Tumgik
#عالمی منڈی
googlynewstv · 4 months
Text
پٹرول اور ڈیزل 9روپے اور 5روپے سستا کیوں ہونے جارہا ہے؟
حکومت کی جانب سے عالمی منڈی میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات صارفین کو منتقل کرنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ شہباز حکومت نے سالانہ بجٹ میںٹیکسوں کا بھاری بوجھ ڈالنے کے بعد آئندہ پندرہ روز کیلئے عوام کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریلیف کی فراہمی پر غور شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق  15 جون کو قیمتوں جائزے میں پیٹرول تقریباً 9 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 5 روپے فی لیٹر کمی کی توقع…
youtube
View On WordPress
0 notes
mediazanewshd · 5 months
Link
0 notes
airnews-arngbad · 10 months
Text
 Regional Urdu Text Bulletin, Chatrapati Sambhajinagar
Date : 06 December 2023
Time : 09.00 to 09.10 AM
آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر
علاقائی خبریں
تاریخ  :  ۶ ؍ دسمبر  ۲۰۲۳؁ ء
وقت  :  صبح  ۹.۰۰   سے  ۹.۱۰   بجے
 
پہلے خاص خبروں کی سر خیاں  ... 
٭ 68؍ ویں مہا پری نِر وان دن کی موقعے پر بھارت رتن ڈاکٹر با با صاحیب امبیڈ کر کو آج پیش کیا جا ئے گا خراج تحسین 
٭ حکو مت آ پ کے در پر نامی یو جنا سے اب تک ایک کروڑ 84؍ لاکھ سے زیادہ شہر یان مستفید
٭ تر قی یافتہ بھارت سنکلپ یاترا میں مختلف سر کاری اسکیمات سے متعلق عوامی آگا ہی میں اضافہ
اور
٭ ہاکی جو نیئر مینس ورلڈ کپ میں بھارت کا فاتحا نہ آغاز
اب خبریں تفصیل سے...
ٌٌ بھارت رتن ڈاکٹر با با صاحیب امبیڈکر کے 67؍ ویں مہا پری نِر وان دن کے موقعے پر آج سنسد بھون کے احا طے میں با با صاحیب کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ اِس موقعے پر صدر جمہوریہ  درو پدی مُر مو  ‘ نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکھڑ‘ وزیر اعظم نریندر مودی  اور  دیگر معزز شخصیات  نے با با صاحیب امبیڈکر کے مجسمے کو گلہائے عقیدت پیش کیے۔
 وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے  ‘  نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑ نویس  نیز  اجیت پوار   اور  گور نر رمیش بئیں نے اب سے کچھ دیر قبل دادر میں واقع چیتہ بھومی پر بھارت رتن ڈاکٹر بابا صاحیب امبیڈکر کو خراج تحسین پیش کیا۔
با با صاحیب کو خراج تحسین پیش کر نے کے لیے اُن کے پیروکار  کثیر تعداد میں ممبئی کی چیتہ بھو می  پہنچ رہے ہیں ۔ اُن کی سہو لیات کے لیے انتظامیہ نے تمام لازمی انتظامات کر رکھے ہیں ۔
  چھتر پتی سنبھا جی نگر میں بھی مہا پری نِر وان دن کی منا سبت سے خون کا عطیہ کیمپ   اور طِبّی جانچ کیمپ  کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اِس دوران بھار ت رتن ڈاکٹر با با صاحیب امبیڈ کر کو خراج تحسین بھی پیش کیا جائے گا ۔
***** ***** ***** 
صنعت کاری میں اضا فہ  اور  مہاراشٹر کی تر قی کو پیش نظر رکھتے ہوئے  راستوں کے علاوہ دیگر سہو لیات بھی دستیاب کروائی جائیں گی ۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے یہ تیقن دیا ہے ۔وہ کل پر لی میں ’’  حکو مت آپ کےدر پر  ‘‘ نا می پروگرام کے دوران اظہار خیال کر رہے تھے ۔ اِس موقعے پر وزیر اعلیٰ نے بتا یا کہ اب تک  ایک کروڑ 84؍ لاکھ افراد’’حکو مت آپ کے در پر‘‘ نا می پروگرام سے استفا دہ کر چکے ہیں ۔ 
اِس تقریب میں نائب وزیر اعلیٰ دیویندر پھڑ نویس  نیز  اجیت پوار  ‘  بیڑ کے نگراں وزیر  دھننجئے منڈے  ‘ بی جے پی کی قو می سیکریٹری  پنکجا منڈے  ‘ رکن اسمبلی پر کاش سارُنکے ‘  رکن اسمبلی نمیتا مُندڑا  اور  ضلع کلکٹر  دیپا مُدھوڑ مُنڈے بھی موجود تھیں ۔
***** ***** ***** 
ریاست میں اسکو لوںکی کار کر دگی کے مطا بق در جہ بندی کرنا ضروری ہے ۔ گور نر رمیش بئیس نے یہ بات کہی ہے ۔وزیر اعلیٰ میرا  اسکول خوش نما اسکول  مہم کا آغاز کل گور نر   اور  وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ہاتھوں کیا گیا ۔ اِس موقعے پر گور نر اظہار خیال کررہے تھے ۔ اِس دوران اسکول گود لینےکی اسکیم  ‘  مطالعہ کا اُتسو  ‘  مہا راشٹر میں مطالعے کی تحریک  ‘ میر ا  اسکول میرا باغیچہ  اور  صفائی مانیٹر کا دوسرا مر حلہ وغیرہ پروگرامس کا بھی آغاز کیا گیا ۔
***** ***** ***** 
مرکزی وزیر برائے زراعت نریندر سنگھ تو مر نے کہا ہے کہ کسان آندو لن کے بعد تشکیل دی گئی کمیٹی کی سفارشات موصول ہونے کے بعد ہی   حکو مت زرعی پیدا وار کی کم از کم بنیادی قیمت کو قانو نی درجہ دینے کا فیصلہ کر سکتی ہے ۔ وہ کل لوک سبھا میں ایک سوال کا جواب دےرہے تھے ۔ ایک تحریری جواب میں جناب نریندر سنگھ تو مر نے بتا یا کہ عالمی سطح پر نا میا تی اور  قدرتی اشیاء کی منڈی میں بھارت ایک بڑی منڈی کے طور پر اُبھر کر سامنے آ یا ہے۔
***** ***** ***** ***** ***** ***** 
یہ خبریں آکاشوانی چھتر پتی سنبھا جی نگر سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** ***** ***** ***** ***** 
مرکزی وزیر  خزانہ  نِر ملا سیتا رمن نے بتا یا ہےکہ جان بو جھ کر قرض ادا  نہ  کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے ۔ وہ کل ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں سوال جواب کے وقفے میں مخاطب تھیں ۔ انھوں نے مزید بتا یا کہ اِس یکم دسمبر تک  مذکورہ کارروائی میں  تقریباً 15؍ ہزار 186؍ کروڑ  روپئے وصول کیے گئے ہیں ۔
مرکزی مملکتی وزیر خزا نہ  ڈاکٹر  بھاگوت کراڈ نےکل راجیہ سبھا کو بتا یا کہ گزشتہ 3؍ برسوں کے دوران  جیون جیو تی یو جنا سے 18؍ کروڑ  
50؍ لاکھ  71؍ ہزار شہر یان  اور  وزیر اعظم تحفظ بیما یو جنا  سے  41؍ کروڑ  59؍ لاکھ شہر یان مستفید ہوئے ہیں۔رکن پارلیمان سنجئے رائو ت نے اِس بارے میں سوال پو چھا تھا ۔ 
***** ***** ***** 
محکمہ صحت و خاندانی بہبود کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر  ڈاکٹر  وویکانند گیری نے  کل لاتور تعلقے کے چنڈیشور  اور  اَوسا تعلقے کی  ہاسے گائوں  واڈی میں تر قی یافتہ بھارت سنکلپ یاترا سے ملا قات کی ۔ اِس موقعے پر انھوں نے وزیر اعظم عوامی صحت اسکیم  اور  آیوشمان بھو یو جنا  کے تحت شہر یان کو دی جانے والی طبی سہو لیات اور  مختلف اسکیمات کا جائزہ لیا ۔ ساتھ ہی طِبی جانچ کے لیے آنے والے شہر یان سے تبادلہ خیال بھی کیا ۔
***** ***** ***** 
ترقی یافتہ بھارت سنکلپ یاترا کل جالنہ ضلعے کے عنبڑ تعلقے میں نادی کے مقام پر پہنچی ۔ اِس موقعے پر مقامی سر پنچ سنگیتا بار وال  ‘  گرام سیوک  وجئے جھِنے  اور  مقامی ساکنان نے یاتراکا پُر جوش استقبال کیا ۔ اِس موقعے پر تصویری رتھ کی مدد سے عوام کو سر کاری اسکیمات کی معلو مات دی گئی ۔ ساتھ ہی شعبہ صحت نے شہر یان کی طِبی جانچ کر کے موقعے پر ہی انھیں آیوشمان بھارت کارڈ جاری کیے ۔
***** ***** ***** 
چھتر پتی سنبھا جی نگر میں تر قی یافتہ بھارت سنکلپ یاترا کے دوران طِبی جانچ کی سہو لت کا کئی افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ایسی ہی ایک خاتون صائمہ پر وین نے اپنی رائے کا اظہار اِس طرح کیا ...
’’  میرا نام صائمہ پر وین ہے ۔ میں یہاں کٹ کٹ گیٹ میں رہتی ہوں۔ یہاں پر میں وِکست بھارت کیمپ میں آئی تھی ۔ یہاں پر میں نے ٹیسٹ کر وایا  او ر یہاں پر آ یوشمان کارڈ بھی بنوائے گئے ہیں ۔ اِسی لیے مجھے خوب آنند ہوا ۔ بہت سارے بینی فِٹس ملے ۔ اِسی لیے آپ سب سےگذارش ہے کہ آپ لوگ بھی یہاں آئیں۔ دھنیہ واد ‘‘
***** ***** ***** 
ملیشیاء میں کھیلے جا رہے  ایف  آئی  ایچ  ہاکی جونیئر ورلڈ کپ چیمپئن شپ کے سلامی مقابلےمیں کل بھارت نے جنوبی کوریا کو 2 - 4 ؍  سے شکست دے کر فاتحانہ آغاز کیا ۔ بھارتی کھلاڑی  اری جیت سنگھ ہندل نے  3؍  اور  امن دیپ نے ایک گول کیا ۔ بھارت کا اگلا مقابلہ کل اسپین سے ہوگا ۔
***** ***** ***** 
بھارتی خواتین کر کٹ ٹیم  انگلینڈ کے خلاف تینT-20؍ مقابلے  اور  ایک  ٹیسٹ میچ کھیلے گی ۔ T-20؍ سیریز کا پہلا مقابلہ  آج ممبئی کے وان کھیڑے اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا ۔  اِسی طرح ٹیسٹ میچ آئندہ 14؍  سے  17؍ دسمبر کے دوران کھیلا جائے گا ۔
***** ***** ***** 
ہائوسنگ کے وزیر اتُل ساونے کہا ہےکہ اگلے سال بھر  کے دوران مختلف ہائوسنگ اسکیمات کے تحت  تقریباً  ایک لاکھ کنبوں کو مکا نات دستیاب کر وائے جائیں  گے ۔وہ کل پو نا میں مہا ڈا ہائوسنگ کے کمپیو ٹرائزڈ لکی ڈرا میں اظہار خیال کر رہے تھے ۔اِس موقعے پر انھوں نے کہا کہ مہا ڈا کا آن لائن لکی ڈرا پور طرح شفاف ہے ۔جناب اتُل ساوے نے شہر یان سے افواہوں پر توجہ نہ دینے کی اپیل کی ہے ۔
***** ***** *****
مراٹھا سماج کو ریزر ویشن کے مطالبے کی تکمیل کے مقصد سے  ناندیڑ ضلعے میں آئندہ کل  اور  پرسو ں کے روز منو ج جرانگے پاٹل کے جلسۂ عام ہوں گے ۔ سکل مراٹھا سماج کی جانب سے کل ایک صحافتی کانفرنس میں یہ معلو مات دی گئی ۔ 
اِسی طرح  ہنگولی ضلعے کے دِگرس  کرہاڑے  موڑ پر بھی کل منوج جرانگے پاٹل کے جلسۂ عام کا انتظام کیا گیا ہے ۔
***** ***** ***** 
تحصیل دار  اور  نائب تحصیل دار نے  تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے پر کل پر بھنی ضلع کلکٹر دفتر کے سامنے ایک روزہ  رخصت  پرآندو لن کیا ۔اِس موقعے پر ضلع کلکٹر  اور  سب ڈویژنل افسران کو مطالباتی محضر بھی پیش کیا گیا ۔
***** ***** *****
پر بھنی ضلع کلکٹر  راگھو ناتھ گاوڈے نے  ضلعے کے صنعت کاروں سے کہا ہے کہ وہ مرکز  اور  ریاستی حکو مت کی متعدد اسکیمات کا فائدہ اٹھا کر اپنی صنعتوں کو فروغ دینے کی کوشش کریں ۔ وہ کل  اِگ نائٹ مہاراشٹر نامی ایک روزہ ورکشاپ میں اظہار خیال کررہےتھے۔ اِس موقعے پر ضلع صنعت مرکز کے منیجنگ ڈائریکٹر  امول بڑے نے بھی صنعت کاروں سے متعدد سرکاری شعبوں کی اسکیمات سے فائدہ اٹھانے کی اپیل کی ۔
***** ***** *****
آخر میں اہم خبروں کی سر خیاں ایک مرتبہ پھر سن لیجیے  ...
٭ 67؍ ویں مہا پری نِر وان دن کی موقعے پر بھارت رتن ڈاکٹر با با صاحیب امبیڈ کر کو آج پیش کیا جا ئے گا خراج تحسین 
٭ حکو مت آ پ کے در پر نامی یو جنا سے اب تک ایک کروڑ 84؍ لاکھ سے زیادہ شہر یان مستفید
٭ تر قی یافتہ بھارت سنکلپ یاترا میں مختلف سر کاری اسکیمات سے متعلق عوامی آگا ہی میں اضافہ
اور٭ ہاکی جو نیئر مینس ورلڈ کپ میں بھارت کا فاتحا نہ آغاز
علاقائی خبریں ختم ہوئیں
آپ یہ خبر نامہ ہمارے یو ٹیوب چینل آکاشوانی سماچار اورنگ آباد 
Aurangabad AIR News    پر دوبارہ کسی بھی وقت سن سکتے ہیں۔
٭٭٭
0 notes
urduchronicle · 11 months
Text
اسرائیل حماس تنازع بڑھنے کے خدشات پر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ
 اس رپورٹ کے بعد کہ امریکی فوج نے شام میں ایرانی اہداف پر حملہ کیا ہے جس سے اسرائیل اور حماس تنازعہ کے وسیع ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں، انہی خدشات پر جمعہ کو تیل کی قیمتوں میں $ 1 سے زیادہ کا اضافہ ہوا کیونکہ تنازع بڑھنے کی صورت میں سپلائی متاثر ہونے کا بھی خطرہ ہے۔  دسمبر کے لیے برینٹ کروڈ فیوچر 0638 GMT تک $1.32، یا 1.5% بڑھ کر $89.25 فی بیرل ہو گیا۔ یو ایس ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کا دسمبر کے لیے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری اضافہ کیسے؟
Tumblr media
پاکستان کو اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا ہے اس کی بڑی وجہ ملکی خزانے میں ڈالرز کی قلت ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے ڈالر کی ا سمگلنگ کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ اور بینکوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے۔ تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جن لوگوں نے معاشی غیر یقینی کی وجہ سے ڈالر خرید کر اپنے پاس جمع کئے ہوئے ہیں انہیں یہ ڈالر بینکوں میں جمع کروانے پر راغب کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں حکومت کو شہریوں سے اپیل کرنی چاہئے کہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے جو شہری ڈالر اپنے پاس رکھنے کی بجائے بینکوں میں جمع کروائیں گے انہیں اور ان کے سرمائے کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ یقین دہانی بھی کروائی جائے کہ جب بھی انہیں اپنے جمع کروائے گئے ڈالرز کی ضرورت ہو گی وہ انہیں فراہم کئے جائیں گے۔ برٹش پاؤنڈز، یورو، سعودی ریال اور اماراتی درہم سمیت دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے حوالے سے بھی پالیسی متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ اس طرح قومی خزانے یا زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری نمایاں اضافہ ہو جائے گا اور پاکستان کو غیر ملکی مالیاتی اداروں اور درآمدات کے حوالے سے ادائیگیوں میں درپیش مالیاتی دباؤ سے نجات مل جائے گی۔
اس سلسلے میں بینکوں کی جانب سے شہریوں کو غیر ملکی کرنسی میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے نرم شرائط پر ترجیحی سروسز فراہم کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں حکومت کو فوری پالیسی بنا کر اس کا اعلان کرنا چاہئے کہ آئندہ دس دن یا ایک مہینے کے اندر اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے شہریوں سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی کہ ان کے پاس یہ ڈالرز یا غیر ملکی کرنسی کب اور کہاں سے آئی ہے بلکہ انہیں مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے یہ پالیسی بھی بنائی جا سکتی ہے کہ کوئی شہری کتنی مالیت کی غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھ سکتا ہے تاکہ مقررہ مالیت سے زیادہ غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ اس سلسلے میں کم از کم پانچ ہزار ڈالرز یا اس کے مساوی غیر ملکی کرنسی کی حد مقرر کی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی شہری اپنی فوری ضرورت کیلئے اتنا فارن ایکسچینج اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس سے تسلسل کے ساتھ بیرون ملک سفر کرنے والے ایکسپورٹرز، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے والدین یا علاج کے لئے بیرون ملک جانے والے شہریوں کے اہلخانہ کو اپنی فوری ضرورت کے پیش نظر درکار غیر ملکی کرنسی مقررہ حد کے مطابق اپنے پاس رکھنے کا قانونی استحقاق حاصل ہو جائے گا اور حکومت کے پاس جمع زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی کوئی بڑا دباؤ نہیں پڑے گا۔ علاوہ ازیں اس اقدام سے فاریکس مارکیٹ میں جاری سٹے بازی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں آنے والے غیر معمولی اتار چڑھاؤ کا بھی تدارک کیا جا سکے گا۔
Tumblr media
اس طرح نہ عالمی سطح پر پاکستان کی مالیاتی ساکھ میں بہتری آئے گی، شہریوں کےبھی حکومت پراعتماد میں اضافہ ہو گا اور وہ بوقت ضرورت باآسانی بینکوں سے ڈالرز یا دیگر غیر ملکی کرنسی حاصل کر سکیں گے۔ یہ اقدام ملک میں مالیاتی نظم ونسق کو بہتر بنانے میں بھی معاون ہو گا اور لوگوں کو غیر ملکی کرنسی کیش میں بیرون ملک لیجانے یا بھیجنے سے نجات مل جائے گی اور وہ بینکنگ چینل کے ذریعے غیر ملکی کرنسی بیرون ملک بھجوا سکیں گے۔ اگر ملک کے مفاد میں وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو اس ایک اقدام سے ہی ملک کے بہت سے مسائل میں بہتری آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آنے سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہو گی جس سے پاکستان کو بیرون ملک سے خام مال اور دیگر اشیائے ضرورت درآمد کرنے پر کم زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ صرف ملک میں جاری مہنگائی کی بلند شرح کو نیچے لایا جا سکتا ہے بلکہ پاکستانی ایکسپورٹرز کو بھی برآمدات میں اضافے کے لئے سازگار ماحول میسر آئے گا اور وہ اپنی مصنوعات کی قیمت کم کرکے عالمی منڈی سے زیادہ برآمدی آرڈرز حاصل کر سکیں گے۔ علاوہ ازیں ڈالر کی قدر میں کمی سے پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی جس سے عام آدمی کو ریلیف میسر آئے گا اور انڈسٹری کی پیداواری لاگت میں بھی کمی آئے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو مارک اپ کی شرح کو بھی سنگل ڈیجٹ پر واپس لانے کے لئے سنجید ہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ارباب اقتدار کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ 24 فیصد کی بلند ترین شرح سود کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک میں انڈسٹری نہیں چلائی جا سکتی ہے بلکہ ایسے حالات میں دنیا کے بڑے سے بڑے ادارے بھی دیوالیہ ہو جاتے ہیں جس سے جہاں عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے وہیں معاشی سرگرمیوں کو بھی بحال ہونے میں لمبا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ مارک اپ کی شرح کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر واپس لانے کے لئے روڈ میپ کا اعلان کیا جائے تاکہ انڈسٹری کا اعتماد بحال ہو اور پاکستان سے جاری سرمائے کے انخلا کو روک کر مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری پر راغب کیا جا سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مارک اپ میں اضافے کو عمومی طور پر افراط زر میں کمی کے لئے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ مارک اپ میں اضافے کی پالیسی نے ملک کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 1 year
Text
آئی ایم ایف معاہدہ، ہم ہاتھ کٹوا بیٹھے
Tumblr media
دلچسپ کہیں افسوس ناک یا شرم ناک کہیں۔ نگران حکومت نے جس دن پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا اُسی دن عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں ڈیڑھ فیصد سے زائد تک گر گئیں۔ رواں اگست کے پہلے پندرہ دنوں میں دو مرتبہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، پہلی مرتبہ پی ڈی ایم حکومت ختم ہونے سے چند دن پہلے اور دوسرا پندرہ اگست نگران حکومت کے دور میں۔ قیمت بڑھاتے ہوئے دونوں مرتبہ صریح غلط بیانی کی گئی کہ عالمی منڈی میں خام تیل مہنگا ہو گیا ہے، جب کہ اس کے برعکس عالمی منڈی میں تیل سستا ہوا ہے۔ یہ تو ظلم کی انتہا ہے۔ شاید ہی دنیا کی کسی حکومت نے اپنی عوام سے ایسا سفید جھوٹ بولا ہو۔ عوام سے عجیب مذاق ہو رہا ہے۔ صرف پٹرول پر عوام سے 60 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ تیل کی قیمت گرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کی معیشت مشکلات کا شکار ہے جسکی وجہ سے سرمایہ کار خدشات کا شکار ہیں۔ معاشی سست روی کی وجہ سے تیل کی کھپت چین میں کم ہو گئی ہے۔ چین تیل کے بڑے خریداروں میں شامل ہے، باوجود اس کے کہ خام تیل کی پیداوار اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عوام پچھلے پانچ سالوں سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن ان کی طرف سے کبھی کوئی مؤثر احتجاج نہیں کیا گیا، چنانچہ قیمتیں بڑھانے میں حکومت بھی بے خوف ہے۔
ایک تو مہنگائی دوسری مصنوعی مہنگائی۔ دوکاندار، تاجر دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض چیزوں پر اضافی 100 روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کے گزشتہ کچھ عرصہ سے حیران کن بیان آ رہے ہیں، ایک طرف ن لیگ میں ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے کچھ غیر معمولی حقائق سامنے لا رہے ہیں۔ بہرحال، خاقان عباسی نے نیب کے حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے اپنی مثال پیش کی کہ نیب نے مجھ سے ہر سوال پوچھا لیکن ایک سوال نہیں پوچھا کہ میں ٹیکس ادا کرتا ہوں یا نہیں؟ انھوں نے واضح طور پر بتایا کہ حکمران طبقات ٹیکس ادا نہیں کرتے جب کہ وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے سالانہ ہزاروں ارب روپے کی مراعات حاصل کرتے ہیں۔ ان طبقات کے ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہر آئے دن عوام پر نئے ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں۔ ایک طرف سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ہیں، جن کی تنخواہ سے ٹیکس پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے، دوسری طرف پاکستان کے 5 فیصد جاگیردار ہیں جن کے قبضہ میں پاکستان کی 75 فیصد زرعی اراضی ہے جو اپنی آمدن کے تناسب سے کسی طور ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔
Tumblr media
چنانچہ حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اندرون بیرون ملک سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہمیں اپنے ہوائی اڈے جن میں لاہور ، اسلام آباد، کراچی کے ایئرپورٹ شامل ہیں۔ ہم آؤٹ سورس کرنے جا رہے ہیں یعنی یہ ہوائی اڈے عالمی بینک کے ذیلی ادارے کے کنٹرول میں چلے جائیں گے۔ یہ معاملات PIA سے بھی متعلق ہیں۔ جس کا خسارہ گزشتہ سال ستمبر تک 630 ارب روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔ اب تو مزید ایک سال اوپر ہونے والے ہیں، سوچیے خسارہ کہاں تک پہنچ چکا ہو گا۔ ہماری معاشی صورتحال اب بالکل ویسے ہی اس شخص کے مشابہ ہے جو دیوالیہ ہونے پر اپنا قرض اور سود ادا کرنے کے لیے گھر کی چیزیں بیچ رہا ہو کیونکہ ہمارے حکمران طبقات سے لے کر عام آدمی تک ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوکاندار چند ہزار روپے سالانہ ادا کرنے پر تیار نہیں۔ جب کہ یورپ خاص طور پر فلاحی ریاستوں میں تنخواہ اور آمدنی کا 30 سے 40 فیصد ٹیکس کی مد میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومتیں بے روزگاری، رہائش ، تعلیم اور صحت کی مد میں اپنے شہریوں کو بہت سہولیات دیتی ہیں۔
آئی ایم ایف تو مسلسل شور مچا رہا ہے کہ مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگایا جائے اور خسارہ میں جانے والے اداروں کو پرائیویٹایز کیا جائے۔ لیکن حکمران طبقات اور اشرافیات اپنے اوپر ٹیکس لگائیں گے؟ ایسا تو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح عوام کے زیر استعمال اشیاء پٹرول، ڈیزل، بجلی اور کھانے پینے وغیرہ کی اشیاء پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔ یہ ہے بے پناہ کمر طور مہنگائی کی اصل وجہ۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ گزشتہ پی ڈی ایم حکومت نے اندرونی قرضوں میں پی ٹی آئی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ قرضے اس اتحادی حکومت نے محض 15 ماہ کی قلیل مدت میں لیے۔ یعنی 18.5 کھرب روپے، یہ ہے مہنگائی کی دوسری وجہ۔ پاکستان ٹریڈز یونین کے صدر کہتے ہیں کہ حالت ایسی ہو گئی ہے کہ لوگ کھانے پینے کی چیزیں چرانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تاجر اور عوام مشکل میں چلے گئے ہیں۔ ایک بڑے بزنس گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا ہے کہ ملکی معاشی حالات آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے اس بد ترین جگہ پہنچے ہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے، یہ معاہدہ میں درج ہے۔ جن پر ہم نے دستخط کیے ہیں۔ حکومت نے معاہدہ میں جا کر اپنے ہاتھ کٹوا لیے ہیں۔ کراچی میں 50 فیصد انڈسٹری بند ہو گئی ہے کیونکہ اس بار بجلی کا بل 52 روپے یونٹ سے زائد آیا ہے۔
زمرد نقوی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
cryptosecrets · 2 years
Text
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں مستحکم
واشنگٹن : عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مستحکم رہیں، اعداد و شمار نے شرح سود میں مزید اضافے کا امکان ظاہرکیا ہے، جس سے معاشی نمو کم ہوسکتی ہے۔ غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں اپریل کی ترسیل کے لیے برینٹ کروڈ فیوچر منگل کو 1.2 فیصد گراوٹ کے بعد 0242 جی ایم ٹی تک 2 سینٹ سے بڑھ کر 83.07 ڈالر فی بیرل ہوگیا۔ ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کے کروڈ فیوچر اپریل کے لیے ایک سینٹ کم ہوکر76.35…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
cryptoking009 · 2 years
Text
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں مستحکم
واشنگٹن : عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مستحکم رہیں، اعداد و شمار نے شرح سود میں مزید اضافے کا امکان ظاہرکیا ہے، جس سے معاشی نمو کم ہوسکتی ہے۔ غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں اپریل کی ترسیل کے لیے برینٹ کروڈ فیوچر منگل کو 1.2 فیصد گراوٹ کے بعد 0242 جی ایم ٹی تک 2 سینٹ سے بڑھ کر 83.07 ڈالر فی بیرل ہوگیا۔ ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کے کروڈ فیوچر اپریل کے لیے ایک سینٹ کم ہوکر76.35…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 2 years
Text
جوہری بجلی، آئی ایم ایف اور زرعی منصوبہ بندی
Tumblr media
نیوکلیئر پاور پلانٹ جسے ماحول دوست قرار دیا جاتا ہے۔ کم قیمت بجلی پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔ پاکستان نے اس جانب 60 کی دہائی میں توجہ دینی شروع کر دی تھی۔ اس وقت توانائی کی پیداوار کے لیے کوئلہ اور فیول کا استعمال خاصے مہنگے ہونے کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج کا ذریعہ بھی ہیں۔ عالمی موسمیاتی تبدیلی کے باعث اور حالیہ شدید ترین سیلاب کو مدنظر رکھتے ہوئے اب نیوکلیئر پاور پلانٹ کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ کراچی میں پہلے ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر جب 1972 میں مکمل ہوئی تو ساتھ ہی شہر کو بجلی کی سپلائی بھی شروع کر دی گئی تھی۔ اس وقت مکمل ہونے والے نیوکلیئر پاور پلانٹ یونٹ (K-3) کا افتتاح بدست وزیر اعظم پاکستان کر دیا گیا ہے۔ جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس پاور پلانٹ کے بعد ملک میں جوہری ایندھن سے بجلی کی پیداوار تقریباً 3600 میگاواٹ ہو جائے گی۔ پاکستان کو اپنے ان تمام ذرایع سے جن کے ذریعے سستی اور ماحول دوست بجلی کا حصول ممکن ہو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
خاص طور پر ایک ایسے زمانے میں جب ہم پر آئی ایم ایف نے اپنا شکنجہ کس دیا ہے اور بجلی سے متعلق تمام سبسڈیز کو واپس لینے کے مطالبے کے ساتھ 41 سو ارب روپے کے گردشی قرضوں کی واپسی کا پلان مانگ لیا ہے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو بلا چوں و چرا تسلیم کرنے کے نتیجے میں جولائی تک بجلی 6 روپے فی یونٹ مہنگی ہو جائے گی۔ اب ہمیں جلد یا بہ دیر کوئلہ گیس تیل پر بجلی کی پیداوار کا انحصار کم سے کم کرنا پڑے گا، کیونکہ یہ تینوں اجزا انتہائی مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی درآمدی لاگت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سردست نیوکلیئر پاور پلانٹ کے افتتاح کے علاوہ فوری طور پر کوئی اور منصوبہ پائپ لائن میں موجود نظر نہیں آ رہا ہے ، لہٰذا بجلی کی قلت کے ساتھ ساتھ بجلی مہنگی بھی ہو گی اور حکومت صارفین صنعتکاروں کو مہنگی ترین بجلی فراہم کرنے پر مجبور ہو جائے گی کیونکہ آئی ایم ایف کی تلوار لٹکی رہے گی۔
Tumblr media
اس وقت آئی ایم ایف سے جو معاہدہ تقریباً طے ہے، اس کے مطابق پٹرول پر سیلز ٹیکس 11 سے بڑھا کر 17 فی صد کرنے کا مطالبہ ہے جس کے باعث جلد ہی پٹرولیم مصنوعات کی بڑھی ہوئی قیمتوں کا اعلان متوقع ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر دودھ، گھی، مسالہ جات سمیت کئی اشیا مہنگی ہو چکی ہیں۔ ابھی آئی ایم ایف سے مذاکرات چل رہے ہیں، لیکن مہنگائی نے 47 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ 27.6 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ معاہدے پر عمل درآمد کے بعد مزید 8 یا 10 فیصد کا اضافہ ہو کر 35 فیصد سے زائد ہو چکا ہو گا، کیونکہ چند روز قبل پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر اضافے کے اثرات بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ریلوے کی تمام ٹرینوں کے کرایوں میں 8 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق ڈیزل کی قیمتوں میں حالیہ 15 فیصد اضافے سے پاکستان ریلوے پر یومیہ تقریباً 12 ملین روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے۔ 15 فیصد اضافے کے باوجود 8 فیصد اضافہ کرنا اسے اچھا فیصلہ قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ دوسری طرف ٹرانسپورٹرز نے اس سے بھی 4 گنا زائد کرایہ بڑھا دیا ہے اور یہ اضافہ 25 سے 35 فیصد تک نظر آ رہا ہے۔
اب آپ ملاحظہ فرمائیں چند ہفتے قبل ٹماٹر 200 روپے اور کبھی 300 اور 400 روپے فی کلو تک بھی جا پہنچے تھے اور آج کل 60 روپے فی کلو فروخت ہو رہے ہیں۔ اب ان دنوں جب کاشتکاروں کو غالباً 10 سے 15 روپے فی کلو کے ہی مل رہے ہوں تو وہ بھلا کرایہ جو کہ اب ہزاروں روپے فی ٹرک پہنچ چکا ہے کھیت سے منڈی تک آج مجبوراً آ جائے گا تو آیندہ کے لیے وہ یہ فیصلہ کر لے گا کہ اب اس سیزن میں ٹماٹر نہیں بونے ہیں۔ لہٰذا اس تمام صورت حال کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ ٹماٹر کی ملکی پیداوار کم ہو گی اور درآمدی ٹماٹر پر انحصار کرنا ہو گا۔ جیسا آج کل پیازکی قیمتوں کا معاملہ ہے۔ دو سو روپے فی کلو سے ڈھائی سو روپے فی کلو تک درآمدی پیاز دستیاب ہے پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ 10 یا 20 روپے فی کلو پیاز ملنے لگ جاتی ہے، یہاں آ کر کاشتکار پریشان ہو جاتا ہے کہ اس کی پیداوار فی لاگت بھی نہیں مل رہی ہے۔ لہٰذا راقم اس سے قبل بھی عرض کرتا رہا ہے کہ کم ازکم ہر صوبائی حکومت ایسی زرعی منصوبہ بندی پر توجہ دے جس سے کاشتکار کو نقصان بھی اٹھانا نہ پڑے اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف زرعی پیداوار کا ہدف مقرر کیا جائے۔
ایسے حالات میں جب کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کے باعث صدارتی آرڈیننس کے ذریعے منی بجٹ لانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ پٹرول مزید مہنگا اور بجلی گیس مہنگی ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں ہم اپنی زراعت و صنعت کی ایسی منصوبہ بندی کریں تاکہ زرعی پیداوار ان کی طلب ان کی کھپت اور اچانک قلت پر قابو پایا جاسکے۔ اسی طرح مصنوعات کی پیداوار ان کی برآمد ان کی لاگت اور دیگر امور کی خاطر صنعتی شعبے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ اسی طرح افرادی قوت کی برآمد کے بارے میں لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے پھندے میں آچکے ہیں۔ اب اس سے نکلنا کیسے ہے؟ اور یہ عین ممکن ہے۔ بس پوری پاکستانی قوم اس سے نکلنے کا عزم و ارادہ کر لے۔
محمد ابراہیم خلیل  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
marketingstrategy1 · 2 years
Text
پیٹرول کی پیداوارمیں توازن؛ سعودی ولی عہد کا روسی صدر کو فون
سعودی عرب اور روس کی قیادت نے تیل کی پیداوار پر تبادلہ خیال کیا؛ فوٹو: فائل ریاض / ماسکو: سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے تیل کی عالمی منڈی میں استحکام کے لیے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔  عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور روسی صدر کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو میں عالمی تیل منڈی میں استحکام کے لیے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم ’’اوپیک‘‘…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
gamekai · 2 years
Text
پیٹرول کی پیداوار میں عدم توازن؛ سعودی ولی عہد کا روسی صدر کو فون
سعودی عرب اور روس کی قیادت نے تیل کی پیداوار پر تبادلہ خیال کیا؛ فوٹو: فائل ریاض / ماسکو: سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے تیل کی عالمی منڈی میں استحکام کے لیے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔  عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور روسی صدر کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو مین عالمی تیل منڈی میں استحکام کے لیے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم ’’اوپیک‘‘…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urduchronicle · 1 year
Text
آئی ایم ایف پروگرام لڈو پیڑے نہیں، عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھے کے باوجود عوام کوپٹرول پر 9 روپے ریلیف دیا، وزیراعظم
لاہور میں یوتھ بزنس اینڈ ایگری کلچر لون اسکیم کے تحت  وزیراعظم شہباز شریف نے نوجوانوں میں چیک تقسیم کئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پٹرول کی قیمت میں 9 روپے کمی کی گئی ہے،عالمی منڈی میں کروڈآئل کی قیمتیں اوپر جارہی ہیں، تیل کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود عوام کو ریلیف دیا، روپےکی قدرمیں اضافے سے پٹرول کی قیمتیں کم کیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
emergingpakistan · 1 year
Text
معیشت کی بربادی کا ذمے دار کون؟
Tumblr media
1990 کی دہائی میں آئی پی پی نے پاکستان میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے پیشکش کی، حکومت پاکستان نے جن شرائط پر معاہدہ کیا ان میں ایک شرط یہ بھی کہ حکومت پاکستان تیل خود خرید کر IPPs کو دے گی اور اس کی نرخ اس وقت کے ڈالر ریٹ پر فکس کر دی گئی۔ اس شرط کے مطابق عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھے یا زیادہ ہو جائے، حکومت پاکستان اس ہی مقررہ ڈالر ریٹ پر IPPs کو تیل فراہم کرنے کی پابند ہو گی۔ اس شرط کے تحت بڑھتی ہوئی تیل کی قیمت کا فرق حکومت پاکستان کو دینا ہو گا جب کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کا فرق بھی حکومت پاکستان کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ہمیں آئی پی پی سے بجلی چونکہ ڈالر میں خریدنی ہے اس لیے ان کے ہر یونٹ کی قیمت آج کے ڈالر ریٹ کے مطابق ادا کرنی ہے۔ اس شرط کے اثرات کیا ہیں، وہ اب طشت از بام ہو چکے ہیں۔ ہم اس شرط پر عمل کرتے کرتے ملکی معیشت اور عوام کی کمر توڑ چکے ہیں۔دوسری شرط کے مطابق آئی پی پیز کی پیدا کردہ بجلی کو حکومت روپے کے بجائے ڈالر میں خریدے گی۔ اس شرط کی بنا پر پاکستان کثیر زر مبادلہ آئی پی پیز کو ادا کر رہا ہے۔ اس معاہدے کی ایک اور شرط یہ ہے کہ حکومت پاکستان اگر بجلی کا ایک یونٹ بھی نہ خریدے گی تب بھی اسے ائی پی پیز کو مقررہ قیمت ڈالر میں ادا کرنی ہو گی۔ حکومت پاکستان یہ رقم بھی عوام سے بجلی کے بلوں میں ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کر رہی ہے۔
Tumblr media
آپ ذرا غور تو کیجیے کہ پاکستان کے پالیسی میکرز نے کس بے دردی سے اپنی آنکھیں، کان اور دماغ بند کر کے اس معاہدے پر دستخط کر دیے، یہی نہیں بلکہ اس معاہدے کو بین الاقوامی قواعد کے تحت Sovereign Garrente بھی حاصل ہے۔اگر حکومت پاکستان یا پاکستانی عوام اس معاہدے پر عمل نہ کریں یا کسی بھی شق کی خلاف ورزی کریں گے تو بین الاقوامی قواعد کے مطابق انھیں جرمانہ یا حرجانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ 1990 سے اب تک برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے ان معاہدات میں ترمیم تک لانے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی، یعنی ہر حکومت نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی۔ 1990 سے لے کر اب تک ان معاہدات کو جاری رکھنے اور شرائط کو جوں کا توں رکھنے والوں کا احتساب ضرور ہونا چاہیے۔  مہنگی بجلی کا یہ ایک رخ ہے، دوسرا رخ بجلی چوری اور لائن لاسز ہے۔ ان نقصانات کی رقم بھی بجلی صارفین سے وصولی کی جارہی ہے۔ بجلی کی چوری کو روکنا یا بجلی کی ترسیل، ٹرانسمیشن لائنوں کو درست رکھنا، وفاقی حکومت اور محکمہ بجلی کے افسروں اور اہلکاروں کی ذمے داری ہے، انھیں بھرتی ہی ان کاموں کے لیے کیا جاتا ہے اور انھی کاموں کے عوض انھیں قومی خزانے سے تنخواہیں، مفت بجلی اور دیگر سہولتیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔ 
بجلی چوری روکنے کے نام پر چھاپے مارنا اور گرفتاریاں کرنا دکھاوئے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 2013 میں کپیسٹی پیمنٹ 200 ارب روپے تھی جو اب دو ہزار ارب روپے ہو چکی ہے۔ ملک کی معیشت جس حالت میں ہے اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں ملک اگر دیوالیہ نہیں بھی ہوا تو بھی دیوالیے کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام دیوالیہ ہو چکے ہیں عوام نہ تو وہ اپنا کچن چلانے کے قابل ہیں نہ ہی بچوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کر سکتے ہیں نہ ہی ڈاکٹر اور اسپتال کو فیس دے کر علاج کرا سکتے ہیں۔ ہر دو ہفتے بعد تیل کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی قمیت بھی بڑھائی جارہی ہے۔ عوام تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ اس حوالے سے لکھنے کو تو بہت کچھ ہے میں آج کا کالم اس پر ہی ختم کرتے ہوئے اتنا ضرور کہوں گا کہ اس ملک کی معیشت اور عوام کے مفادات کے خلاف جتنے بھی اقدامات کیے کیے ہیں یہ سب فیصلے ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی نے کیے ہیں۔
سرور منیر راؤ 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
pakistan-affairs · 2 years
Text
چین کی مستقل مزاجی اور نئی سرد جنگ
اکتوبر 2022ء چین کے عروج کے حوالے سے تاریخی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ صدر شی جن پنگ کو مرکزی کمیونسٹ پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا ہے، وہ تیسری مدت کیلئے چین کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ بے مثال کامیابی شی جن پنگ کو چین کا مقبول ترین رہنما ثابت کرتی ہے، جو ماؤزے تنگ کے پیش رو ہیں۔ شی جن پنگ کے تیسری مدت کیلئےانتخاب کا مطلب یہ ہے کہ چین ترقی، اقتصادی برتری، عالمی وعلاقائی روابط اور سالمیت کی اپنی موجودہ پالیسیوں کو برقرار رکھے گا۔ بیجنگ کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتے اثر و رسوخ پر دنیا محض حیرت میں مبتلا ہے جبکہ مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ انتہائی خوف میں مبتلا ہے۔ دنیا بھر کیلئے ماضی میں چین کے ساتھ اپنے معاملات پر نظرِ ثانی اور مستقبل کا لائحہِ عمل مرتب کرنے کیلئے یہ بہترین وقت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ سپر پاور بن کر ابھرا۔ سوویت یونین اس کا براہ راست حریف تھا۔ جنگ کے خاتمے سے لے کر 1989 میں سوویت یونین کی تحلیل تک دنیا دو دھڑوں میں تقسیم رہی۔ 
لبرل دنیا کے نظریہ سازوں نے اس وقت چین کے ساتھ تعلقات کے فروغ کی پالیسی اپنائی۔ اس وقت چین ایک ترقی پذیر ملک تھا۔ یہ غربت، جنگوں اور ٹوٹ پھوٹ کے مسائل سے دو چار تھا۔ چین کو روس کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے کیلئے امریکہ نے چین کو مغربی دنیا میں متعارف کرایا اور اسے عالمی تجارت کے مرکزی دھارے میں رسائی دی۔ یوں جب امریکی یورپ پر اپنے تسلط کو یقینی بنانے میں مصروف تھے، چین نے مستقل مزاجی سے اپنی معیشت کو ترقی دی۔ وہ ٹیکنالوجی کے فروغ کی پالیسی پر عمل کے ساتھ ساتھ برآمدات کو وسعت دینے کی پالیسی پر عمل کرنے میں کامیاب رہا۔ صنعت و تجارت کے شعبے مرکزی کمیونسٹ پارٹی کی توجہ کے مرکز بن گئے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکہ کو یونی پولر دنیا ورثے میں ملی، امریکہ لبرل ازم پر عمل پیرا رہا۔ چین ڈبلیو ٹی او کے اہم ارکان میں سے ایک بن گیا۔ اس کی سستی لیبر، سخت محنت اور مستقل مزاجی نے امریکی کمپنیوں کو چینی فیکٹریوں کے دروازوں تک پہنچا دیا۔ 
ایک زمانے میں، چینی مصنوعات کو کمتر سمجھا جاتا تھا لیکن وہ دن گزر چکے، کیونکہ امریکی اور یورپی کمپنیوں کی اکثریت نے اپنی مینوفیکچرنگ شین زین اور شنگھائی کی فیکٹریوں میں منتقل کر دی۔ دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں، چین اور اس کے عوام نے تمام اندازے اور اعداد و شمار الٹ کے رکھ دیے ہیں۔ اب چین کا جی ڈی پی امریکہ سے بڑھ چکا ہے، یورپ پہلے ہی چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات کا خواہاں ہے۔ چین نے عسکری طور پر بھی غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چنانچہ جاپان میں اس کی موجودگی اور تائیوان میں اس کے اسٹرٹیجک اثاثے امریکہ کیلئے ناقابلِ برداشت ہیں۔ اب ایک نئی سرد جنگ نمو پا چکی ہے جو سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان ہونے والی سرد جنگ سے کہیں زیادہ گنجلک ہو سکتی ہے۔ چین عددی برتری رکھتا ہے اور دنیا کے کئی حصوں میں اس کی موجودگی ہے۔ 
امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کی شروعات امریکہ نے سوویت معیشت کو نقصان پہنچا کر کی، چین کے معاملے میں صورتحال الٹ ہے۔ چین کھلی اور آزاد منڈی میں امریکی معیشت کا مقابلہ کر رہا ہے، جو سوویت یونین کبھی نہیں کر سکا۔ اس وقت مارکیٹ پر امریکی مصنوعات اور معیشت کا غلبہ تھا اور ان کھلی منڈی کے ہتھکنڈوں کے ذریعے سوویت یونین کو شکست ہوئی۔ تاہم اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر کھلے عام اس کا اعتراف کیا اور تجارتی تحفظ پسندی کا فلسفہ متعارف کروایا۔ انہوں نے کہا کہ چینی مصنوعات امریکی منڈیوں میں غیر منصفانہ مراعات کے ساتھ فروخت ہو رہی ہیں۔ امریکی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ امریکہ کی معیشت غیر منصفانہ طرز عمل کی وجہ سے خسارے میں جا رہی ہے، جبکہ یہ امریکی صنعتوں کی ناکامی اور چینی برآمدات کی کم لاگت کا اثرہے۔ نئی سرد جنگ میں امریکہ اپنی ناکام خارجہ اور داخلہ پالیسی کی وجہ سے پسپا ہو رہا ہے۔ یہ ویت نام، عراق، افغانستان اور شام میں بڑی ناکامیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ امریکہ مزید فوجی مہمات کا متحمل نہیں رہا۔
نیٹو کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے، یورپ جنگ کے دہانے پر ہے۔ اس بار یوکرین پر روسی حملے اور یوکرین کیلئے مغرب کی حمایت نے چین کے خلاف روسی تعاون کے امکانات کو معدوم کر دیا ہے۔ چین نے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف اقدامات کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔ چین اپنی فوجی اور اقتصادی توسیع کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چین نے ایشیا میں اپنے قدم جمانے کے بعد اب افریقہ اور وسطی ایشیا تک دائرہ پھیلا لیا ہے۔ مغربی سفارت کاروں کو ایسا لگتا ہے کہ چین کو الگ تھلگ رکھ کر اور اسے تیسری دنیا کے مسائل میں الجھا کر ترقی سے روکا جا سکتا ہے لیکن اب، بہت دیر ہو چکی ہے، یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ چین ایک دہائی سے بھی کم عرصہ میں کرۂ ارض پر غلبہ پالے گا۔ ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ امریکہ کی بجائے بیجنگ کے اتحادی ہوں گے۔ مغربی دنیا کے حقیقت پسند چین کے عروج کو امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ لبرل ازم ختم ہو چکا ہے۔ 
چین دنیا کی قدیم ترین قوموں میں سے ایک ہے جبکہ امریکہ کی تاریخ صرف چند سو سال پرانی ہے۔ چین اپنی عدم تشدد کی پالیسی، دیگر اقوام کے احترام اور باہمی ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ سرمایہ دارانہ لالچ ، فاسٹ فوڈ کلچر، ہالی ووڈ اور جمہوریت کے نام پر جنگوں سے دنیا کو متعارف کرواتا رہا جس نے عراق، ویت نام اور افغانستان جیسے ممالک کو تباہ کیا۔ اسرائیل جیسی ظالم قوموں کی پشت پناہی کی اورفلسطینیوں کے قتلِ عام کی کھلی اجازت دی۔ یہ حقیقت ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں تبدیلی شاذ و نادر ہی پرامن رہی ہے، طاقت کے پرانے نظام اتنی آسانی سے مفلوج نہیں ہوں گے، ہم ایک نئی سرد جنگ کے دہانے پر ہیں۔
امتیاز رفیع بٹ (مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
pakistantime · 2 years
Text
عشق فراموشی کی گھڑی سر پے کھڑی
کرائمیا کی بندرگاہ سواستوپول میں لنگر انداز بحیرہِ اسود کے روسی بیڑے کو گزرے سنیچر سولہ ڈرونز نے ایک ساتھ نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی۔ اس کے ردِعمل میں روس نے اقوامِ متحدہ اور ترکی کی مدد سے ہونے والے اس تین ماہ پرانے سمجھوتے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا جس کے تحت یوکرین کو چار ماہ کے اندر نوے لاکھ ٹن گندم افریقہ اور ایشیا بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی اور اس کا غذائی فائدہ فاقہ کشی سے دوچار ایک کروڑ سے زائد انسانوں کو ہونا تھا۔سمجھوتے کی معیاد انیس نومبر تک کے لیے مگر قابلِ توسیع ہے۔ البتہ روس کی جانب سے یکطرفہ اعلانِ لاتعلقی کے بعد یوکرینی گندم اٹھانے والے ایک سو چھہتر بحری جہاز جہاں جہاں تھے وہیں کھڑے رہ گئے ہیں۔ ویسے تو محبت اور جنگ میں سب جائز کہا جاتا۔ مگر اس دائرے میں خوراک بھی ہتھیار بن جائے گی ؟ پرانے زمانے کے جنگی محاصروں میں تو یہ عام رواج تھا مگر اکیسویں صدی میں اس مجرب نسخے کے اثرات محض جنگ کرنے والے ممالک پر نہیں بلکہ ہزاروں میل کے دائرے میں محسوس ہو رہے ہیں۔ ’’بندر کی بلا تویلے کے سر‘‘ کا مطلب لگ بھگ پوری پسماندہ دنیا کو خوب سمجھ میں آ رہا ہے۔
روس اور یوکرین کی گندمی تجارت کو جنگی کاروائیوں کے دائرے سے باہر رکھنے کا فیصلہ ہوا تو عالمی قیمت میں فوری طور پر پانچ فیصد کمی ہو گئی۔ لیکن تازہ روسی بائیکاٹ کے بعد گندم کا نرخ پھر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جن ممالک کے پاس پیسے نہیں وہ بھی اور جن کے پاس مہنگی گندم خریدنے کی استطاعت ہے وہ بھی قلت و مہنگائی کی چکی کے دو پاٹوں کے مابین جانے کتنے عرصے کے لیے مزید پھنس جائیں گے اور ان میں سے کچھ ممالک تو شاید خود بھی آٹا بن جائیں۔ پاکستان اگرچہ اس سال باہر سے پانچ سے آٹھ لاکھ ٹن گندم حفظِ ماتقدم کے طور پر منگوانے کی سوچ رہا ہے مگر پاکستان کو روس یوکرین جنگ سے براہِ راست اتنا غذائی نقصان نہیں جتنا موجودہ سیلاب کے بعد اگلے چھ ماہ میں ہونے والا ہے۔ویسے پاکستان کو موجودہ سیلابی آفت کی بھی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔ اس سے پہلے ہی چالیس فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کی لپیٹ میں تھی۔ پانچ برس تک کے ہر تیسرے بچے کا وزن ناکافی غذائیت کے نتیجے میں ضرورت سے کم ہے۔ بچے کا قد کاٹھ جس قدرتی رفتار سے بڑھنا چاہیے پچیس فیصد پاکستانی بچے اس رفتار سے محروم ہیں۔
دونوں معاملات میں بلوچستان، سندھ اور صوبہ خیبر پختون خوا کے قبائلی اضلاع علی الترتیب اول دوم اور سوم درجے پر ہیں اور یہ کسی این جی او کے نہیں بلکہ سرکاری وزارتِ بہبودِ آبادی کے دو ہزار اٹھارہ میں جاری اعداد و شمار ہیں۔ سوچیے کہ موجودہ سیلاب نے ان اعداد و شمار کے ساتھ مزید کیا کھلواڑ کیا ہو گا۔ جولائی سے ستمبر تک کی سہ ماہی میں اکیاسی اضلاع میں بارشوں اور طغیانی کے سبب اٹھہتر ہزار مربع کلومیٹر قابلِ کاشت زمین زیرِ آب آئی (یہ رقبہ چیک جمہوریہ کے برابر ہے۔) یوں سمجھیے کہ اسی فیصد زیرِ کاشت یا کھڑی فصل کو نقصان پہنچا۔ زرعی اجناس کی ترسیل میں کام آنے والی چھ ہزار کلومیٹر طویل سڑکیں اور راستے ناقابلِ استعمال ہو گئے۔ اس معاملے میں سندھ اور جنوبی بلوچستان دیگر متاثر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ بدقسمت ثابت ہوئے۔ اقوامِ متحدہ نے حالیہ قدرتی آفت کے سبب پاکستان کے معاشی نقصان کا تخمینہ لگ بھگ چالیس ارب ڈالر لگایا ہے۔ پاکستان پہلے ہی گزشتہ ایک برس سے افراطِ زر کے بخار میں پھک رہا ہے۔
سیلاب کے بعد خوراک کی قیمتوں میں چار سے پانچ گنا مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اگرچہ افغانستان اور ایران سے پیاز، ٹماٹر جیسی اجناس منگوائی گئی ہیں مگر فصل اور راستے زیرِ آب آنے کے سبب کھیت سے منڈی تک مسلسل رسائی بحال ہونے میں سال بھر نہیں تو کئی مہینے ضرور درکار ہیں۔ اس بیچ حکومت کو سنگین چیلنج درپیش ہے کہ کھانے پینے کی ضروری اشیا کے نرخ کس طرح غبارہ بننے سے روکے۔ کہنے کو پاکستان گندم پیدا کرنے والا آٹھواں بڑا ملک ہے مگر نومبر اور دسمبر میں گندم کی روایتی کاشت ایک سنگین مرحلہ ہے۔ ناکامی کے نتائج سے پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی متاثر ہو گا جہاں پہلے ہی غذائی حالت چوپٹ ہے، اور اس کے ممکنہ معاشی و سماجی نتائج کی شدت پاکستان کو جھیلنا بھی ناگزیر ہے۔ سیلابوں سے بے خانماں اسی فیصد آبادی کا تعلق زرعی علاقوں سے ہے۔ ان کی معاشی حالت پہلے ہی پتلی تھی اور اب واپس لوٹنے اور زمین خشک کرنے کے مسئلے نے رہا سہا خون بھی خشک کر دیا ہے۔ 
کھڑے پانی سے صرف گھر اور کھیت ہی نہیں نواحی اجناسی منڈیاں بھی ویران ہوئی ہیں، جو تھوڑی بہت نقد آور اجناس، سبزیاں یا پھل سلامت بھی ہیں انھیں بروقت گاہک تک کیسے پہنچایا جائے ؟ اس بیچ اگر کوئی طبقہ مزے میں ہے تو ہمارے وہ آڑھتی بھائی ہیں جن کے پاس نہ صرف یہ بچی کچھی اجناس اونے پونے خریدنے کے لیے سرمایہ بلکہ ذخیرہ کرنے کی سہولتیں بھی میسر ہیں۔ گویا قلت ایک طبقے کے لیے مٹی کو بھی سونا بنا دیتی ہے اور باقیوں کا سونا بھی مٹی کے بھاؤ ہو جاتا ہے۔ کہانی یہاں ختم نہیں بلکہ شروع ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان مسلسل ابتر ہوتی ماحولیات کی راہ میں پڑنے والے اولین دس ممالک میں شامل ہے۔ اس لیے اب یہ کسی ایک برس کا رونا نہیں رہا۔ عالمی بینک کے گزشتہ برس کے آفاتی کنٹری پروفائل کے مطابق اگلی ایک دہائی میں پاکستان جیسے ممالک کو آبادی میں بڑھوتری اور زرعی اجناس کی پیداوار میں مسلسل کمی کا بحران درپیش رہے گا۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اندازہ خود عالمی بینک کو بھی نہیں یا ہے تو فی الحال بوجوہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔
اس پس منظر اور مستبقل قریب کی تصویر کے ہوتے پاکستان میں لانگ مارچ ، جلد یا بدیر انتخابات اور بیرونی و اندرونی غلامی سے حقیقی آزادی کا حصول سب سے بڑا مسئلہ بتایا جا رہا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ خود فریب ترجیحات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ مگر اتنا جانتا ہوں کہ اگلے چند ماہ کی حقیقی تصویر کچھ یوں بننے جا رہی ہے کہ کیا آئین ، کیا انصاف، کیا جعلی و حقیقی آزادی۔ سب راج پاٹ یہیں کے یہیں دھرا رھ جائے گا۔ مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی ( ساحر ) اگر فیصلہ ساز، یا فیصلہ بگاڑ آنے والے چھ ماہ کے اندر زمین سے کان لگا کے وقت کی دھمک نہیں سن پاتے تو پھر آگے کا مطلع صاف صاف ہے۔ چناں قحط سالی شد اندر دمشق کہ یاراں فراموش کردند عشق ( سعدی )
وسعت اللہ خان  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
nowpakistan · 5 years
Photo
Tumblr media
امریکا کی جانب سے ایرانی ڈرون گرانے کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافہ
0 notes