Tumgik
#بھرنے
aashufta-sar · 3 months
Text
"So you've move on that means it doesn't haunt you anymore right?"
It does haunt me from time to time.
ہم نے علاجِ زخمِ دل تو ڈھونڈ لیا لیکن گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے
9 notes · View notes
hasnain-90 · 2 months
Text
‏زخمِ ہجر بھرنے سے یاد تو نہیں جاتی
کچھ نشاں تو رہتے ہیں، دِل رفو بھی ہو جائے 🥀
4 notes · View notes
nightsinner666 · 11 months
Text
آج میں آپ سے اپنا انسسٹ یا بہن۔ چود بننے کا سفر شیئر کرنے جا رہا ہوں اس سے پہلے اپنے مذہبی بننے کا سفر بھی شیئر کر چکا ہوں۔ ابھی چونکہ میں انسسٹ نہیں کرتا پریکٹیکلی مگر پھر بھی گزرا وقت یاد بہت کرتا ہے تو کہانی کو شروع کرنے سے پہلے بتا دوں کہ یہ سفر لکھتے وقت گانڈ میں ایک عدد کھیرا اور اپنے نپلز پر دو کلپ موجود ہیں اس کے علاوہ پیشاب کا ایک گلاس پی پر لکھنے لگا ہوں تاکہ بہتر انداز سے بیان کر سکوں کوشش کروں گا سفر مختصراً اور اچھے سے بتا سکوں۔
ہم چار بہن بھائی ہیں میں مون ، روبی، عائشہ اور عدیل۔
میرا تعلق لاہور سے ہے یہ انسسٹ کا سفر میں نے اور روبی نے شروع کیا تھا جب میں محض سات یا آتھ سال کا ہوں گا جی ہاں سات یا آتھ سال اور اس وقت روبی بارہ سال کی تھی ہاں ہاں پتا ہے اس وقت کہاں لن پھدی کا پتا ہوتا ہے مگر یہ وہی عمر تھی جب محلے کے جوان لاتعداد لڑکے میری گانڈ کواپنی منی نکالنے والی مشین کے طور پر استعمال کرتے تھے اور مجھے بھی یہ سب پسند تھا۔ خیر روبی اور میں روزانہ رات کو ساتھ سوتے اور ایک دوسرے کے نپلز سے کھیلتے وہ میرا لن چوستی اور میں اس کی پھدی اور نپلز اس کے علاوہ ساتھ نہاتے اور جب بھی کبھی گھر اکیلے ہوتے تو ننگے ہو گر پورے صحن میں گھومتے اور ایک دوسرے کو مزے دیتے رہتے خواہ ڈسچارج نہ بھی ہوتے مگر مزہ آتا رہتا اس دوران اکثر عائشہ جو کہ کم عمر تھی اسے کچھ سمجھ نا تھی وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتی وقت گزرتا گیا روبی اور میں بڑے ہوتے گئے روبی کے ممے اور جسم بھی پر کشش ہوتا گیا میری گانڈ مروانے کی روٹین میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی روبی سے سیکس کرنے میں بھی کیونکہ لن چھوٹا تھا یا جب بڑا بھی ہو گیا تو روبی کی پھدی کی سیر کرتا ہی رہتا دوسری طرف جہاں روبی کو میری گانڈ مروانے والی عادت کا میں نے علم نہ ہونے دیا تھا وہاں ہی اس کے ساتھ عائشہ کے ساتھ جو میں مزے کر رہا تھا وہی پھدی چوسنا گانڈ چاٹنا دودھ چوسنا اس کا علم بھی نہ ہونے دیا تھا۔ مگراس سب میں میں اور روبی عدیل کو بھول گئے تھے جو ہوش سنبھال چکا تھا ہم اپنی مستی میں ایک دوسرے کو ہی مزہ دینے میں مصروف تھے عدیل کا خیال مجھے اس وقت آیا جب میں سترہ سال۔کا تھا اور عائشہ تیرہ سال کی تھی اور روبی لگ بھگ بائیس کی اور اس وقت عائشہ سے کافی وقت بعد ملاپ ہونے کی وجہ سے مجھے معذرت کرنا پڑی تو اس نے بتایا کہ اس نے اس کا بھی حل نکالا ہوا ہے اور وہ عدیل ہے تب بھی ایک جھٹکا لگا کہ مجھے پتا ہی نہیں پھر سوچا کہ میں نے بھی تو روبی کو عائشہ سے جنس ملاپ کا علم نہیں ہونے دیا خیر اس جے بعد میں نے کافی دفعہ عائشہ اور عدیل کو جنسی مزے لیتے دیکھا تھا مگر آہستہ آہستہ سب چھوٹ گیا مجھ سے کچھ زمانے کی وجہ سے مصروفیات کی وجہ سے مگر انسسٹ سے دور ہونے کے بعد میں نے اپنی توجہ گانڈ مروانے لن چوسنے ان۔لڑکوں کو بلو جاب دینے اور مذہبی ہونے پر لگا دی روبی کا اکثر مجھے خیال آتا کہ وہ کیسے گزارا کرتی ہو گی تو پھر سوچتا کہ کالج جاتی ہے کیا پتا وہاں کوئی نہ کوئی یار بنا لیا ہو کیونکہ وہ جتنی گرم تھی اس کا اندازہ مجھ سے زیادہ کوئی نہیں لگا سکتا تھا اور اس گرمی کو صبر سے کنٹرول کرنا ناممکن تھا رہی بات عائشہ کی تو اس کی طرف پھر میں نے دھیان دینا چھوڑ دیا انسسٹ کے لحاظ سے اور عدیل بھی سیکس کی طلب میں آگے بڑھتا گیا اس سے پہلے بھی میں زیادہ کھل نہیں پاتا تھا کہ سیکس پر بات کروں یا اسے اپنے ساتھ ملا لوں اور نہ آج اس سے کھل پاتا ہوں معلوم نہیں وہ بہنوں سے انسسٹ کر۔رہا ہے یا نہیں وہ گانڈو بنا۔یا گانڈ مارنے والا مذہبی کی ہوا میں مذہبی بنا یا بچا رہا۔ خیر ابھی تو گانڈ مروانے کی کمی کو بھی کھیرے سے اور منہ کو منی سے بھرنے کے شوق کو پیشاب پی کر پورا کرتا ہوں۔
11 notes · View notes
urdu-poetry-lover · 4 months
Text
آنکھوں میں کوئی خواب اُترنے نہیں دیتا
یہ دل کہ مجھے چین سے مرنے نہیں دیتا
بچھڑے تو عجب پیار جتاتا ہے خطوں میں
مل جائے تو پھر حد سے گزرنے نہیں دیتا
وہ شخص خزاں رُت میں محتاط رہے کتنا
سوکھے ہوئے پھولوں کو بکھرنے نہیں دیتا
اِک روز تیری پیاس خریدے گا وہ گبرو
پانی تجھے پنگھٹ سے جو بھرنے نہیں دیتا
وہ دل میں تبسم کی کرن گھولنے والا
روٹھے تو رُوتوں کو بھی سنورنے نہیں دیتا
میں اُس کو مناؤں کہ غمِ دہر سے اُلجھوں
محسن وہ کوئی کام بھی کرنے نہیں دیتا...!
محسن نقوی
3 notes · View notes
urdu-shayri-adab · 2 months
Text
ایک ماں لکھتی ہیں!
وہ بھی کیا دن تھے جب میرا گھر ہنسی مذاق اور لڑائی جھگڑے کی آوازوں سے گونجتا تھا۔ہر طرف بکھری ہوئی چیزیں ۔ ۔ ۔ بستر پر پینسلوں اور کتابوں کا ڈھیر ۔ ۔ ۔ پورے کمرے میں پھیلے ہوئے کپڑے۔ میرا پورا دن ان کو کمرہ صاف کرنے اور چیزیں سلیقے سے رکھنے کے لیے ڈانٹنے میں گزرتا۔
صبح کے وقت ایک جاگتے ہی کہتا:
ماما مجھے ایک کتاب نہیں مل رہی
دوسرا چیختا:
میرے جوتے کہاں ہیں؟
ایک منمناتا:
ماما میری ہوم ورک والی ڈائری!
اور دوسرا رندھی آواز میں کہتا:
ماما میں اپنا ہوم ورک کرنا بھول گیا ۔ ۔ ۔
ہر کوئی اپنا اپنا رونا رو رہا ہوتا۔ اور میں چیختی کہ آپ کی چیزوں کا خیال رکھنا میری ذمہ داری نہیں ۔ ۔ ۔ اب آپ بڑے ہو گئے ہو، خود سنبھالو!
آج میں ان کے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہوں. بستر خالی ہیں. الماریوں میں صرف چند کپڑے ہیں. جو چیز باقی ہے، وہ ہے ان کی خوشبو.
اور میں ان کی خوشبو محسوس کر کے اپنے خالی دل کو بھرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
اب صرف ان کے قہقوں، جھگڑوں اور میرے گلے لگنے کی یاد ہے.
آج میرا گھر صاف ہے۔ سب کچھ اپنی جگہ پر ہے۔ یہ پرسکون، پرامن اور خاموش ہے ۔ ۔ ۔ زندگی سے خالی ایک صحرا کی طرح۔
وہ ان کا دروازے کھلے چھوڑ کر بھاگ جانا اور میرا چیختے رہنا کہ دروازے بند کرو۔ آج سب دروازے بند ہیں اور انہیں کھلا چھوڑ جانے والا کوئی نہیں۔
ایک کسی دوسرے شہر چلا گیا ہے اور دوسرا کسی دوسرے ملک۔ دونوں زندگی میں اپنا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہر بار وہ آتے ہیں اور ہمارے ساتھ کچھ دن گزارتے ہیں۔ جاتے ہوئے جب وہ اپنے بیگ کھینچتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے میرا دل بھی ساتھ کھنچ رہا ہے۔
میں سوچتی ہوں کہ کاش میں ان کا یہ بیگ ہوتی تو ان کے ساتھ رہتی۔
لیکن پھر میں دعا کرتی ہوں کہ وہ جہاں رہیں آباد رہیں۔
اگر آپ کے بچے ابھی چھوٹے ہیں تو انہیں انجوائے کریں۔ ان کو گدگدائیں، ان کی معصوم حیرت کو شیئر کریں اور ان کی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کا مداوا کریں۔
گھر گندا ہے، کمرے بکھرے ہیں اور دروازے کھلے ہیں تو رہنے دیں۔ یہ سب بعد میں بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔ لیکن بچوں کے ساتھ یہ وقت آپ کو دوبارہ نہیں ملے گا.
3 notes · View notes
syeda-hareem · 2 years
Text
Tumblr media
مرد کی لمبائی عورت کی گہرائی کو مکلمل طور پہ بھرنے سے قاصر ہے، اس گہرائی کو بھرنے کے چکر میں مردوں کے "بحری" جہاز تک غرق ہوجاتے ہیں
27 notes · View notes
safdarrizvi · 9 months
Text
اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو
زخم کھلتے ہیں اذیت نہیں ہوتی مجھ کو
اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو
ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
ہے امانت میں خیانت سو کسی کی خاطر
کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی مجھ کو
تو جو بدلے تری تصویر بدل جاتی ہے
رنگ بھرنے میں سہولت نہیں ہوتی مجھ کو
اکثر اوقات میں تعبیر بتا دیتا ہوں
بعض اوقات اجازت نہیں ہوتی مجھ کو
اتنا مصروف ہوں جینے کی ہوس میں شاہدؔ
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو
2 notes · View notes
aescheretalks · 1 year
Text
جب تمہاری یاد کے زخم بھرنے لگتے ہیں تو وہ کسی وجہ سے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں۔
jab tumhaaree yaad ke zakhm bharane lagate hain to vo kisee vajah se tumhen yaad karane lagate hain.
When the wounds of your memory begin to heal, I find some excuse to think of you
4 notes · View notes
wannabewritersposts · 2 years
Text
کیا کرے میری مسیحائی بھی کرنے والا
زخم ہی یہ مجھے لگتا نہیں بھرنے والا
Kia karey meri maseehai bhi krne wala
Zakhm hi ye lagta nahi mujhe bharne wala
–Parveen Shakir
What should the messiah to me, should do?
Afterall this wound does not seem to me like granulating
19 notes · View notes
sadumbpotato · 2 years
Note
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمھیں یاد کرنے لگتے ہیں۔
2 notes · View notes
googlynewstv · 6 days
Text
عمران خان کی لاہورکےجلسے سےروکنے پرجیلیں بھرنے کی دھمکی
بانی پی ٹی آئی عمران خان نےکہا ہےکہ لاہور کاجلسہ آریاپارہوگاروکاگیا توجیلیں بھر دیں گے۔  بانی پی ٹی آئی عمران خان نےاڈیالہ جیل میں صحافیوں سےغیررسمی گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ آئینی عدالت کےمعاملےپر پوری طرح بحث ہونی چاہیے۔سپریم کورٹ آخری ادارہ ہےجس سےلوگوں کو توقعات ہیں۔سپریم کورٹ کو بھی تباہ کردیا توپاکستان بنانا ریپبلک بن جائےگا۔ صحافی نےسوال کیا کہ آپ نےچارٹر آف ڈیموکریسی پردستحط کیےتھے۔اس میں…
0 notes
azmathfan · 9 days
Text
آنکھیں
یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں
مواصلات کا پہلا نظام آنکھیں تھیں
غنیم ِ شہر کو وہ تھا بصارتوں کا جنوں
کہ جب بھی لْوٹ کے لایا تمام آنکھیں تھیں
خطوط ِ نور سے ہر حاشیہ مزّین تھا
کتاب ِ نور میں سارا کلام آنکھیں تھیں
اب آگۓ ہیں یہ چہروں کے زخم بھرنے کو
کہاں گۓ تھے مناظر جو عام آنکھیں تھیں
وہ قافلہ کسی اندھے نگر سے آیا تھا
ہر ایک شخص کا تکیہ کلام آنکھیں تھیں
نظر فروز تھا یوسف کا پیرہن شاید
دیار ِ مصر سے پہلا سلام آنکھیں تھیں
کسی کا عکس بھی دیکھا تو رو پڑیں یکدم
قسم خدا کی بہت تشنہ کام آنکیں تھیں
ن م راشد
0 notes
the-royal-inkpot · 1 month
Text
ریشم کا کیڑا
رادھا کا باپ بچیپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ماں سلائی مشین پر کپڑے سیتے سیتے بوڑھی ہو چکی تھی۔نیلی آنکھوں اور کالے سیاہ بالوں کے ساتھ رادھا کسی دور دیس کی شہزادی نظر آتی۔ابھرتی ہوئی جوانی نے اس کو اونچے خواب دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔وقت گزر رہا تھا اور ہر شے مہنگی ہوتی جا رہی تھی۔کچی چھت سے جب برسات کے مہینوں میں پانی ٹپکتا تو رادھا سارا دن کمرے میں بالٹی بھرنے کا انتظار کرتی اور پھر بالٹی خالی کر کے دوبارہ اسی جگہ رکھ دیتی۔غربت اور مفلسی نے رادھا کی خوابوں کو قفل لگا دیئے تھے۔ملک میں پٹواریوں کی حکومت تھی۔ہر شخص غریب تھا۔صرف کنجروں اور بزنس مین لوگوں کی چاندی تھی۔رادھا جب سامنے والی رضیہ باجی کو دیکھتی تو اسے تعجب ہوتا کیونکہ رضیہ باجی پچھلے چند سالوں میں یکدم امیر ہو گئی تھیں اور اب تو سلائی اسکول بھی کھول لیا تھا۔بڑی گاڑیوں میں لوگ رضیہ باجی کے گھر آتے اور ڈھیر سارے کپڑے سلائی کرنے کا آرڈر دے کر چلے جاتے جبکہ رادھا کی ماں اسی پرانی مشین پر پچھلے بیس سال سے بیٹھی تھی۔کئی مرتبہ تو گاہک شکایت کرتے کہ آپ کی مشین سے لگنے والے تیل کے دھبوں سے ہمارا نیا سوٹ خراب ہو گیا ہے لیکن اب میں مہینے میں اکا دکا گاہک آ ہی جاتے جس سے روٹی کا سلسلہ چلتا رہتا۔
ایک دن رادھا نے سوچا کہ کیوں نا رضیہ باجی سے مشورہ کیا جائے ،شاید وہ اسے ترقی کرنے کا کوئی گُر بتا دیں سو ایک دن وہ ڈرتے ڈرتے رضیہ باجی کے گھر جا پہنچی۔گھر کے باہر وہی کار کھڑی تھی ،صاحب اندر گئے ہوئے تھے۔رادھا نے سوچا کہ مہمان کے جانے کا انتظار کر لینا چاہیے سو وہ باہر ہی کھڑی ہو گئی،پورا ایک گھنٹا بعد صاحب ہنستے ہوئے باہر نکلے اور کار میں سوار ہو کر لوٹ گئے۔رادھا نے رضیہ باجی کو سلام کیا،
نمستے ،کیسی ہیں رضیہ باجی۔؟
آؤ رادھا،کیسے آنا ہوا،رضیہ باجی نے جواب دیا،
وہ آپ سے ایک مشورہ کرنا تھا،رادھا بولی۔
ہاں ،کیوں نہیں ،آ جاؤ اندر آ جاؤ،بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔رضیہ باجی رادھا کو گھر کے اندر لے آئیں۔گھر بہت خوبصورت تھا۔ تقریباً سب سہولتیں موجود تھیں۔
رادھا نے کہا،رضیہ باجی اماں بہت بوڑھی ہو گئی ہیں،اور اب سلائی کرتے تھک جاتی ہیں،گاہک بھی زیادہ نہیں آتے،مجھے سلائی کا کام آتا تو ہے لیکن میں بھی اگر اسی طرح ساری زندگی سلائی کرتی رہی تو ترقی کیسے کروں گی۔رضیہ باجی نے اسے کہا کہ ایسے حالات میں ترقی کرنا ناممکن ہے۔جب تک اس جسم کی خیرات نا ادا ہو جائے رب مہربان نہیں ہوتا۔
جسم کی خیرات کیا ہوتی ہے رضیہ باجی،رادھا نے معصومیت سے پوچھا۔
تمہیں وقت آنے پر سمجھ آ جائے گی۔رضیہ باجی نے جوب دیا۔
میرا مشورہ ہے کہ تم چھتیس گڑھ سے نکل کر بمبئی جاؤ اور وہاں اپنے لیئے کچھ نیا سلسلہ تلاش کرو۔میں تمہیں بانو مریم قطرینہ کا رابطہ دوں گی تم انہیں جا کر مل لینا وہ تمہیں کوئی نا کوئی کام ضرور دیں گی۔ان کے شہر میں تیرہ بیوٹی پارلر ہیں جہاں کافی لڑکیاں میک اپ کا کام کرتی ہیں۔رادھا نے رضیہ باجی کا شکریہ ادا کیا اور بانو مریم قطرینہ کا پتہ کاغذ پر لکھ کر ساتھ لے آئی۔
فروری کی بائیس تاریخ تھی اور جمعہ کا دن تھا۔رادھا نے اپنے چند اچھے کپڑے ایک چھوٹے سے بیگ میں لپیٹے،بانو مریم قطرینہ کا پتہ لے کر وہ بمبئی جا پہنچی۔بس سے اتر کر اس نے ایک رکشے والے کو روکا اور اسے بانو مریم قطرینہ کا پتہ دکھایا،رکشے والے نے اس کو سر سے پاؤں تک دیکھا ،تھوڑا سا مسکرایا اور رکشے میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔رکشے والا بار بار سامنے والے آئینے میں رادھا کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک رکشے والے نے ایک مسجد کے سامنے رکشہ روکا اور رادھا سے کہا کہ میڈم آپ دو منٹ رکیں میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔ رکشے والے کے جاتے ہی دو لڑکے چاقو لے کر رکشہ کے قریب آگئے اور خاموشی سے رادھا کو اشارہ کیا ، رادھا نے خوفزدہ ہو کر اپنا پرس اور بیگ ان کے حوالے کر دیا لڑکے سامان لے کر رفو چکر ہو گئے رادھا فورا رکشہ سے اتری اور وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئی اسے احساس بھی نہیں تھا کہ وہ کتنی دیر سے بھاگتی چلی جا رہی تھی بس اسٹاپ پر پہنچ کر اسے رونا آگیا، وہ اوڑھنی سے اپنے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی چلچلاتی دھوپ اور سخت گرمی سے رادھا کے حلق میں کانٹے پڑ رہے تھے۔تھوڑی بہت رقم جو وہ ساتھ لائی تھی وہ چوری ہو چکی تھی اور بانو مریم قطرینہ کا پتہ بھی اسی پرس میں موجود تھا جو چور لے اڑے تھے۔اس کا دل چاہا کہ سڑک پر چلنے والی تیز رفتار گاڑی کے سمانے کود کر اپنے آپ کو ختم کر لے۔
اچانک بس اسٹاپ کے سامنے ایک کالے رنگ کی لمبی کار آکر رکی رادھا نے دیکھا کہ اندر ایک نہایت ماڈرن اور خوش لباس خاتون بیٹھی ہوئی تھیں جنہوں نے آنکھوں پر کالا چشمہ لگا رکھا تھا۔ کار میں بیٹھی خاتون نے اپنا کالا چشمہ اتارا، رادھا کو ایک نظر دیکھا ، اس کے بعد خاتون نے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔رادھا کو کچھ سمجھ نا آیا۔دو گھنٹے بعد وہ کار دوباره اسی جگہ آکر رکی اندر سے وہی خاتون نکلیں اور رادھا کے پاس آکر بس اسٹاپ پر بنے بینچ پر بیٹھ گئی رادھا پھٹی آنکھوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی اس خاتون نے اپنے کالے پرس سے ایک پتلا اور باریک سا لمبا سگریٹ نکال کر سلگایا اور کش لے کر رادھا سے مخاطب ہوئی،
سمجھ نہیں آتا سماج ظالم ہے یا وقت،بہت کوشش کی لیکن پھر بھی آج تک فیصلہ نا ہوا کہ وقت ظالم ہے یا سماج۔۔
جی۔۔کیا آپ مجھ سے بات کر رہی ہیں۔۔رادھا بولی۔۔
نہیں،میں خود سے بات کر رہی ہوں۔۔خاتون بولی،
میں سمجھی نہیں،رادھا نے کہا،
سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ میں بھی تمہاری طرح پندرہ سال پہلے اسی طرح اس بس اسٹاپ پر اکیلی بیٹھی تھی،اس لیے جب میں تم سے بات کروں تو مجھے لگتا ہے میں خود سے باتیں کر رہی ہوں۔۔خاتون نے کہا۔۔
کیا تم میرے لیے کام کرو گی۔میں تمہارے رہنے کا انتظام کر لوں گی۔جب تم کام سیکھ لو گی تو تمہیں ذاتی کاروبار کھولنے میں مدد بھی کی جائے گی۔۔لیکن فی الحال تم آرام کرو کیونکہ تم تھک گئی ہو گی۔یہ کہہ کر وہ خاتون اپنی کار میں جا کر بیٹھ گئی اور کسی سے فون پر بات کرنے لگی۔
رادھا کو کچھ سمجھ نا آیا،حالانکہ اسے ایک مکمل ملازمت کی آفر مل چکی تھی۔رادھا کو بالکل بھی یقین نا آیا اور وہ اسی طرح بیٹھی رہی۔تھوڑی دیر بعد اس خاتون نے گاڑی کے اندر سے رادھا کو اشارہ کیا تو رادھا اٹھ کھڑی ہوئی۔
کار فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔رادھا کو کار میں ٹھنڈ لگ رہی تھی۔یہ لو پانی پی لو،اس خاتون نے اسے ایک پانی کی بوتل تھمائی،رادھا نے وہ سارا پانی غٹاغٹ پی لیا۔اسے محسوس ہوا جیسے اسے چکر آ رہے ہیں۔کب چلتی گاڑی میں اسے نیند آئی اسے کوئی خبر نا ہوئی۔نیند کے دوران اسے محسوس ہو گویا کئی آنکھیں اس کے برہنہ بدن کو بغور دیکھ رہی ہیں۔
نیند سے جاگی تو اس کے کپڑے تبدیل تھے،وہ ریشمی لباس میں ملبوس ایک آرام دہ پلنگ پر موجود تھی۔
گھبراؤ نہیں،کسی مرد نے تمہیں نہیں دیکھا،اچانک وہ خاتون کمرے میں داخل ہوئی اور کہا،دراصل تمہارے کپڑوں سے پسینے کی شدید بو آ رہی تھی سو میں نے سوچا کپڑے تبدیل کر دوں،
رادھا نے دیکھا دیوار پر مختلف فلمی کرداروں کی تصاویر آویزاں تھیں۔ببل بٹنی بولی،تصاویر بنانا میرا مشغلہ ہے۔تمہیں یہ ریشمی کرتا اور پاجامہ کیسا لگا۔
بہت اچھا لگا۔رادھا نے کہا۔
کل ہم مسٹر عاصم منیر کے گھر چلیں گے۔مجھے ان سے کچھ ذاتی کام ہے۔تم صبح نو بج کر گیارہ منٹ پر تیار ہو جانا۔تمہارے کپڑے تمہارے کمرے میں پہنچا دیئے جائیں گے۔
آپکا کیا نام ہے ؟
رادھا نے پوچھا۔
نام بھی بتا دیں گے،کیا کرو گی نام جان کر،یہاں سب کے مختلف نام ہے،کوئی۔خوشبو ہے تو کوئی نرگس ،کوئی روشنی اور کسی کا نام چندا،آرزو بھی ادھر ہی رہتی ہے اور کرن بھی نظر آئے گی۔ہم سب ایک خاندان کی طرح ہیں۔آج سے تمہیں ریشم کہہ کر بلایا جائے گا۔میں سحر ہوں لیکن سب مجھے یہاں میڈم کہہ کر بلاتے ہیں۔
ریشم کی ساڑھی میں ملبوس رادھا کسی اونچے گھر کی مالکن سے کم نظر نا آتی تھی۔مسٹر عاصم منیر کا گھر زیادہ دور نہیں تھا۔مسٹر عاصم پچھلے تیس سال سے شہر میں شراب کا کامیاب بزنس کر رہے تھے اور شہر کے امیر ترین لوگوں میں انکا شمار ہوتا تھا۔مسٹر عاصم کا گھر کسی محل سے کم نا تھا۔مہمان خانے میں داخل ہوتے ہی رادھا نے دیکھا کہ سامنے صوفے پر ایک کلین شیوڈ ادھیڑ عمر شخص ہاتھ میں سگار لیے بیٹھا تھا سامنے میز پر شراب کی بوتلیں رکھی تھیں ،اس کے ساتھ دونوں طرف دو خوبصورت لڑکیاں بیٹھی تھیں جو مسٹر عاصم کو بار بار گلاس میں تھوڑی تھوڑی شراب بھر کر پلا رہی تھیں۔
یہ ریشم ہے۔میڈم نے عاصم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔بہت سمجھدار اور اچھی بچی ہے،ہر کام کو سمجھتی ہے تابعدار و سگھڑ ہے غلطی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہیلو،
مسٹر عاصم نے ہاتھ آگے بڑھایا،
ریشم کا ہاتھ کس طاقت نے جواب میں آگے بڑھایا،ریشم کو خود نہیں معلوم تھا،
ریشم ہاتھ ملا کر صوفے کے سامنے بیٹھ گئی۔مسٹر منیر ریشم سے مخاطب ہوئے اور کہا آئیے،مس ریشم میں آپکو اپنا گھر دکھاتا ہوں،
رادھا الجھن کا شکار ہو گئی،کیونکہ وہ تو رادھا تھی،اپنی زندگی کی لکیر پر چلنے والی معصوم سی رادھا،چھوٹی سے تھی تو ساری رات سلائی مشین کی ٹک ٹک اس کی کھوپڑی میں بجتی رہتی جب اسکی ماں محلے لوگوں کے کپڑے سلائی کرتی تھی،آج وہ رادھا سے ریشم بن چکی تھی۔
مسٹر عاصم نے اسے اپنا گھر دکھایا۔بے شمار کمرے تھے اور ہر کمرے میں ایک خوبصورت لڑکی موجود تھی۔آپ کو بھی ایسا ہی ایک کمرہ دیا جائے گا۔مسٹر عاصم ریشم کو لے کر ایک کمرے میں داخل ہوئے اور ریشم کو چابیاں تھماتے ہوئے بولے
یہ آپکا کمرہ ہے۔آج کے بعد آپ ادھر ہی رہیں گی۔میں نے میڈم سے بات کر لی ہے۔ابھی آپ آرام کریں ،میں شام میں دوبارہ آپ سے ملاقات کروں گا۔
شام ہوئی تو مسٹر عاصم اپنی ملازمہ کے ساتھ ریشم کے کمرے میں داخل ہوئے۔ملازمہ نے چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔
آپ چائے پی لیں۔خالص ڈبے کے دودھ سے بنی ہے۔
ریشم نے چائے کا کپ پکڑا اور چائے پینے لگی۔چائے ختم ہوئی تو ریشم کو نیند آنے لگی۔
معلوم ہوتا ہے آپ ٹھیک سے نیند پوری نہیں کی۔آپ لیٹ جائیں اور آرام کریں بعد میں ملاقات ہو گی،یہ کہہ کر مسٹر عاصم کمرے میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئے اور اخبار پڑھنے لگے۔ریشم کو نرم بستر پر بہت گدگدی محسوس ہو رہی تھی۔ریشم کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گئی۔
کمرے میں پنکھا ہلکی رفتار سے چل رہا تھا۔مسٹر عاصم ریشم کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور اسے جگانے کی کوشش کی لیکن وہ گہری نیند میں غرق تھی۔
اچانک ریشم کو محسوس ہوا جیسے کوئی ننھا کیڑا اس کی دونوں چھاتیوں کے درمیان رینگ رہا ہو،اسے گدگدی محسوس ہو رہی تھی۔ایک عجیب سکون اس کے اندام میں سرایت کر رہا تھا۔تلوار میان کے اندر جا چکی تھی۔ریشم کو یوں محسوس ہوا گویا کسی نے اس کی ساری ہڈیوں سے خون نچوڑ لیا ہو۔ایک لمحے کو اس کا جسم کانپا اور پھر فورا ٹھنڈا ہو گیا۔یہ کیسی لذت ہے۔گویا کوئی رگ میرے اندام کے اندر پیوست مسلسل پھڑپھڑا رہی ہے
0 notes
kanpururdunewsa · 1 month
Text
پانی بھرنے سے جام
Tumblr media
0 notes
urdu-poetry-lover · 7 months
Text
ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
شاہد ذکی
اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو
زخم کھلتے ہیں اذیت نہیں ہوتی مجھ کو
اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو
ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی پی کر
جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو
ہے امانت میں خیانت سو کسی کی خاطر
کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی مجھ کو
تو جو بدلے تری تصویر بدل جاتی ہے
رنگ بھرنے میں سہولت نہیں ہوتی مجھ کو
اکثر اوقات میں تعبیر بتا دیتا ہوں
بعض اوقات اجازت نہیں ہوتی مجھ کو
اتنا مصروف ہوں جینے کی ہوس میں شاہدؔ
سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو
.................
4 notes · View notes
sufiblackmamba · 3 months
Text
ہم پر نہیں اب ان کی نظر دیکھ رہے ہیں دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں جس سمت نہیں ہم، وہ ادھر دیکھ رہے ہیں ہم بدلے ہوئے شام و سحر دیکھ رہے ہیں گھر میں تھے تو بے زار تھے گھر بار سے اپنے راہوں میں نکل آئے تو گھر دیکھ رہے ہیں ہم پیروں کے چھالوں سے چراتے ہوئے نظریں ہاتھوں کی لکیروں میں سفر دیکھ رہے ہیں بھرنے لگے ہیں زخم تو لے آئی ہے تازہ ہم چارہ گری تیرے ہنر دیکھ رہے ہیں سمجھے تھے محبت میں کہ دستار سجے گی کر بیٹھے تو کٹتے ہوئے سر دیکھ رہے ہیں دنیا نے سبق اتنے سکھانے ہیں کہ اب ہم الفاظ نہیں لہجہ، نظر دیکھ رہے ہیں اپنوں کی عطا دھوپ میں جھلسائے ہوئے ہم اغیار کی محفل میں شجر دیکھ رہے ہیں برسات کا ایسوں کو بھلا کیا دیں سندیسہ آئینہ کی آنکھوں کو جو تر دیکھ رہے ہیں دستک کی تمنا لئے اک عمر سے ابرک دیواروں کے اس شہر میں در دیکھ رہے ہیں
0 notes