#وجود امام مہدی
Explore tagged Tumblr posts
qamer · 2 years ago
Photo
Tumblr media
جب امام مہدی کا مکمل ظہور ہوگا اور اُنکی حکومت ہو گی ساری دنیا میں امن ومحبت قائم ہوجائے گی تو کیا اس کے بعد ا مام مہدی کی وفات ہو جائے گی تو ان کا مزار کہاں ہو گا یا وہ واپس غائب ہو جائیں گے؟ سیدی یون�� الگوہر نے فرمایا۔🙏 امام مہدی علیہ الصلوۃ ولسلام کی غیبت کے بہت سارمحرکات و،وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ امام مہدیؑ نے جب بیس سال پاکستان میں کام کیا تو ناجانے کیسے کیسے لوگ ساتھ لگ گئے جن کی تقدیر میں اللہ کا پیار،محبت،عشق نہیں ہے دنیا دارلوگ کسی نہ کسی وجہ سے ساتھ لگ گئے۔ واقعۂ غیبت کو قائم کرنے کا ایک مقصد،جو غیر مخلص لوگ سرکارگوہرشاہی کے ساتھ لگ گئے ہیں اُنکوعلیحدہ کیا جائے۔ دوسرا مقصد،امام مہدیؑ کا جوجسمِ مبارک ہے وہ کسی نے دیکھا نہیں اور جن جسّوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں اب اُن جسّوں کی عمرہوگئی ہے ساٹھ سال اندر جو چیزبیٹھی ہوئی ہے اُس کوچاہیئے طاقتورجسم،روحانی طاقت کچھ اور تقاضا کرتی ہے اور ساٹھ سال کا وجود کچھ اورکمزوریاں بیان کرتا ہے تو ایک تو اُس سے جان چھڑانی ہے ،دوسرایہ ہے کہ تقاضائے بشریت کومدِنظر رکھنا ہے، اب آنے کے بعد آپؑ کا جودوسرادور ہو گا اُس میں آپ نے اپنی شان دیکھانی ہے تو یہ جو واقعۂ غیبت کیا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ جو موت جیسی شے ہے اس کو کسی نفس کی طرح دیکھنے والی شے کے اوپرطاری کر دیا جائے اور کاغذی طور پر یہ معاملہ ختم ہو جائے اب جب امام مہدیؑ تشریف فرما ہوں گے تووہ امام مہدیؑ کا جو جسمِ مبارک ہے وہ نیا نہیں ہے وہی ہے جو پہلے تھا۔ کوٹری میں جس سے لوگوں نے ملاقات کی ہے وہ جسم نہیں تھا وہ سرکار کے لطیفہؑ نفس کے جسّہ ہائے مبارک تھے ،دوبارہ تشریف آوری میں وہ جسم مبارک ہو گا۔ امام مہدیؑ کے جسم کی ہیئت وہ نور ہے شجرۃ النورسے متعلقہ ہے اس میں جو نور بہنے کا کہا گیا ہے وہ نور نہیں ہے وہ ،وہ مادہ ہے جس کے بہاؤ سے نور بنتا ہے وہ مادہ بہے گا تواُس کے بہاؤسے نور کی شعائیں نکلتی ہیں جسم بھی نورکا اوربجائے خون کے مادۂ نور اندردوڑے تو اُس پر موت کیسے واقع ہو گی اس لیئے امام مہدیؑ کا کام جب یہاں ختم ہو جائے گا۔تو وہ پرواز کر کے جہاں سے آئے ہیں وہاں چلے جائیں گے۔ فرمایا امام مہدی کا نا موت سے کوئی تعلق ہے نا ان کا مزار ہو گا۔ 03.03.2020 #ImamMehdiGoharShahi #ifollowGoharShahi #YounusAlGohar #ALRATV Watch ALRA TV 👇 https://youtube.com/@ALRATV https://www.instagram.com/p/Cp4rJh6vBoE/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
irfangohar · 5 years ago
Link
2 notes · View notes
sgbushi · 5 years ago
Link
0 notes
wasimmce · 3 years ago
Photo
Tumblr media
احادیث ِ نبوی اور مستند روایات میں لکھا ہے کہ امام مہدی کی ہستی انبیاء سے افضل ہو گی اورچار درجے کی نبوت والے مرسل عیسیٰؑ امام مہدی کے مرشد ہوں گے۔ امام مہدی کی شان ایسی نہیں ہے کہ آپ آرام سے ان کا نام لے لیں ، نہ ان کی شان و تکریم ایسی ہے کہ اگر نےآپ سارے انبیاء کو تمام صحابہ کرام کو مان لیا لیکن امام مہدی کو نہیں مانا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔امام مہدی تو وہ ہیں جنہوں نے سارے کائنات کے بنانے والے پر احسان چڑھایا ہے۔کتنی اہمیت ہو گی اُس ذات کی کہ جب تک ہستی معظم امام مہدی علیہ السلام آ نہ جائیں اس وقت تک اس کائنات میں قیامت کو قائم نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر دنیا کی عمر ختم ہو گئی ہو اور قیامت میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہو تو خدا اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ اس میں میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کی حکومت قائم ہو سکے گی جو میرا ہم نام ہوگا۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح اس سے پہلے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ صحیح ترمذی جلد دوئم صفحہ 86 “امام مہدی علیہ السلام کا فلسفہ اگر لوگوں کی سمجھ میں آ جائے اور یہ پتا چل جائے کہ امام مہدی علیہ السلام کیا دینے آئے ہیں تو پھر یقین کریں اس زمانے سے پہلے جتنے زمانے آئے ہیں ،جتنے دور گزر چکے ہیں جتنی خوش قسمتیاں مل چکی ،جتنی خوش بختیاں عطا ہو چکی ہیں ان تمام پر آپ کو حسرت رہے گی کہ کاش ہم اِس زمانے میں آئے ہوتے کہ جو زمانہ مہدی ہے۔اس سے پہلے تو بڑے چلے اور مجاہدے کر کے اسم اللہ ملا کرتا تھا اور یہ زمانہ مہدی ، یہاں تو آئی فون اور کمپیوٹر پربیٹھے بیٹھے کرم ہو جاتا ہے۔یوٹیوب پر اچانک امام مہدی کی تصویر اور ویڈیو نظر آگئی اس نے دیکھ لی سو گیا خواب میں امام مہدی آ گئے دل میں اللہ ھو گونجنے لگ گیا، یہ خوش بختیاں انسان کے مقدر میں پہلے کہا ں تھیں ؟ یہ خوش بختیاں تو اِس دور میں وجود امام مہدی گوھرشاہی کے ساتھ آئی ہیں ،اس سے پہلے دنیا کو خوش بختی کے نام سے شناسائی نہیں تھی” روزانہ برطانیہ وقت کے مطاب�� رات pm10:30 الرٰ ٹی وی (ALRA TV) یوٹیوب پر لائو خطاب سماعت فرمائیں۔ چینل لنک:https://youtube.com/c/ALRATV اذنِ ذکرِقلب کے لیے شیخ امجد سے اس نمبر پر رابطہ کیجیے۔ 447401855568+ الرٰ ٹی وی انسٹگرام آئی ڈی @alratv عزت مآب سیدی یونس الگوھر @younus_algohar سوال و جواب کے وسائل: ۱ : میسیج کیجیے الرٰ ٹی وی فیس بک پر Facebook/alratv ۲ : میسیج یا کال کیجیے الرٰ ٹی وی واٹس ایپ پر +44 7472 540642 #TheAwaitedOne #ALRATV #Sufism #sufimaster #YounusAlGohar #ImamMehdi #GoharShahi #wisdom #manonthemoon #Love (at India) https://www.instagram.com/p/Cao277ePIuo/?utm_medium=tumblr
0 notes
mobinkhan14m · 3 years ago
Photo
Tumblr media
احادیث ِ نبوی اور مستند روایات میں لکھا ہے کہ امام مہدی کی ہستی انبیاء سے افضل ہو گی اورچار درجے کی نبوت والے مرسل عیسیٰؑ امام مہدی کے مرشد ہوں گے۔ امام مہدی کی شان ایسی نہیں ہے کہ آپ آرام سے ان کا نام لے لیں ، نہ ان کی شان و تکریم ایسی ہے کہ اگر نےآپ سارے انبیاء کو تمام صحابہ کرام کو مان لیا لیکن امام مہدی کو نہیں مانا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔امام مہدی تو وہ ہیں جنہوں نے سارے کائنات کے بنانے والے پر احسان چڑھایا ہے۔کتنی اہمیت ہو گی اُس ذات کی کہ جب تک ہستی معظم امام مہدی علیہ السلام آ نہ جائیں اس وقت تک اس کائنات میں قیامت کو قائم نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر دنیا کی عمر ختم ہو گئی ہو اور قیامت میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہو تو خدا اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ اس میں میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کی حکومت قائم ہو سکے گی جو میرا ہم نام ہوگا۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح اس سے پہلے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ صحیح ترمذی جلد دوئم صفحہ 86 “امام مہدی علیہ السلام کا فلسفہ اگر لوگوں کی سمجھ میں آ جائے اور یہ پتا چل جائے کہ امام مہدی علیہ السلام کیا دینے آئے ہیں تو پھر یقین کریں اس زمانے سے پہلے جتنے زمانے آئے ہیں ،جتنے دور گزر چکے ہیں جتنی خوش قسمتیاں مل چکی ،جتنی خوش بختیاں عطا ہو چکی ہیں ان تمام پر آپ کو حسرت رہے گی کہ کاش ہم اِس زمانے میں آئے ہوتے کہ جو زمانہ مہدی ہے۔اس سے پہلے تو بڑے چلے اور مجاہدے کر کے اسم اللہ ملا کرتا تھا اور یہ زمانہ مہدی ، یہاں تو آئی فون اور کمپیوٹر پربیٹھے بیٹھے کرم ہو جاتا ہے۔یوٹیوب پر اچانک امام مہدی کی تصویر اور ویڈیو نظر آگئی اس نے دیکھ لی سو گیا خواب میں امام مہدی آ گئے دل میں اللہ ھو گونجنے لگ گیا، یہ خوش بختیاں انسان کے مقدر میں پہلے کہا ں تھیں ؟ یہ خوش بختیاں تو اِس دور میں وجود امام مہدی گوھرشاہی کے ساتھ آئی ہیں ،اس سے پہلے دنیا کو خوش بختی کے نام سے شناسائی نہیں تھی” روزانہ برطانیہ وقت کے مطابق رات pm10:30 الرٰ ٹی وی (ALRA TV) یوٹیوب پر لائو خطاب سماعت فرمائیں۔ چینل لنک:https://youtube.com/c/ALRATV اذنِ ذکرِقلب کے لیے شیخ امجد سے اس نمبر پر رابطہ کیجیے۔ 447401855568+ الرٰ ٹی وی انسٹگرام آئی ڈی @alratv عزت مآب سیدی یونس الگوھر @younus_algohar سوال و جواب کے وسائل: ۱ : میسیج کیجیے الرٰ ٹی وی فیس بک پر Facebook/alratv ۲ : میسیج یا کال کیجیے الرٰ ٹی وی واٹس ایپ پر +44 7472 540642 #TheAwaitedOne #ALRATV #Sufism #sufimaster #YounusAlGohar #ImamMehdi #GoharShahi #wisdom #manonthemoon #Love https://www.instagram.com/p/CaooCdKvLko/?utm_medium=tumblr
0 notes
mehdi-foundation-urdu · 6 years ago
Photo
Tumblr media
‎جشن شاہی یوم مہدی پر نمائندہ گوھر شاہی کا پیغام
‎فرمان گوہر شاہی ہے کہ ہر معراج کا تعلق 15 رمضان سے ہے۔ یہ دن یوم تقرری مہدیت ہے۔ باطنی نشانی یہ ہے کہ بعد از محبوب کبریا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذاتی طفل نوری اور ذاتی جثّہ توفیق الہی کا ایک جسم اطہر میں یکجا ہونا صرف امام مہدی علیہ السلام کے لئے ثابت ہے۔اور سیدنا گوہر شاہی کے وجود مبارک میں ذاتی طفل نوری اور ذاتی جثّہ توفیق الہی موجود ہے۔ چاند پر تصویر گوہر شاہی کا نمایاں ہونا آپ کے مرتبہ مہدی کی دلیل ہے۔ امام جعفر صادق ؓسے روایت ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا چہرہ چاند پر چمکے گا۔ سورج کی سطح پر تصویرِ گوہر شاہی نمایاں ہے ایک حدیث میں آیا کہ اُس وقت تک امام مہدی کا ظہور نہیں ہوگا جب تک سورج پر نشانی ظاہر نہ ہو۔ قحط الرجال کا دور ہونا جس میں روشن ضمیری مفقود ہوجائے گی اور دور دور تک کوئی چراغ یعنی قلب اسم ذات اللہ سے روشن ہوگا۔ سیدنا امام مہدی گوہر شاہی نے روشن ضمیری کو پھر سے حیات جاوداں بخشی اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں قلوب کو قندیل اسم ذات اللہ بنا دیا۔
https://www.mehdifoundation.com/latest/articles/jashan-e-shahi-yome-mehdi-per-numainda-gohar-shahi-ka-pegham/
4 notes · View notes
nohailkhan · 4 years ago
Link
بزمِ مرشد : تصورِشیخ کے باطنی فضائل
فنا فی الشیخ کے منازل: تصوّرِ شیخ: روحانیت میں جو پہلا سبق ہے وہ تصورِشیخ ہے۔ تصورِشیخ مرید اورمرشد کے درمیان وسیلہ بنتا ہے۔ مرشد کے اندرطاقت ہوتی ہے کہ جب وہ مرید کے بارے میں سوچتا ہے تومرید کا چہرہ سامنے آجاتا ہے لیکن مرید کے پاس یہ طاقت نہیں ہوتی لہٰذا مرید کوتصورِشیخ کرنا پڑتا ہے تاکہ غائبانہ طورپر بھی کہیں بھی رہیں مرید مرشد کودیکھ سکے اورمرشد تودیکھ سکتا ہے۔ اِس تصورکے ذریعے ایک روحانی رشتہ قائم ہوجائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ
جب آپ مرشد کا تصورکرتے ہیں شیخ کا تصورکرتے ہیں توشیخ کا نورآپ کی طرف آنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ جو نورآتا ہے اُس سے آپ کے گناہ دُھلنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جتنا وہ تصور،مرشد کا شیخ کا کرتا ہے اُتنے ہی زیادہ اُس کے گناہ دُھلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
پرانے وقتوں میں جوکامل ذات ہوتے تھے فقراء، صالحین اور مقربین ہوتے تھے اُن کا جوطریقہٴِ اکتسابِ فیض تھا اُس کا پہلا قاعدہ یہ تھا کہ وہ مریدین کواپنا تصورسکھاتے تھے۔ مولانا روم نے اپنی مثنوی شریف میں تصورِشیخ کے حوالے سے ایک مرید کا حال بیان کیا ہے کہ ایک شخص ایک مرشدِ کامل کے ہاتھ پربیعت ہوتا ہے اورمرشد جواُس کوپہلا سبق پڑھاتا ہے وہ یہ ہے کہ باقی چیزیں بعد میں ہونگی ابھی تم شیخ کا تصورکرو، جاوٴ تصور پکاوٴ جاکر، تصورکی مشق کرو اور جب تصور میں کامل ہوجاوٴ توپھراگلے سبق کیلئے آنا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ مرید مرشد کے پاس یہ سوچ کر آگیا کہ تصورِشیخ میں وہ کامل ہوگیا ہے۔ مرید نے دروازے پردستک دی تومرشد نے پوچھا کہ کون؟ اُس نے اپنا نام بتایا کہ میں ہوں۔ مرشد نے کہا کہ ابھی تمہارا تصورصحیح نہیں ہے توتم واپس جاوٴ۔ پھروہ چلا گیا اورکچھ عرصے کے بعد آیا تواب دستک دے کرجب مرشد کی آوازآتی ہے کہ کون ہے تومرید کہتا ہے کہ پتہ نہیں میں ہوں یا پتہ نہیں آپ ہو! مرشد کہتا ہے کہ جب تمہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ تم کون ہوتوتم واپس جاوٴ تومرید واپس چلا گیا۔ مولانا روم نے اِسطرح بیان کیا ہے لیکن ایک اور صوفی کتاب ہے جس میں مختلف طریقے سے یہ بیان ہوا ہے۔ پھرکچھ عرصے کے بعد جب مرید دوبارہ آتا ہے اوردستک دیتا ہے تومرشد کہتا ہے کہ کون ہے تواب مرید مرشد کا نام لے کرکہتا ہے کہ میں ہوں۔ پھرمرشد کہتا ہے کہ ہاں ٹھیک ہے اب اندرآجاوٴ۔ یعنی تصوراتنا پختہ ہوجائے اور آپ کے ہَواس پرچھا جائے، آپ کے جذبات پرچھا جائے کہ آپ کواپنا ہوش ہی نہ رہے بلکہ آپ تصورِشیخ میں اتنے مدہوش ہوجائیں کہ شیخ کا ہی نام، شیخ کی ہی شناخت باقی رہ جائے اورباقی سب آپ بھول جائیں۔ تصورِشیخ کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب جب آپ تصورِشیخ کریں گے آپ کے گناہ دُھلنے شروع ہوجائیں گے۔ جب آپ شیخ کا تصورکریں گے توشیخ کے پاس آپ کی طرف سے یہ نِدا جائے گی اور ایک روحانی تعلق بنتا جائے گا۔ آپ شیخ کا تصوّرکریں اور شیخ آپ کے بارے میں سوچے گا۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ سورة البقرة آیت نمبر 152 ترجمہ: تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا۔
جب تصوّرِ شیخ میں کامل ہوگیا اُس کے بعد وہ اگلا مرحلہ ہے۔ ابھی توتصورمیں کامل ہوا ہے، تصور ہی ہے کہ تُو شیخ ہے۔
محبتِ شیخ: دوسرا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ پھرشیخ دوسرے مرحلے میں اپنے سینے کی کوئی مخلوق نکال کرتیرے سینے میں ڈال دے گا، اب تصوّرِ شیخ بھی ہوگیا اور شیخ کا وجود بھی تیرے اندر آگیا۔ پہلا سبق تصوّرِ شیخ ہے اور دوسرا سبق محبتِ شیخ ہے جوکہ انسان کو فنا فی الشیخ کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
فنا فی الرسول کی منزل: جب فنا فی الشیخ ہوگیا ہے توپھراُسے حضورؐکی بارگاہ میں لے جائیں گے۔ جب نبی کریمؐ کی بارگاہ میں لے جائیں گے توحضورؐکا دیدارہوگا اورحضورؐ کے دیدارکے بعد اب اُن کی مرضی ہے کہ وہ تجھے کیا نوازتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کوروحانیت کی منزل میں آگے جانا ہوتا ہے، حضورؐ کی تعلیم درکارہے۔ ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا ہے کہ
مرشد کبھی بھی تمہیں ظاہرمیں تعلیم نہیں دے گا۔ مرشد کی تعلیم دینے کا طریقہ یہ ہے کہ مرشد اپنے سینے کی کوئی مخلوق تمہارے سینے میں ڈال دے گا اور وہ مرشد کی مخلوق تمہارے سینے میں بیٹھ کرتمہارے لطائف کوروحانی علم وعرفان اور محبت عطا کرے گی۔ اسی لئے علمِ طریقت کوسینہ بہ سینہ کہا جاتا ہے۔
فنا فی الشیخ کے بعد اب تم دربارِرسالت تک پہنچ گئے۔ دربارِرسالت میں اب تمھیں آگے کی تعلیم حضورؐ سے چاہئیے توتعلیم دینے کی غرض سے نبی پاکؐ کا ایک جُثّہ مبارک مرید کے سینے میں آکربیٹھ گیا۔ جب ایسا ہوگیا تواب یہ فنا فی الرسول کا مقام ہے۔ فنا فی الرسول کے مقام کونائبِ رسول بھی کہتے ہیں۔ جوپھرایسے شخص کودیکھ لیتا ہے یعنی اگرتم نے فنا فی الرسول کودیکھ لیا توجہنم کی آگ تم پرحرام ہوگئی کیونکہ اُس کی آنکھوں میں، اُس کے چہرے پراوراُس کے لبوں پرلمسِ محمدؐ مچلتا ہے، محبتِ محمدؐ اُس کے جسم کے مسام سے خارج ہوتی ہے، اُس کی صحبت میں بیٹھنا حضورؐ کی صحبت میں بیٹھنا ہوجاتا ہے اور اُس کودیکھنا حضورؐ کودیکھنا ہوجاتا ہے۔ روحانیت میں سب سے زیادہ ضروری تصوّرِ شیخ ہے۔
سیدنا گوھرشاہی نے اپنی تعلیماتِ مبارک کا آغاز کیسے فرمایا؟ سیدنا سرکارگوھرشاہی نے جب اپنی تعلیمات کا آغازفرمایا توسرکارگوھرشاہی نے لوگوں کوتصورِ شیخ نہیں سکھایا بلکہ براہِ راست اسمِ ذات اللہ کا تصورسکھایا۔ اس کی ایک وجہ تویہ ہے کہ تصورِ شیخ جوہوتا ہے وہ بڑا دشوارراستہ ہوتا ہے۔ جب تک تصورِشیخ پختہ نہ ہوجائے اورجب تک کہ مرشد کی طرف سے تصدیق نہ ہوجائے اُس وقت تک تصورِ شیخ میں شیطان بھی آسکتا ہے۔ سرکار گوھرشاہی کا مزاجِ گرامی ایسا ہے کہ آپ نے یہ کبھی نہیں چاہا کہ روحانیت کے اِس راستے میں کوئی ایسا عمل لوگوں کوسکھایا جائے کہ جس کے کسی بھی پہلوسے وہ شیطان کی گرفت میں آئیں لہٰذا آپ نے تصورِشیخ نہیں کرایا بلکہ تصورِاسمِ ذات اللہ کرایا کیونکہ اسمِ ذات اللہ کے تصور میں شیطان کا عمل دخل نہیں ہے۔ لہٰذا اسمِ ذات اللہ کا تصورکرایا گیا تاکہ اسمِ ذات اللہ کے تصورسے آپ کا روحانیت کا راستہ محفوظ رہے اور آپ کوکوئی پریشانی نہ ہو۔ اسمِ ذات کا تصورکرتے رہیں، اسمِ ذات کے تصورکے ذریعے نوربھی ملتا رہے اور اسمِ ذات کے تصورکے ذریعے آپ کویہ اطمینان بھی رہے کہ شیطان عمل دخل نہیں کرے گا۔ سرکارگوھرشاہی کے وسیلے سے اور ذریعہ مبارک سے میرے، ہمارے، آپ کے اور باقی ماندہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کے جوقلب اسمِ ذات اللہ سے منورہوئے ہیں، یہ اللہ کا قائدہ اورقانون ہے کہ جس کے وسیلے سے آپ کے قلب میں ذکراللہ شروع ہوگا تواللہ تعالی کی طرف سے اُس ہستی کا عشق بھی آپ کے دل میں آئے گا۔ جیسے ہی کسی کا قلب اسمِ ذات اللہ سے منورہوتا ہے اوردل اللہ اللہ کرنے لگتا ہے توخودبخود اُس کوسرکارگوھرشاہی سے محبت محسوس ہونے لگتی ہے کیونکہ یہ فطری عمل ہے۔ اب جہاں محفل میں بہت سارے لوگ ہیں آپ پوچھیئے جن لوگوں کا دل اللہ اللہ کرتا ہے اور جن کوذکرِقلب میسرآگیا ہے آپ اُن سے پوچھیئے کہ کیا آپ کوسرکارگوھرشاہی سے محبت محسوس نہیں ہوتی ہے تویقیناً ایک بھی انسان یہاں ایسا نہیں ہوگا جوکہے کہ نہیں مجھے سرکارگوھرشاہی سے محبت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ یہ اللہ کا قاعدہ قانون ہی نہیں ہے کہ جوذکرتمہارے دل میں جاری کرے اُس کی محبت تمہارے دل میں پیدا نہ ہو، یہ ہوہی نہیں سکتا ہے۔ جتنے بھی لوگ ہیں جن کا قلب اللہ کے ذکرسے بیدار ہوگیا ہے اذخود اللہ کی طرف سے اُن کے دلوں میں سرکارگوھرشاہی کی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔
تصاویر سے فیض کیسے ہوسکتا ہے؟ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نمازپڑھتے ہیں تونمازمیں اُن کوسرکارکا چہرہ نظرآتا ہے۔ اب خدا جانے کہ وہ چہرہ مبارک سرکارگوھرشاہی کا ہے یا پھرمحمد الرسول اللہ کا چہرہ مبارک ہے کیونکہ احادیث میں لکھا ہے کہ
امام مہدی ہُو بہُو ہمشکلِ مصطفی ہونگے۔
اب آپ کونمازمیں جوچہرہ نظرآرہا ہے جنہوں نے حضورؐکا دیدارنہیں کیا وہ نہیں پہچان سکتے لیکن جنہوں نے حضورنبی پاکؐ کا دیدارکرلیا ہے اوراللہ رب العزت نے اُن کویہ توفیق اورسعادت عطا فرما دی ہے وہ پہچان جاتے ہیں کہ نمازمیں جوچہرہ آیا ہے وہ نبی پاکؐ کا چہرہ ہے یا سرکارگوھرشاہی کا چہرہ ہے۔ کچھ لوگوں کونمازمیں محمد الرسول اللہ کا چہرہ مبارک نظرآتا ہے اورہرنمازمیں اُن کو حضورؐ کا چہرہ مبارک نظرآتا ہے۔ بہت سے لوگوں کوسرکارگوھرشاہی کا چہرہ مبارک نظرآتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضورؐ کا چہرہ نمازمیں نظرآنا یا سرکارگوھرشاہی کا چہرہ نمازمیں نظر آنا شریعت کے حوالے سے جائز ہے یا ناجائزہے! اگرآپ کونمازمیں خانہ کعبہ نظرآئے توآپ کیا کہیں گے! جائزہی جائزہے تووہ بھی ایک عمارت کا رُخ ہی ہے، وہ مسجد الحرام کی تصویرآپ کونظرآرہی ہے۔ خانہ کعبہ اللہ تونہیں ہے توپھراگرخانہ کعبہ تمہیں نمازمیں نظرآئے توتم خوش ہوتے ہولیکن اگر کوئی چہرہ تمہیں نمازمیں نظرآئے توتم پریشان ہوجاتے ہو حالانکہ خانہ کعبہ میں اللہ نہیں بیٹھا ہوا، وہ صرف ایک قبلہ ہے۔ پھربھی اُس کا اگرتصورتمہیں نمازمیں آجائے توتیری نمازاللہ کی بارگاہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اوراگراُس ذات کا چہرہ نظرآجائے جس کا طواف خانہ کعبہ بھی کرتا تھا، ذاتِ مصطفیؐ کا چہرہ مبارک نظرآجائے، امام مہدیؑ کا چہرہ مبارک نظرآجائے تواِس کا مطلب تویہ ہوا کہ تیری نماز کوچارچاند لگ گئے اورتمہاری نمازاللہ کوجائے ہی جائے کیونکہ تیری نمازمیں وہ چہرے نظرآگئے جن چہروں کے پردے کے پیچھے خدا خود بیٹھا ہے۔ اِسطرح جب لوگوں کی نمازدرجہِ قبولیت پر پہنچتی ہے اور جب لوگوں کی نمازترقی کرتی ہے توپھراُن کونمازمیں کسی کونبی پاکؐ کا چہرہ مبارک نظرآتا ہے، کسی کوسیدنا گوھرشاہی کا چہرہ مبارک نظرآتا ہے اوریہ اُن کیلئے مقامِ عید اور مقامِ دید ہے۔ مقامِ دید ہی درحقیقت مقامِ عید ہے۔ دیدار کے قابل توکہاں میری نظر ہے یہ تیری عنایت ہے کہ رُخ تیرا اِدھر ہے سرکارگوھرشاہی کا تصورکرنا ٹھیک بھی نہیں ہے کیونکہ اُس تصورکرنے میں آپ کی خامی رہ جائے گی لہٰذا بہتریہ ہے کہ پہلے اسمِ ذات اللہ سے آپ کا قلب منورہوجائے، اُس کے بعد پھر سرکار گوھر شاہی کی طرف سے اپنی ذات کا تصورعطا ہوتواُس میں شیطان کا عمل دخل نہیں ہوگا۔ اِس لئے تصورنہیں کرایا جاتا۔ تصورسے دوچارباتیں ایسی بھی نکلتی ہیں کہ جوآپ کوروزمرہ زندگی میں فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ اب اگرآپ کے ذہن میں غلط چیزوں کے بارے میں کوئی غلط خیالات آتے ہیں اور تصورات میں آپ غلط غلط کام دیکھتے ہیں تواُس سے آپ کا نورضائع ہوتا ہے یا کسی ایسے آدمی کے بارے میں سوچیں جس کے اندرنورنہ ہوجیسے کہ آپ کوکسی بندے سے محبت ہوگئی یا کسی لڑکی سے محبت ہوگئی تواُس میں نورنہیں ہے اوراُس میں ��ُس کا ذکرِقلب نہیں ہے تواب جتنا آپ اُس کے بارے میں سوچیں گے توآپ کا نورضائع ہوتا رہے گا۔ جس آدمی میں نورنہیں ہے اُس کے بارے میں سوچنا اور اُس کا تصورکرنا آپ کی طرف نارلے کرآئے گا اور آپ کا نورضائع ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے کہ
موٴمنوں کو چاہئیے کہ وہ موٴمنہ سے شادی کریں، ذاکرین کوچاہئیے کہ وہ ذاکرات سے کریں، موٴکن کو چاہئیے کہ وہ موقنہ سے کرے اور محسن کوچاہئیے کہ وہ محسنہ سے کرے۔
جب دونوں کے دلوں میں نورہوگا، جب دونوں کے سینوں میں اسمِ ذات اللہ کا چراغ جل رہا ہوگا اور ایک دوسرے کے بارے میں سوچیں گے تونورہی آئے گا اورجائے گا۔ اِس بندے میں بھی نورہے اُس میں بھی نورہے تواب یہ آپس میں ایک دوسرے کے بارے میں سوچیں گے کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے توآدمی اکثراُس کے بارے میں سوچتا ہے۔
مَنْ اَحَبَّ شَیْئاً اَکْثَرَ ذِکرَهُ ترجمہ: جس کوجس سے محبت ہوجاتی ہے وہ اُس کا ذکرکرتا ہے۔
جیسے کسی لڑکی کی کسی لڑکے سے منگنی ہوگئی تواب وہ مختلف مواقعوں میں دیکھے گی کہ کسی نے کوئی شرٹ پہنی ہوئی ہوئی ہے توکہے گی کہ میرے منگیترکے پاس بھی ایسی شرٹ ہے یعنی بات دنیا کی کوئی اورہورہی ہوگی وہ گھسیٹ کراپنے منگیترکولے آئے گی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ محبت ہوگئی ہے۔ مَنْ اَحَبَّ شَیْئاً اَکْثَرَ ذِکرَهُ کہ جس کوجس سے محبت ہوجاتی ہے وہ بہانے لے لے کراکثراُس کا نام لیتا ہے اور ذکرکرتا ہے توذکرکرنے سے اُنسیت پیدا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جن کوغلط غلط خیال آتے ہیں، سوچتے رہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ گناہ نہیں ہورہا۔ غلط قسم کے جومناظرہیں اُن کوسوچنا بھی ایک روحانی آدمی کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔ اگرکسی سے دوستی ہے توٹھیک ہے رکھولیکن جب تک اُس کے دل میں نورنہ جائے اُس کے بارے میں زیادہ نہ سوچو کیونکہ اُس کی نار، اُس کے غلط خیالات اوروسوسے آپ اُس کے بارے میں سوچیں گے تو وہ آپ کی طرف آجائیں گے۔ جب ہم (یونس الگوھر) کسی کی طرف روحانی توجہ کرتے ہیں تو اُن کے وسوسے، پریشانیاں اورنارمیری طرف آجاتی ہے۔ اُس وقت جووہ سوچ رہے ہوتے ہیں، وسوسے آرہے ہوتے ہیں اورجس طرح کے خیالات ہیں وہ مجھ تک آجاتے ہیں توپھرمجھے کہتے ہیں کہ یہ ہماری جاسوسی کرتا ہے تواِس کوکیسے پتہ چلا لیکن میں روحانی آدمی ہوں، اگرمجھے نہیں پتہ چلے گا توکسکوپتہ چلے گا! لوگ توآسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ روحانی توجہ کرئیے گا لیکن اب اُنہیں پتہ نہیں ہے کہ روحانی توجہ میں کروں گا توروحانی توجہ کرنے سے میرا نورجائے گا لیکن اگرآپ کا ذہن اُس وقت کہیں لگا ہوا ہے کونسے خیالوں میں گُم ہیں۔ روحانی توجہ کیلئے جب آپ درخواست کرتے ہیں توآپ یہ چیزبھی اپنے ذہن میں رکھا کریں کہ آپ اُلٹی سیدھی باتیں نہ سوچیں، اِس سے نہ صرف یہ کہ آپ کا ذہن خراب ہوگا بلکہ ذہن خراب ہونے کے ساتھ ساتھ جوغلط باتیں آپ سوچ رہے ہیں اُن کی منفیت بھی آپ کی طرف آئے گی۔ تھوڑا بہت نورآپ کے قلب میں بنا ہے اوروہ اِدھراُدھر کے بارے میں سوچ سوچ کراپنے روزانہ کا نورضائع کردیا توفائدہ کیا ہوا! شروع شروع میں جب ہم نے یہ بات لوگوں کوکہی توبہت سے لوگ کہنے لگے کہ تصویرسے فیض کیسے ہوسکتا ہے ہم نے اُن کوایک مثال دی۔ آپ کوپتہ ہے کہ ایک پلے بوائے میگزین آتا ہے جس میں ننگی تصویریں ہوتی ہیں تواب وہ ننگی عورت کی تصویردیکھ کرآپ پراثرہوگا اورفوراً آپ محسوس کریں گے کہ شہوت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگرتصویروں سے فیض نہیں ہوتا تو یہ فحاشی کیوں دیکھتے ہو، یہ ننگی فلمیں، عورتوں کا ناچنا کیوں دیکھتے ہواورفحش گانے کیوں دیکھتے ہواگر ��صویروں سے کچھ نہیں ہوتا! یہ دیوبندیوں نے تمہارا دماغ خراب کیا ہوا ہے کہ گندی تصویروں سے تم شیطانی فیض لے لواوراچھی تصویروں سے دل کا فیض نہ لو،محروم ہوجاوٴ۔ جن کوروحانیت سمجھ میں نہیں آتی اُن لوگوں نے یہ کہانیاں بیان کررکھی ہیں کہ تصویروں سے فیض کیسے ہوسکتا ہے! اگرننگی تصویروں سے آپ کے حال میں تغیُرواقع ہوسکتا ہے اورآپ کی شہوت میں اضافہ ہوسکتا ہے تو پھر اولیاء اور مقربین کے تصورسے اور اُنکی تصاویرکودیکھ کے روحانی فیض بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی دلیل اورقرآن کا حوالہ نہیں ہے لیکن آپ کوچیلنج ہے کہ اِس بات کوجھٹلا کے دکھا دیں۔
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 30 مئی 2020 کو بزمِ مرشد کی لائیوخصوصی نشریات میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے۔
0 notes
andarabi · 7 years ago
Text
امام حسن العسکری علیہ السلام کے آخری ایام :-
آٹھ ربیع الاول سنہ 260 ہجری کی صبح وعدہ دیدار آن پہنچا، دکھ اور مشقت کے سال اختتام پذیر ہوئے۔ قلعہ بندیوں، نظر بندیاں اور قید و بند کے ایام ختم ہوئے۔ نا قدریاں، بےحرمتیاں اور جبر و تشدد کے سلسلے اختتام پذیر ہوئے۔
آپ (ع) نے نماز فجر بھی اپنے بستر پر لیٹ کر ہی ادا فرمائی وہ بھی 28 سال کی عمر اور عین شباب میں، آپ (ع) کی آنکھیں قبلہ کی طرف تھیں جبکہ زہر کی شدت سے آپ (ع) کے جسم مبارک پر ہلکا سا رعشہ بھی طاری تھا۔ آپ (ع) بمشکل "امام مہدی" کا نام دہراتے رہے اور پھر امام آ ہی گئے اور چند لمحے بعد آپ (ع) اور آپ (ع) کے فرزند کے سوا کوئی بھی کمرے میں نہ تھا اور راز و نیاز اور امانتوں اور وصیتوں کے لمحات تیزی سے گذر رہے تھے اور ابھی آفتاب طلوع نہیں ہوا تھا کہ گیارہویں امام معصوم کی عمر مبارک کا آفتاب غروب ہوا اور آسمان و زمین پر سوگ و عزا کی کیفیت طاری ہوئی۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کی کنیت "ابو محمد" ہے جبکہ مختلف کتب میں آپ (ع) کے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں جن میں مشہور ترین "عسکری" ہے جس کا سبب شہر سامرا کے محلہ "عسکر" میں آپ (ع) کی رہائش یا بالفاظ دیگر قلعہ بندی تھی۔
"زکی" یعنی پاک و تزکیہ یافتہ، آپ (ع) کا دوسرا مشہور لقب ہے۔
بے شک ہر امام معصوم (ع) کا علم منبع وحی سے ماخوذ ہوا کرتا تھا اور حتی دشمنوں اور مخالفین نے تصدیق کی ہے کہ آئمہ علیہم السلام کا علم اس قدر وسیع تھا کہ بیان کے دائرے میں نہیں سماتا۔ امام علیہ السلام کے احکامات، فرامین، اقوال اور دروس و پیغامات اور آپ (ع) سے منقولہ احادیث و روایات سے آپ (ع) کی دانش کا اظہار ہوتا ہے۔
بزرگ عیسائی عالم بختیشوع اپنے شاگرد بطریق سے کہتا ہے:
"ابن الرضا ابو محمد عسکری کی طرف چلے جاؤ اور جان لو کو ہمارے زمانے میں آسمان تلے ان سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے اور خبردار! اگر وہ تمہیں کوئی حکم دے تو ہرگز اعتراض مت کرنا"۔
آپ (ع) کی حیات طیبہ خدائے مہربان سے انس و محبت اور صبر و شکر کا اعلی نمونہ تھی۔
محمد شاکری نے روایت کی ہے کہ "میرے مولا اور استاد امام حسن عسکری علیہ السلام محراب عبادت میں سجدے میں چلے جاتے تھے اور آپ (ع) کا سجدہ اور ذکر و دعا کا یہ سلسلہ اس قدر طویل ہوجاتا تھا کہ میں سوجاتا اور جاگ جاتا اور دیکھتا تھا کہ آپ (ع) ابھی سجدے کی حالت میں ہیں۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کے سجدے رات کو فجر سے متصل کر دیتے تھے اور آپ (ع) کی عارفانہ مناجات ہر مردہ اور دنیا زدہ دل کو آسمانی حیات بخش دیتی تھی۔ آپ (ع) نے اپنے جد امجد امیر المؤمنین علیہ السلام کی مانند دنیا کو تین طلاقیں دی تھیں اور دنیا کی نعمتوں سے اپنی ضرورت سے زیادہ اٹھانا پسند نہیں فرمایا کرتے تھے اور اپنی پوری زندگی صرف آخرت کا خانہ تعمیر کرنے میں مصروف رہتے تھے۔
مامون کی موت کے بعد معتصم عباسی بغداد میں داخل ہوا اور لوگوں سے اپنے لئے بیعت لی اور اس کے بعد حکومت میں اعلی مناصب پر موجود ترکوں کی مدد سے بغداد کے شمال مشرق میں شہر "سامرا" کی بنیاد رکھی۔ اس شہر میں اس نے ایک محلہ فوجیوں کو مختص کیا جس کو عسکر کہا جانے لگا۔ عباسی حکمران اپنے عباسی اور اموی اسلاف کی مانند شیعیان آل محمد (ص) اور بطور خاص فرزندان رسول (ص) آئمہ طاہرین (ع) سے خوفزدہ رہتے تھے چنانچہ سامرا کی تعمیر کے بعد امام علی النقی الہادی علیہ السلام اور آپ (ع) کے فرزندوں ـ
بالخصوص امام حسن عسکری علیہ السلام ـ کو عسکر کے محلے میں نظر بند رکھا گیا اور یہ محلہ آل محمد (ص) کے جبری مسکن میں تبدیل ہوا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کا محاصرہ اس قدر شدید تھا کہ اہل خاندان اور دوستوں کا آپ (ع) سے رابطہ تقریبا ناممکن تھا۔
امام حسن عسکری علیہ السلام چھ سال کے مختصر عرصے تک منصب امامت الہیہ پر فائز رہے اور آپ (ع) کی امامت کا پورا دور محلہ عسکر میں گذرا۔ شیعیان غالبا آپ (ع) کے فیض دیدار سے محروم تھے اور شیعیان و پیروان اہل بیت (ع) کی خبریں اور معلومات چند ہی افراد کے ذریعے امام (ع) کو پہنچتی تھیں اور آپ (ع) کے فرامین اور احکامات بھی ان ہی افراد کے ذریعے شیعیان عالم کو پہنچا کرتے تھے۔ یہ لوگ خفیہ طور پر محلے کی نگرانی کرنے والے فوجی دستوں میں نفوذ کرچکے تھے یا مختلف طریقوں سے محلے میں آمد و رفت کیا کرتے تھے۔
عباسی حکمران، امام پر مسلسل دباؤ بڑھا رہے تھے اور امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے بعد اس دباؤ میں شدت آئی تھی اور دباؤ امام جواد، امام ہادی اور امام عسکری علیہم السلام کے زمانے میں اپنے عروج کو پہنچا تھا۔ گیارہویں امام (ع) کے زمانے میں اس دباؤ میں بہت زیادہ شدت لائی گئی تھی کیونکہ امام رضا (ع) کے زمانے میں شیعیان اہل بیت (ع) نے دینی تبلیغ کی بہت زیادہ پیشرفت کی تھی اور آئمہ (ع) پر دباؤ کا سبب بھی یہی پیشرفت تھی۔ امام عسکری (ع) کے زمانے میں پیروان آل محمد (ص) ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوئے تھے چنانچہ دباؤ میں بھی اسی تناسب سے شدت آئی تھی۔ شیعیان آل محمد (ص) عباسی ملوکیت کو جائز حکومت نہیں سمجھتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ حکومت کا شرعی اور قانونی حق صرف آل محمد کے آئمہ کو ہی پہنچتا ہے۔ اس زمانے میں خاندان آل محمد (ص) میں ممتاز ترین شخصیت، امام حسن عسکری (ع) کی تھی۔ اور پھر متعدد روایات و احادیث سے ثابت تھا کہ ظالم اور استبدادی حکومتوں کو منہدم کر دینے والے بارہویں امام، امام حسن عسکری (ع) کی ذریت سے ہونگے چنانچہ عباسی خلیفہ نے موسی کی پیدائش کا راستہ روکنے کے لئے فرعون کے تمام کاموں کی تقلید کی اور ہر جہت سے امام (ع) کو زیر نگرانی رکھا۔
امام عسکری (ع) اسی وقت سے محاصرے میں تھے جب امام ہادی (ع) کو عسکر میں نظر بند کیا گیا یوں آپ (ع) کی عمر کے 20 سال محاصرے میں گذرے۔ لیکن خبیث بادشاہت کے منحوس عزائم محض محاصرے اور ناکہ بندی سے پورے نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ قرآن کی طرح عترت یعنی خاندان محمد (ص) بھی کسی صورت میں دشمنوں کے ساتھ ساز باز نہیں کر سکتا تھا اور ان کی شمع ہدایت شیعیان عالم کے درمیان بجھنا محال تھا چنانچہ انھوں نے آئمہ سلف کی مانند امام حسن عسکری (ع) کو کمزور کرنے کے نت نئے منصوبوں میں مصروف رہتے تھے اور آپ (ع) کو آزار و اذیت پہنچانے اور دشواریاں پیدا کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور یوں امام و پیشوا سے فیض حاصل کرنے کے سلسلے میں پیروان آل محمد (ص) کو بھی دشواریوں سے دو چار کرتے تھے۔
امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد عباسی بادشاہ "معتمد" نے آپ (ع) کا ترکہ آپ (ع) کی والدہ اور بھائی جعفر کے درمیان تقسیم کیا اور یوں لوگوں کو یہ جتانے کی کوشش کی کہ گویا آپ (ع) کی کوئی اولاد نہیں تھی اور آپ بے اولاد ہی دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور یوں وہ مسلمانوں کو بارہویں امام (ع) کے وجود سے مایوس کرنا چاہتا تھا لیکن اس کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے ایک بیٹے آپ (ع) کے بعد امام مسلمین ہیں اور کئی نمایاں شیعہ علماء اور شخصیات نے ان سے ملاقات بھی کی ہے اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اپنے والد کی شہادت کے بعد پردہ غیبت میں جانے والے ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے بھی اس سلسلے میں اپنے پیروکاروں کو پہلے ہی سے تیار کر رکھا تھا۔
آپ (ع) کے جنازہ اطہر کو غسل و تکفین کے بعد آپ (ع) کے گھر کے صحن میں رکھا گیا تھا۔ آپ کے بھائی جعفر آگے بڑھے اور آپ (ع) کے جنازے کی نماز پڑھانے لگے- ابھی تکبیر کہنا ہی چاہی تھی کہ ایک گندمی رنگ اور سیاہ بالوں کے کمسن بچے نے باہر آ کر جعفر کا لباس پکڑ لیا اور فرمایا:
چچا! ہٹ جاؤ، مجھ کو ہی اپنے والد کے جنازے کی نماز پڑھانی ہے"
فرزند امام (ع) نے آپ (ع) کے جنازہ اطہر کی نماز پڑھائی اور وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام تھے وہی جن کے آنے کا انتظار ہے ۔ وہی جو اس زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے۔ بہرحال سازش نا کام ہو چکی تھی اور نماز جنازہ کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کو آپ کے والد ماجد حضرت امام ہادی علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
حوالہ جات :-
با خورشید سامرا،
اعلام الوریٰ،
بحار الانوار،
نور الابصار،
اثبات الوصیہ،
منتہی الآمال،
ارشادِ شیخ مفید،
مناقب آل ابی طالب،
الانوار البہیہ،
رجال کشی،
فہرست شیخ طوسی اور رجال طوسی،
ریحانۃ الادب،
معادن الحکمۃ فی مکاتیب الآئمہ،
سفینہ البحار،
سیرہ پیشوایان
2 notes · View notes
qamer · 2 years ago
Photo
Tumblr media
گوہر شاہی مرحبا. سیدی یونس الگوہر نے فرمایا. 🙏 خلق نکلا ہے مشرب سے. مشرب کا مطلب ہوتا ہے پلایا جانا، کیا پلایا جانا، روحانی شرابِ عشق نگاہوں سے پلائی جائے،تو مشربِ محمدی کیا ہوا جسمیں محمدص نظروں سے اپنا سینہ تمہارے سینے میں انڈیل دیں. فرمایا اگر میں اپنی آئی کلاؤڈ کی آئی ڈی حسیب کے فون میں لگا دوں تو جو کچھ اس میں ہے وہ اس (حسیب کے فون) میں چلا جائے گا اب کیا ہوگا اگر تم یونس کے مشرب پر ہو تو اسکے فون میں یہ فوٹو ہے تو تمہارے فون میں بھی ہونی چاہئے میں نے کس کس کو کال کی ہے اگر تم میرے مشرب پر ہو، تو تمہیں بھی معلوم ہونا چاہئے میں نے کس کس کو کال کی ہے. یہ مشرب ہے اور مشرب کے ذریعے خلق منتقل ہوتا ہے. امام جعفر صادق نے فرمایا امام مہدی جب تشریف لائیں گے تو امرٌجدید، قضاءٌ جدید، جزاءٌ جدید، کتابٌ جدید، آخر میں سُنّتٌ الجدید. لائیں گے سنت الجدید کیسے ہوئی، خلقِ مصطفیٰ امام مہدی میں ہوگا. جب خلقِ مصطفیٰ ص امام مہدی کے کردار میں ہوگا تو امام مہدی وہی کام کریں گے جو حضورص ہوتے تو کرتے. جو سینۂ مصطفیٰ ص میں ہے وہ سینۂ مہدی میں چلا گیا اب جیسا محمد رسول اللہ ص کرتے امام مہدی کر رہے ہیں اس طرح خلق کی وجہ سے امام مہدی کے جو اعمال و افکار ہوں گے وہ سنتِ رسول ص کہلائیں گے. کردارِ مصطفیٰ ص، اعمالِ مصطفیٰ ص دیکھنا ہے تو امام مہدی کو آج دیکھو، محمد رسول اللہ ص وہی کرتے جو امام مہدی کر رہے ہیں کیونکہ یہ خلقِ مصطفیٰ ص ہے. وجود امام مہدی کا ہوگا، کردار مصطفیٰ ص کا ہو گا. معلوم یہ ہوا ہر عمل سرکار گوہر شاہی کا سنتِ مصطفیٰ ص ہے..یہ سنت الجدید ہے جسکا امام جعفر صادق نے ذکر کیا ہے. 03.01.2023. #ifollowGoharShahi#GoharShahi #ImamMehdiGoharShahi #GoharShahi #YounusAlGohar #ALRATV #Mohammad Watch ALRA TV👇 https://youtube.com/c/ALRATV "Watch Sufi Online with Younus AIGohar" is a daily show aired LIVE at *4:AM https://www.instagram.com/p/CnAMQrNPVrt/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
rahilasyg · 5 years ago
Photo
Tumblr media
‎باران ِعشق اور عریانی غیب کا سنگم (نو محرم الحرام پر خصوصی گفتگو) . ‎“جب اللہ نے خود کو دیکھنا چاہا کہ میں کیسا ہوں اُس کا سارا حسن مجسم ہو کر سامنے نمودار ہو گیا جس کو دیکھ کر اللہ نے سات جنبشیں لیں ، جس کو عکس اوّل کہتے ہیں ، اُس عکس اوّل کو کسی نے نہیں دیکھا تھا ۔ امام مہدی گوھر شاہی اُس عکس ِاوّل کو نیچے زمین پر لے آئے ۔ اُ س عکس اوّل کےجلوے ایسے ہیں جو مقام محمود پر بھی نہیں ہیں ۔ اب وہ نیچے آ گیا اور اُ س کو دیکھو گے تو عکس بن جائے گا۔پہلے وہ لوگ آئے تھے نیچے جنہوں نے اللہ کو دیکھا تھااور عکس اُن کے دل پر آیا تھا اور اب وہ نیچے آ گیا ہے جس کو دیکھو گے تو عکس تمھارے اندر آ جائے گا۔اب سرکار گوھر شاہی کے لئے دیدار ِ الہی ذکر ِ قلب سے زیادہ آسان ہے “ ‎“امام مہدی کے اندر جو اللہ کا وجود ہے وہ اللہ سے عشق کرنے والوں کو منزل عطا کرے گااور جو خاص ��ور والا جلوہ ہے وہ لوگوں کو عالم غیب میں بھیجنے کا بندوبست کرے گا” . https://www.mehdifoundation.com/latest/articles/baaran-e-ishq-aur-uriyani-e-ghaib-ka-sangam-9-moharam-per-khososi-guftagu/ . #امام_مہدی #گوھرشاہی #باران_عشق #عریانی_غیب #نومحرام_الحرام #عالم_غیب #عالم_انسانیت #طریقہ_ہدایت #ریاض_الجنہ #صراط_مستقیم #مذہب #اسلام #مومن #باطنی_تعلیم #مسلمان #مہدی_فاؤنڈیشن_انٹر_نیشنل #مہدی_برحق_گوھرشاہی #ALRATV#RiazAhmedGoharShahi#GoharShahi #YounusAlGohar https://www.instagram.com/p/BzzwxxrHnTk/?igshid=1rwsw2fprzbg3
0 notes
dani-qrt · 6 years ago
Text
لیلیٰ مجنوں کی کہانی
کہا جاتا ھے لیلی سعودیہ اور مجنوں یمن کا تھا، ح��رت امام حسن ؓ کےدور میں تھے۔انکو مجنوں کا لقب بھی حضرت امام حسن ؓ نےدیا تھا، فقظ تاریخی حوالے لیلیٰ مجنوں بنیادی طورپرایک عربی الاصل داستان ہے۔اس میں بیان کردا کردارتاريخی طور پر ثابت مانےجاتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں دو حقیقی شخصیات تھیں۔مجنوں کااصل نام یا جس نام کواصل تصورکیا جاتا ہے، قیس ابن الملوح ابن مزاحم ہے۔اوروہ ایک مالدارنجدی قبیلے بنوعامر کےسردارکا بیٹا تھا۔لیلی کانام لیلیٰ بنت مہدی ابن سعد بیان کیاجاتا ہے۔نظامی گنجوی کےقصےلیلیٰ مجنوں کےمطابق
لیلیٰ اورمجنوں بچپن میں ایک ہی مدرسےمیں پڑھنےجاتےتھے۔تب ہی ان میں باہمی الفت پیدا ہوئی۔ بچپن میں قیس اورلیلیٰ دونوں اپنےقبیلےکی بکریاں چراتے تھےوہ ساتھ بیٹھتے اورآپس میں باتیں کرتے۔مجنوں کی توجہ تعلیم کی بجائے لیلیٰ کی طرف
رہتی،۔ جس پراستاد سے اسے سزا ملتی مگراستاد کی چھڑی مجنوں کے ہاتھوں پرپڑتی اوردرد ہاتھوں پرپڑتی اوردرد لیلیٰ کو ہوتا۔استاد نے یہ بات لیلیٰ و مجنوں کے گھر والوں کو بتادی۔جس پرلیلیٰ کےمدرسےجانے اور گھر سے نکلنے پر پابندی لگ گی۔ایک دن پھرمجنوں کی نظرلیلیٰ پر پڑ گی۔اوربچپن کا عشق تازہ ہو گيا۔ مجنوں نے لیلیٰ کا ہاتھ مانگامگر لیلیٰ کے باپ نے انکار کردیا۔لیلیٰ کا بھائی تبریزمجنوں کومارنےکی کوشش کرتا ہےمگرمجنوں اسکو قتل کردیتا ہے جس پرمجنوں کوسرےعام محبت کا اظہارکرنےاورلیلی کے بھائی کو مارنےپرسنگسارکرنےکی سزا سنائی گئی۔کچھ کہانیوں میں تبریزکے قتل کا قصہ نہیں ہے بلکہ
رشتہ دینےسےانکار کیا جاتا ہےاورکچھ عرصہ بعد لیلیٰ کی شادی کسی دوسرے کے ساتھ کردی جاتی ہے۔جس پر قیس،پاگل سا ہوجاتا ہے۔جامعہ ازہر شعبہ اردو کےسربراہ ڈاکٹرابراہیم محمد ابراہیم المصری لکھتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں کی شدید عشق و محبت کی کہانی کوئی فرضی داستان نہیں ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر طحہٰ حسین نےخیال ظاہرکیا ہےیہ پہلی صدی ہجری کا سچا واقعہ ہے۔جوعرب کےنجد کےعلاقےمیں رونما ہوا اورلازوال بن گیا۔ مجنوں ایک مالدار نجدی قبیلےبنو عامر کے سردار کا بیٹا تھا۔ وہاں ایک گوراچٹا، خوب صورت اور خوش گفتار نوجوان تھا شاعرتھاقیس نےلیلی کےاوپر شاعری کرتے ھوے ایک جگہ لکھا ھےترجمہ’وہ ایک چاند ہےجو ایک سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہےوہ نہایت حسین ہےاسکی آنکھیں اس قدرسیاہ ہیں کہ
انھیں سرمےکی ضرورت نہیںقیس کے والدیں اپنے خاندان کے ساتھ لیلیٰ کے والد کے پاس گئے۔اور لیلیٰ کا رشتہ مانگا لیلیٰ کےماں باپ کو داغ بدنامی گوارا نہ ہوا اورانھوں نےرشتہ دینےسےانکارکردیا۔ دوران قبیلہ ثقیف کے ایک نوجوان نے بھی جس کا نام ورد تھا۔لیلیٰ کو شادی کا پیغام دیا،لیلیٰ کے والدین نے یہ رشتہ قبول کر لیاقیس اس قدرمضطرب ھوا کہ وہ بیمارہوگیااس کے والدین نے چاہا کہ وہ اپنے قبیلے کی کسی اور خوبصورت لڑکی سے شادی کر لے مگر اب قیس لیلیٰ کی محبت میں اتنی دور نگل گیا تھاکہ واپسی ممکن نہ تھیرفتہ رفتہ قیس کی حالت ایسی ہو گئی کہ اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔لوگوں نے قیس کے باپ کو مشورہ دیا کہ وہ اسے مکہ لے جائےاور بیت اللہ کی پناہ میں دعامانگے۔ قیس کا باپ الملوح اسے لے کر مکہ گیا اور حرم شریف میں اس سے کہا کہ
غلاف کعبہ سے لپٹ کر لیلیٰاور اس کی محبت سے نجات کی دعا مانگے۔اس کے جواب میں جب قیس نے یہ دعا مانگی کہاے اللہ! مجھے لیلیٰ اور اس کی قربت عطا فرما تو الملوح قیس کو واپس لے آئے۔راستے میں اس نے ایک جگہ پہاڑی پر اپنے آپ کو گرانے کی بھی کوشش کی مگر لوگوں نے پکڑ لیا۔اپنے قبیلے میں واپس پہنچ کر قیس کا باپ ایک بار پھر لیلیٰ کے باپ کے پاس گیا تا کہ اسے لیلیٰ کی اپنے بیٹے سے شادیپر آمادہ کرنے کی کوشش کرے، مگر پھر انکار ھو گیا۔لیلیٰ کی شادی اس دوسرے لڑکے سے کر دی گئی جس کا پیام آیا تھا۔ لیلیٰ خود بھی قیس کی محبت میں گرفتار تھی مگر خاندان کی نیک نامی اور والدین کی اطاعت سے مجبور تھی۔قیس کو یہ معلوم ہوا کہ لیلیٰ کی شادی ہو گئی ہے تو
اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ وہ اپنے وجود کو بھول گیا۔گوشہ نشین ہو گیا اور پھر ایک دن صحرا میں نکل گیا۔لیلیٰ کو آوازیں دیتا، پہاڑوں، درختوں، جنگلی جانوروں سے پوچھتا لیلیٰ کہاں ہے۔اسی حال میں ایک دن اس کی نظرایک ہرنی پر پڑی۔ وہ اس کے پیچھے ہو لیا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔اس کے گھر والے صحرا میں اسے ڈھونڈتے رہے۔چوتھے دن وہ انھیں ایک پتھریلی وادی میں ریت پر مردہ پڑا ملا.روایات کے مطابق لیلیٰ بھی شاعرہ تھی اور یہی چیز ہے جس نے اس محبت بھرے قصے کو ایک المیہ بنا دیا جس کے لیے دل اور آنکھیں روتے ھیں۔یہ ممکن تھا کہ یہ محبت شادی کے ذریعے ان کے اجتماع پر منتجہوتی اور خوشیوں بھری زندگی انھیں حاصل ہوتی۔مگر تقدیر کے آگے تدبیر کا کہاں بس چلتا ھے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post لیلیٰ مجنوں کی کہانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Xsiaxu via Urdu News
0 notes
mehdi-foundation-urdu · 7 years ago
Photo
Tumblr media
‎باران ِعشق اور عریانی غیب کا سنگم (نو محرم الحرام پر خصوصی گفتگو)
‎“جب اللہ نے خود کو دیکھنا چاہا کہ میں کیسا ہوں اُس کا سارا حسن مجسم ہو کر سامنے نمودار ہو گیا جس کو دیکھ کر اللہ نے سات جنبشیں لیں ، جس کو عکس اوّل کہتے ہیں ، اُس عکس اوّل کو کسی نے نہیں دیکھا تھا ۔ امام مہدی گوھر شاہی اُس عکس ِاوّل کو نیچے زمین پر لے آئے ۔ اُ س عکس اوّل کےجلوے ایسے ہیں جو مقام محمود پر بھی نہیں ہیں ۔ اب وہ نیچے آ گیا اور اُ س کو دیکھو گے تو عکس بن جائے گا۔پہلے وہ لوگ آئے تھے نیچے جنہوں نے اللہ کو دیکھا تھااور عکس اُن کے دل پر آیا تھا اور اب وہ نیچے آ گیا ہے جس کو دیکھو گے تو عکس تمھارے اندر آ جائے گا۔اب سرکار گوھر شاہی کے لئے دیدار ِ الہی ذکر ِ قلب سے زیادہ آسان ہے “ ‎“امام مہدی کے اندر جو اللہ کا وجود ہے وہ اللہ سے عشق کرنے والوں کو منزل عطا کرے گااور جو خاص نور والا جلوہ ہے وہ لوگوں کو عالم غیب میں بھیجنے کا بندوبست کرے گا” 
https://www.mehdifoundation.com/latest/articles/baaran-e-ishq-aur-uriyani-e-ghaib-ka-sangam-9-moharam-per-khososi-guftagu/ 
6 notes · View notes
nohailkhan · 5 years ago
Link
جشنِ شاہی 2020 خصوصی خطاب بمتعلقہ حسن اور عشق
عشق کیسے نمودار ہوا ؟
میری نگاہ سے اُنکو جو دیکھ لیتے کبھی تمھارے ہاتھ سے آئینے گر گئے ہوتے آدم صفی اللہ اس دنیا میں تشریف لے آئے اور اللہ تعالی نے اُنکو اپنی ذات سے رابطہ کرنے کی توفیق ، علم ، نبوت اور ولائت عطا فرمائی اور انسان یہ سمجھنے لگا کہ یہ تو بہت بڑی عطا ہو گئی ہے ۔پھر ابراہیم ؑ تشریف لے آئے اور اللہ نے اُنکو دوستی سے نوازہ ، انسان کی توقعات سے بڑھ کر ، کہاں انسان اور کہاں اللہ کی ذات والا، وہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ اللہ کا دوست بھی بن سکتا ہے ۔چودہ ہزار آدم اور انکی اولاد اربوں سالوں سے اس دنیا میں رہتی چلی آئی کسی کے تصورات میں نہیں تھا کہ اُس کے بنانے والے سے رابطہ بھی ہو گا۔پھر جب ابراہیم ؑ تشریف لائے تو رب نے اپنی دوستی کے دروازے کھول دئیے۔ابراہیم ؑ کے موسی تشریف لائے تو ہمکلامی کا سلسلہ پہلی دفعہ اللہ تعالی نے کھولااور نوازشات بڑھ گئیں۔پھر عیسی ؑ تشریف لائے اور انکو کچھ کہنے کا موقع نہیں ملا اور پھر آخر میں نبی آخر زمان خاتم النبین محمد الرسول اللہ ﷺ کی بعثت ِ مبارکہ ہوئی اور آپ جسم سمیت اللہ کی ذات تک پہنچ گئے ۔موسیؑ کوہ طور پر بیہوش ہوئےاور حضور پاک اللہ کے روبرہ مسکرا رہے ہیں ۔نبی کریم ؐ کو اللہ کا دیدار ہو گیا اور یہ گمان تھا کہ اب اسکے بعد تو کچھ ہو نہیں سکتا۔پھر یہ آواز آئی آرائش ِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز۔۔۔۔۔پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں اللہ اپنے اُسی حسن کو دیکھ رہا ہے جس کو دیکھ کر فریفتہ ہوا تھا،سارا وقت گزر گیا چودہ ہزار آدم اور اُسکی نسلیں آ گر چلی گئیں ، اربوں سالوں سے یہ دنیا نظارے دیکھتی رہی لیکن اللہ کا آرائش ِ جمال اختتام پذیر نہیں ہوا۔سوال یہ ہے کہ یہ اللہ کی تیاری کس کے لئے ہے؟ اہتمام ِحسن اس لئے کیا جاتا ہے تاکہ عشق نمودار ہو ۔دین ِ الہی تو یہ ہے کہ اللہ خود عاشق اور خود معشوق ہے لیکن اگر حسن نہ ہو تو عشق ادھورا ہوتا ہے ۔ اللہ عاشق، عشق اور معشوق ہے اور سیدنا امام مہدی حسنِ لازوال ہیں ۔حسن کو دیکھ کر ہی انسان کو پاگل پن کا دورہ پڑتا ہے ۔عشقِ الہی اور دین الہی تو سمجھ میں آ گئی لیکن یہ بات ابھی ادھوری ہے ، بغیر حسن الہی کے عشق الہی نہیں ملتا ۔ نمی دانم چہ منزل بود ،شب جائے کہ من بودم بہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم خُدا خود میرِ مجلس بود ، اندر لا مکاں خسروؔ محمد شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم شمع خود محمد الرسول اللہ کی ذات ہے اور پروانے یہ سارے مخلوق بن گئی لیکن اللہ خود عاشق اور خود معشوق ہے، معشوق کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ذات جس سے عشق کیا جائے لیکن وہ عشق ہو کیوں رہا ہے ؟ اس لئے کہ وہ حسن مجسم ہے ۔ایک دفعہ حضرت کبریا سیدنا گوھر شاہی نے ارشاد فرمایا کہ جو امام مہدی سے ٹکرا گیا وہ عشق ہی عشق ہے ۔ذکر و فکر بھی مشکل ہے لیکن عشق الہی بہت ہی آسان ہے صرف اتنا کرنا ہے کہ حسن کے سامنے آ جاؤ۔زلیخہ شاہ مصر کی بیوی جو یوسف علیہ السلام پر اپنا دل کھو بیٹھی تھی ، ایک سہیلی نے دریافت کیا کہ تیرے غلام میں ایسی خاص بات کیا ہے ؟ اسکے جواب میں اس نے ایک ملاقات کا اہتمام کیا جس میں یوسف علیہ السلام کے حسن کو پردے میں رکھا گیا اور تمام سہیلیوں کو یہ کہا کہ جب پردہ ہٹایا جائے اُسوقت تم نے یہ سیب کاٹنا ہے ۔ لہذا پردہ ہٹایا گیا اور حسن یوسف کے دیکھتے وقت جب انہوں نے سیب کاٹا تو سیب کے بجائے اپنی انگلیاں ہی کاٹ لیں اور ایسا حسن ِ یوسف کی وجہ سے ہوا ۔اب اگر کوئی اللہ کے حسن کے سامنے جائے گاتو کیا حال ہو گا!
عشق الہی کیسے آتا ہے ؟
اب سمجھنا یہ ہے کہ اللہ نے اپنی ذات سے حسن نکال کر الگ پردے میں رکھ دیا ، جس نے بھی اللہ کا دیدار کیا ہے وہ اُسکے حسن کے بغیر دیکھا ہے اسی لئے اُن میں تاب بھی آ گئی ہے ۔اللہ کو اُسکے حسن کے ساتھ دیکھنے کی تاب کسی میں نہیں تھی ۔حضرت سلطان باہو نے فرمایا کہ میں جب چاہوں اللہ کو دیکھ لوں لیکن وہ دیدار اُس اللہ کا ہے جس کا حسن پردے میں ہے اور جس کو ہر وقت دیکھ لیا جائے اُسکی کوئی خصوصیت نہیں ہے ۔مسلمانوں کا یہی مسئلہ ہے کہ وہ غور و خوص نہیں کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ہم نے یہ کلام اولااباب کیلئے اُتارا ہے ۔وہ جو اللہ نے حسن پردے میں رکھا ہے اگر کوئی اسی دیکھ لے تو ہوش قائم رہ جائے یہ ممکن نہیں ہے ۔جب عیسیٰ کو پتہ چلا کہ دیدار الہی تو حضوؐر بھی کرا سکتےہیں ، کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ عیسیٰ امام مہدی کے ہاتھ پر بیعت کریں گے وہ اُنکو اسم ذات عطا کریں گے اور وہ اللہ کا دیدار کریں گے۔اب سوال یہ ہے کہ دیدار تو حضور پاک بھی کرا سکتے تھے عیسی علیہ السلام امام مہدی کے دور میں کیوں تشریف لائیں گے ! کیونکہ عیسیٰ کو وہ دیدار چاہیے جس میں اُسکا حسن مشتہر ہو ۔قرآن مجید میں عورتوں کیلئے آیا ہے کہ تم اپنے مردوں کیلئے خوب زینت بنایا کرو، روپ سنگھار کیا کرو۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ اللہ دیدار کی خصوصیت بیان کر رہا ہے کہ دیدار لطف اندوز کب بنتا ہے ۔اللہ نے عورتوں کو حسن مشتہر کرنے کا طریقہ قرآن میں سمجھایا تو کیا وہ خود اپنے لئے ایسا نہیں کرتا ہو گا۔اسی کیلئے فرمایا کہ آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز۔ سلطان الفقراء اور طفل نوری تو اُس حسن کے نتیجے میں برآمد ہوا جو اللہ پر وارفتگی عشق طاری ہوئی تھی اُس کی کھرچن اور گرد ہے، اُس حسن کی زکوة ہے جس نے سلطان حق باہو کو سلطان الفقراء بنایا ، حسن بصری کو سلطان الفقراء بنایا ، غوث الاعظم کو سلطان الفقراء بنایا اور جس حسن سے یہ سب برآمد ہوئے ہیں خود اُس حسن کا کیا عالم ہو گا۔وہ حسن جس کو دیکھ کر اللہ نے سات مرتبہ جنبش لی اور ہر جنبش پر وہ نوری پسینہ برآمد ہوا جو ایک ایک طفل نوری بنتا چلا گیا ۔ وہ کھرچن آج دنیا میں آئی تو اس کے لئے کہا گیااذا تم الفقر فھو اللہ یہ کھرچن جس وجود میں سرائیت کر گئی تو اسکو اللہ کہہ دینا بجا ہے اوریہ طفل نوری جس کے مرہون منت ہے اُس حسن کا کیا عالم ہو گااور اُسکے ماننے والے کتنے خوش نصیب ہوں گے ۔ کس طور بیاں ہو سکے تعریف گوھر کی مدّ مقابل ہو کوئی تمثیل گوھر کی آج جشن ِ شاہی کے موقع پر عشق ِ الہی ، دین الہی میں ایک خاص نکتے کی وضاحت ہو گئی ہے کہ دین الہی عشق الہی ہے لیکن یہ دین آتا کیسے ہے ! اور عشق کیا ہے ؟ جیسے بخار کوئی بیماری نہیں ہے ، اگر کوئی زخم لگ جائے گا تو ہمارا قوت مدافعت کا نظام فوراً ہمارے جسم میں متحرک ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بخار ہو جاتا ہے ، اگر بہت زیادہ تھک جائیں تو اس کی وجہ سے بھی بخار ہو جاتا ہے ۔ جسطرح یہ بخار ایک رد عمل ہے اسی طرح عشق بھی ایک رد عمل ہے اصل چیز کچھ اورہے ۔ اُن کے دیکھے سے آ جاتی ہے منہ پر رونق وہ یہ سمجھتےہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے یہ رونق اور مسکراہٹ اُنکے دیکھنے کی وجہ سے آئی ہے ، اسی طرح یہ وارفتگی جسکو عشق ک��ا گیا ہے یہ کسی کا نظارہ کرنے سے پیدا ہوا ہے ۔اب اللہ کی ذات تو عشق ہے لیکن یہ ردعمل ہے ۔ کوئی ایسا نبی نہیں آیا جس سے کوئی رگڑا کھائے اور عاشق بن جائے۔ عیسیٰ نے بھی کہا کہ (I am the Alpha and Omega) میں اول ہوں اور میں آخر ہوں لیکن اول سے پہلے کی کہانی بتائے گا۔بلھے شاہ نے بھی یہ بات کی کہ ; بلھا کی جاناں میں کون۔۔۔۔۔نہ میں مومن وچ مسیت آں نہ میں وچ کفر دی ریت آں۔۔۔۔۔نہ میں پاکاں وچ پلیت آں نہ میں موسی نہ فرعون۔۔۔۔۔بلھا کیہ جاناں میں کون اول آخر آپ نوں جاناں۔۔۔۔۔۔نہ کوئی دوجا ہور پچھاناں بلھے شاہ نے بھی کہہ دیا کہ میں ہی اول اور آخر ہوں لیکن کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھ سے ٹکرا جاؤ توپھر عشق ہی عشق بن جاؤ گے۔جو کوئی بھی دیدارِ الہی میں گیا ہے تو اس دیدار میں اس کا حسن شامل نہیں تھا جس کی وجہ سے دیدار الہی اتنا آسان ہو گیا ۔ جب ابو ذر غفاری نبی پاک ے دریافت کیا کہ دیدار ہوا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہاں ہوا ہے اور کبھی کسی خاص حالت میں اُس دیدار کے اوپر غو ر وخوص فرمایا اور اُس خاص حالت میں کسی نے پوچھ لیا کہ دیدار ہوا ہے تو اُسوقت فرمایا کہ نہیں دیدار نہیں ہوا ہے اگر کوئی کہہ دے کہ میں رب کو دیکھا ہے تو اُس نے بہتان باندھا۔لہذا دیدار الہی ہوا ہے لیکن بدون حسن (بغیر حسن کہ)اور دیدار نہیں ہوا اُس حسن کا جس کو دیکھ کر اللہ نے سات جنبش کھائی تھی۔اسوقت اپنی خوش قسمتی کے آگے سب کو بھلا دیں ۔ سلطان باھو نے کہا تھا کہ اساں مرشد پھڑیا کامل باھو ، اپے ہی لاسی سارا ھو۔
سیدنا گوھر شاہی میں اللہ کا حسن موجود ہے:
کنت کنزاً مخفیا ۔۔ اللہ ایک چھپے ہوئے خزانے میں تھا تو وہ وہاں سے باہر آ گیا اور اُسے یہ بھی چاہت تھا کہ میں پہچانا جاؤ ں اور پہچان کیلئے جو مخلوق بنائی اسکا معیار اتنا اعلیٰ نہیں تھاکہ وہ اس پہچان تک پہنچ سکےلہذا اُس نے اپنے حسن کو حجاب میں رکھا یعنی جو مخلوق بنائی ہے اُس میں اسکے حسن کی تاب نہیں ہے اس لئے حسن کو چھپا لیا۔اور اپنا حسن اُس وقت عریاں کروں گا جب وہ مدد گار آئے گا کیونکہ وہ تاب پیدا کرے گا إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّـهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّـهِ أَفْوَاجًاجب وہ مدد گار آئے گا تو وہ اس حجاب کو عریاں کرے گا۔جب اُس حسن کے چرچے ہوں گے تو جگہ جگہ جا کر تبلیغ کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ انسانیت اُمڈ آئے گی کہ اُس کے حسن کا چرچا ہو رہا ہے ۔اب دین کا تذکرہ نہیں اور نہ عبادتوں کی بات ہو رہی ہے اب اُسکے حسن کا چرچا ہو رہا ہے ۔اب عشق سیکھنا نہیں ہے ، کتاب دین الہی عشق کی تفصیل ہے اس میں کوئی راز نہیں ہے ۔ جس کو دیکھ کر اللہ عاشق ہوا اسی کو دیکھ کر تم بھی عاشق ہو جاؤ گے۔ ظاہر کی آنکھ سے نہ کوئی تماشہ کرے کوئی۔۔۔۔۔ہو دیکھنا تو دیدہ دل واہ کرے کوئی سودا گری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے ۔۔۔۔۔۔اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے ۔۔۔۔۔نظارے کی ہوس ہے تو لیلی بھی چھوڑ دے عشق ِ الہی ،حسن کے متعارف ہونے سے آئے گا ۔ دل کی دھڑکنوں میں اللہ کا نام جانا ، روحوں میں اللہ کا نام جانا تو ایمان اور ایقان کے زمرے میں آتی ہے ۔ عشق الہی کیلئے صرف حسن کا نظارہ کرنا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسی حسن کی بات ہو رہی ہے جس کو اللہ نے دیکھاہے تو ہمارا جواب ہے ہاں اسی حسن کی بات ہو رہی ہے ۔ اُس حسن کوصرف اللہ نے دیکھا ہے اور اللہ کے بعد غلامانِ گوھر شاہی دیکھ رہے ہیں اور دیکھیں گے۔ایک مقام پر حضرت کبریا سیدنا گوھر شاہی نے فرمایا یہاں ایک عورت آئی اور اس نے کہا ایک وقت آئے گا کہ یہاں بازارِ مصطفی لگے گاجس کا خریدار خود اللہ ہو گا۔ لوگ اللہ کو پانے کیلئے جنگلوں میں گئے اور پوری پوری زندگی لگا دی لیکن ایسی کونسی شے ہے جو سیدنا گوھر شاہی تمھارے اندر ڈالیں گے اور اللہ کہے گا یہ مجھے بیچ دو ۔ اللہ تو پوری کائنات کا خالق ہے ، ہر شے پر اسکا حق ہے پھر کسی کو دام دے کر بیچنے کا کیا حق ہے ۔ نظام الدین اولیا کے در پر ایک سائل آیا اور کہا کہ اللہ کے نام پر کچھ دے دو،آپ نے اپنی جوتیاں اسکو اُٹھا کر دے دیں اور نصیحت کی کہ ان جوتیوں کو اپنے سر پر رکھ کر جانا اگر ان جوتیوں کی قیمت اچھی لینا چاہتا ہے ۔وہ سائل نظام الدین اولیا کی جوتیاں اپنے سر پر رکھ کر جا رہا ہے کہ سامنے سے امیر خسرو کا قافلہ آ گیا اور اُنکو پتہ چل گیا کہ یہ مرشد کی جوتیاں ہیں ۔اس سائل سے پوچھا کہ یہ جوتیاں مجھے دے دو۔ سائل نے بے یقینی کی کیفیت میں کہہ دیا کہ اپنا قافلہ مجھے دے دو اور یہ جوتیاں لے لو۔ امیرخسرو نے وہ جوتیاں قافلے کے عوض لے لیں ۔وہ جوتیاں لے کر امیر خسرو خوش خوش مرشد کی بارگاہ میں آئےیہ بتانے کیلئے کہ مجھے آپ سے اتنی محبت ہے کہ آپ کی جوتیوں کیلئے میں نے اپنا سارا مال و متاع قربان کر دیا ۔ نظام الدین اولیاء نے پھر فرمایا کہ خسرو بہت سستے میں یہ جوتیاں مل گئی ہیں ۔یہی چیز یہاں پر کار فرما ہے کہ اللہ اُس کو خریدے گا جس حسن کو دیکھ کر وہ فریقہ ہوتا ہے اور یہ بازارِ مصطفی سیدنا گوھر شاہی نے لگا دیا ہے جس کا خریدار خود اللہ ہے کیونکہ اس میں گوھر شاہی کا وہ لمس ہے جس کو دیکھ کر اللہ فریفتہ ہوا تھا اور اسکے نتیجے میں سات سلطان بنے تھے ۔
عشق رد عمل ہے اصل چیز عشق نہیں ہے بلکہ حسن کا مشتہر ہونا ہے
حسن سے یاری بڑھانی ہے جب حسن کو دیکھو گے تو عشق دوڑتا ہوا آئے گااور اُس حسن کا نام ہے سیدنا گوھر شاہی ۔ لہذا اگر عشق ِ الہی چاہیے تو پھر گوھر شاہی کے نعلین ِ مبارک کی غلامی میں آ جاؤ، تلووں سے چمٹ جاؤ، جو اُنکے تلوؤں سے چمٹ گیا عشق ِ الہی خود اُسکے پاس دوڑ کر آ جائے گااور اسے اپنی آغوش میں لے لے گاکیونکہ اصل چیز تو حسن ہے ۔ جشن شاہی کے اس موقع پر ہم سیدنا گوھر شاہی کی کرم نوازیوں پرخراج عقیدت پیش کر رہے ہیں ،سرکار گوھر شاہی کی نوازشات جن کا موازنہ کسی طور پر کسی دور سے کیا نہیں جا سکتا ۔ سرکار گوھر شاہی سے خود بخود انسان کو اتنی انسیت اور محبت ہو جاتی ہے کہ اگر مذہبی طور پر اگر آدمی تعلیمات روحانیت کی طرف مائل نہ بھی ہو تو اُنکی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے اور یہ سحر انگیزی آپکی شخصیت میں “عکس اول ” کا پتہ دیتی ہے ۔ دو عالم سے بیگانہ کرتی ہے د ل کو ۔۔۔۔عجب چیز ہے لذت آشنائی صورتِ گوھر شاہی کو دیکھنے کے بعد اگر کچھ کچھ نہیں ہوتا ہے تو زندیق ہے اور اگر کچھ کچھ ہوتا ہے تو پھر سمجھ جائ��ں گے فضل و کرم ہو گیا ۔ اگر صورت گوھر شاہی کو دیکھنے کے بعد حس لطیف ، حس حسن بیدار نہیں ہوتا ہے تو تُو مردہ قلب اور مردہ روح ہے ۔سرکار گوھر شاہی سے ملنے کے بعد ہی ہر شے خوبصورت لگنے لگی ۔یہ چیزیں پتہ دیتی ہیں کہ آپ کے اندر درحقیقت وہ حسن بھی پوشیدہ ہے جس حسن پر اللہ فریفتہ ہوا تھااور آپ کو دیکھ کر کوئی اپنا آپ نہ کھوئے تو یہ کفر ہے۔اگرتو اللہ والا ہے تو صورت گوھر شاہی منزل ہے ۔ میں ازل سے بند ہ عشق ہوں مجھے زہد و کفر کا غم نہیں میرے سر کو تیرا در مل گیا مجھے اب تلاش حرم نہیں میرا ک نظر تمھیں دیکھنا بخدا نماز سے کم نہیں
مندرجہ بالا متن نمائندہ گوھر شاہی عزت مآب سیدی یونس الگوھر سے 9 مئی 2020 کو جشن شاہی کے موقع پر یو ٹیوب لائیو سیشن میں کی گئی گفتگو سے ماخوذ کیا گیا ہے ۔
0 notes
aj-thecalraisen · 6 years ago
Text
لیلیٰ مجنوں کی کہانی
کہا جاتا ھے لیلی سعودیہ اور مجنوں یمن کا تھا، حضرت امام حسن ؓ کےدور میں تھے۔انکو مجنوں کا لقب بھی حضرت امام حسن ؓ نےدیا تھا، فقظ تاریخی حوالے لیلیٰ مجنوں بنیادی طورپرایک عربی الاصل داستان ہے۔اس میں بیان کردا کردارتاريخی طور پر ثابت مانےجاتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں دو حقیقی شخصیات تھیں۔مجنوں کااصل نام یا جس نام کواصل تصورکیا جاتا ہے، قیس ابن الملوح ابن مزاحم ہے۔اوروہ ایک مالدارنجدی قبیلے بنوعامر کےسردارکا بیٹا تھا۔لیلی کانام لیلیٰ بنت مہدی ابن سعد بیان کیاجاتا ہے۔نظامی گنجوی کےقصےلیلیٰ مجنوں کےمطابق
لیلیٰ اورمجنوں بچپن میں ایک ہی مدرسےمیں پڑھنےجاتےتھے۔تب ہی ان میں باہمی الفت پیدا ہوئی۔ بچپن میں قیس اورلیلیٰ دونوں اپنےقبیلےکی بکریاں چراتے تھےوہ ساتھ بیٹھتے اورآپس میں باتیں کرتے۔مجنوں کی توجہ تعلیم کی بجائے لیلیٰ کی طرف
رہتی،۔ جس پراستاد سے اسے سزا ملتی مگراستاد کی چھڑی مجنوں کے ہاتھوں پرپڑتی اوردرد ہاتھوں پرپڑتی اوردرد لیلیٰ کو ہوتا۔استاد نے یہ بات لیلیٰ و مجنوں کے گھر والوں کو بتادی۔جس پرلیلیٰ کےمدرسےجانے اور گھر سے نکلنے پر پابندی لگ گی۔ایک دن پھرمجنوں کی نظرلیلیٰ پر پڑ گی۔اوربچپن کا عشق تازہ ہو گيا۔ مجنوں نے لیلیٰ کا ہاتھ مانگامگر لیلیٰ کے باپ نے انکار کردیا۔لیلیٰ کا بھائی تبریزمجنوں کومارنےکی کوشش کرتا ہےمگرمجنوں اسکو قتل کردیتا ہے جس پرمجنوں کوسرےعام محبت کا اظہارکرنےاورلیلی کے بھائی کو مارنےپرسنگسارکرنےکی سزا سنائی گئی۔کچھ کہانیوں میں تبریزکے قتل کا قصہ نہیں ہے بلکہ
رشتہ دینےسےانکار کیا جاتا ہےاورکچھ عرصہ بعد لیلیٰ کی شادی کسی دوسرے کے ساتھ کردی جاتی ہے۔جس پر قیس،پاگل سا ہوجاتا ہے۔جامعہ ازہر شعبہ اردو کےسربراہ ڈاکٹرابراہیم محمد ابراہیم المصری لکھتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں کی شدید عشق و محبت کی کہانی کوئی فرضی داستان نہیں ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر طحہٰ حسین نےخیال ظاہرکیا ہےیہ پہلی صدی ہجری کا سچا واقعہ ہے۔جوعرب کےنجد کےعلاقےمیں رونما ہوا اورلازوال بن گیا۔ مجنوں ایک مالدار نجدی قبیلےبنو عامر کے سردار کا بیٹا تھا۔ وہاں ایک گوراچٹا، خوب صورت اور خوش گفتار نوجوان تھا شاعرتھاقیس نےلیلی کےاوپر شاعری کرتے ھوے ایک جگہ لکھا ھےترجمہ’وہ ایک چاند ہےجو ایک سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہےوہ نہایت حسین ہےاسکی آنکھیں اس قدرسیاہ ہیں کہ
انھیں سرمےکی ضرورت نہیںقیس کے والدیں اپنے خاندان کے ساتھ لیلیٰ کے والد کے پاس گئے۔اور لیلیٰ کا رشتہ مانگا لیلیٰ کےماں باپ کو داغ بدنامی گوارا نہ ہوا اورانھوں نےرشتہ دینےسےانکارکردیا۔ دوران قبیلہ ثقیف کے ایک نوجوان نے بھی جس کا نام ورد تھا۔لیلیٰ کو شادی کا پیغام دیا،لیلیٰ کے والدین نے یہ رشتہ قبول کر لیاقیس اس قدرمضطرب ھوا کہ وہ بیمارہوگیااس کے والدین نے چاہا کہ وہ اپنے قبیلے کی کسی اور خوبصورت لڑکی سے شادی کر لے مگر اب قیس لیلیٰ کی محبت میں اتنی دور نگل گیا تھاکہ واپسی ممکن نہ تھیرفتہ رفتہ قیس کی حالت ایسی ہو گئی کہ اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔لوگوں نے قیس کے باپ کو مشورہ دیا کہ وہ اسے مکہ لے جائےاور بیت اللہ کی پناہ میں دعامانگے۔ قیس کا باپ الملوح اسے لے کر مکہ گیا اور حرم شریف میں اس سے کہا کہ
غلاف کعبہ سے لپٹ کر لیلیٰاور اس کی محبت سے نجات کی دعا مانگے۔اس کے جواب میں جب قیس نے یہ دعا مانگی کہاے اللہ! مجھے لیلیٰ اور اس کی قربت عطا فرما تو الملوح قیس کو واپس لے آئے۔راستے میں اس نے ایک جگہ پہاڑی پر اپنے آپ کو گرانے کی بھی کوشش کی مگر لوگوں نے پکڑ لیا۔اپنے قبیلے میں واپس پہنچ کر قیس کا باپ ایک بار پھر لیلیٰ کے باپ کے پاس گیا تا کہ اسے لیلیٰ کی اپنے بیٹے سے شادیپر آمادہ کرنے کی کوشش کرے، مگر پھر انکار ھو گیا۔لیلیٰ کی شادی اس دوسرے لڑکے سے کر دی گئی جس کا پیام آیا تھا۔ لیلیٰ خود بھی قیس کی محبت میں گرفتار تھی مگر خاندان کی نیک نامی اور والدین کی اطاعت سے مجبور تھی۔قیس کو یہ معلوم ہوا کہ لیلیٰ کی شادی ہو گئی ہے تو
اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ وہ اپنے وجود کو بھول گیا۔گوشہ نشین ہو گیا اور پھر ایک دن صحرا میں نکل گیا۔لیلیٰ کو آوازیں دیتا، پہاڑوں، درختوں، جنگلی جانوروں سے پوچھتا لیلیٰ کہاں ہے۔اسی حال میں ایک دن اس کی نظرایک ہرنی پر پڑی۔ وہ اس کے پیچھے ہو لیا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔اس کے گھر والے صحرا میں اسے ڈھونڈتے رہے۔چوتھے دن وہ انھیں ایک پتھریلی وادی میں ریت پر مردہ پڑا ملا.روایات کے مطابق لیلیٰ بھی شاعرہ تھی اور یہی چیز ہے جس نے اس محبت بھرے قصے کو ایک المیہ بنا دیا جس کے لیے دل اور آنکھیں روتے ھیں۔یہ ممکن تھا کہ یہ محبت شادی کے ذریعے ان کے اجتماع پر منتجہوتی اور خوشیوں بھری زندگی انھیں حاصل ہوتی۔مگر تقدیر کے آگے تدبیر کا کہاں بس چلتا ھے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post لیلیٰ مجنوں کی کہانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Xsiaxu via Urdu News
0 notes
newestbalance · 6 years ago
Text
لیلیٰ مجنوں کی کہانی
کہا جاتا ھے لیلی سعودیہ اور مجنوں یمن کا تھا، حضرت امام حسن ؓ کےدو�� میں تھے۔انکو مجنوں کا لقب بھی حضرت امام حسن ؓ نےدیا تھا، فقظ تاریخی حوالے لیلیٰ مجنوں بنیادی طورپرایک عربی الاصل داستان ہے۔اس میں بیان کردا کردارتاريخی طور پر ثابت مانےجاتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں دو حقیقی شخصیات تھیں۔مجنوں کااصل نام یا جس نام کواصل تصورکیا جاتا ہے، قیس ابن الملوح ابن مزاحم ہے۔اوروہ ایک مالدارنجدی قبیلے بنوعامر کےسردارکا بیٹا تھا۔لیلی کانام لیلیٰ بنت مہدی ابن سعد بیان کیاجاتا ہے۔نظامی گنجوی کےقصےلیلیٰ مجنوں کےمطابق
لیلیٰ اورمجنوں بچپن میں ایک ہی مدرسےمیں پڑھنےجاتےتھے۔تب ہی ان میں باہمی الفت پیدا ہوئی۔ بچپن میں قیس اورلیلیٰ دونوں اپنےقبیلےکی بکریاں چراتے تھےوہ ساتھ بیٹھتے اورآپس میں باتیں کرتے۔مجنوں کی توجہ تعلیم کی بجائے لیلیٰ کی طرف
رہتی،۔ جس پراستاد سے اسے سزا ملتی مگراستاد کی چھڑی مجنوں کے ہاتھوں پرپڑتی اوردرد ہاتھوں پرپڑتی اوردرد لیلیٰ کو ہوتا۔استاد نے یہ بات لیلیٰ و مجنوں کے گھر والوں کو بتادی۔جس پرلیلیٰ کےمدرسےجانے اور گھر سے نکلنے پر پابندی لگ گی۔ایک دن پھرمجنوں کی نظرلیلیٰ پر پڑ گی۔اوربچپن کا عشق تازہ ہو گيا۔ مجنوں نے لیلیٰ کا ہاتھ مانگامگر لیلیٰ کے باپ نے انکار کردیا۔لیلیٰ کا بھائی تبریزمجنوں کومارنےکی کوشش کرتا ہےمگرمجنوں اسکو قتل کردیتا ہے جس پرمجنوں کوسرےعام محبت کا اظہارکرنےاورلیلی کے بھائی کو مارنےپرسنگسارکرنےکی سزا سنائی گئی۔کچھ کہانیوں میں تبریزکے قتل کا قصہ نہیں ہے بلکہ
رشتہ دینےسےانکار کیا جاتا ہےاورکچھ عرصہ بعد لیلیٰ کی شادی کسی دوسرے کے ساتھ کردی جاتی ہے۔جس پر قیس،پاگل سا ہوجاتا ہے۔جامعہ ازہر شعبہ اردو کےسربراہ ڈاکٹرابراہیم محمد ابراہیم المصری لکھتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں کی شدید عشق و محبت کی کہانی کوئی فرضی داستان نہیں ہے۔جیسا کہ ڈاکٹر طحہٰ حسین نےخیال ظاہرکیا ہےیہ پہلی صدی ہجری کا سچا واقعہ ہے۔جوعرب کےنجد کےعلاقےمیں رونما ہوا اورلازوال بن گیا۔ مجنوں ایک مالدار نجدی قبیلےبنو عامر کے سردار کا بیٹا تھا۔ وہاں ایک گوراچٹا، خوب صورت اور خوش گفتار نوجوان تھا شاعرتھاقیس نےلیلی کےاوپر شاعری کرتے ھوے ایک جگہ لکھا ھےترجمہ’وہ ایک چاند ہےجو ایک سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہےوہ نہایت حسین ہےاسکی آنکھیں اس قدرسیاہ ہیں کہ
انھیں سرمےکی ضرورت نہیںقیس کے والدیں اپنے خاندان کے ساتھ لیلیٰ کے والد کے پاس گئے۔اور لیلیٰ کا رشتہ مانگا لیلیٰ کےماں باپ کو داغ بدنامی گوارا نہ ہوا اورانھوں نےرشتہ دینےسےانکارکردیا۔ دوران قبیلہ ثقیف کے ایک نوجوان نے بھی جس کا نام ورد تھا۔لیلیٰ کو شادی کا پیغام دیا،لیلیٰ کے والدین نے یہ رشتہ قبول کر لیاقیس اس قدرمضطرب ھوا کہ وہ بیمارہوگیااس کے والدین نے چاہا کہ وہ اپنے قبیلے کی کسی اور خوبصورت لڑکی سے شادی کر لے مگر اب قیس لیلیٰ کی محبت میں اتنی دور نگل گیا تھاکہ واپسی ممکن نہ تھیرفتہ رفتہ قیس کی حالت ایسی ہو گئی کہ اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔لوگوں نے قیس کے باپ کو مشورہ دیا کہ وہ اسے مکہ لے جائےاور بیت اللہ کی پناہ میں دعامانگے۔ قیس کا باپ الملوح اسے لے کر مکہ گیا اور حرم شریف میں اس سے کہا کہ
غلاف کعبہ سے لپٹ کر لیلیٰاور اس کی محبت سے نجات کی دعا مانگے۔اس کے جواب میں جب قیس نے یہ دعا مانگی کہاے اللہ! مجھے لیلیٰ اور اس کی قربت عطا فرما تو الملوح قیس کو واپس لے آئے۔راستے میں اس نے ایک جگہ پہاڑی پر اپنے آپ کو گرانے کی بھی کوشش کی مگر لوگوں نے پکڑ لیا۔اپنے قبیلے میں واپس پہنچ کر قیس کا باپ ایک بار پھر لیلیٰ کے باپ کے پاس گیا تا کہ اسے لیلیٰ کی اپنے بیٹے سے شادیپر آمادہ کرنے کی کوشش کرے، مگر پھر انکار ھو گیا۔لیلیٰ کی شادی اس دوسرے لڑکے سے کر دی گئی جس کا پیام آیا تھا۔ لیلیٰ خود بھی قیس کی محبت میں گرفتار تھی مگر خاندان کی نیک نامی اور والدین کی اطاعت سے مجبور تھی۔قیس کو یہ معلوم ہوا کہ لیلیٰ کی شادی ہو گئی ہے تو
اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ وہ اپنے وجود کو بھول گیا۔گوشہ نشین ہو گیا اور پھر ایک دن صحرا میں نکل گیا۔لیلیٰ کو آوازیں دیتا، پہاڑوں، درختوں، جنگلی جانوروں سے پوچھتا لیلیٰ کہاں ہے۔اسی حال میں ایک دن اس کی نظرایک ہرنی پر پڑی۔ وہ اس کے پیچھے ہو لیا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔اس کے گھر والے صحرا میں اسے ڈھونڈتے رہے۔چوتھے دن وہ انھیں ایک پتھریلی وادی میں ریت پر مردہ پڑا ملا.روایات کے مطابق لیلیٰ بھی شاعرہ تھی اور یہی چیز ہے جس نے اس محبت بھرے قصے کو ایک المیہ بنا دیا جس کے لیے دل اور آنکھیں روتے ھیں۔یہ ممکن تھا کہ یہ محبت شادی کے ذریعے ان کے اجتماع پر منتجہوتی اور خوشیوں بھری زندگی انھیں حاصل ہوتی۔مگر تقدیر کے آگے تدبیر کا کہاں بس چلتا ھے۔
(function(d, s, id) { var js, fjs = d.getElementsByTagName(s)[0]; if (d.getElementById(id)) return; js = d.createElement(s); js.id = id; js.src = 'https://connect.facebook.net/en_GB/sdk.js#xfbml=1&version=v3.2&appId=779689922180506&autoLogAppEvents=1'; fjs.parentNode.insertBefore(js, fjs); }(document, 'script', 'facebook-jssdk'));
The post لیلیٰ مجنوں کی کہانی appeared first on Urdu Khabrain.
from Urdu Khabrain https://ift.tt/2Xsiaxu via Urdu News
0 notes
qamer · 2 years ago
Photo
Tumblr media
سیدی یونس الگوہر نے فرمایا. 🙏 جتنے بھی انسان ہیں، جتنی بھی امتیں ہیں ان سب کا اللہ سےتعلق مختلف ہے. عیسٰی کے ماننے والوں کا اللہ پر جو عقیدہ ہے وہ کس طرح ہے وہ اس وجود پر ہے جو عیسٰی ع کے وجود میں اللہ کا وجود ہے ان کے سینے میں اللہ کا وجود ہے اُس تک ہے. ابراہیم ع کے ماننے والوں کا اللہ کے وجود پر یقین ہے، کس پر ہے جو عرش پر بیٹھا ہے اس پر ہے، فرمایا اس پر کیسے ہو سکتا ہے،نہ تو نے دیکھا، نہ تصور کر سکتا ہے، شرک کرے گا اگر تصور بھی کیا تو، تو ان کا رب سے تعلق کیسے جڑے گا، رب کا جو نقشہ ابراہیم ع کے سینے میں آیا تھا اس سے جڑے گا. فرمایا اب آگئے سرکار گوہرشاہی. اپنے حسن کے جس تصویر، جس مکھڑے کو دیکھ کے اُس نے سات جنبشیں لیں وہ مکھڑا زمین پر لے کے آگئے نا. ان کے جو ماننے والے ہوں گے اُس جلوے کو دیکھیں گے. اِس کو بھی پہچانیں گے، اُس کو بھی پہچانیں گے جو عرش پر بیٹھا ہے. فرمایا کیسے پہچانیں گے. یہ اس کو دیکھ رہے ہوں گے اور وہ بھی اِس کو دیکھ رہا ہو گا. ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز. یہ بھی اِسکو دیکھیں گے وہ بھی اُس کو دیکھے گا وہ پوچھیں گا یہ کون ہیں، جو دیکھ ریے ہیں یہ پوچھیں گےیہ کون ہے جو دیکھ رہا ہے. درحقیقت امام مہدی کے جو پیروکار ہوں گےان کا تعلق عرش والے سے جڑے گا، باقی سب کا تعلق اللہ کے اُس عکس سے جڑتا یے جو اس کے نبی کے سینے میں آتا ہے، عرش والے سے نہیں جڑتا. 27. 08.2022. #ifollowGoharShahi #ImamMehdiGoharShahi #GoharShahi #YounusAlGohar Watch ALRA TV👇 https://youtube.com/c/ALRATV "Watch Sufi Online with Younus AIGohar" is a daily show aired LIVE at *3:00 AM https://www.instagram.com/p/Chz-MhbPzgi/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes