#بنگلہ دیش الیکشن
Explore tagged Tumblr posts
urduchronicle · 10 months ago
Text
امریکا نے بنگلہ دیش کے الیکشن پر کیا کہا؟
امریکہ کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش میں ہفتے کے آخر میں ہونے والے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں تھے، امریکی محکمہ خارجہ نے پیر کو کہا کہ واشنگٹن نے ووٹوں میں بے ضابطگیوں کی رپورٹوں پر تشویش کا اظہار کیا اور تشدد کی مذمت کی۔ یہ کیوں اہم ہے؟ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اتوار کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی نے تقریباً 75 فیصد نشستیں جیتنے کے ساتھ مسلسل چوتھی بار اقتدار میں کامیابی حاصل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 9 months ago
Text
بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاست میں جمہوریت؟
Tumblr media
عالمی جمہوریت انڈیکس کے مطابق آمرانہ رجیم درجہ بندی میں گر کر پاکستان کا اسکور 3.25 ہو گیا ہے اور 11 درجے تنزلی ہو گئی ہے۔ پاکستان پہلے دنیا کی 165 ریاستوں میں ایک برس قبل 5.23 انڈیکس پر تھا جو اب گر کر 3.25 پر آ گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ ہائبرڈ رجیم سے تنزلی کے بعد آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں آ گیا ہے جب کہ عالمی سطح پر ریٹنگ میں گیارہ مقام نیچے چلا گیا ہے۔ ای آئی یو نے حالیہ انتخابات پر کہا ہے کہ یہ بات حیران کن نہیں کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور روس میں رجیم چینج یا زیادہ جمہوریت نہیں آئے گی اور پاکستان میں بھی مکمل جمہوریت نہیں آئے گی اور ناقص جمہوریت چلتی رہے گی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کو 1956 میں آئین ملا تھا جس کے نتیجے میں ملک کو 1958 میں جنرل ایوب خان کا جو طویل مارشل لا ملا تھا اس کے خاتمے کے بعد کہنے کو ملک کو 1973 کا متفقہ آئین ملا تھا جو بعد میں مارشل لاؤں کو نہیں روک سکا تھا جس کے بعد 1977ء اور 1999ء میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز کے مارشل لا آئے تھے جو جنرل پرویز کی وردی اترنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ 
2002ء سے 2024ء تک ملک میں چار بار قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے اور پہلی بار اسمبلیوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) نے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی حکومت نے پونے چار سال حکومت کی اور عمران خان کی اپنی حماقت کے نتیجے میں سولہ ماہ ملک میں ایک اتحادی حکومت رہی اور ملک میں کوئی مارشل لا نہیں لگا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے پر ملک میں جنرل یحییٰ نے جو الیکشن کرائے اور جیتنے والی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں 1971 میں ملک دولخت ہوا تھا جس کے بعد بھٹو صاحب نے 1972 میں حکومت بنائی تھی اور 1973 کا ایسا متفقہ آئین بنوایا تھا جو ملک میں جمہوریت برقرار رکھ سکے اور کسی اور جنرل کو آمریت قائم کرنے کا موقعہ نہ مل سکے مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک میں بے اصولی اور مفاد پرستانہ سیاسی حکومتیں آئیں اور ابتدا ہی میں بھٹو صاحب نے اقتدار میں آ کر اپنی آمریت قائم کی اور اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ جمہوریت کے نام پر وہ سلوک کیا جو کبھی جمہوریت میں نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں 1977 میں جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا تھا۔
Tumblr media
جنرل ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ قرار دی جانے والی حکومت میں سیاستدان شامل رہے۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کا عہدہ سنبھالا تھا۔ جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز کو وردی میں صدر منتخب کرانے میں سیاستدانوں کا اہم کردار رہا۔ جمہوریت کے نام پر منتخب ہونے والے وزرائے اعظم نے خود کو بادشاہ سلامت بنا لیا اور جمہوریت کے نام پر ملک میں اپنی ذاتی آمریت مسلط رکھی اور ملک میں حقیقی جمہوریت کسی ایک بھی سیاسی وزیر اعظم نے قائم نہ ہونے دی۔ محمد خان جونیجو نے کچھ کوشش کی تو برطرف کر دیے گئے۔ 1988 سے 2024 تک ملک میں جتنے بھی عام انتخابات ہوئے وہ سب متنازع رہے اور سیاسی رہنما اپنے مفادات کے لیے برسر اقتدار سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی سے اقتدار میں آئے اور بعد میں وہ بھی اپنے لانے والوں کو آنکھیں دکھانے لگتے تھے۔ ملک کو جو ترقی ملی اس میں بھی جنرلوں کے نام آئے مگر کسی سیاستدان کو تو تمغہ جمہوریت نہیں ملا مگر ایک جج نے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو صادق اور امین قرار دینے کا فیصلہ ضرور دیا تھا جو ان کا کام ہی نہیں تھا۔
بھٹو سے عمران خان تک تمام وزرائے اعظم اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آئے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے اقتدار میں آ کر جمہوریت کا جنازہ نکال دیا اور فخریہ طور پر اپنی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک پیج پر قرار دیتے تھے۔ انھوں نے اپنے تمام مخالف سیاستدانوں پر مقدمات بنوا کر سب کو جیل میں ڈلوایا جو بعد میں کوئی ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوئے۔ پی ٹی آئی کی نام نہاد جمہوریت پونے چار سال ملک میں بدترین آمریت کی شکل میں قائم رہی اور وزیر اعظم نے اپنی حکومت میں اپنے مخالف سیاستدان حتیٰ کہ اپوزیشن لیڈر سے ملنا گوارا نہ کیا جو کبھی آمریت میں نہ ہوا وہ عمران خان نے اپنی حکومت میں کر دکھایا مگر جب دانشوروں نے انھیں سمجھانا چاہا تو وہ نہ مانے اور اپنے آمرانہ فیصلے کرتے تھے جو ان کی جمہوریت تھی۔ جمہوریت کے نام پر اپنے اقتدار میں آمریت قائم کرنے والے سیاسی وزیر اعظم اگر واقعی حقیقی جمہوریت پر یقین رکھنے والے اور جمہوریت پر عمل کرتے تو ملک کو آج اس بدنامی کا سامنا نہ ہوتا اور آمرانہ رجیم کی درجہ بندی میں پاکستان مسلسل نہ گرتا اور جمہوریت بھی مستحکم ہوتی مگر جمہوریت کے لبادے میں اپنے اپنے اقتدار میں اگر سیاسی رہنما ذاتی آمریت قائم نہ کرتے اور ایک دوسرے سے انتقام نہ لیتے تو جمہوریت حقیقی شکل میں عوام کو میسر آتی۔ ملک میں آمریت کے ذمے دار صرف آمر ہی نہیں نام نہاد جمہوری وزرائے اعظم اور مفاد پرست بے اصول سیاستدان بھی ہیں۔
محمد سعید آرائیں 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
shiningpakistan · 10 months ago
Text
پاکستان کو بھکاری بنانے کے ذمے دار
Tumblr media
پاکستان میں پہلے طویل مارشل لا کی مدت 1970 کے الیکشن میں جنرل یحییٰ نے ختم کی تھی اور جب تک پاکستان ایک تھا جو 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے پر دولخت 1971 میں ہوا تھا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا اس وقت تک مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان میں ایک بوجھ سمجھا جاتا تھا جو مغربی پاکستان سے بڑا تھا۔ جنرل ایوب کا دور 1969 میں ختم ہوا تھا جو بعد کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دور ہر قسم کی ترقی کا سنہری دور اور پاکستان دنیا میں نہایت اہمیت کا حامل ملک، مالی طور پر مستحکم اور جاپان و جرمنی کو مالی امداد اور دنیا میں قرضے دینے والا ملک تصور کیا جاتا تھا جس کے فوجی صدر کے دورہ امریکا پر استقبال کے لیے خود امریکی صدر اپنی کابینہ کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ جہاں ایئرپورٹ پر صدر پاکستان کا شاندار استقبال کیا کرتے تھے اور خود امریکی صدور بھی پاکستان کے دورے کیا کرتے تھے جب کہ اب یہ حالت ہے کہ 15 سال پہلے امریکی صدر نے پاکستان کے خوشامد کرنے پر بھارت جاتے ہوئے پاکستان کے مختصر دورے پر آ کر ہم پر احسان کیا تھا جس کے بعد کوئی امریکی صدر پاکستان نہیں آیا اور اب پاکستانی حکمران خوشامد کر کے امریکا کے دورے کا وقت لیتے ہیں۔
جہاں کوئی امریکی وزیر بھی استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہیں آتا اور امریکی صدر بعد میں وائٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیر اعظم سے ہاتھ ملاتا ہے جس پر وہ بڑا فخر کرتا ہے۔ صدر جنرل ضیا الحق کو بھی امریکا میں اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ جنرل ضیا امریکا کی ضرورت تھے جب کہ اس کے صرف گیارہ سال بعد صدر جنرل پرویز امریکا گئے تو انھیں جنرل ضیا جیسی اہمیت نہیں ملی تھی کیونکہ امریکا کو پاکستان کی ضرورت نہیں رہی تھی بلکہ امریکا جنرل پرویز کی ضرورت تھا۔ نئی نسل کو اب یہ سن کر بڑی حیرت ہوتی ہے جب اسے بتایا جاتا ہے کہ 1970 تک دنیا پاکستان کو اہمیت دیتی تھی اور پاکستان ان کی ضرورت تھا اور پاکستان آج کی طرح کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا تھا بلکہ ضرورت پر دوسرے ملکوں کو قرض اور مالی و ضروری عطیات بھی دیا کرتا تھا۔ اس وقت یو اے ای جیسے ملک کے حکمران کا استقبال کمشنر کرتا تھا پھر وہ دور بھی آیا کہ یو اے ای کے حکمران کے استقبال کو پاکستانی وزیر اعظم ایئرپورٹ جاتے رہے اور یو اے ای سے قرضے اور امداد مانگنے پاکستان بھکاری کے طور پر سوٹ پہن کر یو اے ای، قطر، کویت، سعودی عرب جیسے ملکوں میں جاتے ہیں اور آئی ایم ایف سے قرض کے لیے اب پاکستان کو گر کر اور خوشامد کر کے موجودہ قرضہ حاصل کرنا پڑا جو تین قسطوں میں ملنا تھا اور اتحادی حکومت کے بعد چار ماہ میں نگراں حکومت کو دوسری قسط نہیں ملی۔
Tumblr media
1947 میں آزادی کے بعد کئی سالوں تک پاکستان مشکل حالات سے گزرا جس کے بعد 1970 تک پاکستان دوسروں کو قرضے دینے اور مالی امداد دینے والا ملک بنا رہا جس کے بعد 1988 تک جنرل ضیا الحق کے آمرانہ کہلانے والے دور کے بعد 2023 تک 35 سالوں میں انتخابات کے ذریعے بننے والی مسلم لیگ (ن)، (ق)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں میں سیاسی حکومتوں نے غیر ملکی قرضے لے کر ہماری آیندہ پیدا ہونے والی نسل کو بھی مقروض بنا دیا ہے اور 2023 تک ملک کا بچہ بچہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ رقم کا مقروض ہے اور ہم دنیا میں اب قرضوں پر پل رہے ہیں۔ کسی شخص کی اگر مالی حالت کمزور ہو جائے تو وہ سب سے پہلے اپنے گھریلو اخراجات کم کرتا ہے۔ اچھے کھانے ترک کر کے زندہ رہنے والی خوراک پر آ جاتا ہے۔ جو شخص سال میں کئی جوڑے بناتا تھا وہ مجبوری میں گرمی سردی میں دو جوڑوں پر گزارا کرتا ہے اور اپنے اخراجات کم کر کے کوشش کرتا ہے کہ میسر مالی وسائل میں گزارا کرے اور اسے قرض نہ مانگنا پڑے کیونکہ قرض لینا اتنا مشکل نہیں جتنا ادا کرنا ہوتا ہے اسی طرح وہ اپنی عزت کا بھرم برقرار رکھ لیتا ہے۔
35 سیاسی حکومتوں میں جس پارٹی کی بھی حکومت آئی سب نے اپنے وسائل سے ملک چلانے کے بجائے غیر ملکی قرضوں پر شاہانہ طور پر حکومت کرنا اپنا منشور بنا رکھا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنوارو مہم چلائی تھی مگر غیر ملکی قرض نہ اترا بلکہ قرضوں کے لیے ملک کو آئی ایم ایف کا غلام بنانے میں ہر سیاسی حکومت نے کردار ادا کیا۔ شاہانہ طور حکومتیں چلائیں خود کو بنایا، اپنوں کو دل بھر کر نوازا، اور پی ٹی آئی حکومت نے تو اپنوں کو باہر سے بلا کر نوازا وہ سب اب واپس باہر جا چکے ہیں اور ع��ش کر رہے ہیں اور ملک میں غریب کیا متوسط طبقہ بھی سخت پریشان ہے۔ نواز شریف کا اب کہنا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے قرض مانگنا بند کر دیا تھا جب کہ ان کے بھائی شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے 2023 میں قرضہ وہ بھی تین قسطوں میں منظور کرایا تو اس عمل پر نواز شریف کو اپنے بھائی وزیر اعظم کو قرض مانگنے سے روکنا چاہیے تھا۔ اس وقت اتحادی حکومت میں شامل دولت مندوں کو اگر ملک سے محبت ہوتی تو وہ سب اپنی دولت میں سے ملک کے لیے اگر چوتھائی رقم بھی نکالتے تو انھیں قرض نہ لینا پڑتا۔
پاکستان کو موجودہ حالات میں پہنچا کر عالمی بھکاری بنانے والوں میں حکومت میں شامل رہ کر کرپشن کرنے والے صرف سیاستدان ہی نہیں ملک کے ہر ادارے کے کرپٹ افسران نے ملک کو لوٹا اور اندرون و بیرون ممالک میں جائیدادیں بنائیں اور وہاں کی شہریت لے کر اپنی ناجائز دولت اور اپنے خاندانوں کو محفوظ بنایا اور ملک کو اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ ملک کے سرمایہ داروں نے دبا کر ٹیکس چوری کیے۔ ٹیکس بچانے کے لیے ٹیکس وصول کرنے والوں کو رشوت دی اور ملکی خزانہ بھرنے نہیں دیا۔ ملکی خزانہ ہر ایک نے لوٹا اور ملک کنگال کر دیا اور یہ سب ہی ملک کو بھکاری بنانے کے ذمے دار ہیں۔ کوئی کم کوئی زیادہ۔ انھوں نے ملک کو نہیں اپنے ذاتی مفادات کو ہی ترجیح دی انھیں ملک عزیز ہوتا تو پاکستان کبھی بھکاری نہ بنتا۔
محمد سعید آرائیں  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
emergingpakistan · 10 months ago
Text
بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ
Tumblr media
بنگلہ دیش میں سیاسی حالات خاصے خراب ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ حسینہ واجد کی حکومتی پالیسی اور طوالت ہے، وہ گزشتہ پندرہ سال سے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم چلی آرہی ہیں حزب اختلاف کی تمام سیاسی پارٹیاں مل کر بھی لاکھ احتجاج کے باوجود انھیں ان کے منصب سے نہیں ہٹا سکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حسینہ واجد کو حزب اختلاف کی جانب سے ابھی تک کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ کبھی فوج بنگلہ دیشی حکومتوں کو گرا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا کرتی تھی۔ بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ جنرل ضیا الرحمان اور جنرل حسین محمد ارشاد پچھلی حکومتوں کا تختہ پلٹ کر خود حکومت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ بنگلہ دیش کی حزب اختلاف پارٹیاں حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف متحرک ہو چکی ہیں، بنگلہ دیشی عوام میں حزب اختلاف کو بھی پذیرائی مل رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں سات جنوری کو ہونے والے عام انتخابات کے سلسلے میں کافی ہلچل مچی ہوئی ہے تمام سیاسی پارٹیوں نے حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا ہے، یہ صورت حال حسینہ واجد کے لیے کافی پریشان کن ہے اور وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں، بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن اور انتظامیہ حسینہ واجد کا دم بھر رہے ہیں اس طرح حزب اختلاف کے نزدیک اس الیکشن سے کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔
حسینہ واجد کو پھر سے اقتدار میں رکھا جانا ہے۔ حزب اختلاف یہ تماشا دیکھ کر الیکشن سے دست بردار ہو چکی ہے یعنی کہ اس نے الیکشن لڑنے سے خود کو روک لیا ہے، اب اس طرح بنگلہ دیشی جمہوریت مکمل ڈکٹیٹر شپ میں تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ اب حسینہ واجد ہی الیکشن میں تنہا امیدوار ہیں اور وہ اس طرح بلا مقابلہ الیکشن جیت جائیں گی لیکن یہ کوئی الیکشن نہیں کہلائے گا، بلکہ سلیکشن ہی ہو گا۔ ادھر بنگلہ دیشی حزب اختلاف کی پارٹیاں اب صرف حسینہ واجد یا عوامی لیگ پر برہم نہیں ہیں بلکہ وہ بھارتی پالیسی کے خلاف ہیں۔ عوام بھی حزب اختلاف کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ بنگلہ دیشی عوام نے اپنی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے 1971 میں مجیب الرحمن کا ساتھ دیا تھا مگر اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اب بھی ان کے دلوں میں پاکستان کی محبت زندہ ہے وہ اس لیے کہ 1970 میں ہونے والے پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں انھوں نے اپنی محرومیوں کو دور کرنے اور پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے اپنا مینڈیٹ دیا تھا، پاکستان کو توڑنے کے لیے ہرگز مینڈیٹ نہیں دیا تھا مگر ان کے حق رائے دہی کا مجیب الرحمن نے غلط استعمال کیا اور پاکستان کی وحدت کو قائم رکھنے کے بجائے دولخت کر دیا تھا۔
Tumblr media
حقیقت یہ ہے کہ اگر مشرقی اور مغربی بازو میں ہزاروں میل کے فاصلے حائل نہ ہوتے، اگر فاصلے بھی حائل رہتے بھی مگر بھارت جیسا دشمن ملک بیچ میں نہ ہوتا تو مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے دنیا کا کوئی ملک علیحدہ نہیں کر سکتا تھا۔ ملک کے دولخت ہونے میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی الزام دیا جاسکتا ہے مگر سیاسی قیادت کو بھی علیحدگی کی ذمے داری سے الگ نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت کے نامور بزرگ صحافی کلدیپ نیّر نے ڈھاکا جا کر شیخ مجیب الرحمن سے ایک انٹرویو کیا تھا، اس میں انھوں نے ان سے بھٹو کے بارے میں بھی سوال کیا تھا کہ کیا بھٹو بھی مشرقی اور مغربی پاکستان کو علیحدہ کرنا چاہتے تھے تو مجیب الرحمن نے انھیں بتایا تھا کہ جن دنوں وہ پاکستان کی حراست میں تھے ان سے بھٹو خود ملنے کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ پاکستان کی سالمیت کو برقرار رکھیں اور کوئی ایسا فارمولا بنا لیں کہ آپ کو مشرقی پاکستان میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری مل جائے اور اس طرح وہاں کے عوام کا احساس محرومی کم ہو سکے۔ اس پر مجیب نے کہا تھا کہ وہ اس وقت اس سلسلے میں کوئی وعدہ نہیں کرسکتے وہ وہاں جا کر حالات دیکھیں گے اور اس کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کر سکیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھٹو کو مختلف حربوں کے ذریعے بدنام اور عوام میں غیر مقبول بنانے کی کوشش کی گئی تھی اور بالآخر انھیں ان کی ہی پارٹی کے ایک لیڈر کے باپ کے قتل کی پاداش میں پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا گیا۔ اب ان کی موت کو جوڈیشل قتل قرار دے کر اس کا مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے مگر دیکھیے کیا فیصلہ آتا ہے۔ اگر پاکستان کو توڑنے میں کسی کا ہاتھ تھا وہ شیخ مجیب الرحمن اور اس کے انتہا پسند ٹولے کا تھا۔ تاج الدین اور کمال الدین جیسے انتہا پسندوں نے مجیب کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ مجیب الرحمن کی پاکستان سے غداری اگرتلہ واقعے جسے اگرتلہ سازش کا نام دیا گیا تھا سے ہی ثابت ہو گئی تھی مگر ایوب خان نے کوئی خاص ایکشن نہیں لیا تھا۔ آزاد بنگلہ دیش بنانے کے منصوبے پر دراصل 1962 سے ہی کام شروع ہو چکا تھا اور ایک طرف بھارتی حکومت سے اس سلسلے میں مدد لینے کی درخواست کی گئی تھی تو دوسری جانب مغربی بنگال کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ باسو کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا۔ 
دونوں نے مل کر گریٹر بنگال بنانے کا اظہار کیا تھا اس طرح دونوں بنگال کو ملا کر ایک آزاد خودمختار بنگلہ دیش بنانے کے لیے تعاون کرنے کے وعدے کیے گئے تھے البتہ مغربی بنگال کو مشرقی بنگال سے ملانے کے منصوبے کو مخفی رکھا گیا تھا تاکہ بھارت سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے لیے ضروری مدد لی جائے پھر مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد دوسرے مرحلے میں مغربی بنگال کو اس میں شامل کر دیا جائے۔ ہوا یہ کہ بھارت کی مدد سے بنگلہ دیش تو بن گیا مگر بھارت نے مغربی بنگال کو بنگلہ ��یش میں شامل نہ ہونے دیا۔
عثمان دموہی 
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
maqsoodyamani · 4 years ago
Text
مودی کا بنگلہ دیش کا دورہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی : ترنمول کانگریس
مودی کا بنگلہ دیش کا دورہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی : ترنمول کانگریس
مودی کا بنگلہ دیش کا دورہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی : ترنمول کانگریس نئی دہلی30مارچ(آئی این ایس انڈیا) ترنمول کانگریس نے الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھاہے کہ جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا حالیہ دورہ بنگلہ دیش مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے لیے جاری ضابطہ کی خلاف ورزی ہے اور ان کے کچھ پروگرام کامقصدکچھ ریاستوں کے انتخابی حلقوں میں ووٹنگ کو متاثر کرنا ہے۔ترنمول نے منگل…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
swstarone · 4 years ago
Photo
Tumblr media
محمد حنیف کا کالم: چوہدری پرویز الہی اور جنت کے ٹکٹ محمد حنیفصحافی و تجزیہ کار7 منٹ قبل،PUNJAB ASSEMBLY72 سال پہلے ہم نے یہ ملک بنایا اور کوئی مانے نہ مانے ہم نے اسے اسلام کے نام پر بنایا۔ لیکن پھر ہمارے ساتھ ایک تاریخی حادثہ ہوا جو کسی اور مسلمان ملک کے ساتھ نہیں ہوا۔اسلام کے اس قلعے میں اسلام خطرے میں آ گیا۔ ابھی مہاجرین کے قافلوں نے پڑاؤ ڈالا ہی تھا کہ ہمارے بڑوں نے پوچھا کہ اس ساری مار کٹائی، ہجرت اور بے وطنی کا مقصد کیا تھا۔ طے ہوا قرارداد مقاصد منظور کی جائے۔ عہد کیا جائے کہ اس ملک میں قرآن و سنت سے باہر کوئی قانون نہیں بنے گا۔ اس کے بعد کسی سوال کی گنجائش تو نہیں بچی تھی لیکن ایوب خان آیا تو اس کی آمریت کو اگر کبھی ہلکا سا دھچکہ لگتا تو اسلام خطرے میں آ جاتا۔ اسلام کو بچاتے بچاتے ہم نے آدھا ملک گنوا دیا۔ جب بنگلہ دیش والوں نے کہا اپنا اسلام اپنے پاس رکھو ہم کوئی تم سے کم مسلمان نہیں۔ ہم نے ہمت نہیں ہاری اور امت کی قیادت کے خواب دیکھنے شروع کیے۔ یہ بھی پڑھیےبھٹو پر برا وقت آیا تو انھیں بھی سوشلزم بھول گیا اور انھوں نے جمعے کی چھٹی وغیرہ دے کر اسلام اور اپنی جان بچانے کی کوشش کی۔ بھٹو کی جان بھی گئی اور اسلام کو خطرے اتنے بڑھ گئے کہ جنرل ضیاء کو گیارہ سال تک کلاشنکوف اور ہیروئن والا اسلام کبھی امپورٹ تو کبھی ایکسپورٹ کرنا پڑا۔ ہمارے اسلام نے کمیونزم کو شکست دی۔ ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ اس کے بعد ہم اور اسلام ہنسی خوشی رہنے لگتے لیکن پتہ چلا کہ اسلام کو بڑا خطرہ تو اب ہے۔ وہ جہاد جو چیچنیا اور بوسنیا میں لڑا جاتا تھا وہ ہما��ی گلیوں میں آ گیا۔ ہمارے اپنے بچے ہماری مسجدوں میں پھٹنے لگے۔ ہمارے بڑے ناز و نعم سے پالے ہوئے مجاہد ہماری ہی چھاونیوں اور تھانوں پر حملہ آور ہو گئے۔ ہمسائے کے گھر لگائی گئی آگ ہمیں ہی جھلسانے لگی۔ کبھی آپریشن راہ راست کرتے کرتے ہمیں لگا کہ اب ہم واقعی راہ راست پر آ گئے ہیں۔ ہماری مسجدیں آباد ہونے لگیں۔ فرقہ واریت کے عفریت کو بھی ہم نے نیند کے انجیکشن لگا کر کچھ دیر کے لیے سلا دیا۔ امید تھی کہ اب اسلام خطرے میں ہے کا نعرہ نہیں چلے گا۔ ہماری صحت خطرے میں ہے، فصلیں خطرے میں ہیں، ہماری معیشت مر رہی ہے۔اس م��حول میں لاہور میں پنجاب اسمبلی میں بیٹھے ہمارے منتخب نمائندوں نے پتہ چلایا کہ پتہ کیا خطرے میں ہے، اسلام اور اس دفعہ صرف اسلام کو کوئی چھوٹا موٹا خطرہ نہیں بلکہ اسلام کی بنیادوں کو خطرہ ہے اس لیے فوری طور پر ایک قانون بنایا جائے جس کا نام ہو تحفظِ بنیادِ اسلام۔ ،PUNJAB ASSEMBLYیہ قانون جس سرعت سے پاس ہوا اور جس طرح ہر طرح کی سیاسی جماعت نے یک زبان ہو کر اس کی حمایت کی ہے کہا جا رہا ہے کہ اس کا کریڈٹ پنجاب اسمبلی کے کے سپیکر چوہدری پرویز الہیٰ کو جاتا ہے۔ چوہدری صاحب کبھی کبھی سیدھی بات کر جاتے ہیں۔ کچھ ہی دن پہلے اپنی سپیکر کی کرسی پر بیٹھے فرما رہے تھے عمران خان کو باجوہ لے کر آیا ہے جس طرح مجھے مشرف لے کر آیا تھا۔ کوئی اور اس طرح کی بات کرے تو سازشی اور غدار کہلائے لیکن چوہدری صاحب چوہدری صاحب ہیں ان سے کوئی یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ انھیں کب یہ خواب آیا کہ اسلام کی بنیادیں تحفظ مانگ رہی ہیں۔ جس طرح سے ہر جماعت نے ان کا ساتھ دیا اس سے تو دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ سب سیاسی جماعتیں لبیک والوں کے لاکھوں ووٹروں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں تحریکِ لبیک چوتھی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی۔ دوسری وجہ یہ کہ سب کو اپنے ارد گرد گھومتے کسی نادیدہ ممتاز قادری سے ڈر لگتا ہے۔ آپ کے پاس کوئی بل لے کر آیا جس پر لکھا تھا تحفظِ بنیادِ اسلام اور آپ نے اس پر دستخط نہیں کیے تو پھر دیکھیں متوالے آتے ہیں۔ اس بل سے متعلق پڑھیےپنجاب اسمبلی کے ایک رکن نے اس بل کی ایک منظور شدہ کاپی اپنے مرحوم والد کی قبر پر پیش کی ہے۔ قبر پہ لگا کتبہ پڑھ لیں تو آپ کو ہماری تاریخ کی کچھ ہولناک جھلکیاں نظر آئیں گی۔نئے قانون کی وجہ سے فرقہ واریت کا اونگتا ہوا عفریت جاگنے کا خطرہ اتنا حقیقی ہے کہ جماعت اسلامی کو بھی کہنا پڑا ہے کہ ذرا وہ پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی مشورہ کر لیں۔بل کی منظوری کے بعد ایک مولانا یو ٹیوب پر اپنے خطاب میں فرما رہے تھے کہ یہ بل پاس کر کے چوہدری پرویز الہی اور ان کے ساتھ پوری پنجاب اسمبلی کے ارکان نے جنت کا ٹکٹ کٹا لیا ہے۔ کل بھی ایک ذہنی طور پر معذور شخص پشاور کی عدالت میں پیش ہوا۔ الزام اس پر گستاخی کا تھا۔ ایک مردِ مومن نے جج کی آنکھوں کے سامنے اس کو چھ گولیاں مار کر ہلاک کیا۔ ہم نے اسلام کو درپیش خطرات سے اپنی قوم کو اتنا خبردار کر دیا ہے کہ اب لوگ جنت کے ٹکٹ کے لیے چوہدری پرویز الہی کے کسی نئے قانون کا انتظار نہیں کرتے بلکہ کسی کا خون کر کے جنت کا ٹکٹ خود ہی خرید لیتے ہیں۔ خبرکا ذریعہ : بی بی سی اردو
0 notes
dhanaklondon · 6 years ago
Photo
Tumblr media
اور ڈھاکہ ڈوب گیا۔۔۔ آخری قسط اور ڈھاکہ ڈوب گیا۔۔۔ آخری قسط ٹحریر: سید ندیم حُسین قارئین کرام ! معزرت چاھتا ہوں کہ آپکو اس قسط کے لیئے اتنا انتظار کرنا پڑا ۔ کہتےہیں ہوئی جو تاخیر تو کچھ باعث تاخیر ��ھی تھا۔ بہر حال اب آپکی خدمت میں حاضر ہوں۔ مشرقی پاکستان کی المناک داستان کے بہت سے پہلو ہیں۔ ہم صرف ایک واقعے یا ایک شخصیت کو مکمل طور پہ ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کر چکاہوں کہ اس علیحدگی کی خشت اول اردو کو قومی زبان قرار دینے سے رکھی گئی۔ پھر اس کے بعد 1970ء کے الیکشن تک مسلسل غلطیاں کی گئیں۔ اور جب فیصلہ کن مرحلہ آیا تو اس میں تین شخصیات کا رول اہم تھا۔ یعنی مجیب ، بھٹو اور یحییٰ خان۔ اس داستان پہ بہت لوگوں نے لکھا ہے۔ بے شمار کتابیں لکھی گئیں۔ ان گنت آرٹیکل لکھے گئے۔ اس وقت مختلف حیثیتوں میں کام کرنے والی شخصیات کے انٹرویوز موجود ہیں۔ ہر کوئی اپنی سوچ اور اور سیاسی و نظریاتی وابستگی کی بنیاد پہ دوسرے کو ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ ہمارے ہاں بھٹو کے مخالف لوگ اس واقعے کا ذمہ دار بھٹو کو قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھٹو اگر مجیب کے مینڈیٹ کو تسلیم کر لیتے تو پاکستان کبھی نہ ٹوٹتا۔ لیکن اگر آپ اس وقت کے حالات و واقعات کا مطالعہ کریں۔ اس وقت لکھی جانے والی کتب دیکھیں تو آپ پہ یہ حقیقت آشکار ہو گی۔ کہ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں تھا کہ وہ مجیب کو حکومت دیتے۔ نہ وہ ملک کے صدر تھے ۔ نہ آرمی چیف۔ یہ کام اس وقت کی حکومت کا تھا کہ جس کو جہاں اکثریت ملی تھی اسے وہاں حکومت بنانے کی دعوت دیتی اور اس حکومت کو سب تسلیم کرتے اور جو نہ کرتا اس سے قانون کے مطابق نبٹا جاتا۔ اور بھٹو یا کوئی بھی شخص جو اس انتقال اقتدار کے خلاف ہوتا وہ عوام کے سامنے خود بخود ننگا ہو جاتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے نہیں ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کے اکثریتی لیڈر تھے۔ اس وقت چونکہ پاکستان کا آئین کا تشکیل دیا جانا تھا تو بھٹو بجا طور پہ یہ چاھتے تھے۔ کہ جو بھی آئینی انتظام ہو اس میں ان کی رائے شامل ہو۔ جیسا کہ پچھلے کالموں میں یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ چاھتے تھے۔ کہ مجیب اپنے چھ نکات میں اس طرح کی تبدیلیاں کریں کہ وہ مغربی پاکستان کی اکثریت کے لیئے بھی قابل قبول ہوں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو حکومت بنانا مجیب کا حق ہے۔ انھوں نے اپنی کتا ب دی گریٹ ٹریجڈی میں اپنا مؤقف نہایت تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ کتاب 71ء کی جنگ سے پہلے شائع ہوئی۔ اور دسمبر 70ء سے ستمبر 71ء تک کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ جنگ سے پہلے شائع ہونے کی وجہ سے یہ جنگ کے اثرات سے آزاد ہے۔ اس میں اگر تمام باتیں سچ نہ بھی لکھی ہوں تو ان سے کم از کم بھٹو صاحب کی سوچ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اور وہ اس مختف ہے جس کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ بھٹو نے یہی بات کہی تھی کہ اُدھر تمھاری اکثریت ہے اور ادھر ہماری۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک کو اس بحران سے نکالیں۔ اسی بات کو اس وقت روزنامہ آزاد نے اُدھر تم ادھر ہم کے عنوان سے شائع کیا ۔ یہ فقرہ بھٹو صاحب کے ساتھ ایسا چپکا کہ آج تک اس کا مداوا نہیں ہو سکا۔ حالانکہ یہ سُرخی لگانے والے صحافی اطہر عباس صاحب نے واضح طور پہ کہا کہ یہ الفاظ بھٹو کے نہیں تھے۔ اطہر عباس صاحب کی وڈیو یو ٹیوب پہ موجود ہے۔ پھر جس دن یہ سُرخی شائع ہوئی اس سے اگلے دن ہی بھٹو نے وضاحت کی۔ اور ان کی وضاحت بھی اخبارات میں شائع ہوئی۔ لیکن اس سے ان پہ لگا یہ الزام نہ دھویا جا سکا۔ اور یہ فقرہ آج بھی بھٹو سے منسوب کیا جاتا ہے جو بھٹو نے بولا ہی نہیں۔ لیکن میری رائے میں بھٹو کو اسمبلی کا اجلاس ھونے دینا چاھیئے تھا۔ کیونکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نوشتہ دیوار تھی۔ اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا تھا۔ اگر اجلاس ہو جاتا۔ مشرقی پاکستان قانونی طور پہ الگ ہوتا تو شاید اتنے خون خرابے سے بچا جا سکتاتھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھٹو علیحد��ی کے الزام سے بچ جاتے۔ لیکن بھٹو کے اپنے بقول وہ کسی ایسے انتظام میں شامل نہیں ہو سکتے جس سے پاکستان کی سالمیت کو گزند پہنچنے کا احتمال ہو۔ یہ بھٹو کا کہنا تھا لیکن دٍلوں کے راز تو اللہ ہی جانتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کا دوسرا کردار مجیب تھا۔ جس نے جب چھ نکات پیش کیئے اس وقت کسی نے انھیں در خور اعتنا نہ سمجھا۔ اور مجیب سے بات نہ کی۔ پھر مجیب نے اگرتلہ کیس میں بھارت سے بھی گٹھ جوڑ کر لیا۔ اور الیکشن میں انھیں اکثریت بھی انھی چھ نکات کی بدولت ملی۔ تاج الدین جیسے ان کی اپنی پارٹی کے لوگ نہایت سخت گیر مؤقف رکھتے تھے۔ اور چھ نکات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ علیحدگی نہیں چاھتے تھے وہ یہ بھول جاتے ہیں۔کہ چھ نکات اور اگر تلہ کا معاملہ تھا ہی علیحدگی کے لیئے۔ اور یہ بات تو کئی لوگوں نے لکھی ہے کہ وہ ایک دن ایک بات کہتے تھے اور اگلےدن دوسری۔ مثلا جب انھیں جنوری 1972ء میں رہا کیا گیا تو رہائی سے پہلے ان کے اور بھٹو صاحب کے درمیان جو گفتگو ہوئی۔ انھوں نے اگلے دن لندن پہنچ کے اس کے بالکل اُلٹ کیا۔ لہذا ان کا مطمح نظر علیحدگی تھا اور یہی انھوں نے کیا۔ الیکشن کے بعد ان کے لیئے چھ نکات سے ہٹنا مشکل تھا۔ مغربی پاکستان کے سیاستدانوں بشمول بھٹو سے یہ غلطی ہوئی کہ کسی نے بھی الیکشن سے پہلے ان سے ان نکات میں تبدیلی کی بات نہ کی۔ ممکن ہے اس وقت بات کی جاتی ان سے کچھ اور کچھ دو کی بنیاد پہ معاملات طے کر لیئے جاتے۔ خُدا جانے انٹیلیجس ایجنسیاں اس وقت کہاں تھیں جنھیں صورت حال کی سنگینی کا بروقت ادراک نہ ہو سکا۔ اور مجیب کو اپنے چھ نکات کے ساتھ الیکشن لڑنے کی کھُلی چھوٹ دی گئی۔ ہماری وہ ایجنسیاں بھی برابر کی قصور وار ہیں۔ پھر حالات کی چابی جس شخص کے ھاتھ میں تھی وہ یحیٰ خان تھے۔ وہ ملک کے سربراہ تھے۔ چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر تھے۔ آرمی چیف تھے۔ یعنی طاقت کی چابیوں کا سارا گُچھا ان کے ہاتھ میں تھا۔ الیکشن سے پہلے تمام پارٹیوں کی سرگرمیوں پہ نظر رکھنا ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ چھ نکات کے مضمرات کو سمجھ نہیں پائے۔ یا انھوں نے پرواہ ہی نہیں کی۔ پھر جب الیکشن ہو ئے تو انتقال اقتدار ان کی ذمہ داری تھی۔ جب ایک پارٹی ایک منشور پہ الیکشن لڑ چُکی اور جیت چُکی ہو اور عوام کا موڈ بھی اس کے حق میں ہو تو اسے اس کی راستے سے ہٹانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مغربی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس بات کا ادراک نہ کر پائی۔ پھر انھیں 3 مارچ والا اجلاس ہر گز ملتوی نہیں کرنا چاھیئے تھا۔ وہیں سے حالات زیادہ بگڑے۔ اجلاس کے التوا کے بعد مشرقی پاکستان کی عسکری قیادت بار بار انھیں مشرقی پاکستان آنے اور عوامی لیگ سے مذاکرات کا مشورہ دیتی رہی۔ لیکن وہ اپنی «دوسری» مصروفیات کے باعث انکار کرتے رہے اور جب گئے تو حالات قابو سے باہر ہو چُکے تھے۔ عوامی لیگ نے انھیں بنگلہ دیش کا مہمان قرار دیا۔ پھر انھوں نے آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا۔جس میں بے شمار ھلاکتیں ہوئیں۔ املاک کو نقصان پہنچا۔ خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں۔ اور جب اس سخت آپریشن کے بعد وقتی طور پہ امن ہو گیا۔ تو انھوں نے عوامی لیگ کی قیادت یا عام لوگوں سے براہ راست رابطے کی کوئی کوش نہ کی۔ کوئی سیاسی حل نہیں تلاش کیا۔ یہ بات حمودالرحمان کمیشن رپورٹ میں بھی لکھی ہے۔ انھیں مشورہ دیا جاتا رہا کہ لوگوں کو عام معافی دیں اور جو بھارت جا چکے ہیں انھیں واپس لانے کے لیئے اقدامات کریں۔ لیکن انھوں نے اس میں غیرمعمولی تساہل سے کام لیا۔ اور جب معافی کا اعلان کیا تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ بھارت کی واضح جنگی تیاریوں اور ممکنہ جنگ کی اطلاعات کے باوجود کوئی مضبوط سفارتی اور فوجی حکمت عملی ترتیب نہ دی۔ اور جب جنگ ہوئی تو باقی افواج بہادری سے لڑیں بھی لیکن کوئی واضح حکمت عملی نہ ہونے کے اور کچھ دوسرے جرنیلوں کی نااہلی کے باعث انتہائی شرمناک انداز میں ہتھیار ڈال دیئے۔ یعنی یحیٰ خان سیاسی ، عسکری اور سفارتی تمام محاذوں پہ بُری طرح ناکام ہوئے۔ لہذا میری رائے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں سب سے اہم کردار یحیٰ خان کا تھا۔ دوسرے نمبر پہ مجیب ۔ بھٹو کے ہاتھ میں دینے کے لیئے کچھ نہیں تھا۔ یحیٰ خان مخلص ہوتے اور بھٹو غلط بھی ہوتے تو کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ لہذا بھٹو کا کردار ان سے کم ہے۔ یہ میری رائے ہے۔ اگر آپ اس سے متفق نہیں تو میں آپکی رائے کا احترام کرتا ہوں۔
0 notes
urduchronicle · 10 months ago
Text
مشرفی مرتضیٰ بھی بنگلہ دیش کے عام انتخابات میں نشست جیت گئے
بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مشرفی مرتضیٰ نے عام انتخابات میں مسلسل دوسری مرتبہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی۔ بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت عوامی لیگ کی جانب سے سابق کپتان مشرفی مرتضیٰ نے عام انتخابات میں حصّہ لیا تھا اور وہ بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مشرفی مرتضیٰ نے 1,89,102 ووٹ حاصل کیے جبکہ بنگلہ دیش ورکرز پارٹی کی جانب سے انتخابات میں…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
risingpakistan · 9 months ago
Text
اسٹیبلشمنٹ سے جیت کا واحد رستہ
Tumblr media
عمومی طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ آج سلیکشن ڈے ہے، الیکشن کا تماشہ تو صرف ایک رسم کے طور پر رچایا جا رہا ہے ۔ یہ بھی تاثر عام ہے کہ ن لیگ کو حکومت دینے کے ارادے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا ن لیگ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت لے بھی پائے گی کہ نہیں۔ سرپرائیز کی بھی بات کی جا رہی ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصا ف کے ووٹر سپورٹر غصے میں ہیں اور وہ بڑی تعداد میں نکل کر سلیکشن کے پراسس کو الیکشن میں بدل کر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد کو کامیابی دلوا کر اس سلیکشن کو الیکشن میں بدل دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا تو پھر کہا جا رہا ہے کہ آزاد آزاد نہیں رہیں گے اور اُنہیں قابو کر لیا جائے گا اور تحریک انصاف کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ بحرحال آج کا دن بہت اہم ہے اور آج رات تک الیکشن ہے یا سلیکشن اس کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ اب جس قسم کی جمہوریت ہم دیکھنے جا رہے ہیں وہ پہلے سے زیادہ ہائبرڈ اور کنٹرولڈ ہو گی۔ بنگلہ دیش ماڈل کی بھی بات ہو رہی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ سیاستدانوں اور سول حکومت نے بہت سپیس کھو دی ہے جس کی واپسی کیسے ممکن ہو سکتی ہے اُس پر میں بات کرنا چاہوں گا۔ 
Tumblr media
اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بغیر کچھ کیے یہ سپیس سول حکومت اور سیاستدانوں کو دے دے گی تو بھول جائیں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے کہ عمران خان کی طرح فوج سے ہی ٹکر لے کر اور 9 مئی جیسے واقعات سے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کیا جا سکتا ہے تو ہم نے دیکھا کہ اس سے تو ملک، سیاست کے نقصان کے ساتھ سب سے زیادہ نقصان اپنا ہی ہوتا ہے اور اس صورتحال کا عمران خان اور تحریک انصاف کو سامنا ہے۔ مسئلہ لڑائی سے حل نہیں ہو گا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے جیتنا ہے تو پھر سیاستدانوں کو دائرہ کا سفر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جب حکومت ملے، جیسے بھی ملے، تو پھر کام، کام اور کام پر ہی زور دینا پڑے گا۔ پرفارمنس بہترین ہو گی، طرز حکمرانی اچھا ہو گا، عوام دیکھے گی، محسوس کرے گی اور سمجھے گی کہ حکمراں اُن کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور سرکاری محکموں کو سروس ڈیلوری کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں تو پھر سولین سپریمیسی کا رستہ ہموار ہو گا، اسٹیبلشمنٹ کے لیے سپیس کم ہوتی جائے گی۔ اس کے علاوہ کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ عمران خان بے شک ایک پروجیکٹ تھے، وہ سلیکٹڈ تھے۔
اگر اُن کی حکومت نے بہترین کارکردگی دکھائی ہوتی، گڈ گورننس کی مثال قائم کی ہوتی، سرکاری اداروں کو سروس ڈیلوری کے لیے فعال کیا ہوتا تو آج عمران خان یہ کچھ نہ دیکھ رہے ہوتے اور نہ ہی جمہوریت مزید کنٹرولڈ ہوتی۔ نواز شریف بھی ایک پروجیکٹ کے طور پر ہی سامنے آرہے ہیں، وزیراعظم وہ بنتے ہیں یا شہباز شریف یا کوئی اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا۔ لیکن اگر ن لیگ کا وزیراعظم بنتا ہے اور کوئی سرپرائز نہیں ملتا تو پھر چاہے نواز شریف ہوں یا شہباز اُن کا سارا زور پرفامنس، پرفامنس، پر فامنس پر ہی ہونا چاہئے۔ اگر ایک طرف دن رات لگا کر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے پڑیں گے تو دوسری طرف ایک ایک سرکاری محک�� کو عوام دوست بنانے کے لیے سول سروس کو میرٹ اور غیر سیاسی انداز میں چلانا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ چند ایک کاموں پر تو توجہ دی جائے لیکن باقی ذمہ داریوں سے بے فکر ہو جائیں۔ آئین پاکستان کے مطابق عوام سے متعلق حکومت کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اور ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ کو مزید سپیس ملے گی۔ 
اگر کارکردگی بہترین ہو گی تو اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے لیے سپیس نہیں ملے گی۔ اگر سیاستدان بادشاہوں کی طرح حکومت کریں گے، نہ طرز حکمرانی کو ٹھیک کریں گے نہ ہی سرکاری اداروں کو عوامی خدمت کے لیے فعال بنائیں گے، معیشت کا بھی ستیاناس کریں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی معاملات میں مداخلت کا رستہ آسان ہو جائے گا۔
انصار عباسی
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
urdubbcus-blog · 6 years ago
Photo
Tumblr media
عوام کو پانچ مرغیوں کا فارمولہ دے کر ’باجی‘ خود سلائی مشینوں سے ارب پتی بن گئیں،اسفندیارولی خان نے سنگین الزامات عائد کردیئے پشاور(این این آئی)عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے کہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے اور اپوزیشن مسلط حکمرانوں کو سیاسی شہید نہیں بننے دے گی ، حکومت کا قبلہ درست کرنے کیلئے تمام سیاسی قیادت کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے،ان خیالات کا اظہار انہوں نے سعودی شہر ریاض میں پارٹی کے سابق مرکزی صدر گل زمین سید کی یاد میں تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،اس موقع پر انہوں نے مرحوم کی پارٹی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ گل زمین سید مرحوم اے این پی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا شاید ہی پُر ہو سکے گا، اس موقع پر انہوں نے اے این پی سعودی عرب کے نو منتخب صدر ڈاکٹر مزمل شاہ اور ان کی نئی کابینہ سے حلف لیا، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے چالیس برس تک لاکھوں شہریوں اور خصوصاً پختونوں کا خون بہنے کے بعد ملک آج بھی ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک معمولی سی غلطی کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے، اسفندیار ولی خان نے کہا کہ حقیقت تسلیم کئے بغیر غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا جا سکتا لیکن حکمران ماضی کی غلطیاں دہرانے کے موڈ میں ہیں ، انہوں نے کہا کہ گزشتہ الیکشن میں جو کھیل کھیلا گیا وہ پوری قوم کے سامنے ہے جس کے نتیجے میں ایک مخصوص شخص کو 22کروڑ عوام پر مسلط کر دیا گیا ، انہوں نے کہا کہ مسلط وزیر اعظم آج تک اپوزیشن کے خول سے باہر نہیں نکلے اور احتساب کا وہی گھسا پٹا نعرہ آج بھی لگایا جا رہا ہے جو اب انتقام کی صورت اختیار کر گیا ہے ، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تمام کرپٹ مافیا سیاسی جماعتوں سے نکال کر تحریک انصاف کی زینت بنا لیا گیا جبکہ سیاسی مخالفین کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ، مرکزی صدر نے کہا کہ عوام کو پانچ مرغیوں کا فارمولہ دے کر ”باجی“ خود سلائی مشینوں سے ارب پتی بن گئیں لیکن احتسابی ادارے صرف جرمانوں پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ علیمہ خان کی بے نامی جائیدادوں کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنائی جائے ،انہوں نے کہا کہ جو شخص خود غیر قانونی گھر میں رہتا ہے وہ خیبر تا کراچی غریب عوام کو تجاوزات کے نام پر بے روزگار کر رہا ہے ، انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ اسلام میں بیوی سے حق مہر لینے کا تصور نہیں لیکن مدینہ جیسی ریاست بنانے والے کپتان کو حق مہر میں بنی گالہ کا گھر مل گیا ،انہوں نے کہا کہ ملک تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے اور ملکی معیشت گھٹنوں کے بل گر چکی ہے، ماضی کی حکومتوں نے جتنا قرضہ لیا ،عمران نیازی نے صرف چھ ماہ میں اس کا دو گنا قرض وصول کر لیا جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑ رہا ہے ، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اب متوسط طبقہ باقی نہیں رہا ، امیر امیر تر جبکہ غریب غریب تر ہو چکا ہے انہوں نے واضح کیا کہ غریب اور متوسط طبقات مل جائیں تو انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا اور پاکستان اسی جانب رواں دواں ہے،اسفندیار ولی خان نے کہا کہ ایک سال میں تین منی بجٹ پیش کئے جا چکے ہیں جنہیں ریلیف کا نام دیا گیا لیکن بجلی کی قیمتیں بڑھا کر ساری کسر پوری کر دی گئی، انہوں نے کہا کہ پُرکشش نعروں سے ملک نہیں چلائے جا سکتے، غریب عوام کا جینا دشوار ہو چکا ہے ،لیکن کپتان یوٹرن کو لیڈر کی علامت بنائے بیٹھا ہے حالانکہ یوٹرن لینے والاقوم کی رہنمائی کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا، انہوں نے چیلنج کیا کہ مجھ پر دبئی اور ملائشیا میں جائیدادیں بنانے کا الزام لگانے والے ثابت کریں تو میں آدھی جائیدادیں ڈیم فنڈ میں دے دوں گا، ، افغانستان اور خطے کی مجموعی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین چالیس برس قبل جو پیشگوئیاں کرتے رہے آج وہ تمام سچ ثابت ہو رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے اس وقت ان پر کئی الزامات لگائے گئے،انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے اور ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسیاں دوسرا بنگلہ دیش بنانے کیلئے کافی ہیں،انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ موجودہ دور میں تعلیم کے ذریعے نئی نسل کو تاریخ مسخ کر کے پیش کی جا رہی ہے جس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی،اسفندیار ولی خان نے کہا کہ حکومت اور مقتدر ادارے نازک صورتحال کا ادراک کریں ،ہم امن کے خواہاں ہیں اور پاکستان ہمسایہ ممالک سے دشمنیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ،انہوں نے کہا کہ تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ خراب تعلقات کے بعد ترقی و امن کا خواب احمقانہ ہے ، انہوں نے واضح کیا کہ مترقی افغانستان کے بغیر پاکستان کا امن کسی صورت بحال نہیں ہو گا دونوں ملکوں کا امن ایک دوسرے سے مشروط ہے،انہوں نے کہا کہ کرتار پور راہداری جیسا رویہ پختونوں کی سرحد پر نہ اپنایا گیا توخدشات میں اضافہ ہو گا، پنجاب بڑا بھائی ضرور ہے لیکن چھوٹے بھائی کے حقوق غصب کرنے سے نفرتیں بڑھتی ہیں،انہوں نے کہا کہ اسلام آباد نے سندھ پر کنٹرول حاصل کرنے کی جو روش اختیار کی ہے اس سے ملک کو نقصان ہو گا، قبائلی اضلاع کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انضمام کے بعد مسلسل خاموشی ہے اور مزید کوئی کام نہیں کیا جا رہا ، قبائلی عوام ایف سی آر کے بعد نئے نظام کی راہ تک رہے ہیں جبکہ اس کے برعکس حکومت نے صوبائی حکومت کے اختیارات گورنر کے سپرد کر کے قبائلی اضلاع کو وفاق کے کنٹرول میں دے دیا ہے،انہوں نے خبردار کیا کہ قوموں کے ساتھ ریاستی مذاق کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔انہوں نے کہا کہ ��کمرانوں کی غیر سنجیدگی کا نقصان ملک کو ہو گا اور عمران سے درست سمت میں ��انے کی توقع رکھنا عبث ہے،انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد حکومت گرانے کا حصہ نہیں بنے گا ، حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے اپوزیشن حکمرانوں کو سیاسی شہید بننے کا موقع نہیں دے گی۔ The post عوام کو پانچ مرغیوں کا فارمولہ دے کر ’باجی‘ خود سلائی مشینوں سے ارب پتی بن گئیں،اسفندیارولی خان نے سنگین الزامات عائد کردیئے appeared first on Zeropoint. Get More News
0 notes
emergingpakistan · 5 years ago
Text
ڈاکٹر مبشر حسن، سیاست دان، مصنف اور ماہرمعاشیات ۔ کئی کتابیں بھی لکھیں
اگر ڈاکٹر مبشر حسن کو پاکستان کی سیاست کا بوڑھا برگد کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ان سے پہلے نواب زادہ نصراللہ خان کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر تھے لیکن اس کے علاوہ وہ سیاست دان، مصنف اور ماہرمعاشیات بھی تھے۔ اس لحاظ سے انہیں کثیر الجہات شخصیت کہا جا سکتا ہے۔ 22 جنوری 1922ء کو پانی پت (بھارت) میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر مبشر حسن 1947ء میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے بی ایس سی سول انجینئرنگ کی اور پھر بعد میں امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے سول انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان (اس وقت مغربی پاکستان) واپس آنے کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1965ء میں بھارت کے ساتھ جنگ کے بعد ان کا سیاسی فلسفہ منظر عام پر آیا۔ انہوں نے اپنا سیاسی منشور ''عوامی اتحاد کا اعلان‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ 
انہوں نے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں ڈیموکریٹک سوشلزم کی وکالت کی۔ ان کی مقبولیت کے پیش نظر ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں مغربی پاکستان بلوا لیا جہاں ڈاکٹر مبشر کے گھر 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کے ساتھ جے اے رحیم، اور کئی دوسرے رہنما بھی موجود تھے۔ سائنس اور سیاست پر وسیع علم رکھنے کی وجہ سے ڈاکٹر مبشر بہت جلد ذوالفقار علی بھٹو کے معتمد ساتھی بن گئے۔ اس کے علاوہ زیڈ اے بھٹو نے انہیں اپنا مشیر بھی بنا لیا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو ڈاکٹر مبشر کو وزیرخزانہ بنا دیا گیا جنہوں نے 1972ء میں وزارت سائنس کے لیے بھٹو کی مدد کی۔ 1974ء میں ڈاکٹر مبشر حسن کے بھٹو کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے جب بھٹو نے ملک معراج خالد کو وزارت قانون سے ہٹا دیا، جن کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ 1974ء میں ڈاکٹر مبشر حسن نے بطور وزیرخزانہ استعفیٰ دے دیا لیکن بھٹو کے ساتھ ان کی وفاداریاں قائم رہیں۔
سنہ1974ء میں ہی بھٹو نے انہیں وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا مشیر مقرر کر دیا۔ ڈائریکٹوریٹ آف سائنس کے ڈائریکٹر ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر مبشر نے ''کہوٹہ پراجیکٹ‘‘ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ 1977ء میں ڈاکٹر مبشر حسن نے پی این اے کے رہنماؤں کو ایک میز پر لانے کے لیے بہت کاوشیں کیں، جو ناکام ثابت ہوئیں۔ 1977ء میں جب جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر خود اقتدار سنبھالا تو ڈاکٹر مبشر حسن کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں اڈیالہ جیل میں بھٹو کے ساتھ رکھا گیا جہاں انہوں نے سات سال گزارے۔ 1984ء میں جیل سے رہا ہونے کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن دوبارہ انجینئرنگ یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے پاکستان کے معاشی مسائل پر کئی مضامین لکھے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) گروپ میں شمولیت اختیار کر لی اور مرتضیٰ بھٹو کی حمایت کا اعلان کیا۔ 
وہ کئی برس پہلے عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ''شاہراہِ انقلاب، رزمِ زندگی اور پاکستان کے جعلی حکمران طبقے‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔ انگریزی زبان میں بھی ان کی جن کتابوں کو پذیرائی ملی ان میں ''برڈز آف انڈس، میراج آف پاور، نیشنل یونٹی، کیا کیا جائے، اے ڈیکلریشن آف یونٹی آف پیپل‘‘ شامل ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے 1988ء میں ''دوست‘‘ نامی تنظیم بنائی جس میں خاصی تعداد میں نوجوان شامل ہوئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ عام لوگوں کو پاکستان کے حقیقی مسائل سے آگاہ کیا جائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ سیاسی شعور دیا جائے۔ یہ تنظیم کچھ عرصہ فعال رہی لیکن پھر تحلیل ہو گئی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں ڈاکٹر مبشر حسن بہت متحرک تھے۔ اس وقت لاہور میں قومی اسمبلی کی آٹھ نشستیں ہوا کرتی تھیں جو ساری پی پی پی نے جیت لیں۔ 
اس زمانے میں الیکشن لڑنا بہت سستا تھا۔ کروڑوں روپوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے کئی امیدواروں نے سائیکل پر اپنی انتخابی مہم چلائی اور کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے باغبانپورہ کے علاقے میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور 85000 ووٹ حاصل کیے۔ ان کا مخالف امیدوار ذکاالرحمان صرف 10000 ووٹ حاصل کر سکا اور اس کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس وقت ''بھٹو لہر‘‘ تھی اور پی پی کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔ ڈاکٹر مبشر حسن 1977ء میں پی پی پی کے سیکرٹری جنرل تھے۔ جب پی این اے کی تحریک عروج پر تھی تو انہوں نے اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس پر انہیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کہا گیا کہ انہوں نے مشکل وقت میں بھٹو صاحب کا ساتھ چھوڑ دیا۔ بہرحال انہوں نے کیوں استعفیٰ دیا اور اس وقت کیوں دیا، ابھی تک ایک معمہ ہے۔ 
پیپلز پارٹی کے بانی رکن اسلم گورداسپوری نے اپنی خودنوشت میں دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر مبشر حسن پیپلز پارٹی کے بنیادی رکن نہیں تھے۔ چند برس قبل روزنامہ ''دنیا‘‘ میگزین کو ایک انٹرویو میں بھی انہوں نے واشگاف الفاظ میں یہ کہا تھا۔ بہرحال پیپلز پارٹی کی طرف سے اس دعوے کی کبھی تردید نہیں کی گئی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا تو ڈاکٹر مبشر حسن ضیاالحق کے پاس گئے تھے اور انہیں کہا تھا کہ وہ بھٹو کو پھانسی نہ دیں۔ ڈاکٹر مبشر کے بقول ضیاالحق نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ بھٹو کو سزائے موت نہیں دی جائے گی لیکن بعد میں کیا ہوا یہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن طویل عرصے سے بیمار تھے۔ 14 مارچ 2020ء کو فرشتہ اجل آن پہنچا اور وہ 98 برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔
عبدالحفیظ ظفر
بشکریہ دنیا نیوز
1 note · View note
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
مہنگائی کا جن اور میڈیا پر قدغن کی سازش
مہنگائی کا جن اور میڈیا پر قدغن کی سازش
ہمارے محلے میں ایک چنے کی ریڑھی لگانے والے سے ہم اکثر صبح ناشتے کے لئے پچاس روپے کے چنے لیتے تھے ،کچھ دن قبل جب اس کے گھر گیا تو اس نے بتایا کہ کاروبار کرنا اب غریب اور سفید پوش پاکستانی کے بس میں نہیں رہا، چنے، گھی ،گیس ،بجلی ،پیاز ،آلو ،دہی ،مرچ ،کوئلے وغیرہ کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں جبکہ  اس کے برعکس عام آدمی بیس ،پچاس کے ہی چنے مانگتا ہے ،منافع نہ ہونے کے باعث اس نے کام چھوڑ دیا ،ایسی ملک بھر میں آپ کو ہزاروں مثالیں ملیں گی ،مہنگائی کے طوفان نے بے روزگاری میں دگنا اضافہ کردیا ہے ، یہ تو شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات نے رزق کا ذمہ لیا ہے ورنہ تبدیلی سرکارہر نوالے پر ٹیکس لگانے کو تیار بیٹھی ہے اور یہ پراپیگنڈہ بھی جاری ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے ،عوام خاص کر متوسط طبقے کا جو حال تبدیلی سرکار کے ��ین سال میں ہواہے وہ گزشتہ ستر سال میں نہیں ہوا ،بجلی ،گیس ،پیٹرول ،ڈیزل ،اشیا خورنی ودیگر ضروریات زندگی کے نرخ تقریباًدوگنے ہوگئے ہیں لیکن حکمران اور ان کے وزراء کی فوج ظفر موج کا سارا نزلہ اور الزام سابقہ حکمرانوں پر ہی گرتارہا ہے ،آدھے دن بجلی نہ ہونے کے باوجود بل ہزاروں میں آتاہے ،ادویات ودیگر ضروریات زندگی جن میں کپڑے ،یونیفارم ،درسی کتب ،ٹیوشن ،سکول فیسز ،عوام کی  پہنچ سے بہت دور ہوتی جارہی ہیں ،اب حال یہ ہوگیا ہے کہ چھوٹے تاجر اپنا کاروبار ختم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ دکان کا کرایہ اور یوٹیلیٹی بلز دینے کی ان کی استطاعت اب رہی نہیں اوپر سے سونے پر سہاگہ کورونا نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے ،جس کے باعث تاجر حضرات اپنے ملازمین کو فارغ کررہے ہیں یا ان کی اجرت میں کمی کرنے پر مجبور ہیں ،ادھار مانگنے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ،ادھار لینے کے بعد اسے ادا کرنا مشکل ہوجاتاہے ،کیونکہ قلیل تنخواہوں میں اور کاروباری حالات ناگفتہ بہ ہونے کے باعث پورے ماہ کا خرچ چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے ،چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں ،لوگ فاقوں پر مجبور ہیں ،ایک سروے کے مطابق گزشتہ تین سال میں ملک کی آدھے حصے سے زائد آبادی غربت کی سطح سے نیچے رہنے پر مجبور ہے ، جبکہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ تبدیلی سرکار کے دور میں اپنے ہمسایہ ملکوں بھارت ،افغانستان ،ایران اور بھوٹان ،برما ،بنگلہ دیش ،سری لنکا وغیرہ کی نسبت تگنی ہوگئی ہے ،لیکن اس کے باوجود ہمارا خزانہ خالی ہے ،ستر سال کی نسبت قرضہ تین گنا لیا گیا، کوئی میگا پراجیکٹ بھی شروع نہیں کیا گیا ،پھر بھی عوام کی بہتری وخوشحالی کے لئے کوئی اقدامات کرنا تودرکنار انہیں زندہ درگور کرنے کا سلسلہ جاری ہے،خودکشیاں عام ہورہی ہیں ،کرپشن کو ختم کرنے والی عمران سرکار کے تین سالہ دور میں ادارے تباہ وبرباد ہوگئے ہیں ،کرپشن کا ناسوردن بدن بڑھتا بلکہ اپنی انتہائی بلندی کی سطح پر پہنچ چکا ہے ،لیکن تبدیلی سرکاراور ان کی کابینہ درپردہ افسر شاہی ،اسٹیبلشمنٹ مطمئن ہے ،دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل اور اسباب کو لوٹا جارہا ہے لیکن ہمارے احتسابی ادارے صرف سیاسی انتقام میں مصروف ہیں ،انہیں کرپشن صرف سابقہ ادوار کی نظر آتی ہے ،موجودہ دور میں سب انہیں دودھ کے دھلے ہوئے نظر آتے ہیں ،وسائل کی بندر بانٹ شروع ہے، کروڑوں کے پلاٹس کو ڑیوں کے بھائومن پسند لوگوں ،افسران ،ججز،جرنیلز،صحافیوں ،افسر شاہی ،سیاستدانوں میں بانٹے جارہے ہیں جبکہ غریبوں کو چھتوں سے محروم کیا جارہاہے ،ان کے بچوں کے لئے اب تعلیم کا حصول ناممکن ہوگیا ہے ،کورونا کے باعث سکول ،کالجز بند ،تعلیمی معیار جو کہ پہلے ہی ناقص تھا ،اب زمین بوس ہوگیا ہے ،والدین پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بھاری فیس ادارے بند ہوجانے کے باوجود ادا کرنے سے قاصر ہیں، لہٰذا انہوںنے اپنے بچوں کو نکالنا ��روع کردیاہے ،ہماری شرح خواندگی جو پہلی ہی بہت کم ہے ،مزید کم ہوگئی ،چھوٹی صنعتیں بے پناہ ٹیکسز اور گیس وبجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث بند ہورہی ہیں، کاروباری افراد دیگر ممالک میں بمعہ اپنے کاروبار کے منتقل ہورہے ہیں جب میڈیا ان مشکلات اور مہنگائی ،بے روزگاری کی طرف حکومت کی توجہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے مبذول کراتا ہے تو ان کی زبان بندی کے لئے تمام تر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں ،میڈیا کا گلا گھونٹنے اور انہیں اپنی جوتی کی نوک پر رکھنے کے لئے میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے لئے حکمران بضد ہیں جبکہ پاکستان کی تمام تر صحافتی یونیز ،ادارے ،وکلاء بارکونسلزاسے مکمل مسترد کرچکے ہیں لیکن حکومت میڈیا کا گلا گھونٹنا چاہتی ہے تاکہ اس کا کچا چٹھہ عوام کے سامنے نہ آسکے ،حکومت اور درپردہ اصل حکمرانوں یعنی اسٹیبلشمنٹ نے ویسے بھی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو تقریباً خاموش کرا رکھا ہے لیکن سوشل میڈیا عوامی مشکلات ،مہنگائی اور حکمرانوں کے کردار ،کرپشن کی نشاندہی کررہا ہے ،میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگانے کی مذموم سازش ہے جسے عالمی سطح پر ہرگز تسلیم نہیں کیا جائے گا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اگر کوئی میڈیا کے سلسلے میں قانون بنانا چاہتی ہے تو وہ تمام ملکی صحافتی یونین ودیگر سنیئر صحافیوں سے مشاورت کے بعد قانون بنائے بصورت دیگر صحافی اور صحافتی تنظیمیں بھی عوام ،وکلاء اور سیاستدانوں کی طرح احتجاج پر مجبور ہوں گی ،اور مہنگائی  کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے سلسلے میں اپوزیشن کا کردار انتہائی مجرمانہ اور غافلانہ ہے ،وہ الیکشن کے دنوں میں تو میدان عمل میں کود پڑتے ہیں ،لیکن مہنگائی کے خلاف ان کا کوئی اقدام ،تحریک قومی وصوبائی ایوانوں اور سیاسی میدان میں نظر نہیں آتا۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
weaajkal · 6 years ago
Photo
Tumblr media
اب کوئی نیا بنگلا دیش بننے نہیں دیں گے: آصف علی زرداری @AAliZardari #Bangladesh #aajkalpk ٹنڈو آدم: پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم پر ڈاکہ پڑتا نظر آرہا ہے مگر ہم اپنے حق کے لیے لڑیں گے، اب کوئی نیا بنگلا دیش بننے نہیں دیں گے، گھبرانے کی ضرورت نہیں، ان کی ٹانگیں ابھی سے ہی ڈگمگا رہی ہیں۔ سابق صدر آصف زرداری ٹنڈو آدم پہنچے جہاں انہوں نے نجی میڈیکل کالج کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر سینیٹر امام الدین شوقین کی جانب سے آصف زرداری کو اونٹنیوں کا تحفہ دیا گیا۔ میڈیکل کالج کے ا��تتاح کے بعد جلسے سے خطاب میں آصف علی زردای نے کہا کہ ہمیں اپنے حق کیلئے لڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا، بلوچستان، پنجاب، کے پی اور سندھ ساتھ ہے۔ حسین حقانی میمو گیٹ اسکینڈل دوبارہ کھلنے کو سیاسی تماشہ قرار دے دیا انہوں نے کہا کہ ہم نے اسی بجٹ میں ملک چلایا تھا، پیپلز پارٹی کو عوام کی فکر تھی اسی لیے آتے ہی تنخواہیں بڑھادی تھیں، سندھی میں اس لیے نہیں بولتا کہ سننے والے نہیں سمجھتے۔ آصف زرداری نے کہا کہ ہماری ان سے جنگ پاکستان کے وسائل کیلئے ہے، الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ یہ ڈھونگ اٹھارویں ترمیم کیلئے کیا جارہا ہے، اب سول ایوی ایشن کا کنٹرول بھی اسلام آباد منتقل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارے بزرگوں نے بنایا، مذاکرات کے ذریعے پاکستان حاصل کیا گیا، اب کوئی نیا بنگلہ دیش نہیں بننے دیں گے۔
0 notes
maqsoodyamani · 4 years ago
Text
توپھرآپ کاویزاکیوں نہ منسوخ کیاجائے؟’بنگلہ دیش میں انتخابی مہم‘ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی دراندازی پربولنے کاحق نہیں،مودی کے بنگلہ دیش دورہ پرممتابنرجی کا الیکشن کمیشن سے نوٹس کامطالبہ
توپھرآپ کاویزاکیوں نہ منسوخ کیاجائے؟’بنگلہ دیش میں انتخابی مہم‘ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی دراندازی پربولنے کاحق نہیں،مودی کے بنگلہ دیش دورہ پرممتابنرجی کا الیکشن کمیشن سے نوٹس کامطالبہ
توپھرآپ کاویزاکیوں نہ منسوخ کیاجائے؟’بنگلہ دیش میں انتخابی مہم‘ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی دراندازی پربولنے کاحق نہیں،مودی کے بنگلہ دیش دورہ پرممتابنرجی کا الیکشن کمیشن سے نوٹس کامطالبہ   کولکاتا27مارچ(آئی این ایس انڈیا)   بنگال الیکشن کے وقت مودی بنگلہ دیش کے سہ روزہ دورے پرہیں،دوسری طرف وہ بنگا ل میں بنگلہ دیشی دراندازی کاالزام بھی لگاتے رہے ہیں۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ اورترنمول کانگریس کی…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 6 years ago
Text
اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش میں انتخابات کی آزادانہ چھان بین کا مطالبہ کر دیا
اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش میں تیس دسمبر کو ہوئے قومی انتخابات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس الیکشن کے نتیجے میں عوامی لیگ کی شیخ حسینہ کو مسلسل تیسری بار وزیر اعظم بننے کا موقع مل گیا تھا۔ بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا سے ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ نے جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں گزشتہ ماہ کے اواخر میں مکمل کیے گئے انتخابی عمل کی غیر جانبدارانہ چھان بین کا مطالبہ ملکی اپوزیشن اتحاد کے ان الزامات کی روشنی میں کیا ہے کہ اس الیکشن میں دانستہ تشدد کیا گیا تھا اور کئی انتخابی حلقوں میں وسیع تر دھاندلی بھی کی گئی تھی۔
ان انتخابات کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ اور اس کی حامی سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے پارلیمان کی 90 فیصد سے زائد سیٹیں جیت لی تھیں۔ ملکی اپوزیشن اتحاد کا الزام ہے کہ یہ کامیابی انتخابی دھاندلی، بے قاعدگیوں اور اس تشدد کے نتیجے میں حاصل کی گئی تھی، جس نے کم از کم بھی 19 افراد کی جان لے لی تھی۔ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی یا بی این پی ان انتخابی نتائج کو سرے سے مسترد کر چکی ہے جبکہ شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کا دعویٰ ہے کہ اس الیکشن میں کوئی دھاندلی نہیں کی گئی تھی اور انتخابی عمل ’شفاف اور پرامن‘ تھا۔
اس تناظر میں اقوام متحدہ کی طرف سے اب کہا گیا ہے، ’’ہم حکام سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انتخابی عمل کے دوران دھاندلی، تشدد کے واقعات اور انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کی مکمل طور پر فوری، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں، جن کے باعث کئی انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور جن کے ذمے دار افراد کو ان کی سیاسی وابستگیوں سے بالکل قطع نظر قانونی طور پر جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔‘‘ حالیہ ملکی انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی نئی بنگلہ دیشی پارلیمان کا اولین اجلاس ڈھاکا میں ہوا تھا، جس میں شیخ حسینہ سمیت ان کی پارٹی کی قیادت میں قائم سیاسی اتحاد کے تمام نو منتخب ارکان نے حصہ لیا تھا۔ اپوزیشن کے سبھی نو منتخب ارکان، جن کی تعداد صرف سات ہے، اس اولین اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے.
بنگلہ دیشی اپوزیشن کا تیس دسمبر کی رائے دہی کے بعد سے اب تک یہی الزام ہے کہ ان انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی، اور یہی وجہ ہے کہ حکمران سیاسی اتحاد پارلیمان کی 90 فیصد سے زائد نشستیں جیتنے میں کامیاب رہا تھا۔ اپوزیشن مسلسل یہ مطالبہ بھی کر رہی ہے کہ ملک میں نئے سرے سے قطعی آزادانہ انتخابات کرائے جانا چاہییں۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق سے بھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ حالیہ انتخابی عمل کی آزادانہ چھان بین میں بڑھ چڑھ کر اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے۔ قبل ازیں نیو یارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی یہ الزام لگایا تھا کہ بنگلہ دیش میں ’حالیہ عام انتخابات سے پہلے کا ماحول تشدد، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مخالفین کا سیاسی پیچھا کرنے اور آزادی رائے کے بنیادی حق کو انتہائی محدود کر دینے سے عبارت تھا‘۔
 بشکریہ DW اردو  
0 notes
pakistantime · 6 years ago
Text
بنگلہ دیش : اپوزیشن نے انتخابی نتائج مسترد کر دیے
بنگلہ دیش میں گیارہویں عام انتخابات میں پولنگ کے دوران مختلف پر تشدد واقعات میں 17 افراد ہلاک ہوئے اور پولنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی اپوزیشن نے انتخابات کے نتائج مسترد کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کر دیا۔ انتخابات میں پولنگ کے دوران اپوزیشن کے حامیوں کو دھمکیوں اور حکمراں جماعت عوامی لیگ پارٹی کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کی شکایات بھی موصول ہوئیں۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بنگلہ دیش میں ہونے والے انتخابات کو موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی طاقت ور حکمرانی کی وجہ سے ایک ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے جس میں تیسری مدت کے لیے شیخ حسینہ واجد کے منتخب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
خیال رہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ اور اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو بدعنوانی کے الزامات میں قید کی سزا کے بعد نااہل قرار دیا گیا تھا ۔ دوسری جانب خالدہ ضیا کی غیر موجودگی میں اپوزیشن جماعتوں نے 82 سالہ کمال حسین کی سربراہی میں اتحاد تشکیل دیا ہے، کمال حسین نے آکسفورڈ سے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور وہ شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے سابق رکن بھی ہیں۔ اس مرتبہ بنگلہ دیش کے انتخابات میں 10 کروڑ 40 لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل ہیں جن میں سے اکثر نوجوانوں نے پہلی مرتبہ حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ مقامی و غیر ملکی میڈیا کے مطابق ووٹنگ شروع ہونے کے بعد سے ووٹنگ ختم ہونے تک ملک کے 6 اضلاع میں اپوزیشن اور حکمراں جماعتوں کے درمیان تصادم میں 17 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پولیس نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
اے پی کو بنگلہ دیش سے 50 سے زائد افراد کی فون کالز موصول ہوئیں جنہوں نے اپنا تعارف اپوزیشن جماعت کے حامیوں کے طور پر کروایا، انہوں نے پولنگ بوتھ میں حکمراں جماعت کی جانب سے دھمکیاں موصول ہونے اور عوامی لیگ کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کی شکایات کیں۔ بنگلہ دیش کے چیف الیکشن کمشنر کے ایم نور الہدیٰ نے بتایا کہ ’ کچھ حادثات پیش آئے ہیں، ہم نے حکام سے معاملات حل کرنے کا کہا ہے ‘۔ یوریشیا گروپ کے جنوبی ایشیائی تجزیہ کار ساشا رائزر کے مطابق ’ اپوزیشن کو شکست دینے کے لیے حسینہ واجد کی جانب سے ریاستی مشینری کا استعمال ان کی انتخابی کامیابی کو یقینی بناتا ہے‘۔ حسینہ واجد نے اپنی بیٹی اور بہن کے ہمراہ ڈھاکا میں ووٹ کاسٹ کیا، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ’ ووٹرز ہمیں ایک اور موقع دیں گے تاکہ ہم ترقی کو بڑھائیں اور بطور ترقی پذیر ممالک بنگلہ دیش کو مزید آگے بڑھائیں‘۔
دوسری جانب کمال حسین نے بھی ڈھاکا میں ووٹ کاسٹ کیا، ان کا کہنا تھا کہ انہیں مختلف حصوں سے دھمکیوں اور ووٹ ٹیمپرنگ سے متعلق شکایات موصول ہورہی ہیں‘۔ بنگلہ دیش بھر میں قائم 40 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن 4 بجے بند ہو گئے جس کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ بنگلہ دیش میں گیارہویں عام انتخابات کے موقع پر 6 لاکھ سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے جن میں فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے اہلکار بھی شامل تھے۔
پولنگ کے دوران ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے بنگلہ دیش میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل رہیں۔ عام انتخابات کے دوران بنگلہ دیش کے بڑے نیوز چینل کی نشریات کو بند اور 7 صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اے ایف پی کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب بنگلہ دیش کے بڑے نیوز چینل کو بند کر دیا گیا۔ حکام نے اتوار کو تصدیق کی کہ نجی ٹی وی چینل جمونا کی نشریات ملک بھر میں معطل کر دی گئی ہیں۔ چینل کے چیف نیوز ایڈیٹر فہیم احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ کیبل آپریٹرز نے ہمارے چینل کو بغیر کسی وضاحت کے بند کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم اب بھی اپنی نشریات چلارہے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں کوئی بھی ہمارا چینل نہیں دیکھ سکتا، تاہم ہماری نشریات کو آن لائن دیکھا جا سکتا ہے۔
اپوزیشن کا انتخابات کالعدم قرار دینے کا مطالبہ بنگلہ دیش اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کمال حسین نے ملک میں جاری عام انتخابات کو ’ مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے نتائج کو مسترد کیا جائے گا۔ پولنگ کے اختتام کے چند گھنٹوں بعد میڈیا بریفنگ میں کمال حسین نے کہا کہ ’ اپوزیشن الیکشن کمیشن سے انتخاب کو کالعدم قرار دینے اور ایک غیر جانبدار حکومت کی زیر نگرانی نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کرتی ہے‘۔ کمال حسین نے کہا کہ اپوزیشن کے تقریباً ایک سو امیدوار آج ملک میں جاری انتخابات سے دستبردار ہو گئے تھے۔
خیال رہے کہ چند روز قبل بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں کی نے انتخابات کے پیشِ نظر پولیس نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ساڑھے 10 ہزار سے زائد کارکنان کو حراست میں لیے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔ علاوہ ازیں انتخابی مہم میں مختلف تصادم میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے جبکہ انتخابات سے چند روز قبل نواب گنج میں صحافیوں پر بھی نامعلوم افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 10 صحافی زخمی ہو گئے تھے۔ خیال رہے کہ حسینہ واجد نے انتخابی مہم کے دوران ملکی معاملات چلانے کے لیے نگراں حکومت کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ حکمراں جماعت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے 2014 کی تاریخ دہرانے سے اجتناب کیا جا رہا ہے جب خالدہ ضیا اور ان کی جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور ووٹر ٹرن آؤٹ 22 فیصد رہا تھا۔ مزید برآں پارلیمنٹ کی 3 سو نشستوں میں سے نصف سے زائد پر مقابلہ نہیں ہوا تھا جبکہ عوامی لیگ کی فتح پر ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ 1990 سے لے کر اب تک بنگلہ دیش میں حسینہ واجد یا خالدہ ضیا نے اپنی حکومتیں قائم کی ہیں اور یہ دونوں طاقتور خواتین ایک وقت میں قریبی اتحادی رہنے کے بعد اب ایک دوسرے کی خطرناک سیاسی دشمن بن چکی ہیں۔  
0 notes