#وبا��ی مرض
Explore tagged Tumblr posts
Text
ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں ٹوٹتی جاتی ہے سانس
اس کا کہنا ہے نہ گھبراو شفا ہونے کو ہے
عرفان صدیقی
مکمل کلام
مطمئن تھے لوگ شاید انتہا ہونے کو ہے
اب خبر آئی ابھی تو ابتدا ہونے کو پے
اک طبیب بے ہنر ہے اک موذ ی مرض
قریہ بیمار جانے کیا سے کیا ہونے کو ہے
ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں ٹوٹتی جاتی ہے سانس
اس کا کہنا ہے نہ گھبراو شفا ہونے کو ہے
دو دنوں میں ہی مداری کی پٹاری کھل گئی
لوگ سمجھے تھے ابھی اک معجزہ ہونے کو ہے
اصل زر سود مرکب اور قوم کم نصیب
یہ پرانا قرض جانے کب ادا ہونے کو ہے
خلق نے رہنا ہے باقی یا کے غول جبر نے
کوئی دن میں فیصلہ کن معرکہ ہونے کو ہے
اب اشاروں کی زباں بھی بھولتے جاتے ہیں لوگ
اور وہ خوش ہے بستی بے نوا ہونے کو ہے
فاصلوں اور قید تنہائی تلک تو آگئے
جانے کیا کچھ اور بھی نزر وبا ہونے کو ہے
ایک سناٹا مسلسل ڈس رہا ہے شہر کو
ایسا لگتا ہے کہ کوئی حادثہ ہونے کو ہے
عرفان صدیقی
0 notes
Text
ضلع گجرات میں کرونا وائرس کے کیسز میں تشویشناک اضافعہ
گجرات میں کرونا کی صورتحال تشویشناک ہو گئی
حکومت پنجاب کی ہدایات کے مطابق کرونا وبا کی تیسری لہر میں شدت کے باعث ضلع گجرات میں ہوٹلوں، میرج ہالز کو دو ہفتے کیلئے بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں، کاروبار ی مراکز شام پانچ بجے تک بند کر دیے جائیں گے جبکہ آئندہ ہفتے سے جمعہ سے اتوار تین دن تمام دوکانیں اور شاپنگ مالز بند رہیں گے، یہ تفصیلات ڈپٹی کمشنر سیف انور جپہ نے بریفنگ کے دوران بتائیں، اے ڈی سی ریونیو عامر شہزاد بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ضلع گجرات میں کرونا پازیٹو کیسز کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، وبا کی روک تھام کیلئے حکومت پنجاب نے اہم فیصلے کئے ہیں جن پر عمل درآمد کیلئے اسسٹنٹ کمشنرز، پولیس سمیت تمام متعلقہ افسران کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ حکومت پنجاب کے احکامات کے مطابق ضلع میں تمام میرج ہالز آج سے بند کر دیے گئے ہیں، ہوٹلوں میں بھی ان ڈور، آؤٹ ڈور ڈائننگ پر پابندی ہوگی۔ ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ضلع بھر میں تمام بازار اورکاروباری مراکز پانچ بجے تک بند کر دیے جائیں گے، آئندہ ہفتے سے یہ کاروباری مراکز جمعہ سے اتوار مکمل بند رہیں گے جبکہ تعلیمی اداروں کی 15مارچ سے بندش کے احکامات پہلے ہی جاری کئے جاچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب اور ضلعی انتظامیہ اور وبا ء سے متاثرین کو طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے تیار ہے، ہسپتالوں میں کرونا مریضوں کے علاج معالجہ کیلئے سہولیات میں اضافہ کر دیا گیا ہے، تاہم اس مرض کے خاتمہ کیلئے شہریوں کا عملی تعاون نہایت اہم ہے، شہری کرونا وبا کی روک تھام کیلئے غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ نکلیں، ماسک کا استعمال خود پر لازم کر لیں، ہاتھوں کو بار بار صابن سے دھوئیں اور سماجی فاصلہ کا خیال رکھیں۔ ڈپٹی کمشنر سیف انور جپہ نے انجمن تاجراں، میرج ہالز ایسویسی ایشن، ہوٹل مالکان سے کہا کہ شہریوں کے مفاد میں ضلعی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ضلع گجرات کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے باشعور عوام کرونا کی پہلی اور دوسری لہر کیطرح تیسری لہر کو شکست دینے کیلئے حکومت اور انتظامیہ سے بھرپور تعاون کرتے رہیں گے۔
from Blogger https://ift.tt/3vlcZ32 via IFTTT
0 notes
Photo
در سال 1831 مرض طاعون درشوشتر راه یافت و در گوشه و کنار این ولایت، عده کثیری را تلف کرد، و به قول لرد کرزن، قریب 20هزار نفر را به کام مرگ کشاند چنانکه پس از این بیماری که در دوران قاجار رخ داد دیگر هرگز شوشتر به آن شکوه سابق بازنگشت و چندین سال بعد نیز به جای شوشتر که از زمان صفوی تا اواخر قاجار مرکز خوزستان بود اهواز به عنوان مرکز خوزستان انتخاب شد .علاوه بر طاعون و وبا، حکام و مأمورین دولتی ایران که از گرگ گرسنه خون خوارتر بودند مردمان بدبخت را بروز سیاه نشاندندکسروی نیز درباره طاعون خوزستان در سال 1831 میلادی مینویسد : 《گروه انبوهی از مردم آنجا از عرب و عجم را نابود ساخت، و بسیاری از آبادی ها ازمردم تهی شد. در شهر شوشتر، سه چهارم اهالی از بین رفتند.》 پس از شیوع طاعون که در سال 1247هجری قمری اتفاق افتاد چند سال بعد یعنی در محرم سال 1307هجری قمری اینبار وبا در شوشتر شایع شد و بخش زیادی از باقی مانده جمعیت شهر را به کام مرگ کشاند و از شهری که روزگاری در دوران ساسانی چون نگین ایران بود جز ویرانه ای باقی نماند عده ی زیادی از بین رفتند و باقی مانده ها هم شهر را ترک کردند نظام السطنه مافی که یکی از معدود حکمرانان نیک سرشت شوشتر در دوره قاجاریه بود. درباره ی شیوع مرض وبا، در محرم1307 سال در شوشتر می نویسد: 《 عاشو��ا بود وصبح از اول طلوع در سایه پل روضه خوانی داشتم. دو ساعت از دسته گذشته، در مجلس چهار پنج نفر از شدت حرارت غش کردند خودم دو دفعه غش کردم ناخوشی وبا بروز کرده بود عده ای زیادی مردند و علما و سادات و بزرگان شهر متفرق شدند و شهر به صورت خرابه ای درآمد》 (at Yazd City _ پاتوق یزدیـــــــــــــــــــا) https://www.instagram.com/p/CJNtsYxnazS/?igshid=8g9bfr4ltvp4
0 notes
Text
Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad, Date : 04.08.2020, Time : 09:00 to 09.10 AM
Regional Urdu Text Bulletin, Aurangabad. Date: 04 August-2020 Time: 09:00 to 09:10 am آکاشوانی اَورنگ آباد علاقائی خبریں تاریخ:۴؍اگست ۲۰۲۰ وَقت : ۱۰:۹۔ ۰۰:۹ ***** ***** ***** ::::: سرخیاں:::::: ٭ ایودھیا میںکل ہونے والے رام مندر کی بھومی پوجن تقریب کی تمام تیاریاں مکمل۔ ٭ پھیری والوں اور راستوں پر اشیاء فروخت کرنے والوں پر کنٹرول رکھنا ممکن نہیں: انہیں کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ریاستی حکومت کا ممبئی ہائیکورٹ میں حلف نامہ۔ ٭ جیمس اور یوگ اداروں کیلئے طبّی وزارت کی جانب سے رہنماء خطوط جاری۔ ٭ اداکار سشانت سنہہ راجپوت کی موت کے سلسلے میں بہار پولس کو تعاون کیا جارہا ہے۔ ممبئی پولس کمشنر کی وضاحت۔ ٭ ریاست میں مزید 8/ ہزار 968/ کورونا وائرس متاثرین مریضوں کا اندراج۔ 266/ افراد دورانِ علاج چل بسے۔ ٭ اورنگ آباد اور لاتور میں تین۔ تین‘ ناندیڑ چار‘ عثمان آباد اور پربھنی میں ایک۔ ایک مریض فوت۔ بیڑ میں 56/ جالنہ 42/ اور ہنگولی میں سات نئے مریض پائے گئے۔ اور٭ راکھی کا تہوار تمام ملک میں جوش و خروش سے منایا گیا۔ ***** ***** ***** ایودھیا میں کل ہونے والے رام مندر کی بھومی پوجن تقریب کی تمام تیاریاں مکمل ہوگئی ہیں۔ اُتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کل ایودھیا جاکر وہاںکی تیاریو ںکا جائزہ لیا۔ اس تقریب کے دعوت نامے بھی کل ظاہر کیے گئے۔ وزیرِ اعظم نریندرمودی کل بھومی پوجن تقریب میں موجود رہیں گے۔ اس تقریب کے موقع پر 135/ سنت موجود رہیں گے۔ ایودھیا میں فی الحال جوش و خروش کا ماحول ہے اور لوگ بھومی پوجن کے تاریخی لمحات کا انتظار کررہے ہیں۔ ***** ***** ***** اسی بیچ کووِڈ وبا کے تناظر میں وزیرِ اعلیٰ ٹھاکرے ایودھیا میں رام مندر کے سنگ ِ بنیاد تقریب میں موجود نہیں رہیں گے۔ یہ بات شیوسینا کے سینئر رہنماء رکنِ پارلیمنٹ سنجے رائوت نے کہی ہے۔ وہ کل ممبئی میں صحافیوں سے مخاطب تھے۔ اس تقریب میںوزیرِ اعظم موجود رہیں گے‘ یہ زیادہ اہمیت کی بات ہے۔ اُدھو ٹھاکرے بعد میں کبھی بھی ایودھیا جاسکتے ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے رائوت نے اس بھومی پوجن تقریب کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ***** ***** ***** کورونا وائرس کے پھیلائوکے تناظر میں پھیری والوں اور راستوںپر اشیاء فروخت کرنے والوں پر کنٹرول رکھنا ممکن نہیں ہے۔ انہیں کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ یہ بات ریاستی حکومت نے ممبئی ہائیکورٹ میں کہی ہے۔ کورونا وائرس وبا کی وجہ سے عائد لاک ڈائون میں ایسے تاجروںکے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے عدالت میں عرضداشت داخل کرکے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔ اس عرضداشت کے سلسلے میں ریاستی حکومت نے حلف نامہ داخل کیا ہے۔ پولس سمیت انتظامیہ مشنری پر پہلے ہی زیادہ تنائو ہے‘ غیر منظم علاقوں میں ان تاجروں پر قابو کرنے کا کام کنٹرول سے باہر ہے۔ یہ بات حکومت نے کہی۔ ***** ***** ***** کل سے شروع ہورہے جیمس اور یوگ اداروں کیلئے مرکزی طبّی وزارت نے رہنما خطوط جاری کردئیے ہیں۔ حکومت نے جاری کیے گئے رہنما خطوط کے مطابق سوئمنگ پُل بند رہیں گے۔ داخلی دروازے پر سینیٹائزر سمیت درجۂ حرارت دیکھنے کیلئے تھرمل اسکینر رہنا ضروری ہے۔ کووِڈ 19- کی علامت نہ ہو تو انہیں داخلہ دینا‘ جسمانی ورزش کی اشیاء کو سینیٹائز کرنا‘ ہر شخص کیلئے چار مربع فٹ جگہ ہونا، ایک دوسرے کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ ہونا‘ ماسک کے بجائے چہرے پر شفاف Face Shield لگانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ آکسیجن کی حد 95/ فیصد سے کم ہو تو ایسے افراد جیمس میں نہ آئیں۔ 65/ سال کے سینئر شہری سمیت حاملہ خواتین اور دس سال سے کم عمر کے بچوں کو جسمانی ورزش کیلئے آنے کی اجازت نہیں ہے۔ کنٹینمنٹ زون میں جیمس اور یوگ ادارے 31/ اگست تک بند رہیں گے۔ یہ ہدایتیں رہنما خطوط میں دی گئی ہیں۔ ***** ***** ***** اداکار سشانت راجپوت کی موت کے سلسلے میں ممبئی پولس کی جانب سے بہار پولس کا تعاون کیا جارہا ہے۔ یہ بات ممبئی پولس کمشنر پرمبیر سنہہ نے کہی ہے۔ اس تفتیش کے کام میں قانونی لحاظ سے مناسب عمل درآمد کرنے کی ہدایت انھوںنے بہار پولس کو دی ہے۔ ***** ***** ***** کورونا وائرس پھیلائو کا بحران ابھی ٹلا نہیں ہے۔ اس لیے لوگ غافل نہ رہیں اور غیر ضروری سفر سے گریز کریں۔ ایسی اپیل وزیرِ اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے نے کی ہے۔ ***** ***** ***** ریاست میں کل مزید 8/ہزار 968/ کورونا وائرس مریضوں کا اندراج ہوا۔ اس کی وجہ سے ریاست میں جملہ مریضوں کی تعداد 4/ لاکھ 50/ ہزار 196/ ہوگئی ہے۔ تاہم کل 266/ مریض دورانِ علاج چل بسے۔ ریاست میں اس وائرس سے مرنے والوںکی تعداد 15/ ہزار 842/ ہوگئی ہے۔ تاہم کل 10/ ہزار 221/ مریض صحت یاب ہوگئے اور انہیں ڈسچارج کردیا گیا۔ ریاست میںاب تک 2/ لاکھ 87/ ہزار 30/مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔ فی الحال ایک لاکھ 47/ ہزار 18/ مریضوں کا علاج جاری ہے۔ ***** ***** ***** اورنگ آباد ضلع میں کل تین کورونا وائرس متاثرین مریض فوت ہوگئے۔ ضلع میں اب تک اس مرض کی وجہ سے 487/ افراد چل بسے ہیں۔ اسی بیچ کل تمام دِن میں مزید 341/ متاثرین کی شناخت ہوئی۔ اس کی وجہ سے ضلع میں جملہ متاثرین کی تعداد 14/ ہزار 894/ ہوگئی ہے۔ تاہم کل 328/ مریض صحت یاب ہوگئے اور انہیں چھٹی دے دی گئی۔ اورنگ آباد ضلع میں اب تک 11/ ہزار 229/ مریض صحت یاب ہوچکے ہیں‘ فی الحال 3/ ہزار متاثرین زیرِ علاج ہیں۔ ***** ***** ***** لاتور ضلع میں کل تین کورونا وائرس متاثرین چل بسے۔ اس طرح ضلع میں جملہ مرنے والوں کی تعداد 103/ ہوگئی ہے۔ تاہم کل ضلع میں مزید 78/ نئے کورونا وائرس متاثرین کی شناخت ہوئی۔ ناندیڑ ضلع میں کل چار کورونا وائرس متاثرین مریض فوت ہوگئے۔ اس طرح ضلع میں جملہ مرنے والوں کی تعداد 94/ ہوگئی ہے۔ تاہم کل مزید 203/ مریضوں کی تصدیق ہوئی۔ عثمان آباد ضلع میں کل ایک کورونا وائرس مریض اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔ ضلع میں اس موذی مرض سے اب تک 58/ مریض فوت ہوچکے ہیں۔ تاہم کل مزید 9/ مریضوں کا اضافہ ہوا۔ پربھنی ضلع میں کل ایک کورونا وائرس متاثرہ مریض چل بسا۔ ضلع میں اب تک 40/ افراد اس مرض کی وجہ سے لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔ تاہم کل 27/ نئے کورونا وائرس متاثرین پائے گئے۔ بیڑ ضلع میں کل مزید 56/ کورونا وائرس متاثرین کا اندراج ہوا۔ اس کی وجہ سے ضلع میں جملہ متاثرین کی تعداد 960/ ہوگئی ہے۔ جالنہ ضلع میں کل مزید 42/ کورونا وائرس متاثرین مریضوں کی تصدیق ہوئی۔ اس طرح جالنہ ضلع میں جملہ مریضوں کی تعداد 377/ ہوگئی ہے۔ ہنگولی ضلع میں کل مزید سات کورونا وائرس متاثرین پائے گئے‘ ضلع میں جملہ مریضوںکی تعداد 716/ ہوگئی ہے۔ فی الحال 202/ مریضوں کا علاج جار ی ہے۔ اسی بیچ ہنگولی ضلع میں کووِڈ کے بڑھتے پھیلائو کے مدِنظر 6/ اگست سے 19/ اگست تک سخت کرفیو عائد کیا جارہا ہے۔ ضلع کلکٹر رُچیش جئے ونشی نے کل اس کی اطلاع دی۔ ***** ***** ***** راکھی پورنیما یعنی رکشا بندھن کا تہوار کل تمام ملک میں جوش و خروش سے منایا گیا۔ کورونا وائرس کے پھیلائو کی وجہ سے عائد لاک ڈائون کے تناظر میں اس تہوار کو محدود طریقے سے منایا گیا۔ تاہم ڈیجیٹل ذرائع سے نیک خواہشات کا اظہار کیا گیا۔ ***** ***** ***** مراٹھا ریزرویشن اسی طر ح دیگر مطالبات کیلئے پرسوں 6/ اگست سے تمام ریاست میں مختلف طریقوںکے احتجاج شروع کیے جائیں گے۔ 9/ اگست کرانتی دِن سے احتجاج مزید شدید کیا جائیگا۔ ایسا اشارہ شیوسنگرام تنظیم کے رہنما رکنِ اسمبلی ونایک میٹے نے دیا ہے۔ ناسک میں کل میٹے کی قیادت میں چھاوا تنظیم‘ چھاوا شرمک سینا‘ شیوکرانتی سینا‘ بڑی راجا ایسے مختلف نوتنظیموں کے ساتھ ریزرویشن کے سلسلے میں میٹنگ ہوئی۔ بعد ازاں وہ صحافیوںسے مخاطب تھے۔ ***** ***** ***** وبائی امراض سے متاثر مریضوںکے علاج کیلئے مستقل اسپتالوںکی ضرورت ہے۔ یہ بات وزیرِ اعلیٰـ اُدھو ٹھاکرے نے کہی ہے۔ وہ کل ممبئی میں میرا بھائندر میں کووِڈ مرکز کو عوام کے نام موسوم کرتے ہوئے مخاطب تھے۔ ممبئی سے قریب اس قسم کے مستقل اسپتال قائم کرنے کیلئے ریاستی حکومت کو امداد کرنے کا مطالبہ 27/ جولائی کو وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ہمراہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ہوئی میٹنگ میں کیا گیا ہے۔ یہ بات وزیرِ اعلیٰ نے کہی ہے۔ ***** ***** ***** ممبئی میں آج سے تمام دُکانیں شروع کرنے کومیونسپل کارپوریشن نے اجازت دی ہے۔ تاہم سینما گھر‘ کھانے کی ہوٹلیں 31/ اگست تک بند رہیں گے۔ کووِڈ 19- کے ضمن میں اُصول و ضوابط پر عمل کرتے ہوئے یہ دُکانیں جاری رہیں گی۔ کارپوریشن نے جاری کردہ حکم نامے میں یہ بات کہی۔ ***** ***** ***** ::::: سرخیاں:::::: ٭ ایودھیا میںکل ہونے والے رام مندر کی بھومی پوجن تقریب کی تمام تیاریاں مکمل۔ ٭ پھیری والوں اور راستوں پر اشیاء فروخت کرنے والوں پر کنٹرول رکھنا ممکن نہیں: انہیں کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ریاستی حکومت کا ممبئی ہائیکورٹ میں حلف نامہ۔ ٭ جیمس اور یوگ اداروں کیلئے طبّی وزارت کی جانب سے رہنماء خطوط جاری۔ ٭ اداکار سشانت سنہہ راجپوت کی موت کے سلسلے میں بہار پولس کو تعاون کیا جارہا ہے۔ ممبئی پولس کمشنر کی وضاحت۔ ٭ ریاست میں مزید 8/ ہزار 968/ کورونا وائرس متاثرین مریضوں کا اندراج۔ 266/ افراد دورانِ علاج چل بسے۔ ٭ اورنگ آباد اور لاتور میں تین۔ تین‘ ناندیڑ چار‘ عثمان آباد اور پربھنی میں ایک۔ ایک مریض فوت۔ بیڑ میں 56/ جالنہ 42/ اور ہنگولی میں سات نئے مریض پائے گئے۔ اور٭ راکھی کا تہوار تمام ملک میں جوش و خروش سے منایا گیا۔ ***** ***** *****
0 notes
Text
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
میں اور قرنطینہ!
(ڈاکٹر اظہر وحید)
قرنطینہ کسی ہسپانوی حسینہ کا نام نہیں بلکہ قرنطینہ اُس علیحدگی کے دوارنیے کا نام ہے ‘جو ایک ممکنہ مریض پرلازم ہوجاتا ہے جب اس میں کسی وبائی مرض کی علامتیں ظاہر ہوں یا ظاہر ہونے کا امکان ہو۔ صاحبو! ہم بھی آج کل ایک گوشہ تنہائی میں یہ قرنطینیائی ایام گزار رہے ہیں۔ جب کرونا کی وَبا بے لگام ہوئی تو ہمارے اکثر پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ہم پیشہ فیملی فزیشن نے اپنے کلینکس کو مقفل کر دیا اور منظر عام سے خود کو دُور کر لیا۔ ایسا کرنا اُن کا حق ہے۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ہمارے ہاں اور دنیا بھر میں میڈیکل کے بنیادی قانون کے تحت ایک ڈاکٹر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اپنی خدمات پیش کرنے سے انکار کر ستکا ہے۔ یہ بالکل اُسی طرح ہے‘ جس طرح ایک جج اور وکیل کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو کسی مقدمے کی سماعت اور وکالت سے معذرت کر لے۔ قصہ مختصر یہ کہ اس فقیرپیشہ کو یہ پیشہ ورانہ حق استعمال کرنا گوارا نہ ہوا۔ مجھے قطعاً مناسب معلوم نہ ہوا کہ جن خاندانوں کے ساتھ دو اڑھائی عشروں سے طبی ہی نہیں بلکہ معاشرتی اور روحانی حوالے سے بھی تعلقات استوار ہیں‘ انہیں اِس افتادِ ناگہانی میں بے یار ومدد گار چھوڑ دیا جائے۔ بیس پچیس برس پہلے جن بچے بچیوں کو گود میں دیکھا کیا کرتے‘ آج وہ اپنے بچوں کو گود میں اٹھا کر لا رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے کلینک بند نہ کیا۔۔۔۔۔ آخر وہی ہوا جس کا احتمال تھا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں… تمام تر حفاظتی تدابیر کے باوجود ایک مریض سے مجھے یہ وائرس منتقل ہو گیا۔ ابتدا میں جونہی بخار، گلے میں ہلکی سی سوزش اور جسم میں درد اور نقاہت کا آغاز ہوا‘میں نے فوراً اپنے گھر کے ایک چھوٹے سے لائبریر ی نما کمرے میں‘ جسے ہم نماز والا کمرہ کہتے ہیں‘ خود ساختہ قیدِ تنہائی کاٹنے کی ٹھان لی۔ چند ضروری ادویات، برتن، کپڑے، تولیہ اور بستر وغیرہ لے کر سب سے الگ تھلگ خود کو محصور کر لیا، لیکن ہم ایسے بھی معتکف نہ تھے کہ دنیا سے رابطہ کٹ جائے، لیپ ٹاپ اور موبائل ساتھ ہو تو دنیا آپ کے ساتھ ہے، ایسے میں بندہ معتکف کم اور مشتہر زیادہ ہوتا ہے۔ ہم نے ایک احتیاط البتہ ضرور اختیار کی، سوشل میڈیا پر بیماری کا سٹیٹس نہ لگایا۔ دعاؤں کی ضرورت تو ہمیں تھی لیکن ہمدردیاں سمیٹنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ ابھی چار یا پانچ دن گذرے تو دوستوں کے فون آنے لگے، طبیعت کے بارے میں دریافت کرنے لگے، چند قریبی لوگوں کے فون موصول ہوئے‘ تو یہی سمجھا کہ انہیں ہمدمِ دیرینہ یوسف واصفی سے اطلاع ملی ہو گی، لیکن جب پے در پے دوسرے شہروں سے بھی فون کالز آنے لگیں تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے ایک صاحب سے استفسار کیا کہ انہیں میری طبعیت کی ناسازی کے بارے میں کیسے معلوم ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ جناب ’’واصفؒ خیال‘‘ گروپ میں آپ کی طبیعت کی ناسازی کے متعلق پوسٹ لگی دیکھی ہے۔ حمیر انور کو فون کیا کہ پتہ لگایا جائے‘ بغیر اجازت یہ حرکت کس نے کی ہے۔عقدہ کھلا، طیب منیر کہ جوہر ٹاون کا مکین ہے اور ہمارا سادہ لوح شاگرد بھی ‘ اُس نے نادان دوست کا کردار نبھایا ہے، ڈھیروں ا��قابات کے ساتھ دعائے خیر کا ایک اعلان نشر کر رکھا ہے۔ پھر اسی سے درخواست کی ‘ میاں اب یہ پوسٹ مٹا دو ‘ خلقِ خدا کو تشویش میں مبتلا نہ کرو، لوگوں کے لیے کرنے کے اور بھی بہت کام ہیں۔ یہ عقدہ بھی کھلا کہ دعاؤں کے حصول میں یہ فقیر بہت امیر ہے۔ والدین، بہن بھائی، دوست احباب اور میرے غریب مریضوں نے جھولیاں بھر کر دعائیں دیں۔ اس موذ ی مرض کی دوا تو عنقا ہے‘ بس دُعا ہی دُعا ہے۔ ایامِ قرنطینہ میں بغرضِ علاج برادرم ڈاکٹر انجم جلال سے روزانہ کی بنیاد پر مشورہ جاری رکھا۔ زبان زدِ عام دیسی ٹوٹکے بشمول انجیر کا قہوہ، شہد، یخنی ، ڈرائی فروٹ وغیرہ سب زیرِ استعمال رہے۔ ہماری ڈاکٹر میمونہ اور اُس کی ماما کسی چابک دست نرس کی طرح بر وقت دوا اور غذا پیش کرتی رہیں۔
یہ قرنطینہ زندگی کو عجب قرینہ سکھا گیا۔ یہ چودہ دن دراصل ایک ایسے قیدی کی قیدِ تنہائی کی داستان ہوتی ہے جسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہو گا، اسے زندگی کی قید سے رہائی دینے کیلئے تختہ دار پر بھی لٹکایا جا سکتا ہے، اسے کسی آئی سی یو میں ایک سے دو ہفتے کی قیدِ بامشقت بھی سنائی جا سکتی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بخار اور نقاہت کے چند دْرّے لگا کر چودہ دن کے بعد اسے واپس نارمل زندگی میں بھیج دیا جائے۔ یعنی قرنطینہ میں داخل ہونے والا ان تینوں ممکنات سے گزر سکتا ہے۔ ممکنہ موت کی چاب اپنے اس قدر قریب محسوس کرتے ہوئے خود احتسابی کا گوشوارہ نظروں کے سامنے کھلنے لگا۔ ’’پہلی کرن‘‘ میں درج اپنا ہی جملہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا ’’مہلک بیماریوں کا علم سیکھنے والے یہ نہیں جانتے کہ وہ خود کس بیماری سے ہلاک ہوں گے ‘‘ ، سوچا ‘ وبا میں مرنے والا شہید ہوتا ہے، ممکن ہے اسی بہانے معصیت مغفرت میں تبدیل ہو جائے۔ زندگی میں کیا کھویا‘ کیا پایا؟ مالک کی نعمتوں کی لگاتار ناقدری پر افسوس ہوا۔ وقت ،وجود اور وسائل جو اِس حیاتِ مستعار میں امانت کے طور دیے گئے تھے‘ اُن کے بے ڈھب ضیاع پر افسوس رہا۔ اُس کی عطا اور اپنی خطا میں کوئی نسبت معلوم نہ ہو سکی۔
سب سے زیادہ افسوس اپنی زیرِترتیب کتابوں کے ممکنہ ضیاع کا ہوا۔ دل میں آیا کہ جلدی سے فہرست بنا دوں، ممکن ہے ‘ پس ماندگان اور شاگردان فراغت ملنے پر انہیں کتابی شکل دے سکیں۔ "سازِ انا البحر" ، "عکسِ خیال" اور "درِ احساس" کے ترتیب شدہ مسودے تو دوستوں کو یاد ہی ہوں گے۔ البتہ آیاتِ حسرت میں دو قیمتی تالیفات دل میں پھانس بن کر موجود رہیں… "کشف المحجبوب" کا آسان اْردو ترجمہ اور مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے ساتھ گزرے ہوئے شمسی کیلنڈر کے آٹھ سال اور آٹھ دن کی "بیتی" کے نام سے رُوداد۔ مخلص دوستوں کے بارہا اصرار کے باوجود بوجوہ آپ بیتی کا سلسلہ شروع نہ کر سکا، سوچتا رہا ‘ ایسی بھی کیا جلدی ہے، زندگی کی شام پڑے گی تو اپنے شام کی باتیں لکھنا شروع کریں گے… کیا معلوم تھا کہ بعض اوقات اچانک جھٹپٹا ہو جاتا ہے، تاریک بادل چھا جاتے ہیں اور شام سے پہلے ہی کسی ترتیب کے بغیر زندگی کا یوم ختم ہو جاتا ہے۔ اچھا کیا کہ اپنی ای میل اور فیس بک کا پاس ورڈ بچوں کو دے رکھا ہے، تعزیتی مصروفیات سے فارغ ہو کر وہ لیپ ٹاپ کے پیٹ سے سب کچھ برآمد کر سکیں گے۔ اشعار و اقوالِ واصفؒ کی تشریحات پر مشتمل کتاب ’’کتاب چہرے‘‘ تبصرے کی غرض سے ظہیر بدر سمیت کچھ دوستوں کو دے رکھی ہے، رفیق ِ طریق علی فراز علی کا تبصرہ بھی شامل ہے، اُس نے فون پر عیادت کرتے ہوئے اَدبی انداز میں دعائیہ تبصرہ کیا‘ تمہیں کیسے کچھ ہو سکتا ہے‘ ابھی تو تمہاری کتاب پر میرا تبصرہ چھپنا ہے۔ "کتاب چہرے" کے بعد "نصاب چہرے"… اور اس کے بعد بشرطِ زندگی اور توفیق و اجازت ‘مرشدی کی اِس غزل کے جتنے قافیے ہیں‘ ان سب پر کتابیں ترتیب دینی ہیں۔
؎ مرے جہاں کا نصاب چہرے
میں پڑھ رہا ہوں کتاب چہرے
میں نے جلدی سے فہرست جاری کر دی ہے تاکہ لواحقین و متاثرین کیلئے سند رہے اور بوقتِ ’’ضرورت‘‘ کام آئے۔
بہرحال دوستوں کو نوید ہو اور دشمنوں کو خبر… کہ سات دن کے بعد علامات واپس جانا شروع ہو گئیں۔ غسلِ جمعہ کے بعد جسم نے بتایا کہ بیماری کا جِنّ نکل چکا ہے، کمزوری کے اثرات ابھی باقی ہیں۔ رب سے مہلت مانگ لی ہے کہ آئندہ زندگی میں پہلے کی طرح بے دریغ وقت ضائع نہیں ہو گا۔ آج کا کام کل پر نہیں، بلکہ کل کا کام بھی آج پر ڈالوں گا۔ جو کام ابھی شروع کرنے ہیں‘ وہ ابھی سے شروع کر دوں گا۔
آج بارہواں دن ہے ، دو دن مزید اور پھر رہائی مل جائے گی۔ ویسے آپس کی بات ہے‘ ہمیں یہ خود ساختہ قید بہت پسند آئی۔ ہماری اخبار کے زاہد رفیق گواہ رہیں کہ قرنطینہ کے دنوں میں بھی کالم کی چھٹی نہیں کی۔ کلینک سے بھی بس دو ایک دن سے زیادہ چھٹی نہیں کی، لیپ ٹاپ پر اسکائپ کے ذریعے آن لائین مریضوں کے مشورہ جات جاری تھے۔ اب جو مریض کلینک پر آ جائیں‘ وہ بیچارے واپس کیسے جائیں اور کدھر جائیں؟ سرکاری ہسپتالوں کے آوٹ ڈور بند ہیں یا پھر کرونا کے مریضوں کے رش کی زد میں ہیں۔ عبداللہ نے ایک لیپ ٹاپ نیچے کلینک میں رکھ دیا اور دوسرا میرے پاس۔ یوں اپنے لیپ ٹاپ پر کالم چلتے رہے اور دوسرے پر مریض۔ مشقِ سخن اور چکی کی مشقت جاری رہی۔ ’’نعت ورثہ‘‘ کے بانی ابوالحسن خاور کافی دنوں سے ایک طرح مصرع ارسال کر چکے تھے… ’’حضورؐآپؐ کا اُسوہ جہانِ رحمت ہے‘‘ ، بحمد للہ! اس طرح مصرع پر ایک نعت بھی عطیہ ہوئی۔ اسکائپ پر کم و بیش ہر مریض کو نسخہ لکھوانے سے پہلے ایک لیکچر دینا پڑا کہ قرنطینہ کس بلا کا نام ہے، قرنطینہ کیوں ضروری ہے، اور یہ کہ اس وقت میرا اْن کے پاس آنا کیونکہ خطرے سے خالی نہیں۔
سوچتا ہوں‘ آئندہ پوری زندگی ہی کیوں نہ قرنطینہ میں گزاری جائے۔ لوگوں سے کم تعلق، لکھنے پڑھنے سے رغبت، عبادت و عبرت سے تمسک اور ہر دن کو ایک غنیمت سمجھتے ہوئے گزارا جائے۔ آخر وہ بیماری جو اپنے ساتھ لے کر جائے گی‘ اُس نے بھی تو کسی دن آ کر ہی رہنا ہے۔ اُس مہلک بیماری کے آنے سے پہلے ، یعنی جانے سے پہلے تمام کام مکمل باشد کیوں نہ کر لیے جائیں، تاکہ وقتِ مفارقت حسرت کی بجائے مسرت کا شادیانہ بجائے، اور یہ کہا جا سکے کہ
ع شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
0 notes
Text
Careem کا ایک اور شاندارفلاحی اقدام: عوام کی خدمت کے لیے کونسا نیا قدم اٹھا لیا
کراچی(جی سی این رپورٹ) پاکستان میں کورونا وائرس کی وبا نے جہاں لوگوں کو اس موذی مرض میں مبتلا کر دیا ہے، وہاں اس وبا کی روک تھام کے باعث تجارتی اور کاروباری مراکز بھی بند ہو چکے ہیں۔ لاکھوں مزدور اس خراب معاشی صورت حال میں روزگار اور آمدنی سے محروم ہو گئے جس کے باعث ان کے گھروں میں فاقوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور پاکستان بھر میں لوگوں کو اُن کے گھروں کی دہلیز پر سفری سہولیات فراہم کرنے والی کریم کمپنی انسانیت کی خدمت اور بھلائی کے کاموں میں ہمیشہ ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے۔ ماضی میں بھی کریم کی جانب سے سماج کے محروم طبقات کے علاوہ اپنے کریم کپتانوں کی فلاح و بہبود پر مبنی متعدد اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی موجودہ صورت حال میں بھی کریم نے انسانی بھلائی کے مشن کے تحت ’رزق‘ اور ’کراچی ریلیف ٹرسٹ‘ جیسے نجی اور سرکاری فلاحی اداروں کے ساتھ اشتراک کیا ہے، جس کے تحت پاکستان کے متعدد شہروں میں غریب اور نادار افراد کو ان کے گھروں کی دہلیز پر راشنز بیگز پہنچائے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں لاک ڈاؤن اور کاروبار ی و تجارتی سرگرمیوں کی عارضی بندش کے باعث سب سے دیہاڑی دار مزدور طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے، جن کی مدد کی خاطرمذکورہ بالا فلاحی تنظیموں کی جانب سے تیار کیے گئے راشن بیگز لوگوں تک پہنچانے کا نیک کام کریم کے سپرد کیا گیا ہے۔ کریم کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر 300 راشن بیگز تقسیم کیے جا رہے ہیں، جبکہ اگلے چند روزمیں مزید فلاحی تنظیموں سے اشتراک اور تعاون کے بعد یومیہ بنیادوں پرزیادہ سے زیادہ راشن بیگز مستحق خاندانوں تک پہنچائے جائیں گے۔ کریم کپتانوں کے ذریعے اب تک پندرہ سو غریب گھرانوں میں راشن کے تھیلے تقسیم کر دیئے گئے ہیں۔ اگلے چند روز میں مزید سینکڑوں افراد کو گھر بیٹھے کریم کپتانوں کی مدد سے راشن کی صورت میں امداد حاصل ہوگی۔سرکاری اور نجی فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر لوگوں تک راشن پہنچانے سے جہاں ایک نیک مشن کی تکمیل ہو رہی ہے، وہیں دوسری طرف حالیہ بحران کے باعث پریشان حال کریم کپتانوں کو بھی آمدنی حاصل ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے شہریوں کو گھروں تک محدود رکھنے کی مہم (Stay at Home) کے تحت کریم نے حکومت پنجاب سے اشتراک کیا ہے جس کے تحت جہاں لوگوں کو آن لائن آرڈرز کے ذریعے روزمرہ استعمال کا سامان ان کے گھروں تک پہنچایا جا رہا ہے تو دوسری جانب عوام کو طبی معاملات سے متعلق رہنمائی کے لیے حکومت کی ٹیلی میڈیسن ہیلپ لائن کے بارے میں بھی آگاہی دی جا رہی ہے۔ Read the full article
0 notes
Text
از صبح با صدراعظم افتادهایم عقب حکیمباشی
منتشر شده در: ایرانبانو – گروهی ویژه بانوان تورنتو
رفیقنوشت
مرض
۱
از صبح با صدراعظم افتادهایم عقب حکیمباشی. از این حجره به آن حجره. از این بازار به آن بازار، همه بسته. ما را هم علاف کرده. مثلا نوروز است و زمان نشستن دور سفره. مراسم سلام خاصه هم شد زهر هلاهل.
همین که ذات اقدس، دربارهی امور مالیه و به آبانداختن کشتی «اقتصاد فرمودند و رعیت را ترغیب به زاد و ولد، این حکیمباشی انگار فنرش دررفتهباشد، حقیر و صدراعظم را به کناری فراخواند و از وخامت حال همایونی گفت. آنقدر گفت و نالید در نهایت ما را با خود همراه کرد بگردیم دنبال تریاق مرغوب. میگوید: نوشدارو همان است و لاغیر.
آنطوری که حکیم میگوید، زبانم لال، امید چندانی به بهبود، نیست و مرض زوال عقلشان محرز و واضح است. بارالها! ما نگران شبه وبا بودیم این بلا نازل شد. اما اقل کم تا «شازده، بر اوضاع تسلط یابد چند صباحی، زمان میبرد و نوشدارو شاید ذهن مبارک علیل ایشان ایامی چند، نگه دارد.
امروز در سلام نوروزی، ذات همایونی، لازمهی تسلط بر افواج غریبهی غربیه را کشف قوای اجنه و حل مشکل با آنان دانست. عجیب این که بر علوم غریبه هم مسلط است اما یک شیر پاکخوردهای، دیشب تریاک نامرغوب به حضرتش خورانده. دیگر نمیتوان به کسی وثوق داشت.
۲
دیروز سفرا برای عرض تبریک، شرفیاب شده بودند. کسی به دستبوس نرفت. همه از خوف این شبه وبا، به قدر یک فرسخ رعایت بعد نموده، عرایض خود را طرح نمودند. بنده که مرتب روغن بنفشه به ساحت اقدس میمالانم هربار عرض عبودیت به انجام رسانده، آنگاه اذن خروج مییابم. گرچه احوالم چندان مساعد نیست لکن به اجبار، غایت حد احترام واجب میدارم.
باری، سفیر روس، مبالغی جهت معوقات در اخراجات قزاق در سوریه مطالبه نمود که ذات اقدس، بالفور فرمان دادند. سفیر انگلترا نیز اشارتی به برجام و بامب آتوم نمودند. شگفت آنکه گرچه سفیر آمریکن سالهاست اخراج گردیده، اما ذات اقدس، سفیر انگلترا را به جای ایشان، مخاطب قرار داد و اذن سخن نداد. قبلهی عالم، معاونت بلاد متبوعهی منحوسهی وی را در دفع شبه وبا نالازم خواند. به گمان صدراعظم، مقصود نهفته در سخن امروز در باب اجنهی آمریکن، «شیاطین سرخ منچستر باشد. آیتی و شاهدی دیگر بر زوال عقل ذات همایونی.
بعید هم نیست همان اجنه این تریاک را به ایشان خوراندهباشند.
۳
فعلا امر همایونی بر این قرار گرفته که رعیت، مفاتیح الجنان و صحیفهی سجادیه بخوانند و علما نیز بر بالین مریضان حاضر شوند تا طب اسلامی، چارهای برای این مرض واگیر بیابد. قرنطینه هم مردود است.
«بنده ناراضی، امین السلطان ناراضی، شازده ناراضی، قبلهی عالم هم ناراضی، رعیت هم ناراضی
خداوند عاقبت امور را به خیر گرداند.
منتشر شده توسط: Farzaneh Jafari
نوشته از صبح با صدراعظم افتادهایم عقب حکیمباشی اولین بار در کاولا. پدیدار شد.
from WordPress https://ift.tt/3ahintc
via IFTTT from Tumblr https://ift.tt/2QLLjSw via IFTTT
نوشته از صبح با صدراعظم افتادهایم عقب حکیمباشی اولین بار در کاولا. پدیدار شد.
from WordPress https://ift.tt/33PqzON via IFTTT
0 notes
Video
#ایران_بریفینگ / #قرنطینه، اساساً اقدامی حکومتی است و از این رو همواره به میزان کارآمدی حکومت وقت وابسته بوده است. دو نمونه ی تاریخی از واکنش حکومت در برابر شیوع «وبا» در زمان ناصرالدین شاه قاجار گواه این مدعاست: نمونه ی ناکارآمدی: ۱۸۹۲ (در زمان وزارت امین السلطان): «امروز شنیدم وبا در مشهد مقدس روزی هفتاد- هشتاد نفر را تلف میکند. ده روز دیگر یقین در اردو خواهد بود....ممکن بود با مبلغ کمی مخارج قرانتین بگذارند. شاید این مرض به جای دیگر سرایت نکند. اما کی حکم بکند و کی بشنود؟! انالله و انا الیه راجعون!» (اعتمادالسلطنه، روزنامه خاطرات). نمونه ی کارآمدی: ۱۸۵۱ (۴۱ سال پیش از مورد نخست و در زمان وزارت امیرکبیر): «برای محافظت ممالک محروسه از آلودگی ناخوشی مزبور (وبا) در مرزها قاعده گرانتین (قرنطینه) گزارده شد که مسافران را چند روز در آنجا نگه دارند.... امیرکبیر برای اینکه این قانون مایه سودجویی مأموران مرزی نگردد، در حاشیه نامه مزبور افزوده: مراقب باشید که این عمل مایه مداخل مستحفظین نشود و بنای اذیت و آزار را گذاشته، مترددین را به زحمت نیندازند، بلکه مایه نظم شود» (فریدون آدمیت، امیرکبیر و ایران) #فاجعه_در_راه_است #کرونا_را_جدی_بگیریم #همراه_شو_در_خانه_بمان @irbriefing https://www.instagram.com/p/B-DOHuXJXEt/?igshid=1h7ag2rd5pcma
0 notes
Text
چرا اسم بعضی دخترها «رابعه» است؟
New Post has been published on http://vestamag.ir/%da%86%d8%b1%d8%a7-%d8%a7%d8%b3%d9%85-%d8%a8%d8%b9%d8%b6%db%8c-%d8%af%d8%ae%d8%aa%d8%b1%d9%87%d8%a7-%d8%b1%d8%a7%d8%a8%d8%b9%d9%87-%d8%a7%d8%b3%d8%aa%d8%9f/
چرا اسم بعضی دخترها «رابعه» است؟
اگر بخواهیم مهم ترین اقدام رابعه را یادآور شویم باید از تحولی كه او در عرفان اسلامی به وجود آورد اسم ببریم و آن وارد كردن مفهوم عشق و محبت الهی در عرفان اسلامی است از این جهت كه رابعه در عرفان و سلوک عرفانی اش به عشق و محبت توجه عمیقی مبذول می داشت لذا او را(امام عاشقان) عمداً اند و متعلقبه جهت كه …
اختصاصی «تابناک با تو»؛ رابعه العدویه یک عارف زیاد معروف و یک شخصیت شناخته شده در تصوف اسلامی است. رابعه اهل عراق بود و در سال ۹۵ هـ ق (۷۱۳ م .) در بصره به دنیا آمد. والد او مردی مؤمن و فقیر بود. او دختر چهارم خانواده بود، از این روی اسم او را رابعه گذاشتند. رابعه در زبان عربی به معنی چهارم است. زیرا او دختر چهارم خانواده بود و این اسم را بهمنظور او انتخاب کردند. زمانی که کمتر از ده سال داشت والد او از دنیا رفت و بعد از مدت اختصار مادرش نیز فوتشد.
رابعه و خواهرانش به فقر، گرسنگی و فلاکت افتادند. رابعه با تمام وجود معنای واقعی یتیم بودن را درک کرد، پدرش جز قایقی که آن را به چند بیترتیب به ملت اجاره می دادند چیزی بهمنظور آنها به جای نگذاشته بود. بعد از آن قحطی و مرض وبا شهر بصره را در مصیبتی عمده فرو برد و روزگار چهار خواهر را از یکدیگر متمایز کرد. رابعه در کوچه های بصره به آوارگی افتاده بود. در آن موعد راهزنان و دزدان کل جا وجود داشتند. رابعه توسط یکی از راهزنان دزدیده شد و به شش دینار به یکی از تاجران ظالم بصره فروخته گردید.
او در اسارت و تحت بدترین شکنجه ها حیات می کرد. درد و مشقت و حقارتِ اسارت رابعه را به خدا قریب تر کرده بود و او هر شب با وجود خستگی و درد بعد از عبادتی طولانی و پر سوز به خواب می رفت و از خداوند می اراده تا او را نجات دهد. شبی از شب ها صاحبش از روزنه ای به تماشای او جلسه و او را در حال عبادت دید که می گفت:
” الهی، تو می دانی که هوای دل من در موافقت فرمان تو است و روشنایی چشم من در خدمت درگاه تو است، اگر شغل به دست من باشد یک لحظه از عبادت تو غفلت نمی کنم ولی تو مرا تحت سلطه مخلوق ای و از آفریدگان خود کرده ای…”
صاحب بی رحم از شنیدن صدای مناجات رابعه او را آزاد کرد. رابعه بعد از آزادی به منزل ی محقری نقل مکان کرد و از ملت دوران و اهل ریا اجتناب کرد و روح خود را در عبادت معبود صیقل عدل. او شب تا صبح به شکرانه ی خلاصی از اسارت صلوة می خواند و به عارفی نامدار و مشهور در جهان اسلام تبدیل شد.
رابعه عدویه به شهادت خاص و عام در كشف حقایق عرفانی ، مقام ارتفاع مکشوف است . هر زنی را كه می خواهندبه مقامات معنوی بستایند ، او را در عرفان به رابعه شبیه می سازند.
رابعه عدویه با توجه به اقداماتی كه كرده و تحولاتی كه درعرفان به عمل آورده مورد عنایت و اهتمام خاص و عام بوده است و بزرگان عرفان او را درعصر خود حجّت می عمداً اند .
رابعه، آغازگر عرفان عاشقانه اگر بخواهیم مهم ترین اقدام رابعه را یادآور شویم باید از تحولی كه او در عرفان اسلامی به وجود آورد اسم ببریم و آن وارد كردن مفهوم عشق و محبت الهی در عرفان اسلامی است از این جهت كه رابعه در عرفان و سلوک عرفانی اش به عشق و محبت توجه عمیقی مبذول می داشت لذا او را (امام عاشقان) عمداً اند و متعلقبه جهت كه محبت رابعه به خوف الهی آمیخته بود ، او را (پیشوای عارفان اندوهگین) اسم نهاده اند . چرا كه رابعه زیاد گریه می كرد و خوف الهی سراسر وجود او را گرفته بود .
رابعه در سلوک عرفانی و تعالیم خود نحوه اخیر ای در قبل گرفت و زیبایی و عشق و محبت را در آن وارد و بر آن تأكید داشت . بر خلاف صوفیانی كه در زیبایی های جهان ، جمال حق را مطالعه می كردند، او به زیبایی های جهان ظاهر ، بی اعتنا بود.
رابعه بهمنظور رسیدن به دیدار خدا دایم در طوفانی از اشک و تالم عاشقانه به سر می برد . حیات او سراسر سادگی بود . سخنانش در بیان سوز محبت ، تأثیری بی شبیه داشت . ظهور رابعه و تعالیمش نقطه عطف تصوف بود كه تدریجاً از زٌهد خشک مبتنی بر خوف و مشیت به معرفت درد آلود مبتنی بر عشق و محبت گرایید .
در سخنانی كه از او به یادگار باقیمانده به اهمیت محبت و عشق اشاراتی دارد . نقل است كه می گفت : “می روم آتش در بهشت زنم و آب در جهنم ریزم تا این هر دو حجاب رهروان از متوسط برخیزد و قصد معین شود و بندگان خدا ، خدا را بی غرض و نه به امید بهشت و یا خوف از جهنم خدمت كنند.”
رابعه هرگز ازدواج نکرد رابعه در عمر خود هرگز همسری انتخاب نکرد، او خواستگاران زی��دی داشت و استجابت مثبتی به هیچ کدام نداد، و فقط چیزی که در جواب می گفت این بود که:
“در من وجودی و اختیاری نمانده است، مرا باید از او اراده.”
بالاخره رابعه در سال ۱۳۵ هـ .ق وفات كرد و در بیت المقدس و در کوه زیتون مدفون گشت . در مورد سال وفات او نیز گفته اند كه رابعه در سال ۱۸۵ هـ . ق از دنیا رفت و در قدس شریف به خاک ودیعه شد و مزار وی زیارتگاه اهل سیر و سلوک و عرفان گشت.
شعری عارفانه از رابعه
رفیق دارمت دو نوع:
عاشقانه
سایر آنکه درخوری بهمنظور خواستن
عشق اولم به تو
از غصه هر آنچه غیر توست
فارغم کرد
عشق دومم
پردههای قوم را
از مساوی نگاه من کنار زد
تا تو را ببینم
بعد
هر ستایشی
از آن توست
نه، از آن من
در مسیر هر دو رفیق داشتن!
0 notes
Photo
در سال 1831 مرض طاعون درشوشتر راه یافت و در گوشه و کنار این ولایت، عده کثیری را تلف کرد، و به قول لرد کرزن، قریب 20هزار نفر را به کام مرگ کشاند چنانکه پس از این بیماری که در دوران قاجار رخ داد دیگر هرگز شوشتر به آن شکوه سابق بازنگشت و چندین سال بعد نیز به جای شوشتر که از زمان صفوی تا اواخر قاجار مرکز خوزستان بود اهواز به عنوان مرکز خوزستان انتخاب شد .علاوه بر طاعون و وبا، حکام و مأمورین دولتی ایران که از گرگ گرسنه خون خوارتر بودند مردمان بدبخت را بروز سیاه نشاندندکسروی نیز درباره طاعون خوزستان در سال 1831 میلادی مینویسد : 《گروه انبوهی از مردم آنجا از عرب و عجم را نابود ساخت، و بسیاری از آبادی ها ازمردم تهی شد. در شهر شوشتر، سه چهارم اهالی از بین رفتند.》 پس از شیوع طاعون که در سال 1247هجری قمری اتفاق افتاد چند سال بعد یعنی در محرم سال 1307هجری قمری اینبار وبا در شوشتر شایع شد و بخش زیادی از باقی مانده جمعیت شهر را به کام مرگ کشاند و از شهری که روزگاری در دوران ساسانی چون نگین ایران بود جز ویرانه ای باقی نماند عده ی زیادی از بین رفتند و باقی مانده ها هم شهر را ترک کردند نظام السطنه مافی که یکی از معدود حکمرانان نیک سرشت شوشتر در دوره قاجاریه بود. درباره ی شیوع مرض وبا، در محرم1307 سال در شوشتر می نویسد: 《 عاشورا بود وصبح از اول طلوع در سایه پل روضه خوانی داشتم. دو ساعت از دسته گذشته، در مجلس چهار پنج نفر از شدت حرارت غش کردند خودم دو دفعه غش کردم ناخوشی وبا بروز کرده بود عده ای زیادی مردند و علما و سادات و بزرگان شهر متفرق شدند و شهر به صورت خرابه ای درآمد》 منبع تاریخ پانصد ساله خوزستان - احمد کسروی تبریزی- تهران -1312-چاپ اول- صفحه 178و179 https://www.instagram.com/p/B9cBPS0HVSf/?igshid=1fr07sqm0l6eg
0 notes
Text
از صبح با صدراعظم افتادهایم عقب حکیمباشی
منتشر شده در: ایرانبانو – گروهی ویژه بانوان تورنتو رفیقنوشت
مرض ۱ از صبح با صدراعظم افتادهایم عقب حکیمباشی. از این حجره به آن حجره. از این بازار به آن بازار، همه بسته. ما را هم علاف کرده. مثلا نوروز است و زمان نشستن دور سفره. مراسم سلام خاصه هم شد زهر هلاهل.
همین که ذات اقدس، دربارهی امور مالیه و به آبانداختن کشتی «اقتصاد فرمودند و رعیت را ترغیب به زاد و ولد، این حکیمباشی انگار فنرش دررفتهباشد، حقیر و صدراعظم را به کناری فراخواند و از وخامت حال همایونی گفت. آنقدر گفت و نالید در نهایت ما را با خود همراه کرد بگردیم دنبال تریاق مرغوب. میگوید: نوشدارو همان است و لاغیر.
آنطوری که حکیم میگوید، زبانم لال، امید چندانی به بهبود، نیست و مرض زوال عقلشان محرز و واضح است. بارالها! ما نگران شبه وبا بودیم این بلا نازل شد. اما اقل کم تا «شازده، بر اوضاع تسلط یابد چند صباحی، زمان میبرد و نوشدارو شاید ذهن مبارک علیل ایشان ایامی چند، نگه دارد.
امروز در سلام نوروزی، ذات همایونی، لازمهی تسلط بر افواج غریبهی غربیه را کشف قوای اجنه و حل مشکل با آنان دانست. عجیب این که بر علوم غریبه هم مسلط است اما یک شیر پاکخوردهای، دیشب تریاک نامرغوب به حضرتش خورانده. دیگر نمیتوان به کسی وثوق داشت.
۲ دیروز سفرا برای عرض تبریک، شرفیاب شده بودند. کسی به دستبوس نرفت. همه از خوف این شبه وبا، به قدر یک فرسخ رعایت بعد نموده، عرایض خود را طرح نمودند. بنده که مرتب روغن بنفشه به ساحت اقدس میمالانم هربار عرض عبودیت به انجام رسانده، آنگاه اذن خروج مییابم. گرچه احوالم چندان مساعد نیست لکن به اجبار، غایت حد احترام واجب میدارم.
باری، سفیر روس، مبالغی جهت معوقات در اخراجات قزاق در سوریه مطالبه نمود که ذات اقدس، بالفور فرمان دادند. سفیر انگلترا نیز اشارتی به برجام و بامب آتوم نمودند. شگفت آنکه گرچه سفیر آمریکن سالهاست اخراج گردیده، اما ذات اقدس، سفیر انگلترا را به جای ایشان، مخاطب قرار داد و اذن سخن نداد. قبلهی عالم، معاونت بلاد متبوعهی منحوسهی وی را در دفع شبه وبا نالازم خواند. به گمان صدراعظم، مقصود نهفته در سخن امروز در باب اجنهی آمریکن، «شیاطین سرخ منچستر باشد. آیتی و شاهدی دیگر بر زوال عقل ذات همایونی. بعید هم نیست همان اجنه این تریاک را به ایشان خوراندهباشند.
۳ فعلا امر همایونی بر این قرار گرفته که رعیت، مفاتیح الجنان و صحیفهی سجادیه بخوانند و علما نیز بر بالین مریضان حاضر شوند تا طب اسلامی، چارهای برای این مرض واگیر بیابد. قرنطینه هم مردود است. «بنده ناراضی، امین السلطان ناراضی، شازده ناراضی، قبلهی عالم هم ناراضی، رعیت هم ناراضی خداوند عاقبت امور را به خیر گرداند. منتشر شده توسط: Farzaneh Jafari
نوشته از صبح با صدراعظم افتادهایم عقب حکیمباشی اولین بار در کاولا. پدیدار شد.
from WordPress https://ift.tt/3ahintc via IFTTT
0 notes