#بیانات سیرت
Explore tagged Tumblr posts
Text
بیانات سیرت
بیانات سیرت بیاناتِ سیرت سیرت کے عنوان پر کیے گئے بیانات کا حسین مجموعہ از افادات: حضرت مولانا پیر ذو الفقار احمد نقشبندی صاحب جمع و ترتیب: مولانا محمد رضوان صاحب قریشی نقشبندی اشاعت: 2015 ناشر: مکتبۃ الفقیر اجمالی فہرست جلد ۱ ولادت النبی صلی اللہ علیہ وسلم حسن بے مثال آں چہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی معجزے محبوبِ کل جہاں صلی اللہ علیہ وسلم انتخابِ…
0 notes
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/hadith-and-naat-collection/shamail-tirmidhi-zubair-ali-zai-imam-tirmidhi/
Shamail Tirmidhi (Zubair Ali Zai) by Imam Tirmidhi
#3507
مصنف : امام ترمذی
مشاہدات : 5148
شمائل ترمذی ( زبیر علی زئی )
ڈاؤن لوڈ 1
انسانیت کے انفرادى معاملات سے لے کراجتماعى بلکہ بین الاقوامى معاملات اورتعلقات کا کوئی ایسا گوشہ نہیں کہ جس کے متعلق پیارے پیغمبرﷺ نے راہنمائی نہ فرمائی ہو، کتبِ احادیث میں انسانى زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں ہے یعنى انفرادى اور اجتماعی سیرت واخلاق سے متعلق محدثین نے پیارے پیغمبر ﷺ کے فرامین کی روشنى میں ہر چیز جمع فرمادی ہے۔کتب ِ سیرت او رکتب ِ شمائل میں فرق یہ ہے کہ کتب سیرت میں نبی کریم ﷺ سے متعلق ہر بات خوب وضاحت سے بیان کی جاتی ہے ۔ مثلاً ہجرت جہاد وقتال ،غزوات ، دشمن کی طرف سے مصائب وآلام، امہات المومنین کابیان اور صحابہ کرام کے تذکرے وغیرہ ۔جبکہ شمائل وخصائل کی کتب میں صرف آپﷺ کی ذاتِ بابرکت ہی موضوع ہوتی ہے ۔ مثلاً آپ کا چلنا پھرنا، آپ کا کھانا پینا آپ کی زلفوں کے تذکرے ، آپ کےلباس اور بالوں وغیرہ کے بیانات جو اصلاح فرد کےلیے بہت زیادہ مفید ہوتی ہیں ۔اسی لیے ائمہ محدثین نے اس طرف بھی خوصی توجہ کی ہے مثلاً امام اورامام ترمذی نے اس موضوع پر الگ سے کتب تصنیف ہیں۔ شمائل ترمذی پا ک وہند میں موجو د درسی جامع ترمذی کے آخر میں بھی مطبوع ہے۔ جسے مدارسِ اسلا…
0 notes
Photo
اسلام آباد (51نیوز) وزیر اعظم عمران خان نے کہا اپوزیشن کے احتجاج سے کوئی خطرہ نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی ترجمانوں کا اجلاس ہوا جس میں ملکی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ۔ نواز شریف کی صحت یابی کے لیے دعا بھی کی گئی ۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے پارٹی ترجمانوں کو نواز شریف کی صحت پر بیانات سے روکتے ہوئے کہا سیاسی اختلاف اپنی جگہ، کسی کی بھی صحت کے لیے دعا گو ہیں ۔ نواز شریف کا علاج ملک کے مایہ ناز ڈاکٹرز کر رہے ہیں ۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا نواز شریف سے متعلق عدالت کا فیصلہ قبول ہو گا ۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن کے مطالبات کو ناقابل تسلیم قرار دیتے ہوئے کہا کس بات پر استعفی دوں؟ کیا میرا سرے محل نکلا ہے یا خفیہ اکاؤنٹس نکلے؟ مولانا بتائیں کونسے حلقوں میں ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی؟ کونسے حلقوں میں دھاندلی کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کیا؟ وزیراعظم عمران خان نے کہا آزادی مارچ اپوزیشن کا جمہوری حق ہے ۔ اپوزیشن کے احتجاج سے کوئی خطرہ نہیں ۔ وزیراعظم نے کہا بھارت عالمی بینک کی رینکنگ میں 14 پوائنٹس اوپر گیا، پورا بھارت خوشی منا رہا ہے ۔ پاکستان کی پوزیشن میں 28 پوائنٹس بہتری آئی اور یہاں دھرنوں پر گفتگو ہو رہی ہے ۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان سے علماء کے وفد نے اسلام آباد میں ملاقات کی جس میں مسئلہ کشمیر ،دین اسلام کے اصل تشخص کو پیش کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں ناموس رسالت کے تحفظ اور اسلام فوبیا کے تدراک پر بھی گفتگو ہوئی۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی حیات مبارکہ کا ہر پہلو تاریخ میں محفوظ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ کی حیات مبارکہ تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل کرنے کیلئے ریاست مدینہ کے اصولوں پر چلنا ہو گا۔ جامعات میں سیرت چیئرز کے قیام کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ اور اسلام بارے جامع تحقیق ہے۔ https://www.instagram.com/p/B4CJi0LnoJ2/?igshid=1saxlopx93vr4
0 notes
Text
مکتبۃ الاسلام اینڈرائڈ ایپلیکیشن
مکتبہ اسلام،ایک تعارف
مفتی حماد فضل
Askmuftihammad.com [email protected] الحمد للہ و کفی والصلوۃ والسلام علی خاتم الانبیاء علم نور ھے اور اس نورکو محفوظ کرنے کا ذریعہ کتاب ھےیہ وہ میراث ھے جس میں علم کے خزائن مدفون ھیں۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ھے۔آقا ﷺپر نازل ھوا۔کاتبین وحی کو لکھوایا گیا۔اور متواتر طریق سے ھم تک پہنچا۔احادیث مبارکہ،یاد کرنے کے ساتھ ،لکھی بھی گئیں۔اج امت کے پاس آقا ﷺ کے مبارک ارشادات کا مجموعہ احادیث مبارکہ کی ان کتابوں کی شکل میں ھمارے سامنے ھے،جن کے مولفین نے اس علم کے منقول ذخیرے کو محفوظ کر لیا۔فقہ حنفی ھم تک نہ پہنچ پاتی اگر امام محمد رح کتب کی شکل میں مدون نہ کرتے دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ھے جس کو علامہ اقبال رح نے ذکر کیا. گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا مگر وہ عِلم کے موتی، کت��بیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں،تو دل ہوتا ہے سیپارا علم کے اس ذخیرے کو کتابی شکل میں طلباء اور قارئین تک پہنچانا،عظیم۔صدقہ جاریہ ھے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ھے کہ سائنسی ترقی سے بے شمار خواب بہت تیزی سے حقیقت کا روپ دھار گئے۔ایک وہ زمانہ تھا جب تصور بھی نہ تھا کہ آواز کو بھی محفوظ کیا جاسکتا ھے۔گراموفون، سے ٹیپ ریکارڈر،پھر سی ڈی اور ڈیجیٹل ریکارڈر،اور دیکھتے ھی دیکھتے موبائل ۔ ایک وہ زمانہ تھا جب تلاوت اور بیانات کی کیسٹس سنبھال سنبھال کر الماری میں رکھتے تھے کہ خراب نہ ھو۔دیکھتے ھی دیکھتے،سی ڈی اور ڈیجیٹل پلیئر کا زمانہ آیا اور ساری کیسٹس دھری کی دھری رہ گئیں۔ اب تو ٹیپ ریکارڈر بھی نہیں ملتا کہ تلاوت،نعت اور اکابر کے ان بیانات، کی کیسٹس کو ھی سن لیں ۔سب کچھ موبائل میں سما گیا۔ اس سائنسی انقلاب کاادراک ھمیں کرنا پڑے گا ۔ بلب سے ٹیوب لائٹ،پھر انرجی سیور پھر ایل ای ڈی۔ بالکل اسی طرح کتب کو محفوظ کرنے کا ابتدائی زمانہ مخطوطات کی شکل میں میں تھا جو کاتبین کے ھاتھوں سے لکھے جاتے ،تقسیم ھوتے۔پڑھے جاتے اور محفوظ ھوتےبشکل نقل و عمل ۔پھر پریس کا زمانہ آگیا۔کتب تیزی سے منتقل ھونا شروع ھوئی۔دفع دخل مقدر، جرمنی میں پریس کی ایجاد سے کم و بیش 500 سال قبل مسلمان پریس ایجاد کر چکے تھے۔ ۔یہ سچ ہے کہ گوٹن برگ کے متحرک چھاپہ خانے کی ایجاد بعد کی چیز ہے لیکن یہ اسی چھاپہ خانے کی ترقی یافتہ صورت تھی جس کی ایجاد مسلم اہل فن وحرفت کے ذہن سے ہوئی ۔اس پر ان شاء اللہ پھر کبھی تفصیل سے کلام کروں گا سردست،موضوع وہ تنوع ھے جو پریس اور کتابت میں آیا۔ایک زمانہ بھاپی پریس کا تھا ۔پھر روٹری پرنٹنگ پریس آیا پھر آفسیٹ پریس اور آج کل۔ڈیجیٹل پرنٹنگ پریس بالکل اسی طرح کتاب کا معاملہ بھی ھے۔۔ موبائل کی ایجاد نے اپنے اندر کئی ایجادات کو سمونا شروع کیا۔اینڈرائڈ موبائل آیا تو دن دگنی رات چگنی کی رفتار سے چیزیں اس میں سماتی چلی گئیں۔ جہاں دیگر،چیزیں سمائیں وھاں کتب بھی ڈیجیٹل فارمیٹ میں منتقل ھونا شروع ھو گئیں۔ اس انقلاب سے ھم آنکھیں بند نہیں کر سکتے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جو برکت،لطف اور فوائد اصل کتاب سے مطالعہ کرنے کے ھیں،وہ موبائل میں اس کتاب کو پڑھنے میں نہین۔مگر یہ بھی حقیقت ھے کہ موبائل کے میموری کارڈ میں با آسانی پوری ایک لائبریری سما سکتی ھے۔ عرب دنیا نے اس حقیقت کا ادراک ھم سے پہلے کیا۔ دینی کتب کا مطالعہ کا ذوق اور اشاعت کتب میں وہ ھم سے بہت آگے ھیں،جہاں دس دس ہزار کا ایک ایڈیشن چھپتا ھے اور ھاتھوں ھاتھ نکل جاتا ھے۔عرب حضرات کی طرف سے مکتبہ شاملہ کی شکل میں کتب کے اس ذخیرے کو محفوظ کرنے کی بہت عمدہ کاوش سامنے آئی۔ابتداء میں یہ سافٹ وئیر تھا پھر موبائل میں بھی آگیا۔ چھ ہزار سے زائد عربی کتب اس میں محفوظ ہو گئین جن میں ��رچ ممکن تھی۔ اس کو دیکھتے ھوئے اردو میں دینی کتب کو اسی طرز پر لانے کا کا�� کا آغاز ھوا،جس کا سہرا مکتبہ جبرئیل کے بانی مولانا ذیشان کے سر جاتا ھے ۔مولانا ،اور انکی ٹیم اس سلسلے میں نقش اول بنے۔ چند وجوھات کی بنا پر ،مکتبہ جبرئیل کو محدود کر دیا گیا اور کچھ احوال کی بنا پر مولانا ذیشان مد ظلہ اس سے الگ ھو گئے اس صورت حال میں ،مکتبہ اسلام بنانے کا فیصلہ ہوا۔
مکتبةالاسلام کیا ھے؟
مکتبة الاسلام ،مستند دینی کتب کی ہر ایک تک آسان رسائی کے لئے تیار کی گئی ایپ ھے ۔جس کا مقصد دینی علوم کی ترویج ،جدید ذرائع کے ذریعے ان کی نشر و اشاعت،ان کو محفوظ کرنا اور تحقیق میں سہولت پیدا کرنا ھے۔مکتبةالاسلام کا ویژن ھے کہ اسلام سے متعلقہ، دنیا کی ھر زبان میں موجود مستند دینی کتابوں کی رسائی ھر ایک تک ھو۔ مکتبہ اسلام صرف اردو نہیں بلکہ دنیا کی ھر زبان میں لکھی گئی مستند دینی کتب کا،ان شاء اللہ، سب سے بڑا ذخیرہ ھو گا ۔مکتبة الاسلام مستند مفتیان کرام کی زیر نگرانی کام کر رھا ھے ۔یہ دارالنور فاونڈیشن(رجسٹرڈ) اور جامعہ طہ کا ذیلی پروجیکٹ ھے (jamiataha.com)۔ مکتبة الاسلام،بے شمار اضافی فیچرز پر مشتمل ھے جو شاملہ اور مکتبہ جبرئیل میں نہیں تھے اب تک جو فیچرز اس میں شامل کر دئے گئے ھیں وہ یہ ھیں۔ 1۔قرآن ،حدیث،سیرت، علم۔کلام،،فقہ فتاوی، اصلاح وتزکیہ،درس نظامی،لغات،وظائف و دعائیں،رسائل و جرائد،زبان و ادب ،فنون عصریہ ،تاریخ و جغرافیہ، کے عناوین کا احاطہ کرتے ھوئے پانچ ہزار کے قریب کتب پر مشتمل ھے۔ مکتبہ کھولتے ساتھ آپ کے سامنے چار نام خانوں میں لکھے نظر آئیں گے۔تفصیلی تلاش،ڈاونلوڈ کتب،میری لائبریری، حالیہ مطالعہ۔اوپر ایک لائن میں مصنف یا کتاب کا نام لکھا ھوا ھے ۔اس کامطلب ھے کہ آپ کسی کتاب کو اس کے نام سے مصنف کے نام سے تلاش کرنا چاھتے ھیں تو تلاش کر سکتے ھیں۔ تفصیلی تلاش کا مطلب ھے کہ آپ کسی لفظ کو لے کر کسی مخصوص کیٹیگری یا تمام کیٹیگریز میں تلاش کرنا چاھتے ھیں۔مگر یہ بات ملحوظ رکھئے کہ تلاش صرف ان کتب یا کیٹیگریز میں ممکن ھے جو آپ ڈاون لوڈ کر چکے ھیں۔تلاش کے لئے مختلف آپشن آپ کے سامنے آئیں گی۔عنوان کا مطلب ھے کہ آپ اس لفظ کو کتب کے عناوین میں تلاش کرنا چاھتے ھیں۔مکمل کتاب کا مطلب ھے کہ کتاب کی تمام عباراتاور لائنز میں اس کو تلاش کیا جائے۔اگر کئی الفاظ ھوں تو آپ سے چار آپشن پوچھی جائیں گی 1۔تمام الفاظ۔اس کا مطلب ھے لکھے گئے تمام الفاظ جن کو تلاش کرنا مقصود ھے ،وہ جس جس عبارت میں موجود ھو،انکو نکال دے۔اس آپشن میں ترتیب قور اکٹھا لکھے ھونے کو نہیں دیکھے گا۔مثلاآپ نے لکھا۔کرسی میز میں ۔تو یہ تینوں الفاظ الگ الگ تلاش کر کے دکھائے گا۔جن جن عبارات میں یہ تینوں موجود ھو اگرچہ اکٹھے نہ ھوں۔ 2۔کوئی بھی لفظ۔اس کا مطلب ھے کہ لکھے گئے الفاظ میں سے کوئی بھی لفظ کسی بھی صفحے پر ھو نکال دے۔مثلا آپ نے لکھا۔میز کرسی میں۔اب یہ ان تمام صفحات کو بھی نکال دے گا جن میں صرف "میز "ھو یا صرف" کرسی" یا صرف "میں" کا لفظ آتا ھو۔ 3۔مکمل مطابقت ۔اس کا مطلب ھے کہ جتنے الفاظ لکھے یہ سب اکٹھے جہاں کہیں لکھے ھو ،وہ عبارت نکالیں۔مثلا آپ نے سجدہ کرسی کے الفاظ لکھے اور یہ آپشن منتخب کی۔اب یہ الفاظ جن جن عبارات میں اکٹھے لکھے ھوں گے،صرف وہ نکالے گا۔ ذیل کی تصاویر سے بات واضح ھو جائے گی۔ ااس تلاش کا رزلٹ آپ شئیر بھی کر سکتے ھیں۔جس کے لئے شیئر کی آپشن دی گئی ھے۔ ۔مکتبہ کے اوپر دائیں طرف آپ کو تین چھوٹی سی لائیںیں ڈلی نظر آئیں گی۔ان کو کلک کریںنگے تو آپ کے سامنے یہ تصویر آئے گی۔ اس تصویر میں آپ دیکھ سکتے ھیں کہ درج ذیل آپشن دی گئی ھیں ۔سرورق۔اس کا مطلب ھے ھوم پیج ۔حالیہ مطالعہ۔اس کا مطلب ھے کہ جن کتب کا مطالعہ یا تلاش کے دوران مطالعہ، ماضی قریب میں کیا گیا ھے۔اسی طرح اس میں ایک آپشن حلال فوڈ کی دی ��ئی ھے ۔اس میں تمام ای کوڈز،ان کا ماخذ اور ممکنہ حکم درج کر دیا گیا ھے۔مشکوک کا مطلب ھے کہ اس کے دونوں ماخذ ھو سکتے ھیں حلال بھی اور حرام بھی۔اس لئے اگر متحقق نہ ھو کہ ماخذ کیا ھے تو چھوڑ دیا جائے۔ میری لائبریری کا مطلب ھے کہ کہ وہ کتب جو آپ ڈاون لوڈ کر چکے ھیں۔ عناوین مین سے آپ اپنے مطلب کی کیٹیگری یا مخصوص کتب کو ڈاون لوڈ کر سکتے ھیں.ڈاون لوڈ کرنے کے لئے یہ آپشن بھی موجود ھے کہ پوری ایک کیٹیگری کو اکٹھا ڈاون لوڈ کر لیں۔مثلا آپ چاھتے ھیں کہ حدیث سے متعلقہ تمام کتب ڈاون لوڈ ھو جائیں تو اس کیٹیگری کو تھوڑی دیر پریس کئے رکھیں۔آپ کے سامنے ڈاون لوڈ کیٹیگری لکھا آئے گا کلک کریں۔ساری کیٹیگری ڈاون لوڈ ھو جائے گی۔اگر مخصوص کتب ڈاون لوڈ کرنا چاھئیں تو جس کتاب پر تھوڑی دیر کے لئے پریس کئے رکھین گے وہ ڈاون لوڈ ھو جائے گی۔ 3 4۔کتب میموری کارڈ یا موبائل میموری میں محفوظ کی جا سکتی ھیں۔ 56۔ایپ کے استعمال کرنے کے طریقہ کار سے آگاہی کے لئے ویڈیو شامل کی جارھی ھیں۔جو ھمارے یو ٹیوب چینل پر آپ کو لے جائیں گی۔ ٹیلیگرام ،واٹس ایپ ٹوئٹر اور فیسبک پر ھمارا پیج ھو گا۔جن کے لنکس شامل کئے جارھے ھیں۔نیز رابطہ کے لئے ای میل اکاونٹ بھی شامل۔کر دیا گیا ھے۔ 7۔کتب فی الوقت اردو،عربی،انگریزی میں ھیں۔پشتو،فارسی اور ھندی ،بلکہ دنیا کی ھر زبان میں موجود مستند دینی کتب اس ایپ میں میسر ھو سکیں گی۔ان شاء اللہ 8۔یہ ایپ فی الوقت اینڈرائڈ موبائل کے لئے ھے۔ایپل کے لئے کام ھو رھا ھے۔نیز ویب سائٹ اور کمپیوٹر کے لئے سافٹ ویئر پر بھی کام ھو رھا ھے۔ جو فیچرز شامل ھونے ھیں (ان شاء اللہ) 1۔اس مکتبہ مین کوئی بھی قاری کتاب اپلوڈ کر سکے گا۔البتہ اپلوڈ ھونے کے بعد وہ ھمارے پینل سے دو مراحل میں جانچ پڑتال کے بعد منظور ھونے کی شکل میں ظاھر ھو سکے گی۔ 2۔قاری اس مین فتوی اپلوڈ کر سکیں گے ۔اس طرح دارالافتاء کے فتاوی کا عظیم ذخیرہ محفوظ ھو جائے گا جس میں سرچ ھو سکے گی۔ 3۔جو کتب آپ کے موبائل میں موجود ھوں ،انکو بھی آپ اس میں شامل کر سکیں گے البتہ وہ باقی لوگوں کو ظاھر نہیں ھوں گی۔ 4۔ اھم دار الافتاء کی ویب سائٹ سے آن لائین سرچ رزلٹ بھی ظاھر ھوں گے مگر اس کے لئے نیٹ چاھئے ھو گا۔ اپنے فیڈ بیک سے ھمیں مطلع کیجئے تاکہ اس ایپ۔کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکے ۔ 0092302 84 84 434 Read the full article
0 notes
Photo
سیرت سیدہ مریم بنت عمران علیہا السلام لڑکیاں مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف نہیں کی جاتی تھیں ،یہ پہلا موقع تھا کہ لڑکے کے بجائے لڑکی کو مسجد کے لئے وقف کیا گیا * * *عبدالمنان معاویہ ۔لیاقت پور،پاکستان* * * سید ہ مریم علیہا السلام کے شجرہ نسب کے بارے میں ابوالقاسم ابن عساکر فرماتے ہیں : مریم بنت عمران بن ماثان بن العازر بن الیود بن اخنز بن صادق بن عیازوز بن الیاقیم بن ایبودبن زریابیل بن شالتال بن یو حینا بن برشابن امون بن میشا بن حزقیا بن احاز بن موثام بن عزریا بن یورام بن یوشافاط بن ایشابن ایبا بن رجسعام بن سلیمان بن دائود علیہم السلام ‘‘۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں : ’’مریم بنت عمران بن ہاشم بن امون میشا بن حزقیا بن احریق بن موثم بن عزاز با بن امصیا بن یاوش بن احریہو بن یازم بن یہفاشاط بن اشیا بن ایان بن رجسعام بن دائود ‘‘(قصص الانبیاء ،ازامام ابوالفداء ابن کثیر الدمشقی) ۔ حضرت عمران سلیمان علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور اُن کی اہلیہ بی بی حنّہ دائود علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں ۔حضرت عمران بنی اسرائیل میں بڑے عابد وزاہد مشہور تھے ،اسی لئے مسجد اقصیٰ کی امامت لوگوں نے آپ کے سپرد کی ہوئی تھی اور بی بی حنّہ بھی بڑی عابدہ وزاہدہ خاتون تھیں ،اس لئے یہ میاں بیوی بنی اسرائیل میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے لیکن بی بی حنّہ کے کوئی اولاد نہ تھی ۔فطری تقاضے کی تحت انہیں اولاد کی خواہش بہت زیادہ تھی ۔وہ اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دُعا اکثر وبیشتر کرتی رہتی تھیں ۔مولانا عبدالرحمن مظاہری ؒ لکھتے ہیں:کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حنّہ اپنے مکان کے صحن میں چہل قدمی کررہی تھیں ،دیکھا کہ ایک پرندہ اپنے بچے کو بَھرَّا رہا ہے اور محبت وپیار سے اس کو چوم رہا ہے ۔پیار ومحبت کے اس منظر نے حضرت حنّہ کو بہت ہی متاثر کیا اولاد کی تمنا نے دل کو مزید بیقرار کردیا ۔حالتِ اضطراب میں دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دئیے ،عرض کیا: پروردِگار ! اسی طرح مجھ کو بھی اولاد عطا کر جو ہماری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنے۔بیقراروں کی دُعا نے قبولیت کا جامہ پہنا اور حضرت حنّہ نے چند روز بعد محسوس کیا کہ وہ پُر امید ہیں ۔حضرت حنّہ کو اس احساس سے اس درجہ مسّرت ہوئی کہ انہوں نے نذر مان لی کہ جو بچہ پیدا ہوگا ،اس کو ہیکل (مسجد اقصیٰ ) کی خدمت کے لئے وقف کردوں گی ۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے حضرت عمران کی بیوی حضرت حنّہ کی دُعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور وہ مسرت وشادمانی کے ساتھ امید بَر آنے کی گھڑی کا انتظار کرنے لگیں۔حضرت حنّہ کی مدت ِحمل جب پوری ہوگئی تو ولادت کا وقت آپہنچا ۔ولادت کے بعد حضرت حنّہ کو اطلاع دی گئی کہ ان کے بطن سے لڑکی پیدا ہوئی ہے ۔ جہاں تک اولاد کا تعلق ہے حضرت حنّہ کے لئے یہ لڑکی بھی لڑکے سے کم نہ تھی مگر اُن کو شدت سے یہ احساس ہوا کہ میں نے جو نذر مانی تھی وہ پوری نہ ہوسکے گی ،کیونکہ لڑکی مسجد اقصیٰ کی خدمت کیونکر انجام دے گی ،یہ کام تو مرد ہی انجام دے سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے بطور الہام یا ہاتف ِ غیبی ،اُن کے افسوس کو مسرت سے یہ کہہ کر بدل دیا کہ :ہم نے تیری لڑکی ہی کو قبول کرلیا ہے اور اسکی وجہ سے تیرا خاندان اور بھی معزز اور مبارک قرار پائے گا ۔ حضرت حنّہ نے لڑکی کا نام مریم رکھا اور دُعا کی :اے پروردِگار !اِس کو اور اس کی اولاد کو شیطان کے ہر فتنہ سے محفوظ فرما۔ سریانی زبان میں مریم کے معنیٰ ’’خادم‘‘ کے ہیں ۔چونکہ یہ مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف کردی گئی تھیں اس لئے یہ نام موزوں سمجھا گیا ۔بعض کہتے ہیں کہ مریم کے معنیٰ ’’بلند ‘‘ اور ’’عبادت گزار‘‘ کے ہیں ۔بشر بن اسحٰق کہتے ہیں کہ سیّدہ حنّہ ابھی حاملہ ہی تھیں کہ اُن کے شوہر حضرت عمران کا انتقال ہوگیا تھا (فتح الباری) ۔ بعض دوسرے مورخین لکھتے ہیں کہ سیدہ مریم ابھی شیر خوار ہی تھیں کہ باپ کا انتقال ہوگیا (سیرت انبیائے کرام) ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عیسیٰؑ کی پیدائش سے قبل ہی اس خاندان کو قدرت الہٰیہ نے ایسے خصائص سے نوازا جودیگر خاندانوں میں مفقود تھے ،جیسا کہ مسجد کی خدمت مرد کرتے تھے ،لیکن اس خاندان سے اللہ تعالیٰ نے عورت کو مسجد کی خدمت کے لئے چن لیا ۔ علامہ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :اکثر مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ ان کی ماںنے جب اُن کو جنم دیا تو انہیں کپڑوں میں لپیٹ کر مسجد بیت المقدس لے گئیں،اور بندوں کے حوالے کردیا جووہاں عبادت الہٰی اور خدمت مسجد وغیرہ کیلئے ہمیشہ وقف ومقیم رہتے تھے ۔ یہ بچی چونکہ اُن کے امام وپیشواکی بیٹی تھی لہٰذا اسکے متعلق سب جھگڑے کہ میں اس کاکفیل بنوں گا ،تو اگرچہ مفسرین نے اسی طرح ذکر کیا ہے ،مگر ظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ اُم مریم نے مریم کو دودھ پلانے کے زمانے کے بعد اور بچپن کی پرورش کے بعد اُ ن لوگوں کے حوالے کیا ہوگا۔ خیر اُم مریم نے مریم کو اُن کے حوالے کردیا تو اس بات پر جھگڑا ہوا کہ کون اس کی پرورش وکفالت کرے ،ہر کوئی حریص تھاکہ میں تنہا اس کی کفالت وپرورش کی ذمہ داری اٹھائوں۔حضرت زکریا ؑ اُس زمانے میں پیغمبر بھی تھے،اور مزید برآں وہ بچی کے بہنوئی یا خالو بھی تھے ،تو اس لئے ان کی خواہش وکوشش تھی کہ میں اس کا حقدار بنوں ،مگر لوگ آپؑ پر مصر ہوئے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہیں ،اور آپ بھی قرعہ اندازی میں شریک ہوں ،تو آخر کار سب قرعہ اندازی پر متفق ہوئے اور تقدیر وقسمت نے حضرت زکریا ؑکی یاوری کی اور ان کے نام سے قرعہ نکل گیا اور چونکہ خالہ’’ ماں‘‘ کی طرح ہوتی ہے اس لئے بہتر ہوا ،اللہ عزّ وجل فرماتے ہیں اور زکریا اسکے کفیل بنے(قصص الانبیاء)۔ محقق عالم دین حضرت مولانا محمد عبدالرحمن ؒ لکھتے ہیں کہ :حضرت زکریا علیہ السلام نے سیدہ مریم کے لئے مسجد کا ایک محراب (حجرہ ) منتخب کیا اور اس میں ان کا قیا م طے پایا ۔گزشتہ زمانے میں گرجائوں اور کلیسائوں میں عبادت گاہ کی عمارت سے متصل سطح زمین سے کچھ بلندی پر حُجرے بنائے جاتے تھے ،جن میں عبادت گاہ کے منتظمین خدام اور معتکف حضرات رہا کرتے تھے ،انہیں محراب کہا جاتا تھا اسی قسم کے کمروں میں سے ایک میں سیدہ مریم بھی معتکف تھیں۔وہ تمام دن عبادت الہٰی میں مشغول رہتیں ،رات کو حضرت زکریا علیہ السلام انہیں اپنے گھر لاتے اور وہ اپنی خالہ کے گھر رات بسر کرتیں (روح المعانی، سیرت انبیائے کرام )۔ علامہ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :جب بھی سیدنازکریا ؑ سیدہ مریم کے محراب میں داخل ہوتے تو ان کے پاس رزق پاتے ،تو پوچھتے: اے مریم ! یہ کہاں سے آیا ؟تو وہ کہتیں: اللہ کی طرف سے ہے ،بے شک اللہ جسے چاہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت زکریا ؑ نے مسجد کی ایک اچھی جگہ ان کے لئے بنادی تھی ،جس میں کوئی اور مریم کے سوا داخل نہ ہوسکتا تھا۔آپ اس میں خدا کی عبادت میں مصروف رہتیں اور باقی جب مکان کی دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی تو اس کو درست کرتیں ،بقیہ اوقات عبادت الہٰی میں مشغول رہتیں ،حتیٰ کہ لوگوں میں آپ کی کثرت ِعبادت مشہور ہوگئی ،اور آپ کے احوال اور عمدہ صفات وکرامتوں کا بھی لوگوں میں چرچا ہونے لگا ۔ان میں سے ایک یہ تھی کہ حضرت زکریا ؑ جب بھی ان کے حجرے میں تشریف لے جاتے تو وہاں عجیب وغریب میوے اور دوسرے رزق پاتے ،سردیوں میں گرمی کے پھل اور گرمیوں میں سردی کے پھل پاتے ،تو آپ پوچھتے اے مریم ! یہ کہاں سے آیا؟تو وہ کہتیں: اللہ کی طرف سے ،بے شک اللہ جسے چاہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے ،تو ایسے موقعے پر حضرت زکریا ؑ کے دل میں اپنی صلبی اولا د کی خواہش نے جنم لیا اگرچہ آپؑ انتہائی بوڑھے اور ضعیف ہوچکے تھے ،توتب فرمان الہٰی ہے کہ زکریا ؑ نے کہا : اے پروردِگار مجھے بھی اپنی طرف سے پاکیزہ اولاد دے ،بے شک آپ دعا قبول کرنے والے ہیں ۔بعض مفسرین فرماتے ہیں :آپ ؑ نے یوں دعا کی :اے وہ ذا ت جو مریم کو غیر موسمی پھل و رزق عطا کرتی ہے !تو مجھے بھی اولادسے نواز اگرچہ اس کا زمانہ نہیں (قصص الانبیاء)۔ سیدنا زکریاؑ کے بارے میں انجیل کے بیانات : انجیل لوقا باب 1 میں ہے : ایک دن بیت المقدس میں ابیاہ کے گروہ کی باری تھی اور زکریا خدا کے حضور اپنی خدمت سرنجام دے رہے تھا ۔دستور کے مطابق انہوںنے قرعہ ڈالا تاکہ معلوم کریں کہ رب کے مقدس میں جاکر بخور کی قربانی کون جلائے ،زکریاہ کو چنا گیا ،جب وہ مقررہ وقت پر بخور جلانے کیلئے بیت المقدس میں داخل ہوا تو جمع ہونے والے تمام پرستار صحن میں دُعا کررہے تھے ،اچانک رب کا ایک فرشتہ ظاہر ہوا جو بخور جلانے کی قربان گاہ کے داہنی طرف کھڑا تھا ،اُسے دیکھ کر زکریا گھبرا یا اور بہت ڈر گیا ،فرشتے نے اس سے کہا :زکریا ،مت ڈر ! خدا نے تیری دُعا سن لی ،تیری بیوی الیشبع کے بیٹا ہوگا ،اُس کا نام یحییٰ رکھنا ،وہ نہ صرف تیرے لئے خوشی اور مسرت کا باعث ہوگا، بلکہ بہت سے لوگ اُس کی پیدائش پر خوشی منائینگے کیونکہ وہ رب کے نزدیک عظیم ہوگا ،لازم ہے کہ وہ مے اور شراب سے پرہیز کرے ۔وہ پیدا ہونے سے پہلے ہی روح القدس سے معمور ہوگا اور اسرائیلی قوم میں سے بہتوں کو رب اُن کے خدا کے پاس واپس لائیگا۔ آگے لکھا ہے : زکریانے فرشتے سے پوچھا :مَیں کس طرح جانوں کہ یہ بات سچ ہے ،مَیں خود بوڑھا ہوں اور میری بیوی بھی عمر رسیدہ ہے ۔فرشتے نے جواب دیا:میں جبرائیل ہوں، خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں ۔مجھے اسی مقصد کیلئے بھیجا گیا ہے کہ تجھے یہ خوش خبری سنائوں۔ سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں انجیل کے بیانات: انجیل لوقاباب1 میں ہے : الیشبع(حضرت زکریا ؑ کی بیوی)6 ماہ سے امید سے تھی ،جب خدا نے جبرائیل فرشتے کو ایک کنواری کے پاس بھیجا جو ناصرت میں رہتی تھی(ناصرت گلیل کاایک شہر ہے اور کنواری کانام مریم تھا )اُسکی منگنی ایک مرد کے ساتھ ہوچکی تھی جو دائود بادشاہ کی نسل سے تھا اور جس کانام یوسف تھا ۔فرشتے نے اسکے پاس آکر کہا :اے خاتون جس پر رب کا خاص فضل ہوا ،سلام ! رب تیرے ساتھ ہے ۔مریم یہ سن کر گھبرا گئی اور سوچا :یہ کس طرح کاسلام ہے ؟لیکن فرشتے نے اپنی بات جاری رکھی اور کہا:اے مریم !مت ڈر ،کیونکہ تجھ پر خدا کا فضل ہو اہے ،تُوامید سے ہوکر ایک بیٹے کو جنم دیگی ،تجھے اُس کا نام عیسیٰ (نجات دینے والا) رکھنا ہے (آیت:26تا 31 )۔ آگے انجیل میں مرقوم ہے :مریم نے فرشتے سے کہا :یہ کیونکر ہوسکتا ہے ؟ابھی تومَیں کنواری ہوں۔ فرشتے نے جواب دیا :روح القدس تجھ پر نازل ہوگا ،اللہ تعالیٰ کی قدرت کا سایہ تجھ پر چھا جائے گا اس لئے یہ بچہ قدوس ہوگا اور دیکھ تیری رشتہ دار الیشبع کے بھی بیٹا ہوگا حالانکہ وہ عمر رسیدہ ہے ،گو اُسے بانجھ قرار دیا گیا تھا ، لیکن وہ6 ماہ سے امید سے ہے ،کیونکہ اللہ کے نزدیک کوئی کام ناممکن نہیں ۔مریم نے جواب دیا:میں رب کی خدمت کے لئے حاضر ہوں ،میرے ساتھ ویسا ہی ہو جیسا آپ نے کہا ۔اس پر فرشتہ چلاگیا۔ یدہ مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں قادیانی نظریات: قرآن حکیم کی آیاتِ مقدسہ میں آپ نے ملاحظہ فرمالیا اور آپ یہ جان چکے ہونگے کہ دین اسلام میں سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کوبلند مرتبت خاتون صرف سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ یہ بات اسلامی عقائد میں شامل ہے۔جہاں تک بات ہے انجیل کی تو انجیل میں چونکہ تحریف در تحریف واقع ہوئی ہے اس لئے انجیل پر 100فیصد اعتماد نہیں کیا جاسکتا ،لیکن انجیل کی وہ عبارات جو اسلامی عقائد کے موافق ہیں اور اسلامی عقائد سے متصادم نہیں ہم نے صرف وہی درج کیے ہیں لیکن اگر کوئی ایسی بات جو اسلامی عقائد سے منافی ہے تو وہ ’’نقل کفر کفر نباشد ‘‘کے تحت پڑھیے گا ۔ایک بات ذہن نشین رہے کہ انجیل میں سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے بارے میں وہ ادب واحترا م مفقودہے جس کی تعلیمات دین اسلام دیتا ہے ۔ سیدہ مریم کے بارے میں دورِ حاضر کا بہت بڑا فتنہ ’’مرزائیت‘‘ کے نظریات بھی ملاحظہ فرمالیجئے ،جوکہ خود کو صحیح وسچے اسلام (Real True Islam ) کے وارث قرار دیتے ہیں،تاکہ ایک مذہبی مصلح موعود؍مسیح موعود،مہدیت اور کرشن اوتار ہونے کے مدعی کی بدزبانی کے شہ کار آپ کے سامنے آئیں۔مرزا غلام احمد قادیانی لکھتا ہے:یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں،یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھی(حاشیہ کشتی نوح:20،مندرجہ روحانی خزائن :19,18)۔ مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے:پانچواں قرینہ ان کے وہ رسوم ہیں جو یہودیوں سے بہت ملتے ہیں ۔ مثلاً ان کے بعض قبائل ناطہ اور نکاح میں کچھ چنداں فرق نہیں سمجھتے اور عورتیں اپنے منسوب سے بلاتکلف ملتی ہیں اور باتیں کرتیں ہیں،حضرت مریم صدیقہ کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ قبل نکاح کے پھرنا اس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے مگر خوانین سرحدی کے بعض قبائل میں یہ مماثلت عورتوں کی اپنے منسوبوں سے حدس�� زیادہ ہوتی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات نکاح سے پہلے حمل بھی ہوجاتا ہے جس کو برا نہیں مانتے بلکہ ہنسی ٹھٹھے میں بات ٹال دیتے ہیں کیونکہ یہود کی طرح یہ لوگ ناطہ کو ایک قسم کا نکاح ہی جانتے ہیں جس میں پہلے مہر بھی مقرر ہوجاتا ہے ‘‘۔(ایام الصلح ،مندرج روحانی خزائن ) مرزا قادیانی نے درج بالا عبارات سے بڑھ کر گستاخانہ عبارت لکھی وہ بھی دل پر ہاتھ رکھ کر ملاحظہ فرمائیے:۔’’ مریم کو ہیکل کی نذر کردیا گیا تا وہ ہمیشہ بیت المقدس کی خادمہ ہو ،اورتمام عمر خاوند نہ کرے لیکن جب چھ سات مہینے کا حمل نمایا ں ہوگیا،تب حمل ہی کی حالت میں قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام کے ایک نجار سے نکاح کردیا ،اس کے گھرجاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا ،وہی عیسیٰ یا یسوع کے نام سے موسوم ہوا‘‘۔(چشمہ مسیحی ،مندرج روحانی خزائن) یہاں تک آپ نے سیدہ مریم علیہاالسلام کے حالات پڑھے جن سے چند نکات معلوم ہوئے کہ:۔ ٭ سیدہ مریم علیہا السلام کی ولادت سے قبل اُن کی والدہ نے بیٹے کی نذر مانی ،تاکہ بیٹے کے پیدائش کے بعد اُسے مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف کیا جائے ۔ بیٹے کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیٹی عطافرما کر الہٰام کیا کہ اسے ہی مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف کردو ،جب کہ اس سے قبل لڑکیاں مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لئے وقف نہیں کی جاتی تھی ،یہ پہلا موقع تھا کہ لڑکے کے بجائے لڑکی کو مسجد کے لئے وقف کیا گیا اور بنی اسرائیل کے راہبوں نے اسے قبول کیا ۔اور صرف قبول ہی نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری نبھانے کے لئے آپس میں جھگڑا کیا ،قرعہ اندازی کی گئی اور قرعہ فال حضرت زکریا علیہ السلام کے نام نکلا ۔ ٭ حضرت زکریا علیہ السلام جب بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے پاس جاتے ،تو غیر موسمی وتازہ پھل پڑے ہوتے ،حضرت زکریا ؑ کے استفسارپر سیدہ مریم علیہا السلام نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں عطاکیے جاتے ہیں۔اِن غیر موسمی پھلوں کے دیکھ کر حضرت زکریا علیہ السلام نے سنِ کہولت کے باوجود اپنے لئے حق تعالیٰ سے اولاد کی دُعا کی ،جسے بارگاہِ ایزدی سے شرفِ قبولیت سے نوازا گیا۔ ٭دین اسلام میں سیدنا عیسیٰؑ کی والدہ محترمہ کو ’’صدیقہ ،ولیہ سیدۃ نساء العالمین‘‘وغیرہ جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ٭ جبکہ ایسا مقام ومرتبہ عیسائیت جو ان کا نام لیتی ہے اُن کے ہاں بھی نہیں ۔ ٭ مرزا غلام احمد قادیانی نے سیدہ مریم سلام اللہ علیہا پر ’’حمل قبل ازنکاح۔ان کے لئے منسوب تراشنااور منسوب کے ساتھ گھومنا،پھرنا ۔حمل قبل از نکاح کی وجہ سے ہی بزرگوں نے یوسف نجازسیدہ مریم سلام اللہ علیہا کی شادی کردی‘‘۔اس قسم کی ہفوات بکی ہے جو کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے ۔اور نہایت گستاخانہ عبارات ہیں ۔ ٭ اہل اسلام کے ہاں جس طرح نبی کریم ﷺ کی گستاخی ناقابل معافی جرم ہے اسی طرح دیگر انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والتسلیمات اور قرآنی شخصیات کی گستاخی بھی ناقابل معافی جرم ہے ۔ درج بالا سارے واقعات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ مریم سلام اللہ علیہا اللہ تبارک وتعالیٰ کی برگزیدہ خاتون تھیں اور پاکدامن تھیں ،اُن کو خدا وند قدوس نے اپنے رسول سید نا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ بنانے کے لئے چن لیا تھا اور قرآن کریم واحادیث صحیحہ کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل ہی اُن کے خاندان سے مافوق الفطرت واقعات ظہورپذیر ہونے شروع ہوگئے تھے ۔جو قوانین الہٰیہ ک�� برعکس تھے اوران واقعات میں قدرت ِالہٰیہ کا ظہور تھا۔
0 notes
Photo
حضرت علی بطور جج-ڈاکٹر تصور حسین مرزا ایک دفعہ کا زکر ہے کہ دو شخص کھانا کھانے بیٹھے، ایک کے پاس پانچ روٹیاں جبکہ دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں، دونوں نے اپنا اپنا کھانا سامنے ٹیبل پر رکھا اور کھانا کھانے ہی والے تھے کہ ایک تیسرے شخص کا ادھر سے گذرہوا، اور ان کو سلام کیا، دونوں نے اس کو بلایا، وہ بھی آ کر بیٹھ گیا، تینوں نے مل کر وہ سب آٹھ روٹیاں کھا ڈالیں، تیسرا شخص اٹھ کھڑا ہوا اور جاتے ہوئے آٹھ درہم دونوں کو دیتے ہوئے کہا:یہ کھانے کا عوض ہے، جو میں نے تمہارے ساتھ کھایا ہے، تیسرا شخص کھانا کھاے کے بعد چلا گیا مگر یہ پہلے والے دونوں آدمیوں کے درمیان آٹھ درہم کی تقسیم کا معاملہ ہوا! اس کے جانے کے بعد دونوں میں حجت و تکرار شروع ہوئی جس کی پانچ روٹیاں تھیں، اس نے کہا:میں پانچ درہم لوں گا اور تین روٹیاں والے کو بولا کہ تجھ کو تین درہم ملیں گے؛ کیونکہ تیری روٹیاں تین تھیں، تین روٹی والے نے کہا:میں تو نصف سے کم پر ہر گز راضی نہ ہوں گا، یعنی چار درہم لے کر چھوڑوں گا، یہ جھگڑا اتنا طول پکڑا کہ بالآخر حضرت امیر المومنین حضرت علی کے سامنے مقدمہ پیش ہوا اور انصاف طلب کیا گیا۔ آپ نے دونوں کے بیانات سن کر تین روٹی والے سے فرمایا تم کو تین درہم ملتے ہیں، یہ کم نہیں ہے؛ کیونکہ تمہاری تین ہی روٹیاں تھیں؛ لہٰذا تم کو جو ملتا ہے اس پر راضی ہوجاؤ، مدعی:میں اپنا پوار حق لوں گا، حضرت علی:اگر حق پر چلتے ہو تو تمہارا حق صرف ایک درہم ہے، تین درہم جو تم کو ملتا ہے تمہارے حق سے کہیں زیادہ ہے، مدعی:سبحان اللہ! آپ نے اچھا فیصلہ کیا، تین درہم یہ شخص خود دیتا رہا اور میں اس پر راضی نہ ہوا، اب آپ فرماتے ہیں کہ تیرا حق ایک ہی درہم ہے، حضرت علی:بے شک تمہارا حق صرف ایک درہم ہے، تمہارا فریق تین درہم پر صلح کرتا رہا، مگر تم نے نہ مانا اور بات بڑھا دی، اب تم مانتے نہیں تو سن لو کہ تمہارا حق کیا ہے، مدعی:فرمائیے اور وجہ معقول بیان کیجئے، حضرت علی:آٹھ آٹھ روٹیوں کے تین ٹکڑے برابر کے کرو تو چوبیس(24)ٹکڑے ہوئے، اب تم تین آدمی کھائے، یہ تو معلوم نہیں کہ کس نے زیادہ کھایا اور کس نے کم؛ لہٰذا فرض کرلو کہ سب نے برابر کھائے، مدعی:ہاں، بے شک، حضرت علی:تو اس صورت میں ہر ایک نے آٹھ آٹھ ٹکڑے کھائے، تیری روٹیوں سے صرف ایک ٹکڑا بچا جو تیسرے نے کھایا اور تمہارے فریق کی پانچ روٹیاں تھیں، جن کے پندرہ ٹکڑے ہوئے، آٹھ خود کھایا اور سات تیسرے کو کھلائے، اب تمہاری تین روٹیوں کے نو ٹکڑوں میں سے صرف ایک ٹکڑا تیسرے آدمی نے کھایا جس کا عوض ایک درہم ہے اور تمہارے فریق کے سات ٹکڑے کھائے جس کا عوض سات درہم ہے۔ مدعی:آپ نے ٹھیک فیصلہ کیا، بے شک میرا حق ایک ہی درہم ہے اور میں راضی ہوں ۔جی ہاں یہ وہ ہی عظیم ہستی ہے جس کے متعلق تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا تھا۔ یہ شادی امر الٰہی سے سرانجام پائی اس لئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ولایت مصطفیٰ کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تکمیل دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذریعہ بنانا تھا اسی مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ایک اور مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئی۔ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد اطہار جمہور اہل اسلام کے ہاں محترم و مکرم اور قابل عزت و تکریم ہیں یہ نہ تو کسی خاص فرقے کا مشرب و مسلک ہے اور نہ کسی کی خاص علامت ہے یہ خانوادہ نبوت ہے اور جملہ مسلمانوں کے ہاں معیار حق اور مرکز و محور ایمان و عمل ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ (599 – 661) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو ہوئی۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی۔آپ کی شادی مبارک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شہزادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی اور آپ کی گھریلو زندگی طمانیت اورراحت کا ایک بے مثال نمونہ تھی۔ غزوہ بدر،غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے . تقریباًان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا۔حضرت علی علیہ السلام مسلمانوں کے پہلے امام اور چوتھے خلیفہ تھے۔ کچھ اقوال مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہکے بارے میں احادیث نبوی ۖ کی روشنی میں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں۔۔ سبحان اللہ .. چند احادیث مبارک کی روشنی میں مولائے کائینات و متقیان حضرت علی رضی اللہ عنہکی شان مبارک دیکھئے … 1 حضرت علی رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں 2. میں علم کا شہر ہوں ا�� حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہے 3.تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا حضرت علی رضی اللہ عنہ ہے 4 حضرت علی رضی اللہ عنہکو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کوحضرت موسیٰ علیہ السّلام سے تھی 5.علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔ 6حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اور رسولۖ کے سب سے زیادہ محبوب ہیں 7. مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا. 8.عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے لئے دروازے بند ہوئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لئے دروازہ کھلا رکھا گیا. 9.جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا 10. سارے جہانوں کے سردار خاتم الانبیاء جناب رسالت ۖ نے ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی مولا ہیں۔ تاریخ اسلام میں شیر خدا ، دمادِ مصطفےٰ ۖ کی اعلیٰ بصیرت ، بہادری ، جرت، دلیری اور افہام و تفہیم کے لا تعداد واقعات روز روشن کی طرح پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں ، حضرت علی علم کا دروازہ ہے، فرمان رسول ۖ کی روشنی میں ایک واقعہ قلم کر کے آپ سے اجازت لوں گا، تین آدمیوں نے ” اونٹوں کا کاروبار ” شروع کیا، ایک وقت ��یا ان میں اختلافات پیدا ہو گئے، انہوں نے اپنے اپنے حصے کے اونٹ تقسیم کرنے چاہے مگر مسئلہ پیچیدہ سے پچیدہ ہوتا گیا، کیونکہ تینوں آدمی کے پاس کل اونٹ17 تھے جبکہ پہلے آدمی کا حصہ آدھا تھا ، دوسرے آدمی کا حصہ تیسرا حصہ جبکہ تیسرے آدمی کا حصہ اونٹوں میں نواں تھا، جھگڑا شدت اختیار کرتا گیا کیوںکہ تینوں آدمی اپنا اپنا حصہ تو الگ الگ کرنا چاہتے تھے مگر اونٹ کو زبح کر کے حصے نہیں کرنا چاہتے تھے، ہر طرف سے نا کامی ہوئی تومعاملہ امیر المومنین حیدر کرار جناب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا ہم اپنا اپنا حصہ الگ کرنا چاہتے ہیں مگر کسی اونٹ کے ” حصے نہیں کرنا چاہتے ” سبحان اللہ ! سیرت مصطفےٰ ۖ کے گھرانے میں پرورش پانے والے ، جنتی نوجوانوں کے سردار حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ ، خاتون جنت ، لخت جگر جناب رسول خدا حضرت فاطمہ بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شریک حیات جناب حضرت علی شیر خدا سے کیسا حکمت ، ایمان فروز اور دانائی سے معاملہ حل کیا ہے کہ ہر ایک کو اس کا حصہ بھی مل گیا اور اونٹ کو ٹکروں میں تقسیم ہونے سے بچا لیا۔ جناب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اونٹ اپنی طرف سے جمع کیا اس طرح 17 اونٹوں کی جگہ 18 اونٹ ہو گئے ، آپ نے پہلے آدمی جس کا آدھا حصہ تھا اس کو 9 اونٹ دے دئے ، پھر دوسرے آدمی کو جس کا تیسرا حصہ تھا اس کو 18 اونٹوں سے 6 اونٹ مل گئے جبکہ تیسرے آدمی جس کا نواں حصہ تھا 18 اونٹوں سے اس کو نواں حصہ یعنی 2 اونٹ دے دئے گئے اس طرح 9+6+2 =17 اونٹ تینوں آدمیوں میں حصوں کے مطابق برابر تقسیم بھی ہو گئے اور جو اونٹ اپنی طرف سے شامل کیا تھا وہ بھی واپس کر لیا۔ ایک آدمی کی ایک بیوی اور ایک لونڈی تھی دونوں بیک وقت بچوں کو جنم دیا۔ ایک کو اللہ پاک نے بیٹی کی نعمت سے نوازہ اور دوسری کو بیٹا سے سرفراز کیا۔ دونوں کی ایک ہی وقت پیدائیش ہونے سے نومولد وں کی پہچان نہ رہی دونوں کا دعویٰ تھا کہ لڑکا اس کا ہے لڑکی کی کوئی ماں بننے کے لئے تیار نہ ہوئی ، معاملے میں شدت آئی تو انصاف کے لئے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے در انصاف پر التجا کی گئی ، آپنے دونوں کو الگ الگ کیا اور پوچھا مگر ہر ایک اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی تھی۔ در حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہو اور انصاف نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں ، آپ نے کہا ٹھیک ہے دو خالی ہم وزن شیشیاں لائی جائیں ، دونوں اپنا اپنا دودھ خالی بوتلوں میں بھر کر لیں آئیں ، جب دودھوالی بوتلوں کو پیش کیا گیا تو ان کا وزن کیا گیا ایک کا دودھ وزنی جبکہ دوسری کا دودھ وزن میں ہلکہ نکلا۔ آپ نے فیصلہ سنایا کہ جس کا دودھ وزن میں بھاری ہے لڑکا اس کو دے دیا جائے ، جب پوچھا گیا شیر خدا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ دودھ کے وزنی اور ہلکہ ہونے کی کیا حکمت ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا ، خالق ، مالک رازقِ حقیقی اللہ پاک نے لڑکے کو دوحصے اور لڑکی کو ایک حصہ دینے کا حکم فرمایا ہے تو پھر دودھ کا وزن کیسے برابر ہو سکتا ہے۔ اللہ پاک ان عظیم ہستیوں کے صدقے اسلامی ممالک اور مظلوم مسلمانوں کی مدد فرمائے۔ آمین۔ geourdu.com
0 notes
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/hadith-collection/imam-tirmidhi-shamail-tirmidhi-zubair-ali-zai/
Imam Tirmidhi by Shamail Tirmidhi (Zubair Ali Zai)
#3507
مصنف : امام ترمذی
مشاہدات : 4662
شمائل ترمذی ( زبیر علی زئی ) ڈاؤن لوڈ 1
آپ کے براؤزر میں پی ڈی ایف کا کوئی پلگن مجود نہیں. اس کے بجاے آپ یہاں کلک کر کے پی ڈی ایف ڈونلوڈ کر سکتے ہیں.
انسانیت کے انفرادى معاملات سے لے کراجتماعى بلکہ بین الاقوامى معاملات اورتعلقات کا کوئی ایسا گوشہ نہیں کہ جس کے متعلق پیارے پیغمبرﷺ نے راہنمائی نہ فرمائی ہو، کتبِ احادیث میں انسانى زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں ہے یعنى انفرادى اور اجتماعی سیرت واخلاق سے متعلق محدثین نے پیارے پیغمبر ﷺ کے فرامین کی روشنى میں ہر چیز جمع فرمادی ہے۔کتب ِ سیرت او رکتب ِ شمائل میں فرق یہ ہے کہ کتب سیرت میں نبی کریم ﷺ سے متعلق ہر بات خوب وضاحت سے بیان کی جاتی ہے ۔ مثلاً ہجرت جہاد وقتال ،غزوات ، دشمن کی طرف سے مصائب وآلام، امہات المومنین کابیان اور صحابہ کرام کے تذکرے وغیرہ ۔جبکہ شمائل وخصائل کی کتب میں صرف آپﷺ کی ذاتِ بابرکت ہی موضوع ہوتی ہے ۔ مثلاً آپ کا چلنا پھرنا، آپ کا کھانا پینا آپ کی زلفوں کے تذکرے ، آپ کےلباس اور بالوں وغیرہ کے بیانات جو اصلاح فرد کےلیے بہت زیادہ مفید ہوتی ہیں ۔اسی لیے ائمہ محدثین نے اس طرف بھی خوصی توجہ کی ہے مثلاً امام اورامام ترمذی نے اس موضوع پر الگ سے کتب تصنیف ہیں۔ شمائل ترمذی پا ک وہند میں موجو د درسی جامع ترمذی کے آخر میں بھی مطبوع ہے۔ جسے مدارسِ اسلا…
0 notes
Photo
فاطمہؑ فاطمہؑ است – عامر حسینی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یوم وصال پہ شیعہ کے ہاں ایک ہفتہ مجالس عزا ہوتی ہيں جبکہ اہلسنت (صوفی) کے ہاں اس دن کی مناسبت سے مساجد، خانقاہوں، مزارات وغیرہ پہ ایصال ثواب کی محافل کا انعقاد ہوتا ہے۔اور پاک و ہند سمیت پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں ان کے ہاں یہ دو مکاتب فکر اسی روش پہ عمل پیرا ہیں۔جبکہ پبلک میں جس میں شیعہ اور سنّی دونوں اکٹھے ہوں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے فضائل ،ان کی سیرت طیبہ طاہرہ کے بارے میں ایسے افکار کا اظہار ہوتا ہے جس سے لوگوں کو آگے جانے کا راستہ ملے اور وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی سیرت پاک کو اپنے لئے نمونہ بنائیں۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی بارے ایک تو یہ دو مکاتب فکر کے جمہور کا رویہ رہا ہے۔ایک اور نکتہ نظر سے بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت طیبہ کو جینڈر اسٹڈیز اور ویمن سائیکالوجی اور سائیکو اینالیسز اور انتھروپاولوجی اور فلاسفی سے تعلق رکھنے والوں نے دیکھا ہے۔لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چند سالوں سے جب سے تکفیری دیوبندی ازم نے شیعہ نسل کشی کی ایک منظم مہم شروع کی ہے تو سوشل میڈیا پہ ہمارے شیعہ برادران جن میں چند انتہائی پڑھے لکھے اور سمجھدار اور ذہین دماغ لوگ بھی شریک ہیں ایسی تحریریں اور ایسے سٹیٹس اپ لوڈ کررہے ہیں جس سے پاکستانی سماج کی فرقہ وارانہ غیر ہم آہنگی کی فضاء میں اور زیادہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔آپ سٹیٹس اپ ڈیٹ اور نوٹیفکشن وال پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کس قدر یہ زہر ذہنوں کو گدلا کرچکا ہے۔اور پھر ان ہی سٹیٹس اور اپ ڈیٹس کو بنیاد بناکر مذہبی جنونی اپنی قتل و غارت گری کا جواز پیدا کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی کے زہر نے ہمارے سماج کو ریشہ ریشہ کرڈالا ہے اور اب ہم سب اپنے اپنے جزیروں پہ کھڑے ہیں اور ان کے درمیان جو جو راستے ہمیں جوڑ سکتے تھے ہم ان سب کو آگ لگا چکے ہیں۔ایک بڑے طویل سفر کے بعد کم از کم برصغیر پاک وہند کے شیعہ اور سنّی لوگوں نے اپنے درمیان پائے جانے والے اختلاف کو اپنے خاص حلقوں میں رکھ کر پبلک میں ایسی باتوں کے اظہار کا سلیقہ اور ڈھنگ سیکھ لیا تھا جس سے باہمی سر پھٹول کم سے کم ہو اور اشتراک کا احساس بڑھ جائے۔اور شیعہ اور سنّی ارباب دانش اور ان کے اثر میں عوام کی اکثریت بھی بس سماجی زندگی اور اجتماعی زندگی میں انہی باتوں کا تذکرہ پسند کرتی تھی جو دونوں کے درمیان مشترک صفت کا درجہ سمجھی جاتی تھی۔دونوں طرف کے اہل دانش منبر،عوامی جلسوں کے سٹیج پہ وہ بات کرتے جو شیعہ اور سنّی دونوں سن کر خوش ہوتے تھے اور غم بھی اکٹھے مناتے تھے۔مگر پھر تکفیر ازم بیرون ملک کی پراکسیوں ، ریالوں، تومانوں ، سیاسی مفادات ، پاور اور آئیڈیالوجی کو ایکسپورٹ کرنے کے جنون اور پاکستانی سماج کے اندر اس وقت جد الفساد جنرل ضیاء الحق کی اپنی حکمرانی کو بچائے رکھنے کے لئے تکفیری سنپولیوں کو پالنے کی حکمت عملی نے ہمارے سماج کی صلح کل بنت کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔اور آج اچھے بھلے پڑھے لکھے، معقول لوگ بھی اس غیر معقولیت کا شکار ہوگئے ہیں کہ سچی بات ہے دل کرتا ہے کہ اس طرح کا ماحول دیکھنے سے پہلے ہم زندہ ہی نہ رہتے۔ مجھے اس پہ ہرگز کوئی اعتراض نہیں ہے کہ آپ اگر شیعہ اثناء عشریہ ہیں اور آپ فیس بک پہ کوئی سیکرٹ گروپ بناتے ہیں یا اسٹڈی گروپ بناتے ہیں اور کلوز ممبرشپ رکھتے ہیں اور وہاں پہ آپ ان مسائل پہ علمی انداز میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں جو مابین اہلسن و شیعہ مختلف فیہ ہیں۔مجھے اس پہ بھی کوئی اعتراض نہیں کہ شیعہ اور اہلسنت کے دو صاحب علم اور تحمل و برداشت کے حامل لوگ باہمی مذاکرہ کرتے ہیں اور اپنے اپنے موقف کی تائید میں ایک دوسرے کے سامنے دلائل کے ساتھ شواہد لیکر آتے ہیں۔علمی طریقہ کار کو ملحوظ خاطر رکھ کر یہ سب کرتے ہیں۔لیکن مجھے اس بات سے سخت اختلاف ہے کہ آپ پبلک آئی ڈیز سے نزاعی باتوں بلکہ انتہائی شدید حساسیت والی چیزوں پہ انتہائی غیر ذمہ داری سے بات کریں۔ جتنے اہل علم ہیں اور مسلم تاریخ کے طالب علم ہیں وہ سب کے سب شیعہ اور اہلسنت کے درمیان پائے جانے والے اختلافات سے واقف ہیں۔اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی نوعیت کیا ہے۔لیکن ہر معقول اور معتدل شخص اس بات کی تلقین کرتا ہے اور اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ جہاں معاملات کا تعلق ہر دو اطراف کی شخصیات کے احترام اور وقار کے بارے میں ہو معاشرے میں امن قائم رکھنے کے لئے اس پہ پبلک میں بات سے گریز رکھا جائے۔اور خاص طور پہ جب معاشرے میں تخریب اور فساد کی قوتیں یہ چاہ رہی ہوں کہ معاشرے میں فرقہ وارانہ خانہ جنگی ہوجائے اور لوگ مذہب اور عقیدے کی بنیاد پہ گلیوں اور محلوں میں ایک دوسرے پہ پل پڑیں تو ایسے وقت میں تاریخ کے طالب علم تاریخ سے تقریب بین المذاہب کی امثال نکال کر لاتے ہیں، اتفاق کی بات دکھاتے ہیں انتشار پہ اصرار نہیں کرتے ۔ تاریخ کی گتھیوں کو سلجھانا اور ان پہ غیرجانبداری سے تحقیق اور تفتیش کرنا اور تاریخی حقائق کی کانٹ چھانٹ کرنے پہ اپنی زندگی وقف کرنا یہ کم از کم "فیس بک سٹیٹس اپ ڈیٹ " کرنا یا کسی چوک اور چوراہے پہ کھڑے ہوکر " اللھم اللعن من قتل فلاں فلاں " جیسا عمل نہیں ہوتا۔اور خاص طور پہ جب ایسی لعنت و ملامت کا ہدف آپ کسی دوسرے مکتب کی انتہائی محترم و مکرم ہستی کو بناڈالیں۔یہ فساد فی الارض اور تخریب کی قوتوں کو کامیاب کرنے کے مترادف ہوا کرتا ہے۔میں مثال سے واضح کرتا ہوں تاکہ بات پوری سمجھ آجائے۔ اہلسنت اور اہل تشیع کی اکثریت مظلومیت امام حسین رضی اللہ عنہ پہ متفق ہے اور یزید پہ جمہور اہلسنت کا موقف یہ ہے کہ اس کا فعل قابل مذمت ہے اور وہ کسی بھی لحاظ سے اس قابل نہیں ہے کہ اس کی تعریف کی جآئے ، اس کو رعایتی نمبر دئے جائیں،خارجی، وہابی اور تکفیری دیوبندی حضرات کے موقف کو عتدال پسند اہلسنت بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث نے اس معاملے پہ رد کردیا اور ان کی بات کو وہ نہیں مانتے۔لیکن جناب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات بارے ایک طرف تو خود اہل تشیع میں کچھ لوگ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ ان کی شہادت ہوئی تھی ، تو اہل سنت کی اکثریت ماہرین تاریخ بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہ حملہ ہوا تھا،ان کا دروازہ توڑا گیا اور آگے کے سار واقعات اور یہ کہنا کہ ان کے فرض کرلئے گئے قتل کی زمہ داری اہلسنت کے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت اطہار کے بعد سب سے مقدس اور محترم شخصیات رضی اللہ عنھم پہ عائد ہوتی ہے اہلسنت کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔اور نہ ہی اہلسنت پبلک مقامات یا سوشل میڈیا پہ پبلک آئی ڈیز سے ایسے سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے کو برداشت کریں گے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے آپ مانیں یا نہ مانیں بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہنے والی ہے۔مسلم تاریخ کے نزاعی اور اختلافی معاملات پہ تاریخی ،سماجی ، علمی اور مدلل طریقہ سے سنجیدہ تحقیق کا میدان ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، مکاتب ،جامعات کے شعبہ مسلم تواریخ ، تھیالوجیکل شعبے ہیں نہ کہ چوک، چوراہے، فیس بک پبلک آئی ڈیز۔ میں اس بات پہ یقین رکھتا ہوں کہ آپ اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو علم ومعرفت کا ستون خیال کرتے ہیں تو پیش آمدہ صورت حال بارے ان کی بارگاہ سے رجوع کریں۔آپ فرماتے ہیں: "فتنہ و فساد میں اس طرح رہو جس طرح اونٹ کا وہ بچہ جس نے ابھی اپنی عمر کے دو سال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اس کی پیٹھ پر سوار ی کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے" میں تاریخ کی درستی کی جنگ سوشل میڈیا پہ لڑنے والوں سے کہتا ہوں کہ آئیں میں آپ کو نہج البلاغہ کی سیر کراتا ہوں۔نہج البلاغہ میں کم از کم دو جگہیں ایسی ہیں جہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے خود ان کے ساتھیوں نے خلافت اور خاص طور پہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھم کے بارے میں سوال کیا۔آپ نے ایک طرف صاف کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اس موقعہ پہ یہ سوال اٹھانے یا ان کے جوابات پہ اصرار ضروری ہے۔دوسری جگہ آپ نے کہا کہ اونٹ بارے سوال کا وقت چلا گیا اب اونٹنی کے بچے کی سلامتی کی فکر ضروری ہے۔گویا اگر خود مکتب اہل تشیع کی نظر سے دیکھیں تو ان کے ہاں بھی ترجیح بدلتی ہے کہ کس موقعہ پہ کیا بات کرنی بنتی ہے۔اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد جب امت مسلمہ کے خلیفہ بنے تو اس کی بنیاد مہاجر اور انصار صحابہ کرام کی اکثریت اور پھر عامۃ المسلمین کی اکثریت کا اس پہ اتفاق تھا اور یہی وجہ ہےکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جب معاویہ ابن سفیان ، عمرو بن العاص سمیت جس جس کو بھی اپنی خلافت کو تسلیم کرنے کے خطوط لکھے یا معاویہ ابن سفیان کے لکھے ہوئے خطوط کے جوابات ارسال کئے تو آپ نے فرمایا کہ میرا انتخاب بالکل ویسے ہوا ہے جیسے ابو بکروعمر و عثمان کا ہوا تھا،آپ نے فرمایا کہ مہاجر و انصار صحابہ کرام جس پہ متفق ہوں اور جسے خلیفہ چن لیں اس کی اطاعت لازم ہے اور آپ نے اسے جماعت قرار دیتے ہوئے اسے تائید ایزدی سے بھی تعبیر کیا۔یہ نہج البلاغہ میں درج ہے۔نہج البلاغہ کھولیں اور یہ بھی دیکھ لیں کہ جب معاویہ ابن سفیان نے آپ سے " افضل و غیر افضل ، مقام صحابہ کرام اور ان جیسے دوسرے مسائل " چھیڑے اور آپ سے جواب چاہا تو آپ کا جو جواب خود نہج البلاغہ میں اسے پڑھ کر آپ کو یہ بھی پتاچل جائے گا کہ اس حوالے سے خود علی المرتضی وجہہ الکریم کا منہج تھا کیا ۔اسی کی بنیاد پہ زرا اپنی روش پہ بھی روشنی ڈالیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں : زبان ایک ای��ا درندہ ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے صبر دو طرح کا ہوتاہے ایک ناگوار باتوںپر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر لوگوں کے دل صحرائی جانور ہیں ,جو ان کو سدھائے گا ,اس کی طرف جھکیں گے (اس قول سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے کہ انسانی قلوب اصل فطرت کے لحاظ سے وحشت پسند واقع ہوئے ہیں اور ان میں انس و محبت کا جذبہ ایک اکتسابی جذبہ ہے .چن��نچہ جب انس و محبت کے دواعی اسباب پیدا ہوتے ہیں تو وہ مانوس ہو جاتے ہیں اور جب اس کے دواعی ختم ہوجاتے ہیں یا اس کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں تو وحشت کی طرف عود کر جاتے ہیں اور پھر بڑ ی مشکل سے محبت و التفات کی راہ پر گامز ن ہوتے ہیں) جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے خود کو تعلیم دینا جاہل کو نہ پاؤگے مگر یا حد سے آگے بڑھا ہو یا اس سے بہت پیچھے جب عقل بڑھتی ہےتو باتیں کم ہو جاتی ہیں جس کی زبان پر کبھی یہ جملہ نہ آئے کہ »میں نہیں جانتا «.تو وہ چوٹ کھانے کی جگہو ں پر چوٹ کھا کر رہتا ہے بوڑھے کی رائے مجھے خطروں میں کھڑے رہنے والے نوجوان سے زیادہ پسندہے اپنے بھائی کو شرمندہ احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے دیا جائے ,تواس سے دشمنی کا دروازہ کھل جاتاہے .اور اگر برائی سے پیش آ نا والے کے ساتھ نرمی و ملائمت کا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوجائے گا .چنانچہ ایک دفعہ امام حسن علیہ السلام بازار مدینہ میں سے گزررہے تھے کہ ایک شامی نے آپ کی جاذب نظر شخصیت سے متاثر ہوکر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کو ن ہیں؟ اسے بتا یا گیا کہ یہ حسن ابن علی علیہماالسلام ہیں .یہ سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور آپ کے قریب آکر انہیں بر ا بھلا کہنا شروع کیا .مگر آپ خاموشی سے سنتے رہے جب وہ چپ ہوا توآپ علیہ السّلام نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں نووارد ہ؟ اس نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہے .فرمایا کہ پھر تم میرے ساتھ چلو میرے گھر میں ٹھہرو ,اگر تمہیں کوئی حاجت ہو گی تو میں اسے پورا کروں گا ,اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا .جب اس نے اپنی سخت و درشت باتوں کے جواب میں یہ نرم روی و خوش اخلاقی دیکھی ,تو شرم سے پانی پانی ہوگیا اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا طالب ہوا ,اورجب آپ سے رخصت ہوا تو روئے زمین پر ان زیادہ کسی کی قدرو منزلت ا س کی نگاہ میں نہ تھی آخر میں کچھ تذکرہ اس شخصیت کا جس کی وفات کے دن پہ چند حد اعتدال سے بڑھے بیانات دیکھ کر یہ تحریر وجود میں آئی۔ در زہرا سے ہو کر جب بھی پیغمبر نکلتے ہیں شرف کے چاند سورج گھٹنیوں چل کر نکلتے ہیں نبی کی لاڈلی آتی ہے جب بھی اپنےآنگن میں تو مہر و ماہ سر پر اوڑھ کر چادر نکلتے ہیں تیری آغوش ہی وہ معتبر آغوش ہے بی بی جہاں سے ترجمان سورہ کوثر نکلتے ہیں تیرے شوہر کی یہ ادنی کرامت ہے کہ برسوں سے نجف کی سرزمیں سے قیمتی پتھر نکلتے ہیں تیرے بچوں کے گہوارے سے مس ہو گر کوئی بے پر تو اس کے جسم پر فورا ہی بال و پر نکلتے ہیں تیری چکی بناتی جا رہی ہے دائرہ دیں کا تیرے فاقوں سے صبر و شکر کے لشکر نکلتے ہیں تیری فضہ نے یہ علم و ہنر سے کردیا ثابت کنیزی سے تیری مضمون کے دفتر نکلتے ہیں نبوت کے سفر کی آخری منزل تیرا گھر ہے تیرے گھر سے امامت کے قدم باہر نکلتے ہیں سنا ؤ خیبر و خندق کے قصے اپنے بچوں کو کہانی سن کے حیدر کی دلوں سے ڈر نکلتے ہیں جنہوں نے کربلا میں بستر بیمار لوٹا تھا وہی کاندھوں پہ لے کر بوریا بستر نکلتے ہیں شجر وہ ہے کہ جس کی شاخ پر تازہ ثمر آئیں صدف وہ ہے کہ جس کے قلب سے گوہر نکلتے ہیں تیرا نایاب آنچل ہے مصلی کل ایماں کا تیری تسبیح سے اخلاص کے جوہر نکلتے ہیں نایاب بلوری
0 notes