#شیعہ سنی فساد
Explore tagged Tumblr posts
googlynewstv · 2 months ago
Text
پاڑہ چنار میں شیعہ سنی فساد کے بعد پیناڈول کی گولی بھی دستیاب نہیں
خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں حالیہ فرقہ وارنہ فسادات میں 200 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد سے نہ ختم ہونے والی کشیدگی کے باعث کُرم کے صدر مقام پاڑہ چنار جانے والی رابطہ سڑکیں مسلسل بند ہیں۔ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ علاقے میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے اور پیناڈول سمیت بنیادی ادویات بھی سرے سے میسر ہی نہیں۔ بی بی سی کی ایک خصوصی ٹیم نے حال ہی ضلع کرم کا دورہ کیا اور…
0 notes
humlog786-blog · 6 years ago
Text
ہم اتنے سنگ دل کیوں ہوگئے ہیں : میر افضل خان طوری
Tumblr media
پاکستانیوں کی اکثریت مذہب، عقیدے ، مسلک ، زبان اور علاقے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قتل کا جواز فراہم کرنے کی مذموم کوشش کرتی ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ریاست کے اندر یہ کونسے لوگ ہوتے ہیں جو ملک کا قانون ہاتھ میں لے کر جب چاہیں اختلاف رکھنے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اسی بنیاد پر علماء کرام، وکلاء، ڈاکٹرز ، انجنیئرز ، سرکاری عہدایداران، سیاست دان ، اکانومسٹ ، ادیب ، شاعر اور صحافیوں کا قتل عام جاری ہے۔ ہم ہر قتل کو اسی شخص کی ذات ، مسلک ، عقیدے، مذہب اور زبان کی بناء پر جسٹفائی کرنے کی ناکام کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اگر کوئی بہت بڑا شیعہ مسلمان قتل ہوجا تا ہے تو ہمارے منہ اس سفاک قاتل کیخلاف بند ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ چلو اچھا ہوا ایک گستاخ صحابہ تو کم ہوگیا۔ اگر کوئی سنی مسلمان ظالم کی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کیوں ہمیں ان کا انتہا پسندانہ رویہ یاد آجاتا ہے اور ہم اس کے قتل کا اپنے دل میں یہ جواز فراہم کرتے ہیں کہ بہت اچھا ہوا۔ ایک دشمن آل محمد(ص) تو کم ہوگیا۔ اگر کوئی پشتون اور بلوچ قتل ہو جا تا ہے تو ہم فوری طور پر اس کو ملک ، ریاست اور اداروں سے دشمنی کا نتیجہ قرار دے دیتے ہیں۔ یہ کہ کر اپنے ضمیر کو مطمعن کر دیتے ہیں کہ چلو آج ملک سے ایک ملک دشمن تو کم ہوگیا۔ اگر کہیں سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ اور دھماکے ہوتے ہیں تو ہم انکی موت کو انکے ادارے کے کرتوتوں کا شاخسانہ قرار دے دیتے ہیں۔ ہم یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ جس نے بھی ان کو مارا ہوگا، انکے ساتھ سیکیورٹی اداروں نے ضرور کوئی زیادتی کی ہوگی۔ بحیثیت ایک زندہ قوم ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ آخر وہ کونسی قوت ہے جو اس ملک کا قانون ہاتھ میں لے کر جس کو چاہتی ہے قتل کر دیتی ہے۔ وہ کونسی قوت ہے جو اس ملک میں بدترین خون ریزی اور فساد پرپا کر رہی ہے۔ اس کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ مذہب، عقیدے، مسلک اور زبان کے بنیاد پر لوگوں کو جینے کے حق سے محروم کر دے۔ مگر افسوس کہ ہم ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے اور قاتل کا سراغ لگانے کی بجائے اپنےاپنے عقیدے کے بنیاد پر اس قتل کا جواز فراہم کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم مل کر ہر قتل پر اپنی آواز بلند کرتے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ایک ہوجاتے تو آج ہمارے گلیاں، محلے اور بازار اتنے غیر محفوظ نہ ہوتے۔ Read the full article
0 notes
mypakistan · 10 years ago
Text
نثار علی کی نثاریاں.......
جس زمانے میں ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریکِ بحالیِ جمہوریت عروج پر تھی تو اسٹیبلبشمنٹ نے احتجاجی جلوسوں کا زور توڑنے کے لیے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ چلتے جلوس میں کچھ سادہ لباس سیاسی ورکر ٹائپ چہرے شامل کروا دیے جاتے۔
یہ ورکر جمہوریت زندہ باد، ضیا الحق مردہ باد کے نعرے لگواتے لگواتے جلوس کو مقررہ راستے سے بھٹکا کر اس جانب لے جاتے جہاں پولیس کی قیدی گاڑیاں کھڑی ہوتیں اور پھر مظاہرین کی پکڑ دھکڑ میں حکومت مخالف نعرے لگوانے والے یہ سادے بھی شامل ہو جاتے۔
 جانے کیوں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو دیکھ کر ایم آر ڈی کے جلوس کو بھٹکانے کی ڈیوٹی پر مامور وہ سادہ لباس نعرہ باز یاد آجاتا ہے۔
منگل سے جاری اچھا بھلا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جب یہ تاثر دینے لگا کہ جمہوری نظام کو لپیٹنے کی بالائے آئین سازشوں کے خلاف 99 فیصد سیاسی جماعتیں اپنے نظریات و شکایات سے بالاتر ہ�� کر دیوار کی صورت کھڑی ہیں اور ان کی ساری توجہ دھرنے کی غیر پارلیمانی سیاست ختم کرانے پر ہے۔ عین اس وقت ملک میں امن و امان کے قیام کے ذمہ دار وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی رگِ پراسراریت پھڑکی۔
انہوں نے اپنے کولھے سے لگی گن سیدھی کر کے سینیٹ کے قائدِ حزبِ اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن پر داغ دی اور ان پر لینڈ مافیا کے مقدمے لڑنے اور ایل پی جی گیس کا ناجائز کوٹا لینے کے الزامات لگا دیے۔
بندہ پوچھے کہ ان الزامات کی صحت سے قطع نظر ان کا ملک اور حکومت کو درپیش حالیہ بحران سے کیا براہ راست تعلق بن رہا ہے اور وہ بھی ایسے وقت جب پارلیمنٹ اور حکومت سڑک پر معاملات طے کرنے والوں کے محاصرے میں ہے۔
یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جس وزیرِ اعظم کا وزیرِ داخلہ اس کے کنٹرول میں نہیں تو پھر کس کے کنٹرول میں ہے
نتیجہ یہ ہوا کہ پارلیمنٹ کا چوتھا دن وزیرِ اعظم کی جانب سے معافی تلافی اور اعتزاز احسن کی دھواں دار جارحانہ صفائی کی نذر ہوگیا اور یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ جمہوریت اور آئین پسندوں کا اتحاد کیسے پل صراط پر کھڑا ہے۔
کچھ اور ہو نہ ہو اس پارلیمانی تماشے سے باہر کھڑے کنٹینری مقررین کے ہاتھ میں نیا ایمونیشن آگیا اور ٹی وی چینلوں کے اونگھتے ٹاک شوز میں ایک بار پھر زندگی پڑ گئی۔
اب یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جس وزیرِ اعظم کا وزیرِ داخلہ اس کے کنٹرول میں نہیں تو پھر کس کے کنٹرول میں ہے۔
انھی وزیرِ داخلہ نے اگست کے شروع میں کہا تھا کہ لاہور سے آنے والا لانگ مارچ اسلام آباد میں نہیں گھسنے دیا جائے گا۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ مارچ کو آبپارہ سے آگے کسی صورت نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ریڈ زون کی لکیر کسی صورت عبور نہیں کرنے دی جائے گی۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ریڈ زون سے آگے کسی صورت نہیں جانے دیا جائے گا۔
اور پھر یہ ہوا کہ مظاہرین نے کپڑے دھو کر سپریم کورٹ کے جنگلے سے لٹکا دیے۔ پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں صابن مل کے نہانا شروع کر دیا ، پی ٹی وی کی تاریں کاٹنے ک�� بعد کینٹین میں کھانا بھی اڑایا اور وزیرِ داخلہ ’اِب کے مار، اِب کے مار‘ ہی کرتے رہ گئے۔
آج وزیرِ اعظم پارلیمنٹ میں سر جھکا کے ہر تقریر سن رہے ہیں مگر وزیرِ داخلہ کا تنتنا کسی جنرل رومیل سے کم نہیں۔
کیا یہ وہی نثار علی خاں تو نہیں جنھوں نے اپنے بڑے بھائی اور سیکریٹری دفاع جنرل (ریٹائرڈ) چوہدری افتخار علی خاں مرحوم کے ساتھ مل کے منگلا کے کور کمانڈر جنرل پرویز مشرف کا نام بطور چیف آف آرمی سٹاف وزیرِاعظم کے سامنے رکھا تھا کہ ’اینہوں بنا لئو، سدھا سادھا اردو سپیکنگ بندہ لگدا جے۔‘
پُل ہیں یا ’پش اینڈ پل‘
لوگ کہتے ہیں چوہدری نثار کو ساتھ رکھنا میاں برادران کی مجبوری ہے بھلے اس کی قیمت جاوید ہاشمی جیسوں کی قیمت دے کر ہی کیوں نہ چکانی پڑے اور یہ کہ فوج اور میاں برادرز کے درمیان چوہدری نثار علی ہی ایک مضبوط پل ہیں مگر یہ کون طے کرے کہ یہ واقعی پل ہیں یا پش اینڈ پل ہیں اور یہ کہ اس پل کے کھلنے بند ہونے کی چابیاں کس کے پاس ہیں؟
کیا یہ وہی چوہدری صاحب تو نہیں جنھوں نے اسی جنرل پرویز مشرف پر عین اس روز آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمۂ بغاوت چلانے کا اعلان کیا جس دن راولپنڈی شیعہ سنی فساد سے جل رہا تھا تاکہ میڈیا کو کھیلنے کے لیے دوسری گیند مل جائے۔
اور کیا یہ وہی چوہدری صاحب تو نہیں جو بعد میں اس بات کے حامی ہو گئے کہ بغاوت کی فردِ جرم عائد ہونے کے بعد مشرف صاحب کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی جائے اور جب وزیرِ اعظم نے بات نہیں مانی تو چوہدری صاحب ایسے روٹھ گئے کہ کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھی ان کا فون ساری رات بند رہا۔
یہ کیسے وزیرِ داخلہ ہیں جنھوں نے اب سے ہفتہ بھر پہلے دھرنا بحران میں فوج کی ثالثی کی خبر دی مگر انھی کے وزیرِ اعظم نے بھری پارلیمان میں اس مبینہ کردار کی تردید کر دی اور پھر فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو ایک علیحدہ بیان جاری کرنا پڑ گیا۔
ان پے در پے ’ایفی شنسیوں‘ کے بعد مہذب یا غیر مہذب کی بحث سے قطع نظر کوئی اور ملک ہوتا تو اس کا وزیرِ داخلہ خود ہی استعفیٰ دے کر کنسلٹینسی سے پیسے کمانے شروع کر دیتا مگر پاکستان ’کوئی اور ملک‘ تو نہیں ہے۔
لوگ کہتے ہیں چوہدری نثار کو ساتھ رکھنا میاں برادران کی مجبوری ہے بھلے اس کی قیمت جاوید ہاشمی جیسوں کی قیمت دے کر ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔
اور یہ کہ فوج اور میاں برادران کے درمیان چوہدری نثار علی ہی ایک مضبوط پل ہیں۔ مگر یہ کون طے کرے کہ یہ واقعی پل ہیں یا پش اینڈ پل ہیں اور یہ کہ اس پل کے کھلنے بند ہونے کی چابیاں کس کے پاس ہیں؟
آدمی اپنی زبان کے نیچے ہے  - حضرت علی 
وسعت اللہ خان
0 notes
risingpakistan · 10 years ago
Text
نثار علی کی نثاریاں.......
جس زمانے میں ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریکِ بحالیِ جمہوریت عروج پر تھی تو اسٹیبلبشمنٹ نے احتجاجی جلوسوں کا زور توڑنے کے لیے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ چلتے جلوس میں کچھ سادہ لباس سیاسی ورکر ٹائپ چہرے شامل کروا دیے جاتے۔
یہ ورکر جمہوریت زندہ باد، ضیا الحق مردہ باد کے نعرے لگواتے لگواتے جلوس کو مقررہ راستے سے بھٹکا کر اس جانب لے جاتے جہاں پولیس کی قیدی گاڑیاں کھڑی ہوتیں اور پھر مظاہرین کی پکڑ دھکڑ میں حکومت مخالف نعرے لگوانے والے یہ سادے بھی شامل ہو جاتے۔
 جانے کیوں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو دیکھ کر ایم آر ڈی کے جلوس کو بھٹکانے کی ڈیوٹی پر مامور وہ سادہ لباس نعرہ باز یاد آجاتا ہے۔
منگل سے جاری اچھا بھلا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جب یہ تاثر دینے لگا کہ جمہوری نظام کو لپیٹنے کی بالائے آئین سازشوں کے خلاف 99 فیصد سیاسی جماعتیں اپنے نظریات و شکایات سے بالاتر ہو کر دیوار کی صورت کھڑی ہیں اور ان کی ساری توجہ دھرنے کی غیر پارلیمانی سیاست ختم کرانے پر ہے۔ عین اس وقت ملک میں امن و امان کے قیام کے ذمہ دار وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی رگِ پراسراریت پھڑکی۔
انہوں نے اپنے کولھے سے لگی گن سیدھی کر کے سینیٹ کے قائدِ حزبِ اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن پر داغ دی اور ان پر لینڈ مافیا کے مقدمے لڑنے اور ایل پی جی گیس کا ناجائز کوٹا لینے کے الزامات لگا دیے۔
بندہ پوچھے کہ ان الزامات کی صحت سے قطع نظر ان کا ملک اور حکومت کو درپیش حالیہ بحران سے کیا براہ راست تعلق بن رہا ہے اور وہ بھی ایسے وقت جب پارلیمنٹ اور حکومت سڑک پر معاملات طے کرنے والوں کے محاصرے میں ہے۔
یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جس وزیرِ اعظم کا وزیرِ داخلہ اس کے کنٹرول میں نہیں تو پھر کس کے کنٹرول میں ہے
نتیجہ یہ ہوا کہ پارلیمنٹ کا چوتھا دن وزیرِ اعظم کی جانب سے معافی تلافی اور اعتزاز احسن کی دھواں دار جارحانہ صفائی کی نذر ہوگیا اور یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ جمہوریت اور آئین پسندوں کا اتحاد کیسے پل صراط پر کھڑا ہے۔
کچھ اور ہو نہ ہو اس پارلیمانی تماشے سے باہر کھڑے کنٹینری مقررین کے ہاتھ میں نیا ایمونیشن آگیا اور ٹی وی چینلوں کے اونگھتے ٹاک شوز میں ایک بار پھر زندگی پڑ گئی۔
اب یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جس وزیرِ اعظم کا وزیرِ داخلہ اس کے کنٹرول میں نہیں تو پھر کس کے کنٹرول میں ہے۔
انھی وزیرِ داخلہ نے اگست کے شروع میں کہا تھا کہ لاہور سے آنے والا لانگ مارچ اسلام آباد میں نہیں گھسنے دیا جائے گا۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ مارچ کو آبپارہ سے آگے کسی صورت نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ریڈ زون کی لکیر کسی صورت عبور نہیں کرنے دی جائے گی۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ریڈ زون سے آگے کسی صورت نہیں جانے دیا جائے گا۔
اور پھر یہ ہوا کہ مظاہرین نے کپڑے دھو کر سپریم کورٹ کے جنگلے سے لٹکا دیے۔ پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں صابن مل کے نہانا شروع کر دیا ، پی ٹی وی کی تاریں کاٹنے کے بعد کینٹین میں کھانا بھی اڑایا اور وزیرِ داخلہ ’اِب کے مار، اِب کے مار‘ ہی کرتے رہ گئے۔
آج وزیرِ اعظم پارلیمنٹ میں سر جھکا کے ہر تقریر سن رہے ہیں مگر وزیرِ داخلہ کا تنتنا کسی جنرل رومیل سے کم نہیں۔
کیا یہ وہی نثار علی خاں تو نہیں جنھوں نے اپنے بڑے بھائی اور سیکریٹری دفاع جنرل (ریٹائرڈ) چوہدری افتخار علی خاں مرحوم کے ساتھ مل کے منگلا کے کور کمانڈر جنرل پرویز مشرف کا نام بطور چیف آف آرمی سٹاف وزیرِاعظم کے سامنے رکھا تھا کہ ’اینہوں بنا لئو، سدھا سادھا اردو سپیکنگ بندہ لگدا جے۔‘
پُل ہیں یا ’پش اینڈ پل‘
لوگ کہتے ہیں چوہدری نثار کو ساتھ رکھنا میاں برادران کی مجبوری ہے بھلے اس کی قیمت جاوید ہاشمی جیسوں کی قیمت دے کر ہی کیوں نہ چکانی پڑے اور یہ کہ فوج اور میاں برادرز کے درمیان چوہدری نثار علی ہی ایک مضبوط پل ہیں مگر یہ کون طے کرے کہ یہ واقعی پل ہیں یا پش اینڈ پل ہیں اور یہ کہ اس پل کے کھلنے بند ہونے کی چابیاں کس کے پاس ہیں؟
کیا یہ وہی چوہدری صاحب تو نہیں جنھوں نے اسی جنرل پرویز مشرف پر عین اس روز آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمۂ بغاوت چلانے کا اعلان کیا جس دن راولپنڈی شیعہ سنی فساد سے جل رہا تھا تاکہ میڈیا کو کھیلنے کے لیے دوسری گیند مل جائے۔
اور کیا یہ وہی چوہدری صاحب تو نہیں جو بعد میں اس بات کے حامی ہو گئے کہ بغاوت کی فردِ جرم عائد ہونے کے بعد مشرف صاحب کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی جائے اور جب وزیرِ اعظم نے بات نہیں مانی تو چوہدری صاحب ایسے روٹھ گئے کہ کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھی ان کا فون ساری رات بند رہا۔
یہ کیسے وزیرِ داخلہ ہیں جنھوں نے اب سے ہفتہ بھر پہلے دھرنا بحران میں فوج کی ثالثی کی خبر دی مگر انھی کے وزیرِ اعظم نے بھری پارلیمان میں اس مبینہ کردار کی تردید کر دی اور پھر فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو ایک علیحدہ بیان جاری کرنا پڑ گیا۔
ان پے در پے ’ایفی شنسیوں‘ کے بعد مہذب یا غیر مہذب کی بحث سے قطع نظر کوئی اور ملک ہوتا تو اس کا وزیرِ داخلہ خود ہی استعفیٰ دے کر کنسلٹینسی سے پیسے کمانے شروع کر دیتا مگر پاکستان ’کوئی اور ملک‘ تو نہیں ہے۔
لوگ کہتے ہیں چوہدری نثار کو ساتھ رکھنا میاں برادران کی مجبوری ہے بھلے اس کی قیمت جاوید ہاشمی جیسوں کی قیمت دے کر ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔
اور یہ کہ فوج اور میاں برادران کے درمیان چوہدری نثار علی ہی ایک مضبوط پل ہیں۔ مگر یہ کون طے کرے کہ یہ واقعی پل ہیں یا پش اینڈ پل ہیں اور یہ کہ اس پل کے کھلنے بند ہونے کی چابیاں کس کے پاس ہیں؟
آدمی اپنی زبان کے نیچے ہے  - حضرت علی 
وسعت اللہ خان
0 notes
swstarone · 4 years ago
Text
حکومت نےقانون سازی کرکے این آراوکو ہمیشہ کیلئےدفن کردیا،شیخ رشید - Pakistan
حکومت نےقانون سازی کرکے این آراوکو ہمیشہ کیلئےدفن کردیا،شیخ رشید – Pakistan
Tumblr media Tumblr media
راولپنڈی :وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے کہ حکومت نے قانون سازی کرکے این آراو کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا، اپوزیشن کی کُل جماعتی کانفرنس ناکام ثابت ہوگی، مسلم لیگ ن سے شین کا نکلنا طے ہے، شیعہ سنی فساد کرانے کی کوشش ناکام بنا دی۔
وزیر ریلوے شیخ رشید نے راولپنڈی میں ریلوے اسپتال کے نئے بلاک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہبازشریف اور بلاول سے کل ملاقات ہوئی سب پر باش ہیں، اپوزیشن…
View On WordPress
0 notes
pakberitatv-blog · 7 years ago
Photo
Tumblr media
https://goo.gl/CAfSdU
شام: ماضی، حال اور مستقبل
بلادِ شام دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ یہاں پر قدیم ترین سامی اقوام اور زبانوں کے آثار دستیاب ہوئے ہیں۔ بلاد شام مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم اور مقدس سرزمین ہے اور کیوں نہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس بارے میں کئی روایات منقول ہیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ایک بنیادی حصہ مجھ سے واپس لیا جارہا ہے،میری نظروں نے تعاقب کیا، ادھر سے نور پھوٹ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ شام میں رکھ دی گئی ہے، پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا۔(صححہ البانی فی فضائلِ الشام و دمشق) زید بن ثابت ر بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: شام کے لیے خوشحالی ہے ، ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کی کیا وجہ ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا رحمن کے فرشتے اس پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔(ترمذی) حضرت عبداللہ بن حوالہ ر سے مروی ہے کہ انھوں نے آپؐ سے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ مجھے بتائیں کہ میں کس علاقے میں قیام کروں ، اگر مجھے پتا ہو کہ آپؐ ہمارے ساتھ لمبے عرصے تک رہیں گے تو میں آپ کی رفاقت کے علاوہ کہیں اور رہنے کو ہرگز ترجیح نہ دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، شام کی طرف جائو، شام کی طرف جائو، تو جب آپؓ نے دیکھا کہ مجھے شام پسند نہیں ہے تو آپ نے فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ اللہ اس بارے کیا فرماتا ہے؟ پھر آپ نے فرمایا، شام میری زمینوں میں سے وہ منتخب کردہ زمین ہے جہاں میں اپنے بہترین عابدوں کو داخل کرتا ہوں۔ (رواہ ابو دائود و احمد سند صحیح) مسکن ابنِ حوالہ ر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، عنقریب امر (جہاد) اس طرح ہوگا کہ تم لشکروں کے مجموعے بنو گے، ایک لشکر شام میں ہوگا ، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، ابنِ حوالہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! اگر میں یہ صورت پائوں تو آپ میرے لیے کسی لشکر کا انتخاب فرما دیں، آپ نے فرمایا، تم شام کے لشکر کو لازم پکڑنا، کیونکہ وہ اللہ کی سرزمین میں ایک پسندیدہ خطہ ہے اور وہ اپنے بندوں کو اس طرف لائے گا، ہاں اگر تم وہاں نہ جاو تو تم یمن کا رخ کرنا اور اس کے حوضوں سے سیراب ہونا، اللہ تعالیٰ نے شام اور اہلِ شام کی محافظت کی مجھے ضمانت دی ہے۔ (ابودائود)، سلمہ بن نفیل الکندی سے نسائی کی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا، ایمان والوں کا گھر شام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب اہلِ شام فساد کا شکار ہو جائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں، میری اُمت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ انھیں بے یارو مددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ (ترمذی ) اور ایک حدیث غوطہ کے بارے میں بھی سن لیجیے جسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سخت جنگی حالات میں مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تمھارے لیے شام فتح ہو جائے گا۔ اس میں ایک جگہ جسے غوطہ کہتے ہیں یہ جگہ سخت جنگوں میں مسلمانوں کا بہترین ٹھکانا ہو گی۔(مسند احمد) موجودہ گھمسان کی لڑائی میں شام کے شہریوں کی اجتماعی نسل کشی نے انسانیت کے تمام دعوئوں کو جھوٹ ثابت کر دیا ہے اور یہ فرعونیت ان تمام اداروں اورتنظیموں کے کردار پر سوالیہ نشان ہے جو آئے روز انسانیت کا ڈھونگ رچاتے ہوئے اس کے تحفظ کے بلند بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ شام اس دنیا میں جہنم کی نظیر بن چکا ہے۔ حالات مزید سنگین ہوتے چلے جارہے ہیں اور اندیشہ ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ جنگ بے مہار ہو جائے گی اورجنگ بندی کے لیے کوئی ملک اپنا کردار ادا کرنے سے تہی دامن دکھائی دے گا۔ شام میں جاری اس گھمسان کی لڑائی کا مقصد کیا ہے، کیوں مہذب شہری اپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیوں عالمی طاقتوں نے زور آزمائی کے لیے شام کی مقدس سرزمین کو منتخب کیا ہے، شام کا اصل قضیہ کیا ہے؟ ان سوالات کے تسلی بخش جوابات اور موجودہ حالات کو سمجھنے کے لیے چند امور کو خاطر میں لانا اصل قضیے کی طرف رہنمائی کا واحد ذریعہ ہے۔ شام میں مقتدر طبقے کا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ اقتدار تک پہنچنے کے لیے ان کی ریشہ دوانیوں کی داستان کیا ہے اور وہ کیا چاہتا ہے؟برسوں سے شام میں جاری جنگ و جدل کی نوعیت کیا ہے۔ اس جنگ میں کون کون سے ممالک براہِ راست اور کون بالواسطہ شریک ہیں۔ کون کس کا حلیف ہے اور کون کس کے مد مقابل اور مخالف ہے۔ یہ ممالک اس مقدس سرزمین میں کس قسم کے مفادات کا حصول چاہتے ہیں، ان کے عقائد و نظریات اور ایجنڈا کیا ہے۔ یہی وہ امور ہیں جو عالمی طاقتوں کے شطرنج کا کھیل سمجھنے میں مدد فراہم کریں گے۔ پہلی عالمی جنگ عظیم تک بلاد شام ایک وسیع و عریض علاقے پر مشتمل تھا لیکن جب خلافت اسلامیہ کمزور پڑی مسلمان ملکوں پر یہود و نصاریٰ یا ان کے کاسہ لیس حکمرانوں کو مسلط کیا گیا تو انگریزوں اور اہل فرانس کی مکاری سے بلاد شام کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیااور موجودہ شام 1920ء میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا، لیکن 1946ء تک اس پر فرانس کا قبضہ برقرار رہا چونکہ دوسری جنگ عظیم میں فرانس کمزور پڑ گیا ،جب اسے محسوس ہوا کہ وہ شام پر مزید اپنا تسلط برقرار نہیں رکھ سکے گا تو اس نے 1944ء میں کیے جانے والے معاہدہ آزادی کو دوبارہ تسلیم کر لیا اور 15 اپریل 1946ء کو فرانسیسی اور برطانوی افواج شام سے کوچ کر گئیں،بالآخر 17اپریل 1946ء کو شام نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ تاریخ میں جس خطے کو بلادِ شام کہا گیا ہے ، وہ موجودہ چار ملکوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ = حالیہ شام(دارالحکومت دمشق) جہاں روافض کا خونیں پنجہ مسلم جسم کو نوچ رہا ہے۔ = فلسطین (دارالحکومت بیت المقدس) جہاں پون صدی سے یہود قابض ہیں۔ = لبنان(دارالحکومت بیروت) جہاں مسلمانوں کو اقلیت میں رکھا گیا ہے اور ہر طریقے سے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اردن(دارالحکومت عمان) جہاں برطانوی استعمار کے پرانے ایجنٹ اور نمک خوار مسلط ہیں اور صیہونیوں سے یاری کا حق ادا کرتے ہیں۔ بلاد شام کو تقسیم کرنے کے بعدباقاعدہ پلاننگ کے تحت ان چاروں ملکوں سے اسلامی اقدار اور آثار مٹانے کی کوشش کی گئی اور اس کے لیے فرانسیسیوں نے اپنے بااعتماد اور تاریخی اتحادی روافض کی خدمات حاصل کیں لیکن اس بار فرق صرف اتنا تھا کہ روافض کے بھی بد ترین فرقے نصیریہ اور علویہ کو چنا گیا۔ مسلمان اور شیعہ حضرات دونوں ان فرقوں کو اسلام سے خارج سمجھتے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے زمانے تک یہ فرقے خاموش رہے لیکن سقوطِ خلافت کے فورا بعد ہی انھوں نے مخصوص ایجنڈے پر کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ لوگ شام کے ساحلی پہاڑی کے ساتھ واقع ایک علاقہ لاتیکا میں مقیم تھے اور اس وقت یہ علاقہ قسطنطینی ریاست کے زیر اہتمام تھا۔ 1936ء جب میں فرانسیسی حکمرانوں نے اس علاقے کا شام کے ساتھ الحاق کرنا چاہا تو فرانس میں قائم شدہ پاپولر فرنٹ کے سربراہ کو اِنھوں نے میمورنڈم بھیجا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں: علوی لوگ جنھوں نے کئی سالوں تک بڑی غیرت اور قربانیوں کے ساتھ اپنی آزادی کی حفاظت کی ہے ، دوسرے سنی مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ علوی، مسلم شام کے ساتھ اپنے الحاق کا انکار کرتے ہیں، کیونکہ شام کا سرکاری دین اسلام ہے اور اسلام کے مطابق علوی کافر ہیں۔ ہم اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ دمشق کے مسلمانوں نے اپنے درمیان رہنے والے یہودیوں کو ایک دستاویز پر دستخط پر مجبور کیا کہ وہ فلسطین میں رہنے والے اپنے بدقسمت یہودی بھائیوں کو مدد نہیں بھیجیں گے۔ یہودیوں کی فلسطین میں قابل رحم حالت اسلام میں موجود اس زیادتی کی واضح مثال ہے جو کہ وہ غیرمسلموں سے روا رکھتا ہے۔ حالانکہ ان اچھے یہودیوں نے عربوں کے اندر تمدن اور امن کی آبیاری کی ، سونا بانٹا او ر بغیر کسی کا مال لوٹے اور نقصان پہنچائے فلسطین میں خوشحالی لے آئے۔ پھر بھی مسلمانوں نے ان کے ساتھ اعلان جنگ کیا اور سرکار برطانیہ کی فلسطین میں موجودگی اور فرانس کی شام میں موجودگی کے باوجود ان کا قتل عام کرنے سے کبھی نہ ہچکچائے۔ چنانچہ رائے عامہ کا احترام نہ کرتے ہوئے اگرمسلم شام کو مسلم فلسطین کے ساتھ اکٹھا کر دیا گیا تو ان یہودیوں اور دوسری اقلیتوں کا بدترین انجام ہو گا۔ اس میمورنڈم میں اسلام دشمنی اور یہود سے دوستی ایک ایک لفظ سے ٹپکتی ہے اور اس پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک نام سلمان الاسد کا ہے جو کلبیہ قبیلے کا سردار تھا۔ یہی سلمان الاسد موجودہ صدر بشار الاسد کا دادا اور حافظ الاسد کا باپ تھا۔ شام کے فرانسیسی حکمرانوں نے جن کو اصل خطرہ سنی اسلام سے تھا، ان علویوں کی ایک علیحدہ فوج تشکیل دی اور انھیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔ یہی فوج فرانسیسی سامراج سے آزادی کے بعد شامی نیشنل آرمی ک��لائی۔ 1946ء میں علوی خاندان کے ہونہار فرزند نے صرف سولہ سال کی عمر میں بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں حافظ الاسد ہی تھا جس نے سیاست میں شمولیت کے ساتھ ساتھ نیشنل آرمی بھی جوائن کر لی تھی۔ بعث پارٹی نے جب 1958ء میں ناصر کی تعلیمات سے متاثر ہو کر شام کا مصر کے ساتھ الحاق کرنے کا ارادہ کر لیا تو پارٹی میں موجود علویوں نے 1963ء میں ایک علوی صالح حدید کی قیادت میں بغاوت کر دی۔ حافظ الاسد جو ایک جنگجو پائلٹ تھا یکایک ایئرفورس کمانڈر بنا دیا گیا۔ فوج کے تقریباً سات سو عہدوں پر پرانے افسروں کو نکال کر نئے نصیری کمانڈر تعینات کیے گئے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کی شکست کے بعد حافظ الاسد جو اب وزیر دفاع بن چکا تھا، نے شامی حکومت پر اسرائیل کے ساتھ خفیہ مراسم رکھنے کا الزام لگایا اور ایک محلاتی سازش کے تحت 11مارچ 1971ء کو حافظ الاسد اقتدار پر قابض ہو گیا۔ حافظ الاسد کے صدر بنتے ہی شامی قانون میں ایک تبدیلی کی گئی۔ شامی قانون کے مطابق صدر بننے کے لیے مسلمان کا سنّی مسلمان ہونا ضروری تھا جبکہ حافظ الاسد نے اس شق کو تبدیل کر کے حکمران کا صرف مسلمان ہونا کافی قرار دے دیا۔ 1973ء میں لبنان کے اثنا عشری رافضی امام موسی الصدر نے ایک فتویٰ جاری کیا جس کے مطابق نصیریوں کو باقاعدہ شیعوں کے فرقے کا ایک گروپ تسلیم کر لیا گیا۔ یہ فتویٰ مذہبی سے زیادہ سیاسی تھا جس کے پیچھے عالم عرب میں رافضی اقتدار کو فروغ دینا تھا اور یوں شیعہ حضرات کی شام پر گرفت مزید مضبوط ہو۔ شامی مسلمان ایک تو مذہبی حمیت کی وجہ سے کسی نصیری کو اپنا حکمران ماننے پر تیار نہ تھے، دوسری طرف وہ سمجھتے تھے کہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں نصیری حکومت نے اسرائیل کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا جس کے افشا ہونے پر حافظ الاسد کو بر طرف کرنے کے مطالبات کا آغاز ہوا۔ 1980ء میں حافظ الاسد کے خون آشام نصیری دستوں نے حما کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا۔ صرف جیلوں میں موجود1200 اخوان المسلمین کے قیدیوں کو بغیرمقدمہ چلائے مار دیا گیا اور حما کے اوپر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ سنی جو کہ شامی آبادی کا تقریباً 70فی صد ہیں طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہیں۔ خاص طور پر وہ علاقے جو 1980ء کے انقلاب میں بڑے سرگرم تھے جیسے کہ حما ،درہ، حمص ، یہی وجہ ہے کہ موجودہ انقلاب بھی جو مارچ 2011ء سے شروع ہوا انھی شہروں سے شروع ہوا۔ سال 2011ء میں لیبیا کے صدر معمر قذافی کی ڈکٹیٹر شپ اپنے انجام کو پہنچی اور سال 2014ء میں شہریوں کی انتھک جہدوجہد سے تیونس کے زین العابدین کی24سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ شام کے شہریوں نے محسوس کیا کہ عوام کی طاقت حکمرانوں کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے مجبور کر سکتی ہے یا پھر اقتدار سے فارغ کر سکتی ہے تو شامی عوام بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ صرف حکومت میں سیاسی اصلاحات چاہتے تھے تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں چار شہری ہلاک ہوئے۔ اسی دن درعا میں سکول کے طلبہ نے بشار الاسد کو مخاطب کر کے دیوار پر اس نعرے کی وال چاکنگ کی جائک الدور یا دکتورکہ اب (قذافی) کی طرح تمھاری باری ہے۔ 15مارچ2011 ء سے 28 مارچ 2011ء تک حکومتی کریک ڈاون کے نتیجے میں 60 مظاہرین ہلاک ہوئے اور بشار الاسد نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی۔ 19جولائی 2012ء میں حکومتی کریک ڈاون کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں جاری خانہ جنگی مزید شدت اختیار کر گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔ دسمبر 2012 ء میں برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا اور ان سے تعاون بھی شروع کر دیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے اور یوں پر امن احتجاج اور چند مطالبات کی کوکھ سے اس جنگ کا آغاز ہوا۔ اس تحریک نے چند ماہ میں پورے شام کا احاطہ کر لیا۔ ہر جگہ بشارت الاسد کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کو کچلنا بشار الاسد کے لیے اتنا آسان نہ تھا، لیکن ایران نے حزب اللہ، پاسداران انقلاب اور فاطمیوں کی بدولت بشار الاسد کے لیے ان مظاہروں کو کچلنا آسان بنا دیا۔ آج اس جنگ میں ایران، امریکہ ،روس اور ترکی براہ راست شریک ہیں جبکہ سعودی عرب اور قطر بالواسطہ تعاون کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اسرائیل کے بھی مفادات وابستہ ہیں۔ ان تمام کے مفادات اور نظریات مختلف ہیں، یہی وجہ ہے کہ شام میں اس وقت جنگ کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ علوی اور نصیری سنّی مسلمانوں کو چن چن کر مار رہے ہیں اور اپنی انتقامی آگ بجھانے کی کوشش میں ہیں جبکہ دیگر ممالک اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ شام کی سرزمین پر اب دو عالمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔ دونوں کا دعوی ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف لڑرہے ہیں مگر حقیقت میں یہ جنگ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ امریکہ اور روس کے شام میں اپنے اپنے مفادات ہیں جن کے لیے وہ یہاں دخیل ہیں اور شام کو تباہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ نئی جنگ داعش کے خلاف جنگ کے نام پر شروع ہوئی ہے۔ اب تک یہاں امریکہ اور اس کی ہمنوا طاقتیں سرگرم تھیں مگر اب اس کے بیچ جس طرح روس نے انٹری لی ہے وہ امریکہ کے لیے دردسر سے کم نہیں ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ داعش جیسی عالمی دہشت گرد تنظیم کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے شام کے میدان میں کود پڑا ہے مگر حقیقت میں وہ انھیں تحفظ فراہم کررہا ہے۔ ور نہ کیا سبب ہے کہ ایک مدت سے لڑنے کے دعوے کے باوجود امریکہ اور مغربی ممالک کو کامیابی نہیں ملی اور چند دن میں روس نے داعش کا پورا سسٹم تباہ کردیا۔ امریکہ ایک طرف داعش کی مدد کر رہا ہے تو دوسری طرف سنی مسلمانوں کو ہتھیار اور فنڈز فراہم کر رہا ہے تاکہ بشار الاسد کی حکومت کو ختم کیا جا سکے اور کسی امریکہ نواز اور اسرائیل نواز ڈکٹیٹر کو لایا جا سکے جو امریکہ کو دیر الزور میں تیل کے کنووں تک رسائی کو یقینی بنائے اور وسطی ایشیا میں روس کی بڑھتی ہوئی قوت کا سد باب کرے۔ امریکہ جیسے اسلام دشمن نے ب��ار الاسد کے خلاف بیان اورمیزائل داغے ہیں تو اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب سے بڑی استعماری طاقت کے دل میں مسلمانوں کادردجاگ اٹھاہے۔ جس طاقت نے مسلمانوں کی ایک بہن عافیہ صدیقی کو86سال کی سزا دے دی اورمسلمانوں کے جذبات کاذرابھی خیال نہ کیا اورجس کی پشت پناہی سے فلسطینی مسلمانوں کی ہر شب شبِ غم اورہر دن یوم حشر ہے،اس کے بار ے میں کوئی سمجھ دارشخص یہ توقع نہیں کرسکتا کہ اسے شامی مسلمانوں سے کوئی ہمدردی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل کے دیے ہوئے ایجنڈے کے مطابق شام کو مزید چار ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے تاکہ چاروں ٹکڑے پانی، تیل اور زراعت کے لیے آپس میں لڑتے رہیں اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی جرات نہ کر سکیں۔ اس کے لیے وہ ایک طرف بشار الاسد کے خلاف سنی مسلمانوں کی مالی اور ہتھیاروں کے ذریعے مدد کر رہا ہے تو دوسری طرف داعش کو انھیں سنی مسلمانوں کی سپاری دے رکھی ہے۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں اس وقت شام دنیا کے ان ممالک میں شامل ہوچکاہے جہاں مردوں کاتناسب سب سے کم رہ گیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق وہاں نوجوانوں کے جنگ کی نذر ہونے اوربوڑھوں کے امراض اورمصائب سے فوت ہونے کے بعدستر فیصد سے زیادہ محض خواتین رہ گئی ہیں۔ وہ شہر جو خطرے کی زد سے باہر ہیں ،وہاں بھی لڑکیوں کے لیے رشتہ ملنا ،دنیاکاسب سے مشکل کام بن گیا ہے۔ جو بے چارے جنگ زدہ علاقوں یا مہاجر کیمپوں میں ہیں،ان کے مسائل کااندازہ ہمیں اپنے گھروں میں بیٹھ کرنہیں ہوسکتا۔ اتنا جان لیناکافی ہے کہ صاف پانی کاایک گلاس مل جانا،ان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ روس نے سال 2013 ء سے اس جنگ میں حصہ لیا ہوا ہے۔ اس جنگ میں کودنے سے روس کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟وہ شام کو بچانے کے لیے اب کیوں آگے آیا، پہلے کیوں نہیں آیا؟ اس قسم کے سوال اٹھنے فطری ہیں۔ روس نے دہشت گرد تو مار گرائے لیکن انتہائی اہم سوال زندہ کر دیے۔ اس کا جواب صاف ہے۔ یہ جنگ مفادات کی جنگ ہے۔ نہ تو امریکہ مسلمانوں کا حامی ہے اور نہ ہی روس کو ان کے ساتھ کسی قسم کی محبت ہے۔ اصل کھیل بشارالاسد کو بچانے اور انھیں ہٹانے کا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردوں کا نیٹ ورک اسد کے خلاف کھڑا کیا تھا تاکہ وہ اسد کو کمزور کریں اور امریکہ یہاں اپنے کسی کٹھ پتلی کو بٹھاسکے، جب کہ روس کے مفادات اسد سے وابستہ ہیں لہٰذا وہ کسی بھی حال میں انھیں بچانا چاہتا ہے۔ روس کی معیشت کا تقریباً چالیس فیصد توانائی کی برآمد سے آتا ہے۔ اس میں بھی قدرتی گیس ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نہیں چاہتے کہ گیس کے لیے یورپ کو روس پر انحصار کرنا پڑے۔ روسی صدرولادیمر پوتن کسی بھی حالت میں امریکہ کے اس منشا کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ یہی سبب ہے کہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے شام کو محاذ کے طور پر منتخب کیا ہے۔ اس کے علاوہ روس کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ وہ اسلحے کی عالمی منڈی میں اپنا مقام بنائے۔ اس وقت 85 ارب ڈالر سالانہ کی اس منڈی میں روس کا حصہ پانچ فیصد بھی نہیں بنتا ہے۔ روس نے دوسری عالمی جنگ کی تقریبات کے موقع پر کوبینکا نامی شہر میں جدید ترین روسی ہتھیاروں ک�� نمائش کی تھی۔ روس کے دارالحکومت ماسکو کے مضافاتی شہر میں منعقد ہونے والی اس بڑی عسکری نمائش میں ٹینک، توپیں، جنگی ہیلی کاپٹر، ریڈار سمیت دیگر جدید اسلحہ نمائش کے لیے رکھا گیا تھا، لیکن خریدار روسی اسلحے کے مؤثر ہونے کے بارے میں شکوک شبہات کا شکار تھے۔ یوں یہ نمائش بھی روسی اسلحے کے نئے خریدار تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سویت دور میں افغانستان، افریقہ اور مشرقی یورپ میں سوویت اسلحے کی ناکامی کا بھوت روسی اسلحے سے چمٹا ہوا۔ اس بار روس شام میں اس امید کے ساتھ آیا ہے کہ مغربی اسلحے کی ناکامی کے بعد روس اگر اس جنگ میں بشار کو بچانے میں کامیاب ہوگیا تو روسی اسلحے کی فتح ہوگی۔ جس کے بعد بہت سے نئے گاہک مل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ روس اس جنگ میں اپنا ہر طرح کا اسلحہ استعمال کر رہا ہے۔ شام میں زمینی اور فضائیہ کی موجودگی کے باوجود اس نے بحرہ خزر سے مہنگے ترین کروز میزائیل داغے ہیں، لیکن زمینی حقائق خواہشات سے مختلف ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ شامی مزاحمت کاروں نے پہلے ہی معرکے میں جس طرح روسی اسلحے کو شکست فاش دی ہے اور جس طرح روسی ٹینک تباہ ہوئے ہیں یقینا اس کے بعد روسی پالیسی ساز اپنے فیصلے پرپچھتا رہے ہوں گے۔ شام میں روسی مداخلت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شامی اور روسی سرحد کے درمیان پانچ سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے ، اگر شام میں امریکی کاسہ لیس اور ڈکٹیٹر اقتدار میں آتے ہیں تو اندیشہ ہے کہ چیچنیا میں روس کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کی مزاحمتی تحریک کو وسائل مہیا کیے جاسکیں تاکہ روس کی عالمی طاقت کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ ایران شام میں بشار الاسد کا حمایتی ہے اسی لیے لبنان کے اشارے پر پاسداران انقلاب اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کے ذریعے بشار الاسد کے ساتھ مل کر سنی تحریک ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ایران ایک طرف تو مسلکی رشتے کی بنیاد پر بشار الاسد کی مدد کر رہا ہے تو دوسری طرف سنی مسلمانوں سے ازلی دشمن اور ازلی اسلام دشمن یعنی یہودیوں سے گہری دوستی کی بنیاد پر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ شہادت کے طور پر اسرائیل کی حیفہ یونیورسٹی کے ماہر لسانیات جان ماہل کا اعتراف کافی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علویوں کے مذہبی عقائد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ یہودی حامی اور سنی دشمن ہیں اور تو اور اسرائیل کے نقطۂ نظر سے بھی یہ ان کے لیے بہت�� ہے کہ شام میں نصیری برسراقتدار رہیں۔ اگر شام میں سنی اقتدار میں آتے ہیں تو کسی بھی وسیع پیمانے پر فلسطین اور اسرائیل کا جھگڑا ایک جذباتی ردعمل کو جنم دے گا اور شام کو نتائج کی پروا کیے بغیر اسرائیل کے ساتھ ایک بین الاقوامی جنگ میں کھینچ لائے گا۔ در حقیقت اس تمام تر سازش کے پیچھے یہودیوں اور اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں کی توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے۔ عراق اور لیبیا کے بعد اب شام اور یمن میں جنگ و جدل کا بازار گرم ہے، لیکن المیہ ہے کہ اس عمل میں مسلمانوں کو ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کو مسلمان حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کہیے یا اقتدار کی لالچ اور ہوس کہ وہ صیہونی آلہ کار بن گئے ہیں۔ اس وقت نہ کوئی طاقتور غیر ملکی مداخلت اور نہ ہی کوئی سیاسی مذاکرات اس جنگ کو اختتام پذیر کر سکت�� ہیں بلکہ ایک شدید خطرہ یہ ہے کہ ایک نہایت ہی خطرناک قسم کی پراکسی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ کاش! مسلم ممالک کے سربراہان اس سنگین قضیے کو امریکااورروس کی صوابدید پر نہ چھوڑیں۔ انھیں شام ، افغانستان اورکشمیر سمیت اپنے تمام لاینحل مسائل کوحل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کی کاسہ لیسی ترک کرکے ایک صف میں کھڑے ہوناہوگا،ورنہ تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
0 notes
cidsbureau-blog · 8 years ago
Photo
Tumblr media
اسلامی اتحاد،ریاست کا فیصلہ،فتنہ تکفیر اور خارجیت-تحریرمصعب حبیب اسلامی اتحاد میں شمولیت ریاست کا فیصلہ سعودی عرب کی زیر قیادت دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے تشکیل دیئے گئے اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان، ترکی، مصر، انڈونیشیا، اردن، متحدہ عرب امارات، سوڈان، تیونس، قطر اور ملائشیا سمیت اسلامی دنیا کے39 ممالک شامل ہیں۔ اس اتحاد کا آپریشنل مرکز سعودی دارالحکومت الریاض میں ہو گاجہاں سے نہ صرف دنیا بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مانیٹرنگ کی جائے گی، بلکہ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے مشترکہ طور پر عملی اقدامات بھی کئے جائیں گے۔ سعودی عرب میں مسلمان ملکوں کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں دہشت گردی کی بیخ کنی اور عالمی امن وسلامتی کو یقینی بنانے کے لئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک میں باہمی رابطوں کو مزید بہتر بنانے پر بھی اتفاق کیا گیاکہ انسانیت کے خلاف وحشیانہ جرائم اور فساد فی الارض ناقابل معافی جرائم ہیں جو نہ صرف انسانی نسل کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں ،بلکہ بنیادی حقوق کی پامالی اور انسانی عزت و احترام کے لئے بھی نہایت خطرناک ہیں۔ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تمام مسلمان ممالک سعودی عرب کی قیادت میں متحد ہیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی سمیت مسلم دنیا کے اہم ممالک اس وقت اندرونی سازشوں کا شکار ہیں اور دشمنان اسلام‘ مسلم ملکوں و معاشروں میں امن و امان کی بربادی کے لئے تکفیر اورخارجیت کا فتنہ پروان چڑھانے کے لئے بے پناہ وسائل خرچ کر رہے ہیں۔سعودی عرب میں مساجد وامام بارگاہوں میں خودکش حملے ہوں، پاکستان میں افواج، عسکری اداروں ، مساجداور پبلک مقامات پر بم دھماکے ہوں یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں اس نوع کی دہشت گردی ہو، تمام واقعات کے پیچھے دشمن قوتوں کاہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔ مغربی ممالک خود ہی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں افواج و دفاعی اداروں پر حملے کروائے جاتے ہیں‘ بے گناہ انسانوں کا لہو بہانے کے لئے ہر طرح کی مدداور وسائل فراہم کئے جاتے ہیں اور پھرکچھ عرصہ بعد انہی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے بہانے مسلم ملکوں میں مداخلت کر کے انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی سازش ہے جو پچھلے کئی برسوں سے کی جارہی ہے۔پہلے نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر حملہ آوروں کا تعلق مختلف مسلم ملکوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور پھر صلیبی ملکوں کا بڑ ااتحاد بنا کر افغانستان پر چڑھائی کر کے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ عراق میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ دس لاکھ سے زائد عراقی مسلمانوں کو شہید کر کے اپنی پسند کے لوگوں کو وہاں اقتدار دلوایا اور بعد میں ٹونی بلیئر جیسے برطانوی حکمران معافیاں مانگتے نظر آتے ہیں کہ عراق ��ر حملہ کے لئے جو الزامات لگائے گئے تھے وہ ثابت نہیں ہو سکے اسی حملہ کے نتیجہ میں داعش وجود میں آئی ہے۔ پہلے نائن الیون حملہ کی بنیاد پر دو مسلم ملکوں میں خون کی ندیاں بہائی گئیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے خوفناک سلسلے پروان چڑھائے گئے اور اب داعش کے خاتمہ کے نام پر شام میں بے گناہ سنی مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی میدانوں میں فتح حاصل ہوئی ہے ‘ کفار کی جانب سے مسلم معاشروں میں فتنہ تکفیر اور خارجیت کو پروان چڑھایا گیا۔حال ہی میں افغانستان میں اتحادیوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تواس خطہ میں بھی داعش جیسی تنظیموں کی آبیاری کی جارہی ہے، تاکہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، دہشت گردی وتخریب کاری کا سلسلہ چلتا رہے اور اسلام دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد پورے ہوتے رہیں۔ ایسی صورتحال میں مسلم ممالک کے ایک بڑے اتحاد اور مسلم معاشروں میں دہشت گردی پھیلانے والی تنظیموں کے خلاف مشترکہ طور پر عملی اقدامات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والا فوجی اتحاد جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے اکتالیس اسلامی ممالک شامل ہیں‘انتہائی خوش آئند اور پوری مسلم امہ کے دل کی آواز ہے۔پاکستان اور سعودی عرب پہلے بھی دہشت گردی کے اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل(ر) راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے نیٹ ورک بکھر کر رہ گئے ہیں۔اسی طرح سعودی عرب میں بھی دہشت گردوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں کی گئی ہیں اور سعودی فورسز کو اہم کامیابیاں حاصل ہور ہی ہیں۔ امام کعبہ الشیخ عبدالعزیز سمیت دنیا بھر کے علماء کرام نے مسلم ملکوں میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیا او ر داعش جیسی تنظیموں کے نظریات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے نوجوان نسل کو ان سے بچانے کی ترغیب دی ہے۔ اس حوالہ سے یقینی طور پر نظریاتی محاذ پر بھی سرگرم کردار ادا کیا جائے گا۔ بہرحال فوجی اتحاد میں پاکستان اور سعودی عر ب کا کردار سب سے اہم دکھائی دیتا ہے۔آپریشن ضرب عضب میں اللہ تعالیٰ نے پاکستانی فوج کو جن کامیابیوں سے نوازا ہے‘ اس کے فوائد ان شاء اللہ دیگر مسلم دنیا کو بھی حاصل ہوں گے اور دوسرے اسلامی ملکوں سے بھی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔سعودی عرب کے نائب ولی عہد او روزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے واضح طورپر کہا ہے کہ مسلم ممالک کا یہ اتحادصرف داعش کے خلاف نہیں ، بلکہ دہشت گردی کی شکل میں پھیلنے والی برائی میں ملوث ہرگروپ کے خلاف پوری قوت سے جنگ لڑی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کے لئے امریکہ و یورپ، چین اور ایران سمیت سب کو کوششیں کرنی چاہئیں۔ ان ممالک کے اختلافات کے سبب داعش کو فائدہ اور طاقت ملی ہے۔ اسی طرح سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرسے جب اس اتحاد کے قیام اور مقاصدسے متعلق سوالات پوچھے تو ان کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کا یہ اتحاد داعش کے خلاف جنگ کے لئے معلومات کا تبادلہ کرے گا،فورسز کو تربیت دے گا، انھیں مسلح کرے گا اور ضروری ہوا توزمینی فوج بھی بھیجی جاسکتی ہے۔اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ بھی خارج ازامکان نہیں ہے، تاہم اس کا انحصار مسلم ممالک کی جانب سے درخواست اور ضرورت پر ہے۔سعودی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیا اتحاد سنی یا شیعہ نہیں۔ دہشت گرد خواہ کسی بھی فرقہ اور گروہ سے تعلق رکھتے ہوں، روئے زمین پر تباہی اور فساد پھیلانے والوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہو گی۔ سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی ممالک کا یہ اتحاد دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پوری قوت صرف کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکومتیں سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی ملکوں کے اتحاد کی کامیابی کے لئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھیں اور اس حوالہ سے کسی قسم کے بیرونی دباؤ کو خاطر میں لانے کی بجائے مسلم ملکوں کے اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔اب تو آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی کہہ دیا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت اور جنرل (ر) راحیل شریف کو اس کی سربراہی قبول کرنے کی اجازت دینا ریاست کا فیصلہ ہے۔ اس لئے اب اسلامی فوجی اتحاد کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کا سلسلہ مکمل طور پر بند ہونا چاہیے۔ مسلمان ملک باہم متحدہوں گے تو اللہ تعالیٰ آسمانوں سے رحمتیں و برکتیں نازل کرے گا اور مسلم امہ کو کامیابیوں سے نوازے گا
0 notes