#زرمبادلہ کے ذخائر
Explore tagged Tumblr posts
Text
زرمبادلہ کے ذخائر میں 1کروڑ 86لاکھ ڈالرکا اضافہ
زرمبادلہ کے سرکاری زخائر میں گزشتہ ہفتہ کے دوران 1 کروڑ 86 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا اسٹیٹ بینک کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر کے اعداد و شمار کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کردی۔ 12 جولائی تک زرمبادلہ کے سرکاری زخائر کی مجموعی مالیت 9 ارب 42 کروڑ 37 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ کمرشل بینکوں کے ذخائر میں 4 کروڑ 2 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 27 کروڑ 98 لاکھ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ زرمبادلہ…
0 notes
Text
زرمبادلہ کے ذخائر میں چار ماہ کے دوران 2 ارب ڈالر کا اضافہ
(24 نیوز)زرمبادلہ کے ملکی ذخائر میں جاری مالی سال کے آغاز سے لیکر اب تک مجموعی طورپر2.053ارب ڈالرکانمایاں اضافہ ہوا ہے۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق جاری مالی سال کے آغازپرزرمبادلہ کے ملکی ذخائر13.997ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیاتھا ۔ سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائرکاحج�� 9.390ارب ڈالر اور بینکوں کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کاحجم 4.607 ارب ڈالرتھا۔ گزشتہ ہفتہ کے اختتام پرزرمبادلہ…
0 notes
Text
عزیز ووٹر ۔۔۔ اس تحریر کو ضرور پڑھیے
اگر آپ آج ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں تو پہلے چند منٹ نکال کر اس تحریر کو پڑھ لیں۔ میں یہاں کسی امیدوار کی حمایت نہیں کررہا۔ ہم سب ایک ہی چیز چاہتے ہیں، ہمارا ملک خوشحال ہو، ہمارے حقوق کا تحفظ ہو اور ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہو۔ عزیز ووٹر، براہ کرم اس بات کو سمجھیں کہ یہ اتخابات 2007ء کے بعد سے کسی بھی الیکشن سے زیادہ اہم ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ اُس سال پاکستان نے فوجی حکمرانی سے سویلین جمہوریت کی طرف ایک انتہائی مشکل منتقلی کا آغاز کیا تھا۔ فوجی حکمرانی کے دور کے اثرات سخت تھے، ادھار کے ڈالروں سے مصنوعی طور پر کھڑی کی جانے والی معیشت واپس نیچے آرہی تھی، آمر کی طرف سے سپریم کورٹ کو محدود کرنے کی کوشش سے عدلیہ مجروح تھی، لال مسجد کے واقعے کے بعد دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا تھا، میدان جنگ میں طالبان کی کامیابیوں کے ساتھ امریکا سے تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے تھے، بینظیر بھٹو کا قتل اور بہت کچھ۔ منتقلی کے اس سفر کو انجام دینا تقریباً ناممکن تھا۔ اس میں معیشت کو مستحکم کرنے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تیز کرنے اور ملک میں اپنی گہری جڑیں رکھنے والے جہادی گروہوں کے غضب کو دعوت دینے اور وکلا کی تحریک کو سنبھالنے کی سیاسی قیمت کو برداشت کرنا شامل تھا۔
یقیناً یہ مکمل فہرست نہیں ہے۔ یہ صرف ایک یاد دہانی ہے کہ معاملات ایسے ادوار میں انتہائی پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب ملک کو فوجی حکمرانی سے سویلین جمہوریت کی طرف منتقل ہونا پڑتا ہے۔ موجودہ لمحہ شاید فوجی حکمرانی سے جمہوری حکمرانی کی طرف منتقلی جیسا نہیں ہے۔ لیکن اس میں منتقلی کے کچھ عناصر شامل ہیں جو اُن لمحات سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ مثال کے طور پر، غور کریں کہ ملک 2017ء سے ہائبرڈ حکومتوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، اس سال کے بعد سے ہر ایک ہائبرڈ تجربہ قلیل المدتی تھا، یعنی اسے ضرورت کی وجہ سے چلایا جارہا تھا اور بنیادی طور پر اس کی بقا کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ 2017ء کے ہر ہائبرڈ تجربے کی اپنی منفرد ساخت تھی۔ مثال کے طور پر عدالتوں کی جانب سے نواز شریف کو نااہل کرنے کے بعد 2017ء میں شاہد خاقان عباسی کی زیر قیادت حکومت حکمران جماعت کی باقیات میں سے چنی گئی قیادت پر مشتمل تھی۔ اگلی حکومت ایک نئی سیاسی جماعت کی تھی جس نے پہلے کبھی ملک پر حکومت نہیں کی تھی، یہ حکومت عمران خان کی زیر قیادت تھی۔
اس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت آئی جس کی قیادت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے ایک غیر متوقع اتحاد کے ذریعے کی گئی تھی، یہ عمران خان کی مخالفت کرنے یا ملک بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، اس کا انحصار آپ کے سیاسی نظریے پر ہے۔ پی ڈی ایم کے بعد نگران حکومت آئی جسے ہم ووٹر آج گھر بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہائبرڈ حکومتوں کے ان نہ ختم ہونے والے سات طویل سالوں نے معیشت پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ انہی سات سالوں میں ملکی تاریخ کے کسی بھی دوسرے سات سالہ دور کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر میں اب تک کا سب سے بڑا نقصان دیکھا گیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں 2017ء کے موسم گرما سے 2023ء کے موسم گرما تک، تقریباً تین گنا اضافہ ہوا جس کے بعد آخر کار اس میں کچھ کمی آئی لیکن اس کمی کو یہ 2024ء کے موسم گرما تک دوبارہ پورا کرسکتا ہے۔ ان برسوں نے ملک میں مہنگائی کے سب سے زیادہ خوفناک دور کو بھی دیکھا 2021ء سے شروع ہونے والی مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا جو ہماری تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے، ایسا لگ رہا تھا کہ ہم اپنا گزارا کرنے کے لیے جس رقم پر انحصار کرتے ہیں اس کی قدر ہماری آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہی تھی۔
میں اس بحث کو دوبارہ نہیں چھیڑنا چاہتا کہ اس کا ذمہ دار کون تھا اور مہنگائی اور ر��پے کی قدر میں کمی کے محرکات کیا تھے۔ میں ان معاملات کے بارے میں پہلے ہی کافی لکھ چکا ہوں۔ آج کے لیے صرف اس بات پر زور دینا کافی ہے کہ یہ دونوں مظاہر آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ ایک کے بعد ایک ہائبرڈ حکومتوں کے سات سال مہنگائی میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ درآمدی پابندیوں میں شدت آنے اور زرمبادلہ کے قلیل ذخائر کے انتظام کی کوششوں اور اس کے نتیجے میں ترقی کے زوال اور بےروزگاری میں اضافے کا باعث بنے۔ یہ چیزیں ایک دوسرے سے منسلک نہیں بلکہ ایک ہی سکے کو دو رخ ہیں۔ ہمیں اسی چیز کو آج نکال باہر کرنا ہے۔ آج فوجی حکومت کو نہیں بلکہ ہائبرڈ حکومتوں کا سلسلہ ختم کرنے کا دن ہے۔ آج جس حکومت کو آپ اور میں مل کر وجود میں لانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں، اس کے پاس اس ہائبرڈ دور سے باہر نکلے کا ایجنڈا ہو گا۔ اس حکومت کو بھی ایک مہنگائی زدہ معیشت ملے گی جوکہ شاید کم تو ہو جائے لیکن یہ تلوار پھر بھی لٹکی رہے گی۔ ایک بار پھر اس حکومت کو بڑھتی دہشتگردی اور یکے بعد دیگرے ہائبرڈ دور کے سیاسی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آنے والی حکومت کے پاس مبہم مینڈیٹ نہیں ہونا چاہیے۔ اس حکومت کے سامنے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ معاشی محاذ پر کن اقدامات کی ضرورت ہے چاہے ان کے لیے حکومت کو انتخابی مہم کے کچھ وعدوں کو ایک طرف رکھنا پڑے۔ اسے اپنے ماضی کا یرغمال نہیں بننا چاہیے اور اور بدلے لینے کے کھیل میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اسے جمہوری اصولوں اور طریقہ کار کا احترام کرنا سیکھنا اور اپنی مثال سے دوسروں کو سکھانا چاہیے۔ جمہوریت کے اس گھر کو آہستہ آہستہ دوبارہ تعمیر کرنا چاہیے جو ان دنوں تقسیم اور نفرت کی آگ سے جل رہا ہے۔ نئی حکومت کو آئین کو دوبارہ پڑھنا چاہیے اور قانون کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ آدھی رات کو پی ٹی آئی کے کارکنوں اور امیدواروں اور دیگر افراد کا اغوا بند ہونا چاہیے۔ جبری گمشدگیاں ختم ہونی چاہئیں۔ مفاہمت کی سیاست کو چلنے دینا چاہیے۔ بدلہ لینے کی خواہش پر جمہوریت پر یقین کو ترجیح ملنی چاہیے۔ آیئے، میرے ساتھ آپ بھی اپنے ملک کے لیے ایک نئی شروعات کی خواہش میں اس لائن میں کھڑے ہوں۔ آئیے مل کر اپنا راستہ تلاش کرنے کا عزم کریں۔ اپنے اختلافات کو نہ ختم ہونے والی نفرتیں نہ بننے دیں۔ جمہوریت کو موقع دیں کہ وہ خود بھی ٹھیک ہو اور ہمارے لیے بھی بہتری کے راستے نکلیں۔ پیارے ووٹر، یہی آپ کے لیے اور اپنے لیے میری دعا ہے۔
خرم حسین
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
پاکستان کی معاشی سمت درست،زرعی شعبہ قدرے بہتر، صنعت مشکلات کا شکار ہے، آئی ایم ایف
آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی صورتحال کے بارے میں رپورٹ جاری کی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہورہی ہے، پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ حکومتی زرمبادلہ ذخائر 4.5 سے بڑھ کر 8.2ارب ڈالر ہوگئے،جولائی 2023سے پاکستانی معیشت کی سمت درست ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اکستان نے معاشی بہتری کیلئے جولائی تاستمبر تمام اہداف حاصل کئے،پاکستان میں توانائی کی…
View On WordPress
0 notes
Text
زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری اضافہ کیسے؟
پاکستان کو اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا ہے اس کی بڑی وجہ ملکی خزانے میں ڈالرز کی قلت ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے ڈالر کی ا سمگلنگ کو روکنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ اور بینکوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے۔ تاہم اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جن لوگوں نے معاشی غیر یقینی کی وجہ سے ڈالر خرید کر اپنے پاس جمع کئے ہوئے ہیں انہیں یہ ڈالر بینکوں میں جمع کروانے پر راغب کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں حکومت کو شہریوں سے اپیل کرنی چاہئے کہ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے جو شہری ڈالر اپنے پاس رکھنے کی بجائے بینکوں میں جمع کروائیں گے انہیں اور ان کے سرمائے کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ یقین دہانی بھی کروائی جائے کہ جب بھی انہیں اپنے جمع کروائے گئے ڈالرز کی ضرورت ہو گی وہ انہیں فراہم کئے جائیں گے۔ برٹش پاؤنڈز، یورو، سعودی ریال اور اماراتی درہم سمیت دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے حوالے سے بھی پالیسی متعارف کروائی جا سکتی ہے۔ اس طرح قومی خزانے یا زرمبادلہ کے ذخائر میں فوری نمایاں اضافہ ہو جائے گا اور پاکستان کو غیر ملکی مالیاتی اداروں اور درآمدات کے حوالے سے ادائیگیوں میں درپیش مالیاتی دباؤ سے نجات مل جائے گی۔
اس سلسلے میں بینکوں کی جانب سے شہریوں کو غیر ملکی کرنسی میں اکاؤنٹ کھلوانے کے لئے نرم شرائط پر ترجیحی سروسز فراہم کرنی چاہئے۔ اس سلسلے میں حکومت کو فوری پالیسی بنا کر اس کا اعلان کرنا چاہئے کہ آئندہ دس دن یا ایک مہینے کے اندر اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے شہریوں سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی کہ ان کے پاس یہ ڈالرز یا غیر ملکی کرنسی کب اور کہاں سے آئی ہے بلکہ انہیں مکمل قانونی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے یہ پالیسی بھی بنائی جا سکتی ہے کہ کوئی شہری کتنی مالیت کی غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھ سکتا ہے تاکہ مقررہ مالیت سے زیادہ غیر ملکی کرنسی اپنے پاس رکھنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔ اس سلسلے میں کم از کم پانچ ہزار ڈالرز یا اس کے مساوی غیر ملکی کرنسی کی حد مقرر کی جا سکتی ہے کہ کوئی بھی شہری اپنی فوری ضرورت کیلئے اتنا فارن ایکسچینج اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس سے تسلسل کے ساتھ بیرون ملک سفر کرنے والے ایکسپورٹرز، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے والدین یا علاج کے لئے بیرون ملک جانے والے شہریوں کے اہلخانہ کو اپنی فوری ضرورت کے پیش نظر درکار غیر ملکی کرنسی مقررہ حد کے مطابق اپنے پاس رکھنے کا قانونی استحقاق حاصل ہو جائے گا اور حکومت کے پاس جمع زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی کوئی بڑا دباؤ نہیں پڑے گا۔ علاوہ ازیں اس اقدام سے فاریکس مارکیٹ میں جاری سٹے بازی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں آنے والے غیر معمولی اتار چڑھاؤ کا بھی تدارک کیا جا سکے گا۔
اس طرح نہ عالمی سطح پر پاکستان کی مالیاتی ساکھ میں بہتری آئے گی، شہریوں کےبھی حکومت پراعتماد میں اضافہ ہو گا اور وہ بوقت ضرورت باآسانی بینکوں سے ڈالرز یا دیگر غیر ملکی کرنسی حاصل کر سکیں گے۔ یہ اقدام ملک میں مالیاتی نظم ونسق کو بہتر بنانے میں بھی معاون ہو گا اور لوگوں کو غیر ملکی کرنسی کیش میں بیرون ملک لیجانے یا بھیجنے سے نجات مل جائے گی اور وہ بینکنگ چینل کے ذریعے غیر ملکی کرنسی بیرون ملک بھجوا سکیں گے۔ اگر ملک کے مفاد میں وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو اس ایک اقدام سے ہی ملک کے بہت سے مسائل میں بہتری آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آنے سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہو گی جس سے پاکستان کو بیرون ملک سے خام مال اور دیگر اشیائے ضرورت درآمد کرنے پر کم زرمبادلہ خرچ کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ صرف ملک میں جاری مہنگائی کی بلند شرح کو نیچے لایا جا سکتا ہے بلکہ پاکستانی ایکسپورٹرز کو بھی برآمدات میں اضافے کے لئے سازگار ماحول میسر آئے گا اور وہ اپنی مصنوعات کی قیمت کم کرکے عالمی منڈی سے زیادہ برآمدی آرڈرز حاصل کر سکیں گے۔ علاوہ ازیں ڈالر کی قدر میں کمی سے پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی جس سے عام آدمی کو ریلیف میسر آئے گا اور انڈسٹری کی پیداواری لاگت میں بھی کمی آئے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو مارک اپ کی شرح کو بھی سنگل ڈیجٹ پر واپس لانے کے لئے سنجید ہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ارباب اقتدار کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ 24 فیصد کی بلند ترین شرح سود کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک میں انڈسٹری نہیں چلائی جا سکتی ہے بلکہ ایسے حالات میں دنیا کے بڑے سے بڑے ادارے بھی دیوالیہ ہو جاتے ہیں جس سے جہاں عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے وہیں معاشی سرگرمیوں کو بھی بحال ہونے میں لمبا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ مارک اپ کی شرح کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر واپس لانے کے لئے روڈ میپ کا اعلان کیا جائے تاکہ انڈسٹری کا اعتماد بحال ہو اور پاکستان سے جاری سرمائے کے انخلا کو روک کر مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں مزید سرمایہ کاری پر راغب کیا جا سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مارک اپ میں اضافے کو عمومی طور پر افراط زر میں کمی کے لئے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ پانچ سال کے تجربے نے یہ ثابت کیا ہے کہ مارک اپ میں اضافے کی پالیسی نے ملک کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔
چوہدری سلامت علی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
ڈالر کے انٹربینک نرخ 286 روپے سے تجاوز کرگئے
کراچی: ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، انٹربینک ریٹ 286روپے سے تجاوز کرگئے جبکہ اوپن ریٹ 291روپے کی سطح پر آگئے۔ چین کی 2ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈول کرنے پر رضامندی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے باوجود جمعہ کو بھی معمولی اتار چڑھاؤ کے بعد ڈالر کی پیش قدمی جاری رہی جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ 286روپے سے بھی تجاوز کرگئے جبکہ اوپن ریٹ 291روپے کی سطح پر آگئے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری…
View On WordPress
0 notes
Text
وطن کی فکر کر ناداں
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے پاکستان کے اقتصادی بحران پر ایک چشم کشا تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے جو ارباب بست و کشاد ہی نہیں پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں یہ رپورٹ اور بھی سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے کہ ایک طرف ملک کا معاشی سفینہ منجدھار کے بیچ ہچکولے کھا رہا ہے تو دوسری طرف کشتی بان اشرافیہ اقتدار کی کرسی کیلئے دست و گریبان ہے اور سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہے حکومتی عہدوں پر متمکن ایک سیاسی مکتبہ فکر حالات کو اپنے فہم کے مطابق سدھارنے کیلئے قرضے پہ قرضے لے رہا ہے تو اپوزیشن کی سوچ اور کوشش ہے کہ سفینہ کل کا ڈوبتا بے شک آج ڈوب جائے مگر اسے اقتدار مل جائے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ جب سفینہ ہی خدانخواستہ ثابت و سالم نہ رہا تو اقتدار کس کام کا؟ وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ سیاست کو عارضی طور پر ہی موقوف کر کے ملک اور اس کی اقتصادیات کو بچانے کیلئے کسی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کی صورت پیدا کی جائے مگر نہیں، اس حوالے سے مثبت سوچ کسی کے قریب سے گزر کر نہیں جاتی۔
سب اپنے اپنے مفادات کے پنجرے میں بند ہیں اور ایک دوسرے سے اپنے مطلب کی شرائط منوائے بغیر بات تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔ غیر ملکی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ڈالر کی شکل میں زرمبادلہ کے ذخائر خشک ہونے سے ملکی اقتصادیات کا پہیہ جام ہو رہا ہے۔ ضروری اشیائے خوردو نوش، پیداواری عمل کیلئے لازمی خام مال اور طبی آلات سے بھرے کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر رکے ہوئے ہیں کیونکہ زرمبادلہ کے بحران کے باعث مال چھڑانے کیلئے ادائیگیوں کی غرض سے ڈالر دستیاب نہیں۔ ڈالرز کی قلت کے سبب بنک درآمد کنندگان کیلئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کھولنے کیلئے تیار نہیں، اس سے ملکی اقتصادیات پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ملکی معیشت کو پہلے ہی افراط زر اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جکڑ رکھا ہے۔ شرح نمو انتہائی مایوس کن ہے۔ اسٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب سے بھی کم ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ اگلے تین ماہ 8 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں باقی ہیں صرف ایک ماہ کی درآمدات کیلئے زرمبادلہ رہ گیا ہے۔ غیرملکی قرضوں کا بوجھ 274 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے۔
ایسے میں آئی ایم ایف اور قرض دینے والوں کا مطالبہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی ختم کی جائے۔ اور تو اور زندگی کی بنیادی ضرورت آٹا بھی اتنا مہنگا اور نایاب ہو گیا ہے کہ ایک بیگ لینے کیلئے بھی لوگوں کو گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس اقتصادی زبوں حالی کی بنیادی وجہ سیاسی بحران اور بے یقینی ہے۔ روپے کی قدر مسلسل گھٹتی اور مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ تباہ کن سیلاب اور توانائی بحران نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دودھ، چینی اور دالوں سمیت ضروریات زندگی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ دوست ممالک اپنی اپنی بساط کے مطابق فراغ دلانہ مدد کر رہے ہیں مگر بحران ختم ہونے کے آثار پھر بھی دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت کو یقین ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا جبکہ اپوزیشن کی خواہش ہی نہیں کوشش بھی ہے کہ ملک سری لنکا بن جائے تاکہ وہ حکومت کو رگڑا دے سکے روس سے سستی پٹرولیم مصنوعات خریدنے کیلئے معاہدے پر بات چیت ہو رہی ہے مگر سیاسی عدم استحکام، پالیسیوں میں عدم تسلسل، پیداواری شرح نمو میں تقریباً تین گنا کمی اور نجی شعبے میں پائی جانے والی بے چینی کے سبب روس بھی تذبذب کا شکار نظر آتا ہے کہ معاہدہ کرے یا نہ کرے۔ اوپر سے امریکہ کا دبائو بھی پیش نظر ہے۔ یہ صورتحال سیاسی قیادت سے تقاضا کر رہی ہے کہ اقتدار کی خواہش بجا، مگر اسے ملکی مفاد کے تابع بنائیں۔ آخری فتح اس کی ہو گی جو ملک و ملت کیلئے سوچے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
آئی ایم ایف کی 1998 جیسی سخت شرائط
آئی ایم ایف کی اضافی شرائط اور پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس بار پاکستان کو آئی ایم ایف کی 1998 ء جیسی سخت شرائط کا سامنا ہے، جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اور معاشی مشکلات کے باعث پاکستان کو 400 ملین ڈالر کے مالیاتی فرق کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا جس پر 1999 میں آئی ایم ایف نے پروگرام بحالی کیلئے 24 سخت شرائط رکھیں جنہیں پاکستان نے پورا کیا۔ اس بار بھی ہمیں معاہدے کی بحالی میں آئی ایم ایف کا رویہ سخت نظر آرہا ہے جس نے شرائط پر عمل کرنا نہایت مشکل بنا دیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے پہلے ہی تمام شرائط مان لی ہیں اور پارلیمنٹ سے اضافی ریونیو کیلئے 170 ارب روپے کا منی بجٹ بھی منظور کرا لیا ہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے افراط زر پر قابو پانے کیلئے اپنے ڈسکائونٹ ریٹ میں 3 فیصد اضافہ کر کے 20 فیصد کر دیا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف نے 4 پیشگی اقدامات کی اضافی شرائط رکھی ہیں جن میں گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کیلئے تمام صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 3.82 روپے فی یونٹ چارج لگایا جانا، مارکیٹ کی بنیاد پر روپے کو فری فلوٹ رکھنا جس میں حکومت کی کوئی دخل اندازی نہ ہو اور بیرونی ادائیگیوں میں 7 ارب ڈالر کی کمی کو پورا کرنے کیلئے دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹس یا رول اوور کی ضمانت حاصل کرنا شامل ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستانی روپے کے ایکسچینج ریٹ کو افغان بارڈر ریٹ سے منسلک کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جو پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا باعث ہو گا کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین ڈالر ریٹ میں تقریباً 20 روپے کا فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 2 ارب ڈالر پاکستان سے افغانستان اسمگل ہوتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف معاہدہ جون 2023 میں ختم ہو جائے گا لہٰذا بجلی کے بلوں میں مستقل بنیادوں پر سرچارج لگانا مناسب نہیں۔ حکومت اور آئی ایم ایف کی بیرونی ادائیگیوں کے بارے میں بھی اختلاف ہے۔ حکومت کے مطابق ہمیں 5 ارب ڈالر جبکہ آئی ایم ایف کے حساب سے 7 ارب ڈالر کمی کا سامنا ہے۔ چین کی طرف سے پاکستان کو پہلے ہی 700 ملین ڈالر مل چکے ہیں اور 1.3 ارب ڈالر کی 3 قسطیں جلد ملنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر، UAE سے 1 ارب ڈالر، ورلڈ بینک اور ایشین انفرااسٹرکچر بینک کے 950 ملین ڈالر کے اضافی ڈپازٹس ملنے کی توقع ہے جس سے جون 2023 تک پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر موجودہ 4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 10 ارب ڈالر ہو جائیں گے جو آئی ایم ایف کی شرط کو پورا کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کا پاکستان اور دیگر ممالک کو قرضے دینا احسان نہیں بلکہ یہ آئی ایم ایف کے ممبر ممالک کا حق ہے کہ مالی مشکلات کے وقت آئی ایم ایف ان کی مدد کرے۔ آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے والے ممالک میں ارجنٹائن 150 ارب ڈالر قرضے کے ساتھ سرفہرست ہے جس کے بعد مصر 45 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے، ایکواڈور 40 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے، یوکرین 20 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے جس کے بعد پاکستان، لاطینی امریکی ممالک اور کولمبیا آتے ہیں۔ پاکستان اب تک آئی ایم ایف کے ساتھ مجموعی 23.6 ارب ڈالر کے 22 سے زائد معاہدے کر چکا ہے لیکن ان سے صرف 14.8 ارب ڈالر کی رقم حاصل کی ہے اور باقی پروگرام مکمل ہوئے بغیر ختم ہو گئے۔ آئی ایم ایف کا موجودہ 6.5 ارب ڈالر کا توسیعی فنڈ پروگرام 2019 میں سائن کیا گیا تھا جس کو بڑھا کر 7.5 ارب ڈالر تک کر دیا گیا جو جون 2023 میں ختم ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کے حالیہ نویں جائزے کی شرائط مکمل کرنے کے بعد پاکستان کو1.1 ارب ڈالر کی قسط ملے گی۔
حکومت کے آئی ایم ایف شرائط ماننے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آنے کے علاوہ بیرونی ممالک سے بھی شکایتیں اور دبائو بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں جرمنی کے سفیر الفریڈ گرناس نے وفاقی وزیر معاشی امور سردار ایاز صادق سے اسٹیٹ بینک کی جرمنی سے مرسڈیز، BMW اور Audi الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ اور بینکوں کے LC کھولنے پر پابندی پر اعتراض کیا ہے کہ یہ WTO معاہدے، جس کا پاکستان ممبر ملک اور دستخط کنندہ ہے، کے خلاف ہے لہٰذا جرمنی سے الیکٹرک گاڑیوں کی امپورٹ کی فوری اجازت دی جائے بصورت دیگر جرمنی، پاکستان کے یورپی یونین کے ساتھ GSP پلس ڈیوٹی فری معاہدے، جو 31 دسمبر 2023 کو ختم ہو رہا ہے، کی مزید 10 سال تجدید کیلئے پاکستان کو سپورٹ نہیں کرے گا اور اس پابندی سے پاکستان اور جرمنی کے تجارتی تعلقات پر اثر پڑے گا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی ایئر لائنز کی 225 ملین ڈالرکی ترسیلات زر نہ ہونے کے باعث غیر ملکی ایئر لائنز نے پاکستان کیلئے سخت پالیسیاں اور ٹکٹ مہنگے کر دیئے ہیں جس میں حکومت کی حج زائرین کیلئے ڈالر کی فراہمی پر بھی نئی پابندیاں شامل ہیں۔
پاکستان ان شاء اللہ ڈیفالٹ نہیں ہو گا لیکن بے شمار قارئین نے مجھ سے ڈیفالٹ کے ملکی معیشت پر اثرات کے بارے میں پوچھا ہے۔ آسان الفاظ میں ایک خود مختار ملک کے واجب الادا قرضوں اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کی ادائیگی میں ناکامی کو ’’ساورن ڈیفالٹ‘‘ کہا جاتا ہے جس کا حکومت رسمی اعلان کر سکتی ہے جیسے سری لنکا نے کیا یا پھر حکومت ان قرضوں کو ری اسٹرکچر یا ادائیگی میں تاخیر کی درخواست کرتی ہے جو تکنیکی اعتبار سے ڈیفالٹ ہی کہلاتا ہے۔ اس صورت میں مقامی کرنسی کی قدر کافی حد تک گر جاتی ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں اُس ملک کی ریٹنگ کم کر دیتی ہیں جس سے ملک کے بینکوں کا بین الاقوامی مارکیٹ میں تجارت کرنا مشکل ہو جاتا ہے، شرح سود میں اضافہ اور سپلائرز LCs پر غیر ملکی بینکوں کی کنفرمیشن مانگتے ہیں جس سے LCs اور امپورٹ کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNCTD نے پاکستان کو دنیا کے اُن 5 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ناقابل برداشت دبائو ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، مصر، کولمبیا اور انگولا شامل ہیں۔ ایسی صورتحال میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپیل کی ہے کہ پاکستان کی موجودہ مالی مشکلات کا سبب کچھ ترقی یافتہ ممالک کی معاشی پالیسیاں ہیں، امیر ممالک کو چاہئے کہ وہ پاکستان کی مدد کریں جس کیلئے میرے نزدیک ملک میں سیاسی استحکام اشد ضروری ہے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
معیشت کا گلا گھونٹ دیا گیا
بین الاقوامی کریڈٹ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ مزید کم کر دی ہے۔ موڈیز نے گزشتہ چار ماہ کے دوران پاکستان کی ریٹنگ میں دوسری مرتبہ کمی کی ہے۔ آئی ایم ایف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ نت نئی شرائط رکھ رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امریکی نائب وزیر خزانہ سے ورچوئل رابطہ کر کے انھیں تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا اور آئی ایم ایف کو قائل کرنے کے لیے مدد کی درخواست کی تھی۔ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایکسچینج ریٹ شرح سود بیرونی فنانسنگ کے اہداف اور بجلی بلوں پر فی یونٹ ڈیبٹ سروسنگ سرچارجز عائد کرنے کے معاملات پر اختلافات برقرار ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ وزارت خزانہ نے بیرونی فنانسنگ کا ہدف 5 ارب ڈالر مقرر کیا تھا جسے آئی ایم ایف نے بڑھا کر 7 ارب ڈالر کرنے کی درخواست کی ہے۔ آئی ایم ایف نے اس سال کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف 8.2 ارب ڈالر مقرر کر رکھا ہے حالانکہ موجودہ مالی سال کے سات ماہ کے دوران یہ خسارہ صرف 3.7 ارب ڈالر رہا ہے۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف اپنے موقف میں نرمی پیدا کرے تو وہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک ارب ڈالر تک بھی لا سکتی ہے کیونکہ حکومت کو امید ہے کہ جون تک وہ سات ارب ڈالر اکھٹے کر لے گی اور جون تک زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 10 ارب ڈالر تک بڑھ جائیں گے۔
لیکن آئی ایم ایف ابھی تک بیرونی فنانسنگ کے معاملے میں پاکستان کی بات نہیں مان رہا۔ حالانکہ اسے یقین دلایا گیا ہے کہ پاکستان کو 2 ارب ڈالر سعودی عرب اور ایک ارب ڈالر متحدہ عرب امارات سے مل جائیں گے۔ حکومت پاکستان کو امید ہے کہ سرکاری اثاثوں کی فروخت کی مد میں بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مزید 2 ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ پاکستان کو چین کی طرف سے 70 کروڑ ڈالر مل چکے ہیں۔ ایک ارب 30 کروڑ مزید تین قسطوں میں ملنے والے ہیں حکومت پاکستان کے ذرایع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر روپے کا ایکسچینج ریٹ مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اتنا بڑا اضافہ ہوا ہے جس کی پاکستان کی پوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ حالانکہ ابھی پچھلے ماہ ڈالر کی قدر 230 روپے تک تھی لیکن آئی ایم ایف اب بھی کہہ رہا ہے کہ حکومت ڈالر شرح مبادلہ میں مداخلت کر رہی ہے۔ عالمی ادارہ چاہتا ہے کہ روپے کی شرح مبادلہ ڈالر کو گرے مارکیٹ کے برابر کیا جائے جو کہ درست بات نہیں ہے۔
اندازہ لگائیں ہماری مجبوری اور بے بسی کا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں شامل ذرایع کے بقول عالمی ادارے کو بڑا سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن اسے سمجھ ہی نہیں آرہی۔ وز��رت خزانہ کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں تنزلی اور بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اگلے مہینوں کے دوران مہنگائی اپنی انتہائی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی۔ وزارت خزانہ ذرایع کے مطابق پاکستان کے حوالے سے آئی ایم ایف کا رویہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امریکی نائب وزیر خزانہ کے ساتھ ورچوئل اجلاس میں انھیں یقین دلایا ہے کہ پاکستان نے ماضی میں آئی ایم ایف کے پروگرام مکمل کیے ہیں اور آیندہ بھی کامیابی سے مکمل کرے گا۔ اس بات چیت میں امریکی نائب وزیر خزانہ نے حکومت پاکستان کی مالیاتی اور اقتصادی پالسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ یہ ہے پاکستانی تاریخ کی بد ترین معاشی صورتحال کی درد ناک داستان۔ حالیہ شرح سود میں تین فیصد اضافہ اور ڈالر کا بلند ترین سطح تک پہنچنا معیشت کا گلا گھونٹ دے گا۔
زمرد نقوی
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
ڈالر کے اوپن مارکیٹ ریٹ میں 1 روپے کی کمی
کراچی: سعودی عرب کی دو ارب ڈالر اور عالمی بینک کی 450 ملین ڈالر کی فنانسنگ سے روپیہ کو سہارا مل گیا جبکہ ڈالر دوبارہ بیک فٹ پر چلا گیا۔ دوست ممالک اور عالمی مالیاتی ادروں کی سپورٹ سے جون 2023 کے اختتام تک زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 10ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید اور…ڈالر کے اوپن مارکیٹ ریٹ میں 1 روپے کی کمی
View On WordPress
0 notes
Text
زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کی تجاویز کا جائزہ شروع
http://dlvr.it/SlsHGF
0 notes
Text
زرمبادلہ کے ذخائر میں 1کروڑ56لاکھ ڈالر اضافہ
ایک ہفتے کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر میں 1کروڑ56لاکھ ڈالر کااضافہ ہوا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر کے اعداد و شمار کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کردی۔زرمبادلہ کے سرکاری زخائر میں گزشتہ ہفتہ کے دوران 1 کروڑ 56 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ 5 جولائی تک زرمبادلہ کے سرکاری زخائر کی مجموعی مالیت 9 ارب 38 کروڑ 95 لاکھ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ کمرشل بینکوں کے ذخائر میں 5 کروڑ 61 لاکھ ڈالر کا اضافہ…
0 notes
Text
سٹیٹ بینک کے ذخائر میں اضافہ کمرشل بینکوں کے کتنے کم ہو گئے؟پریشان کن خبر آ گئی
(اشرف خان)ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 11.8کروڑ ڈالر کمی سے 15.93ارب ڈالر پر آ گئے۔ مرکزی بینک کے مطابق سٹیٹ بینک کے ذخائر میں 1 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ،سٹیٹ بینک کے ذخائر یکم اپریل 22 کی بلند سطح 11 ارب 17 کروڑ 46لاکھ ڈالر ہوگئےجبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر 13.70 کروڑ ڈالر کمی سے 4ارب 75 کروڑ 72 ڈالر رہ گئے ،سٹیٹ بینک کے مطابق ملکی مجموعی ذخائر 11.8 کروڑ ڈالر کمی سے 15.93 ارب ڈالر پر آگئے…
0 notes
Text
عراق نے یکم جنوری سے بینکوں سے امریکی ڈالر میں نقد رقم نکلوانے پر پابندی کا اعلان کردیا
عراقی مرکزی بینک نے کہا ہے کہ زرمبادلہ ذخائر کے غلط استعمال اور ایران پر امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے تازہ ترین دباؤ میں عراق یکم جنوری 2024 سے امریکی ڈالر میں نقد رقم نکالنے اور لین دین پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ عراقی مرکزی بینک (سی بی آئی) میں سرمایہ کاری اور ترسیلات کے ڈائریکٹر جنرل مازن احمد نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد 10 بلین ڈالر میں سے تقریباً 50 فیصد کے غیر قانونی استعمال کو روکنا ہے…
View On WordPress
0 notes
Text
کون سے ترقی پذیر ممالک قرضوں کے مسائل کی گرفت میں ہیں؟
آئندہ ماہ انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں ہونے والے جی20 سربراہی اجلاس کے دوران متعدد ترقی پذیر ممالک کو درپیش قرضوں کے مسلسل اور نقصان دہ مسائل اہم موضوع ہوں گے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان سمیت کئی ممالک اس وقت قرضوں کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
پاکستان پاکستان کو مالی سال 2024 کے لیے بیرونی قرضوں اور دیگر بلز کی ادائیگی کے لیے 22 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نگران حکومت قائم ہے جو آئین کے مطابق 90 دنوں میں انتخابات کرانے کی ذمہ دار ہے۔ پاکستان میں افراط زر اور شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ملک 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد سے تعمیر نو کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جون میں آخری وقت پر تین ارب ڈالر کا بیل آؤٹ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بالترتیب دو ارب ڈالر اور ایک ارب ڈالر پاکستان کے مرکزی بینک میں جمع کروائے ہیں۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جو کم ہو کر 3.5 ارب ڈالر رہ گئے تھے وہ اگست کے آخر تک بڑھ کر 7.8 ارب ڈالر ہو گئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس انتخابات کروانے کے وسائل موجود ہیں لیکن اس بارے میں بڑے سوالات موجود ہیں کہ وہ بڑی امداد کے بغیر کب تک ڈیفالٹ سے بچ سکے گا؟
زیمبیا زیمبیا پہلا افریقی ملک تھا جس نے کووڈ 19 کے وبائی مرض کے دوران ڈیفالٹ کیا۔ حالیہ مہینوں میں طویل عرصے سے انتظار کے بعد ہونے والی پیش رفت کے بعد بالآخر بحالی کے منصوبے پر کام کرنا شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جون میں زیمبیا نے قرضے دینے والے ملکوں کے گروپ ’پیرس کلب‘ اور چین کے ساتھ 6.3 ارب ڈالر کے قرضے کا معاہدہ کیا۔ تفصیلات پر ابھی کام کیا جا رہا ہے لیکن حکومت کو یہ بھی امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں بین الاقوامی فنڈز کے ساتھ معاہدے کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جن کے پاس اس کے غیر ادا شدہ بانڈز موجود ہیں۔
سری لنکا سری لنکا نے جون کے آخر میں قرضوں کی ادائیگی کے منصوبے کا اعلان کیا اور اس کے بعد سے پیش رفت جاری ہے لیکن ہر شعبے میں ایسا نہیں ہے۔ سری لنکا ڈویلپمنٹ بانڈز (ایس ایل ڈی بی۔ امریکی ڈالرمیں جاری کیے گئے بانڈز) کے تقریباً تمام مالکوں نے سری لنکن روپے میں پانچ نئے بانڈز کے بدلے ان بانڈز کے تبادلے یا تجارت پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ان نئے بانڈز کو مختلف اوقات میں واپس کرنا ہو گا۔ یہ بانڈ 2023 سے 2025 کے درمیان مچور ہو جائیں گے۔ داخلی قرضوں کے منصوبے کے ایک اور حصے کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم ٹریژری بانڈز کے تبادلے کی اہم ڈیڈ لائن تین بار تاخیر کا شکار ہوئی اور اب 11 ستمبر کو مقرر کی گئی ہے۔ سری لنکا کے مرکزی بینک کے سربراہ نندا لال ویرا سنگھے نے کہا ہے کہ انڈیا اور چین جیسے سری لنکا کے بڑے غیر ملکی قرض دہندگان بات چیت جاری رکھنے سے پہلے داخلی قرضوں کا معاملہ ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات 14 سے 27 ستمبر تک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے 2.9 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کے پہلے جائزے کے موقعے پر ہوں گے۔ اس وقت تک ملکی قرضوں کا معاملہ نمٹانے میں ناکامی کے نتیجے میں آئی ایم ایف کی طرف سے ادائیگیوں اور قرض دہندگان کے ساتھ بات چیت دونوں میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ گھانا گھانا نے گذشتہ سال کے آخر میں اپنے زیادہ تر بیرونی قرضوں کی ادائیگی نہیں کی۔ یہ چوتھا ملک ہے جس نے مشترکہ فریم ورک کے تحت دوبارہ کام کرنے کی کوشش کی اور اگلے تین سال میں بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگیوں میں 10.5 ارب ڈالر کی کمی لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ گھانا کی پیش رفت زیمبیا جیسے ممالک کے مقابلے میں نسبتا تیز رہی ہے۔ حکومت نے حال ہی میں پنشن فنڈ کے قرضوں کے تبادلے کے آپریشن اور ڈالر بانڈز کے تبادلے کے ذریعے اپنے داخلی قرضوں میں سے تقریباً چار ارب ڈالر کے قرضے نمٹانے پر اتفاق کیا ہے۔ تیونس یہ شمالی افریقی ملک جو 2011 کے انقلاب کے بعد سے متعدد مسائل کا سامنا کر رہا ہے اب اسے ایک مکمل معاشی بحران کا سامنا ہے۔ زیادہ تر قرضے داخلی ہیں لیکن غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اس سال کے آخر میں ہونی ہے اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے کہا ہے کہ تیونس ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ تیونس کے صدر قیس سعید نے آئی ایم ایف سے 1.9 ارب ڈالر حاصل کرنے کے لیے درکار شرائط کو ’احکامات‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان شرائط پر پورا نہیں اتریں گے۔ سعودی عرب نے 40 کروڑ ڈالر کے آسان قرضے اور 10 کروڑ ڈالر کی گرانٹ کا وعدہ کیا ہے لیکن سیاحت پر انحصار کرنے والی معیشت درآمدی خوراک اور ادویات کی قلت سے دوچار ہے۔ یورپی یونین نے تقریبا ایک ارب یورو (1.1 ارب ڈالر) کی مدد کی پیش کش کی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ زیادہ تر آئی ایم ایف معاہدے یا اصلاحات سے جڑی ہوئی ہے۔ مصر مصر ان بڑے ممالک میں سے ایک ہے جسے مشکلات کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔ شمالی افریقہ کی سب سے بڑی معیشت کو اگلے پانچ سال میں تقریبا 100 ارب ڈالر کا قرضہ ادا کرنا ہے جس میں اگلے سال 3.3 ارب ڈالر کے بانڈ بھی شامل ہیں۔ حکومت اپنی آمدنی کا 40 فیصد سے زیادہ صرف قرضوں پر ��ود کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے۔ قاہرہ کے لیے آئی ایم ایف کا تین ارب ڈالر کا پروگرام ہے اور فروری 2022 سے اب تک پاؤنڈ کی قدر میں تقریبا 50 فیصد کمی آئی ہے۔ لیکن نجکاری کا منصوبہ اب بھی سست روی کا شکار ہے اور گذشتہ ماہ مصر نے آئی ایم ایف کے منصوبے سے یہ کہہ کر منہ موڑ لیا کہ وہ جنوری تک سبسڈی کے ساتھ بجلی کی قیمتں برقرار رکھے گا۔
ايل سلواڈور ایل سلواڈور نے قرضے کے دو پروگراموں کی حیران کن بحالی اور آئی ایم ایف کے ایک سابق عہدے دار و وزارت خزانہ کے مشیر مقرر کرنے کے بعد معاشی بدحالی کے باعث ڈیفالٹ سے بانڈ مارکیٹ کی طرف جا چکا ہے۔ سال 2022 کے موسم گرما میں اس کا 2025 یورو بانڈ ڈالر کے مقابلے میں صرف 27 سینٹ تک گرا جس کی وجہ قرضوں کی بڑی ادائیگیاں اور اس کے فنانسنگ منصوبوں اور مالیاتی پالیسیوں پر خدشات تھے۔ اسی بانڈ نے 31 اگست کو 91.50 سینٹ پر کاروبار کیا اور دسمبر میں اس کا قرضہ مجموعی قومی پیداوار کا تناسب 77 فیصد تھا جو 2019 کے بعد سے سب سے کم ہے۔ اس سال ایک اور فیصد پوائنٹ گرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
کينيا عالمی بینک کے مطابق مشرقی افریقی ملک کا سرکاری قرضہ جی ڈی پی کا تقریبا 70 فیصد ہے جس کی وجہ سے اسے قرضوں کے بحران کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ صدر ولیم روٹو کی حکومت نے اخراجات میں کمی کی ہے اور ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز پیش کی ہے جس سے ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ افریقی ترقیاتی بینک، کینیا کے ساتھ 80.6 ملین ڈالر سے زیادہ کی بات چیت کر رہا ہے تاکہ اسے اس سال اپنے فنانسنگ کے خلا کو پر کرنے میں مدد مل سکے۔ کینیا عالمی بینک سے بجٹ سپورٹ پر بھی تبادلہ خیال کر رہا ہے۔
يوکرين روس کے حملے کے بعد یوکرین نے 2022 میں قرضوں کی ادائیگیاں منجمد کر دی تھیں۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اگلے سال کے اوائل میں فیصلہ کرے گا کہ آیا موجودہ معاہدے میں توسیع کی جائے یا ممکنہ طور پر زیادہ پیچیدہ متبادل ذرائع تلاش کرنے شروع کیے جائیں۔ اعلیٰ اداروں کا اندازہ ہے کہ جنگ کے بعد تعمیر نو کی لاگت کم از کم ایک کھرب یورو ہو گی۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ یوکرین کو ملک کو چلانے کے لیے ماہانہ تین سے چار ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ اگر روس کے ساتھ جنگ نہیں جیتی جاتی یا کم از کم اگلے سال تک جنگ کی شدت میں نمایاں کمی نہ ہوئی تو اس کے قرضوں کی تنظیم نو کے مسئلہ کا بھی نومبر 2024 کے امریکی صدارتی انتخاب میں عمل دخل ہو گا اور ڈونلڈ ٹرمپ یا کسی اور رپبلکن امیدوار کے جیتنے کی صورت میں حاصل ہونے والی حمایت کی سطح کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔
لبنان لبنان 2020 سے ڈیفالٹ کا شکار ہے اور اس بات کے بہت کم اشارے مل رہے ہیں کہ اس کے مالی مسائل کسی وقت حل ہو جائیں گے۔ آئی ایم ایف نے سخت انتباہ جاری کیا ہے جس کے بعد گذشتہ چند مہینوں میں مرکزی بینک کی جانب سے ملک کی مقامی کرنسی پر طویل عرصے سے عائد پابندی ختم کرنے کی تجویز پر کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔
روئٹرز
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
0 notes
Text
ڈالر 301 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
کراچی: آئی ایم ایف سے رابطے برقرار رہنے کے باوجود قرض پروگرام کی بحالی نہ ہونے اور مسلسل تیسرے ہفتے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے رحجان سے جمعہ کو بھی زرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالر کی پرواز جاری رہی جس سے ڈالر کے اوپن ریٹ 301 روپے کی نئی بلند ترین سطح پر آگئے۔ انٹر بینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے کے دوران ڈالر محدود پیمانے پر اتارچڑھاؤ کا شکار رہا، ایک موقع پر ڈالر 24 پیسے کی کمی سے 285.38…
View On WordPress
0 notes