#ٹک ٹک دیدم
Explore tagged Tumblr posts
bazmeur · 2 years ago
Text
ٹک ٹک دیدم ۔۔۔ سعید نقوی
      ٹُک ٹُک دیدم     سعید نقوی   ماخذ: کتاب ایپ http://www.idealideaz.com www.kitaabapp.com     مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں ورڈ فائل ای پب فائل کنڈل فائل     ٹک ٹک دیدم   بڑا گھنٹا گھر شہر کے بالکل وسط میں تھا۔ شروع میں شاید اس کا رنگ سرخ رہا ہو مگر اب وقت کی گرد نے اسے ایک ایسا رنگ دے دیا تھا جو صرف وقت ہی چن سکتا ہے۔ بلند اتنا کہ میلوں دور سے نظر آ جائے۔ چوکور مینار کی طرز پر تعمیر کیا گیا…
View On WordPress
0 notes
shiningpakistan · 1 year ago
Text
بجلی کی قیمت اور رعایا کی زبوں حالی
Tumblr media
حال ہی میں صرف ایک ہفتے میں بجلی کی قیمتوں میں دو دفعہ اضافہ کیا گیا ہے۔ یعنی عوام نہیں رعایا پر مسلسل بجلی گرائی جا رہی ہے۔ بجلی کی مہنگائی سمیت ہر طرح کی مہنگائی سے رعایا اتنی شاک زدہ ہے کہ وہ احتجاج کے بھی قابل نہیں۔ بس ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی صورتحال ہے۔ ویسے بھی جنھوں نے احتجاج کیا ان کا عبرت ناک حشر سامنے ہے۔ اب تو رعایا احتجاج کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت جاتے جاتے پٹرول ڈیزل وغیرہ کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کر گئی۔ باقی ان اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی کسر نگران حکومت نے ایک بڑا اضافہ کر کے کر دی۔ لیکن نگران حکومت کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں۔ اصل ذمے داری تو اتحادی حکومت پر عائد ہوتی ہے جس کے اصل اسٹیک ہولڈرز تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تھے۔ جنھوں نے آئی ایم ایف سے ایسا تباہ کن معاہدہ کیا کہ عوام کے ہاتھ ہی کٹوا بیٹھے۔ گزشتہ ماہ میں پٹرول کی قیمت میں 40 روپے اضافہ ہوا اور حال ہی میں 8 روپے لیٹر پٹرول کی قیمت میں کمی کر دی گئی۔ یہ تو حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے والی بات ہوئی۔ اور تو اور جس دن یہ کمی ہوئی اسی روز مایع گیس کی قیمت 21 روپے بڑھا دی گئی یعنی پٹرول کی قیمت میں کمی کی نسبت 3 گنا اضافہ ۔ اسے کہتے ہیں رعایہ کے ساتھ ہاتھ کی صفائی۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی آئی ایم ایف کو دی جانے والی دھمکیاں بھی کام نہ آسکیں۔ الٹا آئی ایم ایف نے ہماری مشکیں ایسی کسیں کہ سب توبہ توبہ کر بیٹھے۔ رعایہ کو اچھی طرح یاد ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب ہم سب کو تسلی دیتے رہے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے ڈیل نہ بھی ہوئی تو پلان B تیار ہے۔ جب کہ سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے آئی ایم ایف ڈیل کے بعد یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ میری تو آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہونے پر راتوں کی نیند ہی اڑ گئی تھی۔ یہ سوچ کر کہ اگر یہ ڈیل نہ ہوئی تو ہماری تمام امدادیں بند اور پٹرول ادویات سمیت دیگر اشیاء پاکستان میں ناپید ہو جائیں گی۔ عوام سٹرکوں پر آجائیں گے۔ نتیجہ خوفناک خانہ جنگی کی شکل میں نکلے گا۔ اگر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب گزشتہ سال کے آخر اور اس سال کے شروع تک آئی ایم ایف سے ڈیل کر لیتے تو معاشی حالات اتنے تباہ کن نہ ہوتے۔ ڈیل میں دیری نے پاکستانی معشیت کو تباہ کن ��وڑ پر لا کھڑا کیا۔
Tumblr media
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار کو لانے والے کیا اس کے ذمے دار نہیں جب کہ سابق وزیراعظم شہباز شریف مفتاح اسماعیل کی تبدیلی کے لیے راضی نہیں تھے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث مہنگائی بے قابو ہوتے ہوئے اس کی شرح 31.44 فیصد پر پہنچ گئی ہے جب کہ مہنگائی کی شرح سالانہ بنیادوں پر 38.4 فیصد ہو گئی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ سہ ماہی اور سالانہ بنیادوں پر متعدد بار اضافے کے باوجود پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بھی بڑھ کر 2300 ارب سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ دہائیوں سے عوام کی رگوں سے مسلسل خون نچوڑا جا رہا ہے۔ معاہدے کے مطابق ابھی یہ لوٹ مار کم از کم مزید 4 سال جاری رہنی ہے۔ 1990 کی دہائی میں آئی پی پیز سے یہ عوام دشمن معاہدے کیے گئے۔ اب آپ خود ہی سوچ لیں کہ اس وقت کن کن پارٹیوں کی حکومتیں تھیں۔ ان معاہدوں سے عوام کی قیمت پر مبینہ طور پر اربوں کی کمیشن حاصل کی گئیں۔ سیاستدانوں اور اعلیٰ بیو رو کریسی نے ان معاہدوں سے خوب ہاتھ رنگے۔ ان عوام دشمن معاہدوں نے پاکستانی عوام کو غریب کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔
بھارت میں پچھلے سات سالوں میں غربت کی شرح کم ہو کر 25 سے 15 فیصد رہ گئی ہے۔ یعنی 10 فیصد کم ہو گئی ہے جب کہ بنگلہ دیش میں کچھ سال قبل کے مقابلے میں 19 فیصد رہ گئی ہے۔ اور اس کے برعکس پاکستان میں غربت کی شرح 40 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ ہے نہ کمال کی بات۔ ایک رپورٹ میں ورلڈ بینک کے حالیہ انکشاف کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں مڈل کلاس طبقے کی تعداد سکڑ کر آدھی رہ گئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق مستقبل میں پاکستان کی GDP مزید گرنے سے مڈل کلاس طبقہ مزید سکڑ کر رہ جائے گا جس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو ملنے والا حج کوٹہ بھی پورا استعمال نہیں کیا جا سکا اور سعودی حکومت کو واپس کرنا پڑا۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ملک کے معاشی حالات بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر گزشتہ دو برسوں میں 18 لاکھ سے زائد افراد پاک��تان چھوڑ گئے ہیں۔ خراب معاشی حالات کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھکاری بھی جو عمرے کے ویزے پر سعودی عرب اور عراق جا کر بھکاری کا پیشہ اختیار کر رہے ہیں گزشتہ دنوں ان ممالک سے ڈی پورٹ ہونے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے اس سے بڑی ملک کی بدنامی اور کیا ہو سکتی ہے ذرا غور فرمائیں!!! ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت امیروں پر ٹیکس لگا کر غریبوں پر خرچ کرے تاکہ غریبوں کا تحفظ ہو سکے جیسا کہ امریکا یورپ وغیرہ میں ہوتا ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور پاکستان میں مڈل کلاس کے سکڑنے کا رحجان جاری رہا تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ بھی مکمل طور پر ختم ہو کر غربت کے گڑھے میں جا گرے گا۔
زمرد نقوی  
بشکریہ ایکسپریس نیوز
0 notes
mypakistan · 11 years ago
Text
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے
حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہی ہے یا فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ کمانڈر گل بہادر، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے بیانات آپریشن کی چغلی کھاتے ہیں اور دو قبائل ارکان قومی اسمبلی فوجی ایکشن میں ستر معصوم شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہیں جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں مگر حکومت کے طوطی ہفت زبان چودھری نثار علی خاں خاموش ہیں، ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔
امریکہ شمالی وزیرستان میں فوری فوجی آپریشن کا خواہش مند ہے اور مذاکرات کا مخالف، اسے خدشہ یہ ہے کہ حکومت طالبان مذاکرات کامیاب رہے تو طالبان کے سارے گروپ افغانستان کا رخ کریں گے جبکہ بھارت خوفزدہ ہے کہ یہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظلوم کلمہ بھائیوں کی مدد کے لئے قدم بڑھا سکتے ہیں ۔1948ء کی طرح حکومت پاکستان گومگو کا شکار ہے کہ وہ امریکہ کو ناراض کرنا چاہتی ہے نہ بھارت کو پریشان اور پنجاب کو میدان جنگ بنانا بھی نہیں چاہتی اونٹ کی سواری کا شوق اور کوہان کا ڈر۔
ایک فوجی آپریشن آج سے بیالیس سال قبل ہمارے مشرقی بازو، مشرقی پاکستان میں بھی ہوا تھا جہاں فوج ، پولیس، پیرا ملٹری فورسز اور دیگر مسلح اداروں کے باغیوں، بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی ،علیحدگی پسندوں، غداروں اور غیر ملکی ایجنٹوں نے ڈھاکہ، چٹاگانگ، کھلنا، کوسیلا، جیسور اور دیگر شہر و دیہات میں پاکستان کے وفادار بنگالیوں اور غیر بنگالیوں، فوجیوں، پولیس و انتظامیہ کے افسروں و اہلکاروں اور ان کے اہلخانہ کو قتل وغارت گری، آبروریزی، آتش زنی اور تشدد کا نشانہ بنا کر نسل کشی کے نئے ریکارڈ قائم کئے تھے۔پاکستان کا پرچم سرعام جل رہا تھا علیحدگی کے نعرے معمول تھے اور جنسی تشدد محبوب مشغلہ خدا کا شکر ہے دس سالہ دہشت گردی میں پاکستان ایسی کارروائیوں کا نشانہ نہیں بنا۔
مشرقی پاکستان میں فوج نے کن حالات میں آپریشن کیا اس کی ایک جھلک ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کی ایک رپورٹ (مئی 1971ء) میں ملتی ہے ’’جن نامہ نگاروں نے ساحلی شہر چاٹگام کا دورہ کیا انہیں معلوم ہوا کہ یہاں باغیوں نے ہزاروں (جی ہاں ہزاروں) غیر بنگالیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا ، ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ باغیوں نے چاٹگام پر قبضہ کے بعد غیر بنگالیوں کی نسل کشی کی۔11اپریل1971ء کو ��وج نے بھرپور کارروائی کے بعد قبضہ چھڑایا ‘‘
امریکہ اخبار واشنگٹن ایوننگ سٹار نے 12مئی 1971ء کو اپنے نمائندے مارٹ روزن بام کی رپورٹ شائع کی ’’اصفہانی جوٹ مل کے کلب میں 180غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ جنونی باغیوں نے قتل عام سے قبل لوٹ مار کی اور عورتوں کی آبروریزی جبکہ مقامی باشندوں نے بتایا کہ بستیوں اور بازاروں میں غیر بنگالیوں کا پیچھا کرکے مارا گیا 350غیر بنگالی نوجوانوں کو جلا کر مار دیا‘‘
دی سنڈے ٹائمز (لندن) کے مطابق چاٹگام میں ملٹری اکیڈیمی کے کمانڈنگ کرنل کو شہید کر دیا گیا اس کی حاملہ بیوی سے زیادتی کی گئی اور اس کا پیٹ چاک کرکے سڑک پر پھینک دیا۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک اعلیٰ افسر کو زندہ جلا دیا گیا اس کے دو بیٹوں کے سر قلم کئے گئے افسر کی بیوی کا آبروریزی کے بعد پیٹ چیر دیا گیا اور برہنہ جسم پر بیٹے کا سر رکھ دیا گیا۔بہت سے غیر بنگالیوں کی لاشیں ملیں جن کے نازک اعضا میں بنگلہ دیشی پرچم کی ڈنڈیاں گڑی تھیں ‘‘ایسی ہی رپورٹیں 1971ء میں نیویارک ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندوں میلیکم برائون اور پیٹر گل کے حوالے سے شائع تھیں مگر آج تک حوالہ صرف ان پمفلٹوں، بیانات اور تشہیری مواد کا دیا جاتا ہے جو بھارت ، عوامی لیگ، مکتی باہنی نے پاکستان، فوج اور رضاکاروں کو بدنام کرنے کے لئے پھیلایا کہ معصوم، غیر مسلح اور سیاسی جدوجہد کرنے والے بنگالیوں کو لاکھوں کی تعداد میں تہہ تیغ کیا گیا، تین لاکھ خواتین سے زیادتی ہوئی اور دانشور و پروفیسر فوجی تشدد کا نشانہ بنے وغیرہ وغیرہ۔
جنرل یحییٰ خان، ٹکا خاں اور نیازی کی حماقتیں اپنی جگہ، غیر ملکی صحافیوں کو فائیو سٹار ہوٹل تک محدود کرنا بہت بڑی غلطی تھی جہاں سے من پسند رپورٹیں بھیجی جاتی رہیں اور یہی پروپیگنڈا، مواد ان دنوں انٹرنیٹ پر موجود ہے مگر بنگالی سکالرز نے جو کتابیں لکھیں، وہ نوجوان نسل بالخصوص ہمارے لکھاریوں کو ضرور پڑھنی چاہئیں بالخصوص وہ بنگال سکالرز جو عوامی لیگ کے حامی اور پاکستان کے مخالف تھے۔ ڈاکٹر عبدالمنعم چودھری انہی میں سے ایک ہیں جو اپنی کتاب BEHIND THE HYTH OF THREE MILLIONمیں بنگالیوں کے قتل، خواتین کی آبروریزی اور دیگر پروپیگنڈے کے واقعات وشواہد اور دلائل کے ساتھ نفی کرتے ہیں اور مکتی باہنی سے مظالم کی داستان تفصیل سے سناتے ہیں۔
سید سجاد حسین کی THE WASTE OF TIME اور ولیم شریف اسحاق کی کتاب BANGLADESH -A UNTOLD STORYمیں بھی شیخ مجیب الرحمن کے بھارت سے رابطوں عوامی لیگ کی غنڈہ گردی اور بہیمانہ مظالم کے علاوہ مکتی باہنی کی تخریب کاری کا ذکر موجود ہے جبکہ عبدالمنعم چودھری نے ڈھاکہ اور راجشاہی یونیورسٹی کے اساتذہ اور بنگالی دانشوروں کے خلاف پاک فوج کی کارروائی، اذیتیں دیکر مارنے اور اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کی کہانیوں کا پردہ چاک کیا ہے ۔ اس ضمن میں عبدالمنعم چودھری نے عینی شاہدین کے بیانات واقعاتی شہادتوں سے جیوتی سین گپتا، عبدالحسنات اور جوہری کے دعوئوں اور غیر حقیقی اعدادوشمار کے بخئے ادھیڑے ہیں۔
عبدالمنعم چودھری نے اپنی کتاب میں ایک بنگالی دانشور شہید اللہ قیصر کے چھوٹے بھائی ظہیر ریحان کا حوالہ دیا ہے جو اپنے بھائی کے اصلی قاتلوں کی تلاش میں حقائق اکٹھے کرتا رہا اس کے پاس کچھ تصویریں تھیں اور کلکتہ میں مقیم ایک بڑے عوامی لیگی رہنما کے بارے میں معلومات مگر اسے دن دیہاڑے اغوا کرکے غائب کردیا گیا کیونکہ اغوا کار نہیں چاہتے تھے کہ دانشوروں کے قتل کا افسانہ طشت ازبام ہو اور عوامی لیگی پروپیگنڈے کی قلعی کھلے۔ ان دانشوروں میں منیر چودھری بھی تھے جو ہمیشہ پاکستان دشمنی میں پیش پیش رہے ۔
ڈر یہ ہے کہ جس طرح مشرقی پاکستان میں بغاوت کچلنے اور بے گناہ غیر مسلح پاکستانیوں کا تحفظ کرنے کے لئے پاک فوج میدان میں کودی اور آج تک مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہے جبکہ اس کا ساتھ دینے اور پاکستان سے وفاداری نبھانے والے عبدالقادر ملا، صلاح الدین چودھری اور مولانا غلام اعظم پر سب وشتم جاری ہے صرف بنگلہ دیش نہیں بلکہ پاکستان میں بھی بالکل اسی طرح کہیں شمالی وزیر ستان کا آپریشن بھی کسی قومی پچھتاوے اور شرمندگی کا باعث نہ بن جائے ۔پاک فوج کیخلاف دشنام طرازی اور الزام تراشی تو قومی اور عالمی میڈیا، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا مرغوب موضوع ہے ۔کارگل، بلوچستان، لال مسجد اور مسنگ پرسنز کے حوالے سے مہم بھی سبق آموز ہے ۔
تنہا کھڑا ہوں میں بھی سر کربلائے عصر
اور سوچتا ہوں مرے طرفدار کیا ہوئے
مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن پر سارا مغربی پاکستان بشمول قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو فوج کے ساتھ تھا مگر یہاں تو حکومت بھی یکسو نہیں ۔اگر خدانخواستہ منفی نتائج سامنے آئے تو حکومت سب سے پہلے اظہار جرات کرے گی (کارگل کی طرح) اور سول بالادستی کے ہیضے میں مبتلا انٹیلی جنشیا بڑھ چڑھ کر فوج کو مورد الز��م ٹھہرائے گی جبکہ فوج کے روایتی حلیف بھی خاموشی کو ترجیح دیں گئے کیونکہ مشرقی پاکستان، افغانستان اور کشمیر کے زخم ابھی تازہ ہیں آپریشن کی خواہش سے مغلوب فوجی بھائی بھولے نہیں مگر شائد کچھ بھول رہے ہیں ۔
دیتے بھی ہیں لوگ دہائی قاتل کی
اور خنجر بھی آپ فراہم کرتے ہیں
ارشاد احمد عارف
بشکریہ روزنامہ 
جنگ
0 notes
risingpakistan · 11 years ago
Text
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے
حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہی ہے یا فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن؟ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ کمانڈر گل بہادر، مولانا فضل الرحمن اور عمران خان کے بیانات آپریشن کی چغلی کھاتے ہیں اور دو قبائل ارکان قومی اسمبلی فوجی ایکشن میں ستر معصوم شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہیں جن میں بچے اور خواتین شامل ہیں مگر حکومت کے طوطی ہفت زبان چودھری نثار علی خاں خاموش ہیں، ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔
امریکہ شمالی وزیرستان میں فوری فوجی آپریشن کا خواہش مند ہے اور مذاکرات کا مخالف، اسے خدشہ یہ ہے کہ حکومت طالبان مذاکرات کامیاب رہے تو طالبان کے سارے گروپ افغانستان کا رخ کریں گے جبکہ بھارت خوفزدہ ہے کہ یہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے مظلوم کلمہ بھائیوں کی مدد کے لئے قدم بڑھا سکتے ہیں ۔1948ء کی طرح حکومت پاکستان گومگو کا شکار ہے کہ وہ امریکہ کو ناراض کرنا چاہتی ہے نہ بھارت کو پریشان اور پنجاب کو میدان جنگ بنانا بھی نہیں چاہتی اونٹ کی سواری کا شوق اور کوہان کا ڈر۔
ایک فوجی آپریشن آج سے بیالیس سال قبل ہمارے مشرقی بازو، مشرقی پاکستان میں بھی ہوا تھا جہاں فوج ، پولیس، پیرا ملٹری فورسز اور دیگر مسلح اداروں کے باغیوں، بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی ،علیحدگی پسندوں، غداروں اور غیر ملکی ایجنٹوں نے ڈھاکہ، چٹاگانگ، کھلنا، کوسیلا، جیسور اور دیگر شہر و دیہات میں پاکستان کے وفادار بنگالیوں اور غیر بنگالیوں، فوجیوں، پولیس و انتظامیہ کے افسروں و اہلکاروں اور ان کے اہلخانہ کو قتل وغارت گری، آبروریزی، آتش زنی اور تشدد کا نشانہ بنا کر نسل کشی کے نئے ریکارڈ قائم کئے تھے۔پاکستان کا پرچم سرعام جل رہا تھا علیحدگی کے نعرے معمول تھے اور جنسی تشدد محبوب مشغلہ خدا کا شکر ہے دس سالہ دہشت گردی میں پاکستان ایسی کارروائیوں کا نشانہ نہیں بنا۔
مشرقی پاکستان میں فوج نے کن حالات میں آپریشن کیا اس کی ایک جھلک ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ کی ایک رپورٹ (مئی 1971ء) میں ملتی ہے ’’جن نامہ نگاروں نے ساحلی شہر چاٹگام کا دورہ کیا انہیں معلوم ہوا کہ یہاں باغیوں نے ہزاروں (جی ہاں ہزاروں) غیر بنگالیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا ، ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ باغیوں نے چاٹگام پر قبضہ کے بعد غیر بنگالیوں کی نسل کشی کی۔11اپریل1971ء کو فوج نے بھرپور کارروائی کے بعد قبضہ چھڑایا ‘‘
امریکہ اخبار واشنگٹن ایوننگ سٹار نے 12مئی 1971ء کو اپنے نمائندے مارٹ روزن بام کی رپورٹ شائع کی ’’اصفہانی جوٹ مل کے کلب میں 180غیر بنگالی عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ جنونی باغیوں نے قتل عام سے قبل لوٹ مار کی اور عورتوں کی آبروریزی جبکہ مقامی باشندوں نے بتایا کہ بستیوں اور بازاروں میں غیر بنگالیوں کا پیچھا کرکے مارا گیا 350غیر بنگالی نوجوانوں کو جلا کر مار دیا‘‘
دی سنڈے ٹائمز (لندن) کے مطابق چاٹگام میں ملٹری اکیڈیمی کے کمانڈنگ کرنل کو شہید کر دیا گیا اس کی حاملہ بیوی سے زیادتی کی گئی اور اس کا پیٹ چاک کرکے سڑک پر پھینک دیا۔ ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک اعلیٰ افسر کو زندہ جلا دیا گیا اس کے دو بیٹوں کے سر قلم کئے گئے افسر کی بیوی کا آبروریزی کے بعد پیٹ چیر دیا گیا اور برہنہ جسم پر بیٹے کا سر رکھ دیا گیا۔بہت سے غیر بنگالیوں کی لاشیں ملیں جن کے نازک اعضا میں بنگلہ دیشی پرچم کی ڈنڈیاں گڑی تھیں ‘‘ایسی ہی رپورٹیں 1971ء میں نیویارک ٹائمز اور ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندوں میلیکم برائون اور پیٹر گل کے حوالے سے شائع تھیں مگر آج تک حوالہ صرف ان پمفلٹوں، بیانات اور تشہیری مواد کا دیا جاتا ہے جو بھارت ، عوامی لیگ، مکتی باہنی نے پاکستان، فوج اور رضاکاروں کو بدنام کرنے کے لئے پھیلایا کہ معصوم، غیر مسلح اور سیاسی جدوجہد کرنے والے بنگالیوں کو لاکھوں کی تعداد میں تہہ تیغ کیا گیا، تین لاکھ خواتین سے زیادتی ہوئی اور دانشور و پروفیسر فوجی تشدد کا نشانہ بنے وغیرہ وغیرہ۔
جنرل یحییٰ خان، ٹکا خاں اور نیازی کی حماقتیں اپنی جگہ، غیر ملکی صحافیوں کو فائیو سٹار ہوٹل تک محدود کرنا بہت بڑی غلطی تھی جہاں سے من پسند رپورٹیں بھیجی جاتی رہیں اور یہی پروپیگنڈا، مواد ان دنوں انٹرنیٹ پر موجود ہے مگر بنگالی سکالرز نے جو کتابیں لکھیں، وہ نوجوان نسل بالخصوص ہمارے لکھاریوں کو ضرور پڑھنی چاہئیں بالخصوص وہ بنگال سکالرز جو عوامی لیگ کے حامی اور پاکستان کے مخالف تھے۔ ڈاکٹر عبدالمنعم چودھری انہی میں سے ایک ہیں جو اپنی کتاب BEHIND THE HYTH OF THREE MILLIONمیں بنگالیوں کے قتل، خواتین کی آبروریزی اور دیگر پروپیگنڈے کے واقعات وشواہد اور دلائل کے ساتھ نفی کرتے ہیں اور مکتی باہنی سے مظالم کی داستان تفصیل سے سناتے ہیں۔
سید سجاد حسین کی THE WASTE OF TIME اور ولیم شریف اسحاق کی کتاب BANGLADESH -A UNTOLD STORYمیں بھی شیخ مجیب الرحمن کے بھارت سے رابطوں عوامی لیگ کی غنڈہ گردی اور بہیمانہ مظالم کے علاوہ مکتی باہنی کی تخریب کاری کا ذکر موجود ہے جبکہ عبدالمنعم چودھری نے ڈھاکہ اور راجشاہی یونیورسٹی کے اساتذہ اور بنگالی دانشوروں کے خلاف پاک فوج کی کارروائی، اذیتیں دیکر مارنے اور اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کی کہانیوں کا پردہ چاک کیا ہے ۔ اس ضمن میں عبدالمنعم چودھری نے عینی شاہدین کے بیانات واقعاتی شہادتوں سے جیوتی سین گپتا، عبدالحسنات اور جوہری کے دعوئوں اور غیر حقیقی اعدادوشمار کے بخئے ادھیڑے ہیں۔
عبدالمنعم چودھری نے اپنی کتاب میں ایک بنگالی دانشور شہید اللہ قیصر کے چھوٹے بھائی ظہیر ریحان کا حوالہ دیا ہے جو اپنے بھائی کے اصلی قاتلوں کی تلاش میں حقائق اکٹھے کرتا رہا اس کے پاس کچھ تصویریں تھیں اور کلکتہ میں مقیم ایک بڑے عوامی لیگی رہنما کے بارے میں معلومات مگر اسے دن دیہاڑے اغوا کرکے غائب کردیا گیا کیونکہ اغوا کار نہیں چاہتے تھے کہ دانشوروں کے قتل کا افسانہ طشت ازبام ہو اور عوامی لیگی پروپیگنڈے کی قلعی کھلے۔ ان دانشوروں میں منیر چودھری بھی تھے جو ہمیشہ پاکستان دشمنی میں پیش پیش رہے ۔
ڈر یہ ہے کہ جس طرح مشرقی پاکستان میں بغاوت کچلنے اور بے گناہ غیر مسلح پاکستانیوں کا تحفظ کرنے کے لئے پاک فوج میدان میں کودی اور آج تک مجرموں کے کٹہرے میں کھڑی ہے جبکہ اس کا ساتھ دینے اور پاکستان سے وفاداری نبھانے والے عبدالقادر ملا، صلاح الدین چودھری اور مولانا غلام اعظم پر سب وشتم جاری ہے صرف بنگلہ دیش نہیں بلکہ پاکستان میں بھی بالکل اسی طرح کہیں شمالی وزیر ستان کا آپریشن بھی کسی قومی پچھتاوے اور شرمندگی کا باعث نہ بن جائے ۔پاک فوج کیخلاف دشنام طرازی اور الزام تراشی تو قومی اور عالمی میڈیا، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا مرغوب موضوع ہے ۔کارگل، بلوچستان، لال مسجد اور مسنگ پرسنز کے حوالے سے مہم بھی سبق آموز ہے ۔
تنہا کھڑا ہوں میں بھی سر کربلائے عصر
اور سوچتا ہوں مرے طرفدار کیا ہوئے
مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن پر سارا مغربی پاکستان بشمول قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو فوج کے ساتھ تھا مگر یہاں تو حکومت بھی یکسو نہیں ۔اگر خدانخواستہ منفی نتائج سامنے آئے تو حکومت سب سے پہلے اظہار جرات کرے گی (کارگل کی طرح) اور سول بالادستی کے ہیضے میں مبتلا انٹیلی جنشیا بڑھ چڑھ کر فوج کو مورد الزام ٹھہرائے گی جبکہ فوج کے روایتی حلیف بھی خاموشی کو ترجیح دیں گئے کیونکہ مشرقی پاکستان، افغانستان اور کشمیر کے زخم ابھی تازہ ہیں آپریشن کی خواہش سے مغلوب فوجی بھائی بھولے نہیں مگر شائد کچھ بھول رہے ہیں ۔
دیتے بھی ہیں لوگ دہائی قاتل کی
اور خنجر بھی آپ فراہم کرتے ہیں
ارشاد احمد عا��ف
بشکریہ روزنامہ 
جنگ
0 notes
bazmeur · 7 years ago
Text
ٹک ٹک دیدم ۔۔۔ سعید نقوی
ٹک ٹک دیدم ۔۔۔ سعید نقوی
      ٹُک ٹُک دیدم
    سعید نقوی
  ماخذ: کتاب ایپ
http://www.idealideaz.com
www.kitaabapp.com
    مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل ای پب فائل کنڈل فائل
    ٹک ٹک دیدم
  بڑا گھنٹا گھر شہر کے بالکل وسط میں تھا۔ شروع میں شاید اس کا رنگ سرخ رہا ہو مگر اب وقت کی گرد نے اسے ایک ایسا رنگ دے دیا تھا جو صرف وقت ہی چن سکتا ہے۔ بلند اتنا کہ میلوں دور سے نظر آ جائے۔ چوکور مینار کی طرز پر تعمیر کیا گیا…
View On WordPress
0 notes