#راشن بیگ
Explore tagged Tumblr posts
Text
حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز پر خیراتی اور راشن بیگ کی فراہمی پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے
حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز پر خیراتی اور راشن بیگ کی فراہمی پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے
حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز پر خیراتی اور راشن بیگ کی فراہمی پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے اور پارلیمنٹ لاجز میں قائم سٹور بھی بند کر دیا ہے۔
یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نے پابندی کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ گذشتہ روز پارلیمنٹ لاجز کے یوٹیلٹی سٹورز پر واقعہ پیش آیا تھا، لیگی ایم این اے نے لاجز کے یوٹیلیٹی سٹور پر زیادہ مقدار میں فوڈ آئٹمز کی فراہمی پر اصرار کیا تھا۔
یوٹیلٹی سٹور پر خیراتی اور راشن بیگ کی…
View On WordPress
0 notes
Text
اے پی کو پانچ ٹن راشن چاول اسمگل کرنے پر چنئی کے قریب دو گرفتار
اے پی کو پانچ ٹن راشن چاول اسمگل کرنے پر چنئی کے قریب دو گرفتار
پولیس نے ایک مال بردار گاڑی کو روکا جس میں چاول کے تھیلے تھے۔ ایک ملزم راشن کی دکان پر ملازم ہے۔
سول سپلائیز سی آئی ڈی کے افسران نے ہفتہ کی رات ، تروولور ضلع کے پوننیری کے نزدیک ، الدو گاؤں میں ، عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کے لیے 100 بیگ چاول لے جانے والی ایک مال بردار گاڑی کو پکڑ لیا۔ آندھرا پردیش میں چاول اسمگل کرنے کی کوشش کرنے پر دوبارہ ملازم عملے کے رکن سمیت دو افراد کو گرفتار کیا گیا۔
خفیہ اطلاع پر عمل کرتے ہوئے ، پولیس کے ایک سپیشل ٹیم نے جس کی قیادت ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس ایس جان سندر نے کی ، گاؤں کے ایک گھر کی تلاشی لی۔ ٹیم نے ایک سامان کیریئر کو روک لیا جو پڑوسی آندھرا پردیش جانے والا تھا۔ جیسے ہی گاڑی تھیلوں سے لدی ہوئی تھی ، پولیس کو شک ہوا اور اس کی تلاشی لی گئی۔ انہوں نے پایا کہ گاڑی پی ڈی ایس چاول کے 100 تھیلوں سے بھری ہوئی تھی جس کا وزن 50 کلوگرام تھا۔
پولیس نے جوڑی سے پانچ ٹن چاول ضبط کیے – ایم دھامودھرن ، 61 تاڈاپرمبکم ، اور ایم سیلوراج ، 23 میدھور کے پوننیری تالک سے۔ دھامودھرن کو ریٹائرمنٹ کے بعد پلوان نگر میں ایک راشن کی دکان پر دوبارہ ملازم کیا گیا تھا ، اور سیلوراج سامان کیریئر کا ڈرائیور اور مالک تھا۔ انہیں عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا۔
پولیس نے بتایا کہ مشتبہ افراد نے چاول کو عوامی تقسیم کے لیے موڑ دیا اور اسے ایک گھر میں اسٹاک کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ آس پاس کے علاقوں سے پی ڈی ایس چاول بھی اکٹھا کر کے آندھرا پردیش میں فروخت کر رہے تھے جہاں چاول پالش کرکے واپس بازاروں میں بھیجے جائیں گے۔
گزشتہ ہفتے ، سی آئی ڈی سول سپلائیز نے ایک باپ بیٹے کو گرفتار کیا جس نے اے پی کو کشتیوں پر نو ٹن پی ڈی ایس چاول اسمگل کرنے کی کوشش کی۔ گرفتار ملزمان کی شناخت آر مورتی (53) اور اس کا بیٹا راجکمار ، 23 جو کہ ٹیلہ ، نیلور ضلع سے ہے۔ وہ پولی کٹ کے قریب سنتھنکپم سے لکڑی کی دو کشتیوں پر پی ڈی ایس چاول لے کر گئے۔ پولیس نے ایک ماہی گیر پرسنت کو پکڑنے کے لیے ایک چھاپہ مار کارروائی شروع کی ہے ، جس پر شبہ ہے کہ وہ اس کیس کا مرکزی ملزم ہے۔
. Source link
0 notes
Text
مخیر حضرات میدان میں آگئے، غریبوں، یتیموں اور مساکین میں راشن تقسیم - اردو نیوز پیڈیا
مخیر حضرات میدان میں آگئے، غریبوں، یتیموں اور مساکین میں راشن تقسیم – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین کراچی: کورونا کی تیسری لہر میں اضافے اور خراب معاشی صورت حال کے باوجود رواں رمضان المبارک میں بھی کراچی کے مخیر حضرات نے غریبوں، یتیموں اور مساکین کی امداد کے لیے اپنے دل کے دروازے کھول دیے ہیں۔ فلاحی اداروں کے ساتھ ساتھ مخیر حضرات کی جانب سے بھی کراچی میں محلوں اور مساجدکی سطح پر راشن کی تقسیم کا عمل جاری ہے، راشن تقسیم کرنے والے سہیل بیگ نے ایکسپریس کو بتایا کہ…
View On WordPress
0 notes
Text
'کورونا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے حکومت کو مزید سخت فیصلے کرنے پڑیں گے'
‘کورونا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے حکومت کو مزید سخت فیصلے کرنے پڑیں گے’
لاہور: گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ کورونا کا پھیلاؤ روکنے کیلئے حکومت کو مزید سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔اقوام متحدہ کے پاکستان میں کوآرڈینیٹرز سے گورنر ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں کورونا وائرس کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 36 ٹیلی میڈیسن سنٹر زمریضوں کو آن لائن تشخیص کی سہولت فراہم کر رہےہیں۔گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ 6لاکھ راشن بیگ مستحق لوگوں کے گھروں تک…
View On WordPress
0 notes
Text
ایک اور رکن اسمبلی میں کورونا وائرس کی تصدیق
کراچی (جی سی این رپورٹ)تھرپارکر سے اقلیتوں ��ی مخصوص نشست پر منتخب رکن سندھ اسمبلی رانا ہمیر سنگھ میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔چند روز قبل جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی عبدالرشید نے مٹھی میں وینٹی لیٹر روم کا افتتاح کیا تھا۔اس موقع پر رانا ہمیر سنگھ اور رکن قومی اسمبلی مہیش ملانی اور دیگر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ایم پی اے عبدالرشید میں کورونا کی تصدیق کے بعد میڈیکل ٹیم نے تھرپارکر سے 26 لوگوں کے نمونے ٹیسٹ کے لیے تھے جن میں رانا ہمیر سنگھ بھی شامل تھے۔سندھ سے جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی سید عبدالرشید میں 24 اپریل کو کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔سید عبدالرشید لیاری سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس-108 سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کورونا وائرس کا شکار ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں کورونا وائرس کے دوران اپنی ٹیم کے ہمراہ سماجی سرگرمیوں میں مصروف تھا اور ڈاکٹرز کی ہدایت پر میں نے کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرایا اور مجھ میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں فوری طور پر ہوم آئسولیشن میں آ گیا ہوں، فی الحال کسی قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں اور دو تین دن آئسولیش میں رہنے کے بعد میں ٹیسٹ دوبارہ کرواؤں گا۔منگل کے ہی روز ایوان بالا (سینیٹ) کے آزاد سینیٹر مرزا محمد آفریدی میں بھی کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے مرزا محمد خان آفریدی نے ایک بیان میں کہا کہ وہ گزشتہ ہفتے پشاور گئے تھے
جہاں انہوں نے مختلف علاقوں میں راشن بیگ تقسیم کیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ کچھ دن پہلے انہیں بخار اور جسم میں درد محسوس ہوا اور پھر انہوں نے 'حفاظتی اقدامات' کے طور پر اپنا ٹیسٹ کروایا، جس کا نتیجہ آج مثبت آگیا��مرزا محمد خان آفریدی کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت لاہور میں اپنے گھر میں آئیسولیشن میں ہیں اور بہتر محسوس کر رہے ہیں تاہم انہوں نے تجویز دی کہ مجھ سے ملاقات کرنے والے بھی اپنا ٹیسٹ ضرور کروالیں۔گزشتہ روز سندھ کے گورنر عمران اسمٰعیل نے بھی خود میں وائرس کی تشخیص ہونے کی تصدیق کی تھی۔رواں ماہ ہی متحدہ مجلس عمل کے رکن قومی اسمبلی منیر خان اورکزئی اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے بلدیات و دیہی ترقی کامران بنگش بھی کورونا کی وبا کا شکار ہوئے۔وزیر تعلیم سندھ سعید غنی ملک کے وہ پہلے سیاستدان تھے جن میں 23 مارچ کو کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی، تاہم انہوں نے چند روز میں ہی صحتیاب ہوکر اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی تھیں۔ Read the full article
0 notes
Photo
حاتم طائی کی قبر پر لات ؛؛ چار لاکھ آبادی والی تحصیل پیرمحل شہر کے 19وارڈ اور 133چکوک کے لئے حکومت پاکستان کی طر ف سے امدادی راشن کے صرف 100بیگ پیرمحل ؛حاتم طائی کی قبر پر لات ؛؛ چار لاکھ آبادی والی تحصیل پیرمحل شہر کے 19وارڈ اور 133چکوک کے لئے حکومت پاکستان کی طر ف سے امدادی راشن کے صرف 100بیگ تحصیل پیرمحل کی ہر یونین کونسل میںپانچ آٹے کے بیگ جبکہ 19وارڈ کے لیے صرف 20تھیلے امداد پر عوام سراپا احتجاج تفصیل کے مطابق حکومت پاکستان کی طرف سے تحصیل پیرمحل کے مستحق افراد کے لیے آٹے کے سوتھیلے بھجوائے گئے بھجوائے تھیلے جوکہ تحصیل پیرمحل شہر کے 19وارڈ اور 133چکوک کے لئے تھے 133چکوک کے لیے 80تھیلے مختص کیے گئے جبکہ پیرمحل شہر کے 19 وارڈ کے لیے 20تھیلے مختص کیے گئے ہر یونین کونسل میں صرف 5 آٹے کے تھیلے مہیاہونے پر ہر چک کو آدھا تھیلہ یعنی دس کلو آٹا حصہ میں آنے پر حکومت پاکستان کی لاک ڈان کے مستحقین کے لیے راشن کی فراہمی کے دعوے کی قلعی کھول دی میونسپل کمیٹی پیرمحل میں یونہی راشن کے آنے کی اطلاع ملی ہزاروں کی تعداد میں خواتین مرد جمع ہوگئے جنہوںنے آٹا کے حصول کے لیے دھکم پیل شروع کردی راشن لینے کی لسٹ جن خوش نصیبوں کے نام آئے وہ راشن لینے کے لیے سارا دن دھکم پیل میں خوارہوتے رہے اور اپنے موٹرسائیکل چوری کرواکر واپس اپنے گھروں کو گئے سماجی حلقوںنے حکومت پاکستان کی طرف سے امدادی راشن کی فراہمی کے نام پر عوام سے مذاق بند کرنے اور عزت نفس مجروح نہ کرنے کی اپیل کی ہے
0 notes
Photo
غریبوں کو راشن کی فراہمی سے قبل ہی سامان سے بھرا ٹرک لوٹ لیا گیا حیدر آباد (این این آئی)حیدرآباد میں غریبوں کو راشن کی فراہمی سے قبل ہی سامان سے بھرا ٹرک لوٹ لیا گیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومتِ سندھ کی جانب سے 25 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر حیدرآباد کے لیے غریب اور یومیہ اجرت کمانے والے افراد کے لیے 10 ہزار راشن بیگ کا انتظام کیا گیا اس ضمن میں ضلعی انتظامیہ کی
0 notes
Text
پــیِ ایــس 103 ایــن اے 244 آفیــشل نیــوز اپــڈیٹ*
*مُؤرخہ 2020-04-02*
*پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و رکن سندھ اسمبلی جناب بلال احمد غفار* نے آج کورونا وائرس وبائی مرض سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متاثرہ اقلیتی جماعتوں کے ضرورت مندوں ، مستحقین اور یومیہ اجرت کمانے والے مزدوروں کو اپنی مدد آپ کے تحت اور اپنی ٹیم کے تعاون سے راشن تقسیم کیا۔
*رکن سندھ اسمبلی جناب بلال احمد غفار* نے اپنے ایک بیان میں کہا کے کورونا وائرس وبائی مرض سے پیدا ہونے والی صورتحال میں اقلیتی جماعتوں کو بھی یاد رکھنا ہے، رنگ اور نسل سے ہٹ کر ہمیں انسانیت کی خدمت کرنی ہے۔ بلال احمد غفار۔
ہم نے ہر ممکن حد تک راشن تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بلال احمد غفار۔
اور انشاء اللہ آنے والے دنوں میں ہم مزید راشن بیگ کا بندوبست کرنے کی کوشش کریں گے۔
*منجــانــب:*
*نــجــیب کے خــان*
*پــیِ ایــس 103-ایــن اے 244*
*سوشــل / پــرنــٹ مــیڈیــا کــراچــی*
0 notes
Text
جنوبی افریقہ میں پانچ ہفتوں سے جاری لاک ڈاون
جنوبی افریقہ میں پانچ ہفتوں سے جاری لاک ڈاون
جنوبی افریقہ میں پانچ ہفتوں سے جاری لاک ڈاون،،
حکومت کی جانب سے مفت راشن کے اعلان پر طویل قطاریں لگ گئیں،،
رپورٹ کے مطابق سینٹورین شہر میں 5 ہفتوں سے جاری لاک ڈاؤن کے باعث شہریوں کے گھروں میں بھوک نے ڈیرے ڈال لیے،،
ایسے میں حکومت کی جانب سے مفت راشن کا اعلان ہوا کا جھونکا ثابت ہوا،،
راشن لینے کے لیے لوگوں کی 4 کلومیٹر سے بھی طویل قطار تھی،،
نجی اداروں نے 80 ہزار سے زائد راشن کے بیگ عوام میں تقسیم…
View On WordPress
0 notes
Text
صدا بہ صحرا۔ تقسیم ہند کے دلخراش واقعات کا ایک باب
صدا بہ صحرا۔ تقسیم ہند کے دلخراش واقعات کا ایک باب
اگست کا مہینہ ختم ہوا اور جیسا کہ ہماری قوم کا عمومی مزاج ”رات گئی، بات گئی“ کا ہوچکا ہے، ایسے میں اب قوم کا جذبہ آزادی خیر سے 2022ء کی چودہ اگست ہی کو جاگے گا۔ تقسیم ہند کے حوالے سے ایک مضمون پڑھنے کو ملا سوچا کہ قارئین کو بھی شریک کروں کہ آزادی کی نعمت کن پہاڑ جیسی مشکلات کا سامنا کرکے نصیب ہوئی۔
حال ہی میں معروف مؤرخ اور محقق ڈاکٹر حسن بیگ کی کتاب صدا بہ صحرا شائع ہوئی ہے۔ بنیادی طور پرکتاب ��ن مضامین کا مجموعہ ہے جو گزشتہ 45 سال کے دوران مختلف مواقع پر لکھے گئے اور رسائل میں شائع بھی ہوئے۔ مضامین کا ایک حصہ ان یاداشتوں پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر حسن بیگ کے والدِ گرامی مرزا محمود علی بیگ مرحوم نے وقتاَ فوقتاََ اپنے اجداد، خاندان، رشتہ داروں اور محلے داروں کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کو بتائیں۔ ان مضامین کو پڑھ کر بیسویں صدی کی معاشرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ تاریخ کی جو کتابیں لکھی جاتی ہیں وہ بادشاہوں کے گرد گھومتی ہیں یا پھر میدانِ جنگ کے واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جنھیں پڑھ کر بادشاہوں کے حالات سے تو واقفیت ہوتی ہے لیکن اُس دور کے معاشرے کی حالت کا اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ لاہور میں ہمارے بزرگ دوست مولوی عبد العزیز مرحوم جنھیں ڈاکٹر مبارک علی سے علمی عقیدت تھی(ڈاکٹرمبارک علی نے پیلسے ئرٹ کے سفر نامہ ہندوستان بعنوان جہانگیر کا ہندوستان کے اردو ترجمے کا انتساب بھی ان کے نام کیا تھا) وہ بھی ہمیں بتاتے تھے کہ کسی بھی دور کے معاشرتی حالات کو جاننے کے لیے اُس دور کے اُن افراد کی آپ بیتی پڑھیں جو اقتدار کے ایوانوں کی بجائے عام لوگوں کے ساتھ گزر بسر کرتے تھے۔ اس حوالے سے مولوی عبدالعزیز مرحوم ہی نے مجھے کتاب ”لُطف اللہ کی آپ بیتی“ کے مطالعے کی ترغیب دی، لطف اللہ فارسی کے ایک استاد تھے جو انگریزوں کو فارسی پڑھایا کرتے تھے۔کتاب کا دوسرا حصہ ڈاکٹر حسن بیگ کے اسفار، شخصی خاکوں اور علمی اور ادبی مضامین سے متعلق ہے۔
تقسیمِ ہند کا مضمون اُن حالات اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے جن کا سامنا تقسیم کے وقت مسلمانوں کو کرنا پڑا۔ 1947ء کے ہند میں مسلم لیگ اور کانگریس کی مشترکہ حکومت تھی۔ سردار پٹیل وزیر داخلہ تھے اور انتظامی امور ان کے پاس تھے اور امن و امان کو قائم رکھنا بھی اُن ہی کی بنیادی ذمہ داری تھی۔ سردار پٹیل نے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے ہندوؤں اور سکھوں کوتیار کیا۔ ان کو کثیر تعداد میں سرکاری فیکٹریوں سے تلواریں بنوا کر فراہم کیں۔ ہندو اور سکھوں کو اجازت دی گئی کہ وہ تلوار کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔ سکھوں کی چھوٹی کرپانوں کو بڑی تلواروں سے بدل دیا گیا۔ اس سے پہلے سکھ چھوٹی کرپانوں کو کُرتے یا بنیان کے اندر رکھتے تھے یا پھر پگڑی کے اندر بالوں میں چھپا لیتے کہ کرپان ان کے مذہب کا لازمی جُز تھی۔ مگر اس اجازت کے بعد یہ ہوا کہ جس سکھ کو دیکھو سائیکل پر تلوار لٹکائے جارہا ہے۔ دفتر میں بابو کام پر آرہا ہے تو تلوار اس کی میز پر رکھی ہے۔ مسلمانوں پر پابندی تھی کہ لکڑی بھی نہیں رکھ سکتے چاقو بھی جیب میں نہیں ہونا چایئے۔ اکیلا مسلمان کہیں آتا جاتا مل جاتا تو سکھ اُس پر حملہ کردیتے۔ کئی مسلمان اس طرح کے حملوں میں شہید ہوئے۔آہستہ آہستہ انفرادی حملے اجتماعی حملوں کی شکل اختیارکرگئے۔ صوبہ بہار، گڈھ مکٹیسر(صوبہ یوپی)، گوڑ گاؤں (صوبہ پنجاب)، نواکھلی، کلکتہ،حیدرآباد اور بمبئی میں بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے۔مکٹیسر میں ہندوؤں کا نہان سال بہ سال ہوتا ہے، اس میں ہندو اور مسلمان شریک ہوتے تھے، حسبِ روایت اس سال بھی شریک تھے۔ کچھ سیلانی، کچھ دوکاندار، ایک سرکس کا مالک مسلمان تھا،جن سنگھی اور سیوا سنگھی غنڈے وہاں پہنچے اور سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ اُن کی دوکانیں لوٹ لیں، مردوں کو جان سے مار دیا، عورتوں اور بچوں کو اغوا کیا، سرکس پر حملہ کیا، شیر کی تکہ بوٹی کردی۔حد تو یہ ہوئی کہ دلّی آکر اعلانیہ اپنے شرمناک اور غیر انسانی فعل کی شیخیاں بھی بگھارتے پھرے۔سردار پٹیل نے ان کو تحفظ دینے کی خاطر مسلمان افسروں کا تبادلہ کردیا اور ان کی جگہ ہندوؤں اور سکھوں کو تعینات کردیا۔
دلّی میں فسادات کے لیے 5 ستمبر 1947ء کا دن مقرر کیا گیا۔ اس سے پہلے مسلمانوں کے مکانوں پر نشانات لگا دیے گئے۔ عین جمعہ کی نماز کے وقت مسجد فتح پوری میں گڈوڈیہ مارکیٹ سے بم پھینکا گیا، اس حملے میں ایک شہادت ہوئی۔ لیکن یہ ایک اشارہ تھا، اس کے بعد محلہ محلہ، شہر شہر اور گاؤں گاؤں قتل و غارت گری شروع ہوگئی۔جو مسلمان جاں بچا سکے وہ بے سروسامانی میں بھاگے، عورتوں اور بچوں کا اغوا کیا گیا۔ پولیس اور فوج اِن کی مدد کو موجود تھی۔ جو مسلمان مقابلہ کرتا اُسے پولیس گولی ماردیتی۔نارتھ بلاک سیکریٹیرٹ میں ایک پوسٹ ماسٹر صاحب تھے۔ پنجاب کے رہنے والے تھے، نمازی پرہیزگار تھے اور پڑوسیوں اور محلے والوں سے اچھے تعلقات تھے۔ جب فساد کی خبریں آئیں تو اُن کا ایک ہندو پڑوسی اُن کے پاس آیا کہ آپ اپنا اثاثہ ہمارے کواٹر میں رکھ دیں اور اور خود بیوی بچوں کو لے کر ہمارے ہاں آجائیں۔ پوسٹ ماسٹر اور اُن کے لڑکوں نے یہ ہی کیا۔ ہندو پڑوسی کا لڑکا جن سنگھی تھا، وہ بندوق لیے ہوئے آیا اور پوسٹ ماسٹر اور اُن کے لڑکوں کو شہید کردیا۔ ایک صاحب اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ پیدل جارہے تھے، کچھ سکھ آئے اور کہا کہ ہماری بیوی کو لے کر کہاں جارہا ہے۔ آدمی کو زدوکوب کیا اور اُس کی بیوی کو لے کر بھاگ گئے۔ ایک مسلمان بچے کو پکڑا اور اپنے اُسی عمر کے بچے کو کرپان دے کر اس مقابلہ کرنے کو کہا، خود چاروں طرف گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے اور مسلمان بچے کو کرپان کے وار سے شہید کردیا۔
دلّی میں جب فسادات بڑھے تو حکومت نے 72 گھنٹے کا کرفیو لگا دیا، صرف تھوڑی دیر کے لیے کرفیو کُھلتا۔ کرفیو کے دوران کوئی مسلمان گھر سے نہیں نکل سکتا تھا، مگر ہند و دندناتے پھرتے تھے۔ مسلمانوں ک�� ایک ایک گلی میں فوج لگا دی گئی تھی۔مسلمان گھرکی چھتوں پر بھی نہیں چڑھ سکتے تھے۔مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کی اشیا کی بھی قلت ہوگئی۔ راشن کی دوکان والے راشن لینے جاتے تو ان کو بھی مار دیا جاتا۔ہندو ؤں نے کہنا شروع کردیا کہ سب مسلمان پاکستان جائیں، ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
یہ تو فقط چند سطری واقعات ہیں۔ ایسے ہزاروں واقعات ہیں، مگر ہمارے یہاں پاک بھارت مشترکہ ثقافت کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ تقسیم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ سکھوں کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ یقینا اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پڑوسی ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات ہونے چاہیں اور مذہبی جذبات کااحترام بھی روا رکھا جانا چاہیے۔ لیکن کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ سرحدیں ختم ہو جانی چاہیے؟ اور اپنے وجود اور شناخت کو مٹا دینا چاہیے، جیسا کہ ہمارے یہاں ترقی پسند اور لبرل کہلائے جانے کے شوق میں مبتلا دانشوروں نے بیانیہ گھڑ رکھا ہے۔یہ وطن عوام کی قربانیوں سے وجود میں آیا ہے، لاکھوں شہداء نے اپنے خون سے اس کی آبیاری کی ہے۔ اس کی حفاظت اس کی ترقی اور اس کی عوام کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی رائے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ جاگیرداروں، وڈیروں، مذہبی پیشوائیت، سرمایہ داروں کی اقتدار اور وسائل پر اجارہ داری کو ختم ہونا چاہیے۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
Text
پاکستان اسپورٹس بورڈ پر باکسر عامر خان کا الزام
پاکستانی نژاد برطانوی باکسر عامر خان نے پاکستان اسپورٹس بورڈ پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں مستحق افراد میں راشن تقسیم کرنے میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ پاکستان اسپورٹس کمپلیکس کی انتظامیہ نے عامر خان باکسنگ اکیڈمی کے دروازے بند کردیئے۔
باکسر عامر خان کا کہنا تھا کہ وہ غرباء میں راشن بیگ تقسیم کرنا چاہتے تھے، پی ایس بی نے بتائے بغیر راشن تقسیم کرنے پر اعتراض کیا، انہوں نے پاکستان…
View On WordPress
0 notes
Photo
گورنر پنجاب کا سندھ میں ایک لاکھ راشن بیگ اور 10 ہزار گھرانوں کو قرض دینے کا اعلان – اردو نیوز پیڈیا اردو نیوز پیڈیا آن لائین کراچی: گورنر پنجاب سندھ کے بارش متاثرین کی مدد کے لیے کراچی پہنچ گئے، انہوں نے
0 notes
Text
سسکتی زندگیوں کے لیے تم بھی کچھ کرونا - رانااعجاز حسین چوہان
ایک نو دس سالہ بچی کریانہ سٹور پر آئی اور ایک سائیڈ پر کھڑی ہوگئی ، دکاندار گاہکوں کو سامان دیتا رہا ، اور باری آنے پر بچی سے پوچھا کہ اسے کیا چاہیے ؟ بچی پہلے تو کہتی رہی کہ نہیں انکل پہلے باقی لوگوں کو ہی سامان دے دیں، پھر اس نے مٹھی میں پکڑے دس دس روپے کے دو نوٹ دکاندار کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ انکل 20 روپے کا آٹا دے دیں ۔ اس پر بے حس دکاندار نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ ان کا کیا آئے گا ، آدھا کلو آٹا بھی نہیں آئے گا ، پھر20 روپے کا آٹا تول کر بچی کی جانب بڑھا دیا ۔ اس چھوٹے سے واقعے نے راقم کو انتہائی رنجیدہ اور بے چین کردیا،میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ شام گئے آٹا خریدنے آئی اس بچی کے گھر کے حالات نہ جانے کیسے ہوں گے ۔ اور میں اس وقت سے سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہ عام حالات میں بھی بہت مشکل سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جہاں مفلسی و فاقہ کشی کے ڈیرے ہیں۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے پچیس فیصد سے زائد افراد خط سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایک وقت کا کھانا کھا لیں تو دروازے کی طرف تکتے رہتے ہیں کہ دوسرے وقت کا کھانا کہاں سے آئے گا۔ لیکن اس کے باوجود ان کی بیویاں اور بچے کسی نہ کسی طرح ایسے کام میں مصروف رہتے ہیں کہ کچھ کما کر لا سکیں تا کہ پیٹ کی بھوک بجھانے کا بندوبست ہو جائے، یہ مفلوک الحال طبقہ اپنی زبان پر حرف شکایت نہیں لاتا اور نہ ہی کسی کے سامنے دست دراز کرتا ہے ۔ اور اب جبکہ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے کاروباری ادارے، فیکٹریاں و کارخانے ، ٹرانسپورٹ وغیرہ سب کچھ تو بند ہے ایسے میں غریب محنت کشوں اور تازہ روزی کماکر گزر بسر کرنے والوں کے حالات نہ جانے کیا ہوں گے۔کرونا وائرس سے زندگی کا پہیہ جام ہے تو دہاڑی داروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہوں گے ، نہ جانے وہ کیسے وہ اپنا گزر بسر کررہے ہوں گے ، نہ جانے بھوک کے مارے بچوں کو کیا کیا دلاسہ دیتے ہوں گے ۔ محنت کش طبقہ کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہ ہونے کیلئے وزیراعظم پاکستان نے مستحقین کے گھروں تک اشیائے خوردونوش اور ادویات پہنچانے کے متعدد اقدامات اٹھا نے کے عزم کا اظہار کیا ہے ، اوراس مقصد کیلئے ٹائیگر فورس تشکیل دیکر یوتھ رضا کار پروگرام کا اجراء کیا ہے۔ پنجاب حکومت نے بھی مستحقین میں مفت راشن کے لئے رقم تقسیم کرنے کے لئے کمیٹیاں قائم کر دی ہیں ، جن کے ذریعے 4ہزار روپے فی گھر مستحقین کی دہلیز پر تقسیم کئے جائیں گے ۔ اسی طرح سندھ حکومت نے بھی 20لاکھ راشن بیگ مستحق افراد میں تقسیم کرنے کا بندوبست کیا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں عوام کیلئے جتنے بھی ریلیف پیکیج جاری کئے جاتے رہے وہ مستحقین کے بجائے پارٹی ورکروں اور چہیتوں میں ہی تقسیم ہوتے رہے ہیں ۔ اس لیے بہتر ہو گا کہ حکومت قومی وسائل کی مستحق افراد تک رسائی میں شفافیت کو یقینی بنائے تاکہ حکومتی امداد مستحق افراد تک پہنچ سکے۔ اس کے علاوہ یہ کہ بحران کی کیفیت میں ہر قسم کے حکومتی اور غیر حکومتی پیکیج، فلاحی تنظیموں اور انفرادی طور پر مدد کرنے والوں کی تمام تر توجہ غریب محنت کشوں پر تو ہوتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں لوئر مڈل کلاس یا مڈل کلاس افراد کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے ۔ پندرہ بیس ہزار کی آمدنی والے سفید پوش لوگ جو کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے اور بمشکل اپنا بھرم قائم رکھ پاتے ہیںان کی مدد اور معاونت کے لئے کوئی نہیں سوچتا، کہ فلاں صاحب کی دکان بند پڑی ہے ، فلاںکا کام کاج نہیں ہے کیسے گزارا ہو رہا ہوگا؟حکومت کی طرف سے اس طبقہ کو بھی ٹیکسوں اور انرجی بلوں کی مد میں چھوٹ ملنا چاہیے ، اور ان کے نقصان کے ازالہ کے لیے موثر اقدامات اٹھانا چاہیے ۔ خوف و مایوسی کی صورتحال میں آج الحمد للہ چند شہروں میں کرونا متاثرین کی مدد کے لئے گمنام مخیر افراد بھی سرگرم عمل ہیں، جن کا وجود اہل پاکستان کے لیے باعث خوشی ہے۔ جو کہ نہ تو اپنا چہرہ دکھاتے ہیں اور نہ ہی نام بتاتے ہیں ، اور نہ ہی ان کو سیلفی بنا کر تصویر اپ لوڈ کرنے کی جستجو ہوتی ہے ۔ بس خاموشی سے مستحق افراد کو راشن اور دوسری اشیاء دے کر ان کی دعائیں لیتے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے پچھلے چند دنوں میں تیس چالیس کروڑ سے زیادہ کا راشن تقسیم کیا ۔ اسی طرح اخوت محلہ کی سطح پرمواخات کے تصور کو لے کر چل رہی ہے ، دوسری تنظیمیں بھی اپنے اپنے انداز میں کام کر رہی ہیں۔ لا ک ڈاؤن کی کٹھن صورتحال میںآج ہمارے ملک کو مثالی ایثار و یکجہتی کی ضرورت ہے جو کہ حکمران ، سیاسی و دینی شخصیات، سرکاری و نجی اداروں کے افسران ، ممتاز صنعتکار، کاروباری شخصیات، اور سماجی رہنماؤں کی عملیت پسندی کی متقاضی ہے ۔ مخیر حضرات کو اپنے اپنے دائروں ،احاطوں اور حدود کے اندر مستحقین کی مدد کو یقینی بنا نا چاہیے ، اور ملک کے متمول طبقات کی جانب سے صلہ رحمی کے جذبہ کو بروئے کار لا کر اپنے پاس پڑوس، گلی محلے اور شہر بھر میں ایسا اہتمام کرنا چاہیے کہ کوئی فرد کسی گھر میں بھوکا نہ سوئے اور ادویات نہ ہونے کے باعث کسی کی ہلاکت نہ ہو۔ جبکہ عادت سے مجبور گرانفروش اور منافع خوروں کو اپنی ’’تسکین طبع‘‘ کو کسی مناسب وقت کیلئے اٹھا ر کھنا چاہیے ، اور اشیاء خوردونوش کی رضاکارانہ طور پر مناسب نرخوں پر فراہمی، یقینی بنانا چاہیے تاکہ عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ نہ ہو۔ Read the full article
0 notes
Text
پاکستانیوں کیلئے شاہ سلمان کا خاص تحفہ پہنچ گیا
اسلام آباد/ریاض (جی سی این رپورٹ) شاہ سلمان کی جانب سے بھیجا گیا تحفہ پاکستان پہنچ گیا ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی جانب سے بھیجے گئے 16 کروڑ 61 لاکھ روپے کے راشن بیگز پاکستان کے حوالے کردیے گئے، راشن لاہور سمیت پنجاب کے 10 اضلاع میں تقسیم کیا جائے گا۔ لاک ڈاؤن سے متاثرین اور مستحقین تک راشن پہنچانے کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔ امدادی پیکج میں دیے گئے ہر راشن کے بیگ میں 10 کلو آٹا، 5 کلو چینی، 5 کلو چاول، 5 لیٹر ککنگ آئل، 2 کلو خشک دودھ، آدھا کلو چائے کی پتی اور 2 کلو کھجوریں شامل ہیں۔ پاکستان میں تعینات سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی نے راشن بیگز کی صورت میں امدادی سامان جمعرات کو اسلام آباد میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کے سپرد کیا تھا۔خیال رہے کہ 5 ٹیمیں راشن کی تقسیم کے امور کی نگرانی کررہی ہیں۔اس راشن پیکج سے پنجاب میں ایک لاکھ سے زائد افراد مستفید ہوں گے۔ امداد کی تقسیم میں دیگر متعلقہ اداروں سے بھی تعاون حاصل کیا جائے گا۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو کورونا کے معاملے پر کوئی امداد نہیں ملی،صرف آئی ایم ایف نے قرضوں کی اقساط میں سہولت دی، اور غیرملکی قرضوں کی شرح سود کی ادائیگی میں ایک سال کی رائٹ ملی، کسی ملک یا عالمی ادارے نے ایک ڈالر بھی مدد نہیں کی، کوئی کتنا بھی جھوٹ بولے عوام سچ ڈھونڈ لیں گے۔ وزیراعظم نے ملاقات کرنے والے سوشل میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کورونا پاکستان سمیت دنیا بھر کیلئے امتحان ہے۔ کورونا وبائی بیماری ہے، کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کورونا کب تک رہے گا۔ قوم بن کر اس امتحان میں نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ بھارت، بنگلا دیش اور افریقہ جیسے ممالک مشکل سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا، یورپ اور برطانیہ سے ہمارے حالات مختلف ہیں۔ Read the full article
0 notes
Text
مخیر افراد اور اداروں نے مستحقین میں لاکھوں راشن بیگ تقسیم کر دیے
مخیر افراد اور اداروں نے مستحقین میں لاکھوں راشن بیگ تقسیم کر دیے
مخیر افراد زکوٰۃ، فطرہ، صدقات اور عطیات مستحق خاندانوں میں رقم، راشن، کپڑوں اور عید ��حائف کی صورت میں تقسیم کرتے ہیں
کراچی: کراچی آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ہے، کراچی شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ملک کے کسی بھی علاقے میں کوئی قدرتی آفت آئے اس شہر کے باسی ہم وطنوں کی امداد کے لیے ہمیشہ آگے بڑھتے ہیں شہر کے مخیرافراد عام دنوں میں غریب اور مستحقین کی امداد کرتے…
View On WordPress
0 notes
Text
*پــیِ ایــس 103 ایــن اے 244 آفیــشل نیــوز اپــڈیٹ*
*مُؤرخہ 2020-03-28*
*پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و رکن سندھ اسمبلی جناب بلال احمد غفار* نے آج اپنے انتخابی حلقے میں کورونا وائرس وبائی مرض سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متاثرہ ضرورت مندوں ، مستحقین اور یومیہ اجرت کمانے والے مزدوروں کو اپنی مدد آپ کے تحت اور اپنی ٹیم کے تعاون سے راشن تقسیم کیا۔
*رکن سندھ اسمبلی جناب بلال احمد غفار* نے اپنے ایک بیان میں کہا کے ہم نے اپنے تینوں یو سیز میں ہر ممکن حد تک راشن تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے اور انشاء اللہ آنے والے دنوں میں ہم مزید راشن بیگ کا بندوبست کرنے کی کوشش کریں گے۔
*منجــانــب:*
*نــجــیب کے خــان*
*پــیِ ایــس 103-ایــن اے 244*
*سوشــل / پــرنــٹ مــیڈیــا کــراچــی*
0 notes