#جوش بول
Explore tagged Tumblr posts
Text
🇵🇸سيكون شرف حياتي ان اكون فلسطينيا 💐هذا ما قاله
المسؤول في وزارة الخارجية الأميركية جوش بول الذي استقالته بسبب تعامل إدارة الرئيس جو بايدن مع الحرب الدائرة في قطاع
🇵🇸
13 notes
·
View notes
Link
تزايد السخط بين معاوني بايدن بسبب سياسته تجاه غزة.. يخشون خسارة قواعد جماهيرية مع احتدام السباق الرئاسي https://sawtelghad.net/15970
0 notes
Text
مسؤول في وزارة الخارجية الامريكية يستقيل بسبب القرارات "المدمرة" في الحرب بين إسرائيل وحماس
استقال مسؤول في وزارة الخارجية شارك في نقل الأسلحة إلى حلفاء أمريكا الرئيسيين من منصبه يوم الأربعاء، قائلاً إن “القرارات قصيرة النظر” التي اتخذتها إدارة بايدن ساهمت في اضطراره إلى تقديم تسوية أخلاقية لا تطاق. وكتب المسؤول، جوش بول، في منشور يشرح فيه قراره: “خلال السنوات الـ 11 التي قضيتها في حياتي، قمت بتقديم تنازلات أخلاقية أكثر مما أستطيع أن أتذكر، كل منها كان ثقيلًا، ولكن كل منها كان مع الوعد…
View On WordPress
0 notes
Text
عادي 9 أكتوبر 2023 11:22 صباحا قراءة دقيقة واحدة تعرض البيت الأبيض لسيل من الانتقادات من جانب المحافظين، بسبب حفل شواء بمشاركة الرئيس الأمريكي جو بايدن، أقيم في الوقت الذي تتعرض فيه إسرائيل حالياً لهجوم دام من الفصائل الفلسطينية في غزة.وقالت شبكة «فوكس نيوز» التلفزيونية، إن بايدن استضاف رغم الهجوم الذي تتعرض له إسرائيل حالياً من فصائل فلسطينية، حفلة طعام في البيت الأبيض، قام خلالها الرئيس وعقيلته جيل بايدن بتقديم اللحوم المشوية لموظفي الإدارة الأمريكية وعائلاتهم.ووفقاً لشهود عيان، ترافقت الحفلة في البيت الأبيض، بالموسيقى الحية، ما أثار هذا التصرف امتعاض العديد من المحافظين في الولايات المتحدة.وكتب السيناتور الجمهوري عن ولاية ميسوري جوش هاولي على «إكس»: «بينما تحتجز الفصائل الفلسطينية العديد من الأمريكيين كرهائن، يستمتع جو بايدن بنزهة مع الموسيقى الحية».وانضم عدد من المحافظين الآخرين إلى هاولي في انتقاد البيت الأبيض على وسائل التواصل الاجتماعي بسبب هذا الحدث.وذكرت شيمينا باريتو مديرة الشؤون الخارجية للسيناتور الجمهوري راند بول: «تثير الغضب والقلق، أولويات الرئيس الأمريكي. حفلة شواء في البيت الأبيض بينما تتعرض إسرائيل للهجوم؟».وقال عضو الكونغرس السابق سكوت تايلور: «نظراً للأحداث الأخيرة، وبالطبع الأخبار التي تفيد بأن العديد من الأمريكيين محتجزون كرهائن في قطاع غزة، كنت سألغي حفل الشواء مع الموسيقى الحية في البيت الأبيض». https://tinyurl.com/3p7j8th9 المصدر: صحيفة الخليج
0 notes
Text
اگر طیب ایردوآن ہار جاتے؟
دعا کریں، طیب ایردوآن جیت جائیں، ورنہ خطہ بہت سے مسائل سے دوچار ہو جائے گا۔’ یہ جملہ پاکستان کے وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا ہے۔ ترکیہ کے صدارتی انتخابات کے پہلے راؤنڈ کے بعد کی بات ہے جو بے نتیجہ رہا۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب وزیر اعظم نے یہ بات اپنے ایک دوست عظیم چودہری سے تشویش کے لہجے میں کہی۔ ترکیہ جیسا عزیز از جان دوست ہو یا کوئی بھی دوسرا دوست ملک، ایک دوست کی حیثیت سے اس کے انتخابی عمل میں اصولی طور پر اتنی دل چسپی ہی ہونی چاہیے کہ انتخابات پر امن رہیں اور عوام کی حقیقی رائے کے مظہر ہوں۔ یہ بھی درست ہے کہ رجب طیب ایردوآن پاکستان کے لیے ہمیشہ پرجوش اور پر خلوص رہے ہیں اور شریف خاندان سمیت پاکستانی قیادت کے ساتھ ان کے تعلقات بھی گرم جوش ہیں۔ اس وجہ سے انتخابات میں ان کی کامیابی کی خواہش اور فکر مندی فطری ہے لیکن خطے کے مسائل سے اس معاملے کا کیا تعلق؟ یہ سوال جتنا ترکیہ کے عوام کے لیے اہم ہے، اتنا ہی اہم پاکستان اور خطے کے دیگر ملکوں کے لیے بھی ہے۔ ترکیہ میں حالیہ انتخاب محض انتخاب نہ تھے، تہذیبی آویزش تھی۔ دو برس ہوتے ہیں، ترکیہ کے ایک چھوٹے صوبے بردر کے شہر بردر میں واقع محمد عاکف ایرسوئے یونیورسٹی میں ایک نوجوان اسکالر سر این دال سے ملاقات ہوئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے اس سنجیدہ طالب علم نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ ہماری قیادت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اس سلسلے میں مجھے جو کہنا تھا کہا لیکن جواب میں؛ میں نے یہ سوال کیا کہ جن ترکوں سے اس موضوع پر بات ہوتی ہے، وہ بہت پرجوش ہوتے ہیں یا ان میں تشویش کا ایک پہلو دیکھنے کو ملتا ہے۔ سبب کیا ہے؟ کہنے لگے کہ اس سوال کا جواب تو میں آپ کو اسی وقت بھی دے سکتا ہوں لیکن کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ کچھ چیزیں آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور خود کسی فیصلے پر پہنچیں۔ رات کا کھانا کچھ دیر میں ختم ہو گیا۔ مجھے کچھ خریدنا تھا چناں چہ ہم دونوں ان کی منگیتر کے ساتھ پہلے ہوٹل کی لابی میں پہنچے پھر شاپنگ ایریا میں اور اس کے بعد کچھ دیگر مقامات پر۔ کہنے لگے کہ آپ ہمارے ملنے جلنے اور دعا سلام کے طریقوں پر غور کیجئے گا۔ ترکی زبان ہمارے لیے کچھ ایسی اجنبی بھی نہیں۔ دو چار روز کسی جگہ گزار لینے کے بعد مسافر گفتگو کو سمجھنے لگتا ہے۔ ان کی بول چال میں بیشتر اسی قسم کے الفاظ ہوے ہیں جو ہم عام طور پر اردو یا عربی وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔ کچھ کسر اگر ہوتی ہے تو لہجے کی ہوتی ہے۔ لہجہ پکڑ لیا تو سمجھئے نصف سے زیادہ مسئلہ حل ہو گیا۔
امریکا میں جیسے آتے جاتے پاس سے گزرتے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے اور تھوڑی جان پہچان ہو تو ہیلو ہائے بھی ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی ترکوں کے ہاں بھی ہے۔ جہاں کہیں آنکھیں چار ہوئیں، مسکرا کر منھ ہی منھ میں کچھ کلمات کہہ دیے۔ ترک تیزی سے بولتے ہیں اور لہجے میں کچھ گمبھیر تا بھی ہوتی ہے لہٰذا ابتدائی سماعت میں بات بالعموم سمجھ میں نہیں آتی۔ سر این کے کہنے پر یہ مسکراہٹ اور خیرمقدمی الفاظ میں نے ذرا توجہ سے سنے تو معلوم ہوا کہ یہ تو بالکل پاکستان جیسی صورت حال ہے جیسے جان پہچان ہو نہ ہو، آنکھ ملتے ہی ہم لوگ السلام علیکم کہہ دیتے ہیں، ان کے یہاں ‘ سلام علیک’ کہا جاتا ہے۔ سر این نے بتایا کہ یہ ایک نیا رجحان ہے، زیادہ سے زیادہ دو ڈھائی دہائی پہلے کا۔ لوگ باگ نجی زندگی میں ہو سکتا ہے کہ ایک دوسرے پر سلامتی ہی بھیجتے ہوں لیکن سرکاری دفاتر، تقریبات اور پبلک مقامات پر ان الفاظ سے گریز کرتے ہوئے ‘ مرحبا’ کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ ماضی میں یہ خطرہ ہوتا تھا کہ آپ ایسا کرتے ہوئے پائے گئے تو ریاست آپ کو مذہبی قرار دے کر انتقام کا نشانہ بنا سکتی ہے۔ ‘ یہ تبدیلی طیب ایردوآن کی مرہون منت ہے’. سر این نے بتایا۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگ اب مرحبا نہیں کہتے، بے شمار لوگ کہتے ہیں لیکن ایسے الفاظ استعمال کرنے والوں کا نظریاتی پس منظر مختلف ہے۔ سلام علیک والے اپنے رجحان کا تحفظ چاہتے ہیں اور مرحبا والے پرانے رجحان کی واپسی کے آرزو مند ہیں۔ یہ گویا ایک تہذیبی اور نظریاتی آویزش ہے جو ہمہ وقت ترکی میں جاری رہتی ہے۔ حالیہ انتخابات میں یہی کشمکش بھرپور طریقے سے ابھر کر سامنے آئی۔ ان انتخابات کا تہذیبی پہلو تو یہی تھا جس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ مشکل نہیں۔ تہذیبی آویزش کے پہلو بہ پہلو ترکیہ میں ایک سیاسی کشمکش بھی جاری رہی جو تہذیبی پہلو کا ایک فطری پہلو ہے جس میں پاکستان اور مسلم دنیا کے بارے میں غور و فکر کئی پہلو پوشیدہ ہیں۔ پہلے بھارت کا ذکر۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان فطری محبت اور گرم جوشی بھارت کے لیے ہمیشہ فکر مندی کا باعث رہی ہے لہٰذا بھارت نے ترکیہ میں اپنی لابی بنانے اور مضبوط کرنے کے لیے ان تھک محنت کی ہے۔ اس مقصد کے لیے غیر روایتی سفارت کاری کو ذریعہ بنایا گیا۔
آشرم بنائے گئے جہاں ترک سماج کے با اثر لوگوں کو مدعو کر کے ان سے یوگا وغیرہ کے ذریعے رابطے مضبوط بنائے گئے۔ اسی طرح اب وہاں ہولی جیسے تہوار بھی باقاعدگی سے منائے جانے لگے ہیں۔ استنبول کی سڑکوں پر بالی وڈ کے اداکاروں کے بڑے بڑے بل بورڈ بھی اکثر اوقات دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں کتنی مؤثر رہی ہیں؟ اس کا اندازہ چند برس قبل اس وقت زیادہ ہوا جب بھارت نے آئین میں تبدیلی کر کے مقبوضہ کشمیر کے متنازع خطے کی حیثیت بدل کر اسے بھارت کا باقاعدہ حصہ بنایا۔ اس موقع پر ترکیہ میں بھی حکومت اور غیر سرکاری سطح پر مکالمے ہوئے۔ ان مواقع پر نوٹ کیا گیا کہ بالائی طبقات کے کچھ نمائندے بعض عرب ملکوں کی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر غیر جانب داری اختیار کرنے کے حق میں تھے۔ ترکیہ میں ایسی رائے رکھنے والا یہ طبقہ وہی ہے جو ان انتخابات میں کمال کلیچ دار اولو کی حمایت میں تھا۔ خود کمال کلیچ دار اولو بھی یہی رائے رکھتے ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران میں انھوں دو ٹوک اعلان کیا تھا کہ وہ خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی لائیں گے۔ انھوں نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ ترکیہ کا رخ مسلم دنیا کی طرف زیادہ ہے، وہ اسے دوبارہ مغرب کی طرف موڑ دیں گے۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ ترکیہ کے خارجہ تعلقات کا ایک تیسرا رخ بھی ہے۔ اس ملک کی خارجہ پالیسی کے اس پہلو کا تعلق مشرق میں ابھرتے ہوئے طاقت کے نئے مراکز سے ہے۔ صدر رجب طیب ایردوآن نے امریکا اور نیٹو کا اتحادی رہتے ہوئے بھی مشرق کے سب سے بڑے اتحاد شنگھائی تعاون تنظیم میں بھرپور دل چسپی لی ہے اور اس میں شمولیت کے ابتدائی مراحل ایران کی طرح کامیابی سے طے کر لیے ہیں آسانی کے لیے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح سعودی عرب نے چین کے تعاون سے ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر خطے میں ابھرنے والے نئے امکانات سے استفادے کی تیاری کی ہے، اسی طرح ترکیہ بھی اپنے مغربی رشتے متاثر کیے بغیر اپنے فطری رشتوں یعنی مشرق کی طرف زیادہ بامعنی انداز میں لوٹ رہا ہے۔
اس میں ظاہر ہے کہ ترکیہ کے پیش نظر اقتصادی مفادات کے علاوہ نظریاتی پہلو بھی ہیں۔ اب یہ کہنا تو اضافی ہو گا کہ اس پر عزم پالیسی کے اصل معمار اور روح رواں صدر ایردوآن ہیں لیکن کمال کلیچ دار اولو اس پالیسی کے یک سر مخالف تھے اور انھوں نے علانیہ اس سے مراجعت کی بات کی تھی۔ اس پس منظر میں اگر حالیہ انتخابات میں صدر طیب ایردوآن کی کامیابی میں پاکستان اور مسلم دنیا کے لیے اطمینان کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں تو دوسری طرف خود ترکیہ کے اندر بھی اس سلسلے میں اطمینان کی گہری لہر پائی جاتی ہے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد مطمئن ہے کہ حالیہ انتخابات کے نتائج نے نہ صرف ان کے ثقافتی اور نظریاتی عقاید کا تحفظ یقینی بنا دیا ہے بلکہ یہ ممکن بھی نہیں رہا کہ اب کوئی ان کے وطن کو ان کے فطری اتحادیوں اور محبت کرنے والے دوستوں سے محروم کر سکے گا۔
ڈاکٹر فاروق عادل
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
🖋️ *اردو لکھنے میں کی جانے والی 12 غلطیاں* ۔
*# پہلی*
اردو کے مرکب الفاظ الگ الگ کر کے لکھنا چاہئیں، کیوں کہ عام طور پر کوئی بھی لفظ لکھتے ہوئے ہر لفظ کے بعد ایک وقفہ ( اسپیس ) چھوڑا جاتا ہے، اس لیے یہ خود بخود الگ الگ ہوجاتے ہیں۔
دراصل تحریری اردو طویل عرصے تک ’کاتبوں‘ کے سپرد رہی، جو جگہ بچانے کی خاطر اور کچھ اپنی بے علمی کے سبب بہت سے لفظ ملا ملا کر لکھتے رہے۔ جس کی انتہائی شکل ہم ’آجشبکو‘ کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بہت سے ماہرِ لسانیات کی کوششوں سے اب الفاظ الگ الگ کر کے لکھے تو جانے لگے ہیں، لیکن اب بھی بہت سے لوگ انہیں بدستور جوڑ کر لکھ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب یہ اردو کے الگ الگ الفاظ ہیں، تو مرکب الفاظ کی صورت میں جب انہیں ملا کر لکھا جاتا ہے، تو نہ صرف پڑھنا دشوار ہوتا ہے، بلکہ ان کی ’شکل‘ بھی بگڑ جاتی ہے۔
مندرجہ ذیل میں ان الفاظ کی 12 اقسام یا ’ طرز ‘ الگ الگ کر کے بتائی جا رہی ہیں، جو دو الگ الگ الفاظ ہیں یا ان کی صوتیات/ آواز کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں الگ الگ کرکے لکھنا ضروری ہے۔
* جب کہ، چوں کہ، چناں چہ، کیوں کہ، حالاں کہ
* کے لیے، اس لیے، اس کو، آپ کو، آپ کی، ان کو، ان کی
* طاقت وَر، دانش وَر، نام وَر
* کام یاب، کم یاب، فتح یاب، صحت یاب
* گم نام، گم شدہ
* خوش گوار، خوش شکل
* الم ناک، وحشت ناک، خوف ناک، دہشت ناک، کرب ناک
* صحت مند، عقل مند، دانش مند،
* شان دار، جان دار، کاٹ دار،
* اَن مول، اَن جانا، اَن مٹ، اَن دیکھا، اَن چُھوا
* بے وقوف، بے جان، بے کار، بے خیال، بے فکر، بے ہودہ، بے دل، بے شرم، بے نام،
* امرت سر، کتاب چہ
* خوب صورت، خوب سیرت وغیرہ
*# دوسری*
اردو لکھتے ہوئے ہمیں یکساں آواز مگر مختلف املا کے الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے، جیسے کہ ’کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں وغیرہ
*# تیسری*
اردو کا اہم ذخیرہ الفاظ فارسی کے علاوہ عربی کے الفاظ پر بھی مشتمل ہے، جس میں بہت سی تراکیب بھی عربی کی ہیں، ان کو لکھتے ہوئے ان کے املا کا خیال رکھنا چاہیے، جس میں بعض اوقات الف خاموش (سائلنٹ) ہوتا ہے جیسے بالکل، بالخصوص، بالفرض، بالغرض وغیرہ۔ جب کہ کہیں چھوٹی ’ی‘ یا کسی اور لفظ پر کھڑی زبر ہوتی ہے، جو الف کی آواز دیتی ہے، جیسے وزیراعلیٰ، رحمٰن اور اسحٰق وغیرہ، اسی طرح بہت سی عربی تراکیب میں ’ل‘ ساکت ہوتا ہے جیسے ’السلام علیکم‘ اسے ’ل‘ کے بغیر لکھنا فاش غلطی ہے۔
*# چوتھی*
زیر والے مرکب الفاظ جیسے جانِِ من (نہ کہ جانے من) جانِ جاں (نہ کہ جانے جاں) شانِ کراچی (نہ کہ شانے کراچی) فخرِ پنجاب (نہ کہ فخرے پنجاب) اہلِ محلہ ( نہ کہ اہلے محلہ) وغیرہ کی غلطی بھی درست کرنا ضروری ہے۔
*# پانچویں*
اپنے جملوں میں مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ’کر دینا ہے‘ نہیں بلکہ ’کردیں گے‘ لکھنا چاہیے، جیسے اب تم آگئے ہو تو تم بول بول کے میرے سر میں درد کر دو گے (نہ کہ کردینا ہے) اب ٹیچر آگئے ہیں تو تم کتاب کھول کر پڑھنے کی اداکاری شروع کر دو گے (نہ کہ کردینی ہے) لکھنا چاہیے۔
*# چھٹی*
اردو کے ’مہمل الفاظ‘ میں’ش‘ کا نہیں بلکہ ’و‘ کا استعمال کیا جاتا ہے، جیسے کتاب وتاب، کلاس ولاس، اسکول وسکول، پڑھائی وڑھائی، عادت وادت وغیرہ۔ انہیں کتاب شتاب، کلاس شلاس لکھنا غلط کہلاتا ہے۔
*# ساتویں*
اردو میں دو زبر یعنی‘ تنوین‘ والے لفظوں کو درست لکھنا چاہیے، اس میں دو زبر مل کر ��ن‘ کی آواز دیتے ہیں جیسے تقریباً، اندازاً، عادتاً، اصلاً، نسلاً، ظاہراً، مزاجاً وغیرہ۔
*# آٹھویں*
کسی بھی لفظ کے املا میں ’ن‘ اور ’ب‘ جہاں ملتے ہیں وہاں ’م‘ کی آواز آتی ہے، اس کا بالخصوص خیال رکھنا چاہے ’ن‘ اور ’ب‘ ہی لکھا جائے ’م‘ نہ لکھا جائے، جیسے انبار، منبر، انبوہ، انبالہ، استنبول، انبیا، سنبھل، سنبھال، اچنبھا، عنبرین، سنبل وغیرہ
*# ن��یں*
اردو کے ان الفاظ کی درستی ملحوظ رکھنا چاہیے جو "الف" کی آواز دیتے ہیں، لیکن کسی کے آخر میں ’ہ‘ ہے اور کسی کے آخر میں الف۔ انہیں لکھتے ہوئے غلطی کی جائے، تو اس کے معانی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ جیسے گِلہ اور گلا، پیسہ اور پِیسا، زن اور ظن، دانہْ اور دانا وغیرہ وغیرہ۔
*# دسویں*
الف کی آواز پر ختم ہونے والے الفاظ چاہے وہ گول ’ہ‘ پر ختم ہوں یا ’الف‘ پر، انہیں جملے میں استعمال کرتے ہوئے بعض اوقات جملے کی ضرورت کے تحت ’جمع‘ کے طور پر لکھا جاتا ہے، حالاں کہ وہ واحد ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں جملے کا پچھلا حصہ یا اس سے پہلے والا جملہ یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ دراصل ’ایک‘ ہی چیز کا ذکر ہے۔ جیسے:_
_میرے پاس ایک ’بکرا‘ تھا، اس ’بکرے‘ کا رنگ کالا تھا۔
_میرے پاس ایک ’چوزا‘ تھا، ’چوزے‘ کے پر بہت خوب صورت تھے۔
_ہمارا ’نظریہ‘ امن ہے اور اس ’نظریے‘ کے تحت ہم محبتوں کو پھیلانا چاہتے ہیں۔
_جلسے میں ایک پرجوش ’نعرہ‘ لگایا گیا اور اس ’نعرے‘ کے بعد لوگوں میں جوش و خروش بڑھ گیا۔
_ایک ’کوا‘ پیاسا تھا، اس ’کوے‘ نے پانی کی تلاش میں اڑنا شروع کیا۔
*# گیارہویں*
انگریزی الفاظ لکھتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے کہ جو الفاظ یا اصطلاحات (ٹرمز) رائج ہو چکی ہیں، یا جن کا کوئی ترجمہ نہیں ہے یا ترجمہ ہے تو وہ عام طور پر استعمال نہیں ہوتا، اس لیے انہیں ترجمہ نہ کیا جائے بلکہ انگریزی میں ہی لکھ دیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن انگریزی الفاظ کو اردو میں لکھا جائے گا، ان کی جمع اردو کی طرز پر بنائی جائے گی، نہ کہ انگریزی کی طرز پر، جیسے اسکول کی اسکولوں، کلاس کی کلاسوں، یونیورسٹی کی یونیورسٹیوں، اسٹاپ کی اسٹاپوں وغیرہ۔ تیسری بات یہ ہے کہ انگریزی کے بہت سے ایسے الفاظ جو ’ایس‘ سے شروع ہوتے ہیں، لیکن ان کے شروع میں ’الف‘ کی آواز ہوتی ہے، انہیں اردو میں لازمی طورپر الف کے ساتھ لکھا جائے گا۔ جیسے اسکول، اسٹاپ، اسٹاف، اسٹیشن، اسمال، اسٹائل، اسٹوری، اسٹار وغیرہ۔ لیکن ایسے الفاظ جو شروع تو ’ایس‘ سے ہوتے ہیں لیکن ان کے شروع میں الف کی آواز نہیں ہے انہیں الف سے نہیں لکھا جائے گا، جیسے سچیویشن، سورس، سینڈیکیٹ، سیمسٹر، سائن اوپسس وغیرہ۔
*# بارہویں*
ہندوستانی فلموں نے اردو پر جو بھدا اثر ڈالا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں لفظ ’اپنا‘ کی جگہ میرا بولا جاتا ہے۔ ہمیں اردو لکھتے ہوئے اسے ٹھیک کرنا چاہیے، اس لیے ’میں میرے نہیں‘ بلکہ ’میں اپنے لکھا جائے‘ جیسا کہ میں میرے گھر میں میرے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ یہ بالکل غلط ہوگا، درست جملہ یوں ہوگا کہ میں اپنے گھر میں اپنے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔
2 notes
·
View notes
Text
أكمل ليسترشير سرقة كاملة للتسلل إلى الضربة القاضية
T20 بلاست ، 2020
حصل شاهين أفريدي على أربع ويكيت من أربع كرات في فوز هامبشاير على ميدلسكس. © جيتي
المجموعة الجنوبية
ساري مقابل كينت
لعب جيسون روي ولوري إيفانز دور البطولة في فوز Surrey بستة نقاط على كينت مع أكثر من 70 نقطة على التوالي في مطاردة 160. تقاسم الزوجان موقفًا من 135 ركضًا للويكيت الثاني بعد الافتتاح الذي غادر ويل جاكز مبكرًا. بينما سقط إيفانز في لعبة ديناميكية من 45 كرة 73 ، غادر روي ستة أشواط فقط خجولًا من الفوز بـ 72 كرة خرجت من 52 كرة. في النهاية ، عبروا الخط بثماني كرات لتجنيبهم.
بدأ الجميع في الترتيب الأعلى في كينت ، لكن سام بيلينغز فقط جعله يحسب للوصول إلى الخمسين الثانية له في ثلاث جولات. لقد ضرب ستة حدود في 33 كرة 50 ، ممسكًا بنهايته ، وسط انهيار من نوع ما جعلهم يتقلصون إلى 159 مقابل 8 من موقع 136 لـ 3. لا يزال كينت يحتل المركز الثالث برصيد 12 نقطة ، مع وجود نقطة فقط تفصل الفرق الثلاثة الأولى في المجموعة.
عشرات موجزة: كينت 159/8 في 20 زيادة (دانيال بيل دروموند 37 ، سام بيلينجز 50 ؛ ليام بلونكيت 3-19 ، مات دن 2-24) خسر أمام ساري 161/4 في 18.4 مبالغ (جيسون روي 72 ، لوري إيفانز 73 ؛ جرانت ستيوارت 2-28) بستة ويكيت.
هامبشاير vs ميدلسكس
أشعل شاهين أفريدي النار في The Rose Bowl بأربعة ويكيت في أربع كرات لتنتهي بأرقام 6-19. منحت هامبشاير فوزًا لمدة 20 جولة على ميدلسكس لتنهي البطولة على أعلى مستوى. النهاية في قاع الجدول ، بفوزهم الثاني فقط طوال الموسم. مطاردة 142 متواضعة ، جون سيمبسون أبقى عليهم في المطاردة مع 40 كرة 48 بعد فشل الترتيب الأعلى ، ولكن انفجر أفريدي بأربع فتات حسم مصيرهم حيث تم رمي ميدلسكس لـ 121 في 18 زيادة.
نجح هامبشاير في تحقيق 141 فقط في حصته من الزيادات ، وذلك بفضل حجاب متأخر من ريان ستيفنسون الذي سدد ثلاث مرات ليحصل على 15 من تسع كرات. على الرغم من أن الترتيب العلوي والمتوسط قد بدأ ، إلا أنهما كانا رصينًا مع لاعبين الرماة في ميدلسكس الذين كانوا يحتفظون برجال المضرب تحت المراقبة ، كان Thilan Walallawita هو اختيار لاعبي البولينج الذين تنازلوا عن 19 رمية فقط لثلاثة ويكيت. سجل Sam Northeast أعلى النقاط برصيد 31 مرة.
عشرات موجزة:هامبشاير 141/9 في 20 زيادة (سام نورث إيست 31 ، إيان هولاند 25 ؛ ثيلان والالاويتا 3-19 ، لوك هولمان 2-25) فاز على ميدلسكس 121 في 18 زيادة (جون سيمبسون 48 ؛ شاهين أفريدي 6-19) بفارق 20 مرة.
إسكس مقابل ساسكس
فوز بأربعة ويكيت بمطاردة 137 متواضعًا أخذ ساسكس إلى المركز الثاني. على الرغم من خسارة الويكيت المبكرة ، أبقى فيليب سولت الافتتاحي لهم في المطاردة مع 22 كرة 44 ، مع عدم وجود أي شيء من الترتيب المتوسط. انخفض إلى 59/5 في منتصف الطريق كالوم ماكليود (40) وجورج جارتون (34) حافظوا على هدوئهم ليأخذوا جانبهم فوق الخط.
باستثناء بول والتر ، لم يكن لدى إسكس الكثير لتفاخر به. لعب اليد المنفردة ، حيث كانت النتيجة التالية هي 15 ، ركب القارب بمفرده ، لولا من لم يكن إسيكس قد تجاوز علامة 100 نقطة. أنهى جورج جارتون 4-21 ، بما في ذلك البكر ، بينما كان لدى أولي روبنسون وإم كلايدون نصيبان لكل منهما.
عشرات موجزة:خسر إسكس 136/9 في 20 مرة (بول والتر 76 ؛ جورج جارتون 4-21) أمام ساسكس 137/6 في 18.2 أوفر (فيليب سولت 42 ، كالوم ماكلويد 40 ، جورج جارتون 34 ؛ جاك بلوم 2-28 ، شين سناتر 2- 22) بأربعة ويكيت.
المجموعة الشمالية
نوتنجهامشير vs دورهام
عزز Nottinghamshire موقعه في صدارة الجدول بفوزه 18 مرة على دورهام في مباراة المرحلة النهائية بالدوري بعد أن دفاع بنجاح 151. بدأ معظم لاعبي Nottinghamshire ، لكنهم لم يتمكنوا من التحويل مع سقوط الويكيت على فترات منتظمة. سجل بن دوكيت 29 هدفاً بينما سجل ليام تريفاسكيس وبول كوغلين هدفين لكل منهما.
رداً على ذلك ، لم يبدأ دورهام في التقدم ، حيث خسر المباراة الافتتاحية جراهام كلارك من الكرة الثالثة. أبقىهم أليكس ليس في المطاردة لكن ضربة ثلاثية من عماد وسيم في الشوط الخامس أعادتهم مرة أخرى. قدم كل من برايدون كارس (24) وليام تريفاسكيس (31 *) المقاومة لكن الكثير من الأمور تركت لوقت متأخر جدًا في النهاية حيث احتل دورهام المركز الرابع على الطاولة بعد طرده مقابل 132.
عشرات موجزة:Nottinghamshire 150/6 في 20 مباراة (بن دوكيت 29 ، عماد وسيم 26 * ؛ ليام تريفاسكيس 2-25 ، بول كوغلين 2-24) تغلب على دورهام 132 في 19.1 0 مقابل (أليكس ليس 28 ، ليام تريفاسكيس 31 * ؛ جيك بول 2-7 (عماد وسيم 2-24) بفارق 18 شوط.
لانكشاير مقابل ليسيسترشاير
وصل ليسترشير إلى ربع النهائي بعد سرقة في مانشستر. تسبب لانكشاير في فوضى في مطاردتهم في سعيهم وراء 155. بعد أن تم وضعهم بشكل مريح في 112/1 على ظهر مدرج من 74 مسافة بين أليكس ديفيز وستيفن كروفت ، انهاروا إلى 114/5 مع كولين أكرمان قلب اللعبة على رأس مع نصيب ثلاثي. تم إغلاق اللعبة هناك حيث لم يتمكن لانكشاير من التعافي من هذا الانهيار لإنهاء 22 جولة قصيرة ، حيث تمكن من إدارة 132 فقط في 20 مرة مع عودة أكرمان 3-18 في أربع.
وقاد ليسترشاير في وقت سابق نيك ويلش (43) وآرون ليلي (49) اللذين أبقاهما في المباراة بصبر. على الرغم من عدم وجود ضربة ديناميكية بارزة من الترتيب الأعلى ، إلا أن كلتا الجولتين كانتا كافيتين للوقوف بجانبهما فوق علامة الـ 150 نقطة لمنحهم فرصة في دفاعهم. لانكشاير ��ا يزالون فوقهم في الجدول ، لكنهم سيكونون سعداء بقيامهم بالضربة القاضية.
عشرات موجزة: فاز Leicestershire 154/5 في 20 عامًا (Nick Welch 43 ، Arron Lilley 49) على لانكشاير 132/5 في 20 زيادة (Alex Davies 52 ، Steven Croft 36 ؛ Colin Ackermann 3-18) بفارق 22 جولة.
ورسسترشاير ضد جلامورجان ، سنترال جروب
تحولت قصة ميتة في ورسيستر إلى فيلم إثارة عالي الدرجات ، حيث تفوق غلامورجان على أصحاب الأرض في النهاية. بينما انتهى Worcestershire بالملعقة الخشبية ، أنهى Glamorgan حملته بفوز متتالي.
سجل هداف ورسسترشاير هذا الموسم – هاميش رذرفورد – قرنًا مكونًا من 61 كرة حيث سجل فريقه إجماليًا مخيفًا بلغ 190 كرة بعد اختياره للمضرب. كان النيوزيلندي متورطًا في شراكة استمرت 101 مع جيك ليبي في الويكيت الثاني. كان Timm van der Gugten هو اختيار لاعبي البولينج للزوار الذين يمثلون جميع نقاط Worcestershire الثلاثة.
مطاردة مجموعة كبيرة ، افتتاحية Glamorgan – ديفيد لويد ونيكولاس سلمان – جعلت فريقهم يبدأ بداية رائعة. بعد تسجيل 74 نقطة في powerplay ، قام الثنائي بتكوين شراكة 120 تشغيلًا في الويكيت الافتتاحي. بمجرد كسر هذا الموقف ، قدم أندرو بالبيرني حجابًا ، لكن ورسيسترشاير قاوم باتريك براون سلطتين متتاليتين في اليوم الثامن عشر. عندما مات سلمان مقابل 78 في الجولة قبل الأخيرة ، كان الزائرون يحدقون في البرميل مع 25 جولة مطلوبة من آخر 10 شحنات.
ومع ذلك ، كان لدى دانيال Douthwaite أفكار أخرى. تقدمت ضربته ، 23 من 6 ، على النحو التالي – خرج من العلامة بحدود ، وحافظ على الإضراب للنهائي ، وضرب ثلاث مرات في أربع تسديدات من براون ليختتم الإجراءات بأناقة.
عشرات موجزة: ورسيستيرشاير 190/3 في 20 زيادة (Rutherford 100 ، Jake Libby 47 ؛ van der Gugten 3-28) خسر أمام جلامورجان 196/4 في 19.4 المبالغ (نيكولاس سلمان 78 ، ديفيد لويد 56 ؛ باتريك براون 2-63) بمقدار 6 ويكيت
وارويكشاير ضد نورثهامبتونشاير ، سنترال جروب
لم يخرج هجوم متأخر من توم تايلور وغرايم وايت في إيدجباستون وارويكشاير من المنافسة فحسب ، بل أخرج نورثهامبتونشاير أيضًا مكانًا في ربع نهائي T20 Blast 2020.
بدأ Warwickshire في بداية مشؤومة بعد اختياره للمضرب حيث تم تخفيضه إلى 20/4 في المرة الرابعة. نجح الفتح آدم هوز ودان موسلي في الصمود في وجه العاصفة وأنقذا فريقهما من خلال شراكة استمرت 171 مرة من 99 كرة فقط في الويكيت الخامس. في حين أن الأخير حقق نصف طن لم يهزم ، سجل الأول له أول قرن T20 ولم يتم طرده من الكرة الأخيرة إلا من خلال جولة نفاد.
بعد نشر ما يزيد عن 190 ، وضع المضيفون خصومهم على المؤخرة حيث كان نورثهامبتونشاير يتأرجح عند 71 مقابل 6 في التاسع. هذا عندما خرج توم تايلور إلى الوسط. أطلق هو وروب كيو هجومًا مضادًا ومواجهة من 69 جولة 34 عملية تسليم للويكيت السابع. قام جاكوب لينتوت بضرب هذا الأخير لكن الزوار لم ينزعجوا من تلك الويكيت حيث خرج جرايم وايت بكل البنادق المشتعلة. يُظهر اللاعب البالغ من العمر 33 عامًا براعته بمضربه من خلال تفجير 37 مرة من 13 عملية تسليم – وهي أفضل نتيجة مسيرته – والتي تتألف من أربع وأربع ستات. أسفرت شراكة وايت وتايلور التي لم تهزم – 53 من أصل 20 عملية تسليم – عن قيام نورثهامبتونشاير بمطاردة المجموع مع 7 كرات لتجنيبها.
عشرات موجزة: وارويكشاير خسر 191/5 في 20 مبالغ (Adam Hose 119 ، Mousley 58 * ؛ B Sanderson 2-26) نورثهامبتونشاير 193/7 في 18.5 مبالغ (Tom Taylor 50 ، Paul Stirling 38 ، Graeme White 37 * ؛ Tim Bresnan 3-25) بواسطة 3 ويكيت
جلوسيسترشاير ضد سومرست ، المجموعة المركزية
وفاز جلوسيسترشاير بأعلى الطاولة بمضرب آخر الكرة ، وبذلك أنهى آمال سومرست في الوصول إلى ربع النهائي على أرض كاونتي في بريستول. باختيار المضرب ، بدأت فتاحات Somerset بداية جيدة. على الرغم من ضياع طريقهم قليلاً في المنتصف ، إلا أن إطلاق النيران السريع Gregory’s 50 جعلهم يصلون إلى إجمالي لائق يبلغ 161.
مع الكرة ، سيطر الزوار على مجريات المباراة حيث تأرجح جلوك عند 80 مقابل 5 في الدقيقة الثالثة عشر. على الرغم من أن الويكيت كانت تتساقط من أحد طرفيها بانتظام ، إلا أن إيان كوكبين أمسك حصنه وأبقى فريقه في عملية البحث لمدة نصف قرن. انتهى في نهاية المطاف ضربه في نهاية ما قبل الأخيرة عندما تم فصله من قبل جوش ديفي. احتاج المضيفون إلى 13 مرة من المباراة النهائية على بيني هاول وسجل 10 أهداف من أول أربع عمليات تسليم قبل أن يهلكوا أمام Ollie Sale من الكرة قبل الأخيرة من المباراة. مع ثلاث مطلوبات للفوز ، قام توم سميث بكثافة التسليم النهائي على midwicket ل a one bounce أربعة.
عشرات موجزة: سومرست خسر 161/7 في 20 زيادة (لويس غريغوري 50 ، بابار عزام 42 ؛ توم سميث 2-25) جلوسيسترشاير 163/8 في 20 زيادة (إيان كوكبين 89 ، بيني هاول 21 ؛ جوش ديفي 3-24 ، بيع أولي 3-32) بواقع 2 ويكيت.
ديربيشاير ضد يوركشاير ، نورث جروب
ساعدت الخمسينيات التي لم يهزم فيها جو روت وهاري بروك يوركشاير في كسر سلسلة الهزائم التي خاضها في أربع مباريات متتالية وأيضًا إنهاء الموسم بأعلى مستوى. من ناحية أخرى ، عانى ديربيشاير من هزيمته السابعة ليحتل المركز الأخير في جدول نقاط المجموعة الشمالية.
وضع Openers Thomas Wood و Billy Godleman النظام الأساسي المثالي من خلال شراكة مدتها 109 إدارة في الجزء العلوي من الترتيب. ومع ذلك ، فشل ديربيشاير في الاستفادة من ال��داية حيث فقد الزخم وانتهى بنتيجة التعادل على اللوحة. ردا على ذلك ، لم تبدأ يوركشاير بداية رائعة حيث فقدوا ثلاثة ويكيت داخل powerplay. كانوا في مشكلة أخرى عند 80 مقابل 4 في الثاني عشر.
كان قائد اختبار إنجلترا ، Root ، في ثنية وقرر أن يلعب دور المرساة. مع احتياج 75 مرة من آخر ست مرات ، سرب لويس ريس 20 جولة واقترن الثنائي Root-Brook بشكل جميل بالعدوان مع لعبة الكريكيت المعقولة. بينما قام Root بإحضار خمسين من أصل 46 عملية تسليم ، حقق اللاعب البالغ من العمر 20 عامًا أول T20 له وزن نصف طن من 29 كرة وحقق الفوز.
عشرات موجزة: ديربيشاير 167/6 في 20 زائدة (توماس وود 67 ، ب جودلمان 49 ؛ بن كواد 3-40) خسر أمام يوركشاير 171/4 في 20 زيادة (Joe Root 60 * ، Harry Brook 50 * ؛ Samuel Conners 2-38) بمقدار 6 ويكيت.
© كريكبوز
قصص ذات الصلة
CBQueue.push(function(){ (function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.async = true; js.defer = true; js.src = "https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v6.0&appId=30119633160"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk')); });
The post أكمل ليسترشير سرقة كاملة للتسلل إلى الضربة القاضية appeared first on FameDubai Magazine | Your daily dose of Lifestyle, Shopping & Trends in UAE.
from WordPress https://famedubai.com/%d8%a3%d9%83%d9%85%d9%84-%d9%84%d9%8a%d8%b3%d8%aa%d8%b1%d8%b4%d9%8a%d8%b1-%d8%b3%d8%b1%d9%82%d8%a9-%d9%83%d8%a7%d9%85%d9%84%d8%a9-%d9%84%d9%84%d8%aa%d8%b3%d9%84%d9%84-%d8%a5%d9%84%d9%89-%d8%a7%d9%84/
1 note
·
View note
Text
پرانے زمانے میں کسی پہاڑی کے دامن میں ایک گاوں آباد تھا, جب بھی کوئی مسافر گاڑی حادثے کا شکار ہوکر پہاڑ سے گر جاتی یہ لوگ جاکر ان کا سامان لوٹتے۔
یہی ان کا ذریعہ معاش تھا۔
ان کا امام مسجد میں نماز کے بعد کچھ یوں دعا کرتا
"اے پروردگار بہت عرصہ ہوا ہے کوئی گاڑی نہیں گری۔۔۔۔۔۔ کوئی باراتیوں سے بھری بس گرادے جن کی عورتیں سونے سے لدی ہوئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
رب کریم کوئی برطانیہ پلٹ کی گاڑی گرادے جس کا بیگ سامان سے اور جیب پاونڈوں سے بھرا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم تیرے نادان بندے ہیں اگر ہم سے کوئی بھول ہوئی ہو تو رحم کا معاملہ کر ورنہ ہمارے بچے بھوکے مرجائے گے۔"
پیچھے سے مقتدی امین ثمہ امین کی صدا لگاتے۔۔۔۔۔
پشتو کی ایک کہاوت ہے "دا چا پہ شر کی دا چا خیر یی۔"
جس کا ترجمہ ہے
"کسی کے شر میں کسی کی خیر ہوتی ہے"۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم نے دوسروں کے شر میں اپنی خیر منائی ہے۔ ہم نے خود سے کچھ نہیں کیا نا اپنے ادارے مضبوط کئے نہ انڈسٹری بنائی نہ برآمدات بڑھائیں۔
تعلیم صحت اور انصاف کسی شعبے پر محنت نہیں کی۔۔۔
پچاس کی دہائی میں ہم نے "سیٹو" اور "سینٹو" کے مزے اڑائے۔
ساٹھ کی دہائی میں سرد جنگ میں امریکہ کا ڈارلنگ بن کر بڈھ بیر میں یوٹو طیاروں کو اڈے دیکر ڈالر بٹورے۔
ستر کی دہائی میں بھٹو صاحب نے عرب اسرائیل جنگوں میں جے کانت شکرے کا کردار نبھایا اور ڈائیلاگ بول بول کر مفت تیل کے مزے اڑائے۔
اسی کی دہائی میں روس افغانستان والے کھاتےمیں ہم نے خوب "ریمبو تھری" بنا کر باکس آفس پر پیسے بنوائے۔
نوے کی دہائی میں کسی کا شر ہمارے ہاتھ نہیں آیا اور ہماری حالت بہت پتلی ہوگئی۔
دو ہزار کے بعد رحمت خداوندی نے پھر جوش مارا اور امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا۔
اس شر کا جام لیکر ہم خوب جھومے، اسلحے اور ڈالروں کی برسات ہوئی۔
اس دفعہ ہم اکشے کمار بنے رہے کیونکہ
"جو ہم بولتے وہ ہم کرتے اور جو نہیں بولتے وہ ڈیفنٹلی کرتے ہیں"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد آٹھ سال ہوئے کہ خدا ہم سے ناراض ہے اور ہمارے اردگرد کوئی شر نہیں ہورہا۔
حالت بہت خراب ہے ڈالر ایک سو چالیس پر پہنچ گیا ہے۔لوگوں کا معیار زندگی جانوروں سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔
آئیں سب مل کر اپنے رب کریم سے دعا مانگتے ہیں
"اے تمام جہانوں کے مالک امریکہ کا ایران پر حملہ کروادے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین اور امریکہ کی کوئی زبردست سرد جنگ شروع کرادے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی اور حوثیوں کی لڑائی ہمارے مکران ساحل تک پھیلا دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روس اور یوکرین کی لڑائی میں ہمیں فریق بنادے۔۔۔۔۔۔۔
پروردگار ہم تیرے نادان بندے ہیں اگر رحم کا معاملہ نہیں کروگے تو ہم بھوکے مرجائے گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین ثمہ آمین
37 notes
·
View notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad. Date : 30 March 2022 Time: 09 : 00 to 09: 10 AM آکاشوانی اَورنگ آباد علاقائی خبریں تاریخ: ٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗٗ ۳۰ ؍ مارچ ۲۰۲۲ء وَقت: صبح ۰۰۔۹ سے ۱۰۔۹؍ بجے
سب سے پہلے اِس وقت کی سر خیاں...
٭ مرکزی حکو مت کی پرائیویٹائزیشن پالیسی کے خلاف بجلی ملازمین کی ہڑ تال کا اعلان واپس ‘ ملازمین کی تنظیم کی وزیر توانا ئی سے ہوئی بات چیت کے بعد ہڑ تال واپس لینے کا ہوا اعلان
٭ مرکزی حکو مت کی جل شکتی وِزارت کے
Catch The Rain 2022
منصوبے کا
صدر جمہوریہ کےہاتھوں ہو آغاز قو می جل انعا مات میں مہاراشٹر نے حاصل کیے 4؍ انعا مات
٭ تعلیمی نصاب مکمل کر چکے اسکولوں کو اپریل کے مہینے میں کھُلے رکھنے کی ضرورت نہیں ‘
ریاستی ایجو کیشن کمشنر کی وضاحت
اور
٭ مہا راشٹر میں2؍ اپریل تک گرم لو کی شدید لہرکی پیشن گوئی ‘عوام سے احتیاط برتنے کی اپیل
اب خبریں تفصیل سے....
مرکزی حکو مت کی پرائیو یٹائزیشن پالیسی کے خلاف بجلی ملازمین کی جانب سے ہڑ تال کا اعلان کَل واپس لے لیا گیا ۔ مہاراشٹر بجلی ملازمین کی ایکشن کمیٹی کے صدر مو ہن شر ما نے یہ اطلاع دی ۔ اُنھوں نے بتا یا کہ ایکشن کمیٹی کی وزیر توا نائی نتِن رائوت سے کَل ہوئی بات چیت اطمینان بخش رہی ۔ مو ہن شر ما نے بتا یا کہ نتِن رائوت نے اُنھیں یقین دہانی کر وائی ہے کہ مہاراشٹر کی بجلی کمپنیوں کا پرائیو ٹائزیشن نہیں ہو گا ۔
شر ما نے مزید کہا کہ وزیر توا نائی نے بجلی ملازمین کے سبھی مطالبات پر 3؍ سے4؍ دنوں میں مثبت انداز میں کار وائی کرنے کا تیقن دیا ہے ۔ شر ما کے مطا بق وزیر توانائی نے یہ بھی کہا کہ ہڑ تال میں شامل ہوئے ملازمین پر کسی بھی طرح کی کار وائی نہیں ہو گی ۔
اِس بیچ ہڑ تال کے پس منظر میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کر تے ہوئے کَل نتِن رائوت نے کہا کہ مہا راشٹر کی مہا وِکاس آگھاڑی حکو مت ‘ پرائیو یٹائزیشن کی حمایت نہیں کرے گی ۔
***** ***** *****
دوسری جانب اورنگ آباد ضلعے کے بینک ملازمین نے کَل دوسرے دن بھی اپنی ہڑ تال جاری رکھی اور بینکوں کے سامنے مظا ہرے کیے ۔ اِس دوران ملازمین نے نئے کامگار قا نون اور پرائیو یٹائزیشن پالیسی کے خلاف تحریری مواد بھی تقسیم کیا ۔ کامگار تنظیم آئیٹک کی جانب سے پیٹھن تحصیل دفتر پر احتجاج کیا گیا ۔
ناندیڑ میں بھی ریاستی ملازمین کی تنظیم کی جانب سے ناندیڑ ضلع کلکٹر دفتر پر پرائیویٹائزیشن کے خلاف آندو لن کیا گیا ۔
***** ***** *****
مرکزی حکو مت کے جل شکتی وزارت کی جانب سے شروع کیے جا رہے Catch The Rain 2022
منصوبے کا کَل صدر جمہوریہ رامناتھ کووِند کے ہاتھوں آغاز ہوا ۔ اِس دوران صدر جمہوریہ نے قو می جَل انعا مات بھی تقسیم کیے ۔ اِس موقعے پر ریاستی ‘ تنظیمی اور انفرادی سطح پر 11؍ گیارہ زمروں میں
57؍ انعامات دئے گئے ۔ اِن میں مہاراشٹر نے4؍ انعامات حاصل کیے ہیں۔ اِن میں اورنگ آباد کی غیر سر کاری تنظیم گرام وِکاس ‘ شو لا پور ضلعے کی سُر ڈی گرام پنچایت ‘ رتنا گیری ضلعے کی داپو لی نگر پنچایت اور روز نامہ ایگرو وَن شامل ہیں ۔
***** ***** *****
آنگن واڑی خاد مائوں ‘ مِنی آنگن واڑی خادمائوں اور معا ونین کی خد مات ختم ہونے یا اچا نک موت کے بعد یکمشت ادا کی جانے والی رقم کے منصوبے کے تحت 100؍ کروڑ روپئے تقسیم کرنے کے فیصلے کو وزیر اعلیٰ اُدھو ٹھا کرے نے منظوری دیدی ۔ کَل ہوئی میٹنگ میں وزیر اعلیٰ نے یہ فیصلہ لیا ۔
***** ***** *****
تعلیمی سال نصاب مکمل کر چکے اسکو لوں کو اپریل کے مہینے میں بلا وجہ کھُلے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ مہا راشٹر کے ایجو کیشن کمشنر سورج مانڈھرے نے یہ وضاحت کی ۔ ایک خانگی نیوز چینل سے بات کر تے ہوئے مانڈھرےنے کہا کہ جو اسکول کورونا وائرس کے دوران اپنا تعلیمی نصاب مکمل نہیں کر پائے ہیں صرف اُنہیں ہی
اپریل کے مہینے میں اسکول چلانے کی ہدایت دی گئی ہے۔مانڈھرے نے مزید کاہ کہ اگلا تعلیمی سال جون مہینے کے وسط سے شروع ہو گا اور اسکولوں کو مئی کے مہینے میں چھُٹیاں رہیں گی لہذا مئی کےمہینے میں طئے شدہ چھٹیوں کا منصوبہ تبدیل کر نے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اِس دوران مانڈھرے نے حکو متی احکا مات کو صحیح طریقے سے سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ پانچویں اور آٹھویں جماعت کے اسکا لر شِپ امتحانات ‘ جون مہینے کے آخر میں ہوں گے ۔
***** ***** *****
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے نے کہا ہے کہ بھارت رتن ڈاکٹر با با صاحب امبیڈکر جینتی جوش وخروش سے منا ئی جائے اور اِس بارے میں ضروری احکا مات محکمہ داخلہ کی جانب سے جلد ہی جاری کیے جائیں گے ۔ وزیر اعلیٰ کَل ممبئی میں سہیا دری گیست ہائوس میں ہوئی میٹنگ میں بول رہے تھے ۔ اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ 2؍ سالوں کے دوران کورونا وائرس کی وجہ سے ڈاکٹر امبیڈ کر جینتی اور بر سی پر تحمّل سے کام لیا گیا اور احتیاط بر تی گئی جو کہ قابل تعریف ہے ۔وزیر اعلیٰ ٹھاکرے نے مزید کہا کہ اب کورونا وائرس کا اثر کم ہو گیا ہے اور ریاست بھر میں احتیا طی تدا بیر پر عمل کر تے ہوئے دھوم دھام سے امبیڈکر جیتنی منا نے کے لیے احکا مات جاری کرنے کی ہدایت انتظا میہ کو دے دی گئی ہے ۔
***** ***** *****
ریاست میں کورونا وائرس کے دوران طلباء کے خلاف درج کیے گئے کیسیز واپس لیے جا ئیں گے ۔ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ دلیپ وڑسے پاٹل نے یہ بات کہی۔ ایک خانگی نیوز چینل سے گفتگو کر تے ہوئے پاٹل نے کہا کہ طلباء کو پاسپورٹ بنوا نے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں پیش آرہی دشوا ریوں کو دیکھتے ہوئے محکمہ داخلہ نے یہ اہم فیصلہ لیاہے ۔ وزیر داخلہ نے بتا یا کہ جلد ہی یہ بات ریاستی کا بینہ کے اجلاس میں رکھی جا ئے گی ۔
***** ***** *****
یہ خبریں آکاشوانی اورنگ آ باد سے نشر کی جا رہی ہیں
***** ***** *****
مہاراشٹر میں کَل ایک دِن میں کورونا وائرس کے 103؍ پا زیٹیو مریض پائے گئے ۔ اِس طرح اِس وباء کی شروعات کے بعد سے اب تک ریاست میں کورونا پا زیٹیو ہوئے مریضوں کی مجموعی تعداد 78؍ لاکھ73؍ ہزار722؍ ہو گئی ہے ۔ گزشتہ روز ریاست میں ایک بھی کورونا موت نہیں ہوئی ۔ مہاراشٹر میں اب تک ایک لاکھ47؍ ہزار780؍ کورونا مریض اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ریاستی شرح اموات لگ بھگ 2؍ فیصد ہے ۔
دوسری جانب کَل دِن بھر میں ریاست کے مختلف اسپتالوں سے 107؍ کورونا مریض صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو لَوٹے ۔ اِس طرح مہاراشٹر میں اِس بیماری سے ٹھیک ہو نے والوں کی کُل تعداد77؍ لاکھ
24؍ ہزار982؍ ہو گئی ہے ۔ کووِڈ19- سے صحت یابی کا ریاستی تنا سب98؍ فیصد ہو گیا ہے ۔ فی الحال پورے مہا راشٹر میں کورونا پا زیٹیو مریضوں کی درج شدہ مجموعی تعداد گھٹ کر960؍ رہ گئی ہے اور اِن سبھی مریضوں کا علاج کیا جا رہاہے۔
***** ***** *****
مراٹھواڑہ میں کَل3؍ افراد میں کوروناوائرس کی تصدیق ہوئی ۔ یہ تینوں مریض بیڑ ضلعے سے ہیں۔ مراٹھواڑہ کے دوسرے ضلعوں ‘ اورنگ آباد ‘ پر بھنی ‘ ناندیڑ‘ عثمان آ باد ‘ جالنہ ‘ ہنگولی اور لاتور میں کَل کورونا وائرس کا ایک بھی مریض نہیں پا یا گیا ۔
***** ***** *****
اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن میں کانٹریکٹ پر کام کر رہے ملازمین سے وصول کی گئی 5؍ کروڑ روپیوں کیEPFرقم واپس لَوٹا نے کی ہدایت ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے دی ہے ۔ عدالت نے اِس بارے میں PF دفتر کو
احکا مات جاری کیے ہیں ۔ اپنے حکم میںعدالت نے کہا کہ PF دفتر ‘ 5؍ اپریل یا اُس سے پہلے یہ رقم میونسپل کارپوریشن کو واپس لو ٹا ئے ۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلعے میں پولس نے دھماکہ خیز مادّے کا بڑا ذخیرہ ضبط کیا ہے ۔ ضلعے کے اَونڈھا ناگناتھ تعلقے کے شِر لا تا نڈا میں ہٹّا پولس کی جانب سے مارے گئے چھا پے میں جلیٹِن کی321؍ چھڑ یاں اور500؍ ڈیٹو نیٹرس
ضبط کیے گئے ہیں ۔
***** ***** *****
ہنگولی ضلعے میں اسٹیٹ بینک آف اِنڈیا کی برانچ31؍ مارچ کو رات10؍ بجے تک کھُلی رکھنے کی ہدایت ضلع کلکٹر جِتندر پاپلکر نے دی ہے ۔ صلعے کے ہنگولی ‘ بسمت ‘ کلمنوری ‘ اَونڈھا ناگناتھ اور سین گائوں میں سر کاری رقو مات کے لین دین مکمل کرنے کے لیے یہ فیصلہ لیا گیا ہے ۔
***** ***** *****
ناندیڑ ضلعے کے مُکھیڑ تعلقے میں6؍ ہزار روپیوں کی رشوت لیتے ہوئے 2؍ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ۔ مُکھیڑ پنچایت سمیتی سے پر موشن میں منظوری کی گئی رقم کا بِل جاری کر وانے کے بدلے سر کاری ملازم گجا نن پینڈ کر نے شیخ شاد کے ذریعے شکایت گذار سے 10؍ ہزار روپیوں کی رشوت مانگی تھی ۔ بات چیت کے بعد 6؍ ہزار روپئے دینے پر اتفاق ہوا ۔ بعد میں6؍ ہزار روپئے قبول کرتے ہوئے شیخ شاد کو گرفتار کر لیا گیا ۔
***** ***** *****
بیڑ ضلعے کے دھارور میں آگ لگنے کے واقعے میں اپنی بہن اور چھو ٹے بچوں کو بچانے کی کوشش میں ایک نو جوان کی موت ہو گئی ۔ مہلوک نو جوان روی تڑ کے کے گھر میں کَل دوپہر آگ لگ گئی جس سے گھر میں رکھا گیس سلینڈر دھما کے سے پھٹ پڑا ۔ اِس دوران روی نے اپنی بہن اور 2؍ چھو ٹے بچوں کو آگ سے تو بچا لیا لیکن شدید طور پر جھلس جانے سے اُس کی موت ہو گئی ۔
***** ***** *****
مہاراشٹر میں2؍ اپریل تک گرم لو چلنے کی پیشن گوئی محکمہ موسمیات نے کی ہے ۔ وِدربھ اور مراٹھواڑہ کے بیشتر مقا مات اور وسطی مہا راشٹر کے کچھ حصوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت میں اوسط کے مقابلے کا فی اضا فہ ہوا ہے ۔ وِدربھ اور مراٹھواڑہ کے کئی ضلعوں میں کَل پارہ40؍ ڈگری کے پار رہا ۔
***** ***** *****
ریاست میں کَل سب سے زیادہ 42.9 ؍ ڈگری سیلسیس درجہ حرارت اکو لہ میں درج کیا گیا ۔ محکمہ موسمیات کے مطا بق ریاست کے کئی ضلعوں کو یلو الرٹ پر رکھا گیا ہے ۔ محکمے کے مطا بق اورنگ آباد ‘ جالنہ اور ہنگولی سمیت وِدربھ میں آج سے 2؍ اپریل تک درجہ حرارت میں کا فی اضا فہ ہو گا ۔ عوام سے گر می اور دھو پ سے بچنے کے لیے احتیا طی تدا بیر اختیار کر نے اور ضرورت نہ ہونے پر گھروں سے باہر نہ نکلنے کی اپیل کی گئی ہے ۔
***** ***** *****
اورآخر میں اہم خبریں ایک بار پھر سن لیجیے
٭ مرکزی حکو مت کی پرائیویٹائزیشن پالیسی کے خلاف بجلی ملازمین کی ہڑ تال کا اعلان واپس ‘ ملازمین کی تنظیم کی وزیر توانا ئی سے ہوئی بات چیت کے بعد ہڑ تال واپس لینے کا ہوا اعلان
٭ مرکزی حکو مت کی جل شکتی وِزارت کےCatch The Rain 2022 منصوبے کا صدر جمہوریہ کےہاتھوں ہو آغاز قو می جل انعا مات میں مہاراشٹر نے حاصل کیے 4؍ انعا مات
٭ تعلیمی نصاب مکمل کر چکے اسکولوں کو اپریل کے مہینے میں کھُلے رکھنے کی ضرورت نہیں ‘ ریاستی ایجو کیشن کمشنر کی وضاحت
اور
٭ مہا راشٹر میں2؍ اپریل تک گرم لو کی شدید لہرکی پیشن گوئی ‘عوام سے احتیاط برتنے کی اپیل
اِسی کے ساتھ آکاشوانی اورنگ آباد سےعلاقائی خبریں ختم ہوئیں۔
٭٭٭٭٭
0 notes
Text
کیا سی پی اے سی اسٹرا پول ایک اور ٹرمپ ہوگا، جی او پی صدارتی نامزدگی کے سوال میں ڈی سینٹیس 1-2 سے ختم ہو جائیں گے؟ #ٹاپسٹوریز
New Post has been published on https://mediaboxup.com/%da%a9%db%8c%d8%a7-%d8%b3%db%8c-%d9%be%db%8c-%d8%a7%db%92-%d8%b3%db%8c-%d8%a7%d8%b3%d9%b9%d8%b1%d8%a7-%d9%be%d9%88%d9%84-%d8%a7%db%8c%da%a9-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%b9%d8%b1%d9%85%d9%be-%db%81%d9%88/
کیا سی پی اے سی اسٹرا پول ایک اور ٹرمپ ہوگا، جی او پی صدارتی نامزدگی کے سوال میں ڈی سینٹیس 1-2 سے ختم ہو جائیں گے؟
نئیاب آپ فاکس نیوز کے مضامین سن سکتے ہیں!
اورلینڈو، فلا – سابق صدر کے ساتھ ٹرمپکا خطاب ہفتہ کی شام کو، نتائج قدامت پسند سیاسی ایکشن کانفرنس (CPAC) اسٹرا پول اس ہفتے کے آخر میں ہونے والے اجتماع میں سب سے زیادہ متوقع لمحہ ہیں۔ فلوریڈا میں
اور اورلینڈو میں کنفاب میں حصہ لینے والے ہزاروں حاضرین کے درمیان ووٹنگ پہلے سے ہی جاری ہے، جو قدامت پسند رہنماؤں او�� کارکنوں کا سب سے قدیم اور سب سے بڑا اجتماع ہے۔
CPAC نے آرلینڈو میں 2022 CONFAB میں ٹرمپ-ڈیسنٹس مقابلے کا خیرمقدم کیا
رجسٹرڈ CPAC حاضرین گمنام طور پر جواب دے رہے ہیں – ایک آن لائن ایپ کے ذریعے – ملٹی پیج سروے، لیکن جو سوال بلاشبہ سب سے زیادہ گونج پیدا کرے گا وہ ہے 2024 GOP صدارتی نامزدگی کا۔
25 فروری 2022 کو اورلینڈو، فلوریڈا میں کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس میں CPAC ’22 کا نشان (فاکس نیوز)
تجربہ کار ریپبلکن پولسٹر اور پولیٹیکل کنسلٹنٹ فرینک لنٹز نے فاکس نیوز کو بتایا، “CPAC پارٹی کی سب سے زیادہ فعال نچلی سطح کا ایک اچھا بیرومیٹر ہے۔” “میں توقع کرتا ہوں کہ ٹرمپ اسٹرا پول میں بڑے پیمانے پر جیت جائیں گے، جو اس وقت ان کی فرنٹ رنر پوزیشن کی عکاسی کرتا ہے۔”
اگرچہ اس بات پر بہت کم ڈرامہ ہے کہ آیا ٹرمپ ایک بار پھر بیلٹ میں سرفہرست ہوں گے، لیکن اس بارے میں کافی توقعات ہیں کہ وہ جیتنے والے مارجن کا کتنا حصہ حاصل کرتے ہیں اور حمایت کا فیصد ممکنہ طور پر دوسرے نمبر پر فائننر گورنمنٹ رون ڈی سینٹیس فلوریڈا وصول کرتا ہے۔
2021 CPAC DALLAS GOP صدارتی اسٹرا پول پر ٹرمپ کا غلبہ
وائٹ ہاؤس سے تیرہ ماہ ہٹائے جانے کے بعد، ٹرمپ اب تک GOP میں سب سے زیادہ مقبول اور بااثر سیاست دان بنے ہوئے ہیں، کیوں کہ وہ اس وقت تک ایک کنگ میکر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ 2022 ریپبلکن پارٹی کی پرائمری اور 2024 کے صدارتی انتخاب میں بار بار چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔
سابق صدر ٹرمپ اورلینڈو، فلوریڈا میں اتوار، 28 فروری 2021 کو کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس (CPAC) سے خطاب کر رہے ہیں۔ (اے پی)
ایک سال پہلے، اورلینڈو میں منعقدہ افتتاحی CPAC میں، واضح طور پر ٹرمپ کے حامی ہجوم کی غیر سائنسی رائے شماری میں ووٹ دینے والوں میں سے 55% چاہتے تھے کہ سابق صدر 2024 میں GOP کے اسٹینڈرڈ بیئرر ہوں۔ CPAC کا دوسرا اجتماع جولائی میں ڈیلاس، ٹیکساس میں منعقد ہوا۔
“صدر ٹرمپ اس وقت قدامت پسند تحریک ہیں،” جان میک لافلن نے کہا، جو ایک طویل عرصے سے جی او پی پولسٹر ہیں جنہوں نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ٹرمپ کی 2016 اور 2020 کی صدارتی مہموں کے لیے سروے کیا تھا۔
McLaughlin، جو برسوں سے CPAC سٹرا پولز کی نگرانی کر رہے ہیں، نے نوٹ کیا کہ “میں ملک بھر میں ریپبلکن سینیٹ کی چند پرائمریوں میں پولنگ کر رہا ہوں، اور صدر اب بھی انتہائی مقبول ہیں۔”
ڈیسنٹیز نے اورلینڈو میں سی پی اے سی کی تقریر میں بائیڈن کو نشانہ بنایا
لیکن ٹرمپ کی مقبولیت اور 2024 کی دوڑ کو بار بار چھیڑنا دیگر ممکنہ ریپبلکن وائٹ ہاؤس کے امید مندوں کو ابتدائی اقدام کرنے سے نہیں روک رہا۔
اور ممکنہ دعویداروں کا ایک گروپ بھی CPAC میں بول رہا ہے۔ اس فہرست میں ٹیکساس کے ڈی سینٹیس، سینس ٹیڈ کروز، مسوری کے جوش ہولی، فلوریڈا کے رک سکاٹ اور مارکو روبیو، فلوریڈا کے سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور جنوبی ڈکوٹا کی گورنر کرسٹی نوم شامل ہیں۔
فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس جمعرات، 24 فروری 2022 کو اورلینڈو، فلوریڈا میں کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس (CPAC) میں خطاب کر رہے ہیں۔ (اے پی فوٹو/جان راؤکس)
“مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت اچھا ہے کہ ہمارے پاس کچھ مقابلہ ہے، اور ہمارے پاس کچھ لوگ ہیں جو وہاں سے باہر ہیں جو اپنی چیزیں اکٹھا کر رہے ہیں، اور یہی سی پی اے سی ہے،” امریکی کنزرویٹو یونین کے صدر میٹ شلیپ، اس گروپ نے جو دہائیوں سے منظم کیا ہے اور CPAC کی میزبانی کی، فاکس نیوز کو بتایا۔ “یہ ہمیشہ سے ایک ایسی جگہ رہی ہے جہاں وہ لوگ جو اس تحریک کی قیادت کرنا چاہتے ہیں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ہجوم کو کتنی اچھی طرح سے آگ لگاتے ہیں، اور مجھے یقین ہے کہ ایسا دوبارہ ہوگا۔”
��نٹز نے کہا کہ ٹرمپ کی کارکردگی پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے، وہ “دراصل فلوریڈا کے گورنر کی کارکردگی میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر وہ 20 فیصد سے زیادہ حاصل کرتے ہیں، تو یہ اس بات کا مضبوط اشارہ ہو گا کہ وہ توڑ رہے ہیں اور اس کی COVID سیاسی حکمت عملی کی توثیق ہو گی۔ “
CPAC سے تازہ ترین فاکس نیوز کی رپورٹنگ کے لیے یہاں کلک کریں
DeSantis پچھلے سال CPAC اورلینڈو اور ڈلاس اسٹرا پولز دونوں میں دوسرے نمبر پر آیا، ہر بار 21% پر ختم ہوا۔ اسٹرا پولز میں اس کا کھڑا ہونا ملک بھر میں قدامت پسندوں کے درمیان ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا زیادہ ثبوت تھا کیونکہ پچھلے دو سالوں میں کورونا وائرس کے درمیان لاک ڈاؤن اور COVID پابندیوں کے خلاف ان کی مزاحمت تھی، جو ایک صدی میں دنیا میں پھیلنے والی بدترین وبا ہے۔
شلیپ نے کہا، “میرا خیال یہ ہے کہ ٹرمپ ایک عہدہ دار کی طرح ہیں۔ وہ لوگوں کے پیارے ہیں، لیکن لوگ عظیم گورنروں کا بھی احترام کرتے ہیں، اس راہ کی رہنمائی کرنے والے رون ڈی سینٹس ہیں،” شلیپ نے کہا۔
“وہ سینیٹرز سے محبت کرتے ہیں جو ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں اور صحیح کام کرتے ہیں،” شلیپ نے اس بات پر زور دیا جب اس نے کروز اور ہولی کو سر ہلایا، جنہوں نے کنفاب کی پہلی شام کو سرخی دی۔
آن لائن سوالنامے پر اسٹرا پول بیلٹ پر درج ان کی ظاہری شکل کے لحاظ سے یہ ہیں: سابق نائب صدر مائیک پینس، کروز، ہولی، سین مٹ رومنی، روبیو، آرکنساس کے سین ٹام کاٹن، ٹرمپ، پومپیو، سین رینڈ پال کینٹکی، میری لینڈ کی گورنر لیری ہوگن، جنوبی کیرولائنا کی سابق گورنر اور اقوام متحدہ میں سفیر نکی ہیلی، ورجینیا کی گورنر گلین ینگکن، جنوبی کیرولینا کے سینیٹر ٹم سکاٹ، اوہائیو کے سابق گورنر جان کیسچ، ہاؤسنگ اور شہری ترقی کے سابق سیکرٹری ڈاکٹر بین کارسن، نیو جرسی کے سابق گورنر کرس کرسٹی، سکاٹ اور نوم۔
فاکس نیوز ایپ حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
سروے کا آخری سوال قدامت پسند شرکاء سے پوچھتا ہے کہ ان کے خیال میں 2024 میں ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہوں گے۔ انتخاب کی فہرست میں ترتیب سے شامل ہیں: نیویارک کے نمائندے الیگزینڈر اوکاسیو کورٹیز، صدر بائیڈن، سابق خاتون اول مشیل اوباما، سابق سینیٹر اور 2016 کی ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن، ٹرانسپورٹیشن سیکریٹری پیٹ بٹگیگ، نیو جرسی کی گورنر فل مرفی، نائب صدر کملا ہیرس، اوپرا ونفری، کیلیفورنیا کی گورنر گیون نیوزوم اور مینیسوٹا کی سینیٹر ایمی کلوبوچار۔
Fox Nation CPAC 2022 کا نمایاں سپانسر ہے۔ Fox Nation پر CPAC تقریریں لائیو اور آن ڈیمانڈ دیکھیں۔ 30 دن کا مفت ٹرائل حاصل کرنے کے لیے پرومو کوڈ CPAC کا استعمال کرتے ہوئے سائن اپ کریں۔ پیشکش 30 اپریل 2022 کو ختم ہو رہی ہے۔
فاکس نیوز کے بروک سنگ مین نے اس رپورٹ میں تعاون کیا۔
Source link
0 notes
Link
وقفة احتجاجية لموظفين بإدارة بايدن للمطالبة بوقف الحرب بغزة.. والسيناتور ساندرز: دعم إسرائيل يجعلنا متواطئين https://sawtelghad.net/news/8371
0 notes
Text
AVENA SATIVA - جَو
AVENA SATIVA – جَو
AVENA SATIVA – جَو جَو – جَئی Barley Common Oats افعال و استعمال قابض، مسکن حرارت ، مدر بول اور کثیرالغذا ہے خشکی لاتا ہے ۔ مواد کو پختہ کرتا ہے۔ جوش خون کو تسکین دیتا ہے صفرا و پیاس اور گرمی کے بخار کی حد کو روکتا ہے۔ جو کی روٹی ثقیل اور دیر ہضم ہوتی ہے۔ موسم گرما میں پیاس کو بجھانے کے لیے جو کا ستو شرت میں ملا کر استعمال کرتے ہیں۔ جو کو پانی سے نمی دے کر اگنے دیا جائے اور جس وقت وہ اگنے…
View On WordPress
0 notes
Text
کیا امریکا بکھر رہا ہے
( ’’ کیا امریکا بکھر رہا ہے‘‘ کے عنوان سے آپ تین حصوں پر مشتمل جو مضمون پڑھیں گے وہ دراصل کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ثقافتی و ماحولیاتی محقق ویڈ ڈیوس کا تجزیہ ہے )۔ ہنری کسنجر سے جو کئی مقولے منسوب ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ’’ امریکا سے دشمنی خطرناک مگر امریکا سے دوستی مہلک ہے‘‘۔ ہر سلطنت کی طرح امریکا بھی اس وقت زوال کے خطرے سے دوچار ہے۔ کوئی سلطنت دائمی نہیں۔ جو اوپر جائے گا وہ نیچے بھی آئے گا۔ پندھرویں صدی پرتگیزیوں کی تھی۔ سولہویں صدی میں ہسپانیہ کا بول بالا تھا۔ ستہرویں صدی میں ولندیزی، اٹھارویں میں فرانسیسی اور انیسویں صدی میں برطانیہ عظمیٰ کا طوطی بولتا تھا۔ پہلی عالمی جنگ میں لہولہان ہونے کے باوجود انیس سو پینتیس تک برطانیہ کرہِ ارض کی سب سے بڑی سلطنت گردانی جاتی تھی۔ دوسری عالمی جنگ نے سب ہی کی جغرافیائی و اقتصادی چولیں ہلا دیں۔ جب جمال عبدالناصر نے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لیا اور انیس سو چھپن میں برطانیہ نے اسرائیل اور فرانس کے ساتھ مل کے مصر پر حملہ کیا اور امریکا ، سوویت یونین اور اقوامِ متحدہ کے بھرپور دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے پہلی بار پسپا ہونا پڑا تو سب کو معلوم ہو گیا کہ عظیم برطانیہ کے دن گنے جا چکے ہیں۔
امریکا اگرچہ انیس سو تیرہ تک ایک بڑی اقتصادی طاقت بن چکا تھا مگر عالمی سیاست میں اس کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب جنگِ عظیم اول کے آخری برسوں میں امریکا یورپی اتحادیوں کی مدد کے لیے کودا تو پہلی بار اسے اپنی قوت اور اثر و رسوخ کے ممکنہ حجم کا بھرپور اندازہ ہوا۔ انیس سو چالیس میں جب جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کیا تب امریکی فوج کی نفری پرتگال اور بلغاریہ کی فوج سے بھی کم تھی۔ لیکن اگلے چار برس میں ایک کروڑ اسی لاکھ امریکی مرد اور خواتین فوجی یونیفارم اڑس چکے ��ھے۔ لاکھوں امریکی کارکن کارخانوں اور کانوں میں ڈبل شفٹ پر کام کر رہے تھے۔ روز ویلٹ نے امریکا کو جمہوریت کا اسلحہ خانہ قرار دے کر ایک عام امریکی کا جوش دوبالا کر دیا۔ پرل ہاربر حملے کے بعد کے چھ ہفتے میں ربڑ کی نوے فیصد عالمی پیداوار جاپانیوں کے قبضے میں آ گئی تو امریکا میں ٹائروں کو شکست و ریخت سے بچانے کے لیے حدِ رفتار گھٹا کے پینتیس میل فی گھنٹہ کر دی گئی۔ اگلے تین برس میں مصنوعی ربڑ کی صنعت وجود میں آ گئی جس سے بننے والے ٹائروں کی مدد سے اتحادی افواج نے یورپ میں نازیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔
اگلے چار برس میں ہنری فورڈ کا طیارہ ساز کارخانہ ہر دو گھنٹے میں ایک بی چوبیس بمبار اسمبل کرنے لگا۔ امریکی شپ یارڈ ساڑھے چار دن میں ایک جنگی جہاز تیار کرنے کے قابل ہو گئے۔ لانگ بیچ اور سوسالیتو کے یارڈز سے روزانہ دو لبرٹی شپ پانی میں اتارے جانے لگے۔ ڈیٹرائٹ میں قائم کرائسلر کے ایک کارخانے میں اس عرصے کے دوران جتنے ٹینک تیار ہوئے وہ نازی جرمنی کی مجموعی ٹینک پیداوار کے برابر تھے۔ یہ سوویت فوج کا خون اور امریکی صنعتی طاقت تھی جس نے دوسری عالمی جنگ کا رخ موڑ دیا۔ فتح کے بعد ایٹم بم سے مسلح امریکا غالب عالمی طاقت بن گیا۔ گو اس کی آبادی عالمی آبادی کا چھ فیصد تھی مگر عالمی معیشت کا پچاس فیصد حصہ امریکی صنعت کاری و کاروبار سے جڑا ہوا تھا۔ گاڑیوں کی عالمی پیداوار میں امریکا کا حصہ ترانوے فیصد تک پہنچ گیا۔ اگلے پینتالیس برس میں مقابلے بازی کی تاب نہ لاتے ہوئے سوویت قوت دم توڑ گئی۔ ڈالر عالمی کرنسی بن گیا۔ بری و بحری راستوں پر امریکا کا عسکری کنٹرول پختہ ہوتا چلا گیا۔امریکا میں ایک پھلتی پھولتی مڈل کلاس وجود میں آئی۔
روزگاری مواقع میں اضافے اور مزدور یونینوں کی جدوجہد کے نتیجے میں معاوضے اور مراعات میں بڑھوتری کے سبب ایک عام مزدور بھی قسطوں پر گھر اور کار رکھنے کے قابل ہو گیا۔ بچے پہلے سے بہتر تعلیم حاصل کرنے لگے۔خوشحالی کی لہر نے وقتی طور پر آجر اور اجیر کے تعلقات میں کشیدگی کم کر دی۔ٹیکس ریٹ اوپری طبقے کے لیے زیادہ اور نچلے طبقات کے لیے کم ہو گئے۔ یہ زمانہ ( پچاس اور ساٹھ) امریکی سرمایہ داری کا سنہری دور کہلاتا ہے۔ البتہ چوبیس گھنٹے سات دن کام کام اور کام کے نعرے نے اپنے ذیلی سماجی اثرات بھی ظاہر کرنے شروع کیے۔ کارکن اپنے خاندانوں کے ساتھ کم وقت گذارنے لگے۔ ایک امریکی ورکر اوسطاً بیس منٹ روزانہ اپنے بچوں کو دے پاتا ہے۔ جب یہ بچے اٹھارہ برس کی عمر تک پہنچتے ہیں تب تک مجموعی طور پر دو برس کے برابر کا وقت فاسٹ فوڈ سامنے رکھ کے ٹی وی کے سامنے یا لیپ ٹاپ کے آگے گذار چکے ہوتے ہیں (اب سب کے ہاتھ میں موبائل فون ہے )۔ اس سہل پسندی نے روک ٹوک سے آزاد نوعمر بچوں میں موٹاپے اور توندیلے پن جیسے مسائل کو جنم دیا۔ اب موٹاپے کی وبا نے ایک قومی بحران کی شکل اختیار کر لی ہے۔
سکے کا ایک رخ اگر روشن بتایا جا رہا ہے تو دوسرا رخ تاریک ہے۔ جنگِ عظیم دوم میں کامیابی کے باوجود امریکا نہ خود چین سے بیٹھا نہ دنیا کو بیٹھنے دیا۔ آج لگ بھگ ڈیڑھ سو ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں امریکی فوجی موجودگی یا مداخلت دیکھی جا سکتی ہے۔ انیس سو اسی کی دہائی سے چین نے ایک بھی بیرونی حملہ نہیں کیا اور امریکا ایک دن بھی حالتِ جنگ سے نہیں نکل پایا۔ سابق صدر جمی کارٹر کے بقول دو سو بیالیس کی تاریخ میں امریکا کی قسمت میں صرف سولہ برس ایسے گذرے جب مکمل امن تھا۔ گویا اس وقت کرہِ ارض پر امریکا سب سے زیادہ جنگجو ملک ہے۔ دو ہزار ایک سے اب تک آٹھ ٹریلین ڈالر جدل پر صرف ہو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ رقم اندرونِ ملک صنعتی و تعمیراتی ڈھانچے کو مزید بہتر اور مقابلہ پسند بنانے پر بھی صرف ہو سکتی تھی۔ اس عرصے میں چین کی پوری توجہ وطن سازی پرمرکوز رہی۔ ہر تین برس میں چین میں سیمنٹ کی کھپت اتنی ہے جتنی کھپت امریکا میں پوری بیسویں صدی میں ہوئی تھی۔
اگرچہ امریکا کو اسلحے اور دفاع سے متعلق افرادی قوت اور ٹیکنالوجی میں آج بھی سبقت ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جنگ جیتنے کی صلاحیت میں کمی آتی جا رہی ہے۔ امریکا نے دوسری عالمگیر لڑائی کے بعد اگر کوئی مہم فیصلہ کن انداز میں جیتی تو وہ انیس سو اکیانوے کی جنگِ خلیج تھی جس میں کویت سے عراق کو نکالا گیا۔ فتوحات کی فہرست میں آپ چاہیں تو انیس سو پینسٹھ میں ڈومینیکن ریپبلک، انیس سو تراسی میں گریناڈا اور انیس سو نواسی میں پاناما کے خلاف پولیس ایکشن ٹائپ فوجی کارروائی کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ اس عرصے میں کوریا کی جنگ سے افغانستان کی لڑائی تک جتنی بھی بڑی اور طویل جنگیں ہوئیں ان میں امریکی کارکردگی مسلسل مایوس کن رہی۔ پچھلی پانچ صدیوں میں ابھرنے والی عالمی طاقتوں میں سے اتنا مایوس کن ریکارڈ پرتگال اور ولندیز سمیت کسی طاقت کا نہیں رہا۔
چھ جون انیس سو چوالیس کو امریکا سمیت پانچ اتحادی ممالک کی مشترکہ افواج فرانس کے نارمنڈی ساحل پر اتریں اور پہلے ہی دن چار ہزار چار سو چودہ سپاہی قربان ہوئے۔ جتنے اتحادی فوجی نارمنڈی پر حملے کے بعد کے ایک ماہ میں ہلاک ہوئے اس سے زیادہ امریکی شہری اپریل تا جون دو ہزار انیس میں گن کلچر کی نذر ہو گئے۔ اگر عمرانی نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو سماجی انفرادیت کے فوائد اکثر خاندانی اجتماعیت کے فضائل کی قیمت پر حاصل ہوتے ہیں۔ یوں احساسِ بیگانگی سماج میں اپنی جڑیں گہری کرتا جاتا ہے اور طرح طرح سے چھلکتا ہے۔ حالانکہ امریکی آئین دنیا میں واحد مثال ہے جس میں خوشی کا حصول بھی بنیادی انسانی حق شمار ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس وقت پچاس فیصد امریکی ہی سماجی میل جول کے لیے وقت نکال پاتے ہیں۔ دنیا بھر میں مایوسی و اداسی کی کیفیات ( ڈیپریشن ) رفع کرنے کے لیے جو ادویات فروخت ہوتی ہیں ان کا انسٹھ فیصد امریکا میں استعمال ہوتا ہے۔
پچاس برس سے کم عمر کے امریکیوں میں غیر طبعی موت کا سب سے بڑا سبب سڑک کے حادثات ہیں۔ سرکاری و نجی قرضوں کا حجم ٹائم بم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ امیر اور غری�� کی آمدنی میں فرق دیگر سماجی، اقتصادی و سیاسی مسائل کی دلدل بن رہا ہے۔ ٹرمپ ازم اس مایوسی کا بین ثبوت ہے۔ جب خوشحال زندگی کا خواب بکھرنے لگے۔ کارخانے بند ہونے کے باوجود امیر اس لیے امیر تر ہوتے چلے جائیں کہ عالمگیریت کے بہانے افراد اور اقوام کو قریب لانے کے بجائے وسائل اور روزگار سستی مزدوری کے لالچ میں سرمایہ سمندر پار منتقل ہونے لگے اور خود پر فخر کرنے والی اقتصادی، سماجی و سیاسی علامات بھی دھندلانے لگیں تو خود پر سے یقین اٹھنے لگتا ہے اور ریاست سے شہری کا عمرانی معاہدہ ڈگمگانے لگتا ہے۔ پچاس کی دہائی کے وہ دن ہوا ہوئے جب امریکی سرمایہ دار اشرافیہ کو آج کے ڈنمارک کی طرح نوے فیصد ٹیکس دینا پڑتا تھا اور اعلیٰ ترین کارپوریٹ عہدیدار اور ایک عام منیجر کی تنخواہ میں زیادہ سے زیادہ تفاوت بیس گنا تھا۔
آج یہ فرق چار سو گنا تک بڑھ گیا ہے اور بالائی مینجمنٹ کو حصص اور مراعات کی شکل میں جو سہولتیں میسر ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ ایک فیصد اشرافیہ تیس ٹریلین مالیت کے اثاثے کنٹرول کرتی ہے۔ جب کہ پچاس فیصد آبادی کا قرضہ ان کے زیرِ استعمال اثاثوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت تین امریکی شہریوں کے پاس جتنے اثاثے ہیں وہ سولہ کروڑ امریکیوں کے مجموعی اثاثوں کی قدر کے برابر ہیں۔بیس فیصد امریکی کنبوں کے پاس زیرو اثاثہ ہے اور سینتیس فیصد سیاہ فام خاندان اسی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ متوسط طبقے میں شمار ہونے والے سیاہ فام کنبوں کی اوسط آمدنی سفید فام متوسط کنبوں سے دس گنا کم ہے۔ نسلی عدم توازن کی شکل یہ ہو گئی ہے کہ امریکی جیلوں میں آدھے قیدی سیاہ فام ہیں جب کہ وہ امریکی آبادی کا محض تیرہ فیصد ہیں۔ اکثریت کا رنگ کوئی بھی ہو اگر اسے لگاتار دو تنخواہیں نہ ملیں تو دیوالیہ پن اس کے دروازے پر کھڑا ہو جاتا ہے۔
اگرچہ تمام امریکی شہری بظاہر دنیا کی سب سے امیر قوم کا حصہ ہیں مگر ان میں سے اکثر جھولتی خوشحالی کی ایسی بے یقین تار پر بیٹھے ہیں جس سے گرنے کی صورت میں نیچے کوئی حفاظتی جال نہیں ۔ اس حالت کا ذمے دار کوئی نائن الیون نہیں بلکہ ’’خود کردہ را علاج نیست‘‘ والا معاملہ ہے۔ امریکی ریاست کی اخلاقی قوت پر آخری سوالیہ نشان دو ہزار تین میں کھڑا ہو گیا جب عراق کو وسیع تر تباہی پھیلانے والے ان ہتھیاروں کی پاداش میں تاخت و تاراج کر دیا گیا کہ جن کا وجود آج تک ثابت نہیں ہو سکا۔ اندرونی اقتصادی کس بل کتنے پانی میں ہے۔ اس کا اندازہ دو ہزار آٹھ میں ہو گیا جب دیوالیہ پن کی دلدل میں بڑے بڑے امریکی کاروباری ادارے بتاشوں کی طرح بیٹھتے چلے گئے۔ دو ہزار دس کی دہائی میں روس اور چین کے اقتصادی و علاقائی اثر و رسوخ میں حیرت انگیز اضافہ ہونے لگا اور دوسری جانب امریکا میں سماجی و اقتصادی بحران نے ووٹروں کو ٹرمپ ازم کی جانب دھکیل دیا۔نسلی عدم مساوات نے ’’بلیک لائیوز میٹرز‘‘ تحریک کو جنم دیا اور کوویڈ نے صحت کے نظام کو بٹھا دیا۔
کوویڈ جیسا مسئلہ انسانی تاریخ میں اس لحاظ سے اچھوتا ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں موجود باشندہ تشویش اور امید کے جذبے سے ایک ساتھ گذر رہا ہے۔ نمک کے ذرے سے بھی دس ہزار گنا چھوٹے وائرس نے نہ صرف انسانی جسم کو نشانہ بنایا بلکہ اس کی اقتصادی و سماجی بنیادوں میں بھی بیٹھ گیا۔ اگرچہ ویکیسن بھی برق رفتاری سے تیار ہو گئی مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ ویکسین کب تک کارگر رہے گی۔وائرس عیار ہے سو بھیس بدل لیتا ہے۔ وباؤں نے تاریخ کے دھارے، انسانی سوچ اور عمل پر ہمیشہ گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ جب چودھویں صدی میں یورپ میں طاعون نے ایک تہائی سے زائد آبادی چاٹ لی تو افرادی قوت کی قلت کے سبب کارکنوں کے معاوضے بھی بڑھانے پڑ گئے۔ تیرہ سو اکیاسی میں یورپی کسانوں نے صدیوں میں گڑے جاگیرداری نظام کے خلاف بھرپور بغاوت کی کوشش کی۔ اس سے جاگیرداری نظام کی چولیں ہل گئیں اور پھر مرکنٹائل ازم اور اس کے بل بوتے پر پہلے صنعتی انقلاب اور پھر انقلابِ فرانس کی راہ ہموار ہوئی۔
کوویڈ ہماری زندگیوں میں کون کون سی فیصلہ کن تبدیلیاں لایا ہے یا لائے گا۔ اس کا اندازہ فوراً نہیں ہو گا بلکہ عشرہ وار کھلتا چلا جائے گا۔ جیسے انیس سو چودہ میں آرچ ڈیوک فرڈیننڈ کے قتل سے شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ نے پرانی دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔ یا انیس سو انتیس میں شروع ہونے والی عظیم کساد بازاری نے پرانی سرمایہ داری کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا اور اس کے ملبے سے کارپوریٹ کلچر کی تعمیر ہوئی۔ یا پھر انیس سو تینتیس میں ہٹلر کے عروج نے اگلے بارہ برس میں دنیا کو جس طرح تہہ و بالا کیا۔ اسی کے اثرات کے سبب انیس سو پینتالیس کے بعد تشکیل پانے والے نئے عالمی نظام میں ہم دو ہزار بیس تک جی رہے تھے۔ کوویڈ نے پچھتر برس سے رواں اس مالیاتی و اقتصادی بریٹن وڈ نظام کی تبدیلی کی نیو رکھ دی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس نی�� پر کیسی دیوار اٹھ رہی ہے۔ مگر ڈھانچہ اندر باہر سے ہل چکا ہے۔
کوویڈ نے ساڑھے چار کروڑ امریکی ملازمتیں ختم کر دیں اور پینتیس لاکھ کاروبار ٹھپ ہو گئے۔ اکتالیس فیصد سیاہ فام کاروبار دیوالیہ ہو گئے۔ اس وبا نے بہت کچھ کھول کے رکھ دیا۔ ایک ایسا ملک جو کبھی ہر گھنٹے میں ایک لڑاکا طیارہ بنانے کے قابل تھا۔ اسے ماسک اور کاٹن کی پٹیوں کے لالے پڑ گئے۔ جس ملک نے کئی عشروں تک طبی سائنس و تحقیق و دریافت میں دنیا کی رہنمائی کی۔ پولیو اور خسرہ سے نجات حاصل کرنے میں کل عالم کی مدد کی۔ اس ملک کی سب سے اونچی و بااختیار کرسی پر بیٹھا مسخرہ پہلے تو کورونا کو نزلے کی ایک نئی قسم قرار دیتا رہا اور پھر یہ تجویز کرنے لگا کہ کورونا کو مارنے کے لیے گھریلو صفائی کے کیمیکل بھی رگوں میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا کی چار فیصد آبادی اس وقت امریکا میں رہتی ہے مگر کوویڈ سے دنیا بھر میں مرنے والوں میں سے بیس فیصد شہری بھی امریکی تھے۔ اخبار آئرش ٹائمز کے مطابق ’’ دو صدیوں سے زائد مدت تک باقی دنیا امریکا سے نفرت یا محبت ، خوف اور اطمینان، حسد اور رشک کے جذبات میں مبتلا رہی۔
پہلی بار ان جذبات میں تر�� کا جذبہ بھی شامل ہو گیا۔ جب امریکی ڈاکٹر اور نرسیں چین سے آنے والی بنیادی طبی رسد کی کھیپ کا بے چینی سے انتظار کرتے رہے۔یوں تاریخ کا رخ ایشیا کی صدی کی جانب مڑ گیا‘‘۔ اس وبا کے سبب گزشتہ دو برس میں امریکا کی عظیم برتری ایک عام سے ملک کی آمریت دکھائی دینے لگی اور آمریت سے جوج رہے ممالک امریکا کو اخلاقی درس دینے لگے۔ مثلاً سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں موت پر انگشت برابر ریاست چیچنیا کے آمر رمضان قادریوف نے امریکا کی انسانی حقوق کی بہیمانہ پالیسی کو خوب لتاڑا۔ شمالی کوریا کے اخبارات نے امریکی پولیس کی زیادتیوں کی کھل کے مذمت کی۔ ایران کے مذہبی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس واقعے سے امریکا نے اپنی بربادی کا آغاز کر دیا ہے۔
جب ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے ہانگ کانگ میں جمہوری حقوق کی تحریک کچلے جانے اور چین میں انسانی حقوق کے مجموعی حالات پر ٹویٹ کیا تو چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اس کے جواب میں جارج فلائیڈ کے یہ آخری الفاظ ٹویٹ کر دیے ’’ میں سانس نہیں لے سکتا ۔‘‘ ٹرمپ کا آنا محض اقتصادی و سماجی بے چینی کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ امریکن ڈریم کا اپنے ہی بوجھ سے چٹخنے کا بگل تھا۔ جس ملک کے بانیوں نے آزادیِ اظہار کو جمہوری رگوں میں دوڑنے والے خون جتنا اہم قرار دیا، وہ ملک آج آزادیِ اظہار اور اطلاعات کی کھلی رسائی کی عالمی فہرست میں پینتالیسویں پائیدان پر کھڑا ہے۔ ایسی ریاست جو تارکینِ وطن نے تشکیل دی اور اپنے قیام کے ڈیڑھ سو برس بعد تک ہر مصیبت کے مارے کے لیے اپنے بازو کھولے رکھے اور ہر نئے آنے والے کو آزادی دی کہ امریکن ڈریم میں سے اپنی صلاحیتوں کی بنا پر جتنا حصہ بٹورنا چاہے بٹور لے۔ آج اسی قوم کے آدھے لوگ صحتِ عامہ کے ڈھانچے پر رقم لگانے کو میکسیکو سے ملنے والی جنوبی سرحد پر تارکینِ وطن کو روکنے کی خاطر دیوار اٹھانے کے منصوبے سے کم اہم سمجھتے ہیں۔
اطلاعات تک رسائی سے کہیں اہم آئین کی دوسری ترمیم کے تحت اس حق کو سمجھا جاتا ہے جس کے تحت ہر امریکی کو اپنے دفاع میں اسلحہ رکھنے کا حق ہے۔ حالانکہ جس زمانے میں یہ حق دیا گیا تھا، اس وقت امریکا کی زمینی توسیع اور آباد کاروں کی جانب سے قدرتی وسائل کی چھینا جھپٹی کی مزاحمت کرنے والے مقامی لوگوں سے نپٹنے کا معاملہ درپیش تھا۔ بعد میں اسی بندر بانٹ کے سبب پیدا ہونے والی رقابت کے نتیجے میں یہ آبادکار چار سالہ خانہ جنگی میں باہم دست و گریباں بھی رہے۔ لیکن آج بظاہر کوئی مسلح خانہ جنگی نہیں۔ نہ ہی بزور زمینیں اور وسائل ہتھیانے کا چلن ہے۔ پھر بھی ہر شہری کو اسلحہ رکھنے کی اجازت دینے کا مطلب سوائے اس کے کیا نکل رہا ہے کہ وہ بندوق کی نالی کا رخ اپنے ہی ہمسائیوں کی جانب موڑ دے یا پھر محبوبہ کے چھوڑ کر چلے جانے کے غم میں کسی کلب یا اسکول میں گھس کر موت برسا دے۔ مگر اسلحہ رکھنے کے حق کو آج بھی دیگر حقوق سے زیادہ مقدس سمجھا جاتا ہے۔
کہنے کو امریکا عالمی پولیس مین ہے لیکن امریکی شہری اپنے انفرادی تحفظ کی مکمل زمہ داری اس پولیس مین کے حوالے کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ایک ایسی ریاست جو قومی سطح پر تقسیم در تقسیم اور بے چینی کی مختلف پرتوں کو کم کرنے کے بجائے اضافے کا موجب بن رہی ہے۔ وبائی لہروں، ماحولیات کی ابتری اور دہشت گردی کے جھکڑ کے پیچھے موجزن بنیادی علاقائی و نسلی و سیاسی اسباب میں کمی کے لیے ایک ایماندار سرپنچ بننے کے بجائے ایک جانبدار دلالی کو جائز سمجھتی ہے۔ وہ ایک لامحدود عرصے کے لیے عالمی لیڈر بننے کی کیوں کر دعویدار رھ سکتی ہے اور باقی دنیا اس پر کیوں اعتبار کرتی رہے ؟ جھنڈے میں لپٹی اندھی حب الوطنی رحم و درگزر کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ مسلسل غصہ اور دشمنی لگاؤ کے جذبے کو کیسے پنپا سکتا ہے ؟
گاندھی سے کسی نے پوچھا کہ مغربی تہذیب کے بارے میں آپ کے کیا وچار ہیں۔ گاندھی جی نے ترنت کہا ’’ میرے خیال میں یہ ایک اچھی اختراع ہے‘‘۔ مغربی تہذیب پر تو شاید یہ جواب پوری طرح لاگو نہ ہو لیکن امریکن ڈریم ضرور گاندھی جی کے اس مقولے کے کھانچے میں آج فٹ بیٹھتا ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ امریکا کل ڈوب جائے گا۔ یہ مدت طویل بھی ہو سکتی ہے اگر بڑے بڑے شگافوں کی مرمت ابھی سے شروع ہو جائے۔ مگر کون سا شگاف زیادہ خطرناک ہے اور اس کا پہلے بھرنا ضروری ہے۔ لگتا ہے اسی سوچ میں مدت گذر جائے گی اور تہذیب کے اگلے بیڑے تب تک کوسوں آگے بڑھ چکے ہوں گے اور ایک دن امریکا کا یہ نعرہ ’’ ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں ‘‘ ’’ پدرم سلطان بود ‘‘ سے بدل جائے گا، جو گیند جتنی رفتار سے اوپر جاتی ہے اتنی ہی رفتار سے نیچے بھی آتی ہے۔ یہ نیوٹن کا نہیں قدرت کا قانون ہے۔
( ’’ کیا امریکا بکھر رہا ہے‘‘ کے عنوان سے آپ نے تین حصوں پر مشتمل جو مضمون پڑھا وہ دراصل کینیڈا کی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ثقافتی و ماحولیاتی محقق ویڈ ڈیوس کا تجزیہ ہے۔ اس مضمون کے بارے میں حتمی رائے کا حق قاری کی ہی ملکیت ہے ۔)
وسعت اللہ خان
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
Text
مارك زوكربيرج يتواصل مع المشرعين الأستراليين بشأن قواعد وسائل الإعلام الجديدة
مارك زوكربيرج يتواصل مع المشرعين الأستراليين بشأن قواعد وسائل الإعلام الجديدة
قال مارك زوكربيرج، الرئيس التنفيذي لشركة فيسبوك، إنه اتصل بالمشرعين الأستراليين الأسبوع الماضي لمناقشة القواعد التي ستجعل عمالقة الإنترنت يدفعون لمنافذ الأخبار مقابل المحتوى، لكنه فشل في إقناعهم بتغيير السياسة حسبما نقل وزير الخزانة في البلاد. وتبع ذلك نقاش الأسبوع الماضي بين الملياردير على وسائل التواصل الاجتماعي، ووزير الخزانة الأسترالي جوش فرايدنبرج ووزير الاتصالات بول فليتشر َفقا لما…
View On WordPress
0 notes
Text
ڈبلیو ایف ایچ: ڈبلیو ایف ایچ دنیا میں ثقافت بنانا: 3 چھوٹے کاروباروں نے یہ کیسے کیا۔
ڈبلیو ایف ایچ: ڈبلیو ایف ایچ دنیا میں ثقافت بنانا: 3 چھوٹے کاروباروں نے یہ کیسے کیا۔
کی سیٹی فیملی فوڈز۔ ویب سائٹ ، زیادہ تر کمپنی کی ویب سائٹس کی طرح ، اپنے بانیوں کی نمائش کرتی ہے۔ لیکن یہ کمپنی کے تقریبا 98 تمام 98 ملازمین پر بھی روشنی ڈالتا ہے ، جس میں ہر شخص کے لیے بچپن کی تصاویر اور “دو سچ اور ایک جھوٹ” شامل ہیں۔ مکمل عملہ درج کیا جائے گا ، لیکن سیٹی برقرار رکھنے کے لئے بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے: اس نے وبائی امراض کے دوران 30 سے زیادہ ملازمین کو شامل کیا ہے ، جن میں اس مہینے میں تین شامل ہیں۔
زائرین کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ویرونیکا گارزا ، جس نے اناج سے پاک پیکڈ فوڈز برانڈ کی بنیاد اپنے بھائی ، میگوئیل اور والدہ ایڈا کے ساتھ رکھی ہے ، ایک بینڈ میں مرکزی گلوکار ہونے کے بارے میں جھوٹ بول رہی ہے ، ایک قومی چیئر لیڈنگ مقابلے کے دوران تین میراتھن چلا رہی ہے یا قے کر رہی ہے۔ (اس نے میراتھن نہیں چلائی۔)
کمپنی چاہتی ہے کہ اس کے گاہک ٹیم کو جانیں اور ٹیم ایک دوسرے کو جان لے جیسے کہ وہ فیملی ہوں۔ جو مناسب ہے ، اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ وبائی مرض سے پہلے زیادہ تر عملہ گارزا خاندان تھا ، جس میں والدین ، بہن بھائی اور سسرال والے بھی شامل تھے۔
چیف ایگزیکٹو میگوئل گارزا نے کہا ، “ہم ایک فیملی فرسٹ ، فیملی سیکنڈ ، بزنس تیسری کمپنی ہیں۔”
لیکن وبائی امراض کے دوران اس خاندانی ثقافت کی تعمیر مشکل ہو گئی ، لوگ دور سے کام کرتے ہیں۔ سیئٹی جیسی بڑھتی ہوئی کمپنیوں نے نئے ملازمین کو یہ احساس دلانے کے طریقے تلاش کرنے میں جدوجہد کی ہے کہ جب وہ ذاتی طور پر نہیں مل سکتے تو وہ کاروبار کا حصہ ہیں۔ آفس سیٹنگ اور موجودہ سسٹمز کے اشارے کے بغیر ، آپ کمپنی کی ثقافت کیسے سیکھتے ہیں؟
یہ مسئلہ چھوٹے کاروباری اداروں اور دیوہیکل کمپنیوں کو یکساں طور پر درپیش ہے ، حالانکہ یہ چھوٹی فرموں کے لیے زیادہ شدید ہوسکتا ہے جن میں انسانی وسائل یا واضح ثقافت نہیں ہو سکتی۔ اور یہ زیادہ چیلنج ہونے کا امکان ہے کیونکہ کورونا وائرس کا ڈیلٹا ورینٹ بیک ٹو آفس منصوبوں کو روکتا ہے اور ہائبرڈ ورک ڈھانچے مستقل ہو جاتے ہیں۔ سے ایک ورکنگ پیپر۔ نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ۔ انہوں نے کہا کہ وبائی امراض کے بعد بھی کم از کم 20 فیصد امریکیوں کے کام کے دن گھر سے ہوں گے۔
Siete میں ، Garzas نے اپنی ویب سائٹ سے ایک اشارہ لیا اور ایک گیم تیار کیا۔ نئے ملازمین کو ایک بنگو کارڈ ملتا ہے جس میں موجودہ ملازمین کی پوشیدہ صلاحیتوں اور کہانیوں کی فہرست ہوتی ہے اور ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان کارکنوں کے ساتھ ویڈیو کال کریں جب تک کہ وہ “بنگو” کو نہ ماریں۔
“یہ صرف تفریح ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے بھی تفریح ہے جو پہلے ہی ٹیم میں شامل ہیں ، ”میگوئل گارزا نے کہا۔ (اسے روم کامس اور فرینک سیناترا پسند ہیں ، لیکن وہ ہر ہفتے کے آخر میں براہ راست موسیقی نہیں دیکھتا ہے۔)
iStock
وبائی مرض سے پہلے ، عملہ اکثر آسٹن ، ٹیکساس ، دفتر میں کھانا پکاتا ، کھاتا اور کام کرتا تھا ، لہذا میگوئل گارزا ملازمین کے گھروں میں اس یکجہتی کو بڑھانے کے طریقے تلاش کر رہا ہے۔ یہ جان کر کہ فٹنس ٹیم کے لیے کتنا اہم ہے ، سیٹی نے ملازمین کو اپنی پسند کا کیٹل بیلز ، ڈمبلز یا ٹی آر ایکس سسٹم خریدا اور گارزا نے میزبانی شروع کی زوم ورزش
اچھی صحت بھی کمپنی کی اصل کی بنیاد ہے۔ جب ویرونیکا گارزا کو آٹومیون حالات کی تشخیص ہوئی تو اس نے ان سے لڑنے کے لیے اناج سے پاک غذا شروع کی۔ اس کا پورا خاندان اس میں شامل ہو گیا ، اور انہیں جلدی سے احساس ہوا کہ ٹارٹیلا اور میکسیکو کے دیگر کھانے پینے کا کوئی اچھا متبادل نہیں ہے جسے وہ پسند کرتے ہیں۔
میگوئل گارزا نے کہا ، “اناج سے پاک جانا واقعی الگ تھلگ ہے ، خاص طور پر ایسی ثقافت میں جہاں کھانا بہت اہم ہے۔”
ویرونیکا گارزا نے بادام کے آٹے کے ٹارٹیلا کا تجربہ کیا۔ جب اس کی دادی نے اسے حقیقی چیز کے طور پر اچھا قرار دیا تو دونوں بہن بھائیوں اور ان کی والدہ نے سیٹی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سات سال پہلے کی بات ہے آج یہ برانڈ 16،000 اسٹورز میں فروخت ہوتا ہے ، بشمول۔ مکمل غذائیں اور کروگر۔، اور اس سال 200 ملین ڈالر کی فروخت کی توقع ہے۔
یقینا ، کاروباری ثقافتیں جو کہ ریموٹ اور ہائبرڈ کام کو سنبھالنے کے لیے کافی مضبوط ہیں ، کمپنیوں کی طرح مختلف ہیں۔ ایک بنیادی لائن ہے ، اگرچہ: معیاری آفر لیٹر ، واضح تنخواہ اور فوائد کی معلومات ، اور ایک مضبوط ملازم کی ہینڈ بک گسٹو، ایک تنخواہ اور فوائد والی کمپنی جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کی خدمت کرتی ہے۔
لیکن وہ چیزیں کافی نہیں ہیں ، خاص طور پر سخت لیبر مارکیٹ میں۔ “آپ کو واقعی اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ تجربہ گرم اور بہت انسانی ہے۔”
جوش البرکٹسن نے گسٹو کی خدمات حاصل کیں جب اسے احساس ہوا کہ وہ تیزی سے ترقی کے لیے تمام کاغذی کارروائیوں کا انتظام نہیں کر سکتا۔ کارٹیکس ہیلتھ ، وہ فرم جس کی انہوں نے لیہی ، یوٹاہ میں شریک بنیاد رکھی۔ مارچ 2020 میں ، کمپنی کے پاس 15 ملازمین اور 400 آزاد نرس ٹھیکیدار تھے۔ ایک سال بعد ، اس میں ان ٹھیکیداروں کے علاوہ 500 کا عملہ تھا۔
وبائی مرض سے پہلے ، کورٹیکس نے اسپتالوں اور دوسرے مؤکلوں کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ نرسیں فراہم کریں جنہوں نے نئے رہائی پانے والے مریضوں کو فالو اپ کیئر کال کی۔ نرسوں کی رابطہ ٹریسنگ ، فالو اپ کیئر اور ویکسین کی معلومات پیش کرنے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے یہ قومی سطح پر ایک بہترین مقام تھا۔
گسٹو کی خدمات حاصل کرنے سے البرکٹسن کو کارٹیکس کلچر پر توجہ مرکوز کرنے کی آزادی ملی ، جسے وہ احسان کے طور پر بیان کرتا ہے۔ واضح ، مستقل مواصلات اور ایک “کارکردگی کی ذہنیت” اس نے فوری طور پر اتھارٹی کی وکندریقرت کی ، نرسوں کی نگرانی کے لیے ایک کل وقتی ملازم کی خدمات حاصل کیں۔ اس شخص نے جلدی سے دوسرے رہنماؤں کی شناخت کی اور انہیں فیصلے کرنے کا اختیار دیا۔
البرکٹسن نے کہا ، “وہ یہ راک اسٹار ثابت ہوئی۔ “ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے ��اس مستقبل کا ایگزیکٹو ہے۔”
ٹیمیں تیزی سے بات چیت کرنے کے لیے میسجنگ پلیٹ فارم سلیک کا استعمال کرتی ہیں ، اور کورٹیکس اپنے چینلز کو چوبیس گھنٹے اسٹاف کرتی ہے تاکہ نرسوں کے فوری سوالات کے جواب دینے کے لیے ایک مینیجر ہمیشہ دستیاب رہے۔ کمپنی نے سروے سسٹم اور کمیونٹی مینجمنٹ ٹولز تیار کیے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ٹیموں کو حقیقی وقت میں کیا ضرورت ہے۔
iStock
ان ابتدائی مہینوں کی عجلت ختم ہوچکی ہے اور بھرتی سست ہوگئی ہے ، لیکن کارٹیکس کا کل وقتی عملہ سکڑ نہیں رہا ہے۔ ملازمین سافٹ ویئر فروخت کرنے اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والی کمپنیوں کو پلیٹ فارم بھرتی کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں جنہیں وبائی امراض کے دوران بنائے گئے ٹولز اور خدمات کارٹیکس کی ضرورت ہے۔ ایک اور بڑی تبدیلی: وہ دفتر چھوڑ رہے ہیں۔ کارٹیکس اب 100 virtual ورچوئل ہے۔
کچھ صنعتوں کی محنت ، جیسے خوردہ اور مہمان نوازی ، ذاتی طور پر ہونی چاہیے۔ دوسروں میں ، مینوفیکچرنگ کی طرح ، دور دراز کا کام کچھ تخلیقی مسئلہ حل کرنے کے ساتھ پورا کیا جا سکتا ہے۔ ڈرون بنانے والی کمپنی اسکائیڈیو کے چیف ایگزیکٹو اور شریک بانی ایڈم برائی نے کہا کہ یہ کلید اعلیٰ سطح پر بااختیار بنانے اور احتساب کا کلچر بنا رہی ہے۔
اسکائی ڈیو نے ایک ایسا نظام قائم کیا جس میں ایک ہارڈ ویئر انجینئر دفتر میں پرزے اٹھا کر جمع کرتا اور پھر کسی اور کے پاس چلا جاتا اور مصنوعات کو وہیں چھوڑ دیتا۔ سافٹ ویئر انجینئر انٹرنیٹ کے ذریعے اس سے رابطہ کریں گے – جیسے دفتر میں ریموٹ سکرین شیئرنگ – کوڈ پر کام کرنے کے لیے۔
برائی نے کہا ، “ہم واقعی پاگل چیزیں کر رہے تھے۔ “ہم نے دریافت کیا ہے کہ بہت سارے ملازمین کے پاس ہوم لیب سیٹ اپ ہے اور وہ اس چیز پر بطور شوق کام کر رہے ہیں۔”
اس نے ملازمین کو نئے آئیڈیاز آزمانے کے لیے خودمختاری دی اور ان کے کردار کو اس بات کو یقینی بناتے ہوئے دیکھا کہ ان کے پاس ہر وہ چیز موجود ہے جس کی انہیں اچھی کارکردگی دکھانے کے لیے ضرورت ہے۔ اور اسے انعام دیا گیا: وبائی امراض کے دوران ، اسکائیڈیو نے اپنے عملے کو دگنا کر دیا ، تقریبا 300 ملازمین کو ، اور وینچر کیپیٹل فرم اینڈرسن ہورووٹز کی سربراہی میں $ 170 ملین فنڈ اکٹھا کرنے کے بعد 1 بلین ڈالر کی قیمت تک پہنچ گیا۔
پھر بھی ، برائی ٹیم کو مربوط رکھنے کے طریقے تلاش کرنا چاہتا تھا۔ وبائی مرض کے ابتدائی دنوں میں ، اس کا مطلب تھا کچھ تفریح کرنے کی کوشش کرنا۔ اس نے ان کے ریڈ ووڈ سٹی ، کیلیفورنیا ، دفتر کے قریب ایک ڈرائیو ان تھیٹر کرائے پر لیا اور 2013 کی سائنس فائی فلم “گریویٹی” دکھائی۔
برائی نے کہا ، “ہمیں اڑنے والی چیزیں پسند ہیں ، لہذا ہم نے ایک ہوا بازی کی فلم دیکھی۔”
ابھی حال ہی میں ، وہ ٹیم کی تعمیر اور ایسے واقعات چاہتے تھے جو کمپنی کی اقدار کے مطابق ہوں۔ مثال کے طور پر ، ڈرون انڈسٹری مردوں کو کمزور کرتی ہے ، لہذا برائی نے “خواتین کے فلائی ڈے” کی میزبانی کی اور اسکائیڈیو کی خواتین کو دعوت دی کہ وہ ایک دن ساحل سمندر پر ڈرون اڑاتے ہوئے گزاریں۔ پھر کمپنی نے رجسٹرڈ ڈرون پائلٹ بننے میں دلچسپی رکھنے والے کسی بھی شریک کو اضافی تربیت کی پیشکش کی۔ حاضرین میں سے دو تہائی نے اسے اٹھایا۔
مزید عملے کے ارکان دفتر واپس آنا شروع کر رہے ہیں ، لیکن برائی نے فیصلہ کیا ہے کہ اسکائیڈیو ہمیشہ ایک ہائبرڈ کام کا ماحول فراہم کرے گا۔ بہت سی میٹنگز ڈیجیٹل رہیں گی تاکہ لوگ شرکت کر سکیں چاہے وہ کہیں بھی ہوں۔
برائی نے کہا ، “ہم میں سے بہت سے لوگوں نے پرسکون ، مرکوز وقت کا فائدہ محسوس کیا ہے ، جو دفتری ماحول میں حاصل کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔”
. Source link
0 notes
Text
إن بي سي عن جوش بول المستقيل من الخارجية الأمريكية: بيع أسلحة لإسرائيل يشكك بمصداقية الدعوة لتقليل خسائر المدنيين
0 notes