#ایرا��ی
Explore tagged Tumblr posts
sadeghazadi · 5 years ago
Text
ارسالى از مخاطبین كانون پناهجویان ایران
منتشر شده در: کانون پناهجویان ایران
ارسالى از مخاطبین كانون پناهجویان ایران
مرز یوان امروز
منتشر شده توسط: Muhamad Ghazizade
من اصالتا هندی هستم ولی متولد و بزرگ شده ایرانم
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
اسم و فامیلی پدر بزرگتو میگی اونا میرن آزمایش دی ان ای شما رو چک میکنن ک بفهمن نکه خیلی مهمی
پدرم فوت شده داخل ایران دفن شده
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
سپاسگذارم
یعنی چی چپ و راست به همه نظر میدی
حالا هندی هستی شناسنامه هندی داری
منتشر شده توسط: mori pouladi
شما ماله هرجا هستی اول باید اون و ثابت کنی.
منتشر شده توسط: Davood Abid
چه پیچیده شد
میگم که داخل ایرا متولد شدم شناسنامه ایرانی دارم ولی شماسنامه پدرم هس
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
پاسپورتش منظورمه
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
به کی؟
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
عجب خب بازم در اینصورت بخاطر طرز فکر قشنگ شما براتون ی راحلی پیدا میکنن ک هر چ سریعتر نجاتتون بدن ببرنتون پهلو خودشون بشوننت
خود هندی ها تو اروپا فارسی یاد میگیرن که ایرانی خودشونو جا بزنن اگه هندی هستی صداش رو در نیار
منتشر شده توسط: Chotte Lal
اگه پدرم بود که مشکلی نداشتم عزیز
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
سلام
منتشر شده توسط: دیاکو .
احسنت
منتشر شده توسط: Mehrdad
به همونی که میخوای بگی
خودت داری میگی می تونم بگم.؟
منم عرض کردم باید ملیت خودت رو اول باید ثابت کنی نه اینکه درگیر بشی که یک ملیت رو رد کنی از خودت
منتشر شده توسط: Davood Abid
اگه هندی هستی مثلا
مدارک موجود + عکس و مستندات ارائه می‌کنی
بعد اگر سوال شد جریان ایران چیه توضیح میدی ، البته نه به این شفاشی
منتشر شده توسط: Davood Abid
لطفا اگر اطلاعات ندارید از رو هوا صحبت نکنید
منتشر شده توسط: mori pouladi
مثلا میخاد بگ نوه خمینیه
بابا چرا فک میکنی شوخی میکنم.من مدارک از پدرم دارم که میتونم ثابت کنم پدرم ماله کجا هست.خودمو میگم میتونم از این طریق کاری بکنم؟
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
بی شوخی چند مورد پاکستانی و هندی میشناسم تو یونان خودشونو ایرانی معرفی کردن ��رخ قبولی هندی یا پاکستانی خیلی پایینه
منتشر شده توسط: Chotte Lal
برو پاس هندی بگیر از هند بیا
منتشر شده توسط: mori pouladi
متولد کجایی؟
سلام دوستان .میگن این تایمی که دوبلین بخاطر کرونا متوقف شده محفوظه و بعد ازبحران کرونا دوباره باید سپری بشه که ۶ ماه کامل بشه.آیا این داستان حقیقت داره؟یعنی جزو ماده و تبسره قانون دوبلینه؟
بهتر از پاس ایرانی؟؟
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
ایران
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
ایرانی هستی
منتشر شده توسط: Davood Abid
مدرک ایرانی داری؟
منتشر شده توسط: Davood Abid
نمیدونم تو اصرار داری
منتشر شده توسط: mori pouladi
مدرک هندی نداری؟
منتشر شده توسط: Davood Abid
اصرار ندارم خاستم بدونم ازین طریق میشه کاری کرد
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
گفتم پاس هندی بگیر بیا
منتشر شده توسط: mori pouladi
ن
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
خب وقتی بکارم نیاد وقتی از پاس ایرانی ضعیفتره چرا بگیرم؟؟
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
چه کار میخواهی بکنی ؟
منظورت از کاری کردن چیه؟
منتشر شده توسط: mori pouladi
مرسی
اگه پاس هندی بتونی بگیری میتونی تا صرب بدون ویزا بری
منتشر شده توسط: Chotte Lal
واقعا؟؟
منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
کلا رد دادی خودت اصرار داری ثابت کنی هندی هستی
منتشر شده توسط: mori pouladi
پاس هندی مگه معتبره؟
نوشته ارسالى از مخاطبین كانون پناهجویان ایران اولین بار در کاولا. پدیدار شد.
from WordPress https://ift.tt/33KJdrl
via IFTTT from Tumblr https://ift.tt/3ahmIwu via IFTTT
نوشته ارسالى از مخاطبین كانون پناهجویان ایران اولین بار در کاولا. پدیدار شد.
from WordPress https://ift.tt/39jMwXI via IFTTT
0 notes
dhanaklondon · 6 years ago
Text
ریسرچ سکالر ادارہ:احمدمنیب لاہور پاکستان عالمی تنقید ی پروگرام نمبر 189بعنوان : در صنعت ضرب الامثال
ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری کی جانب سے پیش کرتے ہیں عالمی تنقیدی پروگرام نمبر189
فی زمانہ دنیا کی ہر زبان دوسری زبانوں سے اثر پذیر دکھائی دیتی ہے۔ ہماری زبان اردو تو ہے ہی لشکری زبان!
تاریخ کے جھروکے اردو اصلاً برِّص��یر کی زبان ہے۔ اس کی جڑیں سنسکرت سے ہوتی ہوئی ازمنہ قدیم کی اُس اُمُّ الالسنة سے جا ملتی ہیں جو روسی علاقہ کی وادیِ یورَل اور قازقستان،ابقازیہ اور اوسیشیا کے علاقوں میں بولی جاتی تھی جسے ماہرین علمِ لسانیات پروٹو اِنڈو یوروپین کے اسم سے موسوم کرتے ہیں۔ اس کا مخففPIE ہے اور یہی عام طور سے مستعمل ہے۔
دوسری طرف وہ ہزار برس کا عرصہ جس میں برِّصغیر پر مختلف مسلم قبائل کا تسلط اور اثر و رسوخ رہا اس دوران اردو پر عربی ،فارسی اور تُرکی بھی اثر پذیر ہوئی۔ فارسی اور ترکی کا اثر تو یوں رہا کہ سنسکرت اور فارسی کا شجرہ دوچار صدیاں اوپر جا کر مل جاتا ہے۔ عربی کا اثر یوں ہوا کہ برصغیر میں اردو کی ابتدائی بول چال کو عام کرنے کا سہرہ مسلمانوں کے سر بندھا۔ ہاں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان کے ہر طبقہء عوام میں یہ زبان عام ہو گئی۔ کُچھ پر جوش لکھنے والے تو یہاں تک پہنچ گئے کہ وہ آج اردو کو مشرف بہ اسلام کر کے خالصۃً مسلمانوں کی کیا بلکہ ایک اسلامی زبان قرار دے دینا چاہتے ہیں لیکن یاد رہے کہ مذہب انسانوں کا ہوتا ہے،زبانوں کا نہیں ۔ زبان تو جیسے آغوشِ مادر ہے جو اپنے ہر بچے کے لئے ہمیشہ وقف رہتی ہے بعینہ جس نے زبان کو اپنا لیا، زبان اسی کی ہو گئی۔ جیسے کثیر الاولاد ماں کا کوئی ایک بچہ ماں کی مامتا پر بلا شرکتِ غیرے قبضہ نہیں جما سکتا اُسی طرح کوئی ایک ملک، انسانوں کا گروہ، یا کوئی ایک قوم یا قبیلہ، کسی زبان کو زبردستی اپنی کہہ کر دنیا کے باقی لوگوں کو اس زبان کی قبولیت سے بے دخل نہیں کر سکتا۔ اور کسی بھی زبان کی مقبولیت کا راز یہی ہے کہ ہر قوم اور قبیلہ اور ہر علاقہ کے لوگ وہ زبان بولتے اور اسے اپنی زبان سمجھتے ہوں ۔ بنیادی طور سے صوتیات اور اُن کا باہمی تال میل اور رشتہ داری کے میکینزم کو علمِ لسانیات کی اصطلاح میں phonology کہتے ہیں ۔اور پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ صوتیات کی تنظیم سے بننے والے الفاظ کس طرح محاورہ جات کو جنم دیتے ہیں۔
صوتی اکائیوں سے الفاظ کی بناوٹ کا عمل و نظام علم لسانیات کی اصطلاح میں morphology کہتے ہیں ۔ یعنی الفاظ کو جوڑ کر با معنیٰ جملے کیسے معرض وجود میں آتے ہیں؟ اسے گرامر کہتے ہیں۔ سو یہ زبان کی تنظیم اور پہچان کا شجرہ ہے جبکہ طرزِ تحریر بہت بعد میں آتا ہے۔ در اصل کوئی بھی زبان کسی بھی طرزِ تحریر میں لکھی جا سکتی ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان نے بولنا تو اپنی خلقت کے ساتھ سیکھا تھا یا وہ اس کو اپنی خلقت کے ساتھ لے کر آیا تھا، لیکن طرزِ تحریر ہزاروں برس بعد ��جربات اور مشاہدات سے ایجاد ہوا۔ یہ بات ہر زبان کے ساتھ درست ہے۔ ہندوستان سے اردو کو ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ کچھ بھی نہ ہوا تو بمبئی کی فلم انڈسٹری اردو کو قائم رکھے گی۔ ہندی دیوناگری میں اردو لکھی جا رہی ہے، ہمیں یقین ہے کہ کچھ دنوں میں دیو ناگری میں نئے حروف ایجاد ہو جائیں گے جو ز،ذ، ظ اور ض وغیرہ کے صوتی آہنگ لیے ہوں گے۔
یاد آیا اختر شیرانی کے والد ماجد حافظ محمود شیرانی نے پنجاب میں اردو کتاب میں یہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو کا ماخذ عربی ہے کیونکہ اس کا رسم الخط یعنی نستعلیق عربی نسخ سے ماخوذ ہے۔ دراصل نستعلیق ہم نے فارسی سے مستعارلیا ہے۔ اور فارسی نے اس کو عربی سےلیاتھا۔ بہر حال علمائے لسانیات کی تحقیق جو کہ واضح شواہد رکھتی ہے، یہی ہے کہ اردو کی بنیاد، یعنی اس کا صوتی ساختیہ، خاص طور سےاس میں متحرک صوتیات(vowels)کا نظام کامل طور پر کھڑی بولی کا ہے جو کہ سنسکرت کی بیٹی ہے۔ کھڑی بولی کے سب سے پہلے شاعر کبیر داس ہیں۔ البتہ عربی کے امتزاج سے اردو میں بہت سی صوتیات در آئی ہیں جو سنسکرت کی کسی شاخ میں نہیں پائی جاتیں۔ سب سے زیادہ واضح مثالز کی آواز ہے۔ ہندوستان کی کسی مقامی زبان میں کہیں بھی ز کی آوا ز نہیں ہے۔ چاہے آپ نیپال چلے جائیں چاہے سری لنکا، یا آپ بنگال اور آسام کو دیکھ لیں یا بمبئی، پونا اور گوا کی زبانیں دیکھ لیں یا گجراتی اور سندھی کو پرکھ لیں۔ علاوہ ازیں ذ،ظ، ض اور دوسری طرف ص اور ث وغیرہ۔ یہ خالص عربی صوتیات ہیں۔ ان سب آوازوں کی وجہ سے اردو کا اپنا ایک انوکھا مزاج ہے اور اس کے الفاظ اور محاورات میں ایک خاص معنویت پیدا ہو گئی ہے۔خاص طور سے عربی کی شاعری نظام سے اردو نے بہت اکتساب کیا ہے۔ پروٹوانڈو یوروپین کا زمانہ آج سے دس ہزار سال قبل کا ہے۔ جسے برونز ایج کہتے ہیں ۔ یوروپ کی آخری آئس ایج یعنی ازمنۂ جمادی کے اختتام پر اس کا آغاز ہوا اور پہاڑوں کی گپھاؤں میں رہائش پذیر باہر نکلے، جمے ہوئے دریا بہ نکلے، زمین نے انتہائی خوشگوار سانس لی اور زرخیزی نے تیزی سے ترقی کی۔ جنگل تو پہلے ہی سے موجود تھے، انسان نے کاشت کاری شروع کی۔ جانوروں کا شکار کر کے اور گرمی کے صرف تین ماہ کے دوران پھل ترکاری پر گزارہ کرنے والے طرح طرح کی فصلیں اگانے لگے۔ اُنہوں نے گھوڑوں کو سَدھایا۔ پہیہ ایجاد کیا، دو پہیے جوڑ کر گاڑیاں معرض وجود میں آئیں اور چار کو جوڑ کر رتھ بنائے گئے۔ یوں دور دور کے سفر کے قابل ہو گئے۔
ان کے تین بڑے گروہوں نے مختلف علاقہ جات میں ہجرت کر کے آبادکاری کی۔ ایک گروہ اڑھائی ہزار سال قبل ہندوستان میں وارد ہوا۔ اس سلسلہ سے سنسکرت وجود میں آئی اور اسی سنسکرت کی بیٹیاں شور سینی اور پراکرت کی مختلف شاخیں بنیں ۔جن میں برج بھاشا، اودھی، بُندیلی اور کھڑی بولی ہیں جب کہ دوسری طرف بنگالی ، آسامی، مراٹھی،وغیرہ ہیں۔ ہندوستان کی پرانی زبانیں دراوِڑ خاندان کی مرہون منت ہیں۔ جب ہندوستاں کے شمال میں یوروپ کے برفانی علاقوں سے آنے والے آریائی آباد ہوئے تو انہوں نے دھیرے دھیرے مقامی دراوڑ بولنے والوں کو جنوب اور جنوب مغرب کی طرف دھکیل دیا۔ لہٰذا اب دراوڑ زبانیں بولنے والے جنوبی ہندوستان اور سری لنکا تک جا پہنچے۔اِن زبانوں میں تامِل، تیلگو، ملیالم اور کنّڑا وغیرہ شامل ہیں ۔ حیدر آباد دکن کی بولی میں دراوڑ کے اثرات آج بھی پائے ہیں۔
آریائی اقوام کا دوسرا گروہ ایران اورافغانستان نیز وسطی ایشیا کہ کچھ میدانی علاقوں تک پہنچا۔ وہاں اویستھا اور پہلوی زبانوں نے جنم لیا جس سے فارسی، داری اور ہندکو وغیرہ ایجاد ہوئیں ۔
ان کا تیسرا گروہ یوروپ کے میدانی علاقوں آباد ہوا۔ یوروپ کے علاقوں میں اُبھرنے والی زبانوں کے دو بڑے گروہ ہیں ۔ ایک جرمینِک، جس میں انگریزی،نارویجین، ڈینِش، ولندیزی اور جر من زبانیں ہیں۔ دوسرا بڑا گروہ رومانس دو قدیمی زبانوں کا ماخذ بنا۔ لاطینی اور یونانی۔ لاطینی سے فرانسیسی، ہسپانوی اور دیگر اطالوی زبانوں نے جنم لیا۔ بالٹِک اور سلاوِک زبانوں کا بھی ایک گروہ ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی چھوٹے چھوٹے زبانوں کے کئی گروہ ہیں ۔
ان زبانوں کے ارتقا میں علاقائی اور معاشرتی روایات ، معاشی حالات اور مذہبی روایات و رسوم کا بھی حصہ ہے جو وقتاً فوقتاً اُن جغرافیائی علاقوں میں رہے ہیں۔ مثلاٙٙ ابتدا میں چونکہ سبھی لوگ سخت سردی والے علاقہ کے مقیم تھےاور سب طرف برف ہی برف تھی، ان کے لئے آگ کی بڑی اہمیت تھی اور وہ سورج کو زندگی کا ماخذ سمجھتےتھے۔ چنانچہ ان تمام اقوام میں سورج اور آگ کی پرستش عام تھی بلکہ آج بھی ہے۔ ہندوؤں میں آگ کا ہَوَن آج بھی ہوتا ہے اور وہ سورج کو دیوتا مانتے ہیں۔ ایرانیوں کا پرانا مذہب آتش پرستی رہا ہے اور آج بھی دنیا میں ہر جگہ آتش پرست زرتشتی پائے جاتے ہیں ۔ سابق شاہِ ایرا ن بڑی شان سے خود کو آریہ مہر کہلواتے تھے،یعنی آریاؤں کا آفتاب۔یوروپ میں مذہب کی اہمیت اب بہت کم ہو گئی ہے لیکن اگر آپ پیرس جائیں تو آپ کو محرابِ فتح (arc de triomphe ) میں جلتا ہوا الاؤ نظر آئے گا۔ وہ آگ کبھی نہیں بجھتی۔ اسے نیپولین نے اپنی فتح کے نشان کے طور پر بنوایا تھا۔
اسی نسبت سے دیا شنکر نسیم نے لکھا:
شمع نے آگ رکھی سر پہ قسم کھانے کو بخدا میں نے جلایا نہیں پروانے کو
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران میں قسم کھانے کے لئے سر پر آگ رکھنے کی ریت عام تھی۔
محاورہ اور ضرب المثل: محاورہ اور ضرب المثل عربی اصطلاحات ہیں ۔
محاورہ مادہ ح۔و۔ر۔ سے بہت سے الفاظ بنتے ہیں۔ چند ایک ملاحظہ ہوں’ (۱)تحویر یعنی کسی چیز کی حالت کو تبدیل کرنا۔ (۲) محور اُس کیل کو کہتے ہیں جو چکّی کے نیچے والے پاٹ کے بیچ گڑی ہوتی ہے اور اوپر والا پاٹ اُسی کے گِرد گھومتا ہے۔ (۳) حِوار ، ح پر زیر کےساتھ، کے معنیٰ ہیں کسی مسئلہ پر بحث کرنا نیز مکالمہ۔ مزید براں کسی ڈرامہ کی اسکرپٹ یا منظر نامہ کو بھی حوار کہتے ہیں۔ (۴) محاورہ،م پر پیش کے ساتھ، کے معنیٰ ہیں بات چیت، بول چال اور گفتگو۔ لفظِ محاورہ اردو زبان میں مستعمل ہے جس میں یہ چاروں معنیٰ سموئے ہوئے ہیں ۔ زبان کا محاورہ وقت کے ساتھ بدلتا ہے۔ ہر زبان کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں اور اس زبان کی نثر اور نظم اور روز مرہ کی بول چال انہی اصول کے تحت تشکیل پاتی ہے۔ یعنی وہ اصول زبان و بیان کو آگے بڑھانے میں چکی کی کیل کا مقام رکھتے ہیں۔
  ضرب المثل عربی کا ایک مادّہ ہے: م۔ث۔ل۔ اس کا مطلب ہے دو ایسی اشیا کا آپس میں تقابل کر کے کسی ایک کو دوسری جیسا ظاہر کرنا جہاں کسی ایک صفت کو بہت زیادہ بڑھا کر بیان کرنا مقصود ہو یا کسی ایک صفت کو تنقیص مطلوب ہو۔ مثلاٙٙ: علی شخص شیر کی طرح بہادر ہے۔ یہاں شخصِ مذکور کی دلیری کو اُجاگر کرنا ہے اس لئے اس کو شیر کے مقابل لا یا گیا۔ یا یہ کہنا کہ: یہ گھر تو گھورے کی طرح گندہ ہے۔ یہاں گھر کی گندگی کو ظاہر کرنے کے لئے اس کا مقابلہ گُھورے سے کیا گیا۔
ضرب تیسرا لفظ ض۔ر۔ب۔ جس کے اصل معنیٰ تو ہیں مارنا، پیٹنا۔ چاہے ڈنڈے یا تلوار سے۔ لیکن جب ضرب المثل کہیں تو اس کے معنیٰ ہوں گے: مثال دینا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے: أَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَیِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ تُؤْتِی أُكُلَہَا كُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا ۗ وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَكَّرُونَ
ترجمہ:۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کلمۂ طیبہ کی مثال اُس پاک درخت سے دی ہے جو مضبوطی سے اپنی جڑوں پر قائم ہو اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوں ۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر موسم میں پھل لاتا ہو۔ اور اللہ تو مثالیں دیتا ہی ہے تاکہ لوگ اس کا ذکر کرتے رہیں ۔ قرآن کریم نے پاک کلمہ کی مثال ایک ایسے مضبوط درخت سے دی جس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی اسےہلا نہیں سکتا اور وہ ہر موسم میں پھلتا پھولتا ہے۔ بس کلام کوئی بھی ہو اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مضبوط دلائل پر قائم ہو اور زمین و زمان میں ہرسامع و قاری اس کلام سے استفادہ کر سکے۔
ضرب المثل اور ہماری زبان ضرب المثل کو ہماری پراکرت میں کہاوت اور انگریزی میں proverb کہتے ہیں۔اس کے بر عکس محاورہ کا انگریزی بدل idiom ہے۔
ایسے محاورے اور کہاوتیں کثرت سے ملتی ہیں جنہیں اردو روزمرہ میں قرآن و حدیث سے براہِ راست قبول کر لیا گیا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اردو خالصتاٙٙ مسلمانوں کی زبان ہو گئی ہے۔ ایسے اثرات دیگر زبانوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔مثلاً انگریزی زبان میں بائیبل سے لیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب قطعاٙٙ یہ نہیں کہ انگریزی عیسائیوں یا یہودیوں کی زبان ہو گئی ہے۔ کچھ اور مثالیں ملاحظہ ہوں: روز مرّہ کہاوت ہے۔ اللہ کا بول بالا! آیتِ قرآنی ہے۔ كَلِمَۃُ اللَّہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللَّہُ عَزِیزٌ حَكِیمٌ الحَمدُلِلّٰہ، اِن شاء اللہ، سُبحان اللہ،اللہُ غَنِی ،ماشا اللہ وغیرہ یہ سب قرآنی جملے ہیں ۔قرآن و حدیث کے علاوہ بہت سے عربی کے محاورہ جات ہیں جو اردو روز مرہ میں جگہ پا گئے ہیں، یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ یہاں صرف ایک اور مثال پر اکتفا ہے کہ: مَدَّ رِجلَہُ بِقدرِلحِافِہِ۔ ہم نے لحاف کو چادر میں بدل دیا اور محاورہ یوں ہو گیا: چادر دیکھ کے پاوں پھیلاؤ۔
فارسی سے بھی محاورہ جات بھی اردو میں در آئے۔ اردو ہندی کی بیٹی ہے اور فارسی کا دودھ پی کر پلی کے مصداق قدیم زمانہ سے اردو کی تعلیم کے ساتھ فارسی بھی برابر پڑھی جاتی ہے نیز اٹھارویں صدی کے نصف تک دہلی میں حکومتی زبان فارسی ہی رہی۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: تا تریاق از عراق آوردہ شود مار گزیدہ مُردہ شود۔ من تُرا حاجی بگوئم تو مراپاجی بگو۔ آمدن با ارادت و رفتن با اجازت۔ آب آید تیمم برخواست۔ گاہے گاہے بازخواں قصہء پارینہ را۔ خالص اردو کے محاورے وہ ہیں جو کلچر اور جغرافیائی حدود کی وجہ سے معرض وجود میں آئے۔مثلاً: دھوبی کا کٙتّا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔
سب سے زیادہ دلچسپ وہ محاورہ جات ہیں جو بغیر کسی لفظی تبدیلی کے اپنے استعمال کی وجہ سے مختلف معنیٰ دیتے ہیں یا ذرا سی لفظی تبدیلی سے ان کے معنیٰ بدل جاتے ہیں اساتذہ نے ان محاورہ جات سے خوب فائدہ اُٹھایا ہے۔ مثلاٙٙ غالب کہتے ہیں:
نکتہ چیں ہے غمِ دل اُس کو سنائے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
غالب نے اس شعر میں تین محاورے استعمال کئے ہیں اور تینوں ﴿بنانا﴾ کے فعل سے بنائے گئے ہیں ۔
ا۔سنائے نہ بنے ۔ دوسرے کو بات سنانا یعنی سمجھانا مشکل ہو رہا ہے۔
۲۔ بنے بات۔ کام ہو جانا، کامیابی حاصل کرنا۔
۳۔ بات بنانا۔ منھ سے بات نہیں نکل رہی ہے، عزت کے ساتھ مفہوم ادا نہیں ہو پا رہا ہے، کچھ چھپانا ہے کچھ بتانا ہے، جو چھپانا ہے وہ ظاہر ہوا جا رہا ہے، جو ظاہر کرنا ہے اس کے لئے منہ میں ا لفاظ نہیں آ رہے ہیں یا ذہن ساتھ نہیں دے رہا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے کہ ﴿بات بننا ﴾ اور﴿ بات بنانا﴾ میں بہت لطیف فرق ہے۔ باعتبارِ گرامر یہ صرف فعلِ لازم اور فعل متعدی کا فرق ہے مگر دیکھئے کہ اس فرق سے محاورہ کہاں سے کہاں سے لے جاتا ہے۔
یہ اُردو کا لفظ ﴿ بنانا﴾عربی کے مادہ ب۔ن۔ی۔ سےمشتق ہے۔ عربی کے اس لفظ کے معنی وہی ہیں جو انگریزی کے الفاظ To build اورTo construct سے ادا ہوتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہندی والے بھی اس لفظ کو ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے یہ ہندوستان کی کسی زبان کا لفظ ہو۔
اردو/ہندی دونوں پروٹو۔انڈو۔یوروپین (PROTO۔INDO EUROPEAN) لسانی خاندان سے متعلق ہیں ۔ عربی اس کے بر عکس ایک سامی(SEMITIC) زبان ہے۔ محققین نے تقریباً ۱۲۰۰ پروٹو۔انڈو۔یوروپین لسانی مادے دریافت کئے ہیں ۔ یہ فہرست شائع بھی ہو چکی ہے۔ اس میں کوئی مادہ لفظِ “بنانا” کے لئے نہیں ملتا۔ سنسکرت کا ہم معنیٰ مادہ ﴿بھو﴾ (B۔H۔U) ہے۔ جس کے معنیٰ ہیں (ہونا)۔ اسی سے انگریزی کا لفظ BUILD بھی ہے اور جرمن زبان کا لفظ BAU بھی ہے۔ اردو/ہندی کا لفظ ﴿بَھوَن﴾ بمعنیٰ محل بھی اسی مادہ سے بنا ہے۔
ایک اور بہت ہی دلچسپ استعمال اس لفظ کا وہاں ہوتا ہے جہاں ہم نوبیاہتا جوڑے کو دعا دیتے ہیں : بنا اور بنی کی یہ جوڑی ہمیشہ بنی رہے۔ جہاں تک میرا تجزیہ ہے لسانیات ایک ایسا دلچسپ موضوع ہے جس سے علم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تفنن طبع کا سامان بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ محاورے کی تعریف ہم نے مثلاٙٙ عربی کے لفظ نصیحت کا مادّہ ن۔ص۔ح ہے۔اس کے تین مختلف معنیٰ ہیں 1 کوئی کام خلوصِ دل سے کرنا انگریزی میں SINCERITY کہتے ہیں 2 ایسا کام جس سے ایک اچھی مثال قائم ہو 3 پھٹا ہوا لباس سینا نصاحۃ الثوب کہتے ہیں۔ مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں یہ تشریح کی ہے۔یہ سب مفاہیم قرآن کریم کی آیت ۶۶:۸ میں آ کر واضح ہو جاتے ہیں :
یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّہِ تَوْبَۃً نَصُوحًا…… اردو ناول کے بابا آدم ڈپٹی نذیر احمد صاحب نے اپنے مشہور ناول “توبۃ النصوح” میں بھی التزام یہ رکھا کہ اپنے ہیرو کا نام نصوح رکھ دیا۔ یوں اس لفظ کے معنیٰ میں ایک اضافہ کر دیا کر کے اس سے ایک اسمِ معرفہ یعنی PROPER NOUN تخلیق کر دیا۔ خیر یہ تو ڈپٹی صاحب کی ذہانت کا کمال ہے۔ سورۂ یوسف میں ناصحون کا لفظ پُرخلوص اور خیر خواہ کے معنیٰ میں آیا ہے۔ اردو میں یہ لفظ انہی معنیٰ میں آتا ہے۔ غالب نے اپنے شعر میں یہ لفظ لا کر اور وضاحت کر دی:
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا ، کوئی غم گُسار ہوتا
بات تو یہی ہے کہ نصیحت دینا سچے دوست کی علامت ہے مگر یہاں تو ضرورت چارہ سازی اور غم بٹانے کی تھی۔ بہرحال بہت سے لوگ اپنی روز مرہ گفتگو میں الفاظ، محاورات اور ضرب الامثال کے حوالے سے بےاحتیاطی برت جاتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیرکہ اس کے باعث ہم بہت بڑی غفلت اور خطا کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ مثلاٙٙ 1 – صلواتیں سُنانا: (محاورہ) فیروزُاللُّغات کے مطابق صلوات کا معنی اور مفہوم ہے: برکتیں اور رحمتیں، جو نبی پاک ﷺ کے حق میں ہوں۔ یہ صلوة کی جمع ہے یعنی درود، دُعا اور نماز۔ لیکن اُردو محاورہ میں ’’صلواتیں سُنانا‘‘ دشنام طرزی کے لیے مستعمل ہے۔ 2 – نمازیں بخشوانے گئے اور روزے گلے پڑ ے: (کہاوت) (اُردو مفہوم) ’’ایک کام سے پیچھا چھُڑانے کی کوشش میں دُوسری مہم (یا مصیبت) ذمّہ پڑ گئی۔‘‘ اوّل تو اِسلام کی بُنیادی عبادات کے متعلق ایسا گُستاخانہ تصور اورطرز تکلّم بہت بڑی جسارت کے زُمرہ میں آتا ہے، جو ہمارے دین کے ان دو ارکان کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے، لیکن یہ جسارت اس پس منظر میں اور بھی سنگین ہو جاتی ہے جب اس کا اشارہ یا حوالہ حضور پاک ﷺ کے سفر معراج سے متعلق اس روایت سے جا جڑتا ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے روبرو اُمّت کے لیے سب سے پہلے پچاس نمازوں کو فرض قرار دِیا مگر حضور پاک ﷺ نے اپنی اُمّت پر بوجھ جان کر نمازوں کی تعداد میں کمی کی سفارش فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعداد کے کئی بار تعیّن کے بعد بالآخر پانچ نمازوں کی حتمی تعداد مقرر کر دی گئی۔ بعض جاہل لوگ یہ تک بیان کر دیتے ہیں کہ اسی موقع پر جب روزوں کی فرضیت کی باری آئی تو پہلے زیادہ مُدّت کے روزے تجویز ہُوئے مگر اسے بھی اُمت کے لیے برداشت سے زیادہ پا کر آخر کار ایک مہینہ کے روزے فرض کر دیے گئے۔ حالانکہ واقعہ معراج مکی زندگی میں پیش آیا جبکہ روزے مدنی دور میں فرض ہوئے۔ یہ من گھڑت کہاوتیں اسلام دُشمنوں نے ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے مسلمانوں کو دین سے دُور کرنے کے لیے زبان و بیان میں رائج کی ہیں جنہیں لوگ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی گفتگو کا حصہ بنانے میں عار محسوس نہیں کرتے اور کم علمی اور جہالت کی بنا پر کفر کی حد تک چلے جاتے ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ سفر معراج کے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ارکان دین کا مذاق اُڑانے کا حوصلہ وہی شخص کر سکتا ہے جو نماز اور روزے سے بےزار اور سرے سے ان فرائض کا منکر اور تارک ہو۔ مگر ہمارے لیے زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہم نتائج و عواقب کا احساس اور ادراک کیے بغیر بڑی سہولت سے ایسے الفاظ و محاورات کو غلط مفہوم میں بول جاتے ہیں اور شرکائےگفتگو بھی اسی سہولت سے انہیں سن کر ہضم کر جاتے ہیں۔ 3 – یار غار: (محاورہ) یہ تلمیح باقاعدہ طور پر ایک مخصوص محاورہ کا روپ دھار گئی ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ’’یارِغار‘‘ جلیل القدر صحابی رسول ﷺ اور خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اُردو زبان میں رائج لقب یا خطاب بھی ہے، جنہیں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے دوران نبی پاک ﷺ کی ہمراہی میں غار ثور میں قیام کا شرف حاصل ہُوا، مگر اُردو زبان و بیاں میں اسی واقعے کی نسبت سے کسی ��ھی شخص کے وفادار یا ’’حد سے زیادہ‘‘ وفادار ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے (بالعموم استہزا، مذاق اور طنز کے طور پر) اسے’’یارِغار‘‘ سے موسوم کر دیا جاتا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کی یہ حرکت ایک لحاظ سے نبی پاک ﷺ اور ان کے جاں نثار ساتھی، خلیفۂ اوّل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب ہے۔ اللہ ہمیں سوچنے سمجھنے اور راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین) 4 – خُدا واسطے کا بَیر: (محاورہ) طنز اور مذاق میں بولے جانے والے اس محاورے کا تعلق غالباً تاریخ اسلام کے اس مشہور واقعے سے ہے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ایک خودسر یہودی پر غلبہ پا کر اسے قتل کر ڈالنے کا ارادہ فرمایا، اس حالت میں کہ وہ یہودی پُشت کے بل زمین پر پڑا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ اس کے سینے پر سوار تھے۔ موت کو اس قدر یقینی طور پر قریب پا کر اُس یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرۂ مبارک پر تھوک دِیا کہ نکلے آخری نفرت کی حسرت اسی حیلے دل کُفر آشنا سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یکسر غیرمتوقع ردعمل نے یہودی کو حیران اور ششدر کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس گستاخانہ حرکت پر انتقام کے جذبے سے مغلوب ہو کر اُسے مار ڈالنے کے بجائے یہ کہہ کر معاف کر دِیا کہ اگر میں اس حالت میں تجھے قتل کر دیتا تو یہ ہمارا ذاتی معاملہ بن جاتا جبکہ میں ہر کام صرف اپنے اللہ کی خوشنودی اور رضا کی خاطر کرتا ہوں اور فقط اُن لوگوں سے بیر رکھتا ہوں جو میرے اللہ سے بیر رکھتے ہیں۔ اب یار لوگوں نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ’’خُدا واسطے کا بیر‘‘ نامی محاورہ گھڑ لیا ہے، جس کا مطلب کُچھ اس طرح ہے کہ جب کوئی شخص کِسی سے خواہ مخواہ رنجیدۂ خاطر ہو، جس کی کوئی ظاہری اور معقول وجہ بھی نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں کو فلاں کے ساتھ تو خُدا واسطے کا بَیر ہے۔‘‘ اب آپ غور فرمائیے کہ کہاں وہ بات اور کہاں یہ منطق؟ الفاظ کو منفی مفہوم دینے والے کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس واقعے کے بےمثال اخلاقی پہلو کو سامنے رکھ کر اور اسے اچھے معانی پہنا کر رائج کرتا کہ جس نے اُس یہودی کا پتھر دل موم کر دیا تھا اور وہ فی الفور کلمۂ طیبہ کا ورد کرتے ہُوئے دین حق پر ایمان لے آیا تھا۔ 5 – بسم اللّٰہ ہی غلط: (محاورہ) کیا کُفریہ کلمہ ہے. بھلا بسمِ اللہ بھی غلط ہو سکتی ہے؟ یہ محاورہ تخلیق کرنے والے کا مطلب تو خیر یہ ہو گا کہ جس آدمی کو بسمِ اللہ ہی ٹھیک طرح سے پڑھنی نہ آئے، اُس سے قُرآن پاک کی تلاوت کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے، اِسی طرح کام کی اِبتدا میں غلطی کرنے والا یقیناً اس کام کو بگاڑ کر دَم لےگا۔ مگر آپ ذرا الفاظ کی ترتیب اور تشکیل پر غور فرمائیں، اس سے کیا مفہوم برآمد ہو رہا ہے؟ ہم تو بسم اللہ کو (معاذاللہ) غلط کہنے اور سوچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے، ایسا حوصلہ وہی جاہل لوگ کرتے ہیں جو دین سے دور اور علم سے بےبہرہ ہوتے ہیں۔ دین کا درست فہم رکھنے والے ہر مسلمان فرد کا فرض ہے کہ وہ ایسے محاورات کو ��ول چال میں شامل کرنے کی حوصلہ شکنی کرے اور اپنے دوست احباب اور اہلِ خانہ کو ایسے الفاظ کے مفاسد سے آگاہ کرے، جو ان الفاظ کو بغیر کسی تکلّف کے بولنے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ 6 – مُوسیٰ بھاگا گور سے اور آگے گور کھڑی: (کہاوت) ذرا سوچیے کہ حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کیا واقعی موت سے اتنے خوف زدہ اور لرزہ براندام تھے کہ اس فنا ہو جانے والی دُنیا میں زندہ رہنے کی خاطر موت سے چھُپتے اور بھاگتے پھرے مگر موت نے پھر بھی اُنھیں آلیا؟ بہرحال ہمیں تو بتانے والوں نے یہی کچھ بتایا ہے، ممکن ہے اس میں یہ ’’اخلاقی سبق‘‘ پنہاں ہو کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور دُنیا کی زندگی ناپائیدار اور مِٹ جانے والی ہے، یہ ذائقہ ہر ذی رُوح نے چکھنا ہی چکھنا ہے، خواہ وہ اللہ کا پیغمبر ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا اِنسان دُنیا کی زندگی غنیمت جانتے ہوئے نیک اعمال کو حرزجان بنائے اور بداعمالیوں سے دست کش ہو جائے۔ لیکن دیکھنا یہ بھی ہے کہ جو کچھ ہم بڑی روانی اور سادگی سے بول جاتے ہیں، اس سے کہیں کسی مقدس اور متبرک ہستی کی توہین اور ہتک کا پہلو تو برآمد نہیں ہو رہا؟ کم از کم اس محاوراتی فقرے سے تو یہی کچھ ہمارے سامنے آ رہا ہے۔ ہم اس کے سوا کیا کر سکتے ہیں کہ آپ کو اس سے بچنے کی تلقین کریں اور دوسروں کے لیے بھی ایسی جسارتوں سے باز رہنے کی دُعا کریں! 7 – لکھے مُوسیٰ پڑھے خُدا (کہاوت) یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی شخص کی لکھی ہُوئی خراب تحریر (Hand Writing) صاف پڑھی نہ جا رہی ہو۔ اب پتہ نہیں نالائق لوگوں کی خراب لکھائی کا تعلّق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جوڑنے کا مطلب اور مقصد کیا تھا؟ ہر زبان میں رائج ضرب الامثال کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی یا واقعہ پوشیدہ ہوتا ہے، جو بزرگوں اور اہلِ عِلم کی زبانی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ایسے واقعات بیان کرنے میں مولانا اشرف صبوحی مرحوم خاص مہارت رکھتے تھے اور ان کا اُردو زبان و ادب کی تاریخ پر بڑا عبور تھا، لیکن جس کہاوت کا ذکر اُوپر بیان کیا گیا ہے، اس کے پیچھے حقیقت کا کھوج نکالنے میں بڑے سے بڑا عالم بھی ناکام ہو جائےگا۔ کہہ لیجیے کہ یہ نامعقول محاورہ بس یونہی زبان وبیاں میں رائج ہو گیا ہے، اس کا حضرت مُوسیٰ علیہ السلام کی ذات گرامی کے ساتھ کچھ تعلّق نہیں، اور یہ بھی کہ ہمیں اللہ اور اس کے نبیوں کے بارے ایسی گستاخیاں زیب نہیں دیتیں۔ نوٹ: اس کہاوت کے بارے یہ وضاحت آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگی کہ اُوپر لکھے الفاظ علم کا دعویٰ رکھنے والے بڑے بڑے اُردو دان لوگ تیزی اور روانی میں اس طرح بول جاتے ہیں جس سے سُننے والوں کو غلط فہمی ہوتی ہے، جبکہ ایک عالم دین کی وضاحت کے مُطابق کہاوت مذکور کے اصل الفاظ یہ ہیں: ’’ لکھے مُو(بال) سا، پڑھے خود آ۔‘‘ یعنی جو شخص بال کی طرح باریک لکھتا ہے کہ دُوسروں کے لیے اسے پڑھنا دُشوار ہو تو اسے خود ہی آکر پڑھے، کوئی اور تو اسے پڑھنے اور سمجھنے سے رہا۔ تعجب ہے کہ اُردو کی بڑی بڑی لُغات اور قواعد کی ک��تب میں یہ کہاوت عنوان کے مطابق غلط طور پر لکھی ہوئی پائی گئی ہے، جس سے آپ علم کی نشرواشاعت کے ان نام نہاد مدعیوں اور ذمہ داروں کی علمی سطح کا اندازہ بخوبی کر سکتے ہیں۔
چند منتخب قرآنی ضرب الامثال​
۱۔ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ (سورۃ البقرۃ : 19)
اور اللہ تعالیٰ کافروں کو گھیرنے والا ہے
۲۔ اِنََّاللَّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرۃ :20 )
بیشک اللہ ہر چیز پر قدر ت رکھنے والاہے۔
۳۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ (البقرۃ : 152)
اس لئے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا۔
۴۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرۃ : 153)
اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے۔
۵۔ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم : 4)
اور بیشک آپ اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر ہیں۔
۶۔ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ : 191)
اور(سنو) فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔
۷۔ لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرۃ : 256)
دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں۔
۸۔ لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا (سورۃ البقرۃ : 286)
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیاده تکلیف نہیں دیتا۔
۹۔كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ(العمران 185 )
ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے۔
۱۰۔ وَكَفَى بِاللّهِ وَكِيلاً (النساء : 81)
اللہ تعالیٰ کافی کارساز ہے۔
۱۱۔ لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (النجم : 39)
اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔
۱۲۔ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (الرحمٰن : 26)
زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں ۔
۱۳۔ لاَّ يَمَسُّهُ إِلاَّ الْمُطَهَّرُونَ (الواقعہ: 79)
جسے صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔
۱۴۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ (البقرۃ : 156)
ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔
۱۵۔ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذٰاریٰت : 19)
اور ان کے مال میں مانگنے والوں کا اور سوال سے بچنے والوں کا حق تھا ۔
۱۶۔ وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ (العمران 103 )
اور سب مل کر اللہ کی رسّی کو تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
۱۷۔ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (سورۃ ق : 16)
اور ہم اسکی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس سےقریب ہیں۔
۱۸۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (سورۃ الحجرات : 13)
بیشک اللہ کے نزدیک تم سب میں سےبا عزت ��ہ ہے جو زیادہ ڈرنے والا ہے۔
۱۹۔ هَلْ جَزَاءُ الإِحْسَانِ إِلاَّ الإِحْسَانُ (سورۃ الرحمٰن : 60)
احسان کی جزا سوائے احسان کے نہیں۔
چند ضرب الامثال
آ بلا گلے پڑ، نہیں پڑتی تو بھی پڑ آ بننا آ بیل مجھے مار آ بے سونٹے تیری باری ۔ کان چھوڑ کنپٹی ماری آ پڑوسن لڑ ، لڑیں آ پھنسی کا معاملہ ہے آ پھنسے کی بات ہے آب آب کر مر گئے ، سرہانے دھرا رہا پانی آب آمد تیمم برخاست آب از سرگزشت آب بر آئینہ ریختن آب چو از سرگزشت ، چہ یک نیزہ چہ یک دست آبوا لڑیں، لڑے ہماری بلا عالمی اداعہ۔بیسٹ اردو پوئٹری کا پروگرام نمبر 189 درصنعت محاورہ و ضرب الامثال مورخہ 12 جنوری 2019 ء کی شام 7 بجے پاکستانی اور 7:30 ہندوستانی وقت کے مطابق ادارہ کے تحت یہ پروگرام منعقد کیا گیا جس میں شعرا نے اپنا کلام پیش فرمایا۔ صدارت کی مسند پر جناب ریاض انور بلڈانہ بھارت متمکن ہوئے۔ مہمانِ خصوصی محترم علی شیدا کشمیر سے اور جناب عامر حسنی ملائشیا سے تشریف لائے۔ مہمانان اعزازی میں جناب جعفر بڈھانوی بھارت اور محترمہ غزالہ انجم بورے والا پاکستان سے تشریف لائیں۔ ناقدین حضرات میں محترم ڈاکٹر شفاعت فہیم صاحب اور جناب غلام مصطفےٰ دائم اعوان صاحب پروگرام میں حاضر رہے اور قیمتی آرا سے نوازا۔ محترم مسعود حساس صاحب کی طرف سے نقدونظر کا انتظار ہے۔ تلاوت کلام پاک سے خاکسار راقم الحروف احمدمنیب نے اس مجلس کا بابرکت آغاز کیا۔ مناجات بھی خاکسار نے پیش کی اور دوشعرا نے نعتیہ کلام پیش کرنے کی سعادت پائی۔ ذیل میں سب شعرا کا نمونہ کلام بمعہ نقد و نظر از طرف محترم غلام مصطفیٰ دائم اعوان پاکستان پیش خدمت ہے:
مناجات اب تو ایسا وصال دے یا رب جان مردے میں ڈال دے یا رب
جو بھی سوچوں دعا میں ڈھل جائے سوچ کو وہ کمال دے یا رب احمد منیب
پیروئ اسوۂ احمد سعادت ہے جمیل اس لئے سب کو اطاعت لازمی ہے آپ کی میاں جمیل احمد
سر کی ، اس کاغذ کو دے زیـنت قرار نام احسؔـــــن لکـھــے جــس پـر آپ کا وســـــــــیم احـســـــــــؔن جـامـعـہ نـوریـہ شـمـس الـعـلـو
پروگرام نمبر 189 درصنعت محاورہ و ضرب الامثال ہاتھ رکھتا ہے تو ہر زخم صدا دیتا ہے یہ مسیحا ہے جو شعلوں کو ہوا دیتا ہے احمدمنیب
غم ہی اصغر ہے جو کہ دنیا میں “ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں” اصغر شمیم، کولکاتا،انڈیا
آج ہیں آئینہ بکف صابر اپنے چہرے کی جانچ کرتے ہیں صابر جاذب لیہ
تضحیک کا پہلو تھا بتاوْ کوئی دیپ سورج کو دکھا یا تو برا مان گئے اخلادالحسن اخلاد جھنگ
تُم مُسافر ہو روبینہ یہ سفر جاری رکھو اُنگلیاں تو اُٹھ��ی رہتی ہیں یہاں فنکار پر روبینہ میر انڈیا جموں و کشمیر
اس لئے لوگ بھی کم هی مجھے پهچانتے هیں میں نے چہرے په کوئی چہره لگایا هی نہیں ماورا سید کراچی
کچھ ایسا ہی حال ہے تیرا ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا شاہ رخ ساحل تلسی پوری
خدا زمین کے دیں گے تجھے دغا آخر بھروسہ کچھ نہیں ارشاد ان سہاروں کا ڈاکٹر ارشاد خان
یہ حقیقت کاش گل بھی جان لے موت ہی کا راستہ ہے زندگی گل نسرین ملتان پاکستان
لوگ کہتے ہیں بے وفا اس کو پر ہمیں اعتبار ہے صاحب تسنیم کوثر
رات رکھے گی بھرم اپنا کہاں تک مینا جب اندھیروں کے تعاقب میں اجالے پڑ جائیں ڈاکٹر مینا نقوی۔۔مراداباد۔۔بھارت
برسوں کے بعد آئے ہو کچھ دیر تو رکو ایسی بھی کیا ہے جلدی کہ ’’ آج آئے کل چلے‘‘ عامرؔحسنی ملائیشیا
جان جاناں جان جاں جاں کردیا بند کوزے میں سمندر کردیا علی شیداّ،
سانچ کو آنچ جب نہیں انجم پھر یہ پرخوف آگہی کیا ہے غزالہ انجم
میرے حیلے سے کون بچ پایا جب مگر اشک میں بہاتا ہوں جعفر بڑھانوی بھارت
اس مشاعرہ میں محترم ڈاکٹر شفاعت فہیم بھارت محترم مسعود حساس کویت اور جناب غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان نے نقد و نظر سے نوازا۔ جو الگ پوسٹ کیا گیا ہے۔ اس طرح ایک نہایت کامیاب پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔ ہر طرف سے مبروک مبارک کی صدائیں بلند ہوئیں۔ توصیف بھائی.چیئرمین ادارہ۔ صابر جاب سیکریٹری ادارہ اور آرگنائزر احمدمنیب کو سب نے اس پروگرام کی کامیابی پر مبارک باد دی اور اسی طرح کامیاب پروگرام پیش کرتے رہنے کی دعا دی۔ رپورٹ احمدمنیب
عالمی تنقید ی پروگرام : در صنعت ضرب الامثال ریسرچ سکالر ادارہ:احمدمنیب لاہور پاکستان عالمی تنقید ی پروگرام نمبر 189بعنوان : در صنعت ضرب الامثال
0 notes
banowin · 7 years ago
Text
فراخوان نخستین جشنواره ملی عکس بناهای تاریخی ایران
صندوق احیا و بهره برداری از بناها و اماکن تاریخی و فرهنگی در راستای تحقق اهداف و با توجه به وظایف و اختیارات محوله خود، در نظر دارد به منظور شناسایی، معرفی و تکریم شایسته از هویت ابنیه تاریخی سراسر کشور، نخستین جشنواره ملی عکس بناهای تاریخی ایران را با عنوان «احیاء» برگزار کند.
به نقل از روابط عمومی جشنواره، این جشنواره در نظر دارد فضایی هنری را برای رقابت صمیمانه ی همه علاقه مندان به آثار تاریخی کشور فراهم آورد از همین رو تمامی عکاسان و علاقه مندان باززنده سازی ابنیه تاریخی در سراسر ایران می توانند به منظور مشارکت در این رویداد فرهنگی که آوردگاهی برای عرضه ی بخش مهمی از هویت تاریخی ایران به مدد هنر عکاسی است، آثار خود را منطبق با شرایط ذیل ارسال نمایند.
موضوع جشنواره:
بناهای تاریخی فاخر ایران با رویکرد ملی و محلی در عرصه شناخت
اهداف جشنواره:
  ۱. معرفی مناسب و توجه به آن دسته از ابنیه تاریخی که طی سالیان متمادی به دست فراموشی سپرده شده و یا کمتر مورد توجه قرار گرفته است.
  ۲. مستند نگاری وضع موجود بناهای تاریخی ایران (کاروانسراها، حمام ها، آب انبارها، محوطه های تاریخی... )
  ۳. ترویج هویت فرهنگی و بیان وجه تمایز بناهای تاریخی ایران
  ۴. فرهنگ سازی و توسعه افکار عمومی در راستای بهره‌برداری بهینه از ابنیه تاریخی، احیاء زندگی در بناهای تاریخی، حفاظت و تکریم اماکن
  ۵. نقش بناهای تاریخی در ماندگاری خرده فرهنگ های بومی و منطقه ای
بخش های جشنواره:
تک عکس
عکسی که از یک بنا و به صورت تک‌عکس انتخاب شده باشد.
عکس تلفن همراه
عکس‌های گرفته شده توسط موبایل در موضوعات جشنواره
بخش ویژه
بخش ویژه جشنواره شامل سه بخش عکس‌های تطبیقی، مجموعه‌ای و احیاء عکس‌های آرشیوی
عکس‌های سری
مجموعه‌ای عکس دارای یک روایت، یعنی موضوعی در دل مجموعه تصاویر به تبیین برسد.
عکس‌های تطبیقی
دو عکس از یک زاویه از یک مکان/بنا در زمان‌های متفاوت
احیاگر عکس بناها در آلبوم های قدیمی
عکس‌های چاپ نشده قدیمی که در آرشیو شخصی نگهداری می‌شود.
شرایط شرکت در جشنواره:
شرکت در جشنواره برای تمام عکاسان اعم از حرفه‌ای و آماتور آزاد است.
۱- تک عکس
در بخش تک فریم هر عکاس می‌تواند به ارسال حداکثر ۵ عکس می‌باشد.
۲- تلفن همراه
در بخش عکس تلفن همراه هر شرکت‌کننده می‌تواند حداکثر ۵ عکس به جشنواره ارسال نماید.
۳- بخش ویژه
شامل سه بخش زیر می‌باشد:
۱-۳- عکس‌های سری
دربخش عکس های سری هر عکاس می‌تواند یک مجموعه عکس سری (که حداقل دو فریم و حداکثر ده فریم) داشته باشد به همراه توضیحات و نوشته ای که اهداف این مجموعه و جهت‌گیری آن را تبیین کند، به دبیرخانه ارسال کند، در این بخش انتظار می‌رود وحدت و ارتباط بین عکس‌ها برای قرارگرفتن ذیل عنوان مجموعه رعایت گردد و یا عکس‌ها به پوشش زوایای مختلف بنا و توسعه اطلاعات عکس در جریان کنار هم قرارگرفتن تعدادی عکس بیانجامد و مخاطب را به تمام ابعاد خارجی/داخلی بنا یا اطلاعات مورد نظر عکاس رهنمون کند.
۲-۳- عکس‌های تطبیقی
در این بخش ملاک خلق اثر، یک عکس قدیمی از یک بنای تاریخی است. بدین صورت که عکاس پس از انتخاب یک عکس قدیمی، عکسی به‌روز از همان بنا به ثبت می‌رساند. انتخاب زاویه دید مشترک در ثبت تصویر جدید نسبت به تصویر قدیمی از موارد ضروری در این بخش می‌باشد.
حداکثر تعداد آثار ارسالی در این بخش ۵ سری عکس (شامل یک عکس قبل و یک عکس بعد) می‌باشد.
۳-۳- عکس‌های قدیمی
عکس‌های آرشیوی قدیمی که در آلبوم‌های شخصی نگهداری می‌شود.
در بخش عکس‌های قدیمی، هر شرکت‌کننده می‌تواند ۵ عکس به جشنواره ارسال نماید.
مقررات عمومی جشنواره:
ابعاد عکس‌ها: ضلع بزرگ‌تر عکس ۱۶۰۰ پیکسل باشد. Quality (کیفیت) عکس‌ها به صورتی انتخاب گردد که حجم هر عکس از (۲ MB) بیشتر نباشد. عکس‌ها باید برای داوری با فرمت jpg ارسال شوند. لطفا اندازه و حجم عکس‌ها را پیش از ارسال کنترل کنید، درصورتی‌که عکس‌ها شرایط ثبت‌نا�� را نداشته باشند، در هنگام ثبت‌نام، آپلود نخواهند شد.
هرگونه دستکاری در عکس‌ها که منجر به گرافیکی شدن و حذف بعد عکس شود، و یا دخالت در واقعیت به هر صورت، عکس‌سازی، مونتاژ و کولاژ، جابه‌جایی عناصر عکس و حذف عناصر تصویر از داوری حذف خواهد شد.
تنها تنظیم نور، کنترل رنگ، افزایش یا کاهش کنتراست، کاهش یا افزایش کلاریتی، افزایش یا کاهش گرین و شارپنس، کراپ کردن مجاز است که وجه اسنادی را بر هم نمی‌زند.
اطلاعاتی از قبیل عنوان عکس، نام عکاس به داور‌ها ارائه نخواهد شد. هیچ نوشته‌ای از قبیل عنوان عکس، نام عکاس یا توضیح نباید به صورت واترمارک در داخل عکس‌ها بیاید، متن‌های توضیحی و توصیفی مربوط به بخش عکس‌های سری نیز، به‌صورت مجزا و فایل word ارسال می‌گردد.
تکمیل فرم عکس‌ها باید مطابق تعریفی که در بالا آورده شده، باشد.
مالکیت اثر:
الف) ارسال اثر و شرکت در جشنواره به منزله اعلام مالکیت معنوی عکس هاست و برگزار کننده هیچ گونه مسئولیتی در قبال تخلفات احتمالی شرکت کنندگان در این خصوص نخواهد داشت و مسئولیت آن بر عهده ارسال کننده خواهد بود همچنین در صورت اثبات تخلف در هر مرحله، عکس ارسالی از مسابقه حذف خواهد شد.
ب) درصورتی که در مراحل داوری در خصوص استناد و مالکیت اثری داوران مردد شوند شرکت‌کننده موظف است مستندات خود را به دبیرخانه جشنواره جهت بررسی ارسال نماید درغیراین‌صورت از فرایند داوری حذف خواهند شد.
پ) مستندات مورد قبول دبیرخانه شامل ارائه فایل خام اثر (RAW- NEF) یا عکس قبل و بعد از اثر یا فایل ثبت‌شده برای عکس‌های تلفن همراه خواهد بود.
د) در بخش عکس‌های قدیمی آثار ارسالی بدون درنظرگرفتن مالکیت عکس‌ها بررسی می‌شوند و ارسال‌کننده اثر در این بخش به عنوان احیاگر شناخته می‌شود.
برای شرکت حتما باید فرایند ثبت‌نام در سایت صورت گیرد و عکس‌ها فقط از طریق سایت ارسال شوند.
ارسال عکس به این جشنواره به معنای پذیرش تمامی قوانین فراخوان می‌باشد و هیچگونه اعتراضی پذیرفته نیست.
مراحل شرکت در جشنواره:
۱- ثبت نام در سایت جشنواره
از طریق صفحه ثبت‌نام، به راحتی در سایت ثبت نام کنید و وارد بخش بارگذاری تصاویر شوید.
۲- بارگذاری عکس‌ها
به تعداد مشخص شده در هر بخش، تصاویر خود را بارگذاری کنید. تا پایان زمان جشنواره امکان ویرایش تصاویر وجود خواهد داشت.
۳- تکمیل توضیحات عنوان عکس و محل عکاسی
با بارگذاری هر تصویر، عنوان، توضیحات تصویر و مکان دقیق بنای تاریخی را روی نقشه مشخص کنید.
جوایز:
برای عکاسان عکس‌های برتر در هر بخش، تندیس، لوح تقدیر و جوایز نقدی در نظر گرفته شده است.
جوایز بخش عکس‌های تک عکس
نفرات اول: تندیس جشنواره، لوح تقدیر و مبلغ ۳۰٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
نفرات دوم: لوح تقدیر و مبلغ ۲۰٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
نفرات سوم: لوح تقدیر و مبلغ ۱۰٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
جوایز بخش عکس تلفن همراه
نفر اول: تندیس جشنواره، لوح تقدیر و مبلغ ۱۰٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
نفرات دوم: لوح تقدیر و مبلغ ۷٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
نفرات سوم: لوح تقدیر و مبلغ ۵٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
جوایز در بخش ویژهجوایز در بخش عکس‌های سری
نفرات اول: تندیس جشنواره، لوح تقدیر و مبلغ ۲۰٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
نفرات دوم: لوح تقدیر و مبلغ ۱۰٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
نفرات سوم: لوح تقدیر و مبلغ ��٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
جوایز در بخش عکس‌های تطبیقی
نفرات اول: تندیس جشنواره، لوح تقدیر و مبلغ ۲۰٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
نفرات دوم: لوح تقدیر و مبلغ ۱۰٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
نفرات سوم: لوح تقدیر و مبلغ ۷٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
جوایز در بخش عکس آلبوم‌های قدیمی
نفر اول: لوح تقدیر و مبلغ ۷٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
نفرات دوم: لوح تقدیر و مبلغ ۵٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
نفرات سوم: لوح تقدیر و مبلغ ۳٫۰۰۰٫۰۰۰ ریال
آخرین مهلت ثبت‌نام و دریافت عکس‌ها: ۲۹ فروردین ۹۷
داوری و اعلام نتایج: اردیبهشت ۹۷
منبع : www.banowin.com
0 notes
albaloumag-blog · 7 years ago
Text
"کشتن گوزن مقدس":‌ نقد و بررسی یک فیلم عجیب !
https://albalou.com/2017/12/26/killing-of-a-sacred-deer-review/
"کشتن گوزن مقدس":‌ نقد و بررسی یک فیلم عجیب !
“بالاخره آن لحظه‌ی حساس که همه‌مان انتظارش را می‌کشیدیم فرا رسیده است …“. بعد از ساخت یک هجونامه‌ی اجتماعی به نام “دندان نیش” (Dogtooth)، اثری قابل قبول به نام “آلپ“‌(Alps) و فیلم تراژیکمدی (تراژدیک و کمدی) و عملی–تخیلی به نام “خرچنگ” (The Lobster)، حالا “یورگوس لانتیموس” اثری خلق کرده است که بطور کلی از فیلم‌های قبلیش متفاوت است. در عین حال که داستان از تئاتر پوچی به شکل نامحسوس به خشونت و بی‌رحمی سوق پیدا می‌کند، “کشتن گوزن مقدس” داستانی از یک انتقام افسانه‌ای، مرموز و روشمند را بیان می‌کند که با یک خنده‌ی فراموش‌نشدنی آغاز شده و بدون وقفه به سمت یک فریاد بی‌صدا حرکت می‌کند !
فیلم “کشتن گوزن مقدس” که عنوان خود را از افسانه‌ی “ایفیگنیا” گرفته است، داستانی خشن از مجازات و مسئولیت های افراد در یونان باستان را به پرده‌های سینِما در قرن ۲۱ آورده است. این فیلم در سطوح مختلف، معانی مختلفی دربردارد؛ در یک سطح می‌توان آن را یک فیلم درام فریبنده خواند که درک آن تلاش زیادی می‌طلبد و البته با امضای لانتیموس‌ (یعنی طنز بی‌روح و صحنه‌های مصنوعی و بدون توازن) شکل و شمایل متفاوتی به خود گرفته است. در سطحی دیگر اما این فیلم را به مانند فیلم “اره” دیده که اهالی هنر را مخاطب خود قرار می‌دهد؛ رقابتی دیوانه‌وار برای زنده ماندن که توسط یک قانون اخلاقی ایجاد شده و هر از چندگاهی یک حادثه ناگوار را خلق می‌کند.
“کالین فرل“، ستاره‌ی فیلم “خرچنگ“، نقش یک جراح قلب به نام “استیون مورفی” را بازی می‌کند؛ شخصی ثروت‌مند، دل‌کنده از دنیا و البته عاشق نوشیدنی. ابتدای “کشتن گوزن مقدس” با صحنه‌ای جذاب از یک قلب در حال تپش آغاز می‌شود که در نهایت صحنه‌ای از پرت شدن دست‌کش های جراح را در سطل آشغال می‌بینیم؛ در اینجا مسئولیت خون ریخته شده از گردن جراح برداشته می‌شود. استیون در یک خانه‌ی بزرگ و غارمانند به همراه همسر خود آنا (با بازی نیکول کیدمن)، دخترش کیم‌ (رافی کسیدی) و پسر کوچک‌ترش باب (سانی سالیچ) زندگی می‌کند. زندگی آن‌ها در مال و ثروت غوطه‌ور است اما پوچی بر این ثروت غلبه کرده است. شاید این دلیلی است که استیون با مارتین (با بازی “بری کیوگان“)،یک جوان نابالغ که ارتباطش با جراح داستان به شکل شک‌برانگیزی نامشخص است، آشنا می‌شود.
در بخش قابل توجهی از “کشتن گوزن مقدس“، داستان با روا��ی عادی و آشنا به پیش می‌رود. دیالوگ ها شکلی دنیوی به خود دارند، برای مثال بحث‌هایی در مورد بند ساعت، کیک لیمویی و حالت خلسه را می‌شنویم. در یکی از صحنه ها، آنا می‌گوید :”بیهوشی عمومی؟” و سپس خود را به مانند افراد در کما رفته، به روی تخت می‌اندازد تا طبق رسوم، شوهرش لذت کافی را از او ببرد.
اما به تدریج، مارتین راه خود را با اغواگری به این خانواده‌ی بظاهر خوشبخت باز می‌کند و دل دختر نوجوان خانواده را می‌برد. کمی جلوتر، استیون با مادر نیازمند مارتین (با بازی مثال‌زدنی آلیشا سیلورستون) آشنا می‌شود. او در اولین دیدار به استیون می‌گوید که او “دست های زیبایی” دارد و با حقارت از او تقاضا می‌کند که تاوقتی یک تکه تارت از دستپخت او نخورد، اجازه خروج نخواهد داشت. این صحنه به نوعی طنز محسوب شده اما خنده‌ی تماشاگران سرآغاز سقوط و پوچی در فیلم می‌شود. موضوعاتی که تا آن لحظه خنده‌دار بنظر می‌رسیدند، کم کم به شکل عجیبی ترسناک جلوه می‌کنند.
بخوانید: نقد و بررسی فیلم رشته‌ی خیال (Phantom Thread)
فیلمبردار همیشگی لانتیموس، “تیمیوس باکاتاکیس” با حرکت دادن دوربین‌هایش در میان اتاق‌های مختلف یک بیمارستان و راه رفتن با زاویه دید کم و پرواز های روح‌وارش، همانند ارواح سرگردان در فیلم “درخشش“(The Shining)، حس ترس و وحشت را به تماشاگر القاء می‌کند. موسیقی رعدآسای (که آثار “لیگتی” نیز در آن شنیده می‌شود) به لحن ازهم گسیخته‌، شوم و پرسر و صدای فیلم روح بخشیده است. در همان حالی که طنز تلخ جای خود را به دنباله‌ای از اتفاقات تلخ می‌دهد، به یاد بازی‌های شکنجه‌داری میفتیم که “میشائیل هانکه” زمانی بر سر شخصیت های اصلیش و البته تماشاگران در می‌آورد. شباهت‌هایی با فیلم جن‌گیر (The Exorcist)‌ نیز در این فیلم دیده می‌شود؛ وقتی که کودکان به بیماری ناشناخته‌ای دچار می‌شوند، طبیبانی که از بهترین و به‌روزترین بیمارستان های دنیا آمده‌اند هم تنها با حالت درماندگی به وجود علائمی از بیماری‌های روانی اشاره می‌کنند.
در یک نگاه مختصر به فیلم، این شخصیت مارتین با بازی فوق‌العاده‌ کیوگان است که توانسته با ترکیب کم‌تجربگی یک جوان و قدرتی خانمان‌سوز در این شخصیت، کل فیلم را در دست بگیرد. گهگاهی با دیدن مارتین به یاد نسخه‌ی جوان شده‌ی “نورمن بیتس” میفتیم؛ جوانی خام و به شکل پنهانی خطرناک ! اما در بقیه موارد او همانند شخصیت نوجوان “ازرا میلر” در فیلم “ما باید در مورد کوین صحبت کنیم” (We Need To Talk About Kevin) بنظر می‌رسد که باید بار گناه پدر و مادرش را به دوش بکشد. در تمام طول فیلم، لانتیموس و نویسنده‌ی همیشگی آثار او، “افتیمیس فیلیپو“، از پاسخ دادن به این سؤال که آیا این مرد جوان، پیام آور یا سازنده‌ی دنیای ماورای باور انسان‌هاست یا خیر پرهیز کرده، و این شما را مشتاق به دیدن ادامه‌ی فیلم می‌کند. وقتی که حقایق تلخ بالاخره روشن می‌شوند، همانند ‌آهنگی طلسم شده در ذهنتان تکرار می‌شوند و سرنوشتی شوم را در ذهنتان تداعی کرده که با مفاهیم دنیای معاصر هیچ همخوانی‌ایی ندارد.
در این فیلم شاهد رقابت سنت و مدرنیته هستیم؛ لودگی و ترس، و دقیقاً همین موضوع نقطه‌ی قوت فیلم “کشتن گوزن مقدس” محسوب می‌شود. علیرغم اینکه فضای این فیلم بسیار واقع‌گرایانه‌تر از آثار قبلی لانتیموس دیده می‌شود، اما هرگونه آشنایی با فضای این فیلم، ترس و وحشت موجودات و اشیای فرازمینی آن را دوچندان می‌کند. (نویسنده‌ی “رزماری بیبی“، “ایرا لوین” از نزدیکی عناصر این فیلم خشنود خواهد شد). به شکل مشابهی، نبرد میان طنز های بی‌روح و صحنه‌های ترسناک و خونین تا انتها بی‌نتیجه باقی می‌مانند؛ این کار باعث می‌شود تا مخاطبین هنگام دیدن صحنه‌های ترسناک، با دیده‌ی شک و تردید به آن‌ها بنگرند.
البته هرکدام از تماشاگران واکنش بسیار متفاوتی نسبت به این درام عجیب و غریب خواهند داشت. “فرل” می‌گوید ساخت این فیلم او را شدیداً افسرده کرده است؛ هرچند شاید تماشاگرانی وجود داشته باشند که از این فیلم به وجد بیایند. حالت من در طول فیلم بین حالات تحت‌ تأثیر قرار گرفته، هشیار، گیج و وحشت زده تغییر می‌کرد که گمان می‌کنم این موضوع باعث خنده‌ی لانتیموس خواهد شد.
بخوانید: چرا باید سریال گراویتی فالز را تماشا کنید؟
0 notes
sadeghazadi · 5 years ago
Text
ارسالى از مخاطبین كانون پناهجویان ایران
منتشر شده در: کانون پناهجویان ایران ارسالى از مخاطبین كانون پناهجویان ایران
مرز یوان امروز منتشر شده توسط: Muhamad Ghazizade
من اصالتا هندی هستم ولی متولد و بزرگ شده ایرانم منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
اسم و فامیلی پدر بزرگتو میگی اونا میرن آزمایش دی ان ای شما رو چک میکنن ک بفهمن نکه خیلی مهمی
پدرم فوت شده داخل ایران دفن شده منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
سپاسگذارم
یعنی چی چپ و راست به همه نظر میدی حالا هندی هستی شناسنامه هندی داری منتشر شده توسط: mori pouladi
شما ماله هرجا هستی اول باید اون و ثابت کنی. منتشر شده توسط: Davood Abid
چه پیچیده شد
میگم که داخل ایرا متولد شدم شناسنامه ایرانی دارم ولی شماسنامه پدرم هس منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
پاسپورتش منظورمه منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
به کی؟ منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
عجب خب بازم در اینصورت بخاطر طرز فکر قشنگ شما براتون ی راحلی پیدا میکنن ک هر چ سریعتر نجاتتون بدن ببرنتون پهلو خودشون بشوننت
خود هندی ها تو اروپا فارسی یاد میگیرن که ایرانی خودشونو جا بزنن اگه هندی هستی صداش رو در نیار منتشر شده توسط: Chotte Lal
اگه پدرم بود که مشکلی نداشتم عزیز منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
سلام منتشر شده توسط: دیاکو .
احسنت منتشر شده توسط: Mehrdad
به همونی که میخوای بگی خودت داری میگی می تونم بگم.؟ منم عرض کردم باید ملیت خودت رو اول باید ثابت کنی نه اینکه درگیر بشی که یک ملیت رو رد کنی از خودت منتشر شده توسط: Davood Abid
اگه هندی هستی مثلا مدارک موجود + عکس و مستندات ارائه می‌کنی بعد اگر سوال شد جریان ایران چیه توضیح میدی ، البته نه به این شفاشی منتشر شده توسط: Davood Abid
لطفا اگر اطلاعات ندارید از رو هوا صحبت نکنید منتشر شده توسط: mori pouladi
مثلا میخاد بگ نوه خمینیه
بابا چرا فک میکنی شوخی میکنم.من مدارک از پدرم دارم که میتونم ثابت کنم پدرم ماله کجا هست.خودمو میگم میتونم از این طریق کاری بکنم؟ منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
بی شوخی چند مورد پاکستانی و هندی میشناسم تو یونان خودشونو ایرانی معرفی کردن نرخ قبولی هندی یا پاکستانی خیلی پایینه منتشر شده توسط: Chotte Lal
برو پاس هندی بگیر از هند بیا منتشر شده توسط: mori pouladi
متولد کجایی؟
سلام دوستان .میگن این تایمی که دوبلین بخاطر کرونا متوقف شده محفوظه و بعد ازبحران کرونا دوباره باید سپری بشه که ۶ ماه کامل بشه.آیا این داستان حقیقت داره؟یعنی جزو ماده و تبسره قانون دوبلینه؟
بهتر از پاس ایرانی؟؟ منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
ایران منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
ایرانی هستی منتشر شده توسط: Davood Abid
مدرک ایرانی داری؟ منتشر شده توسط: Davood Abid
نمیدونم تو اصرار داری منتشر شده توسط: mori pouladi
مدرک هندی نداری؟ منتشر شده توسط: Davood Abid
اصرار ندارم خاستم بدونم ازین طریق میشه کاری کرد منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
گفتم پاس هندی بگیر بیا منتشر شده توسط: mori pouladi
ن منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
خب وقتی بکارم نیاد وقتی از پاس ایرانی ضعیفتره چرا بگیرم؟؟ منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
چه کار میخواهی بکنی ؟ منظورت از کاری کردن چیه؟ منتشر شده توسط: mori pouladi
مرسی
اگه پاس هندی بتونی بگیری میتونی تا صرب بدون ویزا بری منتشر شده توسط: Chotte Lal
واقعا؟؟ منتشر شده توسط: Mohamad Yaser Ahmadi
��لا رد دادی خودت اصرار داری ثابت کنی هندی هستی منتشر شده توسط: mori pouladi
پاس هندی مگه معتبره؟
نوشته ارسالى از مخاطبین كانون پناهجویان ایران اولین بار در کاولا. پدیدار شد.
from WordPress https://ift.tt/33KJdrl via IFTTT
0 notes