#شیعہ سنی فساد
Explore tagged Tumblr posts
Text
پاڑہ چنار میں شیعہ سنی فساد کے بعد پیناڈول کی گولی بھی دستیاب نہیں
خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں حالیہ فرقہ وارنہ فسادات میں 200 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد سے نہ ختم ہونے والی کشیدگی کے باعث کُرم کے صدر مقام پاڑہ چنار جانے والی رابطہ سڑکیں مسلسل بند ہیں۔ حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ علاقے میں خوراک اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے اور پیناڈول سمیت بنیادی ادویات بھی سرے سے میسر ہی نہیں۔ بی بی سی کی ایک خصوصی ٹیم نے حال ہی ضلع کرم کا دورہ کیا اور…
0 notes
Text
ہم اتنے سنگ دل کیوں ہوگئے ہیں : میر افضل خان طوری
پا��ستانیوں کی اکثریت مذہب، عقیدے ، مسلک ، زبان اور علاقے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قتل کا جواز فراہم کرنے کی مذموم کوشش کرتی ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ریاست کے اندر یہ کونسے لوگ ہوتے ہیں جو ملک کا قانون ہاتھ میں لے کر جب چاہیں اختلاف رکھنے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اسی بنیاد پر علماء کرام، وکلاء، ڈاکٹرز ، انجنیئرز ، سرکاری عہدایداران، سیاست دان ، اکانومسٹ ، ادیب ، شاعر اور صحافیوں کا قتل عام جاری ہے۔ ہم ہر قتل کو اسی شخص کی ذات ، مسلک ، عقیدے، مذہب اور زبان کی بناء پر جسٹفائی کرنے کی ناکام کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اگر کوئی بہت بڑا شیعہ مسلمان قتل ہوجا تا ہے تو ہمارے منہ اس سفاک قاتل کیخلاف بند ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ چلو اچھا ہوا ایک گستاخ صحابہ تو کم ہوگیا۔ اگر کوئی سنی مسلمان ظالم کی گولیوں کا نشانہ بنتا ہے تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کیوں ہمیں ان کا انتہا پسندانہ رویہ یاد آجاتا ہے اور ہم اس کے قتل کا اپنے دل میں یہ جواز فراہم کرتے ہیں کہ بہت اچھا ہوا۔ ایک دشمن آل محمد(ص) تو کم ہوگیا۔ اگر کوئی پشتون اور بلوچ قتل ہو جا تا ہے تو ہم فوری طور پر اس کو ملک ، ریاست اور اداروں سے دشمنی کا نتیجہ قرار دے دیتے ہیں۔ یہ کہ کر اپنے ضمیر کو مطمعن کر دیتے ہیں کہ چلو آج ملک سے ایک ملک دشمن تو کم ہوگیا۔ اگر کہیں سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ اور دھماکے ہوتے ہیں تو ہم انکی موت کو انکے ادارے کے کرتوتوں کا شاخسانہ قرار دے دیتے ہیں۔ ہم یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ جس نے بھی ان کو مارا ہوگا، انکے ساتھ سیکیورٹی اداروں نے ضرور کوئی زیادتی کی ہوگی۔ بحیثیت ایک زندہ قوم ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ آخر وہ کونسی قوت ہے جو اس ملک کا قانون ہاتھ میں لے کر جس کو چاہتی ہے قتل کر دیتی ہے۔ وہ کونسی قوت ہے جو اس ملک میں بدترین خون ریزی اور فساد پرپا کر رہی ہے۔ اس کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ مذہب، عقیدے، مسلک اور زبان کے بنیاد پر لوگوں کو جینے کے حق سے محروم کر دے۔ مگر افسوس کہ ہم ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے اور قاتل کا سراغ لگانے کی بجائے اپنےاپنے عقیدے کے بنیاد پر اس قتل کا جواز فراہم کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم مل کر ہر قتل پر اپنی آواز بلند کرتے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ایک ہوجاتے تو آج ہمارے گلیاں، محلے اور بازار اتنے غیر محفوظ نہ ہوتے۔ Read the full article
0 notes
Photo
ایوان میں شائستگی کے فروغ کیلئے اقدامات کر رہے ہیں! قاسم خان سوری قومی اسمبلی کے نو منتخب ڈپٹی اسپیکر ہیں اور آپ کا تعلق خلجی قبیلے کی ممتاز شاخ سوری سے ہے۔ آپ جنوری 1969ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ اسلامیہ اسکول سے حاصل کی جبکہ تعمیر نو سکول کوئٹہ سے میٹرک کیا۔ 1988ء میں فیڈرل گورنمنٹ کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا۔بعدازاں جامعہ بلوچستان سے 1990ء میں سیاسیات میں بی اے اور اسی ادارے سے 1992ء میں بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ قاسم خان سوری نے 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور 2007ء میں جماعت کے عہدیدار منتخب ہوئے۔ آپ جماعت کے واحد رکن ہیں جنہیں تحریک انصاف بلوچستان کا دو بار صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے، پہلی مرتبہ 2009 جبکہ دوسری مرتبہ 2013ء میں منتخب ہوئے۔ آپ تحریک انصاف کے ایک فعال رکن کے طور پر کام کر رہے ہیں اور بلوچستان میں تحریک انصاف کی بنیادیں مضبوط کرنے میں آپ کا کلیدی کردار ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حلقہ این 259 (کوئٹہ) سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے الیکشن لڑا مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر انہوں نے الیکشن لڑا۔ اس مرتبہ حلقہ این 256 (کوئٹہ2-) سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد، پاکستان تحریک انصاف نے انہیں 13 اگست 2018ء کو قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر نامزد کیا۔ 15 اگست 2018ء کو قاسم خان سوری 183ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوگئے جس کے بعد سے اب تک وہ بطور ڈپٹی اسپیکر اپنے فرائض بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے گزشتہ دنوں خصوصی دعوت پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں شرکت کی جہاں ان سے اہم معاملات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی جو نذر قارئین ہے۔ قاسم خان سوری (ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی و رہنما پاکستان تحریک انصاف) پاکستان تحریک انصاف اپنی 22 سالہ طویل جدوجہد کے بعد 2018ء کے عام انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ پاکستان کے عوام نے عمران خان پر بھروسہ کرکے انہیں وزیراعظم منتخب کیا۔عہدہ سنبھالنے کے بعد وزیراعظم ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کیلئے تندہی سے کام کر رہے ہیں جو سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے عوامی توقعات کے مطابق کابینہ تشکیل دی اور حکومت سازی کے تمام مراحل بخوبی مکمل کیے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ ہمیں اقتصادی بحران و دیگر مسائل ورثہ میں ملے ہیں جنہیں حل کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیے جارہے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک30 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے جس کے سود کی ادائیگی کیلئے بھی ہمیں بھاری رقم دینا پڑ رہی ہے جبکہ اصل قرض اتارنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی پوری ٹیم پر چیک اینڈ بیلنس رکھا ہے جو بہترین مثال ہے۔ اس سے سب کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم نے نہ صرف 100 روزہ پلان دیا بلکہ اپنی پوری ٹیم سے اس حوالے سے رپورٹ بھی طلب کی جس کے بعد تمام وزراء نے اپنی اپنی 100 روزہ کارکردگی انہیں بتائی۔ وزیراعظم عمران خان نے سادگی اور میرٹ کا پیغام دیا۔ کرپشن کا خاتمہ اور میرٹ کا نظام ان کا مشن ہے اور وہ اس پر گامزن ہیں۔ افسوس ہے کہ ماضی کے حکمران کرپشن میں ملوث رہے اور انہوں نے بے دردی سے ملکی خزانہ لوٹا جس کا انجام آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگرملک کا سربراہ ٹھیک ہو تو اس کا اثر نیچے آتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ہمارے اتحادی اس کرپشن کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ملک اس نہج پر پہنچا لہٰذا مجھے یقین ہے کہ اب پاکستان کی تقدیر ضرور بدلے گی۔ وزیراعظم عمران خان کی پوری زندگی سب کے سامنے ہے۔ وہ 17 برس کی عمر سے میڈیا کی نظروں میں ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں عزت، شہرت اور دولت، سب کچھ حاصل کیا ہے۔ ان کی 22 سالہ سیاسی جدوجہد یہ ہے کہ وہ ملک کو اس کا وقار دوبارہ دلوانا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ملک قرضوں کے بوجھ سے نکل کر خود مختاری کا سفر طے کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو معدنیات، موسم، فصلیں، سمندر، صحراء غرضیکہ بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے مگر حکمرانوں کی کرپشن کی وجہ سے آج ملکی صورتحال ابتر ہے۔ جن ممالک کو ہم 5 سالہ منصوبے دیا کرتے تھے، جنہیں ہماری قومی ایئر لائن کا سٹاف تربیت فراہم کرتا تھا، جن کی ایئر لائنز ہماری پی آئی اے نے بنائیں، آج وہ ممالک ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ دوسرے ممالک کے شہزادے ہمارے ملک میں تعلیم کے حصول کے لیے آتے تھے مگر آج ہمارے بچے تعلیم اور روزگار کے حصول کیلئے دوسرے ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے جو ہمارے لیے رسوائی کا باعث ہے مگر یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج وہ شخص ہمارا وزیراعظم ہے جو کرپٹ نہیں بلکہ صادق اور امین ہے۔ جسے اپنے خاندان کی نہیں بلکہ ملک و قوم کی فکر ہے۔ عمران خان نے جب شوکت خانم ہسپتال بنانے کا ارادہ کیا تو 20 میں سے 19 ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ کینسر ہسپتال نہیں بن سکتا۔ اس وقت عمران خان کے پاس صرف 1 کروڑ روپے تھے جبکہ یہ منصوبہ 70 کروڑ روپے کا تھا۔ اس سب کے باوجود وہ ثابت قدم رہے، انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور پھر بچوں اور بڑوں، سب نے ان کے شانہ بشانہ یہ منصوبہ مکمل کیا۔ عمران خان کے عزم اور جذبے کی وجہ سے شوکت خانم ایک مثال بن چکا ہے۔ جو لاہور کے بعد، پشاور اور کراچی میں جبکہ اب کوئٹہ میں بھی بنایا جائے گا۔ عمران خان کی زندگی یہ ثابت کرتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ میرٹ پر فیصلے کیے اور کبھی ہمت نہیں ہاری بلکہ وہ اپنے مشن سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹتے اور ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ آج ملک اقتصادی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے دوست ممالک کے ��ورے کیے جنہوں نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا لہٰذا ہمیں ان ممالک سے دوستی پر فخر ہے۔ ہم ان ممالک کے تعاون کی وجہ سے مالی خسارے سے نکل رہے ہیں۔ اب اگر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو ہم اس کی نہیں بلکہ اپنی شرائط پر جائیں گے۔ ہم وطن عزیز کو خود مختار بنانا چاہتے ہیں جس کے لیے وزیراعظم اور ان کی پوری ٹیم ہر ممکن کام کر رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے بیرون ملک دوروں میں ان ممالک کے سرمایہ کاروں سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم 70 لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میںسرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کی پالیسی بنا رہے ہیں تاکہ سب مل کر اس ملک کو عظیم بنائیں۔ گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے پاکستان کا دورہ کیا جو کامیاب رہا۔ عرصہ دراز سے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہمارے تعلقات اس سطح پر نہیں تھے جس پر وزیراعظم عمران خان چند ماہ میں لے آئے ہیں۔ شیخ محمد بن زاید کا دورہ سود مند رہا اور ملکی معیشت پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ بدقسمتی سے 70 برسوں سے بلوچستان کو پسماندہ رکھا گیا جس کا فائدہ ہمارے دشمن نے اٹھایا۔ ہم نے دیکھا کہ بھارت نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ہمارے لوگوں کے جذبات کو ابھارا۔ یہاں شیعہ سنی اور رنگ و نسل کا فساد برپا کیا جس سے ہمیں نقصان ہوا۔ اس کی زندہ مثال بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو ہے جو یہاں سے پکڑا گیا اور پھر اس نے یہ سب تسلیم بھی کیا۔ اس سب کے باوجود تمام پاکستانیوں نے بھارت کی انتشار پھیلانے کی سازشوں کو ناکام بنایا۔ بلوچستان کے لوگوں نے فرنٹ لائن پر رہ کر قربانیاں دیں جبکہ فاٹا میں بھی یہی صورتحال پیدا ہوئی۔ ہمارے عوام ، افواج پاکستان اور سکیورٹی ایجنسیوں نے اپنے بلند حوصلے اور قربانیوں سے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے۔بھارت کی تمام تر کوششوں اور تخریب کاری کے باجود آج بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے اور وہاں کے لوگوں کی سوچ میںبھی تبدیلی آئی ہے۔ عمران خان اور وزیر اعلیٰ جام کمال کو بلوچستان کی صورتحال کا بخوبی ادراک ہے لہٰذا بلوچستان کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ یہ پسماندہ صوبہ موجودہ حکومت کے اقدامات سے معیشت کا ’’گیٹ وے‘‘ بننے جارہا ہے۔ ہم ایسے منصوبے لائیں گے جن سے عام آدمی کو فائدہ ہوجبکہ اوورسیز پاکستانیوں کو بھی یہاں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی جائے گی۔بدقسمتی سے گزشتہ 10 برسوں میں 24 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے گئے جو ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ افسوس ہے کہ جب حکمرانوں کی توجہ اپنی جیبیں بھرنے پر ہو تو ان کی ٹیم بھی یہی کام کرتی ہے جس سے وفاق کے ساتھ ساتھ صوبے بھی پسماندہ رہ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے 18 ویں ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ کا فائدہ بلوچستان میں نچلی سطح تک پہنچنے نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے صورتحال سنگین ہے۔ وہاں فیکٹریاں نہیں لگائی جاسکیں، انفراسٹرکچر نہیں بنا اور ایسے معاہدے ہی نہیں کیے گئے جن سے عوام کو فائدہ ہو۔ ماضی میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں اور اپنے لوگوں کو نوازا گیا۔ بلوچستان میں بھی بعض جگہ ایسا ہوا جس کی وجہ سے صوبہ پسماندہ رہ گیا۔ 18 ویں ترمیم سمیت ایسے تمام قوانین جن میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، ��رامیم کی جاسکتی ہیں۔ میرے نزدیک پارلیمنٹ کو عوامی مفاد اور حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے موثر قانون سازی کرنی چاہیے اور پہلے سے موجود قانون سازی کو بھی مزید بہتر کرنا چاہیے۔ پارلیمان کو ایسے قوانین لانے چاہئیں جن سے انصاف، تعلیم اور روزگار کی فراہمی میں بہتری آئے اور عوام کو سہولت ملے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل مکمل ہوچکی ہے لہٰذا اب موثر قانون سازی پر توجہ دی جائے گی۔ احتساب کے عمل پر انگلی اٹھائی جا رہی ہے جو درست نہیں۔ اپوزیشن کے تمام کیس پہلے سے موجود ہیں اور موجودہ حکومت نے کسی پر کوئی کیس نہیں بنایا۔ اس وقت تمام ادارے آزاد ہیں اور حکومت کا ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بلاتفریق احتساب کا عمل جاری رہے گا اور اب کوئی بھی کرپٹ قانون سے بچ نہیں سکے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتاجب تک حکمران طبقہ خود پر قوانین لاگو نہ کرے۔ آج وزیراعظم سمیت پوری ٹیم قانون کے تابع ہے اور عدلیہ و دیگر اداروں پر ہمارا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ جنہیں بھی سزا ہورہی ہے وہ عدالتی حکم پر ہورہی ہے لہٰذا حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے۔ اب ملک میں جزا و سزا کا نظام قائم ہوچکا ہے لہٰذا کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ۔ کرپٹ شخص حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، اس کا بے رحم احتساب کیا جائے گا۔ احتساب کے حوالے سے پارٹی رہنماؤں کے بیانات ذاتی ہیں، کسی کے بیان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی تاہم احتساب کا یہ عمل شفاف ہے�� جہاں تک ہاؤس کی بات ہے تو میں ہمیشہ بہتر انداز میں ہاؤس چلانے کی کوشش کرتا ہوں اور ایسا رویہ رکھتا ہوں جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو تاہم حکومتی و اپوزیشن بینچوں سے بعض اراکین جذبات میں تلخ باتیں کہہ جاتے ہیں جن پر بعدازاں انہیں بھی احساس ندامت ہوتا ہے۔ہم ایسی باتوں کو ہذف کردیتے ہیں جبکہ اراکین خود بھی معذرت کرلیتے ہیں۔ میرے نزدیک اسمبلی کے فلور سے شائستگی کو فروغ دینا چاہیے۔ گزشتہ 5 برسوں میں تحریک انصاف نے اپوزیشن کا جو کردار ادا کیا وہ تاریخی ہے۔ ہم نے ہر فورم پر عوام کی نمائندگی کی اور ملک کو نقصان پہنچانے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہم نے مک مکا کی سیاست کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن میں کوئی مک مکا نہیں ہے جس طرح ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ایوان میں تلخیاں سامنے آتی ہیں تاہم ہم اچھی روایات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ میں اپنی قومی زبان میں ایوان کی کارروائی چلاتا ہوں تاکہ 22کروڑ عوام فخر محسوس کریں۔ عوامی ایشوز پر وزراء ایوان میں اپنی کارکردگی پیش کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے خود بھی اسمبلی میں آکر سوال و جواب کا کہا تھا، وہ جلد اسمبلی میں آ کر اراکین کے سوالات کے جوابات دیا کریں گے جو تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا۔ ہم اس ایوان سے عوام کے مسائل حل کریں گے۔ میاں شہباز شریف کی بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی تعیناتی کے حوالے سے وزیراعظم اور پارٹی کا موقف مختلف تھا۔ چیئرمین کی تعیناتی کیلئے ہمارے سینئر رہنماؤں اور اپوزیشن میں بارہا مشاورت ہوئی مگر یہ معاملہ حل نہ ہوسکا۔ بعدازاں باہم مشاورت سے ��ن کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس حوالے سے جماعت میں دو مختلف آراء موجود ہیں تاہم سب کو اس فیصلے کا احترام کرنا چاہیے۔اس تعیناتی پر شیخ رشید کا عدالت جانے کا فیصلہ ان کا حق ہے، ان کی الگ جماعت ہیں اور وہ اپنے فیصلوں میں خودمختار ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہباز شریف اپنے اور اپنے رفقاء کے خلاف کیس نہیں سن سکیں گے بلکہ اس کے لیے الگ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ پہلے ادوار میں حکومتیں اپوزیشن کے خلاف سیاسی حربے استعمال کرتی تھیں مگر اب انتقامی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ہم ایسی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اپوزیشن اراکین کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری کر دیے جاتے ہیں جو ماضی میں نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی توجہ ملک کے بڑے مسائل کے حل کی طرف ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چھوٹے معاملات میں الجھنے کے بجائے آگے بڑھا جائے تاکہ ملک کی سمت درست کی جا سکے۔ ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری چینل پی ٹی وی کو آزاد کیا جس پر اب حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا موقف بھی دکھایا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر انتقامی کارروائیوں کی جانب لگ گئے تو ملکی مسائل سے توجہ ہٹ جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ادارے آزادی سے اپنا کام کریں۔ اگر ایوان کے کسی بھی رکن نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ ہماری پالیسی بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی مجرم ثابت ہوگیا توایوان اس کا ساتھ نہیں دے گا، چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ ہم ملک میں مساوات، عدل و انصاف اور احتساب کا موثر نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی اپوزیشن کے بارے میں سافٹ کارنر کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں بلکہ وہ ہاؤس کو بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے گزشتہ 5برس خیبر پختونخوا اسمبلی بہترین طریقے سے چلائی۔ وہ ہماری جماعت کے سینئر رہنما اور وزیر اعظم عمران خان کے دیرینہ ساتھیوں میں سے ہیں۔ وزیراعظم کو ان پر مکمل اعتماد ہے لہٰذا ان کے بارے میں جو باتیں گردش کر رہی ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ نیب قوانین میں تبدیلی کے حوالے سے فی الحال کچھ کہہ نہیں سکتا۔ میرے نزدیک جن قوانین میں تبدیلی کی گنجائش موجود ہے، ان میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ اگر ایوان سمجھتا ہے کہ نیب قوانین میں بہتری آنی چاہیے تو وسیع تر عوامی مفاد میں اس معاملے کو دیکھنا چاہیے اور باہم مشاورت سے آگے بڑھنا چاہیے۔ چیئرمین سینٹ کی تبدیلی اور حکومت گرانے کے بیانات سیاسی ہیں اور ایسے بیانات اپوزیشن کی جانب سے آتے رہتے ہیں جنہیں سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ ، بلوچستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ یہ سب کے سامنے ہے کہ سینیٹ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمارا ساتھ دیا جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے لہٰذا میرے نزدیک چیئرمین کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کی کوششوں اور ملاقاتوں سے اب ملکی سیاست یا حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اب عوام با شعور ہیں جس کا کریڈٹ بھی تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ اب عوام سب کچھ سمجھ چکے ہیں اور وہ سب کا ماضی اور حال جانتے ہیں۔ عوام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں لہٰذاجو بھی وعدہ خلافی کرے گا عوام اس کو دوبارہ منتخب نہیں کریں گے۔ اس وقت ملک میں 6 کروڑ افراد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں جو ہر لمحہ باخبر ہیں۔ انہیں چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی معلوم ہے اور وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ ایسی آواز ہے جس کو دبایا نہیں جا سکتا بلکہ اس کی روشنی میں بہتر اقدامات کیے جاسکتے ہیں اور جہاں کہیں خرابی کی نشاندہی ہو اسے دور کیا جائے۔ میرے نزدیک اب نوجوان ہی ملک کو لیڈ کریں گے، ماضی کے سیاستدان اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں۔ The post ایوان میں شائستگی کے فروغ کیلئے اقدامات کر رہے ہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.
0 notes
Text
نثار علی کی نثاریاں.......
جس زمانے میں ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریکِ بحالیِ جمہوریت عروج پر تھی تو اسٹیبلبشمنٹ نے احتجاجی جلوسوں کا زور توڑنے کے لیے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ چلتے جلوس میں کچھ سادہ لباس سیاسی ورکر ٹائپ چہرے شامل کروا دیے جاتے۔
یہ ورکر جمہوریت زندہ باد، ضیا الحق مردہ باد کے نعرے لگواتے لگواتے جلوس کو مقررہ راستے سے بھٹکا کر اس جانب لے جاتے جہاں پولیس کی قیدی گاڑیاں کھڑی ہوتیں اور پھر مظاہرین کی پکڑ دھکڑ میں حکومت مخالف نعرے لگوانے والے یہ سادے بھی شامل ہو جاتے۔
جانے کیوں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو دیکھ کر ایم آر ڈی کے جلوس کو بھٹکانے کی ڈیوٹی پر مامور وہ سادہ لباس نعرہ باز یاد آجاتا ہے۔
منگل سے جاری اچھا بھلا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جب یہ تاثر دینے لگا کہ جمہوری نظام کو لپیٹنے کی بالائے آئین سازشوں کے خلاف 99 فیصد سیاسی جماعتیں اپنے نظریات و شکایات سے بالاتر ہو کر دیوار کی صورت کھڑی ہیں اور ان کی ساری توجہ دھرنے کی غیر پارلیمانی سیاست ختم کرانے پر ہے۔ عین اس وقت ملک میں امن و امان کے قیام کے ذمہ دار وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی رگِ پراسراریت پھڑکی۔
انہوں نے اپنے کولھے سے لگی گن سیدھی کر کے سینیٹ کے قائدِ حزبِ اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن پر داغ دی اور ان پر لینڈ مافیا کے مقدمے لڑنے اور ایل پی جی گیس کا ناجائز کوٹا لینے کے الزامات لگا دیے۔
بندہ پوچھے کہ ان الزامات کی صحت سے قطع نظر ان کا ملک اور حکومت کو درپیش حالیہ بحران سے کیا براہ راست تعلق بن رہا ہے اور وہ بھی ایسے وقت جب پارلیمنٹ اور حکومت سڑک پر معاملات طے کرنے والوں کے محاصرے میں ہے۔
یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جس وزیرِ اعظم کا وزیرِ داخلہ اس کے کنٹرول میں نہیں تو پھر کس کے کنٹرول میں ہے
نتیجہ یہ ہوا کہ پارلیمنٹ کا چوتھا دن وزیرِ اعظم کی جانب سے معافی تلافی اور اعتزاز احسن کی دھواں دار جارحانہ صفائی کی نذر ہوگیا اور یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ جمہوریت اور آئین پسندوں کا اتحاد کیسے پل صراط پر کھڑا ہے۔
کچھ اور ہو نہ ہو اس پارلیمانی تماشے سے باہر کھڑے کنٹینری مقررین کے ہاتھ میں نیا ایمونیشن آگیا اور ٹی وی چینلوں کے اونگھتے ٹاک شوز میں ایک بار پھر زندگی پڑ گئی۔
اب یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جس وزیرِ اعظم کا وزیرِ داخلہ اس کے کنٹرول میں نہیں تو پھر کس کے کنٹرول میں ہے۔
انھی وزیرِ داخلہ نے اگست کے شروع میں کہا تھا کہ لاہور سے آنے والا لانگ مارچ اسلام آباد میں نہیں گھسنے دیا جائے گا۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ ��ے کہا کہ مارچ کو آبپارہ سے آگے کسی صورت نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ریڈ زون کی لکیر کسی صورت عبور نہیں کرنے دی جائے گی۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ریڈ زون سے آگے کسی صورت نہیں جانے دیا جائے گا۔
اور پھر یہ ہوا کہ مظاہرین نے کپڑے دھو کر سپریم کورٹ کے جنگلے سے لٹکا دیے۔ پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں صابن مل کے نہانا شروع کر دیا ، پی ٹی وی کی تاریں کاٹنے کے بعد کینٹین میں کھانا بھی اڑایا اور وزیرِ داخلہ ’اِب کے مار، اِب کے مار‘ ہی کرتے رہ گئے۔
آج وزیرِ اعظم پارلیمنٹ میں سر جھکا کے ہر تقریر سن رہے ہیں مگر وزیرِ داخلہ کا تنتنا کسی جنرل رومیل سے کم نہیں۔
کیا یہ وہی نثار علی خاں تو نہیں جنھوں نے اپنے بڑے بھائی اور سیکریٹری دفاع جنرل (ریٹائرڈ) چوہدری افتخار علی خاں مرحوم کے ساتھ مل کے منگلا کے کور کمانڈر جنرل پرویز مشرف کا نام بطور چیف آف آرمی سٹاف وزیرِاعظم کے سامنے رکھا تھا کہ ’اینہوں بنا لئو، سدھا سادھا اردو سپیکنگ بندہ لگدا جے۔‘
پُل ہیں یا ’پش اینڈ پل‘
لوگ کہتے ہیں چوہدری نثار کو ساتھ رکھنا میاں برادران کی مجبوری ہے بھلے اس کی قیمت جاوید ہاشمی جیسوں کی قیمت دے کر ہی کیوں نہ چکانی پڑے اور یہ کہ فوج اور میاں برادرز کے درمیان چوہدری نثار علی ہی ایک مضبوط پل ہیں مگر یہ کون طے کرے کہ یہ واقعی پل ہیں یا پش اینڈ پل ہیں اور یہ کہ اس پل کے کھلنے بند ہونے کی چابیاں کس کے پاس ہیں؟
کیا یہ وہی چوہدری صاحب تو نہیں جنھوں نے اسی جنرل پرویز مشرف پر عین اس روز آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمۂ بغاوت چلانے کا اعلان کیا جس دن راولپنڈی شیعہ سنی فساد سے جل رہا تھا تاکہ میڈیا کو کھیلنے کے لیے دوسری گیند مل جائے۔
اور کیا یہ وہی چوہدری صاحب تو نہیں جو بعد میں اس بات کے حامی ہو گئے کہ بغاوت کی فردِ جرم عائد ہونے کے بعد مشرف صاحب کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی جائے اور جب وزیرِ اعظم نے بات نہیں مانی تو چوہدری صاحب ایسے روٹھ گئے کہ کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھی ان کا فون ساری رات بند رہا۔
یہ کیسے وزیرِ داخلہ ہیں جنھوں نے اب سے ہفتہ بھر پہلے دھرنا بحران میں فوج کی ثالثی کی خبر دی مگر انھی کے وزیرِ اعظم نے بھری پارلیمان میں اس مبینہ کردار کی تردید کر دی اور پھر فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو ایک علیحدہ بیان جاری کرنا پڑ گیا۔
ان پے در پے ’ایفی شنسیوں‘ کے بعد مہذب یا غیر مہذب کی بحث سے قطع نظر کوئی اور ملک ہوتا تو اس کا وزیرِ داخلہ خود ہی استعفیٰ دے کر کنسلٹینسی سے پیسے کمانے شروع کر دیتا مگر پاکستان ’کوئی اور ملک‘ تو نہیں ہے۔
لوگ کہتے ہیں چوہدری نثار کو ساتھ رکھنا میاں برادران کی مجبوری ہے بھلے اس کی قیمت جاوید ہاشمی جیسوں کی قیمت دے کر ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔
اور یہ کہ فوج اور میاں برادران کے درمیان چوہدری نثار علی ہی ایک مضبوط پل ہیں۔ مگر یہ کون طے کرے کہ یہ واقعی پل ہیں یا پش اینڈ پل ہیں اور یہ کہ اس پل کے کھلنے بند ہونے کی چابیاں کس کے پاس ہیں؟
آدمی اپنی زبان کے نیچے ہے - حضرت علی
وسعت اللہ خان
0 notes
Text
نثار علی کی نثاریاں.......
جس زمانے میں ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریکِ بحالیِ جمہوریت عروج پر تھی تو اسٹیبلبشمنٹ نے احتجاجی جلوسوں کا زور توڑنے کے لیے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ چلتے جلوس میں کچھ سادہ لباس سیاسی ورکر ٹائپ چہرے شامل کروا دیے جاتے۔
یہ ورکر جمہوریت زندہ باد، ضیا الحق مردہ باد کے نعرے لگواتے لگواتے جلوس کو مقررہ راستے سے بھٹکا کر اس جانب لے جاتے جہاں پولیس کی قیدی گاڑیاں کھڑی ہوتیں اور پھر مظاہرین کی پکڑ دھکڑ میں حکومت مخالف نعرے لگوانے والے یہ سادے بھی شامل ہو جاتے۔
جانے کیوں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو دیکھ کر ایم آر ڈی کے جلوس کو بھٹکانے کی ڈیوٹی پر مامور وہ سادہ لباس نعرہ باز یاد آجاتا ہے۔
منگل سے جاری اچھا بھلا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جب یہ تاثر دینے لگا کہ جمہوری نظام کو لپیٹنے کی بالائے آئین سازشوں کے خلاف 99 فیصد سیاسی جماعتیں اپنے نظریات و شکایات سے بالاتر ہو کر دیوار کی صورت کھڑی ہیں اور ان کی ساری توجہ دھرنے کی غیر پارلیمانی سیاست ختم کرانے پر ہے۔ عین اس وقت ملک میں امن و امان کے قیام کے ذمہ دار وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی رگِ پراسراریت پھڑکی۔
انہوں نے اپنے کولھے سے لگی گن سیدھی کر کے سینیٹ کے قائدِ حزبِ اختلاف بیرسٹر اعتزاز احسن پر داغ دی اور ان پر لینڈ مافیا کے مقدمے لڑنے اور ایل پی جی گیس کا ناجائز کوٹا لینے کے الزامات لگا دیے۔
بندہ پوچھے کہ ان الزامات کی صحت سے قطع نظر ان کا ملک اور حکومت کو درپیش حالیہ بحران سے کیا براہ راست تعلق بن رہا ہے اور وہ بھی ایسے وقت جب پارلیمنٹ اور حکومت سڑک پر معاملات طے کرنے والوں کے محاصرے میں ہے۔
یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جس وزیرِ اعظم کا وزیرِ داخلہ اس کے کنٹرول میں نہیں تو پھر کس کے کنٹرول میں ہے
نتیجہ یہ ہوا کہ پارلیمنٹ کا چوتھا دن وزیرِ اعظم کی جانب سے معافی تلافی اور اعتزاز احسن کی دھواں دار جارحانہ صفائی کی نذر ہوگیا اور یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ جمہوریت اور آئین پسندوں کا اتحاد کیسے پل صراط پر کھڑا ہے۔
کچھ اور ہو نہ ہو اس پارلیمانی تماشے سے باہر کھڑے کنٹینری مقررین کے ہاتھ میں نیا ایمونیشن آگیا اور ٹی وی چینلوں کے اونگھتے ٹاک شوز میں ایک بار پھر زندگی پڑ گئی۔
اب یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جس وزیرِ اعظم کا وزیرِ داخلہ اس کے کنٹرول میں نہیں تو پھر کس کے کنٹرول میں ہے۔
انھی وزیرِ داخلہ نے اگست کے شروع میں کہا تھا کہ لاہور سے آنے والا لانگ مارچ اسلام آباد میں نہیں گھسنے دیا جائے گا۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ مارچ کو آبپارہ سے آگے کسی صورت نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ریڈ زون کی لکیر کسی صورت عبور نہیں کرنے دی جائے گی۔ پھر انھی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ریڈ زون سے آگے کسی صورت نہیں جانے دیا جائے گا۔
اور پھر یہ ہوا کہ مظاہرین نے کپڑے دھو کر سپریم کورٹ کے جنگلے سے لٹکا دیے۔ پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں صابن مل کے نہانا شروع کر دیا ، پی ٹی وی کی تاریں کاٹنے کے بعد کینٹین میں کھانا بھی اڑایا اور وزیرِ داخلہ ’اِب کے مار، اِب کے مار‘ ہی کرتے رہ گئے۔
آج وزیرِ اعظم پارلیمنٹ میں سر جھکا کے ہر تقریر سن رہے ہیں مگر وزیرِ داخلہ کا تنتنا کسی جنرل رومیل سے کم نہیں۔
کیا یہ وہی نثار علی خاں تو نہیں جنھوں نے اپنے بڑے بھائی اور سیکریٹری دفاع جنرل (ریٹائرڈ) چوہدری افتخار علی خاں مرحوم کے ساتھ مل کے منگلا کے کور کمانڈر جنرل پرویز مشرف کا نام بطور چیف آف آرمی سٹاف وزیرِاعظم کے سامنے رکھا تھا کہ ’اینہوں بنا لئو، سدھا سادھا اردو سپیکنگ بندہ لگدا جے۔‘
پُل ہیں یا ’پش اینڈ پل‘
لوگ کہتے ہیں چوہدری نثار کو ساتھ رکھنا میاں برادران کی مجبوری ہے بھلے اس کی قیمت جاوید ہاشمی جیسوں کی قیمت دے کر ہی کیوں نہ چکانی پڑے اور یہ کہ فوج اور میاں برادرز کے درمیان چوہدری نثار علی ہی ایک مضبوط پل ہیں مگر یہ کون طے کرے کہ یہ واقعی پل ہیں یا پش اینڈ پل ہیں اور یہ کہ اس پل کے کھلنے بند ہونے کی چابیاں کس کے پاس ہیں؟
کیا یہ وہی چوہدری صاحب تو نہیں جنھوں نے اسی جنرل پرویز مشرف پر عین اس روز آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمۂ بغاوت چلانے کا اعلان کیا جس دن راولپنڈی شیعہ سنی فساد سے جل رہا تھا تاکہ میڈیا کو کھیلنے کے لیے دوسری گیند مل جائے۔
اور کیا یہ وہی چوہدری صاحب تو نہیں جو بعد میں اس بات کے حامی ہو گئے کہ بغاوت کی فردِ جرم عائد ہونے کے بعد مشرف صاحب کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی جائے اور جب وزیرِ اعظم نے بات نہیں مانی تو چوہدری صاحب ایسے روٹھ گئے کہ کراچی ایئرپورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھی ان کا فون ساری رات بند رہا۔
یہ کیسے وزیرِ داخلہ ہیں جنھوں نے اب سے ہفتہ بھر پہلے دھرنا بحران میں فوج کی ثالثی کی خبر دی مگر انھی کے وزیرِ اعظم نے بھری پ��رلیمان میں اس مبینہ کردار کی تردید کر دی اور پھر فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کو ایک علیحدہ بیان جاری کرنا پڑ گیا۔
ان پے در پے ’ایفی شنسیوں‘ کے بعد مہذب یا غیر مہذب کی بحث سے قطع نظر کوئی اور ملک ہوتا تو اس کا وزیرِ داخلہ خود ہی استعفیٰ دے کر کنسلٹینسی سے پیسے کمانے شروع کر دیتا مگر پاکستان ’کوئی اور ملک‘ تو نہیں ہے۔
لوگ کہتے ہیں چوہدری نثار کو ساتھ رکھنا میاں برادران کی مجبوری ہے بھلے اس کی قیمت جاوید ہاشمی جیسوں کی قیمت دے کر ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔
اور یہ کہ فوج اور میاں برادران کے درمیان چوہدری نثار علی ہی ایک مضبوط پل ہیں۔ مگر یہ کون طے کرے کہ یہ واقعی پل ہیں یا پش اینڈ پل ہیں اور یہ کہ اس پل کے کھلنے بند ہونے کی چابیاں کس کے پاس ہیں؟
آدمی اپنی زبان کے نیچے ہے - حضرت علی
وسعت اللہ خان
0 notes
Text
حکومت نےقانون سازی کرکے این آراوکو ہمیشہ کیلئےدفن کردیا،شیخ رشید - Pakistan
حکومت نےقانون سازی کرکے این آراوکو ہمیشہ کیلئےدفن کردیا،شیخ رشید – Pakistan
راولپنڈی :وفاقی وزیر ری��وے شیخ رشید نے کہا ہے کہ حکومت نے قانون سازی کرکے این آراو کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیا، اپوزیشن کی کُل جماعتی کانفرنس ناکام ثابت ہوگی، مسلم لیگ ن سے شین کا نکلنا طے ہے، شیعہ سنی فساد کرانے کی کوشش ناکام بنا دی۔
وزیر ریلوے شیخ رشید نے راولپنڈی میں ریلوے اسپتال کے نئے بلاک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہبازشریف اور بلاول سے کل ملاقات ہوئی سب پر باش ہیں، اپوزیشن…
View On WordPress
0 notes
Photo
https://goo.gl/CAfSdU
شام: ماضی، حال اور مستقبل
بلادِ شام دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ یہاں پر قدیم ترین سامی اقوام اور زبانوں کے آثار دستیاب ہوئے ہیں۔ بلاد شام مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم اور مقدس سرزمین ہے اور کیوں نہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس بارے میں کئی روایات منقول ہیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ایک بنیادی حصہ مجھ سے واپس لیا جارہا ہے،میری نظروں نے تعاقب کیا، ادھر سے نور پھوٹ رہا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ شام میں رکھ دی گئی ہے، پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا۔(صححہ البانی فی فضائلِ الشام و دمشق) زید بن ثابت ر بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: شام کے لیے خوشحالی ہے ، ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کی کیا وجہ ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا رحمن کے فرشتے اس پر اپنے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔(ترمذی) حضرت عبداللہ بن حوالہ ر سے مروی ہے کہ انھوں نے آپؐ سے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ مجھے بتائیں کہ میں کس علاقے میں قیام کروں ، اگر مجھے پتا ہو کہ آپؐ ہمارے ساتھ لمبے عرصے تک رہیں گے تو میں آپ کی رفاقت کے علاوہ کہیں اور رہنے کو ہرگز ترجیح نہ دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، شام کی طرف جائو، شام کی طرف جائو، تو جب آپؓ نے دیکھا کہ مجھے شام پسند نہیں ہے تو آپ نے فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ اللہ اس بارے کیا فرماتا ہے؟ پھر آپ نے فرمایا، شام میری زمینوں میں سے وہ منتخب کردہ زمین ہے جہاں میں اپنے بہترین عابدوں کو داخل کرتا ہوں۔ (رواہ ابو دائود و احمد سند صحیح) مسکن ابنِ حوالہ ر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، عنقریب امر (جہاد) اس طرح ہوگا کہ تم لشکروں کے مجموعے بنو گے، ایک لشکر شام میں ہوگا ، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، ابنِ حوالہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! اگر میں یہ صورت پائوں تو آپ میرے لیے کسی لشکر کا انتخاب فرما دیں، آپ نے فرمایا، تم شام کے لشکر کو لازم پکڑنا، کیونکہ وہ اللہ کی سرزمین میں ایک پسندیدہ خطہ ہے اور وہ اپنے بندوں کو اس طرف لائے گا، ہاں اگر تم وہاں نہ جاو تو تم یمن کا رخ کرنا اور اس کے حوضوں سے سیراب ہونا، اللہ تعالیٰ نے شام اور اہلِ شام کی محافظت کی مجھے ضمانت دی ہے۔ (ابودائود)، سلمہ بن نفیل الکندی سے نسائی کی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا، ایمان والوں کا گھر شام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب اہلِ شام فساد کا شکار ہو جائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں، میری اُمت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ انھیں بے یارو مددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ (ترمذی ) اور ایک حدیث غوطہ کے بارے میں بھی سن لیجیے جسے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سخت جنگی حالات میں مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تمھارے لیے شام فتح ہو جائے گا۔ اس میں ایک جگہ جسے غوطہ کہتے ہیں یہ جگہ سخت جنگوں میں مسلمانوں کا بہترین ٹھکانا ہو گی۔(مسند احمد) موجودہ گھمسان کی لڑائی میں شام کے شہریوں کی اجتماعی نسل کشی نے انسانیت کے تمام دعوئوں کو جھوٹ ثابت کر دیا ہے اور یہ فرعونیت ان تمام اداروں اورتنظیموں کے کردار پر سوالیہ نشان ہے جو آئے روز انسانیت کا ڈھونگ رچاتے ہوئے اس کے تحفظ کے بلند بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ شام اس دنیا میں جہنم کی نظیر بن چکا ہے۔ حالات مزید سنگین ہوتے چلے جارہے ہیں اور اندیشہ ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ جنگ بے مہار ہو جائے گی اورجنگ بندی کے لیے کوئی ملک اپنا کردار ادا کرنے سے تہی دامن دکھائی دے گا۔ شام میں جاری اس گھمسان کی لڑائی کا مقصد کیا ہے، کیوں مہذب شہری اپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیوں عالمی طاقتوں نے زور آزمائی کے لیے شام کی مقدس سرزمین کو منتخب کیا ہے، شام کا اصل قضیہ کیا ہے؟ ان سوالات کے تسلی بخش جوابات اور موجودہ حالات کو سمجھنے کے لیے چند امور کو خاطر میں لانا اصل قضیے کی طرف رہنمائی کا واحد ذریعہ ہے۔ شام میں مقتدر طبقے کا تعلق کس قبیلے سے ہے؟ اقتدار تک پہنچنے کے لیے ان کی ریشہ دوانیوں کی داستان کیا ہے اور وہ کیا چاہتا ہے؟برسوں سے شام میں جاری جنگ و جدل کی نوعیت کیا ہے۔ اس جنگ میں کون کون سے ممالک براہِ راست اور کون بالواسطہ شریک ہیں۔ کون کس کا حلیف ہے اور کون کس کے مد مقابل اور مخالف ہے۔ یہ ممالک اس مقدس سرزمین میں کس قسم کے مفادات کا حصول چاہتے ہیں، ان کے عقائد و نظریات اور ایجنڈا کیا ہے۔ یہی وہ امور ہیں جو عالمی طاقتوں کے شطرنج کا کھیل سمجھنے میں مدد فراہم کریں گے۔ پہلی عالمی جنگ عظیم تک بلاد شام ایک وسیع و عریض علاقے پر مشتمل تھا لیکن جب خلافت اسلامیہ کمزور پڑی مسلمان ملکوں پر یہود و نصاریٰ یا ان کے کاسہ لیس حکمرانوں کو مسلط کیا گیا تو انگریزوں اور اہل فرانس کی مکاری سے بلاد شام کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیااور موجودہ شام 1920ء میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا، لیکن 1946ء تک اس پر فرانس کا قبضہ برقرار رہا چونکہ دوسری جنگ عظیم میں فرانس کمزور پڑ گیا ،جب اسے محسوس ہوا کہ وہ شام پر مزید اپنا تسلط برقرار نہیں رکھ سکے گا تو اس نے 1944ء میں کیے جانے والے معاہدہ آزادی کو دوبارہ تسلیم کر لیا اور 15 اپریل 1946ء کو فرانسیسی اور برطانوی افواج شام سے کوچ کر گئیں،بالآخر 17اپریل 1946ء کو شام نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ تاریخ میں جس خطے کو بلادِ شام کہا گیا ہے ، وہ موجودہ چار ملکوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ = حالیہ شام(دارالحکومت دمشق) جہاں روافض کا خونیں پنجہ مسلم جسم کو نوچ رہا ہے۔ = فلسطین (دارالحکومت بیت المقدس) جہاں پون صدی سے یہود قابض ہیں۔ = لبنان(دارالحکومت بیروت) جہاں مسلمانوں کو اقلیت میں رکھا گیا ہے اور ہر طریقے سے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اردن(دارالحکومت عمان) جہاں برطانوی استعمار کے پرانے ایجنٹ اور نمک خوار مسلط ہیں اور صیہونیوں سے یاری کا حق ادا کرتے ہیں۔ بلاد شام کو تقسیم کرنے کے بعدباقاعدہ پلاننگ کے تحت ان چاروں ملکوں سے اسلامی اقدار اور آثار مٹانے کی کوشش کی گئی اور اس کے لیے فرانسیسیوں نے اپنے بااعتماد اور تاریخی اتحادی روافض کی خدمات حاصل کیں لیکن اس بار فرق صرف اتنا تھا کہ روافض کے بھی بد ترین فرقے نصیریہ اور علویہ کو چنا گیا۔ مسلمان اور شیعہ حضرات دونوں ان فرقوں کو اسلام سے خارج سمجھتے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے زمانے تک یہ فرقے خاموش رہے لیکن سقوطِ خلافت کے فورا بعد ہی انھوں نے مخصوص ایجنڈے پر کام کرنا شروع کر دیا۔ یہ لوگ شام کے ساحلی پہاڑی کے ساتھ واقع ایک علاقہ لاتیکا میں مقیم تھے اور اس وقت یہ علاقہ قسطنطینی ریاست کے زیر اہتمام تھا۔ 1936ء جب میں فرانسیسی حکمرانوں نے اس علاقے کا شام کے ساتھ الحاق کرنا چاہا تو فرانس میں قائم شدہ پاپولر فرنٹ کے سربراہ کو اِنھوں نے میمورنڈم بھیجا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں: علوی لوگ جنھوں نے کئی سالوں تک بڑی غیرت اور قربانیوں کے ساتھ اپنی آزادی کی حفاظت کی ہے ، دوسرے سنی مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ علوی، مسلم شام کے ساتھ اپنے الحاق کا انکار کرتے ہیں، کیونکہ شام کا سرکاری دین اسلام ہے اور اسلام کے مطابق علوی کافر ہیں۔ ہم اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ دمشق کے مسلمانوں نے اپنے درمیان رہنے والے یہودیوں کو ایک دستاویز پر دستخط پر مجبور کیا کہ وہ فلسطین میں رہنے والے اپنے بدقسمت یہودی بھائیوں کو مدد نہیں بھیجیں گے۔ یہودیوں کی فلسطین میں قابل رحم حالت اسلام میں موجود اس زیادتی کی واضح مثال ہے جو کہ وہ غیرمسلموں سے روا رکھتا ہے۔ حالانکہ ان اچھے یہودیوں نے عربوں کے اندر تمدن اور امن کی آبیاری کی ، سونا بانٹا او ر بغیر کسی کا مال لوٹے اور نقصان پہنچائے فلسطین میں خوشحالی لے آئے۔ پھر بھی مسلمانوں نے ان کے ساتھ اعلان جنگ کیا اور سرکار برطانیہ کی فلسطین میں موجودگی اور فرانس کی شام میں موجودگی کے باوجود ان کا قتل عام کرنے سے کبھی نہ ہچکچائے۔ چنانچہ رائے عامہ کا احترام نہ کرتے ہوئے اگرمسلم شام کو مسلم فلسطین کے ساتھ اکٹھا کر دیا گیا تو ان یہودیوں اور دوسری اقلیتوں کا بدترین انجام ہو گا۔ اس میمورنڈم میں اسلام دشمنی اور یہود سے دوستی ایک ایک لفظ سے ٹپکتی ہے اور اس پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک نام سلمان الاسد کا ہے جو کلبیہ قبیلے کا سردار تھا۔ یہی سلمان الاسد موجودہ صدر بشار الاسد کا دادا اور حافظ الاسد کا باپ تھا۔ شام کے فرانسیسی حکمرانوں نے جن کو اصل خطرہ سنی اسلام سے تھا، ان علویوں کی ایک علیحدہ فوج تشکیل دی اور انھیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔ یہی فوج فرانسیسی سامراج سے آزادی کے بعد شامی نیشنل آرمی کہلائی۔ 1946ء میں علوی خاندان کے ہونہار فرزند نے صرف سولہ سال کی عمر میں بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں حافظ الاسد ہی تھا جس نے سیاست میں شمولیت کے ساتھ ساتھ نیشنل آرمی بھی جوائن کر لی تھی۔ بعث پارٹی نے جب 1958ء میں ناصر کی تعلیمات سے متاثر ہو کر شام کا مصر کے ساتھ الحاق کرنے کا ارادہ کر لیا تو پارٹی میں موجود علویوں نے 1963ء میں ایک علوی صالح حدید کی قیادت میں بغاوت کر دی۔ حافظ الاسد جو ایک جنگجو پائلٹ تھا یکایک ایئرفورس کمانڈر بنا دیا گیا۔ فوج کے تقریباً سات سو عہدوں پر پرانے افسروں کو نکال کر نئے نصیری کمانڈر تعینات کیے گئے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کی شکست کے بعد حافظ الاسد جو اب وزیر دفاع بن چکا تھا، نے شامی حکومت پر اسرائیل کے ساتھ خفیہ مراسم رکھنے کا الزام لگایا اور ایک محلاتی سازش کے تحت 11مارچ 1971ء کو حافظ الاسد اقتدار پر قابض ہو گیا۔ حافظ الاسد کے صدر بنتے ہی شامی قانون میں ایک تبدیلی کی گئی۔ شامی قانون کے مطابق صدر بننے کے لیے مسلمان کا سنّی مسلمان ہونا ضروری تھا جبکہ حافظ الاسد نے اس شق کو تبدیل کر کے حکمران کا صرف مسلمان ہونا کافی قرار دے دیا۔ 1973ء میں لبنان کے اثنا عشری رافضی امام موسی الصدر نے ایک فتویٰ جاری کیا جس کے مطابق نصیریوں کو باقاعدہ شیعوں کے فرقے کا ایک گروپ تسلیم کر لیا گیا۔ یہ فتویٰ مذہبی سے زیادہ سیاسی تھا جس کے پیچھے عالم عرب میں رافضی اقتدار کو فروغ دینا تھا اور یوں شیعہ حضرات کی شام پر گرفت مزید مضبوط ہو۔ شامی مسلمان ایک تو مذہبی حمیت کی وجہ سے کسی نصیری کو اپنا حکمران ماننے پر تیار نہ تھے، دوسری طرف وہ سمجھتے تھے کہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں نصیری حکومت نے اسرائیل کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا جس کے افشا ہونے پر حافظ الاسد کو بر طرف کرنے کے مطالبات کا آغاز ہوا۔ 1980ء میں حافظ الاسد کے خون آشام نصیری دستوں نے حما کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا۔ صرف جیلوں میں موجود1200 اخوان المسلمین کے قیدیوں کو بغیرمقدمہ چلائے مار دیا گیا اور حما کے اوپر ٹینک چڑھا دیے گئے۔ سنی جو کہ شامی آبادی کا تقریباً 70فی صد ہیں طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہیں۔ خاص طور پر وہ علاقے جو 1980ء کے انقلاب میں بڑے سرگرم تھے جیسے کہ حما ،درہ، حمص ، یہی وجہ ہے کہ موجودہ انقلاب بھی جو مارچ 2011ء سے شروع ہوا انھی شہروں سے شروع ہوا۔ سال 2011ء میں لیبیا کے صدر معمر قذافی کی ڈکٹیٹر شپ ا��نے انجام کو پہنچی اور سال 2014ء میں شہریوں کی انتھک جہدوجہد سے تیونس کے زین العابدین کی24سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ شام کے شہریوں نے محسوس کیا کہ عوام کی طاقت حکمرانوں کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے مجبور کر سکتی ہے یا پھر اقتدار سے فارغ کر سکتی ہے تو شامی عوام بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ صرف حکومت میں سیاسی اصلاحات چاہتے تھے تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں چار شہری ہلاک ہوئے۔ اسی دن درعا میں سکول کے طلبہ نے بشار الاسد کو مخاطب کر کے دیوار پر اس نعرے کی وال چاکنگ کی جائک الدور یا دکتورکہ اب (قذافی) کی طرح تمھاری باری ہے۔ 15مارچ2011 ء سے 28 مارچ 2011ء تک حکومتی کریک ڈاون کے نتیجے میں 60 مظاہرین ہلاک ہوئے اور بشار الاسد نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی۔ 19جولائی 2012ء میں حکومتی کریک ڈاون کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں جاری خانہ جنگی مزید شدت اختیار کر گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔ دسمبر 2012 ء میں برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا اور ان سے تعاون بھی شروع کر دیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے اور یوں پر امن احتجاج اور چند مطالبات کی کوکھ سے اس جنگ کا آغاز ہوا۔ اس تحریک نے چند ماہ میں پورے شام کا احاطہ کر لیا۔ ہر جگہ بشارت الاسد کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کو کچلنا بشار الاسد کے لیے اتنا آسان نہ تھا، لیکن ایران نے حزب اللہ، پاسداران انقلاب اور فاطمیوں کی بدولت بشار الاسد کے لیے ان مظاہروں کو کچلنا آسان بنا دیا۔ آج اس جنگ میں ایران، امریکہ ،روس اور ترکی براہ راست شریک ہیں جبکہ سعودی عرب اور قطر بالواسطہ تعاون کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اسرائیل کے بھی مفادات وابستہ ہیں۔ ان تمام کے مفادات اور نظریات مختلف ہیں، یہی وجہ ہے کہ شام میں اس وقت جنگ کی نوعیت بھی مختلف ہے۔ علوی اور نصیری سنّی مسلمانوں کو چن چن کر مار رہے ہیں اور اپنی انتقامی آگ بجھانے کی کوشش میں ہیں جبکہ دیگر ممالک اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ شام کی سرزمین پر اب دو عالمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔ دونوں کا دعوی ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف لڑرہے ہیں مگر حقیقت میں یہ جنگ اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ امریکہ اور روس کے شام میں اپنے اپنے مفادات ہیں جن کے لیے وہ یہاں دخیل ہیں اور شام کو تباہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ نئی جنگ داعش کے خلاف جنگ کے نام پر شروع ہوئی ہے۔ اب تک یہاں امریکہ اور اس کی ہمنوا طاقتیں سرگرم تھیں مگر اب اس کے بیچ جس طرح روس نے انٹری لی ہے وہ امریکہ کے لیے دردسر سے کم نہیں ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ داعش جیسی عالمی دہشت گرد تنظیم کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے شام کے میدان میں کود پڑا ہے مگر حقیقت میں وہ انھیں تحفظ فراہم کررہا ہے۔ ور نہ کیا سبب ہے کہ ایک مدت سے لڑنے کے دعوے کے باوجود امریکہ اور مغربی ممالک کو کامیابی نہیں ملی اور چند دن میں روس نے داعش کا پورا سسٹم تباہ کردیا۔ امریکہ ایک طرف داعش کی مدد کر رہا ہے تو دوسری طرف سنی مسلمانوں کو ہتھیار اور فنڈز فراہم کر رہا ہے تاکہ بشار الاسد کی حکومت کو ختم کیا جا سکے اور کسی امریکہ نواز اور اسرائیل نواز ڈکٹیٹر کو لایا جا سکے جو امریکہ کو دیر الزور میں تیل کے کنووں تک رسائی کو یقینی بنائے اور وسطی ایشیا میں روس کی بڑھتی ہوئی قوت کا سد باب کرے۔ امریکہ جیسے اسلام دشمن نے بشار الاسد کے خلاف بیان اورمیزائل داغے ہیں تو اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب سے بڑی استعماری طاقت کے دل میں مسلمانوں کادردجاگ اٹھاہے۔ جس طاقت نے مسلمانوں کی ایک بہن عافیہ صدیقی کو86سال کی سزا دے دی اورمسلمانوں کے جذبات کاذرابھی خیال نہ کیا اورجس کی پشت پناہی سے فلسطینی مسلمانوں کی ہر شب شبِ غم اورہر دن یوم حشر ہے،اس کے بار ے میں کوئی سمجھ دارشخص یہ توقع نہیں کرسکتا کہ اسے شامی مسلمانوں سے کوئی ہمدردی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل کے دیے ہوئے ایجنڈے کے مطابق شام کو مزید چار ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے تاکہ چاروں ٹکڑے پانی، تیل اور زراعت کے لیے آپس میں لڑتے رہیں اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی جرات نہ کر سکیں۔ اس کے لیے وہ ایک طرف بشار الاسد کے خلاف سنی مسلمانوں کی مالی اور ہتھیاروں کے ذریعے مدد کر رہا ہے تو دوسری طرف داعش کو انھیں سنی مسلمانوں کی سپاری دے رکھی ہے۔ اس خانہ جنگی کے نتیجے میں اس وقت شام دنیا کے ان ممالک میں شامل ہوچکاہے جہاں مردوں کاتناسب سب سے کم رہ گیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق وہاں نوجوانوں کے جنگ کی نذر ہونے اوربوڑھوں کے امراض اورمصائب سے فوت ہونے کے بعدستر فیصد سے زیادہ محض خواتین رہ گئی ہیں۔ وہ شہر جو خطرے کی زد سے باہر ہیں ،وہاں بھی لڑکیوں کے لیے رشتہ ملنا ،دنیاکاسب سے مشکل کام بن گیا ہے۔ جو بے چارے جنگ زدہ علاقوں یا مہاجر کیمپوں میں ہیں،ان کے مسائل کااندازہ ہمیں اپنے گھروں میں بیٹھ کرنہیں ہوسکتا۔ اتنا جان لیناکافی ہے کہ صاف پانی کاایک گلاس مل جانا،ان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ روس نے سال 2013 ء سے اس جنگ میں حصہ لیا ہوا ہے۔ اس جنگ میں کودنے سے روس کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟وہ شام کو بچانے کے لیے اب کیوں آگے آیا، پہلے کیوں نہیں آیا؟ اس قسم کے سوال اٹھنے فطری ہیں۔ روس نے دہشت گرد تو مار گرائے لیکن انتہائی اہم سوال زندہ کر دیے۔ اس کا جواب صاف ہے۔ یہ جنگ مفادات کی جنگ ہے۔ نہ تو امریکہ مسلمانوں کا حامی ہے اور نہ ہی روس کو ان کے ساتھ کسی قسم کی محبت ہے۔ اصل کھیل بشارالاسد کو بچانے اور انھیں ہٹانے کا ہے۔ امریکہ نے دہشت گردوں کا نیٹ ورک اسد کے خلاف کھڑا کیا تھا تاکہ وہ اسد کو کمزور کریں اور امریکہ یہاں اپنے کسی کٹھ پتلی کو بٹھاسکے، جب کہ روس کے مفادات اسد سے وابستہ ہیں لہٰذا وہ کسی بھی حال میں انھیں بچانا چاہتا ہے۔ روس کی معیشت کا تقریباً چالیس فیصد توانائی کی برآمد سے آتا ہے۔ اس میں بھی قدرتی گیس ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ امریکہ اور اسرائیل نہیں چاہتے کہ گیس کے لیے یورپ کو روس پر انحصار کرنا پڑے۔ روسی صدرولادیمر پوتن کسی بھی حالت میں امریکہ کے اس منشا کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ یہی سبب ہے کہ دونوں ممالک نے اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے شام کو محاذ کے طور پر منتخب کیا ہے۔ اس کے علاوہ روس کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ وہ اسلحے کی عالمی منڈی میں اپنا مقام بنائے۔ اس وقت 85 ارب ڈالر سالانہ کی اس منڈی میں روس کا حصہ پانچ فیصد بھی نہیں بنتا ہے۔ روس نے دوسری عالمی جنگ کی تقریبات کے موقع پر کوبینکا نامی شہر میں جدید ترین روسی ہتھیاروں کی نمائش کی تھی۔ روس کے دارالحکومت ماسکو کے مضافاتی شہر میں منعقد ہونے والی اس بڑی عسکری نمائش میں ٹینک، توپیں، جنگی ہیلی کاپٹر، ریڈار سمیت دیگر جدید اسلحہ نمائش کے لیے رکھا گیا تھا، لیکن خریدار روسی اسلحے کے مؤثر ہونے کے بارے میں شکوک شبہات کا شکار تھے۔ یوں یہ نمائش بھی روسی اسلحے کے نئے خریدار تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سویت دور میں افغانستان، افریقہ اور مشرقی یورپ میں سوویت اسلحے کی ناکامی کا بھوت روسی اسلحے سے چمٹا ہوا۔ اس بار روس شام میں اس امید کے ساتھ آیا ہے کہ مغربی اسلحے کی ناکامی کے بعد روس اگر اس جنگ میں بشار کو بچانے میں کامیاب ہوگیا تو روسی اسلحے کی فتح ہوگی۔ جس کے بعد بہت سے نئے گاہک مل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ روس اس جنگ میں اپنا ہر طرح کا اسلحہ استعمال کر رہا ہے۔ شام میں زمینی اور فضائیہ کی موجودگی کے باوجود اس نے بحرہ خزر سے مہنگے ترین کروز میزائیل داغے ہیں، لیکن زمینی حقائق خواہشات سے مختلف ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ شامی مزاحمت کاروں نے پہلے ہی معرکے میں جس طرح روسی اسلحے کو شکست فاش دی ہے اور جس طرح روسی ٹینک تباہ ہوئے ہیں یقینا اس کے بعد روسی پالیسی ساز اپنے فیصلے پرپچھتا رہے ہوں گے۔ شام میں روسی مداخلت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شامی اور روسی سرحد کے درمیان پانچ سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے ، اگر شام میں امریکی کاسہ لیس اور ڈکٹیٹر اقتدار میں آتے ہیں تو اندیشہ ہے کہ چیچنیا میں روس کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کی مزاحمتی تحریک کو وسائل مہیا کیے جاسکیں تاکہ روس کی عالمی طاقت کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ ایران شام میں بشار الاسد کا حمایتی ہے اسی لیے لبنان کے اشارے پر پاسداران انقلاب اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کے ذریعے بشار الاسد کے ساتھ مل کر سنی تحریک ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ایران ایک طرف تو مسلکی رشتے کی بنیاد پر بشار الاسد کی مدد کر رہا ہے تو دوسری طرف سنی مسلمانوں سے ازلی دشمن اور ازلی اسلام دشمن یعنی یہودیوں سے گہری دوستی کی بنیاد پر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ شہادت کے طور پر اسرائیل کی حیفہ یونیورسٹی کے ماہر لسانیات جان ماہل کا اعتراف کافی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ علویوں کے مذہبی عقائد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ یہودی حامی اور سنی دشمن ہیں اور تو اور اسرائیل کے نقطۂ نظر سے بھی یہ ان کے لیے بہتر ہے کہ شام میں نصیری برسراقتدار رہیں۔ اگر شام میں سنی اقتدار میں آتے ہیں تو کسی بھی وسیع پیمانے پر فلسطین اور اسرائیل کا جھگڑا ایک جذباتی ردعمل کو جنم دے گا اور شام کو نتائج کی پروا کیے بغیر اسرائیل کے ساتھ ایک بین الاقوامی جنگ میں کھینچ لائے گا۔ در حقیقت اس تمام تر سازش کے پیچھے یہودیوں اور اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ گریٹر اسرائیل کے قیام کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی ریاستوں کی توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے۔ عراق اور لیبیا کے بعد اب شام اور یمن میں جنگ و جدل کا بازار گرم ہے، لیکن المیہ ہے کہ اس عمل میں مسلمانوں کو ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کو مسلمان حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کہیے یا اقتدار کی لالچ اور ہوس کہ وہ صیہونی آلہ کار بن گئے ہیں۔ اس وقت نہ کوئی طاقتور غیر ملکی مداخلت اور نہ ہی کوئی سیاسی مذاکرات اس جنگ کو اختتام پذیر کر سکتے ہیں بلکہ ایک شدید خطرہ یہ ہے کہ ایک نہایت ہی خطرناک قسم کی پراکسی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ کاش! مسلم ممالک کے سربراہان اس سنگین قضیے کو امریکااورروس کی صوابدید پر نہ چھوڑیں۔ انھیں شام ، افغانستان اورکشمیر سمیت اپنے تمام لاینحل مسائل کوحل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کی کاسہ لیسی ترک کرکے ایک صف میں کھڑے ہوناہوگا،ورنہ تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
0 notes
Photo
اسلامی اتحاد،ریاست کا فیصلہ،فتنہ تکفیر اور خارجیت-تحریرمصعب حبیب اسلامی اتحاد میں شمولیت ریاست کا فیصلہ سعودی عرب کی زیر قیادت دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے تشکیل دیئے گئے اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان، ترکی، مصر، انڈونیشیا، اردن، متحدہ عرب امارات، سوڈان، تیونس، قطر اور ملائشیا سمیت اسلامی دنیا کے39 ممالک شامل ہیں۔ اس اتحاد کا آپریشنل مرکز سعودی دارالحکومت الریاض میں ہو گاجہاں سے نہ صرف دنیا بھر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی مانیٹرنگ کی جائے گی، بلکہ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے مشترکہ طور پر عملی اقدامات بھی کئے جائیں گے۔ سعودی عرب میں مسلمان ملکوں کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں دہشت گردی کی بیخ کنی اور عالمی امن وسلامتی کو یقینی بنانے کے لئے موثر حکمت عملی وضع کرنے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک میں باہمی رابطوں کو مزید بہتر بنانے پر بھی اتفاق کیا گیاکہ انسانیت کے خلاف وحشیانہ جرائم اور فساد فی الارض ناقابل معافی جرائم ہیں جو نہ صرف انسانی نسل کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں ،بلکہ بنیادی حقوق کی پامالی اور انسانی عزت و احترام کے لئے بھی نہایت خطرناک ہیں۔ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے تمام مسلمان ممالک سعودی عرب کی قیادت میں متحد ہیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی سمیت مسلم دنیا کے اہم ممالک اس وقت اندرونی سازشوں کا شکار ہیں اور دشمنان اسلام‘ مسلم ملکوں و معاشروں میں امن و امان کی بربادی کے لئے تکفیر اورخارجیت کا فتنہ پروان چڑھانے کے لئے بے پناہ وسائل خرچ کر رہے ہیں۔سعودی عرب میں مساجد وامام بارگاہوں میں خودکش حملے ہوں، پاکستان میں افواج، عسکری اداروں ، مساجداور پبلک مقامات پر بم دھماکے ہوں یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں اس نوع کی دہشت گردی ہو، تمام واقعات کے پیچھے دشمن قوتوں کاہاتھ کارفرما نظر آتا ہے۔ مغربی ممالک خود ہی دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ مسلم ملکوں میں افواج و دفاعی اداروں پر حملے کروائے جاتے ہیں‘ بے گناہ انسانوں کا لہو بہانے کے لئے ہر طرح کی مدداور وسائل فراہم کئے جاتے ہیں اور پھرکچھ عرصہ بعد انہی دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنے کے بہانے مسلم ملکوں میں مداخلت کر کے انہیں عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بہت بڑی سازش ہے جو پچھلے کئی برسوں سے کی جارہی ہے۔پہلے نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر حملہ آوروں کا تعلق مختلف مسلم ملکوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور پھر صلیبی ملکوں کا بڑ ااتحاد بنا کر افغانستان پر چڑھائی کر کے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ عراق میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ دس لاکھ سے زائد عراقی مسلمانوں کو شہید کر کے اپنی پسند کے لوگوں کو وہاں اقتدار دلوایا اور بعد میں ٹونی بلیئر جیسے برطانوی حکمران معافیاں مانگتے نظر آتے ہیں کہ عراق پر حملہ کے لئے جو الزامات لگائے گئے تھے وہ ثابت نہیں ہو سکے اسی حملہ کے نتیجہ میں داعش وجود میں آئی ہے۔ پہلے نائن الیون حملہ کی بنیاد پر دو مسلم ملکوں میں خون کی ندیاں بہائی گئیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے خوفناک سلسلے پروان چڑھائے گئے اور اب داعش کے خاتمہ کے نام پر شام میں بے گناہ سنی مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی میدانوں میں فتح حاصل ہوئی ہے ‘ کفار کی جانب سے مسلم معاشروں میں فتنہ تکفیر اور خارجیت کو پروان چڑھایا گیا۔حال ہی میں افغانستان میں اتحادیوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تواس خطہ میں بھی داعش جیسی تنظیموں کی آبیاری کی جارہی ہے، تاکہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری، دہشت گردی وتخریب کاری کا سلسلہ چلتا رہے اور اسلام دشمن قوتوں کے مذموم مقاصد پورے ہوتے رہیں۔ ایسی صورتحال میں مسلم ممالک کے ایک بڑے اتحاد اور مسلم معاشروں میں دہشت گردی پھیلانے والی تنظیموں کے خلاف مشترکہ طور پر عملی اقدامات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والا فوجی اتحاد جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے اکتالیس اسلامی ممالک شامل ہیں‘انتہائی خوش آئند اور پوری مسلم امہ کے دل کی آواز ہے۔پاکستان اور سعودی عرب پہلے بھی دہشت گردی کے اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل(ر) راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے نیٹ ورک بکھر کر رہ گئے ہیں۔اسی طرح سعودی عرب میں بھی دہشت گردوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں کی گئی ہیں اور سعودی فورسز کو اہم کامیابیاں حاصل ہور ہی ہیں۔ امام کعبہ الشیخ عبدالعزیز سمیت دنیا بھر کے علماء کرام نے مسلم ملکوں میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیا او ر داعش جیسی تنظیموں کے نظریات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے نوجوان نسل کو ان سے بچانے کی ترغیب دی ہے۔ اس حوالہ سے یقینی طور پر نظریاتی محاذ پر بھی سرگرم کردار ادا کیا جائے گا۔ بہرحال فوجی اتحاد میں پاکستان اور سعودی عر ب کا کردار سب سے اہم دکھائی دیتا ہے۔آپریشن ضرب عضب میں اللہ تعالیٰ نے پاکستانی فوج کو جن کامیابیوں سے نوازا ہے‘ اس کے فوائد ان شاء اللہ دیگر مسلم دنیا کو بھی حاصل ہوں گے اور دوسرے اسلامی ملکوں سے بھی دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں مدد ملے گی۔سعودی عرب کے نائب ولی عہد او روزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے واضح طورپر کہا ہے کہ مسلم ممالک کا یہ اتحادصرف داعش کے خلاف نہیں ، بلکہ دہشت گردی کی شکل میں پھیلنے والی برائی میں ملوث ہرگروپ کے خلاف پوری قوت سے جنگ لڑی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کے لئے امریکہ و یورپ، چین اور ایران سمیت سب کو کوششیں کرنی چاہئیں۔ ان ممالک کے اختلافات کے سبب داعش کو فائدہ اور طاقت ملی ہے۔ اسی طرح سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیرسے جب اس اتحاد کے قیام اور مقاصدسے متعلق سوالات پوچھے تو ان کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کا یہ اتحاد داعش کے خلاف جنگ کے لئے معلومات کا تبادلہ کرے گا،فورسز کو تربیت دے گا، انھیں مسلح کرے گا اور ضروری ہوا توزمینی فوج بھی بھیجی جاسکتی ہے۔اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ بھی خارج ازامکان نہیں ہے، تا��م اس کا انحصار مسلم ممالک کی جانب سے درخواست اور ضرورت پر ہے۔سعودی وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیا اتحاد سنی یا شیعہ نہیں۔ دہشت گرد خواہ کسی بھی فرقہ اور گروہ سے تعلق رکھتے ہوں، روئے زمین پر تباہی اور فساد پھیلانے والوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی ہو گی۔ سعودی وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی ممالک کا یہ اتحاد دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پوری قوت صرف کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکومتیں سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی ملکوں کے اتحاد کی کامیابی کے لئے بھرپور انداز میں کوششیں جاری رکھیں اور اس حوالہ سے کسی قسم کے بیرونی دباؤ کو خاطر میں لانے کی بجائے مسلم ملکوں کے اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔اب تو آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی کہہ دیا ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت اور جنرل (ر) راحیل شریف کو اس کی سربراہی قبول کرنے کی اجازت دینا ریاست کا فیصلہ ہے۔ اس لئے اب اسلامی فوجی اتحاد کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کا سلسلہ مکمل طور پر بند ہونا چاہیے۔ مسلمان ملک باہم متحدہوں گے تو اللہ تعالیٰ آسمانوں سے رحمتیں و برکتیں نازل کرے گا اور مسلم امہ کو کامیابیوں سے نوازے گا
0 notes