#عبید اللہ بیگ
Explore tagged Tumblr posts
Text
عبید اللہ بیگ پیدائش 1 اکتوبر
عبید اللہ بیگ پیدائش 1 اکتوبر
عبید اللہ بیگ ، پاکستان کے صوبے سندھ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک معروف دانشور، اردو ادیب، ناول نگار اور کالم نگار تھے۔ آپ 1936ء میں پیدا ہوئے، اپنے خاندان کے ہمراہ بھارت کے علاقے رام پور سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ عبید اللہ بیگ نے 1970ء کی دہائی میں افتخار عارف اور بعد ازاں 1990ء کی دہائی میں غازی صلاح الدین کے ہمراہ پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور پروگرام “کسوٹی“…
View On WordPress
0 notes
Text
ناصر زیدی : حق گوئی ہی ہے جرم اگر، تو یہ بھی بھاری مجرم ہیں
یُوں تو ہم عصری کا اطلاق ہمارے اردگرد کے بے شمار لوگوں پر ہوتا ہے مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا لڑکپن اور فنی کیرئیر کم و بیش ساتھ ساتھ گزرتا ہے اور یوں آپ انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے اور اپنے ساتھ ساتھ بڑھتا اور سنورتا دیکھتے ہیں۔ ناصر زیدی کا شمار بھی ایسے ہی دوستوں اور ہم عصروں میں ہوتا تھا۔ اسکول کے زمانے میں وہ عطاء ا لحق قاسمی کا ہم جماعت تھا اور دونوں کے دوستانہ تعلقات میں اس زمانہ کا لڑکپن بڑھاپے تک قائم رہا، عطا اُسے پُھسپھسا اور وہ ا ُسے مولوی زادہ کہہ کر بلاتا تھا ۔ دونوں ہی بندہ ضایع ہو جائے پر جملہ ضایع نہ ہو کے قائل تھے سو اُن کی موجودگی میں کسی محفل کا سنجیدہ یا بے رنگ رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اسّی کی دہائی میں ایم اے او کالج کے شعبہ اُردو میں ناصر اپنے مخصوص بیگ اور دراز زلفوں کے ساتھ مسکراتا ہوا میرے اور عطا کے مشترکہ کمرے میں داخل ہوا اور ایک کتاب میز پر رکھتے ہوئے بولا، ’’اوئے مولوی زادے دیکھ میری کتاب کا دوسرا ایڈیشن آگیا ہے ‘‘
عطا نے پلکیں جھپکائے بغیر کہا۔’’پہلا کدھر گیا ہے؟‘‘ اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس جملے کا سب سے زیادہ مزا خود ناصر زیدی نے لیا اور اسی حوالے سے بھارتی مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا وہ مشہور جملہ بھی دہرایا کہ ’’جو صاحب اس کتاب کے دوسرے ایڈیشن کی ایک کاپی خریدیں گے انھیں پہلے ایڈیشن کی دو کاپیاں مفت پیش کی جائیں گی‘‘۔ اندرون ملک مشاعروں اور ادبی تقریبات کے حوالے سے ہم نے بے شمار سفر ایک ساتھ کیے ہیں ۔ اس کی نہ صرف آواز اچھی تھی بلکہ ریڈیو کی ٹریننگ نے اُسے اور نکھار دیا تھا اس پر اُس کی یادداشت اور ذوقِ مطالعہ نے مل کر اُسے ریڈیو، ٹی وی اور دیگر مشاعروں کا مستقل میزبان بنا دیا تھا ۔ جزوی نوعیت کی ملازمتوں سے قطع نظر وہ سار ی عمر تقریباً فری لانسر رہا اور غالباً سب سے زیادہ عرصہ اُس نے ماہنامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت میں گزارا ۔ اتفاق سے وفات کے وقت بھی ایک بار پھر وہ اُسی رسالے سے منسلک تھا۔
صدیقہ جاوید کی وفات کے باعث رسالے کے مالی معاملات اُس کی ذاتی صحت اور گھریلو مسائل کی دیرینہ پیچیدگیوں نے اُس کی صحت پر بہت بُرا اثر ڈالا تھا جس کا اثر اس کی نقل و حرکت اور طبیعت کی شگفتگی پر بھی پڑا تھا کہ گزشتہ چند ملاقاتوں میں وہ پہلے جیسا ناصر زیدی نہیں رہا تھا ۔ جہاں تک کلاسیکی شاعری اور اشعار کی اصل شکل اور صحت کا تعلق ہے اُس کا مطالعہ بہت اچھا تھا اور اس سلسلے میں وہ اکثر اپنے ’’مستند‘‘ ہونے کا اظہار بھی کرتا تھا اور یہ اُسے سجتا بھی تھا کہ فی زمانہ ’’تحقیق‘‘ کی طرف لوگوں کا رجحان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ۔ ضیاء الحق کے زمانے میں وہ کچھ عرصہ سرکاری تقریریں لکھنے کے شعبے سے بھی منسلک رہا جس پر بعد میں اُسے تنقید کا بھی سامنا رہا خصوصاً اسلام آباد ہوٹل میں روزانہ شام کو احمد فراز کی محفل میں اس حوالے سے ایسی جملہ بازی ہوتی تھی کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ جہاں تک اُس کا شاعری کا تعلق ہے وہ اپنی اٹھان کے زمانے کے ہم عصروں سرمد سہبائی ، عدیم ہاشمی، اقبال ساجد، ثروت حسین، جمال احسانی ، غلام محمد ناصر، خالد احمد، نجیب احمد، عبید اللہ علیم، نصیر ترابی اور دیگر کئی نئی غزل کے علمبرداروں کے مقابلے میں اُسی روائت سے جڑا رہا جو کلاسیکی اساتذہ اور اُن کے رنگ میں رنگی ہوئی نسل کے شعرا میں زیادہ مقبول تھی اس کی ایک غزل اور ایک سلام کے چند اشعار دیکھئے۔
جذبات سرد ہو گئے طوفان تھم گئے اے دورِ ہجر اب کے ترے ساتھ ہم گئے
کچھ اس ادا سے اُس نے بُلایا تھا بزم میں جانا نہ چاہتے تھے مگر پھر بھی ہم گئے
مہلت نہ دی اجل نے فراعینِ دِقت کو قسطوں میں جی رہے تھے مگر ایک دم گئے
وہ ساتھ تھا تو سارا زمانہ تھا زیرِ پا وہ کیا گیا کہ اپنے بھی جاہ و حشم گئے
ہر چند ایک ہُو کا سمندر تھا درمیاں مقتل میں پھر بھی جانِ جہاں صرف ہم گئے
ناصرؔ نہیں ہے مجھ کو شکستِ انا کا غم خوش ہُوں کسی کی آنکھ کے آنسو تو تھم گئے
مرثیے اور ��لام پر اُس نے کام بھی بہت کیا ہے اور لکھا بھی بہت ہے ایک سلام کے چند شعر دیکھئے
ذکر جو روز و شب حسینؔ کا ہے معجزہ یہ عجب حسینؔؓ کا ہے
دل میں جو بُغض پنج تن رکھّے وہ کہے بھی تو کب حسینؓ کا ہے
سرِ نیزہ بلند ہے جو سر با ادب ، باادب حسینؓ کا ہے
قلب و جاں پر فقط نہیں موقوف میرا جو کچھ ہے سب حسینؓ کا ہے
اسی دوران میں نقاد اور افسانہ نگار رشید مصباح اور شاعر افراسیاب کامل بھی اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے ہیں، رب کریم ان سب کی روحوں پر اپنا کرم فرمائے۔
امجد اسلام امجد
بشکریہ ایسکپریس نیوز
4 notes
·
View notes
Text
ظہیر الدین بابر کی کامیابی کا انتہائی دلچسپ واقعہ
آگرہ فتح کرنے کے بعد آگرہ کے قلعہ سے بہت بڑا خزانہ ملا تھا۔ اسی میں آٹھ متقال وزن کا وہ نہایت بیش قیمت الماس بھی شامل تھا جسے علاؤ الدین خلجی دکن سے لے کر آئے تھے۔ بابر کو آگرہ کا خزانہ پیش کیا گیا تو انہوں نے حکم دیا کہ اس میں سے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور دیگر مقامات مقدسہ کے علمائے کرام اور مستحقین کو اس میں سے حصہ روانہ کیا جائے۔ظہیر الدین بابر 6؍محرم 888ھ (14فروری 1483ء ) کو پیدا ہوئے۔ مفتی انتظام اللہ شہابی اکبر آبادی کے مطابق بابر کااصلی نام ظہیر الدین تھا لیکن انہیں ’’بابر‘‘ یعنی ’’شیر‘‘ کہتے تھے۔ خانی خان (نظام الملک) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بابر کا نام ’’مرزا محمد بابر ‘‘ تھا، جب انہوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد فرغانہ کی حکومت سنبھالی تو ’’ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ‘‘ کے لقب سے تخت نشین ہوئے۔بابر کے والد کا نام عمر شیخ مرزا اور والدہ کا نام قتلغ نگار خانم ہے۔ دائرۃ معارف اسلامیہ کے مطابق والدہ کا نام قتلوک نگار خانم ہے جبکہ خانی خان نے اسے مہر نگار خانم لکھا ہے۔ بابر کا سلسلۂ نسب والد کی جانب سے تیموری (چغتائی) سلطنت کے بانی امیر تیمور سے، پانچویں پشت میں جاملتا ہے۔ بابر کی والدہ چنگیز خان کی نسل سے تھیں۔ بابر کا سلسلۂ نسب، والدہ کی جانب سے، چنگیز خان سے پندرھویں پشت میں جاکر ملتا ہے۔بابر کے والد عمر شیخ مرزا سے قبل چغتائیوں (امیر تیمور کی نسل) اور منگولوں (چنگیز خان کی نسل) کے درمیان طویل عرصے سے کشاکش چلی آرہی تھی لیکن بابر کے دادا (امیر تیمور کے پرپوتے ابو سعید مرزا نے اس کشاکش کا خاتمہ کرکے باہمی روابط کے نئے دور کی بناڈالی۔ انہوں نے چغتائی خاندان کے فرماں روا یونس خان (جو تاشقند پر حکومت کررہے تھے) کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ دونوں خاندانوں نے دیرینہ عداوتوں اور رنجشوں کو بھلادیا۔ یہاں تک کہ یونس خان نے اپنی تین بیٹیوں ک�� شادیاں ابو سعید مرزا کے تین بیٹوں سے کردیں۔ ان تین بیٹوں میں سے ایک عمر شیخ مرزا تھے جن کی شادی قتلغ نگار خانم (مہر نگار خانم) سے ہوئی۔ انہی خاتون نے بابر نام کے اس بچے کو جنم دیا جس نے بڑے ہوکر برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کی بناء ڈالی۔بابر اس لحاظ سے بڑے خوش قسمت تھے کہ والد اور والدہ دونوں کی طرف سے انہیں بھرپور علمی سرپرستی میسر آئی تھی۔ والد عمر شیخ مرزا بھی اپنے آباء و اجداد اور خاندان کے دیگر بزرگوں، امیر تیمور، الغ بیگ، شاہ رخ کی طرح علم دوست انسان تھے۔ خود بابر نے اپنے والد کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’وہ پانچوں وقت کی نماز پڑھتے تھے، بیشتر وقت قرآن پاک کا مطالعہ کرتے تھے۔ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار ؒ (اس دور کے ایک بہت بڑے بزرگ) ان کو اپنا فرزند کہا کرتے تھے۔ خمسین (خمسۂ نظامی) اور خمسۂ خسرو) مثنوی (مثنوی جلال الدینؒ رومی) اور تاریخ کی کتابیں ان کے مطالعہ میں رہتی تھیں۔‘‘بابر کی والدہ قتلغ نگار خانم بھی ایک ذہین اور قابل خاتون تھیں۔ بابر کے والد عمر شیخ مرزا نے ان سے شادی اسی وجہ سے کی تھی کہ قتلغ نگار خانم کے والد یونس خان ایک باکمال اور ذی علم انسان تھے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بابر، والد اور والدہ دونوں جانب سے ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بابر کی تعلیم و تربیت پر ابتداء ہی سے خاص توجہ دی گئی۔ خود بابر بھی بے حد ذہین اور زیرک انسان تھے۔ ان کے بچپن سے جوانی تک جن اساتذہ نے ان کو خصوصی تربیت دی، ان میں شیخ فرید بیگ، بابا قلی علی خدائی بیری بیگ او ر خواجہ مولانا قاضی عبداللہ شامل تھے۔بابر کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم، شیخ سعدیؒکی گلستان بوستان، فردوسی کی شاہ نامہ، نظامی اور خسرو کے خمسے، مولانا شرف الدین علی یزدیؒ کی ظفر نامہ اور ابو عمر منہاج الجوز جانی کی طبقات ناصری کی کتب ان کے مطالعہ میں رہیں۔ بابر کی مادری زبان ترکی تھی لیکن انہوں نے عربی اور فارسی کی بھی مکمل تعلیم حاصل کی۔ بابر نے ہوش سنبھالا تو سمرقند، فرغانہ، خراسان اور خصوصاً ہرات، علوم و فنون کے بے مثال مراکز بن چکے تھے۔ اس علمی فضاء میں بابر کو تعلیم و تربیت کے بہترین مواقع میسر آئے۔ پانچ برس کی عمر میں انہیں سمرقند بھیج دیا گیا تھا جہاں وہ 6برس تک زیر تعلیم رہے۔اس زمانے میں مولانا عبدالرحمن جامیؒ بھی بقیدحیات تھے۔ گوکہ جب بابر نے حکومت سنبھالی تو مولانا جامیؒ وفات پاچکے تھے۔ یقین ہے کہ بابر نے مولانا جامیؒ کے علم سے بھرپور استفادہ کیا ہوگا کیونکہ اپنی تزک میں بابر نے مولانا جامی ؒ کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا ہے۔بابر، شیخ الاسلام سیف الدین احمدؒ سے بھی بہت متاثر تھے جو شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ بابر کے الفاظ میں : ’’وہ بڑے پرہیزگار عالم تھے۔ ستر برس تک انہوں نے جماعت کی نماز ایک بار بھی ترک نہیں کی۔ ’’بابر، ملا شیخ حسن ‘‘ کے علم کلام کے بھی معترف تھے اور میر جمال الدینؒ محدث کے بھی بڑے قدردان تھے۔ ان کے بارے میں بابر نے لکھا : ’’خراسان میں علم حدیث کا جاننے والا ��ن جیسا کوئی نہ تھا۔‘‘ عربی ادب میں بابر، میر عطاء اللہ مشہدی کو پسند کرتے تھے اور علم فقہ میں قاضی اختیارؒ کو ستائش کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ اس تذکرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بابر ایک وسیع المطالعہ اور ذی علم انسان تھے اور علم کے تمام اہم شعبوں سے انہیں گہری دلچسپی تھی۔بابر کو شعر و سخن سے بھی دلی لگاؤ تھا۔ انہوں نے اپنے دور کے بہت بڑے شاعر اور ماہر علم و فن علی شیر نوائی کی خدمات اور علمی کارناموں پر جو تبصرہ کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ہم عصروں کی جانب سے کئے گئے علمی کام پر ان کی کتنی گہری نظر تھی۔ بابر نے دیگر کئی شعراء کے فن پر بھی تبصرے کئے ہیں۔ جس سے بابر کے مطالعہ کی وسعت اور تجزیہ کی غیر معمولی صلاحیت کا پتا چلتا ہے۔دریائے جہلم کے کنارہ واقع شہر بھیرہ سے فوجی دستے گذر رہے تھے۔ کئی میل تک دریا کے کنارے پھیلی ہوئی پہاڑیوں کے دامن میں واقع شہر ہزاروں گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونچ رہا تھا۔ ان گھوڑوں پر اسلحہ بردار چاق و چوبند فوجی سوار تھے۔ شہر والے اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھوں میں خوف کے سائے رقصان تھے کہ پتا نہیں کہ حملہ آور لشکر ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ وہ دروازوں کی جھریوں سے جھانک جھانک کر گزرنے والی فوج کو سہمی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔لشکر کے وسط میں سپہ سالار کی شاندار سواری تھی۔ سپہ سالار مضبوط اور توانا بدن اور اوسط قد کا حامل ایک خوش شکل جوان تھا۔ ان کے چہرے اور انداز و اطوار سے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ ایک شائستہ، بامروت اور نرم خو لیکن پر عزم انسان ہے۔اچانک شہر کے ایک حصے سے کچھ چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ کچھ لوگ فریاد کررہے تھے۔ ان کی آوازوں میں لٹ جانے کا نوحہ تھا۔ بے بسی کا اظہار تھا۔ سپہ سالار نے فوراً حکم دیا کہ اس ہنگامے کا سبب معلوم کیا جائے۔بہت جلد سپہ سالار کو مطلع کیا گیا کہ ان کی فوج کے ایک حصے نے شہریوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔سپہ سالار کے خوب صورت چہرے پر طیش کے آثار نمودار ہوگئے۔ انہوں نے فوراً ان تمام سپاہیوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا جنہوں نے شہریوں کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ کچھ ہی دیر میں تمام ’’ملزمان‘‘ حاضر کردیئے گئے۔ سپہ سالار نے ان تمام سپاہیوں سے پوچھ گچھ کی۔ انہوں نے شہریوں کے ساتھ زیادتیوں کا اقرار کرلیا۔سپہ سالار نے حکم دیا کہ فلاں فلاں سپاہیوں کو سزائے موت دے دی جائے اور فلاں فلاں کی ناکیں کٹوادی جائیں اور ان فیصلوں کی پورے شہر اور فوج میں اچھی طرح تشہیر کردی جائے۔ تشہیر کا حکم اس لئے دیا گیا کہ آئندہ فوج کے کسی اعلیٰ ترین افسر کو بھی رعایا کے کسی فرد یا اپنے محکوم و مفتوح ��ہریوں یا دیہاتیوں سے کسی طرح کی زیادتی کی جرأت نہ ہوسکے۔یہ سپہ سالار تھے، برصغیر پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کے بانی عظیم حکمران ظہیر الدین بابر جو نہ صرف ایک اچھے سپہ سالار تھے بلکہ ایک ذی علم شخصیت، اچھے شاعر، خطاط اور علم و فن کے بڑے قدر دان بھی تھے۔بابر کے والد فرغانہ اور اندیجان پر حکمراں تھے۔ 889ھ (1494ء) میں وہ ایک حاد��ہ کا شکار ہو کر وفات پاگئے۔ ان کی وفات کے بعد بابر نے رمضان المبارک 899ھ (جون 1494ء) میں امراء کی تائید سے فرغانہ کی حکومت سنبھالی۔ اس وقت ان کی عمر صرف 12 برس تھی۔ نو عمر حکمران کے لئے یہ وقت بڑا کٹھن تھا کیونکہ اقتدار کے دعویدار بہت سے تھے۔ بابر کے ماموں سلطان محمود مرزا نے حصار کے علاقے سے اور چچا سلطان احمد مرزا نے سمرقند سے فوجی پیش قدمی کردی۔ بابر اندیجان چلے گئے کچھ دنوں بعد فریقین میں چند شرائط پر صلح ہوگئی۔ ربیع الاول 903ھ (نومبر 1497ء) تک بابر نے اپنے مخالفین پر قابو پاکر سمرقند پر بھی قبضہ کرلیا تاہم اپنے صدر مقام اندیجان میں سازش کے باعث انہیں سمرقند چھوڑنا پڑا۔ وہ اندیجان گئے اور سازش کا خاتمہ کیا۔905ھ (1499ء) میں بابر نے فرغانہ کو اپنے اور بھائی جہانگیر مرزا کے درمیان تقسیم کرلیا۔ اسی سال بابر نے شادی کی۔ اگلے سال بابر نے سمر قند پھر فتح کرلیا جس پر ازبک حکمراں شیبانی خان نے قبضہ کرلیا تھا لیکن شیبائی خان نے رمضان 906ھ (مارچ، اپریل 1501ء میں بابر کو شکست دی۔ سامان رسد کی کمی کی وجہ سے بابر کو سمرقند چھوڑنا پڑا۔یہ بڑے جاں گسل لمحا ت تھے کیونکہ بابر کے لئے اب کہیں جائے پناہ نہ تھی۔ بابر اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ سخ اور ہشیار کے خانہ بدوشوں کے پاس پناہ گزیں رہے۔ آخر بابر نے فیصلہ کیا کہ انہیں کسی ایسے علاقے کا رخ کرنا چاہئے جس میں ازبک حکمرانوں کو دلچسپی نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے کابل کا رخ کیا۔ کابل جاتے ہوئے انہوں نے بدخشاں پر قبضہ کیا۔ کابل پر الغ بیگ مرزا (بابر کے چچا) کے ایک داماد محمد مقیم کی حکومت تھی، بابر کی آمد پر وہ قلعہ بند ہوگئے لیکن چند دن میں ہتھیار ڈال دیئے۔ بابر نے اس شہر کی حکومت سنبھالنے کے بعد شہر کو بڑی ترقی دی۔ یہاں باغات لگوائے، تعمیرات کروائیں اور نظم و نسق پر توجہ دی۔911ھ (1505ء) میں بابر کی والدہ قتلغ نگار خانم کا انتقال ہوگیا۔ اسی زمانے میں بابر نے ازبکوں کے خلاف حسین بایقرا کی مدد کی۔ 912ھ (1506ء) میں بابر نے قندھار کا قلعہ فتح کیا پھر وہ خراسان کی مہم کے لئے تیاریاں کرنے لگے۔ ان ہی دنوں 913ھ (1507ء) میں بابر کے بیٹے ہمایوں کی ولادت ہوئی۔ ادھر شیبانی خان نے فارس کی صفوی حکومت کے بادشاہ اسمٰعیل صفوی کی سرحدوں پر چڑھائی کردی۔ اسمٰعیل صفوی نے جوابی کارروائی کی۔ ہرات کو تسخیر کرلیا۔ اسی زمانے میں بابر نے بدخشاں پر دوبارہ فوج کشی کی جہاں ازبک قابض ہوگئے تھے۔ بدخشاں فتح کرنے کے بعد بابر نے حصار، قندز اور بقلات پر قبضہ کیا اور پھر بخارا پر بھی تیموری پرچم لہرادیا۔ اس اثناء میں شیبانی خان نے قندھار پر بھی قبضہ کرلیا لیکن رمضان المبارک 916ھ (دسمبر 1510ء) میں شیبانی خان، مرو کے مقام پر شاہ اسمٰعیل صفوی کی فوجوں سے لڑتے ہوئے جاں بحق ہوگئے۔اس کے بعد بابر نے رجب 917ھ (اکتوبر 1511ء) میں سمر قند پر قبضہ کرلیا، تاہم چونکہ شاہ اسمٰعیل صفوی نے ان کی مدد کی تھی، اس لئے بابر نے چاہا کہ ان کی فوج کی وردی بھی شاہ اسمٰعیل صفوی کی فوج کی وردی جیسی ہوجائے۔ اس تبدیلی کو سمرقند کے امراء نے پسند نہیں کیا۔ بابر کو صفر 918ھ (م��ی 1512ء) میں ازبکوں سے ایک لڑائی میں شکست بھی کھانے پڑی۔ وہ کابل واپس چلے آئے۔اسی زمانے میں برصغیر (پاک و ہند) سے خبریں آنے لگیں کہ ہند کے فرماں روا سکندر لودھی کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کی جگہ ابراہیم لودھی کی حکومت قائم ہوگئی ہے اور امراء کے درمیان آئے دن جھگڑے ہورہے ہیں۔ بابر خود بھی 922ھ (1516ء) میں اٹک تک یلغار کی اور پنجاب کی سرحد پر کھکروں (گکھڑوں) اور دیگر مخالفین کی خبر لی۔ واضح رہے کہ قبل ازیں اس جانب کے کئی علاقے امیر تیمور نے فتح کئے تھے اور انہیں اپنی سلطنت میں شامل کرلیا تھا۔ بابر نے ان علاقوں کا نظم و نسق درست کیا۔دوسری بار بابر نے لاہور، ملتان اور سرہند تک پیش قدمی کی۔ ایک قلعہ اور کئی عمارتیں بنوائیں لیکن کابل سے تشویش انگیز اطلاعات موصول ہونے پر وہ واپس چلے گئے۔ تیسری بار بابر 626ھ (1520ء) میں سرہند تک بڑھتے چلے گئے لیکن قندھار کے بگڑے ہوئے معاملات کی وجہ سے انہیں واپس جانا پڑا۔ Read the full article
0 notes
Text
مصباح الحق کا بیٹا بھی کرکٹربننے میں کامیاب
New Post has been published on https://khouj.com/pakistan/98023/
مصباح الحق کا بیٹا بھی کرکٹربننے میں کامیاب
سابق کپتان مصباح الحق کے بیٹے فہام الحق 13 سال سے کم عمر کھلاڑیوں کے کیمپ کا حصہ بننے میں کامیاب ہوگئے۔
پی سی بی نے 13 سال سے کم عمر کرکٹرز کے لیے 2 ہفتوں کا کوچنگ کیمپ شروع کرنے کا فیصلہ کیاہے، جس کے لیے 28 کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ کیمپ کا آغاز 14 جنوری سے نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں ہوگا، باسط علی کی سربراہی میں قومی جونیئر سلیکشن کمیٹی نے ان کھلاڑیوں کا چناؤ پی سی بی انڈر 13 انٹرریجنل ٹورنامنٹ کے بہترین پرفارمرز میں سےکیاہے۔
جن کھلاڑیوں کو کوچنگ کیمپ میں مدعوکیا گیا ہے ان میں اسپنرز کو حافظ ساجد اکبراور محتشم رشید ٹریننگ دیں گے، فیلڈنگ ڈرلز کی پریکٹس بلال احمد اور عبدالمجید کو سونپی گئی ہے، فاسٹ بولرز کو ساجد شاہ ٹپس دیں گے۔ مدثر نذر اور علی ضیا بلے بازوں کی خامیوں کو دور کرنے میں مدد دیں گے۔
مدعو کردہ کرکٹرز میں شاہ زیب خان ایبٹ آباد، اسد عبداللہ بہاولپور، شاہد علی، طلحہ شاکر، مزمل علی ڈیرہ مراد جمالی، شاہود انجم، قمر عباس، محمد اریب فیصل آباد، اویس آفریدی، حسبن اللہ فاٹا، نور حبیب حیدر آباد، سعد بیگ ��راچی، عبید شاہد، فہام الحق، شہباز جاوید، ذوہیب خان، محمد عثمان، محمد سلمان لاہور، شاہزیب علی لاڑکانہ، حسیب ناظم، عبدال ہادی ہارون ملتان، احمد حسین پشاور، محمداذان مہدی، محمد ارشد ارشاد احمد، محمد ابراہیم سلطان راولپنڈی، نعمان علی اور ذین علی سیالکوٹ شامل ہیں۔
0 notes
Photo
مصباح الحق کے بیٹے فہام الحق کم عمر کھلاڑیوں کے کیمپ کا حصہ بننے میں کامیاب لاہور: سابق کپتان مصباح الحق کے بیٹے فہام الحق 13 سال سے کم عمر کھلاڑیوں کے کیمپ کا حصہ بننے میں کامیاب ہوگئے۔ پی سی بی نے 13 سال سے کم عمر کرکٹرز کے لیے 2 ہفتوں کا کوچنگ کیمپ شروع کرنے کا فیصلہ کیاہے، جس کے لیے 28 کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔ کیمپ کا آغاز 14 جنوری سے نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں ہوگا، باسط علی کی سربراہی میں قومی جونیئر سلیکشن کمیٹی نے ان کھلاڑیوں کا چناؤ پی سی بی انڈر 13 انٹرریجنل ٹورنامنٹ کے بہترین پرفارمرز میں سےکیاہے۔ جن کھلاڑیوں کو کوچنگ کیمپ میں مدعوکیا گیا ہے ان میں اسپنرز کو حافظ ساجد اکبراور محتشم رشید ٹریننگ دیں گے، فیلڈنگ ڈرلز کی پریکٹس بلال احمد اور عبدالمجید کو سونپی گئی ہے، فاسٹ بولرز کو ساجد شاہ ٹپس دیں گے۔ مدثر نذر اور علی ضیا بلے بازوں کی خامیوں کو دور کرنے میں مدد دیں گے۔ مدعو کردہ کرکٹرز میں شاہ زیب خان ایبٹ آباد، اسد عبداللہ بہاولپور، شاہد علی، طلحہ شاکر، مزمل علی ڈیرہ مراد جمالی، شاہود انجم، قمر عباس، محمد اریب فیصل آباد، اویس آفریدی، حسبن اللہ فاٹا، نور حبیب حیدر آباد، سعد بیگ کراچی، عبید شاہد، فہام الحق، شہباز جاوید، ذوہیب خان، محمد عثمان، محمد سلمان لاہور، شاہزیب علی لاڑکانہ، حسیب ناظم، عبدال ہادی ہارون ملتان، احمد حسین پشاور، محمداذان مہدی، محمد ارشد ارشاد احمد، محمد ابراہیم سلطان راولپنڈی، نعمان علی اور ذین علی سیالکوٹ شامل ہیں۔
0 notes
Text
دریائے سندھ ڈیلٹا کیا ہے؟
دریا، تغیر اور ثبات کی ایک حقیقت ہے اور یہ دونوں سچائیاں بہتے پانی میں تحلیل ہو کر لمبا سفر طے کرتی ہوئی بالآخر سمندر کی آغوش میں سو جاتی ہیں لیکن دریا کے بہتے پانی کے ہر قطرے کے ساتھ ریت اور مٹی کے ننھے ننھے ذرات بھی رفیق سفر ہوتے ہیں جو کنارے پر ہی ٹھہر کر اپنے بعد آنے والے ساتھی پانی کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ ان کے اکٹھے ہونے سے وجود پانے والی چیز کو ہی ہم ’’ڈیلٹا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ننھے ننھے ریت و مٹی کے ذرے جنہوں نے اپنے وجود سے دریائے سندھ کے کھو جانے والے پانیوں کی یادمیں انڈس ڈیلٹا قائم کیا تھا اور ہزاروں برس سے سمندر سے اپنے ساتھیوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے کرتے اتنے تھک چکے ہیں کہ خود سمندر کی گود میں میٹھی نیند سو رہے ہیں اور دریائے سندھ کی عظیم الشان یادگار انڈس ڈیلٹا پر انسانی زندگی رفتہ رفتہ سمندر کی ہیبت سے مرعوب ہو کر کوچ کر رہی ہے، سمندر آگے اور آگے بڑھتا چلا آرہا ہے، زندگی پیچھے اور پیچھے ہٹتی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھ کی ہتھیلی اور انگلیوں کی شکل والے ڈیلٹا میں سے سترہ کھاڑیاں نکلتی تھیں یہ کھاڑیاں کراچی سے لے کر زیریں سندھ کی ساحلی پٹی تک پھیلی ہوئی تھیں اور ڈیلٹا کی حدود پاکستان میں کراچی سے لے کر بھارتی سرحد رن آف کچھ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ انڈس ڈیلٹا کے علاقوں میں متعدد میٹھے پانی کی جھیلیں بھی موجود تھیں۔ دریائے سندھ کے مون سون سیزن کے دوران یہ جھیلیں پانی سے بھر جاتی تھیں جہاں نہ صرف مقامی پرندے بلکہ موسم سرما کے دوران ہجرت کر کے آنے والے پرندوں سارس، کونج، پلیکن مرغابی اور کئی اقسام کے آبی پرندے یہاں ٹھہرتے تھے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ ڈیلٹا کے علاقے میں میٹھے پانی کی گیارہ جھیلیں تھیں ان جھیلوں میں کاجری، جھم، کاٹھوڑ، تل، وسن، کلمکان چھانی، تلی، سیر، چوبتی ماور اور کڑمک جھیلیں بھی شامل ہیں لیکن ��مندر کے آگے بڑھ آنے سے یہ تمام جھیلیں آج کھارے پانی کے بڑے بڑے تالابوں کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔
انڈس ڈیلٹا کے خطے میں پیداوار کی شرح سندھ بھر میں سب سے زیادہ تھی اور یہ اضافی پیداوار سندھ کی بندرگاہوں سے مسقط، دوار کا، عدن گومتی اور خلیج فارس کی بندرگاہوں کو برآمد کی جاتی تھی۔ دریائے سندھ کے ڈیلٹا پر کیے جانے والے مطالعے اور ��جزئیے ایک ایسے سنگین قومی معاملے کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی اور تلخیص کرتے ہیں جو آگے چل کر اور بھی سنگین ہو سکتا ہے۔ حالات کے پیش نظر ڈیلٹا کے علاقے کی پہلے ہی سے تشویش ناک صورتحال اور یہاں سے قدرتی ماحول اور دیہی معیشت کی بہتری کے لیے بہت ہی اہم اور ہنگامی اقدامات انتہائی لازمی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ مطالعاتی جائزوں اور ان سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی روشنی میں حالات کی بہتری کے لیے بعض اہم سفارشات بھی تجویز کی گئی ہیں۔ انڈس ڈیلٹا میں ایسے ایسے مقامات اور موضوعات بکھرے پڑے ہیں جن پر اگر باقاعدہ تحقیق کی جائے تو تاریخ کے کئی نظریات باطل اور کئی نئی نئی باتیں سامنے آجائیں گی۔ انڈس ڈیلٹا کو جہاں سمندر کے آگے بڑھنے سے مسلسل خطرہ ہے وہیں یہ آثار قدیمہ بھی اپنی ان کہی کہانیوں کے ساتھ پانی کی تہہ میں ڈوب کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا ہم ان کی اہمیت کے پیش نظر انہیں بچانے کے لیے سنجیدہ کوششوں پر غور کر سکتے ہیں۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق پروڈیوسر معروف ادیب و محقق اور سینکڑوں دستاویزی فلموں کے خالق عبید اللہ بیگ نے برسوں پہلے انڈس ڈیلٹا پر چار مختلف دستاویزی فلمیں بھی تیارکی تھیں جو پی ٹی وی سے نشر ہو چکی ہیں۔ آج انڈس ڈیلٹا کی حالت ہماری سنجیدہ توجہ کی متقاضی ہے انڈس ڈیلٹا بقا کے خطرے سے دو چار ہے اس کی سترہ کی سترہ کھاڑیاں کھارے پانی سے بھر چکی ہیں اور خود اس کا مجموعی رقبہ بھی اب کم ہو کر صرف دس فی صد ہی رہ گیا ہے اگرچہ نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا اس وقت قلت آب کے مسئلے سے دو چار ہے لیکن انڈس ڈیلٹا کے مسائل کے ساتھ ساتھ اس کا بقا ہمارے شاندار ماضی کی روایتوں کی امین اور ہماری پہچان ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنے اس طرز عمل پر غور کرنا چاہیے۔ ڈیلٹا ہمارا مشترکہ قومی ورثہ ہے۔ اسے بچانے کے لیے قربانیاں اور وسائل بھی ہمیں مشترکہ طور پر فراہم کرنے پڑیں گے۔
شیخ نوید اسلم
0 notes
Text
دریائے سندھ ڈیلٹا کیا ہے؟
دریا، تغیر اور ثبات کی ایک حقیقت ہے اور یہ دونوں سچائیاں بہتے پانی میں تحلیل ہو کر لمبا سفر طے کرتی ہوئی بالآخر سمندر کی آغوش میں سو جاتی ہیں لیکن دریا کے بہتے پانی کے ہر قطرے کے ساتھ ریت اور مٹی کے ننھے ننھے ذرات بھی رفیق سفر ہوتے ہیں جو کنارے پر ہی ٹھہر کر اپنے بعد آنے والے ساتھی پانی کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ ان کے اکٹھے ہونے سے وجود پانے والی چیز کو ہی ہم ’’ڈیلٹا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ننھے ننھے ریت و مٹی کے ذرے جنہوں نے اپنے وجود سے دریائے سندھ کے کھو جانے والے پانیوں کی یادمیں انڈس ڈیلٹا قائم کیا تھا اور ہزاروں برس سے سمندر سے اپنے ساتھیوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے کرتے اتنے تھک چکے ہیں کہ خود سمندر کی گود میں میٹھی نیند سو رہے ہیں اور دریائے سندھ کی عظیم الشان یادگار انڈس ڈیلٹا پر انسانی زندگی رفتہ رفتہ سمندر کی ہیبت سے مرعوب ہو کر کوچ کر رہی ہے، سمندر آگے اور آگے بڑھتا چلا آرہا ہے، زندگی پیچھے اور پیچھے ہٹتی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھ کی ہتھیلی اور انگلیوں کی شکل والے ڈیلٹا میں سے سترہ کھاڑیاں نکلتی تھیں یہ کھاڑیاں کراچی سے لے کر زیریں سندھ کی ساحلی پٹی تک پھیلی ہوئی تھیں اور ڈیلٹا کی حدود پاکستان میں کراچی سے لے کر بھارتی سرحد رن آف کچھ تک پھیلی ہوئی تھیں۔ انڈس ڈیلٹا کے علاقوں میں متعدد میٹھے پانی کی جھیلیں بھی موجود تھیں۔ دریائے سندھ کے مون سون سیزن کے دوران یہ جھیلیں پانی سے بھر جاتی تھیں جہاں نہ صرف مقامی پرندے بلکہ موسم سرما کے دوران ہجرت کر کے آنے والے پرندوں سارس، کونج، پلیکن مرغابی اور کئی اقسام کے آبی پرندے یہاں ٹھہرتے تھے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ ڈیلٹا کے علاقے میں میٹھے پانی کی گیارہ جھیلیں تھیں ان جھیلوں میں کاجری، جھم، کاٹھوڑ، تل، وسن، کلمکان چھانی، تلی، سیر، چوبتی ماور اور کڑمک جھیلیں بھی شامل ہیں لیکن سمندر کے آگے بڑھ آنے سے یہ تمام جھیلیں آج کھارے پانی کے بڑے بڑے تالابوں کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔
انڈس ڈیلٹا کے خطے میں پیداوار کی شرح سندھ بھر میں سب سے زیادہ تھی اور یہ اضافی پیداوار سندھ کی بندرگاہوں سے مسقط، دوار کا، عدن گومتی اور خلیج فارس کی بندرگاہوں کو برآمد کی جاتی تھی۔ دریائے سندھ کے ڈیلٹا پر کیے جانے والے مطالعے اور تجزئیے ایک ایسے سنگین قومی معاملے کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی اور تلخیص کرتے ہیں جو آگے چل کر اور بھی سنگین ہو سکتا ہے۔ حالات کے پیش نظر ڈیلٹا کے علاقے کی پہلے ہی سے تشویش ناک صورتحال اور یہاں سے قدرتی ماحول اور دیہی معیشت کی بہتری کے لیے بہت ہی اہم اور ہنگامی اقدامات انتہائی لازمی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ مطالعاتی جائزوں اور ان سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کی روشنی میں حالات کی بہتری کے لیے بعض اہم سفارشات بھی تجویز کی گئی ہیں۔ انڈس ڈیلٹا میں ایسے ایسے مقامات اور موضوعات بکھرے پڑے ہیں جن پر اگر باقاعدہ تحقیق کی جائے تو تاریخ کے کئی نظریات باطل اور کئی نئی نئی باتیں سامنے آجائیں گی۔ انڈس ڈیلٹا کو جہاں سمندر کے آگے بڑھنے سے مسلسل خطرہ ہے وہیں یہ آثار قدیمہ بھی اپنی ان کہی کہانیوں کے ساتھ پانی کی تہہ میں ڈوب کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفحہ ہستی سے مٹتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا ہم ان کی اہمیت کے پیش نظر انہیں بچانے کے لیے سنجیدہ کوششوں پر غور کر سکتے ہیں۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق پروڈیوسر معروف ادیب و محقق اور سینکڑوں دستاویزی فلموں کے خالق عبید اللہ بیگ نے برسوں پہلے انڈس ڈیلٹا پر چار مختلف دستاویزی فلمیں بھی تیارکی تھیں جو پی ٹی وی سے نشر ہو چکی ہیں۔ آج انڈس ڈیلٹا کی حالت ہماری سنجیدہ توجہ کی متقاضی ہے انڈس ڈیلٹا بقا کے خطرے سے دو چار ہے اس کی سترہ کی سترہ کھاڑیاں کھارے پانی سے بھر چکی ہیں اور خود اس کا مجموعی رقبہ بھی اب کم ہو کر صرف دس فی صد ہی رہ گیا ہے اگرچہ نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا اس وقت قلت آب کے مسئلے سے دو چار ہے لیکن انڈس ڈیلٹا کے مسائل کے ساتھ ساتھ اس کا بقا ہمارے شاندار ماضی کی روایتوں کی امین اور ہماری پہچان ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنے اس طرز عمل پر غور کرنا چاہیے۔ ڈیلٹا ہمارا مشترکہ قومی ورثہ ہے۔ اسے بچانے کے لیے قربانیاں اور وسائل بھی ہمیں مشترکہ طور پر فراہم کرنے پڑیں گے۔
شیخ نوید اسلم
0 notes
Text
یو کے آئی ایم کے زیر اہتمام یورپین اسلامک سینٹر اولڈھم میں نارتھ زون یو کے آئی ایم ممبران کا تربیتی پروگرام-
یو کے اسلامک مشن کے زیرِ اہتمام یورپین اسلامک سینٹر اولڈھم میں نارتھ زون کا تربیہ پروگرام منعقد کیا گیا۔ جس کی صدارت نارتھ ویسٹ یو کے اسلامک مشن کے صدر ملک افضل نے کی۔جبکہ مہمان خصوصی سینئر نائب صدر یو کے آئی ایم میاں عبد الحق تھے۔ تقریب کا آغاز رب العزت کے پاک کلام سے امام و خطیب اعظم مولانا نوید شاہ نے کیا۔ جبک�� نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمران ظفر نے اپنی پیاری آواز میں حاضری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ان الفاظ کیساتھ لگائی۔
“ھزار ڈھونڈا تمام دیکھا” “کسی نے لیکن کہیں نہ پایا” “حسین تم سا آمین تم سا” “جمیل تم سا وسیم تم سا”
تقریب سٹیج سیکرٹری کے فرائض عاطف زیب نے بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دئیے۔ نارتھ ویسٹ زون میں یو کے آئی ایم کی 16 برانچز موجود ہیں۔ تمام برانچز کے ناظمین و امام و خطیب سمیت یو کے آئی ایم کے ممبران نے بھر پور شرکت کی۔ یو کے آئی ایم کے سینئر نائب صدر میاں عبد الحق،صدر نارتھ زون ملک افضل و علماء کرام کا کہنا تھا۔کہ زونل تربیتی پروگرام کو منعقد کرنے کا مطلب تحریک کے ممبران کا آپس میں روابط قائم کرنا،دینی اصلاح،ذمہ داران افراد سے انکی زمہ داری کی جواب طلبی،علماء کرام سے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت،برانچز کے ارد گرد تمام کمیونیٹیز سے روابط، اور کمیونیٹیز کے ساتھ مسلسل رابطے کرنا و دیگر پہلوؤں کو زیر غور لانا تھا۔ تربیتی پروگرام میں سنئیر رکن شوریٰ ضمیر احمد، علماء کرام ناظم نارتھ زون م��لانا عبد الحکیم،مولانا ظفر اقبال،مولانا نوید شاہ،مولانا ڈاکٹر عارف متین،مولانا عمر خطاب،مولانا عبید الرحمٰن،مولانا رحمت عزیز سالک،مولانا عبدالرشید، مولاناحافظ سلیم،مولانا حافظ آزاد و دیگر علماء کرام،ناظمین برانچز میں اشرف ضیاء،ناصر محمود،نسیم اشرف،حاجی بشیر احمد،اشتیاق احمد و دیگر کے علاؤہ محمد عارف،خالد محمود،عامر ضیاء،خالد چوہدری،رفیق طاہر،سرور بیگ و دیگر بڑی تعداد میں ممبران نے شرکت کی- اور اسپین سے آئے ھوئے سنئیر نائب صدر میاں عبد الحق کے بھائی میاں مشتاق، پاکستان سے آئے ھوئے سینئر صحافی و کالم نگار،بیورو چیف برطانیہ و یورپ و گجرات روزنامہ پاکستان مرزا نعیم الرحمان ،اٹلی سے آئے ہوئے محمد صدیق ودیگر افراد نے بھی شرکت کی۔ آخر میں تمام امت مسلمہ و انسانیت کی خیر و بھلائی و سلامتی کے لیے دعا کی گئ۔
نارتھ زون کا تربیہ پروگرام منعقد یو کے آئی ایم کے زیر اہتمام یورپین اسلامک سینٹر اولڈھم میں نارتھ زون یو کے آئی ایم ممبران کا تربیتی پروگرام- یو کے اسلامک مشن کے زیرِ اہتمام یورپین اسلامک سینٹر اولڈھم میں نارتھ زون کا تربیہ پروگرام منعقد کیا گیا۔ جس کی صدارت نارتھ ویسٹ یو کے اسلامک مشن کے صدر ملک افضل نے کی۔جبکہ مہمان خصوصی سینئر نائب صدر یو کے آئی ایم میاں عبد الحق تھے۔ تقریب کا آغاز رب العزت کے پاک کلام سے امام و خطیب اعظم مولانا نوید شاہ نے کیا۔ جبکہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمران ظفر نے اپنی پیاری آواز میں حاضری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں ان الفاظ کیساتھ لگائی۔ "ھزار ڈھونڈا تمام دیکھا" "کسی نے لیکن کہیں نہ پایا" "حسین تم سا آمین تم سا" "جمیل تم سا وسیم تم سا" تقریب سٹیج سیکرٹری کے فرائض عاطف زیب نے بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دئیے۔ نارتھ ویسٹ زون میں یو کے آئی ایم کی 16 برانچز موجود ہیں۔ تمام برانچز کے ناظمین و امام و خطیب سمیت یو کے آئی ایم کے ممبران نے بھر پور شرکت کی۔ یو کے آئی ایم کے سینئر نائب صدر میاں عبد الحق،صدر نارتھ زون ملک افضل و علماء کرام کا کہنا تھا۔کہ زونل تربیتی پروگرام کو منعقد کرنے کا مطلب تحریک کے ممبران کا آپس میں روابط قائم کرنا،دینی اصلاح،ذمہ داران افراد سے انکی زمہ داری کی جواب طلبی،علماء کرام سے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت،برانچز کے ارد گرد تمام کمیونیٹیز سے روابط، اور کمیونیٹیز کے ساتھ مسلسل رابطے کرنا و دیگر پہلوؤں کو زیر غور لانا تھا۔ تربیتی پروگرام میں سنئیر رکن شوریٰ ضمیر احمد، علماء کرام ناظم نارتھ زون مولانا عبد الحکیم،مولانا ظفر اقبال،مولانا نوید شاہ،مولانا ڈاکٹر عارف متین،مولانا عمر خطاب،مولانا عبید الرحمٰن،مولانا رحمت عزیز سالک،مولانا عبدالرشید، مولاناحافظ سلیم،مولانا حافظ آزاد و دیگر علماء کرام،ناظمین برانچز میں اشرف ضیاء،ناصر محمود،نسیم اشرف،حاجی بشیر احمد،اشتیاق احمد و دیگر کے علاؤہ محمد عارف،خالد محمود،عامر ضیاء،خالد چوہدری،رفیق طاہر،سرور بیگ و دیگر بڑی تعداد میں ممبران نے شرکت کی- اور اسپین سے آئے ھوئے سنئیر نائب صدر میاں عبد الحق کے بھائی میاں مشتاق، پاکستان سے آئے ھوئے سینئر صحافی و کالم نگار،بیورو چیف برطانیہ و یورپ و گجرات روزنامہ پاکستان مرزا نعیم الرحمان ،اٹلی سے آئے ہوئے محمد صدیق ودیگر افراد نے بھی شرکت کی۔ آخر میں تمام امت مسلمہ و انسانیت کی خیر و بھلائی و سلامتی کے لیے دعا کی گئ۔
0 notes
Photo
کراچی کا علمی بحران کسی بھی شہر کی شعوری سطح کا اندازہ اس کی بیٹھکوں میں ہونے والی گفتگو اور اس کے موضوعات سے ہوتا ہے۔ 80 کی دہائی میرے لڑکپن سے جوانی کے سفر کی دہائی تھی۔ میری پیدائش خیبر پختون خوا کے اس پسماندہ علاقے میں ہوئی تھی جہاں بجلی 2006ء میں آئی حالانکہ تربیلہ ڈیم اسی علاقے کی لاکھوں ایکڑ زمین ڈبو کر بنا ہے۔ وہاں پہلی بار سڑک بنانے کی کوشش 1985ء میں ہوئی جو جنرل فضل حق کی موت کے ساتھ ہی مر گئی۔ بالآخر مشرف دور میں یہ سڑک بنی وہ بھی گزارے لائق۔ سکول وہاں نوے کی دہائی میں بنے وہ بھی صرف پرائمری سطح کے اور غضب یہ کہ تعلیم ان سکولوں میں اب جا کر شروع ہوئی ہے۔ ہسپتال وہاں آج بھی نہیں ہے۔ 4 لاکھ کی آبادی کے لئے صرف تین ڈسپنسریاں ہیں۔ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم اس علاقے میں 1969ء میں پیدا ہونا بدقسمتی کے ہی زمرے میں آتا اگر میرے والد ہمیں لے کر کراچی مستقل نہ منتقل ہوگئے ہوتے۔ کراچی آ تو گئے لیکن والد صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک بچوں کو سکول بھیجنا گمراہی کے زمرے میں آتا تھا۔ تعلیم کے لئے مدرسہ ان کی پہلی ترجیح بھی تھا اور آخری بھی۔ میری ساری تعلیم مدرسے میں ہوئی، سکول کالج اور یونیورسٹی کبھی ایک دن کے لئے بھی بطور طالب علم نہیں گیا۔ اگر آپ غور کریں تو آج کی تاریخ میں میرا تعارف سیاسی، دفاعی اور سماجی ایشوز پر لکھنے والے رائٹر کا ہے اور یہ تینوں چیزیں مدارس کے نصاب سے تعلق نہیں رکھتیں۔ مجھ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں کوئی نامی گرامی شخص نہیں بلکہ ایک بہت ہی معمولی سا سڑک چھاپ انسان ہوں لیکن میرے لکھے کی جانب یونیورسٹیز کے اساتذہ اور طالب علم متوجہ بھی ہوتے ہیں اور اسے تعریف و تنقید کے مرحلے سے بھی گزارتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میری یہ تخلیق کب ہوئی ؟ کہاں ہوئی ؟ اور کس نے کی ؟ میری یہ تخلیق ستر اور 80 کی دہائی میں کراچی میں ہوئی اور یہ ��ن عظیم انسانوں نے کی جو 1947ء میں لٹ پٹ کر پاکستان آئے تھے۔ کراچی کے دوستو ! میں اس کراچی کا منظر آپ کے لئے کھینچ بھی ڈالوں مگر وہ دل و دماغ آپ کو کہاں سے لا کر دوں جو اس منظر پر غور کرکے کچھ سیکھ اورسمجھ سکے۔ کس قدر شاندار رہی ہوگی وہ معاشرت جس کے افراد کے ساتھ صرف نشست و برخاست سے ہی میں تخلیق ہوگیا، ذرا سوچئے اگر ان سے مجھے باقاعدہ پڑھنا بھی نصیب ہوا ہوتا تو ؟ میں نے سیک سیمینار سے ایک ماہ قبل محترم مبشر علی زیدی کو آگاہ کردیا تھا کہ میں سیک کے کراچی سیمینار سے خطاب کرنے سے انکار کر چکا ہوں۔ انہوں نے سبب پوچھا تو عرض کیا "اس شہر میں شعور کی وہ سطح نظر نہیں آتی جسے کسی سنجیدہ موضوع پر مخاطب کیا جا سکے" دل خون کے آنسو روتا ہے کہ جس شہر میں میری تخلیق ہوئی وہ اتنا پیچھے چلا گیا ہے کہ میں ہی اس سے مخاطب ہونے سے دامن بچاتا ہوں۔ میرا خدا گواہ ہے کہ انپڑھ لوگوں سے مخاطب ہو بھی سکتا ہوں اور انہیں کچھ سمجھا بھی سکتا ہوں۔ میں پشاور، اسلام آباد اور لاہور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ حلقے سے مخاطب ہو سکتا ہوں اور بے جھجک ان کے سامنے اپنے خیالات پیش کر سکتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جب میں ان سے مخاطب ہوں گا تو دو میں سے ایک بات ہر حال میں ہوگی۔ یا تو وہ مجھ سے کچھ سیکھ کر جائیں گے یا میں ہی ان سے یوں کچھ سیکھ جاؤں گا کہ وہ میرے کسی خیال کو علم اور دلیل کے ذریعے غلط ثابت کر دیں گے۔ لیکن کراچی ؟ کاش ! اے کاش کہ آج کا کراچی بھی ایسا ہوتا۔ تین ماہ میں کم از کم بھی 50 نشستیں ہوئی ہوں گی جن میں سے صرف تین نشستیں ایسی تھیں جہاں علم و فن زیر بحث آئے باقی تمام کی تمام مجالس خرافاتی موضوعات لئے ہوئے تھیں اور یہ موضوعات بھی اس لئے زیر بحث آئے کہ کھانا کھایا جا سکے۔ کراچی کی شنواری کڑاہی اور بہاری کبابوں والی نشست سے پنڈی کی صرف سبز چائے والی وہ نشست مجھے زیادہ مرغوب ہے جس میں بیٹھا نوجوان یا تو مجھ سے کچھ سیکھتا ہے یا مجھے کچھ سکھا کر اٹھتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کراچی کی مجالس سے علم کیوں اٹھ گیا ہے ؟ وہ مجلسیں اب کیوں نہیں جمتیں جن میں بیٹھ کر خیبر پختون خوا کے پسماندہ ترین علاقے سے آنے والا پختون بچہ شعور کی نسبت سے اپنا چھوٹا سا تعارف حاصل کر سکے ؟ یہ اس لئے ہوا کہ ستر اور 80 کے دہائی والے کراچی کے وہ بزرگ ہجرت کے وقت جائدادیں اور مال و اسباب تو پیچھے چھوڑ آئے تھے لیکن علی گڑھ کی تعلیم، لکھنو کی تہذیب اور دہلی کا قیل و قال ساتھ لائے تھے سو جو ان کی مجالس میں بیٹھتا وہ کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ سیکھ کر اٹھتا۔ وہ نسل قبروں میں جا سوئی اور اس کے بعد کی نسل نے اس الطاف حسین کا حقوقی جھجنا اٹھا لیا جس نے کراچی کا تعلیمی نظام تباہ و برباد کرکے رکھدیا۔ اسے بدقسمتی کی انتہاء نہیں تو کیا کہوں کہ جدید ہندوستان کا شاندار علمی و ��قافتی ورثہ اس قوم نے صرف اس لئے تباہ و برباد کر ڈالا کہ اس کی نئی نسل کو اس کے اپنوں نے "شناخت" کا سبز باغ دکھایا تو یہ اس کی طرف سوچے سمجھے بغیر دوڑ پڑی اور آج یہ سادہ دلانِ شہر کہتے ہیں "الطاف حسین نے ہمیں شناخت دلوائی" میں کہتا ہوں غور تو کیجئے کہ جس شناخت پر آپ اترا رہے ہیں وہ ہے کیا ؟ کبھی فوج کے حوالے سے آپ جنرل اسلم بیگ، جنرل جنرل غلام عمر، جنرل معین الدین حیدر اور بریگیڈئر اے آر صدیقی۔ عدلیہ کے حوالے سے جسٹس حمود الرحمن، جسٹس اجمل میاں، جسٹس محمد حلیم، جسٹس ناظم حسین صدیقی، جسٹس سعیدالزمان صدیقی، جسٹس وجیہ الدین احمد اور شریف الدین پیرزادہ۔ مذہبی میدان میں سید سلیمان ندوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مفتی محمد شفیع، مولانا شاہ احمد نورانی اور مفتی تقی عثمانی۔ خارجہ امور میں صاحبزادہ یعقوب خان، اکرام اللہ اور شہریار خان۔ وزارتِ خزانہ میں امتیاز عالم حنفی، سلیم رضا اور زاہد حسین۔ سماجی خدمات کے میدان میں عبدالستار ایدھی اور انصار برنی۔ دانشوروں میں حکیم سعید، ڈاکٹر جمیل جالبی، ارد شیر کاوس جی، قریش پور، عبید اللہ بیگ اور غازی صلاح الدین۔ شعر و نثر میں جوش ملیح آبادی، ناصر کاظمی، راغب مراد آبادی، انتظار حسین، رئیس امروہوی، جون ایلیا، افتخار عارف، مشتاق احمد یوسفی اور فاطمہ ثریا بجیا۔ فلم انڈسٹری میں محمد علی، زیبا علی اور ندیم۔ ٹی وی میں انور مقصود، طلعت حسین، شکیل، معین اختر اور قاضی واجد کے ناموں سے ملک گیر شناخت اور احترام رکھتے تھے، تب صرف ادب اور صحافت میں یہ عالم تھا کہ ملک کے سب سے مقبول پانچ ڈائجسٹ کراچی سے نکلتے تھے، اخبار جہاں نکلا تو اس کی ٹکر کا جریدہ پاکستان کے کسی اور شہر سے آج تک سامنے نہ آسکا، ہفت روزہ تکبیر کے سحر نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، روزنامہ جنگ کو کراچی کے ذوقِ مطالعہ کے سبب کراچی سٹیشن سے بدھ کے اخبار کے ساتھ مڈویک میگزین بھی جاری کرنا پڑا، اس ملک میں کسی بھی اخبار کا پہلا اسلامی صفحہ کراچی سے شروع ہوا۔ خالص ادبی جرائد میں بھی ملک کے سب سے مقبول جرائد کراچی کے تھے۔ شناخت کی اس شاندار عظمت سے آپ گرے تو پاتال کی گہرائی کا یہ حال ہے کہ آج فاروق دادا، فہیم کمانڈو، اجمل پہاڑی، جاوید لنگڑا، صولت مرزا، فیصل موٹا، طاہر لمبا، عبید کے ٹو، زبیر چریا، کاشف کیکڑا، اسلم مادھوری اور انور کن کٹا آپ کی شناخت ہیں۔ تعلیم، تہذیب اور شائستگی کی جگہ ٹارگٹ کلنگ، اغوا اور بھتہ "شناخت" بن جائے تو یہ سانحوں سے بڑا سانحہ اور قیامت سے بڑی قیامت ہی قرار پا سکتا ہے۔ ہلاکو خان کو بغداد کا سارا قتل عام معاف کیا جا سکتا ہے لیکن لائبریریوں کو نذر آتش کرنا اور لاکھوں کتابیں دجلہ میں بہا دینا معاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کتاب انسان کے علمی سفر کا سٹیشن ہوتی ہے، ان سٹیشنوں کی بربادی اور ویرانی سفر کو متاثر کرتی ہے۔ کراچی پر بغداد جیسا سانحہ گزرا ہے لیکن اس کاریگری کے ساتھ کہ کتاب چھینی گئی اور نہ ہی لیاری ندی میں بہائی گئی بلکہ ایک پوری نسل کو کتاب سے دور کردیا گیا اور تعلیمی نظام کی فاتحہ پڑھ دی گئی۔ آپ نے میٹرک کے امتحانات کے دوران کراچی میں ہونے والی نقل تو ٹی وی سکرینوں پر دیکھ رکھی ہوگی اگر نہیں دیکھی تو اپریل آ رہا ہے چند روز بعد دیکھ لیں گے انشاءاللہ۔ نہ صرف یہ کہ ہر امتحانی سینٹر پر موبائل فون اور کتابوں کی مدد سے پیپر حل ہوتے ہیں بلکہ حد یہ ہے کہ اگر آپ انگوٹھا چھاپ ہیں لیکن میٹرک کی سند چاہتے ہیں اور وہ بھی ایک دم اصلی تو اپنا داخلہ جمع کرایئے اور 18 ہزار روپے کا انتظام کر لیجئے، آپ کی جگہ دوسرا شخص بیٹھ کر تمام پیپر دے آئے گا۔ یہی کچھ ایف اے، بی اے اور ایم اے سے ہوتے ہوئے پی ایچ ڈی کے داخلوں تک جا پہنچا ہے۔ غالبا 2005ء میں پندرہ بیس افراد کا ایسا ہی سکینڈل سامنے آیا تھا جس میں جعل سازی کے ذریعے ان افراد نے کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا تھا۔ 2011ء میں بھی پی ایچ ڈی میں داخلے کے لئے ہونے والے امتحان میں اصل امیدواروں کی جگہ دوسرے لوگ امتحان دیتے پکڑے گئے۔ سکول لیول کی تعلیم تباہ ہوئی تو اس کا نتیجہ کالجز کی سطح پر یہ نظر آ رہا ہے کہ کراچی کے کالجز میں طالب علم صرف داخلہ لیتا ہے تاکہ مستقبل میں کہہ سکے کہ فلاں کالج سے پڑھا ہوا ہے، پڑھائی کے لئے وہ روز کوچنگ سینٹر جاتا ہے اور ساتھ ہی ہفتہ دس دن میں ایک بار کالج جا کر شکل دکھا آتا ہے تاکہ سب کو یاد رہے کہ وہ بھی اس کالج کے طلبہ میں شمار ہوتا ہے۔ 2014ء میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن نے کراچی کے 8 کالجز کا الحاق ختم کردیا۔ ان کالجز کے تعلیمی معیار کا یہ حال تھا کہ بورڈ کے امتحانات میں ان کے نتائج 10 فیصد سے بھی کم تھے۔ یہاں ایک نظر کراچی کے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن پر ڈالنا بھی ضروری ہے۔ اس بورڈ کے سابق سربراہ انوار احمد زئی کے خلاف نیب میں 13 کروڑ کی کرپشن کا کیس چل رہا ہے۔ اسی بورڈ کے ناظم امتحانات عمران چشتی پر الزام ہے کہ وہ 40 ہزار روپے فی پیپر کے ریٹ پر طلبہ کے پیپر کلیئر کراتا رہا ہے۔ اس کیس میں انٹی کرپشن یونٹ 1200 امیدواروں کے امتحانی پیپرز اور ان کے نتائج کی تحقیقات کر رہا ہے۔ 2007ء میں ایک طالبہ نے پولیس کو درخواست دی کہ کامرس اینڈ آرٹس ڈگری کالج کورنگی کے پروفیسر صلاح الدین نے 2 لاکھ روپے رشوت لینے کے باوجود اس کا میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں کرایا۔ فروری 2015ء میں پروفیسر صاحب کو تو 7 سال قید ہوگئی لیکن بچی سے کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ نے جعل سازی و رشوت ستانی کی کوشش کیوں کی ؟ اب سوال یہ آجاتا ہے کہ سکول اور کالج ��یول پر موجود اس صورتحال کی اصلاح کی کوئی کوشش کیوں نہیں ہوتی ؟ تو جواب یہ ہے کہ ٹاپ لیول یعنی یونیورسٹی لیول پر کرپٹ لوگ جا بیٹھے ہیں۔ کراچی میں وفاقی اردو یونیورسٹی میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تعلیمی سکینڈل پکڑا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال، رجسٹرار فہیم الدین، ناظم امتحانات مسعود مشکوراور ڈائریکٹر فائنانس محمد علی چوہدری پر مشتمل گروہ نے بی کام، بی اے، ایم اے اور ایل ایل بی کی 600 سے زائد جعلی ڈگریاں جاری کی ہیں۔ اس گروہ نے لاہور میں غیر قانونی سب کیمپس قائم کرکے کروڑوں روپے کی کرپشن بھی کی ہے۔ جب نیب نے ڈاکٹر ظفر اقبال کو ملک سے فرار کی کوشش کے دوران گرفتار کر لیا تو ان کی جگہ نئے وائس چانسلر ڈاکٹر سلیمان ڈی آئے جنہوں نے آتے ہی میڈیا سے گفتگو کے دوران ڈاکٹر ظفر اقبال کی کرپشن اور جعلی ڈگریوں کے کار و بار پر سخت تنقید فرمائی لیکن جلد ہی ایچ ای سی نے انکشاف کردیا کہ موصوف کی اپنی ڈگری بھی جعلی ہے۔ صرف ایچ ای سی ہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی کراچی یونیورسٹی کو حکم دے چکی ہے کہ سلیمان ڈی کی ڈگری منسوخ کرکے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرا کر قانونی کار روائی کی جائے لیکن کراچی یونیورسٹی کے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر قیصر اس حکم نامے کو دبا کر بیٹھ گئے اور کوئی کارروائی نہیں کی۔ خود کراچی یونورسٹی کی صورتحال اتنی ابتر ہے کہ اس کے چار پروفیسرز ڈاکٹر شاہین خان، ڈاکٹر جلال الدین نوری، ڈاکٹر سلیمان ڈی اور ڈاکٹر شہناز غازی پر کئی برس سے علمی سرقے کا الزام چلا آ رہا ہے اور یہ الزام کمیٹی رپورٹ میں ثابت شدہ ہے۔ ایچ ای سی کئی برس سے ان کے خلاف بھی کار روائی کا کہہ کہہ کر تھک گئی لیکن کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ اکتوبر 2016ء میں ایف آئی اے سائبر کرائم یونٹ نے اس یونورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فرحان کریمی کو گرفتار کیا ہے۔ موصوف سائیکالوجی کے پروفیسر ہیں اور ان کی اپنی سائیکی کا یہ عالم ہے کہ ساتھی خاتون پروفیسر کا جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنا کر اس پر اس خاتون پروفیسر کی پرائیویٹ تصاویر اپلوڈ کردیں۔ کراچی یونیورسٹی کے حوالے سے یہ بات تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ وہ یہی عظیم یونیورسٹی ہے جس نے الطاف حسین اور رحمان ملک کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریوں سے نوازا۔ اسے کہتے ہیں جیسا خر ویسا سر۔ جیسی یونیورسٹی ویسے ہی اس کے ڈگری ہولڈر ! (جاری ہے)
0 notes
Text
عبید اللہ بیگ وفات 22 جون
عبید اللہ بیگ وفات 22 جون
عبید اللہ بیگ ، پاکستان کے صوبے سندھ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک معروف دانشور، اردو ادیب، ناول نگار اور کالم نگار تھے۔ آپ 1936ء میں پیدا ہوئے، اپنے خاندان کے ہمراہ بھارت کے علاقے رام پور سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ عبید اللہ بیگ نے 1970ء کی دہائی میں افتخار عارف اور بعد ازاں 1990ء کی دہائی میں غازی صلاح الدین کے ہمراہ پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور پروگرام “کسوٹی“…
View On WordPress
0 notes