#اوچھے
Explore tagged Tumblr posts
Text
حکومت نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے تو مذاکرات روک دیں گےمولانا فضل الرحمان
(24نیوز)جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ جے یو آئی کے ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے،ہمارے ارکان کو بڑی آفر دی جارہی ہیں، حکومت نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے تو مذاکرات روک دیں گے،حکومت کا رویہ بدمعاشی کا ہوا تو ہمارا بھی وہی ہوگا،ولیل کے ساتھ بات کروتو دلیل سے جواب دیں گے،اپوزیشن ارکان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، صبح تک تمام صورتحال تبدیل دیکھنا چاہتا ہوں۔ تحریک…
0 notes
Text
حکومت نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے تو مذاکرات روک دیں گےمولانا فضل الرحمان
(24نیوز)جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاہے کہ جے یو آئی کے ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے،ہمارے ارکان کو بڑی آفر دی جارہی ہیں، حکومت نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے تو مذاکرات روک دیں گے،حکومت کا رویہ بدمعاشی کا ہوا تو ہمارا بھی وہی ہوگا،ولیل کے ساتھ بات کروتو دلیل سے جواب دیں گے،اپوزیشن ارکان کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، صبح تک تمام صورتحال تبدیل دیکھنا چاہتا ہوں۔ تحریک…
0 notes
Text
دی گارڈین نے سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا
نئی دہلی: دی گارڈین نے سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا، مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت نے بُچر پیپرز کو منظرِ عام پر لانے سے روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اپنائے۔ تفصیلات کے مطابق عالمی میڈیا بھی بھارت کی کشمیریوں سے کی گئی وعدہ خلافی پر بول پڑا ہے، مودی سرکار نے کشمیر پر ایک اور وار کرتے ہوئے بھارتی آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے رپورٹ کیا ہے کہ…
View On WordPress
0 notes
Text
دی گارڈین نے سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا
نئی دہلی: دی گارڈین نے سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا، مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت نے بُچر پیپرز کو منظرِ عام پر لانے سے روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اپنائے۔ تفصیلات کے مطابق عالمی میڈیا بھی بھارت کی کشمیریوں سے کی گئی وعدہ خلافی پر بول پڑا ہے، مودی سرکار نے کشمیر پر ایک اور وار کرتے ہوئے بھارتی آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ برطانوی اخبار دی گارڈین نے رپورٹ کیا ہے کہ…
View On WordPress
0 notes
Text
غریب ملک کے حکمرانوں کی شاہ خرچیاں
قارئین کیاآپ جانتے ہیں کہ برطانیہ میں حکومت کے پاس جو سرکاری گاڑیاں ہیں ان کی کل تعداد 45 ہے۔ یعنی 45 گاڑیوں کا ایک پول ہے جو تمام وزارتوں اور سرکاری دفاتر میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی گاڑی کسی کے نام پر نہیں ہے۔ کسی ضرورت کے وقت جو گاڑی موجود ہو گی وہی استعمال ہو گی، دوسری بات یہ ہے کہ صرف ہمارے صوبہ سندھ میں سرکاری گاڑیوں کی تعداد 25 ہزار ہے اور جب ہمارے وزیر اعظم نے یہ کہا تھا کہ ہم ملک کا جی ڈی پی اوپر لے کر جائیں گے تب کوئی نہیں سمجھا تھا کہ جی ڈی پی کا مطلب کیا ہے مگر اب ضرور یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ گیس، ڈیزل اور پیٹرول کے نرخ بڑھانے ہیں، جس کیلئے پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ اس کی تمام شرائط مان لی جائیں گی۔ بجلی پر سبسڈی ختم کر دی جائے گی، گیس بھی مہنگی ہو جائے گی، پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھا دی جائے گی۔
آئی ایم ایف نے روپے کی قدر گرانے اور ڈالر کی قدر میں اضافہ کی شرط بھی لگا دی ہے، جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو گا اور اس کے ساتھ ہی دوست ممالک، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھی قرض کا حصول ممکن ہے۔ پاکستان جس معاشی بدحالی سے گزر رہا ہے اس سے نکلنے کیلئے آئی ایم ایف ہماری مجبوری بن گیا ہے تاہم یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ ملک میں جس طرح ڈالر کی قلت ہے وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی، اس کی ایک بڑی وجہ درآمد ات میں تیزی سے اضافہ اور بر آمدات میں کمی ہے۔ ان دونوں میں توازن قائم کرنے کے لئے برآمد کنندگان کو سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی خصوصاََ خام مال کی درآمدکی راہ میں جو مشکلات ہیں انہیں دور کیا جائے۔ حکومت صنعتکاری کے فروغ کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔ اگر پاکستان میں 20000 افراد کو بلامعاوضہ پیٹرول کی سہولت میسر ہے اور ایک افسر اگر ماہانہ 400 لیٹر پیٹرول استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو ماہانہ 80 لاکھ لیٹر پیٹرول فری دینا پڑتا ہے، جو خریدنے کیلئے ماہانہ تقریباَ 50 لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔
یہ وہ ناسور ہے جو ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد نہیں ہونے دیتا۔ سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اپنی جگہ لیکن اب ملکی اشرافیہ کا یہ فری پیٹرول بند ہونا چاہئے۔ ملک کی اشرافیہ کے فری بجلی کے یونٹ بند ہونے چاہئیں، ملک کی اشرافیہ کے فری ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہئیں۔ اس وقت پارلیمنٹ کے اراکین کی تنخواہوں کے حجم کو کم کرنا ہو گا اس وقت اراکینِ پارلیمان کی صرف تنخواہوں کا مجموعی حجم 35 ارب 54 کروڑ 70 لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ ہاؤس رینٹ، گاڑی، گھر کے بل، ٹکٹ، بیرون ملک دورے اور رہائش اس میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزرا، وزرائے اعلیٰ، گورنرز، وزیر اعظم، صدر کی تنخواہیں شامل نہیں ہیں۔ مختلف اجلاسوں کے اخراجات اور بونس ملا کرسالانہ خرچ 85 ارب روپے کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اکثر یہ لوگ خود ٹیکس نہیں دیتے۔ معزز پاکستانیو! اگر اس ملک میں واقعی تبدیلی چاہتے ہو، تو پھر یہ جنگ آپ کو خود لڑنا ہو گی۔
لوگوں کو اگر گیس، بجلی اور پانی پر سبسڈی نہیں ملتی تو پارلیمنٹ کینٹین میں سبسڈیزائڈ فوڈ کسی رُکن پارلیمان کو نہیں ملنا چاہئے۔ موجودہ حالات میں ملک میں کیسے ڈالروں کی بارش ہو گی؟ ایک بات اور بتاتا چلوں کہ ہم ادھر ادھر اور آئی ایم ایف کی طرف بھاگتے ہیں ۔ میرے ایک دوست ہیں انہوں نے بتایا کہ 2017 سے 2022 تک یعنی 5 سال میں اوورسیز پاکستانیز نے پاکستان میں 145 ارب ڈالر پاکستان بھیجے جب کہ سعودی عرب نے ان 5 برسوں میں ہمیں 10 ارب ڈالر دئیے ۔آئی ایم ایف نے ساڑھے 4 ارب ڈالر دئیے، چائنا نے 4.2 ارب ڈالر دئیے اور امریکہ نے 8 ملین ڈالر یعنی 1 ارب ڈالر بھی پورا نہیں دیا۔ ان اعدادو شمار کو اگر جمع کر دیا جائے تو بھی 20 ارب ڈالر نہیں بنتے جب کہ ان کے مقابلے میں ہمارے لوگوں نے 145 ارب ڈالر دئیے ۔ آپ ان کو اگر تھوڑی سی عزت دیںگے تو یہ اور بھی ڈالرز ملک بھیجیں گے۔ آئی ایم ایف حکومت سے یہ کیوں نہیں پوچھتی کہ وہ اتنے شاہانہ اخراجات کیوں کرتی ہے؟
پاکستان جیسے چھوٹے ملک میں 70 سے 80 رُکنی کابینہ کس کام کی ہے؟ کیا آئی ایم ایف صرف غریبوں پر ٹیکس لگانا جانتی ہے ؟ آئی ایم ایف کو حکومتوں سے ان کی شاہ خرچیوں پر سوال کرنا چاہئے جب کہ ہم خود ہی اس کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ پنجاب اسمبلی تحلیل ہو گئی ہے، کے پی اسمبلی تحلیل ہےتو ملک میں ساری اسمبلیاں تحلیل کر کے پو را الیکشن دوبارہ کیوں نہیں کروایا جارہا تاکہ عمران خان جو یہ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن موجودہ سیاسی بحران کا واحد حل ہے تو اس حل کی طرف جائیں۔ مرکز میں بیٹھ کر جھوٹے کیس بنا کر سیاسی مخالفین کو دھمکانے جیسے اوچھے ہتھکنڈے بند کرنا ہوں گے۔
خلیل احمد نینی تا ل والا
بشکریہ روزنامہ جنگ
0 notes
Text
جڈیجا کی گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بال ٹمپرنگ قرار؟
بھارتی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے خلاف جیت کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی۔ ناگپور ٹیسٹ کے پہلے روز آسٹریلوی ٹیم 177 رنز پر ڈھیر ہوگئی جواب میں بھارت نے ایک وکٹ کے نقصان پر 77 رنز بنالیے ہیں۔ بھارت کی جانب سے رویندر جڈیجا نے پانچ کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی جبکہ روی چندر ایشون تین وکٹیں حاصل کرسکے۔ the crying is unreal! he was applying ointmentthe pitch was same for both aus and india or are…
View On WordPress
0 notes
Text
جڈیجا کی گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بال ٹمپرنگ قرار؟
بھارتی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے خلاف جیت کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی۔ ناگپور ٹیسٹ کے پہلے روز آسٹریلوی ٹیم 177 رنز پر ڈھیر ہوگئی جواب میں بھارت نے ایک وکٹ کے نقصان پر 77 رنز بنالیے ہیں۔ بھارت کی جانب سے رویندر جڈیجا نے پانچ کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی جبکہ روی چندر ایشون تین وکٹیں حاصل کرسکے۔ the crying is unreal! he was applying ointmentthe pitch was same for both aus and india or are…
View On WordPress
0 notes
Text
خوش رہنے کے سات طریقے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برٹنڈ رسل نے اپنی مشہور کتاب "دا کنکوئیسٹ آف ہیپی نیس" یعنی خوشی کی فتح میں خوش رہنے کی سات وجوہات بیان کی ہیں ۔ جبکہ بقول مسٹر کرٹش
Happiness is impossible in this world ۔
رسل نا صرف اس نقطہ نظر سے شدید اختلاف کرتا ہے بلکہ کہتا ہے کہ اگر ایک شخص اچھی صحت، خوراک اور گھر کے حصول کے باوجود ناخوش ہے تو یقینا وہ کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے ۔۔
میرے ذاتی خیال میں رسل نے خوشی کو مکمل طور پر داخلی وجود سے کاٹ کر ایک غیر فطری بیانیہ دیا ہے۔ کئی صحتمند لوگ اچھے گھر میں رہنے کے باوجود خوش نہیں ہوتے لیکن انکے پاس اس ناخوشی کی ایک معقول وجہ ہوتی ہے ۔ ہم صرف رسل کے معیار پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں نفسیاتی نہیں کہہ سکتے ہیں ۔ ہاں کچھ لوگ الم کو اپنے داخل و خارج پر اسطرح حاوی کرلیتے ہیں کہ انہیں ہر چیز میں غم محسوس ہوتا ہے، ایسے لوگ چاہے اکثریت میں ہی کیوں نا ہو، نفسیاتی ہی ہیں اور رہیں گے ۔ کوئی مفکر اور کوئی ماہر زودرنجی اور ناشکری کو نارمل کیفیت قرار نہیں دے سکتا ۔۔
اور پھر وہ سات وجوہات جنہیں رسل نے خوشی کی وجوہات قرار دیا ہے، ان سے خوشی کشید کرنے کیلئے پہلے یہ مان لینا ضروری ہے کہ خوشی ہوئی الہامی تحفہ نہیں جو یکدم آپ پر نازل ہوگی اور آپ بیٹھے بٹھائے خوشی سے مالامال ہو جائیں گے ۔۔ ہر گز نہیں!
بلکہ پیسے کی طرح آپکو اسکی تلاش کرنی ہوگی۔ اور تلاش کے بعد اسکے حصول کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی ۔ اس دنیا کی کوئی چیز کسی کو ٹرے میں رکھ کر پیش نہیں کی جاتی اور نا کبھی کی جائے گی ۔ پیدائش کے بعد سے یہ عمل شروع ہوتا ہے اور آخری سانس تک جاری رہتا ہے ۔۔۔
رسل نے اپنی کتاب میں مندرجہ ذیل سات عوامل کو خوشی کے عوامل بتایا ہے ۔
�� جوش
● شفقت و محبت
● خاندان
● کام
● ذاتی دلچسپیاں
● جدوجہد اور اطمینان
● خوشی برائے خوش رہنا
۔۔۔۔۔۔۔
جوش :
۔۔۔۔۔۔۔
یہ نہایت فطری امر ہے کہ جوش سے قبول کیاگیا ہر کام آپکے جذبات و کیفیات پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ سستی و پژمردگی اسی کام کو کندھوں کا بوجھ بنا دیتی ہے ۔ اپنے اردگرد مشاہدہ کیجئے، خوش رہنے والے لوگ جوشیلے، توانا اور نت نئی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے اور مختلف چیلنجز کو قبول کرنے والے ہوگے ۔ جبکہ فرصت کے لمحات ڈھونڈ کر تصور جاناں میں کھوئے رہنے والے نمونے نا صرف بہت جلد بدشکل، بدحال ہو جاتے ہیں بلکہ ان کے وجود سے بھی منفی لہریں خارج ہونے لگتی ہیں اور وہ قابل ترس رہ جاتے ہیں ۔اپنے جوش کو زندہ رکھیں، اپنی ذات سے باہر نکل کر خارجی دنیا میں دلچسپی لیجئے؛
"جی میرا تو کسی کام میں دل ہی نہیں لگتا،" کہنے والے خوشی سے محروم نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے ذاتی اختیار سے خوشی کو مسترد کرتے ہیں ۔۔
خواتین کیلئے اس جوش و جذبے کا اظہار مرد کی نسبت تھوڑا سا مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ معاشرتی ردعمل سے ڈرتی ہیں ۔ وہ سوچتی ہیں کہ پتہ نہیں معاشرہ انکے جذبے کو کیسے وصول کرے اور کہیں ردعمل میں میری عزت نفس اور نزاکت پر کوئی آنچ نا آ جائے ۔ یہ سوچ انہیں دروں بیں( انٹروورٹ) بناتی ہے ۔
یہاں یہ خیال رہے کہ انٹروورٹ ہونا غلط نہیں ہے، لیکن معاشرتی خوف سے انٹروورٹ بن جانا خود پر ظلم ہے ۔
جوش لائیں، اپنی ذات کو بیرونی عناصر سے جوڑیئے اور خود میں آنے والا بدلاو دیکھیں ۔۔
"اجی! میں تو بہت تنہائی پسند ہوں " والے ڈرامے سے نکل آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شفقت و محبت :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت دیجئے ، محبت لیجئے
اپنے اطراف کی ہر چیز سے محبت کریں اور بدلے میں محبت پائیں۔ عموما ہم یہ سوچ کر بیٹھے رہتے ہیں " مجھے تو کوئی محبت ہی نہیں کرتا " سو ایسے لوگوں سے پوچھا جائے تمہاری رونی شکل سے کوئی محبت کرے گا بھی کیوں؟ اگر آپ محبت دے نہیں سکتے تو محبت نا ملنے کا شکوہ سراسر بیکار ہے ۔اور یہ ممکن نہیں آپ محبت دیں اور بدلے میں آپکو محبت نا ملے۔ یہ ایک ایسا طاقتور جذبہ ہے جس کی عدم موجودگی انسان کو نفسیاتی مریض اور احساس کمتری کا شکار بنا دیتی ہے ۔۔ وہ معاشرے سے باغی ہو جاتا ہے اور توجہ حاصل کرنے کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ۔ آہستہ آہستہ وہ حقیقت پسندی سے بہت دور ہو جاتا ہے اور خود کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔
سراہے جانا، چاہے جانا ۔۔سیروں خون بڑھاتا ہے ۔
سو آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو محبت کرنا شروع کردیجئے ۔ بہت سادہ سا فارمولا ہے ۔
بقول شیکسپیئر
Kindness gives birth to kindness.
اور یہاں یہ سوچ کر کہ میں جنس مخالف سے محبت کی بات کر رہی ہوں، اپنے ��دید ترسے ہونے کا ثبوت نا دیجئے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
خاندان :
۔۔۔۔۔۔۔
خاندان وہ ادارہ ہے جس کی خوشحالی اور بہتری کیلئے اسکا ہر رکن کچھ نا کچھ حصہ ڈالتا ہے ۔ عورت اس میں اپنا وقت، صلاحیتیں اور توانائی لگاتی ہے ۔
تو مرد دن رات محنت سے کمایا گیا پیسہ اپنے خاندان پر لگاتا ہے ۔ جب وہ خاندان بڑھتا ہے؛ معاشرے میں عزت پاتا ہے تو اسے دیکھ کر اسکے ارکان وہی خوشی محسوس کرتے ہیں جو ایک کسان بیج سے پودا نکلتا دیکھ کر کرتا ہے ۔۔
آپ مشاہدہ کیجئے گا ، اگر کوئی شخص رسل کے بتائے سات عوامل میں سے چھ پر عمل کرتا ہے لیکن پھر بھی خوش نہیں ہے تو اسکی وجہ خاندان میں حصہ نا ڈالنا یا ٹوٹا ہوا خاندان ہوگا ۔
اسلئے اگر آپ کا گھر ہے ، خاندان ہے، رشتے ہیں تو ان سے منہ نہیں پھیریں بلکہ انکے لئے اپنے حصے کا کام کر کے ان سے خوشی کشید کریں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپنے حصے کا کام کریں صرف، بہت سے لوگ خاندان کیلئے ضرورت سے زیادہ حصہ ڈال دیتے ہیں جس وجہ سے دیگر ارکان لاپرواہ یو جاتے ہیں اور بوجھ کسی ایک پر پڑ جاتا ہے ۔ سو خیال رکھیں کہ خاندان کا ادارہ بہت نازک ہے ۔ اس سے نا بالکل لا پرواہ ہو جائیں، نا دوسروں کو لاپرواہ ہونے کی اجازت دیں ۔
۔۔۔۔
کام :
۔۔۔۔
بظاہر کام کا لفظ سن کر بوجھ اور ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے ۔ اسکی وجہ وہ مرد ہیں جو پانچ بجے آفس سے آتے ہی گھر میں داخل ہوتے ہیں اور بستر پر گر جاتے ہیں، بیوی بچے سب سہم کر چپ ہو جاتے ہیں اور خود کو مرد کے احسان تلے محسوس کرنے لگتے ہیں کہ بیچارہ، کتنا کام کرتا ہے ہمارے لئے ۔۔ بچے اس لمحے محبت سے زیادہ اپنے باپ پر ترس کا جذبہ محسوس کرتے ہیں
اسکی وجہ وہ عورتیں ہیں جو رات کو اپنی کمر اور پنڈلیاں دباتے ہوئے سر پر دوپٹہ باندھ کر بیٹھی رہتی ہیں اور سات آٹھ رنگوں کی دوائیاں قریب پڑی ہوتی ہیں ، رات تک شوہر ٹھیک ہو جاتا ہے اور بیوی خراب۔۔ شروع شروع میں وہ " اچھا آو، میں دبا دیتا ہوں کندھے " کہہ کر چند دن لاڈ اٹھائے گا ۔ لیکن مسلسل یہی عمل اسے " تو جا کر سو مر جاو، دماغ کیوں کھا رہی ہو" جملے پر لے آئے گا ۔۔
آغاز میں بیوی تھک کر گرے شوہر کے سرہانے سہم کر پانی کا گلاس لیکر کھڑی ہوگی لیکن مسلسل یہی عمل " آ گیا واپس جان دا عذاب " کی سوچ پر لے آئے گا۔۔۔
کام آپکو کارآمد بناتا ہے ۔ آپ معاشرے کی گاڑی میں کہیں نا کہیں سوار ہیں ۔آپ اپنے مقصد کی تکمیل ک�� رہے ہیں، آپ رزق حلال عین عبادت ہے پر عمل کر رہے ہیں، آپ اپنے خاندان میں اپنے حصہ کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔
ہرگز ہرگز ہرگز اسکا بوجھ دوسرے پر نا ڈالیں ۔ جتائیں مت، اپنے کئے کو احسان نا سمجھیں ۔ عورت مرد کے گھر آنے سے پہلے شکل سنوار کر دروازے کے قریب منڈلاتی ہو اور مرد گھر آتے ہی ایک دلکش مسکراہٹ اچھال دے ۔۔ اور خود کو معاشرے اور گھر دونوں میں کامیاب بنائے ۔
دوسری طرف یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ کام کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں جو آپکے ہنر، مزاج اور تعلیم سے ��یل کھاتا ہو۔ تاکہ آپ اسے کامیابی سے کر سکیں، نا کہ آفس سے ذلیل ہوتے رہیں ۔ نئے کورسز سیکھیں، تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی اپنے کاروبار سے متعلقہ علم حاصل کرتے رہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذاتی دلچسپیاں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگوں کو آخری عمر تک علم ہی نہیں ہو پاتا کہ انکی ذاتی دلچسپی کیا ہے ۔ خودشناسائی حاصل کریں کہ کونسا کام یا کونسی عادت ہے جو آپکو خوشی اور سکون دیتی ہے اور اسے اپنائیں،
وہ کوئی بھی مشغلہ ہو سکتا ہے ۔ باغبانی، گیمز کھیلنا، مطالعہ کرنا، سجنا سنورنا، کچھ بھی ۔۔ اپنی دلچسپی کے مشاغل سے خوشی کشید کریں ۔
یہاں یہ پہلو قابل غور ہے کہ دلچسپی کو کام بنانے سے پہلے سوچ سمجھ لیں کہ آپ اسے بطور مشغلہ نبھا سکتے ہیں یا بطور ذمہ داری؟ جیسے کسی عورت کو سجنے سنورنے کا شوق ہے اور وہ اس شوق میں اتنا بڑھ جاتی ہے کہ اپنا پارلر کھول لیتی ہے ۔ یہاں یہ چیز ذاتی دلچسپی سے کام کے مرحلے میں داخل ہوگئی جبکہ عورت کے پاس پہلے سے ایک کام یعنی گھر کی دیکھ بھال موجود ہے ۔
اسلئے یہ فیصلہ لینے سے پہلے خوب سوچ بچار کرلیں کہ کہیں آپ ذاتی دلچسپی سے خوشی کشید کرنے کے بجائے اسے خود پر بوجھ تو نہیں بنا رہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدوجہد اور اطمینان :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر انسان بہت سی خواہشات رکھتا ہے، بہت سے خواب دیکھتا ہے اور پھر انکی تکمیل کیلئے جدوجہد کرتا ہے ۔ یہ جدوجہد اسے مزید آگے بڑھنے کی تحریک اور حوصلہ دیتی ہے کہ بہت جلد وہ اپنی خواہش کو پا لے گا ۔
لیکن کسی وجہ سے وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا تو بد دل اور افسردہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں اپنی سوچوں کی سمت کا تعین کرنے کی ضرورت ہے ۔۔
اول : اتنی جدوجہد کریں جتنی آپ برداشت کرسکیں، آپکی خواہش کوئی مکان نہیں ہے اور آپ معمار نہیں ہیں کہ دن رات اینٹیں جوڑیں گے تو جلدی بن جائے گا ۔ ہر چیز وقت مانگتی ہے، مستقل مزاجی مانگتی ہے ۔
دوم: کبھی بھی غیر حقیقی چاہ کیلئے جدوجہد نا کریں، ایک مزدور کو اس چیز کیلئے محنت کرنی چاہئے کہ اسکا اپنا ایک گھر ہو ۔ اس چیز کیلئے نہیں کہ وہ ایک جزیرہ خریدنا چاہتا ہے ۔ حقیقت کے قریب تر رہ کر محنت کریں تاکہ مایوسی نا ہو ۔ہاں خواب جو چاہے دیکھیں اس پر کیا پابندی ۔۔۔
سوم: اطمینان رکھیں، شکر گزار رہیں ۔۔ اور اپنے اطمینان میں توازن رکھیں ۔ نا اسقدر مطمئن ہو جائیں کہ جدوجہد چھوڑ کر یہ سمجھیں کہ کامیابی خود چل کر آ جائے گی ۔
نا اسقدر مضطرب ہو جائیں کہ زندگی بے حال ہو جائے ۔ آپکے اطمینان کا اختتام مایوسی پرنہیں، بلکہ مضبوط امید پر ہونا چاہئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی برائے خوش رہنا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھیں کہ آپ خوش ہیں کیوں کہ آپ خوش ہونا چاہ رہے ہیں ۔۔ آپ نئے کپڑے پہنتے ہیں کیونکہ آپ خوبصورت لگنا چاہتے ہیں ۔
آپ اچھا کھانا پکاتے ہیں کیونکہ آپ اسکا ذائقہ محسوس کرنا چاہتے ہیں ۔۔ اسی طرح اپنی خود ترسی سے نکلئے اور کبھی کبھی صرف اسلئے خوش ہو جائیں کیوں کہ آپ خوش ہونا چاہتے ہیں ۔۔
1 note
·
View note
Text
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پی این اے کے چئیرمین ذوالفقار احمد کو دھمکیوں کی مذمت کرتی ہے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے آذادی پسندوں کو حق کی راہ سے نہیں ہٹایا جاسکتا خفیہ قوتوں کی طرف سے ایسے حربے کوئ نئی بات نہیں ہے لیکن ایسے حربوں سے اگر آذادی کی تحریک کو دبایا یا ختم کیا جا سکتا ہوتا تو یہ تحریک کب کی ختم ہو چکی ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ہر روز نئے سورج کے طلوع ہوتے ہی اس میں ایک نیا جذبہ اور ولولہ ہوتا ہے ہم ایسے تمام خفیہ ہاتھوں کو متنبع کرتے ہیں کہ وہ اپنے رویے کو بدلیں ورنہ اگر ہمارے کسی رہنما یا کارکن کو کسی طرح کا نقصاں ہوا یا ان کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کا جواب بھرپور قوت سے دیا جائے گا۔
جاری کردہ: عمرحیات خان ترجمان
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ
1 note
·
View note
Text
سازشی پچ کی تیار کرنے کی بھارتی چال پکڑی گئی
بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان 4 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل بارڈر گواسکر سیریز کا آج سے ناگپور میں آغاز ہوگیا تاہم میچ سے قبل ہی میزبان انڈیا نے جیت کیلیے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان 4 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل بارڈر گواسگر سیریز کا آج سے آغاز ہوگیا اور ناگپور میں دونوں ٹیمیں میدان میں اتر چکی ہیں۔ تاہم بھارت سیاست کی طرح کھیل میں بھی اپنی من مانی کرنے لگا ہے اور ٹیسٹ میچ…
View On WordPress
0 notes
Text
سازشی پچ کی تیار کرنے کی بھارتی چال پکڑی گئی
بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان 4 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل بارڈر گواسکر سیریز کا آج سے ناگپور میں آغاز ہوگیا تاہم میچ سے قبل ہی میزبان انڈیا نے جیت کیلیے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان 4 ٹیسٹ میچوں پر مشتمل بارڈر گواسگر سیریز کا آج سے آغاز ہوگیا اور ناگپور میں دونوں ٹیمیں میدان میں اتر چکی ہیں۔ تاہم بھارت سیاست کی طرح کھیل میں بھی اپنی من مانی کرنے لگا ہے اور ٹیسٹ میچ…
View On WordPress
0 notes
Text
میں نے اپنا ہی ہاتھ تھام لیا
اگر پہلے برس میں ہی یہ حال ہو گیا ہے کہ چھوڑوں گا نہیں ماروں گا چن چن کے، پانچ ہزار لٹکا دو تو سب ٹھیک ہو جائے گا، زرد صحافت کا علاج گالی گھونسہ اور تلوار۔ تو سوچیے کہ اگلے چار برس کس طرح یہ حکومت اور پرجا گزار پائے گی؟ اگر حکماِ عظام ہی شغلِ بے نظام اپنا لیں گے تو گلی محلوں کے تلنگے کہاں جائیں گے۔ اب تو یہ تمیز کرنا بھی دشوار تر ہوتا جا رہا ہے کہ یہ کوئی سنجیدہ تھیٹر ہے، کامیڈی ہے، بلیک کامیڈی کہ ٹریجڈی۔ یہ تک سجھائی نہیں دے رہا کہ کون سا محاورہ منطبق ہو گا ؟ باؤلے گاؤں میں اونٹ آیا کہ بندر کے ہاتھ میں استرا، اوچھے کے ہاتھ میں تیتر باہر رکھوں کے بھیتر، سونے کی چھری ملی تو مارے خوشی کے اپنا پیٹ پھاڑ لیا یا پھر راہ میں کٹورا مل گیا تو پانی پی پی اپھارہ کر لیا۔ وہ شہرِ آشوب ہے کہ محاوراتی تاثیر بھی ہجرت کر چلی ہے۔
المیہ یہ نہیں کہ کچھ پتہ نہیں، المیہ یہ ہے کہ کچھ پتہ نہیں کو بھی ظاہر یوں کیا جا رہا ہے گویا سب پتہ ہے، لاعلمی کوئی عیب یہ نہیں، عیب یہ ہے کہ لاعلمی کو بتدریج علم کا درجہ حاصل ہو رہا ہے۔ کسی کو برا لگے کہ بھلا مگر کڑوی حقیقت تو یہی ہے کہ حکمرانی ایسا اسپِ وحشی ہے جسے نکیل ڈالنے کے لیے بے وقوفانہ مہم جوئی نہیں سفاک عقل مندی درکار ہے۔ یکسو نگاہ کے بجائے چہار سو خبر رکھنے والی نظر کی ضرورت ہے، رسمی تعلیم بھلے معمولی سہی پر سوجھ بوجھ غیر معمولی ہونی چاہیے یا کم ازکم یہی معلوم ہو کہ جو میں نہیں جانتا اسے سلٹانے کے لیے جانکار نورتنوں کے سپرد کر دوں۔ لیکن اگر آئینہ ہی راجہ کا واحد صلاح کار ہو اور درباری صرف سہولت کار تو ایسے رجواڑے کے لیے ایک سورہِ فاتحہ۔
اگر خام قسم بندی بھی کی جائے تو جناح صاحب کا دور مختصر مگر قدرے اصولی و جمہوری کہا جا سکتا تھا۔ بعد از جناح بیورو کریسی کی بادشاہ گری رہی، پھر فوج کود پڑی اور ایوب خان کا دور آمرانہ مگر بنیادی صنعتی ترقی کا دور کہلایا، یحییٰ خان کا زمانہ انتظامی طوائف الملوکی سے عبارت تھا، بھٹو کا نیم جمہوری نیم آمرانہ دور کہلایا، ضیا الحق کا ظالمانہ گرفت والا دور تھا جس میں قوم کو دولے شاہ کا کنٹوپ پہنانے کی سرتوڑ کوشش ہوئی اور خاصی حد تک کامیاب بھی رہی۔ ضیا کے بعد سے مشرف کے آنے تک کے درمیانی گیارہ برس کو نیم خود مختار و نیم کٹھ پتلیانہ زمانہ کہا جا سکتا ہے۔ مشرف کا دور آدھا تیتر آدھا بیٹر تھا۔
زرداری دور قانون سازی کے اعتبار سے بہتر مگر کرپشن کے اعتبار سے ابتر۔ نواز شریف کی تیسری مدت اقتصادی اعتبار سے غنیمت مگر طرزِ حکمرانی کے لحاظ سے بند کمروں میں فیصلہ سازی کا دور۔ مگر موجودہ دور کو کس خانے میں رکھا جائے؟ طوائف الملوکی یا ملوکی طوائفیت، دورِ ملنگی، جمہوری فسطائیت، عسکری جمہوریت یا پھر۔
سفر درپیش ہے اک بے مسافت مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نئیں (جون ایلیا)
آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ابھی سے موجودہ دور کی نپائی کیوں ہونے لگی ہے۔ ابھی تو دو ہزار بیس، اکیس، بائیس آئے گا تب جا کر دو ہزار تئیس آئے گا۔ بات آپ کی بالکل درست ہے مگر مجھے کیوں لگ رہا ہے۔
میں نے اپنا ہی ہاتھ تھام لیا اور کوئی قریب تھا ہی نہیں (لیاقت علی عاصم)
وسعت اللہ خان
بشکریہ بی بی سی اردو
1 note
·
View note
Text
’نہیں چھوڑوں گا‘ کہنے والے کو سب چھوڑ کر جارہے ہیں.اپوزیشن
’نہیں چھوڑوں گا‘ کہنے والے کو سب چھوڑ کر جارہے ہیں.اپوزیشن
اپوزیشن رہنماؤں نے کہا کہ عمران خان 172 ارکان لا نہیں پا رہے لیکن پولیس اور انتظامیہ کے ذریعے ان کے اغوا کی تیاری کررہے ہیں، اوچھے ہتھکنڈے اس بات کا اعلان ہیں کہ عمران خان اکثریت اور ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں، ’نہیں چھوڑوں گا‘ کہنے والے کو سب چھوڑ کر جارہے ہیں اور کوئی اس کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہے۔ سندھ ہاؤس میں آج رات پولیس گردی کی گئی تو نتائج کے ذمہ دار عمران خان اور وزیرداخلہ شیخ رشید…
View On WordPress
0 notes
Text
کپتان کے نئے پاکستان میں صحافیوں کو دھمکیوں کا سامنا ہے
کپتان کے نئے پاکستان میں صحافیوں کو دھمکیوں کا سامنا ہے
سنیئر صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی نے الزام لگایا ہے کہ کپتان کے نئے پاکستان میں حکومتی سوشل میڈیا بریگیڈ کے ہاتھوں سچ لکھنے اور بولنے والے صحافیوں کو الزام تراشی، دھمکیوں اور تحقیر کا سامنا اور ریاست کی کوشش ہے کہ صحافی سچ کہنا اور لکھنا چھوڑ دیں۔ وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں عاصمہ نے کہا ہے کہ حکومتی اور ریاستی سوشل میڈیا بریگیڈ اوچھے ہتھکنڈوں سے حق اور سچ پر مبنی صحافتی آوازوں کو…
View On WordPress
0 notes
Text
'سرکاری ملازمین پر تشدد اور گرفتاری جعلی حکومت کے اوچھے اور ظالمانہ ہتھکنڈے ہیں'
'سرکاری ملازمین پر تشدد اور گرفتاری جعلی حکومت کے اوچھے اور ظالمانہ ہتھکنڈے ہیں' @ImranKhanPTI #pakistan #government #economy @CMShehbaz @NawazSharifMNS @MaryamNSharif #opposition @MoulanaOfficial @BBhuttoZardari #Aajkalpk
لاہور: مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا ہے کہ 126 دن اسلام آباد میں دھرنا دینے والے سے سرکاری ملازمین کا جائز احتجاج برداشت نہیں ہورہا، جعلی حکمران اتنا ظلم کریں، جتنا خود سہہ سکیں۔ سینیٹ کی ایک سیٹ کا ریٹ 50 سے 70 کروڑ روپے لگ چکا ہے، وزیراعظم اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے احتجاج اور پولیس کے ساتھ جھڑپ کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین پر…
View On WordPress
0 notes
Text
مریم نواز کی اسلام آباد میں سرکاری ملازمین پر تشدد کی مذمت - Pakistan
مریم نواز کی اسلام آباد میں سرکاری ملازمین پر تشدد کی مذمت – Pakistan
لاہور:مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نوازنے اسلام آباد میں سرکاری ملازمین پر تشدد کی مذمت کی ہے۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نوازنے سرکاری ملازمین کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری ملازمین پر تشدد، آنسو گیس اور گرفتاری جعلی حکومت کے اوچھے اور ظالمانہ ہتھکنڈے ہیں،ظالم حکومت نےعوام کومہنگائی کی چکی میں پیس کررکھ دیا،پہلی حکومت ہےجس نے4گنامہنگائی میں…
View On WordPress
0 notes