vaim1978-blog
vaim1978-blog
Waseem Abdullah
6 posts
Write Blogs on current & social issues
Don't wanna be here? Send us removal request.
vaim1978-blog · 8 years ago
Text
تصویر کہانی
فیس بُک کی بہت ساری خوبیوں میں سے ایک خوبی اس کی یادداشتیں شئیر کرنیوالی اپلیکیشن بھی ہے جو آپ کیساتھ اسی دن آپ کی شئیر کی ہوئ پچھلے سالوں کی تصویریں یادداشتوں کی صورت میں آپ کے سامنے لے آتی ہے۔ اسی طرح کی ایک تصویر میرے سامنے آئ اور بہت ساری یادیں اس کی ساتھ تازہ ہوگیئں۔ رفیق غوری صاحب میرے تایا زاد بھائ تھے اور میں چونکہ اکلوتا تھا اس لئے مجھ سے وہ انتہائ خاص محبت کیساتھ پیش آتے تھے اور مجھے ان کے ہاں ایک خاص قسم کی شفقت اور آزادی اظہار راۓ حاصل تھا جو میرے علاوہ بہت کم لوگوں کو حاصل تھا۔ اسی محبت بھری آزادی کے پیش نظر شای ان کیساتھ جتنی بے سرو پاء گفتگو میں کرلیتاتھا کسی اور کوجرات نہیں تھی اس کے علاوہ غوری صاحب کی فراغت کے دنوں میں جتنی میں نے ان کیساتھ آوارہ گردی کی ہے وہ پورے خاندان میں کسی نے نہیں کی۔ ان کے جی این این کے دفاتر مشرف مارشل لاء کے دور میں جب زبردستی بند کئے گئے تو ان کو راندہ درگاہ کرنے کے زعم میں مشرف نے ان کے کسی اور ادارے میں کام کرنے پر باقاعدہ نظر ر��ھی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ کسی اور ادارے میں کام نہ کرسکیں، روزنامہ اساس کے ایڈیٹر بنے تو اس کے مالک شیخ صاحب کو سرکاری اشتہارات کی بندش کے ذریعے بلیک میل کیا کہ غوری صاحب کو ادارت سے فارغ کرو اور اشتہارات لے جاؤ۔ یہی نہیں وہ جہاں جہاں بیٹھتے تھے ان جگہوں پر بھی ان کو تنگ کیا مثلاً وہ ہر شام آواری ہوٹل کی لابی میں بیٹھتے تھے سو ان کو وہاں پر بھی جانے سے زبردستی روکا گیا۔ بہرام ڈی آواری نے غوری صاحب سے کہا کہ غوری صاحب! ہم پر سختی ہے کہ آپ لابی میں نہ بیٹھیں سو آپ میرا دفتر کھلوا کر بیٹھ جایا کریں۔ غوری صاحب سمجھ گئے اور وہاں جانا بھی ترک کردیا، اس کے بعد ان کا ٹھکانہ ناصر باغ میں چوپال، مال روڈ کا شیزان اور واپڈا ہاؤس میں خالد احمد اور ان کے ایک اور دوست (جن کا مجھے نام یاد نہیں آرہا) کا دفتر ہوتا تھا۔ میں ان کے ساتھ آوارہ گردی میں بہت خوش رہتا تھا کیونکہ وہ اس آوارہ گردی میں مجھے بالکل اپنا ہم عمر اور دوست بنا کر گھومتے اور اپنے دوستوں سے بڑے پیار سے متعارف کرواتے، ان کیساتھ ان کے جن دوستوں سے مجھے ملنے کا شرف حاصل ہوا ان کی لسٹ بڑی طویل ہے لیکن آج تصویر دیکھ کر جن کی یاد آئ وہ پاکستان کے نامور شاعر اور ان کے انتہائ بے تکلف دوست خالد احمد ہیں۔ میں غوری صاحب کیساتھ ان کے ابتلاء کے دور میں بہت گھوما ہوں شیزان، چوپال اور کیفے نیرنگ، انہی دنوں میں واپڈا ہاؤس میں ان کیساتھ خالد احمد صاحب سے ملنے گیا۔ خالد احمد صاحب انتہائ سنجیدگی سے مجھے ملے بھایئجان نے میرا تعارف کروایا کہ یہ میرا چھوٹا بھائ ہے مجھے نہیں پتہ تھا کہ غوری صاحب کی خالد احمد صاحب سے بے تکلفی ایک میٹرک کے طالبعلم کے دوستوں جیسی ہے۔ خالد احمد صاحب انتہائ سنجیدگی سے بولے " بیٹا آپ صحافی ہو ؟ میں نے کہا جی نہیں، پھر بولے بیٹا مجھے پتہ ہے تم اس کے بھائ نہیں کیونکہ یہ نوجوان صحافیوں کو اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے اور پھر ان کو اخلاقیات، ایمانداری اور سچائ کا سبق دے کر ان کی زندگیاں خراب کرتا ہے اس لئے اس سے بچ جاؤ اور اس کیساتھ مت پھرا کرو یہ لوگوں کے بچے خراب کرتا ہے، اس نے نہ تو خود کوئ پیسہ کھانا ہے نہ تمہیں اس "صراط مستقیم" پر چلنے دینا ہے سو اس سے بچ جاؤ یہ خود کش بمبار ہے تمہیں بھی اڑا دے گا۔ پھر غوری صاحب سے بولے "غوری ایہہ کنوں پراء دی ٹوپی پوا کے لے آیا ایں ایناں وچاریاں نوں کم کرن دیا کر کیوں ایناں نوں خراب کرنا ویں، اگے توں مینوں کالم دی مت دے کے میری شاعری دا بیڑہ غرق کروایا اے ہور کنیاں نوں خراب کرنا ای" پھر اس کے بعد غوری صاحب سے گویا ہوۓ کہ پچاس روپے دے چاۓ منگواؤں، میں نے فری چاۓ پلانے کا ٹھیکہ نہیں لی رکھا۔ غوری صاحب نے کہا " خالد احمد بکواس بند کر تے ہُن سزا دے طور تے چاء دے نال کیک وی منگوا، بڑی کمینگی کرلئ توُں" خالد احمد صاحب بولے " کوئ نواں پروہنا آؤندا اے تے اوہنوں چاء پیان میرے کول لے آناں ایں، لنگر کھولیا اے میں ایتھے" ذہن میں رہے کہ یہ تمام گفتگو انتہائ سنجیدہ ماحول میں ہورہی ہے۔ پھر غوری صاحب اٹھے خالد احمد صاحب کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ان کا پرس نکالنے کی کوشش کرنے لگے کہ اچانک خالد احمد صاحب کہ ہنسی چھوٹ گئ اور ہنستے ہوۓ بولے " اوے نا کر یار جیب پاٹ جاۓ گی، پہلے ای تیری بھرجائ مینوں گھروں کڈن نوں پھردی اے، اوہنوں اک ہور بہانہ لبھ جاۓ گا "میں ان کی سنجیدگی اور ان کے اسطرح کے الفاظ سن کر ذرا پریشان ہوا اور تھوڑا رنجیدہ بھی کہ یہ میرے بڑے بھائ کے بارے میں کیسی باتیں کررہے ہیں۔ وہ شاید اس ناگواری کو بھانپ گئے اور پھر اچانک قہقہہ مار کر بولے" بیٹا گھبراؤ مت میں مذاق کررہا تھا" میں اس قدر سنجیدہ مذاق دیکھ کر پھر حیران رہ گیا کیونکہ خالد احمد صاحب کے بارے میں میرا یہ خیال تھا کہ وہ بڑے ہی سنجیدہ آدمی ہوں گے لیکن وہ تو انہتائ بذلہ سنج اور شگفتہ مزاج کے آدمی نکلے۔ اسی اثناء میں ایک ملازم انتہائ پرتکلف چاۓ لے کر اندر داخل ہوا اور چاۓ پیش کی۔ اس کے بعد غوری صاحب اپنے دوسرے دوست سے مخاطب ہوۓ (جو واپڈا ہاؤس کے میڈیا کے ڈیپارٹمنٹ سے تھے اور کالمسٹ تھے)" اوۓ اج ایدا (خالد احمد صاحب) کالم پڑھیا ای ؟ کیہہ لکھدا اے ایہہ مینوں نظامی صاب (مجید نظامی مرحوم) پچھ رہے سن خالد احمد صاب نوں پچھنا کہ ایس کالم دا مقصد کیہہ سی ( حالانکہ نظامی صاحب کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی کہ ان کے بارے میں منسوب کرکے یہ باتیں ہورہی ہوں گی) پھر خالد احمد صاحب بولے "میں تے جیہڑا لکھنا واں اوہنوں چھڈ تینوں کی شدا چڑھیا رہندا اے ایہہ کالم نگاری دا" اسی طرح کی نوک جھونک چلتی رہی پھر دونوں نے چاۓ کے بعد باقاعدہ ایک نعرہ لگایا اور ادبی بیٹھک کی طرف چل نکلے جہاں روزانہ شام کو یہ اپنے دوستوں کیساتھ رات گئے تک بیٹھتے تھے۔ پیدل چلتے ہوۓ مجھ سے کچھ تعارفی بات چیت ہوئ پھر چلتے چلتے غوری صاحب سے مجھے ذرا فاصلے پر لے جاکر کہنے لگے بیٹا! تم خوش قسمت ہو کہ یہ شخص تم لوگوں کے خاندان میں پیدا ہوا اسطرح کے لوگ تو صدیوں میں کئ ملکوں میں پیدا نہیں ہوتے۔ اس کی قدر کیا کرو اور اس سے محبت کیا کرو پھر اچانک مڑے اور غوری صاحب سے بولے " غوری صاب ایہہ تے کہندا اے کہ تُسی ایہناں نوں 24 گھنٹے کوئ نا کوئ فٹیک پائ رکھدے او" میں ایک دفعہ پھر بھونچکا رہ گیا لیکن غوری صاحب شاید ان کے تمام رموز سے واقف تھے سو قہقہہ مار کر بولے " خالد صاب ایہہ گل بعد وچ کراں دے اک بندہ مینوں ہنے تہاڈے ول اشارہ کرکے کہہ ریہا سی کہ ایس پاغل نال کدھر لے کے پھر رہے او" ان کے اسطرح کے بلکل بچپنے والے مکالمے سن کر میں انتہائ زیادہ محظوظ ہوا اور مجھے ان کی دوستی پر رشک بھی آیا کہ یہ دونوں قریباً پچپن ساٹھ برس کے ہونے کو ہیں لیکن کتنی محبت بھری بے تکلفی ہے اور کتنی ایک دوسرے کی قدرومنزلت بھی ذہن میں ہے۔ ادبی بیٹھک پنہچے تو ایک نمایاں جگہ پر ایک کرسی درمیان میں تھی جو خالی تھی اور اس کے دائیں بائیں دو رووں میں تین تین کرسیاں ��گی ہوئیں تھیں وہاں انکے باقی دوست جن میں نجیب احمد بھی شامل تھے پہلے سے براجمان تھے اور شاید ان کا انتظار کررہے تھے، غوری صاحب درمیانی کرسی پر بیٹھ گئے اور خالد احمد صاحب ان کے دائیں طرف اور نجیب احمد صاحب ان کے بائیں طرف بیٹھ گئے۔ جو لوگ ادبی بیٹھک میں اس وقت یا اس دور میں جاتے تھے وہ اس ترتیب کو اب بھی بخوبی جانتے ہوں گے۔ یہ خالد احمد صاحب اور نجیب احمد صاحب کی غوری صاحب کیلئیے عزت واحترام تھا کہ ان کو ایک طرح کی کرسئ صدارت پر بٹھاتے خود ان کے دائیں بائیں بیٹھتے اور روزانہ محفل گرماتے۔ میں نے ان دونوں کو ایک دوسرے سے حد درجہ مذاق کرتے دیکھا لیکن غوری صاحب کی مخصوص نشست پر کبھی کسی کو بیٹھے نہیں دیکھا بلکہ سُنا ہے کہ جس دن غوری صاحب ادبی بیٹھک نہ جاپاتے تب وہ کرسی خالی رہتی۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب غوری صاحب کی الحمرا ہال میں سالگرہ کی تقریب تھی جسے عطاءالحق قاسمی صاحب نے منعقد کیا تھا اور مجید نظامی صاحب اس کے مہمان خصوصی تھے اس دن خالد احمد صاحب وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے دوسرے کالم نگاروں کیساتھ راۓ ونڈ ناشتے پر مدعو تھے لیکن وہ صرف اس وجہ سے نہیں گئے تھے کہ بقول ان کے رفیق غوری کی سالگرہ کی تقریب وزیراعظم سے ملاقات سے زیادہ اہم ہے اور یہ بات ا��ہوں نے کسی نجی محفل میں نہیں کی بلکہ ببانگ دہل اپنے کالم میں لکھی، عجب مرد قلندر تھے کہ اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی کہ کینہ پرور حاکم وقت ایسی باتیں پڑھ کر انکے خلاف ہوسکتا ہے۔مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب میں اور اویس، غوری صاحب کیساتھ خالد احمد صاحب کو گھر ڈراپ کرنے کیلئیے گئے تو رستے میں نوک جھونک کے باعث ایک دوسرے سے جھوٹ موٹ ناراض ہوگئے اور خالد احمد صاحب گاڑی زبردستی رکوا کر گاڑی سے نیچے اتر گئے اور غوری صاحب نے بجاۓ انہیں منانے کے اویس سے کہا کہ گاڑی چلاؤ ابھی خود ہی آجاۓ گا اور پھر وہی ہوا واقعی وہ بھاگتے ہوۓ آۓ اور کہا کہ اگر گھر قریب ہوتا تو میں ہرگز تمہارے ساتھ نہ بیٹھتا۔ ان کی ان معصوم اور بے تکلفانہ شرارتوں سے آپ ان کی محبت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ روزانہ ایکدوسرے کا کالم پڑھتے اور پڑھنے کے بعد ایکدوسرے کو فون کرکے ایکدوسرے کے کالمز پر فقرے کستے لیکن جب وہ ایکدوسرے کے سامنے موجود نہ ہوتے غوری صاحب خالد احمد صاحب کے ادبی قد کاٹھ کا نہایت محبت اور فخر سے ذکر کرتے اور خالد احمد صاحب غوری صاحب کی دلیرانہ صحافتی واقعات اسطرح سناتے کہ جیسے کوئ شخص اپنے سگے بھائ کے واقعات سنا کر ڈینگیں مار کر خوش ہوتا ہو۔ کیا لوگ تھے یہ اور کس جہان سے آۓ تھے، بچوں کی طرح معصوم، شرارتی اور ایکدوسرے سے بے انتہاء مخلص۔ مجھے وہ بُرا وقت بھی یاد ہے جب خالد احمد صاحب شدید بیمار ہوۓ تو غوری کی تو جیسے جان پر بن آئ اور وہ تقریباً روزانہ باقاعدگی کیساتھ اویس کے ہمراہ ان کی بیمار ہرسی کیلئیے جاتے۔ انہی دنوں میں ایک دفعہ میں لاہور گیا ہوا تھا تو غوری صاحب میرے ساتھ ان کا پتہ لینے گئے، خالد احمد صاحب بہت نحیف لگ رہے تھے۔ لیکن اپنے کمرے سے باہر آکر ریسیو کیا غوری صاحب کو "ایویں فضول آوارہ گردی" سے منع کیا، گھر رہنے کی تلقین کی اور مجھے ان سے علٰیحدہ ہوکر کہنے لگے " یار میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسے مت میرے پاس لے کر آیا کرو اس کی اپنی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اور اوپر سے یہ میری حالت دیکھ کر زیادہ پریشان ہوجاتا ہے"۔ پھر اس کے چند دنوں کے بعد مجید نظامی صاحب کا غوری صاحب کو فون آیا کہ خالد احمد صاحب کی بیمار پرسی کیلئیے جانا ہے غوری صاحب نے انہیں اپنے آنے کی اطلاع دی جواباً خالد احمد صاحب کا خفیہ فون آیا کہ یار میرے ساتھ ایسا نہ کرو یہ باز نہیں آتے یہ دونوں بہت بڑے آدمی ہیں اور جب یہ بار بار میرے وجہ سے پریشان ہوتے ہیں تو مجھے ذرا اچھا نہیں لگتا۔ پھر ایک دن اطلاع ملی کہ خالد احمد صاحب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ مجھے احساس تھا کہ غوری صاحب کیلئیے یہ صدمہ انتہائ شدید ہوگا اور وہی ہوا اس کے بعد غوری صاحب بالکل گوشہ نشین ہوگئے باہر آنا جانا بالکل کم کردیا کبھی کبھار نواۓ وقت مجید نظامی صاحب سے ملنے جاتے یا اپنے کسی ایک آدھ دوست سے مل لیتے۔ تمام دوستوں کی پرزور فرمائش کے باوجود خالد احمد صاحب کی وفات کے بعد دوبارہ ادبی بیٹھک نہیں گئے۔ اور پھر پچھلے برس دل پر لگے بہت سارے زخموں کیساتھ خالد احمد صاحب کی داغ مفارقت کو بھی اپنے سینے سے لگا کر انہی کے پاس چلے گئے۔ آج یہ تصویر دیکھی تو ایسے لگا کہ یہ دونوں دوست جنت میں بھی ایسے ہی ایکدوسرے کیساتھ بیٹھے ہوۓ ہوں گے، اسی طرح ایکدوسرے سے ہنسی مذاق میں مصروف ہوں گے اور خالد احمد صاحب جنت والوں کو غوری صاحب کی ایمانداری، دلیری اور حکومتوں سے لڑ جانیوالی کہانیاں سناتے ہوں گے اور غوری صاحب ان کو خالد احمد صاحب کی انسان دوستی، وفاداری اور ادبی خدمات اور ان کے ادبی قد کاٹھ کے بارے میں بتاکر انہیں متاثر کررہے ہوں گے۔
0 notes
vaim1978-blog · 8 years ago
Text
آپ ساٹھ دن تک نااہل نہیں مشکوک ہیں
پانامہ پیپرز آنے کے بعد پوری دُنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا بہت سارے سیاستدان، بزنس مین، سپورٹس پرسنیلیٹیز اور اداکار جن میں مشہور فٹ باہر لیونل میسی، فیفا کمیٹی کے رکن جان پیڈرو ڈمیانی، فلم سٹار جیکی چن، سپینش آسکر ایوارڈ ونر پیڈرو الموڈور اور بھارتی فنکار امیتابھ بچن، ایشوریا راۓ اور اجے دیوگن سمیت ۱۰۰ سے زائد ممالک کے ہزاروں افراد کی ۱۵ لاکھ دستاویزات جاری کی گئیں۔ آئس لینڈ کے وزیراعظم نے اپنے اور اپنی بیوی کا نام ان پیپرز میں آنے کے بعد اپنے عہدے سے استعفٰی دیا حکومت سے الگ ہوئے اور اپنے آپ کو احتساب کیلئیے پیش کردیا، برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پر دیگر ممالک کے حکمرانوں کی نسبت زیادہ دباؤ رہا۔ آئس لینڈ اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے بعد جن حکمرانوں کے نام قابل ذکر ہیں ان میں سعودی عرب کے بادشاہ سلمان، یوکرین کے صدر پیٹرو پروشینکو، ارجینٹائن کے وزیراعظم اور آسٹریلوی وزیراعظم مالکم ٹرن بل شامل ہیں۔ اسمیں نام پاکستان کے بھی بہت سے لوگوں کے نام اس میں آۓ جن میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو، سابق وزیر خزانہ شوکت ترین، میاں منشاء، عمران خان اور میاں نوازشریف قابل ذکر ہیں۔ سب سے پہلے جاننا ضروری ہے کہ پانامہ پیپرز ہیں کیا۔ پانامہ پیپرز میں ان آف شور کمپنیز کے مالکان کے ناموں کو افشاء کیا گیا جنہوں نے ٹیکسز سے بچنے کیلئیے( جو کوئ جرم نہیں ہے) اپنی آفشور کمپنیز پانامہ میں بنائیں اور اپنا کاروبار کیا۔ پانامہ میں انویسٹمنٹ کے دو فوائد ہوتے ہیں ایک تو یہ کہ ان پر ہونیوالی آمدنی پر ٹیکس نہیں ہوگا اور دوسرا آپ کی شناخت خفیہ رکھی جاۓ گی۔ جرم پانامہ میں آفشور کمپنی بنانا نہیں ہے۔ جرم یہ ہے کہ پانامہ میں لگائ جانیوالی انویسٹمنٹ کا آپ کے پاس حساب نہ ہو یا اس رقم کے ذرائع مشکوک ہوں یا فئیر نہ ہوں۔ بہت سارے ملکوں میں جب لوگوں کے پانامہ پیپرز میں نام آۓ اور ان سے ان رقوم کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے پانامہ میں انویسٹ کی جانیوالی رقم کا حساب دیا اور اس میں سے سرخرو ہوکر نکلے۔ پاکستانی حکمران نواز شریف فیملی کے نام بھی پانامہ پیپرز میں Nielsen Enterprises Limited and Nescoll Limited کے مالکان کے طور پر سامنے آۓ جو حسین نواز اور مریم نواز 1993 سے Hold کررہے تھے۔ اس راز کے افشاء ہونے پر ایک ٹی وی انٹرویو میں مریم صفدر نے اس سے صریحاً انکار کیا اور اسے ایک گھٹیا الزام قرار دیا، پھر ایک دوسرے ٹی وی انٹرویو میں حسین نواز شرف نے اس الزام کو اور اس کمپنی کے ذریعے لندن میں خریدی جانیوالی انتہائ مہنگی جائیداد کو "الحمدللّٰہ" اپنی ملکیت بتایا اور اپنی ہمشیرہ کو اس میں اپنا پارٹنر بتایا، اس سے پہلے حسین نواز شریف کے چھوٹے بھائ حسن نواز شریف کو 1999 میں ایک ٹی وی انٹرویو میں بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں مشہور صحافی اور اینکر ٹم سباسٹن نے ان فلیٹس کے بارے میں پوچھا (کیونکہ ان دنوں حسن نواز اسمیں رہائش پزیر تھے)تو انکو انہوں نے کہا کہ وہ کراۓ پر رہتے ہیں اور اس کا کرایہ پاکستان سے میرے ابا بھیجتے ہیں۔ بہرحال اس راز کے افشاء ہونے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے پہلے پہل اس الزام کی صحت سے انکار کیا لیکن بعدازاں ناقابل تردید شواہد اور بیٹے کے ٹی وی انٹرویو میں اعتراف کے بعد اس سے بچنے کی راہ نہ پاتے ہوۓ اقرار کرنے پر مجبور ہوۓ۔ پچھلے برس اس الزام کو مدنظر رکھتے ہوۓ سیاسی پارٹیاں بالخصوص ن لیگ کی سب سے بڑی مخالف پارٹی پی ٹی آئ کے سربراہ عمران خان اور مشہور سیاستدان اور ہر فوجی حکومت میں ایم این اے بن کر اہم عہدہ لینے والے شیخ رشید اور جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے پانامہ میں انویسٹ ہونیوالی بھاری رقم کے بارے میں عدالت میں کیس کردیا اور مؤقف اختیار کیا کہ نوازشریف فیملی چونکہ روز اوّل سے اپنے ٹیکس کے کاغذات میں اپنی رقم انتہائ کم ڈیکلئیر کرتی ہے سو تفتیش کی جاۓ کہ ان کے پاس اتنی بڑی رقم آئ کہاں سے۔ اس کیس کے بعد نوازشریف نے قومی اسمبلی میں اپنی ایک دلگداز تقریر میں اسے اپنے والد کی محنت سے کمائ ہوئ رقم قرار دیا اور کہا کہ یہ رقم جدہ میں لگائ پھر قطر میں لگائ اور اس سے جو منافع آیا اس سے لندن میں واقع دنیا مہنگے ترین ایریاز میں اربوں روپے کے وہ پلاٹس خریدے گئےپھر اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں کو گھماتے ہوۓ کبھی اس رقم کو اپنی نیک کمائ سے تعبیر کیا اور پھر کبھی اسے اپنے قطری دوستوں کی طرف تحفے میں دی گئ رقم سے خریداری ثابت کرنے کی کوشش کی گئ جو بہرحال ناکام ثابت ہوئ۔ اس کیس کے دوران ان کے وکیل اکرم شیخ جو وکالت میں ایک بڑا مقام رکھتے ہیں وہ بھی ان کے روز مرہ کے جھوٹوں سے تنگ آکر خاموشی سے ان کی وکلاء کی ٹیم سے اور کیس سے علٰیحدہ ہوگئے پھر انہوں نے سلیمان راجا کو ٹیم لیڈر کے طور پر ہائر کیا اور اس کیس کی پیروی کی لیکن کوئ بھی وکیل اور وہ خود پانامہ کی آفشور کمپنیز میں لگائ گئ بھاری رقم کو شفاف طریقے سے کماۓ جانے کا کوئ خاطر خواہ جواب پیش نہ کرسکے حالانکہ اس کیس میں انہوں نے قطر کے شہزادوں کے ان کے والد صاحب کیساتھ پرانی شراکت داری کے کمزور ثبوت پیش کئے قطری شہزادوں کے ذاتی خطوط عدالت میں پیش کئے کہ شائد کسی طریقے سے جان خلاصی ہوجاۓ لیکن ان تمام کمزور ثبوتوں کی وجہ سے کیس سے جان تو نہ چھوٹی ہاں الٹا جگ ہنسائ بہت ہوئ، بہرحال ایک سال کیس چلنے کے بعد آج ۲۰ اپریل ۲۰۱۷ کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے شدید حکومتی دباؤ کے باوجود یہ فیصلہ سنایا کہ نوازشریف فیملی اپنے خلاف لگے کرپشن کے الزامات کا دفاع نہ��ں کرسکی سو پانچ میں سے دو ججز کیمطابق نوازشریف کو جھوٹا ہونے اور صادق اور امین نہ ہونے کی بنیاد پر فوراً حکومت سے برخواست کیا جاۓ جبکہ تین ججز نے یہ فیصلہ دیا کہ ایف آئ اے، پولیس، آئ ایس آئ اور ایم آئ پر مشتمل کی جے آئ ٹی بنائ جاۓ جس میں نوازشریف، حسین نواز، حسن نواز اور مریم صفدر نواز اپنے اوپر لگاۓ گئے الزامات کا دفاع کریں اور اپنی بیگناہی کے ٹھوس ثبوت پیش کریں۔ عدالت نے جے آئ ٹی کو پابند کیا ہے کہ تمام کاروائ 60 دنوں میں مکمل کرکے عدالت کو رپورٹ پیش کی جاۓ جبکہ عدالت نے قطری شہزادوں کیساتھ کاروباری شراکت کے تمام پیش کردہ ثبوت جھوٹ کا پلندہ قرار دیدئیے۔ اس تمام صورتحال میں ایک چیز بڑی کھل کر سامنے آئ کہ آج کے اس دور میں بھی پاکستان میں اعلٰی عدلیہ کو تمام واضح ثبوت ہونے کے باوجود بہرحال محتاط پسندی سے فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے جے ٹی آئ انتہائ خطرناک جرائم کرنے والے ملزمان کے خلاف بنائ جاتی ہے جو اس ملک کے وزیراعظم کیلئیے بنائ گئ ہے۔ اپنی عزت و تقدس بحال رکھنے طریقہ تو یہی ہے کہ نوازشریف صاحب رضاکارانہ طریقے سے وزارت عظمٰی سے استعفیٰ دیکر خود کو اور اپنے تینوں بچوں کو احتساب کیلئے پیش کریں اور اپنے خلاف دائر کردہ مقدمے کا سامنا کریں اور سرخرو ہوکر واپس آئیں کیونکہ انکے وزیراعظم کئ کسی پر رہتے ہوۓ کسی کو بھی شفاف اور غیر جانبدارنہ تحقیقات کی توقع نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسی کوئ بھی شاندار مثال نہیں اسی کیس میں فریق دوئم شیخ رشید صاحب جب ریلوے کے وزیر تھے توان کے دور میں ریل کو ایک زبردست حادثہ پیش آیا کس کی ذمہ داری انتظامی حوالوں سے شیخ صاحب پر ڈالی گئ اور ان سے استعفی کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے کمال بے نیازی سے فرمایا تھا کہ میں کیا انجن کا ڈرائیور ہوں جو وزارت سے استعفٰی دیدوں۔ تو جب یہاں کوئ شخص وزارت سے استعفٰی دینے کا حوصلہ نہیں رکھتا تو وزارت عظمٰی سے استعفے کی امید رکھنا ایک ناممکن بات ہی ہوسکتی ہے۔ بہرحال اس سارے کیس میں ایک کریڈٹ عمران خان کو ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے پوری قوم کو ن لیگ کی کرپٹ قیادت کے خلاف ابھارا اور پوری قوم کو ایک سچی اور نیک حکومت کیلئیے struggle کرنے کی ہمت، حوصلہ اور امید دی اور نوجوانوں کو اپنے ملک کی بہتری کیلئے کام کرنے اور محنت کرنے کا ایک جذبہ دیا۔ گو نواز گو کا مشہور نعرہ صرف نواز شریف کیلئیے ہی نہیں ہر اس کرپٹ اور استعماری طاقت کیخلاف ہے جو پاکستان کی سالمیت اور اور اس کے روشن مستقبل کا راستہ روکے گی۔ اس کیس میں نوازشریف اور ان کی فیملی کیلئیے بہرحال اسمیں مزید 60 دن کی ہزیمت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ وہ اگر اس کیس میں اداروں کو دھمکا کر یا ورغلا کر نکل بھی جائیں اور وہ نکل بھی سکتے ہیں کیونکہ پچھلے 37 سال سے پاکستان جیسے کرپٹ ملک میں حکومت کرنے کے تجربے کی وجہ سے وہ جانتے ہیں کہ کب کس افسر کو کس طرح بلیک میل کرنا ہے۔اس کے باوجود ان کیلئیے اپنی عوامی ساکھ بحال کرنا بہرحال ایک مشکل کام ہے وسیم عبداللّہ
0 notes
vaim1978-blog · 9 years ago
Text
عمران خان کی تحریک اور اروند کیجریول
عمران خان کی تحریک انصاف اور اروند کیجروال کی عام آدمی پارٹی بھارت میں بدعنوانی کے خلاف اناہزارے کی تحریک کی "کوکھ" سے جنم لینے والی عام آدمی پارٹی نے جب وہاں تبدیلی اور کرپشن سے پاک عام آدمی کی حکومت کے نعرہ پر اپنی پارٹی لانچ کی تو غریب اور متوسط طبقے کے بھارتی اس کی طرف فوری راغب ہوئے اور بھارتی میڈیا میں ��ھی اس پارٹی کو غیر معمولی کوریج ملنے لگی۔۔ عام آدمی پارٹی کے بانی اروند کیجروال نے جہاں کانگریس کو "گاندھی لیمیٹد پارٹی" کہہ کر نشانہ بنایا وہیں بھارتی جنتا پارٹی کی بھارتی صنعت کاروں سے "گٹھ جوڑ" کو بے نقاب کیا۔ اسی دوران نئی دلی کی ریاستی اسمبلی کے کے انتخابات کا لمحہ آن پہنچا جس میں حصہ لینے کا اعلان کرکے اروند کیجروال نے پہلا رسک لیا۔ لیکن جب انتخابات ہوئے تو عام آدمی پارٹی نے جہاں غیرمعمولی پرفارمنس دیتے ہوئے کل 71 نشستوں میں سے 28 نشستیں جیتی وہیں اروند کیجروال نے کانگریس کی طاقتور سیاستدان نئی دلی کی وزارت اعلیٰ کے عہدہ پر "براجمان" شیلا ڈکشٹ کوبھی شکست دے ڈالی اور یوں اروند کیجروال دلی میں تخت نشین ہوئے۔ اروند کیجروال کی جماعت عام آدمی پارٹی کو اکثریت ملنے کے باوجود "نمبر گیم" میں حکومت قائم کرنے کے لیے کانگریس سے اتحاد کرکے مخلوط حکومت پرگزارا کرنا پڑا۔ اروند کیجروال نے حکومت میں آنے کے بعد اپنے وعدے کے مطابق ایک عوامی انداز ہی اپنایا اور دلی چیف منسٹر ہاوس میں "شفٹ" ہونے سے انکار کردیا اور عام آدمی پارٹی کے وزرا عام "پبلک ٹرانسپورٹ" میں سوار ہوکر "کیبنٹ میٹنگز" میں شرکت کے لیے آنے لگے جس نے اس جماعت کو عوام میں مقبولیت کی نئی بلندیوں پر پہنچا دیا اور سوشل میڈیا پر دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجروال بھارت کی پانچویں سب سے زیادہ "ڈسکس" کی جانے والی شخصیت بن گئے۔ ابھی حکومت میں آئے اروند کیجروال کو زیادہ روز نہ گزرے تھے کہ ان کی کیبنٹ کے دو وزرا نے دلی پولیس کے چند اہلکاروں پر احکامات نہ ماننے کا الزام لگا کر دلی کے پولیس چیف سے ان کی برطرفی کا مطالبہ کردیا۔ دلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجروال کو جب واقعہ کی اطلاع ملی تو وہ بھی اپنے وزرا کے ساتھ کھڑے ہوگئے لیکن دلی پولیس چیف نے ان کے احکامات ماننے سے انکار کردیا۔ بس پھر کیا تھا اروند کیجروال اپنے وزرا کے ساتھ سڑکوں پر آگئے اور تین روز تک احتجاجی دھرنہ دیے رکھا جس دوران وہ ناصرف سخت سردی میں دلی کی سڑکوں پر سوتے تھے بلکہ کیبنٹ کے اجلاس اور احکامات بھی سڑک پربیٹھ کر"صادر" کرتے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارت میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا کہ کیا ایک وزیراعلیٰ کو یہ انداز "سوٹ" کرتا ہے؟ کیا ایک حکمران جماعت کی سڑکوں پر انتشار پھیلانے کی "سیاست" درست ہے؟ اس کے بعد بھارتی عوام کو دوسرا جھٹکا لگا جب برسراقتدار آنے کے صرف انچاس (49) دن بعد ہی وزیراعلیٰ اروند کیجروال نے اپنی عام آدمی پارٹی سمیت دلی کی اسملبی سے کرپشن کے خلاف قانون "لوک پال بل" منظور نہ کرواسکنے پرمستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔۔ حالیہ عام بھارتی انتکابات اور انتخابات کے دوران چلنے والی الیکشن مہم میں عام آدمی پارٹی اور اس کے بانی اروندکیجروال اپنے ان تمام "بولڈ" فیصلوں اور بھارتی سیاستدانوں کی روایتی سیاست کونشانہ بنانے کی وجہ سے دن رات بھارتی میڈیا کی اسکرینوں پرچھائے رہے۔ پورا بھارت ایک دوسرے سے عام آدمی پارٹی فیکٹر کیا "تیسری قوت" بننے جارہا پر بحث کرتا رہا لیکن جب انتخابی ن��ائج آئے تو دلی سے 28 نشستیں حاصل کرنے والی عام آدمی پارٹی کودلی سے ایک نشست نہ "مل" کرسکی اور پورے بھارت میں بھی اس کوصرف چار نشستیں ہی مل پائیں۔ عام آدمی پارٹی کی یہ شکست غیر متوقع تونہیں تھی لیکن اتنی کم نشستوں نے ثابت کردیا کہ بھارتی عوام نے ان کی الزامات اور سڑکوں پراحتجاج کی طرز حکمرانی و سیاست کومسترد کردیا۔ اب ہم سرحد کی اس طرف پاکستان کی بات کرتے ہیں جہاں تیسری قوت کے طور پرابھرنے کے دعویٰ دار جماعت تحریک انصاف کے کے سربراہ عمران خان بھی الزامات کی ایک بھرپور "کیمپین"چلا رہے ہیں۔ عمران خان کبھی پینتیس "پنچروں" کی بات کرتے ہیں لیکن الزامات کے ثبوت نہیں دیتے، پھر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا گریبان پکڑتے ہیں لیکن دو روز بعد ہی ان کا نام لینے سے توبہ کرلیتے ہیں، ملٹری اینٹیلی جنس کے برگیڈئیر کے ملوث ہونے کی بات کرتے ہیں اور پھر مکر جاتے ہیں، اس کے بعد ملک سب سے بڑے میڈیا گروپ پردھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہیں ایک ایسے وقت میں جب آئی ایس اٗئی کھل کراس میڈیا گروپ کے خلاف برسرپیکار ہے۔ عمران خان نے کل پریس کانفرنس میں اس گروپ جیو نیوز کے خلاف مبینہ ثبوتوں کے خلاف الزامات کی بھرمار کر دی اور دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے ہم بدنام نام نہاد اینکر "مبشرلقمان" کا پروگرام دیکھ رہے ہوں اور اس کے بعد خان صاحب پریس کانفرنس میں رپورٹرز سے جھگڑتے رہے اور بولتے رہے میں کیبل آپریٹرز والا خالد آرائیں نہیں ہوں۔ کپتان صاحب زرا سوچیے تو سہی اب آپ اپنے آپ کو خالد ارائیں کی جگہ لے آئے ہیں۔ سب سے خوفناک چیز جو عمران خان کی پریس کانفرنس میں تھی وہ ان کی "میں" تھی۔ عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں پچاس بار سے زائد دفعہ لفظ "میں، میرے پر الزام، مجھ پر الزام" کی اسطلاح استعمال کی جو ان کی انا پسندی، آمرانہ ذہنیت اور خود پسندی کا واضح ثبوت ہے اور اپنی ذات سے اس طرح کا عشق صرف ایک "چھوٹا" انسان ہی کرسکتا ہے۔ خان صاحب بہت کچھ لکھ سکتا ہوں لیکن آپ کو صرف اتنا ہی کہوں گا آپ لیڈر بننے سے پہلے ہی تحلیل ہوچکے ہیں اور اگلے انتخابات میں ہمیں آپ کو عام آدمی پارٹی جتنی نشستیں بھی ملتی نظر نہیں آتی۔
0 notes
vaim1978-blog · 9 years ago
Text
کیا مولوی بیگناہ ہے
ایک عمومی رویہ ہمارے ہاں یہ ہے کہ ہم اپنے سے بُرے ممالک کی مثالیں دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں جو میرے خیال میں غلط رویہ ہے۔ جب ہم یہ مثالیں دیتے ہیں تو ہم جاپان، چین حتیٰ کہ جنوبی کوریا کو بھہی بھول جاتے جو ہم سے ۲۰ نکاتی پروگرام لیکر گئے اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے، رضوان صاحب ! ایوب خان کے دور سے لیکر بھٹو کے دور تک پاکستان کی ترقی پر نظر دوڑایئے، PIA دنیا کی بہترین ائیر لائن تھی، ایچی سن کالج میں خلیجی ممالک کے شہزادگان پڑھنے آتے تھے، پاکستان کی یونیورسٹیوں میں یورپ، امریکہ سے طلباِ پڑھنے آتے تھے۔ پھر ضیاالحق آیا پرائ جنگ اپنے گھر لایا، جنگ عظیم دوم کی طرح پکڑ دھکر کرکے طا لبان جو تب مجاہدین تھے کو بھرتی کیا۔ ملک میں موجود جمہوریت کے شور کو دبانے کیلئیے اسلام کا سہارا لیا، مولوی کو اپنے مطلب کی احادیث ڈھونڈنے پر مامور کیا اس کے بدلے اس کے درس نظامی کو ایم ۔ اے کے برابر قرار دیا، مولوی کو خطابت اور امامت کے نام پر 17گریڈ کی نوکریاں دیں، اور پھر انہی مولویں سے فتوے دلوا کر اپنے اقتدار کو دوام دیا، مخالفین کو اسلامی سزاوؤں کے نام پر وحشیانہ تشدد کیا، کوڑے مارے، سرِعام پھانسیاں دیں، کھیل کے میدان جہاں لوگ تفریح کے لئے جاتے تھے وہاں اس نے سٹیج لگا کر جمہوریت پسندوں کو تماشا بنا کر کوڑے مروا؁ے اور رومن ایمپائرز کی یاد تازہ کی اور اس جرم میں مولوی اس کے ساتھ برابر کا شریک رہا، مسجد میں بیٹھ کر اس کو امیرالمومنین بنانے کی کوشش کرتا رہا اور بے نظیر اور نصرت بھٹو کے کردار پر کیچڑ اچھالتا رہا، یہاں تک فتوے دیے کہ جو بینظر بھٹو کو ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائیگا ۔ پھر انہی مولویوں نے جہاد کے بعد جہاد کے غازیوں کو اسی وطنِ عزیز میں استعمال کیا، چونکہ سعودی جو حجاز مقدس پر قابض ہیں کا فرقہ اہلحدیث تھا اور وہ ضیاءالحق کو مالِ کثیر بھیجتے تھے اسلئے ان کو خوش کرنے کیلئے شیعوں کا بے دریغ قتل کیا، ملک کا امن وامان غارت کیا اور کاروباری لوگوں کو ہراساں کرکے ان سے بھتہ وصول کیا نتیجتا کاروبار تباہ ہوا، آپ اس خطے کو ترقی پزیر ممالک سے ملا رہیں ہیں بالکل ٹھیک ہے اب ہم اسی لائین میں ہی ہیں لیکن، لیکن 1917 میں اس خطے کا ایک روپیہ 17 امریکن ڈالر کے برابر تھا۔ اور آپ کہتے ہیں کہ مولوی بیگناہ ہے۔۔۔۔۔
0 notes
vaim1978-blog · 9 years ago
Text
وزیراعظم نواز شریف
نواز شریف بذاتِ خود مداری قسم کے آدمی ہیں جو اپنی بسیار خوری کی وجہ سے بہت شہرت رکھتے ہیں، ان کے چھوٹے بھائ شہباز شریف اپنی کثرت لازدواج کی "کسر" کی وجہ سے مشہور ہیں تو بھتیجا حمزہ شریف بھی اس قسم کی سرگرمیوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے، داماد جن کے ساتھ آج کل بیٹی کے اختلاف کی وجہ سے صرفِ نظر کرتے ہیں کے ساتھ ساتھ ایک اور بھتیجا چوزہ چور کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ جتنے رشتہ دار ہیں ان میں سے قریبی رشتہ دار اسحاق ڈار ملک کے وزیر خزانہ ہیں، عابد شیر علی خاله زاد بهن کا بیٹا هے اور وزیر پانی و بجلی هے اسکے علاوه اس کی شهرت قبضه گروپ مافیا کی ��ے. سہیل ضیا بٹ کا بیٹا صرف اس وجہ سے ایم این اے ہے کیونکہ وہ برادرِ نسبتی کا بیٹا ہے۔ اس کے علاوہ جو نو رتن اپنے ساتھ ہمہ وقت رکھتے ہیں اُن میں بھی ایک مسخروں کی فوج ہے جن میں رانا ثنااللہ، پرویز رشید، احسن اقبال وغیرہ ہیں اس فوج میں حالیہ اضافہ طلال چوہدری اور زعیم قادری ہیں۔ ان سب کا کام میاں صاحب کو لطیفے سنانا اور نت نئے کھانوں کی ترغیب دے کر اور دعوتیں کھلا کر اپنے لئے وزارتیں اور مراعات حاصل کرنا ہے۔ اس احمقوں کے ٹولے کا ایک اور کام بھی هے اور وه یه که نواز شریف کو سری پا؁؁ے اور مرغن کھانے کھلانے کے بعد سب اچھے کی رپورٹ دیکر سُلانا۔ اس کے علاوہ یہ لوگ ٹی وی پہ آکر جھوٹ بولنے اور بدتہزیبی کرنے میں بھی ماہر ہیں. مثال کے طرر پر چند دن پہلے شاہد خاقان عباسی جنہوں نے ابھی تک Air Blue حادثے کے فوت شدگان کو انشورنس کے پیسوں کی ادایئگی نہیں کی ہے نے ٹی وی پر آکر فرمایا کہ پٹرول کا بحران نہیں ہے، ہاں کمی ضرور ہے، آج ٹی وی پر آکر کہا کہ ہاں پٹرول کا بحران ہے لیکن میں ذمہ دار نہیں،وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں فںڈز جاری کرنے کا نہیں کہا گیا، اگر بروقت کہا جاتا تو ہم فنڈز جاری کر دیتے۔ آج زعیم قادری جو مسخروں کی ٹیم میں نئے چہرے کے طور پر اُبھرے ہیں اُنہوں نے آج ایک ٹی وی شو میں کہا کہ وفاق کیسے اس بحران کا ذمہ دار ہے کیونکہ باقی تین صوبوں میں کوئ بحران نہیں ہے تو اینکر نے کہا وہاں اسلئے بحران نہیں کونکہ وہاں آپ کی حکومت نہیں ہے تواس پر لاجواب ہوے لیکن شرمندہ نہیں، اور پھر کمال ڈھٹائ سے بولے کہ کوئ بحران نہیں ٪100 تیل مل رہا ہے۔ میں حیران ہوں اس مسخرے پر یہ جو 18 کروڑ لوگوں کے سامنے جھوٹ بول رہا تھا یہ نواز شریف کو خوش کرنے کیلیئے کیا کیا نہیں کہتا ہوگا۔ میری دعا ہے کہ نواز شریف نے جس طرح پرسوں اچانک پایوں کے خمار سے باہر آکر پاکستانیوں کی نسلوں پر احسان کرتے ہوے نوٹس لیا تھا اور ایک اور حماقت کی تھی جو اس طرح کے بسیار خور بٹ بادشاه عموماً کرتے هیں که بغیر کسی انکوائری کے سرکاری ملازمین کو معطل کردیا تھا. خواهش هے کہ کسی دن ماڈل ٹاون لنک روڈ پر دہی بھلے کھاتے ہوے یا گوالمنڈی میں اپنا مرغوب امرتسری ہریسہ کھاتے ہوے نکلیں اور غریب عوام کی مشکلات اپنی آنکھوں سے دیکھی یا ٹی وی چینلز کے کیمروں پر اعتبار کریں او اپنی جهالت یا ایسے مسخروں کی وجه اسے کیمرے کی صفائ نه سمجھیں. وسیم عبدالله
0 notes
vaim1978-blog · 9 years ago
Text
مسلم دنیا اور مارک زکربرگ
میکس دنیا کی پہلی بچی ہے جس کی پیدائش پر اس کے والد نے 45 ارب ڈالر صدقہ کر دیے‘ یہ کسی بچی کی پیدائش پر انسانی تاریخ کا سب سے بڑا عطیہ‘ سب سے بڑا صدقہ ہے‘ یہ بچی کون ہے؟ اس کے والدین کون ہیں اور 45 ارب ڈالر کا یہ عطیہ کیوں کیا گیا؟ یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے‘یہ داستان 2004ء میں شروع ہوئی۔
2004ء میں ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک کمرے میں تین نوجوان رہتے تھے‘ مارک ان تینوں میں نالائق‘ سست اور شرمیلا تھا‘ یہ اس وقت بمشکل 19 برس کا تھا‘ یہ 1984ء میں نیویارک کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا‘ والد دندان ساز تھا‘ یہ خاندان کا چوتھا بچہ تھا‘ تین بہنیں اس کے علاوہ تھیں‘ اسکول میں نالائق اور غبی تھا‘ یہ 2002ء میں ہارورڈ یونیورسٹی پہنچ گیا‘ کمپیوٹر پروگرامنگ اس کا جنون تھا‘ مارک نے 2004ء کے شروع میں اپنے گندے کمرے میں بیٹھ کر ویب سائیٹ کی ڈومین خریدی‘ سوشل نیٹ ورک کی ویب سائیٹ ڈیزائن کی اور چار فروری 2004ء کو فیس بک ڈاٹ کام کے نام سے یہ ویب سائیٹ لانچ کر دی۔
اس ویب سائیٹ کا مقصد ہارورڈ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس کے درمیان آن لائین رابطے پیدا کرنا تھا‘ مارک نے ویب سائیٹ کے لیے تمام ڈیٹا‘ اسٹوڈنٹس کے پروفائل‘ ان کی تصویریں اور پتے یونیورسٹی کے ڈیٹا بینک سے لیے تھے‘ یہ ویب سائیٹ جوں ہی انتظامیہ کے نوٹس میں آئی‘ انتظامیہ نے ہیکنگ کا الزام لگا کر مارک کو نوٹس جاری کر دیا لیکن مارک پیچھے نہ ہٹا‘ اس کے پاس اس وقت صرف ہزار ڈالر تھے‘ اس نے اتنی ہی رقم اپنے ایک کلاس فیلو سیورن سے لی اور ویب سائیٹ کو مزید بہتر بنانا شروع کر دیا‘ فیس بک یونیورسٹی طالب علموں کے لیے دلچسپ تجربہ ثابت ہوئی‘ چار دن میں 650 طالب علموں نے فیس بک جوائن کر لی۔
یہ تعداد تین ہفتوں میں 6 ہزار تک پہنچ گئی‘ 25 فروری کو کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم بھی فیس بک جوائن کرنے لگے‘ اگلے دن یعنی 26 فروری کو سٹین فورڈ یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس بھی فیس بک پر آ گئے اور 28 فروری کو ییل یونیورسٹی بھی مارک کی اس عجیب و غریب ایجاد پر نظر آنے لگی‘ مارچ میں طالب علموں کی تعداد 30 ہزار تک پہنچ گئی‘ مارک کو اب ویب سائیٹ ہینڈل کرنے کے لیے اسٹاف کی ضرورت تھی‘ جیبیں خالی تھیں اور کاروبار مشکل چنانچہ مارک نے مجبوراً اپنے رومیٹ ڈسٹن موسکووٹز کو پانچ فیصد شیئر دے کر ساتھ ملا لیا۔
موسکووٹز اس وقت یہ نہیں جانتا تھا‘ وہ ہاں جو اس نے ہنستے ہنستے کر دی تھی‘ وہ اسے مستقبل میں کروڑ پتی بھی بنا دے گی اور وہ پوری دنیا میں مشہور بھی ہو جائے گا‘ مارک نے مارچ کے مہینے میں فیس بک پر اشتہارات کا سلسلہ بھی شروع کر دیا‘ پہلے مہینے کی کمائی ساڑھے چار سو ڈالر تھی‘ کمپنی میں اپریل میں دس ہزار ڈالر کی مزید سرمایہ کاری ہوئی‘ اس سرمایہ کاری نے فیس بک کو چھ ماہ میں امریکا کی 34 یونیورسٹیوں کے ایک لاکھ طالب علموں تک پہنچا دیا اور یہ وہ کامیابی تھی جس نے مارک پر ہارورڈ یونیورسٹی کے دروازے بند کر دیے‘ وہ ہارورڈ سے نکلا اور سیدھا سلیکان ویلی پہنچ گیا اور مارک سے مارک زکر برگ ہو گیا۔
مارک زکر برگ نے پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ فیس بک کی مالیت صرف چار ماہ میں دس ملین ڈالر ہو چکی تھی لیکن مارک نے کمپنی بیچنے سے انکار کر دیا‘ 2005ء کی گرمیوں میں جب فیس بک کے یوزرز کی تعداد دو لاکھ ہوئی تو پے پال کمپنی کے شریک بانی پیٹر تھیل نے فیس بک میں پانچ لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی‘ یہ سرمایہ کاری یوزرز کی تعداد کو پانچ لاکھ تک لے گئی اور پھر اس کے بعد مارک نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ فیس بک اس وقت دنیا کی مقبول ترین سوشل میڈیا ویب سائیٹ ہے‘ اس کے یوزرز کی کل تعداد ایک ارب 55 کروڑ ہے‘ دنیا کے 145 ممالک کے لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں۔
دنیا کے تمام سربراہان‘ لیڈرز‘ اداکار‘ گلوکار‘ کھلاڑی‘ رائٹرز‘ صحافی‘ بزنس مین اور دنیا کی تمام چھوٹی بڑی آرگنائزیشنز فیس بک پر موجود ہیں‘ دنیا کا کوئی شخص زمین پر ہو یا نہ ہو لیکن وہ فیس بک پر ضرور ہوتا ہے‘ دنیا فیس بک سے قبل سات براعظموں ‘ 145 ملکوں‘ مختلف قومیتوں اورہزاروںزبانوں میں تقسیم تھی لیکن یہ فیس بک کے بعد سمٹ کر ایک وال پر آگئی‘ آج امریکا ہو‘ روس ہو یا افغانستان ہو‘ صدر اوباما ہوں‘ پیوٹن ہوں یا پھر اشرف غنی ہوں‘ یہ تمام لوگ‘ یہ تمام ملک فیس بک کے بغیر ادھورے ہیں‘ لوگ اب یہ تک کہتے ہیں‘ ڈھونڈنے والوں کو فیس بک پر خدا بھی مل جاتا ہے۔
فیس بک نے مارک زکربرگ کو 23 سال کی عمر میں ارب پتی بنا دیا‘ یہ دنیا کا پہلا نوجوان تھا جو 23 سال کی عمر میں ارب پتیوں کی فہرست میں شامل ہوا‘ یہ امریکا کا ساتواں امیر ترین شخص بھی ہے اور یہ دنیا کی ان 100 بااثر ترین شخصیات میں بھی شمار ہوتا ہے جن میں صدر اوباما‘ ڈیوڈ کیمرون‘ نریندر مودی اورپیوٹن جیسے لوگ شامل ہیں‘ فیس بک میں اس وقت 10 ہزار ملازمین ہیں‘ یہ سالانہ ساڑھے بارہ ارب ڈالر کماتی ہے‘ اس کی روزانہ آمدنی تین کروڑ 34 لاکھ ڈالر اور ایک سیکنڈ میں 387 ڈالر ہے‘ دنیا کی 56 کمپنیوں کا براہ راست روزگار بھی فیس بک سے وابستہ ہے ۔
مارک زکر برگ کے پاس کمپنی کے 28.2 فیصد شیئرز ہیں‘ ان شیئرز کی مالیت 45 ارب ڈالر ہے‘ گویا اکیلا مارک زکر برگ پاکستان کے اسی فیصد قرضے ادا کر سکتا ہے‘ یہ فیس بک کا چیئرمین ہے لیکن یہ اپنی خدمات کا صرف ایک ڈالر معاوضہ لیتا ہے‘ یہ اس کی کل تنخواہ ہے‘ اس نے مئی 2012ء میں پریسیلا چین کے ساتھ شادی کی‘ بیگم عام سی ڈاکٹر ہے‘ میکس ان کی پہلی اولاد ہے‘ مارک زکر برگ نے بیٹی کی پیدائش پر اپنی 99 فیصد دولت خیرات کر دی‘ یہ 45 ارب ڈالر بنتے ہیں‘ یہ رقم اس کے قائم کردہ فنڈ میں شفٹ ہو جائے گی‘ یہ اس رقم سے دنیا بھر کے مسکینوں‘ بیماروں‘ لاچاروں اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی مدد کرے گا‘ یہ مہلک امراض کا علاج تلاش کرائے گا‘ غریب ملکوں میں اسکول اور اسپتال بنوائے گا‘ معذوروں کو مصنوعی اعضاء فراہم کرے گا اور غربت کے نچلے درجے میں زندگی گزارنے والوں کی مالی مدد کرے گا‘ مارک زکر برگ نے اپنی 99 فیصد دولت عطیہ کرتے وقت اپنی بیٹی میکس کو ایک خط بھی لکھا‘ یہ خط بھی شاہکار ہے‘ مارک نے خط میں لکھا ’’آپ کی والدہ اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے ہم آپ کو یہ بتا سکیں‘ آپ کے آنے سے ہمیں مستقبل کی کتنی امیدیں ملی ہیں‘ آپ نے دنیا میں آ کر ہمیں اس دنیا کی طرف متوجہ کر دیا جس میں آپ نے زندگی گزارنی ہے‘‘ مارک کا کہنا ہے‘ میں اس دنیا کو اپنی بیٹی کے رہنے کے لیے بہتر جگہ بنانا چاہتا ہوں‘ مارک نے دنیا کو بہتر جگہ بنانے کے لیے اپنی 99 فیصد دولت خیرات کر دی‘ یہ اب فیس بک کے صرف ایک فیصد شیئرز کا مالک ہے۔
آپ فیس بک کے اس ایک فیصد شیئر ہولڈر کو دیکھئے اور اس کے بعد اسلامی دنیا کے ان تمام شہزادوں کو دیکھئے جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ آپ ان کے بعد پاکستان کے ان ارب پتیوں کو بھی دیکھئے جنھیں اللہ تعالیٰ نے رزق اور دولت سے نوازا اور آپ اس کے بعد ملک کے ان حکمرانوں کو بھی دیکھئے جنھیں اللہ نے دولت بھی دی‘ شہرت بھی دی اور اقتدار بھی عنایت کیا اور آپ اس کے بعد سوچئے‘ یہ کیسے لوگ ہیں جن کے سامنے خلقت بھوک سے ایڑھیاںرگڑتی ہے‘ آپ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ملکوں اور یورپ کے عوام کا موازنہ بھی کر لیجیے‘آپ کو یورپ کی مڈل کلاس عرب ممالک کے خوش حال ترین لوگوں سے بہتر زندگی گزارتی نظر آئے گی‘ آپ پاکستان کے حکمرانوں‘ اشرافیہ اور بزنس مین کلاس کو بھی دیکھ لیجیے۔
کیا مسلمانوں کے پاس مارک زکر برگ کا کوئی ایک متبادل ہے‘ کوئی ایک ایسا متبادل جو اپنی 99 فیصد دولت انسانیت کے لیے وقف کر دے‘ جو اپنے بچوں کو بہتر دنیا دینے کے لیے اپنی ساری دولت لٹا دے؟ ایسا مارک زکر برگ جو اپنی ساری دولت اپنی بیٹی کے نام پر صدقہ کر دے اور جو عین جوانی میں اپنا مال انسانیت کے نام وقف کر دے! کوئی ہے‘ کوئی ایک‘ 68 اسلامی ملکوں میں کوئی ایک! وسیم عبداللّہ
0 notes