اسید کلریدریک 37 درصد
هیدروکلریک اسید (جوهر نمک) یک محلول شفاف، بی رنگ و بسیار تند بو از هیدروژن کلراید در آب است. یک اسید معدنی بسیار خورنده و اسیدی با استفاده های صنعتی فراوان می باشد. این اسید به دلیل اینکه جز مواد شیمیایی اولیه (پایه) می باشد کاربرد بسیار گسترده ای دارد. گاز اسید کلریدریک بی رنگ با تند تند و با طعم اسیدی و از هوا سنگین تر می باشد.این ماده به آسانی تبدیل به مایع می شود و در حالت مرطوب یا محلول، ماده آبی رنگ را به قرمز تبدیل می کند.
کاربرد اسید کلریدریک
اسید کلریدریک (جوهرنمک) در بسیاری از صنایع کاربرد فراوان دارد.
۱- تولید انواع مواد شیمیایی
۲- در بسیاری از پروسه های غذایی
۳- شستشو و اسید شویی فلزات
۴- خنثی سازی ترکیبات آلکالین یا ضایعات فلزات
۵- احیا اوره
۶- قطعه شویی (اسید شویی) فولاد: یکی از مهم ترین کاربردهای اسید کلریدریک در اسید شویی فولاد است تا زنگ یا اکسید آهن را از روی سطح آهن یا فولاد قبل از ورود آنها به واکنش های بعدی مثل اکستروژن، گالوانی کردن و دیگر تکنیک ها، بزداید. اسید کلریدریک در کیفیت فنی با غلظت ۱۸% رایج ترین عامل اسید شویی فولاد های کربنی است
۷- تولید انواع ترکیبات غیر آلی : محصولات زیادی طی یک واکنش اسید و باز توسط اسید کلریدریک تولید می شوند و مواد شیمیایی در گیر با آب
۸- پرداخت چرم
۹- تمیز کننده ها و پاک کننده های خانگی و صنعتی
۱۰- صنعت ساختمان سازی
۱۱- پاک کننده ها و جرمگیری کاشی و سرامیک
۱۲- اسیدید کردن چاه های نفتی
۱۳- تولید ترکیبات آلی : از دیگر کاربردهای اسید کلریدریک تولید ترکیبات آلی، مثل وینیل کلراید است معمولا این کار استفاده ای غیر آزاد است
۱۴- برداشتن رسوب بویلرها
۱۵- کنترل ph و خنثی سازی : اسید کلریدریک برای تنظیم اسیدی بودن در خلوص مورد نیاز صنایع غذایی، دارویی، آشامیدنی به کار می رود
۱۶- تهیه اتیلن دی کلراید
۱۷- خالص ��ازی نمک طعام
۱۸- نظافت و خانه داری
فروش ماده آزمایشگاهی
کمپانی سازنده
شرکت مرک Merck
وارد کننده مواد مرک
شرکت دایا اکسیر
راهنمای مشخصات ماده شیمیایی
نام محصول
Hydrochloric acid fuming 37%
نام های مشابه
Hydrogen chloride solution
Catalog No
۱.۰۰۳۱۷
گرید ماده
for analysis EMSURE® ACS,ISO,Reag. Ph Eur
فرمول مولکولی
HCL
شرایط نگهداری
Store at +2°C to +25°C
بسته بندی
۱L,2.5L
فروش اسید کلریدریک Hydrochloric acid
دایا اکسیر اعلام مینماید که با همکاری کارشناسان مجرب خود در بخش فنی و فروش جهت تأمین مواد اولیه پروژه های تحقیقاتی، اسید کلریدریک Hydrochloric acid با کیفیت بالا و قیمت مناسب را فراهم نموده است.
قیمت اسید کلریدریک Hydrochloric acid
دایا اکسیر وارد کننده بدون واسطه مواد آزمایشگاهی اصل آماده پاسخگویی به استعلام قیمت خریداران محترم با قیمت های مناسب می باشد.
منبع:
https://digishimi.com/index.aspx?Article=What-is-the-use-of-hydrochloric-acid
هیدروکلریک اسید (جوهر نمک) یک محلول شفاف، بی رنگ و بسیار تند بو از هیدروژن کلراید در آب است. یک اسید معدنی بسیار خورنده و اسیدی با استفاده های صنعتی فراوان می باشد. این اسید به دلیل اینکه جز مواد شیمیایی اولیه (پایه) می باشد کاربرد بسیار گسترده ای دارد. گاز اسید کلریدریک بی رنگ با تند تند و با طعم اسیدی و از هوا سنگین تر می باشد.این ماده به آسانی تبدیل به مایع می شود و در حالت مرطوب یا محلول، ماده آبی رنگ را به قرمز تبدیل می کند.
کاربرد اسید کلریدریک
اسید کلریدریک (جوهرنمک) در بسیاری از صنایع کاربرد فراوان دارد.
۱- تولید انواع مواد شیمیایی
۲- در بسیاری از پروسه های غذایی
۳- شستشو و اسید شویی فلزات
۴- خنثی سازی ترکیبات آلکالین یا ضایعات فلزات
۵- احیا اوره
۶- قطعه شویی (اسید شویی) فولاد: یکی از مهم ترین کاربردهای اسید کلریدریک در اسید شویی فولاد است تا زنگ یا اکسید آهن را از روی سطح آهن یا فولاد قبل از ورود آنها به واکنش های بعدی مثل اکستروژن، گالوانی کردن و دیگر تکنیک ها، بزداید. اسید کلریدریک در کیفیت فنی با غلظت ۱۸% رایج ترین عامل اسید شویی فولاد های کربنی است
۷- تولید انواع ترکیبات غیر آلی : محصولات زیادی طی یک واکنش اسید و باز توسط اسید کلریدریک تولید می شوند و مواد شیمیایی در گیر با آب
۸- پرداخت چرم
۹- تمیز کننده ها و پاک کننده های خانگی و صنعتی
۱۰- صنعت ساختمان سازی
۱۱- پاک کننده ها و جرمگیری کاشی و سرامیک
۱۲- اسیدید کردن چاه های نفتی
۱۳- تولید ترکیبات آلی : از دیگر کاربردهای اسید کلریدریک تولید ترکیبات آلی، مثل وینیل کلراید است معمولا این کار استفاده ای غیر آزاد است
۱۴- برداشتن رسوب بویلرها
۱۵- کنترل ph و خنثی سازی : اسید کلریدریک برای تنظیم اسیدی بودن در خلوص مورد نیاز صنایع غذایی، دارویی، آشامیدنی به کار می رود
۱۶- تهیه اتیلن دی کلراید
۱۷- خالص سازی نمک طعام
۱۸- نظافت و خانه داری
فروش ماده آزمایشگاهی
کمپانی سازنده
شرکت مرک Merck
وارد کننده مواد مرک
شرکت دایا اکسیر
راهنمای مشخصات ماده شیمیایی
نام محصول
Hydrochloric acid fuming 37%
نام های مشابه
Hydrogen chloride solution
Catalog No
۱.۰۰۳۱۷
گرید ماده
for analysis EMSURE® ACS,ISO,Reag. Ph Eur
فرمول مولکولی
HCL
شرایط نگهداری
Store at +2°C to +25°C
بسته بندی
۱L,2.5L
فروش اسید کلریدریک Hydrochloric acid
دایا اکسیر اعلام مینماید که با همکاری کارشناسان مجرب خود در بخش فنی و فروش جهت تأمین مواد اولیه پروژه های تحقیقاتی، اسید کلریدریک Hydrochloric acid با کیفیت بالا و قیمت مناسب را فراهم نموده است.
قیمت اسید کلریدریک Hydrochloric acid
دایا اکسیر وارد کننده بدون واسطه مواد آزمایشگاهی اصل آماده پاسخگویی به استعلام قیمت خریداران محترم با قیمت های مناسب می باشد.
منبع:
https://digishimi.com/index.aspx?Article=What-is-the-use-of-hydrochloric-acid
1 note
·
View note
جنت کے پتے از نمرہ احمد (قسط 14) http://bit.ly/2UFnKJZ http://bit.ly/2PHAAGY
ناول؛ جنت کے پتے
قسط 14
اس نے ٹکٹ کی کھڑکی سے جھانکتے آفیسر سے پوچھا ۔ اس کا موبائل جہان ساتھ لایا تھا مگر وہ واپس نہی لے سکی تھی اور جہان اور ڈی جے کے موبائیل نمبرز اسے زبانی یاد نہیں تھے ۔ ورنہ کہیں سے کال کر لیتی ۔ وہ چلے گے ھوں گے اور پریشان ہوں گے ۔ وہ اندزا کر سکتی تھی ۔ آٹھ بجے ۔ ٹکٹ چیکر نے جواب دیتے ہوئے بغور اسے دیکھا پھر ساتھ ا رکھا کاغذ اٹھا کر دیکھا ۔ آر یو حیا سلیمان ؟ پاکستان تورست؟ (ٹورست؟ ) اس کے کہنے کے ساتھ وہ پرنٹ آوٹ اس کے سامنے جس میں اس کی اور ڈےجے کی آج دوپہر کی کھینچی تصویر پرنٹ کی گئی ۔
یس۔ائی ایم
میری فیری نکل گئی تھی کیامیرے فرینڈ ادھر ہی ہیں ۔فرط جزبات سے اس کی آنکھیں ڈوباگئی تھیں ۔اس نے سوچ بھی کیسے لیا کے وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے ہو گئے ۔ پولیس اسٹیشن کم ٹو پولیس اسٹیشن اور جب وہ دو پولیس آفیسر ز کے ہمر اہ پولیس اسٹیشن پہنچی تو اندرونی کمرے میں اسے وہ دونوں نظر آ گئے ڈ جے کرسی پے دونوں ہاتھوں میں سر تھامے بٹھی تھی جبکہ جہان انگلی اٹھاے درشتی سے سامنے بٹھے آفیسر سے کچھ کہہ رہا تھا ۔ آفیسر جوابا نفی میں سر ہلا تے ہوے کچھ کہنے کی سعی کر رہا تھا ۔ مگر وہ نہیں سن رہا تھا۔ چوکھت پہ آ ہٹ ہوئی تو وہ کچھ بولتے بولتے روکا گردن موڑ ی۔ وہ بھگی آنکھوں سے دروازے میں کھڑی تھی۔ اس کی اٹھی انگلی نیچے گر گئی لب بھینچ گئے ۔ ایک دم ہی وہ کرسی کے پیچھے سے نکل کر اس کی جانب آیا کدھر تھی تم اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ میں کھو گئی تھی وہ بچہ میرا پرس لے کر بھاگاتو بیوک ادا نے تمہیں اس کے پچھے بھاگتے دیکھا ۔ عقل نام چیز ہے بھی تم یا نہیں ۔ ایک پرس کے لیے تم اس کے پچھے بھاگین۔ پھر چھوٹ گی یا وہ تمہیں کوئی نقصان نا پہچا دے تمہیں اس بات کا کوی خیال تھا ۔ وہ غصے سے چلایا۔ کیوں نہ بھگتی اس کے پچھے ۔ پرس میں میرا پاسپورٹ تھا سبا نجی کا کارڈ تھا۔ بعد میں پریشانی ہوتی کے ۔ اور جو پریشانی ہمیں ہوی وہ ہم اس ڈیڈھ گھنٹے سے پاگلون کی طرح پورے جزیرے پہ ڈھونڈ رہے تھی۔ جانتی ہو ہماری کیا حالت تھی۔ ڈ جے جو اس کے چلنے کے باعث روک گئی تھی ۔ اور اب آ گئے بڑی اور اس کے گلے لگ گئی ۔ حیا تم بلکل پاگل ہو۔ اس کی آ نکھے رونے سے متورم تھیں وہ دونوں پھر رونے لگی تھی ۔ حد ہوتی ہے غیر ذمہ داری کی۔ آ ئندہ میں تم دونوں کے ساتھ کہی نہیں جاوگا۔ وہ بھنا کر کہتا واپس پولیس آفیسر کی طرف پلٹ گیا ۔ وہ ابھی تک رو رہی تھی ۔اس کو پتا تھا کے واپسی پہ جہان کی بہت سی باتین سننی پڑے گی۔ وہ دونوں لکڑی کا دروازہ دھکیل کر اندر آئیں تو ہر سو اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ لونگ روم سے ٹمٹمتی ذرد روشنی جھانک رہی تھی۔ انے اس نے جنگی پھولوں کی ٹوکری لابی میں رکھے سٹینڈ پہ دھری اور بچی کا ہاتھ تھامے لونگ روم کی طرف آئی ۔ صوفے پہ وہ معمرخاتون اسی طرح بٹیھی تھیں ۔ان کے ہاتھ میں چند نوٹ تھے۔ جو وہ گن کر علیہدہ کر رہی تھی ۔ ساتھ ہی وہ لڑکا کھڑا ان نوٹوں کو دیکھا رہا تھا۔
اسلام وعلیکم آئے کیسے ہو عبداللہ ۔
اس نےانگلی چھوڑ دی اور کندھے سے پرس کی اسٹریٹجک اتارتے ہوئے بڑے میز کی طرف آئی میں ٹھیک ہو ں عاشئے لرکے نے معمر خاتون کے بڑھائے گئے نوٹ پکڑے گنے اور باہر باگ گیا ۔ وہ بقیہ نوٹ واپس بٹوے میں رکھنے لگیں ۔ بجلی والا پول ٹھیک ہوا ؟ بٹوہ بند کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا ۔ وہاں بندے کام کر تو رہے ہیں ۔ ابھی گلی میں داخل ہوتے ہوئے ہم نے دیکھا تھا ۔ عبداللہ کیوں آیا تھا ؟ وہ میز کے ساتھ کھڑی اپنا پرس کھولتی کہا رہی تھی ۔ میرا کام تھا ۔ انہوں نے بیچی کا ہاتھ تھامتے ہوئے سر سری سا جواب دیا ۔ جواب ان کے ساتھ سوفے آ بیٹھی تھی ۔ کام بھی تھا اور آنے نے اسے پسے بھی دیے عاشئے گل ! تم نے دیکھا ، وہ صبح قرآن پرنھے کب سے نہیں آیا روز بہانے بنا دیتا ہیں ۔ بچی ناک سکورٹی کہہ رہی تھی ۔
اپنے پرس کو کھنگالتی عاشئے نے پلٹ کے خفگی سے اسے دیکھا۔
بری بات ہے بہارے کسی کے پیچے اس کا یوں ذکر نہیں کرتے۔وہ ایک نظر اس پہ دال کر واپس اپنے پرس میں سے کچھ ڈھونڈے لگی تھی۔
اور یہ وہ لڑکی تھی نہ چند لمحے موم کی طرح پیگل کے گر گی تو اس نے پرس کی چیزیں الٹ پلٹ کرتے پوچھا ۔ادھر کیوں آئی تھی۔
یہ عبدالرحمن کے مئسلے ہیں وہ خود ہی نپٹالے گا۔انہوں نے ٹلنا چاہا۔
اچھا وہ اداسی سی ہنسی۔ینعی مئسلہ ابھی تک نبٹا نہیں ہے۔کیا کہا رہی تھی۔
صاف انکار۔انہوں نے گہری سانس لی۔
عبدالرحمن چلا گیا اس نے بات پلٹ دی۔
ہاں آج صبح کی فلائٹ تھی۔
واپسی کا نہیں بتایا ۔
کہہ رہا تھا۔دو سے تین ماہ لگ جاے ۔اور شاید اس دفعہ وہ واپس نہ آے۔
جانے دو آنے وہ ہر دافعہ یہی کہاتا ہے۔
وہ اداسی سی مسکرا کے بولی۔ایک ہاتھ سے وہ ابی بھی پرس میں کچھ تلاس کر رہی تھی۔
آنے تمہیں پتا عاشئے مجھ سے ناراض ہے۔بہارے اپنے نھنے نھنے اسے جوتوں کے تسمے کھولتے ہوئے بتنے لگی۔آنے نے حیرت سے میز کے ساتھ کھڑی عاشئے کو دیکھا جس کی ان کی طرف پشت تھی۔کیوں
کیونکہ چار دن کی تربیت کے بعد آپ کی چہتی پہ یہ اثرہوا۔کہ آج یہ بازار میں عین سڑک کے وسط میں کھڑی اپنا پونچو کہیں گرا کر سیاحوں کے کیمروں میں تصویریں بنوارہی تھی۔
ارے تم اسے سمجا دو نا ناراض نا ہو۔
کس کس کو سمجو۔سفیر کہتا ہے اس کے ماں باپ کو سمجاوں ۔اس کے ماں باپ کہتے سفیر کو سمجو آپ کہاتی ہے بہارے کو سمجھوں بہارے کہتی ہے میں خود کو سمجھوں عبدالرحمن کہتا ہے وہ لمحہ بھر کو رکی پھر سر جھٹک کر پرس کی چیز ایک ایک کرکے باہر نکالنے لگی۔
کچھ نہیں ۔اس نے نفی میں سر ہلا دایا۔پھر ذارا سی گردن مرے بہارے کو دیکھا جو چہرہ ہتھیلیوں پہ گراے آنے کے ساتھ بیٹھی تھی۔
آج تم نے مجھ بہت خفا کیا ہے۔بہارے میں نے کہا تھا نہ آچھی لڑکیاں ایسے نہیں کرتی ہیں ۔
عاشئے گل بہارے نے منہ بگاڑ کر اس کی نکل اتاری۔248
اچھی لڑ کیا اللہ تعالی کی بات مانتی ہیں ۔ وہ ہر جگہ نہیں چلی جاتیں وہ ہر کسی سے نہیں مل لیتین وہ ہر بات نہیں کر لیتین ۔ اس نے پرس میز پہ الٹ کر جھاڑا ۔ تو پھر میں بری لڑکی ہوں ؟ بہارے پل بر میں رونگھی ہو گیئ ۔ نہیں""" کو لڑکی بڑی نہیں ہو تی ۔ بس اس سے کبھی کبھی کہچھ ایسا ہو جاتا ہیں ، جو برا ہو جاتا ہے ، جس پہ اللہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے ۔ جب وہ ناراض ہوتا ہے تو وہ انسان کو اکیلا چھوڑ دیتا ہے اور جانتی ہو کے اکیلا چھوڑنا کیا ہوتا ہے ؟ جب بندا دعا کرتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتی ۔ وہ مدد منگتا ہے تو مدد نہیں آتی ۔ وہ راستہ تلاشتا ہے تو راستہ نہیں ملتا ۔ وہ اب میز پہ نکلی ایشا الٹ پلٹ کر رہی تھی ۔ خالی پرس ساتھ ہی اوندھارکھ تھا۔
کیا ڈھونڈ رہی ہو۔
سفیر نے اپنی ممی کو چابیاں دینے کے لیے کہاتھا۔یہیں پرس میں رکھی تھی۔پتا نہیں کہا چالی گی۔عبدالرحمن ٹھیک کہاتا ہے۔عاشئے گل کبھی کچھ نہیں کرسکتی۔اور وہ اس لئے کہاتا ہے تاکہ عاشئے گل سب ہی کچھ سیکھ جائے۔
ان کی بات پہ اس نے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا اور چیزوں کو واپس پرس میں دالنے لگی۔وہ چابی یقینا کہیں اور راکھ کر بھول گی تھی۔
آنے والے چند دنوں میں پرھائی کا بوجھ ذار بڑھ گیا اور کلاسز کا شیڈول پہلے سے سخت ہوگیا تو وہ دونوں ٹیسٹ تیارکرنے اور دینے میں مصروف ہوئیں کہ کہیں آجا نہیں سکیں ۔
وہ وسط مارچ کے دن تھے۔استنبول پہ چھایا کہر ٹوٹ رہا تھا۔اور بہار کی رسیلی ہوا ہر سو گلاب اور لپس کھلا رہی تھی۔اب صبح سویرے گھاس پہ برف کی جمی سفید تہہ نظر نہیں آتی تھی۔ایسے ہی ایک دن ان دونوں نے ٹاپ کپی پیلس میوزیم جانے کاپروگرام بنایا مگر اسی واقت ہالے آ گی۔اس کے پاس دوسرا پروگرام تھا۔
کیوں نہ اس بہانے تھورا ثواب ہی کما لیں گے۔ورنہ میں نے اور حیا نے ایسے کوئی نیکی کرنی نہیں ہے۔ڈی جے اپنا پرس بند کرتے بولی تھی۔
ویسے رابیع الاول ختم ہو چوکا ہے یہ ہونے والاہے ۔یہ تو ہو چکا ہے۔
یہ سٹوڈنٹس کا میلاد ہےاور پرھائی کے باعث ملتوی ہوتا جارہاتھا۔اس لیے اتنا لیٹ کیا اب چلو۔
میلاد میں درس دینے والی لڑکی اونچی چوکی پہ بیٹھی تھی۔سامنے رکھی چھوٹی میز رکھ کتاب سے پڑھ کر ترک میں درس دئے رہی تھی۔ساتھ ہی وہ ایک شرمندہ نگاہ سامنے دیگر لڑکیوں کے ساتھ بیٹھی حیا اور خدیجہ پہ بھی ڈال لتی جو سروں پہ ڈوپٹے لپٹے بہت توجہ سے درس سن رہی تھی۔مدرسہ لڑکی سخت شرمندہ تھی۔حاضرین کی انگریزی اچھی نہیں تھی۔اس لیے اس کی مجبوری تھی۔کہ اس کو ترک میں درس دینا پر رہا تھا۔اور اسے یقین تھا کہ بظاہر بہت توجہ غور سے سونتی پاکستانی سٹوڈنٹس کو سمجھ کچھ نہیں آ رہا۔
درس ختم ہوا تو وہ لڑکی ان کی طرف آئی اور بہت معزرت خواہانہ انداز میں ان کو دیکھا ۔
آپ کی سمجھ میں تع کچھ نہیں آیا ہو گا۔
لیں سمجھ کیوں نہیں آیا ڈی جے نے ناک سے مکھی ارھی۔پہلے آپ نے حجراسودکو چادر پہ رکھنے والا واقعہ سنایا۔پھر غار حرا وحی مسلمانوں کی ابتدائی تکالیف حضرت ابوبکرصدیق کی قربانیاں ابو جہل بن ہشام کی گستاخیاں حضرت عمر کا اسلام قبول ہجرت مدینہ پھر غزوہ بدر۔
لڑکی نے بے یقینی سے پلکیں جپکائیں ۔آپ کو ترکی آتی ہے۔ترکی نہیں آتی پر آپنی ہسٹری ساری سمجھ میں آتی ہے۔
وہ جوابا ہنس کے بولی۔ترکی اردو جیسی ہی لگتی تھی۔وہ سب سمجھ پارہی تھی ۔شکریہ وہ اتنی خوش ہوئی کہ اس کا چہرہ گلابی پڑ گیا۔
میلاد ختم ہوا تو ہالے کی امی کا فون آگیا۔انہوں کوئی ضروری کا م تھا۔ہالے نے ان کے ساتھ جانے سے معذرت کر لی۔اب انہیں ٹاپ کپی پیلس جانا تھا۔
وہ لوگ اکیلے تو نہیں ہوتے۔وہ ٹاقسم اسکوائر پہ بس سے اتریں حیا نے اسے تسلی دی۔ڈی جے ہنس پری۔
پھر بھی تیسرے کو ساتھ لیتے کیا حرج ہے۔وہ چلے گا ہمارے ساتھ اس روز کتنا غصہ کیا تھا اس نے یاد ہے۔
وہ اس لیے کہ تمہیں ڈھونڈتے ہوئے وہ بہت فکرمند اور پریشان ہو گیا تھا۔مگر اب تھوڑا سا اصرار کریں گے تو ضرور چلائے گا ۔
استقلال اسٹریٹ ویسے رش سے بھری تھی۔وہ دونوں بازو میں بازو ڈالے تیز تیز چل رہی تھی۔یہ ان کی دوستی کی علامت ہرگز نہیں تھی۔بلکہ اسٹریٹ کے جیب کتروں کے بچاو کے لئے وہ اپنے ملے کندھوں سے پرس لٹکاتی تھی۔تاکہ چھینے نا جا سکیں ۔حیا تو اس واقعہ کے بعد بہت محتاط ہوگی تھی۔
برگر کنگ میں خوب گما گمی تھی۔شہتاانگیز سی مہک سارے میں پھیلی تھی۔وہ دونوں آ گے پیچے چلتے ہوئے کیچن کی طرف کھلتے دروازے کی طرف آئیں ۔سامنے طویل سا کیچن تھا۔ادھر ادھر ایپرن اور ٹوپیاں پہنے دو چار افرد آ جا رہے تھے۔ایک کے ساتھ وہ بھی کھڑا تھا۔
جینز اور شرٹ پہ سفید اپیرن پہنے ہاتھ میں بڑا ٹوکا لیے وہ کٹنگ بورڈ پہ رکھے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو کٹھا کھٹ رہا تھا۔
گڈما آ آر ننگ منیجر
دونوں نے چوکھت میں کھڑے ہو گیا تو با آواز پکارا تو اس کا تیزی سے چلتا ہاتھ روکا۔
اس نے گردن اٹھا کہ ان کو دیکھا۔پھر سر سے پاوں تک ان کا جائزہ لیا۔
گڈما آ آر ننگ
وہ واپس گوشت کی طرف متوجہ ہوا اور دوسرے ہاتھ سے ایک چھوٹی سی اسٹینڈ لگی تحتی اٹھا کر سامنے کانٹر پر رکھی۔اس پہ لکھا تھا۔
آئی ایم بزی ڈوناٹ ڈسٹرب ۔
حیا اور خدیجہ نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر خدیجہ مسکراہٹ دبائے آ گے برھی جبکہ حیا وہیں چوکھٹ کے ساتھ ٹیک لگائے بازو سینے پہ لپٹیے زیر لب مسکراتے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔
ہم ٹاپ کپی پیلس جا رہے ہیں ۔
خدیجہ نے اکاونٹر کے سامنے آ کر اطلاع دی۔
استقلال اسٹریٹ سے باہر نکلو ٹاقسم سے میو نسپٹی بس پکڑو وہ پہنچا دے گئی۔
وہ سر جھکائے ایک ہاتھ سے گوشت کا ٹکڑا پکڑے دوسرے سے کھٹ کھٹ چھڑا چلا رہا تھا۔
مگر ہمیں ایک ہینڈسم گائیڈ بھی چاہیئے۔
ہینڈسم گائیڈ ابھی مصروف ہے۔کسی غیر ہینڈسم گائیڈ سے رابط کرو۔
ڈی جے نے پلٹ کر حیا کو دیکھا۔اس نے مسکراتے ہوئے شانے اچکارے وہ واپس جہان کی طرف گھومی۔
تو آپ ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے۔
بالکل بھی نہیں ۔
تم میں سے پھر کوئی ٹاپ کپی کے قلعے میں گم ہو جائے گی اور میرا پورا دن برباد ہو گا۔
ایک دفعہ پھر سوچ لیں ۔
لکھ کر دے دوں وہ کہتے ہوئے ٹکڑوں کو ایک طرف ٹوکری میں رکھنے لگا۔اس کے ہاتھ مشینی انداز میں چل رہے تھے۔
اچھا ایک بات بتائیں استقلال اسٹریٹ میں جیب کترے ہوتے ہیں ۔ڈی جے نے اس کے سلور اسمارٹ فون کو دیکھتے ہوئے کہا جو قریب ہی چار جنگ پہ لگا تھا۔
ہاں ،، تو سمجھیں آپ کی جیب کٹ گئی ۔ ڈی جے نے ہاتھ بڑھا کر فون اچکا، تار نکانی اور حیا کے ساتھ آ کھڑی ہوئی ۔ کیا مطلب ؟ اسے شدید قسم کا جٹھکا لگا تھا ۔ وہ ہاتھا روک کر انہیں دیکھنے لگا تھا ۔ مطلب یہ کہ اگر آپ ہمارے ساتھ ٹاپ کپی پیلس نہیں چلیں تو ہم اس موبائل کو بیچ کر آدھا جواہر تو خرید ہی لیں گئے ۔ ویسے فون اچھا رکھا ہوا ہے آپ نے ۔ وہ الٹ پلٹ کر کے موبائیل دیکھنے لگی ۔ پاکستانی روپوں میں دو ڈھائی لاکھ سے کم کا تو نہیں ہو گا ۔ وہ چھرا رکھ کر ان کے سرپے آ پہنچا ۔ میرا فون واپس کرو ۔ کری نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھایا ۔ ٹاپ کپی سے واپسی دے دوں گی ۔ وعد ،، مطلب تم لوگ مجھے پر غمال بنا کر لے جاو گی ؟ کوئی شک' وہ پہلی دفعہ بولی ۔ ٹھیک ہے مگر یہ آخری بار ہے ، پھر میں کبھی تم دونوں نکمی لڑکیوں کے ساتھ اپنا دن برباد نہیں کرو گا ۔ وہ ایپرن گردن سے اتارتے ہوئے مسلسل بڑبڑارہا تھا ۔ اور اگر آج تم دونوں میں سے کوئی کھوئی تو میں بہت برا پیش آو گا ۔ ہاتھ دھو کر جیکٹ پہنتا وہ ان کے ساتھ باہر نکلا ۔ ٹاپ کپی سرائے کے سامنے وہ سنبرہ زار پہ ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔ حیا درمیان میں تھی اوا وہ دونوں اس کے اطراف میں ۔ جہان یہ ٹاپ کپی سرائے کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ میں ایک یر غمال شد گائیڈ ہوں اور یر غمالی عموما ؛؛ خاموش رہتے ہیں ۔ وہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے چیونگم چبا تا شا نے اچکا کر بولا۔
میں بتاتی ہوں؛ ٹاپ کپی کا ٹاپ دراصل اور والا توپ ہے جیسے تقسیم ٹاقسم بنا ویسے ہی توپ ٹاپ بن گیا ۔ کچی کہتے ہے گیٹ کو س
سرراے ہو گیا
میں نہیں بولتا وہ سخت خفا ہوا۔
ٹاپ کپی پیلس چار سو سال تک سلاطین کا محل رہا تھا۔سرمئی عظیم الشان قلعہ تھا۔محل جہاں خاص کمروں کے پہرے دار گونگے بہرے ہوا کرتے تھے۔تاکہ راز محل سے باہر نہ نکالیں۔جس کے کون نما میناراوپر کواٹھے ہوئے تھے۔سلطان کا عظیم ورثہ اور اثاثے۔ چینی پور سلین کے نیلے اور سفید رنگ کے ایسے برتن جن میں اگر زہر ملا کھانا ڈالا جاتا تو برتن کا رنگ بدل جاتا۔
چھیاسی قیراط کے جواہرات سے مزین سلطان کے شاہی لباس نگاہوں کو خیرہ کرتے تھے۔
یہ منحوس گارڈ ہمارے سر پہ نہ کھڑا ہوتا تو میں کسی طرح دو چار ہیرے تو تور ہی لتی۔
ڈی جے ان آنکھیں چند ھیار دینے والے قیمتی پتھروں کو دیکھ کر سخت ملال میں گھر چکی تھی۔
پویلین آف ہولی مینٹل کے حصے میں دینی متبرکات تھے۔
وہ ایک اونچا ہال تھا۔منقشل درودیوار رنگ برنگی ٹائلز سے سجے چمکتے فرش بلند وبالا ستون۔حیا ارد گرد نگاہیں ڈالتی شیشے کی دیواروں میں مقید تاریخی اشیا کو دیکھتی آ گے بڑھ رہی تھی۔
**
وہ گردن ترچھی کر کے اس کو دیکھنے لگی پھر ادھر ادھر نگاہ ڈورئی۔کیشپن سامنے ہی لگا تھا۔
اسٹاف آف موسئ
حضرت موسئ علیہ السلام کا عصا
اس کی سیکڑ پڑھتی آنکھیں پوری کھل گیئں ۔اب بھی نیم واہوگئے۔وہ کھڑی ڈی جے کا بازو قریبا
ڈبوج کر اسے ادھر لائی ۔
ڈی جے یہ حضرت موسئ علیہ السلام کا عصا ہے۔
ریئلی اس نے بے یقینی سے پلکیں جھکیں ۔مگر یہ ان کے پاس کیسے پہنچا۔
وہ دونوں گھوم پھر کر ہر زاویے سے اس کو دیکھنے لگیں ۔جہان بھی جیبوں میں ہاتھ ڈالے خاموسی سے چلتا ان کے پاس آ کھڑا ہوا تھا۔اس کے لیے تو سب پڑانا تھا۔مگر وہ دونوں تو مارے جوش کے راہراری میں آ گے پیچھے ایک ایک تبرک کی طرف لپک رہی تھی ۔ان کے دوپٹے سروں پہ آ گےتھے۔
کعبہ کا تالا حضرت داود علیہ السلام کی تلوار حضرت یوسف علیہ السلام کا صافہ ابراہیم علیہ السلام کا برتن آپ صلی عنہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان آپ کا لباس دانت مبارک آپ کی تلوار اور بہت سے صحابہ کی تلوار ۔
ڈی جے کیا یہ شیشے کی دیوار غاب نہیں ہو سکتی اور ہم اس تلوار کو چھو نہیں سکتے وہ دونوں نبی پاک کی تلوار کے سامنے کھڑی تھی ۔کوئی ایسا مقناطیسی اثر تھا اس تلوار میں کہ مقابل کو باندھ دیتاتھا۔
مگر ہم اس قابل کہاں ہیں حیا خدیجہ نے تاسف سے سر ہلایا۔
وہ ابھی تک یوں ہی اس تلوار کو دیکھ رہی تھی ۔
اگر ہم اس کو چھو سکتے تو جانتئ ہو کیا ہوتا چودا صدیوں کا فاصلہ ایک لمس میں طے ہو جاتا مگر ہمارے ایسے نصیب کہاں
جہان یہ سب تبرات اصلی ہیں
جہان نے دھرے سے شانے اچکاے
میں نے کبھی نہ ان پہ ریسرچ کیا نہ کوئئ ریسرچ پرھا قومی امکان ہے کہ یہ سب اصلی ہیں ۔کہنے والے کہتے تو ہیں کہ مسلمانوں کے ریلکس تبرکات بھی اتنے ہی نفلی ہیں جتنے عیسائیوں کے مگر اللہ بہتر جانتا ہے۔
یہ اصلی ہیں میرا دال گواہی دے رہا ہے کہ یہ سب ہمارے انبیاء سےوابستہ رہنے والا شیا ہیں ۔
تحریک خلاف انہی متبرکات اور مقامات مقدمہ کے تحفظ کے لئے چلائی گئ تھئ۔
ٹاپ کی پیلس میں خوب گھوم پھر کر جب وہ باہر نکلے تو جہان نے اپنا موبائل واپس مگا۔
یہ لیا یاد کریں گےاور فکر نہ کرے ہم نہ کوئی چھڑ چھار نہیں کی۔سکیورٹی لاک کوئی پاس ورڈ ہوتا تو میں خولنے کی ضرور کوشش کرتی مگر آپ نے تو فنگرپرنٹ انٹری لگارکھی ہے ڈی جے کے ہاتھ سے فون لتیے ہوئے وہ مسکرایا۔
ٹاپ کپی کے ساتھ ایک ریسٹورینٹ سے جہان نے ان کو بہت اچھا سا کھانا کھلایا۔
ترکی کا اب کا بہترین کھانااود کھانے کے دوران ہی خدیجہ سر دارد شکایت کرنے لگی تھی۔اس کا سر ایک دم ہی دارد سے پھٹنے لگا۔
میرا خیال ہے میں واپس ڈورم جا کر ریسٹ کروں تم لوگ اکیلے گھومو پھرو۔اس کی طبیعت واقعی خراب لگ رہی تھی ۔سو انہوں نے اسے جانے دیا۔وہ چلی گی تو وہ دونوں ٹاپ کمپی پیلس کی پچھلی طرف آگے۔
وہاں ایک وسیع و عریض سفید سنگ مرمر کے چمکنے فرش والابرامدہ تھا۔جسے اونچے سفید ستونوں نے تھام رکھا تھا ۔برآمدے کے آگے فاصلے فاصلے پر چوکور چپوترے سے بنے تھے جن کے سامنے ٹیرس کی طرح چند گز چورا کھلا احاط تھا۔
وہاں کھڑے ہو کر منڈیر پہ کہنیاں رکھ کر دیکھو تو نچیے بہتا مرمرا جھاگ اڑاتا سمندر دکھائی دیتا تھا۔
وہ جگہ اتنی خوب صورت تھی کہ دل چاہتا انسان صدیوں تک وہاں بیٹھا سمندر دیکھتا رہے۔
تھک گئے ہو دونوں مستون کے ساتھ ٹیک لگائے چبوترے کے کنارے بیٹھے تھے جب حیا نے پوچھا ۔اسے جہان ذرا تھکا تھکا لگا تھا۔
نہیں میں ٹھیک ہوں ۔ذرا سا بخار ہے شاید ۔
اس نے خود ہی اپنا ماتھا چھوا پھر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جیکٹ کی جیب سے گولیوں کی ڈبی نکالی۔
ڈھکن کھول کر ڈبی ہاتھلی پہ الٹی دو گولیوں آلگ کی اور ڈبی بند کرتے ہوئے دونوں گولیوں منہ ڈالیں پھر نگل گیا۔
میرے پاس پانی تھا۔وہ اپنا پرس خولنے لگی لیکن تب وہ نگل چوک تھا۔
تم تھک ہو۔وہ تشویش سے اس کا چہرا دیکھ رہی تھی ۔صبح ریسٹورینٹ سے نکلتے ہوے اسے یوں ہی جہان کی آواز دھیمی لگی تھی۔مگر اس نے پوچھا نہیں اب شاید اس کا بخار شدید ہو گیا تھا۔کیونکہ چہرے پہ اثرات آنے لگے تھے۔سرخ ہوتی آنکھیں اور نڈھال سا چہرہ۔
بس میں نے دیکھ لیا سمندر اب واپس چلتے ہیں ۔تمہیں گھر جا کر ریسٹ کرنی چاہیے۔
گھر جاتے جاتے گھنٹہ لگ جائے گا۔میں نے ابھی دوئی لی ہے۔اس کا اثرہونے میں ذرا وقت لگے گا۔ابھی یہیں بیٹھتے ہیں ۔وہ نفی میں سر ہلاتے ہوے تکان سے کہارہا تھا۔
چند لمحے خاموشی سے بیت گئے۔ان چبوتروں پہ دور دور تک ٹولیوں کی صورت میں سیاح بیٹھے نظر آ رہے تھے ۔بہت سے لوگ آ گئے منڈیر گے ساتھ کھڑے ہوے سمندر کو دیکھ رہے تھے۔
میں تھوری دیر یہاں لیٹ جاوں تم کیلی بور تو نہیں ہوگی ابھی میں واپس نہیں جانا چاہتا ۔میری لیندلیدی شاید آج آئے جھگرا کرنے میں فی الحال سامنا نہیں کرنا چاہتا ۔
نہیں نہیں تم لیٹ جاو۔شال لے لو۔اس نے بیگ سے شال نکال کر اسے تھمائی وہاں ٹھنڈی ہوا بہت تیز تھی۔یہ شال وہ اور ڈی جے بطور پکنگ میٹ کے استمال کرتی تھیں ۔
تھینکس وہ ستون فرش پہ لیٹ گیا۔آنکھوں پہ بازو رکھے وہ گردن تک شال کمبل کی طرح ڈالے کب سو گیااسے پتا نہیں چلا۔اسے یقینا بہت سردی لگ رہی تھی ۔
وہ اس سے ایک زینہ نیچے آ بیٹھی تھی۔ہر چند لمحے بعد گردن موڑ کر اوپر جہان کو دیکھ لیتی تھی۔وہ سو چکا تھا۔
سمندر کی لہروں کا شور وہاں تک سنائی دے رہا تھا۔وہ اپنا ترکی والا موبائل نکال کر یوں ہی ان باکس نیچے کرنے لگی۔وہاں چند دن پہلے کا ایک ایس ایم ایس ابھی تک پڑا تھا۔اس نے اس کا جواب نہیں دیا تھا ۔اور کئی دفعہ پڑھ لنے کے باوجود مٹایا نہیں تھا۔وہ بیوک ادا سے واپسی کے اگلے روز انڈیا کے ایک غیر شناسا موبائل نمبر سے آیا تھا۔
مجھے آپ کے جواب سے خوشی نہیں ہوئی مگر میں آپ کی رائے کا اخترم کرتا ہوں ۔آج کے بعد آپ سے کبھی رابط نہیں کروں گا۔جو تکلیف میں نے آپ کو پہنچائی اس کے بدلے میں اگر آپ مجھے معاف کر دیں تو یہ آپ کی بڑائی ہوگی اور اگر کبھی آپ کو استنبول میں کوئی مسئلہ ہو سر کاری کام ہو یا غیر سر کاری کام قانونی غیر قانونی مجھے صرف ایک ایس ایم ایس کر دیجئے گا آپ کا کام ہو جاے گا اے آڑپی۔
اس پیغام کے بعد اس شحخص نے واقعتا کوئی رابط نہیں کیا تھا۔وہ اب استنبول میں بہت آزادی سے بہت مطمئن دل و دماغ کے ساتھ گھومتی تھی۔اسے پہلے کی نسبت اب اے آڑ پی سے ڈر نہیں لگتا تھامگر اس وقت وہ پیغام دوبارہ پڑھتے ہوے اس کے ذہین میں ایک خیال کوندے کی طرح لپکا۔
اس نے پلٹ کر اخیتاط سے جہان کو دیکھا۔
وہ آنکھوں پہ بازو باندھے سو رہاتھا۔ وہ واپس سیدئی ہوئی اور رپلائیکا بٹن دبایا۔اس پیغام کا جواب تو اسے کبھی نہ کبھی تو دینا ہی تھا۔
اس نے سوچا تھا کہ خوب غوروفکر کر کے کچھ ایسا لکھ کر بھیجے گی وہ بھڑکے بھی نہیں اور دوبارا اس کا پیچا بھی نہ کرے سو اچانک اسے ایک اعجب سا خیال آیا تھا۔
جہان کو صرف بخار نہیں تھا۔وہ پریشان بھی تھا۔اسے وہ بیوک ادوالے ٹرپ کے مقابلے میں ذرا کمزور لگا تھا۔گردش معاش کے جمیلوں میں پھنسے اس انسان کی وہ ایک مدد کر سکتی تھی تو اس میں آخر حرج ہی کیا تھا۔
وہ کافی دیر سوچتی رہی پھر اس نے جواب ٹائپ کرنا شروع کیا۔
آپ کی وسیع النظری کا شکریہ مجھے واقعتا استنبول میں ایک کام درپیش ہے۔اگر آپ میری مدد کریں تو میں اسے آپ کی طرف سے پہنچائی جانے والی اذیت کا مداواسمجوں گی۔
اس نے پیغام بھیج دیا۔اب وہ خاموشی سے بیٹھی سمندر کی لہریں دیکھنے لگی۔وہ بیوک اداس کے گھر بھی تو چلئ گئ تھی اور جب دروازہ بند ہوا تھاتو اسے لگا تھا وہ ایک مطین غلطی کر چکی ہے ۔مگر اس غلطی کا نتیجہ بہت اچھا اور اطمینان بخش نکلا تھا۔اسے احساس تھا کہ اب بھی اس نے غلطی کی ہے اور اس کا نتیجہ
ایک فون کی گھنٹی بجنے لگی۔وہ چونکی اور موبائل سامنے کیا۔وہی انڈیا خا نمبر تھا۔وہ تو سمجھی تھی کہ ٹیکسٹ پہ بات ہو جاے بہت ہے مگر اسے اندزا نہیں تھا کہ وہ فون کرلے گا۔
وہ موبائل سنبھالتی اٹھ کر سامنے منڈیر کے پاس چلی آئی۔اگر وہ یہاں کھڑے ہو کر بات کرے گی تو جہان تک آواز نہیں پہنچے گی۔
ہیلو اس نے فون اٹھایا۔
زہے نصیب زہے نصیب ۔آج آپ نے ہمیں کسے یاد کر لیا۔وہ ہی عامیانہ سا مسکراتالب و لہجہ اسے اپنی حرکت پہ شدید پشیمانی ہوئی تھی۔ ایک کام تھ۔وہ اخیتاط سےنپے تلے لہجے میں کہنے لگی۔اور بہتر ہو گا کہ ہم کوئی بے کار کی بات کرنے کے بجاے کام کی بات کریں ۔
آپ کی مرضی ہے حیا جی رابط بھی تو آپ نے ہی کیا ہے۔ورنہ عبدالرحمن پاشا اپنے قول کا بہت پکا ہے۔شاید وہ طنز کر گیا تھا مگر عہ پی گئی۔
میرے کزن کا ریسٹورینٹ ہے استقلال اسٹریٹ پر برگر کنگ اس کی قسطیں ادا نہیں ہوئی۔ ریسٹورینٹ کی مالکہ آج کل میرے کزن کو تنگ کر رہی ہے۔کہ وہ اسے سال دو سال کی مہلت نہیں دے سکتی۔
کون سا کزن وہ جیسے چونکا تھا۔
حجج۔۔جہان سکندر وہ ہلکائی۔
اسے نہیں پتہ تھاکہ وہ ٹھیک کر رہی ہے یا غلط مگر وہ یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھی اسے اس پریشانی سے تھکتے بھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔
اچھا تو آپ چاہتی ہیں کہ میں آپ کے کزن کا یہ مسئلہ حل کردوں اور یہ کہ اس کی مالکہ اس کو پھر سے تنگ نہ کرے ۔
جی
میں کچھ کرتا ہوں آپ فکرنہ کریں ۔اس نے فون رکھ دیااور سوچنے لگی کہ وہ ہنسا کیوں تھا۔
وہ واپس آکر جہان کے ساتھ بیٹھ گی چیند لمحے لگے تھےاسے نارمل ہونے میں ۔اس نے وہی کیا جو اس کو ٹھیک لگاتھا۔اور اب وہ ذرا مطمئن ہوئی تھی۔
کافی دیر وہیں ستون کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی رہی۔اس کے عقب میں ٹاپ کپی کا عظیم محل تھااور سامنے مرمرا کا سمندر بہت لمحے محل کی دیواروں سے رینگتے مرمرا
کے پانیوں میں گھل گئے تو ایک دم جہان کا موبائل بجا۔
یہ جیسے ایک جھٹکے سے اٹھ بٹھا۔شال ہٹائی اور جیب سے موبائل نکلا۔تب تک کال کرنے والا شاید کال کٹ چکا تھا۔
ریسٹورینٹ سے آرہی کال میرا خیال ہے واپس چلتے ہیں وہ چالاک لومڑی نہ آئی ہو کہیں ۔وہ پرشانی سے کہتا اٹھ کھڑاہوا۔
سب ٹھیک ہو جائے گا تم کیوں فکر کرتے ہو۔وہ برے اطمینان سے کہتے ہوے اس کے ساتھ کھڑی ہوئی۔جہان نے اس کی بات پہ تھکے تھکےسے انداز میں نفی میں سر ہلا دیا تھا۔ کافی دیر بعد جب وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے استقلال اسٹریٹ میں داخل ہوے تو حیا نے کہا۔
آج میں تمہارا برگر کھا کر جاوں گئ کیونکہ ڈی جے اور تم نے اپنی اپنی بیماری میں مجھے باکل اگنور کر دیا ہے۔
کھا لینا۔وہ دھرے سے مسکرایا مگر اگلے ہی پل ٹھٹھک کر روکا۔مسکراہٹ چہرے سے غائب ہو گئی۔حیا نے اس کی نگاہوں کی تعاقب میں دیکھا ۔
سامنے برگر کنگ تھا۔اس کی شیشے کی دیوار میں بڑا سا سوراخ تھااور اس سوراخ کے گرد مکری کے جالے کی مانندداریں پڑی تھیں ۔
وہ ایک دم تیزی سے دوڑتا ریسٹورینٹ کی طرف لپکا جبکہ وہ وہیں ششدر سی کھڑی رہ گئی۔اس کی سماعتوں میں ایک قہقہ گونجا تھا۔
دوسرے ہی پل وہ بھاگ کر ریسٹورینٹ میں داخل ہوئی۔اندر کا منظر دیکھ کر اس کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔
کھڑکیوں کے ٹوٹے شیشے الٹا بکھرا ٹوٹا فرنیچر اوندھی میزیں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے برتن ہر جگہ تور پھوڑ کے آثار تھے۔عملے کے ایک شحخص کے ساتھ دو پویس والے کھڑے تھے۔ایک آفیسر ہاتھ میں پکڑے کلب بورڈپہ لگے کاغذ پر کچھ لکھ راہا تھا۔
جہان وہ سب کچھ دیکھتا ان پولیس آفیسر کی طرف آیا۔ وہ اس سے کچھ پوچھ رہے تھے اور وہ صدمے اور شاک سے گنگ نفی میں سر ہلاتا کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا۔
یہ سب کیا ہے۔اس نے قریب سے گزرتے شیف کو روک کر پوچھا ۔جوابا اس نے تاسف سے سر ہلا دیا۔
وہ گینگسٹرز تھے ان کے پاس اسلحہ تھا۔وہ اندر آے اور پورا ریسٹورینٹ الٹ دیا۔پولیس بھی بہت دیر سے پہنچی ۔وہ کہ کر آگے بڑھ گیااور اس کا دل چاہ رہا تہا وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردے یہ اس کیا کر دیا۔کس شحخص پہ بھروسہ کر لیااوہ خدایا۔
پولیس آفیسر کی کسی بات کے جواب میں کچھ کہتے جہان کی نگاہ اس پہ پڑی۔جو بمشکل آنسو روکے کھڑی تھی۔اس نے اسے ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا۔وہ وہیں کھڑی رہی وہ اس کی طرف آگیا۔
تم جاو ٹاقسم سے بس پکڑلینا ۔میں تم سے بعد میں بات کروں گا۔وہ تھکا سا کہا رہا تہا ۔اس کا چہرہ پہلے سے زیادہ پزمرہ اور تھکن ہو لگ رہا تھا۔وہ سر ہلا کر آنسو پیتی پلٹ گئی۔
یہ تم نے کیا کردیا حیا جو اس کے پاس تھا۔اسے بھی ضائع کر دیا آئی ہیٹ یو حیا۔۔آئی ہیٹ یو
خود کو ملامت کر وہ خاموس آنسوؤں سے روتی واپس ٹاقسم جارہی تھی۔ایک لمحے کو اس کا دل چاہا تھا کہ وہ فون کر کے اس شحخص کو بے نقط سنائے مگر شاید وہ یہی چاہیتا تھا۔رابط رکنھے کا کوئی بہنا۔نہیں اب وہ اسے کبھی فون نہیں کرے گی ۔
گہری نیند میں تھی۔سیاہ گھپ اندھرے میں جب دور ایک چہنتی ہوئی آواز نے سماعت کو چیرا۔
اندھرے میں د��ائی پری۔ دور سے آئی آواز قریب ہوتی گئی ۔اس نے پلکیں جدا کرنی چاہیں تو جیسے ان پہ بہت بوجھ تھا۔
بمشکل آنکھیں کھلیں تو چند لمحے اسے حواس بحال کرنے میں لگے۔اس نے ارد گرد دیکھا۔ڈروم میں پر سکون سی نیم تاریکی چھائی تھی۔
کونے میں مدھم سا نائٹ بلب جل رہا تھا۔ڈی جے ٹالی اور چیری اپنے اپنے بستروں میں کمبل ڈالے سو رہی تھی ۔دیوار پہ آویزاں بتاے کلاک کی چمکتی سوایاں رات کے ایک بجنے کا بتا رہی تھیں ۔
وہ چنگھاڑتی آواز ابھی تک آرہی تھی۔اس نے نیندسے بوجھل ہوتا سر دائیں طرف گمایا۔کہنئ کے بل زرا اپر ہوئی اور تکیے تلے ہاتھ ڈال کر موبائل نکالا۔ اس کا پاکستان والا موبائل بج بج کر اسی پل خاموش ہوا تھا۔دو مسید کال اس نے تفصیل کھولی تو چمکتی سکرین سے آنکھیں پل بھر کو چندھیائیں ۔اس نے پلکیں سیکڑے ہاتھ سے بال پچھلے ہٹاتے ہوئے اسکرین کو دیکھا۔تایا فرقان موبائل ساتھ بریکٹ میں دو کا ہندسہ تھا۔حیا نے اسکرین کے کونے پہ لکھے ٹایم کو دیکھا۔یہاں ایک بجا تھا۔پاکستان میں تین بجے ہوں گے۔
آدھی رات کو آنے والا فون اور مہمان کبھی آچھی خبر نہیں لاتے اور نہ ریسیو کر سکنے والی کال اس برچھی کی مانند ہوتی ہےجو کوئی گھونپ کر نکال نہ بھول گیا ہو۔
اس کی ساری نیند اور سستی پل بھر میں بھاگ گئی۔تایا اس وقت کیوں کال کر رہے تھے۔وہ ٹھیک تو تھے۔اماں ابا راحیل سب ٹھیک تو تھے۔پتا نہیں کیا مسئلہ تھا۔وہ تڑپ کر واپس کال ملانے لگی تھی۔پھر یاد آیا کہاس فون میں تو ترکی آنے کے بعد بیلینس ہی نہیں ڈالویاتھا۔ اور ترک موبائل جو تکیے کے اس طرف راکھا تھا۔اس میں بھی بیلینس خاتم تھا۔
اس نے کمبل پھنکا اور سیڑھیاں پھلانگ کر نیچے اتری۔وہ اپنے نائٹ سوٹ میں ملبوس تھی۔گلابی چیک والا ٹروزاراود کھلا لمبا کرتا ڈی جے ڈی جے موبائل دو اپنا۔اس نے ڈی جے کے بینک پہ چرھ کر اس کو جھنجھورا ۔وہ بمشکل ہلی۔
نیند مت خراب کرو میری سیدھی جہنم میں جاو گی تم۔ڈی جے نے بند آنکھوں سے بڑبڑاتے ہوئے کروٹ بدلی۔
اس کا موبائل وہیں تکیے ساتھ رکھا تھا۔ حیا نے موبائل جھبٹا اور نیچے اتری۔ ٹالی کے بینک کی کرسی کھینچ کر بیٹھی اور اپنے موبائل سے تایا کا نمبر دیکھ کر ڈی جے کے فون پہ ملانے لگی ۔فون نمبر حیا سیلمان کو کبھی زبانی یاد نہیں رہے تھے ۔
نمبر ملا کر اس نے فون کان سے لگایا۔لمحے پھرکی خاموشی کے بعد وہ نسوانی آواز ترکی میں کچھ بکنے لگی۔
جس کا مطلب یہ تھا۔کہ ڈی جے ذلیل کا بیلینس بھی ختم تھا۔اس نے جھلجھلا کر فون کان سے ہٹایا۔یورپی یوعین کا سارا سکالر شپ استقلال اسٹریٹ اور جواہر میں شاپنگ پہ اڑا دینے والیوں کے ساتھ یہ ہی ہونا چاہیے تھا۔
اسی پل فون پھر سے بجا۔تایا فرقان کالینگ اس نے جھٹ سے کال اٹھائی۔
ہیلو
حیا تمہارے پاس اس نمبر کے علاوہ کون سا دوسرا نمبر ہے۔وہ تایا فرقان ہی تھے۔اور اتنے غصے سے بولے تھے کہ وہ کانپ گئی۔
جی کیا
حیا میرے ساتھ بکواس مت کرو مجھے بتو تمہارے پاس دوسرا کوئی نمبر ہے۔وہ نیند سے جاگی تھی اور کبھی اتنی حاضر دماغ نہیں رہی تھی۔مگر ساری بات سمجنے میں اسے لمحہ نہ لگا۔
ارم پکڑی گئی تھی۔
نہیں تایا ابو میرے پاس یہی ایک نمبر ہے اور دوسرا ترکی کا ہے۔
تمہارے پاس موبی لنک کا کوئی نمبر نہیں ہے۔
نہیں تایا ابا آپ بے شک آپ ابا سے پوچھ لیں۔یہ نمبر ان ہی کے نام ہے۔اور میں نے دوسرا نمبر رکھ کر کیا کرنا ہے۔
اچھا ٹھیک ہے۔انہوں نے کھٹ سے فون بند کر دیا۔ اس نے گہری سانس لے کر موبائل کان سے ہٹایا اور دوسرے ہاتھ سے چہرے پہ آے بال سمیٹ کر پیچھے کیے۔
تو ارم فرقان اصغری پکڑی گئی تھی۔
جاری هے
from Blogger http://bit.ly/2UFnKJZ
via
0 notes