Tumgik
#چگنی
efshagarrasusblog · 5 months
Text
انتشار ۵ مرکز سرکوب اطلاعاتی نظام پلید آخوندی قسمت ۲۲۱
‼️#راسویاب افشاء میکند : انتشار ۵ مرکز سرکوب اطلاعاتی نظام پلید آخوندی قسمت ۲۲۱ ۱۱۲۶- فرماندهی نیروی انتظامی شهرستان امیدیه۱۱۲۷- فرماندهی انتظامی شهرستان شوشتر۱۱۲۸- فرماندهی انتظامی شهرستان خرم آباد۱۱۲۹- فرماندهی انتظامی استان لرستان خرم آباد۱۱۳۰- فرماندهی انتظامی شهرستان دوره چگنی لطفا همه مراکز و اماکن سرکوب نظام پلید آخوندی را به راسویاب معرفی کنید . جمعه ۳۱ فروردین…
View On WordPress
0 notes
ghazalifarooq-blog · 4 years
Text
@import url('https://fonts.googleapis.com/css2?family=Scheherazade&display=swap');
انکار حدیث    کا فتنہ
 سنت سے مراد رسول اللہ ﷺ کا قول، فعل یا اقرار ہے۔  اور حدیث اسی سنت کی روایت ہے جو ہم تک محدثین کے ذریعے پہنچی ہے۔سنت  سے انکار کا فتنہ کوئی نیا نہیں۔ کبھی یہ فتنہ سنت کے ماخذ شریعت  ہونے سے انکار  کی صورت میں سامنے آتا ہے تو کبھی حدیث پر شبہات اٹھائے جانے کی صورت میں، جو کہ خود سنت کا ایک بہت بڑا ماخذ ہے۔ چونکہ سنت   قرآن کریم کے مبین کی تبیین،  مجمل  کی تفصیل،   عموم کی تخصیص، مطلق کی تقیید اور محتمل کی تعیین  (یعنی احتمال کا تعین) کرنے والی ہے  ، تو  بعض لوگوں  کا   مختلف ادوار میں  یہ شیوہ رہا ہے کہ یا تو سنت کے وحی ہونے کی حیثیت  سے ہی انکار کر دیا جائے  یا اگر یہ نہیں تو     حدیث کو غیر معتبر اور نا قابل اعتماد ٹھہرانے کی کوشش کی جائے ۔  اور یہ سب اس لئے کہ    قرآن کریم کی من مانی تاویل کی جا سکے ۔
 مسلمانوں کی  چودہ سو سالہ تاریخ پر نظر دوڑانے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دراصل   بیرونی تہذیب  و افکار سے مرعوبیت  ہی قرآن کریم کی یوں من مانی تاویل  کا محرک   بنی ہے اور یہی     پھر انکار سنت یا انکار  حدیث پر بھی   منتج ہوئی ہے۔
 مسلمانوں میں سے سب سے پہلے جنہوں نے  اخبار آحاد   پر اعتراضات اٹھا کر  تمام احادیث کا عمومی طور پر انکار کیا وہ معتزلہ تھے۔  اس کی وجہ بھی  ان کی اغیار کے فلسفے سے مرعوبیت بنی اور آج بھی  جب ایسا ہوتا ہے تو اس کی وجہ بھی  غیر اسلامی  افکار و تہذیب سے مرعوبیت ہی  بنتی ہے۔لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ جب یونانی فلسفہ مسلمانوں میں متعارف ہوا  تو مسلمانوں میں سے بعض نے منطق کو اصل الاصول قرار دے دیا  ۔ لیکن چونکہ   اسلام بھی ان کے مطابق دین برحق تھا تو انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اسلام وہ ہے جو منطق کے مطابق ہو اور جو منطق کے مطابق نہ ہو وہ اسلام نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا انہوں نے اسلام سے منسلک ہر شے کو  اپنی عقل  کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دیا چاہے اس کا تعلق     عقائد کی اس قسم  سے ہی  کیوں نہ ہو جن پر ایمان لانا ایمان بالغیب کے قبیل سے ہے یا چاہے ان کا تعلق شرعی احکام سے  ہی کیوں نہ ہو۔
 یہ بیرونی فلسفہ کی مرعوبیت ہی تھی  جس کا  نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کریم کی آ یات کی اس   مبنی بر منطق فلسفہ کے  مطابق تاویل کرنے اور اس سے متعارض احادیث  کا مجموعی طور پر  انکار کرنے  سے بھی گریز نہ کیا گیا۔     لیکن  چونکہ اس وقت اسلام اور مسلمانوں کو دنیا میں  پہلے سے ہی عروج اور  غلبہ حاصل تھا ،    مسلمانوں کو عمومی طور پر اس طرز فکر کو اختیار کرنے کی کوئی خاص  ضرورت   محسوس نہ  ہوئی   اور وہ مسلمانوں کے اذہان میں بہت زیادہ سرایت نہ کر  سکا باوجود اس کے کہ اس نظریہ کو بعض خلفا کے ادوار میں  ایک مضبوط حمایت بھی حاصل رہی۔  پھر    اس وقت مسلمانوں کو  عربی زبان پر دسترس  اور دینی نصوص کی درست  فہم بھی  حاصل تھی  ۔ لہٰذا معتزلہ  اور ان جیسے  دیگر گروہوں  کے    گمراہ کن افکار   مسلمانوں میں  زیادہ شہرت حاصل نہ کر  سکے۔
 انکار حدیث کا دوسرا بڑا فتنہ جو مسلمانوں میں پیدا ہوا وہ خلافت عثمانیہ  کے انہدام سے کچھ عرصہ پہلے ہوا جب مسلمان فکری طور پر تنزلی کا شکار ہو چکے  تھے اور اب اس کے اثرات ان کے   سیاسی حالات پر بھی پوری طرح  سے نمایاں تھے۔ چونکہ اب کا یہ فتنہ اس دور میں پیدا   ہوا جب مسلمان اسلام کی زبان یعنی عربی اور اسلام کے درست فہم سے کوسوں دور جا چکے تھے  ،تو اس کو پنپنے  کا موقع بھی ملا۔ مسلمانوں کی اس تنزلی اور ابتر حالت کے پیش نظر مسلم مفکرین نے مسلمانوں کی احیا کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ مسلم مفکرین کے درمیان اس مسٔلہ پر دو گروہ ہو ئے۔ بعض نے یہ کہا کہ مغرب سے جو کچھ بھی آئے گا اس کو قابل اعتناء نہ سمجھا جائے گا چاہے وہ مغرب کے سائنسی علوم ہی کیوں نہ ہوں جن میں مغرب اپنے صنعتی  انقلاب کے بعد دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا تھا یا پھر مغرب کی زبانیں جیسا کہ انگریزی، فرانسیسی وغیرہ ۔  جبکہ  دوسرا گروہ ان مفکرین پر مشتمل تھا جنہوں نے مغربی افکار و تہذیب کی یلغار کی تاب نہ لاتے ہوئے  اسی میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کو پنہاں سمجھا۔   انہوں نے اس بات پر زور دیا  کہ مسلمانوں کی تنزلی کی وجہ ہی دراصل  یہ ہے کہ مسلمان   اپنے آپ کو مغرب  کے ہاں نشاۃ ثانیہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نظریات سے ہم آہنگ نہیں رکھ سکے  جن میں جمہوری نظام سیاست، سرمایہ دارانہ نظام معیشت ، انسانی حقوق، حقوق نسواں اور انسانی آزادیوں جیسے افکار شامل تھے جو مغرب کے ہاں اب مسلمات کی حیثیت حاصل کر چکے  تھے۔ مغربی  تہذیب و افکار کے  اختیار کرنے کو مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ جوڑا جانا اس فکر کی مقبولیت کا باعث بھی بنا۔ مسلمانوں کی بگڑتی ہوئی  حالت کے پیشِ نظر اور  مغرب کے مذہب پر بالعموم اور اسلام پر بالخصوص بڑھتے ہوئے نظریاتی حملوں اور اعتراضات کو  دیکھتے ہوئے   مسلمانوں  میں سے سب سے پہلے  سر سید احمد خان   بہادر صاحب (م ۱۸۹۸  ء)   میدان میں اترے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا   کہ اس سب کے جواب میں  اسلام کے عقیدہ کو عقل سے ثابت کر کے اسلام کی صداقت  کی ترویج کی جاتی ، اور  اس کے ساتھ ساتھ مغربی افکار کی کمزوریوں سے پردہ فاش کرتے ہوئے ان کا رد کیا جاتا اور نتیجتاً اسلام  کو کفار کی آئیڈیولوجی     کی نسبت ایک بہتر اور  برتر آئیڈیولوجی     کے طور پر پیش کیا جاتا،      انہوں نے معذرت خواہانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے   مضامین کا ایک سلسلہ قلمبند  کیا جو " خطبات احمدیہ" کے نام سے شائع ہوا، جس میں  انہوں اسلام کو ان تمام نام نہاد  "الزامات "سے پاک کرنے کی کوشش کی جو مغرب نے اپنے نئے مسلمات کے تناظر میں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ پر عائد کیے  تھے۔ اس کے علاوہ سرسید صاحب نے علمی میدان میں اور بھی بہت سے کام کئے۔ انہوں نے قرآن کریم کی تفسیر بھی لکھنا شروع کی جو وہ صرف پہلی ۲۰ سورتوں تک ہی  لکھ پائے ۔
 سر سید کے  علاوہ اِن کے ہی  ایک ہم عصر چراغ علی  صاحب (م۱۸۹۵ء) بھی اسلام کے" دفاع "میں پیش پیش رہے۔ انہوں نےجہاد پر انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھ کر یہ ثابت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی کوئی بھی جنگ اقدامی نہیں تھی بلکہ اسلام تو ایک بے ضرر   مذہب  ہے اور یہ صرف دفاع کے طور پر تلوار اٹھانے کی حمایت کرتا ہے۔ اس کتاب کا  اردو ترجمہ " تحقیق الجہاد " کے نام سے ہوا۔ اس  کتاب کے سرورق پر لکھا ہے :" جس میں  یورپین مصنفین کے اس اعتراض کے جواب میں کہ مذہب اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے ، قرآن حدیث و فقہ  اور تاریخ سے نہایت عالمانہ اور محققانہ طور پر ثابت کیا ہے کہ جناب پیغمبر اسلام صلعم کے تمام غزوات و سرایا دفاعی تھے اور ان کا یہ مقصد ہر گز نہ تھا کہ غیر مسلموں کو بزور شمشیر مسلمان کیا جائے ، بلکہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام مجبوراً صرف مدافعت کرتے تھے" [۱](چراغ علی، تحقیقی الجہاد، ص۱)
  عصر حاضر کے ایک منکر حدیث  رحمۃ اللہ طارق نے اس جدو جہد میں  سر سید اور چراغ علی کے اس  ساتھ کی "دو یار غار " کہہ کر  تحسین فرمائی ہے۔  وہ سر سید کو موسیٰ ؑ اور امام ابو حنیفہ جبکہ  چراغ علی کو ہارون ؑ اور قاضی ابو یوسف سے تشبیہ دیتے ہوئے اپنی کتاب "دانشوران قرآن " میں لکھتے ہیں:
"کہتے ہیں کہ اگر قاضی ابو یوسف نہ ہوتے تو امام ابو حنیفہ کی فکر عام نہ ہوتی۔  یہ اگر مبالغہ نہیں  تو میں کہوں گا کہ اگر اعظم یا ر جنگ (جس سے چراغ علی کا تعلق تھا) کے منفرد  نوعیت کے استدلالات  سر سید کی حمایت میں نہ ہوتے تو ممکن تھا سید جاہلوں (یعنی  روائیتی مسلمانوں )  کا تنہا مقابلہ نہ کر سکتے  لیکن (بلا شبہ) اللہ نے ہند کے موسیٰ احمد خان کو چراغ علی جیسا ہارون معاون دے کر اپنی سنت کا یہاں بھی اعادہ کیا ہے "[۲]۔
 ان کے بعد سید امیر علی  (م ۱۹۲۸ء)کا نام سب سے زیادہ روشن ہے۔ رحمۃ اللہ طارق صاحب خود بھی لکھتے ہیں کہ :" سر سید اور چراغ علی کے بعد اسلام کا سب سے زیادہ دفاع کرنے والے سید امیر علی "[۳] ۔ ان تمام حضرات   نے اسلام کے  ان نظریات سے دستبردار ی کا اعلان کیا  جو مغرب کے نئے عقلی معیار پر پورا نہیں اترتے تھےمثلاً مسلمانوں کا اقدامی جہاد کرنا،  رجم کی سزا، مرتد کی سزا، توہین رسالت کی سزا، رسول اللہ ﷺ کے معجزات، فرشتوں کی ہئیت، جنت و دوزخ کی ہئیت،  رسول اللہ ﷺ کے  متعدد نکاح،  حضرت عائشہ ؓ کی کمسنی کی  شادی، عام مسلمانوں کے لئے  ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہونا  ،  ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کے برابر ہونا  ، عورت کو حکمرانی کا اختیار نہ ہونا، عورت کا حجاب وغیرہ، ان سب سے  اسلام کی دست برداری کا اعلان کیا گیا۔ اب ان میں سے جو احکام قرآن سے ثابت تھے ان کی من مانی تاویل کر لی گئی اور جو احکام حدیث سے ثابت تھے اور تاویل کے متحمل نہیں تھے، ان احادیث کو ہی رد کر دیا گیا اس سے قطع نظر کے وہ احادیث محدثین و فقہائے کرام کے ہاں مقبول و معروف  اور زیر استدلال تھیں۔
  معتزلہ کے بعد یہ دوسرا بڑا فتنہ تھا   جو بیرونی افکار کو اسلام سے ثابت کرنے کے لئے اور اسلام کو ایسے افکار سے  پاک کرنے کے لئے جو بیرونی  فکر سے  ہم آہنگ نہ ہوں ، معرض وجود میں آیا کہ جو پھر سنت و حدیث  کی تحفیف و تحقیر پر منتج بھی ہوا۔خود   اس دور  کے منکرین حدیث بھی معتزلہ کے انکار حدیث کو بہت  اونچی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ رحمۃ اللہ طارق صاحب لکھتے ہیں: "معتزلہ کا ماخذ معلوم کرنے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ اول و آخر قرآن پاک ہے۔وہ بلند پایہ محقق تھے۔ سکالر تھے۔ درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔ قرآنی الفاظ کے مزاج سے بحث کرتے اور عقائد و احکام میں قرآن کی عمومی پالیسی کو مد نظر رکھتے ۔ بلکہ گہرائی میں جا کر دیکھئے تو ��حابہ کرام  ؓ کے ہاں بھی ان کا موقف اساس رکھتا ہے" [۴]۔
 لیکن معتزلہ اور اس دوسرے دور میں انکار حدیث ابھی تک  انکار سنت کے طور پر نہیں ابھرا تھا۔ بلکہ سنت کی تشریعی حیثیت کا اقرار کرتے ہوئے صرف اخبار آحاد کی حد تک ہی انکار موجود تھا۔  اور اخبار آحاد کا انکار بھی  بعض اوقات  ہماگیر ہونے کی بجائے جزوی تھا خصوصی طور پر اس دوسرے دور میں  یہ صرف  ان احادیث تک محدود تھا  جن کے صحیح ترین ہونے کے باوجود ان کو مغربی فکر سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث   رد کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔  ا س دور کے بعد انکار حدیث کے  تیسرے دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ یہ دور تیسرے دور کا ہی ایک تسلسل تھا لیکن اس میں احادیثِ آحاد  تو کجا سنت کی تشریعی حیثیت سے ہی انکار کر دیا گیا۔  ان مفکرین میں عبد اللہ چکڑالوی، اسلم جے راج پوری (م ۱۹۵۵ ء)، خواجہ احمد الدین، عنایت اللہ مشرقی (م ۱۹۶۳ء)، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، غلام احمد پرویز (م ۱۹۸۵ء) اور ڈاکٹر  سید عبد الودود (م۲۰۰۱ء) کے نام سر فہرست ہیں۔  
 عبد اللہ چکڑالوی صاحب  نے منکرین حدیث پر مشتمل " اہل قرآن" کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد بھی رکھی۔  چکڑالوی صاحب بھی سرسید کی طرح   قرآن کریم کی تفسیر لکھنے بیٹھے لیکن ۱۳ سورتوں سے اوپر نہ لکھ سکے۔ اپنی تفسیر کے تعارف " ترجمۃ القرآن " میں  ایک جگہ پر وہ لکھتے ہیں :" جس طرح شرک موجبِ عذاب ہے اسی طرح  شرک فی الحکم یعنی دین میں اللہ کے حکم کے سوا اور کسی کا حکم ماننا بھی اعمال کا باطل کرنے والا، باعثِ ابدی و دائمی عذاب ہے۔ افسوس شرک فی الحکم میں آجکل اکثر لوگ مبتلا ہیں " [۵]۔ یہاں چکڑالوی صاحب کی  " دین میں اللہ کے حکم کے سوا اور کسی کا حکم ماننا " سے مراد سنت ہے۔
  سرسید اور چکڑالوی صاحب کے بر عکس خواجہ احمد الدین صاحب البتہ قرآن کی پوری تفسیر لکھ پائے۔  ان کے علاوہ غلام احمد پرویز صاحب نے اپنی لاتعداد کتب کے علاوہ " مفہوم القرآن" کے نام سے قرآن کا بامحاورہ ترجمہ لکھا جس میں وہ قوسین میں اپنے  نایاب افکار بھی ساتھ ساتھ قلمبند کرتے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پرویز صاحب"  طلوع اسلام" کے نام سے ایک جماعت کے بانی بھی ہیں ۔ یہ جماعت  آج بھی قرآن کی محض  عقل اور عربی لغت کے تحت افہام و تفہیم کا کام بڑے زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔   ان کے علاوہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب کی ایک اسلام، دو اسلام اور دو قرآن کے نام سے کتب بہت مشہور ہوئیں۔ان  تمام اصحاب  کی کتب سے  مغرب  کی مرعوبیت سے عیاں ہے ۔ مثال کے طور پر برق صاحب " ایک اسلام " میں  ایک جگہ پر انگریزوں کے بارے میں  فرماتے ہیں: "یہاں  آپ کی آنکھوں کے سامنے اللہ کے تمام انعامات سے( انگریز) لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ سلطنت اس کی علم اس کا،فضائیں اس کی ہوائیں اس کی، باغ اس کے  نہریں اس کی، دانش اس کی حکمت اس کی ۔ اگر کل کو اللہ اس کی آخرت بھی سنوار دے تو آپ اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں"[6]۔معلوم پڑتا ہے کہ  برق صاحب  کفار کی دنیاوی شان و شوکت کو دیکھتے ہوئے ان کی  اخروی کامیابی  کے بھی قائل تھے۔ پھر "دو اسلام " میں  ایک مقام پر لکھتے ہیں:"متقین کا مصدر ہے تقویٰ جس کے معنی ہیں حفاظت، بچاؤ ، ڈیفنس، یعنی متقی لوگ وہ ہیں جن کا ڈیفنس مضبوط ہو، جن کی سرحدیں مستحکم ہوں، جو  عسکری طاقت کے مالک ہوں اور جن کا کردار اتنا بلند ہو کہ ان پر کسی قسم کا حملہ نہ کیا جا سکے"[۷]۔ یہاں بھی اشارہ انگریز کی طرف ہی ہے۔ لیکن برق صاحب کو  ایک طویل عرصے بعد  سنت و حدیث   کی اہمیت کا اندازہ ہونا شروع ہو ہی گیا   جس کا اعتراف انہوں نے  " دو اسلام " میں اس باب کے تحت کیا  کہ " صحیح احادیث کو ماننا پڑے گا"۔ اور پھر اس کے بعد  " تاریخ حدیث "کے نام سے کتاب  لکھ کر اپنے انکار حدیث کی عملی اعتبار سے تلافی کی ۔ خود اس کتاب میں وہ  " میری سابقہ تحریریں" کے نام سے عنوان باندھ کر  اس بات کا اعتراف اس انداز میں کرتے ہیں:"جو لوگ اس موضوع پر میری  پہلی تحریروں سے آشنا ہیں، وہ یقینا ً یہ اعتراض کریں گے کہ میرا موجودہ موقف پہلے موقف سے متصادم ہو رہا ہے ۔ ان کی خدمت میں گذارش ہے کہ انسانی فکر ایک متحرک چیز ہے جو کسی ایک مقام پر مستقل قیام نہیں کرتی اور سدا خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہے ۔ جس دن فکرِ انسان کا یہ ارتقاء رک جائے گا ، علم کی تمام راہیں مسدود ہو جائیں گی۔۔۔انسان صداقت تک پہنچتے پہنچتے سو بار گرتا ہے ۔ میں بھی بارہا گرا اور پھر ان راہوں پر ڈال دیا (گیا)  جو صحیح سمت کو جا رہی تھیں" [۸]۔
  جب روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا اور اس کا اثر بر صغیر پاک و ہند میں بھی  محسوس ہوا  تو منکرین حدیث میں سے بعض نے اس سے مرعوبیت میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ لہٰذا مغرب نوازی کے ساتھ ساتھ روس  نوازی نے بھی منکرین حدیث کے ہاں  اپنی  جگہ بنائی۔اسلم جے راج پوری  صاحب کو بھی ایسے ہی  روس زدگان   میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ وہ روس کے مظالم کا دفاع کرتے ہوئے   " نواردات" میں فرماتے ہیں:"اس میں  شک نہیں کہ اس زمانہ میں سویت روس میں اہل مذاہب اور مسلمانوں پر مظالم ہوتے ہیں لیکن جو لوگ قرآنی زاویۂ نگاہ رکھتے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ عالم میں جو کچھ حرب و ضرب، شورش و انقلاب، تغیر و تبدل ہو رہا ہے وہ سب تکمیل دین اور اتمام نور کے لئے ہو رہا ہے اور اسلام کے واسطے زمین  تیار کی جا رہی ہے کیونکہ انسانیت کو ایک نہ ایک دن ان حقائق ثابتہ پر پہنچنا  لازمی ہے" [۹]۔پھر ان مظالم کو اسلام سے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"ملت روسیہ نے بھی اسلام کے دور اول کا کام کیا اور زیادہ سختی کے ساتھ کیا۔ کیونکہ تاج کے ساتھ تمام تعلقات، نوابی، جاگیر داری ، زمینداری اور ہر قسم کی سرمایہ داری کو بھی ختم کر دیا۔ یہی نفی لا ہے جو اسلام کا اولین قدم اور اس کے کلمہ کا پہلا حرف ہے"[۱۰]۔یعنی روس نوازی کی یہ حد  تھی کہ روس کے مظالم کو بر حق اور اسلام  سے مشابہہ قرار دیا  گیا حالانکہ اسلام نے کبھی غیر مسلم شہریوں کو جبراً اپنا مذہب چھوڑنے اور اسلام کا مذہب اختیار کرنے پر مجبور  نہیں کیا۔
 انکار حدیث کے فتنے کے اس تیسرے دور نے سب سے زیادہ مضحکہ خیز تاویلات کو جنم دیا۔ اور ایسا ہونا متوقع بھی تھا کیونکہ جب سنت کی تشریعی حیثیت سے  ہی انکار کر دیا جائے تو پھر قرآن کے احکامات  ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں محض ایک   کھیل تماشہ بن کر رہ  جاتے ہیں  کہ جس کو جو سوجھے وہ اس سے ویسا ہی مطلب نکال لے۔اس کی ایک مثال وہ آیت ہے جس میں  اللہ تعالیٰ نے  نماز کو  قصر  کرنے کا حکم  دیا ہے۔  اب منکرین حدیث کو  مسٔلہ یہ درپیش ہوا ہے کہ نماز وں کی رکعات کا ذکر تو قرآن میں ہے  نہیں اور  صرف  سنت سے ہی ثابت ہے  جو ان کے مطابق    شریعت نہیں تو پھر اس آیت کے مطابق   نماز کو  کس طرح سے مختصر کیا جائے۔ اس  سلسلہ میں   اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:
 وَإِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ أَن تَقۡصُرُواْ مِنَ ٱلصَّلَوٰةِ إِنۡ خِفۡتُمۡ أَن يَفۡتِنَكُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْۚ إِنَّ ٱلۡكَٰفِرِينَ كَانُواْ لَكُمۡ عَدُوّٗا مُّبِينٗا ١٠١ وَإِذَا كُنتَ فِيهِمۡ فَأَقَمۡتَ لَهُمُ ٱلصَّلَوٰةَ فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَةٞ مِّنۡهُم مَّعَكَ وَلۡيَأۡخُذُوٓاْ أَسۡلِحَتَهُمۡۖ فَإِذَا سَجَدُواْ فَلۡيَكُونُواْ مِن وَرَآئِكُمۡ وَلۡتَأۡتِ طَآئِفَةٌ أُخۡرَىٰ لَمۡ يُصَلُّواْ فَلۡيُصَلُّواْ مَعَكَ وَلۡيَأۡخُذُواْ حِذۡرَهُمۡ وَأَسۡلِحَتَهُمۡۗ ۔۔۔ ١٠٢ فَإِذَا قَضَيۡتُمُ ٱلصَّلَوٰةَ فَٱذۡكُرُواْ ٱللَّهَ قِيَٰمٗا وَقُعُودٗا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمۡۚ فَإِذَا ٱطۡمَأۡنَنتُمۡ فَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَۚ إِنَّ ٱلصَّلَوٰةَ كَانَتۡ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ كِتَٰبٗا مَّوۡقُوتٗا ١٠٣(النسا ۱۰۱ تا ۱۰۲)
ترجمہ: ﴿۱۰۱﴾ اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کرکے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بےشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔ ﴿۱۰۲﴾ اور (اے پیغمبر) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے, جب وہ سجدہ کرچکیں تو پرے ہو جائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے۔۔۔  ﴿۱۰۳﴾ پھر جب تم نماز تمام کرچکو تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حالت میں) خدا کو یاد کرو پھر جب خوف جاتا رہے تو (اس طرح سے) نماز پڑھو (جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو) بےشک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔
 ان آیات کی تفسیر میں منکرین حدیث میں سے ایک "مجتہد" عبد اللہ چکڑالوی صاحب لکھتے ہیں:"قصر صلوٰۃ کے مذکورہ بالا حکم اور اسکی صحیح عملی شکل پیش کر کے قرآن کریم نے ببانگ دہل اعلان کر رکھا ہے کہ اصلی صلوٰۃ جو اللہ تعالیٰ کیطرف سے فرض کیگئی ہے  وہ صرف دو رکعت ہے۔ فرض نماز کے نام سے کسی وقت پر دو، کسی وقت پر تین اور کسی وقت پر چار رکعتوں کا حکم قرآن حکیم میں  موجود نہیں"۔پھر اپنے اس دعوے کے بعد اس کی دلیل جو چکڑالوی صاحب پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے:" کیونکہ جب قصر صلوٰۃ کی عملی صورت کی ابتداء بتائی گئی ہے قیام، (اور) اسکی انتہاء بتائی گئی ہے سجدہ ،تو ثابت ہوا کہ پوری نماز دو رکعت ہے" [۱۱]۔
 چکڑالوی صاحب کا استدلال کچھ یوں ہے   کہ جو اللہ تعالیٰ نے  قصر نماز کے بارے میں فرمایا  کہ : فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَةٞ مِّنۡهُم مَّعَكَ (یعنی ایک جماعت تمہارے ساتھ کھڑی رہے) اور پھر فرمایا: فَإِذَا سَجَدُواْ (یعنی پھر جب وہ سجدہ کر لیں) تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قصر نماز قیام سے سجدہ تک ہے یعنی  ایک رکعت ہے ۔ جس سے چکڑالوی صاحب کے مطابق یہ  ثابت ہوا کہ اصل نماز چاہے جس وقت کی بھی ہو وہ صرف  دو رکعت ہے نہ کی دو، تین یا چار۔ لیکن چکڑالوی صاحب  شاید یہ بھول گئے کہ قصر نمازکرنے  کے لئے جو    تَقۡصُرُواْ کا لفظ آیا ہے اس سے مراد ہے " مختصر کرو " یا " چھوٹا کرو"ْ۔ اس سے یہ مراد  نہیں کہ آدھا کرو۔ اس لئے یہ  کہنا کہ اگر قصر ایک رکعت ہے تو اصل نماز لازماً اس سے دگنی یعنی دو رکعات ہی ہو گی، ایک صریح  غلطی ہے۔ پھر اس آیت سے قصر نماز کا ایک رکعت ہونا بھی  واضح نہیں ۔ آیت میں قیام اور سجدہ کا ذکر  محض نماز کی طرف اشارہ کرنے کے سبب سے  ہے۔ اگر   ایک رکعت نماز کو  قیام اور سجدہ  سے تعبیر کیا جا سکتا ہے تو اسی طرح دو رکعت نماز کو بھی  قیام اور سجدہ سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا نہ تو قصر نماز کا اس آیت میں ایک رکعت ہونا  قطعی طور پر ثابت ہے اور نہ ہی اصل نما ز  کا صرف دو رکعات ہونا ۔جب کہ اس کے واضح ہونے کا  ببانگ دہل دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
 پھر دلچسپ با ت یہ ہے کہ  خود منکرین حدیث کا اس   استدلال پر  اتفاق نہیں۔ خواجہ احمد الدین صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:" اور جب تم زمین میں سفر کرو  تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ  اپنی نماز سے کم کر لو (اور اسے عام ذکر الٰہی میں بھی بدل لو) " ۔ قوسین میں خواجہ صاحب کی عبارت سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں  نے تو  سفر یا خوف کی حالت میں   نماز مختصر کرنے کی بجائے نماز  سے جان ہی چھڑا لی۔  لیکن  حقیقت یہ ہے کہ صرف سفر یا خوف  کی حالت میں نہیں بلکہ انہوں نے عام حالات میں بھی نماز سے جان چھڑائی ہے۔  اگلی آیت جس میں عام حالات میں نمازوں کے اوقات کی پابندی کا حکم ہے، اس   کی تفسیر میں خواجہ صاحب فرماتے  ہیں :"حاصل یہ کہ حتی الوسع وقت کی پابندی کرو ، خواہ چل پھر کر نماز ادا کرنی پڑے ، خواہ عام ذکر الٰہی میں بدلنی پڑے۔" [۱۲]۔خواجہ صاحب کا  کہنا ہے کہ  اگر وقت کی پابندی نہ ہو سکے یعنی مصروفیت کے باعث نماز کے لئے وقت میسر نہ آ سکے تو نمازوں کے اوقات میں نمازوں کی جگہ پر  محض عام ذکر  سے ہی کام چلا لیا جائے نماز ہو جائے گی کیونکہ نماز اپنے اوقات میں فرض ہے۔ کوئی خواجہ صاحب سے پوچھے کہ جب نماز ہی نہ پڑھی ، تو ذکر  الٰہی چاہے نماز وں کے  متعین اوقات پر بھی کر لیا  تو کیا فائدہ۔
 اب اس بارے میں غلام احمد پرویز  صاحب کا " اجتہاد"  ملاحظہ ہو۔ انہوں نے اپنی کتاب "قرآنی فیصلے" میں کسی صاحب کا سوال    نقل کیا ہے کہ جب  حدیث صرف ایک تاریخ ہے اور تمام احکام قرآن سے ہی اخذ کرنے ہیں  تو پھر آپ نمازوں کی تعداد، رکعات، نماز کے ارکان اور نماز  کے اندر رکوع و سجود کی تعداد اور ترتیب وغیرہ کا تعین کیسے کریں گے۔ اس کے جواب میں پرویز صاحب عبد اللہ چکڑالوی صاحب سے اپنا اختلاف خود بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"اہل قرآن (عبد اللہ چکڑالوی صاحب  کی جماعت) کی بنیادی غلطی میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ ان احکام کی جزئیات بھی قرآن سے متعین کرنے لگ گئے جن کا صرف اصولی حکم قرآن نے دیا ہے۔ اس کا نتیجہ سوائے قیاس آرائیوں کے اور کیا ہو سکتا تھا۔ پھر جن قیاسات پر یہ لوگ اس طرح سے پہنچے وہ قوم کے لئے فیصلے کی حیثیت تو نہیں رکھ سکتے تھے۔ یہ حق جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے صرف حکومتِ قرآنی کو حاصل ہے ۔ میں دینی لا مرکزیت کے دور میں اعمال متواترہ کو ایسے انفرادی قیاسات سے انسب (یعنی بہتر) سمجھتا ہوں" [۱۳]۔
 یاد رہےیہاں"  اصولی حکم" سے پرویز صاحب کی مراد صلوٰۃ کا حکم ہے  جبکہ اس حکم کی  جزئیات سے  ان کی مراد    نمازوں کی تعداد ، رکعات  اور نماز میں  ترتیب وغیرہ ہے جیسا کہ  نقل کردہ سوال سے واضح ہے۔ لہٰذا  یہ نہ سمجھا جائے کہ نماز کی جزئیات سے یہاں مراد رفع الیدین وغیرہ ہے۔ اس اقتباس میں پرویز صاحب کی مراد یہ ہے  کہ بجائے اس کے کہ قرآن سے نماز وں کی تعداد، رکعات اور ترتیب وغیرہ کے بارے میں قیاس آرائیاں  کی جائیں ، ان چیزوں کا تعین کا حق قرآنی حکومت کے سربراہ کو حاصل ہونا چاہیئے۔ لیکن چونکہ اس وقت ہندو ستان میں قرآنی حکومت قائم نہ تھی تو ان کے مطابق عملی تواتر سے  وقتی طور پر کام چلایا جا سکتا تھا یعنی عام  مسلمانوں میں  جو نماز کا طریقہ رائج  چلا آ رہا تھا  اس کو وقتی ضرورت کے تحت اختیار کرنا اپنی قیاس آرائیاں کرنے سے بہتر ہو گا۔ البتہ ایک قرآنی حکومت  کے حاکم کو حق حاصل ہو گا کہ وہ نمازوں کی تعداد، رکعات اور ترتیب تلاوت  و ارکان میں  وقت کی مناسبت سے جیسے چاہے ردو بدل کردے اور مسلمانوں پر  اس کی اطاعت لازمی ہو گی۔
 یعنی ایک صاحب کے ہاں فرض نماز صرف دو رکعت ہے چاہے کسی بھی وقت کی ہو۔ دوسرے صاحب کے ہاں وقت نہ ہو تو اس کی بھی ضرورت نہیں۔  خدا کا ذکر  کر لیا جائے۔ جبکہ ایک اور صاحب کہتے ہیں کہ اصل حکم تو  صرف نماز کا ہے باقی سب اس کی جزئیات نہیں اور  مسلمان حاکم کو یہ حق حاصل ہے کہ ان جزئیات  یعنی نمازوں کی تعداد ،رکعات اور ارکان وغیرہ  میں رد و بدل کر دے اور ایسا کرنا مسلمانوں میں رائج نماز کے طریقہ کو اختیار کرنے  سے بھی بہتر ہے جو طریقہ عملی تواتر سے ثابت ہے   ۔   یہ صرف ایک مثال تھی اس بات کے حق میں کہ اگر سنت کی تشریعی حیثیت سے انکار کر دیا جائے تو شریعت کے اصولی اور  متفق علیہ ارکان کا  کیا حال ہو گا۔ اور جب ان ارکان اسلام کی ہی ہئیت بدل جائے گی تو ان سے متعلق تمام فقہی احکام تو ویسے ہی غیر متعلقہ رہ جائیں گے۔
 انکار حدیث کے فتنے کے اس تیسرے دور کے مطابق  تواتر کو بھی کوئی خاص اہمیت  حاصل نہیں۔  تواتر بھی صرف ایسا قابل قبول  ہو گا جو قرآن کی من مانی تعبیر کے خلاف نہ ہو۔ پرویز صاحب  عملی تواتر کی قبولیت کے بارے میں ایک شرط یہ عائد فرماتے ہیں کہ:" وہ (یعنی   تواتر سے چلے آنے والے اعمال)  قرآن کے کسی واضح حکم سے ٹکرا نہ رہے ہوں" [۱۴]۔اب ظاہر ہے قرآن کے اس  "واضح حکم "کا تعین بھی سنت سے بالا تر ہو کر عین عقل کے مطابق، یہ حضرات  خود ہی کریں گے ۔ اور جو تواتر ان کی قرآن کی اس عقلی فہم  کے خلاف ہو گا ، یہ اس کو  تسلیم نہیں کریں گے۔
 انکار حدیث کے فتنے کا چوتھا دور جس کو کہا جا سکتا ہے اس کے امام جاوید احمد غامدی صاحب ہیں۔ یہ دور بھی اپنے سے پچھلے دور کا ایک تسلسل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ   یہ  غامدی صاحب کا  احسان ہے  کہ انہوں نے ، جو امور تواتر سے ثابت تھے ، انہیں واپس دین میں جگہ دی۔ لیکن  اخبار آحاد کا انکار اسی طرز پر  جاری رکھا۔  ان موصوف کے مطابق سنت دین کا حصہ تو ہے لیکن صرف وہ جو تواتر سے ثابت ہے۔ اب ظاہر ہے سنت کا ایک بہت بڑا حصہ غیر متواتر  اخبار آحاد (یعنی  غریب، عزیز اور مشہور احادیث ) کے ذریعے مروی ہے تو حدیث کے انکار سے سنت کے ایک بہت بڑے حصہ کا انکار واضح ہے۔پھر سنت سے  بھی مراد سنت ابراہیمی ہے نہ کی سنت رسول ﷺ۔ یعنی سنت بھی صرف وہ ہے جو ابراہیم ؑ سے شروع ہوئی اور رسول ﷺ نے  اسے جاری رکھا۔  لہٰذا ان کے ہاں  بھی قرآن کی سنت سے آزاد، عقلی تاویلوں کے قطرے قطرے سے مغرب پرستی اور   مغربی تہذیب و افکار کی مرعوبیت  ٹپکتی  نظر آتی ہے۔
1 note · View note
hammad422 · 5 years
Link
اللہ تعالی پوری دنیا میں اس وقت  فقر کی واحد ترجمان جماعت (تحریک دعوت فقر )کو دن دگنی رات چگنی ترقی دے. آمین. تاکہ امت مسلمہ کی روح پھر سے بیدار ہو سکے اور پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو . لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر دوسرا نام اسی دین کا ہے فقر غیور!  (حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ)
1 note · View note
afebrahimi · 5 years
Video
#ایران_بریفینگ / #سپاه_پاسداران و #سازمان_پدافند_غیرعامل و فرمانده سپاهی‌اش در کل سال از سرمایه‌های نجومی سهم دارند و چپاول می‌کنند و هر زمان هم که بحرانی‌ در کشور به وجود می‌آید همچون سیل‌های نوروزی امسال و این روزها فقط هشدار می‌دهند : #درخانه_بمانید موج اول سامانه بارشی وارد استان شده و بارندگی‌های نسبتاً شدید از دیشب در برخی مناطق آغاز شده که در صورت تداوم بارش‌ها تا پایان روز چهارشنبه روان آبهای‌ ناشی از آن به صورت سیلاب به #پلدختر می‌رسد. شهروندان پلدختری و #معمولان، #چگنی؛ روستاهای ساحل کشکان، رودخانه #خرم‌آباد، شهر #دورود و روستاهای مسیر رودخانه تیره اعلام مواظب باشند تا پایان سیلاب‌های احتمالی منازل خود را ترک و به مناطق امن پناه ببرند. #سپاه_باجگیران_انقلاب_اسلامی @Irbriefing https://www.instagram.com/p/B9CNTbYp5CB/?igshid=1nqnc6sj0lvbl
0 notes
borujerdcyberspace · 3 years
Photo
Tumblr media
‌. 📢 رییس سازمان بورس پرداخت سود سهام عدالت را تایید کرد؛ از فردا به هر نفر ۵۷۵ هزار تومان سود سهام عدالت داده میشود ◀️ سهامدارانی که از سهام عدالت ۵۳۲ هزار تومانی برخوردارند، فردا (شنبه) ۵۷۵ هزار تومان سود دریافت می‌کنند. ◀️ سهامداران هر ۲ روش مستقیم و غیرمستقیم که پیش‌تر اطلاعات خود را در سامانه جامع اطلاعات مشتریان (سجام) یا سایت سهام عدالت ثبت کرده بودند، فردا (شنبه) سود خود را دریافت خواهند کرد. . #رسانه_فضای_مجازی_بروجرد‌ #مردم #مردم_ایران #لرستان #لرستانی #لرستانیها #خرم_آباد #بروجرد #دلفان #الیگودرز #کوهدشت #پلدختر #چگنی #ازنا #دورود #الشتر #رومشکان #فقر #فقیر #فقرا #گرانی #تورم #سهام_عدالت #سود_سهام_عدالت #سهام #رکود #عید #بی_پولی #جیب_خالی_مردم — view on Instagram https://ift.tt/9Gd8U4e
0 notes
hambasstegi · 3 years
Photo
Tumblr media
‌ فرمانده بسیج وزارت نفت، مدیرعامل شرکت ملی گاز ایران شد وزیر نفت در حکمی «مجید چگنی» فرمانده اسبق مرکز مقاومت بسیج وزارت نفت را به‌عنوان معاون وزیر و مدیرعامل شرکت ملی گاز ایران منصوب کرد. t.me/hambasstegi — view on Instagram https://ift.tt/3tWvXgq
0 notes
sunj-ir · 3 years
Text
کشف بیش از یک تُن مرغ زنده قاچاق در شهرستان چگنی اخبار استانها
کشف بیش از یک تُن مرغ زنده قاچاق در شهرستان چگنی اخبار استانها چگنی- فرمانده انتظامی چگنی گفت: بیش از یک تن و ۲۰۰ کیلوگرم مرغ زنده قاچاق و فاقد مجوز در این شهرستان کشف و ضبط شد. به گزارش خبرنگار مهر، سرهنگ ضرغام سرپرست امروز یکشنبه در جمع خبرنگاران اظهار داشت: مأموران انتظامی چگنی … source https://sunj.ir/173321/provincial-news/%da%a9%d8%b4%d9%81-%d8%a8%db%8c%d8%b4-%d8%a7%d8%b2-%db%8c%da%a9-%d8%aa%d9%8f%d9%86-%d9%85%d8%b1%d8%ba-%d8%b2%d9%86%d8%af%d9%87-%d9%82%d8%a7%da%86%d8%a7%d9%82-%d8%af%d8%b1-%d8%b4%d9%87%d8%b1%d8%b3/
0 notes
classyfoxdestiny · 3 years
Text
ناکام گورننس
ناکام گورننس
حکومت کے بلند بانگ دعوے اپنی جگہ مگر ہر شہری بخوبی یہ جانتا ہے کہ حکومت نے اپنی تین سالہ جو حکومتی کارکردگی ظاہر کی ہے وہ محض ایک بیان ہے اس وقت ملک کا ہر شعبہ ناکامی کا شکار ہے اور حکومت ان تین برسوں میں کوئی بھی نمایاں کام کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے گورننس کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدگی سے کام نہیں لیا اور نہ ہی ترجیحاتی بنیادوں پر گورننس کی بہتری کے لئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ اس وقت ملک میں ہر طرف مہنگائی کی لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ شوگر مافیا، آٹا مافیا اور گھی مافیا نے اپنی مرضی کے نرخ مقرر کر کے مہنگائی کو کنٹرول سے باہر کر دیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس مافیا میں شامل کچھ لوگ حکومتی صفوں میں شامل ہیں اور کچھ ان کے اردگرد طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔ قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حکومت نے لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور معاشی نظام کو مضبوط کرنے کے بجائے صرف اور صرف ایک ہی کام کیا ہے کہ کسی طرح سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل کیا جائے۔ اس جنون میں حکومت نے ان تمام حدوں کو پار کر لیا ہے جس سے ناکام ریاست کا ڈھانچہ دکھائی دینے لگا ہے۔ موجودہ حکومت ملکی تاریخ کی ناکام اور نالائق ترین حکومت شمار کی جانے لگی ہے کیونکہ اس حکومت کو سیاسی مخالفین کے خلاف کرپشن کی ہرزہ سرائی کرنے اور عوام کو کھوکھلے نعروں کے سوا عملی طور پر کچھ نہیں دیا ہے۔ محض کرپشن کے نعرہ کو سیاسی سکورنگ اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا ہے اور تو اور عوام کو بے وقوف بنا کر چور چور کے شور کی گونج کی آڑ میں بدعنوانی کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ جہاں انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ جس کے مطابق موجودہ حکومتی  دور میں ریکارڈ کرپشن ہوئی ہے یہاں تک کہ بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھی زیادہ مہنگائی کی شرح ہو چکی ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ملکی عدالتوں نے ڈیم کے نام فنڈز کو اکٹھے کر کے حکومت کے ساتھ مل کر عوام کو ٹھینگا دکھا دیا کوئی ڈیم بنایا گیا اور نہ ہی کوئی پاور پراجیکٹس لگائے گئے ہیں۔ بھوک ہر طرف ناچتی دکھائی دے رہی ہے اور حکومت ڈھٹائی سے سب اچھا ہے کا ورد کئے جا رہی ہے۔ ملکی خارجہ پالیسی کا یہ عالم ہے کہ ہمسائے ملک کے منتخب ہونے والے وزیراعظم نریندر مودی سے ایک امریکی صدر جوبائیڈن تک کسی نے آج تک ہمارے وزیراعظم صاحب کی کال اٹینڈنہ کی ہے وزیراعظم کے قریبی مشیر قومی سلامتی امور معید یوسف صاحب کئی بات یہ واویلا کرتے نظر آئے ہیں کہ امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ وزیراعظم کو فون کال کر کے موجودہ صورت حال پر بات چیت کریں پاکستان اس خطہ کا اہم ترین ملک ہے اگر اس کو کامیاب خارجہ پالیسی کا نام دیتے ہیں تو اس ملک اور حکومتی وزراء کا اللہ ہی حافظ ہے۔ دوسری طرف ریاستی اداروں میں کرپشن کا دور 
دورہ ہے مہنگائی کے نہ ٹوٹنے والے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔ نوے دنوں میں تبدیلی لانے کے دعوے داران تین برسوں میں ایک بھی کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دینے میں ناکام رہے ہیں جس کو عوام کے سامنے پیش کر کے اپنے دامن کو بچا سکیں۔ ڈالر کی قیمت دن بدن بڑھ رہی ہے اور ہمارے روپے کی قدر وقت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر حکومت نے کوئی کام کیا ہے تو وہ صرف انتقامی کارروائی اور اعلیٰ عہدوں پر تعینات افسران کی تبدیلی ہے۔ آئی جی پنجاب کی 
تبدیلی۔ کبھی بی آر ٹی رپورٹ روک دی گئی، کبھی وزیر خزانہ بدل دیا گیا کبھی معزز ججز کے خلاف ریفرنس بنا دیئے گئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے کے لیے کتنے جتن کیے گئے اگر ان کاموں کو حکومت اپنی کارکردگی گردانتی ہے تو پھر ان کی نظر میں یہی تبدیلی ہو گی مگر عوام کم از کم اس کو تبدیلی نہیں گردانتے۔عوام تو حکومت سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ حکومتی سیٹوں پر براجمان وہ وزراء جنہوں نے آٹا، چینی اور گھی مہنگا کر کے لاکھوں نہیں اربوں روپے کمائے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کون کرے گا۔ کیا قانونی کارروائی محض سیاسی مخالفین کے خلاف کرنے کا نام ہے۔ اس وقت شرم سے سر جھک جاتے ہیں جب کانوں میں ایسی خبریں اور رپورٹیں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں ڈپٹی کمشنرز تک کے افسران کروڑوں روپے رشوت دے کر اپنے پسند کے اضلاع لیتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کا دور کرپٹ افسران کے لیے کسی سنہری دور سے کم نہیں ہے۔ اوکاڑہ میں تعینات ایک اعلیٰ پولیس افسر نے ابھی حال ہی میں لوٹ مار کے بل بوتے پر ایک پٹرول پمپ اپنے بھائی کے نام پر بنوایا ہے۔ مجال ہے کہ کوئی اس سے یہ پوچھنے والا ہو کہ دن دگنی رات چگنی یہ ترقی کیسے کی گئی ہے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ عوام عدم تحفظ کے خوف کے باعث لب کشائی کرنے سے ڈرتے ہیں اور ان کا ڈرنا حق بجانب بھی ہے۔ جہاں پر حکومت اور قانون نام کی کوئی چیز موجود نہ ہو تو وہاں خوف کا عالم ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ ہمارے ایک دوست کے والد محترم صادق چوہان (مرحوم) نے یہ قطعہ شاید اسی دور کے لیے لکھا تھا۔ ملک پاک مکاں پاک مگر ہم ناپاک۔ چاہے غضب، ہائے غضب فطر ت انسان ہے۔ بے باک یوں تو پر تول کے، پرواز تھی سوئے افلاک، ہے مگر تشنہ و ناکام خیال ہے بے باک۔
window.fbAsyncInit = function() FB.init( appId : 315458908831110, xfbml : true, version : "v2.12" ); FB.AppEvents.logPageView(); ; (function(d, s, id) var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = "https://connect.facebook.net/ur_PK/sdk.js"; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); (document, "script", "facebook-jssdk")); Source link
0 notes
brandkade · 3 years
Text
زاگرس پوش
Tumblr media
رحیم چگنی مدیرعامل و عضو هیئت مدیره شرکت تعاونی صنعتی زاگرس پوش، متولد آبان ۱۳۴۵ از شهرستان بروجرد استان لرستان است. او از سال ۱۳۸۵ به عنوان رئیس هیئت موسس دانشگاه علمی کاربردی تعاونی تولیدکنندگان، مشغول فعالیت است. بنابه گفته‌ی رحیم چگنی، کارخانه زاگرس پوش بروجرد با 500 نیروی فعال به صورت مستقیم و ۲۰۰ نفر به طور غیر مستقیم مشغول به فعالیت هستند. گروه صنعتـی زاگـرس پـوش بروجـرد واحـدی صنعتـی و نوین در عرصه‌ی تولید پوشاک کشور است که با سابقـه‌ای چندین ساله در امر تولید پوشـاک فعالیت می‌کند. برند زاگرس پوش با این باور که رشد و اعتلای این صنعت با توجـه به اشتغـالزایی و ارزش افـزوده بالایـی که دارد و همچنین با توجـه به اینکه آخریـن حلقـه‌ی مفقوده‎‌ی تولیـدات نساجـی کشـور است، می‌تواند مانند سایـر کشورهـای پیشرفته نقش تعیین کننده‌ای در توسعه پایدار کشـور و عدم وابستگـی به کشورهـای خارجی و همچنین آینده فرزندان ایـران اسلامی داشته باشد. کارخانه زاگرس پوش با بهره گیری از تکنولوژی روز دنیـا از کشورهای صاحب صنعت در این رشتـه مانند ایتالیـا و آلمـان، یکی از مدرنترین کارخانجـات صنعتی تولید پوشـاک کشور را راه اندازی کرده‌اند. این کارخانه با پنح خط تولید شامل کت و شلوار، مانتو و پالتو و ۱۶ سکوی فروش در کشور به مردم خدمت می‌کند. رحیم چگنی در یکی از صحبت‌هایش اظهار داشت که تعداد سکوهای فروش موجود در کشور نسبت به افزایش تولید، پایین تر است و به دنبال توسعه آن‌هاست. همچنین رحیم چگنی می‌گوید: که در تلاش هستیم تا برای توسعه بیشتر، یک نمایندگی زاگرس پوش در نجف عراق ایجاد کنیم‌. تولیدات شرکت زاگرس پوش تماما، داخلی هستند اما پارچه و مواد اولیه برخی از محصولات بنا به تقاضای مشتری ترک هستند. ‌‌چگنی می‌گوید اگر مشتریان تقاضای پارچه ترک داشته باشند پارچه ترک، و اگر پارچه ایرانی بخواهند پارچه ایرانی  مصرف می‌کنیم. تولیدات شرکت زاگرس پوش ۸۰ درصد مردانه و ۲۰ درصد زنانه است.
شعار این شرکت "ایرانی، ایرانی بپوش" است.  همچنین کارخانه اگرس پوش امکان دوخت لباس با هر طرح ،هر سایز و هر پارچه‌ای را برای مشتریانش فراهم کرده است. از افتخارات گروه صنعتی زاگرس پوش این است که در سال ۱۳۹۰ به‌عنوان واحد نمونه صنعتی کشور در بخش تولید پوشاک برگزیده شد و مفتخر به کسب استاندارد ISO 9001 گردید و همچنین راه اندازی واحد دانشگاهی علمی کاربردی در رشته‌های مهندسی تکنولوژی دوخت، طراحی حرفه‌ای لباس، حسابداری صنعتی و... را در شهرستان بروجرد و راه اندازی شخصی دوزی صنعتی vip را در فضای مناسب و درخور شأن شما مشتریان عزیز را داشته است. این واحد در هر شیفت کاری ۵۰۰ دست کت و شلوار، ۶۰۰ عدد شلوار تک مردانه، ۶۰۰ عدد پیراهن،۲۵۰  دست مانتو و شلوار و ۲۵۰ دست کاپشن و لباس‌کار به هموطنان عرضه می‌دارد. چگنی می‌گوید برند زاگرس پوش بر سه پایه اساسی شگل گرفته است"هنر، طبیعت و فرهنگ" هرسه مورد مذکور تصویری از اصالت و منحصر به فرد بودن را در ذهن تداعی می‌کند. فعالیت‌های زاگرس پوش در راستای مسئولیت پذیری اجتماعی عبارتند از: لباس همدلی ، کمپین لمس بلوط ، تلفیق علم و صنعت و تیم والیبال زاگرس پوش.
https://www.brandkade.com/Fa/Brand/ZagrosPoosh
0 notes
urdunewspedia · 3 years
Text
حقیقی زندگی میں چلبلی، شوخ اور فلمی لڑکی ہوں، عائزہ خان - اردو نیوز پیڈیا
حقیقی زندگی میں چلبلی، شوخ اور فلمی لڑکی ہوں، عائزہ خان – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین پاکستانی شوبز انڈسٹری کی سپر اسٹارعائزہ خان نے اپنی اصل زندگی کے بارے میں نئے انکشافات کر دئیے ہیں۔ سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق اداکارہ عائزہ خان آج کل شہرت کی بلندیوں پر ہیں، عائزہ خان کے انسٹا گرام پر فین فالوونگ میں بھی دن دُگنی اور رات چگنی ترقی ہو رہی ہے۔ عائزہ خان سے متعلق زیادہ تر اُن کے مداح یہی جانتے ہیں کہ وہ ایک سلجھی ہوئی بہت سنجیدہ لڑکی ہیں مگر عائزہ خان نے…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes
informationtv · 4 years
Text
رجب کی تیسری جمعرات رزق کا دان اللہ کے یہ نام پڑھ لو ہر کوئی دیواروں سے جھانک کر دیکھے گا
رجب کی تیسری جمعرات رزق کا دان اللہ کے یہ نام پڑھ لو ہر کوئی دیواروں سے جھانک کر دیکھے گا
ماہ رجب المرجب جوکہ فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے اس مہینہ میں آپ نے بہت سے وظائف کیے ۔ آج ماہ رجب کی تیسری جمعرات آچکی ہے اس دن کا ایک ایسا خاص عمل آج آپ کو بتائیں گے ۔اس عمل کی برکت سے اللہ تعالیٰ آپ کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطاء فرمائے گا ۔ راتوں رات مالا مال کردے گا ۔ آپ کے پاس اس قدر بے شمار رزق عطاء فرمائے گا۔ آپ کے عزیز واقارب دوست احباب آپ کے رشتے دار آپ کے پیچھے گھومیں گے پوچھیں گے کہ…
View On WordPress
0 notes
archaeologyhub · 4 years
Link
ایسنا، سید امین قاسمی۲۷ بهمن‌ماه ، از کشف نقوش صخره‌ای جدید در لرستان خبر داد و اظهار کرد: این نقوش صخره‌ای که در جریان پروژه ثبت آثار تاریخی شهرستان چگنی کشف شدند شامل رنگین نگاره به دو رنگ سیاه و اخرایی و نگارکندها است. وی تصریح کرد: این نقش‌ها شامل نقوش حیوانی، انسانی و گیاهی بوده و صحنه‌هایی از شکار و اسب‌سواری را به تصویر کشیده است. زهرا بهاروند معاون میراث فرهنگی اداره‌کل میراث فرهنگی، گردشگری و صنایع‌دستی لرستان نیز با اشاره به اینکه قدمت این نقوش احتمالاً به هزار اول پیش از میلاد بر می‌گردد، افزود: این اثر تاریخی اولین بار توسط دکتر محمد بهرامی پژوهشگر عضو هیات علمی دانشگاه لرستان گزارش شده و پرونده ثبت آن جهت طی روال قانونی ثبت به وزارتخانه ارسال شده است.
0 notes
rmzirn · 4 years
Photo
Tumblr media
جان دلم دوست داشتنت بزرگترین نعمت دنیاست ... مرا شاد می‌کند و لبخند را به دنیایم هدیه می‌کند ... من این دوست داشتن را بیشتر از هر چیز در این دنیا دوست دارم ... ✍اعظم‌چگنی 😷😷😍😷😷 @rmzirn https://www.instagram.com/p/CIGOWaJFujie20jlFuJ4z1Xj8DyP8DYG_J_BwU0/?igshid=d5jz66rs60kl
0 notes
borujerdcyberspace · 3 years
Photo
Tumblr media
. مسئولان گذشته لرستان خودشان را به‌خاطر فلاکت‌زدگی لرستان مواخذه کنند بهرام ستاری، معاون سیاسی‌امنیتی استاندار لرستان: 🔸من و امثال من مسئول دوران گذشته باید خود را مواخذه کنیم، در این فرصت کوتاه نمی‌شود دولت و مسئولان جدید را مواخذه کرد که چرا در این جایگاه هستیم 🔹دیگران باید پاسخگو باشند که در ۴۳ از انقلاب در فرصت‌های خدمت گذاری چرا از این عوامل توسعه بهره نجستند که امروز با کمال شرمندگی بگوییم استان فلاکت زده هستیم 🔸لرستان استان خوبی است با منابع بسیار خوب اما یک جو حرکت جهادی و یک جو حرکت انقلابی می‌خواهد که در راستای شایستگی این مردم گام‌های مثبتی برداریم. #رسانه_فضای_مجازی_بروجرد @BorujerdCyberSpace #لرستان #لرستانی #لر #لک #بختیاری #خرم_آباد #lorestan #بروجرد #نورآباد #دلفان #الشتر #دورود #ازنا #کوهدشت #الیگودرز #پلدختر #چگنی #رومشکان #روستا #عشایر #لرستانیها #مالی #اقتصادی #اقتصاد #بیکاری #اقتصاد #مردم_لرستان #پاریس_کوچولو #استانداری_لرستان #بروجرد_را_باید_دید — view on Instagram https://ift.tt/jS9iCga
0 notes
khoonevadeh · 4 years
Photo
Tumblr media
تحریمی‌ها در جشنواره قهر فجرhttps://khoonevadeh.ir/?p=238988
برترین‌ها: سوگواری تئاتری‌ها برای قربانیان بویینگ ٧٣٧ از روز شنبه کلید خورد و بسیاری از گروه‌های نمایشی اجرایشان را برای یکشنبه لغو کردند. برای آنان مهم نبود که در روز‌های سخت اقتصادی و قطعی اینترنت به‌دنبال اتفاقات آبان‌ماه گیشه‌هایشان قفل شده و قامت‌شان را رنجورتر کرده است، تئاتری‌ها همگی به سوگ نشستند.
تماشاخانه مستقل به مدیریت مصطفی کوشکی تمام اجرا‌های روز یکشنبه، ٢٢ دی‌ماه را تعطیل کرد و هم‌زمان گروه‌های تئاتری دیگر هم اطلاعیه‌هایی در این‌باره منتشر کردند.
ایمان افشاریان در اینستاگرام خود از لغو اجرای روز یکشنبه نمایش فرانکنشتاین در سالن اصلی تئاتر شهر خبر داد و نوشت: «داغدار ١٧٦ انسان.» نمایش ماسک به کارگردانی بهزاد اقطاعی و نمایش «آقای اشمیت کیه» به کارگردانی سهراب سلیمی روز‌های یکشنبه و دوشنبه به سوگ نشستند. صحرا فتحی، کارگردان نمایش «پونز» نیز تعطیلی سه‌روزه این تئاتر را ��علام کرد.
نمایش‌های «من یه زنم صدامو می‌شنوی» به کارگردانی کاملیا غزلی، «چنور» به کارگردانی قطب‌الدین صادقی، «تولد بازی» به کارگردانی کیمیا کاظمی، «نیم‌فاصله» کاری از رضا رشادت، «ملکوت» کار رامتین راشوند، «سه تفنگدار و یکی» به کارگردانی مهدی شاه‌حسینی، «فراکتال» کار مهدی سقا، «جان و جو» به کارگردانی محمدرضا چرختاب، «مسکو فلکه باغشاه» به کارگردانی عطا کشاورز جود، «شصت دقیقه منهای یک» کار سعید عسگریان، «دزدان شماره ٤٣» کار شاهین صادقیان، «سوگلی» به کارگردانی نگار چگنی، «پاتوق» کار مهدی پاشایی و «مدرسه پینوکیو» کار آرش سنجابی هم از لغو اجرا‌های یکشنبه‌شب خبر دادند.
منیژه محامدی، کارگردان، که نمایش «سقوط در کوه مورگان» را در تالار قشقایی مجموعه تئاتر شهر روی صحنه دارد، در جملات کوتاهی با مردم همدردی کرده است: «نمایش ما لبخند کم‌رنگی هم بر لب تماشاگر می‌آورد و فکر می‌کنیم مردم ما این روز‌ها حال چندان خوشی ندارند که بتوانند لبخندی به لب بیاورند، بنابراین با اینکه در مدت اجرای‌مان با چندین تعطیلی روبه‌رو بوده‌ایم، ترجیح دادیم یکشنبه‌شب هم در کنار مردم باشیم و روی صحنه نرویم.» همه این حرف‌ها درحالی است که براساس قانونی نانوشته تنها در یک صورت تئاتری روی صحنه نمی‌رود؛ مگر اینکه بازیگر زنده نباشد.
تئاتری‌ها از فجر کنار کشیدند
سوگواری و ابراز همدردی تئاتری‌ها با مردم داغ‌دیده ایران در پی ماجرای سقوط هواپیمای بویینگ ۷۳۷ تنها به یک، دو یا سه اجرا ختم نشد. بسیاری از آن‌ها حتی از شرکت در سی‌وهشتمین جشنواره بین‌المللی تئاتر فجر هم انصراف دادند، ازجمله ١٠٠ هنرمند مشهدی در قالب سه گروه نمایشی «آدیداس»، «جانی سکیکی» و «خدای جنگ» که از مشهد به این جشنواره راه یافته بودند: «این روز‌ها که کشور عزیزمان ایران اسلامی درگیر و دار اتفاقات ناگواری است که روزبه‌روز کام مردم را تلخ‌تر از پیش می‌کند، شاید روا و مصلحت نباشد هنرمندان این مرز و بوم که خود را داعیه‌دار هم‌سویی با افکار مردم می‌دانند حضور خود را در مراسم مختلف جشن بگیرند.»
آرش دادگر، کارگردان نمایش «مکبث»، گروه اجرایی نمایش «آواز قو» به کارگردانی پریزاد سیف، گروه اجرایی نمایش «من» به کارگردانی سیاوش پاکراه، امیراحمد قزوینی بازیگر نمایش «پروانه الجزایری»، علی صفری کارگردان نمایش «کرونوس»، مژگان خالقی نویسنده و بازیگر نمایش «بیوه سیاه، بیوه سفید»، امیر نجفی کارگردان و تمامی اعضای گروه نمایش «مشق شب»، صابر ابر کارگردان «همان چهار دقیقه»، سجاد تابش کارگردان نمایش «در اتاق باد می‌وزد»، مهدی شفیعی زرگر نویسنده «همه فرزندان مکبث»، مانی جعفرزاده و محمدحسین معارف از دیگر هنرمندان و گروه‌هایی هستند که از حضور در جشنواره تئاتر فجر انصراف داده‌اند.
شمع تولد دکتر رفیعی برای قربانیان
در کنار همه اینها، پیام و حرکت دکتر علی رفیعی، استاد و کارگردان کهنه‌کار تئاتر ایران در همدردی با مردم داغدیده و بازماندگان قربانیان پرواز ٧٥٢ بسیار دلگرم‌کننده بود.
او که این روز‌ها باید شمع تولد هشتادویک سالگی‌اش را فوت می‌کرد در یادداشتی این ماجرا را «فاجعه» نامید و نوشت: «هرچه تلاش می‌کنیم زندگی را از سر بگیریم، اندوه دیگری فرا می‌رسد. هرچه تلاش می‌کنیم کمی شادی به دست آریم، اشک از پشت چشمان‌مان بیرون می‌زند. برای خانواده‌های جان‌باختگان در هر کجای جهان که هستند درود می‌فرستم و ترجیح می‌دهم به جای فوت کردن شمع تولدم در هشتادویک سالگی شمعی برای جان‌باختگان روشن کنم.»
جشنواره منهای هنر‌های تجسمی
از ساعت‌های پایانی روز شنبه شبکه‌های مجازی و اینستاگرام پر شد از بیانیه و انصراف‌ها؛ جز تئاتری‌ها هنرمندان دیگری هم به این حرکت پیوستند مثل ابراهیم حقیقی، دبیر دوازدهمین جشنواره هنر‌های تجسمی فجر، دبیر و هیأت داوران بخش عکس این جشنواره. «از ادامه همکاری با این رویداد معذوریم و ضمن تشکر از عکاسان شرکت‌کننده، تأثر و همدلی عمیق خود را با مردم داغدار ایران اعلام می‌کنیم.»
دبیر بخش خوشنویسی، دبیر و داوران بخش گرافیک، دبیر و داوران بخش تصویرگری، داوران بخش گرافیک، دبیر و داوران بخش سرامیک و مجسمه‌سازی از دیگر انصراف‌دهندگان دوازدهمین جشنواره تجسمی فجر هستند که از بیست‌وسوم تا سی‌ام بهمن برگزار می‌شود. به همه این‌ها لیلی گلستان مدیر گالری گلستان را هم اضافه کنید که از حضور در این جشنواره کناره گرفت و البته برخی از گالری‌های پایتخت که روز یکشنبه را به احترام جان‌باختگان حادثه سقوط هواپیمای مسافربری اوکراینی تعطیل کردند.
انصراف کیمیایی و جنجال تهیه‌کننده
از میان بیش از ٣٠ کارگردانی که فیلم‌شان به سی‌وهشتمین جشنواره فیلم فجر راه یافته است، مسعود کیمیایی، کارگردان «خون شد» و میترا ابراهیمی کارگردان مستند «کامی» از انصراف خود خبر دادند. کیمیایی در ویدیویی که منتشر کرد، گفت: «خیلی بغض دارم. من هیچ وقت اهل جشنواره نبودم و سمت و سوی من همیشه مردم بوده است و اگر نگاه کنیم، می‌بینیم که مردم روزگار سختی دارند و هر روز خبر‌های بدی می‌شنوند. من در این شرایط دوست ندارم فیلمم در جشنواره فیلم فجر نمایش داده شود، به نشانه تسلیتی که به همه آدم‌ها دارم.»
البته بعد از اعلام انصراف از سوی کیمیایی، جواد نوروزبیگی، تهیه‌کننده فیلم اعلام کرد: «با احترام به نگاه و نظر آقای کیمیایی تقاضای ما این است که فیلم در بخش کارگردانی داوری نشود و در مابقی بخش‌ها مورد قضاوت قرار بگیرد.» البته پیمان قاسم‌خانی، تهیه‌کننده و میترا ابراهیمی، کارگردان مستند کامی با هم در انصراف از جشنواره به توافق رسیدند و بعد این خبر را اعلام کردند: «پنج سال تلاشم را به‌عنوان کارگردان این مستند کوچک می‌بینم در مقابل داغی که بر دل مردم ایرانه! کامی هم به نوعی قربانی شد، اما اکرانش بماند به زمانی بهتر با دلی خوش‌تر. این کمترین کاری بود که از دست من برمی‌آمد. با عذرخواهی از عوامل فیلم که بسیار زحمت کشیدند.
اینکه اولین فیلمت به اکران مهم‌ترین جشنواره کشورت برسد، شاید آرزو باشد، اما انسان سوگوار آرزویی ندارد.» بخشی از سینمایی‌ها مثل رضا درمیشیان، رخشان بنی‌اعتماد و هدیه تهرانی هم شنبه شب به مراسم سوگواری قربانیان این سانحه رفتند و به هم‌دردی با مردم نشستند.
علیرضا قربانی در سوگ
گروه‌ها و هنرمندان موسیقی هم به جمع انصرافی‌های جشنواره اضافه می‌شوند یا کنسرت‌هایشان را لغو می‌کنند. علیرضا قربانی دیروز از لغو کنسرت‌های خود در روز‌های بیست‌وششم و بیست‌وهفتم دی ماه در تالار وزارت کشور خبر داد و نوشت: «پس از وقایع روز‌های اخیر، احساس کردیم اجرای این مجموعه حق مطلب این روز‌ها را ادا نمی‌کند و قطعات باید کامل‌تر شده تا هم حزن خانواده‌های این عزیزان را التیام باشد و هم در حافظه جمعی تاریخی کشور این فاجعه به زبان موسیقی ثبت شود.»
سعید حکیم‌زاده، خواننده دیگری بود که بیست‌وهفتم دی ماه در برج آزادی کنسرت داشت، اما آن را لغو کرد. کیوان ساکت، آهنگساز و موزیسین ایرانی پا را فراتر گذاشت و دیروز اعلام کرد که امسال در هیچ‌کدام از جشنواره‌های هنری شرکت نخواهد کرد: «نه به‌عنوان هنرمندِ شرکت‌کننده، نه در مقامِ داور یا کارشناس مدعو و نه در نقش مخاطب و بیننده هیچ یک از آثار.» ارکستر آرکو به رهبری ابراهیم لطفی و مانی جعفرزاده از سایر موسیقیدانان و آهنگسازانی بودند که از جشنواره انصراف دادند. همچنین گروه کُر شهر تهران هم در روز‌های گذشته از لغو کنسرت خود در دی ماه خبر داد.
تعویق مراسم پایانی جایزه مهرگان ادب
دبیرخانه جایزه مهرگان ادب هم دیروز در بیانیه‌ای از تعویق زمان برگزاری مراسم پایانی این جایزه ادبی خبر داد و اعلام کرد که دبیرخانه وظیفه خود می‌داند با حامد اسماعیلیون و منیرالدین بیروتی دو نویسنده خوب کشور که عزیزان‌شان را در حادثه سرنگونی هواپیمای مسافری اوکراین از دست داده‌اند و همچنین خانواده نخبگان علمی مهاجر و دیگر جان‌باختگان ایرانی و غیرایرانی این حادثه غم‌بار هم‌دردی کند و در سوگ بزرگ آنان شریک باشد. علیرضا زرگر، مدیر جایزه مهرگان، هم گفت که با وجود آمادگی برای برگزاری مراسم نهایی جایزه مهرگان، ادامه کار را شایسته نمی‌دانیم.
عصار هم کنسرت‌هایش را لغو کرد
در ادامه همدردی هنرمندان با مردم داغدار علیرضا عصار هم کنسرتهای دی‌ماه خود را لغو کرد. او در این باره گفت: با شرایط موجود جانی برای آواز خواندن ندارد و این‌کار کمترین کاریست که برای اعلام همدلی و همدردی با مردم می‌تواند بکند.
انصراف سیدی از داوری
شنیده‌ها حاکی از این است که پیشنهاد داوری بخش سودای سیمرغ این دوره از جشنواره فیلم فجر با هومن سیدی، ​کارگردان فیلمهایی چون «مغزهای کوچک زنگ‌زده» و «خشم‌ و هیاهو» مطرح شده و این کارگردان از پذیرش این مسئولیت خودداری کرده است. پيش‌بینی می‌شود چيدمان داوران امسال سخت‌تر از هميشه خواهد بود.
تحریم کارتونی
بیش‌از ۴۰ کارتونیست‌ و طنزنویس شناخته‌شده‌ کشور، در بیانیه‌ای اعلام‌کرده‌اند در جشن‌واره‌های هنری فجر شرکت نمی‌کنند- در میان آن‌ها نام احمد عربانی، فیروزه مظفری،جمال رحمتی، بهمن عبدی، احسان گنجی و امین منتظری دیده می‌‌شود.
پیش‌تر کیارش زندی، کامبیز درم‌بخش، جمال رحمتی و علی درخشی، کارتونیست‌ و از داوران ��شنواره هنرهای تجسمی هم از این سمت کناره‌گرفته‌بودند.
موج انصراف بازیگران
تا این لحظه فاطمه معتمدآریا، پگاه آهنگرانی، سارا بهرامی، محمدحسن معجونی و پیمان معادی بازیگران سرشناس سینمای ایران هر کدام با انتشار پیامی جداگانه در صفحات شخصی خود خبر از انصراف از جشنواره فجر دادند.
منبع : برترینها
0 notes
urdunewspedia · 4 years
Text
’پاوری گرل‘ کی اگلی منزل ’رمضان ٹرانسمیشن ‘؟ - اردو نیوز پیڈیا
’پاوری گرل‘ کی اگلی منزل ’رمضان ٹرانسمیشن ‘؟ – اردو نیوز پیڈیا
اردو نیوز پیڈیا آن لائین ’پاوری ہورہی  ہے‘ویڈیو سے رات و رات شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی دنانیر مبین کی اگلی منزل کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر ان دنوں یہ افواہیں زیر گردش ہیں کہ ’پاوری گرل‘ کے نام سے مشہور دنانیر مبین اب رمضان ٹرانسمیشن میں بھی نظر آئیں گی۔ پاوری ویڈیو کے بعد دنانیر مبین دن دگنی رات چگنی ترقی کر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سمیت حقیقی زندگی میں بھی شوبز انڈسٹری کا حصہ بن چکی ہیں۔ حال…
Tumblr media
View On WordPress
0 notes