#بیع
Explore tagged Tumblr posts
Photo
کیا جھوٹی گواہی اور حرام گفتگو سے روزہ باطل ہوجاتا ہے؟ سوال ۴۳۳: کیا رمضان میں دن کے وقت حرام گفتگو کرنے سے روزہ فاسد ہو جائے گا؟ جواب :جب ہم حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ پڑھتے ہیں: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُت��بَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّ��ُوْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۲۸۳) ’’اے مومنو! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘ تو اس سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ روزے کو واجب قرار دینے میں حکمت تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کا ذوق پیدا کرنا ہے۔ تقویٰ کے معنی حرام کردہ امور کو ترک کرنا ہے اور عند الاطلاق یہ اس فعل کے کرنے پر مشتمل ہے۔ جس کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ترک کرنے پر بھی مشتمل ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِہ والجھلِ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِی أَنْ یَدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ))( صحیح البخاری، الصیام، باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم، ح: ۱۹۰۳۔) ’’جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کرنے کو ترک نہ کرے، تو اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ اور ایک روایت میں جہالت کے ترک کرنے کاتذکرہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ روزہ دار کے لیے حرام اقوال وافعال سے بچنے کی کس قدر تاکید ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ لوگوں کی غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، چغلی نہ کھائے، حرام بیع وشراء نہ کرے اور دیگر تمام حرام امور سے بھی اجتناب کرے۔ اگر انسان ایک ماہ تک ان احکام کو بجا لائے جن کا حکم دیا گیا ہے اور ان کو ترک کر دے جن سے منع کیا گیا ہے، تو امید ہے کہ باقی سارا سال بھی راہ راست پر رہے گا۔ افسوس کہ بہت سے روزہ دار روزے اور غیر روزے کے دن میں فرق نہیں کرتے اور اپنی عادت کے مطابق جھوٹ، دھوکے اور حرام باتوں کا شغل جاری رکھتے ہیں اس طرح ان کے افعال سے روزے کا وقار اور احترام محسوس نہیں ہوتا۔ یاد رہے! ان افعال سے روزہ باطل تو نہیں ہوتا لیکن اس کا اجر و ثواب ضرور کم ہو جاتا ہے اور بعض صورتوں میں روزے کا اجر و ثواب ضائع بھی ہو سکتا ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۹۲، ۳۹۳ ) #FAI00350 ID: FAI00350 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Link
0 notes
Text
🌹🌹 A̶V̶O̶I̶D̶ H̶A̶R̶M̶.̶
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
5️⃣1️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *AVOID HARM*
*The Prophet of Islam ﷺ said that in Islam there should be neither harming nor reciprocating harm.*
(Musnad Ahmad, Hadith No. 2865)
*This tradition of the Prophet of Islam ﷺ explains an important collective principle.*
*This principle applies to both men and women, to individuals and the community, to national life, and international life.*
In the present age, every human being has to live in different situations, both favorable and unfavorable.
*There is a comprehensive rule for how men and women should live in such situations.*
*First, every individual should be harmless to others, and second, he should live so carefully that no one else gets a chance to harm him.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *نقصان سے بچیں :*
*سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اسلام میں نقصان اٹھانے یا نقصان پہنچانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔“*
(مسند احمد، حدیث نمبر 2865)
*اللہ کے رسولﷺ کا یہ فرمان ہمیں زندگی کے ایک بہت ہی اہم اجتماعی اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔*
*اس اصول پر عمل کرنا ہر مرد و عورت، افراد اور برادری، قومی زندگی اور بین الاقوامی زندگی پر لازمی ہے۔*
*اس دنیا میں ہر انسان کو مختلف موافق اور ناموافق حالات میں زندگی گزارنی پڑتی ہے۔*
*اس طرح کے موافق اور ناموافق حالات میں ہر مرد و عورت کو کیسے زندگی گزارنی چاہیے اس کے لیے دو جامع اصول موجود ہیں۔*
*پہلا، ہر فرد کو دوسروں کے لیے بے ضرر ہونا چاہیے، اور دوسرا، ہر فرد کو بہت ہی محتاط زندگی گزارنی چاہیے، تاکہ کسی اور کو اسے نقصان پہنچانے کا موقع ہی نہ ملے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🍂 *سیّدِعالَم ﷺ فرماتے ہیں : ’’ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی"۔*
(معجم الاوسط الحدیث: ۳۶۰۷)
*یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔*
🍁 *مسلمانوں کوناحق ایذا اور تکلیف نہ دی جائے :*
*یاد رہے کہ مسلمان مردو عورت کو دین ِاسلام میں یہ حق دیا گیا ہے کہ انہیں کوئی شخص اپنے قول اور فعل کے ذریعے نا حق ایذا نہ دے* ،یہاں اس سے متعلق تین اَحادیث اور بزرگانِ دین کے تین اَقوال ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
(1)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، *نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو،یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے"۔*
( بخاری، الحدیث: ۲۵۱۸)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، *سرکارِ دو عالَم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟* صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ *ارشاد فرمایا’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں"۔* *ارشاد فرمایا ’’تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟* صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ *ارشاد فرمایا’’مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں اور مہاجر وہ ہے جو گناہ کو چھوڑ دے اور اس سے بچے۔"*
( مسند امام احمد الحدیث: ۶۹۴۲)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، *نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک دوسرے سے حسدنہ کرو،گاہک کو دھوکہ دینے اور قیمت بڑھانے کیلئے دکاندار کے ساتھ مل کر جھوٹی بولی نہ لگاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو اور اے اللہ تعالیٰ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر نہ ظلم کرے، نہ اس کو رسوا کرے ، نہ حقیر جانے، حضور پُر نور ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا: " تقویٰ یہاں ہے اور کسی شخص کی برائی کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو برا جانے، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پرحرام ہے ،اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت"۔*
(مسلم الحدیث: ۳۲(۲۵۶۴))
(4)… حضرت فضیل رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : *"کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے"۔*
(5)… حضرت مجاہد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : *"جہنمیوں پرخارش مُسَلَّط کردی جائے گی تووہ اپنے جسم کوکھجلائیں گے حتّٰی کہ ان میں سے ایک کے چمڑے سے ہڈی ظاہر ہو جائے گی تو اسے پکارا جائے گا:اے فلاں !کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے ؟وہ کہے گا:ہاں ۔پکارنے والا کہے گا:تو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔"*
(6)…علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : "یہاں ایمان والوں کو اَذِیَّت دینے کا ذکر نبی کریم ﷺ کو اذیت دینے کے ساتھ ہوا جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کو اذیت دینے کا ذکر اللہ تعالیٰ کو اذیت دینے کے ساتھ ہوا،اس سے معلوم ہوا کہ ایمان والوں کو اذیت دینا گویا کہ رسولُ اللہ ﷺ کو اذیت دینا ہے اور رسول کریم ﷺ کو اذیت دینا گویا کہ اللہ تعالیٰ کو اذیت دینا ہے تو جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کو اذیت دینے والا دنیا اور آخرت میں لعنت کا مستحق ہے اسی طرح ایمان والوں کو اذیت دینے والا بھی دونوں جہاں میں لعنت و رسوائی کا حقدار ہے"۔
*اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں :* *"اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بغیر کچھ (خطا) کئے ستاتے ہیں توانہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سر) اٹھالیا ہے"۔*
(الاحزاب : ۵۸)
*مصطفی ﷺ نے فرمایا: ’’ یعنی وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے-‘‘*
(کنزالعمال الحدیث: ۷۸۲۲)
🍁 *موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو ایذا دینے کی مثالیں :*
▪️دل شکنی والے الفاظ سے پکارنا۔
▪️ساتھ کام کرنے والوں کی چغلیاں کھانا۔
▪️ساتھ کام کرنے والوں کی کارکردگی ناقص بنانے کی کوشش کرنااور اسے بلا وجہ ناقص ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔
▪️ساتھی کو تکلیف یا مصیبت پہنچنے پر خوشی کا اظہار کرنا۔
▪️ساتھیوں اورماتحتوں کو حقیر سمجھنا اور ان کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرنا۔
▪️مذاق اڑانا اور پھبتیاں کسنا۔
▪️گالیاں دینا ، لعنت کرنا،تہمت اور بہتان لگانا۔
▪️بدگمانیاں پھیلاتے پھرنا اور بلاوجہ کسی کے پوشیدہ عیبوں کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا۔
▪️لوگوں کا مال دبا لینا اور قرض کی ادائیگی میں بلا وجہ تنگ کرنا۔
▪️گلیوں میں کچرا اور غلاظت ڈالنا۔
▪️گھر میں شور شرابا کرنا اور بلند آواز سے ٹی وی اور گانے وغیرہ چلا کر پڑوسیوں کو تنگ کرنا۔
▪️پڑوسیوں کے گھر میں تانک جھانک کرنا اور ان کے عیبوں کی تلاش میں رہنا۔
▪️شادیوں میں شور شرابا ،غل غپاڑہ کرنا اور رات کے وقت آتش بازی کا مظاہرہ کرنا۔
▪️رشتہ نہ ملنے پر لڑکی والوں سے متعلق اذیت بھرے کلمات کہنا اورداماد وغیرہ کا اپنے سسرال والوں کو طرح طرح سے تنگ کرنا ۔
▪️غلط جگہ پارکنگ کر کے،گلیوں میں ملبہ وغیرہ ڈال کر اور مختلف تقاریب کے لئے گلیاں بند کرنا۔
▪️گلیوں میں کرکٹ اور فٹ بال وغیرہ کھیلنا اور خاص طور پررمضان کی راتوں میں رات رات بھر ایسا کرنا اور ا س دوران شور مچانا۔
▪️سائلنسر نکال کر گلیوں اور بازاروں میں موٹر سائیکل اور کاریں چلانا۔
🔸 *اللہ تعالیٰ ہمیں شریروں کے شر اور ظالموں کے ظلم سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔*
🔸 *اور اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم ایک دوسرے کو ایذا اور تکلیف دینے سے بچیں ،اٰمین۔*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
Text
افضل موقع لبيع السيارات في سلطنة عمان, oman-motors - عمان موتورز,أصبحت السيارات من الممتلكات الخاصة التي فضّل الأشخاص في كافة المناطق والمدن في العالم، أفضل مواقع بيع السيارات المستعملة والتي تعرض سيارات مستعملة رخي��ة وسيارات مستعملة للبيع لذلك إذا كنت تبحث عن سيارات للبيع في سلطنة عمان، فإن موقع عمان موتورز يشمل احدث السيارات المستعملة للبيع وأيضا تعرض أسعار السيارات في سلطنة عُمان المستعملة. أفضل المواقع لبيع السيارات المستعملة في عمان
تعرف معنا على افضل المواقع الالكترونية لبيع السيارات المستعملة في سلطنة عمان يعتبر موقع oman-motors - عمان موتورز كواحد من افضل مواقع الانترنت التي للعميل البحث عن السيارة التي يرغب في امتلاكها مباشرة. متوفر لدينا نقل السيارات الجديدة والمستعمله داخل السلطنه لحام واصلاح كسور وتشقق زجاج السيارات ميكانيك وكهربائي لجميع السيارات بیع تجهیزات رافعه بريكدون في صحار على مدار 24 ساعه روكي دايهاتسو للبيع بمواصفات خليجية سيريون ممتازه موديل, تويوتا تاكوما 2018, ورولا هاتشباك 2019 حادث بسيط و جميع الإيرباجات سليمة 100% نيسان SR مكسيما وكالة عمان موديل 2016 من المالك الاول للبيع فقط هيد بيكب نيسان 2400 كمبريسرات للسيارات هيونداي & كيا كوري درجة
1 نوفر جميع أنواع محركات وقطع غيار سيارات بطلب من الامارات قطع غيار كراون من 96 الي99 مخفي عازل حراري أصلي 100% - كندي باسعار منافسة تنظيف وتلميع ليتات داخلي وخارجي تبطيل ليتات و تنظيفها يتوفر اضاءة LED للسيارات بجميع أنواعها افضل الاسعار في السوق, محل تنظيف وتلميع السيارات اسعار منافسه اطارات شاحنات ومعدات كبسن ولونج ليج kapsen & linglong طاسه كرولا وكاله رنج 16 يتوفر لدى GRAND TIRE تشكيلة واسعة من الرنجات الجديدة بأسعار منافسة, متوفر 4 رنجات افالون مقاس17 وكالة نظيفه
مسقط البريمي,الباطنة الداخلية, الشرقية, الظاهرة, الوسطى, ظفار, مسندم, خدمات عامة, سيارات, قطع غيار, لوحات و إكسسوارات, إطارات رنجات, حسابي, اتصل بنا, دفع العموله, أضف إعلان, أحدث الإعلانات, بحث الاعلانات, خريطة الموقع, العضويات المميزة, من نحن, سياسة الخصوصية, شروط الاستخدام, خدمات عامةسيارات, سياراتقطع غيار, قطع غيار لوحات و إكسسوارات, لوحات و إكسسواراتإطارات رنجات, إطارات رنجاتط
0 notes
Text
ابطال سند
ابطال سند
ابطال سند در مواقعی طرح میشود که فرد قصد دارد سند رسمی را که به نام دیگری است ابطال نماید، و این امر معمولا در مواقعی رخ میدهد که فرد یا افرادی مدعی هستند، که فردی که سند رسمی به نام او است در واقع مالک نیست و انتقال سند رسمی به وی به درستی صورت نگرفته است؛ از این رو با ارائه دادخواست، جهت باطل کردن سند رسمی اقدامات لازم را انجام میدهند. یکی از طرفین و امضا کنندگان آن مدعی عدم رعایت تشریفات تنظیم سند رسمی یا شرایط صحت سند رسمی شده و از مرجع صالح تقاضای ابطال آن را به طور کلی این است که بعد از تنظیم سند منظور از دعوای ابطال سند مینماید و یا فردی سندی را به عنوان دلیل اثبات دعوا در یک دادرسی ارائه میدهد و یا فردی به استناد به یک سند و نوشته از اثرات آن به نفع خود بهره میبرند.فیلم حقوقی مقالات حقوقی ابطال سند رسمی ابطال سند مجعول ابطال سند مالکیت ابطال سند رسمی ابطال سند رسمیهنگامی که یک یا چند سند به هر علتی از جمله فروش ملک به چند نفر، فقدان اهلیت لازم در خصوص انقال سند، عدم تنفیذ انتقال سند در معاملات فضولی یا صدور سند در صورت عدم وجود رعایت مقررات مربوطه و …. بی اثر باشد دعوی ابطال سند رسمی توسط اشخاص مطرح میگردد. سند رسمی انواع مختلفی دارد که پر کاربرترین آنها اعم میشود از 1. سند مالکیت 2. سند اجرائی 3. سند انتقال اجرائی 4. سند رهنی و شر��ی 5. سند ذمهای 6. سند مالکیت معارض 7. سند رسمی اجاره یا بیع 8. و… که در صورت وجود اجماع شرایط قانونی مبنی بر بی اعتباری آنها، ذی نفع میتواند با ارائه مدارک و امارات لازم اقدام به ابطال سند رسمی خود نماید که این کار با اقامه دعوا ابطال یا اعلام بطلان سند از سوی ذی نفع در دادگاهی که به موجب قانون صلاحیت رسیدگی به آن را دارد انجام میپذیرد. ابطال سند مجعول نحوه ابطال سند مجعولدر این بخش از مقاله، قصد داریم دربارهی نحوه ابطال سند مجعول صحبت کنیم.نحوه ابطال سند مجعول، نیازمند طی شدن مراحلی خواهد بود که این مراحل، عبارتند از : 1. ادعای جعل تبعی و یا شکایت کیفری از جعل. 2. ارائه ادله اثبات دعوا، نظیر شهادت شهود یا اماراتی، نظیر نظر کارشناسان دادگاه، برای اثبات جعل. 3. اثبات جعلی بودن سند و روشن شدن آن، برای دادگاه. 4. قطعی شدن رای صادره، در خصوص ماهیت دعوا، در زمانی که ادعای جعل و اثبات آن، به صورت تبعی و حقوقی بوده. 5. دستور دادگاه، مبنی بر ابطال کردن سند. ابطال سند مالکیت ابطال سند مالکیتسند مالکیت ممکن است به دلایل مختلفی ابطال شود که عبارتند از • صدور سند مالکیتی که با قوانین ثبتی و مدنی سازگاری دارند • صدور یک سند مالکیت به صورت جزئی یا کلی برای دو یا بیش از دو نفر • صدور سند اشتباهی برای شخص یا ملک • ثبت املاک و اراضی که موقوفه بوده به نام شخص دیگر • کلاهبرداری • اشتباهات ثبتیابطال سند رسمی مالکیت از طریق اداره ثبتدر مواردی ادارهی ثبت به صورت مستقل و راسا اقدام به ابطال سند نموده و نیازی به اخذ رای حکم دادگاه یا وجود دعوایی بین دو شخص در خصوص سند نیست که میتوان به مواردی همچون پیدا شدن سند مالکیت اصلی در صورت وجود سند المثنی در این صورت سند المثنی باطل شده و سند اصلی قابل استناد است، از موارد دیگر این موضوع میتوان به تقسیم ملک به قطعات مجزا از یکدیگر و اقدام به انتقال مالکیت و صدور سند مالکیت برای هر یک از قطعات به صورت جدا، در صورت انتقال مالکیت ملک به یک شخص واحد، در صورت وجود نقص در سند مالکیت، در صورت افراز ملک مشاع اشاره کرد اما یکی از رایج ترین پرونده هایی که این اداره به صورت مستقل به آن رسیدگی میکند ابطال سند معارض و ثبت سند مقدم الصدور در صورتی که سایر مالکین اسناد معارض قصد طرح دعوی نداشته یا اقدام به شکایت در خصوص سند در دادگاه ننمایند. ابطال مبایعه نامه ابطال سند اصلاحات ارضی ابطال سند مالکیت ابطال مبایعه نامه ابطال مبایعه نامهدر حالتی که طرفین مبایعه نامه قادر به انجام تعهدات نیستند یا از انجام آن سر باز میزنند، انتقال مالکیت عین مورد معامله فسخ شده و مبایعه نامه باطل میگردد. در موارد زیر میتوان اقدام به ابطال مبایعه نامه نمود:«البته ذکر موارد ذیل به عنوان موارد ابطال مبایعه نامه با کمی اغماض صورت گرفته چرا که برخی موارد باعث انحلال مبایعه نامه میشود». ابطال سند اصلاحات ارضی ابطال سند اصلاحات ارضیهنگامی که در تنظیم اسناد اجرایی اصلاحات ارضی اشتباهی رخ داده باشد و آن را شورای اصلاحات عرضی تشخیص دهد، ابطال این اسناد صورت میپذیرد؛ پس از اثبات و احراز رای قطعی در خصوص ابطال سند صادر و قطعی خواهد شد و پس از قطعی شدن آن رای مذبور به دفاتر اسنادرسمی و تمامی دوایر اسناد و املاک ابلاغ شده و لازم الاجرا خواهد بود. در مواقعی ابطال این اسناد بدون حکم دادگاه صورت میپذیرد که این مورد در مواقعی رخ میدهد که قانونگذار اقدام به تصویب قانون جدید و درخواست ابطلال سند و ثبت مالکیت اراضی مینماید در این مواقع سازمان ثبت اسناد و املاک کشور مجاز است بدون حکم دادگاه سند را باطل نماید. این تصمیم با اعتنا به موارد زیر رخ خواهد داد 1. اصلاحات ارضی و تقسیم اراضی بین زارعین 2. در صورت اقتضا مصالح عمومی مانند حفظ محیط زیست، جنگل و مراتع 3. جهات شرعی مانند حفظ موقوفات در این موارد همانگونه که در بالا ذکر گردید حکم دادگاه جهت ابطال سند نیاز نبوده و ادارهی اسناد و املاک کشور مستقلا اقدام به ابطال سند مینماید. ابطال سند مالکیت ابطال سند تک برگیدر ابتدا به تعریف اسناد تک برگی میپردازیم؛ سند تک برگی به اسنادی گفته میشود که جایگزین اسناد منگوله دار قدیمی صادر میشوند و دارای هولوگرام مخصوص خود را دارند به همین دلیل به راحتی قابلیت جعل ندارند. در حال حاضر اسناد ملکی و یا سند اموال منقول همچون خودرو به صورت تک برگی میباشند که نشان دهندهی مالکیت دارنده آنها است. یکی از مقدماتی که دارندگان ��سناد منگوله دار قدیمی میتوانند انجام دهند تعویض این نوع سند با سند تک برگی است، که البته لازم به ذکر است که این قانون برای جلوگیری از جرم جعل اسناد طبق قانون اجباری شود. از این رو اگر شخصی بخواهد ادعای مالکیت ملکی را نماید باید نسبت به ابطال سند تک برگی مالکیت وی اقدام نماید. مدارک لازم جهت طرح دعوی ابطال سند• ارائه اسنادی که خواهان درخواست ابطال آن را دارد. به عنوان مثل سند مالکیت و صلح نامه • ارائه دلایل بیاعتباری یا بطلان سند. مثلا معارض بودن سند، عدم رعایت تشریفات و یا جعل سندموارد ابطال سند رسمیبر اساس عرف حاکم در جامعه و رویهی دادگاه ها برگه ای که ثابت کننده مالکیت شخص است و اسناد مربوط به قرارداد ها و داد و ستد ها نیز سند رسمی تلقی میشود؛ بر این اساس، اسناد رسمی که ناشی شده از قرارداد یا معامله رسمی و قانونی باشند و مامور رسمی اقدام به تنظیم آن کند و بر حسب قئاعد و تشریفات این سند ثبت رسمی شود در مراجع مربوطه یک سند رسمی به وجود آمده است که قابل استناد هم در معاملات و هم در دادگاه و ... است. حال این سند به وجود آمده همراه خود حقوقی را برای فرد ذینفع به وجود میآورد که یکی از این حقوق، حق ابطال سند است. در موارد زیر حق ابطال سند برای فرد به وجود میآید.اسناد صوریدر هر معملهی صحیحی رکن اساسی آن وجود قصد در دو طرف معامله است. حال گاهی ممکن است در یکی از طرفین معامله، قصد به صورت صحیح وجود نداشته باشد که در صورت ثابت شدن این امر عقد اثر خود را از دست میدهد. در معامله صوری رکن اساسی آن یعنی قصد یک یا هر دو ی طرفین دارای ایراد است و معلمله بین آنها به صورت واقعی صورت نگرفته و فقط ظاهر ان عمل رعایت شده است. در این نوع معاملات افراد دارای قصد واقعی برای انتقال مالکیت نبوده و انگیزه های متفاوتی از انجام این نوع معاملات دارند که میتوان به 1. قصد فرار از دین 2. جلوگیری از توقیف و بازداشت اموال 3. پنهان کردن تمام یا قسمتی از دارایی خود 4. انجام برخی امور بانکی 5. و .... عموما افراد این معاملات را در شرایط اجبار مانند مضایق مالی و یا شرایط اکراه انجام میدهند.اسناد معجولدر رویهی دادگاه های کشور ما صرف ادعای جعل برای ابطال اسناد کافی نبوده و باید شواهد و قرائن دال بر اثبات مجعول بودن سند تقدیم دادگاه شود به همین دلیل قانون گذار ما در ماده 221 قانون آیین دادرسی مدنی شرایطی را که سبب مجعول بودن سند میگردد زرا پیش بینی کرده است. این ماده ضمن تاکید به این نکته که دادگاه مکلف به رسیدگی و صدور حکم است بیان شده است که چنانچه ماهیت سند جعلی تشخیص داده نشود سند باید به صاحب اصلی آن تحویل داده شود اما اگر سند مجعول باشد تشخیص اینکه باید تمام یا قسمتی از سند مجعول ابطال گردد یا تغیراتی در آن اعمال شود بر عهده دادگاه بوده و پس از صادر شدن رای اجرای آن منوط به قطعی شدن رای است. لازم به ذکر است که این دعوا در مواردی قابل تجدید نظر بوده و پس از صدور رای توسط دادگاه بدوی میتوان بدان اعتراض کرد.اسناد حاصل از کلاهبرداریدر مواقعی که انتقال مالکیت حاصل عمل نامشروع و متقلبانه است که با فریب طرف دیگرصورت میپذیرد در این مواقع شخص از طریق فعالیت کلاهبردارانه مالکیت مال غیر منقول یا منقول دارای سندی را به نام خود ثبت کرده است برای مثال گرفتن اسناد رسمی یا به نام خود کردن سند به عنوان وثیقهی مالی که پس از تسویه بدهی توسط بدهکار شخص حاضر به تحویل سند نشده یا آن را به نام خود کرده است.تعارض در اسناد مالکیتبه معاملاتی که اسناد و مالکیت یک ملک با یکدیگر در تعارض هستند مانند اینکه یک ملک به بیش از دو نفر فروخته شود یا سند یک ملک به نام چند نفر باشد معامله معارض و به سند حاصل از آن سند معارض گفته میشود. در این معاملات انتقال مالکیت میتواند به موجب سند رسمی یا عادی صورت گرفته باشد. در صورت ارجاع سند معارض به دادگاه ارجحیت با سند اولبوده و مالکیت با سند دارای الویت از لحاظ تاریخ تنظیم و تحویل سند است و دارنده سند دوم معارض میتواند با ارائه مدارک و اثبات این امر میتوان در جهت ابطال سند رسمی قدم برداشت. صدور حکم معارض یا ابطال سند توسط دادگاه طبق قانون ثبت تنها به دو صورت امکان پذیر است که بر اساس قانون عبارتند از 1. در مواردی که ملک بدون رعایت قوانین انتقال پیدا کرده و سند برای آن صادر شده است 2. در مواردی که بین دو یا چند سند تعارض وجود داشته و این تعارض در هیات نظارت اثبات و احراز شود دادگاه ها تنها موظف به رسیدگی دعاوی ابطال سندی هستند که سند مذکور از ناحیه ادارهی ثبت اسناد و املاک کشور صادر و به ثبت رسیده باشدمرجع صالح احراز تعارض اسنادرویه قضایی در این خصوص اینگونه است که پس از صدور رای ابطال سند معارض و قطعی شدن آن توسط دادگاه، رای به اداره ثبت اسناد و املاک کشور ابلاغ این نهاد مذکور به تمامی واحد های ثبتی در خصوص معارضی بودن سند و ثبت مالکیت مالک مقدم الصدور اطلاع داده و طی نامه ای کتبی گزارشی در این خصوص را به هیات نظارت تقدیم میکند.نحوه طرح دعوا توسط دارنده سند موخر بعد از احراز تعارضدارنده سند مالکیت معارض میبایست ظرف دو ماه از تاریخ ابلاغ اداره ثبت به دادگاه محل وقوع ملک مراجعه و دادخواست ابطال سند مالکیت مقدم الصدور تقدیم نماید و گواهی تقدیم دادخواست را به اداره ثبتی که سند مالکیت در آن صادر شده است تسلیم و رسید دریافت نمایند.مرجع صالح به رسیدگیدر قانون عموم دعوی با موضوع مال غیر منقول در محل وقوع مال غیر منقول انجام میشود که یکی از این دعاوی که موضوع بحث ما است دعوای ابطال سند رسمی است که این مورد هم مانند اکثریت موارد باید در محل وقوع مال غیر منقول باشد. رسیدگی به این دعاوی در صلاحیت دادگاه های حقوقی هر محل بوده و اگر در دادگاه دیگری اقدام به طرح دعوی شود قرار رد صلاحیت صادر میشود. اما رسیدگی دعوی، در خصوص اموال منقول همچون اتومبیل و ... که دارای سند رسمی هستند در صلاحیت دادگاه حقوقی محل اقامت خوانده است اما در صورت مشخص نبودن محل اقامت او طبق قانون آیین دادرسی مدنی رسیدگی به این دعوا در صلاحیت دادگاه محل انعقاد قرارداد یا محل سکونت خواهان یا آخرین محل سکونت خوانده که آدرس آن موجود است بوده.ابطال سند رسمی با شهادت شهودشهادت عبارت است از اظهارات افرادی خارج از دعوا که موضوع مورد اختلاف را شنیده یا دیده یا شخصا از آن آگاه شدهاند یعنی فردی به نفع یکی از طرفین دعوی و بر ضرر دیگری اعلام اطلاع و خبر از وقوع امری نماید. هرچند شهادت شهود میتواند یکی از دلایل اثبات دعوا در کنار سایر دلایل دیگر برای ابطال سند رسمی باشد اما واقعیت این است که سند رسمی نزد دادگاه ها از درجه و اعتبار بالایی برخوردار است و شهادت شهود به تنهایی برای اینکه بخواهیم اسناد رسمی را باطل کنیم کفایت خواهد کرد و در اکثر دعواهایی که در دادگاه اجرا میشود، اگر مندرجات بر روی سند مخالف دعوا باشد فقط شهادت نمیتواند در اثبات و ابطال سند موثر باشد و نیاز به ادله های دیگری است تا قاضی را مجاب کند و حکمی صادر نماید که سند را از درجه اعتبار ساقط نماید.شرایط شاهددر قوانین مختلف شرایطی برای شاهد پیشبینی شده است که برخی از آنها عبارتند از عقل، ایمان، بلوغ، عادل بودن، نداشتن نفع شخصی؛ علاوه بر مواردی که گفته شد، فرد برای اظهار شهادت باید واجد آثار قانونی باشد که طبق قانون مدنی یعنی • شهادت شهود کاملا باید از روی قطع و یقین باشد نه با شک و تردید • موضوعی که شهادت بر علیهاش داده میشود با موضوع دعوا باید مطابقت داشته باشد • تمامی شاهدان باید با یکدیگر متحد باشندابطال سند رسمی با مبایعه نامهدعوی ابطال مبایعه نامه، دعوی میباشد که در معاملات ملکی، قبل از تنظیم سند رسمی، مبایعه نامهای نگارش میشود که در آن پیرامون شرایط قرارداد بیع صحت میشود. در این خصوص نیز، اگر شرایط ابطال سند عادی برقرار بود،. البته در صورتی که در مبایعه نامه در مورد ابطال قرارداد صحت شده باشد، باید به شروط قرارداد توجه نمود. در قانون پیش فروش ساختمان، تنظیم مبایعه ولو در بنگاههای معاملاتی املاک معتبر نیز ممنوع است. مواردی وجود دارد که دو طرف برای انجام بیع توافق نمود و ایجاد مالکیت مال مورد توافق همراه با انجام تشریفات باشد. این تشریفات که در قالب مبایعه نامه است. مبنی بر تعهد طرفین بر انتقال مالکیت مبیع می توان اقدام به ابطال مبایعه نامه نمود خریدار است. در مبایعه نامه مالکیت منتقل نمیشود، بلکه تشریفاتی است که به سبب تنظیم سند رسمی برقرار میشود.ابطال سند ماده 21هرگاه ملکی اقدامات ابتدایی ثبت ملک را انجام دهد و در دفتر املاک ثبت شود مالک ملک شناخته شده و مالکیت مطابق دفتر املاک داده میشود. به استناد ماده 24 قانون مذبور «پس از انقضای مدت اعراض، دعوی اینکه در ضمن جریان ثبتی، تضییع حقی از کسی شده پذیرفته نخواهد شد، نه به عنوان عین، نه به عنوان قیمت، خواه حقوقی باشد خواه جزایی.» سوال:یکی از مواردی که بسیاری از موکلین دارند این است که آیا این دعوی در دادگاه قابلیت استماع دارد یا خیر؟ نظرات متعدی در این خصوص وجود دارد. عدهای معتقداند همین که ملکی به اسم شخصی ثبت شود او مالک بوده و ملاک اعتقاد آنها ماده 24 قانون ثبت است در نتیجه پس از ثبت است در نتیجه پس از ثبت ملک این دعوی قابل استماع نبوده هرچند ثبت آن برخلاف تشریفات قانونی باشد. عدهای دیگر معتقداند احتمال وارد کردن ایراد به این سناد ممکن است حتی اگر تمام تشریفات آن هم به صورت قانونی صورت پذیرفته باشد این افراد نظر خود را اقتباس شده از اصلی که در مواد 41 تا 43 قانون ثبت میدانند و معتقداند در این مواد ثبت املاک استثنا حاصل شده است. اما نظر قالب در رویه ما این است که با استناد و عنایت به ماده 22 قانون ثبت که بیان داشته اگر تشریفات قانونی ثبت ملک رعایت نشده باشد میتوان جای ایراد به آن را وارد ندانستِ و صرف ثبت درست بوده و عدم رعایت تشریفات عامل بطلان سند مالکیت نیست.🔖 مطالب پیشنهادی مرتبط✔ شماره تلفن وکیل پایه یک دادگستری 09124970000✔ وکیل ارث و میراث*****آسایش گستران معتبرین و بهترین موسسه حقوقی همیشه حامی حقوق شما عزیزان است.***** Read the full article
0 notes
Link
الزام به تنظیم سند رسمی ملک چیست؟ الزام به تنظیم سند رسمی ملک از دید حقوقی الزام به تنظیم سند رسمی ملک به معنای اجبار فروشنده ملک، به حضور در دفترخانه اسناد رسمی و تنظیم سند رسمی ملک به نام انتقال گیرنده است. انتقال مالکیت اموال غیر منقول به طور کلی با دو شیوه تنظیم سند عادی و رسمی محقق می گردد. تنظیم سند رسمی به نام انتقال گیرنده یکی از گام های نهایی برای اجرای تعهدات قانونی برای انتقال مالکیت ملک است. همانطور که مورد اشاره قرار گرفت، الزام به تنظیم سند رسمی ملک، تعهد حقوقی انتقال دهنده یا مالک ملک است، نسبت به فراهم آوردن مقدمات تنظیم سند رسمی مالکیت به نام انتقال گیرنده است. به طور کلی در حقوق ایران انتقال مالکیت ملک به یکی از دو شیوه قراردادی و غیر قراردادی (قانونی)، صورت می گیرد. منظور از شیوه قراردادی انتقال مالکیت اموال غیر منقول، انعقاد بیع، صلح یا سایر عقود تملیکی الزام آور است. شیوه قانونی یا غیر قراردادی انتقال مالکیت ملک نیز مواردی از قبیل محکومیت های مالی و … را در بر می گیرد. بنابراین الزام به تنظیم سند رسمی ملک یکی از انواع تعهدات است که می تواند منشا قانونی یا قراردادی داشته باشد. رایج ترین شیوه انتقال مالکیت ارادی اموال منقول، انعقاد قرارداد بیع است. امروزه انعقاد قرارداد بیع یا فروش املاک، اصولاً در دفاتر مشاوره املاک و بر روی برگه های چاپی خاصی به عنوان مبایعه نامه تنظیم می گردد. در ضمن مبایعه نامه طرفین در مورد حدود و چگونگی اجرای تعهدات توافق می نمایند. یکی از موضوعات مهمی که طرفین مبایعه نامه در مورد آن می بایست تعیین تکلیف کنند، زمان و نحوه تنظیم سند رسمی مالکیت به نام انتقال گیرنده است. علاوه بر بیع با ایجاد عقود دیگری از قبیل صلح نیز ممکن است مالک ملک، مکلف به تنظیم سند رسمی ملک گردد. اما مراحل طرح دعوا با همراه وکیل ملکی تهران یا بدون آن به چه شیوهای است؟
0 notes
Photo
. مبایعه نامه سند عادی واگذاری قطعی (اعم از منقول و غیر منقول، عرصه و اعیان) : بسمه تعالی تاریخ: …………��………… « مبایعنامه سند عادی واگذاری قطعی اعم از منقول و غیر منقول، عرصه و اعیان » فروشنده آقا / خانم: ………………………… فرزند: …………….. شماره شناسنامه: ……………..تاریخ تولد: …… کدملی: ………………………. تلفن: …………………….. آدرس محل سکونت: ……. خریدار آقا / خانم: ………………………… فرزند: …………….. شماره شناسنامه: ……………..تاریخ تولد: …… کدملی: ………………………. تلفن: …………………….. آدرس محل سکونت: ……. مورد معامله: سهم الارث و ماترک پدر و مادری …………………………… واقع در منطقه ……………………………………………………..…….……………………………………………………………. رایگان دانلود نمایید: https://www.kasradoc.com/product/certificate-of-normal-ordinary-document-of-definitive-assignment/ #pdf #word #Document #Kasradoc #کسری_داک #ورد #پی_دی_اف #مقاله #مبایعه_نامه_سند_عادی_واگذاری_قطعی #منقول #غیر_منقول #عرصه #اعیان #الزام_به_تنظیم_سند_رسمی #سند_عادی_واگذاری_قطعی #مبایعه_نامه_سند_عادی_واگذاری_قطعی #نمونه_متن_واگذاری_قطعی_اعم_از_منقول_و_غیر_منقول #نمونه_متن_واگذاری_قطعی_اعم_از_عرصه_و_اعیان #قانون_مدنی #بیع #خریدار #فروشنده #ارث #ثمن #مبیع #اسناد_حقوقی #حقوق_مالکیت #وراث #توافق #میراث (در Kasradoc) https://www.instagram.com/p/CNxKtQGJL23/?igshid=1ixh5d5a4yyr0
#pdf#word#document#kasradoc#کسری_داک#ورد#پی_دی_اف#مقاله#مبایعه_نامه_سند_عادی_واگذاری_قطعی#منقول#غیر_منقول#عرصه#اعیان#الزام_به_تنظیم_سند_رسمی#سند_عادی_واگذاری_قطعی#نمونه_متن_واگذاری_قطعی_اعم_از_منقول_و_غیر_منقول#نمونه_متن_واگذاری_قطعی_اعم_از_عرصه_و_اعیان#قانون_مدنی#بیع#خریدار#فروشنده#ارث#ثمن#مبیع#اسناد_حقوقی#حقوق_مالکیت#وراث#توافق#میراث
0 notes
Photo
#عدالت معاوضی، به معنی ضرورت موازنه و برابری #حقوق افراد، در #معاملات به صورت لزوم تساوی حقوق متعاملین نمود پیدا می کند. به طور مثال، معمولاً در معاملات، بویژه #بیع، طرفین تعهداتی را به صورت وعده دار به عهده می گیرند. مثلاً #فروشنده متعهد می شود در تاریخ معین به #دفتر_اسناد_رسمی مراجعه و #سند را به نام خریدار منتقل نماید. در مقابل نیز خریدار متعهد می گردد که باقیمانده ثمن را در همان تاریخ و حین تنظیم سند، به بایع بپردازد. و برای تخلف هر یک از طرفین از انجام تعهدات خود، مبلغی به عنوان #وجه_التزام تعیین میگردد. در این صورت اگر مشتری بدون اینکه در وقت مقرر باقیمانده ثمن را پرداخته باشد، نمیتواند همزمان با طرح #دادخواست الزام به تنظیم سند رسمی، مطالبه وجه التزام قراردادی را بخواهد، چرا که خود نیز به تعهدش مبنی بر پرداخت تتمه ثمن عمل نکرده است. در اینجا #عدالت_معاوضی حکم میکند که شرایط مساوی بر طرفین قرارداد و تعهداتشان حکمفرما باشد و اگر یکی به تعهد خود عمل نکرد نمیتواند از دیگری عمل به تعهدش را بخواهد. بدیهی است که در این دست موارد، #دادگاه رای به تنظیم سند رسمی، در مقابل پرداخت الباقی ثمن، صادر میکند، اما در خصوص مطالبه وجه التزام قراردادی، حکم بر بی حقی خواهان صادر خواهد نمود. #حقوق_مدنی #حقوقیها #قانون_مدنی #قانون #قرنطینه #قرنطینه_کرونا #طلاق #ازدواج #معامله #وکیل_آنلاین #وکیل_پایه_یک_دادگستری #وکالت_قضاوت_ارشد (at Karaj) https://www.instagram.com/p/B_V8LnTBFvk/?igshid=1fo4mms7y5yi5
#عدالت#حقوق#معاملات#بیع#فروشنده#دفتر_اسناد_رسمی#سند#وجه_التزام#دادخواست#عدالت_معاوضی#دادگاه#حقوق_مدنی#حقوقیها#قانون_مدنی#قانون#قرنطینه#قرنطینه_کرونا#طلاق#ازدواج#معامله#وکیل_آنلاین#وکیل_پایه_یک_دادگستری#وکالت_قضاوت_ارشد
0 notes
Photo
روزے کوواجب قرار دینےکی حکمت سوال ۳۹۲: روزے کو واجب قرار دینے میں کیا حکمت عملی پوشیدہ ہے؟ جواب :جب ہم درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پڑھتی ہیں : ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ، ﴾ (البقرۃ: ۱۸۳) ’’اے مومنو! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘ تو اس سے ہمیں روزے کے وجوب کی حکمت معلوم ہوجاتی ہے اور وہ ہے تقویٰ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت۔ تقویٰ ان چیزوں کے ترک کرنے کا نام ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور تقوی کا ان چیزوں کے سرانجام دینے پر بھی اطلاق ہوتا ہے جن کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجالایا جائے اور جن سے منع کیا گیا ہے انہیں ترک کردیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِہِ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ أَنْ یَدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ))( صحیح البخاری، الصیام، باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم، ح: ۱۹۰۳۔) ’’جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کرنے کو ترک نہ کرے، تو اللہ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ لہٰذا روزہ دار کو چاہیے کہ وہ نہایت پابندی کے ساتھ واجبات کو ادا کرے، حرام اقوال و افعال سے اجتناب کرے، لوگوں کی غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، چغل خوری نہ کرے اور حرام چیز کی بیع نہ کرے۔ الغرض! تمام حرام امور سے اجتناب کرے۔ اگر انسان پورا ایک مہینہ اس طرح گزارے گا، تو امید ہے باقی سارا سال بھی اس کا نفس راہ راست پر رہے گا۔ افسوس کہ بہت سے روزہ دار اس میں کوئی فرق نہیں کرتے کہ انہوں نے روزہ رکھا ہے یا نہیں رکھا۔ ترک واجبات اور فعل محرمات کے اعتبار سے ان کے مشاغل روزے کی حالت میں بھی حسب عادت جاری رہتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کو ان پر روزے کا وقار نظر نہیں آتاان افعال سے گو روزہ باطل نہیں ہوتا لیکن اس کا اجر و ثواب یقینا کم ہو جاتا ہے اور اگر تقابل کیا جائے تو بسا اوقات یہ افعال روزے کے اجر و ثواب سے زیادہ ہوتے ہیں، جس کے نتیجہ میں روزے کا اجر و ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔ فتاوی ارکان اسلام ( ج ۱ ص ۳۶۷ ) #FAI00315 ID: FAI00315 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Link
0 notes
Text
🌹🌹 *A̶V̶O̶I̶D̶ H̶A̶R̶M̶*
♦️ *_"A journey towards excellence"_* ♦️
✨ *Set your standard in the realm of love !*
*(اپنا مقام پیدا کر...)*
؏ *تم جو نہ اٹھے تو کروٹ نہ لے گی سحر.....*
🔹 *100 PRINCIPLES FOR PURPOSEFUL*
*LIVING* 🔹
5️⃣0️⃣ *of* 1️⃣0️⃣0️⃣
*(اردو اور انگریزی)*
🍁 *AVOID HARM*
*The Prophet of Islam ﷺ said that in Islam there should be neither harming nor reciprocating harm.*
(Musnad Ahmad, Hadith No. 2865)
*This tradition of the Prophet of Islam ﷺ explains an important collective principle.*
*This principle applies to both men and women, to individuals and the community, to national life, and international life.*
In the present age, every human being has to live in different situations, both favorable and unfavorable.
*There is a comprehensive rule for how men and women should live in such situations.*
*First, every individual should be harmless to others, and second, he should live so carefully that no one else gets a chance to harm him.*
🌹🌹 _*And Our ( Apni ) Journey*_
*_Continues_ ...* *________________________________________*
*؏* *منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر*
*مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر*
🍁 *نقصان سے بچیں :*
*سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”اسلام میں نقصان اٹھانے یا نقصان پہنچانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔“*
(مسند احمد، حدیث نمبر 2865)
*اللہ کے رسولﷺ کا یہ فرمان ہمیں زندگی کے ایک بہت ہی اہم اجتماعی اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔*
*اس اصول پر عمل کرنا ہر مرد و عورت، افراد اور برادری، قومی زندگی اور بین الاقوامی زندگی پر لازمی ہے۔*
*اس دنیا میں ہر انسان کو مختلف موافق اور ناموافق حالات میں زندگی گزارنی پڑتی ہے۔*
*اس طرح کے موافق اور ناموافق حالات میں ہر مرد و عورت کو کیسے زندگی گزارنی چاہیے اس کے لیے دو جامع اصول موجود ہیں۔*
*پہلا، ہر فرد کو دوسروں کے لیے بے ضرر ہونا چاہیے، اور دوسرا، ہر فرد کو بہت ہی محتاط زندگی گزارنی چاہیے، تاکہ کسی اور کو اسے نقصان پہنچانے کا موقع ہی نہ ملے۔*
〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️
🍂 *سیّدِعالَم ﷺ فرماتے ہیں : ’’ جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی"۔*
(معجم الاوسط الحدیث: ۳۶۰۷)
*یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔*
🍁 *مسلمانوں کوناحق ایذا اور تکلیف نہ دی جائے :*
*یاد رہے کہ مسلمان مردو عورت کو دین ِاسلام میں یہ حق دیا گیا ہے کہ انہیں کوئی شخص اپنے قول اور فعل کے ذریعے نا حق ایذا نہ دے* ،یہاں اس سے متعلق تین اَحادیث اور بزرگانِ دین کے تین اَقوال ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
(1)…حضرت ابو ذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، *نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم لوگوں کو (اپنے) شر سے محفوظ رکھو،یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گے"۔*
( بخاری، الحدیث: ۲۵۱۸)
(2)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، *سرکارِ دو عالَم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟* صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ *ارشاد فرمایا’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان محفوظ رہیں"۔* *ارشاد فرمایا ’’تم جانتے ہو کہ مومن کون ہے؟* صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔ *ارشاد فرمایا’’مومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ سمجھیں اور مہاجر وہ ہے جو گناہ کو چھوڑ دے اور اس سے بچے۔"*
( مسند امام احمد الحدیث: ۶۹۴۲)
(3)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، *نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک دوسرے سے حسدنہ کرو،گاہک کو دھوکہ دینے اور قیمت بڑھانے کیلئے دکاندار کے ساتھ مل کر جھوٹی بولی نہ لگاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو اور اے اللہ تعالیٰ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر نہ ظلم کرے، نہ اس کو رسوا کرے ، نہ حقیر جانے، حضور پُر نور ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا: " تقویٰ یہاں ہے اور کسی شخص کی برائی کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو برا جانے، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پرحرام ہے ،اس کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت"۔*
(مسلم الحدیث: ۳۲(۲۵۶۴))
(4)… حضرت فضیل رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : *"کتے اور سور کو بھی ناحق ایذا دینا حلال نہیں تو مؤمنین و مؤمنات کو ایذا دینا کس قدر بدترین جرم ہے"۔*
(5)… حضرت مجاہد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : *"جہنمیوں پرخارش مُسَلَّط کردی جائے گی تووہ اپنے جسم کوکھجلائیں گے حتّٰی کہ ان میں سے ایک کے چمڑے سے ہڈی ظاہر ہو جائے گی تو اسے پکارا جائے گا:اے فلاں !کیا تمہیں اس سے تکلیف ہوتی ہے ؟وہ کہے گا:ہاں ۔پکارنے والا کہے گا:تو مسلمانوں کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا یہ اس کی سزا ہے۔"*
(6)…علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : "یہاں ایمان والوں کو اَذِیَّت دینے کا ذکر نبی کریم ﷺ کو اذیت دینے کے ساتھ ہوا جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کو اذیت دینے کا ذکر اللہ تعالیٰ کو اذیت دینے کے ساتھ ہوا،اس سے معلوم ہوا کہ ایمان والوں کو اذیت دینا گویا کہ رسولُ اللہ ﷺ کو اذیت دینا ہے اور رسول کریم ﷺ کو اذیت دینا گویا کہ اللہ تعالیٰ کو اذیت دینا ہے تو جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کو اذیت دینے والا دنیا اور آخرت میں لعنت کا مستحق ہے اسی طرح ایمان والوں کو اذیت دینے والا بھی دونوں جہاں میں لعنت و رسوائی کا حقدار ہے"۔
*اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں :* *"اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بغیر کچھ (خطا) کئے ستاتے ہیں توانہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سر) اٹھالیا ہے"۔*
(الاحزاب : ۵۸)
*مصطفی ﷺ نے فرمایا: ’’ یعنی وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے-‘‘*
(کنزالعمال الحدیث: ۷۸۲۲)
🍁 *موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو ایذا دینے کی مثالیں :*
▪️دل شکنی والے الفاظ سے پکارنا۔
▪️ساتھ کام کرنے والوں کی چغلیاں کھانا۔
▪️ساتھ کام کرنے والوں کی کارکردگی ناقص بنانے کی کوشش کرنااور اسے بلا وجہ ناقص ثابت کرنے کی کوشش کرنا۔
▪️ساتھی کو تکلیف یا مصیبت پہنچنے پر خوشی کا اظہار کرنا۔
▪️ساتھیوں اورماتحتوں کو حقیر سمجھنا اور ان کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرنا۔
▪️مذاق اڑانا اور پھبتیاں کسنا۔
▪️گالیاں دینا ، لعنت کرنا،تہمت اور بہتان لگانا۔
▪️بدگمانیاں پھیلاتے پھرنا اور بلاوجہ کسی کے پوشیدہ عیبوں کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا۔
▪️لوگوں کا مال دبا لینا اور قرض کی ادائیگی میں بلا وجہ تنگ کرنا۔
▪️گلیوں میں کچرا اور غلاظت ڈالنا۔
▪️گھر میں شور شرابا کرنا اور بلند آواز سے ٹی وی اور گانے وغیرہ چلا کر پڑوسیوں کو تنگ کرنا۔
▪️پڑوسیوں کے گھر میں تانک جھانک کرنا اور ان کے عیبوں کی تلاش میں رہنا۔
▪️شادیوں میں شور شرابا ،غل غپاڑہ کرنا اور رات کے وقت آتش بازی کا مظاہرہ کرنا۔
▪️رشتہ نہ ملنے پر لڑکی والوں سے متعلق اذیت بھرے کلمات کہنا اورداماد وغیرہ کا اپنے سسرال والوں کو طرح طرح سے تنگ کرنا ۔
▪️غلط جگہ پارکنگ کر کے،گلیوں میں ملبہ وغیرہ ڈال کر اور مختلف تقاریب کے لئے گلیاں بند کرنا۔
▪️گلیوں میں کرکٹ اور فٹ بال وغیرہ کھیلنا اور خاص طور پررمضان کی راتوں میں رات رات بھر ایسا کرنا اور ا س دوران شور مچانا۔
▪️سائلنسر نکال کر گلیوں اور بازاروں میں موٹر سائیکل اور کاریں چلانا۔
🔸 *اللہ تعالیٰ ہمیں شریروں کے شر اور ظالموں کے ظلم سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔*
🔸 *اور اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم ایک دوسرے کو ایذا اور تکلیف دینے سے بچیں ،اٰمین۔*
🌹🌹 *اور اپنا سفر جاری ہے....*
0 notes
Text
تعرف معنا على افضل المواقع الالكترونية لبيع السيارات المستعملة في سلطنة عمان يعتبر موقع oman-motors - عمان موتورز كواحد من افضل مواقع الانترنت التي للعميل البحث عن السيارة التي يرغب في امتلاكها مباشرة. متوفر لدينا نقل السيارات الجديدة والمستعمله داخل السلطنه لحام واصلاح كسور وتشقق زجاج السيارات ميكانيك وكهربائي لجميع السيارات بیع تجهیزات رافعه بريكدون في صحار على مدار 24 ساعه روكي دايهاتسو للبيع بمواصفات خليجية سيريون ممتازه موديل, تويوتا تاكوما 2018, ورولا هاتشباك 2019 حادث بسيط و جميع الإيرباجات سليمة 100% نيسان SR مكسيما وكالة عمان موديل 2016 من المالك الاول للبيع فقط هيد بيكب نيسان 2400 كمبريسرات للسيارات هيونداي & كيا كوري درجة
0 notes
Text
شماره وکیل جهت خرید و فروش املاک وقفی
شماره وکیل جهت خرید و فروش املاک وقفی
در این مطلب بر آنیم تا در مورد شماره وکیل جهت خرید و فروش املاک وقفی و مسائل مربوط به آنها اطلاعاتی را در اختیار شما بگذاریم. گروه وکلای آسایش گستران با همکاری مجموعه ای از وکلای مجرب و پایه یک دادگستری در خدمت شما هموطنان عزیز در تمامی پرونده های ملکی می باشد. املاک اوقافی به طور کلی املاک اوقافی نسبت به سایر املاک دارای قیمت کمتری می باشند؛ به همین دلیل خرید و فروش این املاک در میان مردم از اهمیت بالایی برخوردار است.اما نکته حائز اهمیت این جاست که با وجود خرید املاک اوقافی، خریدار نمی تواند نسبت به ملک وقفی خریداری شده ادعای مالکیت کند.به همین دلیل لازم است قبل از هر اقدامی برای خرید املاک وقفی با وکیل ملکی متخصص در این باره مشورت کنید. این موضوع که خریدار املاک وقفی قادر به مالک شدن ملک نیست به این معنا نمی باشد که ملک وقفی دارای سند نیست؛ بلکه تمامی املاک وقفی دارای سند هستند، قابلیت فروش ، رهن و اجاره ی آنها وجود دارد اما معامله ی آنها نسبت به املاک عادی دارای تفاوت هایی می باشد. خرید و فروش املاک اوقافی به طور کلی مال موقوفه قابلیت خرید و فروش ندارد. هرگونه عملی که لازمه اش انتقال مال موقوفه به دیگران باشد ممنوع است.اما گاهی اوقات مصالح مال وقفی و حفظ نهاد وقف به گونه ای اقتضا می کند که خرید و فروش آن به نفع موقوفه باشد.نکته ی قابل توجه این است که اگر خرید و فروش مال موقوفه فقط برای قسمتی از مال لزوم داشته باشد،تنها برای همان قسمت جایز است و به دیگر قسمت های مال وقفی سرایت نمی کند. ✔ بیشتر بخوانید: نکات حقوقی خرید و فروش املاک بیع مال وقفی در قانون مدنی طبق ماده 88 قانون مدنی، بیع مال وقفی در صورتی جایز است. که موقوفه در معرض خرابی و نابود شدن باشد. به گونه ای که امکان انتفاع از آن وجود نداشته باشد. آن هم در صورتی که امکان عمران نباشد. یا کسی حاضر به عمران آن نشود. موارد خاص برای بیع اموال وقفی در صورتی که مال وقفی در معرض تخری�� قابلیت عمران و بازسازی نباشد. و یا کسی حاضر به عمران آن نباشد. در دو صورت می توان نسبت به بیع مال موقوفه اقدام کرد: - محتمل بودن از بین رفتن موقوفه منظور از احتمال از بین رفتن مال وقفی، تلف و نابودی زود هنگام موقوفه است. که به دلایلی از جمله عدم مسئولیت پذیری و یا مشکلات اقتصادی امکان رخ دادن آن وجود دارد. در شرایط مطلوب می توان از این تلف جلوگیری کرد. همچنین خوف خرابی مال موقوفه ممکن است. بر اثر اختلاف موقوف علیهم و یا موارد طبیعی باشد. - وجود اختلاف بین موقوف علیهم به گونه ای که امکان قتل و خونریزی بین آنها وجود داشته باشد. به خودی خود حصول اختلاف ما بین ذی نفعان مال وقفی مجوز فروش موقوفه را صادر نمی کند. مگر در صورتی که اختلاف به اندازه ای باشد که احتمال قتل و اختلافات عمیقتر میان موقوف علیهم وجود داشته باشد. و بیم آن برود که جان فرد یا افرادی در خطر است. گاهی اوقات وجود اختلافات ممکن است به دلیل مشاعی بودن مال موقوفه باشد. طبق قوانین جدید علاوه بر موارد فوق، در صورتی که ولی فقیه بر اساس مصلحت مال موقوفه بیع آنرا لازم بداند. در این صورت خرید و فروش مال وقفی جایز است.البته ولی فقیه نیز در چارچوب شرع و قوانین اسلام و در صورت وجود مصلحتی بالاتر اجازه ی بیع مال موقوفه را دارد. در هر صورت، اجازه رییس سازمان اوقاف به عنوان نماینده ولیفقیه طبق قانون تشکیل سازمان اوقاف و آییننامه آن در مواردی که فروش مال وقفی جایز باشد، برای فروش موقوفه ضروری است. ✔ بیشتر بخوانید: مالیات بر ارث ، انواع و نحوه محاسبه آن اجاره املاک وقفی: اجاره املاک وقفی در صورتی صحیح است. که علاوه بر شرایط عمومی عقد اجاره؛ وجود شرایطی از جمله اولین شرط از شرایط اجاره دادن مال موقوفه ، این است که طرفین قرارداد باید رضایت ذهنی داشته باشند. همچنین این رضایت خود را با اعلام قصد بیان کنند. دوم اینکه طرفین قرارداد اجاره موقوفه باید دارای اهلیت انعقاد قرارداد باشند (باید از نظر عقلی و سنی و فکری رشید محسوب شوند.) سوم اینکه مال موقوفه باید شرایط مورد معامله را دارا باشد.مورد چهارم و آخرین شرط از شرایط صحت قرارداد اجاره مال موقوفه این است که مال وقفی باید برای هدف مشروعی اجاره داده شود. شماره تلفن وکیل ملکی ارتباط با وکیل های موسسه حقوقی ☑️ مشاوره حقوقی با کارشناسان حقوقی موسسه 021-88401560 | 021-88403166 ☑️ تلفن همراه وکیل پایه یک دادگستری در تهران 0912-4970000 | 0912-4920000 ☑️ آدرس صفحه اینستاگرام وکیل پایه یک دادگستری vakilsite@ ☑️ تلگرام vakil | @vekalat@ ☑️ آدرس موسسه حقوقی آسایش گستران تهران | خیابان شهید مطهری| نرسیده خیابان شریعتی | روبروی بوستان شهیدآوینی | پلاک 11 برای مشاهده آدرس در گوگل مپ روی متن رو به رو کلیک نمائید »»موسسه حقوقی آسایش گستران نکاتی در مورد خرید املاک وقفی اولین و بهترین راه برای معامله صحیح املاک وقفیو برای جلوگیری از ایجاد مشکلاتی در راستای بیع موقوفه مشورت با وکیل ملکی متخصص در این زمینه می باشد. همچنین در این مطلب سعی ب�� آن شده تا حد امکان به ابهامات شما در مورد اموال موقوفه و خرید و فروش آنها پاسخ دهیم. الف) مالک ملک وقفی تنها خریدار است شخصی که ملک وقفی را خریداری می کند تنها مالک ملک وقفی می باشد وباید این اطمینان حاصل شود که در صورت بروز هرگونه مشکل و یا فوت خریدار ، کسی ادعای مالکیت ملک وقفی را ننماید.پس زمانی که شخصی خانه ای را خریداری می کند که زمین آن وقفی است ، در آینده فرد دیگری مدعی مالکیت این زمین ها نمی شود. ب) تفاوت عرصه و اعیان منظور از عرصه همان زمین وقفی است که ملک بر روی آن بنا شده است و امکان خرید و فروش آن وجو ندارد.در مقابل اعیان همان خانه ای است که بر روی زمین وقفی بنا شده است و امکان هر گونه قرار داد و معامله ای بر روی آن وجود دارد.به همین دلیل املاک وقفی دارای دو سند میباشند.یکی سند عرصه و دیگری سند اعیان.پس زمانی که فرد خانه وقفی را با سند وقفی خریداری می کند در واقع زمین وقفی را از متولی وقف اجاره می کند. پ) شناخت متولی وقف شخصی که قصد خریداری خانه وقفی را دارد. باید این نکته را در نظر داشته باشد. و بداند متولی وقف چه کسی است.یعنی از اینکه وقف توسط چه کسی و به کجا وقف شده است. لازم است. متولی موقوفه خاص شخص خاص و متولی موقوفات عام سازمان اوقاف و همچنین متولی موقوفات مربوط به آستان قدس رضوی متولی مشخص خود را دارند. ت) نحوه پرداخت اجاره به متولی تمامی امور مربوط به اجاره و فروش مال وقفی مانند املاک معمولی است و از این لحاظ هیچ تفاوتی با هم ندارند. در ضمن در مورد مالیات و مسائل مربوط به شهرداری، اموال موقوفه نیز شامل این قوانین می شوند و به آنها مالیات تعلق می گیرد. تنها تفاوت مال وقفی و ملک عادی در قیمت آنهاست. البته شخصی که ملک وقفی را اجاره می کند باید مبلغی را سالانه طی قراردادی پنج ساله به متولی وقف پرداخت کند. ث) پرداخت وام در صورتی که همه هزینه های مربوط به خرید املاک وقفی پرداخت گردد. در نهایت می توان از همه تسهیلاتی که پس از خرید املاک عادی وجود دارد. برخوردار شد. بنابراین می توان برای ساخت و ساز این زمین از وام مسکن نیز برخوردار شد. البته باید به این نکته توجه داشته باشید که شما تنها قراردادی که دارید اجاره به شرط تملیک است. و به هیج وجه به طور مطلق مالک ملکی که که بر روی زمین وقفی ساخته شده است نخواهید بود. ج) ساخت و ساز بر روی زمین های وقفی در صورتی که سازمان اوقاف زمین وقفی را به شخصی اجاره دهد؛ همچنین اگر اجازه ساخت و احداث بنا بر روی زمین وقفی به مستاجر داده شود در این خصوص مستاجر مالک ملک بنا شده بر روی زمین وقفی خواهد بود. فقط باید اجاره بهای عرصه یعنی زمین بدون بنا را طبق قرارداد به متولی وقف پرداخت نماید. نکته ای که در این خصوص وجود دارد این است که در صورتی که مستاجر بر روی زمین وقفی بنایی احداث کند معمولا سندی تحت عنوان سند اعیانی به اسم مستاجر صادر می شود. در صورتی که مستاجرین زمین های وقفی بدون اجازه ی سازمان اوقاف مبادرت به ساخت و ساز بنا بر روی این زمین ها نمایند. در این صورت از سوی سازمان اوقاف تحت عنوان غاصب شناخته خواهند شد و با معرفی به دادگاه دستور قلع و قمع بنای ساخته شده بر روی عرصه وقفی صادر می شود. نکته آخر: در اینجا سوالی که مطرح می شود این است که در صورت وجود خرابی در بنای وقفی آیا مجوز بازسازی و تعمیر موقوفه به مستاجر داده میشود؟ پاسخ مثبت است. طبق رویه معمول برای هرگونه تعمیری نسبت به بنای استیجاری باید به موجر اطلاع داده شود. و ��س از کسب مجوز تعمیرات انجام گیرد. در املاک وقفی نیز باید متولی وقف از این تعمیر و بازسازی مطلع شود. در موقوفات عام اداره اوقاف و در موقوفات خاص واقف شخص خاصی است که باید مطلع شود. اگر به هردلیلی موجر اجازه تعمیر و بازسازی به مستاجر ندهد. در این صورت به دلیل اینکع مستاجر از مال مورد اجاره بهره کافی را نمی برد. مدت باقی مانده از قرارداد اجاره باطل است. ***** آسایش گستران معتبرین و بهترین موسسه حقوقی همیشه حامی حقوق شما عزیزان است. ***** اگر در مطلب " شماره وکیل جهت خرید و فروش املاک وقفی" هنوز سوالی برای شما باقی مانده است از ما بپرسید... Read the full article
#بهترینوکیلپایهیک#بهترینوکیلملکی#تماسباوکیلملکی#سوالاتحقوقیملکی#شمارهتلفنوکیل#شمارهوکیل#شمارهوکیلملکی#وکیلپایهیک#وکیلپایهیکآنلاین#وکیلپایهیکدادگستری#وکیلدعاویملکی#وکیلملکی#وکیلملکیپایهیک#وکیلملکیتهران#وکیلملکیدرتهران#وکیلملکیغربتهران
0 notes
Photo
خواهش می کنم سوالات خود را در ذیل همین پست بپرسید یا به وب سایت ما مراجعه کنید. 👇👇 @VakilRostamy @VakilRostamy نکته: بدانید کسی که #بیع #نامه را امضا میکند، چنانچه خودش مالک نباشد، باید #وکیل، ولّی یا قیّم مالک باشد و دلایل سمت خود را ارائه دهد. همچنین بایستی این مسئله روشن شود که آیا وی در #وکالتنامه خود حق #فروش و گرفتن بهای #معامله را دارد و اگر امضاکننده ولّی #مالک است، مطمئن شود در زمان امضای #قولنامه توسط ولّی، کودک، بالغ نشده است. بهعلاوه در جایی که #امضاکننده قیّم مالک است، باید مشخص شود آیا قیّم به تنهایی حق فروش #مال صغیر را دارد یا با دخالت مقام قضایی چنین حقی برای او در نظر گرفته شده است. #دادخواست #قانون #وکیل #مشاوره #آموزش #وکیل_دادگستری #وکیل_رستمی #موفقیت#تلاش #وکالت #قرارداد #املاک #مشارکت #نکات_قراردادی (at Traditional Restaurant رستوران سنتی هتل اسپیناس پالاس) https://www.instagram.com/p/B1d6hd8Dc7Q/?igshid=gj3ns27wikf5
#بیع#نامه#وکیل#وکالتنامه#فروش#معامله#مالک#قولنامه#امضاکننده#مال#دادخواست#قانون#مشاوره#آموزش#وکیل_دادگستری#وکیل_رستمی#موفقیت#تلاش#وکالت#قرارداد#املاک#مشارکت#نکات_قراردادی
0 notes
Link
الزام به تنظیم سند رسمی ملک چیست؟ الزام به تنظیم سند رسمی ملک از دید حقوقی الزام به تنظیم سند رسمی ملک به معنای اجبار فروشنده ملک، به حضور در دفترخانه اسناد رسمی و تنظیم سند رسمی ملک به نام انتقال گیرنده است. انتقال مالکیت اموال غیر منقول به طور کلی با دو شیوه تنظیم سند عادی و رسمی محقق می گردد. تنظیم سند رسمی به نام انتقال گیرنده یکی از گام های نهایی برای اجرای تعهدات قانونی برای انتقال مالکیت ملک است. همانطور که مورد اشاره قرار گرفت، الزام به تنظیم سند رسمی ملک، تعهد حقوقی انتقال دهنده یا مالک ملک است، نسبت به فراهم آوردن مقدمات تنظیم سند رسمی مالکیت به نام انتقال گیرنده است. به طور کلی در حقوق ایران انتقال مالکیت ملک به یکی از دو شیوه قراردادی و غیر قراردادی (قانونی)، صورت می گیرد. منظور از شیوه قراردادی انتقال مالکیت اموال غیر منقول، انعقاد بیع، صلح یا سایر عقود تملیکی الزام آور است. شیوه قانونی یا غیر قراردادی انتقال مالکیت ملک نیز مواردی از قبیل محکومیت های مالی و … را در بر می گیرد. بنابراین الزام به تنظیم سند رسمی ملک یکی از انواع تعهدات است که می تواند منشا قانونی یا قراردادی داشته باشد. رایج ترین شیوه انتقال مالکیت ارادی اموال منقول، انعقاد قرارداد بیع است. امروزه انعقاد قرارداد بیع یا فروش املاک، اصولاً در دفاتر مشاوره املاک و بر روی برگه های چاپی خاصی به عنوان مبایعه نامه تنظیم می گردد. در ضمن مبایعه نامه طرفین در مورد حدود و چگونگی اجرای تعهدات توافق می نمایند. یکی از موضوعات مهمی که طرفین مبایعه نامه در مورد آن می بایست تعیین تکلیف کنند، زمان و نحوه تنظیم سند رسمی مالکیت به نام انتقال گیرنده است. علاوه بر بیع با ایجاد عقود دیگری از قبیل صلح نیز ممکن است مالک ملک، مکلف به تنظیم سند رسمی ملک گردد. اما مراحل طرح دعوا با همراه وکیل ملکی تهران یا بدون آن به چه شیوهای است؟
0 notes
Text
لفظ بیع و تملیک و ہبہ سے نکاح منعقد ہوجائے گا
لفظ بیع و تملیک و ہبہ سے نکاح منعقد ہوجائے گا
لفظ بیع و تملیک و ہبہ سے نکاح منعقد ہوجائے گا السلام علیکم و رحمتہ اللہ برکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ لفظ بع اور تملیک اور ہبہ سے نکاح منعقد ہوگا یا نہیں مدلل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی۔ سائل یار علی پچپڑوا ضلع بلرام پور یوپی انڈیا۔ وعلیکم السلام و رحمۃاللہ تعالیٰ وبرکاتہ الجواب-بعون الملک الوھاب لفظ بیع و تملیک و ہبہ سے نکاح منعقد ہوجائے گا جبکہ ان میں نکاح کا قرینہ…
View On WordPress
0 notes