#سسکی
Explore tagged Tumblr posts
Text
جس دیس سے ماؤں بہنوں کو
اغیار اٹھا کـــــر لـــے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو
اشراف چھڑا کــر لے جائیں
جس دیس میں حاکم ظالم ہوں
سسکی نــــہ سنیں مجبوروں کی
اُس دیس کے ہر اک حاکم کو
سولی پہ چڑھانا واجب ہے
فیض احمد فیض
4 notes
·
View notes
Text
اسے کیا معلوم کہ پت جھڑ میں سوکھے پتّے جس ٹہنی سے ٹوٹتے ہیں اس کے نیچے کبھی نہیں گرتے۔ ہوا میں چکر کھاتے، جدائی کے بےآواز نوحے پڑھتے، وہ ایک سسکی کے ساتھ زمین پر آکر بچھ جاتے ہیں اور پھر ہوا انہیں جدھر کو چاہے اڑا کر لے جاتی ہے۔
How does he know that dry leaves never fall under the branch from which they break. Swirling in the wind, reciting silent lamentations of separation, they come to the ground with a sobbing and then the wind blows them wherever it pleases. Goes on.
O Hameed
Book: Memories of Amritsar
6 notes
·
View notes
Text
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں،
اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔۔
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔۔۔
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے.
#گلزار💕
10 notes
·
View notes
Video
😂😂😂😂😂😂😂😂 Please follow me ❤️❤️ 𝑳𝑰𝑲𝑬 • 𝑪𝑶𝑴 • 𝑺𝑨𝑽𝑬 • ⏰𝑻𝑰𝑴𝑬 every hour ⏰ 🔱𝑫𝑨𝑻𝑬 : everyday 🔱 👨👧👧𝑭𝑶𝑳𝑳𝑶𝑾𝑬𝑹𝑺 : love you🔥 ❤️❤️مافيای استوری های خفن رو داشته باشید🤣❤️ پست و استوری های مارو از دست ندید 😀🙃 مارو به دوستان خودتون معرفی کنید ✌️❤️❤️ Follow⏭@jenabekhande Follow⏯@jenabekhande Follow⏯@jenabekhande #جالب#عجایب#عجیب#شگفت_انگیز#هیجان_انگیز#کلیپ_خفن#کلیپ_جدید#کلیپ#خنده#طنز#فان#کلیپ_طنز#کلیپ_فان#فیلم_خنده#سکسی#سکس#ممه#سینه#فیلم_سکسی#کلیپ_سکسی#کص#کون#کونول#خنده#سسکی#کلیپ#گ #فنا#جنگ#اشتباه#تخت#تختخواب (at سکسی) https://www.instagram.com/p/CQolgEplK36/?utm_medium=tumblr
#جالب#عجایب#عجیب#شگفت_انگیز#هیجان_انگیز#کلیپ_خفن#کلیپ_جدید#کلیپ#خنده#طنز#فان#کلیپ_طنز#کلیپ_فان#فیلم_خنده#سکسی#سکس#ممه#سینه#فیلم_سکسی#کلیپ_سکسی#کص#کون#کونول#سسکی#گ#فنا#جنگ#اشتباه#تخت#تختخواب
3 notes
·
View notes
Text
درد کو سہہ جانا
اور سسکی بھی نہ لینا
ضبط کی انتہا ہے
اور کچھ نہیں.
2 notes
·
View notes
Text
فیض احمد فیضؔ
*جس دیس سے ماؤں بہنوں کو* *اغیار اٹھا کر لے جائیں* *جس دیس سے قاتل غنڈوں کو* *اشراف چھڑا کر لے جائیں* *جس دیس کی کورٹ کچہری میں* *انصاف ٹکوں پر بکتا ہو* *جس دیس کا منشی قاضی بھی* *مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو* *جس دیس کے چپے چپے پر* *پولیس کے ناکے ہوتے ہوں* *جس دیس کے مندر مسجد میں* *ہر روز دھماکے ہوتے ہوں* *جس دیس میں جاں کے رکھوالے* *خود جانیں لیں معصوموں کی* *جس دیس میں حاکم ظالم ہوں* *سسکی نہ سنیں مجبوروں کی* *جس دیس کے عادل بہرے ہوں* *آہیں نہ سنیں معصوموں کی* *جس دیس کی گلیوں کوچوں میں* *ہر سمت فحاشی پھیلی ہو* *جس دیس میں بنت حوا کی* *چادر بھی داغ سے میلی ہو* *جس دیس میں آٹے چینی کا* *بحران فلک تک جا پہنچے* *جس دیس میں بجلی پانی کا* *فقدان حلق تک جا پہنچے* *جس دیس کے ہر چوراہے پر* *دو چار بھکاری پھرتے ہوں* *جس دیس میں روز جہازوں سے* *امدادی تھیلے گرتے ہوں* *جس دیس میں غربت ماؤں سے* *بچے نیلام کراتی ہو* *جس دیس میں دولت شرفاء سے* *نا جائز کام کراتی ہو* *جس دیس کے عہدیداروں سے* *عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں* *جس دیس کے سادہ لوح انساں* *وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں* *اس دیس کے ہر اک لیڈر پر* *سوال اٹھانا واجب ہے* *اس دیس کے ہر اک حاکم کو* *سولی پہ چڑھانا واجب ہے*
27 notes
·
View notes
Text
جس دیس سے ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں جس دیس سے قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں جس دیس کی کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پر بکتا ہو جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہوں جس دیس کے مندر مسجد میں ہر روز دھماکے ہوتے ہوں جس دیس میں جاں کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کی جس دیس میں حاکم ظالم ہوں سسکی نہ سنیں مجبوروں کی جس دیس کے عادل…
View On WordPress
0 notes
Photo
🙂شرکتی طور در یک روز پنجشنبهٔ خوب👔 #چشم 🙄های قرمزم هم به خاطر #مطالعه زیاده😕. روزی ۵ ۶ ساعت مطالعهٔ مداوم با اینکه خوبه ولی دهن سرویس می کنه دیگه😑. دیگه خود�� رو باید به سطح #مدیریتی برسونم🤩🥳😎🤓 اصلا از وقتی اومدم سولیکو کاله فکر کنم سرانهٔ سالانهٔ مطالعهٔ #جهانی چند صدم درصدی افزایش داشته😄 حیف که هنوز اینجا تازه وارم وگرنه یه عکس قدی باید می گرفتم #امروز لباس #قشنگ هامو پوشیدم😄 حالا تا #شب ببینیم کسی رو گیر میاریم با این استایل جدید یه #عکس از ما بگیره📸 الان من آمادگی یه #پارتی سسکی😋 رو دارم به خصوص با #عطر #تام_فورد نویر د نویری😍 که زدم #صبح تو #ماشین از وانیل شروع شده الان رسیده به راحیهٔ #رز و #نعناع هندیش🥰 البته اگر بچه ها پایه باشن آخر هفته دیگه یه #مهمونی توی خونم خواهم داشت چون خیلی دلم نینای نانای می خواد🕺💃🏻 هر کی پایس دایرکت بده😉 اصلا دلم پوسیده☹️ ماشاا… شرکت خوش بو شد اومدم😄 با اینکه #تهران بوی #گوز می ده این خراب شده💩 ندیده بودیم یه #شهر بوی بد بده😯 تازه با این تیپ اگر حال داشته باشم می خوام برم #خون بدم🤪 خلاصه امروز از اون روز هاس ها. از اون روز ها. اون خوباش🤗 #انرژی_مثبت #انرژیمثبت #انرژی #موفقیت #موفقیت_شغلی #موفقیت_فردی #موفقیت_در_زندگی (at Tehran, Iran) https://www.instagram.com/p/CYqF-2jqw7V/?utm_medium=tumblr
#چشم#مطالعه#مدیریتی#جهانی#امروز#قشنگ#شب#عکس#پارتی#عطر#تام_فورد#صبح#ماشین#رز#نعناع#مهمونی#تهران#گوز#شهر#خون#انرژی_مثبت#انرژیمثبت#انرژی#موفقیت#موفقیت_شغلی#موفقیت_فردی#موفقیت_در_زندگی
0 notes
Text
#alexistexas – fetishimmeOriginally Posted on April 20, 2018 and reposted on August 30, 2018
کانال و گروه پر از فیلم ها سسکی و فیتیش و فیلم های پولی رایگان مثل روژین بیاید تو کانال و گروه لینک تو بیو نبود لفت بده #کون #ممه #سکس #سکسی #کس #پا #فیتیش #کونی #جنده #داف #برده #پستون #فیلمسکسی #کانالسکسی #گروهسکسی #کیر #الکسیس #کانال_سکسی #دختر #m...
Source: Alexis Texas
1 note
·
View note
Text
کتابیں
گلزار
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں' اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھ��
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
6 notes
·
View notes
Text
Patience
اللہ فرماتے ہیں وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
یقین مانیں ہمیں زندگی کے ہر قدم اور موڑ پر صبر کی ضرورت ہوتی ہے اللہ سے مانگیں تو صبر مانگیں یہ خصلت اللہ کو پسند ہے زندگی کے ہر کام میں صبر ضروری ہے
بلکہ یوں کہنا بھی غلط نہُ ہو گا کہ
جینے سے مرنے تک اور مرنے سے جینے تک صبر ضروی ہے
ہر اس مقام پر صبر ضروی ہے جہاں آپ کا کوئ مقام نہیں
ہر اس سسکی اور آہ اور آنسو پر صبر ضروری ہے جب کوئ دلاسہ دینے والا نہ ہو
ہر اس مقام پر صبر چاہئیے جہاں روح کی چیخیں نکل جائیں
ہر اس مقام پر صبر چاہئیے جہاں سب دستیاب ہو
دل کے ٹوٹ جانے سے جڑ جانے تک کو بھی صبر درکار ہے
ہر امید کو صبر درکار ہے
ہر درد کو صبر چاہیے
مسکراہٹ کے آنے تک کا صبر
اکیلے جینے کا صبر کسی کے بغیر جینے کا صبر خدا کی رضا کا صبر دوسروں کے رویوں پر صبر دوسروں کی زیادتیوں پر صبر اپنی بر بادیوں پر صبر
بربادی سے آبادی تک صبر
اللہ ہمُ سب کو صبر عطا کرے
ازقلم سہیل حسن رضا
12-9-2020
5 notes
·
View notes
Photo
پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب ہم دُنیا سے لڑنا چھوڑ دیتے ہیں...!! جب ہم اپنے کردار کی وضاحتیں نہیں دیتے اور نہ ہی اپنی نیت کی پاکیزگی دوسروں کے سامنے رکھتے ہیں , ﷲ رب العزت سب جانتےہیں بس یہ بات سوچ کر ہم اتنے مضبوط ہو جاتے ہیں کہ پھر لوگوں کی باتیں تنگ نہیں کرتیں , پھر چاہے وہ کتنی ہی بُری اور جُھوٹی کیوں نہ ہوں , مجھے ہمیشہ حیرت ہوتی ہے اپنے اردگرد کے لوگوں کو دیکھ کر اور بیک وقت دل خوف زدہ بھی ہوتا ہے یہ سوچ کر کے کیسے لوگ خود کو اچھا ثابت کرتے کرتے اتنا گر جاتے ہیں کہ وہ انسان بھی نہیں رہتے...!! کیسے دوسروں کے عیبوں کو عیاں کر کے ایک ہنستے مسکراتے شخص کو وقت سے پہلے ہی مار دیا جاتا ہے , کتنے خود غرض ہو جاتے ہیں ہم کہ یہ بھی نہیں سوچ پاتے کہ آج جس دوراہے پر وہ شخص کھڑا ہے کل ہم بھی وہاں ہو سکتے ہیں_ نہیں....! یہ تو ہم نے سوچنا ہی نہیں ہے , ہم تو ﷲ رب العزت سے دعا کرتے ہیں بدلے کی اور پھر دوسروں کو دنیا کے سامنے ذلیل کر کے ﷲ رب العزت سے یہ اُمید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا پردہ رکھ لے....!! شاید یہ لوگوں کی باتیں اور یہ ٹھوکریں ہی ہمیں مضبوط بنا دیتی ہیں اتنا مضبوط کے ہم اپنی ذات پر اُٹھنے والے سوالوں کا بھی جواب نہیں دیتے اور شاید جواب دینا بھی نہیں چاہیے...! کیونکہ کچھ سوالوں کے جواب وقت اور ﷲ رب العزت دیتا ہے اور پھر جب جواب عرش سے اترتے ہیں تو کوئی دلیل کام نہیں آتی....! پھر ڈرنے کا وقت ہوتا ہے....ا وہ رحیم تو ہے پر اسے ڈرانا بھی خوب آتا ہے.....اس کا نام القہار بھی ہے...اور بیشک وہ بھولنے والا نہیں...!! وہ ہر آنسو ہر اذیت بھری سسکی کا گواہ ہے....!! وہ فرماتا ہے کہ: وَماَ کَانَ رَبُّک نَسِیّاً "اور تیرا رب بھولنے والا نہیں " https://www.instagram.com/p/CNA3lp4JatZ/?igshid=1hxs24ekxhx3i
0 notes
Video
🎩یه کوچولو فرق دارن با هم دیگه🎩😂😅 🎩لطفا حواستون رو جمع کنید🎩 Please follow me ❤️❤️ 𝑳𝑰𝑲𝑬 • 𝑪𝑶𝑴 • 𝑺𝑨𝑽𝑬 • ⏰𝑻𝑰𝑴𝑬 every hour ⏰ 🔱𝑫𝑨𝑻𝑬 : everyday 🔱 👨👧👧𝑭𝑶𝑳𝑳𝑶𝑾𝑬𝑹𝑺 : love you🔥 ❤️❤️مافيای استوری های خفن رو داشته باشید🤣❤️ پست و استوری های مارو از دست ندید 😀🙃 مارو به دوستان خودتون معرفی کنید ✌️❤️❤️ Follow⏭@jenabekhande Follow⏯@jenabekhande Follow⏯@jenabekhande #جالب#عجایب#عجیب#شگفت_انگیز#هیجان_انگیز#کلیپ_خفن#کلیپ_جدید#کلیپ#خنده#طنز#فان#کلیپ_طنز#کلیپ_فان#فیلم_خنده#سکسی#سکس#ممه#سینه#فیلم_سکسی#کص#کون#خنده#سسکی#کلیپ #فنا#جنگ#اشتباه#پلیس#راهنمایی_رانندگی#جذاب#جناب_خنده#دیدنی (at ...عکس سکسی) https://www.instagram.com/p/CQjSp4lFdS9/?utm_medium=tumblr
#جالب#عجایب#عجیب#شگفت_انگیز#هیجان_انگیز#کلیپ_خفن#کلیپ_جدید#کلیپ#خنده#طنز#فان#کلیپ_طنز#کلیپ_فان#فیلم_خنده#سکسی#سکس#ممه#سینه#فیلم_سکسی#کص#کون#سسکی#فنا#جنگ#اشتباه#پلیس#راهنمایی_رانندگی#جذاب#جناب_خنده#دیدنی
1 note
·
View note
Photo
میں نے ان سے ایک سوال پوچھا ’’اللہ تعالیٰ سے بات منوانے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے‘ قبلہ رو ہوئے‘ پاؤں لپیٹے‘ رانیں تہہ کیں‘ اپنے جسم کا سارا بوجھ رانوں پر شفٹ کیا اور مجھ سے پوچھا ’’تمہیں اللہ سے کیا چاہیے؟‘‘ ہم دونوں اس وقت جنگل میں بیٹھے تھے‘ حبس اور گرمی کا موسم تھا‘ سانس تک لینا مشکل تھا‘ میں نے اوپر دیکھا‘ اوپر درختوں کے پتے تھے اور پتوں سے پرے گرم‘ پگھلتا ہوا سورج تھا‘ میں نے مسکرا کر عرض کیا ’’ اگر بادل آ جائیں‘ ذرا سی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں تو موسم اچھا ہو جائے گا‘‘ وہ ہنسے اور آہستہ سے بولے ’’لو دیکھو‘‘ وہ اس کے بعد بیٹھے بیٹھے رکوع میں جھکے اور پنجابی زبان میں دعا کرنے لگے ’’اللہ جی! کاکے کی دعا قبول کر لے‘ اللہ جی! ہماری سن لے‘‘ وہ دعا کرتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے‘ پہلے ان کی پلکیں گیلی ہوئیں‘ پھر ان کے منہ سے سسکیوں کی آوازیں آئیں اور پھر ان کی آنکھیں چھم چھم برسنے لگیں‘ وہ بری طرح رو رہے تھے۔ میں ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو روتے دیکھا لیکن ان کا رونا عجیب تھا‘ وہ ایک خاص ردھم میں رو رہے تھے‘ منہ سے سسکی نکلتی تھی‘ پھر آنکھیں برستیں تھیں اور پھر ’’اللہ جی! ہماری سن لے‘‘ کا راگ الاپ بنتا تھا‘ میں پریشانی‘ استعجاب اور خوف کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ انھیں دیکھ رہا تھا‘ وہ دعا کرتے جاتے تھے‘ روتے جاتے تھے اور سسکیاں بھرتے جاتے تھے‘ میں نے پھر وہاں ایک عجیب منظر دیکھا‘ مجھے ہوا ٹھنڈی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی‘ آسمان پر اسی طرح گرم سورج چمک رہا تھا لیکن جنگل کی ہوا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی‘ میری پیشانی‘ سر اور گردن کا پسینہ خشک ہو گیا‘ میرے سینے اور کمر پر رینگتے ہوئے قطرے بھی غائب ہو گئے‘ میں ٹھنڈی ہوا کو محسوس کر رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا‘ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پتوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے لگیں‘ پودے ہوا کی موسیقی پر ناچنے لگے اور پھر بادل کا ایک ٹکڑا کہیں سے آیا اور سورج اور ہمارے سر کے درمیان تن کر ٹھہر گیا‘ وہ رکے‘ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور شکر ادا کرنے لگے۔ وہ دیر تک ’’اللہ جی! آپ کا بہت شکر ہے‘ اللہ جی! آپ کی بہت مہربانی ہے‘‘ کہتے رہے‘ وہ دعا سے فارغ ہوئے‘ ذرا سا اوپر اٹھے‘ ٹانگیں سیدھی کیں اور منہ میری طرف کر کے بیٹھ گئے‘ ان کی سفید داڑھی آنسوؤں سے تر تھی‘ انھوں نے کندھے سے رومال اتارا‘ داڑھی خشک کی اور پھر بولے ’’ دیکھ لو! اللہ نے اپنے دونوں بندوں کی بات مان لی‘‘ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا‘ چوما اور پھر عرض کیا ’’باباجی لیکن اللہ سے بات منوانے کا فارمولہ کیا ہے‘ https://www.instagram.com/p/CCt6toRpExy/?igshid=1xnto6hiw22bw
0 notes
Text
بین : افسانہ : احمدندیم قاسمی
بس کچھ ایسا ہی موسم تھا میری بچی، جب تم سولہ سترہ سال پہلے میری گود میں آئی تھیں ۔ بکائن کے اودے اودے پھول اسی طرح مہک رہے تھے اور بیریوں پر گلہریاں چوٹی تک اسی طرح بھاگی پھرتی تھیں اور ایسی ہوا چل رہی تھی جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی۔ جب تم میری گود میں آئی تھیں تو دیے کی کالی پیلی روشنی میں اونگھتا ہوا کوٹھا چمکنے سا لگا تھا اور دایہ نے کہا تھا کہ ہائے ری، اس چھوکری کے تو انگ انگ میں جگنو ٹکے ہوئے ہیں ! اس وقت میں نے بھی درد کے خمار میں اپنے جسم کے اس ٹکڑے کو دیکھا تھا اور مجھے تو یاد نہیں پر دایہ نے بعد میں مجھے بتایا تھا کہ میں مسکرا کر تمھارے چہرے کی دمک میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو یوں دیکھنے لگی تھی جیسے کوئی خط پڑھتا ہے۔ اگلی رات جب تمھارے بابا نے موقع پا کر تمھیں دیکھا تھا تو اداس ہو گیا تھا اور میں نے کہا تھا: ’’تم تو کہتے تھے بیٹا ہو یا بیٹی سب خدا کی دین ہے، پھر اب کیوں منہ لٹکا لیا ہے۔‘‘ اور اس نے کہا تھا: ’’تو نہیں جانتی نا بھولی عورت، تو ماں ہے نا۔ تو کیسے جانے کہ خدا اتنی خوب صورت لڑکیاں صرف ایسے بندوں کو دیتا ہے جن سے وہ بہت خفا ہوتا ہے۔‘‘ اس وقت میرا جی چاہا تھا کہ میں تمھارے بابا کی آنکھیں اس کی کھوپڑی میں سے نکال کر باداموں کی طرح توڑ دوں کیوں کہ میری جان، وہ تو تمھیں اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے چڑیا سانپ کو دیکھتی ہے، وہ تمھاری خوب صورتی دیکھ کر ڈر گیا تھا اور پھر اس نے اپنی عمر کے سولہ سترہ سال تم سے ڈرتے ڈرتے گزار دیے۔ وہ اب بھی ڈرا اور سہما ہوا، باہر گلی میں بچھی ہوئی چٹائیوں پر لوگوں میں گھرا بیٹھا ہے اور آسمانوں کو یوں دیکھ رہا ہے جیسے کوئی اس کی طرف آ رہا ہے۔ تم مجھ پر تو نہیں گئی تھیں میری بچی، میں تو گاؤں کی ایک عام لڑکی تھی۔ میرا ناک نقشہ بالکل سیدھا سادا تھا۔ ہاں تم اپنے بابا پر گئی تھیں جو بہت خوب صورت تھا۔ وہ تو اب بھی خوب صورت ہے پر اب اس کی خوب صورتی سولہ سترہ سال کی گرد سے اَٹ گئی ہے۔ اب بھی اس کی بڑی بڑی چیرویں بادامی آنکھیں ہیں اور اب بھی اس کے چہرے اور مونچھوں کے رنگ میں سونا ہے پر جب تم پیدا ہوئی تھیں نا تو وہ بالکل مورت تھا۔ تم آئیں تو وہ ڈر گیا تھا مگر اس ڈر نے اس کی شکل نہیں بدلی۔ بس ذرا سی بجھا دی۔ تمھارے آنے کے بعد میں نے اس کے موتیوں کے سے دانت بہت کم دیکھے۔ اس کے پنکھڑی ہونٹ ہمیشہ یوں بھنچے رہے جیسے کھلے تو کچھ ہو جائے گا۔ ابھی کچھ دیر پہلے جب وہ آیا اور اس نے تمھیں دیکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے کسی بہت بڑے محل کی بنیادیں بیٹھ رہی ہیں ۔ وہ یہاں کھڑے کھڑے ہی ایک دم اندر سے بوڑھا ہو گیا۔ جب وہ پلٹا تو میں ڈری کہ وہ گلی تک پہنچنے سے پہلے ہی ڈھیر ہو جائے گا مگر ابھی ابھی میں نے دیوار پر سے جھانکا ہے تو وہ گلی میں بیٹھا ہے اور جمع ہوتے ہوئے لوگوں کو یوں ڈر ڈر کر، چونک چونک کر دیکھ رہا ہے جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہے۔ تم جب تین چار سال کی ہو کر بھاگنے دوڑنے لگیں تو دیکھنے والوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ مٹی کا بنا ہوا انسان اتنا خوب صورت بھی ہو سکتا ہے۔ ایک بار تم گر پڑیں اور تمھارے ماتھے پر چوٹ آئی تو میں تو روتے روتے نڈھال ہو گئی پر تمھارے بابا نے چہک کر کہا تھا ’’خدا جو بھی کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے۔ ہماری رانو بیٹی کے ماتھے پر چوٹ کے نشان نے اس کی خوب صورتی کو داغ دار کر دیا ہے۔‘‘ پر خدا کو تو کچھ اور منظور تھا۔ چوٹ کا نشان تو باقی رہ گیا مگر یہ نشان بالکل نئے نئے چاند کا سا تھا۔ لال لال سا بھی اور سنہرا سنہرا سا بھی، جو اَب میری جان، پیلا پیلا سا لگ رہا ہے۔ پھر جب تم پانچ سال کی ہوئیں تو میں نے قرآن شریف پڑھانے کے لیے تمھیں بی بی جی کے پاس بٹھا دیا۔ تب پتا چلا کہ تمھاری آواز بھی تمھاری طرح خوب صورت ہے۔ بی بی جی کے گھر کی دیواروں کے اندر سے قرآن شریف پڑھنے والی بچیوں کی آوازیں آتی تھیں تو ان میں سے میری ��انو بیٹی کی آواز صاف پہچانی جاتی تھی۔ تمھاری آواز میں چاندی کی کٹوریاں بجتی تھیں ۔ ایسی کھنک کہ تم چپ بھی ہو جاتی تھیں تو جب بھی چار طرف سے جھنکار سی اٹھتی رہتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ پہلے تم آیت پڑھتی تھیں اور تمھارے بعد تمھاری ہم سبقوں کی آوازیں آتی تھیں ۔ یوں جب تم اکیلی پڑھ رہی ہوتی تھیں تو گلی میں سے گزرنے والوں کے قدم رک جاتے تھے اور چڑیوں کے غول منڈیروں پر اتر آتے تھے۔ ایک بار مزار سائیں دولھے شاہ جی کے مجاور سائیں حضرت شاہ ادھر سے گزرے تھے اور تمھاری آواز سن کر انھوں نے کہا تھا ’’یہ کون لڑکی ہے جس کی آواز میں ہم فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سن رہے ہیں ۔‘‘ اور جب تمھیں معلوم ہوا تھا کہ سائیں حضرت شاہ نے تمھارے بارے میں یہ کہا ہے تو تم اتن�� خوش ہوئی تھیں کہ رونے لگی تھیں ۔ تب یوں ہوا کہ عورتیں پانی سے بھرے ہوئے برتن لاتیں اور تمھاری تلاوت ختم ہونے کا انتظار کرتی رہتیں ۔ تم قرآن پاک بند کر کے اٹھتیں اور ’’طفیل سائیں دولھے شاہ جی‘‘ کہتی ہوئی ان برتنوں پر ’چھوہ‘ کرتیں اور عورتیں یہ پانی اپنے عزیزوں کو پلاتیں تو بیمار اچھے ہو جاتے، برے نیک ہو جاتے، بے نمازی نمازی ہو جاتے۔ ان دنوں مجھے یوں لگنے لگا جیسے تم نور کی بنی ہوئی تو خیر ہمیشہ سے ہو پر اب تم بی بی جی کے ہاں سے واپس گھر میں آتیں تو تمھارے چہرے پر میری نظریں نہ جم پاتیں ، جیسے سورج پر نظر نہیں جمتی۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد تم سائیں دولھے شاہ جی کا نام جپتی رہتی تھیں ۔ اسی لیے تو تمھارا بابا ایک بار تمھیں سائیں دولھے شاہ جی کے مزار پر سلام بھی کرا لایا تھا۔ قرآن شریف تم نے اتنا پڑھا میرے جگر کی ٹکڑی، کہ اب بھی جب چارا طرف سناٹا اور صرف ادھر ادھر سے سسکی کی آواز آتی ہے، میں تمھارے آس پاس، تمھاری ہی آواز میں قرآن شریف کی تلاوت سن رہی ہوں ۔ تمھارے ہونٹ تو نہیں ہل رہے، پر میں اپنے دودھ کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ یہ آواز تمھاری ہے۔ زمین پر ایسی نورانی آواز میری رانوں کے سوا اور کس کی ہو سکتی ہے۔ ایک دن جب تمھارے چاچا دین محمد کی بیوی اپنے بیٹے کے لیے تمھارا رشتہ پوچھنے آئی تو تب مجھے معلوم ہوا کہ تم شادی کی عمر کو پہنچ گئی ہو۔ مائیں تو بیٹی کے سر پر چنی لیتے ہی سمجھ جاتی ہیں کہ وقت آ رہا ہے پر تمھارے بارے میں تو میں سوچ ہی نہ سکی۔ تم نے سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔ میں نے تمھارے بابا سے اپنی اس بے خبری کی بات کی تو وہ بولا ’’تو تو سدا کی بے خبر ہے پر میں ایسا بے خبر نہیں ہوں ۔ بس یہ ہے کہ مجھے لڑکی سے ڈر لگتا ہے اس سے بھی تو بات کرو۔ اس نے تو جیسے اپنا سب کچھ مولا کی راہ میں تج دیا ہے۔‘‘ تب پہلی بار مجھے بھی تم سے خوف آیا۔ میں نے سوچا اگر میں نے تم سے رشتے کی بات کی تو کہیں تم جلال میں نہ آ جاؤ، مگر پھر اسی شام کو سائیں حضرت شاہ کا ایک خادم آیا اور اس نے بتایا کہ کل سے سائیں دولھے شاہ کا عرس ہے جو تین دن تک چلے گا اور سائیں حضرت شاہ نے خواب میں سائیں دولھے شاہ جی کو دیکھا ہے اور یہ فرماتے سنا ہے کہ میری چیلی رانو کو بلا کر تین دن تک اس سے میرے مزار پر قرآن شریف کی تلاوت کراؤ ورنہ سب کو بھسم کر دوں گا۔ تم جانتی تھیں بیٹی ک�� سائیں دولھے شاہ جی بڑے جلال والے سائیں تھے۔ زندگی میں جس نے بھی ان کے خلاف کوئی بات کی اسے بس ایک نظر بھر کر دیکھا اور راکھ کر ڈالا۔ مرنے کے بعد بھی ان کی درگاہ میں یا اس کے آس پاس کوئی برا کام یا بری بات ہو جائے تو ان کا مزار شریف سرہانے کی طرف سے کھل جاتا ہے اور اس میں سے ان کا دستِ مبارک بلند ہوتا ہے۔ برا کام یا بری بات کرنے والا جہاں بھی ہو کھنچا چلا آتاہے۔ اپنی گردن سائیں جی کے دستِ مبارک میں دے دیتا ہے اور پھر وہیں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ سائیں جی کا دستِ مبارک واپس مزار شریف میں چلا جاتا ہے اور مزار شریف کی دراڑیں یوں جاتی ہیں جیسے کبھی کھلی ہی نہیں تھیں ۔ کس کی مجال تھی کہ سائیں دولھے شاہ جی کا حکم ٹالتا۔ دوسرے دن صبح کو ہم تینوں ایک اونٹ پر کجاوے میں بیٹھے تھے اور درگاہ سائیں دولھے شاہ جی کی طرف جا رہے تھے۔ میں کجاوے کے ایک طرف تھی اور تم میری جان، دوسری طرف تھیں اور درمیان میں اونٹ کے پالان پر تمھارا بابا بیٹھا تھا۔ اونٹ جونہی اٹھا تھا اور چلنے لگا تھا تو تم نے قرآن شریف کی تلاوت شروع کر دی تھی اور میری پاک اور نیک بچی، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا کہ ہمارا اونٹ جہاں سے بھی گزرتا تھا، لوگ دور دور سے کھنچے چلے آتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور رو رہے تھے اور سبحان اللہ کہہ رہے تھے اور کجاوے کے اوپر چڑیوں اور ابابیلوں اور کبوتروں کے جھنڈ کے جھنڈ آتے تھے اور غوطہ لگا کر جیسے میری بچی کی آواز کا شربت پی کر ناچتے تیرتے ہوئے دور نکل جاتے تھے اور میں سوچتی تھی کہ یہ ہم گنہگاروں کی کس نیکی کا بدلہ ہے کہ خدا نے ہمیں ایسی بیٹی بخشی ہے جو زمین پر قرآن شریف کی تلاوت کرتی ہے تو اس کی آواز آسمان تک جاتی ہے۔ آسمان کا خیال مجھے یوں آیا تھا کہ ایک بار تمھارے بابا نے پالان پر سے جھک کر کے میرے کان میں ہولے سے کہا ’’اوپر دیکھو، یہ کیسے نورانی پرندے ہیں جو ہمارے ساتھ ساتھ اڑ رہے ہیں ۔ میں نے ان علاقوں میں ایسا پرندہ کبھی نہیں دیکھا کہ ان کے پروں میں ستارے چمکتے ہوں ۔ یہ تو آسمانوں سے اتر کر آنے والے فرشتے معلوم ہوتے ہیں ‘‘ اور میری آنکھوں کا نور بچی، میں تمھاری جاہل ماں بھی قسم کھا کر کہہ سکتی ہوں کہ وہ فرشتے ہی تھے۔ کچھ ایسے جیسے ننھے منے بچوں کے پر لگ گئے ہوں اور وہ ہوا میں ہمکتے پھرتے ہوں ۔ وہ میری پہنچی ہوئی بیٹی سے تلاوت سننے آئے تھے۔ پھر جب درگاہ سائیں دولھے شاہ جی کے پاس ہمارا اونٹ بیٹھا تھا تو جیسے تم بھول گئی تھیں کہ تمھارے ساتھ تمھارے ماں باپ بھی ہیں تم مزار شریف کی طرف یوں کھنچی چلی گئی تھیں جیسے سائیں دولھے شاہ جی تمھاری انگلی پکڑ کر تمھیں اپنے گھر لیے جا رہے ہوں ۔ مزار شریف کو بوسہ دے کر اور اس کے ایک طرف بیٹھ کر تم نے قرآن شریف کی تلاوت کر دی تھی اور تمھاری آواز کی مٹھاس چکھنے کے لیے عرس پر آنے والے لوگ مزار شریف پر ٹوٹ پڑے تھے۔ ہم دونوں نے مزار شریف کو اپنی پوروں سے چھوا اور پھر اپنی پوریں چوم لیں ۔ پھر ہم سائیں حضرت شاہ کی خدمت میں ان کے زانوؤں کو چھونے اور دستِ مبارک کو چومنے پہنچے تھے اور انھوں نے فرمایا تھا ’’اپنی بیٹی کو سائیں جی کے قدموں میں بٹھا کر تم نے اپنے اگلے پچھلے گناہ معاف کرا لیے ہیں ۔ تم انشاء اللہ جنّتی ہو۔‘‘ یہ سن کر خوشی سے ہماری سانسیں پھول گئی تھیں ۔ پھر میں نے اندر جا کر بیبیوں کو سلام کیا تھا اور تمھیں ۔۔۔میری جان۔۔۔سائیں دولھے شاہ جی اور سائیں ��ضرت شاہ اور ان کے گھرانے کی بیبیوں کی امانت میں دے کر ہم دونوں یہ کہہ کر واپس گاؤں آ گئے تھے کہ عرس کے تین دن گزرنے کے بعد اگلے روز ہم اپنی اس نعمت کو لینے حاضر ہو جائیں گے جو خدا نے اور اس کے حبیب پاک نے ہم غریبوں ، گنہگاروں کو ہماری کسی سیدھی سادی نیکی سے خوش ہو کر بخشی ہے۔ اے میری بچی، اے میری جگر کی ٹکڑی، اے میری صاف ستھری رانو بیٹی! پھر جب تین دنوں کے بعد ہم دونوں سائیں دولھے شاہ جی کے مزار شریف پر گئے تھے تو تم وہیں بیٹھی تھیں جہاں ہم تمھیں بٹھا گئے تھے، مگر کیا یہ تم ہی تھیں �� تمھاری آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئی تھیں ، تمھارے ہونٹوں پر جمے ہوئے خون کی پپڑیاں تھیں ، تمھارے بال الجھ رہے تھے۔ چادر تمھارے سر سے اتر گئی تھی مگر اپنے بابا کو دیکھ کر بھی تمھیں اپنا سر ڈھانپنے کا خیال نہیں آیا تھا۔ تمھارا رنگ مٹی مٹی ہو رہا تھا اور ہمیں دیکھتے ہی تم چلا پڑی تھیں ’’مجھ سے دور رہو بابا، میرے پاس نہ آنا اماں ۔ میں اب یہیں رہوں گی۔ میں اس وقت تک یہیں رہوں گی جب تک سائیں دولھا شاہ جی کا مزار شریف نہیں کھلتا اور اس میں سے ان کا دستِ مبارک نہیں نکلتا۔ جب تک فیصلہ نہیں ہوتا میں یہیں رہوں گی۔ جب تک انصاف نہیں ہو گا میں یہیں رہوں گی اور مزار شریف کھلے گا۔ آج نہیں تو کل کھلے گا۔ ایک مہینہ بعد، ایک سال بعد، دو سال بعد سہی، پر مزار شریف ضرور کھلے گا اور دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔تب میں خود ہی اپنے بابا اور اپنی اماں کے قدموں میں چلی آؤں گی اور ساری عمر ان کی جوتیاں سیدھی کروں گی اور ان کے پاؤں دھو دھو کر پیوں گی۔ پر اب میں نہیں آؤں گی، اب میں نہیں آ سکتی۔ میں بندھ گئی ہوں ۔ میں مر گئی ہوں ۔‘‘ پھر تمھیں ایک دم بہت سا رونا آ گیا تھا مگر تم نے ایک دم اپنے آنسو روک لیے تھے اور تم بھیگی ہوئی آواز میں تلاوت کرنے لگی تھیں ۔ آس پاس کھڑے ہوئے بیسیوں لوگ ہمارے ساتھ زار زار رونے لگے تھے اور کہنے لگے تھے ’’اثر ہو گیا ہے، دن رات مزار شریف پر رہنے سے اس پر اثر ہو گیا ہے۔‘‘ تمھارے بابا نے فریاد کی تھی۔ اثر ہو گیا ہے؟ دن رات قرآن شریف کی تلاوت کرنے والی لڑکی پر کوئی اثر کیسے ہو سکتا ہے اور اگر تم کہتے ہو کہ اثر ہو گیا ہے تو سائیں حضرت شاہ کہاں ہیں ؟ وہ روتا ہوا سائیں حضرت شاہ کی طرف چل پڑا تھا اور میں بلکتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے تھی، مگر ہمیں خادموں نے بتایا تھا کہ سائیں جی تو عرس کے فوراً بعد ایک حجرے میں بند ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور کئی دنوں تک وظیفہ فرماتے ہیں اور کسی سے نہیں ملتے پھر میں نے اندر بیبیوں کے پاس جانا چاہا تھا مگر بڑے دروازے پر خادماؤں نے بتایا تھا کہ رانو کی حالت سے بی بیاں پہلے ہی بہت پریشان ہیں اور انھیں زیادہ پریشان کرنا گناہ ہے۔ ہم اجڑے پجڑے ماں باپ، مزار شریف سے ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گئے تھے اور رو رہے تھے اور لوگ ہمیں روتا دیکھ کر رو رہے تھے کہ سائیں حضرت شاہ کا خاص خادم آیا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ سائیں جی کو بہت رانو کی اس حالت کا بڑا دکھ تھا اور انھوں نے فرمایا تھا کہ یہ لڑکی اچانک جن بھوت کے قبضے میں چلی گئی ہے اور سائیں حضرت شاہ ایک خاص وظیفہ فرما رہے ہیں کہ یہ جن اُترے تو اس امانت کو اس کے ماں باپ تک پہنچایا جائے۔ پھر حکم ہوا تھا کہ تم جاؤ اور رانو کو درگاہ شریف کی نگرانی میں رہنے دو۔ ’’اب تم جاؤ۔‘‘ ہمارے سروں پر تمھاری آواز آئی تھی اور ہم نے سر اٹھا کر دیکھا تھا کہ تمھاری آنکھیں تالابوں کی ��رح بھری ہوئی تھیں ۔ ’’اب تم جاؤ میرے بابا، جاؤ میری اماں ۔ اب تم جاؤ مزار شریف ضرور کھلے گا۔ دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔ فیصلہ ضرور ہو گا۔ فیصلہ ہو جائے تو میں سیدھی تمھارے پاس پہنچوں گی۔ سائیں دولھے شاہ جی خود مجھے تمھارے پاس چھوڑ جائیں گے۔ اب تم جاؤ۔ ۔ ۔ ‘‘ یہ کہہ کر تم مزار شریف کی طرف پلٹ گئی تھیں اور تم چلتے ہوئے یوں ڈول رہی تھیں جیسے کٹی ہوئی پتنگ ڈولتی ہے۔ میں تم پر سے صدقے جاؤں میری بیٹی۔ ہم تمھارے ماں باپ اس کے بعد بھی بار بار تمھارے پاس پہنچے مگر اب تو تم ہمیں پہچانتی بھی نہیں تھیں ۔ ہم تمھیں پکارتے تھے تو تم ہماری طرف یوں خالی خالی آنکھوں سے دیکھتی تھیں جیسے حیران ہو رہی ہو کہ یہ آواز کدھر سے آئی ہے۔ تمھارا رنگ خاکستری ہو گیا تھا۔ تمھارے ہونٹ اکڑ کر پھٹ گئے تھے۔ تمھارے بالوں میں گرد تھا اور تنکے تھے اور ٹوٹے ہوئے خشک پتے تھے۔ ایک بار جب ہم تمھارے لیے کپڑوں کا نیا جوڑا لے کر گئے اور ہم نے یہ کپڑے تمھارے سامنے رکھ دیے تو تم یہ کپڑے ہاتھ میں لے کر اٹھیں اور ایک طرف چل پڑیں ۔ تمھارا ایک بھی قدم سیدھا نہیں اٹھتا تھا۔ پھر تم غائب ہو گئی تھیں اور ہم خوش ہوئے تھے کہ تم کہیں کپڑے بدلنے گئی ہو، مگر پھر ایک دم ایک طرف سے شور اٹھا تھا۔ تم اسی رفتار سے واپس آ رہی تھیں اور تمھارے پیچھے درگاہ شریف کے چند خادم تھے جنھوں نے بتایا تھا کہ تم نے نئے کپڑوں کا یہ جوڑا اور درگاہ شریف کے لنگر کی دیگ کے نیچے بھڑکتی آگ میں جھونک دیا تھا۔ تلاوت تو تم اب بھی کر رہی تھیں مگر آواز میں چاندی کی کٹوریاں نہیں بجتی تھیں ۔ پھر تم پڑھتے پڑھتے مزار شریف کے سرہانے کی طرف جھک جاتی تھیں جیسے کوئی جھری، کوئی دراڑ ڈھونڈنے کی کوشش میں ہو پھر تم ٹوٹ کر رو دیتی تھیں اور تلاوت کو روک کر ہولے ہولے جیسے خود کو سمجھاتی تھیں ۔ ۔ ۔ مزار شریف ضرور کھلے گا۔ دستِ مبارک ضرور نکلے گا۔ فیصلہ ضرور ہو گا۔ انصاف ضرور ہو گا�� پھر تم آنکھیں بند کر لیتی تھیں اور تلاوت میں مصروف ہو جاتی تھیں ۔ ایک بار ہم سائیں حضرت شاہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے تھے اور عرض کیا تھا کہ جن بھوت کلامِ پاک پڑھنے والوں کے پاس بھی نہیں پھٹکتے۔ دور سے بیٹھے ہنستے رہتے ہیں اور جھومتے رہتے ہیں اور اگر ہماری ہیرا بیٹی پر ایسے کافر جن آ گئے ہیں جو قرآن شریف کی تلاوت کا بھی لحاظ نہیں کرتے، تو یہ آپ کی درگاہ شریف ہی کے جن ہیں ۔ آپ کے حکم سے اتر جائیں گے۔ خدا کے نام پر، رسولؐ پاک کے نام پر، پیر دستگیر کے نام پر، سائیں دولھے شاہ جی کے نام پر ہمارے ساتھ مزار شریف پر چلیے اور یہ جن اتاریے اور سائیں حضرت شاہ نے فرمایا تھا کہ ہم جن تو اتار دیتے مگر تم نے ٹھیک کہا۔ یہ کوئی بڑا کافر جن ہے اور کافر جن ہمارے قبضے میں نہیں ہیں ۔ ہم یہاں دعا کر رہے ہیں ، تم گھر جا کر دعا کرو۔ ہمارا وظیفہ جاری رہے گا۔ جب ہم ٹوٹے پھوٹے واپس آ رہے تھے تو بیبیوں کی ایک بوڑھی خادمہ نے مجھے ایک طرف لے جا کر بتایا تھا کہ عرس کے تیسرے دن سائیں حضرت شاہ مزار کی طرف آئے تھے تو تمھاری بدنصیب بیٹی نے مزار شریف پر سے گول گول لہریے پتھر اٹھا کر جھولی میں بھر لیے تھے اور چیخ چیخ کر کہا تھا کہ سائیں ! مزار شریف سے دستِ مبارک تو جب نکلے گا، نکلے گا اگر تم ایک قدم بھی آگے بڑھے تو میں سائیں دولھے شاہ جی کے دیے ہوئے ان پتھروں سے تمھارا ناس کر دوں گی۔ خادم تمھاری بیٹی کو پکڑ کر مارنے پیٹنے کے لیے آگے بڑھے تھے تو سائیں جی نے انھیں روک کر کہا تھا کہ نادانو یہ لڑکی نہیں بول رہی ہے اس کے اندر کا کافر جن بول رہا ہے۔ جب تک یہ مزار شریف پر قابض ہے ہمیں اور ہمارے خاندان کے کسی مرد عورت کو ادھر نہیں آنا چاہیے ورنہ کیا خبر یہ جن کیا کر بیٹھے۔ پھر رات درگاہ شریف کا ایک خادم آیا کہ تمھاری بیٹی تمھیں بلا رہی ہے۔ پر راتوں رات گرتے پڑتے وہاں پہنچے تو تم مزار شریف کی پائنتی لیٹی ہوئی تھیں ۔ چراغ کی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ تمھاری نظر ٹک گئی تھیں اور تمھارے ہونٹ ذرا ذرا سے ہل رہے تھے۔ ظاہر ہے تم اس وقت بھی تلاوت ہی کر رہی تھیں ۔ پھر جب میں نے تمھارا سر اپنی گود میں رکھا اور تمھارے بابا نے تمھارا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر رونا شروع کر دیا تو نہایت ہی کمزور آواز میں تم نے کہا تھا ’’میری اماں ، میرے ابا کون جانے مزار شریف کیوں نہیں کھلا۔ انصاف تو یہیں ہوا پر چلو فیصلہ تو ہو گیا۔ چلو میں ہی گنہگار سہی۔ سائیں دولھے شاہ جی، آپ نے تو بڑا انتظار کرایا۔ اب قیامت کے دن جب ہم سب خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ ۔ ۔ جب ہم خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ ۔ ۔ خدا کے سامنے۔ ۔ ۔ خدا۔ ۔ ۔ ‘‘! اس کے بعد تم چپ ہو گئی تھیں اور تب سے چپ ہو۔ پھر ہم تمھیں یہاں گھر میں اٹھا لائے اور جب ابھی ابھی سویرے سائیں حضرت شاہ کا خاص خادم سائیں جی کی طرف سے تمھارے لیے کفن لایا تو تم پر سے اترا ہوا جن جیسے تمھارے بابا پر آ گیا۔ ۔ ۔ اس نے کفن ہاتھ میں لیا اور اسے اس چولھے میں جھونک دیا جس پر تمھیں غسل دینے کے لیے پانی گرم کیا جا رہا تھا۔ اب میرے جگر کی ٹکڑی، میرے نیک اور پاک، میری صاف اور ستھری رانو بیٹی! آؤ میں تمھارے ماتھے کے بجھے ہوئے چاند کو چوم لوں ۔ دیکھو کہ بکائن کے اودے اودے پھول مہک رہے ہیں اور بیریوں پر گلہریاں تنے سے چوٹی تک بھاگی پھر رہی ہیں اور ایسی ہوا چل رہی ہے جیسے صدیوں کے سوکھے کواڑوں سے بھی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی اور چار طرف تمھاری تلاوت کی گونج ہے اور سائیں حضرت شاہ کے بھیجے ہوئے کفن کے جلنے کی بو اب تک سارے میں پھیل رہی ہے اور میرے اندر اتنا بہت سا درد جمع ہو گیا ہے جیسے تمھیں جنم دیتے وقت جمع ہوا تھا۔ Read the full article
0 notes
Text
دل کے مریضوں کی جان بچانے والا ڈرون تیار
Urdu News on https://goo.gl/2XxBwv
دل کے مریضوں کی جان بچانے والا ڈرون تیار
روسی انجینیئروں سے ڈی فلبریشن کا پورا نظام ایک ڈرون میں بند کر دیا ہے اور دل کے مریضوں کی زندگی بچانے کے لیے اسے فوری طور پر مطلوبہ جگہ تک پہنچایا جاسکتا ہے۔
روس میں واقع ماسکو ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ (ایم ٹی آئی) اور روسی کمپنی آلٹو میڈیکا نے مشترکہ طور پر ایک طبی ڈرون بنایا ہے جو 50 کلومیٹر کی دوری تک جا کر دل کو بجلی کے ذریعے بحال کرنے والا نظام پہنچا سکتا ہے۔ اس میں سی پی آر (کارڈیو پلمونری ری سسکی ٹیشن) کا پورا انتظام ہے جو حادثے کی صورت میں شہروں کے اندر دل کے مریضوں کو فوری مدد فراہم کر سکتا ہے۔
اس عمل کو انجام دینے کے لیے کسی انسان کی ضرورت رہے گی لیکن ہدایات کو استعمال کرتے ہوئے معمولی پڑھا لکھا شخص بھی اسے استعمال کرسکتا ہے۔ اس میں لگے اسکرین یا اسپیکر کی ہدایت کے تحت مریض کے سینے پر الیکٹروڈ لگانے سے لے کر آلہ چلانے تک کی ہدایات بھی فراہم کی گئی ہیں۔
یہ ڈرون مصروف ترین علاقوں میں ایمبولینس سے پہلے پہنچ جائے گا اور وہاں موجود مریض کے جسم میں 400 جول تک توانائی پہنچا کر دل کو دوبارہ سرگرم کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے اور اس عمل کو ڈی فلبریشن کہا جاتا ہے۔
اس سے قبل دوا اور امداد پہنچانے والے کئی ڈرون بنائے گئے ہیں لیکن یہ ڈرون بطورِ خاص دل کے مریضوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
قالب وردپرس
2 notes
·
View notes