#صوفیانہ کلام
Explore tagged Tumblr posts
urdu-poetry-lover · 4 months ago
Text
Tumblr media
عابدہ پروین اور ہمارا سماجی رویہ
اگرچہ ہمارا رویہ ہر لحاظ سے ہی الگ ہے لیکن فنونِ لطیفہ کے بارے میں بھی ہمارے معاشرے کا رویہ بہت عجیب ہے۔ اس عجیب رویے کی زد میں آنے والی اک فنکارہ عابدہ پروین بھی ہیں۔ جن پر قدرے زبردستی کا صوفی رنگ چڑھا کر ان کی گائیکی کو محدود کر دیا گیا ۔
صوفی انگ چڑھائے جانے سے بہت پہلے کی بات ہے عابدہ پروین بہت اچھی غزل گائیکہ بھی ہوتی تھیں۔ یہ کلاسیکل راگ رنگ اور ٹھمری بھی گاتی تھیں ۔ اس وقت غزل گائیکی میں بہت منجھی ہوئی اور عمدہ خواتین موجود تھیں جیسے فریدہ خانم ، اقبال بانو ، شاہدہ پروین ، بلقیس خانم ، نیرہ نور لیکن عابدہ پروین نے ان سب کے درمیان غزل گائیکی کا الگ انداز قائم کیا ۔ اس وقت ای ایم آئی یا پی ٹی وی پر عابدہ پروین کے پروگرام نشر ہوتے تھے تو اس میں اگر پانچ عارفانہ کلام اور لوک گیت ہوتے تھے تو پانچ عمدہ غزلیں بھی شامل ہوتی تھیں جیسے ،
شہر سنسان ہے کدھر جائیں (ناصر کاظمی)
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے (ضیا جالندھری)
یہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں (ساغر صدیقی)
تم کو دیکھے ہوئے گزرے ہیں زمانے آو ( احمد فراز)
لے چلا جان مری روٹھ کے جانا تیرا (داغ)
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے (حکیم ناصر)
کوئی اجنبی سا دیار تھا یہی وقت ہو گا پہر ڈھلے
لیکن پھر عابدہ پروین کو جیسے زبردستی اک صوفی گلوکارہ کا چولا پہنا دیا گیا۔ یہ بات یاد رہے کہ عابدہ پروین شروع سے ہی عاجزانہ اور درویش منش طبیعت رکھتی تھیں اور صوفیانہ کلام ایسے ہی مست انداز میں گاتی تھیں لیکن اب حاضرین نے چونکہ ان کو صوفی کے درجے پر فائز کیا ہوا تھا اس لیے عابدہ کو اپنی رینج سے اونچے سر لگا کر مسلسل جھومنا بھی پڑتا ہے۔
کہاں وہ وقت تھا جب صوفیانہ کلام میں عابدہ پروین "دلڑی لٹی تئیں یار سجن" تیرے عشق نچایا " ماہی یار دی گھڑولی " جیسے کلام سر، سوز اور مستی کے عالم میں گاتی تھیں اور کہاں اب ان کو قوالوں کی طرح اونچے سروں اور نعروں کی صورت عارفانہ کلام گانا پڑتا ہے۔
اور بات گائیکی تک رہتی تو بھی کچھ ٹھیک ہی تھی لیکن لوگ زبردستی عابدہ پروین اندر اک صوفی کی روح تلاش کرنے لگے ۔ کئی بار ٹی وی پر ایسا ہوتے دیکھا ہے کہ موسیقی کے پروگرامز میں عابدہ پروین موسیقی پر بات کرنا چاہیں بھی تو میزبان ان سے صوفی ازم کے بارے گفتگو کرنے لگتے ہیں اور پھر عابدہ بے چاری اپنے ذہن کے مطابق جواب دینے کی کوشش بھی کرتی ہیں ۔ پھر نور الحسن اور دوسرے میزبان اس میں کوئی نہ کوئی نکتہ تلاش کر ہی لیتے ہیں اور جھوم اٹھتے ہیں ۔
جب تک انور مقصود میزبانی کرتے رہے وہ عابدہ پروین سے کلاسیکل راگ رنگ اور غزل گائیکی بھی کرواتے رہے اب بھی کبھی کبھار عابدہ پروین غزل گاتی ہیں لیکن وہ بھی بس "یار کو ہم نے جا بجا دیکھا " یا ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں " تک ہی محدود رہتی ہیں ۔
بے شک عابدہ پروین کی موجودہ صوفی گائیکی نے ایک عالم کو متاثر کیا ہے اور ساری دنیا میں عابدہ پروین کی پہچان ہوئی ہے لیکن اس سے ایک تو ان کا فن محدود رہ گیا ہم ان کی اچھی غزل گائیکی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور دوسرا اپنے سکیل سے اونچے سر لگا لگا کر ان کی گائیکی کی وہ لطافت کم ہو گئی ہے جو کہ قائم رکھی جا سکتی تھی۔
0 notes
kbr8 · 3 years ago
Text
youtube
Urdu Poetry by Khwaja Ghulam Farid - But Ke Har Naaz Ko Main Raaz Khuda Ka Samjha - GHAZAL READING
0 notes
shahbaz-shaikh · 4 years ago
Text
‏اداس چہرہ، مخمور آنکھیں، زلف غزل کی لام جیسی....
ہے اک لڑکی میٹھی دھن سی وہ صوفیانہ کلام جیسی...
5 notes · View notes
omega-news · 3 years ago
Text
بوہڑ کے درخت کی جگہ پر دوبارہ بوہڑ کا درخت پیدا ہوناخوش قسمتی،عارف لوہار
بوہڑ کے درخت کی جگہ پر دوبارہ بوہڑ کا درخت پیدا ہوناخوش قسمتی،عارف لوہار
گلوکار عارف لوہار نے کہا ہے بڑے فنکاروں کے بچے بھی اگر ان کی طرح نام بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ اس خاندان کی خوش بختی ہوتی ہے ۔ میرے والد عالم لوہار نے اپنی پنجابی گائیکی کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت کو اجاگر کیا اور اس کے بعد میں یہ فریضہ سر انجام دے رہا ہوں، میں نے لوک پنجابی داستانوں کے ساتھ صوفیانہ کلام کی بدولت پوری دنیا میں پاکستان کو امن ، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا ہے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
asliahlesunnet · 3 years ago
Photo
Tumblr media
اہل تصوف کی عبادات میں بکثرت بدعات ہوتی ہیں سوال آج کل صوفیہ کے سلسلے بکثرت پائے جاتے ہیں، مثلاً نقشبندیہ اور قادریہ،ہمارے ہاں مراکش میں جیلانیہ،تجانیہ،ترقاویہ،وازانیہ،دلائیہ،ناصریہ،علویہ،کتانیہ اور دیگر بہت سے ناموں سے سلسلے موجود ہیں۔ میں نے ان کے اور ادووظائف دیکھے تو باہم ملتے جلتے ہیں۔ سب کے ہاں صبح کے اوراد میں سوبار استغفار اور سوبار درود شریف (مختلف الفاظ کے ساتھ) اور سوبار لا الہ الا اللہ اور شام کو بھی اسی قسم کے وظیفے میں، اس کے ساتھ نماز بروقت ادا کرنے کی ترغیب ہے۔ کیونکہ جو شخص ان سے وظیفہ حاصل کرتاہے اس کے لئے نماز باجماعت کی پابندی ایک لازمی شرط ہے۔ لیکن اخوان المسلمون کے بعض علماء کہتے ہیں کہ صوفی طرق میں شامل ہونے والا شخص گمراہ،بدعتی اور مشرک ہے، کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صوفیانہ سلسلے اور طریقے موجود نہیں تھے۔ اس لئے میں آپ سے تسلی بخش جواب چاہتاہوں، کیونکہ ’’مشرک‘‘ کا لفظ بہت سخت ہے اور مشرک پر تو جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ وآلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: صوفیانہ سلسلہ کے مشائخ پر زہد اور عبادت کا رنگ غالب ہے۔ لیکن ان کی عبادتوں میں بکثرت بدعتیں اور خرافات موجودہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے منفرد نام کا ذکر کرنا مثلاً (اللہ۔ حی۔ قیوم) یا ضمیر غائب کے ساتھ اس کا ذکر کرنا۔ ھو۔ھو۔ھو…)یا ایسے نام سے ذکر کرنا جسے اللہ تعا لیٰ نے اپنا نام بیان نہیں فرمایا مثلاً (آہ۔آہ۔آہ) اس کے ساتھ ساھت وہ جھومتے ہیں، کبھی نیچے جھکتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ شعروں کے الفاظ یہا ذکر کے کلمات کے حرکات وسکنات کو منضبط کرنے کے لئے بسا اوقات ساز بھی بجاتے ہیں۔ یہ تمام کام ایسے ہیں جو رسولاللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً ثابت ہیں نہ عملاً اور نہ خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم ان سے واقف تھے۔ بلکہ یہ سب نو ایجاد کام ہیں۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ ’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ عل��ہ وسلم نے ایک بلیغ وعظ ارشاد فرمایا، جس سے ہمارے دلوں میں خشیت پیدا ہوئی اور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ ہم نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے الوداع کہتے وقت نصیحتیں کی جاتی ہیں۔ تو ہمیں (کوئی خاص) وصیت فرمائیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (أُوُصِیکُمْ بِتَقْویٰ اللّٰہِ وَالسَّمِیْعِ وَالطَّاعَۃِ وَأِنْ کَانَ عَبْداً حَبَشِیاًّ، وَأِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ فَیَسَرَی اختِلاَفاً کَثِیْراً فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ عَضُوا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَأِنْ کُلَّ مُحْدَثَۃِ بِدْعَۃٌ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ) ’’میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور (حکم) سن کر تعمیل کرنے کی (وصیت کرتاہوں) اگرچہ ایک خلافائے راشدین کی سنت پر قائم رہنا۔ اسے داڑھوں سے (خوب مضبوطی سے) پکڑنا اور نئے نکالے جانے والے کاموں سے بچنا۔ کیونکہ ہر نیا نکالا جانے والا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو داؤد اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ قراردیا ہے۔ اسی طرح سوال میں استغفار اور درود شریف کے ورد کے متعلق جو سوال کیا گیا ہے، اس کا بھی یہی جواب ہے۔ وہ اگرچہ بامعنی کلام ہے اور وہ بنیادی طور پر کار ثواب اور شرعی عبادت ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ اس کے لئے صبح اور شام کا وقت مقرر کیا جائے یا ان اوقات میں ان کی ایک تعداد مقرر لی جائے جس میں کمی بیشی نہ کی جائے۔ یا شیخ اپنے مرید سے کسی خاص ذکر کا وعدہ لے، عبادت میں اس طرح کی تخصیص بدعت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ) ’’جس نے ہمارے اس دین میں اسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘ اس حدیث کو بخاری اور مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: (مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَردٌّ) ’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں ہے وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘ لیکن جو شخص اس مقرر تعداد سے یا اس مقرر وقت پر ان الفاظ کے ساتھ ذکر کرے جو صحیح احادیث میں مذکور ہیں تو یہ بہت ا چھی بات ہے۔ مثلاً یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ قَالَ: لاَ أِلٰہَ أِِللّٰہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَئي قَدِی��رٌ فِي یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ کَانَتْ لَہُ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ وَکُتِبَتْ لَہُ حَسَنَۃٍ وَمُحِیَتُ عَنْہُ مِاۂ سَیَّئَۃٍ وَکَانَتْ لَہُ حِرْزاً مِنَ الشَّیْطَانِ یَوْمَہُ ذٰالِکَ حَتَّی یُمْسِیَ، وَلَمْ یَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَائَ بِہِ أِلاَّ رَجُلٌ عَمِلَ أَکْثَرَ مِنْہُ) ’’جو شخص دن میں سو بار کہے: لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وطو علی کل شي قدیر اسے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور اس کے لئے سونیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کے سو گناہ معاف ہوجائیں گے اور وہ اس دن شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا اور کسی کا عمل اس سے افضل نہیں ہوگا مگر جس نے اس سے زیادہ عمل کیا۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ قَالَ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ فِي یَوْمٍ مِائَۃَ مَرَّۃٍ حُطَّتْ عَنْہُ خَطَایَاہُ وَأِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ) ’’جس نے ایک دن میں سو مرتبہ سبحان اللّٰه وبحمدہ کہا، اس کے گناہ معاف ہوجائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایات کیا ہے۔ اس طرح کے دیگر اذکار جن کے وقت اور تعداد کا تعین احادیث سے ثابت ہوجائے، ان کے وقت اور تعداد کا خیال رکھنا مشروع ہے بشرطیکہ اس کی کیفیت میں کسی قسم کی بدعت شامل نہ ہوجائے۔ ورنہ وہ ذکر مذموم بدعت میں شمار ہوگا جس طرح یہ جواب کی ابتدا میں بیان کیا جاچکا ہے۔ کبھی کبھار بدعت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اس میں فوت شدہ یا دور دراز جگہ پر موجود بزرگوں سے مدد طلب کی جاتی ہے اور مشکلات کے حل کی درخواست کی جاتی ہے، اس طرح شرک اکبر کا ارتکاب ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۷۷۸۱) فتاوی ابن باز ( ج ۲ ص ۱۸۵، ۱۸۶، ۱۸۷ ) #B200177 ID: B200177 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
risingpakistan · 3 years ago
Text
بابا بُلّھے شاہ
اربوں کھربوں سال سے بنی اس دنیا میں وقت کی لہریں یوں ہی گزرتی رہی ہیں اور گزرتی جائیں گی۔ انسان بھی آتے ہیں اور لہروں کی طرح گزر جاتے ہیں لیکن ہمیشہ وہ انسان دنیا اور دلوں میں گھر بناتے ہیں جو اس دنیا میں کچھ کر جاتے ہیں۔ وہ چلے بھی جائیں لیکن دنیا انہیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔کبھی لفظوں میں کبھی یادوں میں اور کبھی مزاروں کی شکل میں، اور بزرگ برصغیر پاک و ہند میں بے شمار صوفی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے برصغیر کی اس سرزمین میں اسلام پھیلانے کیلئے آخری سانس تک بے شمار کوششیں کیں۔ وہ ساری کوششیں چاہے ان کی زندگی میں پوری نہ ہو سکیں لیکن ��ن کی تعلیمات اور کردار روشن ستاروں کی طرح اس دنیا میں قائم رہے۔ ان کی قبروں پر آج بھی لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اور انہیں ایصال ثواب کرتا ہے۔ ان صوفیاء کرام نے جہالت ختم کرنے کیلئے اس سرزمین پر بے شمار کوششیں کیں، مشکلات برداشت کیں اور قربانیاں دیں جو لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔
انہی ناموں میں ایک نام حضرت بابا بلھے شاہ کا ہے۔ قصور شہر کا نام اور بابا بلھے شاہ کا نام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جہاں قصور کا نام لیا جائے وہاں بابا بلھے شاہ کا نام بھی ساتھ ہی لیا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے ہمارا قصور جانے کا اتفاق ہوا، دل میں بہت شوق تھا کہ بابا بلھے شاہ کا مزار دیکھیں۔ لاہور سے 28 کلومیٹر دور قصور کا چھوٹا سا شہر ہے۔ قصور پہنچ کر چار پانچ کلومیٹر دائیں جانب ایک چھوٹا سا پسماندہ گاوں ہے جو آج بھی اتنا ہی پسماندہ ہے جتنا کہ بابا بلھے شاہ کے زمانے میں ہو گا۔ آج بھی سائیڈوں پر بنے ہوئے بنوں پر لوگ بے کار بیٹھے رہتے ہیں۔ کچے پکے راستوں اور کھیتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ہم مزار شریف کے پاس پہنچے۔ مزار کے آس پاس ایک چھوٹا سا شہر آباد ہے جہاں زیادہ مچھلی اور فالودے کی دکانیں موجود ہیں۔ کار پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے کچی جگہوں کو پار کرتے ہوئے ہم نے مزار کا رخ کیا۔ ان کچی جگہوں پر زیادہ قبریں ہی بنی ہوئیں تھیں۔
ایک لمبی قطار کے ساتھ چلتے ہوئے ہم مزار کے احاطے میں داخل ہوئے۔ وہاں سے وضو کیا اور مزار کے اندر کا رخ کیا۔ بے شمار رش اور چاہنے والے روزانہ سیکڑوں کے حساب سے حاضری دینے آتے جاتے رہتے ہیں۔ مزار کے ایک طرف ایک کمرہ تعمیر ہے جہاں ہر وقت قوالی کا انتظام ہے جو موسیقی بابا بلھے شاہ کی زندگی کا حصہ تھی۔ وہ آج بھی وہاں پر اسی طرز پر چلتی رہتی ہے۔ نہ کر بندیا میری میری نہ تیری نہ میری تو ایں خاک دی ڈھیری
کوٹھیاں بنگلے سب ٹر جانے جدوں لیکھاں نے اکھ پھیری
پنجابی صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کو بخاری سید بھی کہتے ہیں۔ ان کا نام عبداللہ شاہ تھا، ان کے والد کا نام شاہ محمد درویش تھا جو مسجد کے امام تھے۔ بابا بلھے شاہ کی پیدائش اوچ شریف میں ہوئی۔ ان کے والد بچوں کو قرآن پاک پڑھاتے تھے۔ بابا بلھے شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ قرآن، حدیث اور منطق کی تعلیم قصور سے حاصل کی۔ گلستان استاد بھی پڑھی۔ دنیا کے علم حاصل کر کے بھی ان کا دل مطمئن نہ ہوا۔ بابا بلھے شاہ حافظ غلام مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے اور ان سے عربی، فارسی اور تصوف کی تعلیم بھی حاصل کی۔ وارث شاہ نے بھی حافظ غلام مرتضیٰ سے تعلیم حاصل کی۔ 
حافظ غلام مرتضیٰ کہا کرتے تھے۔ مجھے دو ایسے عجیب شاگرد ملے ہیں ایک بلھے شاہ ہے جو تصوف کی تعلیم حاصل کرے اس نے ایک ہاتھ میں سارنگی پکڑ لی اور دوسرا وارث شاہ جو عالم دین بن کر تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہیرا رانجھے کے گیت گانے لگا۔ بابا بلھے شاہ اپنی شاعری میں نہ صرف مذہبی ضابطوں پر تنقید کرتے ��لکہ ترک دنیا کو بھی بھرپور انداز میں مذمت کرتے اور محض علم جمع کرنے کو وبال جان قرار دیتے ہیں۔ علم بغیر عمل کے بے کار ہے۔ بابا بلھے شاہ کے دور میں مغ��یہ سلطنت داخلی اور خارجی مسائل کا شکار تھی، معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا، انسان بے بس ہو چکا تھا۔ لوگ ایک خدا کی عبادت کرنے کی بجائے توہمات میں الجھے ہوئے تھے لیکن بابا بلھے شاہ کو اللہ کی طرف سے یہ خوبی عطا تھی کہ وہ انسان کو تصویر کا دوسرا رخ سمجھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں نے انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اے ابن آدم تو کچھ بھی نہیں تیری کوئی شناخت نہیں تو مٹی کی ڈھیری ہے بس وہ ایک درویش آدمی تھے۔
 یہ درویشی صفت ساری عمر ان کے ساتھ رہی۔ بابا بلھے شاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور کے چشم دید گواہ ہیں۔ اس لیے مفتی ان کے خلاف تھے۔ انہیں کافر کہہ رہے تھے۔ مغل سکھوں کا قتل عام کر رہے تھے اور سکھ مغلوں کو مار رہے تھے۔ بلھے شاہ نے صوفیانہ شاعری کے ذریعے اورنگ زیب عالمگیر کی حکمرانی کو چیلنج کیا۔ مفتیوں نے فتوے دیئے کہ ان کی شاعری کافرانہ ہے اس لیے ان کو ملک بدر کر دیا جائے۔ بلھے شاہ کا انسانیت سے بھرپور کلام اپنے جوبن پر تھا۔ اس وقت بلھے شاہ قصور کو خیرباد کہہ کر لاہور آ گئے۔ عوام کو محبت اور انسانیت کا درس دینا شروع کیا۔ ایسے شخص کو کیسے ریاست اور اس کے حلقے بے باکی سے زندہ رہنے دیتے۔ یہ سچ کی ریاستوں کے ٹھیکیداروں کیلئے خطرناک تھا۔ اس لیے لوگوں کو یہ سمجھ آ رہا تھا کہ یہ درویش مختلف بات کر رہا ہے۔ مفتیوں کو چیلنج کر رہا ہے، عشق ان کی طاقت تھی۔ ان کو مارنا مشکل تھا۔ 
بابا بلھے شاہ کا انتقال 1757 عیسوی میں قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔ ان کے عقیدت مند آج بھی ان کے مزار پر ہر سال ان کی صوفیانہ شاعری گا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں ایک طرف شیشے کے کیس میں بابا بلھے شاہ کا عمامہ شریف اور ستار بھی موجود ہے۔ ایک حصے میں ان کے کلام کو گا کر سنایا جاتا ہے اور لوگ بڑے اشتیاق سے سنتے ہیں۔ سارا دن لوگوں کے ہجوم آتے جاتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کیلئے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ اس دنیا کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں وہ کبھی بھی نہیں مرتے۔ قصوری میتھی ایک خاص سوغات ہے جو ان کے مزار پر لوگ کثرت سے خریدتے ہیں۔ ہم نے بھی فاتحہ خوانی کی اور سارا دن قصور میں گزارا اور یہ دن ہماری زندگی کا ایک بہت اہم اور یادگار دن تھا کہ ہم نے ایک صوفی شاعر کے مزار پر حاضری دی۔
روبینہ شاہین
بشکریہ روزنامہ جسارت
0 notes
googlynewstv · 3 years ago
Text
کوک اسٹوڈیو کا آغاز عاطف اسلم کی حمد سے ہوگا
کوک اسٹوڈیو کا آغاز عاطف اسلم کی حمد سے ہوگا
عاطف اسلم نے کوک اسٹوڈیو سیزن 8 میں مشہور صوفیانہ کلام “تاجدار حرم” پڑھا جسے سب سے زیادہ پزیرائی ملی۔ یہ کوک اسٹوڈیو پاکستان کی تاریخ کا مقبول ترین کلام بھی ہے جسے ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب پر اب تک 10 کروڑ سے زائد بار دیکھا جاچکا ہے۔ کوک اسٹوڈیو سیزن 12 بس ایک دن کی دوری پر ہے اور ممکن ہے کہ اس کی پہلی قسط کا آغاز ہی سب کے دلوں پر راج کرنے والے عاطف اسلم کی حمد سے ہو۔ اس بار کوک اسٹوڈیو سیزن…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
urdu-poetry-lover · 10 months ago
Text
صوفیانہ کلام
بیدم شاہ وارثی
اگر کعبـے کا رُخ بھی جانبِ میخانہ ہو جائے
تو پِھر سجدہ میری ہر لغزشِ پیمانہ ہو جائے
وہی دِل ہـے جو حُسن و عشق کا کاشانہ ہو جائے
وہی سر ہـے جو کِسی تیغ کا نذرانہ ہو جائے
یہ اچھی پردہ داری ہـے، یہ اچھی راز داری ہـے
کہ جو آئے تمہاری بزم میں دیوانہ ہو جائے
میرا سَر کٹ کے مقتل میں گِرا قاتل کے قدموں پر
دمِ آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے
تیری سرکار میں لایا ہوں ڈالی حسرتِ دِل کی
عجب کیا ہـے میرا منظور یہ نذرانہ ہو جائے
وہ سجدے جِن سے برسوں ہم نے کعبـے کو سجایا ہـے
جو بُت خانے کو مِل جائیں تو پِھر بُت خانہ ہو جائے
یہاں ہونا نہ ہونا ہـے ، نہ ہونا عین ہونا ہـے
جِسے ہونا ہو کچھ خاکِ دِرِ جاناہ ہو جائے
سحر تک سب کا ہـے انجام جل کر خاک ہو جانا
بنے محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے -
وہ مے دے دے جو پہلے شِبلی و منصور کو دی تھی
تو بیدمؔ بھی نِثارِ مرشدِ میخانہ ہو جائے
بیدمؔ شاہ وارثی
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
لوک فنکار علن فقیر کو مداحوں سے بچھڑے 21 برس بیت گئے - اردو نیوز پیڈیا
لوک فنکار علن فقیر کو مداحوں سے بچھڑے 21 برس بیت گئے – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین پاکستان کے لوک فنکار علن فقیر کو مداحوں سے بچھڑے 21 برس بیت گئے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ کے ایک چھوٹے سے گاوں میں پیدا ہونے والے علن فقیر کا تعلق منگراچی قبیلے سے تھا جنہیں صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی سے خاص عقیدت تھی۔ سندھ کا روایتی لباس پہن کر مخصوص انداز میں صوفیانہ کلام پیش کرنے والے علن فقیر وادی سندھ کی تہذیب اور ثقافت کے علمبردار تھے۔ ایک عرصے تک ان کے مزار پر…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
azharniaz · 3 years ago
Text
عالم لوہار وفات 3 جولائی
عالم لوہار وفات 3 جولائی
محمد عالم لوہار (ولادت: 1 مارچ 1928ء— وفات: 3 جولائی 1979ء) پاکستان کے لوک گلوکار اور موسیقار تھے۔ اُنہیں پاکستانی لوک موسیقی کا شہنشاہ بھی کہا جاتا تھا۔ جگنی اُن کی وجہ شہرت ہے۔ عالم لوہار کی پیدائش 1 مارچ 1928ء میں ضلع گجرات کے تحصیل کھاریاں کے ایک قصبہ اچہ میں ہوئی۔ وہ لوہار کے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن میں ہی عالم نے پنجابی کہانیوں اور شاعری کا مجموعہ صوفیانہ کلام پڑھا اور بچپن ہی سے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
isidefenders · 4 years ago
Photo
Tumblr media
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ۔ پاکستان کے معروف فوک گلوکار شوکت علی سی ایم ایچ ہسپتال میں انتقال کر گئے، وہ طویل عرصے سے جگر کے عارضے میں مبتلا تھے، اور سی ایم ایچ اسپتال لاہور میں زیر علاج تھے۔ شوکت علی کے بیٹے امیر شوکت علی نے والد کے انتقال کی تصدیق کردی ہے۔ گزشتہ روز بھی شوکت علی کے بیٹے نے اپنے والد کی صحت کےلئے دعا کی اپیل کرتے ہوئے بتایا تھا کہ شوکت علی کی طبیعت انتہائی ناساز ہے، اور ان کے جگر نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ گلوکار شوکت علی طویل عرصے سے جگر کے عارضے میں مبتلا رہے، گزشتہ برس وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی ہدایت پر انہیں سندھ کے گمبٹ انسٹی ٹیوٹ میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ کئی روز زیر علاج رہے تاہم پھر اکتوبر 2020 میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی خصوصی ہدایت پر انہیں سی ایم ایچ لاہور میں داخل کرایا گیا تھا۔ گجرات ملاکوال کے فنکار گھرانے تعلق رکھنے والے فوک گلوکار شوکت علی نے صوفیانہ کلام اور پنجابی گانوں کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا، 1965ء کی جنگ میں ان کا گایا ہوا ملی نغمہ، ’’جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ اب بھی جوانوں کا لہو گرماتا ہے، حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 1990 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ اللہ مغفرت فرماۓ https://www.instagram.com/p/CNKk19JpYce/?igshid=1l1mis5ssm6yi
0 notes
swstarone · 4 years ago
Text
عابدہ پروین کے صوفیانہ کلام سے جرمن سفیر پرسحرطاری
عابدہ پروین کے صوفیانہ کلام سے جرمن سفیر پرسحرطاری
پاکستان میں تعینات جرمن سفیر برن ہارڈ شلیگ ہیک لیجنڈ صوفی گلوکاراعابدہ پروین کے مداح نکلے۔ تفصیلات کے مطابق شلیگ نےعابدہ پروین کی آواز کو جادوئی آواز سے تشبہ دے ڈالی۔ In absolute awe of soul-stirring melodies of the Queen of #Sufi music, #AbidaParveen! Even for those who don’t understand the language, her music is mesmerizing & moving. #HappyBirthday, Abida ji! Your contribution to mystic…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
nowpakistan · 5 years ago
Photo
Tumblr media
راحت فتح علی خان کوک اسٹوڈیو کے 12ویں سیزن میں بھی جلوہ گر شہنشاہ قوال نصرت فتح علی خان کے شاگرد اور معروق قوال و گلوکار راحت فتح علی خان کوک اسٹوڈیو کے 12ویں سیزن میں جلوہ گرہوں گے۔ صوفیانہ کلام دم مستم در اصل ایک دھمال ہے جس میں قوالی اور فوک کی جھلک نمایاں ہے۔
0 notes
urdunewspedia · 3 years ago
Text
صدارتی ایوارڈ یافتہ لوک گلوکار الن فقیر کی 21 ویں برسی آج منائی جارہی ہے - اردو نیوز پیڈیا
صدارتی ایوارڈ یافتہ لوک گلوکار الن فقیر کی 21 ویں برسی آج منائی جارہی ہے – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین  لاہور: صدارتی ایوارڈ یافتہ لوک گلوکارالن فقیر کی 21 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ صوفیانہ کلام میں جداگانہ انداز رکھنے والے لوک گلوکارالن فقیراندرون سندھ کے گاؤں آمڑی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق منگراچی قبیلے تھا، سندھ کے روایتی لباس میں ملبوس الن فقیر نے اپنی مخصوص گائیگی کے ذریعے صوفیانہ کلا م کو جس انداز میں پیش کیا، وہ صوفیانہ شاعری سے انکی محبت کا واضح ثبوت ہے۔ الن…
View On WordPress
0 notes
dailyshahbaz · 5 years ago
Photo
Tumblr media
”ڈیر کڑیدلے یمہ، ڈیر ژڑیدلے یمہ“ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ وہ پشتو موسیقی کے لئے جزو لازم تھے۔ کیا فلم، کیا ریڈیو اور کیا ٹیلی ویژن، موسیقی کی کوئی بھی محفل ہو، ان کے بغیر نامکمل تھی۔ وہ فوکلور گاتے تو ماحول میں پھول کھلتے، غزل کی طرف آتے تو سننے والے مبہوت رہ جاتے، صوفیانہ کلام شروع کرتے تو حاضرین محفل وجد میں آکر جھوم اٹھتے غرض پشتو موسیقی میں ان کا ہر کمال اپنے آپ میں ایک کارنامہ ہے۔ پشتو کی پہلی اور تاریخ ساز فلم ''یوسف خان شیربانو" کے گانے انہوں نے گائے تھے تو یہاں اپنے بے مثال فن، ہنر اور دلفریب آواز کی وجہ سے ان کو پشتو موسیقی کے محمد رفیع کے نام سے پکارا جاتا۔ پاپولر ہٹ " یمہ د ٹرک ڈرائیور" اور کلاسیکل " ڈیر ژڑیدلے یمہ۔۔۔ ڈیر کڑیدلے یمہ" جیسے بے مثال کارنامے بھی ان کے حصے میں آئے ہیں۔ وہ اگر امریکہ، دبئی اور یورپی ملکوں میں مشہور تھے اور وہاں جا کر آب و تاب کے ساتھ موسیقی کی محفلیں برپا کرتے تو افغانستان میں ان کو اپنی فنی رفعت کی وجہ سے شاہی مہمان کا درجہ دیا جاتا۔ انہوں نے اگر پشتو کے پانچ سو سے زیادہ بے مثل اور بے بدل گانے گائے ہیں تو ہندکو اور پنجابی کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔ آہ، پشتو موسیقی کا یہ درخشندہ آفتاب 29 ستمبر کو ایک ایسی قوم کے بیچ غروب ہوا جو ان کے مداح تو تھے لیکن بدقسمتی سے ان کے سخت ایام میں ان کے اپنے نہ بنے۔ وہ پچھلے پندرہ سال سے پھولوں کے شہر پشارو میں کاکشال قدیم کے ایک محلے میں کرائے کے ایک گھر میں گمنامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ صرف گمنامی کی نہیں بلکہ جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کے بھنور میں بھی پھنس چکے تھے۔ پچھلے کئی سالوں سے نہ تو وہ چل پھر سکتے تھے اور نہ بات مکمل کر سکتے تھے۔ ان کی یادداشت ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ وہ خوددار اتنے تھے کہ نہ کبھی میدان میں گایا اور نہ کسی کی شادی میں جا کر گایا۔ انہوں نے گایا تو صرف پیشہ ورانہ اصولوں کو مد نظر رکھ کر۔ یہ تھے پشتو موسیقی کے بے تاج بادشاہ ہدایت اللہ استاد جو 1940 میں نوشہرہ کے علاقے ڈاگ بیسود میں پیدا ہوئے تھے۔ سکول میں ہی تھے کہ ایک دن استاد نے ان سے محمد رفیع کی آواز میں گانا گنوایا۔ پھر میٹرک کے بعد خاندان کے ساتھ پشاور منتقل ہوئے۔ یہاں ان کو 1960 کے عشرے میں ڈبگری گارڈن میں پیر سید عبد الستارشاہ باچا المعروف بادشاہ جان کے آستانے پر ہفتہ وار محفل سماع میں اپنے ایک مرشد کے کہنے پر صوفیانہ کلام گانے کا موقع ہاتھ آیا اور اسی طرح یہ ان کا معمول بن گیا۔ پھر 1963 میں مرحوم ہدایت اللہ استاد ریڈیو پاکستان پشاور سنٹر چلے گئے جہاں سے ان کو اپنے آل ٹائم ہٹ گیت "ڈیر ژڑیدلے یمہ۔۔۔ ڈیر کڑیدلے یمہ، ستا سترگو خوڑلے یمہ " سے گائیکی کا موقع ملا۔ اور اس کے بعد موسیقی کے میدان میں ان کی بلندیوں کا سفر شروع ہو گیا۔ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر انہوں نے اس دور کے بڑے ناموں جن میں استاد احمد خان، استاد خیال محمد، گلنار بیگم، استاد سبز علی خان اور کشور سلطان شامل ہیں کے درمیان اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ اپنے فن کے ساتھ بے پناہ اخلاص نے ان کو وہ شہرت اور عزت دی کہ بادشاہ بھی ان کے ساتھ ملاقات کو اپنے لئے باعث عزت و افتخار سمجھتے۔ اور یہی وجہ تھی کہ 1969 میں افغانستان کے اس وقت کے بادشاہ ظاہر شاہ نے مرحوم ہدایت اللہ استاد کو نہ صرف افغانستان بلایا بلکہ ان کو شاہی مہمان کا درجہ بھی دیا۔ انہوں نے پشتو کے پانچ سو سے زیادہ گانے گائے اور ہر ایک گانے کا اپنا الگ تشخص برقرار رکھا کیونکہ وہ گانے کے ساتھ ساتھ کمپوزیشن اور موسیقی کے رموز و اسرار اور باریکیوں سے بھی باخبر تھے۔ مرحوم صرف ایک گائیک نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنے ذریعہ معاش کا بھی انتظام کیا تھا اور ساٹھ کے عشرے سے ہی محکمہ زراعت میں بھرتی ہوئے تھے جہاں سے وہ سن دو ہزار میں سینیئر کلرک کی حیثیت سے سبکدوش ہو گئے تھے۔ ان کی اعلی فنی خدمات کے بدلے میں ان کو 1997 میں صدارتی ایوارڈ پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ان کے حصے میں ان گنت بین الاقوامی اور ملکی ایوارڈز آئے۔ ان کا فن ہی ایسا تھا کہ ان پر کوئی بھی ایوارڈ اور انعام سجتا۔ انہوں نے اگر ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے لئے سدا بہار گیت گائے تو پشتو فلم کی بھی وہ ہی پہچان تھے۔ اور وہ بھی اس دور میں جب پشتو فلموں کا اپنا ایک دور تھا اور لوگ ہر ریلیز ہونے والی فلم انتظار کرتے تھے۔ اس لئے آج بھی آپ پشتو کی کوئی بھی ہٹ اور کلاسک فلم نکالیں تو اس میں آپ کو مرحوم ہدایت اللہ کی آواز سنائی دے گی۔ جو فلمیں ان کی آواز کے جادو سے آج بھی باکمال ہیں ان میں ''دیدن"، "اوربل"، "جوارگر"، "غازی کاکا" اور "علاقہ غیر" وغیرہ شامل ہیں۔ ان کا فوکلور بھی بے مثل تھا۔ وہ ٹپہ گاتے تو ان کی آواز ٹپہ کی تمام رعنائیوں کو ساتھ لے کر فضا میں ثقافتی مہک کے رس گھولتی۔ یہ تھے ہمارے موسیقی کے بیتاج بادشاہ جو ہم سے کچھ اس ادا سے بچھڑے کہ نہ رت بدلی اور نہ کوئی شہر ویران ہوا، نہ کوئی آنکھ بھر آئی اور نہ کسی نے ان کے جانے کو کوئی بڑا سانحہ قرار دے دیا۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کے جنازے میں کم از کم کوئی حکومتی اہلکار ہی شریک ہوجاتا۔ چلو شرکت نہ سہی کوئی ایک بیان تو داغ دیتے۔ اگر ان کے بارے میں معلوم نہ تھا تو اپنے کسی معاون سے پوچھ لیتے کہ یہ کون مرا ہے۔ حیف و افسوس۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ غربت میں مرے یا ان کے آخری ایام زندگی کیسے کٹے۔ ہم تو یہ رونا رو رہے ہیں کہ آخر کیوں ہم اپنی ثقافت کے دیوتاں کو رتی بھر عزت نہیں دیتے۔ ہم ان کا کام دیکھ، سن کر واہ واہ تو کرتے ہیں لیکن ان کی مشکلوں سے ایسے دور بھاگتے ہیں جیسے برہمنوں کا رویہ اچھوتوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ماشااللہ ثقافت کا ایک محکمہ بھی ہے جو فنکاروں کو ماہانہ کوئی وظیفہ بھی دے رہا ہے۔ لیکن یہ سن کر بہت تکلیف ہوتی ہے کہ ہم ان جیسے بڑے ناموں کے جنازوں میں شرکت کے لئے وقت بھی نہیں نکال سکتے۔ دنیا میں جتنی بھی زندہ اور ترقی کے راستے پر گامزن اقوام ہیں، وہ نہ صرف اپنی ثقافت، کلچر اور روایات کو زندہ رکھتی ہیں بلکہ ان ہیروز، نامور ستاروں کو بھی عزت کے ساتھ یاد رکھتے ہیں جنہوں نے اس قوم اور ملک کی ثقافت کو نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہو۔ اس حوالے سے بدقسمتی سے ہمارا قومی اور ملکی کردار قابل ستائش نہیں رہا ہے۔ ہمارے پشتو زبان کے کتنے فنکار اور اداکار ہیں جو کبھی ہمارے ہاں موسیقی اور ڈرامے کے میدان کے سرخیل تھے لیکن آج کسی کو کچھ پتہ ہے کہ وہ کہاں کہاں اور کیسی زندگی گزار رہے ہیں اور کتنے ہیں جو معاشی اور دیگر تکالیف کے باعث اس تگ و دو میں ہیں کہ کب باہر چلے جائیں۔ ہمیں اگر اپنی ثقافت اور روایات کا احساس ہوتا تو ان کے لئے کچھ کرتے۔ اس انڈسٹری کے لئے کچھ کرتے۔ لیکن یہ تب ہو سکتا ہے جب ہمیں یہ احساس یا علم ہوتا کہ فنون لطیفہ کا کسی معاشرے میں کیا کردار ہوتا ہے۔ فن کیا ہوتا ہے اور فنکار کسے کہتے ہیں۔ ایک شاعر جب کچھ لکھتا ہے تو وہ اپنا قلم خونِ جگر میں ڈبو کر لکھتا ہے۔ ایک گائیک جب کچھ گاتا ہے تو اس وقت اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ ایک اداکار جب اپنے آپ کو کسی کردارمیں ڈھالتا ہے تو وہ کن جذباتی مراحل سے گزرتا ہے، ایک آرٹسٹ جب کسی لمحے کو کینوس پر قید کرتا ہے تو وہ اپنے خیال کی کس دنیا میں گم ہوتا ہے، ایک لکھاری جب کوءِی افسانہ لکھتا ہے تو وہ کس کرب سے گزر کر اپنے تجربے کو ہم لوگوں کے ساتھ شریک کر رہا ہوتا ہے۔ ان جیسے لوگوں کے ساتھ اٹھ بیٹھ کر ہم نے صرف ایک ہی بات سیکھی ہے کہ انہیں کسی اور چیز کی نہیں بلکہ داد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہم کیا دیتے ہیں۔ وہ ہم بھی جانتے ہیں اور ہمارے ثقافت کے یہ امین بھی۔ ہم اگر ایسے ہی اپنے ان محسنوں کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کرتے رہیں گے تو جہاں ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی وہاں ہمارا ہر ہدایت اللہ (اگرچہ دوسرا ہدایت اللہ اب مشکل سے ہی پیدا ہوگا) اٹھ کر ہی کہے گا کہ ”ڈیر کڑیدلے یمہ، ڈیر ژڑیدلے یمہ“۔
0 notes