#ہندوستان اور فرقہ وارانہ فساد
Explore tagged Tumblr posts
bazmeur · 8 years ago
Text
ادب سلسلہ، شمارہ ۲، حصہ سوم: ہندوستان اور فرقہ وارانہ فساد ۔۔۔ مدیر اعزازی: تبسم فاطمہ
ادب سلسلہ، شمارہ ۲، حصہ سوم: ہندوستان اور فرقہ وارانہ فساد ۔۔۔ مدیر اعزازی: تبسم فاطمہ
  ادب سلسلہ
  اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ کتابی سلسلہ (۲) جلد :۱       جنوری تا مارچ۲۰۱۶       شمارہ: ۲
  حصہ سوم مدیر محمد سلیم (علیگ) مدیر اعزازی تبسم فاطمہ
  مجلس مشاورت: پروفیسر اصغر علی انصاری، سہیل انجم، ساحر داؤد نگری، محمد عمران، حشمت اللہ عادل، یوسف رانا، مظہر عالم،   ڈاکٹر تنویر فریدی، ڈاکٹر مشتاق خان، ڈاکٹر شمس العارفین، اخلاق احمد، نسیم اللہ خاں ، زوبینہ سلیم
E-mail:…
View On WordPress
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
یوگی آدتیہ ناتھ: یوپی نے بی جے پی حکومت کے دور میں ایک بھی فساد نہیں دیکھا: یوگی آدتیہ ناتھ
یوگی آدتیہ ناتھ: یوپی نے بی جے پی حکومت کے دور میں ایک بھی فساد نہیں دیکھا: یوگی آدتیہ ناتھ
وزیر اعلیٰ ا��ر پردیش یوگی آدتیہ ناتھ۔ اتوار کو کہا گیا کہ وہ ریاست ��ہاں پہلے فسادات کا رجحان تھا ، بی جے پی حکومت کے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں ایک بھی فساد نہیں ہوا۔
یوپی کے وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ پچھلے ساڑھے چار سالوں میں پورے ہندوستان میں ریاست کا تصور بدل گیا ہے۔
آدتیہ ناتھ حکومت کے ساڑھے چار سال مکمل ہونے کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔ بی جے پی اتر پردیش میں حکومت
میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: “یوپی جیسی ریاست میں ساڑھے چار سال کی مدت پوری کرنا سیکورٹی اور گڈ گورننس کے پیش نظر بہت اہم ہے۔ ملک میں ریاست کا تصور بدل گیا ہے۔ یہ وہی یوپی ہے جہاں فسادات پہلے ایک رجحان بن چکے تھے۔ لیکن پچھلے ساڑھے چار سالوں میں کوئی فساد نہیں ہوا۔ ”
“ہم نے مجرموں اور مافیا کے ساتھ سختی سے نمٹ لیا ہے قانون کے فریم ورک میں ان کی ذات ، جگہ اور مذہب سے قطع نظر۔ 1800 کروڑ روپے سے زائد سرکاری املاک پر قبضہ کیا گیا اور مجرموں کی غیر قانونی تجاوزات کو بھی مسمار کیا گیا۔”
چیف منسٹر نے یہ بھی بتایا کہ اتر پردیش ان کے دور میں ‘کاروبار میں آسانی’ کی قومی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔
“پچھلے ساڑھے چار میں ہم نے 42 لاکھ غریبوں کو مکان دیا ہے۔ کسی آفت کی صورت میں ہم متاثرین کو 24 گھنٹوں میں معاوضہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ریاست کے 4.5 لاکھ سے زائد نوجوانوں کو ایک شفاف نظام کے ذریعے سرکاری ملازمتیں دی گئیں۔
انہوں نے مزید کہا ، “اتر پردیش نے ملک اور دنیا کے سامنے ایودھیا اور کاشی میں دیپوتسو اور دیپ دیوالی کا اہتمام کر کے اپنی روایت پیش کی ہے۔ اپوزیشن نے کبھی بھی ان تہواروں کا اہتمام نہیں کیا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ ان پر فرقہ وارانہ لیبل لگایا جا سکتا ہے۔”
اتر پردیش میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات اگلے سال کے اوائل میں ہونے والے ہیں۔
. Source link
0 notes
getlifehealthy · 5 years ago
Text
دہلی تشدد کے سلسلہ میں جامعہ طالب علم گرفتار
April 3, 2020 ہندوستان
نئی دہلی 2 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) دہلی پولیس نے شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے اور تشدد کی مبینہ سازش رچنے کے الزام میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک طالب علم کو گرفتار کیا ہے۔ میراں حیدر 35 سالہ جامعہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں اور وہ آر جے ڈی یوتھ ونگ دہلی یونٹ کے صدر بھی ہیں۔ چہارشنبہ کے دن صبح 10 بجے میراں حیدر کو اسپیشل سیل کی پولیس نے لودھی کالونی آفس…
View On WordPress
0 notes
dhanaklondon · 6 years ago
Text
خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے
واشنگٹن(پی آئی ڈی)ء ممبرآزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ،سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف چیئرمین صوفی پیس فورم انٹرنیشنل پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ آرپار کے کشمیریوں کے درمیان روابط کو کھولا جائے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے دہشتگردوں پر قابو پانے میں مد د ملی ’’پیغام پاکستان ‘‘ بیانیہ امن وآشتی، رواداری اور محبت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
دورہ امریکہ کے دوران وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں ممبرآزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ،سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ صوفیاء کرام نے معاشرے کے اندر پر امن بقا باہمی کے ذریعہ محبت ،امن ، بھائی چارے ، رواداری کے ساتھ جینے کی تعلیم دی، ان کی تعلیم کا تصور گناہوں سے نفرت لیکن گناہ گاروں سے پیار کرو ہے،دہشت گردی ایک گلوبل ایشو ہے۔ یہ بیماری اور فساد ہے انسانیت کے خلاف مہم جوئی ہے اسکے کوئی بھی اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے تمام پیر ، صوفی ،گدی نشین دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اورہم نے اتفاق و اتحاد سے اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے اتفاق و اتحاد میں ایسی طاقت رکھی ہے کہ آپ کوئی بھی مسئلہ آسانی سے حل کرسکتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پلان کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ایک خوبصور ت اور تاریخی تھا۔ اس پر عملدرآمد میں کمی کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن اس سے دہشت گردی پر قابو پانے میں بڑی حد تک مدد ملی ہے ۔ اس پلان کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں پیغام پاکستان ایک اچھا بیانیہ ہے۔ اس بیانیہ کا اعلامیہ صوفیاء کرام ، طالب علموں ، یونیورسٹریز کے فیکلٹی ممبرز نے مل کر تیار کیا ہے تاکہ دہشت گردی کو مسترد اور امن وآتشی کے قیام کو معاشرے میں یقینی بنایا جا سکے۔ ،16جنوری 2018کو صوفیا ء کرام ، یونیورسٹی اساتذہ اور صاحب رائے لوگوں نے پیغام پاکستان کی شکل ایسا قومی بیانیہ تیار کیا ہے جس کا مقصد معاشرے میں پرامن بقاء باہمی کے اصولوں کے تحت امن کو فروغ اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کو شکست دیناہے۔ معاشرے سے انتہا پسندی کے عملی خاتمے کے لیے اقدامات کے سوال پر پیر علی رضا بخاری نے بتایا کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں ہماری قوم ،فوج اوردیگر قومی اداروں نے بے مثال جانی ومالی قربانیاں دی ہیں ۔ 70ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں قومی سلامتی کے اداروں ،پولیس ،سکیورٹی اداروں اور سویلین شامل ہیں کوئی بھی بڑا مقصد قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جنگ میں تو قربانی دینالازم ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہا پسندی کے خاتمہ کے جاری جدوجہد میں پیش رفت انتہائی مثبت ہے۔ علماء مشائخ میں اتفاق رائے ہے ۔ شروع میں ہمارے ڈیکلریشن پر دستخط کرنے والے علماء ،سکالر اور صوفیا کی تعداد 1800تھی جو بڑھ کر اب 5ہزار ہو چکی ہے۔بے جا فتوؤ ں کے اجراء کے ایشو پر سوال کے جواب میں پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے تحت ترتیب دیے گئے بیانیہ میں حق آزادی رائے کو شامل کیا گیا ہے ۔یہ بیانیہ 1973کے آئین کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ ۔اس میں انسانی حقوق ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن وآتشی کی بات کی گئی ہے۔اظہار آزادی رائے کی بات ہے اس سوچ کے پیچھے 73کا آئین ہے اور ہماری دین کی تعلیم ہے ۔انتہا پسندی اور دہشت گردی جہالت کا نام ہے۔ جب معاشرے میں تعلیم عام ہو گی تو کوئی بھی کسی کو کسی کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا۔ نئے تعلیمی نصاب کے حوالہ سے سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ مثبت کوششیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔لوگ رکاوٹیں بھی کھڑی کرتے ہیں۔ پیغام پاکستان کے اعلامیہ میں یہ شامل ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے خلاف تحقیری فتویٰ نہیں لگا سکتا۔ ہمیں بھلائی کی چیزوں پر توجہ دیکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری کمیونٹی مثبت کاموں کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہیے ،کشمیری عوام امن چاہتے ہیں۔ عالمی برادری نے حق خودارادیت دلانے کے حوالہ سے ان سے جو وعدے کیے ہیں کشمیری ان وعدوں کا ایفا چاہتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں ۔ان کا سوال ہے کہ دنیا کے دیگر ایشو تو حل ہو رہے ہیں مسئلہ کشمیر کیوں حل نہیں ہو رہا ۔مسئلہ کشمیر سیاسی کے ساتھ ساتھ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے۔ اس مسئلہ کے حل میں پاکستان کی طرف سے سیاسی سفارتی حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت برقرار رہنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے ۔ہماری تحریک ایک آئینی،قانونی اور انسانی تحریک ہے۔ اس تحریک کی کامیابی میں ہم پاکستان سمیت دنیا بھر سے حمایت چاہتے ہیں۔ علاقائی امن کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل ہندوستان اور پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔ دونوں ملکوں کو اس مسئلہ کے حل کے مذاکرات کی میز پر مل بیٹھنا چاہیے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں اس مسئلہ کا حل دونوں ملکوں کی نسلوں اور پشتوں کے مفاد میں بھی ہے۔ دونوں ملک اس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں ۔دونوں ملکوں کا مل بیٹھنا بہت ضروری ہے۔ آؤٹ آف باکس مسئلہ کشمیر کے حل کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ ہمارے پاس یقیناًاقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں لیکن ا س کے حوالہ بھی اس مسئلہ کے حل کے لیے راہیں نکل سکتی ہیں۔ اگر دونوں ملک مذاکرات کی میز پر بیٹھیں ۔ باہمی بات چیت سے مذاکرات کے بند راستے بھی کھل سکتے ہیں کوئی بھی چیزنا ممکن نہیں ہوتی میر ی گزارش ہے کہ پاکستان ، ہندوستان اور کشمیری قیادت کو مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنا ہوگا۔ یہ مسئلہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ پاک بھارت تجارتی و مذہبی روابط کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ’’ پیپل ٹو پیپل کنٹکٹ‘‘ رہنا چاہیے ۔تجارتی روابط ہونے چاہیے تاکہ اعتماد سازی ہو سکے مزید کراسنگ پوائنٹس سے کشمیریوں کو جموں وکشمیر کے درمیان کھچی لکیر کے آر پار آنے جانے کی آزادی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے وہ رشتہ داروں سے مل سکیں اس سے بھی چیزیں بہتر ہوتی ہیں۔ کشیدگی کم ہوتی ہے ۔اس سے بھی مسئلہ حل کی طرف جاتا ہے۔
خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے واشنگٹن(پی آئی ڈی)ء ممبرآزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ،سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف چیئرمین صوفی پیس فورم انٹرنیشنل پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ خطہ اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان پائیدار امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ آرپار کے کشمیریوں کے درمیان روابط کو کھولا جائے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے دہشتگردوں پر قابو پانے میں مد د ملی ’’پیغام پاکستان ‘‘ بیانیہ امن وآشتی، رواداری اور محبت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ دورہ امریکہ کے دوران وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں ممبرآزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی ،سجادہ نشین درگاہ بساہاں شریف پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ صوفیاء کرام نے معاشرے کے اندر پر امن بقا باہمی کے ذریعہ محبت ،امن ، بھائی چارے ، رواداری کے ساتھ جینے کی تعلیم دی، ان کی تعلیم کا تصور گناہوں سے نفرت لیکن گناہ گاروں سے پیار کرو ہے،دہشت گردی ایک گلوبل ایشو ہے۔ یہ بیماری اور فساد ہے انسانیت کے خلاف مہم جوئی ہے اسکے کوئی بھی اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے تمام پیر ، صوفی ،گدی نشین دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف متحد ہو گئے ہیں اورہم نے اتفاق و اتحاد سے اس مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کی ہے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے اتفاق و اتحاد میں ایسی طاقت رکھی ہے کہ آپ کوئی بھی مسئلہ آسانی سے حل کرسکتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پلان کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان ایک خوبصور ت اور تاریخی تھا۔ اس پر عملدرآمد میں کمی کوتاہی ہو سکتی ہے لیکن اس سے دہشت گردی پر قابو پانے می�� بڑی حد تک مدد ملی ہے ۔ اس پلان کو مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں پیغام پاکستان ایک اچھا بیانیہ ہے۔ اس بیانیہ کا اعلامیہ صوفیاء کرام ، طالب علموں ، یونیورسٹریز کے فیکلٹی ممبرز نے مل کر تیار کیا ہے تاکہ دہشت گردی کو مسترد اور امن وآتشی کے قیام کو معاشرے میں یقینی بنایا جا سکے۔ ،16جنوری 2018کو صوفیا ء کرام ، یونیورسٹی اساتذہ اور صاحب رائے لوگوں نے پیغام پاکستان کی شکل ایسا قومی بیانیہ تیار کیا ہے جس کا مقصد معاشرے میں پرامن بقاء باہمی کے اصولوں کے تحت امن کو فروغ اور دہشت گردی اور انتہا پسندی کو شکست دیناہے۔ معاشرے سے انتہا پسندی کے عملی خاتمے کے لیے اقدامات کے سوال پر پیر علی رضا بخاری نے بتایا کہ ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں ہماری قوم ،فوج اوردیگر قومی اداروں نے بے مثال جانی ومالی قربانیاں دی ہیں ۔ 70ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں قومی سلامتی کے اداروں ،پولیس ،سکیورٹی اداروں اور سویلین شامل ہیں کوئی بھی بڑا مقصد قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جنگ میں تو قربانی دینالازم ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہا پسندی کے خاتمہ کے جاری جدوجہد میں پیش رفت انتہائی مثبت ہے۔ علماء مشائخ میں اتفاق رائے ہے ۔ شروع میں ہمارے ڈیکلریشن پر دستخط کرنے والے علماء ،سکالر اور صوفیا کی تعداد 1800تھی جو بڑھ کر اب 5ہزار ہو چکی ہے۔بے جا فتوؤ ں کے اجراء کے ایشو پر سوال کے جواب میں پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ’’ پیغام پاکستان‘‘ کے تحت ترتیب دیے گئے بیانیہ میں حق آزادی رائے کو شامل کیا گیا ہے ۔یہ بیانیہ 1973کے آئین کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ ۔اس میں انسانی حقوق ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن وآتشی کی بات کی گئی ہے۔اظہار آزادی رائے کی بات ہے اس سوچ کے پیچھے 73کا آئین ہے اور ہماری دین کی تعلیم ہے ۔انتہا پسندی اور دہشت گردی جہالت کا نام ہے۔ جب معاشرے میں تعلیم عام ہو گی تو کوئی بھی کسی کو کسی کے خلاف استعمال نہیں کر سکے گا۔ نئے تعلیمی نصاب کے حوالہ سے سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ مثبت کوششیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔لوگ رکاوٹیں بھی کھڑی کرتے ہیں۔ پیغام پاکستان کے اعلامیہ میں یہ شامل ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے خلاف تحقیری فتویٰ نہیں لگا سکتا۔ ہمیں بھلائی کی چیزوں پر توجہ دیکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری کمیونٹی مثبت کاموں کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہیے ،کشمیری عوام امن چاہتے ہیں۔ عالمی برادری نے حق خودارادیت دلانے کے حوالہ سے ان سے جو وعدے کیے ہیں کشمیری ان وعدوں کا ایفا چاہتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے منتظر ہیں ۔ان کا سوال ہے کہ دنیا کے دیگر ایشو تو حل ہو رہے ہیں مسئلہ کشمیر کیوں حل نہیں ہو رہا ۔مسئلہ کشمیر سیاسی کے ساتھ ساتھ ایک انسانی مسئلہ بھی ہے۔ اس مسئلہ کے حل میں پاکستان کی طرف سے سیاسی سفارتی حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت برقرار رہنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے ۔ہماری تحریک ایک آئینی،قانونی اور انسانی تحریک ہے۔ اس تحریک کی کامیابی میں ہم پاکستان سمیت دنیا بھر سے حمایت چاہتے ہیں۔ علاقائی امن کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل ہندوستان اور پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔ دونوں ملکوں کو اس مسئلہ کے حل کے مذاکرات کی میز پر مل بیٹھنا چاہیے۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں اس مسئلہ کا حل دونوں ملکوں کی نسلوں اور پشتوں کے مفاد میں بھی ہے۔ دونوں ملک اس مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں ۔دونوں ملکوں کا مل بیٹھنا بہت ضروری ہے۔ آؤٹ آف باکس مسئلہ کشمیر کے حل کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ ہمارے پاس یقیناًاقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں لیکن ا س کے حوالہ بھی اس مسئلہ کے حل کے لیے راہیں نکل سکتی ہیں۔ اگر دونوں ملک مذاکرات کی میز پر بیٹھیں ۔ باہمی بات چیت سے مذاکرات کے بند راستے بھی کھل سکتے ہیں کوئی بھی چیزنا ممکن نہیں ہوتی میر ی گزارش ہے کہ پاکستان ، ہندوستان اور کشمیری قیادت کو مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھنا ہوگا۔ یہ مسئلہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ پاک بھارت تجارتی و مذہبی روابط کے متعلق سوال پر پیر علی رضا بخاری نے کہا کہ’’ پیپل ٹو پیپل کنٹکٹ‘‘ رہنا چاہیے ۔تجارتی روابط ہونے چاہیے تاکہ اعتماد سازی ہو سکے مزید کراسنگ پوائنٹس سے کشمیریوں کو جموں وکشمیر کے درمیان کھچی لکیر کے آر پار آنے جانے کی آزادی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے وہ رشتہ داروں سے مل سکیں اس سے بھی چیزیں بہتر ہوتی ہیں۔ کشیدگی کم ہوتی ہے ۔اس سے بھی مسئلہ حل کی طرف جاتا ہے۔
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years ago
Text
آزادی کے جنگجو یا فرقہ وارانہ فسادات: 1921 مالابار بغاوت کی کہانی میں موڑ۔
آزادی کے جنگجو یا فرقہ وارانہ فسادات: 1921 مالابار بغاوت کی کہانی میں موڑ۔
Tumblr media
91 پر ، کاردان معیدین حاجی کی یادداشت تیز اور لاتعداد ہے۔ کیرالہ کے مالابار علاقے میں بنیادی طور پر مسلمان کسانوں کی بغاوت کے 10 سال بعد پیدا ہوئے ، وہ اپنے بچپن میں گھریلو غربت کو یاد کرتے ہیں۔ حاجی کہتے ہیں ، “1921 کی بغاوت برطانوی حکمرانوں اور ان کے قوانین کے خلاف تھی جس نے جاگیردار زمینداروں کو زمین کی مکمل ملکیت دی ، لیکن زرعی مزدوروں اور غریب کسانوں کی حالت بغاوت کے بعد بھی نہیں بدلی۔” اس نے 20 اگست 1921 کے واقعات پر اپنے والد کی یادداشت کا ایک اقتباس پڑھا۔
تحریک خلافت کا ایک رضاکار (1919-24)-خلافت عثمانیہ کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے ہندوستانی مسلمانوں کی ایک مہم ، جو انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں عدم تعاون کی تحریک کا حصہ بن گئی تھی-معین گرفتاری سے بچنے میں کامیاب رہے۔ اگلے دنوں میں ، اس نے اپنے آبائی شہر تیورنگادی اور ملپورم ، مانجری ، پرینتھلمنا ، پنڈک کڈ اور تیرور کے پڑوسی علاقوں کی سڑکوں پر خون کی ہولی دیکھی۔ 31 اگست کو ، پولیس نے خلافت تحریک کے ایک رہنما علی مسلیار کو گرفتار کرنے کے لیے ترنگاڈی میں واقع ممبرم مسجد پر چھاپہ مارا۔ حاجی کہتے ہیں کہ ان کے دادا مسجد میں تھے جہاں ایک بہت بڑا ہجوم جمع تھا۔ پولیس نے معین اور دیگر پر فائرنگ کی جنہوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ حاجی کا کہنا ہے کہ “میرے والد کے اکاؤنٹ کے مطابق ، میرے دادا نے ان کے سینے میں گولیاں لگائیں اور وہ شہید ہو گئے۔” مسلیار نے بعد میں ہتھیار ڈال دیئے اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔
جب تک بغاوت ختم ہوچکی تھی ، تقریبا 10،000 لوگ مارے جا چکے تھے اور تقریبا 45،000 جیل میں تھے۔ برطانوی نوآبادیاتی ریکارڈوں میں موپلہ بغاوت کے طور پر جانا جاتا ہے ، یا ملیالم میں میپیلا لہلا کے نام سے جانا جاتا ہے ، حاجی کے دادا جیسے اس کے مرکزی کرداروں کی شناخت اور سیاست اس بغاوت کی تاریخی تشریح کے متنازعہ علاقے کو پیش کرتی ہے۔ اگرچہ کچھ اسے سامراج مخالف تحریک اور زرعی بغاوت کہتے ہیں ، لیکن اس کی مذہبی جہت ہمیشہ زیادہ بحثوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اب ، 1921 کی بغاوت اپنے صد سالہ سال میں ایک طوفان کی نظر میں واپس آئی ہے ، انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (آئی سی ایچ آر) نے 387 شرکاء کے نام نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جنہوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے شہداء کی لغت (1857-1947) ، بشمول وریامکوناتھ احمد حاجی ، جنہیں 20 جنوری 1922 کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا ، اور مسلیار ، جنہیں 17 فروری 1922 کو کوئمبٹور میں پھانسی دی گئی تھی۔
Tumblr media
1921 فرقہ وارانہ فسادات نہیں تھا۔ میرے دادا سمیت باغی رہنماؤں نے زبردستی مذہب تبدیل کرنے ، لوٹ مار اور غیر مسلموں پر حملوں کی مخالفت کی۔
سی پی محمد مولوی ، علی مسلیار کے پوتے۔
آئی سی ایچ آر کی ذیلی کمیٹی کے ایک رکن سی آئی اسحاق کے مطابق ، جنہوں نے ناموں کو ہٹانے سے متعلق رپورٹ پیش کی ، ماپیلا بغاوت ایک “فرقہ وارانہ فساد” تھا اور باغی آزادی پسندوں کی فہرست میں شامل ہونے کے مستحق نہیں تھے۔ “مسلیار اور وریامکوناتھ دونوں متعصب تھے۔ ہم آزادی پسندوں میں فرقہ پرستوں اور جہادیوں کو کیسے شامل کر سکتے ہیں؟ باغی مالابار کے علاقے کے ہندوؤں کو اسلام میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔
ناموں کو حذف کرنے کے اقدام نے بہت سے حلقوں سے چشم پوشی کی ہے ، بشمول مورخین اور دیگر علماء جنہوں نے بغاوت پر وسیع تحقیق کی ہے۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ بغاوت کی کئی پرتیں تھیں اور ان کا اندازہ عصری عینک سے نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم ، اسحاق کا کہنا ہے کہ بغاوت کی قیادت “جنونی مسلمانوں” نے کی اور اگر وہ کامیاب ہوتے تو مالابار ایک اور پاکستان بن جاتا۔ “باغیوں نے شرعی عدالتیں قائم کیں اور معاشرے کے نچلے طبقے کے ہندوؤں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انکار کرنے والوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ ان کی لاشیں کنویں میں پھینک دی گئیں۔ میں نے عدالت کے ریکارڈ میں آرکائیو مواد اور شواہد کی بنیاد پر رپورٹ تیار کی۔
مورخ اور سابق آئی سی ایچ آر چیئرمین ایم جی ایس نارائنن اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ 1921 کی بغاوت کو ‘فرقہ وارانہ فساد’ نہیں کہا جا سکتا ، حالانکہ اس کا فرقہ وارانہ زاویہ تھا۔ مذہبی زاویہ کے باوجود یہ سامراجی حکومت کے خلاف تھا۔ چونکہ اعلیٰ طبقے کے ہندوؤں نے انگریزوں کی حمایت کی تھی ، لیڈروں کا غصہ ہندوؤں پر بھی تھا۔
غیر متوقع طور پر نہیں ، قطار نے بی جے پی ، سی پی آئی (ایم) اور انڈین یونین مسلم لیگ کے رہنماؤں کے ساتھ سیاسی اثرات حاصل کیے ہیں۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر رام مادھو نے بغاوت کو “بھارت میں طالبان کی ذہنیت کا پہلا مظہر” قرار دیا۔ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ماپیلا باغی 1975 میں کیرالہ حکومت کی طرف سے شائع ہونے والے آزادی کے جنگجوؤں کی ڈائرکٹری میں شامل نہیں تھے (��س کے چار سال بعد جب وہ انہیں آزادی پسندوں کے طور پر تسلیم کرچکے تھے) ، وزارت خارجہ کے خارجی امور وی مرلیدھرن کہتے ہیں ، “اگر کیرالہ حکومت نہیں باغیوں کو آزادی کے جنگجو تسلیم کرتے ہیں ، وہ آئی سی ایچ آر سے ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ آزادی کی جدوجہد انگریزوں کے خلاف تھی ، لیکن 1921 میں جو کچھ ہوا وہ نسل کشی تھی۔ انہوں نے غریب ، بے بس ہندوؤں کو قتل کیا۔ مرلیدھرن کے مطابق یہ سب خلافت کے بارے میں تھا اور اس کا ہندوستان کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس داستان کا اس کا جواب ہے۔ مسلیار کے 75 سالہ پوتے سی پی محمد مولوی کا کہنا ہے کہ ان کے دادا نوآبادیاتی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے سعودی عرب سے واپس آئے اور ہندوؤں کو نقصان پہنچانے کے خلاف سختی سے وکالت کی۔ سیاسی فائدہ کے لیے تاریخ کو مسخ نہیں کیا جانا چاہیے۔ 1921 فرقہ وارانہ فسادات نہیں تھا۔ کے پی کیسوا مینن جیسے کانگریسی لیڈر باغیوں میں شامل کیوں ہوتے اگر وہ متعصب ہوتے؟ وہ پوچھتا ہے میری والدہ مرحومہ آمنہ اور دادی پاتھوما میرے دادا کے بارے میں پیاری یادیں شیئر کرتی تھیں۔ وہ ایک نظم و ضبط کا آدمی تھا۔ اس نے اپنی بیوی اور بیٹی کو ملک کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
Tumblr media
“باغیوں نے شرعی عدالتیں قائم کیں اور معاشرے کے نچلے طبقے کے ہندوؤں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ انکار کرنے والوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔
CI Issac ، ممبر ، انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ۔
زرعی جڑیں
‘مالابار بغاوت’ پر بڑے پیمانے پر لکھتے ہوئے ، مورخ کے این پانیکر نے معاشی اور مذہبی عوامل کے باہمی تعامل پر روشنی ڈالی ہے جس نے اس میں حصہ لیا۔ کیرالہ کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ کے ایگزیکٹو کونسل ممبر پی پی عبدالرزاق کے مطابق ، بغاوت کی اصل کو 19 ویں صدی کی کرایہ داری کی تحریکوں میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ، جو زرعی پریشانی کے تناظر سے ابھری ہے۔ رزاق کہتے ہیں ، “انگریزوں نے 1892 میں مالابار پر قبضہ کرنے کے بعد روایتی زراعت کے نظام میں بڑی ساختی تبدیلیاں لائیں۔” نئے قوانین نے بنیادی طور پر مراعات یافتہ ذات کے ہندو زمینداروں کو زمین کی قانونی ملکیت دی ، جس سے مسلم کرایہ داروں اور مزدوروں کو ان کے روایتی حقوق سے محروم کیا گیا۔ “نئے قوانین نے کرایہ داروں کو ایک غیر یقینی صورتحال اور غربت کو ختم کردیا۔ انتہائی استحصال کی وجہ سے ، کرایہ دار اپنے آقاؤں کے خلاف ہوگئے ، جس کی وجہ سے دیہی بغاوتیں ہوئیں۔ 19 ویں صدی میں 32 ایسی بغاوتیں ہوئیں اور یہ عمل 1921 کی میپیلا بغاوت میں اختتام پذیر ہوا۔
تاہم ، 1920 کی دہائی تک ، تحریک کے کردار میں دیگر اہم سیاسی پیش رفتوں کے ساتھ تبدیلی آچکی ہے جو بغاوت میں معاون ہے۔ زرعی پریشانی کے ساتھ ، تحریک خلافت اور عدم تعاون کی تحریک نے بغاوت میں طاقت اور مزید تہوں کا اضافہ کیا ، جس سے انگریزوں کو کئی ماہ لگے۔ مالابار سپیشل پولیس کا قیام بغاوت کو کچلنے کے لیے کیا گیا تھا۔ بغاوت کے نتائج پر تحقیق کرنے والے ایک مورخ سری ویدھیا وٹرمباتھ کا کہنا ہے کہ “انگریزوں کے بھاری ہاتھوں کے نقطہ نظر پر بہت کم ریکارڈ موجود ہیں ، جس میں مارشل لاء لگانا شامل تھا۔” یہاں تک کہ ‘ویگن سانحہ’ (67 افراد جیل میں لے جانے کے دوران بند ریلوے سامان ویگن میں دم گھٹنے سے مر گئے) کو زیادہ نمایاں نہیں کیا گیا ہے۔
Tumblr media
آزادی کی جدوجہد انگریزوں کے خلاف تھی ، لیکن 1921 میں جو ہوا وہ نسل کشی تھی۔ انہوں نے غریب ، بے بس ہندوؤں کو قتل کیا۔
V. Muraleedharan ، MoS ، خارجہ امور
مذہبی کنارہ
بغاوت کا مذہبی کردار اور اس کی مرکزی شخصیات ہمیشہ بحث کا موضوع رہی ہیں۔ جب کہ وہاں جبری مذہب تبدیل کرنے ، گائے کے قتل ، مندروں کی بے حرمتی اور باغی رہنماؤں کے دیگر مظالم کے ریکارڈ موجود ہیں ، علماء کا کہنا ہے کہ وریامکناتھ کے قتل اور مسلیار کی گرفتاری کے بعد بغاوت کا رخ بدل گیا۔ سری ویدھیا کے مطابق ، انحراف کے پابند تھے کیونکہ باغیوں کے پاس منظم ڈھانچے کا فقدان تھا۔ وہ بغاوت کو دو مراحل میں تقسیم کرتی ہیں – پہلا وریامکناتھ جیسے رہنماؤں کے تحت ، اور دوسرا جہاں نظم و ضبط بڑی حد تک غائب تھا۔ در حقیقت ، مہاتما گاندھی اور دیگر قومی رہنماؤں نے بعد کے مرحلے کے تشدد کی مذمت کی اور خود کو اس سے دور کیا۔ مسلیار جیسے رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد قیادت میں ایک خلا پیدا ہوا۔ بغاوت کی کوئی منظم شکل نہیں تھی۔ کانگریس کو بھی الزام لگانے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ہنگاموں کی کثیرالجہتی پیچیدہ نوعیت کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔
سری سنکراچاریہ یونیورسٹی آف سنسکرت میں ملیالم ادب کے پروفیسر سنیل پی الیاڈوم کے مطابق بغاوت تین جہتی تھی۔ “یہ ایک مذہبی نظریے سے متاثر تھا ، لیکن سامراج مخالف جدوجہد اور زرعی بحران سے پیدا ہوا تھا۔ یہ تینوں جہتیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں۔ مذہب کو موپلہ باغیوں نے انگریزوں کے خلاف مضبوط بنانے کے لیے بطور آلہ استعمال کیا۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہاں حدود اور مسائل تھے۔
مورخ پانیکر اور ایم گنگادھرن کا حوالہ دیتے ہوئے ، مولوی کا کہنا ہے کہ میپلا لیڈر ، بشمول ان کے دادا مسلیار اور وریامکوناتھ ، جبری تبدیلیوں ، لوٹ مار اور غیر مسلموں پر حملوں کی مخالفت کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ، “کچھ بدمعاش عناصر نے ایک موقع پر بغاوت کا غلط استعمال کیا ، لیکن مسلیار نے ایسے شرپسندوں کو کبھی نہیں بخشا۔” سری ویدھیا نے مزید کہا کہ “مظلوموں کی طرف سے” ریکارڈ کی کمی تاریخ کو “غیر منصفانہ کھیل” میں بدل دیتی ہے۔
(یہ پرنٹ ایڈیشن میں “سبالٹرین باغی یا فرقہ وارانہ فسادیوں کے طور پر شائع ہوا؟”)
!function(f,b,e,v,n,t,s) if(f.fbq)return;n=f.fbq=function()n.callMethod? n.callMethod.apply(n,arguments):n.queue.push(arguments); if(!f._fbq)f._fbq=n;n.push=n;n.loaded=!0;n.version='2.0'; n.queue=[];t=b.createElement(e);t.async=!0; t.src=v;s=b.getElementsByTagName(e)[0]; s.parentNode.insertBefore(t,s)(window,document,'script', 'https://connect.facebook.net/en_US/fbevents.js'); fbq('init', '313024939117457'); fbq('track', 'PageView'); . Source link
0 notes