریکا کو پریشان کر دیا اور اس طاقت کو کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکا نے ہندوستان سے اپنے تعلقات کو فروغ دیا۔ہم نے اپنی خارجہ پالیسی ، ہندوستان کی طاقت اور اثر ورسوخ کے پس منظر میں دیکھی، یہ ہماری غلط پالیسی تھی۔
Tumblr media
اس زمانے میں میاں نواز شریف کی سوچ یہ تھی پاکستان کے بارڈر کم از کم باہمی تجارت کے لیے کھول دیے جائیں۔ نوازشریف صاحب نے ہندو ستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھائے۔ ہندوستان کے وزیر ِ اعظم باجپائی صاحب نے پاکستان کا دورہ کیا۔ مینار پاکستان آئے اور اس زمرے میں باجپائی صاحب نے یہ مانا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے۔ پھر کیا ہوا؟ کارگل کا محا ذ کھل گیا اور میاں صاحب کی حکومت چلی گئی۔ اگر امریکا میں 9/11 کا واقعہ نہ ہوتا اور امریکا کے صدر بش جونیئر نہ ہوتے تو یہاں جنرل مشرف مشکل سے دو سال ہی حکومت کرتے۔ میاں صاحب نے جب دوبارہ اقتدار حاصل کیا تو ان کا یہ ایجنڈا بھی تھا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کا پنجاب سے مکمل صفایا کریں، میاں صاحب کالا کوٹ پہن کے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ میمو گیٹ کھلا۔ یوسف رضا گیلانی کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے فارغ کیا گیا، یوں چارٹر آف ڈیموکریسی کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ اس وقت تک خان صاحب میدان میں اتر چکے تھے۔ جب خان صاحب نے نواز شریف کی حکومت میں ڈی چوک پر دھرنا دیا تو پیپلز پارٹی اس مشکل وقت میں اگرمیاں صاحب کے ساتھ کھڑی نہ ہوتی تو صو رتحال مختلف ہوتی۔
پھر امریکا میں فسطائیت سوچ کی حامی ٹرمپ حکومت آگئی۔ ادھر یوسف رضا گیلانی کے بعد ایک اور منتخب وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو چلتا کر دیا گیا۔ جس طرح خان صاحب کو اقتدار میں لایا گیا وہ بھی لاجواب ہے۔ خان صاحب نے ملکی سیاست کو ٹی ٹو نٹی میچ بنا دیا۔ پتا یہ چلا کہ خان صاحب کے پیچھے ایک بین الاقوامی لابی تھی لیکن یہاں جو ان کے لوکل ہینڈلرز تھے انھوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہاں ٹرمپ صاحب کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پاکستان میں دو نظرئیے ہیں۔ ایک پارلیمنٹ کی برتری اورآئین کی پاسداری کی سوچ اور دوسری اسٹبلشمنٹ اور ارسٹوکریسی کی سوچ جس میں جمہوریت کو ملک کے لیے بہتر سمجھا نہیں جاتا۔ ان دونوں نظریوں میں جو تضاد ہے، اس تضاد کو ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف استعمال کیا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی ساکھ اور سالمیت کے لیے ان دونوں سوچوں کو قریب لایا جائے۔ بہت دیر ہوچکی اب! ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مستقبل میں ہمیں بہت سے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا، اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جس کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑے تو اس ملک میں خانہ جنگی جنم لے سکتی ہے۔
ہمارے ملک کی صوبائی حکومتوں، عدالتوں اور تمام اداروں اس بات کا علم ہونا چاہیے۔ ہم نے جو ٹرینڈ شروع سے اپنائے تاریخ کو مسخ کرنے کے، فیک نیوز، سیاستدانوں کو بدنام کرنا، جمہوریت کے خلاف سازشیں جوڑنا ان کو ختم کرنا ہو گا۔سول و فوجی تعلقات میں دوریاں ختم کرنی ہوں گی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کیسے آگے بڑھتی ہے اس کو دیکھنا ہو گا۔ اچھا ہوا کہ ��ن کے مینڈیٹ کا احترام کیا گیا اور ان کی حکومت بنی۔ لیکن ان کے رحجانات جو ملکی انارکی کی طرف زیادہ ہیں، ان سے ملک کی معیشت کو خطرات ہو سکتے ہیں، اب افہام و تفہیم سے آگے بڑھنا ہو گا۔ اس قومی اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے ممبران نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا، خان صاحب کے ماسک پہن کر اجلاس میں بد نظمی پھیلائی، ان کے ان رویوں نے اچھا تاثر نہیں چھوڑا ہے۔ نگراں حکومت نے بڑی خوبصورتی سے ملکی بحرانوں کا سامنا کیا۔ معیشت کو سنبھالا، عدلیہ نے اپنا پازیٹو کردار ادا کیا۔ انتخابات کا وقت مقررہ پر کرائے جو ایک ناممکن ٹاسک تھا۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی بنیادیں تبدیل کرنی ہوںگی۔ خارجہ پالیسی کی اول بنیاد ہماری معاشی پالیسی ہونی چاہیے۔ ہمیں اپنی اکانومی کو ڈاکیومنٹڈ بنانا ہے۔ بلیک اکانومی کو زیادہ سے زیادہ مارجنلئز کرنا ہے۔ اہم بات ہے سول ملٹری تعلقات، بین الاقوامی طاقتیں، پاکستان ان دونوں حقیقتوں کو ایک دوسرے کے مخالف کھڑا کر کے اپنا الو سیدھا کرتی رہی ہیں۔ اس میں نقصان صرف اس ملک کا ہوا ہے۔
جاوید قاضی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistanpress · 1 year ago
Text
شفاف الیکشن اور حقیقی تبدیلی؟
Tumblr media
سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔ انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اور ملک و جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف و غیرجانبدار انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابر مواقع دینے کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔ الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔
شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔ جب تک ملک میں منتخب حکومت برسر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔ ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔ تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔ قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔ دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔ 
Tumblr media
ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھر پی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہو چکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہر فرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبر پختونخواہ، پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56 روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذید مہنگی ہونے کا امکان ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کر کے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90 فیصد خود استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب ک�� بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80 ہزار ارب کا قرضہ ہے۔ 
پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کر کے ملک و اپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی، ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76 برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔ اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔
محمد فاروق چوہان
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urduchronicle · 1 year ago
Text
امریکا میں مظلوم فلسطینی عوام کے حق میں مظاہرے، یہودی بھی غزہ میں نسل کشی مہم کے مخالف
جمعہ کو نیویارک میں “آزاد فلسطین” کے نعرے بلند ہوئے، جب ہزاروں مظاہرین غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بمباری کی مذمت کے لیے سڑکوں پر آئے۔ بڑے پیمانے پر نوجوانوں کا احتجاج – جس نے تمام قومیتوں کے مظاہرین کو اپنی طرف متوجہ کیا، مظاہرین نے اسرائیل پر “نسل کشی” کا الزام لگایا اور امریکہ سے اپنے مشرق وسطیٰ کے اتحادی کی حمایت واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ مارچ میں شریک پروفیسر لِز زکریا نے کہا، ’’میں بہت پریشان…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoguys657 · 2 years ago
Text
چیتنیہ پوری میں آوارہ کتو ں کے حملہ کا ایک اور واقعہ - Siasat Daily
کمسن بچہ شدید زخمی ، شہر کے دیگر علاقوں میں بھی آوارہ کتوں کے جھنڈ سے عوام پریشان حالحیدرآباد ۔ 22فبروری ( سیاست نیوز) شہر میں آورہ کتوں کے حملہ کا ایک اور واقعہ پیش آیا ۔ چیتنیہ پوری پولیس حدود میں ایک کمسن بچہ آوارہ کتوں کے حملہ میں شدید زخمی ہوگیا ۔ عنبرپیٹ میں کمسن بچے کی ہلاکت کا واقعہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اس واقعہ سے شہریوں میں خوف و دہشت پیدا ہوگئی اور شہریوں نے سابق واقعات کی یاد تازہ کرتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptosecrets · 2 years ago
Text
چیتنیہ پوری میں آوارہ کتو ں کے حملہ کا ایک اور واقعہ - Siasat Daily
کمسن بچہ شدید زخمی ، شہر کے دیگر علاقوں میں بھی آوارہ کتوں کے جھنڈ سے عوام پریشان حالحیدرآباد ۔ 22فبروری ( سیاست نیوز) شہر میں آورہ کتوں کے حملہ کا ایک اور واقعہ پیش آیا ۔ چیتنیہ پوری پولیس حدود میں ایک کمسن بچہ آوارہ کتوں کے حملہ میں شدید زخمی ہوگیا ۔ عنبرپیٹ میں کمسن بچے کی ہلاکت کا واقعہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اس واقعہ سے شہریوں میں خوف و دہشت پیدا ہوگئی اور شہریوں نے سابق واقعات کی یاد تازہ کرتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years ago
Text
چیتنیہ پوری میں آوارہ کتو ں کے حملہ کا ایک اور واقعہ - Siasat Daily
کمسن بچہ شدید زخمی ، شہر کے دیگر علاقوں میں بھی آوارہ کتوں کے جھنڈ سے عوام پریشان حالحیدرآباد ۔ 22فبروری ( سیاست نیوز) شہر میں آورہ کتوں کے حملہ کا ایک اور واقعہ پیش آیا ۔ چیتنیہ پوری پولیس حدود میں ایک کمسن بچہ آوارہ کتوں کے حملہ میں شدید زخمی ہوگیا ۔ عنبرپیٹ میں کمسن بچے کی ہلاکت کا واقعہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اس واقعہ سے شہریوں میں خوف و دہشت پیدا ہوگئی اور شہریوں نے سابق واقعات کی یاد تازہ کرتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
topurdunews · 3 months ago
Text
صارفین کیلئے بجلی بلوں کی اقساط کی سہولت ختم عوام سخت پریشان
(اویس کیانی) بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بجلی صارفین کو اقساط کی سہولت ختم کرنے کے بعد عوام سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ سفید پوش اور غریب صارفین جو مہنگے بجلی کے بلوں کی اقساط کروا کر ادائیگی کر دیتے تھے، اب مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے احکامات کے تحت سال میں صرف ایک بار قسطوں کا موقع فراہم کیا جاتا ہے اور بل کی آخری تاریخ میں توسیع نہیں کی جاتی،…
0 notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
وقت کم، مقابلہ سخت
Tumblr media
بجلی کے بلوں نے پہلے سے ہی مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو پریشان کر دیا ہے۔ بجلی کے بل غریب کی مہینے کی کل کمائی سے بھی زیادہ آ گئے ہیں۔ غریب کیا مڈل کلاس کے بس سے بھی اخراجات باہر ہو گئے ہیں۔ عوام سراپا احتجاج ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں لوگ احتجاجاً بجلی کے بل جلا رہے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ بجلی کے بلوں پر ٹیکس اور سرچارچ کے نام پر اضافہ واپس لیا جائے۔ ابھی چند ایک روز میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں جاری کمی کی وجہ سے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا، جو عوام پر مہنگائی کا ایک اور بم گرائے گا۔ پیٹرول اور ڈیزل مہنگا ہو گا تو سب کچھ مہنگا ہو جائے گا۔ بجلی بھی مزید مہنگی ہو گی۔ ایک طرف بجلی کو مہنگا کر دیا گیا دوسری طرف اس پر ٹیکسوں اور سرچارچ کی صورت میں اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کیلئے ناممکن بنا دیا کہ وہ بجلی کے بل ادا کر سکیں۔ کسی کو بجلی کے بل ادا کرنے کیلئے ادھار لینا پڑ رہا ہے تو کوئی اپنے گھر کا سامان یا زیور بیچ کر بل ادا کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی چوری اور حکومتی نااہلی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو عوام پر بوجھ ڈال کر پورا کیا جاتا ہے۔
اگر حکومت بجلی کی چوری اور نظام سے متعلق نقصانات کو کم کرنے پر توجہ دیتی تو عوام پر اتنا بوجھ نہ پڑتا۔ جو بجلی چوری کرتا ہے، جو بل ادا نہیں کرتا اور جتنا نقصان بجلی کی ترسیل کے نظام میں حکومتی نااہلی کی وجہ سے ہوتا ہے اس سب کا بوجھ عام صارف پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اوپر سے غریب عوام کو جب یہ پتا چلتا ہے کہ حکمراں اشرافیہ نہ بجلی کا بل دیتی ہے نہ اُنہیں اپنی جیب سے پیٹرول بھروانا پڑتا ہے، اُن کی تو گیس بھی فری، گاڑیاں بھی سرکاری، پیٹرول بھی سرکاری تو اس سے لوگوں کے غم و غصہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ سرکاری دفتروں میں بجلی کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے جس کا بوجھ بھی عوام پر پڑتا ہے۔ بجلی کے محکمہ کے ملازمین کو بھی مفت بجلی دی جاتی ہے اور اس کا خرچ بھی عام صارف پر ڈالا جاتا ہے۔ لوگوں کا صبر جواب دے رہا ہے۔ اب یہ سلسلہ مزید ایسے نہیں چل سکتا کیوں کہ عوام بجلی کے بل ادا کریں گے تو باقی اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔ 
Tumblr media
ایک سیکورٹی گارڈ جس کی تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے ہے اُس کا بل تیس ہزار روپے آیا۔ اب وہ بچارا کیا کرے۔ ایک ماہ اگر وہ کسی نہ کسی طرح ادھار لے کر یا کسی دوسرے ذریعے سے یہ بل ادا بھی کر دے تو اگلے مہینے کیا ہو گا اور یہ ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں افراد کا المیہ ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ چند دنوں میں پیٹرول مزید مہنگا ہونے سے موجودہ احتجاج میں مزید اضافہ ہو گا۔ ملک کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو کچھ بنیادی فیصلہ کرنا پڑیں گے۔ بجلی کے شعبے کی نااہلی اور اشرافیہ کی عیاشیوں کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ گورننس اور معیشت کی بہتری کیلئے تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنا ہو گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ معاملات ایسے ہی چلتے رہیں اور قوم آئندہ سال ہونے والے انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی حکومت کا انتظار کرتی رہے۔ گورننس ٹھیک کرنے کا مطلب کھربوں کا نقصان کرنے والے اداروں کو درست کرنا ہے، عوام کے پیسے پر عیاشیاں کرنے والوں کی عیاشیاں ختم کرنا ہے جس کا فائدہ عوام کو ہو گا، غریب کو اس پیسے سے ریلیف ملے گا۔ 
سیاسی جماعتیں ان معاملات پر سیاست کرنے کی بجائے مل کر پاکستان کے معاشی اور انتظامی امور کی بہتری کیلئے حل تجویز کریں۔ یہ صورتحال اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی فوری توجہ کی متقاضی ہے کیوں کہ موجودہ سیٹ اپ کو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی جوڑتے ہیں۔ بغیر وقت ضائع کئے ہمیں اپنے معاشی اور انتظامی شعبوں کی خامیوں کو دور کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا کیوں کہ ہر دن اہم ہے اور اگر ہم آئندہ الیکشن اور اس کے نتیجے میں آنے والی حکومت کا ہی انتظار کرتے رہے تو پھر نقصان بہت زیادہ ہو سکتا ہے اور اس نقصان کا سب سے بڑا نشانہ عوام اور پاکستان ہو گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
risingpakistan · 11 months ago
Text
پاکستانی دوسری بار کیوں ہجرت کر رہے ہیں ؟
Tumblr media
اس برس کے پہلے دو ماہ میں پی آئی اے کے تین فضائی میزبان کینیڈا پہنچ کے غائب ہو گئے۔ ان میں سے دو پچھلے ہفتے ہی ’سلپ‘ ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ برس پی آئی اے کے سات فضائی میزبان پاکستان سے ٹورنٹو کی پرواز پر گئے مگر واپس نہیں لوٹے۔ یہ سلسلہ 2018 کے بعد سے بالخصوص بڑھ گیا ہے۔ پی آئی اے کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ جب سے اس ادارے کی نج کاری کا فیصلہ ہوا ہے ہر کوئی مسلسل بے یقینی کے سبب اپنے معاشی مستقبل سے پریشان ہے۔ اگر بس میں ہو تو آدھے ملازم ملک چھوڑ دیں۔ تین ماہ پہلے گیلپ پاکستان کے ایک سروے میں یہ رجہان سامنے آیا کہ 94 فیصد پاکستانی ملک سے جانا چاہتے ہیں۔ 56 فیصد معاشی تنگی کے سبب، 24 فیصد امن و امان اور جان و مال کے خوف سے اور 14 فیصد مستقبل سے مایوس ہو کے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ اگر گیلپ سروے کے نتائج کی صحت پر ��پ میں سے بہت سوں کو یقین نہ آئے تو آپ خود اپنے اردگرد متوسط اور نیم متوسط خاندانوں کو کرید کر دیکھ لیں۔ ان میں سے کتنے ہر حال میں یہاں رہنا چاہتے یا پھر چاہتے ہیں کہ کم ازکم ان کے بچے کہیں اور اپنا مستقبل ڈھونڈیں ؟
کیا ستم ظریفی ہے کہ 76 برس پہلے جس پیڑھی نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی آس میں گھر بار چھوڑا یا نہیں بھی چھوڑا۔ آج اسی پیڑھی کی تیسری اور چوتھی نسل بھی ایک محفوظ اور آسودہ زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ جو لوگ ماحولیاتی تبدیلیوں، اقتصادی و روزگاری بحران یا امن و امان کی ابتری کے باوجود بیرونِ ملک نہیں جا سکتے وہ اندرونِ ملک بڑے شہروں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں یا کم ازکم اس بارے میں سوچتے ضرور ہیں۔ سٹیٹ بینک کے اپنے آنکڑوں کے مطابق 2018 تک ترقی کی شرحِ نمو ڈیڑھ فیصد سالانہ تک رہے گی جبکہ آبادی بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دو فیصد سالانہ ہے۔ گویا معاشی ترقی کی شرح آبادی بڑھنے کی شرح یعنی دو فیصد کے برابر بھی ہو جائے تب بھی معیشت کی بڑھوتری کی شرح صفر رہے گی۔ اس تناظر میں مجھ جیسوں کو ایسی خبریں سن سن کے کوئی حیرت نہیں کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو کے مطابق پچھلے پانچ برس میں لگ بھگ 28 لاکھ پاکستانی قانونی ذرائع سے بیرونِ ملک چلے گئے۔
Tumblr media
اس تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں جو اوورسیز ایمپلائمنٹ بیورو میں رجسٹر ہوئے بغیر ملازمتی یا تعلیمی مقصد کے لیے براہِ راست بیرون ملک چلے گئے اور وہ لاکھوں بھی شامل نہیں جو جان جوکھوں میں ڈال کر غیر قانونی راستوں سے جا رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی ملا لیا جائے تو پچھلے پانچ برس میں چالیس سے پچاس لاکھ کے درمیان پاکستانیوں نے ملک چھوڑا۔ نقل مکانی کرنے والے صرف متوسط، نیم متوسط یا غریب طبقات ہی نہیں۔ فیصلہ ساز اشرافیہ کو بھی اس ملک کے روشن مستقبل پر یقین نہیں ہے۔ چند برس پہلے عدالتِ عظمی نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ہدایت کی کہ ان بیوروکریٹس کی فہرست مرتب کی جائے جن کی دوہری شہریت ہے۔ اس کے بعد کوئی خبر نہ آئی کہ اس ہدایت پر کتنا عمل ہوا۔ البتہ اسلام آباد میں یہ تاثر ہر طبقے میں پایا جاتا ہے کہ بہت کم سیاستدان، حساس و نیم حساس و غیر حساس اداروں کے افسر، جرنیل، جج اور سہولت کار ہیں جن کی دوہری شہریت نہ ہو یا بیرونِ ملک رہائش کا بندوبست، سرمایہ کاری یا بینک اکاؤنٹ نہ ہو یا کم ازکم ان کے اہلِ خانہ بیرونِ ملک مقیم نہ ہوں۔
کئی ’ریٹائرینِ کرام‘ کی تو پنشنیں بھی ڈالرز میں ادا ہوتی ہیں حالانکہ ان کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے اور بہتوں کے پاس تو جتنا اللہ نے دیا اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ اور کروڑوں سے وہ بھی چھن رہا ہے جو اوپر والے نے انھیں دیا ہو گا۔ اور پھر یہی بندوبستی اشرافیہ عوام کو سادگی، اسلامی و مشرقی اقدار، نظریہِ پاکستان، ایمان، اتحاد، یقینِ محکم، قربانی اور اچھے دن آنے والے ہیں کا منجن بھی بیچتی ہے اور ان کا مستقبل بھی بار بار بیچتی ہے۔ میرے ہمسائے ماسٹر برکت علی کے بقول ’انگریز میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ ایک بار لوٹ مار کر کے واپس جو گیا تو پھر اپنی شکل نہیں دکھائی‘ ۔ ایسے میں اگر محکوم اپنی زمین چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں تو انھیں کیوں الزام دیں۔ ویسے بھی ان کے پاؤں تلے زمین کھسک ہی رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک جو کروڑوں نارسا ہاتھ کسی امیدِ موہوم کے آسرے پر ووٹ دیتے تھے، اب ان کے پاؤں ووٹ دے رہے ہیں۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نہیں ( جون ایلیا )
صرف گذشتہ برس آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانیوں نے بیرونِ ملک نقل مکانی کی۔ یہ تعداد 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ان میں آٹھ ہزار آٹھ سو انجینیرز، مالیاتی شعبوں سے وابستہ سات ہزار چار سو افراد ، ساڑھے تین ہزار ڈاکٹر اور لگ بھگ ڈیڑھ ہزار اساتذہ، تین لاکھ پندرہ ہزار دیگر ہنرمند، چھیاسی ہزار نیم ہنرمند اور چار لاکھ سے کچھ کم غیر ہنرمند مزدور شامل ہیں۔
 وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
emergingpakistan · 1 year ago
Text
بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ
Tumblr media
بنگلہ دیش میں سیاسی حالات خاصے خراب ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ حسینہ واجد کی حکومتی پالیسی اور طوالت ہے، وہ گزشتہ پندرہ سال سے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم چلی آرہی ہیں حزب اختلاف کی تمام سیاسی پارٹیاں مل کر بھی لاکھ احتجاج کے باوجود انھیں ان کے منصب سے نہیں ہٹا سکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسینہ واجد کو حزب اختلاف کی جانب سے ابھی تک کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ کبھی فوج بنگلہ دیشی حکومتوں کو گرا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا کرتی تھی۔ بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل ضیا الرحمان اور جنرل حسین محمد ارشاد پچھلی حکومتوں کا تختہ پلٹ کر خود حکومت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ بنگلہ دیش کی حزب اختلاف پارٹیاں حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف متحرک ہو چکی ہیں، بنگلہ دیشی عوام میں حزب اختلاف کو بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں سات جنوری کو ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں کافی ہلچل مچی ہوئی ہے تمام سیاسی پارٹیوں نے حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا ہے، یہ صورت حال حسینہ واجد کے لیے کافی پریشان کن ہے اور وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں، بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن اور انتظامیہ حسینہ واجد کا دم بھر رہے ہیں اس طرح ��زب اختلاف کے نزدیک اس الیکشن سے کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔
حسینہ واجد کو پھر سے اقتدار میں رکھا جانا ہے۔ حزب اختلاف یہ تماشا دیکھ کر الیکشن سے دست بردار ہو چکی ہے یعنی کہ اس نے الیکشن لڑنے سے خود کو روک لیا ہے، اب اس طرح بنگلہ دیشی جمہوریت مکمل ڈکٹیٹر شپ میں تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ اب حسینہ واجد ہی الیکشن میں تنہا امیدوار ہیں اور وہ اس طرح بلا مقابلہ الیکشن جیت جائیں گی لیکن یہ کوئی الیکشن نہیں کہلائے گا، بلکہ سلیکشن ہی ہو گا۔ ادھر بنگلہ دیشی حزب اختلاف کی پارٹیاں اب صرف حسینہ واجد یا عوامی لیگ پر برہم نہیں ہیں بلکہ وہ بھارتی پالیسی کے خلاف ہیں۔ عوام بھی حزب اختلاف کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ بنگلہ دیشی عوام نے اپنی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے 1971 میں مجیب الرحمن کا ساتھ دیا تھا مگر اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اب بھی ان کے دلوں میں پاکستان کی محبت زندہ ہے وہ اس لیے کہ 1970 میں ہونے والے پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں انھوں نے اپنی محرومیوں کو دور کرنے اور پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے اپنا مینڈیٹ دیا تھا، پاکستان کو توڑنے کے لیے ہرگز مینڈیٹ نہیں دیا تھا مگر ان کے حق رائے دہی کا مجیب الرحمن نے غلط استعمال کیا اور پاکستان کی وحدت کو قائم رکھنے کے بجائے دولخت کر دیا تھا۔
Tumblr media
حقیقت یہ ہے کہ اگر مشرقی اور مغربی بازو میں ہزاروں میل کے فاصلے حائل نہ ہوتے، اگر فاصلے بھی حائل رہتے بھی مگر بھارت جیسا دشمن ملک بیچ میں نہ ہوتا تو مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے دنیا کا کوئی ملک علیحدہ نہیں کر سکتا تھا۔ ملک کے دولخت ہونے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی الزام دیا جاسکتا ہے مگر سیاسی قیادت کو بھی علیحدگی کی ذمے داری سے الگ نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کے نامور بزرگ صحافی کلدیپ نیّر نے ڈھاکا جا کر شیخ مجیب الرحمن سے ایک انٹرویو کیا تھا، اس میں انھوں نے ان سے بھٹو کے بارے میں بھی سوال کیا تھا کہ کیا بھٹو بھی مشرقی اور مغربی پاکستان کو علیحدہ کرنا چاہتے تھے تو مجیب الرحمن نے انھیں بتایا تھا کہ جن دنوں وہ پاکستان کی حراست میں تھے ان سے بھٹو خود ملنے کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ پاکستان کی سالمیت کو برقرار رکھیں اور کوئی ایسا فارمولا بنا لیں کہ آپ کو مشرقی پاکستان میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری مل جائے اور اس طرح وہاں کے عوام کا احساس محرومی کم ہو سکے۔ اس پر مجیب نے کہا تھا کہ وہ اس وقت اس سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کرسکتے وہ وہاں جا کر حالات دیکھیں گے اور اس کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کر سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھٹو کو مختلف حربوں کے ذریعے بدنام اور عوام میں غیر مقبول بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور بالآخر انھیں ان کی ہی پارٹی کے ایک لیڈر کے باپ کے قتل کی پاداش میں پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔ اب ان کی موت کو جوڈیشل قتل قرار دے کر اس کا مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے مگر دیکھیے کیا فیصلہ آتا ہے۔ اگر پاکستان کو توڑنے میں کسی کا ہاتھ تھا وہ شیخ مجیب الرحمن اور اس کے انتہا پسند ٹولے کا تھا۔ تاج الدین اور کمال الدین جیسے انتہا پسندوں نے مجیب کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ مجیب الرحمن کی پاکستان سے غداری اگرتلہ واقعے جسے اگرتلہ سازش کا نام دیا گیا تھا سے ہی ثابت ہو گئی تھی مگر ایوب خان نے کوئی خاص ایکشن نہیں لیا تھا۔ آزاد بنگلہ دیش بنانے کے منصوبے پر دراصل 1962 سے ہی کام شروع ہو چکا تھا اور ایک طرف بھارتی حکومت سے اس سلسلے میں مدد لینے کی درخواست کی گئی تھی تو دوسری جانب مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ باسو کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا۔ 
دونوں نے مل کر گریٹر بنگال بنانے کا اظہار کیا تھا اس طرح دونوں بنگال کو ملا کر ایک آزاد خودمختار بنگلہ دیش بنانے کے لیے تعاون کرنے کے وعدے کیے گئے تھے البتہ مغربی بنگال کو مشرقی بنگال سے ملانے کے منصوبے کو مخفی رکھا گیا تھا تاکہ بھارت سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لیے ضروری مدد لی جائے پھر مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد دوسرے مرحلے میں مغربی بنگال کو اس میں شامل کر دیا جائے۔ ہوا یہ کہ بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش تو بن گیا مگر بھارت نے مغربی بنگال کو بنگلہ دیش میں شامل نہ ہونے دیا۔
عثمان دموہی 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
cryptoking009 · 2 years ago
Text
چیتنیہ پوری میں آوارہ کتو ں کے حملہ کا ایک اور واقعہ - Siasat Daily
کمسن بچہ شدید زخمی ، شہر کے دیگر علاقوں میں بھی آوارہ کتوں کے جھنڈ سے عوام پریشان حالحیدرآباد ۔ 22فبروری ( سیاست نیوز) شہر میں آورہ کتوں کے حملہ کا ایک اور واقعہ پیش آیا ۔ چیتنیہ پوری پولیس حدود میں ایک کمسن بچہ آوارہ کتوں کے حملہ میں شدید زخمی ہوگیا ۔ عنبرپیٹ میں کمسن بچے کی ہلاکت کا واقعہ ابھی تازہ ہی تھا کہ اس واقعہ سے شہریوں میں خوف و دہشت پیدا ہوگئی اور شہریوں نے سابق واقعات کی یاد تازہ کرتے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
762175 · 2 years ago
Text
#Itlay مہنگائی سے پریشان عوام کے لئے اچھی خبر
پاکستان میں مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے تاہم ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں مہنگائی کا دور ختم ہونے جارہا ہے۔ بات ہورہی ہے اٹلی کی جہاں اگلے ماہ سے مہنگائی کم ہونا شروع ہوجائے گی اور عوام کو بڑا ریلیف ملنے لگے گا۔ گزشتہ برس دنیا بھر میں آئی مہنگائی کی لہر نے کم وبیش تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا تاہم اب کچھ ممالک نے عمدہ حکمت عملی سے نہ صرف اس پر قابو پایا بلکہ اب عوام کو ریلیف بھی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
umeednews · 3 years ago
Text
حکمران ٹولے کی عوام دشمن پالیسیوں کے سنگین مضمرات پریشان کن ہیں،شہبازشریف
حکمران ٹولے کی عوام دشمن پالیسیوں کے سنگین مضمرات پریشان کن ہیں،شہبازشریف
لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کمران ٹولے کی بڑھتی ہوئی عوام دشمن اور بے حسی پر مبنی پالیسیوں کے سنگین مضمرات انتہائی پریشان کن ہیں۔ اپنی ٹوئٹ میں شہباز شریف نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت اپنی نااہلی کے نتیجے میں مسلسل مایوسی وانتشار پھیلا کر ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان رشتے کو کمزور کررہی ہے۔ یہ بہت ہی خطرناک صورتحال ہے اور حکمران ٹولے کی بڑھتی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes