#زندگی میں کامیابی
Explore tagged Tumblr posts
Text
زندگی میں کامیابی کیلئے صبرکرنا سکیھا ہے،شاہ رخ خان
بالی ووڈ اداکارشاہ رخ خان نےکہا ہے کہ زندگی میں کامیابی کیلئےاپنےخاندان سے صبر کرناسیکھا ہے۔ شاہ رخ خان نےباندرہ کےعلاقے میں اپنی59 ویں سالگرہ کے موقع پرایک تقریب میں پرستاروں سے گفتگوکی اداکار نے اپنےمداحوں کے ساتھ ایک لائیومیں بہت سے سوالات کاجواب دیا۔ شاہ رخ نےکہا کہ وہ آریان خان اور ابرام کےساتھ لڑائی کےدوران بیٹی سہانا خان کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔شاہ رخ نےمزاحیہ اندازمیں کہا، بچوں میں…
0 notes
Text
.
#دیکھنے کو زندگی بالکل مکمل نظر آتی ہے کہ میں اپنی مرضی جی زندگی گزار رہا ہوں#ہر وہ چیز میرے پاس موجود ہے جس کی میں نے ہمیشہ سے تمنا کی تھی#اپنے ہر مقصد میں کامیاب رہا ہوں#پر پھر بھی دل کے ایک کونے میں بہت دور گہرائی میں اداسی کی ایک لہر اٹھتی ہے جو مجھے بے چین کر کے رکھ دیتی ہے#میں ہر طرح سے کوشش کر چکا ہوں اس سے چھٹکارا پانے کے لیے لیکن اب تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی#کوئی بھی چیز مجھے سکون نہیں دے پا رہی
2 notes
·
View notes
Text
"کبھی کبھی زندگی میں آپ کی سب سے مضبوط کامیابی یہ ہوتی ہے کہ آپ کی ذہنی طاقت اب بھی ہے، اور آپ اخلاقی طور پر کام کرتے ہیں، حالانکہ آپ بے شمار احمقوں میں گھرے ہوئے ہیں۔"
"Sometimes your strongest achievement in life is that you still have the strength of mind, and that you act morally, even though you are surrounded by countless idiots."
Najeeb Mahfooz
23 notes
·
View notes
Text
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗖𝗢𝗡𝗧𝗘𝗡𝗧𝗠𝗘𝗡𝗧:
♦️"𝘼 𝙟𝙤𝙪𝙧𝙣𝙚𝙮 𝙩𝙤𝙬𝙖𝙧𝙙𝙨 𝙚𝙭𝙘𝙚𝙡𝙡𝙚𝙣𝙘𝙚".♦️
✨ 𝗦𝗲𝘁 𝘆𝗼𝘂𝗿 𝘀𝘁𝗮𝗻𝗱𝗮𝗿𝗱 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗿𝗲𝗮𝗹𝗺 𝗼𝗳
𝗹𝗼𝘃𝗲 ❗
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹𝟭𝟬𝟬 𝗣𝗥𝗜𝗡𝗖𝗜𝗣𝗟𝗘𝗦 𝗙𝗢𝗥
𝗣𝗨𝗥𝗣𝗢𝗦𝗘𝗙𝗨𝗟 𝗟𝗜𝗩𝗜𝗡𝗚. 🔹
(ENGLISH/اردو/हिंदी)
8️⃣0️⃣ 𝗢𝗙 1️⃣0️⃣0️⃣
💠 𝗖𝗢𝗡𝗧𝗘𝗡𝗧𝗠𝗘𝗡𝗧:
𝗧𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ 𝗼𝗻𝗰𝗲 𝗼𝗯𝘀𝗲𝗿𝘃𝗲𝗱, "𝗦𝘂𝗰𝗰𝗲𝘀𝘀𝗳𝘂𝗹 𝗶𝘀 𝘁𝗵𝗲 𝗼𝗻𝗲 𝘄𝗵𝗼𝗺 𝗚𝗼𝗱 𝗵𝗮𝘀 𝗽𝗿𝗼𝘃𝗶𝗱𝗲𝗱 𝘀𝘂𝘀𝘁𝗲𝗻𝗮𝗻𝗰𝗲 𝗮𝗰𝗰𝗼𝗿𝗱𝗶𝗻𝗴 𝘁𝗼 𝗵𝗶𝘀 𝗻𝗲𝗲𝗱𝘀, 𝗮𝗻𝗱 𝗵𝗲 𝗶𝘀 𝘀𝗮𝘁𝗶𝘀𝗳𝗶𝗲𝗱 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝘁𝗵𝗮𝘁 𝗽𝗿𝗼𝘃𝗶𝘀𝗶𝗼𝗻."
(Sunan ibn Majah, Hadith No. 4138)
● It becomes clear from this observation that the secret of success lies in being content with what one has received instead of grieving over what one has not received.
● Whenever a person in the world tries to earn according to the right principles, he will earn enough to meet his needs.
● If he agrees to what he has earned, he will get the benefit in the form of peace of mind.
● But peace always comes from contentment, which means being satisfied with what one receives.
● On the contrary, a person who underestimates what he has received and keeps running towards what he did not have will never be satisfied.
● For there is no limit to things in the world, no matter how many things a person accumulates, there will still be something that he will be tempted to acquire.
● In that way, he will always be greedy for more and more.
● Consequently, he will live a life of restlessness until the day he dies.
🌹🌹And Our ( Apni ) Journey Continues...
-------------------------------------------------------
؏ منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر
0️⃣8️⃣ قناعت:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا: ’’کامیاب وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کی ضرورت کے مطابق رزق دیا اور وہ اس رزق سے راضی ہو‘‘۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4138)
● اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کامیابی کا راز جو نہیں ملا اس پر غمگین ہونے کے بجائے اس پر راضی رہنے میں مضمر ہے۔
● دنیا میں جب بھی کوئی شخص صحیح اصولوں کے مطابق کمانے کی کوشش کرے گا تو وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اتنا کمائے گا۔
● اگر وہ اپنی کمائی پر راضی ہو جائے تو اسے ذہنی سکون کی صورت میں فائدہ ملے گا۔
● لیکن امن ہمیشہ قناعت سے حاصل ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ جو کچھ ملتا ہے اس سے مطمئن رہنا۔
● اس کے برعکس، جو شخص اپنے حاصل کردہ کو کم سمجھتا ہے اور جو اس کے پاس نہیں تھا اس کی طرف دوڑتا رہتا ہے، وہ کبھی مطمئن نہیں ہوگا۔
● اس لیے کہ دنیا میں چیزوں کی کوئی حد نہیں، انسان کتنی ہی چیزیں جمع کر لے، پھر بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا جسے حاصل کرنے کے لیے اسے آزمایا جائے گا۔
● اس طرح وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کا لالچی رہے گا۔
● چنانچہ وہ مرنے کے دن تک بے سکونی کی زندگی بسر کرے گا۔
🌹🌹اور ہمارا سفر جاری ہے...
-----------------------------------------------------
8️⃣0️⃣ संतोष:
पैगम्ब��े इस्लामﷺ ने एक बार कहा था, "सफल वह व्यक्ति है जिसे अल्लाह ने उसकी आवश्यकताओं के अनुसार जीविका प्रदान की है और वह उस प्रावधान से संतुष्ट है।"
(सुनन इब्न माजाह, हदीस नंबर 4138)
● इस अवलोकन से यह स्पष्ट हो जाता है कि सफलता का रहस्य, जो मिला है उससे संतुष्ट रहने में निहित है, न कि जो नहीं मिला है उस पर दुखी होने में।
● दुनिया में जब भी कोई व्यक्ति सही सिद्धांतों के अनुसार कमाने की कोशिश करता है, तो वह अपनी जरूरतों को पूरा करने के लिए पर्याप्त कमा लेता है।
● यदि वह अपनी कमाई से सहमत हो जाए तो उसे मानसिक शांति के रूप में लाभ मिलेगा।
● लेकिन शांति हमेशा संतोष से आती है, जिसका अर्थ है कि जो मिलता है, उससे संतुष्ट रहना।
● इसके विपरीत, जो व्यक्ति अपने पास जो कुछ है उसे कम आंकता है तथा जो उसके पास नहीं है उसकी ओर भागता रहता है, वह कभी संतुष्ट नहीं हो सकता।
● क्योंकि संसार में वस्तुओं की कोई सीमा नहीं है, चाहे कोई व्यक्ति कितनी भी वस्तुएं एकत्रित कर ले, फिर भी कुछ न कुछ ऐसा अवश्य होगा जिसे प्राप्त करने का उसे प्रलोभन होगा।
● इस तरह, वह हमेशा अधिक से अधिक पाने का लालची रहेगा।
● परिणामस्वरूप, वह मरते दम तक बेचैनी का जीवन जीएगा।
🌹🌹और हमारा सफर जारी है...
2 notes
·
View notes
Text
(Bal-e-Jibril-124) Masjid-e-Qurtaba (مسجد قرطبہ)
Jis Mein Na Ho Inqilab, Mout Hai Woh Zindagi Rooh-E-Ummam Ki Hayat Kashmakash-E-Inqilab
In which there is no revolution, that life is worse than death, The life of the spirit of nations lies in the struggle for revolution.
Soorat-E-Shamsheer Hai Dast-E-Qaza Mein Woh Qaum Karti Hai Jo Har Zaman Apne Amal Ka Hisaab
That nation is like a sword in the hand of destiny, Which takes account of its deeds at each step.
Naqsh Hain Sub Na-Tamam Khoon-E-Jigar Ke Begair Naghma Hai Soda’ay Kham Khoon-E-Jigar Ke Begair
All creations are incomplete without their creator's passion. Soulless is the melody without the blood of passion.
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی رُوحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب مطلب: جس زندگی میں انقلاب نہ آتا ہو وہ زندگی نہیں بلکہ موت ہے اور قوموں کی روحیں انقلابی کشمکش کے سبب ہی زندہ رہتی ہیں۔
صورتِ شمشیر ہے ��ستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب مطلب: جو قوم ہر وقت اپنے اعمال کی جانچ پڑتال ��رتی رہتی ہے وہ قوم اپنی غلطیوں اور ٹھوکروں کا اندازہ کر لیتی ہے اور کامیابی کی منزلیں طے کرتی ہے اور قدرت کے ہاتھ میں تلوار کی طرح ہوتی ہے یعنی قدرت اس سے کام لیتی رہتی ہے۔
نقش ہیں سب ناتمام، خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام، خونِ جگر کے بغیر مطلب: جن نقوش میں جگر کا خون شامل نہ ہو وہ مکمل نہیں ہوا کرتے بلکہ نامکمل رہتے ہیں خونِ جگر کے بغیر شاعری بھی ادھوری ہے یعنی شاعر بھی شعور سے عاری رہتا ہے جب تک اپنے فن میں اپنے جگر کا خون شامل نہ کرے۔
Recited by: Zia Mohyeddin Sahib Recitation Courtesy: Iqbal Academy Pakistan
#inspiration#iqbaliyat#motivation#islam#muslims#encouragement#poetry#urdu#love#Pakistan#pakistan news#pakistan zindabad
2 notes
·
View notes
Text
نفرت
نفرت ایک ایسی چیز ہے جو نہ صرف دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ خود انسان کو بھی اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہ ایک منفی جذبات ہے جو انسان کو دوسروں سے دور کر دیتا ہے اور سماج میں انتشار پھیلاتا ہے۔
نفرت کی جڑیں مختلف وجوہات میں ہو سکتی ہیں جیسے کہ:
* تعصب: کسی خاص گروہ، مذہب، یا قومیت کے خلاف نفرت۔
* حسد: دوسرے کی کامیابی یا خوشی پر حسد کرنا۔
* بدلہ: کسی سے کسی نقصان یا تکلیف کی وجہ سے بدلہ لینا۔
* نہ سمجھنا: دوسرے کی سوچ اور احساسات کو سمجھنے میں ناکامی۔
نفرت کے اثرات بہت سنگین ہوتے ہیں جن میں شامل ہیں:
* دوسروں کو نقصان: جس شخص سے نفرت کی جاتی ہے اسے جسمانی اور نفسیاتی طور پر نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔
* سماج میں انتشار: نفرت سے سماج میں نفرت، دشمنی اور تشدد پھیلتا ہے۔
* ذاتی زندگی تباہ ہونا: نفرت سے انسان کی ذاتی زندگی تباہ ہو سکتی ہے اور وہ دوسروں سے تعلقات قائم نہیں رکھ پاتا۔
* نفسیاتی بیماریاں: نفرت سے انسان میں مختلف نفسیاتی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
نفرت سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
* دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کریں: دوسروں کی سوچ اور احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
* تعصب سے بچیں: کسی بھی قسم کے تعصب سے بچیں۔
* معاف کرنے کی عادت ڈالیں: اگر کوئی آپ کو نقصان پہنچاتا ہے تو اسے معاف کرنے کی کوشش کریں۔
* محبت اور شفقت پھیلائیں: دوسروں کے ساتھ محبت اور شفقت کا سلوک کریں۔
* اپنے آپ کو مثبت سوچوں سے بھرپور رکھیں: منفی سوچوں سے دور رہیں اور مثبت سوچوں کو فروغ دیں۔
نفرت ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان کو بچنا چاہیے۔ اس کے بجائے محبت، شفقت اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے
2 notes
·
View notes
Text
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی پانچ بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ھے ،
اِس یونیورسٹی میں 16 ہزار ملازم ہیں۔
جن میں سے ڈھائی ہزار پروفیسر ہیں ۔
سٹوڈنٹس کی تعداد 36 ہزار ھے۔
اس یونیورسٹی کے 160 سائنسدانوں اور پروفیسرز نے نوبل انعام حاصل کئے ہیں
ہارورڈ یونیورسٹی کا یہ دعویٰ ھے کہ ہم نے دنیا کو آج تک جتنے عظیم دماغ دیۓ ہیں وہ دنیا نے مجموعی طور پر پروڈیوس نہیں کیۓ اور یہ دعویٰ غلط بھی نہیں ھے کیونکہ دنیا کے 90 فیصد سائنسدان ، پروفیسرز ، مینجمنٹ گرو اور ارب پتی بزن�� منیجرز اپنی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ہارورڈ یونیورسٹی کے طالب علم رھے ہیں ،
اس یونیورسٹی نے ہر دور میں کامیاب ہونے والے لوگوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ھے.
ہارورڈ یونیورسٹی کا ایک میگزین ھے ، جس کا نام ھے
Harvard University Business Review
اور اس کا دنیا کے پانچ بہترین ریسرچ میگزینز میں شمار ہوتا ھے ،
اس میگزین نے پچھلے سال تحقیق کے بعد یہ ڈکلئیر کیا کہ ہماری یونیورسٹی کی ڈگری کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے ، یعنی اگر آپ دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں سے بھی ڈگری حاصل کرتے ہیں تو وہ محض پانچ سال تک کارآمد ھو گی.
یعنی پانچ سال بعد وہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا رہ جائے گی ۔
آپ خود بھی یقیناً ایک ڈگری ہولڈر ہوں گے ، چند لمحوں کے لیے ذرا سوچئے اور جواب دیجئے
آپ نے آخری مرتبہ اپنی ڈگری کب دیکھی تھی اور آپ کی ڈگری اِس وقت کہاں پڑی ھے شائد آپ کو یہ یاد بھی نہ ہو ۔
ہمارے پاس اِس وقت جو علم ھے اُس کی شیلف لائف محض پانچ سال ھے یعنی پانچ سال بعد وہ آوٹ ڈیٹڈ ہو چکا ہوگا اور اس کی کوئی ویلیو نہیں ہوگی
آپ اگر آج ایک سافٹ ویئر انجینئر بنتے ہیں تو پانچ سال بعد آپ کا نالج کارآمد نہیں رہے گا اور آپ اس کی بنیاد پر کوئی جاب حاصل نہیں کر سکیں گے ۔
اس کو اس طرح سمجھ لیں جیسے کمپیوٹر کی ڈپریسیشن ویلیو %25 ہے مطلب چار سال بعد ٹیکنالوجی اتنا آگے بڑھ جا چکی ہوگی کہ آج خریدا ہوا کمپیوٹر چار سال بعد مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔
*آج کے دور میں انسان کے لۓ بہت زیادہ ضروری ھے*
*مسلسل نالج*
آپ خود کو مسلسل اَپ ڈیٹ اور اَپ گریڈ کرتے رھیں ۔۔پھر ہی آپ دنیا کے ساتھ چل سکتے ہیں
*آپ سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے شعبے سے متعلق کوئی نیا کورس ضرور کریں*
یہ کورس آپ کے نالج کو بڑھا دے گا اور نئی آنے والی ٹیکنالوجی سے آپ کو باخبر رکھے گا۔
نالج بھی اس وقت تک نالج رہتا ھے جب تک آپ اُس کو ریفریش کرتے رہتے ہیں ۔۔
آپ اسے ریفریش نہیں کریں گے تو وہ ٹہرے ہوئے گندے پانی کی طرح بدبو دینے لگے گا۔
آج آپ دیکھیں ہم دنیا سے بہت پیچھے کیوں رہ گئے ہیں۔
دو وجوہات تو بہت واضع ہیں اکثر شعبوں میں ہم 50 سال یا اس سے بھی پرانی ٹیکنالوجی سے کام چلا رہے ہیں۔۔مثال کے طور پر ہمارا ریلوے نظام۔۔ہمارا نہری نظام، فی ایکڑ پیداواری نظام ،خوراک کو محفوظ کرنے کا طریقہ کار وغیرہ وغیرہ
دوسری وجہ نوکری مل جانے کے بعد مکھی پر مکھی مارنے کی عادت ، ہم شعوری طور پر سمجھتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب نوکری ک�� حصول تھا وہ مل گئی۔۔جس طرح سالوں سے وہ شعبے چل رہے ہیں ہم اس کا حصہ بن جاتے ہیں بجائے اس کے کہ اپنے علم سے وہاں بہتری لائیں ، ادارے کی کارکردگی میں ایفشینسی لائیں اور خود اپنے اور لوگوں کے لئیے سہولتیں پیدا کریں۔
دنیا میں بارہ برس میں آئی فون کے چودا ورژن آگئے ، لیکن آپ اپنے پرانے نالج سے آج کے دور میں کام چلانا چاہ رھے ھیں ۔۔
یہ کیسے ممکن ھے؟
یہ اَپ گریڈیشن آپ کو ہر سال دوسروں کے مقابلے کی پوزیشن میں رکھے گی ۔ ورنہ
دنیا آپ کو اٹھا کر کچرے میں پھینک دے گے
9 notes
·
View notes
Text
میں کیسے مان لوں کہ عشق بس اک بار ہوتا ہے
تجھے جتنی دفعہ دیکھوں مجھے ہر بار ہوتا ہے
فقط کٹنے کو یوں بھی کٹ رہی ہے زندگی لیکن
وہی ہے زندگی جس پل ترا دیدار ہوتا ہے
تجھے پانے کی حسرت اور ڈر نا کامیابی کا
انہیں دو تین باتوں سے یہ دل دو چار ہوتا ہے
اگر ہے عشق سچا تو نگاہوں سے بیاں ہوگا
زباں سے بولنا بھی کیا کوئی اظہار ہوتا ہے
کنارے بیٹھ کر کے کوئی بھی منزل نہیں پاتا
جو ٹکراتا ہے لہروں سے وہ دریا پار ہوتا ہے
4 notes
·
View notes
Text
🎯 کامیاب ترین لوگوں کی سات عادتیں 🎯
🎯 SEVEN HABIT’S 🎯of highly effective people “Seven Habits of Highly Effective People”✅ یہ ایک کتاب ہے جو اسٹیفن کووی نے 1989 میں لکھی تھی۔ کتاب میں سات عادات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جو ذاتی اور پیشہ ورانہ کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔ 1 🎯 فعال بنیں:اپنی زندگی کی ذمہ داری خود لیں اور اپنے ساتھ ہونے والی چیزوں کا انتظار کرنے کے بجائے چیزوں کو انجام دیں۔ 2 🎯 ذہن میں اختتام کے ساتھ شروع کریں:واضح…
View On WordPress
#dream#effective people#GreatPeopleSayings#Habits#improvement#Information#Inspiration#motivation#qualityoflife#salman dheraiwala#sdw spark#seven habits#successful people#tips#Urdu article
3 notes
·
View notes
Text
دماغ کی طاقت کو بروئے کار لا کر آپ اپنی زندگی کے لیے جو کچھ بھی چاہتے ہیں کر سکتے ہیں، حاصل کر سکتے ہیں اور "کامیابی وہ ہے جو آپ چاہتے ہیں، جب آپ چاہتے ہیں، جہاں آپ چاہتے ہیں، جس کے ساتھ آپ چاہتے ہیں جتنا آپ چاہتے ہیں۔ " حاصل کیسے کریں جانیں اس کتاب میں ۔
Free Read at
https://bpapers.com/book/unlimited-power/
#bpapers #forgenerationz #forpremiumreaders #highqualitybooks #famousbooks #urdubooks #readbooksonline #bestbooks #urdunovels #freebooks #pakistanibooks #storybooksurdu #motivationalbooks #fictionbooks #positivethinking #urdu #urdubooks #urdubooksreview #urdubooksarelife #urdubooksonline1 #urdubooksforkids #urdubookstore #urdubookslovers #urdubookspakistan #urdubooks #motivation #urdumotivationalpost #urdumotivationalpost #urdumotivationalspeaker #urdumotivational #urdumotivationalpoetry #urdumotivationalvideo #urdumotivation #urdutranslatedquotes
2 notes
·
View notes
Text

تنہائی اور رشتہ داریوں کی اہمیت ۔
زندگی میں انسان کو مختلف مراحل اور تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ان تجربات کے دوران انسان کو جو سب سے بڑی چیز درکار ہوتی ہے وہ ہے حمایت اور تعاون۔ انسان اپنی زندگی میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرتا ہے، مگر ان مشکلات کو کامیابی سے عبور کرنے کے لیے اسے دوسروں کا ساتھ درکار ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے انسان کی فطرت میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ وہ سماجی مخلوق ہے اور اسے رشتہ داریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان رشتہ داریوں میں ماں، باپ، بھائی، بہن، دوست، احباب، اور زندگی کے دیگر اہم رشتہ شامل ہیں، جو انسان کو سکون، محبت، اور ذہنی سکون فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اگر انسان ان رشتہ داریوں سے دور ہو جائے، تو وہ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے، جو اس کی ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔
رشتہ داریوں کی اہمیت ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مختلف رشتہ عطا کیے ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے اپنی زندگی میں سکون اور خوشی محسوس کرے۔ ماں اور باپ کا رشتہ سب سے اہم ہے کیونکہ یہی وہ رشتہ ہے جو انسان کو دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے ہی محبت اور حمایت فراہم کرتا ہے۔ ماں کا پیار اور باپ کی رہنمائی انسان کو زندگی کے ابتدائی مراحل سے ہی تربیت دیتی ہے۔ اس کے بعد بھائی، بہنیں، دادی، دادا، نانی اور نانا جیسے رشتہ دار ہوتے ہیں جو انسان کو ایک خاندان کی محبت میں لپیٹ کر اسے دنیا کے مشکلات کا سامنا کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔
دوست اور احباب کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ انسان اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر اپنی خوشیاں اور غم بانٹتا ہے۔ جب انسان کسی مشکل میں مبتلا ہوتا ہے، تو دوست اس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس کے لیے اپنے مشورے اور مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ میاں بیوی اور بچوں کا رشتہ بھی بہت اہم ہوتا ہے، کیونکہ یہ رشتہ انسان کی زندگی میں محبت، حمایت اور سکون کا ذریعہ بنتا ہے۔
تنہائی کے اثرات ۔
لیکن اگر انسان ان رشتہ داریوں سے دور ہو جائے اور اپنی الگ دنیا میں ��حصور ہو جائے تو اس کی زندگی میں بہت سی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان مشکلات میں سب سے پہلے ذہنی تناؤ اور مایوسی شامل ہوتی ہے۔ انسان کو جب محبت اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، مگر وہ ان سے محروم ہوتا ہے، تو وہ خود کو اکیلا اور بے کس محسوس کرتا ہے۔ اس تنہائی کی حالت میں انسان میں خود اعتمادی کی کمی پیدا ہو سکتی ہے اور وہ خود کو دوسروں سے غیر متعلق محسوس کرنے لگتا ہے۔
یہ تنہائی انسان کو ایک طرف کر کے اس کی ذاتی دنیا میں جکڑ لیتی ہے، جہاں وہ اپنے خیالات اور سوچوں میں گم ہو جاتا ہے۔ اس دوران انسان کے ذہن میں بے شمار سوالات اٹھتے ہیں اور وہ ان کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر اس کی دنیا اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ وہ ان سوالات کے جوابات نہیں تلاش کر پاتا۔ اس کی ذہنی حالت میں بہت زیادہ دباؤ آ جاتا ہے، اور وہ بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری اس کی ذہنی حالت سے جنم لیتی ہے، جس کی شدت آہستہ آہستہ بڑھتی رہتی ہے۔
رشتہ داریوں سے دوری کا نتیجہ۔
جب انسان اپنی تنہائی کے باعث خاموشی اختیار کرتا ہے، تو وہ نہ صرف اپنے آپ سے، بلکہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی دور ہو جاتا ہے۔ دوست احباب اور خاندان والے اس کی تبدیلی کو محسوس کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تعلقات کمزور پڑنے لگتے ہیں۔ انسان جب احساس کرتا ہے کہ وہ تنہائی کا شکار ہو چکا ہے اور اس کی زندگی میں محبت اور رشتہ داریوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے، تو وہ ان تعلقات کو دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے۔ مگر افسوس یہ ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ دیکھتا ہے کہ وہ لوگ اب اس سے دور ہو چکے ہیں، اور اس کی زندگی میں ان کا کردار پہلے جیسا نہیں رہا۔
یہ صورت حال انسان کو ایک اور کرب میں مبتلا کرتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے تنہائی میں رہ کر جو فیصلہ کیا، وہ غلط تھا، اور اب اسے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے۔ مگر اس کے لیے اس کا ماضی اسے واپسی کا موقع نہیں دیتا۔ دوست اور رشتہ دار اس کی غفلت اور لاتعلقی کو سمجھتے ہوئے اس سے دور ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی میں جب یہ احساس بیدار ہوتا ہے، تو وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی تنہائی کو ختم کرے اور دوسروں کے ساتھ دوبارہ جڑ جائے، لیکن اب اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا۔
اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی میں رشتہ داریوں کی اہمیت کو سمجھنا اور ان کا احترام کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط رکھنا چاہیے تاکہ ہم ان کی محبت اور تعاون کا فائدہ اٹھا سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم��ں مختلف رشتہ عطا کیے ہیں تاکہ ہم ان کے ذریعے اپنی زندگی میں سکون اور خوشی محسوس کریں۔ اگر ہم ان رشتہ داریوں سے غافل ہو جائیں، تو ہماری زندگی میں تنہائی اور مایوسی کا غلبہ ہو سکتا ہے، جو ہمیں ہماری غلطیوں کا احساس دلائے گا۔
لہذا، ہمیں اپنی زندگی میں محبت اور تعلقات کو اہمیت دینی چاہیے اور ان رشتہ داریوں کا خیال رکھنا چاہیے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہیں۔ ان رشتہ داریوں کے ذریعے ہم نہ صرف اپنی ذاتی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں، بلکہ ہم اپنے معاشرتی رشتہ جات کو بھی مضبوط کر سکتے ہیں، جو ہماری زندگی میں سکون اور خوشی کا باعث بنتے ہیں۔
قلم کار : فاطمہ نسیم
تاریخ : 23 دسمبر 2024
0 notes
Text
ایک خواب جو تعبیر پا گیا
ادیب بھائی سے برسوں پرانا تعلق ہے، وہ ہمارا فخر ہیں۔ ان جیسی دردمندی ہر کسی میں نہیں ہوتی۔ ان کے جذبے اور لگن نے آج SIUT کو جو مقام دیا ہے وہ برسوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔ ابھی حال ہی میں انھوں نے ریجنٹ پلازہ ہوٹل خرید کر وہاں SIUT کا اسپتال قائم کیا ہے۔ میں نہ صرف ان کی مزید کامیابی کی دعا گو ہوں بلکہ یہ خواہش بھی رکھتی ہوں کہ آنے والے وقت میں پاکستان میں بہت سے ادیب رضوی پیدا ہوں۔ پاکستان میں یورولوجی اور نیفرالوجی کے شعبے میں اگر کسی شخصیت نے اپنی بے لوث خدمات اور انسانی ہمدردی کے ذریعے انقلابی تبدیلی لائی ہے تو وہ ہیں ڈاکٹر ادیب رضوی۔ ڈاکٹر ادیب رضوی جو کہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کے بانی ہیں انھوں نے اپنی زندگی غریبوں اور ضرورت مندوں کی خدمت میں گزاری ہے۔ ان کی رہنمائی کی بدولت SIUT نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک مثال کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یورولوجی اور نیفرالوجی کی اعلیٰ تعلیم برطانیہ اور امریکا میں حاصل کی۔ ڈاکٹر رضوی نے جدید ترین طریقوں کو سیکھا، جو بعد میں انھوں نے پاکستان میں استعمال کیے۔
ان کی تعلیم نے انھیں نہ صرف جدید طبی علم سے آراستہ کیا بلکہ انھیں دنیا بھر میں صحت کے نظام کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کی۔ اسی وقت انھوں نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے ایک نیا اور منفرد طریقہ کار اپنانا ہو گا، جو ذمے داری حکومت کو نبھانی چاہیے تھی وہ ڈاکٹر ادیب رضوی نے اپنے سر لے لی۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان کو صحت کے شعبے میں سنگین مشکلات کا سامنا تھا۔ یورولوجی اور نیفرالوجی کے ماہرین کی کمی تھی اور جدید علاج کی سہولتیں بہت کم تھیں۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا عہد کیا جس میں عام آدمی کو معیاری اور سستی طبی خدمات فراہم کی جاسکیں۔ دسمبر 1985 میں ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے گردے کی پیوند کاری کا پہلا کامیاب آپریشن کیا جس پر پورے ملک میں نہ صرف خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی بلکہ ہر طرف اس کا ذکر تھا۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ ڈاکٹر ادیب اور ان کی ٹیم نے SIUT کو ایشیا کا سب سے بڑا اسپتال بنا دیا جہاں مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔
1989 میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کا قیام ڈاکٹر ادیب رضوی کی نگرانی میں عمل میں لایا گیا شروع میں یہ ادارہ صرف گردوں کی ڈائیلاسس اور ٹرانسپلانٹیشن کی خدمات فراہم کرتا تھا، لیکن جلد ہی اس کا دائرہ کار بڑھا اور SIUT ایک عالمی سطح کی طبی سہولت بن گیا۔ ڈاکٹر رضوی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ صحت کی سہولیات ان لوگوں تک پہنچائیں جو مالی طور پر کمزور ہیں اور جو مہنگے نجی اسپتالوں میں علاج نہیں کرا سکتے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کو گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے میدان میں ایک رہنما سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن بہت کم ہوتی تھی اور جو مریض اس عمل کے لیے بیرون ملک جاتے تھے، ان کے لیے یہ علاج بہت مہنگا پڑتا تھا۔ ڈاکٹر رضوی نے زندہ عطیہ کنندگان سے گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے تصور کو متعارف کرایا، جس سے پاکستان میں گردوں کی منتقلی کے عمل کو ممکن بنایا گیا۔ انھوں نے (kidney paired donation) کا تصور بھی متعارف کرایا۔ کڈنی پیئرڈ ڈونیشن ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ایسے افراد کو گردے کی پیوندکاری (ٹرانسپلانٹ) فراہم کی جاتی ہے جنھیں اپنے متعلقہ عطیہ دہندگان سے گردہ نہیں مل پاتا کیونکہ دونوں کا جسمانی طور پر میچ نہیں ہوتا۔
اس طریقے میں، دو یا زیادہ افراد جو گردہ دینے کے لیے رضامند ہیں، مگر ان کا گردہ ایک دوسرے کے مریضوں کے ساتھ میل نہیں کھاتا، ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کرتے ہیں۔ اس طرح، ہر مریض کو ایک ایسا گردہ مل جاتا ہے جو اس کے جسم کے لیے موزوں ہوتا ہے۔ ان کے کام نے نہ صرف پاکستان میں گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کے عمل کو فروغ دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹر رضوی کی زندگی کا مقصد صرف علاج کرنا نہیں بلکہ صحت کے شعبے میں عوامی آگاہی بھی پیدا کرنا تھا۔ انھوں نے اعضاء کا عطیہ، خون کا عطیہ اور صحت کے بنیادی مسائل پر عوامی سطح پر مہم چلائی۔ ان کی کوششوں سے لوگوں میں گردوں کی بیماریوں، ان کے علاج اور پیشگی احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر رضوی نے پاکستان میں گردوں کی بیماری کی روک تھام کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ انھوں نے خاص طور پر ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسے عوامل پر توجہ مرکوز کی، جو گردوں کی بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔ انھوں نے عوامی سطح پر ان بیماریوں کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مہم چلائی، تاکہ لوگ صحت مند طرز زندگی اپنا سکیں۔
آج SIUT ایک بین الاقوامی سطح کا طبی ادارہ بن چکا ہے، جو کہ گردوں کی بیماری، یورولوجی اور دیگر شعبوں میں دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ SIUT میں نہ صرف گردوں کا ڈائیلاسس اور ٹرانسپلانٹیشن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے بلکہ یہ ادارہ یورولوجی سرجری، ریڈیالوجی جیسے مختلف شعبوں میں بھی خدمات فراہم کرتا ہے۔SIUT کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے مریضوں کو مفت علاج فراہم کرتا ہے۔ ان کے نیٹ ورک سے پورے پاکستان کے غریب اور ضرورت مند مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس ادارے کا مقصد صرف علاج کرنا نہیں بلکہ صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے تحقیق اور تعلیم کو فروغ دینا بھی ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی خدمات کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے۔ انھیں ستارہ امتیاز جیسے اعلیٰ اعزازات مل چکے ہیں اور وہ عالمی صحت کی تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) سے بھی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی خدمات اور کامیابیاں نہ صرف پاکست��ن بلکہ دنیا بھر میں تسلیم کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر رضوی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ صحت کا حق ہر انسان کو حاصل ہونا چاہیے اور اس حق کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہو گی۔ ان کا ماننا ہے کہ SIUT کا ماڈل پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی اپنانا چاہیے تاکہ پورے ملک میں معیاری اور سستی صحت کی خدمات فراہم کی جا سکیں۔
ڈاکٹر ادیب رضوی کی زندگی کا مقصد صرف ایک طبی ادارہ قائم کرنا نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ سماجی تبدیلی کا باعث بنیں، جہاں صحت کی خدمات ہر شخص کو اس کی مالی حیثیت سے قطع نظر دستیاب ہوں۔ ان کی بے لوث خدمات اور انسان دوستی نے SIUT کو ایک عالمی معیار کے صحت کی سہولت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ڈاکٹر رضوی کی قیادت میں SIUT نے نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر گردوں کی بیماریوں کے علاج میں انقلاب برپا کیا۔ ان کی خدمات کا شمار نہ صرف طب کے شعبے میں بلکہ سماجی بہبود کے حوالے سے بھی ایک عظیم کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کا یہ کہنا کہ ان کا سب سے بڑا انعام مریضوں کی دعائیں اور ان کی خوشی ہے، ان کی یہ سوچ ان کے کے انسان دوست نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ آج SIUT اس بات کا گواہ ہے کہ ڈاکٹر رضوی اور ان کی ٹیم کی محنت، لگن اور انسان دوستی واقعی لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائی ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے جو اکیلے کر دکھایا وہ ان کی انسانیت سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو کام ہماری حکومت نہیں کرسکی وہ اکیلے اس ایک انسان نے کر دکھایا۔ ان کی ڈاکٹروں کی ٹیم کی بھی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
پاکستان اور بیرون ملک پاکستانی دل کھول کر اور آنکھ بند کرکے SIUT کو عطیات دیتے ہیں کیونکہ ان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ ان کی پائی پائی مریضوں کے کام آئے گی۔ دعا گو ہوں کے ادیب بھائی طویل عمر پائیں اور وہ یوں ہی انسانیت کی خدمت کرتے رہیں۔
زاہدہ حنا
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
کاش ہمارے پاس کسی کی قدر ہوتی تو وہ ہمیں اپنی دعاؤں میں اپنے ساتھ لے جاتا، ہمارے معاملات کو آسان کرتا، ہر قدم پر کامیابی اور زندگی میں ذہنی سکون دیتا۔
If only we had value for someone, he would take us with him in his prayers, ease our affairs, success in every step, and peace of mind in our life.
9 notes
·
View notes
Text
𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑵𝒂𝒂𝒎 𝒔𝒆, 𝑨𝒍𝒍𝒂𝒉 𝒌 𝑾𝒂𝒔'𝒕𝒆.
🌹🌹 𝗖𝗛𝗢𝗢𝗦𝗘 𝗧𝗛𝗘 𝗘𝗔𝗦𝗬 𝗪𝗔𝗬:
♦️"𝘼 𝙟𝙤𝙪𝙧𝙣𝙚𝙮 𝙩𝙤𝙬𝙖𝙧𝙙𝙨 𝙚𝙭𝙘𝙚𝙡𝙡𝙚𝙣𝙘𝙚".♦️
✨ 𝗦𝗲𝘁 𝘆𝗼𝘂𝗿 𝘀𝘁𝗮𝗻𝗱𝗮𝗿𝗱 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝗿𝗲𝗮𝗹𝗺 𝗼𝗳
𝗹𝗼𝘃𝗲 ❗
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹𝟭𝟬𝟬 𝗣𝗥𝗜𝗡𝗖𝗜𝗣𝗟𝗘𝗦 𝗙𝗢𝗥
𝗣𝗨𝗥𝗣𝗢𝗦𝗘𝗙𝗨𝗟 𝗟𝗜𝗩𝗜𝗡𝗚. 🔹
(ENGLISH/اردو/हिंदी)
9️⃣8️⃣ 𝗢𝗙 1️⃣0️⃣0️⃣
💠 𝗖𝗛𝗢𝗢𝗦𝗘 𝗧𝗛𝗘 𝗘𝗔𝗦𝗬 𝗪𝗔𝗬:
𝗛𝗮𝘇𝗿𝗮𝘁 𝗔𝗶𝘀𝗵𝗮 (𝗿.𝗮.), 𝘁𝗵𝗲 𝘄𝗶𝗳𝗲 𝗼𝗳 𝘁𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺ﷺ, 𝗽𝗿𝗼𝘃𝗶𝗱𝗲𝘀 𝗮 𝗴𝘂𝗶𝗱𝗶𝗻𝗴 𝗽𝗿𝗶𝗻𝗰𝗶𝗽𝗹𝗲. 𝗦𝗵𝗲 𝘀𝗮𝗶𝗱: "𝗪𝗵𝗲𝗻𝗲𝘃𝗲𝗿 𝘁𝗵𝗲 𝗣𝗿𝗼𝗽𝗵𝗲𝘁ﷺ 𝗵𝗮𝗱 𝘁𝗼 𝗰𝗵𝗼𝗼𝘀𝗲 𝗯𝗲𝘁𝘄𝗲𝗲𝗻 𝘁𝘄𝗼 𝗰𝗼𝘂𝗿𝘀𝗲𝘀, 𝗛𝗲ﷺ 𝘄𝗼𝘂𝗹𝗱 𝗮𝗹𝘄𝗮𝘆𝘀 𝗼𝗽𝘁 𝗳𝗼𝗿 𝘁𝗵𝗲 𝗲𝗮𝘀𝗶𝗲𝗿 𝗼𝗻𝗲."
(Sahih al-Bukhari, Hadith, No. 3560)
● This means that whenever the Prophetﷺ had two options before Himﷺ in any matter, Heﷺ would always abandon the harder option in favor of the easier one.
● Thus, whenever the Prophetﷺ had to choose between avoidance and confrontation, Heﷺ always abandoned the method of confrontation and opted for the method of avoidance.
● Similarly, when Heﷺ had the opportunity to choose between war and peace, Heﷺ would always opt for peace.
● This is wisdom.
● The advantage of this wisdom is that one can save oneself from further harm and can manage his affairs successfully.
● In every situation, both methods are always available.
● But wisdom lies in following the example we find in the life of the Prophet of Islamﷺ.
🌹🌹And Our ( Apni ) Journey Continues...
-------------------------------------------------------
؏ منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر
8️⃣9️⃣ آسان طریقہ کا انتخاب کریں:
پیغمبر اسلامﷺ کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ایک رہنما اصول فراہم کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا: "جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کام میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو اپﷺ ہمیشہ آسان کام کو اختیار کرتے۔"
(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3560)
● اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب بھی کسی معاملے میں دو آپشن ہوتے تو آپﷺ ہمیشہ مشکل کو آسان کے حق میں چھوڑ دیتے تھے۔
● چنانچہ جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اجتناب اور تصادم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو اپﷺ نے ہمیشہ تصادم کا طریقہ ترک کیا اور اجتناب کا طریقہ اختیار کیا۔
● اسی طرح جب اپﷺ کو جنگ اور امن میں سے کسی ایک کو چننے کا موقع ملتا تو اپﷺ ہمیشہ امن کا انتخاب کرتے۔
● یہ حکمت ہے۔
● اس حکمت کا فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو مزید نقصان سے بچا سکتا ہے اور اپنے معاملات کو کامیابی سے چلا سکتا ہے۔
● ہر صورت میں، دونوں طریقے ہمیشہ دستیاب ہوتے ہیں۔
● لیکن حکمت اس مثال کی پیروی میں مضمر ہے جو ہمیں پیغمبر اسلامﷺ کی زندگی میں ملتی ہے۔
🌹🌹اور ہمارا سفر جاری ہے...
-----------------------------------------------------
9️⃣8️⃣ आसान रास्ता चुनें:
इस्लाम के पैगम्बरﷺ की पत्नी हजरत आयशा (र.अ.) एक मार्गदर्शक सिद्धांत प्रदान करती हैं। उन्होंने कहा: "जब भी पैगम्बरﷺ को दो रास्तों में से एक को चुनना होता था, तो पैगम्बरﷺ हमेशा आसान रास्ता चुनते थे।"
(साहिह अल-बुखारी, हदीस, नंबर 3560)
● इसका अर्थ यह है कि जब भी किसी मामले में पैगम्बरﷺ के सामने दो विकल्प होते थे तो पैगम्बरﷺ हमेशा कठिन विकल्प को छोड़कर आसान विकल्प को अपना लेते थे।
● इस प्रकार, जब भी पैगम्बरﷺ को टालने और टकराव के बीच चयन करना पड़ा, तो उन्होंनेﷺ हमेशा टकराव का रास्ता छोड़ दिया और टालने का रास्ता चुना।
● इसी प्रकार, जब भी आपकेﷺ सामने युद्ध और शांति के बीच चयन करने का अवसर आया, तो आपनेﷺ हमेशा शांति का ही चुनाव किया।
● यह बुद्धिमत्ता है.
● इस बुद्धि का लाभ यह है कि व्यक्ति स्वयं को आगे होने वाली हानि से बचा सकता है तथा अपने मामलों का सफलतापूर्वक प्रबंधन कर सकता है।
● हर स्थिति में, दोनों रास्ते सदैव उपलब्ध रहते हैं।
● लेकिन बुद्धिमत्ता इस बात में है कि हम इस्लाम के पैगम्बरﷺ के जीवन में जो उदाहरण पाते हैं उसका अनुसरण करें।
🌹🌹और हमारा सफर जारी है...
0 notes
Text
بہ تسلیمات نظامت اعلیٰ تعلقات عامہ پنجاب لاہور، فون نمبر:99201390ڈاکٹر محمد عمران اسلم/پی آر او ٹو سی ایم
ہینڈ آؤٹ نمبر 1168
”مریم کی مسیحائی کا فیضان“،چیف منسٹر چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام کامیابی سے جاری، 530بچوں کی کامیاب سرجری
چیف منسٹر چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام کے تحت سرجری اور انٹروینشنل کارڈیالوجی پروسیجر کامیابی سے مکمل، مریض روبصحت
پینل میں شامل 6سرکاری اور 8نجی ہسپتالو ں میں 530مریضوں کاعلاج کیا گیا،پنجاب میں تقریباًساڑھے چارہزار مریض بچوں کے علاج کیلئے رجوع کیا جاچکا ہے
لاہورو ملتان کے چلڈرن ہسپتال اورکارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ،فیصل آباد اورراولپنڈی میں چلڈرن کارڈیک سرجری کی جارہی ہے
لاہو ر کے 4،ملتان کے 3اوراسلام آباد کے پرائیویٹ ہسپتال میں بھی چیف منسٹرچلڈرن ہارٹ سرجری جاری ہے
ہر بچے کی صحت اہم ہے، زندگی بچانے کی سر توڑ کوشش کرینگے،چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام میں پنجاب ہی نہیں دیگر صوبوں سے آنیوالوں بچوں کا بھی علاج ہوگا:مریم نواز شریف
چلڈرن ہسپتالوں میں استعداد بڑھانے کیلئے سپیشل ہارٹ سرجن اور ٹرینڈ الائیڈ سٹاف کی کمی دور کی جائے گی، ہر بچے کا علاج یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب
لاہور10- نومبر:……”مریم کی مسیحائی کا فیضان“،چیف منسٹر چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام کامیابی سے جاری ہے-چیف منسٹر چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام کے تحت 530بچوں کی کامیاب سرجری کی گئی ہے۔سال ہا سال سے چلڈرن ہارٹ سرجری کی ویٹنگ لسٹ میں واضح کمی آئی ہے۔چیف منسٹر چلڈرن ہارٹ سرجری کی سپیشل ڈیش بورڈ کے ذریعے مانیٹرنگ بھی جاری ہے۔چیف منسٹر چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام کے تحت سرجری اور انٹروینشنل کارڈیالوجی پروسیجر کامیابی سے مکمل ہوا اور مریض روبصحت ہیں۔پینل میں شامل 6سرکاری اور 8نجی ہسپتالو ں میں 530مریضوں کاعلاج کیا گیا۔علاج کیلئے آنیوالے مریضوں کی بروقت سرجری یقینی بنانے کیلئے مرکزی ڈیٹا بیس میں رجسٹریشن او رتفصیلات کا اندراج کیا گیاہے۔لاہورو ملتان کے چلڈرن ہسپتال اورکارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ،فیصل آباد اورراولپنڈی کے کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ میں چلڈرن کارڈیک سرجری کی جارہی ہے۔لاہو ر کے 4،ملتان کے 3اوراسلام آباد کے پرائیویٹ ہسپتال میں بھی چیف منسٹرچلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام کے تحت علاج جاری ہے۔پنجاب میں تقریباًساڑھے چارہزار مریض بچوں کے علاج کیلئے رجوع کیا جاچکا ہے- وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کا کہنا ہے کہ ہر بچے کی صحت اہم ہے، زندگی بچانے کی سر توڑ کوشش کریں گے۔چلڈرن ہارٹ سرجری پروگرام میں پنجاب ہی نہیں کے پی کے سمیت دیگر صوبوں سے آنیوالوں بچوں کا بھی علاج ہوگا۔امراض قلب میں مبتلا کمسن بچوں کا سرجری کیلئے سالہا سال انتظار کی اذیت سے گزرنا بے حد تکلیف دہ تھا۔ چلڈرن ہسپتالوں میں استعداد بڑھانے کیلئے سپیشل ہارٹ سرجن اور ٹرینڈ الائیڈ سٹاف کی کمی دور کی جائے گی -کارڈیو ویسکولر ڈیزیزمیں مبتلا ہر بچے کے علاج کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔
٭٭٭٭
0 notes
Text
مثب سوچ کا زندگی میں کردار
مثبت سوچ کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ اچھی اور مثبت سوچ انسان کی ذہنی و جسمانی صحت پر بھی بہترین اثرات مرتب کرتی ہے۔ جس انسان کی سوچ جتنی مثبت ہو گی اس کی ذہنی استعداد اتنی ہی بہتر ہو گی اور جب انسان ذہنی طور پر چاق و چوبند ہوگا تو یقیناً اس کی جسمانی صحت پر بھی بہت خوشگوار اثر پڑے گا۔ صحت مند دل و دماغ ہمیشہ کامیابی کی جانب گامزن رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ’’منفی سوچ اور پاؤں کی موچ انسان کو کبھی آگے نہیں بڑھنے دیتی۔‘‘ اور یہ بات سو فیصد درست ہے۔ بےشک زندگی کے کسی بھی موڑ پر حالات کے آگے سپر ڈالنے سے، منفی سوچنے سے زندگی ایک جگہ تھم جاتی ہے جبکہ ناموافق حالات میں بھی مثبت سوچ کا حامل ش��ص ہر مشکل سے نبرد آزما ہونے کے ہنر سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور اپنی سوچوں میں مایوسی و ناامیدی کو جگہ نہ دینا ہی کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے۔ کسی بھی مقابلے میں شریک ہوتے وقت ہار کے خوف سے منفی سوچوں میں گھرے رہنا ہار کا باعث بنتا ہے۔ ہار مزید مایوس کر دیتی ہے اور یوں مایوسی سے ناامیدی جنم لیتی ہے جو سراسر گناہ ہے۔ جبکہ ہار جیت سے قطع نظر کسی بھی مقابلے کا حصہ بننا، جیت کی لگن رکھنا کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے۔
ایسے میں بالفرض انسان ہار بھی جائے تو مثبت سوچ اسے مایوسی کے اندھیروں میں نہیں دھکیلتی، ناامید نہیں کرتی بلکہ اگلی بار مزید محنت، کوشش اور جہدوجہد کا سبق دیتی ہے، جس سے آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہوتی ہے اور بالآخر جیت انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔ مثبت سوچ انسان کو کندن بنا دیتی ہے۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ میں ہمیں ہمت و حوصلے سے ہم کنار کرتی ہے۔ دکھ اور سکھ زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں لیکن صبر، برداشت اور حوصلہ ہمیں چٹان بنا دیتا ہے اور یہ صبر و تحمل ہمیں ہماری مثبت سوچ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ منفی سوچ والے کبھی دکھ درد سے نکل نہیں پاتے۔ اب یہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے کہ وہ ساری عمر دکھوں کو رونا چاہتا ہے یا ہمت و حوصلے سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ زندگی میں حاصل ہونے والی اَن گنت کامیابیاں مثبت سوچ ہی کی مرہونِ منت ہوتی ہیں۔ منفی سوچوں کا حامل شخص ہمیشہ ڈر و خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ ناکامی کا ڈر اسے دوسروں سے بدظن کر دیتا ہے۔ منفی سوچیں انسان کو ہمیشہ دوسروں کے خلاف سوچنے پر اکساتی ہیں، جن کی بدولت وہ انسان ازخود ناکامیوں سے دوچار ہوتا چلا جاتا ہے۔
مثبت سوچ ہمیں اندھیرے میں روشنی کی کرن عطا کرتی ہے۔ اچھے اور برے اعمال انسان کی اپنی سوچوں پر منحصر ہوتے ہیں۔ منفی سوچ اکثر انسانی مقاصد میں رکاوٹ بنتی ہے جبکہ مثبت سوچ ہمیشہ مقاصد کی راہ میں در آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں مدد دیتی ہے۔ مثبت سوچ عزائم پختہ کرتی ہے۔ ہمت و حوصلہ مثبت سوچ ہی فراہم کرتی ہے۔ درحقیقت مثبت سوچ انسان کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انسان کا ہر عمل اس کی سوچ کا محتاج ہوتا ہے اور ہر اچھا یا برا عمل ہی دنیا کو بتاتا ہے کہ دکھائی دینے والے شخص کی سوچیں منفی ہیں یا مثبت۔ مثبت سوچ انسان کے کردار کی آئینہ دار ہوتی ہے اور انسانی کردار کی پختگی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ مثبت سوچ خوشگوار و صحت مند زندگی کے ساتھ ساتھ کامیابیوں کی ضمانت بھی ہوتی ہے۔ ایسی سوچ کے حامل افراد نہ صرف خوش و خرم رہتے ہیں بلکہ دوسروں کےلیے بھی خوشیاں فراہم کرنے میں دریغ سے کام نہیں لیتے اور یہ تو طے ہے کہ جو دوسروں کےلیے اچھا سوچتا ہے، دوسروں کی کامیابیوں پر خوش ہونا جانتا ہے، دوسروں کو سراہنا جانتا ہے، خود اس کے لیے اللہ تعالیٰ آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔
بعض اوقات کسی بھی مایوس انسان کے لیے چند حوصلہ افزا الفاظ ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ کے مصداق نئی زندگی عطا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہ حوصلہ افزا الفاظ بھی ہم دوسرے کو تب ہی کہہ سکتے ہیں جب ہم واقعی کسی کی تکلیف کو دل سے محسوس کرتے ہوئے خود کو اس کی جگہ رکھ کر سوچیں، تب ہی مثبت سوچ پیدا ہو گی اور وہی سوچ ہم میں خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرے گی۔ یہ زندگی جو رب کی عطا ہے اور اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ یہ زندگانی چار دن کی ہے۔ نہ جانے کب کہاں کس کی زندگی کا چراغ گل ہو جائے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس چار روزہ زندگی میں اچھی اور مثبت سوچ اچھے اخلاق کو جنم دینے کا باعث بن سکتی ہے اور پھر انسان مر بھی جائے تو اس کا اخلاق اسے ہمیشہ زندہ رکھتا ہے۔
ریحانہ اعجاز
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes