#ریگولیٹ
Explore tagged Tumblr posts
Text
سوشل میڈیا ریگولیٹ کیسے ہو گا؟
جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے معاشروں میں جہاں انسانوں کو بے پناہ سہولیات، باہمی ابلاغ اور اظہار رائے کے غیر محدود وسائل مہیا کئے وہاں صرف سوشل میڈیا ٹیکنالوجی نے ہزاروں انسانی زندگیاں غیر محفوظ ، شخصی پرائیویسی مخدوش اور عزت نفس کے احساس کو مجروح کرنے کے علاوہ تشدد،بے یقینی اور ذہنی انتشار کو بڑھا کر اُس سکونِ قلب کو بربادکر دیا جو تہذیب کو بنیادیں فراہم کرتا رہا ۔ تہذیب ابتری اور بدنظمی کے خاتمہ…
0 notes
Text
سوشل میڈیا ریگولیٹ کیسے ہو گا؟
جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے معاشروں میں جہاں انسانوں کو بے پناہ سہولیات، باہمی ابلاغ اور اظہار رائے کے غیر محدود وسائل مہیا کئے وہاں صرف سوشل میڈیا ٹیکنالوجی نے ہزاروں انسانی زندگیاں غیر محفوظ ، شخصی پرائیویسی مخدوش اور عزت نفس کے احساس کو مجروح کرنے کے علاوہ تشدد،بے یقینی اور ذہنی انتشار کو بڑھا کر اُس سکونِ قلب کو بربادکر دیا جو تہذیب کو بنیادیں فراہم کرتا رہا ۔ تہذیب ابتری اور بدنظمی کے خاتمہ…
0 notes
Text
پریس ریلیز
کے پی کے ہاؤس دہشتگردوں کا گڑھ بن چکا، لوگ جرم کرتے ہیں اور وہاں جا کر مزے سے رہتے ہیں: عظمٰی بخاری
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں پیسہ تو بنا رہے ہیں مگر کسی کو جوابدہ نہیں ہیں: عظمٰی
سوشل میڈیا ایپس ریگولیٹ نہیں ہو سکتیں تو ان کو بند کر دینا چاہیے: عظمٰی بخاری
مجھے ڈھائی تین ماہ کی لڑائی کے بعد بھی ابھی تک ریلیف نہیں ملا: عظمٰی بخاری
پی ٹی آئی کا پروپیگنڈہ سیل باہر سے آپریٹ ہو رہا ہے، ان کو وہیں سے لیڈ ملتی ہے کہ کیا کرنا ہے: عظمٰی بخاری
لاہور30 ستمبر:- وزیر اطلاعات پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں پیسہ تو بنا رہے ہیں مگر کسی کو جوابدہ نہیں ہیں۔ اگر سوشل میڈیا ایپس ریگولیٹ نہیں ہو سکتیں تو ان کو بند کر دینا چاہیے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی سوشل میڈیا بے لگام نہیں ہے۔ مجھے ڈھائی تین ماہ کی لڑائی کے بعد بھی ابھی تک ریلیف نہیں ملا۔ ایف آئی اے کے لوگ آکر رونا روتے ہیں کہ سوشل میڈیا ایپس کو پوچھنا ہماری کپیسٹی نہیں ہے۔ اس سے ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے حالات با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں ہر کوئی آزا�� ہے، کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں اپنی پیشی کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے ہاؤس دہشتگردوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ لوگ جرم کرتے ہیں اوروہاں جاکر مزے سے رہتے ہیں اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ آپ کسی کی عزت اچھالیں، اسکی توہین کریں اور آپ کو کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ پی ٹی آئی کا پروپیگنڈہ سیل باہر سے آپریٹ ہو رہا ہے، ان کو وہیں سے لیڈ ملتی ہے کہ کیا کرنا ہے۔ کسی کو پکڑنا اور پوچھنا تو دور کی بات ہے مگر جعلی مواد کو سوشل میڈیا ایپس سیابھی تک ہٹایا نہیں جا سکا۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے سارے کام چھوڑ کر یہاں انصاف کی تلاش میں آتی ہوں۔ یہاں پر آکر جعلی ویڈیوز کے بارے میں بات کرنا میرے لئے بہت مشکل اور تکلیف دہ ہے۔ انکا کہنا تھا کہ مجھے پھر دس دن کی تاریخ ملی ہے، دس دن بعد آکر دیکھو گی کہ یہ نوح کہاں تک پہنچا ہے۔
٭٭٭٭
0 notes
Text
کیا گیس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت اقدامات کا وقت آگیا ہے؟
پاکستان کیسے بحرانوں کی دلدل میں دھنسا جارہا ہے اس کی ایک اچھی مثال قدرتی گیس ہے۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہاں وافر گیس بھی دریافت ہوئی جبکہ ملک کے ابتدائی سرکاری اداروں میں 1950ء میں بننے والی پاکستان پیٹرولیم بھی شامل تھی۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس اپنے قیام کے وقت توانائی کے بہت کم ذرائع تھے اور عملی طور پر توانائی کی پیداواری صلاحیت تک موجود نہ تھی، ایسے میں پاکستان نے مقامی گیس کی وافر مقدار کو اپنے لیے بڑی پیمانے پر ایک صنعت کی بنیاد بنایا درحقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پاکستان کی سب سے پرانی کھاد بنانے والی کمپنی اینگرو نے 1960ء کی دہائی کے اوائل میں اس وقت کام کرنا شروع کیا جب اس کی پیرنٹ کمپنی ایسو، تیل دریافت کرنے کی کوشش کررہی تھی اور اس نے حادثاتی طور پر مری فیلڈز میں گیس دریافت کر لی۔ اس وقت مری فیلڈز ریگستان میں دور کہیں موجود تھی۔ چونکہ ایسو تیل کی کمپنی تھی اس لیے گیس کی دریافت ان کے کسی کام کی نہیں تھی، لہٰذا انہوں نے گیس کے ان ذخائر کو کچھ سالوں تک ایسے ہی چھوڑ دیا۔ چند سال بعد کسی کو خیال آیا کہ اس گیس کا استعمال کر کے کھاد بنائی جاسکتی ہے بس اس کے لیے حکو��ت سے مناسب قیمت کے لیے بات چیت کرنی ہو گی کیونکہ کھاد کی قیمتیں مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں ہوتی ہیں۔
یہ 1960ء کی دہائی کے وسط کی بات ہے جب ایسو فرٹیلائزر کا قیام عمل میں آیا جو کہ شاید اس وقت پاکستان کی دوسری کھاد بنانے والی کمپنی تھی۔ اس کے بعد سے اور بھی دریافتیں ہوئیں، دیگر کھاد کی کمپنیاں بھی وجود میں آئیں جن میں بالخصوص ’فوجی فرٹیلائزر‘ نمایاں ہے جو 1970ء کی دہائی کے اختتام پر قائم ہوئی۔ پہلے تھرمل پاور پلانٹس بھی 1970ء کی دہائی میں قائم ہوئے جس کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر پانی سے بجلی کی پیداوار کی صلاحیت بھی منگلا اور تربیلا ڈیم کی صورت میں سامنے آئی۔ یہ دونوں ڈیم 1960ء کی دہائی کے وسط سے 1970ء دہائی کے اواخر تک فعال ہوئے۔ اس سلسلے میں گڈو تھرمل پاور اسٹیشن سب سے بڑا اور پرانا پلانٹ تھا جس نے 1974ء میں کام کرنا شروع کیا، یہ مکمل طور پر قدرتی گیس پر چلتا تھا۔ یہ کندھ کوٹ میں واقع تھا جو کہ زیادہ آبادی والے تین شہروں کراچی، لاہور اور کوئٹہ سے قریب واقع تھا تاکہ یہ ان تینوں شہروں کو توانائی فراہم کر سکے۔ یہ پلانٹ اب بھی فعال ہے لیکن اس کے کمیشن ہونے کے بعد اس کے کچھ ٹربائنز کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
1990ء کی دہائی تک پاکستان میں دنیا کے بڑے پائپ گیس ڈسٹری بیوشن انفراسٹرکچر میں سے ایک موجود تھا، اس وقت تک کھاد کی تیاری اور توانائی کی پیداوار کے علاوہ پاکستان کے گھریلو صارفین کو بھی بڑی مقدار میں قدرتی گیس فراہم کی جاتی تھی۔ اس دوران دیگر صنعتی دعوے دار بھی پیدا ہوئے جیسے سیمنٹ اور ٹیکسٹائل کے شعبے جہاں خاص طور پر پروسیسنگ میں بوائلرز کو چلانے کے لیے گیس کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا۔ یوں اس ملک میں گیس نے بنیادی ایندھن کی حیثیت اختیار کر لی۔ یہ بات بظاہر حیران کُن لگے لیکن ملک میں قدرتی گیس کی وافر مقدار نے دراصل ہمیں تیل کی قیمتوں کے ان مختلف بحرانوں سے محفوظ رکھا جن کا ان دہائیوں میں عالمی معیشت کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان 1970ء اور 2000ء کے اواخر میں آنے والے تیل کے بحران کی لپیٹ میں نہیں آیا۔ یہاں یہ ذکر صرف اس بات کی نشاندہی کے لیے کیا گیا ہے کہ اگر ملک میں قدرتی گیس کی فراہمی نہ ہوتی تو ملک ان سے کہیں زیادہ متاثر ہوتا کیونکہ قدرتی گیس نے ان بحرانوں کے اثرات کو کافی حد تک کم کیا۔
1980ء کی دہائی کے اوائل سے ہی یہ آگہی لوگوں میں پھیلنا شروع ہو گئی تھی کہ ملک میں گیس کی قیمتیں تبدیل ہونے والی ہیں اگرچہ ملک میں کوئی بھی اس پر عمل درآمد کے لیے تیار نہیں تھا۔ آئی ایم ایف قیمتوں کے تعین میں اصلاحات پر زور دے رہا تھا لیکن جنرل ضیاالحق کی حکومت تعمیل پر راضی نہیں تھی۔ اس حوالے سے دلائل پیش کیے گئے کہ اس سے خوارک کے تحفظ پر اثرات مرتب ہوں گے جو کہ آج ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں یہ آگہی زور پکڑ گئی اور ایک ایسے کمیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد پورے پاکستان میں قیمتوں کو کنٹرول کرنا تھا۔ اس کمیشن کی سربراہی آفتاب غلام نبی قاضی نے کی جو کہ اس وقت سینیئر سرکاری افسر اور غلام اسحٰق خان کے قریبی دوستوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی تعیناتی نے ظاہر کیا کہ حکومتِ وقت گیس کی قیمتوں کے حوالے سے اقدامات لینے کے لیے سنجیدہ ہے۔ کمیشن نے سب سے پہلے کھاد کی قیمتوں پر کام کیا جس کے بعد تیل، اور زرعی مصنوعات جیسے گندم اور کپاس پر بھی توجہ مرکوز کی۔
متعدد وجوہات کی بنا پر کمیشن کھاد کی قیمتوں کو ریگولیٹ نہیں کر پایا۔ مینو فیکچرز نے کہا کہ کھاد کی قیمت اس مطابق ہونی چاہیے جس پر نیا پلانٹ فعال ہو سکے۔ کمیشن نے دیکھا کہ کھاد کا براہِ راست تعلق گیس سے ہے اور غذائی اشیا کی قیمتوں پر بھی کھاد کی قیمت اثرانداز ہوتی ہے، تو گویا کھاد اہم ہے کیونکہ اس کے دیگر اشیا کی قیمتوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کھاد کی قیمتوں کو مکمل طور پر کنٹرول میں رکھا جاتا ہے۔ پھر ساتویں پانچ سالہ منصوبے میں یہ بات سر اٹھانے لگی کہ پاکستان کے گیس کے ذخائر ختم ہونے والے ہیں اور کوئی نئی دریافت بھی نہیں ہو رہی ہے اور نہ ہی ہونے کا امکان ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں پیش گوئیاں سامنے آئیں کہ پاکستان کے گیس فیلڈز 2008ء یا 2010ء کے قریب ممکنہ طور پر کمی کے دور میں داخل ہو جائیں گے۔ بنیادی طور پر گیس پر انحصار نہ کرنے والی صنعتوں کی تعداد دیکھتے ہوئے اور زراعت و خواراک کی پیداوار پر اس کے اثرات کی وجہ سے یہ تباہی کی پیش گوئی کے مترادف تھا۔
منصوبے میں خبردار کیا کہ اس تباہی سے بچنے کے لیے اقدامات لینا شروع کرنا ہوں گے۔ گیس کی دریافت کی کوششیں تیز کریں، کھپت کو کم کریں اور سب سے بڑھ کر قیمتوں میں اصلاحات لے کر آئیں۔ لیکن ان میں سے کوئی اقدامات نہیں لیے گئے۔ قیمتوں کا یہی نظام برقرار رہا۔ ایسی کوئی قابلِ ذکر دریافت نہیں ہوئی جوکہ ذخائر کم ہونے کی پیش گوئی کو غلط ثابت کر سکتی۔ کھپت کم کرنے کے بجائے 2000ء کی دہائی کے اوائل میں جنرل پرویز مشرف نے ایک نیا سیکٹر متعارف کروایا جہاں گھریلو گیس کو گاڑیوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے فوراً بعد خاص طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت میں کیپٹیو پاور بھی سامنے آئی۔ متوقع طور پر 2010ء سے قدرتی گیس کے ذخائر میں کمی آنا شروع ہوئی۔ 5 سال بعد 2015ء میں تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے گیس کی درآمدات کا آغاز کیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ملک میں گیس کی کل طلب کا تقریباً حصہ درآمد کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قیمتیں مکمل طور پر بین الاقوامی مارکیٹ کے مطابق ہوتی ہیں۔ تو اب ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہمیں گیس کی قیمتوں کے حوالے سے سخت اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال ہم نے گیس کی قیمتوں میں ایک بڑا اضافہ دیکھا۔ رواں سال بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ شاید اگلے سال اس سے زیادہ اضافہ ہو۔ جب آپ ایک مقام پر ٹھہرے رہتے ہیں اور اصلاحات لے کر نہیں آتے تو ہمیں ایسی ہی کسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خرم حسین
یہ مضمون 21 دسمبر 2023ء کو ٖڈان اخبار میں شائع ہوا۔
بشکریہ ڈان نیوز
0 notes
Text
بجلی صارفین کا استحصال
وفاقی حکومت کے تحت نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی 1997 کے ایکٹ کے تحت قائم ہوا۔ نیپرا کا انتظامی بورڈ چاروں صوبوں کے ماہرین اور ایک چیئر پرسن پر مشتمل ہے۔ اس ادارے کا بنیادی فریضہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام کے لیے قابلِ اعتبار مارکیٹ اور صارفین کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنا ہے۔ نیپرا کا ایک بنیادی فریضہ بجلی صارفین اور اداروں کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے، یوں قانون کے تحت نیپرا کی ذمے داری ہے کہ صارفین کے مفادات کا تحفظ کرے۔ نیپرا نے گزشتہ دنوں بجلی تقسیم کار اداروں کے بارے میں رپورٹ افشاء کی تو بجلی صارفین کی شکایات کی تصدیق ہوتی ہے۔ نیپرا کی اس رپورٹ میں۔ نیپرا کی اس رپورٹ کے سرسری مطالعہ سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ بجلی تقسیم کار بعض اداروں نے صارفین سے حقیقی بل سے صد فی صد زیادہ رقم وصول کی۔ نیپرا کی اس جامع تحقیقاتی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تمام کمپنیاں صارفین سے زائد بل وصولی کی ذمے دار ہیں، ملک بھر میں ایک کمپنی بھی ایسی نہیں ہے جو صارفین نے زیادہ بل وصول نا کرتی ہو۔
اس سال جون کے مہینے میں بجلی کے نرخ غیر معمولی طور پر بڑھائے گئے ہیں ، چھوٹے صارفین کی قوتِ خرید جواب دے گئی، یوں چند سر پھرے لوگوں نے اوور بلنگ کے خلاف احتجاج شروع کیا، جب صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی تو اوور بلنگ کے بارے میں تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں ماہرین نے ایک مستند رپورٹ مرتب کی۔ یہ رپورٹ بجلی گھروں کی تقسیم کے نظام کے بغور مطالعہ، اس موضوع پر ہونے والی تحقیق کے جائزہ اور بجلی کی کمپنیوں کے طویل سروس سے حاصل کردہ اعدادوشمارکی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صارف کے میٹر کی ریڈنگ سے زیادہ رقم وصول کی گئی ہے اور بعض کیسوں کے غور سے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوں میں اوور چارجنگ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کی گئی ہے۔ اسی طرح صارفین کو طے شدہ مدت کو نظرانداز کر کے بل بھیجے گئے۔ یوں یہ بل 30 دن کی طے شدہ مدت سے زیادہ ہو گئے۔ اس صورتحال کا نقصان ان لاکھوں صارفین کو پہنچا جو ہر ماہ 200 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرتے ہیں۔ ملکی قانون کے تحت 30 دن کے اندر بجلی کے میٹر کی ریڈنگ حاصل کرنی چاہیے مگر اس قانون کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔
نیپرا کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے ملک 13.76 ملین صارفین کو 30 دن سے زائد ریڈنگ کی بنیاد پر بل بھیجے گئے۔ اسی طرح 3.2 ملین صارفین سے اوور بلنگ کی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گجرانوالہ میں 1.65 ملین صارفین سے اوور بلنگ کی گئی۔ فیصل آباد کے 1.9 ملین صارفین کو زیادہ بل بھجوائے گئے۔ بجلی کے نظام کو ریگولیٹ کرنے والے سرکاری ادارہ کی اس رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ کے الیکٹرک سمیت تمام کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور عوام کو بجلی کے بلوں میں رعایت دی جائے۔ نیپرا کی یہ رپورٹ گزشتہ جولائی اور اگست کے بلوں سے متعلق ہے۔ سال کے باقی 10 مہینوں کے بارے میں کیا صورتحال ہو گی اس کے بارے میں ایک جامع تحقیقات سے ہی حقائق کا علم ہو سکتا ہے۔ بجلی بلز میں اووربلنگ کے تناظر میں افسوس ناک یہ حقیقت ہے کہ کم آمدنی والے کروڑوں صارفین کو استعمال سے زیادہ بجلی کے بل بھیجے گئے۔ جب لاکھوں افراد ان بلوں کی ادائیگی سے قاصر رہے تو ان کے کنکشن منقطع کر دیے گئے۔
بنیادی انسانی حقوق میں بجلی کے استعمال کا حق بھی شامل ہے، مگر اس ملک میں ہر سال بجلی کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے جہاں بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ کراچی میں بجلی کی تقسیم کے حوالے سے شہر کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جن علاقوں میں صد فی صد بلنگ ہوتی ہے، وہ لوڈ شیڈنگ فری زون قرار دیے گئے ہیں اور جہاں بلز کی ادائیگی کم ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ جہاں بجلی بلزکی وصولی کی شرح کم ہے وہاں سردیوں میں 8 سے 10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ ایک صورتحال یہ بھی ہے ان علاقوں میں جہاں صارفین صد فی صد بل ادا کرتے ہیں مگر ان صد فی صد بل ادا کرنے والے صارفین کی بستیوں سے متصل بستیوں میں بل ادا کرنے کی شرح کم ہوتی ہے تو وہاں 10 ,10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور جو لوگ ہر ماہ بل ادا کرتے ہیں وہی سزا پاتے ہیں۔ ایک طرف تو لوڈ شیڈنگ کی بناء پر بجلی نہیں آتی تو دوسری طرف ہر مہینہ دو مہینہ بعد بجلی کے بلوں کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران بجلی کے نرخ میں صد فی صد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورتحال تو گھریلو صارفین کی ہے، تجارتی اور صنعتی استعمال والے اداروں میں ایک نیا بحران جنم لیتا ہے۔ جب بھی بجلی کے ٹیرف میں اضافہ ہوتا ہے تو تیار کی جانے والی اشیاء پر آنے والی قیمت بڑھ جاتی ہے، یوں برآمدات کا شعبہ اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوتا ہے۔ برآمد کنندگان مسلسل یہ شکایت کر رہے ہیں کہ گزشتہ 15 ماہ کے دوران بجلی اور گیس کے نرخ بڑھے تو ان کارخانوں کی تیار کردہ اشیاء کی برآمدی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ پاکستانی اشیاء غیر ممالک کی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔ نیپرا نے گزشتہ جولائی اور اگست کے مہینوں کے بارے میں جب یہ تحقیق کی تھی تو اس وقت میاں شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کر رہے تھے۔ پارلیمانی نظام کی روایت کے تحت حکومت میں شریک تمام ��ماعتیں حکومتی فیصلوں کی ذمے دار ہوتی ہیں،
یوں پی ڈی ایم حکومت میں شامل تمام جماعتیں اس صورتحال کی براہِ راست ذمے دار ہیں، جس کے وزراء آنکھیں بند کر کے حکومت کے بجلی کے نرخ بڑھانے کے فیصلے کی وکالت کرتے رہے۔ سابق پارلیمانی سیکریٹری زاہد توصیف کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمپنیوں نے 1700 ارب روپے زیادہ وصول کیے ہیں جو ہر صورت صارفین کو واپس ہونے چاہئیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ بلند ترین مارک اپ ریٹ اور مہنگی ترین بجلی اور گیس پاکستان میں ہے۔ ملک میں ایک نگراں حکومت برسرِ اقتدار ہے جس کے بارے میں تصور یہ ہے کہ وہ خاموشی سے اپنی پیش رو حکومتوں کی پیروی کررہی ہے مگر اس کے باوجود نگراں حکومت کی ذمے داری ہے کہ فوری طور پر بجلی کے نرخ کم کرے اور تمام شہریوں کو بجلی فراہم کرنے کے بارے میں لائحہ عمل تیار کرے۔ نیپرا کی اس رپورٹ پر غور کرنے کے لیے پاور ڈویژن نے چار رکنی ایک کمیٹی بنائی ہے۔ مگر کیا یہ کمیٹی طاقتور کمپنیوں کا کیا احتساب کرے گی ؟ شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی وقت ضایع کرنے کے سوا کچھ نہ کر پائے گی۔ سیاسی جماعتوں کو بجلی صارفین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خاتمے کے لیے اقتدار میں آنے کے قابل عمل پالیسی بنانی چاہیے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
#Electricity#Electricity bills#Electricity crisis#K Electric#Load Shedding#Overbilling#Pakistan#World
0 notes
Text
فرانس، جرمنی اور اٹلی مصنوعی ذہانت کو ریگولیٹ کرنے پر متفق
فرانس، جرمنی اور اٹلی مصنوعی ذہانت کو ریگولیٹ کرنے کے ایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں،جس سے توقع ہے کہ یورپی سطح پر بات چیت میں تیزی آئے گی۔ تینوں حکومتیں مصنوعی ذہانت کے نام نہاد فاؤنڈیشن ماڈلز کے لیے “ضابطہ اخلاق کے ذریعے لازمی سیلف ریگولیشن” کی حمایت کرتی ہیں، جو آؤٹ پٹ کی ایک وسیع رینج تیار کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ لیکن وہ “غیر آزمائشی اصولوں” کی مخالفت کرتے ہیں۔ مشترکہ مقالے میں کہا گیا ہے کہ…
View On WordPress
0 notes
Text
لامحدود کیسینو - بلاگ تعارف: لامحدود کیسینو لامحدود کیسینو گائیڈ لمیٹ لیس کیسینو میں ایک ناقابل فراموش وقت کے لیے آپ کے ٹکٹ کے طور پر کام کرے گا۔ ٹیکنالوجی نے آن لائن جوئے بازی کے اڈوں کو ڈرامائی طور پر بڑھنے کی اجازت دی ہے، جو کھلاڑیوں کو ایک نئی سطح پر جوش و خروش اور تفریح فراہم کرتی ہے۔ اس تفصیلی ٹیوٹوریل میں، ہم Limitless's Casino کی دلچسپ دنیا کو تلاش کریں گے اور آپ کو علم اور آلات سے آراستہ کریں گے جو آپ کو وہاں اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے درکار ہے۔ مزید کے لیے یہاں کلک کریں۔ کیسینو کی خبریں۔. لامحدود کیسینو کو سمجھنا لامحدود کیسینو لامحدود کیسینو کیا ہے؟ سلاٹ مشینیں، ٹیبل گیمز، لائیو ڈیلر کے اختیارات، اور بہت کچھ لامحدود کیسینو، ایک معروف آن لائن جوئے کی سائٹ پر پایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک آن لائن ملاقات کی جگہ ہے جہاں دنیا بھر کے لوگ اپنے گھر چھوڑے بغیر لاس ویگاس کے جوش و خروش سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ Limitless's Casino کا مقصد ایک محفوظ اور قابل اعتماد ترتیب میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے تمام صارفین کے لیے گیمنگ کا ایک تفریحی اور فائدہ مند تجربہ تخلیق کرنا ہے۔ آن لائن جوئے کے فوائد لامحدود کیسینو آن لائن کھیلنے کے بہت سے فوائد ہیں جو آن لائن جوئے کو ایک بہتر اختیار بناتے ہیں۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ گیمرز کو اپنے پسندیدہ کیسینو گیمز سے لطف اندوز ہونے کے لیے جسمانی طور پر کسی کیسینو میں سفر کرنے کی ضرورت کو ختم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، Limitless's Casino گیمز کی بہتات پیش کرتا ہے جن میں سے ہر ایک اپنے منفرد تھیمز اور تغیرات کے ساتھ منتخب کرنا ہے۔ مزید برآں، آن لائن جوا دلکش بونس اور پروموشنز فراہم کرتا ہے، جو کھلاڑیوں کے بینکرول کو بڑھاتا ہے اور کھیل کی طوالت کو بڑھاتا ہے۔ لامحدود کیسینو کے تجربے کی تلاش لامحدود کیسینو گیمز اور مختلف قسم [embed]https://www.youtube.com/watch?v=xyfRJnzSJx8[/embed]جب کھیلنے کے لیے کسی گیم کو منتخب کرنے کی بات آتی ہے، تو لامحدود کیسینو کے اختیارات، ٹھیک ہے، لامحدود ہوتے ہیں۔ روایتی سلاٹ مشینوں سے لے کر اعلیٰ درجے کی لائیو ڈیلر گیمز تک کھلاڑیوں کے پاس متبادل کی بہتات تک رسائی ہوتی ہے جو ان کے انفرادی ذوق کو پورا کرتے ہیں۔ پلیٹ فارم پر گیمز سرفہرست ڈویلپرز کے مداحوں کے پسندیدہ ہیں، لہذا آپ شاندار بصری، دلکش گیم پلے، اور تفریحی اضافی چیزوں پر اعتماد کر سکتے ہیں۔ چاہے آپ سلاٹس کا سنسنی تلاش کر رہے ہوں، ٹیبلز کا چیلنج، یا لائیو کیسینو کا حقیقی احساس، Limitless Casino وہ چیز پیش کرتا ہے جس کی آپ تلاش کر رہے ہیں۔ جدید خصوصیات اور ٹیکنالوجیز جب آن لائن جوئے کی اختراعات کی بات آتی ہے، تو Limitless Casino وہیں پر ہے۔ ورچوئل رئیلٹی (VR) اور اگمینٹڈ رئیلٹی (AR) جدید ٹیکنالوجی کی صرف دو مثالیں ہیں جنہیں یہ پلیٹ فارم واقعی ایک انٹرایکٹو اور عمیق گیمنگ ماحول فراہم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ جدید ترین نظام صارفین کو ایک مصنوعی کیسینو سیٹنگ میں داخل ہونے کی اجازت دیتے ہیں، جو لائیو ڈیلرز اور دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ مکمل ہوتی ہے۔ جب بات اپنے صارفین کو جدید خصوصیات فراہم کرنے کی ہو، تو Limitless's Casino ہمیشہ وکر سے ایک قدم آگے ہوتا ہے۔ محفوظ اور منصفانہ گیمنگ ماحول آن لائن گیمنگ کے دائرے میں سلامتی اور انصاف پسندی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ جدید ترین خفیہ کاری کے نظام اور قابل اعتماد ادائیگی کے پروسیسرز کے ساتھ، کھلاڑی لامحدود کیسینو میں محفوظ اور محفوظ محسوس کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، پلیٹ فارم کو بااختیار اداروں کے ذریعے لائسنس یافتہ اور ریگولیٹ کیا گیا ہے، جو تمام گیمز کے منصفانہ اور بے ترتیب ہونے کی ضمانت دیتا ہے۔ Limitless's Casino کے ساتھ، جواریوں کو اپنے نجی ڈیٹا سے سمجھوتہ کیے جانے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اور وہ کھلے اور دیانتدارانہ گیمنگ ماحول میں خود سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ لامحدود کیسینو کے ساتھ کیسے شروع کریں۔ ایک قابل اعتماد لامحدود کیسینو پلیٹ فارم کا انتخاب اگر آپ اپنا لامحدود کیسینو سفر شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، تو ایک قابل اعتماد سروس منتخب کریں۔ اپنا ہوم ورک کرکے اور جائزے پڑھ کر لائسنسنگ، گیم کی قسم، کسٹمر سپورٹ، اور ادائیگی کے متبادل سمیت اہم مسائل پر غور کریں۔ نئے اور تجربہ کار کھلاڑی یکساں ��ور پر Limitless's Casino کے بارے میں بہت کچھ پسند کریں گے کیونکہ اس کی بے عیب ساکھ، گیمز کی بہت بڑی لائبریری، اور کسٹمر سروس کے لیے لگن کی وجہ سے۔ اپنا اکاؤنٹ بنانا Limitless Casino میں اکاؤنٹ کے لیے سائن اپ کرنے کا عمل آسان نہیں ہو سکتا۔ سائٹ پر جائیں اور "سائن اپ" ٹیب کو دبائیں۔ اپنا نام، ای میل پتہ، اور اپنی پسند
کا پاس ورڈ ٹائپ کریں۔ تصدیق کے طریقہ کار میں کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لیے مکمل معلومات دینا یقینی بنائیں۔ سائن اپ کرنے کے بعد، آپ لاگ ان کر سکیں گے اور فوری طور پر Limitless's Casino کے سنسنی کا تجربہ کرنا شروع کر دیں گے۔ اپنا پہلا ڈپازٹ بنانا آپ مناسب ادائیگی کا اختیار منتخب کر کے اپنے لامحدود کیسینو اکاؤنٹ کو کیشئر میں فنڈ دے سکتے ہیں۔ کریڈٹ/ڈیبٹ کارڈز، ای-والٹس، اور بینک ٹرانسفر صرف کچھ محفوظ اور آسان ادائیگی کے طریقے ہیں جو سائٹ پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ڈپازٹ کرنے کے لیے، صرف رقم درج کریں اور ہدایت کے مطابق لین دین کی تصدیق کریں۔ آپ Limitless's Casino میں اپنے گیمنگ کے تجربے کو پہلے ڈپازٹس پر دینے والے بھاری استقبالیہ بونس کی مدد سے حاصل کر سکتے ہیں۔ لامحدود کیسینو بونس اور پروموشنز نئے کھلاڑیوں کے لیے خوش آمدید بونس جب آپ Limitless Casino میں پہلی بار کسی اکاؤنٹ کے لیے جوائن کریں گے، تو آپ کو سامان سے بھرا ایک خوش آئند تحفہ ملے گا۔ آپ کے پہلے ڈپازٹ پر میچ بونس، مخصوص سلاٹ گیمز پر مفت گھماؤ، یا دونوں ویلکم بونس کی عام قسمیں ہیں۔ ان بونس آفرز کا عمدہ پرنٹ سیکھیں تاکہ آپ اپنی ممکنہ کمائی کو زیادہ سے زیادہ کر سکیں۔ جاری پروموشنز اور لائلٹی پروگرامز لامحدود کیسینو میں کھلاڑیوں کی تعریف کی جاتی ہے اور انہیں کثرت سے انعام دیا جاتا ہے۔ دوبارہ لوڈ بونس، کیش بیک ڈیلز، اور صرف دعوت نامے والے ٹورنامنٹس سائٹ پر دستیاب مسلسل مراعات میں سے کچھ ہیں۔ مزید برآں، کھلاڑی ایک جامع لائلٹی پروگرام سے مستفید ہو سکتے ہیں جو اجرتوں کے لیے پوائنٹس دیتا ہے جن کا تبادلہ بونس کریڈٹ، نقد مراعات اور دیگر دلچسپ مراعات کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ اپنے گیمنگ کے تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور تازہ ترین ڈیلز سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو پروموشنز کا صفحہ باقاعدگی سے چیک کرنا یقینی بنائیں۔ لامحدود کیسینو لامحدود کیسینو میں ذمہ دار جوا کھیلنا حدود اور خود کو خارج کرنے کے اختیارات کا تعین کرنا تمام کھلاڑیوں کو ذمہ داری سے جوا کھیلنے کی ترغیب دی جاتی ہے، اور Limitless Casino ایسا کرنے میں ان کی مدد کے لیے وسائل فراہم کرتا ہے۔ آپ پلیٹ فارم پر ڈپازٹ، نقصان، اور شرط لگانے کی حدود طے کر کے اپنے آپ کو صرف اپنے ذرائع کے اندر جوئے تک محدود کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، ان لوگوں کے لیے خود سے اخراج کے اختیارات موجود ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ انہیں جوئے سے وقفے کی ضرورت ہے۔ ان ٹولز کے ذریعے، جواری آن لائن کیسینو کے مزے کو ضائع کیے بغیر اپنی بیٹنگ کو کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔ مسئلہ جوئے کی نشانیوں کو پہچاننا آن لائن جوا کھیلنا دلچسپ ہو سکتا ہے، لیکن نشے کی انتباہی علامات کو پہچاننا ضروری ہے۔ لامحدود کیسینو کے کھلاڑیوں سے گزارش کی جاتی ہے کہ وہ ذمہ داری سے شرط لگائیں اور اگر انہیں محسوس ہو کہ انہیں اس کی ضرورت ہے تو مدد حاصل کریں۔ انتباہی علامات پر نظر رکھیں جس میں منصوبہ ب��دی سے زیادہ وقت اور پیسہ جوئے میں لگانا، ذاتی یا پیشہ ورانہ وعدوں کو نظر انداز کرنا، یا گیمنگ کے براہ راست نتیجے کے طور پر پیسے کے مسائل کا سامنا کرنا شامل ہے۔ اگر آپ یا آپ کا کوئی جاننے والا یہ علامات ظاہر کرتا ہے تو ہاٹ لائن یا کسی ایسی امدادی تنظیم سے رابطہ کریں جو جوئے کے مسائل میں مہارت رکھتی ہو۔ فائدے اور نقصانات پیشہ Cons کے گیمز کا وسیع انتخاب لت اور جوئے کے مسائل کا بڑھتا ہوا خطرہ آسان اور قابل رسائی مالی نقصان کا امکان وقت یا مقام کی کوئی پابندی نہیں۔ سماجی تعامل کا فقدان پرکشش بونس اور انعامات محدود ریگولیشن اور دھوکہ دہی والی سائٹس کے امکانات بہتر رازداری اور سیکیورٹی کسٹمر سپورٹ اور مدد کی ممکنہ کمی بڑی جیت کا امکان ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی پر انحصار اپنی رفتار سے کھیلنے کی صلاحیت نابالغ جوئے اور اخلاقی خدشات کے لیے ممکنہ نتیجہ: لامحدود کیسینو کے ساتھ اپنے گیمنگ کے تجربے کو بلند کریں۔ آخر میں، Limitless Casino گیمز کی ایک بڑی لائبریری، جدید ایکسٹرا، اور کھلاڑیوں کے لیے حقیقی رقم کمانے کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم پلیٹ فارم فراہم کر کے آن لائن جوئے کا ایک بے مثال تجربہ فراہم کرتا ہے۔ اگر آپ لامحدود کیسینو کو اپنی ترجیحی جوئے کی سائٹ کے طور پر منتخب کرتے ہیں، تو آپ کو تفریح، پیسے اور سنسنی کی لامحدود فراہمی تک رسائی حاصل ہوگی۔ Limitless's Casino میں اپنے قیام سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے، ہم تجویز کرتے ہیں کہ آپ سمجھداری سے جوا کھیلیں، بہت سے دستیاب بونسز اور پروموشنز سے فائدہ اٹھائیں، اور مختلف قسم کے گیمز آزمائیں۔ ایک دلچسپ مہم جوئی کے لیے تیار ہو جائیں جو آپ کے آن لائن جوئے کے بارے میں سوچنے کے انداز کو مکمل طور پر بدل دے گا۔ دیگر گیمز کے لیے، رجوع کریں۔ کیسینو پیشن گوئی سافٹ ویئر.
اکثر پوچھے گئے سوالات (FAQs) اگر آپ کی عمر 21 سال سے زیادہ ہے اور آپ ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں انٹرنیٹ پر جوئے کی اجازت ہے، تو آپ قانونی طور پر Limitless Casino میں جوا کھیل سکتے ہیں۔ آپ کو اپنے علاقے کے قوانین اور ضوابط کو چیک کرنا چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ آپ قانونی طور پر آن لائن جوا کھیل سکتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈز، ڈیبٹ کارڈز، ای-والٹس، پری پیڈ کارڈز، اور وائر ٹرانسفر سبھی لامحدود کیسینو میں قبول کیے جاتے ہیں۔ آپ کے علاقے میں ادائیگی کے کچھ طریقے دستیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ تمام تعاون یافتہ ادائیگی کے گیٹ ویز کی مکمل فہرست کے لیے، براہ کرم پلیٹ فارم کے کیشیئر سے رجوع کریں۔ لامحدود کیسینو میں موبائل پلے مکمل طور پر تعاون یافتہ ہے۔ کیسینو گیمز اسمارٹ فونز اور ٹیبلیٹ پر کھیلے جا سکتے ہیں کیونکہ پلیٹ فارم کی iOS اور Android دونوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ آپ کسی بھی وقت، کہیں بھی کھیل سکتے ہیں، جب تک کہ آپ کو اپنے موبائل براؤزر یا مخصوص موبائل ایپ کے ذریعے کیسینو کی ویب سائٹ تک رسائی حاصل ہو۔ لامحدود کیسینو میں واپسی کے اوقات کئی عوامل کی بنیاد پر مختلف ہو سکتے ہیں، جیسے کہ کھلاڑی کا ترجیحی واپسی کا طریقہ اور کوئی اضافی تصدیقی اقدامات جو ضروری ہو سکتے ہیں۔ ای-والیٹ سے رقم نکلوانے میں صرف چند گھنٹے لگتے ہیں، لیکن بینک اکاؤنٹ یا کریڈٹ کارڈ سے نکلنے میں کئی کاروباری دن لگ سکتے ہیں۔ کیسینو کے شرائط و ضوابط کا حوالہ دیں یا واپسی کے اوقات کے بارے میں معلومات کے لیے معاونت سے رابطہ کریں۔ بالکل۔ جب بات کھیل کی منصفانہ اور بے ترتیب پن کی ہو، تو کھلاڑی یہ جان کر یقین کر سکتے ہیں کہ Limitless Casino صرف بھروسہ مند سافٹ ویئر فراہم کنندگان کے ساتھ کام کرتا ہے جن کا باقاعدگی سے آزاد حکام کے ذریعے آڈٹ اور تجربہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے آڈٹ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کھیل کے نتائج منصفانہ اور غیر متوقع ہیں۔ https://blog.myfinancemoney.com/limitless-casino/?rand=725 https://blog.myfinancemoney.com/limitless-casino/
0 notes
Text
اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے شیئرس میں گراوٹ کا دور جاری، لیکن کمپنی کا دعویٰ ’بیلنس شیٹ مضبوط ہے‘
نئی دہلی، 14/فروری (ایس او نیوز/ایجنسی ) بازار کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ سیبی ��ڈانی گروپ کو لے کر کی جا رہی جانچ پر تازہ اَپڈیٹ کے ساتھ وزیر مالیات نرملا سیتارمن سے ملنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس اَپڈیٹ میں بتایا جائے گا کہ آخر گروپ نے اپنا ایف پی او کیوں واپس لیا۔ اس درمیان اڈانی گروپ نے ایک بیان جاری کیا ہے۔ پیر کی شام جاری بیان میں گروپ نے دعویٰ کیا کہ اس کے پورٹ فولیو کی فرموں کی بیلنس شیٹ…
View On WordPress
0 notes
Text
سوشل میڈیا صارفین کی تعداد بڑھ گئی مگر ریگولیٹ نہ ہوسکاناکامی کس کی ہے؟
(24 نیوز)ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد7 کروڑ تک پہنچ گئی ہےلیکن صارفین کو سوشل میڈیا ایپس استعمال کرنے میں مشکلات آرہی ہیں ،انٹرنیٹ کی رفتار تاحال سست روی کا شکار ہے۔ ایک اعدادو شمار کے مطابق محض پانچ ملین افراد ایکس استعمال کرتے ہیں تاہم اس پلیٹ فارم پر ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کے اثرات کہیں زیادہ ہیں۔اور اِس وجہ سے یہ ایپ بندش کا شکار ہے ۔ صارفین اب تک وی پی این کے…
0 notes
Text
یورپی یونین بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے قانون پر متفق
یورپی یونین بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے قانون پر متفق
یورپی یونین بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے قانون پر متفق برسلز،23اپریل ( آئی این ایس انڈیا ) یورپی یونین نے ایک نئے قانون کی منظوری دے دی جس کے تحت بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر نقصان دہ مواد ہٹانا لازمی ہوگا۔ گوگل اور فیس بک جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر لگام کسنے کے حوالے سے یورپی یونین کا یہ دوسرا بڑا قدم ہے۔اس نئے قانون کو ڈیجیٹل سروسز ایکٹ(ڈی ایس اے) کا نام دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت…
View On WordPress
0 notes
Text
ایف اے ٹی ایف : پاکستان کے لیے بلیک لسٹ کا خطرہ نہ ٹلنے کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے گذشتہ ڈیڑھ ��ال کے دوران منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف متعدد اقدامات کیے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو تنبیہ جاری کی ہے کہ فروری تک مزید اقدامات نہ کرنے کی صورت میں ملک کا نام بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے؟ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے خلاف کام کرنے والے سابق سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ گو پاکستان کو چند مزید اقدامات کی ضرورت ہے مگر ایف اے ٹی ایف کے عدم اطمینان کی سیاسی اور سفارتی وجوہات بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کو امریکہ سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے اور سفارتی میدان میں زیادہ دوست بنانے ہوں گے۔ دہشت گردی سے نمٹنے والے قومی ادارے نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی رائے میں ایف اے ٹی ایف اور زیادہ تر بین الاقوامی ریگولیٹری اتھارٹیز میں سیاسی عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ ’جب ہم کچھ اہداف حاصل کر لیتے ہیں تو گول پوسٹ بدل دی جاتی ہے اور پیمانہ تبدیل کر دیا جاتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکام اور ایف اے ٹی ایف کے درمیان رابطے کا بحران بھی ہے ک��ونکہ یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان جیسے بڑے ملک میں کسی دور دراز علاقے میں اگر کوئی چندہ اکھٹا کر لیتا ہے تو بعض اوقات حکومت کو اس کا علم نہیں ہو پاتا اور اسے روکنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بات نہ ہم سمجھا پا رہے ہیں نا وہ سمجھنا چاہ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کو شکایت تھی کہ دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے سلسلے میں پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں رابطے کا فقدان ہے۔ ’اس شکایت کو دور کرنے کے لیے میں نے اپنے دور میں ایک ٹاسک فورس بنائی تھی تاکہ سب ادارے مل کر دہشت گردی کے لیے پیسوں کی ترسیل کا راستہ روکیں۔ اس ٹاسک فورس میں ایف آئی اے، آئی بی، وزارت مذہبی امور، صوبائی ادارے، مذہبی ادارے ، فنانشل مانیٹرنگ یونٹ اور ایف بی آر سب شامل تھے۔‘ ان کے مطابق ’ہر ماہ ان تمام اداروں کا اجلاس ہوتا تھا اور دہشت گردی کی معاونت کے اقدامات کا تذکرہ ہوتا تھا تاہم اس کے بعد میرا ارادہ تھا کہ ایک دفتر میں ان تمام اداروں کے نمائندے بیٹھا کریں جو کہ پورا نہ ہو سکا اور اب تک یہ اقدام مکمل نہیں ہوا۔
پولیس، استغاثہ اور عدلیہ میں صلاحیت کا فقدان نیکٹا کے سابق سربراہ نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں مالیاتی امور کی تفتیش کی مکمل مہارت اور صلاحیت نہ پولیس کے پاس ہے، نہ استغاثہ کے پاس اور نہ ہی عدلیہ کے پاس۔ اس سلسلے میں مہارت میں وقت درکار ہے مگر ایف اے ٹی ایف کا مطالبہ ہوتا ہے کہ مالیاتی جرائم میں ملوث افراد نہ صرف پکڑے جائیں بلکہ ان پر مضبوط کیس چلائے جائیں اور پھر ان کو سزائیں بھی ملیں۔ سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود جو کہ ایف اے ٹی ایف کے معاملات دیکھتے رہیں ہیں وہ احسان غنی سے متفق نظر آتے ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صلاحیت کی کمی کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ عرصے میں سٹیٹ بینک نے متعدد بینکوں کو تقریبا ایک ارب کے جرمانے اس لیے کیے کہ وہ مشکوک مالی ترسیلات کی صحیح رپورٹنگ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اسی طرح پولیس اور حتی کہ نیب کی تربیت بھی نہیں کہ وہ پیچیدہ مالی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف ایسی تفتیش کر سکیں جو سزاؤں پر منتج ہوں۔
قانون سازی کے لیے سیاسی قیادت کا اتفاق درکار سابق سیکرٹری خزانہ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان پر مکمل عمل کے لیے کسٹم اتھارٹی، ہاؤسنگ سیکٹر اتھارٹی وغیرہ کی طرز پر کئی ادارے بنانے پڑیں گے جس کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت کو ملک کے لیے نئے عہدو پیمان کرنا ہوں گے تاکہ مل کر ایسی قانون سازی ہو سکے ورنہ اکیلی حکومت کے لیے یہ کام ممکن نہیں ہو گا۔ ان کے بقول ’جہاں جہاں بڑی رقوم کا لین دین ہوتا ہے، چاہے وہ سونے کا کاروبار ہو یا پراپرٹی کا اسے ریگولیٹ کرنا اب ضروری ہو گیا ہے تاکہ منی لانڈرنگ کا شک نہ رہے۔‘
امریکہ سے تعلقات بہتر کرنا ہوں گے وقار مسعود کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کچھ مشکلات بین الاقوامی سیاست کا بھی نتیجہ ہیں۔ جس انداز میں چین سے تعلق رکھنے والے ایف اے ٹی ایف کے صدر نے باتیں کی ہیں وہ خوشگوار نہیں تھا۔ اس سوال کے ��واب میں کہ پاکستان نے حالیہ دنوں میں امریکہ سے اتنی پینگیں بڑھائیں مگر اس کا کیا فائدہ ہوا؟ انہوں نے کہا کہ انڈیا جس انداز سے دنیا میں اثرو رسوخ بنا رہا ہے اس سے پاکستان کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر مزید دوست بنانے ہوں گے اور امریکہ سے تعلقات بھی بہتر کرنے ہوں گے۔
بلیک لسٹ کی نوبت شاید نہ آئے ماہر معیشت اور اسلام آباد کے تھنک ٹینک ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد قیوم سلہری کا خیال ہے کہ پاکستان نے اپریل 2019 کے بعد بہت سے مثبت اقدامات اٹھائے مگر ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں جو رپورٹ پیش ہوئی وہ اس مدت سے قبل کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’بلیک لسٹ کا خطرہ نہیں ہے کیونکہ اس لسٹ میں وہ ممالک ڈالے جاتے ہیں جو بات مانتے ہی نہیں، جیسے شمالی کوریا اور ایران۔ تاہم پاکستان مکمل تعاون کر رہا ہے اور اپنی خامیوں کو تسلیم بھی کر رہا ہے۔ ہاں اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہو گئے تو اور بات ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا اور دوسرا یہ کہ معیشت بھی دستاویزی شکل اختیار کر لے گی۔
یاد رہے کہ فرانس کے شہر پیرس میں اپنے اجلاس کے بعد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے خلاف کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ایف اے ٹی ایف نے کہا تھا کہ پاکستان مقررہ وقت تک اس کے ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب میں ادارے کے صدر ژیانگ من لیو نے کہا کہ پاکستان کو جلد اور مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے اور اگر فروری تک اس نے خاطر خواہ پیش رفت نہ کی تو ایف اے ٹی ایف مزید اقدامات پر غور کرے گا جس میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنا شامل ہے۔
وسیم عباسی
بشکریہ اردو نیوز، اسلام آباد
1 note
·
View note
Text
پاکستان میں کرپشن میں کمی کی بجائے اضافہ
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا۔ پاکستان کا 10 سال میں کم ہوتا کرپشن انڈیکس 33 سے بڑھ کر 32 ہو گیا، عالمی رینکنگ میں کمی 117 سے 120 ہو گئی۔ عالمی ادارے نے اپنی سفارشات میں لکھاکہ کرپشن روکنے کیلئے شہریوں کو بااختیار کیا جائے، سماجی کارکنوں ، نشاندہی کرنے والوں اور صحافیوں کو تحفظ دیا جائے۔ چیک اینڈ بیلنس اور اختیارات الگ کیے جائیں، سیاسی فنانسنگ کنٹرول، سیاست میں پیسے، اثرو رسوخ، مفادات کے تصادم ، بھرتیوں کے طریقہ کار کو قابو کیا جائے، لابیز کو ریگولیٹ، الیکٹورل ساکھ مضبوط ، غلط تشہیر پر پابندی لگائی جائے۔
ادھر عالمی ادارے نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ بھارت ، افغانستان ، بنگلہ دیش ، ایران، جرمنی،امریکا، برطانیہ ، جاپان اور فرانس سمیت G7 ممالک میں بھی کرپشن بڑھی جبکہ ملائیشیا میں صورتحال بہتر ہوئی۔ تفصیلات کےمطابق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے 180 ممالک میں کرپشن سے متعلق 2019ء کی رپورٹ جاری کر دی، جس میں بتایا ہے کہ 2018ء کی نسبت 2019ء کے دوران پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے۔ پاکستان کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پچھلے سال کی نسبت ایک نمبر کم حاصل کر سکا۔ رپورٹ کے مطابق 2018ء میں پاکستان نے کرپشن کے خلاف اقدامات میں 33 نمبر حاصل کیے تھے لیکن 2019ء میں پاکستان کا اسکور 32 رہا۔ 32 اسکور حاصل کرنے پر پاکستان کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس 117 سے 120ویں درجے پر چلا گیا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے 180 رینکس میں پاکستان کا رینک 120 ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی گزشتہ رپورٹس کے مطابق 2010ء سے 2018ء تک پاکستان کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں مسلسل بہتری کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ کے مطابق 10 سالوں میں یہ پہلی بار ہے کہ کرپشن سے متعلق انڈیکس میں پاکستان آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ چیئرمین جاوید اقبال کی زیرِ قیادت قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی بہتر رہی، نیب پاکستان نے بدعنوان عناصر سے 153 ارب روپے نکلوائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2019ء میں زیادہ تر ممالک کی کرپشن کم کرنے میں کارکردگی بہتر نہیں رہی۔ 2019ء میں پہلا نمبر حاصل کرنے والے ڈنمارک کا اسکور بھی 1 پوائنٹ کم ہو کر 87 رہا۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ جی 7 کے ترقی یافتہ ممالک بھی انسدادِ بدعنوانی کی کوششوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کا انسدادِ بدعنوانی کا اسکور بھی کم رہا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا اسکور 2، برطانیہ اور فرانس کا 4 اور کینیڈا کا انسدادِ بدعنوانی اسکور 4 درجے کم رہا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا بھر میں بڑھتی کرپشن روکنے کے لیے سفارشات بھی تجویز کی ہیں، جن کے مطابق دنیا بھر میں سیاسی فنانسنگ کو کنٹرول کیا جائے۔
سیاست میں بڑے پیسے اور اثر و رسوخ کو قابو کیا جائے،بجٹ اور عوامی سہولتوں کو ذاتی مقاصد اور مفاد رکھنے والوں کے ہاتھوں میں نہ دیا جائے۔ مفادات کے تصادم اور بھرتیوں کے طریقے پر قابو کیا جائے، دنیا بھر میں کرپشن روکنے کے لیے لابیز کو ریگولیٹ کیا جائے، الیکٹورل ساکھ مضبوط کی جائے، غلط تشہیر پر پابندی لگائی جائے۔ شہریوں کو بااختیار کریں، سماجی کارکن، نشاندہی کرنے والوں اور صحافیوں کو تحفظ دیں، کرپشن روکنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس اور اختیارات کو علیحدہ کیا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
2 notes
·
View notes
Text
آڈیو لیکس کیس، وزیراعظم آفس ایجنسیوں کے روزمرہ امور میں مداخلت نہیں کرتا، عدالت میں جواب داخل
وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے عدالتی سوالات پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جواب جمع کرا دیا۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے سوال پوچھا کہ کس ایجنسی کے پاس شہریوں کی گفتگو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ شہریوں کی ٹیلی فونٹ گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے لیگل فریم ورک موجود ہے، فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس اداروں کو ریگولیٹ کرنے کا فریم ورک فراہم کرتا ہے،وزیراعظم آفس انٹیلی جنس…
View On WordPress
0 notes
Text
عالمی کیسینو خلیج میں جوئے پر شرط لگاتے ہیں | ایکسپریس ٹریبیون
عالمی کیسینو خلیج میں جوئے پر شرط لگاتے ہیں | ایکسپریس ٹریبیون
ہانگ کانگ / دبئی: یہ برسوں سے سفارت کاروں اور ایگزیکٹوز کے درمیان خاموش قیاس آرائیوں کا موضوع رہا ہے، لیکن اب جوئے بازی کے اڈوں کے عالمی مالکان اپنی نگاہیں ایک ایسے انعام پر مرکوز کر رہے ہیں: متحدہ عرب امارات میں جوا راس الخیمہ (RAK)، جو سات امارات میں سے ایک چھوٹے اور غیر معروف ہیں، نے اس سال کے شروع میں کہا تھا کہ اس نے کچھ ریزورٹس میں گیمنگ کو ریگولیٹ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اسی دن، لاس…
View On WordPress
0 notes
Text
مصنوعی نکوٹین لوفول ٹین ایج ویپنگ میں واپسی کو ہوا دے رہا ہے۔ #صحت
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%d9%85%d8%b5%d9%86%d9%88%d8%b9%db%8c-%d9%86%da%a9%d9%88%d9%b9%db%8c%d9%86-%d9%84%d9%88%d9%81%d9%88%d9%84-%d9%b9%db%8c%d9%86-%d8%a7%db%8c%d8%ac-%d9%88%db%8c%d9%be%d9%86%da%af-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%88/
مصنوعی نکوٹین لوفول ٹین ایج ویپنگ میں واپسی کو ہوا دے رہا ہے۔
“بعض اوقات بہت سارے لوگ غسل خانوں میں بخارات لگاتے ہیں، اس کے بارے میں کچھ کرنا مشکل ہوتا ہے،” محترمہ دھیمان نے کہا، انہوں نے مزید کہا کہ وہ vape نہیں کرتی ہیں۔
FDA کی جانب سے نوعمروں کی ذائقہ دار vapes تک رسائی کو محدود کرنے کی کوششوں کا گزشتہ چار سالوں کے دوران انڈیانا پولس کے مضافات میں لیزی برجیس کی انہیں حاصل کرنے کی صلاحیت پر بہت کم اثر پڑا۔ 16 سال کی عمر میں vape شروع کرنے کے چند ہفتوں کے اندر، اس نے کہا، وہ عادی تھی۔ اس نے کہا کہ ہمیشہ ایک گیس اسٹیشن، پرانے دوست یا ویب سائٹ پر کیلے کی آئس کریم یا کھٹے سیب جیسے ذائقوں میں ای سگریٹ فروخت ہوتی تھی۔
19 سال کی عمر میں، اس نے کہا، وہ THC کو بخارات بنا رہی تھی اور ایک آلہ استعمال کر رہی تھی — جو اب تمباکو سے پاک نیکوٹین کی تشہیر کر رہی ہے — جس میں ہر دو سے تین دن بعد سگریٹ کے دو پیکٹ جتنی نیکوٹین ہوتی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اس سے بیمار پڑی تھی جو سردی کی طرح شروع ہوئی تھی، جو تیزی سے سانس لینے، تقریباً سرمئی ہونٹوں اور احساس کمتری کی طرف بڑھ گئی تھی۔ جب وہ ایمرجنسی روم میں گئی تو اس کی آکسیجن سیچوریشن 67 تھی، جو کہ 95 یا اس سے زیادہ کی معمول کی حد سے بہت کم تھی۔ محترمہ برجیس نے کہا کہ وہ جلد ہی آئی سی یو میں بخارات سے متعلق پھیپھڑوں کی چوٹ کے ساتھ تھیں۔
وہ اپنی نیکوٹین کی لت کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور دن میں دو سگریٹ پیتی ہے۔
“میرے خیال میں ایف ڈی اے کو اب یہ سب مارکیٹ سے ہٹا دینا چاہیے،” محترمہ برجیس نے ذائقہ دار ویپس کے بارے میں کہا۔ “میرے خیال میں ان کے لیے یہ سب کچھ دوبارہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔ یہ اتنا بڑا ہے اور اب بہت سی کمپنیاں ہیں۔”
مصنوعی نکوٹین تمباکو سے حاصل کردہ مصنوعات سے کہیں زیادہ مہنگی رہتی ہے، جس کی وجہ سے صنعت کے کچھ ماہرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا “مصنوعی” کا آلہ لیبل درست ہے۔
ایک صنعتی تجارتی گروپ امریکن ویپنگ ایسوسی ایشن کے صدر گریگوری کونلے نے کہا کہ اس وقت غیر منظم واپنگ مارکیٹ FDA کی تشکیل کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایجنسی نے لاکھوں بالغوں کے ذریعہ استعمال ہونے والی مصنوعات کو حد سے زیادہ ریگولیٹ کرکے مسئلہ کو ہوا دی جو سگریٹ نوشی کا ایک محفوظ متبادل ڈھونڈتے ہیں۔
مسٹر کونلی نے کہا کہ “اس ملک کو ماضی کی پابندیوں سے کچھ سبق سیکھنا چاہیے جو بری طرح ناکام ہوئیں۔” “اگر آپ کسی ایسی مارکیٹ کو منصفانہ طور پر منظم نہیں کرتے ہیں جہاں قانونی بالغوں کی طرف سے بہت زیادہ مانگ ہوتی ہے، تو آپ سرمئی اور بلیک مارکیٹوں کو ایندھن دیں گے جہاں آپریٹرز فروخت کرنے سے پہلے ID کی جانچ کرنے سے متعلق نہیں ہیں۔”
Source link
0 notes
Text
حکومت کو کرپٹو اور بٹ کوائن سے متعلق تین ماہ میں قانون سازی کا حکم
حکومت کو کرپٹو اور بٹ کوائن سے متعلق تین ماہ میں قانون سازی کا حکم
کراچی / لاہور: عدالت نے حکومت کو کرپٹو اور بٹ کوائن کو تین ماہ میں ریگولیٹ کرنے کا حکم دے دیا۔ کراچی میں سندھ ہائی کورٹ میں کرپٹو کرنسی پر پابندی کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ دورانِ سماعت ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک کے نمائندے اور درخواست گزار پیش ہوئے۔ عدالت نے حکومت کو کرپٹو کرنسی کو تین ماہ میں ریگولیٹ کرنے اور وفاقی سیکریٹری خزانہ کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے 3 ماہ…
View On WordPress
0 notes