#کیتو
Explore tagged Tumblr posts
bazronline · 7 months ago
Text
0 notes
malynews · 1 year ago
Text
بسكويت شاى
بسكويت كيتو
بسكويت كيتو شاي من كيتو روكيتس هو منتج لذيذ ومثالي للحصول على وجبة خفيفة في أي وقت من اليوم
يأتي هذا البسكويت بنكهة الشاي الغنية و الممزوجة بالزبدة المحلاة، مما يعطيه طعما لذيذًا وفريدًا. كما أنه مصنوع من مكونات طبيعية وصحية.
 أفضل أنواع بسكويت كيتو اللذيذ والصحي 
يحتوي  بسكويت كيتو على نسبة قليلة جدًا من الكربوهيدرات، مما يجعله خالٍ تقريبًا من السكر. كما أنه سهل التخزين والحفظ، حيث يأتي في علبة صغيرة تستطيع حملها معك في أية رحلة أو تخزينه في المنزل للاستخدام الشخصى. إذا كنت ترغب في تجربة بسكويت شاى لذيذ و صحى، فإن بسكويت شاي کیتو روکیتس هو الخيار المثالى ل��!
0 notes
generalboxel · 1 year ago
Text
0 notes
esnastar · 2 years ago
Photo
Tumblr media
تمام کتب الهی (آسمانی) سراسر #رمز و #راز است به طور مثال سوره کوثر و قدر دو پهلو هستند یعنی اگر به نیت و تعداد خاص و روز خاص فرضا همین #چله #ثروت بخوانید اگر ناپاکی داشته باشید (که اکثر ما داریم) اگر بین آن #نحسی باشد اگر #قمر_در_عقرب در آن باشد اگر #ماه کامل باشد اگر #مریخ در عقرب باشد اگر #کیتو یا #کتو یا #نود_جنوبی در عقرب باشد و خیلی آداب دیگر عکس عمل می کند و سبب جذب مصیبت و نحسی بیشتر خواهند شد هر سوره ای #کوکب منصوب دارد اگر می خواهید قرآن بخوانید نهج البلاغه بخوانید. قرآن خواندنی که عمل و زندگی شما را اصلاح و بهتر نکند و فقط خواندن بدون #فکر و عمل باشد هیچ #خاصیت که ندارد مضر هم هست علاوه بر این که هر #سرٌی آدابی دارد. قرآن و #انجیل و #��ورات و... سراسر رمز و اسرار هستند. #هوروسکوپ #هوروسکوپ_فارسی #هوروسکوپ_ماه_نو #هوروسکوپ_روزانه #هوروسکوپ_��اهیانه #هوروسکوپ_فارسی_پادکست #هوروسکوپ_سالانه #هوروسکوپ_روز #هوروسکوپ_هفتگی #هوروسکوپ_هفته #هوروسکوپ_2023 #فال #تاروت https://www.instagram.com/p/Cimn06hLJd9/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
abzarbrand · 4 years ago
Text
خرید بهترین جرثقیل های برقی !
شما می توانید برای مشاهده قیمت و خرید انواع جرثقیل های برقی زنجیری در برند های کیتو و تی ام جی وارد سایت ابزاربرند شوید 
1 note · View note
asbeabi · 6 years ago
Text
اکوادور: انگلیس، آسانژ را مسترد نمی کند
یکی از وکلای ارشد اکوادور گفت، انگلیس در اوت به دولت کیتو گفت که موسس ویکی لیکس را در صورت ترک سفارت اکوادور مسترد نمی کند.
from http://bit.ly/2C59jbE via اکوادور: انگلیس، آسانژ را مسترد نمی کند
1 note · View note
warraichh · 3 years ago
Text
ہندو مت کثرت پرستی سے وحدت الوجود تک
ہندمت کسی ایک مذہب کا نام نہیں ہے ، بلکہ اس میں مختلف و متضاد عقائد و رسوم ، رجحانات ، تصورات اور توہمات کا مجموعہ کا نام ہے ۔ یہ کسی ایک شخص کا قائم کردہ یا لایا ہوا نہیں ہے ، بلکہ مختلف جماعتوں کے مختلف نظریات کا ایک ایسا مرکب ہے ، جو صدیوں میں جاکر تیار ہوا ہے ۔ اس کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ الحاد سے لے کر عقیدہ وحدت اوجود تک بلا قباحت اس میں ضم کر لئے گئے ہیں ۔ دہریت ، بت پرستی ، شجر پرستی ، حیوان پرستی اور خدا پرستی سب اس میں شامل ہیں ۔
عہد وسطی میں ہندو مت میں مختلف تحریکوں نے جنم لیا ، جن کا رجحان توحید یا ایک خالق کی عبادت پر تھا اور ان کے بارے میں گمان ہے کہ ان پر مسلمانوں کا اثر ہے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہے جب سے ویدک مذہب ہندو مت میں تبدیل ہوا برصغیر میں بہت سے مذہبوں اور فرقوں میں جنم لیا ، ان تمام پنتھ (فرقوں) کا مقصد مکتی حاصل کر اور آواگون سے نجات ��اصل کرنا ۔ آواگون یعنی بار بار جنم لینے سے چھٹکارہ اور مکتی یعنی نجات حاصل کرنا ۔ اس عقیدے کے مطابق ہمیں جس ہستی نے پیدا کیا ہے ، ہم اس کی ذات کا ہی حصہ ہیں اور اسی کی ذات میں جذب ہونا مکتی ہے ۔ یہی نظریہ وحدت الوجود ہے جس کو مسلمان صوفیا نے اختیار کیا ہے اور اس نظریہ کے زیر اثر اس خیال نے جنم لیا ہے کہ توحید یہ نہیں ہے خدا ایک ہے بلکہ کائنات کی ہر شے اس کی ذات کا حصہ ہے اور دوبارہ اسی کی ہستی میں جذب ہونا ہماری معراج ہے ۔
اس طرح حلول کا نظریہ جس میں اوتار وغیرہ کا جنم لینا شامل ہیں ۔ وحدت الوجود کے پرچار سے پہلے ہندوؤں میں مختلف دیوتاؤں کو پوجنے والے والے ایک دوسرے کے سخت خلاف تھے مثلاً وشنوی اور شیوی غیرہ اور ہر ایک فرقہ نے اپنے مذہب کی تائید میں سکیڑوں پران تصنیف کئے اور اس میں اپنے خالق کی بے شمار پران تصنیف کئے گئے ۔ ان میں اٹھارہ پران وشنو پران ، شیو پران گنش پران ، بھاگوت پران ، اسکندر پران ، مارکنڈے پران ، بہوشٹ پران ، برہم پتی ورنگ پران ، کورم پران ، پدم پران ، برہم پران ، بایو پران ، گڑر پران ، یتسہ پران ، اگن پران ، بارہ پران ، نارہ پران اور مچھ پران معتبر سمجھے گئے اور ان پر ہندو دہرم کے عقائد کی بنیاد رکھی گئی ۔ یہ پر��ن اگرچہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن ہندو کل پرانوں کے دیوتاؤں کو مانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے ہر دیوتا میں شکتی ہے جس کو ہم نہیں جانتے ۔
وحدت الود کے نظریہ نے تمام دیوتا ایک ہی ہستی کا مختلف روپ کی شکل میں عقیدے نے جنم لیا اور تری مورتی یعنی شیو ، وشنو اور برہما کی ایک ہستی کا عقیدہ سامنے آیا ۔ یہاں تک اس عقیدے نے اتنی وسعت اختیار کی کہ دور جدید میں قدیم قوموں کے دیوتاؤں کو بھی ان دیوتاؤں کا روپ بتایا گیا ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندو مت توحید کی طرف بڑھ رہا اگرچہ ان کی توحید ناقص ہے ۔ بہرحال ہندو مت میں ہندو کہلانے والے کسی ایک خالق پر متفق نہیں ہیں بلکہ ہر پنتھ (فرقہ) نذدیک اس کائنات اور ان کا خالق الگ ہے ۔ جن کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔
ہندو مت میں کچھ پنتھ یہ جن کی وہ پوجا کرتے ہیں اور اسے خالق مانتے ہیں ۔ مثلاً
پنتھ/فرقہ۔۔۔۔معبود یا دیوی دیوتا
کایستھ۔۔۔۔۔چتر گپت
آریہ۔۔۔۔۔۔اوم
گوشائیں۔۔۔جگناتھ
پنج پیریہ۔۔۔۔پنج پیر
چیرو۔۔۔۔۔۔۔ستیلا
ڈھانگر اور برنا۔۔۔۔۔بھوانی
گڈریہ۔۔۔۔۔کالی
کہار۔۔۔۔۔۔کالو بابا
بنجارے۔۔۔۔۔بنجاری دیوی
لوہار اور بڑھئی۔۔۔۔۔بشن اور کرما
آگرہ کے لودھ۔۔۔۔۔سید محسن
سنیاسی۔۔۔۔نراین
شیوی۔۔۔۔۔شیو
وشنوی۔۔۔۔۔وشنو
شاکتیو۔۔۔۔۔۔دیبی
گنییشی۔۔۔۔۔۔ گنیش
جینی۔۔۔۔۔۔۔۔چوبیس جینا
داود پنتھی۔۔۔۔۔۔ست رام
ست نامی۔۔۔۔۔ست نام
برمہی۔۔۔۔۔۔پہیا
بھیکا پنتھی۔۔۔۔۔۔آتما
مالی۔۔۔۔۔۔۔۔بھونی
بھنگی۔۔۔۔۔۔۔لال بیگی
نانک پنتھی۔۔۔۔۔واہ گرو اور ست سری ��کال
بندھیلا۔۔ ٹھاکر ، بالاگوپالا اور رادھا کشن
بھربھونجہ اور چندا کرتال۔۔۔۔۔مہابیر
بھاٹ۔۔۔۔۔ گوری اور ساروا
بھیل۔۔۔۔۔ماتاجی اگری
ودسادھ۔۔۔۔۔راہو ، کیتو
ہبوڑا اور دیبی۔۔۔۔۔ظاہر پیر
ریداسی رام ۔۔۔۔۔جانکی
ردھاسوامی ۔۔۔۔۔۔ست چتانند ، برہم اور پرماتہا
بھوین ہار ، گوریا۔۔۔۔ دھرتی ماتا ، باندی مائی ، کالی اور پہاڑی دیوی
کبیر پنتھی ، سیتاپرش۔۔۔۔۔۔۔ نرانکا اور ہری رام گوبند
چھوٹے سنیاسی۔۔۔۔۔ گنیش ، رددر ، بھگوتی ، سورج اور نراین
کلوار۔۔۔۔۔درگا
کالکا۔۔۔۔۔۔۔پنجوپیر ، ہردیا ، غازی میاں
ہٹیلے۔۔۔۔۔۔۔برم دیوتا ، بڑا پورکھ
بہر اگواں۔۔۔۔دیوا بہوانی پھول متی ہنر د بیر ، کالکا ، کاشی داس بابا
جاٹ۔۔۔۔۔ مہادیو ، دیبی ، گوگا ، لکھ دت ، پیارے جی ، رن دیو ، داؤجی ، جمندا دیوی ، ظاہر دیوان ، زین الدین ، شیخ سدو
چمار۔۔۔۔۔۔ بھوانی ، جگیشونہ ، کالادت ، گجادت ، طاہر پیر ، ناگر سین ، ٹیڑھا دیو ،
وندھیا۔۔۔۔۔۔ بنیسی دیبی ، برنا پیر ، برتیا ، پرکھالوک
دریاپنتھی ۔۔۔۔۔اوڈرو لال
یہ مختلف فرقہ ہیں جو انہیں کو معبود حقیقی سمجھ کر پوجتے ہیں اور اپنے مرادوں کو بر لانے کے لیے انہیں سے التجا کرتے ہیں ۔ موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ لوگ بھگوان اور پرمیشور کو یاد کرتے ہیں ۔ جن کا پتہ نہ ویدوں میں ہے نہ پرانوں میں ۔ بعض ہندوؤں کا کہنا ہے کہ پیدا کرنے والا مرد ہے بعض کہتے ہیں پیدا کرنے والی عورت ہے ۔ عموماً عورتیں پیدا کرنے والی کو اپنی طرح شوہر والی عورت سمجھتی ہیں ، جس گورا پاربتی ، دیوی سیتا ، درگا ، کالی ، رادھا ، رکمنی ، لچھمی ، جانکی اور بھونی وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتی ہیں ۔
موجودہ دور میں وحدت الوجو کے زیر اثر تمام دیوتاؤں اور دیویوں کو ایک ہستی کے مختلف روپ خیال کیا جانے لگا ہے ہے ۔ اس طرح یہ توحید کی طرف بڑھ رہے ہیں اگرچہ ان کی توحید ناقص ہے ۔
کچھ ہندو عبادت خانہ نہیں بناتے ہیں اور جو بناتے ہیں ان کے ہر پنتھ کے لوگوں کا عبادت خانہ الگ نمونے پر ہوتا ہے اور مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ مثلاً شیوی اپنے عبادت خانہ کو شوالہ ، شاکتی ، دیوالہ ۔ کرشن کے پوجنے والے ٹھاکر دوارہ ۔ نانک پنتھی گرد وارہ ، کبیر پنتھی کبیرچورا ۔ سماجی سماج کا مندر وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں ۔ شوالہ میں شیو کی ، دیوالہ میں دیبی کی ، ٹھاکر دوارہ میں بالاگوپالہ رادھا کرشن کی ، جینی کے مندر میں مہابیر یا پرسوا ناتھ اور چوبیس جینا کی مورتیں ، گردوارہ میں گرنتھ کی کتاب رکھی جاتی ہے ۔ آریہ سماج کے مندر میں دیانند سرستی کا فوٹو آویزاں کیا جاتا ہے ۔ وشنوی مندر نہیں بناتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ مورتی پوجا کے خلاف ہیں ۔ بعض ہندو آبادی کے باہر کسی درخت کے نیچے چبوترہ بناتے ہیں اور اس پر کوئی مورتی یا کسی پتھر آویزاں کرکے اس کی پوجا کرتے ۔ بعض کسی درخت کی ، بعض کسی چٹان کی پوجا کرتے ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے انیسویں صدی میں ��یسے بہت سے فرقہ وجود میں آگئے تو تھے جو بعض انگریزوں جن میں جنرل نکلسن اور ملکہ وکٹوریہ قابل ذکر ہیں پوجا کرتے تھے ۔
اس طرح ہر پنتھ کا مقدس مقام الگ ہے ۔ کوئی ہری ہر چھتر ، کوئی گڑھ کھٹیشر ، کوئی ککوڑا ، کوئی پراگ ، کوئی ہرودار ، کوئی کاشی بنارس ، کوئی پشکر ، کوئی اجودھیا ، کوئی جگناتھ ، کوئی بیجاناتھ ، کوئی بدری ناتھ ، کوئی پارسناتھ ، کوئی مہابلیشر ، کوئی سخی سرور ، کوئی کہیں تیرتھ جاتر کی غرض سے جاتا ہے اور انہی مقامات کو اپنا معبد سمجھتا ہے ۔ بعض ہندوؤں کا کہنا ہے کہ پیدا کرنے والا مرد ہے بعض کہتے ہیں پیدا کرنے والی عورت ہے ۔ عموماً عورتیں پیدا کرنے والی کو اپنی طرح شوہر والی عورت سمجھتی ہیں ، جس گورا پاربتی ، دیوی سیتا ، درگا ، کالی ، رادھا ، رکمنی ، لچھمی ، جانکی اور بھونی وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتی ہیں ۔
ٍتہذیب و ترتیب
ّ(عبدالمعین انصاری)
0 notes
akhtarmar · 3 years ago
Photo
Tumblr media
🌠هر سیاره چه فاکتورهایی از ��ارکرد بدن رو مدیریت میکنه👇 ✅ برای سلامتی، خونهٔ یک نشانگر کل بدن هست. سرور این خونه اگر در خونه‌های ۶-۸-۱۲ قرار بگیره نشونه‌ی خوبی بلحاظ سلامتی نیست. و توی ویدیو گفتم چرا اینطوره. @akhtarmar_ @akhtarmar_ @akhtarmar_ @akhtarmar_ 📍 خورشید نیروی حیاتی و سیستم ایمنی، قلب، و گلبول‌های سفیده. 📍 ماه حاکم بر پلاسمای خون و ذهنه. 📍 مریخ گلبول قرمز و هموگلوبین و فاکتور آهن خونه. 📍 هرمز چربی و پروتئین و رشد سلول‌هاست. 📍 ناهید حاکم بر غدد و اسپرم و تخمک، و پانکراسه. 📍 کیوان حاکم بر مو و مفاصل و پوست، عرق، فضولات و سموم بدنه. 📍 راهو حواس پنجگانه است. 📍 عطارد مغز و حافظه و قشر خاکستری مغزه. 📍 کیتو سیستم اعصابه. ✅ اینها چند نمونهٔ برجسته بود، و همینطور باز ریزتر هم میشه به اعضای بدن و ارتباطش با سیارات پرداخت. ✍️ قوی‌ترین و ضعیف‌ترین فاکتور سلامتی تو از بین این نگهبان‌ها کدومه؟ @akhtarmar_ @akhtarmar_ #آسترولوژی #آموزش_آسترولوژی #آموزش_نجوم #ودیک #هوروسکوپ #جیوتیش #ستاره_شناسی #چاکرا_درمانی #انگیزه_مثبت #سلامت_بدن #موفقیت_شخصی #قانون_کائنات #زندگی_سالم #معجزه #مراقبه #سلامتی #نجوم (at Tehran, Iran) https://www.instagram.com/p/CT2UWzJoo3i/?utm_medium=tumblr
0 notes
bazronline · 7 months ago
Text
0 notes
malynews · 2 years ago
Text
 أفضل أنواع بسكويت كيتو اللذيذ والصحي 
 بسكويت كيتو
بسكويت كيتو شاي من كيتو روكيتس هو منتج لذيذ ومثالي للحصول على وجبة خفيفة في أي وقت من اليوم
يأتي هذا البسكويت بنكهة الشاي الغنية والممزوجة بالزبدة المحلاة، مما يعطيه طعمًا لذيذًا وفريدًا. كما أنه مصنوع من مكونات طبيعية وصحية.
 أفضل أنواع بسكويت كيتو اللذيذ والصحي 
يحتوي  بسكويت كيتو على نسبة قليلة جدًا من الكربوهيدرات، مما يجعله خالٍ تقريبًا من السكر. كما أنه سهل التخزين والحفظ،
حيث يأتي في علبة صغيرة تستطيع حملها معك في أية رحلة أو تخزنه في المنزل للاستخدام الشخصى. إذا كنت ترغب في تجربة بسكويت شاى لذىء وصحى، فإن بسكویت شای کیتو ریزکیتس هى الخیار المثالى لك!
0 notes
informationtv · 4 years ago
Text
شمالی وزیرستان: آپریشن میں 4 دہشتگرد ہلاک، ایک سپاہی شہید
شمالی وزیرستان: آپریشن میں 4 دہشتگرد ہلاک، ایک سپاہی شہید
Tumblr media
صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران 4 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جبکہ اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں ایک سپاہی شہید ہوگیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے جاری بیان کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاع پر شمالی وزیرستان میں اسپن وام کے شمال مغرب میں دریائے کیتو کے قریب دہشت گردوں کے ٹکھانے پر کارروائی کی۔
آئی ایس پی آر کے…
View On WordPress
0 notes
abzarbrand · 4 years ago
Text
انواع جرثقیل برقی و دستی
جرثقیل ها یکی از ملزومات اساسی در زمینه ی بارگیری می باشند که امروزه کاربرد وسیعی در کارخانه ها و کارگاه ها پیدا کرده اند. جرثقیل های مورد استفاده در کارگاه ها به دو نوع جرثقیل برقی و جرثقیل دستی تقسیم می شوند.
جرثقیل برقی زنجیری
استفاده از جرثقیل برقی در محیط های صنعتی و انبار ها مرسوم تر است زیرا عمل لیفتینگ بیشتر در این محیط ها انجام میشود
هم اکنون در فروشگاه ابزار برند (ABZARBRAND.COM) دو نوع جرثقیل از برند های کیتو و TMG موجود است که از نیم تن تا 10 تن متغیر است و حالت های دو 4 و 6 کاره و تک ��رعته و دو سرعته آن موجود است.
جرثقیل های دستی زنجیری یا سقفی کارگاهی
جرثقیل های دستی در دو نوع چین بلبرینگی و شفتی در بازار موجود هستند جرثقیل دستی بلبرینگی مصرف بیشتری دارد چون به گونه ای طراحی شده است که استفاده از ان راحت تر می باشد و مشکلی در استفاده با آن پیش نمی آید. 
0 notes
magicofstones · 5 years ago
Photo
Tumblr media
‍ ✨🦂قمردرعقرب (سایدریل- آیانامشای لاهیری وضعیت خانه ها مساوی): . . ✨🦂🦂از ساعت 15:26:19 روز جمعه 22 فروردین 1399 تا ساعت 18:12:25 روز یکشنبه 24 فروردین 1399 . . ✨🦂🦂❌❌❌در طول این مدت از انجام امور اساسی، مهم و زیر بنایی زندگی بپرهیزید. . . ❌❌مخصوصا عقد و ازدواج، انعقاد نطفه فرزند، سفر، شروع کار جدید ، امور لباس. اگر در این مدت مجبور به انجام کاری بودید صدقه دادن ، خواندن آیت الکرسی و توکل بر خدای متعال را فراموش نکنید. . . ❌❌نکته: برخی بزرگان ، صبر نمودن برای امور مهم را تا حدود دو روز بعد از قمردرعقرب نیز سفارش نموده اند. . . ✨🦂✨🦂قمر در عقرب چيست؟ . . هر ماه حدود ۳ روز ماه وارد صورت فلكى عقرب ميشود كه باعث ايجاد امواج مضرى براى سيستم عصبى انسانها ميگردد. در اين مدت اعصابها ضعيفتر جر و بحث ساده شديد ، تصادفها بيشتر، جراحى ها خطرناكتر، مرگها بيشتر، قراردادهاى مهم منجربه ضرر، آغاز اغلب كارهاآخرش به مشكل برميخورد. . . ✨🦂دوستان عزیز کانال 🦂جادوی سنگ ها . . ❌✨🦂سنگینی امروز ، پنجشنبه ، جمعه و شنبه ، بی سابقه است سیاره پلوتو ((مرگ)) روبروی (( ماه)) خیلی خیلی مراقب ، دعوا ، تنش و پرخاشگری باشید ، این آگاهیها رو میدیم که لطفا کنترل کنید✨❌🙏🏽 . . 🙏🏽دعای قمر در عقربم الان میذارم لطفا ، صدقه ، غذا دادن به سگ و‌گربه علی الخصوص ((گربه ی سیاه و سگ سیاه )) . . کیتو در استورلوژی یعنی (( سگ سیاه و راهو گربه )) و ایت الکرسی و چها ر قل را و هر مانترا یا ذکر مثل (( یا قدوس )) را بخونید . . 🆔 @Magic_of_stones ���🏼‍💻 Link channel: https://t.me/Magic_of_stoness 📞09128044641 . . #جادوی_سنگ_ها #قمر_در_عقرب #ماه_در_عقرب #تعاملات_سیاسی #نجوم (at Niavaran Mojdeh) https://www.instagram.com/p/B-xlY0MHzBG/?igshid=pm5avdfdb9cm
0 notes
zagrosbanaco · 5 years ago
Photo
Tumblr media
خانه عجایب اکوادور خانه عجایب در شهر کیتو در کشور اکوادور بنا شده به به دلیل شکل خارق العاده آن و سقف بدون ستون آن به خانه عجایب اکوادور معروف است. بیان مفهوم بی نهایت در پس طرح معماری این خانه مستتر است که با استفاده از سقف وافل این مفهوم بیان شده است. اجرای طره سقف به عرض پنج متر فقط با سبک سازی و به کارگیری سقف وافل ممکن بوده است که از هر دو طرف ساختمان این طره ها اجرا شده است. علاوه بر آن اجرای چنین طرحی در زمین لرزه خیز اکوادور بسیار حساس بوده و ملاحظات بیشتری را می طلبیده است. با این وجود تنها راهکار استفاده از سقف وافل به عنوان بهترین راهکار هم به منظور سبک سازی لرزه ای و هم جلوه معماری بوده است. در نهایت بار سقف و طره های ان به دو دیوار بتنی موازی و ستون های فلزی 30 سانتی متری منتقل می شود. #عمران #اجرای_ساختمان #معماري #طراحی #طراحي_داخلي #سقف_وافل #قالب_وافل #سقف_وافل_مشبک_قابلمه #سقف_کاذب #سقف_کشسان #سقف_یوبوت #waffle #waffleslab #waffle_slab #waffle_slabs#سقف_وافل_يكطرفه #ساختمان_صنعتی #سوله_صنعتی #سوله_سازی #سقف_وافل_دوطرفه #سازه #سازه_بتنی #سازه_فلزي #ساختمان #معماري #civilengineer #وافل#بتن #بتن_آرمه #civil #architecture https://www.instagram.com/p/B2mWDGyDnib/?igshid=15ex0qde5h2hi
0 notes
asbeabi · 5 years ago
Text
کلیسای طلایی در پایتخت اکوادور
کیتو پایتخت اکوادور یکی از قدیمی ترین شهرهای جهان است با تاریخی که هنوز می توان آن را در میان بناها و خیابانهای شهر مرور کرد. کیتو به عنوان شهری تاریخی در سال 1978 در فهرست میراث جهانی یونسکو به ثبت رسیده است. این شهر 130 ساختمان بزرگ قدیمی، 500 ساختمان تاریخی، 17 کاخ و 53 موزه دارد. بافت تاریخی این شهر با وجود اینکه حدود 500 سال قدمت دارد هنوز اصالت خود را حفظ نموده و یکی از جاذبه های گردشگری اکوادور محسوب می گردد. یکی از بناهای ارزشمند و دیدنی کیتو، کلیسای جامع مسیح است. این کلیسا که در سال 1765 ساخته شده است، خصوصیتی دارد که آن را از دیگر کلیساهای جامع جهان متمایز می نماید، آن هم به کار بردن طلا در معماری داخلی آن است. تمامی بخش ها و تزیینات داخلی این کلیسا روکشی از طلا دارند و همین باعث شده تا بین گردشگران به کلیسای طلایی شهرت پیدا کند. تلالو و درخشش روکش های طلایی بنا در ابتدای ورود چشمان بازدید کنندگان را خیره می نماید. ظرافت های بسیاری در ساخت این بنا وجود دارند که تنها بخشی از آن قابل رویت است. نمای بیرونی این بنا هم از سنگ آذرین ساخته شده است. این نوع سنگ ماهیت بسیار سختی دارد و همین امر هنر سنگ تراشی به کار رفته در بنا را ارزشمند تر می نماید. بسیاری معتقدند این کلیسا شباهت بسیاری به کلیسای سنت پیتر رم محل اقامت پاپ دارد.
Tumblr media
from http://bit.ly/2QcKTH3 via کلیسای طلایی در پایتخت اکوادور
0 notes
humlog786-blog · 6 years ago
Text
Girhan Afsana By Rajinder Singh Bedi
Tumblr media
گرہن ۔افسانہ۔ راجندر سنگھ بیدی
  روپو، شبو، کتھو اور منا۔۔۔ہولی نے اساڑھی کے کائستھوں کے چار بچے دئیے تھے اور پانچواں چند مہینوں میں جن��ے والی تھی۔ اس کی آنکھوں کے گرد گہرے، سیاہ حلقے پڑنے لگے، گالوں کی ہڈیاں ابھر آئیں اور گوشت ان میں پچک گیا۔ وہ ہولی جسے پہل پہل میا پیار سے چاند رانی کہہ کر پکارا کرتی تھی اور جس کی صحت اور سندرتاکارسیلا حاسد تھا، گرے ہوئے پتے کی طرح زرد اور پژمردہ ہو چکی تھی۔ آج رات چاند گرہن تھا۔ سرشام چاند گرہن کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے ہولی کو اجازت نہ تھی کہ وہ کپڑا پھاڑ سکے۔۔۔ پیٹ میں بچے کے کان پھٹ جائیں گے، وہ سی نہ سکتی تھی۔۔۔ منہ سلا بچہ پیدا ہو گا۔ اپنے میکے خط نہ لکھ سکتی تھی۔۔۔ اس کے ٹیڑھے میڑے حروف بچے کے چہرے پر لکھے جائیں گے اور اپنے میکے خط لکھنے کا اسے بڑا چاؤ تھا۔ میکے کا نام آتے ہی اس کا تمام جسم ایک نامعلوم جذبے سے کانپ اٹھتا۔ وہ میکے تھی تو اسے سسرال کا کتنا چاؤ تھا۔ لیکن اب وہ سسرال سے اتنی سیر ہو چکی تھی کہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔ اس بات کا اس نے کئی مرتبہ تہیہ بھی کر لیا لیکن ہر دفعہ ناکام رہی۔ اس کا میکہ اساڑھی گاؤں سے پچیس میل کے فاصلے پر تھا۔ سمندر کے کنارے ہر پھول بندر پر شام کے وقت اسٹیمر لانچ مل جاتا تھا اور ساحل کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ دو گھنٹے کی مسافت کے بعد اس کے میکے گاؤں کے بڑے مندر کے زنگ خوردہ کلس دکھائی دینے لگتے۔ آج شام ہونے سے پہلے روٹی، چوکا برتن کے کام سے فارغ ہونا تھا میا کہتی تھی گرہن سے پہلے روٹی وغیرہ کھا لینی چاہئے ورنہ ہر حرکت پیٹ میں بچے کے جسم و تقدیر پر اثر انداز ہوتی ہے۔ گویا وہ بد زیب، فراخ نتھنوں والی ہٹیلی میااپنی بہوحمیدہ بانو کے پیٹ سے کسی اکبر اعظم کی متوقع ہے۔ چار بچوں تین مردوں، دو عورتوں، چار بھینسوں پر مشتمل بڑا کنبہ اور اکیلی ہولی۔۔۔دوپہر تک تو ہولی برتنوں کا انبار صاف کرتی رہی۔ پھر جانوروں کے لئے بنولے، کھلی اور چنے بھگونے چلی۔ حتیٰ کہ اس کے کولہے درد سے پھٹنے لگے اور بغاوت پسند بچہ پیٹ میں اپنی بضاعت مگر ہولی کو تڑپا دینے والی حرکتوں سے احتجاج کرنے لگا۔ ہولی شکست کے احساس سے چوکی پر بیٹھ گئی لیکن وہ بہت دیر تک چوکی یا فرش پر بیٹھے کے قابل نہ تھی اور پھر میا کے خیال کے مطابق چوڑی چکلی چوکی پر بہت دیر بیٹھنے سے بچے کا سر چپٹا ہو جاتا ہے۔ مونڈھا ہو تو اچھا ہے۔ کبھی کبھی ہولی میا اور کائستھوں کی آنکھ بچا کر گھاٹ پر سیدھی پڑ جاتی اور ایک شکم پر کتیا کی طرح ٹانگوں کو اچھی طرح پھیلا کر جماہی لیتی اور پھر اسی وقت کانپتے ہوئے ہاتھ سے اپنے ننھے سے دوزخ کو سہلانے لگتی۔ یہ خیال کرنے سے کہ وہ سیتل کی بیٹی ہے، وہ اپنے آپ کو روک نہ سکتی تھی۔ سیتل سارنگ دیوگرام کا ایک متمول ساہوکار تھا اور سارنگ دیوگرام کے نواح میں بیس گاؤں کے کسان اس سے بیاج پر روپیہ لیتے تھے، اس کے باوجود اسے کائستھوں کو تو بچے چاہئیں، ہولی جہنم میں جائے۔ گویا سارے گجرات میں یہ کائستھ کل ودھو کا صحیح مطلب سمجھتے تھے۔ ہر سال ڈیڑھ سال بعد وہ ایک نیا کیڑا گھر میں رینگتا ہوا دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور بچے کی وجہ سے کھایا پیا ہولی کے جسم پر اثر انداز نہیں ہوتا تھا۔ شاید اسے روٹی بھی اسی لئے دی جاتی تھی کہ پیٹ میں بچہ مانگتا ہے اور اسی لئے اسے حمل کے شروع میں چاٹ اور اب پھل آزادانہ دیئے جاتے تھے۔ ’’دیور ہے تو الگ پیٹ لیتا ہے۔‘‘ ہولی سوچتی تھی۔ ’’اور ساس کے کوسنے، مار پیٹ سے کہیں برے ہیں اور بڑے کائستھ جب ڈانٹنے لگتے ہیں تو پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ ان سب کو بھلا میری جان لینے کا کیا حق ہے؟ رسیلا کی بات تو دوسری ہے۔ شاستروں نے اسے پرماتما کا درجہ دیا ہے، وہ جس چھری سے مارے اس چھری کا بھلا!۔۔۔لیکن کیا شاستر کسی عورت نے بنائے ہیں؟ اور میا کی بات ہی علیحدہ ہے۔۔۔ شاستر کسی عورت نے لکھے ہوتے تو وہ اپنی ہم جنس پر اس سے بھی زیادہ پابندیاں عائد کرتی۔۔۔‘‘ ۔۔۔راہو اپنے نئے بھیس میں نہایت اطمینان سے امرت پی رہا تھا چاند اور سورج نے وشنو مہاراج کو اس کی اطلاع دی اور بھگوان نے سدرشن سے راہو کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ اس کا سراور دھڑ دونوں آسمان پر جا کر راہو اور کیتو بن گئے۔ سورج اور چاند دونوں اس کے مقروض ہیں۔ اب وہ ہر سال دو مرتبہ چاند اور سورج سے بدلہ لیتے ہیں اور ہولی سوچتی تھی، بھگوان کے کھیل بھی نیارے ہیں۔۔۔ اور راہو کی شکل کیسی عجیب ہے۔ ایک کالا سارا کش، شیر پر چڑھا ہوا دیکھ کر کتنا ڈر آتا ہے۔ رسیلا بھی تو شکل سے راہو ہی دکھائی دیتا ہے۔ منا کی پیدائش پر ابھی چالیسواں بھی نہ نہائی تھی تو آ موجود ہوا۔۔۔کیا مجھے بھی اس کا قرضہ دینا ہے؟ اس وقت ہولی کے کانوں میں ماں بیٹے کے آنے کی بھنک پڑی۔ ہولی نے دونوں ہاتھ سے پیٹ کو سنبھالا اور اٹھ کھڑی ہوئی اور جلدی سے توے کو دھیمی دھیمی آنچ پر رکھ دیا۔ اب اس میں جھکنے کی تاب نہ تھی کہ پھونکیں مار کر آگ جلا سکے۔ اس نے کوشش بھی کی لیکن اس کی آنکھیں پھٹ کر باہر آنے لگیں۔ رسیلا ایک نیا مرمت کیا ہوا چھاج ہاتھ میں لئے اندر داخل ہوا۔ اس نے جلدی سے ہاتھ دھوئے اور منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا۔ اس کے پیچھے میا آئی اور آتے ہی بولی ’’بہو۔۔۔اناج رکھا ہے کیا؟‘‘ ہولی ڈرتے ڈرتے بولی ’’ہاں ہاں۔۔۔رکھا ہے۔۔۔نہیں رکھا، یاد آیا بھول گئی تھی میا۔۔۔‘‘ ’’تو بیٹھی کیا کر رہی ہے، نباب جادی؟‘‘ ہولی نے رحم جویانہ نگاہوں سے رسیلے کی طرف دیکھا اور بولی ’’جی، مجھ سے اناج کی بوری ہلائی جاتی ہے کہیں؟‘‘ میا لا جواب ہو گئی۔ اور یوں بھی اسے ہولی کی نسبت اس کے پیٹ میں بچے کی زیادہ پرواہ تھی۔ شاید اسی لئے ہولی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بولی۔ ’’تو نے سرمہ کیوں لگایا ہے ری؟‘‘ ۔۔۔۔رانڈ، جانتی بھی ہے آج گہن ہے جو بچہ اندھا ہو جائے تو تیری ایسی بیسوا اے پالنے چلے گی؟‘‘ ہولی چپ ہو گئی اور نظریں زمین پر گاڑے ہوئے منہ میں بڑبڑائے گئی اور سب کو ہو جائے لیکن رانڈ کی گالی اس کی برداشت سے باہر تھی۔ اسے بڑبڑاتے دیکھ کر میا اور بھی بکتی جھکتی چابیوں کا گچھا تلاش کرنے لگی۔ ایک میلے شمع دان کے قریب سرمہ پیسنے کا کھرل رکھا ہوا تھا، اس میں سے چابیوں کا گچھا نکال کر وہ بھنڈار کی طرف چلی گئی۔ رسیلے نے ایک پر ہوس نگاہ سے ہولی کی طرف دیکھا۔ اس وقت ہولی اکیلی تھی۔ رسیلے نے آہستہ سے آنچل کو چھوا۔ ہولی نے ڈرتے ڈرتے دامن جھٹک دیا اور اپنے دیور کو آوازیں دینے لگی۔ گویا دوسرے آدمی کی موجودگی چاہتی ہے۔ اس کیفیت میں مرد کو ٹھکرا دینا معمولی بات نہیں ہوتی۔ رسیلا آواز کو چباتے ہوئے بولا۔ ’’میں پوچھتا ہوں بھلا اتنی جلدی کا ہے کی تھی؟‘‘۔ ’’جلدی کیسی؟‘‘ رسیلا پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ’’یہی۔۔۔تم بھی تو کتیا ہو کتیا؟‘‘ ہولی سہم کر بولی۔ ’’تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟‘‘ ہولی نے نادانستگی میں رسیلے کو وحشی، بد چلن، ہوس راں سبھی کچھ کہہ دیا۔ چوٹ سیدھی پڑی۔ رسیلے کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ لا جواب آدمی کا جواب چپت ہوتی ہے اور دوسرے لمحے میں انگلیوں کے نشان ہولی کے گالوں پر دکھائی دینے لگے۔ اس وقت میا ماش کی ایک ٹوکری اٹھائے ہوئے بھنڈار کی طرف سے آئی اور بہو سے بدسلوکی کرنے کی وجہ سے بیٹے کو جھڑکنے لگی۔ہولی کو رسیلے پر تو غصہ نہ آیا۔ البتہ میا کی اس عادت سے جل بھن گئی۔۔۔ ’’رانڈ، آپ مارے تو اس سے بھی جیادہ، اور جو بیٹا کچھ کہے تو ہمدردی جتاتی ہے،بڑی آئی ہے۔۔۔‘‘ ہولی سوچتی تھی کل رسیلا نے اس لئے مارا تھا کہ میں نے ا سکی بات کا جواب نہیں دیا اور آج اس لئے مارا کہ میں نے بات کا جواب دیا ہے۔ میں جانتی ہوں وہ مجھ سے کیوں ناراض ہے۔ کیوں گالیاں دیتا ہے۔ میرے کھانے پکانے، اٹھنے بیٹھنے میں اسے کیوں سلیقہ نہیں دکھائی دیتا۔۔۔۔اور میری یہ حالت ہے کہ ناک میں دم آ چکا ہے۔ مرد عورت کو مصیبت میں مبتلا کر کے آپ الگ ہو جاتے ہیں، یہ مرد۔۔۔! میا نے کچھ باسمتی، دالیں اور نمک وغیرہ رسوئی میں بکھرا دیا اور پھر ایک بھیگی ہوئی ترازو میں اسے تولنے لگی۔ ترازو گیلی تھی، یہ میا بھی دیکھ رہی تھی اور جب باس متی چال پیندے سے چمٹ گئے تو بہو مرتی کرتی پھوہڑ ہو گئی اور آپ اتنی سگھڑ کہ نئے دوپٹے سے پیندا صاف کرنے لگی۔ جب بہت میلا ہو گیا تو دوپٹے کو سر پر سے اتار کر ہولی کی طرف پھینک دیا اور بولی۔ ’’لے، دھو ڈال۔‘‘ اب ہولی نہیں جانتی بچاری کہ وہ روٹیاں پکائے یا دوپٹہ دھوئے، بولے یا نہ بولے، ہلے یا نہ ہلے، وہ کتیا یا نباب جادی۔ اس نے دوپٹہ دھونے ہی میں مصلحت سمجھی۔ اس وقت چاند، گرہن کے زمرے میں داخل ہونے والا ہی ہو گا، بچہ دھلے ہوئے کپڑے کی طرح چر مڑ سا پیدا ہو گا اور اگر ماہ دو ماہ بعد بچے کا برا سا چہرہ دیکھ کر اسے کوساجائے تو اس میں ہولی کا کیا قصور ہے؟۔۔۔لیکن قصور اور بے قصوری کی تو بات ہی علیحدہ ہے کیونکہ یہ کوئی ��ننے کے لئے تیار نہیں کہ اس میں ہولی کا گناہ کیا ہے، سب گناہ ہولی کا ہے۔ اسی وقت ہولی کو سارنگ دیورام یاد آ گیا، کس طرح وہ اسوج کے شروع میں دوسری عورتوں کے ساتھ گربا ناچا کرتی تھی اور بھابی کے سرپررکھے ہوئے گھڑے کے سوراخوں میں سے روشنی پھوٹ پھوٹ کر دالان کے چاروں کونوں کو منور کر دیا کرتی تھی۔ اس وقت سب عورتیں اپنے حنا بالیدہ ہاتھوں سے تالیاں بجایا کرتی تھیں اور گایا کرتی تھیں ؛ ماہندی تو اوی مالوے انیورنگ گیوگجرات رے ماہندی رنگ لاگیورے٭ اس وقت وہ ایک اچھلنے کودنے والی الہڑ چھوکری تھی، ایک بحر و قافیہ سے آزاد نظم، جو چاہتی تھی، پورا ہو جاتا تھا، گھر میں سب سے چھوٹی تھی۔ نباب جادی تو نہ تھی اور اس کی سہیلیاں۔۔۔وہ بھی اپنے اپنے قرض خواہوں کے پاس جا چکی ہوں گی۔ سارنگ دیو گرام میں گرہن کے موقع پر جی کھول کر دان پن کیا جاتا ہے۔ عورتیں اکٹھی ہو کر تردیدی گھاٹ پر اشنان کے لئے چلی جاتی ہیں، پھول، ناریل، بتاشے سمندر بہاتی ہیں۔ پانی کی ایک اچھال منہ کھولے ہوئے آتی ہے اور سب پھول پتوں کو قبول کر لیتی ہے۔ ان گناہوں کے جن کا ارتکاب لوگ گزشتہ سال کرتے رہے ہیں اشنان سے سب پاپ دھل جاتے ہیں۔ بدن اور روح پاک ہو جاتے ہیں۔ سمندر کی لہر لوگوں کے سب گناہوں کو بہا کر دور، بہت دور، ایک نامعلوم، ناقابل عبور، ناقابل پیمائ�� سمندر میں لے جاتی ہے۔۔۔ایک سال بعد پھر لوگوں کے بدن گناہوں سے آلودہ ہو جاتے ہیں، پھر گہنا جاتے ہیں۔ پھر دریا کی ایک لہر آتی ہے اور پھر پاک و صاف۔ جب گرہن شروع ہوتا ہے اور چاند کی نورانی عصمت پر داغ لگ جاتا ہے تو چند لمحات کے لئے چاروں طرف خاموشی اور پھر رام نام کا جاپ شروع ہو جاتا ہے پھر گھنٹے، ناقوس، سنکھ ایک دم بجنے لگتے ہیں۔ اس شور و غوغا میں اشنان کے بعد سب مرد عورتیں جمگھٹے کی صورت میں گاتے بجاتے ہوئے گاؤں واپس لوٹتے ہیں۔ گرہن کے دوران غریب لوگ بازاروں اور گلی کوچوں میں دوڑتے ہیں۔ لنگڑے بیساکھیاں گھماتے ہوئے اپنی اپنی جھولیاں اور کشکول تھامے پلیگ کے چوہوں کی طرح ایک دوسرے پر گرتے پڑتے بھاگتے چلے جاتے ہیں کیونکہ راہو اور کیتو نے خوبصورت چاند کو اپنی گرفت میں پوری طرح سے جکڑ لیا ہے۔نرم دل ہندو دان دیتا ہے تاکہ غریب چاند کو چھوڑ دیا جائے اور دان لینے کے لئے بھاگنے والے بھکاری چھوڑ دو، چھوڑ دو، دان کا وقت ہے۔ چھوڑ دو کا شور مچاتے ہوئے میلوں کی مسافت طے کر لیتے ہیں۔ چاند گرہن کے زمرے میں آنے والا ہی تھا۔ ہولی نے بچوں کو بڑے کائستھ کے پاس چھوڑا۔ ایک میلی کچیلی دھوتی باندھی اور عورتوں کے ساتھ ہر پھول بندر کی طرف اشنان کے لئے چلی۔ اب میا، رسیلا، بڑا لڑکا شبو اور ہولی سب سمندر کی طرف جا رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں پھول تھے، گجرے تھے اور آم کے پتے تھے اور بڑی اماں کے ہاتھ میں رودرکش کی مالا کے علاوہ مشک کافور تھا جسے وہ جلا کر پانی کی لہروں میں بہا دینا چاہتی تھی تاکہ مرنے کے بعد سفر میں ان کا راستہ روشن ہو جائے اور ہولی ڈرتی تھی۔۔۔کیا اس کے گناہ سمندر کے پانی سے دھل جائیں گے؟ سمندر کے کنارے، گھاٹ سے پون میل کے قریب، ایک لانچ کھڑی تھی۔ وہ جگہ ہر پھول بندر کا ایک حصہ تھی، بندر کے چھوٹے سے ناہموار ساحل اور ایک مختصر سے ڈاک پر کچھ ٹینڈل غروب آفتاب میں روشنی اور اندھیرے کی کشمکش کے خلاف ننھے بے بضاعت سے خاکے بنا رہے تھے اور لانچ کے کسی کیبن سے ایک ہلکی سی ٹمٹماتی ہوئی روشنی سیماب دار پانی کی لہروں پر ناچ رہی تھی۔ اس کے بعد ایک چرخی سی گھومتی ہوئی دکھائی دی۔ چند ایک دھندلے سے سائے ایک اژدھا نمارسے کو کھینچنے لگے۔ آٹھ بجے اسٹیمر لانچ کی آخری سیٹی تھی۔ پھر وہ سارنگ دیو گرام کی طرف روانہ ہو گا۔ اگر ہولی اس پر سوار ہو جائے تو پھر ڈیڑھ دو گھنٹے میں وہ چاندنی میں نہاتے ہوئے گویا صدیوں سے آشنا کلس دکھائی دینے لگیں۔۔۔اور پھروہی اماں۔۔۔کنوارپن اور گربا ناچ! ہولی نے ایک نظر سے شبو کی طرف دیکھا۔شبو حیران تھا کہ اس کی ماں نے اتنی بھیڑ میں جھک کر اس کا منہ کیوں چوما اور گرما گرما قطرہ کہاں سے اس کے گالوں پر آ پڑا۔ اس نے آگے بڑھ کر رسیلے کی انگلی پکڑ لی۔ اب گھاٹ آ چکا تھا جہاں سے مرد اور عورتیں علیحدہ ہوتی تھیں۔ ہمیشہ کے لئے نہیں، فقط چند گھنٹوں کے لئے۔۔۔اسی پانی کی گواہی میں وہ اپنے مردوں سے باندھ دی گئی تھیں۔ پانی بھی کیا پراسرار و بعید الفہم طاقت ہے۔ اور دور سے لانچ کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی ہولی تک پہنچ رہی تھی۔ ہولی بھاگنا چاہا مگر وہ بھاگ بھی تو نہ سکتی تھی۔ اس نے اپنی ہلکی سی دھوتی کو کس کر باندھا۔۔۔دھوتی نیچے کی طرف ڈھلک جاتی تھی۔ آدھ گھنٹے میں وہ لانچ کے سامنے کھڑی تھی۔ لانچ کے سامنے نہیں۔۔۔سارنگ دیو گرام کے سامنے۔۔۔وہ کلس، مندر کے گھنٹے، لانچ کی سیٹی، اور ہولی کو یاد آیا کہ اس کے پاس تو ٹکٹ کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ وہ کچھ عرصے تک لانچ کے ایک کونے میں بدحواس ہو کر بیٹھی رہی۔ پونے آٹھ کے قریب ایک ٹینڈ آیا اور ہولی سے ٹکٹ مانگنے لگا۔ ٹکٹ نہ پانے پر وہ خاموشی سے وہاں سے ٹل گیا۔ کچھ دیر بعد ملازموں کو سرگوشیاں سنائی دینے لگیں۔۔۔پھر اندھیرے میں خفیف سے ہنسنے اور باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لوئی کوئی لفظ ہولی کے کان میں بھی پڑ جاتا۔۔۔مرغی۔۔۔ دولے۔۔۔چابیاں میرے پاس ہیں۔۔۔پانی زیادہ ہو گا۔۔۔ اس کے بعد چند وحشیانہ قہقہے بلند ہوئے اور کچھ دیر بعد تین چار آدمی ہولی کو لانچ کے ایک تاریک کونے کی طرف دھکیلنے لگے۔ اسی وقت آبکاری کا ایک سپاہی لانچ میں وارد ہوا، عین جب کہ دنیا ہولی کی آنکھوں میں تاریک ہو رہی تھی، ہولی کی امید کی ایک شعاع دکھائی دی۔ وہ سپاہی سارنگ دیوگرام کا ہی ایک چھوکرا تھا اور میکے کے رشتے سے بھائی تھا۔ چھ سال ہوئے وہ بڑی امنگوں کیساتھ گاؤں سے باہر نکلا تھا اور سابرمتی پھاند کر کسی نامعلوم دیس کو چلا گیا۔ کبھی کبھی مصیبت کے وقت انسان کے حواس بجا ہو جاتے ہیں۔ ہولی نے سپاہی کو آواز سے پہچان لیا۔ اور کچھ دلیری سے بولی۔ ’’کتھو رام۔‘‘ کتھو رام نے بھی سیتل کی چھوکری کی آواز پہچان لی۔ بچپن میں وہ اس کے ساتھ کھیلا تھا۔ کتھو رام بولا۔ ’’ہولی۔‘‘ ہولی یقین سے معمور مگر بھرائی ہوئی آواز میں بولی ’’کتھو بھیا۔۔۔مجھے سارنگ دیوگرام پہنچا دو۔‘‘ کتھو رام قریب آیا۔ ایک ٹینڈ�� کو گھورتے ہوئے بولا۔ ’’سارنگ دیو جاؤ گی ہولی؟‘‘ اور پھر سامنے کھڑے ہوئے آدمی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔ ’’تم نے اسے یہاں کیوں رکھا ہے بھائی؟‘‘ ٹینڈل جو سب سے قریب تھا بولا۔ ’’بچاری کوئی دکھیا ہے۔ اس کے پاس تو ٹکٹ کے پیسے بھی نہیں تھے۔ ہم سوچ رہے تھے، ہم اس کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟‘‘ کتھو رام نے ہولی کو ساتھ لیا اور لانچ سے نیچے اتر آیا۔ ڈاک پر ڈاک قدم رکھتے ہوئے بولا۔ ’’ہولی۔۔۔کیا تم اساڑھی سے بھاگ آئی ہو؟‘‘ ’’ہاں ‘‘۔ ’’یہ سریپھ جادیوں کا کام ہے؟۔۔۔اور جو میں کائستھوں کو خبر کر دوں تو۔‘‘ ہولی ڈر سے کانپنے لگی۔ وہ نہ تو نباب جادی تھی او ر نہ سریپھ جادی۔ اس جگہ اور ایسی حالت میں وہ کتھو رام کو کچھ کہہ بھی نہ سکتی تھی۔ وہ اپنی کمزوری کو محسوس کرتی ہوئی خاموشی سے سمندر کی لہروں کے تلاطم کی آوازیں سننے لگی۔ پھر اس کے سامنے لانچ کے رسے ڈھیلے کئے گئے۔ ایک ہلکی سی وسل ہوئی اور ہولے ہولے سارنگ دیوگرام ہولی کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس نے ایک دفعہ پیچھے کی جانب دیکھا۔ لانچ کی ہلکی سی روشنی میں اسے جھاگ کی ایسی لمبی سی لکیر لانچ کا پیچھا کرتی ہوئی دکھائی دی۔ کتھو رام بولا ’’ڈرو نہیں ہولی۔۔۔ میں تمہاری ہر ممکن مدد کروں گا۔ یہاں سے کچھ دور ناؤ پڑتی ہے۔ پو پھٹے لے چلوں گا۔ یوں گھبراؤ نہیں۔ رات کی رات سرائے میں آرام کر لو۔‘‘ کتھو رام ہولی کو سرائے میں لے گیا۔ سرائے کا مالک بڑی حیرت سے کتھو رام اور اس کے ساتھی کو دیکھتا رہا۔ آخر جب وہ نہ رہ سکا تو اس نے کتھو رام سے نہایت آہستہ آواز میں پوچھا۔ ’’یہ کون ہیں؟‘‘ کتھو رام نے آہستہ سے جواب دیا۔ ’’میری پتنی ہے۔‘‘ ہولی کی آنکھیں پتھرانے لگیں۔ ایک دفعہ اس نے اپنے پیٹ کو سہارا دیا اور دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گئی۔ کتھو رام نے سرائے میں ایک کمرہ کرائے پر لیا۔ ہولی نے ڈرتے ڈرتے اس کمرے میں قدم رکھا۔ کچھ دیر بعد کتھو رام اندر آیا تو اس کے منہ سے شراب کی بو آ رہی تھی۔۔۔ سمندر کی ایک بڑی بھاری اچھال آئی۔ سب پھول، بتاشے، آم کی ٹہنیاں،گجرے اور جلتا ہوا مشک کافور بہا کر لے گئی۔ اس کے ساتھ ہی انسان کے مہیب ترین گناہ بھی لیتی گئی، دور، بہت دور، ایک نامعلوم، ناقابل عبور، ناقابل پیمائش سمندر کی طرف۔۔۔جہاں تاریکی ہی تاریکی تھی۔۔۔پھر سنکھ بجنے لگے۔ اس وقت سرائے میں سے کوئی عورت نکل کر بھاگی، سرپٹ، بگٹٹ۔۔۔وہ گرتی تھی، بھاگتی تھی، پیٹ پکڑ کر بیٹھ جاتی، ہانپتی اور دوڑنے لگتی۔۔۔اس وقت آسمان پر چاند پورا گہنا چکا تھا۔ راہو اور کیتو نے جی بھر کر قرضہ وصول کیا تھا۔ دو دھندلے سے سائے عورت کی مدد کے لئے سراسیمہ ادھر ادھر دوڑ رہے تھے۔۔۔چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا اور دور، اساڑھی سی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔ دان کا وقت ہے۔۔۔چھوڑ دو۔۔۔چھوڑ دو۔۔۔چھوڑ دو۔۔۔۔ ہر پھول بندر سے آواز آئی۔پکڑ لو۔۔۔پکڑ لو۔۔۔۔پکڑ لو۔۔۔ چھوڑ دو۔۔۔دان کا وقت ہے۔۔۔پکڑ لو۔۔۔چھوڑ دو!! ۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ Read the full article
0 notes