#ہندوستان اور فرقہ وارانہ فساد
Explore tagged Tumblr posts
Text
ادب سلسلہ، شمارہ ۲، حصہ سوم: ہندوستان اور فرقہ وارانہ فساد ۔۔۔ مدیر اعزازی: تبسم فاطمہ
ادب سلسلہ، شمارہ ۲، حصہ سوم: ہندوستان اور فرقہ وارانہ فساد ۔۔۔ مدیر اعزازی: تبسم فاطمہ
ادب سلسلہ
اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ کتابی سلسلہ (۲) جلد :۱ جنوری تا مارچ۲۰۱۶ شمارہ: ۲
حصہ سوم مدیر محمد سلیم (علیگ) مدیر اعزازی تبسم فاطمہ
مجلس مشاورت: پروفیسر اصغر علی انصاری، سہیل انجم، ساحر داؤد نگری، محمد عمران، حشمت اللہ عادل، یوسف رانا، مظہر عالم، ڈاکٹر تنویر فریدی، ڈاکٹر مشتاق خان، ڈاکٹر شمس العارفین، اخلاق احمد، نسیم اللہ خاں ، زوبینہ سلیم
E-mail:…
View On WordPress
#ادب سلسلہ#ادب سلسلہ، شمارہ ۲#ادب سلسلہ، شمارہ ۲، حصہ سوم: ہندوستان اور فرقہ وارانہ فساد ۔۔۔ مدیر اعزازی: تبسم فاطمہ#تبسم فاطمہ#مدیر اعزازی: تبسم فاطمہ#ہندوستان اور فرقہ وارانہ فساد
0 notes
Text
یوگی آدتیہ ناتھ: یوپی نے بی جے پی حکومت کے دور میں ایک بھی فساد نہیں دیکھا: یوگی آدتیہ ناتھ
یوگی آدتیہ ناتھ: یوپی نے بی جے پی حکومت کے دور میں ایک بھی فساد نہیں دیکھا: یوگی آدتیہ ناتھ
وزیر اعلیٰ اتر پردیش یوگی آدتیہ ناتھ۔ اتوار کو کہا گیا کہ وہ ریاست جہاں پہلے فسادات کا رجحان تھا ، بی جے پی حکومت کے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں ایک بھی فساد نہیں ہوا۔
یوپی کے وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ پچھلے ساڑھے چار سالوں میں پورے ہندوستان میں ریاست کا تصور بدل گیا ہے۔
آدتیہ ناتھ حکومت کے ساڑھے چار سال مکمل ہونے کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔ بی جے پی اتر پردیش میں حکومت
میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: “یوپی جیسی ریاست میں ساڑھے چار سال کی مدت پوری کرنا سیکورٹی اور گڈ گورننس کے پیش نظر بہت اہم ہے۔ ملک میں ریاست کا تصور بدل گیا ہے۔ یہ وہی یوپی ہے جہاں فسادات پہلے ایک رجحان بن چکے تھے۔ لیکن پچھلے ساڑھے چار سالوں میں کوئی فساد نہیں ہوا۔ ”
“ہم نے مجرموں اور مافیا کے ساتھ سختی سے نمٹ لیا ہے قانون کے فریم ورک میں ان کی ذات ، جگہ اور مذہب سے قطع نظر۔ 1800 کروڑ روپے سے زائد سرکاری املاک پر قبضہ کیا گیا اور مجرموں کی غیر قانونی تجاوزات کو بھی مسمار کیا گیا۔”
چیف منسٹر نے یہ بھی بتایا کہ اتر پردیش ان کے دور میں ‘کاروبار میں آسانی’ کی قومی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔
“پچھلے ساڑھے چار میں ہم نے 42 لاکھ غریبوں کو مکان دیا ہے۔ کسی آفت کی صورت میں ہم متاثرین کو 24 گھنٹوں میں معاوضہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ریاست کے 4.5 لاکھ سے زائد نوجوانوں کو ایک شفاف نظام کے ذریعے سرکاری ملازمتیں دی گئیں۔
انہوں نے مزید کہا ، “اتر پردیش نے ملک اور دنیا کے سامنے ایودھیا اور کاشی میں دیپوتسو اور دیپ دیوالی کا اہتمام کر کے اپنی روایت پیش کی ہے۔ اپوزیشن نے کبھی بھی ان تہواروں کا اہتمام نہیں کیا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ ان پر فرقہ وارانہ لیبل لگایا جا سکتا ہے۔”
اتر پردیش میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات اگلے سال کے اوائل میں ہونے والے ہیں۔
. Source link
0 notes
Text
دہلی تشدد کے سلسلہ میں جامعہ طالب علم گرفتار
April 3, 2020 ہندوستان
نئی دہلی 2 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) دہلی پولیس نے شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے اور تشدد کی مبینہ سازش رچنے کے الزام میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک طالب علم کو گرفتار کیا ہے۔ میراں حیدر 35 سالہ جامعہ میں پی ا��چ ڈی کے طالب علم ہیں اور وہ آر جے ڈی یوتھ ونگ دہلی یونٹ کے صدر بھی ہیں۔ چہارشنبہ کے دن صبح 10 بجے میراں حیدر کو اسپیشل سیل کی پولیس نے لودھی کالونی آفس…
View On WordPress
0 notes
Text
خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے
واشنگٹن(پی آئی ڈی)ء ممبرآزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ،سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف چیئرمین صوفی پیس فورم انٹرنیشنل پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ آرپار کے کشمیریوں کے درمیان روابط کو کھولا جائے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے دہشتگردوں پر قابو پانے میں مد د ملی ’’پیغام پاکستان ‘‘ بیانیہ امن وآشتی، رواداری اور محبت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
دورہ امریکہ کے دوران وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں ممبرآزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ،سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ صوفیاء کرام نے معاشرے کے اندر پر امن بقا باہمی کے ذریعہ محبت ،امن ، بھائی چارے ، رواداری کے ساتھ جینے کی تعلیم دی، ان کی تعلیم کا تصور گناہوں سے نفرت لیکن گناہ گاروں سے پیار کرو ہے،دہشت گردی ایک گلوبل ایشو ہے۔ یہ بیماری اور فساد ہے انسانیت کے خلاف مہم جوئی ہے اسکے کوئی بھی اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے تمام پیر ، صوفی ،گدی نشین دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اورہم نے اتفاق و اتحاد سے اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے اتفاق و اتحاد میں ایسی طاقت رکھی ہے کہ آپ کوئی بھی مسئلہ آسانی سے حل کرسکتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پلان کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ایک خوبصور ت اور تاریخی تھا۔ اس پر عملدرآمد میں کمی کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن اس سے دہشت گردی پر قابو پانے میں بڑی حد تک مدد ملی ہے ۔ اس پلان کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں پیغام پاکستان ایک اچھا بیانیہ ہے۔ اس بیانیہ کا اعلامیہ صوفیاء کرام ، طالب علموں ، یونیورسٹریز کے فیکلٹی ممبرز نے مل کر تیار کیا ہے تاکہ دہشت گردی کو مسترد اور امن وآتشی کے قیام کو معاشرے میں یقینی بنایا جا سکے۔ ،16جنوری 2018کو صوفیا ء کرام ، یونیورسٹی اساتذہ اور صاحب رائے لوگوں نے پیغام پاکستان کی شکل ایسا قومی بیانیہ تیار کیا ہے جس کا مقصد معاشرے میں پرامن بقاء باہمی کے اصولوں کے تحت امن کو فروغ اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کو شکست دیناہے۔ معاشرے سے انتہا پسندی کے عملی خاتمے کے لیے اقدامات کے سوال پر پیر علی رضا بخاری نے بتایا کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں ہماری قوم ،فوج اوردیگر قومی اداروں نے بے مثال جانی ومالی قربانیاں دی ہیں ۔ 70ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں قومی سلامتی کے اداروں ،پولیس ،سکیورٹی اداروں اور سویلین شامل ہیں کوئی بھی بڑا مقصد قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جنگ میں تو قربانی دینالازم ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہا پسندی کے خاتمہ کے جاری جدوجہد میں پی�� رفت انتہائی مثبت ہے۔ علماء مشائخ میں اتفاق رائے ہے ۔ شروع میں ہمارے ڈیکلریشن پر دستخط کرنے والے علماء ،سکالر اور صوفیا کی تعداد 1800تھی جو بڑھ کر اب 5ہزار ہو چکی ہے۔بے جا فتوؤ ں کے اجراء کے ایشو پر سوال کے جواب میں پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے تحت ترتیب دیے گئے بیانیہ میں حق آزادی رائے کو شامل کیا گیا ہے ۔یہ بیانیہ 1973کے آئین کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ ۔اس میں انسانی حقوق ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن وآتشی کی بات کی گئی ہے۔اظہار آزادی رائے کی بات ہے اس سوچ کے پیچھے 73کا آئین ہے اور ہماری دین کی تعلیم ہے ۔انتہا پسندی اور دہشت گردی جہالت کا نام ہے۔ جب معاشرے میں تعلیم عام ہو گی تو کوئی بھی کسی کو کسی کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا۔ نئے تعلیمی نصاب کے حوالہ سے سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ مثبت کوششیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔لوگ رکاوٹیں بھی کھڑی کرتے ہیں۔ پیغام پاکستان کے اعلامیہ میں یہ شامل ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے خلاف تحقیری فتویٰ نہیں لگا سکتا۔ ہمیں بھلائی کی چیزوں پر توجہ دیکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری کمیونٹی مثبت کاموں کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہیے ،کشمیری عوام امن چاہتے ہیں۔ عالمی برادری نے حق خودارادیت دلانے کے حوالہ سے ان سے جو وعدے کیے ہیں کشمیری ان وعدوں کا ایفا چاہتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں ۔ان کا سوال ہے کہ دنیا کے دیگر ایشو تو حل ہو رہے ہیں مسئلہ کشمیر کیوں حل نہیں ہو رہا ۔مسئلہ کشمیر سیاسی کے ساتھ ساتھ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے۔ اس مسئلہ کے حل میں پاکستان کی طرف سے سیاسی سفارتی حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت برقرار رہنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے ۔ہماری تحریک ایک آئینی،قانونی اور انسانی تحریک ہے۔ اس تحریک کی کامیابی میں ہم پاکستان سمیت دنیا بھر سے حمایت چاہتے ہیں۔ علاقائی امن کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل ہندوستان اور پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔ دونوں ملکوں کو اس مسئلہ کے حل کے مذاکرات کی میز پر مل بیٹھنا چاہیے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں اس مسئلہ کا حل دونوں ملکوں کی نسلوں اور پشتوں کے مفاد میں بھی ہے۔ دونوں ملک اس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں ۔دونوں ملکوں کا مل بیٹھنا بہت ضروری ہے۔ آؤٹ آف باکس مسئلہ کشمیر کے حل کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ ہمارے پاس یقیناًاقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں لیکن ا س کے حوالہ بھی اس مسئلہ کے حل کے لیے راہیں نکل سکتی ہیں۔ اگر دونوں ملک مذاکرات کی میز پر بیٹھیں ۔ باہمی بات چیت سے مذاکرات کے بند راستے بھی کھل سکتے ہیں کوئی بھی چیزنا ممکن نہیں ہوتی میر ی گزارش ہے کہ پاکستان ، ہندوستان اور کشمیری قیادت کو مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنا ہوگا۔ یہ مسئلہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ پاک بھارت تجارتی و مذہبی روابط کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ’’ پیپل ٹو پیپل کنٹکٹ‘‘ رہنا چاہیے ۔تجارتی روابط ہونے چاہیے تاکہ اعتماد سازی ہو سکے مزید کراسنگ پوائنٹس سے کشمیریوں کو جموں وکشمیر کے درمیان کھچی لکیر کے آر پار آنے جانے کی آزادی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے وہ رشتہ داروں سے مل سکیں اس سے بھی چیزیں بہتر ہوتی ہیں۔ کشیدگی کم ہوتی ہے ۔اس سے بھی مسئلہ حل کی طرف جاتا ہے۔
خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے واشنگٹن(پی آئی ڈی)ء ممبرآزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ،سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف چیئرمین صوفی پیس فورم انٹرنیشنل پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ آرپار کے کشمیریوں کے درمیان روابط کو کھولا جائے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے دہشتگردوں پر قابو پانے میں مد د ملی ’’پیغام پاکستان ‘‘ بیانیہ امن وآشتی، رواداری اور محبت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ دورہ امریکہ کے دوران وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں ممبرآزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ،سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ صوفیاء کرام نے معاشرے کے اندر پر امن بقا باہمی کے ذریعہ محبت ،امن ، بھائی چارے ، رواداری کے ساتھ جینے کی تعلیم دی، ان کی تعلیم کا تصور گناہوں سے نفرت لیکن گناہ گاروں سے پیار کرو ہے،دہشت گردی ایک گلوبل ایشو ہے۔ یہ بیماری اور فساد ہے انسانیت کے خلاف مہم جوئی ہے اسکے کوئی بھی اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے تمام پیر ، صوفی ،گدی نشین دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اورہم نے اتفاق و اتحاد سے اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے اتفاق و اتحاد میں ایسی طاقت رکھی ہے کہ آپ کوئی بھی مسئلہ آسانی سے حل کرسکتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پلان کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ایک خوبصور ت اور تاریخی تھا۔ اس پر عملدرآمد میں کمی کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن اس سے دہشت گردی پر قابو پانے می�� بڑی حد تک مدد ملی ہے ۔ اس پلان کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں پیغام پاکستان ایک اچھا بیانیہ ہے۔ اس بیانیہ کا اعلامیہ صوفیاء کرام ، طالب علموں ، یونیورسٹریز کے فیکلٹی ممبرز نے مل کر تیار کیا ہے تاکہ دہشت گردی کو مسترد اور امن وآتشی کے قیام کو معاشرے میں یقینی بنایا جا سکے۔ ،16جنوری 2018کو صوفیا ء کرام ، یونیورسٹی اساتذہ اور صاحب رائے لوگوں نے پیغام پاکستان کی شکل ایسا قومی بیانیہ تیار کیا ہے جس کا مقصد معاشرے میں پرامن بقاء باہمی کے اصولوں کے تحت امن کو فروغ اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کو شکست دیناہے۔ معاشرے سے انتہا پسندی کے عملی خاتمے کے لیے اقدامات کے سوال پر پیر علی رضا بخاری نے بتایا کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں ہماری قوم ،فوج اوردیگر قومی اداروں نے بے مثال جانی ومالی قربانیاں دی ہیں ۔ 70ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں قومی سلامتی کے اداروں ،پولیس ،سکیورٹی اداروں اور سویلین شامل ہیں کوئی بھی بڑا مقصد قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جنگ میں تو قربانی دینالازم ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہا پسندی کے خاتمہ کے جاری جدوجہد میں پیش رفت انتہائی مثبت ہے۔ علماء مشائخ میں اتفاق رائے ہے ۔ شروع میں ہمارے ڈیکلریشن پر دستخط کرنے والے علماء ،سکالر اور صوفیا کی تعداد 1800تھی جو بڑھ کر اب 5ہزار ہو چکی ہے۔بے جا فتوؤ ں کے اجراء کے ایشو پر سوال کے جواب میں پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے تحت ترتیب دیے گئے بیانیہ میں حق آزادی رائے کو شامل کیا گیا ہے ۔یہ بیانیہ 1973کے آئین کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ ۔اس میں انسانی حقوق ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن وآتشی کی بات کی گئی ہے۔اظہار آزادی رائے کی بات ہے اس سوچ کے پیچھے 73کا آئین ہے اور ہماری دین کی تعلیم ہے ۔انتہا پسندی اور دہشت گردی جہالت کا نام ہے۔ جب معاشرے میں تعلیم عام ہو گی تو کوئی بھی کسی کو کسی کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا۔ نئے تعلیمی نصاب کے حوالہ سے سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ مثبت کوششیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔لوگ رکاوٹیں بھی کھڑی کرتے ہیں۔ پیغام پاکستان کے اعلامیہ میں یہ شامل ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے خلاف تحقیری فتویٰ نہیں لگا سکتا۔ ہمیں بھلائی کی چیزوں پر توجہ دیکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری کمیونٹی مثبت کاموں کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہیے ،کشمیری عوام امن چاہتے ہیں۔ عالمی برادری نے حق خودارادیت دلانے کے حوالہ سے ان سے جو وعدے کیے ہیں کشمیری ان وعدوں کا ایفا چاہتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں ۔ان کا سوال ہے کہ دنیا کے دیگر ایشو تو حل ہو رہے ہیں مسئلہ کشمیر کیوں حل نہیں ہو رہا ۔مسئلہ کشمیر سیاسی کے ساتھ ساتھ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے۔ اس مسئلہ کے حل میں پاکستان کی طرف سے سیاسی سفارتی حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت برقرار رہنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے ۔ہماری تحریک ایک آئینی،قانونی اور انسانی تحریک ہے۔ اس تحریک کی کامیابی میں ہم پاکستان سمیت دنیا بھر سے حمایت چاہتے ہیں۔ علاقائی امن کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل ہندوستان اور پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔ دونوں ملکوں کو اس مسئلہ کے حل کے مذاکرات کی میز پر مل بیٹھنا چاہیے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں اس مسئلہ کا حل دونوں ملکوں کی نسلوں اور پشتوں کے مفاد میں بھی ہے۔ دونوں ملک اس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں ۔دونوں ملکوں کا مل بیٹھنا بہت ضروری ہے۔ آؤٹ آف باکس مسئلہ کشمیر کے حل کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ ہمارے پاس یقیناًاقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں لیکن ا س کے حوالہ بھی اس مسئلہ کے حل کے لیے راہیں نکل سکتی ہیں۔ اگر دونوں ملک مذاکرات کی میز پر بیٹھیں ۔ باہمی بات چیت سے مذاکرات کے بند راستے بھی کھل سکتے ہیں کوئی بھی چیزنا ممکن نہیں ہوتی میر ی گزارش ہے کہ پاکستان ، ہندوستان اور کشمیری قیادت کو مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنا ہوگا۔ یہ مسئلہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ پاک بھارت تجارتی و مذہبی روابط کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ’’ پیپل ٹو پیپل کنٹکٹ‘‘ رہنا چاہیے ۔تجارتی روابط ہونے چاہیے تاکہ اعتماد سازی ہو سکے مزید کراسنگ پوائنٹس سے کشمیریوں کو جموں وکشمیر کے درمیان کھچی لکیر کے آر پار آنے جانے کی آزادی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے وہ رشتہ داروں سے مل سکیں اس سے بھی چیزیں بہتر ہوتی ہیں۔ کشیدگی کم ہوتی ہے ۔اس سے بھی مسئلہ حل کی طرف جاتا ہے۔
0 notes
Photo
کب تک بنے رہوگے مظلوم، کبھی تو سوچو مثبت اے مسلمانوں۔۔۔!!! بقلم ڈاکٹر عاطف سہیل صدیقی: دور حاضر کے مسلم مخالف ماحول اور مسلمانوں کے سامنے درپیش سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل کی وجہ سے ہر طرف سے مسلمانوں کو ایک ہی تعلیم دی جارہی ہے کہ مسلمان مظلوم ہے، ظلم کا مارا ہوا ہے، کمزور ہے، جاہل ہے، غریب ہے اور پوری دنیا میں کوئی اسکا پرسانے حال نہیں، اسکے دشمن متحد ہوکر اس پر حملہ ور ہیں، وغیرہ۔ اس قسم کی تعلیم اور صبح شام کے شور غوغے نے مسلمانوں اور بالخصوص مسلم نوجوانوں کے اندر ایک قسم کی نا امیدی اور مایوسی پیدا کردی ہے۔ اس ناامیدی اور مایوسی کو بڑھانے اور مسلمانوں کے متعلق منفی باتوں کی تشہیر میں جہاں بے لگام سوشل میڈیا کا اہم ترین کردار ہے وہیں نادان مسلمان نوجوان بھی بغیر سوچے سمجھے اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس پروپیگنڈے اور سوشل میڈیا پر نشر کیے جارہے اس قسم کے مواد کو مزید فروغ دے رہے ہیں اور اس ناامیدی اور مایوسی میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملت اسلامیہ ایک سخت دور سے گزر رہی ہے، مسلم دشمن عناصر متحد ہیں، اور مسلمانوں کے لیے دنیا بھر میں زندگی کو مفلوج کردینے کے لیے سازشیں رچی ہی نہیں جا رہی ہیں بلکہ ان پر عمل بھی کیا جا رہا ہے، اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ساٹھ کے قریب مسلم ممالک ہونے کے باوجود مسلمانوں کی بین الاقوامی اداروں اور خاص طور سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن ان تمام منفی حالات کے باوجود مسلمانوں کے لیے دل کی تسلی کا بھی بہت سامان موجود ہے، جسے ہم نے یکسر نظر انداز کیا ہوا ہے اور میڈیا بھی جان بوجھ کر مسلمانوں کی توجہ کبھی مسلمانوں سے جڑے مثبت پہلو کی طرف مائل نہیں ہونے دیتا ہے۔ غیر مسلموں کے کنٹرول والے الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمانوں میں مایوسی، کم ہمتی اور ناامیدی کو جتنا فروغ دیا جا سکے دیا جائے اور وہ اسمیں پوری طرح کامیاب بھی ہیں۔ سب سے پہلے ہندوستان سے شروعات کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر بھگوا دہشتگردی کو فروغ دینے والے ٹی وی چینلز پر ہم مسلمانوں سے متعلق بحث و مباحثوں سے دو چار ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان پر وہی کچھ گھسی پٹی قسم کی کہانی چلائی جا رہی ہیں، کبھی سچر کمیٹی کو لیکر، کبھی مسلمانوں میں تعلیم کے فق��ان کو لیکر ، کبھی مدارس کے منفی کردار کو لیکر، کبھی مسلم خواتین کی بازیابی کی مہم کو لیکر۔ ا��خر کار اس قسم کی بحثیں مسلمانوں میں کم ہمتی اور ناامیدی کو فروغ دیتی ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی ایمانداری اور وسعت ذہنی کے ساتھ ہندوستان میں اپنے مقام اور اپنی موجودہ حالات کا جائزہ لیا؟ افسوس شایدکبھی نہیں، ہم اپنے متعلق کیے جارہے منفی پروپیگنڈے سے اتنے متاثر ہو چکے ہیں کہ ہم نے اپنے لیے منفی سوچ اورمنفی چیزوں کو ہی اپنی تقدیر مان لیا ہے۔ لیکن حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ ذرا غور کیجیے ۱۹۴۷ کی وہ رات جب ہندوستان انگریزی استعمار سے آزاد ہوا اور ساتھ ساتھ ہی پاکستان کا وجود بھی اس دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ کیا تقسیم ہند کے فورا بعد کے نامساعد حالات اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق نہیں ہے؟ یاد کیجیے وہ سیاہ تاریخ جب تقسیم کے بعد لاکھوں مسلمانوں کے خون سے ہندوستان کی زمین سرخ ہو گئ تھی، پورا پنجاب مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا تھا، اور دیکھتے ہی دیکھتے خوش و خرم زندگی گزار رہے پنجاب اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بسے مسلمان برباد ہو گئے تھے۔ ہماری پڑھی لکھی اکثریت، ہمارے سیاسی اور مذہبی قائدین کی ایک بڑی جماعت ھجرت کر کے پاکستان چلی گئی تھی، مالدار مسلمان یا تو قتل کر دئے گیے تھے یا جان بچا کر لیکن اپنا سب کچھ لٹا کر پاکستان ہجرت کر گیے تھے۔ ۱۹۴۷ کے بعد پھر جو مسلمان ہندوستان میں بچا، وہ غریب تھا، تعلیم سے دور تھا، اور ہندوستان میں بچے اسکے قائدین بے حیثیت ہو چکے تھے۔ پھر مسلمان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔حکومتوں کی شہہ پر ہزاروں کی تعداد میں فرقہ وارانہ فساد کراکر مسلمانوں کو بری طرح سے کچل دینے کی پالیسی اختیار کی گئی، مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار سے محروم کر دیا گیا۔ ذرا تجزیہ کیجیے اس وقت کا جب مسلمان کا وجود ہی ہندوستان میں ناپید ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ مسلمان، مالی، تعلیمی طور سے خستہ حال تھا اور ۱۸۵۷ کے بعد ایک بار پھر ہندوستان میں اپنی تاریخ کے سب سے بدترین دور سے گزر رہا تھا۔ لیکن اس زندہ دل قوم نے ہار نہیں مانی۔ اپنے مذہب، اپنی مذہبی روایات اور اپنے مذہبی تشخص کو زندہ رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی، جب تعلیم کے مواقع سے اس قوم کو محروم کر دیا گیا تو ہمارے بے سروسامان مدارس میں ہمارے پچوں کو بوریوں پر بٹھا کر اور روکھی سوکھی کھلا کر وہ تعلیم دی گئی جس سے روزگار کا تو کوئی موقع پیدا نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن زندگی گزارنے کا سلیقہ اور اپنے حق کے لیے لڑنے اور اپنے وجود کو باقی رکھنے کا طریقہ سکھا یا جا رہا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں اور مستقل ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے ہماری ترقی کی ہر راہ کو مسدود کیا جا رہا تھا، ہم کارخانے اور دوکانیں بناتے تو فسادات میں ہندو فسطائی انہیں جلا کر راکھ کر دیتے، ہم پھر بھی ہمت نہ ہارتے، ہمارے علاقوں میں اسکول اور تعلیم کے دیگر ادارے کھولنے کے بجائے حکومت نے تھانے کھولے، شراب اور جوے کے بازاروں کو ہمارے علاقوں میں منظم انداز میں گرم کیا گیا تاکہ ہماری نوجوان نسل پوری طرح برباد ہو، لیکن پھر بھی ہم نے ہمت نہ ہاری، ہم لڑے، ہم نے اپنے بل پر اپنے مکاتب، مدارس، اسکول، کالجز اور ینیورسٹیاں قائم کیں۔ اور پھر ہم نے وہ کر دکھایا جو دنیا کی کوئی قوم نہ کر سکی، ہم نے ۱۰ ہزار سے زیادہ مدارس کی اپنے مال سے اعانت کر کے اپنے لاکھوں بچوں کو تعلیم دی، اور اس قوم کو اور ہندوستان میں اپنے مذہب کو زندہ ہی نہیں رکھا بلکہ اپنی علمی صلاحیتوں کا لوہا پوری دنیا میں منوایا۔ ۷۰ سال کے انتہائی کرب اور ظلم کے دور سے گزر کر آج آپ اپنی قوم کا تجزیہ کیجیے کہ ۱۹۴۷ میں ہم کہاں تھے اور آج ہم کہاں ہیں، یقن مانیے اگر ہماری جگہ کوئی اور قوم ہوتی تو اتنی ناانصافیوں، ظلم، بربریت، فسادات اور سازشوں کے بعد شاید ختم ہو چکی ہوتی، ہندوستان میں ہم نے آج جو کچھ پایا ہے اپنی محنت سے اور اپنی جدوجہد سے پایا ہے۔ ہم آخر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں ہر لمحہ ہمیں ختم کرنے کی سازشیں رچی گئیں اور ان پر عمل بھی کیا گیا، لیکن الحمدللہ ہم ختم نہیں ہوئے بلکہ اور مضبوط ہوئے ہیں۔ جو عنایات دلتوں پر کی گئیں اگر حکومت نے اسکا محض دس فیصد بھی مسلمانوں کو کے لیے کیا ہوتا تو آج شاید ہم اس ملک پر دوبارہ برسر اقتدار ہوتے، یہ ہی ہماری قوت ہے، یہ ہماری کمزوری نہیں ہے۔ لہذا مثبت سوچئے آپ نے جو پایا ہے اسکے بارے میں سوچیں گے تو آپکو کچھ کر گزرنے کے لیے فکری توانائی حاصل ہوگی۔ یہ نہ سوچئے کہ ہم اس ملک میں کمزور ہیں، بیشک ہم کمزور ہیں، اپنی تعداد کی بنیاد پر، لیکن فکر کی بنیاد پر ہم سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار پر پوری طرح قابض ہونے کے باوجود ۸۵ فیصد اکثریت ۱۵ فیصد اقلیت سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ صبح شام اسے سوائے مسلمان کے کوئی اور دکھائی نہیں دیتا، انکا میڈیا اور انکی تمام مشینری ہروقت آپکے خلاف پروپیگنڈے میں ملوث ہے، آخر اس کی کچھ تو وجہ ہے۔ وجہ صرف یہ ہی ہے کہ وہ آپ کی اس طاقت سے خوف زدہ ہیں جسے آپ خود بھلا چکے ہیں۔ آپکے ایمان کی طاقت جو آپکو برے سے برے اور انتہائی نامساعد حالات میں بھی زندہ رہنے اور اپنے وجود کو باقی رکھنے کی ہمت اور طاقت دیتی ہے۔ مالی طور پربھی آپ اتنے پسماندہ نہیں ہیں جتنا آپکے بارے میں شور مچایا جاتا ہے، آج ہندوستان کے ۵۵ ارب پتیوں میں ۵ مسلمان بھی ہیں جس کا تصور آپ آج سے ۵۰ سال پہلے کر بھی نہیں سکتے تھے۔ ۳ ہزار کروڑ روپئے کی سالانہ زکوۃ ادا کرنے والی قوم کیا مالی طور پر اتنی پسماندہ ہے؟ ۲۰۱۵ کے اعدادوشمار کے مطابق اس سال غیر ممالک میں مقیم ہندوستانیوں نے کل8.47 ارب امریکی ڈالرز بطور زر مبادلہ ہندوستان بھیجے، جس میں مسلمانوں کا حصہ 1.27 ارب ڈالرز تھا۔ کیا اتنی بڑی رقم بھیج کر ہندوستان کی اقتصادیات کو مضبوطی فراہم کرنے والی قوم بھی مالی طور پر اتنی پسماندہ ہے جتنا اسکے بارے میں شور مچایا جاتا ہے؟ ہمارے لیڈاران بھی سر سے سر ملا کر ہماری پسماندگی کا رونا روتے ہیں اور پوری قوم میں مایوسی پیدا کرتے ہیں۔ دس ہزار سے زیادہ مدارس کو اپنے ذاتی مال اور اپنی محنت کی کمائی سے چلانے والی قوم کیا فقر میں مبتلا ہے؟ کیا ہندوستان میں رفاہ عام کے کام آپ سے زیادہ کوئی اور قوم بھی کرتی ہے؟ کیا آپ نے کبھی کسی مسلمان کو بھوکھ اور قرض کے سبب خودکشی کرتے ہوئے سنا ہے؟ مسلمان کو تو یقینا نہیں سنا ہوگا، لیکن ہزاروں کی تعداد میں اس قوم کے لوگوں کے متعلق خود کشی کی خبریں ضرور سنی ہیں، جو دعوی کرتی ہے کہ اسکے پاس امبانی اور اڈانی جیسے مالدار موجود ہیں۔ کیا مال کی تنگی کے خوف سے آپنے سنا کہ کسی مسلمان نے اپنی بیٹی کو ماں کے پیٹ میں ہی قتل کر ڈالا۔ ہر گز نہیں! لیکن قوم غیر نے تو مرد و زن کا تناسب ہی بگاڑ ڈالا صرف اس خوف سے کہ وہ بیٹی کی پرورش اور اسکی شادی کے لیے پیسے کہاں سے لائیں گے؟ تو کیا آپ اس قوم سے زیادہ مالی طور پر محتاج اور مفلس ہیں؟ میرے بھائیوں فکر کرنا ایک اچھی بات ہے، لیکن فکر کے علاوہ بغیر تجزیہ کیے اپنے آپ کو اتنا کمزور مان لینا جتنا آپ ہیں نہیں، پوری طرح سے مہلک ہے، دشمن سے بغیر لڑے شکست تسلیم کر لینے کے مترادف ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ اتنا منفی نہ سوچیں کہ ناامیدی گھر کر جائے جو کفر کی علامت ہے، اپنی قوم کو وہ مقام دیں جو اسکا صحیح حق ہے۔ میں مانتا ہوں ہمارے اندر کمزوریاں ہیں، سخت ترین آزمائش کا دور جاری ہے، مشکلات بھی ہیں لیکن میں پھر یہی عرض کرونگا کہ نہ ہم اتنے پسماندہ ہیں جتنا بتایا جاتا ہے اور نہ اتنے کمزور ہیں جتنا دکھایا جاتا ہے۔ یہی صورت حال عالمی سطح پر ہے۔ عالمی سطح پر میں چندمثالیں دونگا۔ ترکی جہاں ۲۰ سال پہلے اسلام اور مسلمانوں کے لیے صورت حال ناگفتہ بہ تھی، آج اسی ترکی پر طیب اردگان جیسا مرد مجاہد اور اسلام کا سپہ سالار برسر اقتدار ہے، وہ ترکی جسکے استنبول شہر میں واقع آیا صوفیہ کی میناریں ۹۰ سال سے آذان کی آواز کے لیے ترس رہیں تھی، جب پچھلے سال اسکے سونے پڑے میناروں سے ۹۰ سال بعد فجر کی آذان نے فلک کو ہلاکر رکھ دیا تو پورا یوروپ ماتمکدہ بن گیا۔ وہ لندن جہاں سے اسلام کے خلاف ساری سازشیں رچی گئیں، صرف اس لیے یوروپین یونین سے باہر ہونے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگیا کہ پورے یوروپ سے برطانیہ میں آرہے مسلمانوں کے بوجھ کو برداشت کرنے کا یہ ملک اب متحمل نہیں رہا۔ فرانس، اسلام کی آبیاری اور اسکی بڑھتی مقبولیت سے اس قدر لرزہ براندام ہے کہ اسنے اسلامی ثقافت پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر لیا، پورا یوروپ جس نے اسلام کی مخالفت کو بنیاد بنا کر انسانی آزادی کا نعرہ بلند کیا تھا، جب اس خطے میں ہی اسلام آندھی بن کر پہنچا تو اپنی تمام کوششوں کے باوجود اسلام کی آندھی کو روکنے میں ناکام رہا تو انسانی آزادی اور سیکولرزم کی اپنی ہی بنائی ہوئی روایات کو ہی بھول بیٹھا اور اسلام کے خلاف پابندیاں لگانی شروع کردیں۔ کیا یہ انکی فتح اور آپکی شکست ہے؟ ہر گز نہیں! عالم کفر اسلام اور مسلمانوں سے ایک ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے۔ بس آپ اس جنگ میں انکے پروپیگنڈے کا شکار ہونے سے بچیں اور مایوسی اور ناامیدی کو اپنے پاس نہ آنے دیں۔ آپ دیکھیں گے کہ نتیجہ کتنا مختلف ہوگا۔ اللهم انصر اخواننا المستضعفين في دينهم في سائر الأوطان.
0 notes
Text
آزادی کے جنگجو یا فرقہ وارانہ فسادات: 1921 مالابار بغاوت کی کہانی میں موڑ۔
آزادی کے جنگجو یا فرقہ وارانہ فسادات: 1921 مالابار بغاوت کی کہانی میں موڑ۔
91 پر ، کاردان معیدین حاجی کی یادداشت تیز اور لاتعداد ہے۔ کیرالہ کے مالابار علاقے میں بنیادی طور پر مسلمان کسانوں کی بغاوت کے 10 سال بعد پیدا ہوئے ، وہ اپنے بچپن میں گھریلو غربت کو یاد کرتے ہیں۔ حاجی کہتے ہیں ، “1921 کی بغاوت برطانوی حکمرانوں اور ان کے قوانین کے خلاف تھی جس نے جاگیردار زمینداروں کو زمین کی مکمل ملکیت دی ، لیکن زرعی مزدوروں اور غریب کسانوں کی حالت بغاوت کے بعد بھی نہیں بدلی۔” اس نے 20 اگست 1921 کے واقعات پر اپنے والد کی یادداشت کا ایک اقتباس پڑھا۔
تحریک خلافت کا ایک رضاکار (1919-24)-خلافت عثمانیہ کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے ہندوستانی مسلمانوں کی ایک مہم ، جو انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں عدم تعاون کی تحریک کا حصہ بن گئی تھی-معین گرفتاری سے بچنے میں کامیاب رہے۔ اگلے دنوں میں ، اس نے اپنے آبائی شہر تیورنگادی اور ملپورم ، مانجری ، پرینتھلمنا ، پنڈک کڈ اور تیرور کے پڑوسی علاقوں کی سڑکوں پر خون کی ہولی دیکھی۔ 31 اگست کو ، پولیس نے خلافت تحریک کے ایک رہنما علی مسلیار کو گرفتار کرنے کے لیے ترنگاڈی میں واقع ممبرم مسجد پر چھاپہ مارا۔ حاجی کہتے ہیں کہ ان کے دادا مسجد میں تھے جہاں ایک بہت بڑا ہجوم جمع تھا۔ پولیس نے معین اور دیگر پر فائرنگ کی جنہوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ حاجی کا کہنا ہے کہ “میرے والد کے اکاؤنٹ کے مطابق ، میرے دادا نے ان کے سینے میں گولیاں لگائیں اور وہ شہید ہو گئے۔” مسلیار نے بعد میں ہتھیار ڈال دیئے اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔
جب تک بغاوت ختم ہوچکی تھی ، تقریبا 10،000 لوگ مارے جا چکے تھے اور تقریبا 45،000 جیل میں تھے۔ برطانوی نوآبادیاتی ریکارڈوں میں موپلہ بغاوت کے طور پر جانا جاتا ہے ، یا ملیالم میں میپیلا لہلا کے نام سے جانا جاتا ہے ، حاجی کے دادا جیسے اس کے مرکزی کرداروں کی شناخت اور سیاست اس بغاوت کی تاریخی تشریح کے متنازعہ علاقے کو پیش کرتی ہے۔ اگرچہ کچھ اسے سامراج مخالف تحریک اور زرعی بغاوت کہتے ہیں ، لیکن اس کی مذہبی جہت ہمیشہ زیادہ بحثوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اب ، 1921 کی بغاوت اپنے صد سالہ سال میں ایک طوفان کی نظر میں واپس آئی ہے ، انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (آئی سی ایچ آر) نے 387 شرکاء کے نام نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جنہوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ہ��دوستان کی آزادی کی جدوجہد کے شہداء کی لغت (1857-1947) ، بشمول وریامکوناتھ احمد حاجی ، جنہیں 20 جنوری 1922 کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا ، اور مسلیار ، جنہیں 17 فروری 1922 کو کوئمبٹور میں پھانسی دی گئی تھی۔
1921 فرقہ وارانہ فسادات نہیں تھا۔ میرے دادا سمیت باغی رہنماؤں نے زبردستی مذہب تبدیل کرنے ، لوٹ مار اور غیر مسلموں پر حملوں کی مخالفت کی۔
سی پی محمد مولوی ، علی مسلیار کے پوتے۔
آئی سی ایچ آر کی ذیلی کمیٹی کے ایک رکن سی آئی اسحاق کے مطابق ، جنہوں نے ناموں کو ہٹانے سے متعلق رپورٹ پیش کی ، ماپیلا بغاوت ایک “فرقہ وارانہ فساد” تھا اور باغی آزادی پسندوں کی فہرست میں شامل ہونے کے مستحق نہیں تھے۔ “مسلیار اور وریامکوناتھ دونوں متعصب تھے۔ ہم آزادی پسندوں میں فرقہ پرستوں اور جہادیوں کو کیسے شامل کر سکتے ہیں؟ باغی مالابار کے علاقے کے ہندوؤں کو اسلام میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔
ناموں کو حذف کرنے کے اقدام نے بہت سے حلقوں سے چشم پوشی کی ہے ، بشمول مورخین اور دیگر علماء جنہوں نے بغاوت پر وسیع تحقیق کی ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ بغاوت کی کئی پرتیں تھیں اور ان کا اندازہ عصری عینک سے نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم ، اسحاق کا کہنا ہے کہ بغاوت کی قیادت “جنونی مسلمانوں” نے کی اور اگر وہ کامیاب ہوتے تو مالابار ایک اور پاکستان بن جاتا۔ “باغیوں نے شرعی عدالتیں قائم کیں اور معاشرے کے نچلے طبقے کے ہندوؤں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انکار کرنے والوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ ان کی لاشیں کنویں میں پھینک دی گئیں۔ میں نے عدالت کے ریکارڈ میں آرکائیو مواد اور شواہد کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی۔
مورخ اور سابق آئی سی ایچ آر چیئرمین ایم جی ایس نارائنن اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ 1921 کی بغاوت کو ‘فرقہ وارانہ فساد’ نہیں کہا جا سکتا ، حالانکہ اس کا فرقہ وارانہ زاویہ تھا۔ مذہبی زاویہ کے باوجود یہ سامراجی حکومت کے خلاف تھا۔ چونکہ اعلیٰ طبقے کے ہندوؤں نے انگریزوں کی حمایت کی تھی ، لیڈروں کا غصہ ہندوؤں پر بھی تھا۔
غیر متوقع طور پر نہیں ، قطار نے بی جے پی ، سی پی آئی (ایم) اور انڈین یونین مسلم لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ سیاسی اثرات حاصل کیے ہیں۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر رام مادھو نے بغاوت کو “بھارت میں طالبان کی ذہنیت کا پہلا مظہر” قرار دیا۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ماپیلا باغی 1975 میں کیرالہ حکومت کی طرف سے شائع ہونے والے آزادی کے جنگجوؤں کی ڈائرکٹری میں شامل نہیں تھے (اس کے چار سال بعد جب وہ انہیں آزادی پسندوں کے طور پر تسلیم کرچکے تھے) ، وزارت خارجہ کے خارجی امور وی مرلیدھرن کہتے ہیں ، “اگر کیرالہ حکومت نہیں باغیوں کو آزادی کے جنگجو تسلیم کرتے ہیں ، وہ آئی سی ایچ آر سے ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ آزادی کی جدوجہد انگریزوں کے خلاف تھی ، لیکن 1921 میں جو کچھ ہوا وہ نسل کشی تھی۔ انہوں نے غریب ، بے بس ہندوؤں کو قتل کیا۔ مرلیدھرن کے مطابق یہ سب خلافت کے بارے میں تھا اور اس کا ہندوستان کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس داستان کا اس کا جواب ہے۔ مسلیار کے 75 سالہ پوتے سی پی محمد مولوی کا کہنا ہے کہ ان کے دادا نوآبادیاتی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے سعودی عرب سے واپس آئے اور ہندوؤں کو نقصان پہنچانے کے خلاف سختی سے وکالت کی۔ سیاسی فائدہ کے لیے تاریخ کو مسخ نہیں کیا جانا چاہیے۔ 1921 فرقہ وارانہ فسادات نہیں تھا۔ کے پی کیسوا مینن جیسے کانگریسی لیڈر باغیوں میں شامل کیوں ہوتے اگر وہ متعصب ہوتے؟ وہ پوچھتا ہے میری والدہ مرحومہ آمنہ اور دادی پاتھوما میرے دادا کے بارے میں پیاری یادیں شیئر کرتی تھیں۔ وہ ایک نظم و ضبط کا آدمی تھا۔ اس نے اپنی بیوی اور بیٹی کو ملک کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
“باغیوں نے شرعی عدالتیں قائم کیں اور معاشرے کے نچلے طبقے کے ہندوؤں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انکار کرنے والوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔
CI Issac ، ممبر ، انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ۔
زرعی جڑیں
‘مالابار بغاوت’ پر بڑے پیمانے پر لکھتے ہوئے ، مورخ کے این پانیکر نے معاشی اور مذہبی عوامل کے باہمی تعامل پر روشنی ڈالی ہے جس نے اس میں حصہ لیا۔ کیرالہ کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ کے ایگزیکٹو کونسل ممبر پی پی عبدالرزاق کے مطابق ، بغاوت کی اصل کو 19 ویں صدی کی کرایہ داری کی تحریکوں میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ، جو زرعی پریشانی کے تناظر سے ابھری ہے۔ رزاق کہتے ہیں ، “انگریزوں نے 1892 میں مالابار پر قبضہ کرنے کے بعد روایتی زراعت کے نظام میں بڑی ساختی تبدیلیاں لائیں۔” نئے قوانین نے بنیادی طور پر مراعات یافتہ ذات کے ہندو زمینداروں کو زمین کی قانونی ملکیت دی ، جس سے مسلم کرایہ داروں اور مزدوروں کو ان کے روایتی حقوق سے محروم کیا گیا۔ “نئے قوانین نے کرایہ داروں کو ایک غیر یقینی صورتحال اور غربت کو ختم کردیا۔ انتہائی استحصال کی وجہ سے ، کرایہ دار اپنے آقاؤں کے خلاف ہوگئے ، جس کی وجہ سے دیہی بغاوتیں ہوئیں۔ 19 ویں صدی میں 32 ایسی بغاوتیں ہوئیں اور یہ عمل 1921 کی میپیلا بغاوت میں اختتام پذیر ہو��۔
تاہم ، 1920 کی دہائی تک ، تحریک کے کردار میں دیگر اہم سیاسی پیش رفتوں کے ساتھ تبدیلی آچکی ہے جو بغاوت میں معاون ہے۔ زرعی پریشانی کے ساتھ ، تحریک خلافت اور عدم تعاون کی تحریک نے بغاوت میں طاقت اور مزید تہوں کا اضافہ کیا ، جس سے انگریزوں کو کئی ماہ لگے۔ مالابار سپیشل پولیس کا قیام بغاوت کو کچلنے کے لیے کیا گیا تھا۔ بغاوت کے نتائج پر تحقیق کرنے والے ایک مورخ سری ویدھیا وٹرمباتھ کا کہنا ہے کہ “انگریزوں کے ��ھاری ہاتھوں کے نقطہ نظر پر بہت کم ریکارڈ موجود ہیں ، جس میں مارشل لاء لگانا شامل تھا۔” یہاں تک کہ ‘ویگن سانحہ’ (67 افراد جیل میں لے جانے کے دوران بند ریلوے سامان ویگن میں دم گھٹنے سے مر گئے) کو زیادہ نمایاں نہیں کیا گیا ہے۔
آزادی کی جدوجہد انگریزوں کے خلاف تھی ، لیکن 1921 میں جو ہوا وہ نسل کشی تھی۔ انہوں نے غریب ، بے بس ہندوؤں کو قتل کیا۔
V. Muraleedharan ، MoS ، خارجہ امور
مذہبی کنارہ
بغاوت کا مذہبی کردار اور اس کی مرکزی شخصیات ہمیشہ بحث کا موضوع رہی ہیں۔ جب کہ وہاں جبری مذہب تبدیل کرنے ، گائے کے قتل ، مندروں کی بے حرمتی اور باغی رہنماؤں کے دیگر مظالم کے ریکارڈ موجود ہیں ، علماء کا کہنا ہے کہ وریامکناتھ کے قتل اور مسلیار کی گرفتاری کے بعد بغاوت کا رخ بدل گیا۔ سری ویدھیا کے مطابق ، انحراف کے پابند تھے کیونکہ باغیوں کے پاس منظم ڈھانچے کا فقدان تھا۔ وہ بغاوت کو دو مراحل میں تقسیم کرتی ہیں – پہلا وریامکناتھ جیسے رہنماؤں کے تحت ، اور دوسرا جہاں نظم و ضبط بڑی حد تک غائب تھا۔ در حقیقت ، مہاتما گاندھی اور دیگر قومی رہنماؤں نے بعد کے مرحلے کے تشدد کی مذمت کی اور خود کو اس سے دور کیا۔ مسلیار جیسے رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد قیادت میں ایک خلا پیدا ہوا۔ بغاوت کی کوئی منظم شکل نہیں تھی۔ کانگریس کو بھی الزام لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ہنگاموں کی کثیرالجہتی پیچیدہ نوعیت کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔
سری سنکراچاریہ یونیورسٹی آف سنسکرت میں ملیالم ادب کے پروفیسر سنیل پی الیاڈوم کے مطابق بغاوت تین جہتی تھی۔ “یہ ایک مذہبی نظریے سے متاثر تھا ، لیکن سامراج مخالف جدوجہد اور زرعی بحران سے پیدا ہوا تھا۔ یہ تینوں جہتیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں۔ مذہب کو موپلہ باغیوں نے انگریزوں کے خلاف مضبوط بنانے کے لیے بطور آلہ استعمال کیا۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہاں حدود اور مسائل تھے۔
مورخ پانیکر اور ایم گنگادھرن کا حوالہ دیتے ہوئے ، مولوی کا کہنا ہے کہ میپلا لیڈر ، بشمول ان کے دادا مسلیار اور وریامکوناتھ ، جبری تبدیلیوں ، لوٹ مار اور غیر مسلموں پر حملوں کی مخالفت کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ، “کچھ بدمعاش عناصر نے ایک موقع پر بغاوت کا غلط استعمال کیا ، لیکن مسلیار نے ایسے شرپسندوں کو کبھی نہیں بخشا۔” سری ویدھیا نے مزید کہا کہ “مظلوموں کی طرف سے” ریکارڈ کی کمی تاریخ کو “غیر منصفانہ کھیل” میں بدل دیتی ہے۔
(یہ پرنٹ ایڈیشن میں “سبالٹرین باغی یا فرقہ وارانہ فسادیوں کے طور پر شائع ہوا؟”)
!function(f,b,e,v,n,t,s) if(f.fbq)return;n=f.fbq=function()n.callMethod? n.callMethod.apply(n,arguments):n.queue.push(arguments); if(!f._fbq)f._fbq=n;n.push=n;n.loaded=!0;n.version='2.0'; n.queue=[];t=b.createElement(e);t.async=!0; t.src=v;s=b.getElementsByTagName(e)[0]; s.parentNode.insertBefore(t,s)(window,document,'script', 'https://connect.facebook.net/en_US/fbevents.js'); fbq('init', '313024939117457'); fbq('track', 'PageView'); . Source link
0 notes