#م��امت
Explore tagged Tumblr posts
Text
الشاذات الفاجرة .. بيلغولى تحميل ال bluetooth و الموبايل القديم مش عابز يشحن .. واتقفل .. واضطريت انقل كارت الموبايل
و ده معناه ان الشراميط الفاجرة الشاذة جنسيا .. الى كانت عندى الليلادى م.. حروقة بزيادة انى لم امت .. وانى لم ولن .. اوفق ان اى فاجرة شاذة منهن تبقى معايا
مش فاهمة هن كانوا فاكرين نفسهن شاذات جنسيا على راسهم ريشة ،🤪🤪.. علشان انا بوضعى و مكانتى .. اوفق على فاجرة منهن تبقى معايا ؟ ..
انا لا يمكن اوافق يكون معى .. اى احد من اهل العار على الاسلام بالجهات السيادية المصرية .. او اى شاذات اخرى .. او اى ستات .. او جامعة عين شمس
(((فريق عملى محااايد من كل الاطياف والمخلوقات خالى من اى شاذات او نسوان )))
واضح ان الريسة الشاذة الفاجرة الكبيرة .. ضحكت عليهم .. و اوهمتهم انى ممكن اوافق على شاذة منهن 🤪 .. أو يمكن هى بلغت درجة عاليه من الغباء و الجهل
عندما لن تعود عليا اى منفعة من أى أحد .. يبقى اوافق عليه ليه 😅😅؟؟ .
انا عملت الكثير .. و انا ليس معى اى أحد .. ح أكملها كده وحيدة بإذن الله 💪💪
يا ترى يا متحسرة يا ريسة الشاذات جنسيا .. با أس البلاوى كلها 🫣😱 .. انتى اتسببتى فى قتل احد الليلادى🤪؟؟ .. و لا الكبار الى ((( انا ))) كنت معاهم .. و فشلوا فى قتلى .. عرصوا عليكى ,, .. و على شاذاتك و خولاتك ؟؟ .. و على أكاذيبك .. وإستغفالك ليهم .. و على وساختك .. و على فجرك .. و على شذوذك .. ولا انتى نجحتى تلبسيها فى احد غلبان😅😅 .. انا خبرة فى وساختكم و فجركم
و ارجع واقول .. ما ح اشتغل فى اى مكان .. لو كان حوليا اى فاجرة شاذة شرموطة منحلة أخلاقيا بتاعة زنا وفجور .. او لو كان حوليا .. نسوان العار على الاسلام بالجهات السيادية المصرية .. او كان حوليا اى ستات .. او جامعة عين شمس
و انا شايفة ان الوضع الحالى افضل .. و أنسب لشخصى
دا انا انا غيرت خريطة العالم والكون .. و انا نايمة فى سريرى💪 .. لا اعرف اى احد .. و قاعدة فى مقاعد المتفرجين .. فما بالكم لو نزلت العب اساسى فى الملعب 💪💪
على فكرة .. رأيى المتواضع .. ان الوضع الحالى .. من مصلحة .. الشاذات جنسيا المنحلات اخلاقيا .. الى بتحكم العالم .. و بقية اهل الشر الى معاهم
0 notes
Text
من فتره دماغي بقت بتحاصرني في كتير من الاسئله
•هل قادر تكمل؟
•هل انت مبسوط كده؟
•هل قادر تسعي؟ في ظل ظروف ممكن تكون تعبان فيها نفسيا؟
•هل الحياة عادله كفايه؟
وبصراحة مبقتش عارف اعمل اي هل الامور كده علي مايرام يعني واي حته ممكن يكون فيها تعب وارف زياده واتضح بقي ان هي دي اصلا الحياة الكبيرة اللي احنا مكناش بنشوفها واحنا صغيرين واللي هو ازاي واحنا صغيرين كنا بنتمني نكبر زي كل الناس اللي هناك دي.. والظاهر طلع انه فخ كبير بيديك الطُعم واحده واحده وبعدها يصطادك عشان تبدا رحله غريبه انت نفسك مش عارف اخرتها اي في ناس بيبقي حظها حلو او مش عارف بس بتفلت من الحته دي وبتعدي وبتشوف هي عايزه اي وبتحاول عشانه لكن بقي الجزء الاكبر انه امت بتلاقي نفسك كبر فجاه ومش عارف اي اللي بيحصل وانه "الحقيقه ان الحياه ضحكت علينا" بصوت حماقي..
والحقيقه بقي اني فعلل حاسس اني في جاب واني م قادر اكمل ولسه بكررها في كل بوست انا محتاج ان انا ارضي واني احس بالرضا يملا قلبي لاني مفتقد كده جدا وهفضل دايما اكتبها كل بوست واني محتاج رمضان يجي عشان انا حاسس بحمل كبير علب قلبي ومش مبسوط وان ممكن رمضان يغير اي حاجه .. فخير يعني لاني م عارف في اي ومش مبسوط 😅
1 note
·
View note
Text
دعا محض آرزوئوں کا خواہشات کا اور نیک تمناؤں کا نام نہیں ہوتا۔دعا درحقیقت جدوجہد کا آخری سرا ہوتا ہے کہ societyکے اندر جب انسان اپنی تمام عملی صلاحیتوں کو ایک نقطے پر مرکوز کر دیتا ہے اور پھر انکو بروئے کار لانے کے لئے اللہ سے رجوع کرتا ہے!
تربیت کا تعلق ہماری عملی جدوجہد اور کوشش سے ہوتا ہے!
تاویل_احادیث book...
نظام ابداء کے بعد نظام تخلیق کے بعد نظام تدبیر کے بعد نظام تجلیات 👈 جس میں رو�� اور مادہ اور انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔۔۔اس کے لئے ہے نظام نبوت■نبوت فطرت_انسانی کے ماتحت ہوتی ہے! اور نبی اس فطرت کو بدلتے نہیں ہیں بلکہ اسکو مہذب بناتے ہیں۔۔درست کرتے ہیں۔۔۔کیوں کہ فطرت کا تعلق نظام تخلیق سے ہے تو نبوت نظام تخلیق کو نہیں بدل سکتی وہ اللہ کا اختیار ہے۔۔۔تو نبی جبلت نہیں اسکا رخ بدلتے ہیں۔۔خرابی کہاں ہے کہ نبی کو سمجھنا کہ وہ بیٹا یا بیٹی دے تو یہ شرک ہے۔نبی اپنی ہی قوم کا بندہ ہوتا ہے جو انہیں کی زبان بولتا ہے اور بہتر طریقے سے اصلاح کرتا ہے۔شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ جس طرح انسان کی فطرت ہوتی ہے اسی طرح قومی فطرت بھی ہوتی ہے جسکو رسول سمجھتے ہیں۔انسان جو حیوان سے آگے ہے وہ قوت_عقلیہ کی وجہ سے۔۔۔اور اس قوت کا استعمال وہ دو شعبوں میں کرتا ہے دنیا کے ارتقافات جسے قوت_معاش کہتے ہیں۔۔آخرت کے لئے علم حاصل کرتا ہے جسے عقل_معادی کہتے ہیں۔۔اور قوت عملیہ جس سے نکھار پیدا ہوتا ہے اخلاق میں۔۔۔نبی کہتے ہیں اس منبئہ علم (اللہ) سے علم لے کر لوگوں کو باخبردار کرے۔۔اب ان میں چیزیں ہیں 1۔عقل 2۔علم 3۔عمل یعنی اخلاق! علم لاحکام👇
●اب ان پر پہلے توحیدی وصفات کا نزول ہوتا ہے۔۔اللہ سے جوڑنا
●دوسرا علم عبادات یعنی غورو فکر کے بعد جب وہ عبادت کرنا چاہتا ہے تو اسکا منہج(طریقہ کار) کیا ہوگا۔۔
●علوم ارتقافات کہ انسانی جسم سہولتوں سے استفادہ کیسے کرتا ہے۔۔۔
●علم مخاسمہ ان کے شکوک و شبہات کو کیسے ختم کریں۔۔۔آگاہ کیسے کیا جائے ان علوم سے۔۔
● علم تذکیر سے یعنی ماضی کے واقعات سے انکو سمجھانا کہ یہ علوم حاصل کرنا کیوں ضروری ہے اور انکے نتائج کیا تھے۔۔
8 لوگ مفاہمین ہیں!
1۔ کامل جو تہذیب نفس میں اعل' درجے کا کردار ادا کرتے ہیں۔۔
2۔حکیم جو پہلے دو ارتقافات کو سر انجام دیتے ہیں کہ کیسے حکمت کے اصولوں سے سوسائٹی کو درست کیا جاتا ہےdiscipline میں لایا جائے۔۔کونسے اخلاق سے سماجی تعلق کو بہتر بنایا جائے۔۔۔
3۔ خلیفہ جو آخری دو ارتقافات کو سر انجام دیتے ہیں بنیادی سیاسی امور قومی اور بین الاقوامی سطح کا کردار ادا کرتے ہیں۔۔
4۔ ہادی مزکی جن کی صحبت سے انسانی روح متاثر ہوتی ہے۔۔سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے سچائی بھی۔۔
5۔ امام جو انسانیت کے بکھرے ہوئے اعمال کو ایک جگہ کرنے کا قانون بناتا ہے ۔۔۔انسانی زندگی کو منظم کرنے کے قوانیں و ضوابط طے کرتا ہے۔۔
6۔منظر (م پیش) ڈرانے والا حجت تمام کرنے والا جو سوسائٹی کو آنے والی مصیبت سے آگاہ کرتا ہے۔۔ روکتا ہے غلط کاموں سے جو نہیں مانتا عذاب میں مبتلا ہوگا۔۔
7۔اب اہم بات یہ ہے کہ ان میں کسی ایک کو اللہ من��ب نبوت عطا کرتا ہے ضرورت حالات کے مطابق۔۔اب آپ صلی ا��لہ علیہ وسلم کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ اپنی قوم کے بھی امام تھے اور صحابہ کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر بھی تھے۔۔یہ ساری خصوصیات آپ میں شامل تھیں۔۔
تمام انبیاء کی سیرت کے 3 بنیادی نکات:
حکمت کے اصولوں پر کسی نبی نے امت کو سمجھایا ہے۔۔ خلافت کے اصولوں پر۔۔ انظار کے اصولوں پر۔وغیرہ۔۔۔ تمام انبیاءکرتے تھے👇
● انسانوں کو اللہ سے جوڑنا۔۔جوڑنا اس بات سے کہ اللہ کی ذات کے بارے میں نہیں اسکی مخلوق کے بارے میں غورو فکر کرو۔۔تاکہ شرک پیدا نہ ہو۔۔ دو انتہائیں اللہ کو مخلوق سمجھنا یا مخلوق کو اللہ یہ پیدا ہو جاتیں ہیں۔۔۔انعامات پر غور کرانا کہ اللہ کا شکر ادا کریں۔۔
● عام انسانوں کی خلقی پیدائشی عقل کے تناظر میں بات کرکر اللہ سے جوڑنا۔۔نہ ہی عقل سے اوپر نہ نیچے درجے کی باتیں۔۔
● تہذیب نفس(افراد_اعل' اخلاق)+ سیاست امماء(اجماعیت)
👈 اب انبیاء کا بنیادی حق یہ کہ ان کی authority کو مانا جائے ترقی کے لئے۔۔ جب بھی کوئی کیا نبی آتا ہے تو پرانی شریعت تبدیل ہو جاتی ہے۔
3 بنیادی ادوار۔۔1۔ دور وہ جو آدم سے نوح تک 2۔ وہ جو نوح سے ابراہیم تک 3۔ وہ ابرہیم سے محمد ص تک۔۔ اصل ملت حنیفیت ہے جس میں انساں اپنے افکار عقل وغیرہ کو یکسو کر لیتا ہے اللہ سے جوڑتا ہے۔۔اصل دین اور ایک ہی ہے جیسے توحید وغیرہ۔۔ اک ملت طبیعات ہے۔۔کہ جو انعامات اللہ کے بنائے ہیں ان پر غور کرنا کہ یہ اللہ کے بنائے ہیں لیکن انبیاء کے بعد لوگ اکثر ان انعامات کو اصل سمجھ لیتے۔۔اسکو حنیفیت تک نہ لے کت جاتے۔۔ایک علم فلکیات تھا جس سے ادریس ع نے لوگوں کو اللہ سے جوڑا۔۔
■ ابراہیم سے پہلے جو نبی تھے ان کی ملت پر فرشتوں پر ایمان لانا ضروری نہیں تھا کیوں کہ انکی عقل کے مطابق صرف چیزوں کے ذریعے سے اللہ سے جوڑا گیا۔۔۔
1 note
·
View note
Photo
گاندھی جی مولانا سید محمد علی ؒ مونگیری کی خدمت میں آئے تو گاندھی جی نے کہا کہ : ” مولانامیں نے حضور ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا ہے اور محمد ﷺ کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا ہوں،آپ دنیا کے عظیم ترین انسان تھے ،اس کے علاوہ قرآن کریم کا مطالعہ بھی میں نے کیا ہے یہ عظیم کتاب ہے اور اس نے میرے دل ودماغ پر گہرا اثر کیا ہے “ حضرت مونگیری علیہ الرحمہ اُن کی باتوں کو خاموشی سے سنتے رہے اور جب گاندھی جی اپنی بات کہہ چکے تو حضرت نے پوچھا : ” مجھے تو آپ اسلام کی وہ بات بتائیے جو آپ کو پسند نہیں آئی اور آنحضرت ﷺ کی سیرت کے اُس کمزور پہلو سے آگاہ کیجئے جسے آپ نے اچھا نہیں سمجھا “ گاندھی جی اس سوال کے لئے تیارنہ تھے ،کچھ چونکے اور فوراً بولے : ایسا تو کوئی پہلو میری نظر میں نہیں آیا ،اُس پر حضرت مونگیری ؒ نے بڑا جرئت مندانہ سوال کیا کہ : تو پھر آپ نے ابھی تک اسلا م قبول نہیں کیا ؟گاندھی جی کے پاس کوئی جواب نہ تھا مولانا خفا ہو گئے اور فرمایا کہ آپ نے جو کچھ کہا غلط ہے ،آپ ہمیں صرف پھانسنا چاہتے ہیں،صیاد بھی پرندوں کو پکڑنے کے لئے اُنہی کی بولیاں بولا کرتا ہے“۔(مہر منیر ،ص:272 بحوالہ دیار مرشد میں چند دن،ص: 42/43) اے امت مسلمہ! آج آپ کے پاس بھی جب کفر نافذ کرنے والے حکمران ریاست مدینہ اور خلفائے راشدین کی تعریفوں کے پل باندھیں تو ان سے پوچھیں کہ ریاست مدینہ اور خلفائے راشدین کے دور کا وہ کون سا پہلو ہے جن سے انہیں مسلہ ہے اور اگر کسی بات سے مسلہ نہیں تو اسلام کا نفاذ ویسے کیوں نہیں کرتے جیسے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور ان کے بعد ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کر کے دکھایا ؟ اور کیوں وہ اللہ کو اپنا معبود مان کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شارع و شارح ماننے کا اقرار کرنے کے باوجود بھی سود نافذ کر کے ان سے برسرِ پیکار ہیں ؟ کیوں وہ بے حیائ پھیلانے والی رقاصاؤں کی پذیرائی سرکاری سطح پہ کرتے ہیں ؟ کیوں ان کے حلقہ احباب میں واضح اسلام دشمنی رکھنے والے لوگ موجود ہیں ؟ کیوں انہوں نے اللہ کے مطلق قانون ساز ہونے کے بعد بشر ہوتے ہوئے بھی قانون ساز بننے کی جرأت کی؟ اور یہ آپ کے سوالات کا ہرگز کوئ تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے کیونکہ یہ لاعلم نہیں اس سے جو یہ کرتے ہیں اور ان کے اسلام سے متعلق کلمات کی رسمی ادائیگی محض اپنی پذیرائی بڑھانے کی چال ہوتی ہے۔ https://www.instagram.com/p/Cc2f5uaslO_/?igshid=NGJjMDIxMWI=
0 notes
Photo
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین دعاؤں کا بیان سوال اس حدیث نبوی کا کیا مطلب ہے؟ (سَأَلْتُ رَبِّی عَزَّوَجَلَّ ثَلاَثَ خِصَالٍ فَأَعْطَانِي اثْنَتَیْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَۃً، سَأَلْتَ رَبِّي أَنْ لاَ یُھْلِکَنَا بِمَا أَھََْکَ بِہِ الْأُمَمَ فَأَعْطَانِیھَا، فَسَأَلْتُ ُ رَبِّی عَزَّوَجَل أَنْ لاعَلَیْنَا عَدُوَّا م ِنْ غَیْرِنَا فَأَعْطَانِیھَا، فسَأَ لْتُ رَبِّیأَنْ لاَ یَلْبِسَھَا شِیَعاً فَمَنَعَنِیَھَا؟) میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں، اس نے مجھے دوچیزیں دے دیں اور ایک نہیں دی۔ میں نے اپنے رب سے یہ سوال کیا کہ ہمں ان عذابوں کے ذریعے ہلاک نہ کرے جن کے ذریعے اس نے سابقہ امتوں کو تباہ کیا تھا۔ اس نے میری یہ درخواست قبول فرمائی۔ اور میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ ہم پر غیروں میں سے کسی دشمن کو مسلط نہ کرے، اللہ نے یہ چیز بھی عنایت فرمادی اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہمیں فرقوں میں تقسیم نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے یہ چیز مجھے نہیں دی۔‘‘ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: اس حدیث کو امام ترمذی رضی اللہ عنہما نے اپنی کتاب میں روایت کیا ہے اور کہا ہے: ’’یہ حدیث حس صحیح ہے۔‘‘ امام نسائی رضی اللہ عنہما نے بھی اسے راویت کیا ہے اور مذکورہ بالا الفاظ سے روایت کے ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو حضرت ثوبان رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔[1] حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لئے تین باتو ں کی دعا فرمائی‘ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو اس طرح تباہ نہ کرے، جس طرح سابقہ امتیں مختلف عذابوں سے ہلاک ہوئیں مثلاً پانی میں غرق ہو کر، تیز آندھی کی وجہ سے، زلزلہ کے ذریعے، آسمان سے پتھر برسا کر دوسری دعا یہ فرمائی کہ غیر مسلم دشمن ان پر اس طرح غالب نہ آجائیں کہ انہیں بالکل ختم کردیں اور تیسری دعا یہ فرمائی کہ وہ خواہشات نفس کی وجہ سے آپس میں اختلاف کرکے مختلف گروہ اور پارٹیاں نہ بن جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ’’اللہ عزوجل نے اپنے فضل سے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں اور تیسری دعا کسی حکمت کی بنا پر قبول نہیں فرمائی۔ وہ حکمت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۹۸۱۸) فتاوی ابن باز ( �� ۲ ص ۱۶۵، ۱۶۶ ) #B200156 ID: B200156 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/quran-collection/quranic-sciences-taqi-osmani-muhammad-taqi-osmani/
Quranic Sciences (Taqi Osmani) by Muhammad Taqi Osmani
#1313
مصنف : محمد تقی عثمانی
مشاہدات : 40299
علوم القرآن ( تقی عثمانی )
ڈاؤن لوڈ 1
قرآن کریم بذات خود علوم و معارف کا خزینہ ہے۔ اس کو پڑھنے والا چاہے ایک عام فہم شخص ہو یا علم کی وسعتوں سے مالامال، اس کی برکتوں سے تہی نہیں رہتا۔ امت مسلمہ مختلف جہتوں اور متعدد پہلوؤں سے قرآن کریم کی خدمت کرتی آئی ہے۔ اس سلسلہ میں ’علوم القرآن‘ کے موضوع پر بہت سا علمی اور تحقیقی مواد موجود ہے۔ پیش نظر کتاب اسی سلسلہ کی ایک اہم ترین کڑی ہے۔ جس میں علوم القرآن سے متعلقہ بہت سے ابحاث کو جمع کر دیا گیا ہے۔ کتاب میں وحی اور نزول قرآن، ترتیب نزول، قراءات سبعہ اور اعجاز قرآن وغیرہ جیسےابحاث اس طرح بصیرت افروز انداز میں آ گئے ہیں کہ مستشرقین کے وساوس اور معاندانہ شکوک و شبہات کا تشفی کن جواب آ گیا ہے۔ جدید نسل کی رہنمائی اور قرآنی حقائق کو واشگاف کرنے کے لیے ایک بہترین کاوش ہے(ع۔م)
#Quranic Sciences (Taqi Osmani) by Muhammad Taqi Osmani#علوم القرآن ( تقی عثمانی ) مصنف : محمد تقی عثمانی
0 notes
Text
حضور پاکؐ نے فرمایا یہ میری امت کو بتا دو جب بھی رزق اور دولت کی کمی ہو یہ دعا صرف 5مرتبہ پڑھیں
حضور پاکؐ نے فرمایا یہ میری امت کو بتا دو جب بھی رزق اور دولت کی کمی ہو یہ دعا صرف 5مرتبہ پڑھیں
اس حقیقت سے کوئی انسان انکار نہیں کر سکتا دنیا میں ہر امیر غریب ، نی۔ک و بد کو ق۔انون قدرت کے تحت دکھوں ، غم۔وں اور پریش۔انیوں ، بیم۔اریوں سے کسی نہ کسی شک۔ل میں ضرور واسطہ پڑتا ہے۔ لیکن وہ انسان خوش قسمت ہے جو اس غ۔م ، دکھ اور پریشانی کو صبر اور حوص۔لہ کے ساتھ برداش۔ت کرتا ہے۔ اگرچہ غم اور پریش۔انیوں ک�� علاج تو آج سے چودہ سو ۴۳ سال پہلے قرآن و حدیت میں بڑے احسن انداز کے ساتھ بیان کر دیا گیا.…
View On WordPress
0 notes
Text
قاضی مجاہدالاسلا م قاسمیؒ کے تعلیمی نظریات
قاضی مجاہدالاسلا م قاسمیؒ کے تعلیمی نظریات
قاضی مجاہدالاسلا م قاسمیؒ کے تعلیمی نظریات —————————– مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہا ر، اڈیشہ وجھارکھند —————————– فقیہ امت،مجاہد ملت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (م :اپریل ۲۰۰۲) قاضی القضاۃ امارت شرعیہ بہار،اڑیسہ وجھارکھنڈ، سکریٹری جنرل آل انڈیا ملّی کونسل،صدرآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اورسکریٹر ی جنرل اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی ہر دم رواں پیہم رواں رہنے والی…
View On WordPress
0 notes
Photo
. 🔷 [در سال ۱۲۸۶ هـ.ش، شیخ فضلالله نوری طی نامهای] به فرزند خود در نجف مینویسد که «یک کلمه در نظامنامه [=قانون اساسی]، آزادیِ قلم ذکر شد، اینهمه مفاسدِ روزنامهها از آن [برخاست]. وای اگر آزادی در عقاید بود؛ چنانکه اصرار دارند. “آتش به جانِ شمع فتد کین بنا نهاد!″». . 🔶 با رواجِ «کلمهی آزادی» که «مزدکیانِ عصر» در ایران تبلیغ کردند، روزنامهها «بیمحابا» سخن از «گالیله و نیوتن و هوگو و روسو» به میان آوردند و آنان را «العياذبالله، از علماءِ امت و انبیاءِ بنیاسرائیل، افضل» شمردند. به نظر شیخ، تبدیل مجلس امر به معروف و نهی از منکر به مجلس آزادی از نتایجِ سَحَرِ مشروطیت بود و او تردیدی نداشت که با دمیدنِ صبحِ آزادی از اسلام جز اسمی بیرسم باقی نخواهد ماند… . 🔷 نوری در دیدن بیرسمیهایی که با اعلام مشروطیت رواج پیدا کرده بود و در تشخیص آسیبهایی که از انتشار کلمهی آزادی بر کشور وارد می شد، چابک بود. توصيف او از استبداد اکثریت و اینکه «یک استبداد را صد هزار استبداد ساختهاند»، یادآورِ تعبيرِ طالبوف تبریزی است. شیخ از این نکته نیز غافل نبود که با برقرار شدن استبداد اکثریت ، و «با صد هزار حاکمِ ظالم» که بر کشور و «رعیتِ جوکارِ جورکش» تاختن گرفتهاند، بر گرفتاریِ آن گروههایی از رعیت که همیشه «زیرِ پا میرفتند و اسیرِ دستِ غارتگران و چپاولچیان بودند، بالاِضعاف افزوده است.» . 🔶 اگر از انتقادهای شرعی شیخ فضلالله به نظام مشروطیت صرف نظر کنیم، تردیدی نیست که در ایرادهایی که او به این نظام میگرفت، نکتههای جالب توجه، اندک نبود، اما به نظر نمیرسد که نوری دریافت واقعبینانهای از دگرگونیهای در حال انجام پیدا کرده بود. پایداری شیخ تا پای دار از این اشتباه در محاسبه و بیخبری او از سرشتِ «حرکت جوهر��» دوران جدید و «انقلاب دموکراتیکی» ناشی میشد که با دارالسلطنهی تبریز آغاز شده بود. در مقدمات نظری شیخ جایی برای توضیح افق آینده وجود نداشت و او گمان برده بود که مشروطیت، بازگشتی به «آزادیِ عهدِ قباد و مساواتِ مذهبِ مزدک» و «عادتِ دیرینهی حیدرینعمتی»است. . . . #تأملی_درباره_ایران #جواد_طباطبایی #نشر_مینوی_خرد . 🔺نگاره: طناب دار شیخ در موزهی شهدای تهران 🔻به ��ناسبت ۱۱۲مین سالگرد ترور نافرجام شیخ به دست کریم دواتگر (۱۲۸۷ هـ.ش 1908 م) . ۹ / #دی / ۱۳۹۹ https://www.instagram.com/p/CJZBowOjPc-/?igshid=qpitz9v2uyqe
0 notes
Text
ذکر اللہ کی فضیلت
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’دل دو چیزوں ( غفلت اور گناہ) سے زنگ پکڑتا ہے اور دو چیزوں (استغفار اور ��کر الٰہی ) سے ہی زنگ دور کیا جا سکتا اور اسی کے ذریعے سے دل کو روشن کیا جا سکتا ہے ۔‘‘ ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا ’’ذکر الٰہی کیلئے کوئی قوم جب اور جہاں بیٹھتی ہے تو ملائکہ ان پر گھیرا ڈال لیتے ہیں اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا اپنی مجلس میں تذکرہ فرماتے ہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک روایت صحیحین میں ہے جسے حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا ’’ اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں: میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں جب مجھے یاد کرتا ہے میں علم کے لحاظ سے اس کے پاس ہوتا ہوں اگر مجھے دل میں یاد کرے تو میں دل میں اسے یاد کرتا ہوں مجلس میں یاد کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں میری طرف بالشت آئے تو میں ہاتھ برابر آتا ہوں ۔ ہاتھ بھر آئے تو میں دو ہاتھ برابر قریب آتا ہوں چل کر آئے تو میں دوڑ کر آتا ہوں ۔‘‘ (صحیحین)
ترمذی شریف میں ہے رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا :’’ جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو وہاں سے کچھ کھایا کرو ۔ ‘‘صحابہ کرام ؓنے استفسار کیا، جنت کے کونسے سے باغات ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’ ذکر الٰہی کے حلقے ۔‘‘ امام بیہقیؒ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مرفوعاً حدیث ذکر فرمائی کہ رسول اللہﷺ فرمایا کرتے ’’ ہر شے کیلئے صیقل ہے دلوں کی صیقل ذکر الٰہی ہے ۔ عذاب الٰہی سے بچنے کیلئے انسان کیلئے ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی چیز بہتر نہیں ۔ ‘‘صحابہ کرام ؓ نے دریافت کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی ؟ ‘‘ فرمایا ’’خواہ تلوار مارتے مارتے خود ہی شہید و پرزہ پرزہ کیوں نہ ہو جائے ۔ ‘‘ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : ’’ہیبت و جلال الٰہی سے جو تم اس کی تہلیل و تکبیر اور تحمید کرتے ہو وہ اللہ کے عرش کے گردو نواح گھومنے لگ جاتا ہے اور شہد کی مکھیوں کی طرح آواز کرتی ہیں اور اپنے فاعل کو یاد کرتی ہیں کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہیں بھی کوئی چیز عرش الٰہی کے پاس یاد کرے اور تمہارا تذکرہ کرے ؟‘‘( مسند امام احمد )
ذکر الٰہی سے اللہ ذاکر کیلئے جنت میں درخت لگا دیتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا : ’’معراج کی رات حضرت ابراہیم ؑ سے میری ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے ، میری طرف سے اپنی امت کو سلام دینا اور کہنا جنت کی زمین بھی نہایت اعلیٰ ہے اور اس کا پانی بھی میٹھا ہے۔ مگر وہ صاف چٹیل میدان ہے اور اس کے پودے ہیں سبحان اللہ ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اللہ اکبر۔‘‘( ترمذی) ذکر الٰہی سے جو انعامات حاصل ہوتے ہیں وہ دیگر اعمال سے نہیں ہوتے ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’جو شخص روزانہ 100 مرتبہ’’ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر‘‘پڑھے اسے 10 غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ 100 نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں اور صبح سے شام تک وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعمال سے بڑھ کر کسی کا عمل افضل نہیں ہوتا سوائے یہ کہ اس سے بڑھ کر کوئی عمل کرے ۔
اور جو شخص دن میں 100 مرتبہ ’’سبحان اللہ و بحمدہ‘‘ کہے اس کے تمام گناہ خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ ذکر الٰہی سے انحراف اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے جو لوگ ذکر الٰہی سے اعراض اور انحراف کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی معیشت کو تنگ کر دیتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : ترجمہ ’’اور ( ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے روز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا یا الٰہی مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھتا تھا ۔ ( جو اب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہئے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔‘‘(طہ) اس تنگی سے بعض نے عذابِ قبر اور بعض نے قلق و اضطراب ، بے چینی اور بے کلی مراد لی ہے ۔ اس تنگ زندگی کی عذابِ برزخ سے بھی تفسیر کی گئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’رسول ؐاللہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘ (بخاری کتاب الاذان )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذکر الٰہی کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں، ذکر کرنے والا جب جس وقت اور جس حالت میں چاہے اللہ کا ذکر کر سکتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن بسرؓ بیان کرتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا! اللہ کے رسول ﷺ! اسلام کے احکام کی مجھ پر کثرت ہو چکی ہے ، لہٰذا آپ ؐ مجھے کوئی (آسان سی) چیز بتا دیں جس پر میں عمل کرتا رہوں ۔ آپؐ نے فرمایا:’’ تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیے ۔‘‘( ابن ماجہ) حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں میں نے سنا آپ ﷺ نے فرمایا :’’ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے ۔‘‘ ( ابن ماجہ ) کلمۂ توحید کا ورد تمام اذکار سے بہتر ہے اور الحمد للہ کا ورد تمام دعاؤ ں سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ دونوں کلمے اللہ تعالیٰ کی توحید اور تحمید پر مشتمل ہیں ۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا :’’جو قوم اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکونت نازل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ( بطور فخر) ان کا تذکرہ اپنے فرشتوں سے کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں ۔‘‘ ( مسلم کتاب الذکر والدعاء)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ جو لوگ اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو ایسی مجالس باعث حسرت اور نقصان دہ ہوتی ہیں ، اللہ اگر چاہے تو انہیں عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف کر دے ۔‘‘ ( مسند احمد) اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ہر ، لمحہ ہر موڑ پر ذکر الٰہی کا ہی درس دیا ہے ۔ گھر سے نکلیں تو دعا ، بازار جائیں تو دعا ، سواری پر سوار ہوں تو دعا، شہر میں داخل ہوں تو دعا ، پانی ��ئیں تو دعا ، کھانا کھانے سے فارغ ہوں تو دعا ، مسجد میں داخل ہوں تو دعا اور نماز تو دعاؤ ں کا مجموعہ ہے ۔ مسجد سے باہر نکلیں تو دعا لباس پہنیں تو دعا ، الغرض ہر حال میں دعا ۔ دین اسلام نے انسان کو کسی بھی موڑ پر نہیں چھوڑا ہر مقام پر ذکر الٰہی کی تلقین کی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے ہم ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول و مصروف رہیں اسی میں کامیابی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
بشکریہ دنیا نیوز
0 notes
Text
بالاکوٹ میں کوئی پاکستانی شہری یا فوجی ہلاک نہیں ہوا : سشما سوراج
بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ بھارتی فضائیہ کے آپریشن بالاکوٹ میں نہ تو کوئی پاکستانی سویلین ہلاک ہوا اور نہ ہی کوئی پاکستانی فوجی۔ انہوں نے یہ بات احمد آباد میں بی جے پی کی خاتون کارکنوں سے خطاب کے دوران کہی۔ خیال رہے کہ اس کارروائی کے بعد بھارت کے خارجہ سیکرٹری نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ بڑی تعداد میں دہشت گرد، ان کے کمانڈر اور تربیت کار مارے گئے ہیں اور جیش محمد کا کیمپ تباہ کر دیا گیا ہے۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے ڈھائی سو اور یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے چار سو دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ جب کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ہلاکتوں کے ثبوت مانگے۔ حکومت اور بی جے پی کی جانب سے ثبوت مانگنے والوں کو غدار، ملک دشمن اور پاکستان کا حامی قرار دیا گیا۔
کانگریس کے قومی ترجمان م۔ افضل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امت شاہ نے ڈھائی سو دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔ لیکن اب سشما سوراج نے ان کے بیان کی تردید کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس معاملے کو ہوا دے کر الیکشن میں فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔ لیکن اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ سفارت کاری میں ہمیشہ ایسی باتیں کہی جاتی ہیں جو وزن دار ہوں اور سچائی پر مبنی ہوں۔ تاہم م۔ افضل نے یہ بھی کہا کہ سشما سوراج کے بیان کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اگر اس ایک واقعہ میں ایسا ہوا ہے تو پاکستان ہر معاملے میں درست ہی بولتا ہو۔
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور نے سشما سوراج کے بیان کے بعد ٹویٹ کر کے کہا کہ یہ بیان اس معاملے میں پاکستان کے موقف کی توثیق کرتا ہے اور اس سے بھارت کے جھوٹے دعوے کا انکشاف ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ امید ظاہر کی کہ 2016 کے سرجیکل اسٹرائیک کے بھارت کے جھوٹے دعوے، پاکستانی فضائیہ کی جانب سے بھارت کے دو جیٹ طیارے مار گرانے اور پاکستان کا ایک ایف 16 طیارہ گرانے کی بھارت کے جھوٹے دعوے کی سچائی بھی سامنے آئے گی۔ پاکستان نے بالاکوٹ کارروائی کے بعد بھارت کے دعوے کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستانی فضائیہ کی جوابی کارروائی سے مجبور ہو کر بھارتی طیارے ایک ویران علاقے میں اپنے بم گرا کر عجلت میں واپس چلے گئے تھے۔
سہیل انجم
بشکریہ وائس آف امریکہ
0 notes
Photo
غیر مسلموں سے رواداری کی حدود سوال ایک دن ہماری ایک عیسائی پڑوسن ہمارے ہاں آئی اور میری والدہ سے باتیں کرنے لگی کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا اور عیسیٰ علیہ السلام (نعوذباللہ) اللہ کے بیٹے ہیں۔ میری والدہ نے اس کی تردید کی اور بحیراراہب کا واقعہ بیان کیا اور بتایا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کم سن تھے اور یہ ممکن نہیں کہ بحیرا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کتاب سکھائی اور اس طرح اس شبہ کی تردید کی‘ جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کی ہے۔ جب مجھے اس بات چیت کا علم ہواتو میں نے کہا: ’’یہ عورت اگرچہ ذمی ہے چونکہ اس نے صاف طو رپر اللہ تعالیٰ کی توہین کی ہے…کیونکہ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق کسی کو اللہ کی اولاد قرار دینا اللہ کو گالی بکنے کے مترادف ہے… اور چونکہ اس نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی نہ ہونے کا ذکر ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نعوذباللہ) جھوٹا قرار دیا ہے، اس لئے اسے لازماً سزا ملنی چاہئے۔ چونکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس کے حالات سے آپ واقف ہیں، اس لئے میں اسے گھر سے نکالنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکا۔ لیکن اس سے پہلے میں نے اس سے بحث کی۔ میں نے اس ’’فارقلیط‘‘[1] کے متعلق پوچھا۔ اس نے کہا: مجھے معلو م نہیں۔ پھر میں نے انجیلوں کے بیانات میں تناقص کے بارے میں بات کی اور عیسیٰ علیہ السلام کے اس عقیدے کے متعلق بتایا کہ عیسائی عیسیٰ علیہ السلام کی ذات کے بارے میں خود متفق نہیں کہ وہ اللہ تھے یا وہ اللہ کے بیٹے تھے،اس بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے کہا کہ میں ان مسائل سے ناواقف ہوں۔ پھر اس نے پرانے شبہات ذکر کئے مثلاً یہ کہ شیعہ قرآن مجید کونہیں مانتے اور قرآن مجید کی ان آیات کا ذکر کیا جن میں عیسیٰ علیہ السلام کو ’’اللہ کا کلمہ‘‘ اور ’’روح‘‘ کہا گیا ہے اور اس قسم کے شبہات پیش کئے گئے جن کی تردید امام بن حزام‘ امام بن تیمیہ اور دیگر علمائے امت ' اپنی کتابوں میں کرچکے ہیں، جب میں نے اس کی ساری باتیں سنیں تو میں نے اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔ میں نے کہا: جو کوئی اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے وہ اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتا۔‘‘ دو دن بعد وہ پھر میری والدہ کے پاس آئی اور معذرت کی۔ جب مجھے علم ہوا تو میں نے والدہ سے کہا: اس جرم کی معذرت قبول نہیں کی جاسکتی، کیونکہ اس جرم کا تعلق میری ذات سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے اور اللہ اور اس کے رسول کے حق میں معذرت قبول کرنے کا مجھے اختیار نہیں۔ میں نے کہا:’’اگر وہ عورت دوبارہ نظر آئی تو میں اسے پھر نکال دوں گا۔‘‘ اس کے بعد پھر ایک میں گھر آیا تو وہ آئی ہوئی تھی اور مجھے معلوم ہوا کہ وہ والدہ کے لئے ’’ماؤں کے دن‘‘ کی مناسب سے تحفہ لے کرلائی ہے۔ مصر میں یہ دن منانے کی رسم علی امین نے شروع کی تھی‘ میں نے اس عورت سے کہا: ’’باہر نکل جاؤ‘‘ اگر والدہ آڑے نہ آتیں تو میں اسے زبردستی گھر سے نکال دیتا۔ لیکن والدہ اٹھ کھڑی ہوئیں تو میں نے سوچا یہ کافر عورت مسلمان کے گھر میں لڑائی ہوتے نہ دیکھے۔ اس کے بعد عورت کے خاوند نے میرے بڑے بھائی سے اسلام میں رواداری اور پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ کے متعلق باتیں کرنا شروع کردیں اور اس سے کہا کہ وہ میری طرف سے معذرت کرے۔ میرا بھائی ویسے تو میرے ساتھ نہیں الجھا لیکن اس نے پڑوسیوں کے حقوق کامسئلہ اٹھایا اور یہ کہ ملک میں ان کی قوت ہے اور اس طرح کے دوسرے شبہات پیش کئے میں نے کہا’’میں جناب شیخ ابن بازکو خط لکھ کر یہ سوالات دریافت کروں گا کہ: (۱) میں نے جو رویہ اختیار کیا وہ صحیح ہے یا نہیں؟ (۲) جب حالات اس قسم کے ہوں تو اس طرح کے ہمسائیوں کے کیا حقوق ہوتے ہیں؟ (۳) افراد کے متعلق اسلام کی رواداری کی کیا حدود ہی؟ جو شخص میرے ذاتی حقوق کے بارے میں زیادتی کرے اسکا کیا حکم ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے حق میں زیادتی کرے اس کا کیا حکم ہے؟ (۴) عیسائیوں کے کیا حقوق ہی؟ اور ان کا صحیح مقام کیا ہے۔ معاہدہ،حربی یا کیا؟ (۵) تفصیل سے ارشاد فرمائیں کہ عیسائی پڑوسیوں کے کیا حقوق ہی؟ (۶) اس کے بعد میں ان کے ساتھ کیسا سلوک کروں؟ اگر وہ عورت تحفے وغیرہ دے کر میری والدہ کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنا چاہے تومجھے کیا کرناچاہئے۔ جواب اَلْحَمْدُ للّٰہ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ آلِہِ وَأَصْحَابِہ وَبَعْدُ: جب اس عیسائی عورت کایہ حال ہے تو جو آپ نے بیان کیا ہے تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ اسے اپنے ہاں آنے سے منع کریں اور اس سے میل جول نہ رکھیں تاکہ فتنوں سے محفوظ رہیں اور شروفساد کا درواز ہ بند رہے۔ کیونکہ جس قسم کی باتیں وہ کرتی ہے اس میں اسلام پر تنقید اور باطل کی دعوت ہے۔ اس کی ملاقاتیں شبہ سے پاک نہیں، لہٰذا اس سے بچ کر رہنے میں سلامتی ہے۔ اس وقت ان کی جوسرگرمیاں اور ظاہری قوت ہے اس سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کی یقیناً مدد فرمائے گا اور ان لوگوں کی قوت ختم ہوکر رہے گی۔ انشاء اللہ۔ مومن کو اللہ کا کام کرتے ہوئے کسی کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا۔ آپ نے بہت اچھا کام کیا کہ اس نصرانی عورت سے بحث کی اور اسے انجیلوں میں تعارض‘ اس کے عقیدے کی خرابی اور تناقص سے باخبر کیی اور اس کے شر سے بچنے کے لئے اسے گھر سے نکال دا۔ اگرچہ وہ آپ کی پڑوسن ہے لیکن ہمسائے کے ساتھ آداب کی رعایت اوراس کے احترام اور دیگر حقوق کا لحاظ اسی وقت تک ہوتا ہے جب تک وہ اپنی حد سے آگے نہ بڑھے اور اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی نہ کرے اور اس سے فتنہ اور گمراہی کا اندیشہ نہ ہو اور اس سے ایسا رویہ اختیار کیا جائے جس سے وہ اپنے شر سے باز آجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا اِِلَیْہِمْ اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِین٭ اِِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنْ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوْا عَلٰی اِِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمْ الظَّالِمُوْنَ ﴾ ’’جن لوگو ں نے تم سے دین کی بنیاد پر جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھر وں سے نکالا، اللہ تعالیٰ تمہیں ان کیساتھ نیکی اور انصاف (کا سلوک) کرنے سے نہیں روکتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہو ں نے تم سے دین کی بنیاد پر جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر (نکالنے والوں سے) تعاون کیا۔ جو ان سے دوستی کریں گے وہی (لوگ) ظالم ہیں۔‘‘ نیز ارشاد ہے: ﴿وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ﴾ (العنکبوت۲۹؍۴۶) ’’اہل کتاب سے صرف بہترین اسلوب سے ہی بحث کرو سوائے ن کے جو ان میں سے ظالم ہیں۔‘‘ لہٰذا جو شخص اچھا رویہ رکھے گا اس سے اچھا سلوک کیا جائے گا اور جو ظلم وزیادتی کا ارتکاب کرے گا اس سے وہی سلوک کیا جائے گا جس سے وہ ظلم زیادتی سے باز آجائے اور فتنہ ختم ہوجائے اور دن میں فتنہ ڈالنا تو قتل سے بڑا جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو حق پر ثابت قدم رکھے اور ہمیں بھی اور آپ کو بھی ظاہر اور پوشیدہ فتنوں سے محفوظ رکھے۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَسَلَّمَ اللجنۃ الدائمۃ ۔ رکن: عبداللہ بن قعود، عبداللہ بن غدیان، نائب صدر: عبدالرزاق عفیفی، صدر عبدالعزیز بن باز ٭٭٭ فتویٰ (۶۵۸۲) فتاوی ابن باز ( ج ۲ ص ۷۴، ۷۵، ۷۶، ۷۷ ) #B200072 ID: B200072 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes
Text
New Post has been published on Islam365
https://islam365.org/hadith-and-naat-collection/age-marriage-deniers-hadith-bibi-ayesha-ataullah-dervi/
Age of marriage of the deniers of Hadith and Bibi Ayesha by Ataullah Dervi
#655
مصنف : عطاء اللہ ڈیروی
مشاہدات : 87990
منکرین حدیث اور بی بی عائشہ ؓکے نکاح کی عمر
ڈاؤن لوڈ 1
بی بی عائشہ ؓ کے نکاح کے وقت ان کی عمر چھ سال ہونے پر قدیم زمانے سے تمام امت اسلامیہ کا اجماع رہا ہے اور صرف اس مغرب زدہ دور میں کچھ لوگ ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ناموس رسالت اور ناموس صحابہ کی دہائی دےکر اس کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا اور کروانا چاہتے ہیں تاکہ کسی طرح صحیح احادیث کے انکار کا دروازہ کھل جائے اور اگر ایک بار یہ دروازہ کھل گیا تو پھر خواہش پرست لوگ جس حدیث کو چاہیں گے قبول کریں گے اور جس کو چاہیں گے رد کر دیں گے اس طرح وہ دین کو موم کی ناک بنا کر جس طرح چاہیں موڑ سکیں گے۔ بی بی عائشہ ؓ کی عمر سے متعلق وارد تمام احادیث صحت کے اعلیٰ درجہ پر اور متواتر ہیں اس کے باوجود کچھ لوگ اس سلسلہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں عطاء اللہ ڈیروی نے اس مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔(ع۔م)
#Age of marriage of the deniers of Hadith and Bibi Ayesha by Ataullah Dervi#منکرین حدیث اور بی بی عائشہ ؓکے نکاح کی عمر مصنف : عطاء اللہ ڈیروی
0 notes
Text
عظیم محدث: امام نسائی
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا اصل نام ابو عبدالرحمن احمن بن شعیب ہے۔آپ چونکہ خراسان کے شہر’’ نسائی‘‘ میں پیدا ہوئے اس لیے اس نسبت سے آپ کو’’نسائی‘‘کہتے ہیں۔امت مسلمہ میں آپ کی پہچان ایک محدث کی ہے،آپ نے سنن نسائی کے نام سے صحیح احادیث کا ایک عظیم الشان مجموعہ ترتیب دیا۔آپ نے بڑی عرق ریزی سے قابل اعتماد احادیث نبویﷺ کو جمع کیا ،اس مقصد کے لیے آپ نے دوردراز کے سفر کیے اوربہت تکالیف بھی برداشت کیں۔امت مسلمہ میں کل دس کتب احادیث کو سند کادرجہ حاصل ہے ،چھ اہل سنت کے ہاں جنہیں صحاح ستہ کہاجاتا ہے جس کامطلب ’’چھ صحیح کتابیں‘‘ہے اور چار اہل تشیع کے ہاں جنہیں ’’کتب اربعہ‘‘کہاجاتا ہے یعنی ’’چارکتابیں‘‘۔امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی سنن نسائی کاشمار صحاح ستہ میں ہوتاہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدئش 215ھ میں ہوئی ،اس وقت ’’خراسان‘‘ ممالک اسلامیہ کا بہت اہم صوبہ سمجھاجاتاتھا۔خراسان کا اسلامی تاریخ میں جہاں بہت اہم سیاسی کردارہے وہاں یہ علاقہ اپنی علمی کاوشوں میں بھی پیچھے نہیں رہا،امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ سمیت امت کے بہت سے وقیع بزرگ اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں۔امام نسائی نے پندرہ سال کی عمر میں حدیث کاعلم سیکھنا شروع کیا۔
علم حدیث نبوی ﷺکے حصول کے لیے آپ نے خراسان جیسے دوردراز علاقے سے حجاز،عراق،شام اور مصر جیسے ممالک تک کا سفر کیا۔اس زمانے میں علم کے حصول کے لیے سفر کرنا بہت ضروری خیال کیاجاتا تھا،کسی کو اس وقت تک اچھاعالم نہ سمجھاجاتا جب تک کہ وہ دوردرازکے سفر کر کے اچھے اچھے اور قابل اساتذہ فن سے حصول علم نہ کرآتا۔آپ کاآبائی وطن اگرچہ خراسان تھا لیکن آپ نے خدمت حدیث نبویﷺ کے لیے ہجرت کی اور مصر میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ سرخ و سفید چہرے اوروجیہہ شخصیت کے مالک تھے۔آپ کا دست��خوان انواع و اقسام کے کھانوں سے پر رہتاتھا۔خوش لباسی اور خوش خوراکی کے کئی قصے آپ سے منسوب ہیں۔اما م نسائی رحمۃ اللہ علیہ بھناہوا مرغ بہت شوق سے کھاتے تھے اور اس وقت کے مروج بہت اچھے اچھے مشروب کھانے کے بعد پیاکرتے تھے۔آپ کچھ عرصہ’’ حمص‘‘شہر میں قاضی بھی رہے لیکن بوجوہ یہ منصب ترک کردیااور زیادہ وقت تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کو دینے لگے۔
دمشق کی ایک مسجد میں ایک بار آپ حضرت علیؓ کی منقبت میں اپنی کتاب کے اقتباسات سنا رہے تھے تو بعض لوگ طیش میں آگئے اورحضرت کو مارنا پیٹناشروع کر دیا۔بہت زخمی حالت میں جوش ایمان آپ کو حجاز مقدس کھینچ چلا،حرم کعبہ پہنچ جانے کے باوجود بھی آپ کی علالت باقی تھی اور اسی حالت میں صفاومروہ کے درمیان خالق حقیقی سے جا ملے۔یہ13صفر 303ھ کی تاریخ تھی۔ امام ابو عبدالرحمن نسائی رحمۃ اللہ علیہ کی وجہ شہرت انکی شہرہ آفاق تالیف ’’سنن نسائی شریف‘‘ ہے۔اسکا شمار صحاح ستہ میں ہوتا ہے۔’’سنن‘‘اس کتاب حدیث نبویﷺ اللہ کو کہتے ہیں جس کے ابواب کی ترتیب فقہ کی کتابوں کے مطابق تیار کی گئی ہو۔ پہلے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’سنن کبری‘‘تصنیف کی تھی۔یادرہے کہ یہ وہ وقت تھا جسے تاریخ حدیث میں دور فتن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کتاب جب امیر رملہ کو پیش کی تو اس نے پوچھا کیا اس میں سب صحیح احادیث ہیں ؟آپ نے جواب دیا نہیں ،تب امیر رملہ نے کہا کہ میرے لیے ایک ایسی کتاب تیار کریں جس میں سب احادیث صحیح ہوں۔اس پر امام صاحب نے ’’سنن نسائی شریف‘‘کی تدوین کی۔
عظیم محدث: امام نسائی
0 notes
Text
رسول اللہ ﷺ کا سفرآخرت
وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضھرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ "میری بیویوں کو جمع کرو۔" تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟" سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔ پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔ اور فرماتی ہیں: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔" مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ "لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔" اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔ نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا: "یہ کیسی آوازیں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔ پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔ فرمایا: " اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟" سب نے کہا: "جی ہاں اے اللہ کے رسول" ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں، اے لوگو۔۔۔! مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔" پھر مزید ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔" (یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔) پھر فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔" مزید فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے" اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔ "ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....." روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔" آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا: "اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔ اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ: "اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔" پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔ فرماتی ہیں: " آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے ��صال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔" أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں: "پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔" پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔" دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا: "فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔ جس پر میں رو دی۔۔۔۔" جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے: "فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔" جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں: پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا: "عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے: مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: "میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔" جبرائیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے: "یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔" آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا: "جبریل! اسے آنے دو۔۔۔" ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا: "السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟" فرمایا: "مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔" ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: "اے پاکیزہ روح۔۔۔! اے مُحَمَّد ﷺ بن عبدالله کی روح۔۔۔! الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔! راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!" ام المٶمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں: پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔ "رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!" مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔ ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔ اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے: "خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔" اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔ کہہ رہے تھے: وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه (ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!) پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا: "یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا: "جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔" سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔ عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟" پھر کہنے لگیں: "يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه." (ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔) اللھم صل علی محمد کما تحب وترضٰی۔ میں نے آج تک اس سے اچّھا پیغا م کبھی پوسٹ نہیں کیا۔اسلۓ آپ سے گزارش کہ آپ اسے پورا سکون و اطمینان کے ساتھ پڑھۓ۔ان شاء اللہ ، آپکا ایمان تازہ ہوجاۓگا۔ Read the full article
0 notes
Photo
کیا یادگار کے طور پر تصویریں جمع کرنا جائز ہے؟ سوال:… کیا یادگار کے طور پر تصویریں جمع کرنا جائز ہے یا نہیں؟(ر۔ م۔ح) جواب:… کسی مسلم مرد یا عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ یادگار کے طور پر تصویریں جمع کرے۔ یعنی ایسی تصویریں جو انسانوں یا کسی بھی دوسرے جاندار کی ہوں بلکہ انہیں تلف کر دینا واجب ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’جو تصویر بھی دیکھو اسے مٹا دو اور جو بھی بلند قبر دیکھو اسے برابر کر دو۔‘‘ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے گھر میں تصویریں رکھنے سے منع فرمایا ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تو اس کی دیواروں پر تصویریں دیکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا اور پانی منگوایا پھر انہیں مٹا دیا۔ البتہ جمادات یعنی بے جان چیزوں کی تصویروں میں کوئی حرج نہیں۔ جیسے پہاڑ، درخت اور اسی قسم کی دوسری تصویروں میں۔ شبہات کا ازالہ کسی عالم نے عورتوں کے لیے سونے کا گولائی دار زیور پہننے کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ سوال:… ہمارے ہاں بعض عورتیں علامہ محمد ناصرالدین البانی محدث شامی کے اس فتویٰ سے شک و شبہ میں پڑ گئی ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب آداب الزفاف (شب عروسی کے آداب) میں گولائی دار سونا پہننے کی حرمت کے متعلق دیا ہے۔ یہاں کئی عورتیں واقعتا ایسا زیور پہننے سے رک گئی ہیں اور جو عورتیں زیور پہنے ہوئی تھیں، انہوں نے ان کو گمراہ اور گمراہ کرنے والی کہا ہے۔ آپ کی اس حکم کے بارے میں کیا رائے ہے۔ خصوصاً گولائی دار سونے کے زیور کے بارے میں۔ ہمیں آپ کے فتویٰ اور دلیل کی فوری ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ یہاں یہ معاملہ بہت بڑھ چلا ہے… اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے اور آپ کے علم میں وسعت پیدا کرے۔ (خالد۔ ۱۔ ع۔ شیببہ الدوحہ) جواب:… عورتوں کے لیے سونا پہننا جائز ہے خواہ وہ گولائی والا ہو یا گولائی والا نہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول میں عموم ہے: ﴿اَوَمَنْ یُّنَشَّاُ فِی الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ،﴾ ’’کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات کی وضاحت نہ کر سکے۔‘‘(الزخرف:۱۸) جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ زیور پہننا عورتوں کی صفات سے ہے اور یہ زیور عام ہے خواہ سونے کا ہو یا کسی دوسری چیز کا۔ اور اس لیے بھی (جائز ہے) کہ احمد، ابوداود اور نسائی نے سند جید کے ساتھ امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ میں ریشم پکڑا اور بائیں ہاتھ میں سونا، پھر فرمایا: ’’یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔‘‘ اور ابن ماجہ نے اپنی روایت میں یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں ((حِلٌّ لاِناثِھم)) ’’عورتوں کے لیے حلال ہیں۔‘‘ نیز درج ذیل حدیث کو احمد، نسائی اور ترمذی نے روایت کیا اور ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔ ابوداؤد اور حاکم نے اسے نکالا اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا۔ نیز طبرانی نے نکالا اور اسے ابن حزم نے صحیح کہا ے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُحِلَّ الذَّھَبُ والحریرُ للاِنَاثِ مِنْ اَمَّتِی، وحُرِّمَ علی ذُکُورِھا)) ’’سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال ہیں اور مردوں پر حرام ہیں۔‘‘ اس حدیث کو سعید بن ابی ہند اور ابی موسیٰ کے درمیان انقطاع کی وجہ سے معللل کہا گیا ہے اور اس پر ایسی کوئی دلیل نہیں جس سے اطمینان ہو، جبکہ ہم ابھی ذکر کر چکے ہیں کہ کس کس نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اگر بالفرض مذکورہ علت کو درست بھی سمجھ لیا جائے تو دوسری صحیح احادیث سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے جیسا کہ یہ ائمہ حدیث کے ہاں معروف قاعدہ ہے۔ اسی بات کو علمائے سلف نے قبول کیا ہے اور عورتوں کے سونا پہننے کے جواز پر کئی علماء نے اجماع نقل کیا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ہم ان علماء میں سے بعض کے اقوال بیان کرتے ہیں۔ اسی بات کو علمائے سلف نے قبول کیا ہے اور عورتوں کے سونا پہننے کے جواز پر کئی علماء نے اجماع نقل کیا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ہم ان علماء میں سے بعض کے اقوال بیان کرتے ہیں۔ جصاص اپنی تفسیر ج۳ ص ۳۸۸ پر سونے کی بحث میں لکھتے ہیں: ’’عورتوں کے لیے سونے کی اباحت سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے واردہ احادیث، اس کے ممنوع ہونے کی احادیث کے مقابلہ میں زیادہ واضح اور زیادہ مشہور ہیں اور آیت کی دلالت (مولف کی آیت سے مراد وہی آیت ہے جسے ابھی ہم نے ذکر کیا ہے) بھی عورتوں کے لیے اس کی اباحت کے بارے میں واضح ہے۔ عورتوں کا سونا پہننا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے زمانہ سے لے کر آج تک متواتر چلا آرہا ہے اور کسی نے ان پر گرفت نہیں کی۔ اسی طرح اخْبَارِ احَاد سے اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ اور الکیا الہراسی اپنی تفسیر القرآن: ۴/ ۳۹۱ پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اَوَمَنْ یُّنَشَّاُ فِی الْحِلْیَۃِ﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس میں عورتوں کے لیے زیور کی اباحت پر دلیل ہے اور اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اس بارے میں اتنی احادیث ہیں، جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔ اور بیہقی نے سنن کبری: ۴/ ۱۴۲ پر کہا ہے جہاں انہوں نے بعض ایسی احادیث کا ذکر کیا ہے جو عورتوں پر سونا اور ریشم حلال ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور یہ تفصیل نہیں بتلائی کہ وہ کسی چیز کی صراحت کرتی ہے ’’یہ احادیث اور دوسری بھی جو اس معنی میں ہیں، عورتوں کے لیے سونے کے زیور پہننے کی اباحت پر دلالت کرتی ہیں اور ہم نے سونے کے عورتوں پر مباح ہونے پر اجماع ہو جانے سے استدلال کیا ہے جو ایسی احادیث کو منسوخ قرار دیتا ہے جو خاص طور پر عورتوں کے لیے سونے کے استعمال کی تحریم پر دلالت کرتی ہیں۔‘‘ اور نووی مجموع: ۴/ ۴۴۲ پر کہتے ہیں: ’’عورتوں کے لیے ریشم پہننا اور سونے اور چاندی کے زیور استعمال کرنا احادیث صحیحہ کی بنیاد پر اجماع کی رو سے جائز ہے۔‘‘ نیز: ۶/ ص ۴۰ پر کہتے ہیں: ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورتوں کے لیے سونے اور چاندی کا ہر طرح کا زیور پہننا جائز ہے۔ جیسے طوق، ہار، انگوٹھی، کنگن، پازیب، پہنچیاں، گلوبند اور ان کے علاوہ ہر وہ چیز جو گلے میں پہنی جائے اور ہر وہ چیز جسے پہننے کی وہ عادی ہوں اور اس سے کسی چیز میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ صحیح مسلم کے باب ’’مردوں پر سونے کی انگوٹھی کی حرمت اور ابتدائے اسلام میں اس کی اباحت کا نسخ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے کہا ہے: ’’عورتوں کے لیے سونے کی انگوٹھی کی اباحت پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔‘‘ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حدیث براء کی شرح میں کہتے ہیں: ’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں سے منع کیا۔ سونے کی انگوٹھی سے… الحدیث‘‘ چنانچہ وہ ج۱۰ ص ۳۱۷ پر لکھتے ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کرنا، مردوں سے مختص ہے۔ عورتوں کے لیے جائز ہے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے عورتوں کے لیے اس کی اباحت پر اجماع نقل کیا ہے۔ اور سابقہ حدیثوں کے ساتھ یہ حدیث ملا لنے سے یہ احادیث عورتوں کے لیے گولائی دار اور بغیر گولائی ہر طرح کے زیور کے حلال ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اہل علم کا اجماع جو مذکورہ ائمہ نے ذکر یا ہے اس کی وجوہ درج ذیل احادیث ہیں: (۱) ابوداؤد اور نسائی نے عمرو بن شعیب سے، اپنے باپ سے، اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی۔ جس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے پوچھا: ’’ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟‘‘ وہ کہنے لگی: ’’نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے ان کے بدلے آگ کے دو کنگن پہنائے۔‘‘ اس نے وہ دونوں کنگن اتارے اور ن��ی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ڈال کر کہنے لگی: ’’یہ دونوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔‘‘ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کنگنوں پر زکوٰۃ واجب ہونے کی تو وضاحت کر دی۔ لیکن اس کی بٹی کے ان کنگنوں کے پہننے کو برا نہ سمجھا۔ جو اس کے جائز ہونے پر دلالت کرتا ہے اور یہ کنگن گولائی دار تھے اور یہ حدیث صحیح اور اس کی اسناد جید ہیں۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام میں اس پر تنبیہہ کی ہے۔ (۲)سنن ابی داؤد میں صحیح اسناد کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی کی طرف سے ایک زیور پیش کیا گیا، جو اس نے ہدیۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا۔ اس میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی جس میں ایک حبشی نگینہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کرتے ہوئے کسی لکڑی یا اپنی کسی انگلی سے پرے ہٹایا۔ پھر ابوالعاص کی بیٹی امامہ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینب کی بیٹی تھی، کو بلایا اور اسے کہا: ’’بیٹی! یہ پہن لو۔‘‘ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انگوٹھی امامہ کو دے دی اور یہ گولائی دار سونا تھا جسے آپ نے پہننے کو کہا۔ گویا یہ حدیث گولائی دار سونے کے حلال ہونے پر نص ہے۔ (۳)جس حدیث کو ابوداؤد اور دارقطنی نے روایت کیا اسے حاکم نے صحیح کہا ہے۔ جیسا کہ بلوغ المرام میں ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں سونے کی پازیب پہنے ہوئے تھی۔ میں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! کیا یہ کنز (کے حکم میں) ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تو ان کی زکوٰۃ ادا کر دے تو یہ کنز نہیں۔‘‘ رہی وہ احادیث جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے سونا پہننے کی ممانعت ہے تو وہ شاذ ہیں اور ان احادیث کے مخالف ہیں جو ان سے صحیح تر اور مضبوط تر ہیں اور ائمہ حدیث نے یہ طے کیا ہے کہ جو احادیث جید اسناد سے ہوں مگر وہ ایسی احادیث کے مخالف ہوں جو ان سے صحیح تر ہوں اور ان میں تطبیق ممکن نہ ہو، نہ ہی ان کی تاریخ معلوم ہو تو انہیں شاذ سمجھا جائے گا۔ نہ ان کی طرف رجوع کیا جائے گا اور نہ ان پر عمل کیا جائے گا۔ چنانچہ حافظ عراقی ’’الفیہ‘‘ میں کہتے ہیں: وذو الشُّذوذِ مَا یُخَالفُ الثِّقَۃُ فیہ الْمَلَأَ فالشَّافعی حَقَّقَہُ ’’امام شافعی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق کہ جب ایک ثقہ ثقات جماعت کی مخالفت کرے تو ایک ثقہ کی حدیث شاذ ہوگی۔‘‘ اور حافظ ابن حجر ’’نخبۃ‘‘ میں کہتے ہیں جس کا ماحصل یہ ہے: فان خُولِفَ بارْجَح فالرَّاجِعُ الْمَحْفوظُ ومقابلُہ ومقابلُہ الشَّاذُ ’’یعنی اگر ثقہ اوثق (زیادہ ثقہ) کی مخالفت کرے تو ثقہ کی روایت شاذ اور اوثق کی روایت محفوظ شمار ہوگی۔‘‘ ائمہ حدیث کہتے ہیں کہ صحیح حدیث کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس پر عمل ہوتا رہا وہ شاذ نہ ہوگی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جن احادیث میں عورتوں کے لیے سونے کی حرمت کا ذکر آیا ہے اگر ان کی اسناد کو علتوں سے محفوظ وسلامت مان بھی لیا جائے تو بھی ان میں اور ان صحیح احادیث میں تطبیق ممکن نہیں جو عورتوں کے لیے سونے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں اور ان کی تاریخ معلوم نہ ہو تو ایسی احادیث پر شذوذ کا حکم لگانا واجب ہے اور اہل علم کے ہاں اس معتبر شرعی قاعدہ کے مطابق ان پر عمل کرنا درست نہیں۔ اور جو کچھ ہمارے دینی بھائی علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب ’’آداب الزفاف‘‘ میں ذکر کیا، وہ یہ ہے کہ آپ نے حلت وحرمت والی دونوں قسم کی احادیث میں یوں تطبیق کی کہ گولائی دار زیوروں کو حرمت والی احادیث پر محمول کیا اور دوسرے زیوروں کو جواز والی احادیث پر، تو یہ بات صحیح نہیں۔ نہ ہی یہ ان صحیح احادیث کے مطابق ہے جو جواز پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان میں انگوٹھی کا جواز ہے اور وہ گول ہے اور کنگنوں کا جواز ہے اور وہ بھی گول ہیں۔ جن سے اسی بات کی وضاحت ہوتی ہے، جو ہم نے ذکر کی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ جو احادیث سونے کے جواز پر دلالت کرتی ہیں وہ مطلق ہیں، مقید نہیں ہیں۔ لہٰذا ان احادیث کے اطلاق اور ان کیا سناد کی صحت کی وجہ سے انہیں ہی قبول کرنا واجب ہے اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اہل علم کی ایک جماعت کا ایسی احادیث کے منسوخ ہونے پر اجماع ہے جو حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسا کہ ابھی ابھی ہم نے ان کے اقوال نقل کیے ہیں۔ اور یہی بات درست ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ اس سے شبہ زائل ہو جاتا ہے اور وہ شرعی حکم واضح ہو جاتا ہے جس میں شک نہیں اور وہ یہ ہے کہ سونا امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں پر حرام ہے… اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق عطا کرنے والا ہے… فتاوی ابن باز ( ج ۱ ص ۲۴۶، ۲۴۷، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۵۰ ) #B100211 ID: B100211 #Salafi #Fatwa #Urdu
0 notes