#Rasul Bux Palejo
Explore tagged Tumblr posts
Text
رسول بخش پلیجو، پاکستان میں مزاحمتی سیاست کا ایک باب بند ہو گیا
پاکستان کے صوبہ سندھ میں مزاحمتی سیاست کا ایک بڑا نام سیاستدان رسول بخش پلیجو طویل علالت کے بعد کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں وفات پا گئے۔ ان کی عمر 89 برس تھی۔ رسول بخش پلیجو گذشتہ چند سالوں سے طویل العمری کی وجہ سے بیماریوں کا شکار تھے لیکن بیماری کے باوجود وہ سیاسی طور پر متحرک تھے۔ رسول بخش پلیجو کی جماعت کے ترجمان کے مطابق ان کی تدفین ضلع ٹھٹہ کے علاقہ جنگ شاہی میں کی جائے گی۔ عملی سیاست میں قدم رکھنے سے وفات تک رسول بخش پلیجو کی سیاست میں مزاحمتی رنگ واضح تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انھوں نے اپنے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کی سیاست سے اختلاف کرتے ہوئے عوامی تحریک کو دوبارہ بحال کیا اور اس کے سربراہ بن گئے تھے۔
رسول بخش پلیجو نے پوری زندگی سندھ کے حوالے سے سیاست کی لیکن ان کی زندگی میں ایک دور ایسا بھی آیا جب وہ عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری مقرر ہوئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد اختلافات کے بعد انھوں نے اے این پی سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ انھوں نے کئی درجن کتابیں اور کتابچے تحریر کیے۔ رسول بخش پلیجو نے ون یونٹ کے خاتمے کے لیے مہم میں بھی بھرپور کردار ادا کیا تھا اور بنگلہ دیش میں فوجی کارروائی، بھٹو دور میں بلوچستان میں فوجی کارروائی کے خلاف بھی احتجاجی تحریک چلائی تھی۔
رسول بخش پلیجو کی 1970 میں قائم کی جانے والی عوامی تحریک نے اس وقت بڑا نام کمایا جب جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مارشل لا کی مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر تحریک برائے جمہوریت (ایم آر ڈی) کی بنیاد ڈالی اور جیل بھرو تحریک کا آغاز کر دیا۔ اس تحریک میں عوامی تحریک نے پیپلز پارٹی کے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رسول بخش پلیجو کو ضمیر کا قیدی بھی قرار دیا تھا۔ انھوں نے مختلف اوقات میں طویل قید و بند کی سزا کاٹی تھی۔ رسول بخش پلیجو نے اپن�� جماعت کو انتخابی سیاست سے دور رکھا ہوا تھا۔ وہ ایسے کارکن تیار کرتے تھے جنھیں معاشرتی تبدیلی اور نظام حکومت کی تنزیلی کے علاوہ کوئی اور سروکار نہیں تھا۔
رسول بخش ایک ہی وقت میں فکری محاذ، تنظیمی محاذ، سیاسی اور سماجی محاذ پر اپنی قوتیں صرف کرتے تھے۔ وہ سندھ کے ممکنہ طور پر ان چند رہنماؤں میں سے تھے جو بیک وقت کئی سیاسی جماعتوں اور مختلف اوقات میں قائم کئے جانے والے سیاسی اتحادوں کا حصہ بھی رہے۔ 2008 میں اپنی جماعت کے انتخابات کے دوران جب انھیں اپنے ہی بیٹے ایاز لطیف پلیجو کی سیاست کا طرزِ عمل پسند نہیں آیا تو انھوں نے ایاز لطیف کے نام ایک کھلا خط لکھا تھا۔ وہ ایک خط تھا بلکہ ایک چارج شیٹ تھی جو ایک والد کی طرف سے بیٹے کے نام نہیں تھی بلکہ ایک سیاسی جماعت کے باضابطہ منتخب صدر کے نام تھی۔
اس خط کے ایک ماہ بعد انھوں نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے قومی عوامی تحریک سے اپنی ساتھیوں اور حامیوں سمیت علیحدگی کا اعلان کیا اور عوامی تحریک کو بحال کر دیا تھا۔ رسول بخش پلیجو نے اپنے پسماندگان میں پانچ بیٹوں اور بیٹیوں کے علاوہ کارکنوں کی بڑی تعداد کو سوگوار چھوڑا ہے۔
علی حسن صحافی، حیدرآباد
بشکریہ بی بی سی اردو
0 notes
Text
Rasul Bux Palejo
Rasul Bux Palejo (born September 21, 1930) is a notable Sindhi nationalist leader, scholar and writer. He is father of Ayaz Latif Palijo leading Human Rights lawyer and leader. He is founder and chairman of Awami Tehreek (People's Movement), a progressive leftist party.
Early life
Palejo (sindhi رسول بخش پليجو) was born at the village Mungar Khan Palijo, Jungshahi, Thatta District, Sindh on September 21, 1930, to Ali Mohammad Palijo and Laadee Bai. He got his early education at his village and secondary education at Sindh Madarstul Islam in Karachi. He did his law graduation from Sindh Law College Karachi. At the age of 15, he was fluent in Sindhi, Urdu, and English languages, and later became conversant inHindi, Arabic, Balochi, Bengali, Siraiki, Punjabi and Persian.[citation needed]
Political work
A prolific writer and scholar, Palejo served as a Supreme Court lawyer.[citation needed] He is a former political prisoner, having been jailed under political charges for more than 11 years especially during the Movement for Restoration of Democracy (MRD) in Pakistan. Most of his prisoner life, he was kept on Kot Lakhpat Jail, Punjab during 1980s.[citation needed] He was declared as "Prisoner of Conscience" by Amnesty International in 1981.[citation needed]
Books and international lectures He has written more than twenty books on politics, pure literature (short stories), literary criticism, history and political thought. He is a widely traveled scholar and had visited several times almost all regions across the world. As a visiting faculty, he has been delivering lectures at Jawahar Lal Nehru New Delhi (JNU), Delhi University, University of Chicago, University of Cambridge, University of Sussex, University of Essex, Kinston University, University of Milwaukee, Institute of Oriental Studies- Moscow, Houston University and number of other global academic institutions throughout the world.
Some of his famous books,
Andha Oondha Wej- Rasool Bux Palijo
Awhan Jey Pujaran(your worshiper)- Rasool Bux Palijo
Kot Lakhpat Jo Qaidi(Prisnor of Kot Lakhpat)- Rasool Bux Palijo
Jin Jhoona Garah Jalayo- Rasool Bux Palijo
Sandi Zat Hanjan- Rasool Bux Palijo
Maositong -Rasool Bux Palijo
Pase garhagul (stories) -Rasool Bux Palijo
siyasi Adab vol:01 -Rasool Bux Palijo
siyasi Adab vol:02 -Rasool Bux Palijo
siyasi Adab vol:03 -Rasool Bux Palijo
sindh Panjab water dispute -Rasool Bux Palijo
Personal life
Rasool Bux Palijo was born in a lower middle class rural family of Thatta Sindh. After completing his initial education in Jungshahi and Thatta, he went to Sindh Madarsa in Karachi though his parents wanted him to stay in Thatta and look after the family. Then he did his LLB from Jinnah College and began a successful law career focused on criminal law. Prior to his work in law, he briefly held various positions with newspapers and educational institutions.
He got well versed in literature by reading Kant, Hegel, Karl Marx, Vladimir Lenin, Mao Zedong, Mohandas Gandhi and Muhammad Ali Jinnah.[citation needed] He was an outspoken critic of the feudal system and bureaucrats.[citation needed]
He was married to Sindhi singer, activist and author Zarina Baloch until her death on 25th Oct 2006. The union yielded a son Ayaz Latif Palijo.[1]
#Thatta District#Sindhi nationalism#Sindh#Rasul Bux Palejo#Palijo#Karachi#Jungshahi#Ayaz Latif Palijo
0 notes